حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 13(آخری حصہ)

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ     13(آخری حصہ)

Last Episode

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:49 }
Second Last Episode
سلطنت سلجوقیہ کی فوج میں اور لوگوں میں بھی بدلی سی پائی جاتی تھی جیسے وہ حسن بن صباح کو شکست نہیں دے سکیں گے اس فوج نے باغیوں کے قبضے میں آئے ہوئے جس قلعے کا بھی محاصرہ کیا وہاں سے فوج ناقابل برداشت جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہو آئی تھی
پھر لوگوں کے کانوں میں یہی ایک خبر پڑتی تھی کہ آج حسن بن صباح نے وزیر اعظم کو یا کسی حاکم کو یا کسی عالم دین کو قتل کروا دیا ہے لوگ فدائیوں کو جن بھوت سمجھنے لگے تھے لیکن سالار اوریزی نے وسم کوہ کا قلعہ فتح کرلیا پھر شاہ در پر بھی قبضہ کیا گیا اور پھر حسن بن صباح کے پیروکار استاد عبدالملک بن عطاش کو بھی قتل کر دیا گیا اور اس کے علاوہ لوگوں کو یہ خبر ملنے لگی کہ باطنی فدائی پکڑے جانے لگے ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کو بھی پکڑوا رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ حسن بن صباح کے غدار اور مسلمانوں کے وفادار ہو گئے ہیں تو لوگوں کی نگاہوں میں حسن بن صباح ایک انسان کے روپ میں سامنے آنے لگا
سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد مرو میں الموت پر حملے کے لیے بہت بڑی فوج تیار کر رہا تھا اور زیادہ تر وقت اس کی ٹریننگ پر صرف کرتا تھا وہ وزیراعظم تھا لیکن ہمہ وقت سپہ سالار بن گیا تھا اس نے محسوس کرلیا تھا کہ فوج میں حسن بن صباح کو پراسرار اور ایسی شخصیت سمجھا جارہا ہے جس کے ہاتھ میں کوئی غیبی طاقت ہے فوج کا جذبہ اور لڑنے کا حوصلہ مضبوط کرنے کے لیے ابونصر احمد ساری فوج کو اکٹھا کر کے سناتا رہتا تھا کہ باطنیوں پر کس طرح کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں
وہ فوج کو قرآن کی وہ آیات سناتا رہتا تھا جن کا تعلق جہاد کے ساتھ تھا یہ آیت تو وہ اکثر سنایا کرتا تھا
اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِیَآءَ الشَّیۡطٰنِ ۚ اِنَّ کَیۡدَ الشَّیۡطٰنِ کَانَ ضَعِیۡفًا ﴿٪۷۶﴾
ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے (اعلاء دین اور رضائے الٰہی کیلئے) لڑو بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے
پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ سالاروں اور ان سے کم درجہ کماندروں کو پوری طرح آرام بھی نہیں کرنے دیتا تھا انہیں اکٹھا کرکے الموت کے محاصرے اور تسخیر کے طریقے بتاتا اور ان کے مشورے اور تجاویز غور سے سنتا تھا اس کے جوش و خروش اور سرگرمیوں میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا تھا اسے ابن مسعود نے الموت کے اندر کی معلومات دے دی تھی وہ اب اپنے سالاروں کو الموت کے اندر کے نقشہ بنا بنا کر دکھاتا اور انہیں یقین دلاتا تھا کہ الموت کو فتح کرنا کوئی مشکل کام نہیں
عبید عربی اور ابن مسعود جیسے پتھر دل فدائی جو کسی دوسرے کی اور اپنی جان لینے کو ایک پرلطف کام سمجھتے تھے اپنے ہی امام حسن بن صباح کی جان کے دشمن ہو گئے تھے ان کے ایمان پر ابلیسیت کے جو پردے پڑ گئے تھے وہ انھوں نے اتار پھینکے تھے
یہ تمام واقعات لوگوں کو سنائے جاتے رہے تو ان میں جو بد دلی پیدا ہو گئی تھی وہ نکل گئی لوگ تسلیم کرنے لگے کہ اللہ ان کی مدد کر رہا ہے لوگوں کو مسجدوں میں خطبوں میں بتایا گیا کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں یہ آیت فوج میں شامل ہونے والے لوگوں کو ذہن نشین کرا دی گئی تھی
وقٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۹۳﴾
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں (کفر و باطل پرستی سے) تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر
ان حالات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ حسن بن صباح کا زوال شروع ہو گیا ہے
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ابن مسعود الموت چلا گیا تھا اور اس نے غداری کا سارا الزام حیدر بصری کے سر تھوپ دیا اور خود مظلوم اور مسلمانوں کی قید سے فرار کا ہیرو بن گیا تھا اس وقت اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ حیدر بصری کو امام شیخ الجبل نے شاہ در خزانہ نکالنے کے لئے بھیج دیا ہے ابن مسعود کو جب پتہ چلا تو اس نے کہا کہ اسے خزانہ مل گیا تو وہ واپس ہی نہیں آئے گا
اس نے یہ الفاظ منہ سے نکال تو دیے تھے لیکن وہ شیخ الجبل کے آگے جھوٹ بولنے کی سزا سے بے خبر نہیں تھا سزائے موت اگر حیدر بصری خزانہ لے کر یا خزانے کے بغیر ہی آجاتا تو اس کو گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دیے جاتے لیکن یہ بھی اللہ کی مدد تھی کہ حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو خزانے والی جھیل کے مگر مچھ ہضم کر چکے تھے اور حیدر بصری نے اب کبھی واپس نہیں آنا تھا
نور کے باپ نے بڑا ہی خوفناک انتقام لیا تھا یہ پچھلی قسط میں سنایا جاچکا ہے نور کے باپ نے اپنی انتقامی کاروائی کو یہیں پر ختم نہیں کر دیا تھا حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو مگرمچھوں کے حوالے کر کے وہ اپنے ساتھی اور نور کے ساتھ گھوڑا گاڑی میں سوار ہوا اور واپس چل پڑا اب اس نے کچھ سوچ کر گھوڑوں کو دوڑایا نہیں رفتار آہستہ رکھی اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ وہ دو یا تین رات راستے میں ہی گزارے گا
چوتھے روز وہ شام کے بعد اس وقت شاہ در میں داخل ہوا جب رات تاریک ہو گئی تھی وہ دانستہ ایسے ہی وقت شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا جب اسے وہ باطنی نہ دیکھ سکیں جنہیں معلوم تھا کہ وہ حیدر بصری کے ساتھ خزانے والی جھیل کو گیا تھا ان باطنیوں کے صرف ایک گھر سے وہ واقف تھا وہ لوگ اسے نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ شہر کے ساتھ ہی ایک گاؤں میں رہتے تھے
وہ سیدھا سلطان سنجر کے وزیر کے گھر کے سامنے جا رکا اور وزیر کو پتہ چلا تو اس نے اسے اندر بلا لیا نور کے باپ نے وزیر کو بتایا کہ وہ کیا کر آیا ہے اور اب وہ کیا کرے گا وزیر اس کی بات سن کر خوش تو بہت ہوا لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ وہ جو کچھ بھی کرنا ہے محتاط ہو کر کرے وہ اپنی اور اپنی بیٹی کی حفاظت سے بھی کوتاہی نہ کرے
اس نے گھوڑا گاڑی وہیں چھوڑی اور وزیر سے درخواست کی کہ اس گھوڑا گاڑی کو چھپا کر رکھ دیا جائے اور یہ کسی کے سامنے نہ آئے وزیر نے گھوڑا گاڑی اور گھوڑے کو چھپا کر رکھنے کا حکم دیدیا نور کا باپ نور اور اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر وہاں سے اپنی گھر گیا اور انہیں یہ کہا کہ دو دن وہ باہر نہ نکلیں اور کسی کو پتہ نہ چلے کہ وہ واپس آگئے ہیں
دو روز بعد نور کا باپ شہر سے نکلا اور گاؤں میں اس باطنی کے گھر گیا جہاں باطنی اکٹھے ہوا کرتے تھے وہاں تین چار باطنی موجود تھے جن میں ایک فدائ تھا
آ گئے تم لوگ؟
ایک دو نے بیک زبان کہا گھوڑا گاڑی کی آواز نہیں آئی حیدر اور دوسرے کہاں ہیں؟
نور کا باپ کوئی جواب دیئے بغیر یوں چارپائی پر بیٹھا جیسے نڈھال ہو کر گر پڑا ہو اس نے سر جھکا کر دونوں ہاتھ سر پر رکھ لئے جو کوئی اچھی نشانی نہیں تھی باطنیوں نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا ہوا کیا ہے؟
کیا بتاؤں دوستو! نور کے باپ نے بڑی ہی کمزور اور شکست خوردہ آواز میں کہا شیخ الجبل کے طفیل میری اور میری بیٹی اور میرے ساتھی کی جان بچ گئی ہے اور میری جوان بیٹی کی عزت بھی بچ گئی ہے حیدر بصری اور اس کے ساتھی خزانہ لے کر کہیں اور نکل گئے ہیں وہ آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے میں اتنا ہی سنا کہ وہ اسی گھوڑا گاڑی پر مصر چلے جائیں گے بہرحال وہ الموت نہیں گئے غداری کر گئے ہیں
باطنی اسے پوچھنے لگے کہ یہ سب ہوا کیسے؟
نور کے باپ نے کہا کہ وہ خیریت سے خزانے کے غار تک پہنچ گئے تھے اور بکس اٹھا کر لائے کشتی میں بھی رکھ لئے مگرمچھوں نے حملہ کیا تو ان کے آگے بھیڑے پھینک کر کنارے سے آ لگے اور پھر بکس گاڑی میں ڈال لئے
نور کے باپ نے رنج و الم سے دبی ہوئی آواز میں بتایا کہ وہاں سے چلنے لگے تو وہ آگے بیٹھا اور گھوڑوں کی باگیں ہاتھوں میں لے لیں لیکن حیدر نے اس کے ہاتھوں سے باگیں لے کر اسے پیچھے بٹھا دیا اور گاڑی چلا دی کچھ دیر کے سفر کے بعد ایسی جگہ پہنچے جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں ایک شاہ در کی طرف آتا ہے اور دوسری پگڈنڈی کسی اور طرف چلی جاتی ہے
اس نے المناک آواز میں آہستہ آہستہ بتایا کہ حیدر نے گھوڑا گاڑی دوسری پگڈنڈی کی طرف موڑ دی اور نور کے باپ نے اسے بتایا کہ شاہ در کو وہ دوسرا راستہ جاتا ہے حیدر نے نہ جانے کس زبان میں کچھ کہا تو حیدر کے ساتھیوں نے نور کے باپ کو اور اس کے ساتھی اور نور کو بھی اٹھا کر دوڑتی گھوڑا گاڑی سے باہر پھینک دیا اور گھوڑے دوڑا دیے جتنی دیر میں وہ اٹھتے اور سنبھلتے گھوڑا گاڑی دور آگے جا کر ایک موڑ مڑ چکی تھی اور چٹانوں کے پیچھے چھپ گئی تھی
پھر نور کے باپ نے سنایا کہ وہ بیابان سنسان اور خطرناک جنگل تھا اور نور کا باپ صرف اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی کے متعلق پریشان تھا ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا جو کوئی رہزن یا ڈاکو لوٹ لیتا سب سے زیادہ قیمتی چیز نور تھی اسے چھپائے رکھنا بہت ہی مشکل نظر آرہا تھا وہ شہر کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر ہو گئے اور شیخ الجبل یاد کرتے چل پڑے
ہمیں زندہ واپس آنے کی کوئی امید نہیں تھی نور کے باپ نے سنایا جنگل میں ذرا سی بھی آہٹ ہوتی تھی تو میں ڈر جاتا کہ یہ رہزن ہی ہوں گے ہم خاصی دور نکل آئے تو پیچھے سے سات اونٹ آتے نظر آئے اب تو ہم اور زیادہ ڈرے ہماری تلواریں گھوڑا گاڑی میں چلی گئی تھیں بھاگنا بھی بے کار تھا شتر سواروں نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور وہ اونٹوں پر سوار ہو کر اونٹ ہمارے پیچھے دوڑا دیے وہ ہمیں پکڑ سکتے تھے
ہم نے اپنے آپ کو قسمت اور تقدیر کے حوالے کر دیا اونٹ قریب آگئے تو میں نے دیکھا کہ سات میں سے چار اونٹوں پر سامان لدا ہوا تھا اور تین خالی تھے ان کے ساتھ پانچ آدمی تھے وہ ہمارے قریب آئے تو ان کا انداز ایسا تھا جس سے یہ شک نہیں ہوتا تھا کہ یہ رہزن یا ڈاکو ہیں انہوں نے ہمیں مسکرا کر دیکھا اور ایک نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور کہاں جا رہے ہو میں نے انہیں یہ جھوٹا بیان دیا کہ ہم اونٹوں پر آ رہے تھے اور شاہ در جا رہے ہیں راستے میں دو رہزنوں نے سامان بھی لوٹ لیا ہے اور اونٹ بھی لے گئے ہیں
میری یہ بات سن کر ایک نے کہا کہ وہ اگر ڈاکو تھے تو اتنی خوبصورت لڑکی کو کیوں چھوڑ گئے ہیں میں نے دوسرا جھوٹ بولا کہ اس وقت یہ لڑکی جنگل کے اندر ایک اوٹ میں چلی گئی تھی اس نے وہاں سے دیکھ لیا تھا اور چھپی رہی تھی میں نے اسے بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے پھر میں نے ان شتربانوں کی منت سماجت کی کہ ہمیں اونٹوں پر شاہ در کے پہنچا دیں اور وہ جتنی اجرت مانگیں گے وہاں نہیں دی جائے گی وہ کوئی بھلے لوگ تھے جو ہمیں اونٹوں پر سوار کر کے یہاں لے آئے اور میں نے انہیں کچھ اجرت دے دی لیکن راستے میں انہوں نے تین دن لگا دیے ہم تینوں تو گھر میں نے نڈھال ہو کر پڑے رہے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہمارے ساتھ جو ہوا وہ کن الفاظ میں سنائیں گے کہ وہ سننے والے مان لیں
وہ تو ہم نے مان لیا ہے ایک باطنی نے کہا یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ تم جیسے بوڑھے نے حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ قتل کردیا ہو اور خزانہ ہضم کر لیا ہو اب یہ سوچوں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے
تم سب ان کے تعاقب میں نکل جاؤ تو بھی ان تک نہیں پہنچ سکتے نور کے باپ نے کہا یہ تو دیکھو کہ دن کتنے گزر گئے ہیں اب یہی ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی الموت چلا جائے اور شیخ الجبل کو بتا دے کہ خزانہ حیدر بصری لے اڑا ہے وہ الموت گیا ہوتا تو ہمیں اس کے ساتھی راستے میں پھینک کیوں جاتے
ان میں سے ایک آدمی اسی وقت الموت جانے کے لیے تیار ہوا اور گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا نور کا باپ اٹھا اور دکھ زدہ آدمی کی طرح سر جھکائے ہوئے اس طرح گھر سے نکل آیا
قلعہ الموت میں ابن مسعود باقاعدہ قید میں تو نہیں تھا لیکن اس کی باقاعدہ نگرانی ہو رہی تھی حسن بن صباح نے کہا تھا کہ یہ خیال رکھا جائے کہ یہ شخص کہیں یہاں سے نکل نہ جائے
ابن مسعود ایک کشمکش میں مبتلا رہتا تھا جوں جوں دن گزر رہے تھے اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا اسے ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر بصری خزانہ لے کر آ جائے گا اور اس کا پول کھل جائےگا اس نے سوچ لیا تھا کہ حیدر بصری کو جھٹلانے کی پوری کوشش کرے گا لیکن آنے کی صورت میں خطرہ یہ تھا کہ حسن بن صباح اسی کو سچا اور دیانتدار سمجھتا تھا اس صورت میں حسن بن صباح کے منہ سے یہی الفاظ نکلنے تھے کہ اس شخص ابن مسعود کو لے جاؤ اور عبرتناک موت مار ڈالو
آخر ایک روز بلاوا آگیا ابن مسعود اندر سے کانپتا ہوا امام کے کمرے تک پہنچا اس نے سینے میں خنجر اڑس لیا تھا اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ امام جب اسے سزائے موت سنائے گا تو وہ خنجر نکال کر امام کے دل میں اتار دے گا
آؤ ابن مسعود! حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ تو خوشی ہے کہ تم سچے نکلے اور اب میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ تم سلجوقیوں کی قید سے فرار ہو گئے ہو لیکن اس اطلاع نے مجھے بہت دکھ دیا ہے کہ حیدر بصری اپنے ساتھیوں کے ساتھ سارا خزانہ لے اڑا ہے معلوم ہوا ہے کہ وہ مصر جا رہا ہے دن اتنے گزر گئے ہیں کہ اب اس کا تعاقب محض بیکار ہے
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا کیا مصر میں ہمارا کوئی آدمی نہیں؟
وہ انتظام تو میں کر ہی دوں گا حسن بن صباح نے کہا لیکن یہ تو بہتے دریا کی تہہ میں سے سوئی ڈھونڈنے والی بات ہوگی مصر بہت بڑا ملک ہے جس کے کئی شہر اور قصبے ہیں معلوم نہیں یہ بدبخت کہاں جا آباد ہو گا
یا شیخ الجبل! بن مسعود نے بڑی جاندار اور پُر اعتماد آواز میں کہا اب میں وہ باتیں بھی کر سکتا ہوں جو پہلے آپ تک نہیں پہنچائی تھی حیدر نے سلجوقیوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ دریا کی طرف الموت کا ایک چور دروازہ ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس دروازے تک کس طرح پہنچا جا سکتا ہے الموت کا محاصرہ ضرور ہی ہوگا اور سلجوقیوں کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ دریا والے دروازے سے اندر آئیں گے
اندر سے دروازہ کون کھولے گا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ان کے ایک دو آدمی آپ کے پیروکاروں کے بہروپ میں قلعے میں پہلے ہی آ جائیں گے ابن مسعود نے کہا انہیں اس دروازے تک اندر سے پہنچنے کا راستہ معلوم ہوگا حیدر بصری نے انہیں بڑی اچھی طرح سمجھا دیا تھا
وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے حسن بن صباح نے کہا میں اس کا بندوبست کر لوں گا
ایک عرض ہے یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا آپ کا بندوبست یقیاً بے مثال ہو گا لیکن وہ دروازہ میری ذمہ داری میں دے دیں پھر اس تک کسی کے پہنچنے کا امکان بالکل ہی ختم ہو جائے گا میں وسم کوہ میں بہت عرصے بعد پکڑا گیا اور اس سے پہلے میں وہاں اتنا زیادہ عرصہ رہا ہوں کہ فوج کے بیشمار چیدہ چیدہ آدمیوں کو پہچانتا ہوں وہ کسی بھی بہروپ میں آئیں میں انہیں پہچان لونگا اس سے پہلے مجھے مرو جانے دیں
وہاں جا کر کیا کرو گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا کیا پکڑے نہیں جاؤ گے؟
نہیں یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے جواب دیا وسم کوہ میں مجھے بہت سے لوگ پہچانتے ہیں مرو میں نہیں میں مرو سے واقف ہوں اور کچھ عرصہ وہاں رہا ہوں لیکن لوگوں میں زیادہ اٹھا بیٹھا نہیں سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد الموت پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اسے قتل کیا جا سکتا ہے لیکن میں کہتا ہوں اسے قتل نہیں کریں گے اسے قتل کر دیا تو اس کی جگہ کوئی اور وزیراعظم بن جائے گا اور وہ حملے کی تیاری جاری رکھے گا بلکہ سلطان کو خوش کرنے کے لئے فوراً حملہ کر دے گا میں نے یہ سوچا ہے کہ ابو نصر احمد کو زندہ رہنے دیا جائے اور اسے اپنے اثر میں لے لیا جائے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سلطان محمد پر اس وزیراعظم کا اثر غالب ہے ہم اس وزیراعظم کو اپنے جال میں لاکر سلطان محمد کو اپنے رنگ میں رنگ سکتے ہیں
یہ کام کون کرے گا ؟
میں کروں گا یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے جواب دیا آپ مجھے مرو جانے دیں اور میں زریں کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا
زریں کون ہے؟
وہ میری سگی بہن ہے ابن مسعود نے جواب دیا آپ کو یاد نہیں رہا میرا باپ ہم دونوں کو آپ کی خدمت میں پیش کر گیا تھا زریں جنت میں ہے اور میں اس کے ذریعے ابونصر احمد کو اپنے ہاتھ میں لے لونگا بڑی ہی خوبصورت اور تیز طراز لڑکی ہے وہاں میں اپنے آپ کو چھپا کر رکھوں گا مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ابو نصر احمد جذباتی اور حسن پرست ہے اسے ہم شیشے میں اتار لیں گے
حسن بن صباح گہری سوچ میں کھو گیا
آپ کو یاد ہوگا یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا ہم نے ان کے ایک وزیر اعظم سعید الملک کو اپنے اثر میں لے ہی لیا تھا وہ بہت عرصہ ہمارے زیر اثر رہا تھا پھر نہ جانے کس غدار نے یہ راز فاش کردیا اور سلطان نے اس وزیراعظم کو جلاّد کے حوالے کردیا تھا ابو نصر کو بھی اپنے ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں آپ مجھے مرو جانے دیں اور یہ اجازت بھی دے دیں کہ میں زریں کو اپنے ساتھ لے جاؤں ہاں یہ بھی یاد آیا یا شیخ الجبل! آپ نے سلطان برکیارق کو بھی تو اپنی مٹھی میں لے لیا تھا اگر آپ میرا مشورہ قبول کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابو نصر احمد کو بھی اسی طرح آپ کی مٹھی میں دے دیں گے
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح بوڑھا ہو گیا تھا اس میں پہلے والی بات نہیں رہی تھی وہ مشورے کم ہی سنا کرتا تھا اس پر پے در پے چوٹ ہی ایسی پڑی تھی کہ اس کا دماغ کچھ کمزور ہو گیا تھا سب سے بڑی چوٹ تو یہ تھی کہ اس کا پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش مرا نہیں بلکہ مار دیا گیا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اس نے جو جادو حسن بن صباح کو سکھایا تھا وہ اس کے ساتھ ہی قبر میں چلا گیا تھا
یہ چوٹ بھی کم نہ تھی کہ اس کے اپنے فدائی جن پر اسے مکمل بھروسہ تھا اتنا زیادہ خزانہ لے کر غائب ہو گئے تھے یہ تو اسے ابھی معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا ایک اور قابل اعتماد فدائی جس کا نام ابن مسعود تھا اور جو اس کے سامنے بیٹھا اسے مشورے دے رہا تھا اسے بہت بڑا فریب دے رہا تھا اس فدائی کو یہ فریب کاری حسن بن صباح نے خود ہی سکھائی تھی اور وہ اس کا اور اس کے استادوں کا ہی شاگرد تھا یہ طلسم سامری تھا جو ابن مسعود سامری کے ہی خلاف استعمال کر رہا تھا حسن بن صباح جیسا ابلیس اس کا پورا پورا اثر لے رہا تھا
حسن بن صباح نے اسی وقت اپنے دو تین مشیروں کو بلایا اور ابن مسعود نے جو مشورے دیے تھے وہ ان کے آگے رکھے اور پوچھا کہ ان مشوروں پر عمل کیا جائے یا نہیں
کچھ دیر تک بحث مباحثہ چلا ابن مسعود نے مشیروں کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا اور یہ فیصلہ لے لیا کہ ابن مسعود اپنی بہن زریں کو ساتھ لے کر مرو چلا جائے اور اس کے ساتھ دو آدمی بھیجے جائیں جو راستے میں ان کی حفاظت کریں کیونکہ اتنی حسین اور نوجوان لڑکی اسکے ساتھ جا رہی ہے ابن مسعود نے انہیں بتایا تھا کہ وہ اپنے ان آدمیوں کو جانتا ہے جو مرو میں رہتے ہیں
ابن مسعود یہ فیصلہ لے کر وہاں سے نکلا اور اپنی بہن زریں کی تلاش میں جنت کی طرف چلا گیا بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ جنت کا وہ علاقہ اس قدر حسین سر سبز اور شاداب تھا جو الفاظ کے احاطے میں آ ہی نہیں سکتا وہاں کے پیڑ پودے اور پھول ایسے تھے جو عام طور پر دیکھنے میں نہیں آیا کرتے تھے وہاں کے پرندے بھی کچھ ایسے تھے جن کا تعلق اس علاقے کے ساتھ نہیں تھا وہ دور دور سے لائے گئے تھے یہ رنگا رنگ پرندے تھے وہاں سے ایک ندی گزرتی تھی جو بڑی ہی شفاف تھی عجوبہ یہ تھا کہ الموت بلندی اور بڑی ہی چوڑی چٹان پر آباد تھا لیکن اس بلندی پر بھی یہ مصنوعی ندی بنا لی گئی تھی دریا سے مصنوعی طریقوں سے پانی اوپر چڑھایا جاتا تھا اور یہ ندی جنت کے درمیان سے بل کھاتی گزرتی تھی
اس جنت میں جو حوریں گھومتی پھرتی شوخیاں کرتی اور ہنستی کھیلتی نظر آتی تھیں وہ اس زمین کی لڑکیاں لگتی ہی نہیں تھیں اصل بات جو مورخوں نے لکھی ہے وہ یہ تھی کہ جسے اس جنت میں داخل کیا جاتا تھا اسے پہلے تھوڑی سی حشیش پلا دی جاتی تھی اور بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ اس کے علاوہ ایک خاص قسم کی جڑی بوٹی تھی جو حسن بن صباح کی دریافت تھی اسے کسی کیمیاوی عمل سے گزار کر نشہ آور بنا دیا گیا تھا اس کے علاوہ جنت میں کئی جگہوں پر اس جڑی بوٹی کو کاشت کر دیا گیا تھا جس کا اثر یہ تھا کہ اس کی خوشبو بھی نشہ طاری کر دیتی تھی اس کے علاوہ اس جڑی بوٹی کا نشہ بھی پلا دیا جاتا تھا
اس کا اثر کچھ ایسا تھا کہ انتہائی بھدی اور بدنما چیزیں بھی بڑی ہی دل کش اور خوشنما لگتی تھیں
اپنی جانیں ہنستے کھیلتے ہوئے قربان کرنے والے فدائی اسی جنت کے نکالے ہوئے آدم تھے انہیں جب یہاں سے نکالا جاتا تھا تو وہ تڑپتے بحال ہوتے چیختے اور چلاتے تھے کہ انھیں یہاں سے نہ نکالا جائے لیکن ان کی برین واشنگ اس حد تک ہو چکی ہوتی تھی کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ وہ فلاں جگہ جائیں فلاں کو قتل کرے پھر اسی خنجر سے اپنے آپ کو بھی قتل کردیں اور پھر وہ ہمیشہ اس جنت میں رہیں گے
ابن مسعود بھی اس جنت میں رہتا تھا اور یہاں سے نکل کر حشیش پیتا رہا تھا لیکن اس پر جنت کی حقیقت جس طرح بے نقاب ہوئی وہ بیان ہو چکی ہے اب ایک عرصے بعد اور ایک بدلے ہوئے نارمل انسان کی طرح وہ اس جنت میں اپنی بہن کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا تو اسے اپنے دل میں خلش سی محسوس ہو رہی تھی اور ضمیر میں ایک کانٹا سا اتر گیا جس کی چبھن اسے بے چین کیے ہوئے تھی اسے کئی لڑکیاں نظر آئیں اور وہ سب ایک ایک نوجوان کو ساتھ لیے عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی تھیں اور بعض بے حیائی کے مظاہرے کر رہی تھیں ان کی ہنسی جلترنگ جیسی مترنم تھیں ابن مسعود اپنے خون میں حرارت محسوس کرنے لگا جو وہ پہلے بھی محسوس کیا کرتا تھا لیکن اب اس حرارت میں ایمان کی تپش تھی
عمر اسے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی
اس نے رک کر ادھر دیکھا اسکا نام عمر بن مسعود تھا اسے ابن مسعود کہتے تھے اور صرف اسکی بہن ہی تھی جو عمر کے نام سے پکارا کرتی تھی اس نے ادھر دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی تو اسے اپنی بہن نظر آئی جو اسکی طرف دوڑتی آرہی تھی وہ اس کی طرف چل پڑا
بہن قریب آ کر اس کے گلے لگ گئی اور اس نے بہن کو اپنے بازوؤں میں بھنیج لیا لیکن بہن کا انداز اور ملنے کا طریقہ بہن والا نہیں تھا بہن کو تو یہ احساس تھا کہ یہ اس کا بھائی ہے لیکن اس رشتے کے تقدس کو وہ بھول چکی تھی یہ تو ابن مسعود بھی بھول گیا تھا لیکن اب وہ آیا تو یہ احساس اس پر غالب تھا کہ یہ اس کی چھوٹی بہن ہے اور وہ اس کا بڑا بھائی ہے اور بڑے بھائی اپنی بہنوں کی عزت اور ان کے محافظ ہوا کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو جان بھی قربان کر دیا کرتے ہیں
وہ بہن کو ان حرکتوں سے روک نہیں رہا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ کچھ نہیں سمجھے گی اور یہ ایسے نشے میں ہے جس پر خطبے واعظ اور آیات قرآنی ذرا سا بھی اثر نہیں کر سکتیں بہن اسے گلے شکوے کے انداز سے کہہ رہی تھی کہ وہ اسے بتائے بغیر کہاں چلا گیا تھا اور وہ اسے ڈھونڈتی رہی ہے بہن اسے ندی کے کنارے ایک خاص جگہ چلنے کو کہہ رہی تھی اور اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے کی بھی کوشش کر رہی تھی لیکن ابن مسعود کے قدم اٹھ نہیں رہے تھے جیسے اس کے پاؤں زمین نے جکڑ لیے ہوں وہ جانتا تھا کہ ذریں اسے اس جگہ کیوں لے جا رہی ہے
میری بات سن لو زریں! ابن مسعود نے بڑے پیار سے کہا میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم دونوں کل صبح مرو جا رہے ہیں تم جانتی ہو گی کہ مرو بڑا خوبصورت شہر ہے اور ہم دونوں کچھ عرصہ وہاں رہیں گے
زریں نے اس سے پوچھا کہ ہم مرو کیوں جا رہے ہیں؟
ابن مسعود نے اسے بتایا کہ سلجوقی وزیراعظم کو اپنے قبضے میں لینا ہے اور یہ کام زریں کرے گی اس نے زریں کے ساتھ وہی بات کی جو حسن بن صباح کی ساتھ کر چکا تھا
یہ تمہاری ذہانت اور عقل کا امتحان ہوگا ابن مسعود نے کہا تم اس میں کامیاب ہو جاؤ گی تو شیخ الجبل تمہیں بہت اونچا درجہ دے دے گا بہت سی باتیں تمہیں پہلے بتا دی جائیگی اور کچھ میں تمہیں مرو چل کر بتاتا رہوں گا
ابن مسعود نے بہن کو ذہنی طور پر بھی تیار کرلیا اور بہن خوش ہوگئی کہ وہ اس آدمی کے ساتھ جا رہی ہے جس کی محبت اس کے دل میں مجزن ہے اس جنت میں کوئی لڑکی جو حور کہلاتی تھی کسی آدمی کے ساتھ دلی محبت نہیں کرتی تھی لیکن زریں ابن مسعود کو دلی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر چاہتی تھی
یہ خون کا رشتہ تھا یہ الگ بات ہے کہ زریں اس خون کی کشش کو ہوس کا رنگ دے رہی تھی اور اس کے تقدس کو ذہن سے صاف کر چکی تھی بلکہ اس کے ذہن سے یہ رشتے دھو دیئے گئے تھے
ایک قافلہ مرو کی طرف جا رہا تھا پانچ گھوڑے تھے ایک پر ابن مسعود دوسرے پر اس کی بہن زریں تیسرے اور چوتھے گھوڑے پر دو باطنی سوار تھے اور پانچویں گھوڑے پر کچھ سامان اور زادراہ تھا زریں نقاب میں تھی جو دو آدمی ابن مسعود کے ساتھ جارہے تھے وہ مرو سے بڑی اچھی طرح واقف تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس شہر میں باطنی کہاں کہاں رہتے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں زادِ راہ میں حشیش اور دوسری جڑی بوٹی کا نکالا ہوا پانی خاصی تعداد میں ساتھ تھا
یہ دونوں باطنی بہت خوش تھے کہ ان کے ساتھ ایک حور جا رہی تھی انہوں نے راستے میں ہنستے ہوئے دو تین بار ابن مسعود سے کہا تھا کہ ہم تین ہیں اور حور ایک ہے ایک اور ہونی چاہیے تھی راستے میں دو یا تین رات آئیگی انہیں معلوم نہیں تھا کہ ابن مسعود اب فدائی نہیں بلکہ اس لڑکی کا بڑا بھائی ہے جسے اس کے ساتھی حور کہہ رہے تھے اور اسے راستے میں آنے والی راتوں کی تفریح کا سامان سمجھ رہے تھے ابن مسعود بڑی مشکل سے ان کی یہ باتیں برداشت کر رہا تھا وہ ذرا سا بھی اشارہ نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اب فدائی نہیں کچھ اور ہے اس نے اپنی بہن کو دیکھا وہ ان دونوں کے باتوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی
پہلے دن کا سورج غروب ہوگیا مختصر سا یہ قافلہ کچھ دیر چلتا رہا آخر ایک خوشنما جگہ رات گزارنے کے لئے رک گیا انہوں نے کھانے پینے کا سامان کھولا اور اس کے ساتھ نشہ بھی پیالوں میں ڈالا اور کھانے پینے لگے پھر وہ سونے کی جگہیں دیکھنے لگے
ابن مسعود نے دونوں ساتھیوں کو الگ لے جا کر کہا کہ آج رات اس لڑکی کو آرام کرنے دیں اس نے آج پہلی بار اتنی لمبی اور تھکا دینے والی گھوڑ سواری کی ہے اس لیے اس کی تھکن کو ہم سمجھ سکتے ہیں جو مرد ہو کر بھی اتنی تھک گئے ہیں اس نے کہا کہ یہ لڑکی ہماری اپنی ملکیت ہے کہیں بھاگ تو نہیں جائے گی اس نے اس طرح کی باتیں کرکے اپنے ساتھیوں کو راضی کر لیا کہ وہ آج رات خود بھی آرام کریں گے اور لڑکی کو بھی پورا آرام کرنے دیں گے
ابن مسعود زریں کو ایک ہموار جگہ پر بستر بچھا کر سلا دیا اور اپنا بستر اس کے قریب ہی بچھایا کسی ایک کو تو لڑکی کے قریب ہونا چاہیے تھا دوسرے دونوں آدمیوں نے اپنے بستر خاصی دور بچھائے اور ایک نے ازراہ مذاق کہا کہ اپنی حور سے آج رات دور ہی رہیں تو اچھا ہے انہیں دراصل ابن مسعود نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اس جگہ سوئے جہاں انہوں نے بستر بچھائے تھے
وہ لیٹے اور دن بھر کی تھکن نے انہیں بڑی جلدی گہری نیند میں مدہوش کر دیا لیکن ابن مسعود جاگ رہا تھا نیند نے اس پر نہیں بلکہ اس نے نیند پر غلبہ پا لیا تھا اس رات اسے ایک ضروری کام کرکے سونا تھا اور وہ اس انتظار میں تھا کہ رات ادھی گزر جائے چاند اوپر اٹھتا آرہا تھا اور چاندنی میں اسے اپنی بہن سوئی ہوئی نظر آرہی تھی زریں گناہوں کا ایک بڑا ہی خوبصورت پتلا تھی پھر بھی ابن مسعود کو اس کے خفتہ چہرے پر معصومیت نظر آرہی تھی اس کے آنسو نکل آئے اسے اپنی ماں یاد آئی جو مر گئی تھی پھر اسے اپنا باپ یاد آیا جو ان دونوں بچوں سے بڑا ہی پیار کرتا تھا لیکن بچوں کی قسمت یوں پھوٹی کے باپ حسن بن صباح کو نبی مانتا تھا ابن مسعود کو وہ وقت یاد آیا جب اس کی یہ بہن پیدا ہوئی تھی اور وہ اسے ایک زندہ کھلونا سمجھا کرتا تھا پھر بہن بڑی ہوتی گئی اور دونوں بڑے پیار سے ہنستے کھیلتے جوان ہوئے تھے مگر قسمت انہیں کہاں اور کس روپ میں لے آئی
ماضی کی جھلکیاں ذہن میں آئیں تو ابن مسعود کا خون کھولنے لگا ابن مسعود کا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا جو اس کے بستر پر پڑی تھی وہ وقت ہو گیا تھا جس وقت کے انتظار میں وہ سویا نہیں تھا اس نے تلوار اٹھا لی اور بڑے آرام سے نیام سے نکالی نیام بستر پر رکھی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا
وہ ننگے پاؤں اس طرح اپنے ساتھیوں کی طرف چلا جس طرح بلّی یا شیرنی اپنے شکار کی طرف بڑھتی ہے کہ ذرا سی بھی آواز پیدا نہ ہو
اس طرح دبے پاؤں اور پھونک پھونک کر پاؤں رکھتے ابن مسعود اپنے ساتھیوں کے سر پر جا پہنچا ساتھی بڑی ہی گہری نیند سوئے ہوئے تھے دونوں کے درمیان ڈیڑھ سو گز کا فاصلہ تھا ابن مسعود ایک ساتھی کے قریب صحیح زاویے پر کھڑا ہوگیا
وہ اس ساتھی پر جھکا تلوار کی دھار اس کی شہہ رگ پر رکھی اور اس جوانی میں اس کے جسم میں جتنی طاقت تھی وہ طاقت لگا کر تلوار دبائی اور آگے پیچھے کھینچی اور ایک دو سیکنڈ میں باطنی کی گردن کاٹ دی باطنی تڑپنے لگا
اس نے انتظار نہ کیا اور ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر زور دار وار کر کے دوسرے باطنی کی گردن بھی کاٹ دی اس نے پہلے ساتھی کو اس لئے بکرے کی طرح ذبح کیا تھا کہ تلوار زور سے مارتا تو اس کی آواز سے دوسرا ساتھی جاگ اٹھتا
اس نے تلوار زمین پر رگڑی پھر درختوں کے پتے توڑ کر تلوار پر پھیرے کہ اس پر خون کا داغ دھبہ نہ رہے وہ عجیب سا سکون اور اطمینان محسوس کرنے لگا اور اپنے بستر پر آکر تلوار نیام میں ڈالی اور سو گیا
صبح طوع ہوئی تو ابن مسعود جاگ اٹھا زریں ابھی تک سوئی ہوئی تھی ابن مسعود اسے جگانے لگا آگے کو سفر کرنا تھا لیکن اس نے ہاتھ کھینچ لیا اس نے سوچا یہ اور سو لے اسے کوئی جلدی نہیں تھی وہ اپنی بہن کو گناہوں کی دنیا سے نکالنا چاہتا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا وہ اپنی سوئی ہوئی بہن کو دیکھتا رہا قتل کر دینا اور قتل ہوجانا اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا وہ مطمئن اور مسرور تھا کہ اس نے دو گنہگاروں سے اپنی بہن کی عزت بچالی تھی
آخر زریں جاگ اٹھی اور اٹھ بیٹھی ابن مسعود کھانے پینے کا سامان لے آیا ذریں اٹھ کر ایک طرف چلی تو اس نے اپنے دو ساتھیوں کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہیں کیا وہ ابھی تک جاگے نہیں؟
وہ کبھی نہیں اٹھیں گے ابن مسعود نے اٹھتے ہوئے کہا میرے ساتھ آؤ میں نے انہیں ہمیشہ کی نیند سلا دیا ہے
ابن مسعود زریں کو اپنے ساتھ اس جگہ لے گیا جہاں ان کے دونوں ساتھیوں کی سر کٹی لاش پڑی ہوئی تھیں زریں لاشوں کو دیکھ کر ڈری نہیں گھبرائیں نہیں بلکہ خاموشی سے ابن مسعود کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے زریں نے ایسی کٹی لاشیں دیکھی تھیں الموت میں اس نے کئی بار جلاد کو سب کے سامنے لوگوں کے سر قلم کرتے دیکھا تھا
انہیں میں نے شیخ الجبل کے حکم سے قتل کیا ہے ابن مسعود نے کہا شیخ الجبل نے مجھے کہا تھا کہ تمہارے ساتھ ایک لڑکی جارہی ہے نہ تم نے اسے کسی اور نیت سے ہاتھ لگانا ہے نا یہ دو آدمی لڑکی کو راستے میں تفریح کا ذریعہ بنائیں تمہیں ہم کسی اور مقصد کے لئے لے جا رہے ہیں شیخ الجبل نے کہا تھا کہ راستے میں تم میں سے کوئی بھی اس لڑکی کو تفریح کے لیے استعمال کرے تو اسے دوسرے وہیں قتل کردیں یہ دونوں تمہارے جسم کے ساتھ کھیلنا چاہتے تھے اور دن کو راستے میں تم نے سنا تھا کہ یہ کیسی باتیں کرتے آرہے تھے میں نے انہیں رات سوتے میں قتل کر دیا ہے
ابن مسعود نے زریں سے یہ نہ کہا کہ اس نے انہیں اس لیے قتل کیا ہے کہ تم میری بہن ہو اور کوئی بھائی اپنی بہن کی عزت کے ساتھ کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور کوئی آدمی اس طرح کی باتیں منہ سے نکالے گا تو بھائی اسے زندہ نہیں چھوڑے گا وہ جانتا تھا کہ زریں یہ بات نہیں سمجھ سکے گی کیونکہ وہ نشے کی حالت میں تھی اور اس کا دماغ اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں تھا ابن مسعود کو جھوٹ بولنا پڑا
زریں نے کچھ بھی نہ کہا جیسے یہ کوئی بات ہیں ہی نہیں تھی کہ دو آدمی مارے گئے ہیں وہ ابن مسعود کے ساتھ واپس اپنے بستر پر آئی کچھ کھایا پیا اور دونوں نے بستر سمیٹے اور اپنے مقتول ساتھیوں کی تلوار اور خنجر لیے اور یہ سارا سامان لے کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور وہاں سے چل پڑے لاشیں وہیں پڑے رہنے دیں جنہیں جنگل کے درندوں اور گوشت خور پرندوں نے کھانا تھا
وہ دونوں پانچوں گھوڑے اپنے ساتھ لے جا رہے تھے ابن مسعود نے زریں سے کہا کہ اب رفتار تیز کریں گے تاکہ جلدی منزل پر پہنچ جائیں زریں اتنی لمبی اور تیز رفتار گھوڑے کی سواری کی عادی نہیں تھی لیکن اس نے اپنے بھائی کا کہنا مان لیا اور رفتار تیز کر دی
ایک اور رات آئی اور وہ رات گزارنے کے لیے رکے بستر بچھائے اور کھانا کھایا زریں نے حشیش پی اور اس وقت اس نے ابن مسعود سے پوچھا کہ وہ حشیش کیوں نہیں پی رہا ؟

ابن مسعود نے کوئی بہانہ پیش کردیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ زریں بھی حشیش پئے لیکن ابھی اسے اس نشے سے محروم رکھنا خطرہ مول لینے والی بات تھی وہ جانتا تھا کہ نشے سے ٹوٹے ہوئے انسان کی حالت کیا ہو جاتی ہے لیکن زریں کو حشیش پلائی تو اس نے اس کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا اس کے دل میں ابن مسعود کی محبت موجزن تھی وہ محبت کا اظہار جسمانی طور پر کرنے کی عادی تھی اور یہی ایک طریقہ جانتی اور اسی کو جائز سمجھتی تھی اس نے ابن مسعود کے ساتھ ایسا ہی اظہار کیا ابن مسعود نے بڑی ہی دشواری سے اسے اپنے جسم سے دور رکھا اور آخر یہ کہا کہ وہ شیخ الجبل کے حکم کے خلاف ورزی نہیں کرے گا اور اس خلاف ورزی پر اس نے اپنے دو ساتھی قتل کر دیے ہیں یہ ایک ایسی دلیل تھی جو زریں نے قبول کرلی یہ تو پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس کے دل سے خون کے رشتوں کا تقدس دُھل چکا تھا یہ رات بھی گزر گئی یہ دن ان کے سفر کا آخری دن تھا اس روز تو ابن مسعود نے گھوڑے دوڑا بھی دیے تھے تاکہ سفر میں ایک اور رات نہ آئے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:50 }
Last Episode
سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد مغرب کی نماز مسجد میں پڑھ کر واپس گھر آ رہا تھا جب اس نے اپنے گھر کے احاطے کے باہر والے دروازے کے سامنے ابن مسعود اور زریں کو گھوڑوں سے اترتے دیکھا اور دربان انکی طرف چلا کہ وہ ان سے پوچھے کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں ابونصر احمد تو ابن مسعود کو دیکھ کر دوڑ ھی پڑا اور دوسرے لمحے دونوں ہی جذباتی اور پرتپاک انداز سے بغل گیر ہو گئے
اپنی بہن کو لے آیا ہوں ابن مسعود نے وزیراعظم سے الگ ہوتے ہوئے زریں کی طرف اشارہ کیا اور کہا آپ شاید حیران ہوتے ہونگے کہ میں بہن کو الموت سے نکال کر کس طرح لایا ہوں یہ بیٹھ کر سناؤں گا
ابونصر دونوں کو اندر لے گیا اور دربان سے کہا کہ گھوڑوں کو اصطبل میں رکھا جائے مکان کے اندر جاکر زریں کو ابو نصر احمد نے زنانہ حصہ میں بھیج دیا اور گھر میں کہا کہ یہ اس کے خاص مہمان ہیں
ان مہمانوں کو غسل کرایا گیا اور زریں نے عورتوں کے ساتھ اور ابن مسعود نے ابو نصر احمد کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر الگ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ابونصر تو ابن مسعود کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوا کہ وہ بار بار خوشی کا اظہار کرتا تھا
محترم وزیراعظم! ابن مسعود نے کہا اللہ کے فضل و کرم سے آپ الموت لے لیں گے میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا اس کے عوض آپ مجھے میری بہن دے دیں
بہن دے دیں! ابو نصر احمد نے حیرت زدہ لہجے میں کہا ہاں تم اپنی بہن کو لے تو آئے ہو
ہاں محترم وزیراعظم! ابن مسعود نے کہا میں بہن کو لے تو آیا ہوں لیکن یہ ایسے نشے سے سرشار ہے کہ بہن بھائی کے رشتے کے تقدس کو بھول بیٹھی ہے جس طرح وسم کوہ میں مجھے طبیب نے ابلیسیت سے نکال کر انسانیت کے درجے میں کھڑا کردیا تھا اسی طرح میری بہن کو انسانیت کی عظمت عطا ہوجائے تو میں اسے اپنے اوپر بہت بڑا احسان سمجھوں گا
ابن مسعود نے تفصیلاً بتایا کہ اس کی بہن ابھی کس ذہنی کیفیت میں ہے اور جب یہ دونوں بہن بھائی حسن بن صباح کی جنت میں تھے تو ان کا آپس میں کیا تعلق تھا ابونصر احمد دانشمند وزیر تھا وہ ساری بات سمجھ گیا اور اس نے کہا کہ وہ کل صبح ہی زریں کو طبیب کے حوالے کر دے گا اور کچھ دنوں بعد ابن مسعود اپنی بہن کو اس روپ میں دیکھے گا جس میں وہ اسے دیکھنا چاہتا ہے
ابن مسعود نے ابو نصر احمد کو پوری تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح حسن بن صباح کے پاس پہنچا تھا کیا جھوٹ بولے تھے اور اسے کیا فریب دیئے تھے اور پھر اسے حیدر بصری اور خزانے کا قصہ سنایا ابن مسعود کو خزانے کی حقیقت معلوم نہیں تھی اس نے ابو نصر احمد کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی بہن کو وہاں سے کیا کہہ کر ساتھ لایا ہے راستے میں اس نے اپنے دو ساتھیوں کو جس طرح قتل کیا تھا وہ بھی سنایا
میں اب ایک ہی بات سننا چاہتا ہوں ابونصر احمد نے کہا میں کب الموت پر حملہ کروں حملے اور محاصرے کے وقت تمہیں الموت میں ہونا چاہیے
محترم وزیر اعظم! ابن مسعود نے کہا میں کل صبح وسم کوہ کو روانہ ہو جاؤں گا مزمل آفندی اور بن یونس میرے ساتھ الموت جائیں گے خطرہ صرف مزمل آفندی کے متعلق ہے کہ حسن بن صباح اسے پہچان لے گا لیکن ایسا نہیں ہوگا وہ تو پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مزمل اسکے پاس کچھ دن رہا تھا اس اتنے لمبے عرصے میں سیکڑوں مزمل آفندی اس کی نظروں سے گزر چکے ہیں حسن بن صباح میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی بہرحال میں نے کل صبح روانہ ہو جانا ہ۔ دنوں کا حساب کر لیں وہاں جاتے ہی ان دنوں کو ساتھ لے کر الموت روانہ ہو جاؤں گا اور کچھ دنوں بعد آپ یہاں سے کوچ کریں اور الموت کو محاصرے میں لے لیں ہم دریا والا دروازہ کھولیں گے اور آپ کو مشعل کا اشارہ بھی دے دیں گے اندر ہمیں موقع ملا تو حسن بن صباح کو قتل بھی کر دیں گے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وہ اکیلا باہر نکلتا ہی نہیں
انہوں نے ضروری تفصیلات طے کر لیں اور وہ سو گئے صبح اس وقت ابن مسعود جاگ اٹھا جب صبح ابھی تاریک تھی وہ جانے کے لیے تیار ہوا اور اپنی بہن سے ملے بغیر وسم کوہ کو روانہ ہوگیا
ابن مسعود وسم کوہ پہنچا تو سالار اوریزی مزمل آفندی اور بن یونس نے اس کا ویسا ہی پرتپاک اور پرجوش خیر مقدم کیا جیسا ابو نصر احمد نے کیا تھا وہ سب حیران تھے کہ یہ سابق فدائی زندہ اور سلامت حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نکل آیا ہے اس نے جب سنایا کہ وہ حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نہ صرف نکل آیا ہے بلکہ اسے ایسا دھوکا دیا ہے کہ وہ حسن بن صباح کا قابل اعتماد آدمی بن گیا ہے اور اب وہ واپس جائے گا تو حسن بن صباح دریا والا دروازہ اس کی ذمہ داری میں دے دے گا
وہ جب یہ تفصیلات سنا رہا تھا تو یہ تینوں اسے اس طرح حیران و پریشان ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کوئی انسان اس قدر دانشمند بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی فریب کاریاں کر لے کہ اُس فریب کار کو بھی انگلیوں پر نچا دے جو نبی بھی بن گیا تھا اور امام بھی اور لوگوں نے اس کے آگے سجدے کرنے شروع کر دیے تھے
وہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو بہت بڑی قوت عطا فرمائی ہے اس قوت پر اختیار بھی انسان کو دے دیا ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس قوت سے عرش بریں کا فرشتہ بن جائے یا روئے زمین کا ابلیس ہو جائے
ابن مسعود نے اصل بات چھیڑی اور کہا کہ مزمل آفندی اور بن یونس اس کے ساتھ الموت چلیں وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے اور انہوں نے اسی کو زندگی کا مقصد بنا رکھا تھا کہ الموت کو فتح کرکے وہاں سے ابلیسیت کا نام و نشان مٹانا ہے اور حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے بات اس خطرے کی ہوئی کہ حسن بن صباح مزمل آفندی کو پہچان لے گا لیکن ابن مسعود کہتا تھا کہ حسن بن صباح اتنی لمبی مدت بعد مزمل کو نہیں پہچان سکے گا
ابن مسعود نے یہ بھی کہا کہ وہ کوشش کرے گا کہ مزمل اور بن یونس حسن بن صباح کے سامنے جائیں ہی نہیں اس طرح کچھ ضروری تفصیلات طے کرکے مزمل اور بن یونس اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئے
اگلی صبح تینوں روانہ ہوگئے مزمل آفندی اور بن یونس نے کوئی بھیس نہ بدلا نہ وہ کسی بہروپ میں گئے وہ جیسے تھے ویسے ہی چل پڑے ابن مسعود کو اپنی عقل اور اپنی خداداد صلاحیتوں پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ یقین کے ساتھ کہتا تھا کہ وہ ان دونوں کو محفوظ رکھے گا اور اتنا آزاد کے اندر یہ جو بھی کاروائی ضروری سمجھیں گے کر سکیں گے ابن مسعود کا ایمان بیدار ہوچکا تھا اور اس کی یہ کامیابی ایمان کی قوتوں کی حاصل تھی
بڑی لمبی مسافت طے کرکے وہ الموت پہنچے مزمل اور بن یونس کو ابن مسعود نے حسن بن صباح کے مہمان خانے میں بھیج دیا اور خود حسن بن صباح کے پاس چلا گیا حسن بن صباح نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کر آیا ہے
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا میں بات مختصر کروں گا اور وہی بات کروں گا جو شیخ الجبل کے لئے اہم ہے الموت پر حملہ نہیں روکا جاسکے گا میں وہاں پہنچا تو فوج کو تیاری کا حکم مل چکا تھا حملے کی قیادت وزیر اعظم ابو نصر احمد خود کرے گا
میں اپنی بہن کو ایوان سلطنت میں قابل اعتماد ساتھیوں کے حوالے کر آیا ہوں جہاں وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے گی بلکہ اپنی کاروائی آزادی سے اور آسانی سے کرتی رہے گی میں نے بہن کو جس آدمی کے حوالے کیا ہے وہ اسی انتظار میں تھا کہ اسے زریں جیسی ہی ایک لڑکی مل جائے تو وہ ان سلطانوں کا تختہ الٹ سکتا ہے اس نے کہا کہ ابو نصر احمد کو شیشے میں اتارنا کوئی مشکل نہیں لیکن ابھی اسے حملے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ سلطان محمد کوچ کا حکم دے چکا ہے
سلجوقی فوج کی نفری کتنی ہوگی ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان ہوگی ابن مسعود نے جواب دیا اس فوج کے پاس منجنیقیں بھی ہوگی لیکن انہیں میں نے مرو میں دیکھ کر حساب کیا ہے کہ ان کے پھینکے ہوئے پتھر شہر کے اندر نہیں پہنچ سکیں گے کیونکہ الموت چٹان کے اوپر ہے اور پتھر اتنی بلندی تک نہیں آ سکیں گے میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں یا شیخ الجبل یہ فوج الموت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گی آنے دیں محاصرہ بری طرح ناکام ہوگا
سلطان محمد احمق آدمی ہے حسن بن صباح نے کہا اور اس کا یہ وزیراعظم ابونصر احمد اس سے بھی زیادہ احمق معلوم ہوتا ہے وہ موسم کے تیور کو دیکھ ہی نہیں رہے تم باہر نکل کر دیکھنا پہاڑوں پر برف پڑنی شروع ہوگئی ہے ایک دو چاند اور طلوع اور غروب ہو گے تو برف باری یہاں تک بھی پہنچ جائے گی ہم یہاں اندر آرام سے بیٹھے رہیں گے اور سلجوقیوں کے محاصرے کو برفباری ہی توڑ کر منجمد کردے گی
ابن مسعود نے یہ سنا تو پریشان ہو گیا اسے خیال آیا کہ ابو نصر احمد بڑے ہی جوش وخروش سے حملے کی باتیں کر رہا تھا اور اس نے نہایت اچھی چالیں بھی سوچ رکھی تھیں لیکن اس نے موسم کی طرف دھیان دیا ہی نہیں تھا یہ تو تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ابو نصر احمد جذباتی وزیراعظم تھا بے شک وہ مرد مومن تھا اور الموت پر قبضہ کا مقصد یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اپنی سلطنت کو وسعت دینی ہے بلکہ وہ ابلیسیت کا خاتمہ چاہتا تھا لیکن جذبات سے مغلوب ہو کر سوچنے والوں کے مقاصد اکثر پورے نہیں ہوا کرتے
ابن مسعود کے پاس اب کوئی ذریعہ اور طریقہ نہ تھا کہ وہ مرو پیغام بھیجتا کہ کوچ ملتوی کردو کیوں کہ تین چار مہینوں تک برفباری شروع ہوجائے گی اسے ایسی امید تھی ہی نہیں کہ تین چار مہینوں کے اندر اندر قلعہ سر ہو جائے گا ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مرو سے فوج کب کوچ کرے گی
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے حسن بن صباح کو مزید چکر دینے کے لیے کہا میں نے ایک بڑی خطرناک بات دیکھی ہے ہمارے جو آدمی مرو میں ہیں ان میں کچھ بددلی پیدا ہوگئی ہے اور مجھے شک ہونے لگا ہے کہ ہمارے کچھ آدمی غداری پر اتر آئے ہیں اور ان کی وفاداریاں مشکوک ہوگئی ہیں ایوان سلطنت میں جس کے حوالے میں اپنی بہن کر آیا ہوں وہ بالکل صحیح آدمی ہے وہ بھی کہتا تھا کہ اب اپنے آدمیوں پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا
یہ ابن مسعود کا ایک نفسیاتی وار تھا جو اس نے حسن بن صباح کو کمزور کرنے کے لیے کیا تھا اس کا خیال یہ تھا کہ حسن بن صباح اپنے ان فدائیوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دے جنہیں اس نے سلطنت سلجوقیہ کے بڑے بڑے شہروں میں پھیلا رکھا تھا حسن بن صباح کو اپنی اسی طاقت پر ناز تھا حسن بن صباح نے یہ بات سنی اور کہا کہ وہ حملے اور محاصرے سے نپٹ لے تو باہر کے مسئلوں پر توجہ دے گا
اب ایک بہت ہی ضروری بات کرتا ہوں یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا میں نے مرو میں بھی اڑتی اڑتی یہ بات سنی تھی کہ الموت کے اندر ایک دو آدمی ایسے آگئے ہیں جو محاصرے کے دوران اندر سے دریا والا دروازہ کھول دیں گے اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ دو آدمی کون ہیں اور کہاں چھپے ہوئے ہیں
میں اس کام کو بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سمجھتا ہوں میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ وہ خفیہ دروازہ میری ذمہ داری میں دے دیں اور وہاں جو آدمی موجود ہیں انہیں وہاں سے ہٹا دیں میں مرو سے دو فدائی ساتھ لایا ہوں وہ بڑے ہی دانشمند اور جرات والے ہیں آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان دونوں کو ساتھ لے کر اس دروازے کا ذمہ دار بن جاؤں
ابن مسعود نے ایسی ہی کچھ باتیں گڑھ کر حسن بن صباح کو پریشانی میں ڈال دیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حسن بن صباح اتنا ہی کچا تھا کہ یہ پریشانی اس کے پاؤں اکھاڑ دیتی اس نے یہ حکم تو دے دیا کہ دریا والے خفیہ دروازے پر جو آدمی مقرر ہیں انہیں وہاں سے ہٹا کر ابن مسعود کو مقرر کردیا جائے لیکن ابن مسعود کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں جاسوسوں پر بھی جاسوس لگے ہوئے تھے حسن بن صباح نے ابن مسعود سے فارغ ہوکر جب یہ حکم دیا کہ وہ دروازہ ابن مسعود کے حوالے کر دیا جائے اس نے یہ حکم بھی دیا کہ ابن مسعود اور اس کے ساتھیوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور پھر کڑی نظر رکھنے والوں پر بھی نظر رکھنے کا انتظام موجود تھا یہ تھا وہ طریقہ اور اصول جنہوں نے حسن بن صباح کو نبی بھی بنایا شیخ الجبل اور امام بھی اور اسے ایک دہشت بھی بنا دیا تھا
اب وہ واقعہ رونما ہوا جو تاریخ کے دامن میں آج بھی محفوظ ہے یہ 503 ہجری کا واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے تفصیل سے لکھا
سلطان محمد اور ابو نصر احمد موسم کو خاطر میں لائے ہی نہیں تھے موسم سرما شروع ہوگیا تھا اور الموت اس علاقے میں تھا جہاں پر برف باری ہوا کرتی تھی اس کے ساتھ جو جو پہاڑ تھے وہ برف سے سفید ہو جایا کرتے تھے بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ الموت میں یا اس علاقے میں برفباری تو ہوتی تھی لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ فوجوں کے آگے رکاوٹ بن جاتی بہرحال سلجوقی سالاروں کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہ رکھا
فوج کے کوچ میں بھی انہوں نے خاصی تاخیر کر دی اور اس دوران سردی بڑھ گئی اور الموت برفباری کی زد میں آنے لگا لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ اسے برداشت ہی نہ کیا جا سکتا
آخر ایک روز الموت کے اندر ہڑبونگ مچ گئی کہ سلجوقی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے حسن بن صباح کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی لیکن ہر شہری جو تلوار اٹھا سکتا تھا وہ الموت کا محافظ تھا اور ان میں فدائیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی اس تعداد پر مورخوں کا اختلاف ہے بعض نے بیس پچیس ہزار تعداد لکھی ہے اور ایک دو نے پچاس ہزار لکھی ہے لیکن تعداد جتنی بھی تھی وہ جانباز ہی تھی لیکن یہ فدائی تربیت یافتہ فوج کی طرح نہیں لڑ سکتے تھے وہ تو دن دہاڑے اپنے شکار کو خنجر سے ہلاک کرتے اور اسی خنجر سے اپنے آپ کو مار لیتے تھے
حسن بن صباح شہر کی دیوار پر گیا اور اس نے باہر کی صورتحال دیکھی اس نے اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس فوج پر آسمانی آفت گرے گی اور یہ بھاگ جائے گی وہ اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی اسی طرح بڑ ھانک کر کیا کرتا تھا اس نے دیوار پر تیرانداز کھڑے کردیے
سلجوقی فوج نے ایسے جانباز تیار کر رکھے تھے جو معجزے بھی کر دکھایا کرتے تھے وہ دو دو چار چار اور کچھ اس سے زیادہ ٹولیوں میں اس چٹان پر چڑھے جس پر الموت کا شہر آباد تھا وہ دروازے توڑنے کے لئے اوپر جا رہے تھے لیکن تیر اندازوں کے لیے وہ بڑا ہی آسان شکار ثابت ہوئے تیروں کی بوچھاڑ ان پر پڑی تو وہ تیر کھا کر لڑتے اور قلابازیاں کھاتے نیچے آ پڑے
محاصرہ تین اطراف پر تھا پیچھے دریا تھا اور دریا کا پاٹ وہاں تنگ تھا اس لئے دریا کا جوش بھی زیادہ تھا اور گہرائی بھی زیادہ تھی
ابونصر احمد نے ایسے آدمی تیار کر رکھے تھے جنہیں دور پیچھے جاکر کشتیوں کے ذریعے قلعے کے عقب میں اس خفیہ دروازے تک پہنچنا تھا جو اب ابن مسعود کی تحویل میں تھا ابن مسعود کے ساتھ مزمل آفندی اور بن یونس تھے
دروازے کی چابی ابن مسعود کے پاس تھی وہ جب بھی دروازہ کھولنے کے لیئے آگے بڑھتا کوئی نہ کوئی آدمی آجاتا اور ابن مسعود پیچھے ہٹا آتا اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے اس پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ طور پر کچھ آدمی لگا رکھے ہیں
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے منجنیقوں سے پتھر پھینکے گئے لیکن پتھر دیوار سے ٹکرا کر لڑھکتے ہوئے واپس آ جاتے تھے یہ منجنیقیں چھوٹی تھیں اور بڑی منجنیق تھی ہی نہیں ابونصر احمد نے جانبازوں کی جماعت کو دریا کی طرف بھیج دیا کہ وہ دریا کے ذریعے خفیہ دروازے تک پہنچیں لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ دریا میں اترنے سے پہلے شہر کی دیوار کی طرف دیکھتے رہیں دیوار سے ایک اشارہ ملے گا پھر دریا میں اتریں
دو دشواریاں پیدا ہوگئیں ایک یہ کہ دریا میں جو کشتیاں حسن بن صباح نے رکھوائی ہوئی تھیں وہ خفیہ دروازے کے قریب بندھی ہوئی تھیں ان کے علاوہ اور کوئی کشتی نہیں تھی ابو نصر احمد کے ان آدمیوں کو ان کشتیوں تک پہنچنے کے لئے کچھ دور تک تیر کر جانا تھا وہ جانباز دریا کے کنارے جا کر چھپ گئے اور قلعے کی دیوار کی طرف دیکھنے لگے دیوار سے کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا
محاصرے کو ایک مہینہ گزر گیا اور ایک روز ابن مسعود نے دروازہ کھول دیا دریا کا پانی اندر آ گیا آگے چٹان کی اونچائی تھی اس لئے پانی وہاں تک محدود رہا چٹان کو کاٹ کاٹ کر سیڑھیاں بنائی گئی تھیں اچانک ایک آدمی ادھر آ نکلا اور اس نے دروازہ کھلا دیکھا تو بلند آواز سے پوچھا کہ یہ دروازہ کس نے اور کیوں کھولا ہے اس آدمی کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہاں جو اور آدمی موجود تھے وہ بھی سن کر دوڑے آئے وہ سات آٹھ تھے وہ نیچے آئے تو ابن مسعود نے انہیں کہا اس نے یہ دروازہ آزمائش کے لئے کھولا تھا تاکہ ضرورت کے وقت اٹک نہ جائے
ان آدمیوں کو شک ہوگیا کہ یہ کوئی چال بازی ہے ایک نے کہا کہ امام کو اطلاع دی جائے اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ اس دروازے کا خیال رکھنا کیونکہ کچھ آدمی دریا کے کنارے چھپے ہوئے دیکھے گئے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دریا کے راستے ادھر آ جائیں
صورتحال ایسی پیدا ہوگئی کہ مزمل آفندی اور بن یونس نے جوش میں آکر تلواریں نکال لیں اور ان آدمیوں کو للکارا وہ تو حسن بن صباح کے خاص قسم کے جانباز اور قابل اعتماد آدمی تھے انہوں نے بھی تلوار نکال لی اور اس تنگ جگہ میں خونریز معرکہ ہوا جس میں تین چار فدائی تو مارے گئے لیکن ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس بھی مارے گئے اور انہیں ان آدمیوں نے باہر دریا میں پھینک کر دروازہ بند کیا اور مقفل کرکے حسن بن صباح کو جا بتایا کہ وہاں کیا ہوا ہے
ابونصر احمد پریشان ہو رہا تھا کہ ابھی تک اسے دیوار سے وہ اشارہ نہیں ملا جو اسے ابن مسعود نے بتایا تھا وہ اس طرف چلا گیا جہاں اس کے وہ جانباز انتظار میں بیٹھے تھے جنہیں دریا میں اتر کر اس دروازے تک پہنچنا تھا
ابونصر احمد نے بڑا ہی غلط حکم دیا وہ یہ کہ ایک آدمی کو دریا میں اترنے کو کہا کہ وہ پیچھے چلا جائے اور دیکھے کے دروازہ کھلا ہے یا نہیں اور وہاں سے ایک کشتی میں بیٹھ کر واپس آئے اس نے اپنی طرف سے شاید ٹھیک ہی سوچا تھا کہ ایک یا دو آدمی ایک دو کشتیاں لے آئیں اور یہ پارٹی یہاں بیٹھنے کی بجائے اس دروازے کے قریب جاکر کشتیوں میں بیٹھی رہے لیکن جب وہ آدمی دریا میں اترا تو تھوڑی ہی دور جا کر اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کیونکہ ہلکی ہلکی برفباری شروع ہو گئی تھی اور دریا کا پانی ناقابل برداشت حد تک یخ تھا وہ آدمی اکڑ گیا اور یہ دیکھا کہ وہ ہاتھ پاؤں نہیں مار رہا تھا دریا اسے ساتھ ہی لے گیا
ابو نصر نے ایک آدمی ضائع کرکے محسوس کیا کہ کشتیوں کے بغیر کوئی آدمی اس دروازے تک نہیں پہنچ سکتا اس نے واپس اپنے سالاروں کے پاس آکر کہا کہ کچھ آدمی دور اوپر دریا کے کنارے کنارے بھیجے جائیں اور کہیں سے ایک دو کشتیاں لے کر آئیں آدمی بھیج دیے گئے
محاصرے کی ایک اور رات آئی اور رات کو ایسی شدید برفباری شروع ہو گئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ہلکی برفباری کو تو سلجوقی فوج برداشت کرتی رہی لیکن مسلسل یخ بستہ ٹھنڈ میں وہ رہ کر فوجیوں کے جسم اکڑتے جا رہے تھے
رات بھر برفباری جاری رہی اور بڑھتی ہی گئی صبح ہوئی تو دنیا کا یہ خطہ سفید چادر میں ڈھک گیا تھا گھوڑے بھی کانپ رہے تھے درخت بھی برف کی بوجھ سے جھک رہے تھے
حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع مل گیا وہ دیوار پر چڑھا اور دونوں بازو پھیلا کر بڑی ہی بلند آواز سے کہا اے آسمان تو نے مجھے زمین پر اتارا تھا اب ایسا قہر برسا کے تیرے اترے ہوئے امام کے یہ دشمن اکڑ اکڑ کر ختم ہو جائیں
حسن بن صباح کی یہ پکار اور للکار سلجوقی فوج کے حوصلے پست کرنے لگی اور الموت کے شہریوں کے حوصلے مضبوط ہونے لگے قدرت نے حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع فراہم کردیا تھا برفباری رک ہی نہیں رہی تھی اور زمین پر برف کی تہہ جمتی جارہی تھی جو فٹوں کے حساب سے بلند ہو رہی تھی
ابونصر احمد ایسا مجبور ہوا کہ اس نے محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا تب اسے پتا چلا کہ اس کی فوج کی کچھ نفری اس قدر اکڑ گئی ہے کہ اس کے لئے چلنا یا گھوڑے پر سوار ہونا ممکن نہیں رہا گھوڑوں کی حالت بھی بگڑ گئی تھی بڑی ہی بری حالت میں سلجوقی فوج وہاں سے ناکام نکلی
سلطان محمد کے وزیراعظم ابونصر احمد کے جذباتی فیصلے نے اپنی فوج کو کچھ عرصے کے لیے بے کار کر دیا یہ تو جسموں کا معاملہ تھا کہ برف نے جسم بے کار کر دیے تھے لیکن ذہنی طور پر بھی یہ فوج کچھ عرصے کے لیے لڑنے کے قابل نہ رہی فوج میں جو لوگ تھے وہ عالم فاضل تو نہیں تھے کہ کچھ سمجھ جاتے کہ یہ تو موسم ہی برف باری کا تھا اور اب کے برفباری زیادہ ہی ہوئی وہ یقین کر بیٹھے کہ یہ حسن بن صباح کا معجزہ ہے کہ اس نے آسمان تک اپنی آواز پہنچائی اور آسمان نے برف گرا کر سلجوقی فوج کو بھگا دیا
فوج کی جسمانی حالت تو جلدی ہی ٹھیک ہوگئی لیکن ذہنی اور نفسیاتی طور پر فوج نہ سنبھل سکی اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے بھی فوجیوں نے افواہ پھیلانے شروع کر دی تھی جن کا لب لباب یہ تھا کہ حسن بن صباح نبی یا امام نہ سہی اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی آسمانی طاقت ضرور ہے جس سے وہ بڑی سے بڑی فوج پر بھی مصیبت نازل کرکے اسے شکست دے سکتا ہے فوج کا لڑنے کا جذبہ اور حوصلہ جسے آج کی زبان میں مورال کہتے ہیں ان افواہوں سے بڑی ہی بری طرح مجروح ہو رہا تھا اور ایسی بدلی پھیل گئی تھی کہ وہ لوگ جو رضاکارانہ طور پر فوج میں شامل ہوئے تھے وہ فوج سے نکلنے لگے
سلطان محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ پریشان ہوگیا وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ اللہ کے سپاہی کی تو یہ شان تھی کہ وہ دنیا کے لالچ اور ہوس کو الگ پھینک کر لڑا کرتا تھا اور اس کے پیش نظر اللہ کی خوشنودی ہوا کرتی تھی لیکن اس فوج کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ اس میں اللہ کے خوف کی بجائے حسن بن صباح کا خوف پیدا ہوگیا تھا اس نے ابو نصر احمد کو وزارات سے تو بر طرف نہ کیا لیکن فوج کے ساتھ اس کا تعلق توڑ دیا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اس نے سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ اپنی فوج میں وہی جذبہ پیدا کریں جو مجاہد کا جذبہ ہوتا ہے اور فوج سے حسن بن صباح کا خوف ختم کریں
سالاروں نے اپنی سی کوششیں شروع کردیں سلطان محمد نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ چند دنوں کے وقفے سے پوری فوج کو ایک جگہ اکٹھا کرکے خطاب کیا کرتا تھا علمائے دین کی خدمت بھی حاصل کی گئیں جنہوں نے واعظ خطبوں اور آیات قرآنی سے فوج کے ذہن سے حسن بن صباح کے متعلق وہم اور وسوسے نکالنے شروع کر کردیے یہ بڑا ہی صبر آزما اور وقت طلب عمل تھا جس کے اثرات نہایت ہی آہستہ آہستہ پیدا ہو رہے تھے
سلطان محمد نے ادھر اور سالار اوریزی نے اور شاہ در میں سلطان سنجر نے بھی مشاہدہ کیا کہ حسن بن صباح کے جو اثرات ختم ہونے شروع ہو گئے تھے وہ پھر سامنے آنے لگے ہیں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا تھا کہ الموت پر فوج کشی کرکے حسن بن صباح کو ختم کیا جائے اسلامی نظریات اور دین کے دیگر عقیدے تو اپنی جگہ اہم تھے ہی مگر اس صورتحال نے سلطنت سلجوقیہ کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا تھا
سات آٹھ سال گزر گئے تب جاکر فوج ذہنی بلکہ روحانی طور پر تیار ہوئی فوج میں سے بے شمار لوگوں کو نکال دیا گیا تھا اور بے شمار نئے لوگوں کو بھرتی کیا گیا اس نئی نفری میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی اس نوجوان نفری کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا
سلطان محمد نے بڑے ہی گہرے غوروفکر سے اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر محاصرے کا منصوبہ تیار کیا جس میں سالاروں کے مشورے اور ان کی تجاویز بھی شامل تھیں سلطان محمد نے محاصرے کا بنیادی اصول یہ دیا کہ قلعے پر چڑھائی کرنی ہی نہیں نہ آگے بڑھ کر دروازے توڑنے ہیں بلکہ شہر میں داخل ہونے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرنی بلکہ یہ کرنا ہے کہ شہر کو محاصرے میں لے کر بیٹھ جانا ہے خواہ یہ محاصرہ سالوں تک لمبا ہو جائے
ایک روز مرو سے فوج نکلی اس کا رخ الموت کی طرف تھا کچھ نفری وسم کوہ سے بلوا کر اس میں شامل کی گئی تھی اور کچھ نفری شاہ در سے بھی بلوالی گئی تھی اس فوج کا سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر تھا مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ سپہ سالار جذبات کے جوش میں آنے والا نہیں تھا بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کرنے کا عادی تھا یہ اس کی بنیادی فوجی تربیت تھی اور اس میں دوہری صلاحیت پائی جاتی تھی جو ایک کامیاب سپہ سالار کے لیے ضروری ہوتی ہے
اس فوج نے الموت کو محاصرے میں لے لیا سلطان محمد کو اچھی طرح معلوم تھا کہ محاصرہ صرف تین اطراف ہوسکتا ہے وہ فوج کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے رات کو بھی باہر گھومتا پھرتا اور فوجیوں کے ساتھ باتیں کرتا رہتا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے نمونیہ ہو گیا اور طبیبوں نے بہت کوشش کی اور اسے مرو چلنے کو بھی کہا لیکن اس نے فوج کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا
پانچ چھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ سلطان محمد کی یہ بیماری اچانک اتنی بڑھ گئی کہ طبیب بھی کچھ نہ کرسکے اور سلطان محمد فوت ہوگیا
جب فوج میں یہ خبر پھیلی کے سلطان کا انتقال ہوگیا ہے تو یکلخت فوج میں بدامنی سی پھیل گئی سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے محاصرہ اٹھا لیا فوج اس حالت میں واپس آئی کہ اس کے ساتھ سلطان محمد کا جنازہ بھی تھا
اس طرح اب کے بھی الموت صاف بچ گیا اور حسن بن صباح اس پر قابض رہا
سلطان سنجر کو شاہ در میں سلطان محمد کے انتقال کی خبر پہنچی تو وہ بھاگم بھاگ مرو پہنچا ادھر وسم کوہ سے سالار اوریزی بھی آگیا اور جہاں جہاں امیر مقرر تھے وہ سب آگئے سب حیران اور پریشان تھے کہ یہ کیا ہوا کہ سلطان کا انتقال ہوگیا اور فوج محاصرہ اٹھا کر واپس آگئی
سالار اوریزی اور ابو نصر احمد حیران تھے کہ ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس قلعہ الموت گئے تھے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا اور واپس بھی نہ آئے ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا کہ حسن بن صباح نے تینوں کو اپنا جادو چلا کر فدائی بنا لیا ہو گا
اب تو وہاں صورت حال ایسی بن گئی تھی کہ ایک دو یا چند ایک افراد کا کسی کو خیال ہی نہیں آرہا تھا اب تو سلطنت سلجوقیہ خطرے میں نظر آنے لگی تھی سنجر اب پوری سلطنت کا سلطان ہوگیا تھا اس کا سب سے بڑا بھائی برکیارق پہلے ہی فوت ہوچکا تھا
اس نے حکم جاری کر دیا کہ الموت کو ہر قیمت پر فتح کرنا ہے اور پوری کی پوری فوج کو تیار کرکے الموت لے جایا جائے اور محاصرے کو طول دینے کی بجائے چٹان پر جا کر شہر پر یلغار کی جائے
ایک بار پھر فوج کو تیار کیا جانے لگا ادھر حسن بن صباح ایک بار پھر پہلے والے جوش و کمال میں آ گیا وہ خود اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ اسے خدا نے کوئی مافوق الفطرت طاقت دے رکھی ہے کہ الموت کے محاصرے کے لئے جو بھی آتا ہے اس پر ایسی مصیبت نازل ہوتی ہے کہ وہ اپنی فوج کو واپس بھگا لے جاتا ہے
سنجر کچھ زیادہ جوشیلا سلطان تھا اور اس میں دلیری اور بے خوفی سب سے زیادہ تھی اس پر انتقام کا جذبہ بھی غالب تھا اس نے ساری سلطنت کی فوج مرو اکٹھی کر لی اور اپنی نگرانی میں اس فوج کو تیار کرنے لگا
اس نے زیادہ انتظار نہ کیا ایک سال کے اندر اندر وہ تمام کا تمام لشکر لے کر الموت جا پہنچا قیادت اس نے پاس رکھی اور محاصرے کو مکمل کرنے کے پورے انتظامات کر دیے
اس کا خیمہ فوج سے ذرا دور الگ تھلگ تھا اور اس خیمے میں اس کا بستر زمین پر بچھایا جاتا تھا
محاصرے کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ سلطان سنجر ایک صبح جاگا تو اس نے اپنے بستر کے قریب تکیے کی طرف ایک لمبا خنجر زمین پر گڑا ہوا پایا اس کے دستے کے ساتھ ایک کاغذ بندھا ہوا تھا وہ تو دیکھ کر ہی گھبرا گیا خنجر کے دستے سے کاغذ کھول کر پڑھا اس پر فارسی زبان میں حسن بن صباح کی طرف سے مختصر سا پیغام لکھا ہوا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے اے سلطان سنجر ہمیں یہ اذیت دینے سے باز آجاؤ اگر تمہارا پاس خاطر نہ ہوتا تو یہ خنجر زمین میں گاڑنے کی بجائے تمہارے نرم سینے میں گاڑنا آسان تھا
خنجر اور اس پیغام نے سلطان سنجر کو پسینے میں نہلا دیا وہ کوئی ایسا ڈرپوک آدمی بھی نہ تھا لیکن وہ اس خیال سے ڈرا کہ اس کے اپنے محافظوں میں ایک یا دو فدائی موجود ہیں ورنہ کوئی پرندہ بھی سلطان کے خیمے کے قریب سے نہیں گزر سکتا تھا
اس نے اسی وقت سالاروں کو بلا کر یہ خنجر اور پیغام دکھایا کہ معلوم کیا جائے کہ فوج میں یا محافظ دستے میں کون باطنی فدائی ہے اس نے یہ حکم دے تو دیا لیکن خود ہی بولا کہ ایسے آدمی کو ڈھونڈ نکالنا ممکن نہیں
سالار رخصت ہوئے ہی تھے کہ اسے اطلاع دی گئی کہ حسن بن صباح کا ایک ایلچی ملنے آیا ہے اس نے ایلچی کو اپنے خیمے میں بلالیا ایلچی نے کہا کہ اسے شیخ الجبل نے صلح کی درخواست کے لئے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اپنی شرائط بتائیں
ایک بڑی قدیم کتاب “نامہ خسرواں” کے باب حالات حسن بن صباح میں یہ شرائط تفصیل سے لکھی ہیں یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان سنجر کا حوصلہ اس خنجر اور پیغام کو دیکھ کر ایسا مجروح ہوا کہ اس نے ایلچی کو اپنی شرائط بتائیں
جو مختصر یہ تھی کہ آئندہ حسن بن صباح کہیں بھی کوئی قلعہ تعمیر نہ کرے نہ کسی چھوٹے یا بڑے قلعے کو سر کرنے کی کوشش کرے
دوسری شرط کہ باطنی وہ اسلحہ اپنے پاس نہ رکھیں جو فوج کے استعمال کے لیے ہوتا ہے خصوصاً منجنیق
تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے میں نئے مرید شامل نہ کرے اور اپنی تبلیغ بند کردے
ایلچی چلا گیا اور خاصی دیر بعد واپس آکر اس نے بتایا کہ شیخ الجبل نے تینوں شرائط تسلیم کرلی ہیں اس کتاب میں لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے لئے ان شرائط میں کوئی نقصان نہیں تھا اسے کوئی قلعہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی باطنیوں نے کم و بیش پچاس قلعوں پر قبضہ جما رکھا تھا فوجی اسلحہ اور منجنیقیں باطنیوں کے کسی کام کی نہیں تھی انہیں صرف ایک چھری یا خنجر کی ضرورت ہوتی تھی
تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے کی تبلیغ بند کردے یہ شرط بھی اس نے یہ سوچ کر مان لی کہ وہ تو خفیہ طور پر بیعت کر لیا کرتا تھا کسی کو اس کا پتا نہیں چل سکتا تھا اس کی تبلیغ بھی زیر زمین یعنی خفیہ طور پر ہوتی تھی
سلطان سنجر نے تحریری معاہدے پر اپنی مہر لگائی اور حسن بن صباح نے بھی اپنے دستخط کیے اور محاصرہ اٹھا لیا گیا
فدائیوں نے اپنی قتل و غارت کی کاروائیاں پھر شروع کردیں ایک دو سال ہی گزرے تھے کہ حسن بن صباح انتقال کر گیا وہ 28 ربیع الثانیہ 518 ہجری کے روز فوت ہوا تھا اس وقت اس کی عمر نوّے سال تھی اور اس نے 35 سال قلعہ الموت میں بیٹھ کر لوگوں کے دلوں پر حکومت کی تھی
اس کی موت اس کے فرقے کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہوئی اس کے جانشین مقرر ہوتے رہے لیکن اس کا فرقہ تیس فرقوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا باطنی فدائی کرائے کے قاتل بن گئے جنہیں کسی بھی مذہب کے لوگ اپنے مخالفین کے قتل کے لئے استعمال کرسکتے تھے
ان فدائیوں کو حشیشین کہا جانے لگا کیونکہ یہ حشیش کے بغیر جیسے زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے اور اسی نشے میں قاتلانہ کاروائیاں کرتے تھے
حسن بن صباح نے طویل عمر پائی اس جماعت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا جس نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرلیا اور ہزاروں فدائیوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا آج عالمِ اسلام کو ایک مرتبہ پھر اس قسم کے خطرات ہر جگہ لاحق ہیں اغیار کے کہنے پر فانی دنیا میں نام اور دولت کمانے کے لئے بہت سے لوگ ایمان و ملت فروشی کے مذموم کاروبار میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو سمجھنے اور سازشوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
فقط والسلام
ختم شد
پڑھ کر کیسا لگا اپنی راۓ سے ضرور آگاہ کیجئے
📜☜ سلسلہ ختم شدہ……

www.urducover.com



 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles