حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 11

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 11

قسط نمبر    “41”   سے قسط    نمبر”44″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:41 }
حسن بن صباح تو جیسے قلعہ وسم کوہ کو بھول ہی گیا تھا وہ کبھی پوچھ لیتا تھا کہ وسم کوہ کا محاصرہ ٹوٹا کہ نہیں اسے ہر بار اچھی خبر سنائی جاتی تھی کہ محاصرہ ٹوٹا بھی نہیں اور کامیاب بھی نہیں ہوا اور مسلمانوں کے لشکر کا جانی نقصان مسلسل ہوتا چلا جا رہا ہے
یہ محاصرہ کامیاب نہیں ہوگا حسن بن صباح ہر بار یہی کہتا تھا
ایک دن یہ تینوں زخمی قلعہ الموت پہنچ گئے اور انہیں فوراً حسن بن صباح کے کمرے میں بھیج دیا گیا انہوں نے کہا یا امام! ہم دھوکے میں مارے گئے ہیں انہوں نے تفصیل سے سنایا کہ ان کے ساتھ کیا دھوکا ہوا ہے اور وہ سلجوقی فوج کی گھوڑسوار کمک کو اپنی فوج سمجھ بیٹھے تھے اور سلجوقیوں کی باتوں میں آگئے
یا شیخ الجبل! ایک مشیر نے کہا اگر ہم پہلے ہی محاصرے پر حملہ کر دیتے تو آج یہ خبر نہ سننا پڑتی اب بھی کچھ نہیں گیا ہمیں اسی وقت کوچ کر جانا چاہیے اور ہم قلعہ چھوڑا لیں گے
میں اپنی طاقت ضائع نہیں کروں گا حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے کہا ہمارے پاس ایسی فوج ہے ہی نہیں جس سے ہم حملہ کریں نہ میں ایسی فوج بناؤں گا ہمارا ہر آدمی لڑ سکتا ہے لیکن ہم فوج کی طرح نہیں لڑیں گے ہمارے ہر فدائی کے پاس ایک خنجر یا ایک چھری ہونی چاہیے اس سے زیادہ کوئی ضرورت نہیں ہمارے پاس ابھی چودہ قلعے ہیں یہ کافی ہیں سلجوقی سالار نے مجھے بھی دھوکا دیا تھا کہ وہ قلعہ ملاذ خان کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے لیکن میں نے توجہ نہیں دی اور نہ کبھی توجہ دوں گا
تو کیا ہم اس نقصان کو برداشت کر لیں گے یا امام! ایک اور مشیر نے پوچھا
ضروری نہیں کہ ہم ایک قلعے کے بدلے قلعہ ہی لینگے حسن بن صباح نے کہا ہم اس قلعے کی پوری قیمت سلجوقیوں سے وصول کرلیں گے اور وسم کوہ میں ہمارا جو مال ودولت گیا ہے وہ بھی ہم پورا کرلیں گے اب میری بات غور سے سنو اور اسی وقت اس پر عمل شروع ہو جائے اب اپنے گروہ رے اور شاہ در والی شاہراہ پر بھیج دو وسم کوہ کی قیمت مسلمان قافلوں سے وصول کرو اور وہ جس خزانے پر قابض ہوگئے ہیں اس سے دوگنا خزانہ ان سے پورا کرو ان شہروں کے اندر کسی امیر کبیر تاجر یا جاگیردار کے گھر ڈاکہ ڈالنا پڑے تو یہ کام بھی کر گزرو مسلمانوں کی قتل و غارت اور تیز کر دو
حسن بن صباح کے دماغ کو اس کے وہ مشیر اور مصاحب بھی نہیں سمجھ سکتے تھے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے وہ بڑ نہیں ہانکا کرتا تھا اور کوئی بات غصّے کی حالت میں یا بلا سوچے سمجھے زبان پر نہیں لاتا اس کی فطرت میں سوائے ابلیسیت کے اور کچھ بھی نہیں تھا اسے صحیح فیصلے پر پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اس کی فطرت اس کے دماغ کی رہنمائی کرتی تھی
اس نے رے اور شاہ در کے اردگرد کے علاقوں کو رہزنی لوٹ مار اور قتل و غارت کے لئے اس لئے منتخب کیا تھا کہ رے تو مسلمانوں کی اکثریت کا شہر تھا اور اس شہر کا الگ حاکم یا امیر تھا شاہ در کی اہمیت یہ تھی کہ اس شہر میں تقریباً آدھی آبادی مسلمانوں کی تھی اور یہ مسلمان باطنیوں سے باہم متصادم رہتے تھے اس کے علاوہ شاہ در میں اس کا استاد احمد بن عطاش رہتا تھا اور حسن بن صباح نے سفلی عمل اور ابلیسیت کی تربیت یہیں سے حاصل کی تھی اور اس کی امامت کا سفر یہیں سے شروع ہوا تھا اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سلجوقی سلطان کی نظر شاہ در پر لگی رہتی ہے اور کسی بھی روز شاہ در پر سلجوقی حملہ کر دیں گے
ابوجندل پیشہ ور ڈاکو تھا اور اس کا اثر و رسوخ چلتا تھا اس کے گروہ کا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہیں رہا تھا لیکن وہ پھر بھی انتظامات کر لیتا تھا وسم کوہ کی جو صورتحال بنی ہوئی تھی اس میں انتظامات کر لینا کوئی مشکل نہیں تھا وہاں اندر اور باہر لاشیں ہی لاشیں تھیں اور ان لاشوں میں ابھی تک زخمی بے ہوش پڑے تھے جنہیں مرا ہوا سمجھا جا رہا تھا شہر کی عورتیں اور بچے ان لاشوں کو پہچانتے پھر رہے تھے سلجوقی فوج کے آدمی بھی اپنے سالار کے حکم کے مطابق ان لاشوں میں مسلمانوں کی لاشیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے
سورج غروب ہونے ہی والا تھا جب شمشیر ابلک ایک گھوڑے پر سوار ان بکھری ہوئی لاشوں کے اردگرد یوں پھر رہا تھا جیسے نگرانی کر رہا ہوں اس نے گھوڑے کا رخ ایک طرف کیا اور آہستہ آہستہ گھوڑے کو چلاتا کچھ آگے ایک ٹیکری کی اوٹ میں ہو گیا وہاں اس نے گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی اور گھوڑا دوڑا دیا
اس کے چاروں سپاہی ایک ایک کرکے مختلف سمتوں سے نکلے اور اسی طرح دور جا کر گھوڑے دوڑائے اور اس جگہ پہنچ گئے جہاں ابوجندل پہلے موجود تھا اس کی دونوں بھتیجیاں اس کے ساتھ تھیں اور اس کے ساتھ دو کی بجائے تین فالتو گھوڑے تھے وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی لڑائی میں جو گھوڑ سوار مارے گئے تھے ان کے گھوڑے میدان جنگ سے بھاگ کر اردگرد کے جنگل میں چلے گئے تھے سالار اوریزی کے نوجوان گھوڑوں کو پکڑ پکڑ کر لارہے تھے لیکن ابو جندل نے اس سے پہلے ہی تین گھوڑے پکڑ لئے اور اس جگہ لے گیا تھا جو جگہ ان سب نے مقرر کی تھی
ابو جندل نے شمشیر ابلک سے کہا تھا کہ دو کمان اور تیرو کے چار پانچ ترکش بھرے ہوئے ہونے چاہیے یہ چاروں سپاہی تجربے کار تیرانداز تھے وہ دو کمان اور پانچ سات تیرکش ساتھ لے گئے تھے ان کے پاس تلواریں تھیں اور برچھیاں بھی ایک گھوڑے پر کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا جو بہت دنوں کے لیے کافی تھا وہاں پانی کی کمی نہیں تھی
وہ جونہی اکٹھے ہوئے اپنی منزل کو چل پڑے انہوں نے گھوڑوں کی رفتار خاصی تیز رکھی وہ اس کوشش میں تھے کہ صبح ہونے تک اتنی دور نکل جائیں کہ تعاقب کا کوئی خطرہ نہ رہے تعاقب کا خطرہ بہت ہی کم تھا کیوں کہ یہ سب جس طرح ایک ایک کرکے وسم کوہ سے نکلے تھے انہیں کسی نے دیکھا نہیں تھا وہ جب اکٹھے ہوئے تھے تو ان پر شام نے اپنا دھندلا پردہ ڈال دیا تھا جو بڑی تیزی سے رات کی تاریکی جیسا سیاہ ہو گیا تھا ان کے پاس تین چار مشعلیں بھی تھیں جو انہوں نے جلائی نہیں کیوں کہ مشعلوں کے شعلے دور سے ان کی نشاندہی کرسکتے تھے ان مشعلوں کی ضرورت منزل پر پیش آنی تھی
شمشیرابلک! راستے میں ابوجندل نے کہا اگر تمہیں میری نیت پر شک ہے تو میری تلوار اپنے پاس رکھ لو یہ دل میں بٹھا لو کہ ہم ایک ہیں منزل کے مسافر ہیں ہمارا انجام اچھا ہوگا یا برا وہ ہم سے کسی ایک کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہوگا
نہیں میرے ہمسفر! شمسیر ابلک نے کہا ہم مسلمان ہیں اگر ہم ایک دوسرے کے خلاف دل میں ذرا سا بھی شک و شبہ یا کدورت رکھیں گے تو ہم اپنی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے اور اگر پہنچ گئے تو اس مہم میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے
ایک بات اور کہونگا شمشیر! ابو جندل نے کہا جس طرح تم نے دل سے شک و شبہ اور کدورت نکال دی ہے اسی طرح دل سے یہ بھی نکال دو کہ تم مسلمان ہو اور میرا مذہب یا عقیدہ کچھ اور ہے میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں کسی مجبوری کے تحت حسن بن صباح کے پیروکار بنا تھا میں اسے دھوکہ دیتا رہا ہوں تم بھی مذہب کی اس لکیر کو مٹا ڈالو اگر یہ تمہارے لئے مناسب نہیں تو مجھے بھی مسلمان سمجھ لو
ہاں ابوجندل! شمشیر ابلک نے کہا یہ میرے لئے مشکل ہے کہ مذہب کی لکیروں کو مٹا ڈالوں اس سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ میں تمہیں مسلمان سمجھوں اور تم بھی اپنے آپ کو دلی طور پر مسلمان سمجھتے رہو
اپنے آپ کو فریب نہ دو شمشیر! ابوجندل نے کہا تم نے شاید ابھی محسوس نہیں کیا کہ تم اب نام کے مسلمان رہے گئے ہو دل پر جب زروجواہرات کا اور خوبصورت عورت کا قبضہ ہو جاتا ہے تو دل میں مذہب برائے نام پرانے زخم کے نشان کی طرح باقی رہ جاتا ہے اب اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دو کہ تم وہ مسلمان رہے گئے ہو جو وسم کوہ کی روانگی سے پہلے ہوا کرتے تھے میں نے تمہیں اس رات کو بھی کہا تھا جب ہم پہلے ملے تھے کہ حسن بن صباح نے جو جنت بنائی ہے وہ عارضی ہے یہ شخص مرجائے گا تو آہستہ آہستہ اس کی جنت بھی اجڑ جائے گی اور وہ جنت جس کا وعدہ تمہیں خدا نے دیا ہے وہ آسمانوں میں ہے اور معلوم نہیں کہ ہے بھی یا نہیں جنت وہی ہوتی ہے جو انسان اپنے ہاتھوں بناتا ہے میں تمہاری زندگی کو جنت کا نمونہ بنا دونگا
شمشیر ابلک لشکری تھا یا اسے مجاہد کہہ لیں عالم دین نہیں تھا کہ یہ فلسفہ سمجھ سکتا کہ انسان مال اور مذہب میں سے ایک ہی چیز کا پوجاری ہوسکتا ہے مسلمان کے لیے مالدار ہونا گناہ نہیں لیکن دل میں مال و دولت کا لالچ رکھنا ایسی گمراہی ہے کہ انسان صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے وہ اپنے مذہب کو بھی دل میں زندہ رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ حقیقت قبول نہیں کر رہا تھا کہ دل میں جب زروجواہرات کی چمک آجاتی ہے تو اس دل میں دین کی شمع بجھ جایا کرتی ہے شمشیر ابلک مسرور اور مطمئن چلا جا رہا تھا فاصلے کم ہورہے تھے اور رات گزرتی جارہی تھی
صبح طلوع ہوئی تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی ہرا بھرا جنگل اور سرسبز ٹیکریاں دور پیچھے رہ گئی تھیں اور وہ ایسے علاقے میں داخل ہو گئے تھے جہاں دیواروں کی طرح چھوٹی بڑی پہاڑیاں اور چٹانیں کھڑی تھیں ان کا رنگ کہیں سلیٹی کہیں مٹیالا اور کہیں سیاہی مائل تھا ان کی شکلیں بھی عجیب و غریب تھیں ابو جندل اس علاقے سے واقف تھا اور اس میں سے گزرنے کا راستہ بھی جانتا تھا شمشیر ابلک اور اس کے سپاہیوں کے لیے یہ علاقہ اور اس کے خدوخال ڈراونی سے تھے کہیں کہیں ایک آدھ درخت کھڑا نظر آتا تھا ورنہ وہاں گھاس کی پتی بھی نظر نہیں آتی تھی
یہ تو جنات اور بدروحوں کا دیس معلوم ہوتا ہے شمشیرابلک نے ابوجندل سے کہا میں نے ایسا بھدا اور ڈراؤنا علاقہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
ہاں شمشیر! ابو جندل نے کہا لوگوں میں یہی مشہور ہے کہ اس علاقے میں بد روحیں اور چڑیلیں اور جنات رہتے ہیں معلوم نہیں یہ کہاں تک سچ ہے لیکن اس کے اندر زہریلی چیزیں رہتی ہیں اب ہمیں کچھ دیر آرام کر لینا چاہیے تھا تعاقب کا خطرہ ختم ہوگیا ہے
یہ سارا علاقہ پتھریلا تھا اس کے اندر جاکر ابوجندل نے ایک جگہ دیکھی جو ذرا ہموار تھی اور وہاں پتھر بھی کم تھے وہاں دو درخت بھی تھے جن کی صرف شاخیں تھیں پتا ایک بھی نہیں تھا انہوں نے گھوڑے ان دو درختوں کے ساتھ باندھ دیے اور الگ ہٹ کر بیٹھ گئے
رات بھر کے جاگے ہوئے مسافر زمین پر لیٹ گئے اور کچھ ہی دیر بعد گہری نیند سو گئے
اچانک ایک گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا اور فوراً بعد تمام گھوڑے اس طرح ہنہنانے لگے جیسے کوئی بہت بڑا خطرہ آن پڑا ہو انکے سوار جاگ اٹھے اور دیکھا کہ گھوڑے رسیاں چڑانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی اچھل کود سے پتہ چلتا تھا کہ انہوں نے کچھ دیکھ لیا ہے وہ سب دوڑ کر گئے اور دیکھا دس بارہ قدم دور ایک سیاہ کالا ناگ آہستہ آہستہ رینگتا جا رہا تھا
سانپ کو دیکھ کر ہر جانور اسی طرح ڈر جاتا اور بھاگ اٹھتا ہے بعض گھوڑے تو سانپ کو دیکھ کر چلتے چلتے رک جاتے اور اس طرح کانپنے لگتے ہیں کہ ابھی گر پڑیں گے ابو جندل نے ایک کمان اٹھائی اور اس میں تیر ڈالا سانپ پر تیر چلایا لیکن تیر اس کے قریب لگا
سانپ کو بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن وہ رک گیا اور اس نے پھن پھیلا دیا اور پھنکارنے لگا اس سے اس کے غصے کا اظہار ہوتا تھا ایک سپاہی نے ابوجندل کے ہاتھ سے کمان لے لی اور اس میں تیر ڈال کر چلایا تو سانپ کے پھن کے پار ہوگیا سانپ کچھ دیر لوٹ پوٹ ہوتا رہا اور پھر بے حس و حرکت ہو گیا
آسمان پر گہرے بادل تو پہلے ہی منڈلا رہے تھے لیکن ان مسافروں کو معلوم نہ تھا کہ جس بے آب و گیاہ پہاڑی کے دامن میں انھوں نے پڑاؤ کیا ہے اس کے پیچھے سے سیاہ کالی گھٹا اٹھتی آرہی ہے ادھر سانپ مارا ادھر بڑی زور کی گرج سنائی دی اور پھر بجلی اور اس کے ساتھ ہی اس کی ایسی کڑک سنائی دی جیسے چٹان ٹوٹ پھوٹ گئی ہو سب کے دل دہل گئے گھوڑے جو سکون میں آگئے تھے پھر بدکنے لگے
بجلی رہ رہ کر چمکتی اور کڑکتی تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ بجلیوں کو اس کالے ناگ کی موت پر غصہ آگیا ہو آسمان بڑی تیزی سے تاریک ہونے لگا اور گھٹا دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کے خوبصورت بادلوں کے ٹکڑوں کو نگلتی آگے ہی آگے بڑھتی گئی اور جب بارش شروع ہوئی تو لگتا تھا گھٹا کا سینہ پھٹ گیا ہو ایسی موسلادھار بارش کے ایک ہاتھ دور کچھ نظر نہیں آتا تھا اور جل تھل ہوگیا
وہاں بارش سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ابو جندل نے انھیں بتایا کہ یہاں غار ہے لیکن خاصا آگے ہے جہاں تک ہم اتنی جلدی نہیں پہنچ سکیں گے اتنی دیر میں یہ گھٹا آگے نکل جائے گی وہیں کھڑے رہے اور بارش کے قطرے ان پر اس طرح پڑتے رہے جیسے کوئی کنکریاں مار رہا ہو
یہ سانپ کسی کی بدرو معلوم ہوتی ہے ایک سپاہی نے کہا اسے تیر لگا ہی تھا کہ ہم پر یہ طوفان ٹوٹ پڑا
کسی وہم میں نہ پڑو میرے دوستو! ابو جندل نے کہا میں اس علاقے میں سے اتنی بار گزرا ہوں کہ مجھے یاد ہی نہیں رہا اور یوں لگتا ہے جیسے یہ میری زندگی کا راستہ ہے ڈرو نہیں بارش تھم جائے گی
میں نے اتنی تیز بارش پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی شمشیرابلاک نے کہا
شمشیر بھائی! ابو جندل نے اسے بڑی ہی دھیمی آواز میں کہا جیسے وہ کوئی راز کی کوئی بات کہہ رہا ہو میں ڈرانا نہیں چاہتا لیکن یہ سن لو کہ یہ کالا سانپ اور یہ کالی گھٹائوں کڑکتی ہوئی بجلیاں اچھا شگون نہیں خدا کرے ہماری مہم کامیاب ہوجائے لیکن سفر کی ابتدا اچھی نہیں ہوئی
میں دعا کروں گا شمشیر ابلک نے کہا خدا ہمیشہ میری دعا سن لیا کرتا ہے
تم پہلے کی باتیں کرتے ہو ابو جندل نے کہا اب خدا تمہاری نہیں سنے گا اب کوئی مصیبت آپڑے تو مجھے بتاؤ یا خود اس کا مقابلہ کرو تم خدا کے راستے سے ہٹ گئے ہو اب میری طرح زندگی گزارو
ڈیڑھ دو گھنٹوں بعد بارش تھمنے لگی تو گھٹا کچھ تو بکھر گئی اور باقی جو تھی وہ آگے نکل گئی کم ہوتے ہوتے بارش روک گئی اور ان لوگوں نے چلنے کا ارادہ کیا لیکن وہاں پانی ہی پانی جمع ہوگیا تھا یہ جگہ کشادہ تو تھی لیکن دو چٹانوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے دریا بن گئی تھی، سب گھوڑوں پر سوار ہوئے اور چل پڑے
آگے گئے تو جگہ تنگ ہوتی چلی گئی کیونکہ دونوں طرف ہی چٹانیں ایک دوسرے کے قریب آگئی تھیں وہاں پانی اس طرح آ رہا تھا جیسے سیلابی دریا ہو پانی کا بہاؤ بڑا ہی تیز تھا ابوجندل نے کہا کہ یہ پانی گہرا نہیں ہے کہ اس میں کوئی ڈوب جائے لیکن گھوڑوں کے لیے اس میں چلنا خاصا مشکل ہوگا
گھوڑے یوں تو آگے بڑھتے جارہے تھے پانی کا زور زیادہ ہی ہوتا جا رہا تھا اور نظر ایسی ہی آتا تھا کہ گھوڑے آگے نہیں جا سکیں گے لیکن پانی کم ہونے لگا اور آگے جگہ بھی ذرا کھلی سی آ گئی جس سے پانی پھیل گیا اور گھوڑے نکل گئے
یہ پتھریلا اور چٹانیں علاقہ ختم ہونے ہی میں نہیں آرہا تھا چٹانوں کے درمیان چلتےچلتے آدھا دن گزر گیا اور آگے جاکر ان دو چٹانی پہاڑیوں میں جن کے درمیان وہ جا رہے تھے راستہ ہی نہ رہا کیونکہ دونوں پہاڑیاں آگے جاکر مل گئی تھیں ابوجندل اس راستے سے واقف تھا وہ آگے آگے جا رہا تھا اس نے اپنا گھوڑا دائیں طرف کرلیا اور پہاڑی کے دامن میں چلا گیا وہاں کوئی راستہ نہیں تھا لیکن گھوڑے پہاڑی چڑھ سکتے تھے ابو جندل کا گھوڑا پہاڑی چڑھنے لگا لیکن سیدھا اوپر جانے کی بجائے پہلو کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا باقی گھوڑے اس کے پیچھے پیچھے قطار میں جا رہے تھے
شمشیر ابلک اور اس کے سپاہیوں کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا وہ فوج کے آدمی تھے اور فوجی گھوڑسواری کی مہارت رکھتے تھے لیکن ایسی گھوڑسواری انہوں نے کم ہی کبھی کی تھی پہاڑی پتھریلی تھی اور گھوڑوں کے پاؤں پھسلتے تھے اوپر جاتے جاتے وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں گھوڑا بمشکل پاؤں رکھ سکتا تھا یہ اس پہاڑی کا ایک حصہ تھا جو اس کے سامنے تھا یوں لگتا تھا جیسے بہت اونچی دیوار ہے اور گھوڑے اس دیوار پر جا رہے ہوں یا اس طرح جیسے بازیگر رسّے یا تار پر چلا کرتے ہیں کسی گھوڑے کا پاؤں ذرا سا پھسل جاتا تو دائیں یا بائیں سوار سمیت لڑھکتا ہوا دور نیچے جا پہنچتا اور سوار کی ہڈی پسلی ایک ہو جاتی زیادہ مشکل دونوں لڑکیوں کو پیش آ رہی تھی انہوں نے گھوڑ سواری تو کئی بار کی تھی لیکن وہ اتنی ماہر نہیں تھیں
دائیں بائیں مت دیکھو ابوجندل نے آگے چلتے ہوئے بلند آواز سے کہا یہ سمجھو کہ گھوڑے میدان میں چلے جارہے ہیں ورنہ ڈر سے کانپتے کانپتے گھوڑے سے گر پڑو گے
یوں لگتا تھا جیسے سوار نہیں بلکہ گھوڑے ڈر رہے ہوں وہ تو پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے اور ان کے جسموں کی حرکت بتا رہی تھی کہ گرنے سے ڈر رہے ہیں اور شاید آگے جانے سے انکار ہی کر دیں
کسی کا گھوڑا رک جائے تو لگام کو جھٹکا نہ دینا ابو جندل نے ایک اور اعلان کیا ایسا نہ ہو کہ گھوڑا بدک کر پاؤں دائیں یا بائیں رکھ دے
آخر اس پہاڑی کی یہ چوٹی ذرا چوڑی ہونے لگی لیکن اب بھی ہموار نہیں تھی اس لیے گھوڑوں کے پاؤں پھسلتے تھے آگے جاکر یہ چوٹی زیادہ چوڑی ہوگئی اور اب گھوڑے دوسری پہاڑی پر چڑھ رہے تھے خطرناک حصہ ختم ہوگیا تھا اور اب جہاں گھوڑے چل رہے تھے یہ خاصی چوڑی جگہ تھی اور یہ پچھلا پہاڑ تھا جس کے اوپر جاکر آگے نیچے اترنا تھا
یہ قافلہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گیا اور ابو جندل نے گھوڑا روک لیا وہاں اوپر اتنی لمبی اور چوڑی جگہ تھی کہ سبھی گھوڑے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوگئے نیچے دیکھا تو بڑا ہی خوبصورت منظر نظر آیا ہرا بھرا جنگل تھا درختوں کی چوٹیاں نظر آرہی تھیں اور اودے اودے بادل منڈلا رہے تھے مغرب کی طرف سورج کچھ نیچے چلا گیا تھا اور اس کی کرنیں درختوں پر پڑتی تھیں تو بارش کے قطرے چمکتے تھے کسی آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اس خوبصورت منظر کے دائیں بائیں ذرا اونچی پہاڑیاں تھیں لیکن بہت ہی دور دور ان پر بھی سبزہ اور درخت تھے
سبحان اللہ! شمشیر ابلک نے بے ساختہ کہا یہ تو جنت کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے اللہ نے اس خطے کو کیسا حسن بخشا ہے
اللہ کا دیا ہوا یہ حسن بڑا ہی خطرناک ہے شمشیر بھائی! ابوجندل نے کہا یہاں سے دیکھنے سے تو یہ جنت کا ٹکڑا ہی لگتا ہے اور یہ کوسوں دور تک پھیلا ہوا ہے لیکن اس میں وہ شیر پایا جاتا ہے جس پر لمبی لمبی دھاریاں ہوتی ہیں اس میں بھیڑیئے بھی ہوتے ہیں جو اکیلے دکیلے نہیں بلکہ آٹھ آٹھ دس دس کے گروہ میں حملہ کرتے ہیں
یہاں اپنی برچھیاں اور تلواریں تیار رکھنا اس خطے کے اندر کوئی آبادی نہیں آبادیاں بہت دور ہیں یہاں کبھی کوئی شکاری بھی نہیں آیا اس لیے شیروں کی تعداد بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی
پہاڑی سے اترنا چڑھنے سے زیادہ خطرناک لگتا تھا گھوڑے آخر اتر گئے اور اس خوبصورت خطے میں داخل ہوگئے ہر طرف پانی ہی پانی تھا سورج غروب ہونے کے لئے اوپر تک پہنچنے ہی والا تھا اور ان لوگوں نے دن بھر کچھ کھایا پیا نہیں تھا وہاں کوئی خشک جگہ نظر آتی نہیں تھی لیکن ابوجندل ان علاقوں سے واقف تھا اس لیے وہ ذرا سا بھی پریشان نہیں لگتا تھا اس نے اپنے قافلے سے کہا کہ اب دن اور رات کا کھانا ایک ہی بار کھائیں گے اور ایک جگہ مجھے معلوم ہے جہاں ہم رات آرام بھی کریں گے
وہ چلتے چلے گئے جنگل کچھ گھنا ہوتا جا رہا تھا اور اب جو زمین آ گئی تھی اس میں اونچے نیچے ٹیلے تھے اور گھاٹیاں بھی تھیں کئی نشیبی جگہوں پر پانی بھرا ہوا تھا ایک جگہ بائیں طرف ایک دیوار کی طرح اونچا چلا گیا تھا اور اس کی شکل نیم دائرے جیسی تھی اس کے واسطے میں ایک غار صاف نظر آرہا تھا جس کے آگے مٹی کا ڈھیر بن گیا تھا اس کے سامنے پانی جمع تھا جو زیادہ لمبائی چوڑائی میں نہیں تھا
وہ غار دیکھتے ہو ابوجندل نے آگے آگے جاتے پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہا وہاں شیر رہتے ہیں اور اسے کچھار کہتے ہیں ہو سکتا ہے اس وقت شیر اندر موجود ہو وہ ایک بھی ہوسکتا ہے اور ایک سے زیادہ بھی
کیا شیر ہم اتنے آدمیوں پر حملہ کرے گا؟
شمشیر ابلک نے پوچھا
اگر بھوکا ہوا تو ابوجندل نے کہا شیر کا پیٹ بھرا ہوا ہو تو اس کے قریب سے گزر جاؤں تو بھی وہ کچھ نہیں کرے گا
اس وقت یہ سب اس ترتیب میں جارہے تھے کہ ابو جندل سب سے آگے تھا اس کے پیچھے دونوں لڑکیوں کے گھوڑے تھے پھر شمشیر ابلک کا گھوڑا تھا اور اس کے پیچھے سپاہی تھے تین گھوڑوں کی زینوں کے ساتھ تین فالتو گھوڑوں کی رسیاں بندی ہوئی تھیں اور وہ پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے ابوجندل ابھی انہیں بتا ہی رہا تھا کہ شیر بھوکا نہ ہوا تو وہ حملہ نہیں کرتا کہ پیچھے سے زبردست آوازیں سنائی دیں جن میں ایک یہ تھی کہ ایک گھوڑا بہت ہی بری طرح ہنہنایا اور اس کے ساتھ ہی غراہٹ سنائی دی تھی سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بڑا ہی خوفناک منظر نظر آیا ایک دھاری دار شیر نے آخری خالی گھوڑے پر حملہ کردیا تھا اور شیر کی پوزیشن یہ تھی کہ اس نے اوپر سے گھوڑے کی گردن اپنے منہ میں لے رکھی تھی اور اسے جھنجھوڑ رہا تھا یہ گھوڑا ایک سپاہی کے گھوڑے کے پیچھے بندھا ہوا تھا سپاہی کا گھوڑا ڈر کر دوڑ پڑا لیکن شیر نے اس کے ساتھ بندھے ہوئے گھوڑے کو بڑی مضبوطی سے دانتوں میں جکڑ رکھا تھا
شمشیر ابلک نے نہایت پھرتی سے اپنا گھوڑا پیچھے موڑا اور ایڑ لگادی سپاہیوں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں شمشیر ابلک نے سپاہی کے ہاتھ سے برچھی چھین لی اور شیر کے قریب سے گزرتے پرچھی پوری طاقت سے ماری جو شیر کی پیٹھ میں اتر گئی گھوڑے کی گردن سے شیر کے دانت اکھڑ گئے اور شیر پیٹھ کے بل گرا
شمشیرابلک نے آگے جاکر گھوڑا روکا اور پیچھے کو موڑا شیر ایک ہی پرچھی کے وار سے نہیں مارا کرتا زخمی ہوکر وہ آخری وار کیا کرتا ہے شیر پرچھی کا زخم کھا کر پیٹھ کے بل گرا اور تیزی سے اٹھا شمشیرابلک نے برچھی اس کی پیٹھ سے نکال لی تھی شیر زخمی حالت میں بہت ہی خطرناک ہوتا ہے شیر نے شمشیر ابلک کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس پر جھپٹنے کے لئے دوڑا لیکن ایک سپاہی نے اپنے گھوڑے کو موڑ کر اس کے قریب پہنچ چکا تھا اس نے شیر کو برچھی ماری جو اس کی گردن میں اتر گئی ادھر سے شمشیر ابلک نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور شیر کے قریب سے گزرتے اسے برچھی ماری اس وقت شیر پہلو کے بل ہو گیا تھا شمشیر ابلک کی برچھی اس کے پہلو میں داخل ہوگئی شمشیر ابلک نے برچھی کھینچ لی اور آگے جاکر گھوڑا پھر موڑا لیکن اتنے میں دوسرے سپاہیوں نے برچھیوں سے شیر کو بے بس کردیا اور شیر اٹھ نہ سکا
جس گھوڑے پر شیر نے حملہ کیا تھا وہ ٹھیک حالت میں معلوم نہیں ہوتا تھا وہ زخمی بھی ہو گیا تھا اور خوفزدہ اتنا کہ بھاگنے کے لیے رسی چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا ابو جندل نے آکر اس کی رسی کھول دی گھوڑا اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ایک طرف سرپٹ دوڑ پڑا
گھوڑوں کے متعلق تو تم سب کچھ ضرور جانتے ہوں گے ابوجندل نے کہا لیکن تم شاید دیکھ ہی نہیں سکے کہ یہ گھوڑا اب ہمارے کام کا نہیں رہا اس کی گردن کی ہڈی اگر ٹوٹی نہیں تھی تو ہل ضرور گئی تھی تم نے دیکھا نہیں گھوڑا گردن اوپر نہیں اٹھا رہا تھا اور پھر یہ اتنا ڈر گیا تھا کہ ہم اسے ساتھ رکھتے تو ہمارے لئے مصیبت بنا رہتا جانے دو اسے
گھوڑا تھا تو خوفزدہ ہی لیکن خوفزدگی کی سب سے زیادہ شکار وہ لڑکیاں ہوئی تھیں جو تھر تھر کانپ رہی تھیں وہ موت سے ڈرنے والے نہیں تھے اور ابو جندل ایسا مرد تھا جو ان جنگلوں میں سے اکثر گزرا تھا اور وہ ڈاکو تھا جو زندگی اور موت کا کھیل نہ جانے کب سے کھیل رہا تھا ابوجندل انہیں کچھ اور آگے لے گیا اور ایسی جگہ جا کر روکا جہاں ایسا ہی ایک ٹیلا تھا اور ٹیلے کے اندر کسی نے کھدائی کرکے چوکور سا کمرہ بنا رکھا تھا اور یہ مسافروں کے رکنے اور قیام کرنے کے کام آتا تھا ابو جندل نے انہیں بتایا کہ اس علاقے میں سے کبھی کوئی مسافر نہیں گزرا قافلوں کے راستے بہت دور تھے ان علاقوں میں قافلوں کو لوٹنے والے ہی آیا کرتے تھے
وہ اس جگہ رک گئے اور کھانا کھانے لگے سورج غروب ہوگیا اور شام کا دھندلکا رات کے اندھیرے میں تبدیل ہوگیا تب انہوں نے مشعلیں جلا کر اس غار کے سامنے زمین میں گاڑ دی یہ مشعلیں روشنی کے لیے نہیں بلکہ درندوں کو ڈرانے اور انہیں دور رکھنے کے لئے باہر گاڑی گئی تھیں
ایک بات بتاؤ ابوجندل! شمشیر ابلک نے پوچھا تم نے اپنا خزانہ ایسی جگہ کیوں رکھا ہوا ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے موت کے منہ میں داخل ہونا پڑتا ہے
خزانے ایسی ہی جگہوں پر رکھے جاتے ہیں ابوجندل نے جواب دیا اگر اتنے زیادہ زروجواہرات اور اتنی زیادہ رقم گھروں میں رکھی جائے یا آبادیوں کے قریب کہیں زمین کے اندر چھپا دی جائے تو ڈاکو اس سے واقف ہوجاتے ہیں اور پھر خزانے کے مالک کی زندگی دو چار دن ہی رہ جاتی ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کا خزانہ قاتل لے اڑتے ہیں
پرانے زمانے کی کہانیوں میں بادشاہوں اور ڈاکوؤں کے متعلق یہ ضرور پڑھا یا سنا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ یا فلاں ڈاکو نے فلاں جگہ اپنا خزانہ دبا کر رکھ دیا تھا ان کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ خزانے ایسی جگہوں پر لے جاکر چھپائے جاتے تھے جہاں تک پہنچنا بعض اوقات ناممکن ہوجاتا تھا بحری قزاق تو اپنے خزانے اور ہی زیادہ دشوار گزار علاقوں میں لے جا کر کہیں چھپایا کرتے تھے کیونکہ ان کی زندگی سمندر میں گزرتی تھی لوٹ مار کر کے کبھی کبھی خشکی پر آیا کرتے تھے
خزانوں کے مالک اکثر اس جگہ تک راستے کا نقشہ بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے جس جگہ وہ خزانہ دباتے تھے بعض اوقات مالک مر جاتا اور نقشہ کسی اور کے ہاتھ چڑھ جاتا تو وہ اس خزانے تک پہنچنے کی کوشش کرتا تھا ایسے مدفون خزانوں کے متعلق پراسرار کہانیاں بھی سنائی جاتی ہے جو غلط معلوم نہیں ہوتیں عام طور پر کہانیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مالک خود یا اس کے بعد کوئی اور خزانہ نکالنے گئے تو وہاں ان پر ایسی مصیبت نازل ہوئی کہ وہ مارے گئے یا آپس میں لڑ پڑے اور انہوں نے ایک دوسرے کو ختم کردیا
ان کہانیوں کو فرضی اور افسانوی سمجھا جاتا رہا ہے اور ان میں اکثر افسانوی ہی ہوا کرتی ہیں لیکن ابوجندل اور شمشیر ابلک کی کہانی کو تاریخ میں جو مقام ملا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کم ازکم یہ ایک سچی کہانی ہے اسے حسن بن صباح کے دور کی ایک اہم واردات بناکر غالباً اس لئے تاریخ میں شامل کیا ہے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ مال و دولت اور عورت کی چوکا چوند اچھے بھلے مرد مومن کو کن رفعتوں سے گرا کر پستیوں میں غائب کر دیتی ہے
رات وہاں گزار کر صبح وہ چل پڑے اور آدھا دن گزر جانے کے بعد ایک سیلابی ندی نے ان کا راستہ روک لیا ابو جندل نے انہیں بتایا کہ وہ ایسے وقت یہاں پہنچے ہیں جب ندی میں سیلاب آیا ہوا ہے ورنہ یہ ندی تو بڑی خوبصورت اور پیاری ہے اس کا پانی شفاف اور کم گہرا ہوتا ہے جس میں گھوڑے تو کیا آدمی بھی آسانی سے گزر جاتے ہیں یہ کہہ کر ابو جندل نے اپنا گھوڑا ندی میں ڈال دیا یہ فوج کا گھوڑا تھا جو سیلاب سے لڑتا جھگڑتا پار چلا گیا اس کے پیچھے باقی گھوڑوں نے بھی ندی پار کر لی ندی اتنی گہری ہو گئی تھی کہ چند قدم گھوڑوں کو اس میں تیرنا پڑا تھا پار جاکر شمشیر ابلک نے اپنا گھوڑا ابوجندل کے ساتھ کرلیا
شمسیر بھائی! ابو جندل نے کہا مجھے ان جنگلوں میں گھومتے پھرتے اور ان میں سے راستہ بنانے کا اور پھر قافلے لوٹ کر انہی جنگلوں میں غائب ہو جانے کا اتنا زیادہ تجربہ ہے کہ میں ہوا میں خطرے کی بو سونگھ لیا کرتا ہوں میں انہی جنگلوں میں سے نہ جانے کتنی بار گزرا ہوں ان خطروں سے میں ہمیشہ آگاہ رہا ہوں لیکن یوں نہیں ہوا جیسے اب ہو رہا ہے نہ کبھی کسی بدروح نے میرا راستہ روکا تھا نہ کبھی شیر نے حملہ کیا تھا میں یہاں ناگ بھی دیکھتا رہا ہوں اور شیر بھی اور بھیڑیے بھی لیکن میں یہاں سے ہر بار زندہ گزر گیا ہوں یہ پہلا موقع ہے کہ سفر کی ابتدا ہی ایک بہت برے شگون سے ہوئی ہے پھر ایک شیر نے ہم پر حملہ کیا اور پھر معصوم سی ندی نے ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی
تو پھر کیا کرنا چاہیے کیا ہمیں واپس چلے جانا چاہیے یا ان خطروں میں بڑھتے ہی چلے جائیں
میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ میں پیشہ ور قزاق ہوں ابوجندل نے کہا پیشہ ور قزاقوں کے اپنے عقیدے اور اپنے وہم ہوتے ہیں ہم پر جب خطرے منڈلاتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوجاتاہے کہ یہ خطرہ ہمیں دبوچ کر ہمیں ختم کردیں گے تو ہم ایک کنواری لڑکی کی جان کی قربانی دیا کرتی ہیں لیکن یہاں میں ایسی قربانی نہیں دے سکتا اگر یہ دو لڑکیاں میرے مرے بھائی کی بیٹیاں نہ ہوتیں تو میں ان میں سے ایک کی قربانی دے دیتا میں اسے بہتر یہ سمجھتا ہوں کہ منزل تک پہنچ جاؤں اور ضرورت پڑے تو اپنی جان کی قربانی دے دوں میں اس لیے خبردار کر رہا ہوں کے ہر وقت چوکس اور چوکنے رہنا معلوم نہیں کس وقت کیا ہو جائے اس جنگل کے حسن کو ہی نہ دیکھتے رہنا تم نے جس طرح شیر مار لیا تھا اس طرح ہر خطرے پر قابو پا لو گے رات کو بھی اس طرح بیدار رہنا جیسے تمہاری ایک آنکھ کھلی ہوئی ہو رات کو مجھ پر بھروسہ نہ کرنا تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں رات حشیش پی کر سوتا ہوں اور مجھے اس دنیا کی کوئی ہوش نہیں رہتی
اس رات اس قافلے نے ایسی جگہ پڑاؤ کیا کہ ان پر چند ایک درختوں کا سایہ اور اوپر آسمان تھا وہ الگ الگ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سوئے آدھی رات سے کچھ پہلے شمشیر ابلک کو ایک لڑکی نے جگایا وہ ہڑبڑا کر اٹھا جیسے کوئی خطرہ آگیا ہو لڑکی نے کہا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں اور وہ اس کے ساتھ تھوڑی دور تک چلے وہ اٹھا اور اس کے ساتھ چل پڑا چند قدم دور اس لڑکی کی دوسری بہن ایک درخت کے تنے کی کوکھ میں بیٹھی ہوئی تھی یہ دونوں بھی اس کے قریب بیٹھ گئے اس کا ایک ہاتھ ایک لڑکی نے اور دوسرا دوسری لڑکی نے پکڑ لیا دونوں لڑکیوں نے اس کے ہاتھ چومے
ہمارے چچا سے نہ ڈرو ایک لڑکی نے کہا وہ حشیش پی کر سوتا ہے اور صبح ہوش میں آتا ہے ہم دونوں صرف یہ بتانا چاہتی ہیں کہ ہم باقی عمر تمہارے ساتھ گزارے گی ہمیں لونڈیاں بنا کر رکھ لو چاہے شادی کر لو اور اگر تم ہمیں داشتہ بنا کر رکھو گے تو بھی ہمیں منظور ہے ہم اپنے چچا کو اپنی ذمہ داری سے آزاد کرنا چاہتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تم نے ہمارے دل جیت لیے ہیں
تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں تم دونوں کی خاطر تمہارے چچا کے ساتھ آیا ہوں شمشیر ابلک میں کہا ورنہ اس شخص پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا
لیکن ہمیں ایک ڈر ہے دوسری لڑکی نے کہا تمہیں جب خزانہ مل جائے گا تو تم ہمیں بھول جاؤ گے
ایسا نہیں ہوگا شمشیرابلک نے کہا میں ڈرتا ہوں کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے جاؤ
دونوں لڑکیوں نے بڑے ہی والہانہ انداز سے محبت کا اظہار کیا ان کا رویہ ایسا تھا جیسے دونوں نے اپنا آپ اس کے حوالے کردیا ہو شمشیرابلک کی ایک ہی بیوی تھی جس سے اس کے تین بچے تھے اور اس کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی اس پر تو دونوں لڑکیوں نے خود فراموشی کی کیفیت طاری کردی ابوجندل تو حشیش کے نشے میں گہری نیند سویا ہوا تھا شمشیرابلک پر ان لڑکیوں کے حسن کا اور ان کی جوانی کا نشہ طاری ہوگیا
اس نے چاہا کہ باقی رات یہ لڑکیاں اسی طرح اس کے پاس بیٹھی رہیں اور وہ ان کے نشے میں بدمست ہوتا چلا جائے اس کے ذہن میں اگر ابوجندل کے خلاف کچھ تھوڑا سا شک رہ گیا تھا تو وہ ان دونوں لڑکیوں نے صاف کر دیا
لڑکیاں چلی گئی اور شمشیر ابلک کچھ دیر وہیں بیٹھا ان لڑکیوں کے طلسماتی خیال میں کھویا رہا اس سے پہلے سفر کے دوران یہ لڑکیاں اسے دیکھ دیکھ کر اس طرح مسکراتی رہیں تھیں جیسے وہ اسے بہت پسند کرتی ہوں اور اس کے ساتھ الگ تنہائی میں بیٹھنا چاہتی ہوں ان کا یہی انداز شمشیر ابلک کو دیوانہ بنائے ہوئے تھا مگر اب لڑکیاں رات کی تاریک تنہائی میں اس کے پاس آبیٹھیں اور اس کے اتنا قریب ہو گیں کہ وہ ان کے جسموں کی بو سونگھ سکتا تھا تو وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا
کہیں قریب سے ہی اسے بھیڑیوں کی لمبی ہو کی آوازیں سنائ دیں یہ آواز اچانک اٹھی تھی اور تمام بھیڑیے ایک ہی بار بولنے لگے تھے شمشیر ابلک بیداری کے خواب سے یکلخت ہڑبڑا کر بالکل ہی بیدار ہوگیا اور اٹھ کھڑا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا اس جگہ جا پہنچا جہاں وہ سویا ہوا تھا وہاں لیٹا اور اس نے باقی رات جاگتے گزار دی
=÷=÷=÷÷۔=÷=÷=÷=÷
صبح ابھی دھندلکی تھی جب یہ قافلہ جاگا اور بڑی تیزی سے سامان سمیٹ کر اور گھوڑوں پر زین ڈال کر چل پڑا جوں جوں صبح کا اجالا نکلتا آرہا تھا زمین کے خدوخال بدلتے جارہے تھے درخت بہت کم ہوگئے تھے اور گھاس بھی کم ہوتی جا رہی تھی اور تھوڑی ہیں دور آگے زمین ایسی آ گئی جیسے نہ جانے کتنی مدت سے پانی کی بوند کو ترس رہی ہو درخت تو کہیں کہیں نظر آتے تھے اور یہ درخت بلکل خشک تھے جن کی ٹہن تو تھے لیکن ٹہنیاں نہیں تھی جھاڑیاں بالکل خشک اور خاردار تھیں زمین کٹی پھٹی تھی کہیں زمین ابھری ہوئی تھی اور کہیں نشیب میں چلی جاتی تھی اور کہیں ٹیلے یوں کھڑے تھے جیسے زمین پر گڑے ہوئے مخنی اور بھدے اور بدصورت سے ستون ہوں، زمین پر کسی گھوڑے یا اونٹ یا کسی انسان کا تازہ پرانا نقش پا نہ تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے کبھی کوئی نہیں گزرا اور یہ پہلے انسان ہیں جو اس طرف آ نکلے ہیں
یہ ہے صحرا کا اصل خطرہ ابو جندل نے اپنے ساتھیوں کو بتایا نا واقف مسافر ان ڈھیروں میں داخل ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ ان میں سے نکل جائے گا لیکن انکے اندر ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ بعض مسافر ان ڈھیروں میں سے دو تین کے اردگرد ہی گھومتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت فاصلے طے کرلیا ہے لیکن وہ وہیں کے وہیں ہوتے ہیں حتیٰ کہ پیاس اور پھر بھوک انہیں وہیں گرا لیتی ہے اور ریت ان کے جسموں سے زندگی کا رس چوس لیتی میں ان سے واقف ہون اس لئے میں جب بھی ادھر آیا ہوں دور کا چکر لگا کر گیا ہوں
ابوجندل انہیں ایک طرف لے گیا اس طرف زمین اوپر ہی اوپر اٹھتی جا رہی تھی نظر تو یوں آتا تھا جیسے یہ زمین پکی ہے اور پاؤں کے نیچے مٹی ہے لیکن جب پاؤں رکھتے تھے تو ریت میں دھنس جاتا تھا بلندی پر جاکر ریت کی ان ڈھیریوں کو دیکھا تو وہ میل واسعت میں پھیلی ہوئی تھیں ابوجندل اپنے قافلے کو دور دور سے نکال کر آگے لے گیا
سورج سر پر آ گیا تو آگے یوں نظر آتا تھا جیسے زمین جل رہی ہو اور اس سے شعلے اٹھ رہے ہوں ان میں سے آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا کیونکہ یہ شفاف سے شعلے جھلمل کرتے تھے قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا تھا یہ جھلملاتے ہوئے شعلے بھی آگے بڑھتے جارہے تھے
پیاس ایک قدرتی امر ہے ابو جندل نے پچھلے پڑاؤ سے روانگی سے پہلے ہی پانی کا ذخیرہ چھوٹے چھوٹے مشکیزوں میں بھر لیا تھا ہر گھوڑے کے ساتھ ایک مشکیزہ بندھا ہوا تھا سب نے پانی پیا اور چلتے چلے گئے
ابو جندل نے انہیں بتایا کہ یہ ریگستانی خطہ شام سے پہلے ختم ہو جائے گا اور کچھ ہی دور آگے ایک نخلستان آئے گا یہاں رک کر کھانا کھائیں گے اور تھوڑا سا آرام کر کے آگے چلے جائیں گے
سورج جب مغرب کی طرف چلا گیا تو دور سے کھجور کے درخت نظر آنے لگے گھوڑے پیاس سے بے چین ہوئے جارہے تھے اور تھک بھی گئے تھے کیونکہ ان کے قدم ریت میں دھنس رہے تھے آخر نخلستان آہی گیا وہاں پانی کا چھوٹا سا تالاب تھا اور کھجور کے درختوں کی اتنی افراط کے سایہ ہی سایہ تھا حالاں کہ کھجور کے درخت کا سایہ بیکار ہوتا ہے، گھوڑے سواروں کے اترتے ہی پانی کی طرف دوڑ پڑے اور پانی پینے لگے
قافلے نے کھانا کھایا پانی پیا اور تھوڑا سا آرام کر لیا گھوڑے پانی پی چکے ہی یہ لوگ اٹھے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل پڑے گھوڑے تو تھکے ہوئے لگتے ہی تھے لیکن ان کے سواروں کے چہروں سے پتہ چلتا تھا کہ خزانے کا لالچ نہ ہوتا تو وہ وہیں تھکن سے گر پڑتے اور گہری نیند سو جاتے ان کے جسم تو جیسے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے زیادہ بری حالت لڑکیوں کی تھی ابوجندل انہیں اچھی اچھی اور پر امید باتیں سناتا جا رہا تھا تاکہ یہ لوگ ذہنی طور پر بیدار اور مستعد رہیں
آگے پھر ویسا ہی صحرا تھا لیکن کچھ آگے جاکر ریت مٹی میں تبدیل ہونے لگی تھی اور دو اڑھائی میل دور ہرے بھرے درخت نظر آنے لگے تھے ابوجندل آگے آگے جا رہا تھا اس نے اچانک لگام کھیچ کر گھوڑا روک لیا اور ایک ہاتھ بلند کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ سب رک جائیں وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور چند قدم آگے جا کر زمین پر جھک گیا شمشیر ابلک بھی گھوڑے سے اترا اور اس تک پہنچا
دیکھو شمشیر! ابوجندل نے زمین کی طرف اشارہ کرکے کہا کیا تم کہہ رہے ہو کہ یہ گھوڑوں کے نشان نہیں ؟
ہاں ابوجندل! شمشیرابلک نے کہا یہ بلاشبہ گھوڑوں کے نشان ہیں اور یہ نشان پرانے نہیں ایک دو روز پہلے کے لگتے ہیں
ابوجندل اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اس طرف کچھ دور تک چلا گیا جدھر سے یہ گھوڑے آرہے تھے کھروں کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے کہ گھوڑے کدھر سے آئے ہیں اور کدھر گئے ہیں ابوجندل رک گیا شمشیرابلک بھی گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے پیچھے چلا گیا تھا
ادھر سے عام لوگ نہیں گزرا کرتے ابوجندل نے کہا ادھر کسی فوج کے گھوڑسوار نہیں آ سکتے یہ خطہ سلطانوں اور بادشاہوں اور اماموں کی دنیا سے بہت دور ہے میں کہا کرتا ہوں کہ اس خطے پر خدا کا قہر برستا رہتا ہے ادھر سے کوئی مجھ جیسا قزاق اور ڈاکو ہی گزر سکتا ہے ہمیں اب زیادہ ہوشیار ہو کر آگے جانا پڑے گا
وہ قافلے کے باقی افراد کو لے کر آگے چل پڑے اور سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ وہ پھر ہرے بھرے خطے میں داخل ہوگئے ابوجندل اور شمشیرابلاک راستے میں زمین کو دیکھتے آئے تھے کہ قدموں کے اور نشان بھی ملیں گے، نشان ملے تھے لیکن وہ دوسری طرف چلے گئے تھے
انھوں نے اس سرسبز جگہ پر رات کو پڑاؤ کیا زمین خشک تھی اور گھاس بڑی ملائم اور نرم تھی ابو جندل نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ چاروں رات کو اس طرح پہرا دیں کہ ایک آدمی پہرے پر کھڑے رہے اور دوسرے باری باری پہرا دیں اس نے یہ بھی کہا کہ جو بھی پہرے پر کھڑے ہو اس کے پاس کمان اور ترکش ضرور ہونے چاہیے ابوجندل خطرہ محسوس کر رہا تھا جس کی نشاندہی گھوڑوں کے ان قدموں کے نشانوں نے کی تھی جو اس نے دیکھے تھے
کھانے کے بعد وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہیں اور جب سونے لگے تو ایک سپاہی پہرے پر کھڑا ہوگیا اس نے ایک جگہ کھڑا ہی نہیں رہنا تھا انہوں نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں آمنے سامنے دو ہری بھری ٹھیکریاں تھیں اور ایک ٹیکری آگے تھی
پہلے والے سپاہی کو بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے پہرے کے دوران ان ٹیکریوں کے پیچھے بھی جائے اور اوپر جا کر بھی دیکھے اور پوری طرح بیدار رہے
چاروں سپاہیوں نے باری باری رات بھر گھوم پھر کر پہرہ دیا اور صبح کا اجالا آہستہ آہستہ نکلنے لگا آخری سپاہی جو پہرے پر تھا وہ اب ایک ٹیکری کے پیچھے تھا اسے غالبا معلوم تھا کہ اس کے ساتھی دیر سے جاگیں گے اس لیے اس نے پہرے پر ہی رہنا بہتر سمجھا
اسے ٹیکری کے اس طرف جدھر اس کے ساتھی سوئے ہوئے تھے کچھ آوازیں اور آہٹیں سی سنائی دیں وہ سمجھا کہ اس کے ساتھی جاگ اٹھے ہیں وہ آہستہ آہستہ چلتا ٹیکری کے سرے پر آیا جہاں ٹیکری ختم ہوتی تھی وہاں دو چوڑے تنوں والے درخت تھے اس نے جب اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی اور ہی منظر نظر آیا آٹھ آدمی تھے جنہوں نے منہ اور سر سیاہ پگڑیوں میں لپیٹ رکھے تھے انہوں نے لمبے چغے پہن رکھے تھے جو ان کے گھٹنوں تک گئے ہوئے تھے آٹھ گھوڑے کچھ دور کھڑے گھاس کھا رہے تھے
دو آدمیوں نے دونوں لڑکیوں کو پکڑ رکھا تھا اور باقی آدمیوں نے تلواریں ہاتھوں میں لے رکھی تھی اور ہر ایک نے تلوار کی نوک ایک ایک آدمی کی شہ رگ پر رکھی ہوئی تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ کوئی ڈاکو تھے جنہوں نے اس قافلے کو نیند میں دبوچ لیا تھا اور انہیں ہتھیار اٹھانے کی مہلت نہیں دی تھی وہ لڑکیوں کو لے جانا چاہتے تھے جس میں کوئی شک ہی نہیں تھا وہ ابوجندل اور شمشیرابلک سے کچھ پوچھ رہے تھے لڑکیاں ان دونوں آدمیوں کی گرفت میں تڑپ رہی تھیں
پہرے والے سپاہی نے اپنے کمان میں ایک تیر ڈالا فاصلہ بیس بائس گز ہوگا اس نے تیر کھینچ کر جو چھوڑا تو وہ ایک آدمی کی گردن میں اتر گیا اس آدمی نے ایک لڑکی کو پکڑ رکھا تھا اس نے فوراً لڑکی کو چھوڑا اور اپنی گردن پر دونوں ہاتھ رکھے
سپاہی نے بڑی تیزی سے کمان میں دوسرا تیر ڈالا اور جس آدمی نے دوسری لڑکی کو پکڑا ہوا تھا اس کو نشانے میں لے کر تیر چھوڑ دیا اس کا نشانہ بے خطا تھا تیر اپنے شکار کے گال کے ایک طرف لگا اور دوسری طرف باہر ہوگیا اس نے بھی لڑکی کو چھوڑا اور اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لئے
سپاہی نے اسی تیزی سے تیسرا اور چوتھا تیر چلایا اور اسکا ایک تیر بھی خالی نہ گیا یہ ڈاکو حیران ہوگئے انہیں یہ تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ تیر کس طرف سے آرہے ہیں ان کی ہڑبونگ سے قافلے والوں کو ہتھیار اٹھانے کا موقع مل گیا ادھر سے جو تیر اندازی کر رہا تھا اس نے پانچ آدمیوں کو مار لیا
تین ڈاکو بچ گئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ ابوجندل شمشیر ابلک اور باقی تین سپاہیوں نے تلوار اور برچھیاں اٹھا لی ہیں تو وہ تینوں بہت تیزی سے دوڑ پڑے ان کا تعاقب کیا گیا لیکن وہ کود کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور ایڑ لگا دی گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے اس طرح ڈاکو اپنے پانچ ساتھیوں کی لاشیں اور پانچ گھوڑے چھوڑ کر بھاگ گئے
میرے دوستو! ابوجندل نے کہا ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور بھی ہماری منزل کے قریب آ گیا ہے میں بتا نہیں سکتا کہ اب کیا ہوگا لیکن ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں البتہ پوری طرح ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے ہر وقت ہتھیار پاس ہونا چاہیے اور ایک ہاتھ اپنے ہتھیار پر رکھو گے تو خطرے کی صورت میں بچ سکو گے اور تم دونوں لڑکیاں سن لو تم کسی سلطان شہزادے کے حرم کی لڑکیاں نہیں ہو جن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے آقا کو خوش رکھیں تم میری بھتیجیاں ہو اپنے باپ کو یاد کرو وہ بڑا جری اور جابر مرد تھا تم اچھی طرح جانتی ہو اگر کوئی خطرہ آ پڑا تو مردوں کی طرح لڑنا ہے عورتوں کی طرح ڈرنا نہیں
یہ تو ہم نیند میں پکڑی گئی تھیں ایک لڑکی نے کہا میں نیند سے ہڑبڑا کر اٹھی تو ایک آدمی نے میرے بازوں پیٹھ پیچھے جکڑ دیے تھے اگر ہم دونوں بیدار ہوتیں اور ہم پر ڈاکو حملہ کرتے تو پھر تم دیکھتے کہ ہم کیا کر سکتی ہیں
ابو جندل نے انہیں کہا کہ فوراً کوچ کرو تاکہ ہم شام سے پہلے پہلے منزل پر پہنچ جائیں
سورج غروب ہونے میں ابھی دو اڑھائی گھنٹے باقی تھے جب وہ اس خطے میں پہنچ گئے جو ان کی منزل تھی
وہ بھی بے آب و گیاہ خطّہ تھا وہ ویسا ہی تھا جیسا یہ لوگ پہلے ایک جگہ دیکھ آئے تھے سیلوں والی گہری سلیٹی رنگ کی چٹانیں تھیں اور کچھ اونچی پہاڑیاں بھی تھیں اور پتھریلی ٹیکریاں بھی تھیں لیکن وہاں گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی یوں لگتا تھا جیسے ان چٹانوں اور پہاڑیوں سے آگ کی طرح سورج کی تپش خارج ہو رہی ہو ہوا بہت ہی تیز چل رہی تھی جو تیز ہی ہوتی چلی جارہی تھی یہ جب سیلوں والی چٹانوں سے ٹکرا کر گزرتی تھی تو ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دیتی تھیں جو انسانی چیخوں جیسی تھیں کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے عورتیں اور بچّے ان پہاڑیوں کے اندر کہیں کسی مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں اور چیخ چلا رہے ہیں
یہ خطّہ بھی بدروحوں کا مسکن لگتا تھا یہ سارا ماحول دل پر گھبراہٹ اور خوف کا تاثر پیدا کرتا تھا لیکن ابو جندل کا چہرہ پرسکون تھا اور اس کا انداز ایسا جیسے وہ یہاں ذرا سی بھی اجنبیت محسوس نہ کر رہا ہو
اب ذرا ہوشیار رہنا شمشیر ابلک! ابوجندل نے کہا ہمیں ادھر ادھر گھوم پھر کر اور اچھی طرح دیکھ بھال کرکے اندر جانا چاہیے تھا لیکن اتنا وقت نہیں رات آگئی تو مشعلوں کے باوجود ہمارا کام مشکل ہوجائے گا میں تم سب کو سیدھا اندر لے جا رہا ہوں اب جو ہوتا ہے ہوتا رہے مقابلہ کریں گے
بات ذرا صاف کرو ابوجندل! شمشیر ابلک نے کہا وہ خطرہ ہے کیسا جو تم محسوس کر رہے ہو مجھے الفاظ میں بتا دو تاکہ میں اس کے مطابق خود بھی تیار رہوں اور اپنے ان سپاہی ساتھیوں کو بھی تیار رکھوں
آسمان سے کوئی آفت نہیں گرے گی ابوجندل نے کہا یہ خطرہ انسانوں کا ہی ہوگا وہ جو تین آدمی زندہ نکل گئے تھے وہ کہیں دور نہیں چلے گئے یہی کہیں ہونگے اور وہ یہاں آ سکتے ہیں
آنے دو شمشیر ابلک نے کہا آنے دو انہیں اب ہم سوئے ہوئے نہیں ہونگے چلو آگے
ابوجندل آگے آگے تھا وہ چٹانوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہوگیا باقی سب پیچھے ایک قطار میں جارہے تھے اب ان کے پاس فالتو گھوڑے سات تھے وہ ڈاکووں کے گھوڑے بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے
ابوجندل کبھی دائیں مڑتا کبھی بائیں مڑتا اور یہ لوگ بھول ہی گئے کہ وہ کدھر سے آئے ہیں اور کتنے موڑ مڑچکے ہیں صرف ابوجندل راستے سے واقف تھا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ واپس کس طرح آنا ہے وہاں اندر چھوٹی بڑی بے شمار چٹانیں تھیں ان کے ساتھ اونچی پہاڑی تھی ہوا کی چیخیں اور بلند ہو گئی تھیں
آخر جگہ ایسی آگئی کہ دائیں طرف اونچی پہاڑی تھی اور اس کے دامن میں ذرا ہٹ کر لمبی چٹان تھی اور ان کے درمیان گھوڑے گزرنے کے لیے کچھ جگہ تھی پچاس ساٹھ گز آگے یہ چٹان پہاڑی کے دامن سے مل جاتی تھی اور وہاں ایک بڑی بلند چٹان نے راستہ روک لیا تھا ابو جندل آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور وہاں تک پہنچ گیا جہاں راستہ بند ہو جاتا تھا
وہ گھوڑے سے اترا اور سب کو اترنے کے لیے کہا اور یہ بھی کہ گھوڑے یہیں چھوڑ دیں آگے دیکھا کہ یہ راستہ اس طرح نیچے کو چلا گیا تھا جس طرح کسی کی عمارت کے تہہ خانے میں سیڑھیاں اترتی ہیں ابو جندل نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ مشعلیں جلا کر نیچے آ جائیں وہ شمشیر ابلک اور لڑکیاں نیچے اتر گئی اور سپاہیوں نے مشعلیں جلائی اور ان کے پیچھے پیچھے نیچے چلے گئے
وہ آٹھ دس گز نیچے چلے گئے یہ تہہ خانے کی طرح بنا ہوا ایک غار تھا جس کی چھت بیس پچیس گز اونچی تھی اور یہ غار بہت ہی کشادہ تھا
غار کی چھت سے چٹانوں کے لمبوترے اور عجیب و غریب ٹکڑے لٹک رہے تھے جونہی مشعلیں اندر داخل ہوئیں بڑی ہی زور سے ایسی آواز آئی جیسے طوفان آگیا ہو اور اس کے ساتھ چڑچڑ کی آوازیں آئیں جو ایک شوروغل کی طرح بلند ہوتی چلی گئیں یہ چمگادڑ تھے جو غار کے اندر سے اڑ کر باہر نکل گئے تھے یہ چند ایک نہیں بلکہ سیکڑوں تھے ابو جندل نے بلند آواز سے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ چمگادڑ ہیں ان سے ڈرے نہیں
اس غار کے فرش پر بھی چٹانیں تھی جس کی اونچائی دو گز یا تین گز تھی مشعلوں کی روشنی میں ایک طرف ایک اور غار کا دھانہ سا نظر آیا ابوجندل اس میں داخل ہوگیا یہ دہانہ تو اتنا کشادہ نہیں تھا لیکن اندر جاکر دیکھا غار خاصہ کشادہ ہوتا چلا جارہا تھا مشعلوں کی روشنی خاصی زیادہ تھی اور اندر کنکریاں بھی نظر آرہی تھیں
پچیس تیس قدم گئے ہونگے کہ آگے ایک اور دہانہ نظر آیا ابوجندل اس میں داخل ہوگیا اور اب یہ لوگ ایک اور غار میں چلے گئے تھے ابو جندل نے کہا کہ مشعلیں آگے لے آؤ مشعلیں آگے گئے تو سب نے دیکھا کہ وہاں تین بکس رکھے ہوئے تھے جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے اور ان پر لوہے کی مضبوط پتریاں چڑھی ہوئی تھیں
یہ لو شمشیر بھائی! ابو جندل نے کہا یہ ہے میرے باپ کی اور میری کمائی خزانہ اب صرف میرا نہیں ہم سب کا ہے اس نے سپاہیوں سے کہا مشعلیں لڑکیوں کو دے دیں اور یہ بکس اٹھائیں
سپاہی آگے بڑھ کر ایک بکس کو اٹھانے لگے تو شمشیر ابلک نے کان کھڑے کر لیے اور ابوجندل سے کہا کہ اسے باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی ہے ابو جندل نے اسے کہا کہ اس کے کان بج رہے ہیں یہاں اور کوئی نہیں آ سکتا
ابوجندل ابھی یہ بات کہہ ہی رہا تھا کہ غار میں آواز آئی ان صندوقوں سے پیچھے ہٹ جاؤ
سب نے چونک کر ادھر دیکھا ایک آدمی جس نے منہ اور چہرہ کالے رنگ کی پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا تھا سب نے تلواریں نکال لیں دیکھتے ہی دیکھتے غار میں دس بارہ آدمی آگئے ان سب کے سر اور چہرے کالی پگڑیوں میں لپٹے ہوئے تھے سب کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں
سب پیچھے کھڑے رہو دوستوں! ابوجندل نے آگے بڑھ کر ان ڈاکووں سے کہا تم زندہ ان صندوقوں تک نہیں پہنچ سکو گے اور جب تک ہم زندہ ہیں ان صندوقوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکو گے
ابوجندل! کالی پگڑی والے ایک آدمی نے کہا تم بھی ہم میں سے ہو اور ہم تمہیں جانتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ تم ہمارے ہاتھوں مرو یہ صندوق اور دو لڑکیاں یہیں چھوڑ جاؤ اور خود کو اور اپنے ساتھیوں کو زندہ لے جاؤ
او یہ تم ہو ابو جندل نے اس آدمی کو پہچانتے ہوئے کہا میرا خیال تھا کہ تم سب مارے گئے ہو یا کسی اور طرف نکل گئے ہو نہ تم ہمارے ہاتھوں مرو نہ ہم تمہارے ہاتھوں مرنا چاہتے ہیں ان صندوقوں میں جو کچھ ہے آؤ برابر برابر بانٹ لیتے ہیں
یہ مال اس کا ہے جس کے پاس طاقت ہے کالی پگڑی والے نے کہا ہم تمہیں باتوں کا وقت نہیں دیں گے ہم سارا مال لے جانے آئے ہیں
ابو جندل نے شمشیر ابلک کو اشارہ کیا اور اس کے ساتھی ان دونوں نے اور چاروں سپاہیوں نے اور لڑکیوں نے بھی ڈاکوؤں پر حملہ کردیا ڈاکو تیار تھے وہ تو لڑنے اور مرنے کے لیے آئے تھے
پھر اس غار میں تلوار ٹکرانے کی آوازیں آتی رہیں زخمی گرتے رہے خون بہتا رہا مشالیں زمین پر پڑی جل رہی تھیں دو تین زخمی جلتی مشعلوں پر گرے اور ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی وہ اٹھ کر ادھر ادھر دوڑے اور آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن ناکام رہے وہ پہلے ہی زخمی تھے پھر کپڑے جل کر ان کے جسموں کو جلانے لگے تو وہ جلدی ہی بے ہوش ہو کر گر پڑے اتنے میں تین چار اور زخمی مشعلوں پر گرے اور اسی انجام کو پہنچے لڑنے والے لڑتے لڑتے مشعلوں پر آئے تو ان کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی
غار میں اگر کسی کو فتح حاصل ہوئی تو وہ آگ ہوئی اندر آگ کے شعلے تھے اور غار دھوئیں سے بھر گیا تھا کچھ تو تلواروں کے زخموں سے مر گئے اور جو زخموں سے نہ مرے انہیں مشعلوں کی آگ نے مار ڈالا اور تھوڑی دیر بعد غار میں صرف شعلوں کی ہلکی آواز آ رہی تھی
قافلوں سے لوٹا ہوا خزانہ موت کے ہاتھ آیا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:42 }
جب غار میں قتل و غارت ہو رہی تھی مشعلوں کے شعلے لڑنے مرنے اور زخمی ہو کر گرنے والوں کو چاٹ رہے تھے اس وقت سورج اونچی چٹانوں کی اوٹ میں چلا گیا پھر غار کے ہولناک راز کو اپنے جلتے ہوئے سینے میں چھپائے افق میں اتر گیا بھول بھلیوں جیسی بد رنگ اور بدشکل چٹانوں نے شام کے دھندلکوں کو تھوڑی سی دیر میں گہرا کر دیا ان میں بعض چٹان کی طرح اوپر کو اٹھتی ہوئی تھی اور کچھ میناروں کی طرح اوپر سے نوکیلی تھیں شام کی تیزی سے گہرے ہوتے دھندلکے میں یہ چٹان بھوتوں جیسی لگتی تھیں ان میں پراسراریت اور خوف کا نمایاں تاثر تھا
غار کے اندر جو آگ لگی ہوئی تھی اس کی ہلکی سی بڑی ہی مدھم سی روشنی غار کے دہانے تک آتی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے یہ روشنی رات کی بڑھتی ہوئی تاریکی کے ڈر سے باہر نہیں آرہی ایک سایہ سا حرکت کر رہا تھا اس سائے کو غار نے اگل کر باہر پھینک دیا تھا یا جیسے موت نے اسے قبول نہ کیا اور اگل دیا تھا سایہ غار کے دہانے سے نکلا تھا اور غار کے اندر کسی مرنے والے کی بدروح جیسا لگتا تھا
چٹانوں کے درمیان بس اتنی سی ہی جگہ تھی کہ ایک انسان چل سکتا تھا یہ سایہ اس تنگ و تاریک راستے پر سرکتا جا رہا تھا یہ کوئی سیدھا راستہ نہیں تھا یا ایسا بھی نہیں تھا کہ کچھ دور جا کر ادھر یا ادھر مڑتا ہو یہ تو ہر دس پندرہ قدموں پر مڑتا تھا اور کہیں دو اطراف کو مڑتا اور کہیں یہ جو راستہ بن جاتا تھا چلنے والا جان ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ کدھر کو موڑے تو ان بھول بھلیوں سے نکل جائے گا
یہ سایہ سا سرکتے رینگتے دیکھتا کہ آگے سے ایک اور چٹان نے راستہ روک رکھا ہے تو وہ ذرا رکتا دائیں بائیں دیکھتا اور کسی بھی طرف مڑ جاتا ایسے کئی موڑ مڑ کر اس نے اپنے آپ کو چٹانوں کے نرغے میں ہی پایا کچھ آگے جا کر ایک جگہ ایسی آگئی کہ راستے دونوں بلکہ تین اطراف کو جاتے تھے سایہ روک گیا اور اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ایک انسانی آواز بلند ہوئی یا اللہ تو نے زندگی عطا کی ہے تو وہ راستہ بھی دکھادے جو زندہ انسانوں کی دنیا کی طرف جاتا ہے میرا چچا باطنی ابلیس کا پوجاری تھا تو اس کی سزا مجھے نہ دے جس نے آج تک اپنی عصمت کو بے داغ رکھا ہے گنہگار چچا کی یتیم بھتیجی نے اپنے دامن گناہوں سے پاک رکھا ہے یااللہ یااللہ اور اسکی رندھیا کر رات کی تاریکی میں تحلیل ہوگئی
وہ ابو جندل کی بڑی بھتیجی شافعیہ تھی اس کی عمر پچیس چھبیس سال تھی اس کی چھوٹی بہن جس کی عمر بیس اکیس سال تھی غار کے اندر ماری گئی تھی جب غار میں ڈاکو اور لٹیرے آگئے اور کشت وخون شروع ہو گیا تھا اس وقت شافعیہ غار کے اندر ہی ذرا بلند ایک چٹان کے پیچھے چھپ گئی تھی غار خاصا کشادہ تھا اس کے اندر چھوٹی چھوٹی نوکیلی چٹانیں ابھری ہوئی تھیں اور کہیں گڑھے سے بھی بنے ہوئے تھے شافعیہ اتنی الگ ہٹ کر چھپی تھی کہ جب مشعلوں نے لڑنے والوں اور گرنے والوں کے کپڑوں کو آگ لگا دی اور غار روشن ہوگیا تو بھی وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتی تھی وہ یہ خونچکاں منظر دیکھتی رہی تھی لیکن جس چیز کو وہ زیادہ دیکھ رہی تھی وہ نکل بھاگنے کا راستہ تھا راستہ ایک ہی تھا اور وہ غار کا دہانہ تھا وہ دیکھ رہی تھی کہ اس دہانے سے لڑنے والے ذرا ایک طرف ہو تو وہ چھپ کر نکل بھاگے اس نے اپنی چھوٹی بہن کو مرتے دیکھا تھا
شافعیہ چٹان کے پیچھے سے اپنی حسین و جمیل اور نوجوان بہن کو دیکھ رہی تھی کہ وہ نکل بھاگنے کے لیے ادھر ادھر دوڑ رہی ہے اور کہیں چھپنے کی کوشش نہیں کر رہی روشنی اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ غار میں کنکر بھی نظر آ رہے تھے ایک ڈاکو نے شافعیہ کی چھوٹی بہن کا بازو پکڑ لیا ایک اور ڈاکو نے اس کا دوسرا بازو پکڑ لیا اور دونوں اسے اپنی اپنی طرف کھینچنے لگے لڑکی چیخنے چلانے لگی لیکن اسے ان لٹیروں سے بچانے والا کوئی نہ تھا سب ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے اس وقت تک ابوجندل مارا جا چکا تھا شافعہ نے اپنے چچا کو بری طرح زخمی ہو کر گرتے دیکھا تھا
ایک لٹیرے نے دیکھا کہ اس کے دو ساتھی ایک لڑکی کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور آخر ہوگا یہ کہ دونوں اس لڑکی کی ملکیت پر ایک دوسرے کا خون بہا دیں گے اس نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سیدھی لڑکی کے پیٹ میں اتار دی اور اتاری بھی اتنی زور سے کہ اس کی نوک پیٹھ کی طرف سے باہر آگئی
بدبختوں! اس نے لڑکی کے پیٹ سے تلوار نکال کر کہا ایک لڑکی کے پیچھے ایک دوسرے کے دشمن نہ بنو پہلے یہ خزانہ باہر نکالو پھر تمہارے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں رہے گی
تھوڑی ہی دیر بعد یہ تینوں بھی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ کر گر پڑے اور ان کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی شافعیہ کو نہ کوئی دیکھ سکا نہ کوئی اس تک پہنچا تھا اس نے جب دیکھا کہ صرف دو آدمی ایک دوسرے کا خون بہانے کے لئے رہ گئے ہیں تو وہ جھکی جھکی سی اور کچھ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل وہاں سے نکلی اور غار کے دہانے سے باہر آ گئی
شافعیہ چٹانوں کی جن بھلائیوں میں پھنس گئی تھی ان سے اس کا چچا ابوجندل واقف تھا جو سب کو بڑی آسانی سے غار تک لے گیا تھا لیکن وہ چچا غار میں ہی رہ گیا تھا اور وہ زندہ نہیں تھا شافعیہ کو تو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ کدھر سے اندر آئے تھے اگر دن کی روشنی ہوتی یا چاند پوری طرح روشن ہوتا تو شاید اسے یہاں سے نکلنے میں اتنی دشواری نہ ہوتی لیکن رات بڑی ہی تاریک تھی وہ اب سوائے اللہ کے کسی سے بھی مدد نہیں مانگ سکتی تھی اللہ ہی تھا جو اسے راستے پر ڈال سکتا تھا اس کا یہ کہنا صحیح تھا کہ گنہگار چچا کے پاس رہتے ہوئے اس نے اپنا دامن گناہوں سے پاک رکھا تھا پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ابو جندل نے شمشیر ابلک کو بتایا تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں اس کی اپنی بیٹیاں ہوتی تو وہ انہیں حسن بن صباح کی جھولی میں ڈال دیتا لیکن یہ دونوں اس کی مرے ہوئے بھائی کی بیٹیاں تھیں اور انہیں وہ امانت سمجھتا تھا شافعیہ کی چھوٹی بہن کے انداز کچھ اور تھے لیکن گمراہ ہونے سے پہلے ہی وہ تلوار کے ایک ہی وار سے مر گئی تھی شافعیہ نے اپنے ایمان کو اور اپنی عصمت کو اللہ کی امانت سمجھ کر محفوظ رکھا تھا اب وہ اللہ سے ہی رہنمائی اور روشنی مانگ رہی تھی
اسے چلتے سرکتے خاصی دیر گزر گئی تھی اسے اچانک ایک گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی وہ چونک کر رکی اور فورا بعد تین چار گھوڑے اکٹھے ہنہنائے
شافعیہ نے ان آوازوں سے سمت کا اندازہ کیا اور اس سے یہ اندازہ ہوا کہ گھوڑے زیادہ دور نہیں اور ہیں کس طرف ان گھوڑوں میں سے اس کے اپنے گھوڑے بھی تھے جن پر یہ پارٹی یہاں آئی تھی ان میں ان ڈاکوؤں کے گھوڑے بھی تھے جو بعد میں غار تک پہنچے تھے نہ جانے کیا وجہ تھی کہ گھوڑے اندر نہیں لے جائے جاتے تھے
تھوڑے تھوڑے سے وقفے سے ایک دو گھوڑے ہنہناتے تھے اس سے شافعیہ کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ کس سمت کو جارہی ہے اور کس سمت کو جانا چاہیے اس کے مطابق وہ مڑتی اور آگے بڑھتی رہی اور آخر وہ ان بھول بھلیوں سے نکل گئی باہر اگر کچھ روشنی تھی تو وہ ستاروں کی تھی اسے گھوڑے نظر آ گئے تاریکی میں اپنا گھوڑا پہچاننا آسان نہ تھا پہچاننے کی ضرورت بھی نہیں تھی تمام گھوڑے تنومند اور اچھی نسل کے تھے
شافعیہ نے دو گھوڑے پکڑے ایک کی باگ دوسرے گھوڑے کی زین کے پیچھے باندھ لی پھر تین چار گھوڑوں سے کھانے پینے کی اشیاء کے تھیلے اتارے اور پانی کے دو مشکیزے بھی اتار لیے ان تھیلوں اور مشکیزوں کو اس نے پیچھے بندھے ہوئے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا اور اگلے گھوڑے پر سوار ہو گئی اس کے پاس دو ہتھیار تھے ایک تلوار اور دوسرا خنجر گھوڑ سواری کی وہ بڑی اچھی سوچ بوجھ رکھتی تھی اس زمانے میں بچہ جب بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوجاتا تھا تو اسے جو کام سب سے پہلے سکھایا جاتا وہ سواری تھی
شافعیہ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن ایسی نہیں کہ گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑتا وہ یہ خطرہ محسوس کر رہی تھی کہ غار میں سے کوئی ڈاکو زندہ نکل آیا ہوگا وہ اگر دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنتا تو اس کے تعاقب میں آجاتا شافعیہ نے گھوڑے کو عام چال پر رکھا ذہن پر زور دے کر اسے یاد کرنا پڑا کہ وہ اپنے چچا کے ساتھ کس طرف سے ادھر آئی تھی اسے صحیح طور پر سمت تو یاد نہیں رہی تھی اس نے بہت سوچا اور بہت یاد کیا آخر ایک طرف چل پڑی اور اپنے آپ کو یہ یقین دلایا کہ ادھر سے ہی آئی تھی وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی خوف نہ ہوتا اس کے پاس تلوار تھی خنجر تھا
اور اس کے پاس دو گھوڑے بھی تھے وہ خنجر اور تلوار چلانا جانتی تھی لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ وہ بڑی ہی حسین اور اور جوان لڑکی تھی حسین بھی ایسی کے کوئی اچھے کردار کا آدمی بھی اسے دیکھتا تو نظر انداز نہ کر سکتا اسے روک لیتا
وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ ریگستان میں چلی جا رہی ہے کوئی ایک بھی درخت نظر نہیں آتا تھا اس کے دل پر خوف و ہراس تھا جس نے اس کی نیند غائب کر دی تھی یہ بھی اچھا تھا کہ وہ غنودگی میں نہ گئی اور بیدار رہی وہ کان کھڑے کر کے سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے تعاقب میں کوئی آ تو نہیں رہا زمین خاموش تھی آسمان خاموش تھا اور رات پر ایسا سکوت طاری تھا کہ وہ اپنے دل کی دھڑکن بھی سن رہی تھی اس نے گھوڑے کو دوڑایا نہیں تھا کہ گھوڑا تھک نہ جائے
صبح طلوع ہونے لگی اور شافعیہ کو زمین و آسمان نظر آنے لگے وہ صحرا میں جا رہی تھی جہاں اس وقت تک ریت ھی ریت تھی صرف ایک طرف اسے افق پر یوں نظر آیا جیسے عمارتیں کھڑی ہوں وہ اسی طرف جا رہی تھی سورج اوپر آتا چلا گیا اور تپش میں اضافہ ہوتا گیا سورج جب سر پر آ گیا تو اس نے گھوڑا روک لیا اور نیچے اتری دوسرے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے میں سے کھانے کو کچھ نکالا اور مشکیزہ کھول کر پانی پیا اور پھر گھوڑے پر سوار ہو گئی وہ چلتے گھوڑے پر کھاتی رہی وہ زیادہ رکنا نہیں چاہتی تھی اسے صرف یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ گھوڑوں نے نہ جانے کب سے پانی پیا ہوا ہے اور یہ پیاس محسوس کریں گے جو صحرا میں ایک خطرہ بن سکتا ہے اصل خطرہ تو وہ محسوس کرنے ہی لگی تھی وہ یہ تھا کہ وہ جب اپنی پارٹی کے ساتھ ادھر آئی تھی تو ایک صحراء راستے میں آیا تھا لیکن وہ یہ نہیں تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ غلط راستے پر چل نکلی تھی وہ جدھر دیکھتی اسے صحرا نظر آتا اور جب پیچھے دیکھتی تو اسے وہ پہاڑیاں اور چٹان نظر آتی تھیں جن میں وہ غار تھا اور جہاں سے وہ آ رہی تھی وہ رات بھر سوئی نہیں تھی اور اس پر خوف بھی طاری تھا اور پھر اس نے جو کشت و خون دیکھا تھا وہ یاد آتا تو وہ اندر باہر سے کانپنے لگتی تھی ہوا یہ کہ اس کا دماغ سوچنے کے قابل رہا ہی نہیں تھا
وہ اللہ کو یاد کرتی جا رہی تھی اس میں تبدیلی صرف یہ آئی تھی کہ پہلے وہ اللہ سے مدد مانگتی تو رو پڑتی لیکن اب اس نے حوصلہ اتنا مضبوط کر لیا کہ رونا چھوڑ دیا اور اپنے آپ میں دلیری پیدا کر لی اب وہ اللہ سے یہی کہتی تھی کہ صرف اس کی ذات اسے راستہ دکھا سکتی ہے وہ یہ بھی کہتی کہ اللہ مجھے ہمت و استقلال دے کہ میں ہر مصیبت کا کا سامنا کر سکوں
سورج غروب ہو رہا تھا جب وہ اس جگہ پر پہنچ گئی جو اس نے دیکھی اور اسے عمارتیں سی نظر آئی تھیں یہ صحرا کے اندر ٹیلے تھے جن کی ساخت دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتوں جیسی تھیں ان میں سے بعض ٹیلے ایسی شکل کے تھے جیسے کسی اونچی عمارت کا سامنے والا حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو یہ جگہ نشیبی علاقے میں تھی اور وہاں ریت کم اور مٹی زیادہ تھی
کہیں کہیں چھوٹے بڑے پتھر بھی نظر آتے تھے ان بڑے ٹیلوں میں چھوٹے ٹیلے بھی تھے جن کی شکل عجیب و غریب تھی یہ سارا ماحول بڑا ہی ڈراؤنا تھا گھاس کی ایک پتی نظر نہیں آتی تھی جوں جوں شام کا دھندلکا گہرا ہوتا جا رہا تھا ان چھوٹے ٹیلوں کی شکل یوں لگتا تھا تبدیل ہوتی جا رہی ہو ان میں کوئی انسانی شکل کا اور کوئی ہاتھیوں جیسا تھا
شافعیہ کا گھوڑا اپنے آپ ہی تیز ہو گیا تیز ہوتے ہوتے گھوڑا دوڑنے لگا اور آگے جا کر ایک ٹیلے سے بائیں کو گھوم گیا وہاں ٹیلا ختم ہوتا تھا کچھ دور ہی جاکر ایسی جگہ آ گئی جس کے ارد گرد ایسے ہی ٹیلے کھڑے تھے اور درمیان میں کچھ ہرے پودے موجود تھے شافعیہ سمجھ گئی کہ گھوڑے نے پانی کی کی مشک پالی ہے صحراؤں میں چلنے والے گھوڑے پانی کی بو پا لیا کرتے ہیں شافعیہ نے لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور گھوڑا دوڑتا ہوا پانی پر جا کر کھڑا ہوا یہاں تھوڑا سا پانی جمع تھا اور اس کے ارد گرد ہی جھاڑیاں تھیں پانی میں آسمان کا عکس نظر آ رہا تھا شافعیہ گھوڑے سے اتر آئی اور اس گھوڑے کی زین سے اس نے دوسرے گھوڑے کو بھی کھول دیا تاکہ دونوں گھوڑے پانی پی لیں
گھوڑے پانی پی رہے تھے اور شافعیہ سوچ رہی تھی کہ اسے رات یہیں گزارنی چاہیے لیکن پانی کے قریب نہیں کیوں کہ اتنا وہ جانتی تھی کہ صحرائی درندے رات کو پانی پینے آتے ہیں اور وہ اس کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں
شافعیہ نے گھوڑے سے ایک تھیلا کھولا اور پانی کا مشکیزہ بھی اتارا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانے لگی اس نے پانی پیا اور دیکھا کہ گھوڑے بھی پانی پی چکے ہیں اور جھاڑیاں کھا رہے ہیں اس نے گھوڑے کو آزاد ہی رہنے دیا تھا کہ وہ پیٹ بھر لیں
رات پوری طرح تاریک ہوگئی تھی شافعیہ اٹھی اور گھوڑوں کو پکڑ کر ایک طرف چل پڑی وہ پانی سے دور رہنا چاہتی تھی اس نے رات وہیں بسر کرنی تھی اور گھوڑوں کو کہیں باندھنا تھا لیکن وہاں کوئی درخت نہیں تھا نہ کوئی اتنا بڑا پتھر تھا جس کے ساتھ وہ گھوڑے کو باندھ دیتی اس نے سوچا گھوڑوں کو اللہ کے سپرد کر کے سو جائے ایک جگہ جا کر وہ لیٹ گئی اور گھوڑوں کو چھوڑ دیا وہ اس قدر تھکی ہوئی تھی کہ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی
کوئی گھوڑا ذرا سا بھی ہنہناتا تھا تو شافعیہ کی آنکھ کھل جاتی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی اور اندھیرے میں ہر طرف دیکھتی گھوڑے جہاں اس نے چھوڑے تھے وہیں کھڑے تھے اس طرح چار پانچ مرتبہ اس کی آنکھ کھلی اور اس نے بیٹھ کر ہر طرف دیکھا اور جب دیکھا کہ گھوڑے وہیں کھڑے ہیں تو پھر لیٹ گئی
آخری بار اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی پہلی کرنیں ٹیلوں کے اس خطے میں داخل ہوچکی تھیں اور یہ خط اللہ کے نور سے منور ہو گیا تھا شافیعہ ہڑبڑا کر بیٹھی دیکھا دونوں گھوڑے غائب تھے وہ اس طرف دوڑ پڑی جدھر پانی تھا اور گھنی جھاڑیاں بھی تھیں دونوں گھوڑے جھاڑیاں کھا رہے تھے اس کے پاس کھانے کا سامان کافی تھا اس نے گھوڑے کی زین سے ایک تھیلا کھولا اور اس میں سے کھانے کی اشیاء نکال کر ایک طرف بیٹھ گئی اور اطمینان سے کھانے لگی پھر پانی پیا اور ایک گھوڑے کو دوسرے کے پیچھے باندھ کر سوار ہوئی اور چل پڑی وہ اب اللہ کے بھروسے جا رہی تھی اس نے سوچا تھا کہیں نہ کہیں تو جا ہی نکلے گی
زمین کو دیکھا تو اسے کچھ اطمینان ہونے لگا وہ اس لئے کہ زمین اب پہلے کی طرح ریتیلی نہیں رہی تھی بلکہ مٹی بڑھتی جا رہی تھی اور گھوڑے کے سموں سے دھول اڑتی تھی اس نے یہ بھی دیکھا کہ زمین پر کسی انسان کے نقش پا نہیں تھے نہ کسی جانور کے پاؤں کے نشان نظر آتے تھے اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اس راستے سے کبھی کوئی نہیں گزرا یا عرصے سے ادھر سے کسی مسافر کا گزر نہیں ہوا زمین اوپر کو جا رہی تھی اور ٹیلے کم ہوتے جا رہے تھے
کچھ اور آگے گئی تو اسے سورج نظر آیا جو افق سے کچھ اور اوپر اٹھ آیا تھا اس نے گھوڑا روک لیا اور اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اس نے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور آسمان کی طرف دیکھا رات کی سیاھ کالی تاریکیوں سے اتنا روشن سورج طلوع کرنے والے اللہ! اس نے بلند آواز سے اللہ کو پکارا میری زندگی کو اتنا تاریک نہ ہونے دینا اور مجھے جو تاریکیاں نظر آ رہی ہیں ان میں سے اپنے نور کی صرف ایک کرن عطا کر دینا میری آبرو کی حفاظت کرنا جان جاتی ہے تو چلی جائے دعا سے اسے روحانی تسکین سی محسوس ہوئی اور اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کا حوصلہ جو دم توڑتا جا رہا تھا پھر سے مضبوط ہو گیا ہے اور ایک غیبی ہاتھ ہے جو اس کی حفاظت کر رہا ہے اس کے نیچے گھوڑا عام چال سے چلا جا رہا تھا شافعیہ نے یہ نہ سوچا کہ گھوڑے کو دوڑائے اور جہاں کہیں بھی پہنچنا ہے جلدی پہنچ جائے اس نے دماغ حاضر رکھا وہ جانتی تھی کہ گھوڑا دوڑایا تو راستے میں ہی جواب دے جائے گا اس نے دوسرا گھوڑا اس لیے ساتھ لے لیا تھا کہ ایک تھک جائے تو دوسرے پر سوار ہو جائے اب اس جگہ سے چلی تو دوسرے گھوڑے پر سوار ہوئی تھی اب تو اسے امید کی کرن نظر آنے لگی جو یہ کہ زمین ذرا ذرا اوپر جا رہی تھی اور کہیں کہیں ہری ہری گھاس نظر آنے لگی تھی اسی طرح ایکا دکا درخت بھی دکھائی دینے لگا لیکن ان درختوں کی شکل و صورت تو ایسی نہیں تھی جیسے جنگلات کے درختوں کی ہوتی ہے ٹہن تھے اور کچھ ٹہنیاں تھی لیکن پتے بہت ہی تھوڑے
آخر ٹیلوں کا خط ختم ہو گیا اور وہ جب بلندی پر پہنچی تو اس کے سامنے ایسی زمین تھی جس پر درخت بھی تھے اور ہریالی بھی نظر آرہی تھی اس نے روک کر پیچھے دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے جہنم سے نکل آئی ہو اور آگے اس کے لئے جنّت ہی جنّت ہے وہاں اونچی نیچی ٹیکریاں بھی تھیں اور زمین ہموار تو نہیں تھی لیکن اس کی جیسی بھی شکل تھی اچھی لگتی تھی کیونکہ اس میں ہریالی تھی وہ ناک کی سیدھ میں چلتی چلی گئی
سورج اوپر آ کر مغرب کی طرف چل پڑا تھا اور اس وقت شافعیہ ایک جنگل میں داخل ہوچکی تھی ہر طرف ہریالی تھی اب گھوڑوں کے بھوکا اور پیاسا رہنے کا کوئی خطرہ نہیں رہا تھا البتہ یہ خطرہ بڑھ گیا تھا کہ وہ حسین اور نوجوان لڑکی ہے اور اس جنگل میں اسے ضرور کوئی نہ کوئی آدمی ملے گا اس نے اپنے آپ کو ایسے خطرے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیا اس نے یہ بھی سوچا کہ خزانے والی پہاڑیوں تک پہنچنے سے پہلے ایک ایسی پہاڑی آئی تھی جس پر وہ سب چڑھے تھے اور اس کی پل صراط جیسی چوٹی پر کچھ دور تک گئے تھے جہاں ذرا سا پاؤں پھسل جاتا تو گھوڑے اپنے سواروں سمیت نیچے تک لڑھکتا چلا جاتا یہ پہاڑی ایک روز پہلے آ جانی چاہیے تھی لیکن اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا یہ تو شافعیہ نے پہلے ہی قبول کر لیا تھا کہ وہ بھٹک گئی ہے لیکن اس پہاڑی کو نہ دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ وہ راستے سے بہت دور چلی آئی ہے اور اب نہ جانے کہاں جا نکلے یا کس انجام کو پہنچے
اسے آسمان پر برسات کے بادلوں کے ٹکڑے منڈلاتے نظر آنے لگے اس نے دل ہی دل میں دعا کی کہ مینہ نہ برس پڑے خزانے والے غار کی طرف جاتے ہوئے موسلادھار مینہ برسا تھا اور اس کی پارٹی کو بڑی ہی سخت دشواری بھی پیش آئی تھی اب وہ اکیلی تھی اور ڈرتی تھی کہ آگے سیلابی ندی آ گئی تو اس کے لیے ایسی مشکل پیش آئے گی جو اس کے بس سے باہر ہو گی
وہ ایک بڑی اچھی جگہ رک گئی گھوڑے سے کھانا کھول کر کھانے بیٹھ گئی اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ بھی اپنا پیٹ بھر لیں وہاں تو اب گھاس ہی گھاس تھی اور جھاڑیوں کی بھی بہتات تھی اسے غنودگی آنے لگی لیکن دن کے وقت وہ سونے سے گریز کر رہی تھی یہ خطرہ تو اس کے ذہن میں ہر وقت موجود رہا کہ اس کے تعاقب میں کوئی آ رہا ہوگا اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اس کے ذہن سے اٹھا کہ اس غار میں کوئی ڈاکو لٹیرا زندہ بھی رہا تھا یا نہیں اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا وہ ڈرتی اس لئے تھی کہ تعاقب میں اگر کوئی آ رہا ہے تو گھوڑوں کے قدموں کے نشان دیکھتا اس طرف پہنچ جائے گا پھر وہ اپنے آپ کو یوں تسلی دیتی کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا گھنٹہ ڈیڑھ آرام کر کے وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور چل پڑی شام تک اسے دو ندیوں میں سے گزرنا پڑا دونوں کی گہرائی گھوڑوں کے گھٹنوں تک ہی تھی اسے وہ ندی یاد آئی جس میں سے گزر کر وہ گئی تھی وہ سیلابی تھی اور خاصی گہری تھی یہ دونوں ندیا جو اب دیکھ رہی تھی جاتے وقت یہ دو ندیاں راستے میں نہیں آئی تھیں جنگل خوبصورت ہوتا جا رہا تھا
سورج غروب ہوگیا اور جنگل کے حسن پر رات کا سیاہ پردہ پڑتا چلا گیا اب اس کے دل میں یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ رات کو سوئی تو درندے آ جائیں گے وہ جانتی تھی کہ ایسے جنگلوں میں شیر اور بھیڑیے ہوتے ہیں خزانے کی طرف جاتے ہوئے ان کا تصادم ایک شیر کے ساتھ ہوا تھا اور پھر انہوں نے بڑا زہریلا اور بڑا ناگ بھی دیکھا تھا انہوں نے مل جل کر ناگ کو مار لیا تھا اور شیر کو بھی لیکن ایک گھوڑا ضائع ہو گیا تھا اس نے سوچا کوئی ایسا درخت نظر آ جائے جس کا ٹہن خاصہ چوڑا ہو اور وہ اس پر چڑھ کر سو جائے لیکن یہ خیال اس خطرے سے ذہن سے نکال دیا کہ سوتے سوتے اوپر سے گر پڑے گی اور ہو سکتا ہے اتنی چوٹ لگے کہ وہ سفر کے قابل ہی نہ رہے
اللہ توکل وہ ایک ٹیکری کے دامن میں رک گئی اور دونوں گھوڑے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیے وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں ٹیکری تھوڑی سی عمودی تھی اس نے وہیں ٹیکری کے اس حصے کے ساتھ پیٹھ لگا لی اور ارادہ کیا کہ جتنی دیر جاگ سکتی ہے جاگے گی اس نے تلوار نیام سے نکال کر اپنے پاس رکھ لی اس نے جاگنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جوانی کی عمر تھی اور تھکان بھی تھی بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی
گھوڑے بڑے ہی زور سے ہنہنائے اور بدکے شافیعہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھی اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر گیا اور بڑی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی گھوڑے رسیاں توڑا رہے تھے اس کے ساتھ ہی شافعیہ نے دوڑتے قدموں کی آواز اور ایسی آوازیں سنیں جیسے کتے اور بھوک رہے ہوں چاند اوپر آ گیا تھا ان دنوں چاند آدھی رات کے بعد اوپر آتا تھا اس چاندنی میں اسے ایک ہرن نظر آیا جو بھاگا جا رہا تھا اور اس کے پیچھے چار پانچ بھیڑیے لگے ہوئے تھے
ہرن اور بھیڑیے گھوڑوں کے قریب سے گزرے تھے معلوم نہیں کیا وجہ ہوئی کہ ہرن گر پڑا ابھی وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ بھیڑیے اس پر جا پڑے اور پھر اسے بھاگنے نہ دیا شافعیہ مطمئن ہوگئی کہ بھیڑیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے شکار مل گیا ہے درندہ بھوکا ہو تو بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے اس لیے خطرہ ٹل گیا تھا لیکن گھوڑے بری طرح بدکے تھے شافعیہ گھوڑوں تک گئی اور ان کے درمیان کھڑے ہوکر دونوں کی گردنوں کو تھپکانے لگی اور باری باری ان کے منہ کے ساتھ منہ لگایا جس سے گھوڑے کچھ سکون میں آگئے اچانک شافعیہ کو خیال آیا کہ جہاں بھیڑیے ہیں وہاں شیر بھی ہو سکتے ہیں وہ ڈرنے لگی کہ شیر آگیا تو وہ بھیڑیوں سے ان کا شکار چھینے گا اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیر جب دیکھے کہ وہ شکار تو بھیڑیوں نے مار لیا ہے تو وہ گھوڑوں کی طرف آ جائے گا
اس خیال نے اسے خاصا ڈرآیا لیکن اس کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور اس نے گھوڑوں پر پہرا دینا شروع کردیا اس نے دوسرے ہاتھ میں خنجر لے لیا اسے چاند سے اندازہ ہوا کہ رات ادھی سے کچھ زیادہ گزر گئی ہے اس نے اللہ کو یاد کرنا شروع کردیا اور اپنے دل میں سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی جب ٹہلتے ٹہلتے تھک گئی تو بیٹھ گئی اور پیٹھ اسی درخت کے ساتھ لگا لی جس کے ساتھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے اس نے نیند پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی اور بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی
بہت دیر گزر گئی تو گھوڑے ایک بار پھر بدکے اور ہنہنائے شافعیہ بڑی تیزی سے اٹھی اور تلوار اور خنجر آگے کر لیے اس نے دیکھا پندرہ بیس قدم دور بھیڑیے بڑے آرام سے واپس جا رہے تھے انہیں اب کسی اور شکار کی ضرورت نہیں تھی ان کے پیٹ بھر گئے تھے شافعیہ نے چاند کو دیکھا جو خاصا آگے نکل گیا تھا وہ پھر درخت کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی اور ایک بار پھر نیند نے اسے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا
اس کی آنکھ کھلی تو اس دن کا سورج افق سے اٹھ آیا تھا شافعیہ اٹھی اور اس نے گھوڑوں کی رسیاں کھولی تاکہ یہ چر چگ لیں اسے اب آگے جانا تھا معلوم نہیں یہ کون سا خطہ تھا کہ اسے کوئی آبادی کوئی چھوٹی سی بستی اور ایک بھی انسان نظر نہیں آیا تھا نہ کسی انسان کے قدموں کے نشان نظر آتے تھے
گھوڑے گھاس چر رہے تھے اور شافعیہ ایک تھیلا کھول کر اپنا پیٹ بھرنے لگی کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور پہلے کی طرح ایک گھوڑے کو دوسرے کے پیچھے باندھ کر سوار ہو گئی اور اللہ کا نام لے کر چل پڑی
جنگل ویسا ہی تھا جیسا وہ دیکھتی چلی آ رہی تھی اب یہ تبدیلی آئی تھی کہ ٹیکریاں ذرا بڑی ہو گئی تھیں اور ان ٹیکریوں پر بھی گھاس تھیں جھاڑیاں تھیں اور درخت بھی تھے وہ چلتی چلی گئی اور تقریبا آدھا دن گزر گیا وہ کچھ دیر کے لیے رکنے کی سوچ رہی تھی کہ اسے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگے پہلے تو اس نے اپنے آپ کو یہ دھوکا دیا کہ اس کے کان بج رہے ہیں لیکن دوڑتے گھوڑے کے قدموں کی دھمک بلند ہوتی جارہی تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ گھوڑا اسی طرف آ رہا ہے
شافعیہ نے ادھر ادھر دیکھا کہ چھپنے کی کوئی جگہ نظر آ جائے لیکن دو گھوڑوں کوچھپانا ناممکن تھا وہ اکیلی ہوتی تو کسی گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ سکتی تھی شافعیہ کو اس گھوڑسوار کا سامنا کرنا ہی تھا اس نے ارادہ کیا کہ جس ٹیکری کے ساتھ لگ کر وہ بیٹھ گئی تھی اسی کی اوٹ میں یعنی پچھلی طرف چلی جائے وہ یہ ارادہ اس امید پر باندھ رہی تھی کہ گھوڑسوار اس طرف سے آگے نکل جائے گا لیکن اب چھپنے کو وقت گزر گیا تھا ایک ہرن اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہا تھا اور یہ ہرن اس کے قریب سے گزر گیا شافعیہ نے دیکھا کہ ہرن کے دم کے ساتھ پیٹھ پر تیر اترا ہوا تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ جو گھوڑ سوار اس کے تعاقب میں آرہا ہے تیر اسی نے اس پر چلایا ہو گا اور وہ کوئی شکاری ہوگا
وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کھڑی رہے یا وہاں سے ہٹ جائے کہ اتنی میں ایک گھوڑ سوار ایک ٹیکری کے عقب سے سامنے آیا جس کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا تھا وہ بڑی تیزی سے شافعیہ کے قریب آگیا اور شافع کو دیکھ کر اس نے باگ کھینچی گھوڑا دو چار قدم پاؤں جماتے جماتے آگے نکل آیا اور رک گیا تھا گھوڑسوار سیاہ فام تھا اس کے پیچھے دو اور سوار آ گئے وہ بھی سیاہ فام تھے آگے والے گھوڑ سوار کا لباس ظاہر کرتا تھا کہ وہ کسی قبیلے کا سربراہ یا سردار ہے اور جو گھوڑ سوار اس کے پیچھے آرہے تھے وہ اس کے نوکر یا غلام لگتے تھے
شافعیہ کو یاد آیا کہ اسے کسی نے بتایا تھا کہ جنگلوں میں کچھ قبیلے ہیں جو تہذیب و تمدن سے دور رہتے ہیں اور یہ قبیلہ خاصی وحشی ہیں اسے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ان قبیلوں کا اپنا ہی تہذیب و تمدن اور اپنا ہی مذہب ہے کچھ یہ بت پرست ہوا کرتے تھے لیکن انہوں نے اسلام کا اتنا سا ہی اثر قبول کیا کہ بت پرستی چھوڑ دی لیکن اپنے اپنے عقیدوں اور مذہبی رسم و رواج کو نہ چھوڑا
وہ گھوڑ سوار وحشی تھا یا تہذیب یافتہ اس سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا وہ شافعیہ کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جس میں حیرت بھی تھی اور ہوس کاری کا تاثر بھی تھا شافعیہ اسے چپ چاپ دیکھے جا رہی تھی اس نے خوف وہراس جھٹک ڈالا اور چہرے پر ایسا کوئی تاثر نہ آنے دیا جس سے پتہ چلتا کہ وہ اس سیاہ فام سے خوف و ہراس محسوس کر رہی ہے یہ سوار گھوڑے سے اتر آیا اور آہستہ آہستہ شافعیہ کے قریب آ گیا اس کے دونوں نوکر گھوڑوں سے اترے اور اس طرح کھڑے ہو گئے جیسے آقا ابھی انہیں کوئی حکم دے گا آقا نے اپنی زبان میں شافعیہ کے ساتھ بات کی شافعیہ سر ہلایا جس کا مطلب تھا کہ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتی وہ مسکرایا
کیا تم انسان ہو ؟
گھوڑے سوار نے اب اس خطے کی زبان میں پوچھا یقین نہیں آتا
ہاں میں انسان ہوں شافعیہ نے جواب دیا
شافعیہ کے لب و لہجے اور انداز میں ذرا سا بھی خوف و ہراس نہیں تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ ذرا سے بھی خوف کا اظہار کیا یا اس پر اپنی مجبوری اور بے بسی ظاہر کی تو یہ شخص شیر ہو جائے گا
کون ہو تم؟
سوار نے جو یقینا اپنے قبیلے کا سردار تھا پوچھا اور اس جنگل میں اکیلی کیا کر رہی ہو معلوم ہوتا ہے تمہارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں
ہوں تو انسان لیکن روح سمجھ لو شافعیہ نے کہا حسن بن صباح کا نام تو تم نے سنا ہی ہوگا
شیخ الجبل! امام سردار نے کہا میں نے اس کے متعلق بہت کچھ سنا ہے وہ آسمان سے آگ کی آغوش میں زمین پر اترا تھا میں نے یہ بھی سنا ہے اور ٹھیک سنا ہے کہ وہ آسمانی جنت کو زمین پر لے آیا ہے
میں اس جنت کی حور ہوں شافعیہ نے کہا اور اس سے پوچھا کیا تم نے امام کی بیعت نہیں کی؟
نہیں! سردار نے جواب دیا ہمارا اپنا مذہب ہے ہمارا یہ رواج ہے کہ جو بھی قبیلے کا سردار ہوتا ہے وہ مذہبی پیشوا بھی ہوتا ہے میں اپنے قبیلے کا سردار اور مذہبی پیشوا ہوں تم اکیلی کیوں ہو؟
شکار کے لئے آئی تھی شافعیہ نے کہا ایک ہرن کے تعاقب میں یہاں تک آنکلی میں دانستہ چھپ گئی تھی میں چاہتی تھی کہ میرے ساتھ جو آدمی شکار کھیلنے آئے تھے وہ مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو جائیں اور واپس چلے جائیں میں دراصل آزاد گھومنا پھرنا چاہتی تھی اب واپس جا رہی ہوں لیکن راستہ یاد نہیں رہا
شافعیہ نے کچھ اور ایسے ہی جھوٹ بولے اور اپنا دماغ حاضر رکھا
میں نے اس جنگل میں کسی اور آدمی کو نہیں دیکھا سردار نے کہا کیا وہ لوگ تمہیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے ہوں گے؟
چلے گئے ہوں گے شافعیہ نے جواب دیا میں اکیلے جانا چاہتی ہوں لیکن ابھی میں واپس نہیں جاؤں گی کیونکہ میں ایک اور جگہ جانا چاہتی ہوں میں بھٹک نہ جاتی تو اب تک یہاں سے نکل گئی ہوتی مجھے کچھ خیال نہیں رہا ہم کس طرف آئے تھے
کہاں جانا چاہتی ہو؟
سردار نے پوچھا
قلعہ وسم کوہ شافعیہ نے جواب دیا کیا تم مجھے وہاں تک کا راستہ بتا سکتے ہو میں نہیں جانتی میں کس سمت کو جا رہی ہوں
کیا شیخ الجبل میں اتنی روحانی طاقت نہیں؟
سردار نے پوچھا اور کہا اسے تو گھر بیٹھے معلوم ہو جانا چاہیے کہ تم کہاں ہو میں نے تو سنا ہے کہ اس میں ایسی روحانی قوت ہے کہ زمین کی ساتویں تہہ کے راز پالیتا ہے
اسے کوئی بتائے گا تو وہ میرا پتہ چلائے گا شافعیہ نے کہا اسے کوئی بھی نہیں بتائے گا کہ میں جنگل میں اکیلی رہ گئی ہوں کیا تم مجھے راستہ بتا سکتے ہو؟
بتا سکتا ہوں سردار نے جواب دیا لیکن یہاں نہیں بتاؤں گا تم میرے علاقے میں ہو اور میں تمہارا میزبان ہوں میں تمہیں اپنی بستی میں نہیں لے جاؤں گا بہت دور ہے یہاں میں ایک جگہ خیمہ زن ہوں تمہیں وہاں لے جاؤں گا اور وہاں تمہیں راستہ سمجھاؤں گا
اگر میں تمہارے خیمے میں نہ جاؤ تو شافعیہ نے پوچھا
تو پھر اس جنگل میں بھٹکتی رہو سردار نے مسکراتے ہوئے کہا اس جنگل سے نکلنا آسان کام نہیں اور یہاں خطرہ یہ ہے کہ یہاں بھیڑیے بھی ہیں شیر بھی ہیں اور ایک سیاہ رنگ کا شیر بھی دیکھنے میں آیا ہے جو بہت خطرناک درندہ ہے ہوسکتا ہے تمہاری تلاش میں آنے والوں سے پہلے ان دونوں میں سے کوئی تم تک پہنچ جائے تمہیں میں اس لئے لے جا رہا ہوں کہ تم زبانی وسم کوہ تک کا راستہ نہیں سمجھ سکوں گی میں سفید کپڑے پر راستہ بنا کر تمہیں دوں گا اور جو نمایاں نشانیاں راستے میں آئیں گی وہ نشان لگا کر تمہیں بتاؤں گا بہتر ہے میرے ساتھ چلی چلو
شافعیہ نے کچھ دیر سوچا اور بہتر یہی سمجھا کہ یہ خطرہ مول لے لیا جائے اور اس شخص سے راستہ سمجھ لیا جائے اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا اس نے اس سیاہ فام سردار کے ساتھ جانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا
شافعیہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئی اور اس کے ساتھ چل پڑی اس کا سیاہ فام میزبان اپنے شکار کو بھول گیا اور واپس اپنے خیمے کی طرف چل پڑا وہ بولتا کم تھا اور شافعیہ کو اوپر سے نیچے تک بار بار دیکھتا اور حیران بھی ہوتا اور خوش بھی اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس ہرن کے ساتھ اسے کوئی دلچسپی نہیں رہی جس کی پیٹھ میں اسکا تیرا اترا ہوا تھا اسے بڑا ہی خوبصورت شکار مل گیا تھا شافعیہ شاید اس کی نظروں کو سمجھ رہی تھی
میرا نام زر توش ہے راستے میں سردار نے شافعیہ کو بتایا میں ابھی تین چار دن اسی جنگل میں رہوں گا جب واپس جاؤں گا تو میرے ساتھ دو تین ہرن ہوں گے اور شاید ایک شیر بھی ہو
شافعیہ کو اس کے شکار کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ تو اس سے صرف راستہ سمجھنا چاہتی تھی وہ اس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ اس جنگل سے خیریت سے نکل بھی جائے گی یا نہیں
میں اپنے آدمی تمہارے ساتھ بھیج دوں گا پھر وہ تمہیں خطرناک علاقے سے نکال کر واپس آئیں گے
زرتوش کی خیمہ گاہ وہاں سے بہت دور تھی وہاں تک پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ دو گھنٹے گزر گئے تھے وہاں چار پانچ خیمے لگے ہوئے تھے اور ان کے باہر پانچ سات آدمی کوئی نہ کوئی کام کر رہے تھے زرتوش نے شافعیہ کو بتایا کہ وہ سب اس کے نوکر چاکر ہیں اور ان میں باورچی بھی ہے ایک خیمہ جو دوسروں سے بڑا اور شکل و صورت میں مختلف تھا الگ تھلگ نظر آرہا تھا پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی یہ زرتوش کا خیمہ تھا زرتوش اور شافعیہ گھوڑوں سے اترے اور نوکر دوڑے آئے اور گھوڑے انہوں نے پکڑ لئے زر توش شافعیہ اپنے خیمے میں لے گیا
فرش پر ایک بستر بچھا ہوا تھا نیچے روئی کے گدے تھے اور ان پر بڑی خوبصورت اور قیمتی چادر بچھی ہوئی تھی خیمے میں کچھ اور چیزیں بڑے قرینے سے اور سلیقہ سے رکھی ہوئ تھی زرتوش نے شافعیہ کو بستر پر بٹھایا اور ایک خادم کو بلا کر کہا کہ وہ کھانا لے آئے
کھانا آیا تو شافعیہ دے کر حیران رہ گئی یہ بھنے ہوئے مختلف پرندے تھے یہ اتنی زیادہ تھے کہ دس بارہ آدمی کھا سکتے تھے ان کے ساتھ روٹی نہیں تھی
شکار پر آکر میں صرف شکار کھایا کرتا ہوں زر توش نے کہا تم بھی یہ پرندے کھاؤگی روٹی نہیں ملے گی نہ تمہیں روٹی کی ضرورت محسوس ہوگی
خادم پھر آیا اور ایک صراحی اور دو پیالے رکھ کر چلا گیا زرتوش نے صراحی سے دونوں پیالے بھرے اور ایک پیالہ شافعیہ کے آگے کردیا شافعیہ بو سے سمجھ گئی کہ یہ شراب ہے اس نے شراب پینے سے انکار کر دیا
کیوں؟
زرتوش نے حیرت سے کہا شیخ الجبل حسن بن صباح کی حور ہو کر تم شراب پینے سے انکار کرتی ہو؟
کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
ہاں اس کی ایک وجہ ہے شافعیہ نے کہا مجھے ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ شراب چہرے کی رونق ختم کر دیتی ہے میں بڑھاپے میں بھی جوانوں جیسی رہنا چاہتی ہوں
شافعیہ محتاط تھی کہ اس کے منہ سے یہ نہ نکل جائے کہ وہ مسلمان ہے
وہ کھانا کھاتے رہے اور باتیں کرتے رہے زرتوش نے بہت اصرار کیا کہ وہ تھوڑی سی شراب پی لے لیکن اس نے نہ پی کھانے سے فارغ ہوئے اور نوکر برتن اٹھا کر لے گئے تو شافعیہ نے زرتوش سے کہا کہ اب وہ اسے راستہ سمجھا دے
کیا جلدی ہے زرتوش نے کہا تم اسی وقت تو روانہ نہیں ہو سکتیں
میں اسی وقت روانہ ہونا چاہتی ہوں شافعیہ نے کہا صبح تک میں اپنی منزل کے کچھ اور قریب ہو جاؤ گی میں رات ضائع نہیں ہونے دوں گی
میری میزبانی کا تقاضہ کچھ اور ہے زرتوش نے کہا میں اپنے قبیلے کے رسم و رواج کا پابند ہوں میرے خادم سارے قبیلے میں مشہور کر دیں گے کہ میں نے مہمان کو رات کو رخصت کر دیا تھا مجھ پر لعنت ہے کہ میں مہمان کو اور وہ بھی ایک عورت کو رات کو ہی رخصت کردوں
تو پھر مجھے راستہ بنا کر دکھائیں شافعیہ نے کہا
سورج غروب ہو گیا تھا اور خیمے میں مٹی کے دو دئیے جلا کر رکھ دیے گئے تھے زرتوش نے ایک نوکر کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ گز بھر سفید کپڑا لے آئے اور جلی ہوئی لکڑیوں کے دو تین کوئلے بھی لیتا آئے
کپڑا آگیا جو ایک چادر سے پھاڑا گیا تھا نوکر تین چار کوئلے بھی رکھ کر خیمے سے نکل گیا زرتوش نے یہ کپڑا لکڑی کی اس چوکی پر رکھا جس پر کچھ دیر پہلے انہوں نے کھانا کھایا تھا کپڑے کو ہر طرف سے کھینچ کر زرتوش اس پر کوئلے سے لکیریں ڈالنے لگا اس دوران اس نے شافعیہ کو کچھ بھی نہ بتایا سوائے اسکے کے جہاں سے اس کی لکیر شروع ہوئی تھی وہ بتایا کہ تم اس وقت یہاں ہو پھر وہ لکیر ڈالتا ہی چلا گیا یہ سیدھی لکیر نہیں تھی بلکہ ٹیڑھی میڑھی سی تھی اور زر توش اس پر کچھ نشان سے بھی لگاتا جا رہا تھا
بہت دیر بعد کپڑے پر کئی ایک لکیریں اس طرح بن گئی جس طرح نقشے پر دریا دکھائے جاتے ہیں اس نے یہ کپڑا شافعیہ کو دکھایا اور کہا کہ یہ کپڑا وہ اپنے ساتھ لے جائے گی اور اس کے بغیر وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے گی زرتوش نے اسے بتانا شروع کردیا کہ اس راستے پر اس سمت کو جائے گی تو ایک چشمہ ملے گا اس طرح وہ اسے تفصیلات بتا رہا اور پھر یہ بھی بتایا کہ اس مقام پر آ کر کوہستانی علاقہ شروع ہوگا اور اس میں فلاں فلاں نشانیاں دیکھ کر راستہ دیکھنا ہوگا
شافعیہ نے محسوس کیا کہ راستہ زبانی یاد نہیں رکھا جا سکتا تھا کپڑا ساتھ ہونا لازمی تھا اسے امید یہی تھی کہ اس کا میزبان اسے کہے گا کہ یہ کپڑا اپنے پاس رکھنا اور اسے دیکھ دیکھ کر چلنا لیکن میزبان نے کپڑا تہہ کرکے اپنے چغے کے اندر والی جیب میں رکھ لیا
کیا یہ کپڑا مجھے نہیں دو گے؟
شافعیہ نے پوچھا
تمہارے لیے ہی تو یہ ٹیڑھی سیدھی لکیر ڈالی ہے زرتوش نے جواب دیا لیکن ایک شرط ہے جو پوری کر دو گی تو یہ کپڑا تمہارے حوالے کر دوں گا اور اپنے دو آدمی تمہارے ساتھ محافظوں کے طور پر بھیجوں گا کھانے پینے کا ایسا سامان جو تم نے حسن بن صباح کی جنت میں بھی کبھی نہیں کھایا ہوگا
شافعیہ نے صاف طور پر محسوس کیا کہ اس شخص کا لب و لہجہ بدلا ہوا ہے اس کے چہرے پر اور آنکھوں میں بھی کوئی اور ہی تاثر آگیا تھا اس پر شراب کا نشہ بھی طاری تھا
شرط کیا ہے؟
شافع نے پوچھا
آج رات تم میری مہمان ہوگی زرتوش نے بازو لمبا کر کے شافعیہ کو اپنے بازوؤں میں لیتے ہوئے کہا کل رات بھی تم میرے ساتھ گزارو گی اب خود ہی سمجھ لو میری شرط کیا ہے
ہاں میں سمجھ گئی ہوں شافعیہ نے کہا تم میری عصمت اور آبرو کا سودا کر رہے ہو اگر میں یہ سودا قبول نہ کروں تو
تو ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی زرتوش نے کہا میں تمہیں اپنی لونڈی بنا کر رکھوں گا اگر مجھے پریشان کرو گی یا بھاگنے کی کوشش کروں گی تو میں تمہیں بڑی ہی بری موت ماروں گا
کیا تم بھول گئے ہو ہمیں کون ہوں شافعیہ نے کہا میں شیخ الجبل کی بڑی قیمتی ملکیت ہوں تم جانتے ہو حسن بن صباح اللہ کا اتارا ہوا امام ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ اسے پتہ چل جائے گا میں کہاں ہوں تم یہ نہیں جانتے کہ وہ تمہیں کس انجام کو پہنچائے گا آدھا زمین میں گاڑ کر وہ تم پر خونخوار کتے چھوڑ دینے کا حکم دے گا اور تمہارے قبیلے کی تمام لڑکیوں کو یہاں سے اٹھوا کر قلعہ الموت میں اکٹھا کر لے گا
جانتا ہوں زرتوش نے کہا بڑی اچھی طرح جانتا ہوں حسن بن صباح اللہ کا نہیں ابلیس کا بھیجا ہوا امام ہے اور اس کے پاس وہی طاقت ہے جو ابلیس کے پاس ہوتی ہے اور مجھ جیسے سردار ایسی طاقت سے محروم ہوتے ہیں تم جیسی عصمت اور آبرو کا سودا قبول نہیں کر رہے ہیں وہ عصمت اور آبرو تمہارے پاس ہے ہی نہیں میں نے تم جیسی حسین لڑکیاں تو دیکھیں ہیں لیکن کبھی کسی کو ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا زندگی میں پہلی بار تم جیسی شگفتہ کلی میرے ہاتھ آئی ہے میں تمہارے حسن اور جوانی سے پورا پورا لطف اٹھاؤں گا کیا تم میری شرافت کی قدر نہیں کروں گی کہ میں نے تمہیں صرف دو راتیں رکھنے کے لیے کہا ہے اس کے بعد تم آزاد ہو گی اور میرے آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے
میں نے بڑے ہی بدصورت اور شیطان فطرت آدمی دیکھے ہیں شافعیہ نے کہا لیکن کبھی کسی کے ساتھ واسطہ نہیں پڑا تھا تم پہلے بدصورت آدمی ہو جس کے جال میں پھنسی ہوں تم دو راتیں کہتے ہو میں دو لمحے بھی یہاں ٹھہرنا گوارا نہیں کروں گی اپنا انجام سوچ لو
زرتوش طنزیہ ہنسی ہنسی ہنس پڑا اور شافعیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا
میں نے تمہیں پہلی نظر دیکھا تو یقین نہیں آیا تھا کہ تم انسان ہو زرتوش نے کہا پھر یقین ہو گیا کہ تم انسان ہی ہو یہ بتا دو کہ تم اکیلی کس طرح آئی ہو اور کس طرح راستہ بھول گئی ہو یہ سن لو کہ تم میری شرط پوری کئے بغیر یہاں سے جا نہیں سکوں گی اگر جان کی بازی لگاؤ گی تو میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا بولو کہاں سے آئی ہو اور کہاں جا رہی ہو
شافعیہ گہری سوچ میں کھو گئی وہ سوچنے لگی کہ اس شخص کو اپنی اصلیت بتا دے اور یہ بھی کہ وہ اپنے چچا وغیرہ کے ساتھ ایک خزانہ اٹھانے گئی تھی اور وہاں سب قتل ہو گئے ہیں خزانے کے خیال سے شافعیہ کا دماغ روشن ہو گیا اس نے سوچا کہ اس شخص کو خزانے کا لالچ دیا جائے تو یہ بہت خوش ہوگا اور جان بخشی کر دے گا شافعیہ نے اسے خزانے کے متعلق سب کچھ بتا دیا اور یہ بھی کہ کس طرح وہ بھی اپنے چچا کے ساتھ تھا اس غار تک گئی تھی اور کس طرح کچھ ڈاکو اور لٹیرے آگئے جو جانتے تھے کہ یہاں خزانہ ہے شافعیہ نے اسے یہ ساری روداد سنادی لیکن اپنے متعلق یہی بیان رکھا کہ وہ حسن صباح کی جنت کی حور ہے اور خزانے کے لالچ میں آ گئی تھی
میں تمہیں اس جگہ کا راستہ بتا دیتی ہوں شافعیہ نے کہا دو دنوں کی مسافت ہے وہاں اب سوائے کٹی اور جلی ہوئی لاشوں کے کچھ نہیں ہوگا جاؤ اور وہ بکس اٹھا کر لے آؤ
بدقسمت اور بے عقل لڑکی! زرتوش نے کہا میں جانتا ہوں تم جھوٹ نہیں بول رہی تم جانتی ہو میں خزانے کی طرف چل پڑا تو تمہیں ساتھ لے جاؤں گا تم نے مجھے دھوکا نہیں دیا لیکن وہ سب لوگ جو اس غار میں خزانے پر مارے گئے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو دھوکا دیا تھا ہم لوگ اس خزانے کے لالچ میں کبھی نہیں آئے ان خزانوں پر بڑے بڑے جابر بادشاہ کٹ مرے ہیں
تم وہاں جاؤں تو صحیح شافعیہ نے کہا اب وہاں مرنے مارنے والا کوئی نہیں آئے گا وہ جو آئے تھے وہ اس خزانے کے حصے دار تھے اور وہ تمام خزانہ خود لے جانا چاہتے تھے
میں کہہ رہا ہوں یہ لالچ مجھے نہ دو زرتوش نے کہا ہم لوگ تمہاری تہذیب سے تمہارے رہن سہن سے اور تمہاری شاہانہ طور طریقوں سے دور جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہیں تم ہمیں جنگلی کہہ لو وحشی اور درندے کہہ لو لیکن ہم جو کچھ بھی ہیں اپنے آپ میں خوش اور مطمئن ہیں تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ یہ لوگ چھپا ہوا خزانہ اٹھانے گئے تو سب مارے گئے بلکہ جل ہی گئے ہمارے بزرگ ہمیں بتا گئے ہیں کہ کبھی کسی چھوپے ہوئے اور مدفون خزانے کے لالچ میں نہ آنا لوٹا ہوا خزانہ جہاں کہیں بھی چھپا کر رکھا جائے وہاں بدروحوں کا قبضہ ہو جاتا ہے
یہ بدروحیں سانپوں کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہیں یا بڑے زہریلے بچھو بن جاتے ہیں خزانے تک پہنچنے والے جونہی خزانے پر ہاتھ رکھتے ہیں سانپ یا بچھو نکل آتے ہیں اور انہیں ڈس لیتے ہیں وہی ختم کر دیتے ہیں کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ بد روحیں نہ ہوں تو وہاں جنات پہنچ جاتے ہیں جو انسانوں کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور خزانے کی حفاظت کرتے ہیں تمہارے آدمیوں پر جن لوگوں نے حملہ کیا تھا انہیں بدروحیں یا جنات لائے تھے اور وہاں تک پہنچایا تھا چونکہ وہ بھی خزانہ اٹھانے گئے تھے اس لئے آپس میں لڑ مرے اور بدروحوں یا جنات نے مشعلوں سے انہیں جلا ڈالا کیا تم نے کبھی سنا نہیں کہ مدفون خزانوں پر سانپ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں؟
میں تمہیں جانے پر اکسا نہیں رہی شافعیہ نے کہا میں نے ایک خزانے کی نشاندہی کی ہے کبھی دل میں آئے تو وہاں چلے جانا
میں وہاں کبھی نہیں جاؤں گا زرتوش نے کہا تم جس حسن بن صباح کو اللہ کا بھیجا ہوا امام کہتی ہو اس کے بڑے ہی دلکش اثرات میرے قبیلے تک آئے تھے مجھے بڑی ہی حسین لڑکیوں کے اور ایسے ہی خزانوں کے لالچ دیے گئے تھے حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی اس امید پر آئے تھے کہ قبیلے کا سردار جال میں آ گیا تو سمجھو پورا قبیلہ ہاتھ آگیا میرا قبیلہ جنگجو ہے شہسوار ہے حسن بن صباح مجھے اور قبیلے کو اپنی طاقت بنانا چاہتا تھا میں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا ہمارے کچھ اپنے عقیدے ہیں
ہاں اسلام کا کچھ اثر قبول کیا ہے وہ اس لئے کہ اسلام کوئی لالچ نہیں دیتا اسلام کوئی لالچ قبول نہیں کرتا اگر مسلمانوں کے سلطان حکمرانی کو دماغ پر سوار کرلیں اور ان کے امیر عمارت کو اپنا نشہ بنا لیں تو پھر حسن بن صباح جیسے ابلیس کامیاب نہ ہو تو کیوں نہ ہو ان کی نسبت تو ہم جنگلی اچھی ہیں جنہوں نے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو قبول نہیں کیا
ایک بات سنو شافعیہ نے کہا تم باتیں کتنی اچھی اور اخلاقی کرتی ہو لیکن ایک بے بس بھٹکی ہوئی اور کمزور سی لڑکی پر رحم نہیں کرتے
تو نے مجھے حسن بن صباح سے ڈرانے کی کوشش کی ہے زرتوش نے کہا
اگر میں کہوں کہ میں مسلمان ہوں اور حسن بن صباح کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں تو میرے ساتھ تمہارا سلوک کیا ھوگا؟
شافعیہ نے کہا
میں کہوں گا تم مجھے دھوکا دے رہی ہو زرتوش نے کہا مجھے کچھ بھی کہہ لو میں وحشی ہوں درندہ ہوں میں دو راتیں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا کیا یہ رحم نہیں کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنا قیدی نہیں بنا رہا ؟
تم مجھے اس خواہش سے محروم نہیں کر سکوں گی تمہاری نجات اسی میں ہے کہ دو راتوں کے لئے مجھے قبول کر لو
شافعیہ پھر گہری سوچ میں ڈوب گئی اسے اپنے حسن کا اچھی طرح اندازہ تھا وہ جب اس سیاہ فام شخص کو دیکھتی تھی تو اس کا دل ڈوبنے لگتا تھا سوچتے سوچتے اسے ایک روشنی نظر آئی
کیا سوچ رہی ہو زرتوش نے کہا میں تم پر کوئی ظلم نہیں کر رہا اس کے بعد تم آزاد ہو گی اور یہ ایک مرد کا وعدہ ہے
صرف آج کی رات شافعیہ نے کہا میری یہ شرط مان لو صرف آج کی رات صبح مجھے رخصت کر دینا
چلو مان لیا زرتوش نے ہنستے ہوئے کہا
کپڑا مجھے دے دو شافعیہ نے کہا
کپڑا صبح ملے گا زرتوش نے کہا یہ کپڑا صبح تمہارا ہوگا رات کو میرا ہے
اس دوران زرتوش شراب کا ایک ایک گھونٹ پیتا رہا شافعیہ کو رضامند دیکھ کر اس نے کچھ اور شراب چڑھا لیا اس نے بڑے پیار سے شافعیہ کو بستر پر لٹا دیا اس پر ایک تو شراب کا نشہ طاری تھا اور اس کے ساتھ شافعیہ کے حسن و جوانی کا نشہ بھی شامل ہو گیا تھا وہ دیکھ نہ سکا کہ شافعیہ کا دایاں ہاتھ اپنی نیفے کے اندر چلا گیا ہے زرتوش اسکے اوپر جھکا تو شافعیہ نے پوری طاقت سے خنجر اس کے دل کے مقام پر اتار دیا زرتوش پیچھے ہٹا شافعیہ بڑی تیزی سے اٹھی اور خنجر کا ایک اور وار کیا زرتوش پیٹھ کے بل گرا اس نے اپنے دونوں ہاتھ وہاں رکھ لئے جہاں اس کو خنجر لگے تھے اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی خنجر صحیح مقام پر لگے تھے خون کا فوارہ پھوٹ آیا تھا شافعیہ اسے دیکھتی رہی زرتوش کے دونوں ہاتھ جو سینے پر رکھے ہوئے تھے ڈھیلے پڑ گئے اور اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا
شافعیہ نے اسکے چغے کے اندر ہاتھ ڈالا اور وہ کپڑا نکال لیا جس پر زرتوش نے کوئلے سے راستے بنائے تھے یہ کپڑا اس نے اپنے کپڑوں کے اندر نیفے میں اڑس لیا اب اسے یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ زرتوش کے نوکر چاکر جاگ رہے ہوں گے
وہ آہستہ آہستہ باہر نکلی باہر خاموشی تھی کسی اور خیمے میں روشنی نہیں تھی وہ سب شاید سو گئے تھے اور وہ اس خیال سے سو گئے ہوں گے کہ ان کے سردار کو بڑا خوبصورت شکار مل گیا ہے اور وہ اب شراب اور بدکاری میں مگن ہوگا شافعیہ دبے پاؤں گھوڑوں تک پہنچی
زین قریب ہی رکھی تھی اس نے اپنے دونوں گھوڑوں پر زینیں رکھیں اور اچھی طرح کس لی خیمے میں جا کر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور کمر کے ساتھ باندھ لی باہر جاکر اس نے دیکھا کہ ایک گھوڑے پر اس کے کھانے والے تھیلے بندھے ہوئے تھے اور ایک مشکیزے میں پانی اچھا خاصا موجود تھا اب اسے پانی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ جنگل تھا اور جنگل میں پانی کی کمی نہیں ہوتی
اسے ایک خیال آ گیا یہ تو اس نے دیکھا نہیں تھا کہ کس طرف جانا ہے وہ پھر خیمے چلی گئی دو دیے جل رہے تھے شافعیہ نے کپڑا نیفے سے نکال کر اپنے سامنے زمین پر پھیلا دیا اور دیکھا کہ اسے کس طرف جانا ہے یہ راستہ اچھی طرح دیکھ لیا کپڑا لپیٹ کر پھر نیفے میں اڑس لیا اور خیمے سے نکل آئی
وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور گھوڑا چل پڑا لیکن اس نے گھوڑے کو زیادہ تیز نہ چلنے دیا تاکہ اس کے قدموں کی آواز خیموں کے اندر تک نہ پہنچ سکے خاصی دور جا کر اس نے باگوں کو جھٹکا دیا تو گھوڑے کی رفتار تیز ہو گئی
وسم کوہ میں امن قائم ہوچکا تھا باطنیوں کی لاشیں گھسیٹ کر ایک قلعے سے دور چند ایک لمبے چوڑے گڑھے کھود کر ان میں پھینک دی گئیں اور اوپر مٹی ڈال دی گئی تھیں سالار اوریزی کے لشکر کے شہیدوں کو الگ الگ قبروں میں پورے احترام سے دفن کیا گیا تھا
سلطان برکیارق اپنے دونوں بھائیوں محمد اور سنجر کے ساتھ وسم کوہ پہنچ گیا تھا اور تینوں بھائیوں نے سالار اوریزی مزمل آفندی اور بن یونس کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا تھا
لیکن سالار اوریزی! برکیارق نے پہلے روز یہاں پہنچ کر کہا تھا صرف قلعہ سر کرکے ہمارا کام ختم نہیں ہوجاتا ہمارا مقصد یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے اثرات کو اور اس کے پھیلائے ہوئے غلط عقائد کو ختم کیا جائے اس کے لیے قلعہ الموت کو سر کرنا ضروری ہے ورنہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی
آپ پوری سلطنت کا لشکر قلعہ الموت کے محاصرے کے لئے لے جائیں مزمل آفندی نے کہا آپ اس قلعے کو سر نہیں کر سکیں گے اس لئے نہیں کہ باطنی بڑے زبردست جنگجو ہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ قلعہ بلندی پر بنایا گیا ہے اور اس کے تین اطراف سے دریا گزرتا ہے آپ ایک بار اس قلعے کو دیکھ لیں
میں نے یہ قلعہ بڑی اچھی طرح دیکھا ہوا ہے سالار اوریزی نے کہا میں خود کہا کرتا ہوں کہ اس قلعے کو سر کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے لیکن سوچنے والی بات یہی ہے کہ اصل طاقت کہاں ہے وہ حسن بن صباح ہے اگر اس شخص کو سر کرلیا جائے تو صرف قلعہ الموت ہی نہیں بلکہ ان باطنیوں کے تمام قلعے اور ان کے تمام اسرار ہمارے قدموں میں آ گریں گے ہمیں تین چار ایسے جانبازوں کی ضرورت ہے جو قلعہ الموت میں داخل ہوکر حسن بن صباح کو اسی طرح قتل کردیں جس طرح حسن بن صباح کے فدائی ہمارے علماء اور حاکموں کو قتل کر چکے ہیں اور کرتے جا رہے ہیں
میں آج تک کیا کہتا رہا ہوں مزمل آفندی نے کہا دو جانباز تو یہاں بیٹھے ہیں ایک میں ہوں اور دوسرا بن یونس میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم سیدھے جاکر حسن بن صباح کو قتل نہیں کر سکتے ہمیں کچھ جانبازیاں کرنی پڑیں گی آپ اجازت دیں تو میں کچھ اور جانباز تیار کرلوں
اس مسئلے پر بہت دیر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور یہ سب اس نتیجے پر پہنچے کہ جس طرح حسن بن صباح زمین دوز وار کرتا ہے اور سامنے لڑنے کے لیے نہیں آتا اسی طرح اسے ختم کرنے کے لیے بھی کوئی طریقہ کار طے کرنا پڑے گا تاریخ کے دامن میں جو واقعات اب تک محفوظ ہیں ان سے یہ شہادت ملتی ہے کہ مسلمان سالار اور دوسرے حاکم آپس میں اس قسم کی باتیں تو کر لیتے تھے لیکن عملی طور پر وہ ایسے طریقے اختیار نہیں کرتے تھے جو حسن بن صباح کے طریقوں کے توڑ پر ثابت ہو سکتے مسلمان میدان جنگ میں لڑنے کی مہارت اور جذبہ رکھتے تھے لیکن حسن بن صباح لشکروں کی دو بدو لڑائی کا قائل نہیں تھا وہ سانپوں اور بچھوؤں کی طرح ڈنگ مارا کرتا تھا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نے اپنے فدائی تیار کر رکھے تھے اور وہ فدائی زہریلے ناگوں اور بچھوؤں جیسے ہی تھے
سلطان برکیارق نے اپنا ایک مسئلہ پیش کر دیا اس نے کہا کہ اس کی صحت اس قابل نہیں رہی کہ سلطانی کے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکے مسلمان مورخوں میں سے اکثر نے تو سلطان برکیارق کی بیماری کا ذکر ہی نہیں کیا اور جن دو مسلمان مورخوں نے ذکر کیا ہے وہ اتنا ہی کیا ہے کہ سلطان برکیارق علیل ہو گیا تھا البتہ ایک یورپی تاریخ دان ہیمز سٹیفن نے تفصیلی سے ذکر کیا ہے اس نے لکھا ہے کہ سلطان برکیارق ذہنی طور پر ٹھیک نہیں رہا تھا
اس نے لکھا ہے کہ سلطان برکیارق ایک باطنی لڑکی کے زیر اثر آ گیا تھا اور اس نے اس دوران بڑے غلط فیصلے کیے تھے اور اپنی ماں تک کی بے ادبی کی تھی برکیارق نے اس لڑکی کو جو اس کی بیوی بن گئی تھی اپنے ہاتھوں کو قتل کیا تھا اور اس سے برکیارق کے ضمیر سے گناہ کا بوجھ اتر جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا
خانہ جنگی کا بوجھ بھی برکیارق نے اپنے ضمیر پر لے رکھا تھا اس نے اپنی ماں کے قدموں میں جا کر سر رکھا تھا اور معافیاں مانگی تھیں اس نے اللہ تبارک و تعالی کی بہت عبادت کی تھی اور وہ اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا رہتا تھا لیکن خانہ جنگی میں جو لوگ مارے گئے تھے برکیارق اپنے آپ کو ان سب کا قاتل سمجھتا تھا اس نے سلطنت کے امور کے سلسلے میں بڑے اچھے فیصلے کئے تھے اور اس نے اپنی زندگی سلطنت کے استحکام کے لئے اور عوام کی خوشحالی کے لیے اور حسن بن صباح کی تباہی کے لئے وقف کردی تھی اسے علماء نے یقین دلایا تھا کہ اللہ تبارک و تعالی نے اس کے گناہ معاف کر دیے ہیں لیکن وہ جب تنہا ہوتا تو اپنے ضمیر کا سامنا کرنے سے گھبراتا اور پریشان ہو جاتا تھا
یہ ایسا ذہنی مرض تھا جس نے اس کے دماغ پر یعنی سوچنے کی قوت پر اور جسم پر بھی اثر کیا اس کی جسمانی حالت یہ ہوگئی تھی کہ جوانی میں ہی وہ بوڑھا نظر آنے لگا تھا طبیبوں نے اس کے علاج میں دن رات ایک کر دیا تھا اسے ایسی ایسی دوائی تیار کرکے دیں تھیں جن کا کوئی عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن مرض بڑھتا ہی گیا اور برکیارق ایسے مقام پر پہنچا جہاں اس نے محسوس کیا کہ وہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے معذور ہو گیا ہے
ہم تینوں بھائیوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کر لی تھیں برکیارق نے کہا مجھے توقع تو یہ تھی کہ یہ تقسیم سلطنت کے اندرونی مسائل اور دفاعی ضروریات کے لیے اچھی ثابت ہوگی یہ اچھی ہی ثابت ہو رہی تھی کیونکہ ہم تینوں بھائیوں میں اتفاق اور اتحاد اور انہوں نے میرے ہی فیصلوں کو تسلیم کیا لیکن میں اب شدت سے محسوس کر رہا ہوں کہ میں اب سلطنت کا کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں رہا میں تم سب سے مشورہ نہیں لے رہا بلکہ فیصلہ سنا رہا ہوں کہ آج سے میرے دونوں بھائی محمد اور سنجر سلطنت کے سلطان ہونگے اور سلطنت تین کی بجائے دو حصوں میں تقسیم ہو گی لیکن اس کا مرکز مرو میں ہی رہے گا
سب پر سناٹا طاری ہوگیا برکیارق کا یہ فیصلہ اچانک اور غیر متوقع تھا سالار اوریزی نے برکیارق کے اس فیصلے کے خلاف کچھ کہا اور دوسروں نے اس کی تائید کی لیکن برکیارق اپنے فیصلے پر قائم رہا اور اس نے یہ بھی کہا کہ تم لوگ میرے جذبات میں آگئے تو اس کا سلطنت کو نقصان ہو سکتا ہے کچھ دیر بحث مباحثہ جاری رہا لیکن برکیارق نے سختی سے اپنا آخری فیصلہ ایک بار پھر سنایا اور سب کو خاموش کر دیا
میں سلطنت سے لاتعلق نہیں ہو جاؤں گا برکیارق نے کہا جہاں کہیں تمہیں میری ضرورت محسوس ہوئی میں پہنچوں گا اور میری جان اور میرا مال سلطنت کے لیے وقف رہے گا
برکیارق بظاہر خوش وخرم نظر آتا تھا اور وہ ہر بات بڑی خوشگوار انداز میں کرتا تھا اس نے اگر کبھی اپنی بیماری کا ذکر کیا تو اس میں مایوسی اور اداسی کی جھلک نہیں تھی اس نے مزمل کی طرف دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
مزمل! برکیارق نے مسکراتے ہوئے کہا شمونہ میرے ساتھ آئی تھی اور وہ میرے ساتھ واپس نہیں جائے گی میں حیران ہوں کہ راستے میں اس نے میرے ساتھ کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اب تمہارے ساتھ شادی کر ہی لینا چاہتی ہے بلکہ وہ ایک ہی بات کرتی ہے کہ وہ جہاد کرنا چاہتی ہے اس کا اسے موقع نہیں مل رہا کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ وسم کوہ کی فتح کی خوشی میں تمہارا نکاح آج ہی پڑھا دیا جائے؟
سب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے برکیارق کی تائید کی یہ شادی بہت عرصہ پہلے ہو جانی چاہیے تھی اور ہونی ہی تھی لیکن مزمل اور شمونہ پر ایسی کیفیت طاری رہتی تھی کہ شادی کو وہ نظر انداز کرتے چلے آرہے تھے دونوں نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بنا لیا تھا اور وہ تھا حسن بن صباح کا قتل اور باطنیوں کا قلع قمع مزمل اور شمونہ جوانی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے تھے شمونہ کو جب اطلاع ملی تھی کہ وسم کوہ فتح کر لیا گیا ہے اور اس میں مزمل آفندی اور بن یونس کا خاصہ ہاتھ ہے اور ان دونوں نے کامیابی سے باطنیوں کو دھوکا دیا ہے تو وہ اڑ کر مزمل کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی لیکن اکیلے وہاں تک جانا ممکن نہیں تھا اسے پتہ چلا کہ سلطان برکیارق وسم کوہ جا رہا ہے تو وہ فوراً برکیارق کے پاس جا پہنچی اور کہا کہ وہ بھی جانا چاہتی ہے اس طرح برکیارق اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا
اسی شام وسم کوہ میں مزمل اور شمونہ کی شادی ہوگئی
اگلے روز برکیارق نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا اسے محمد اور سنجر کے ساتھ ایک روز بعد مرو کیلئے روانہ ہو جانا تھا یہ لوگ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کوئی سلطان پسند نہیں کرتا کہ وہ جب کھانے پر بیٹھا ہو تو دربان اندر آکر اسے اطلاع دے کہ فلاں شخص آیا ہے یا فلاں واقعہ ہوگیا ہے لیکن برکیارق نے اپنے دربانوں کو کہہ رکھا تھا کہ وہ کھانے پر بیٹھا ہو یا گہری نیند سویا ہوا ہو کوئی خاص واقعہ ہوجائے یا کوئی خاص آدمی اسے ملنے آجائے تو اسے جگا لیا جائے یہ دربانوں کی صوابدید پر تھا کہ وہ ملاقاتیوں کے چھان بین کر کے دیکھیں گے کہ یہ ملاقات فوری طور پر ضروری ہے یا نہیں
قلعہ وسم کوہ میں برکیارق کھانے پر بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ اس کے دونوں بھائی تھے سالار اوریزی تھا مزمل آفندی اور بن یونس تھے اور وسم کوہ کا نیا امیر بھی تھا جسے برکیارق نے مقرر کیا تھا دربان اندر آیا اور کہا کہ ایک خاتون بہت ہی بری حالت میں آئی ہے اور کہتی ہے کہ بہت عرصے سے سفر میں تھی اور مرتے مرتے منزل پر پہنچی ہے برکیارق نے کہا کہ اسے اندر بھیج دو
ایک جواں سال عورت کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی اس کے کپڑوں پر گرد بیٹھی ہوئی تھی اس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا جیسے لاش قبر سے نکل کر آئی ہو اس کی آنکھیں نیم وا تھیں اور اس کا منہ کھلا ہوا تھا اگر دربان اسے سہارا نہ دیتا تو وہ گر پڑتی برکیارق کے کہنے پر اسے بٹھا دیا گیا اور وہ اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے
میرا نام شافیعہ عورت نے بڑی ہی مشکل سے یہ الفاظ باہر کو دھکیلے میں یہی کی رہنے والی ہوں اور ابو جندل کی بھتیجی ہوں اتنا کہہ کر وہ ایک طرف کو جھک گئی وہ بے ہوش ہو چکی تھی…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:43 }
میرا نام شافیعہ عورت نے بڑی ہی مشکل سے یہ الفاظ باہر کو دھکیلے میں یہی کی رہنے والی ہوں اور ابو جندل کی بھتیجی ہوں اتنا کہہ کر وہ ایک طرف کو جھک گئی وہ بےہوش ہو چکی تھی
اسے اٹھا کر فورا طبیب کے پاس لے جاؤ برکیارق نے کہا یہ بیمار تو ہے ہی بھوکی اور پیاسی بھی لگتی ہے یہ ہوش میں آجائے تو اسے کھانے کو کچھ دے دینا اس کے بعد میں اگر یہاں ہوا تو مجھے بتانا میں چلا گیا تو سالار اوریزی کو اطلاع دے دینا
شافعیہ سولہ سترہ دنوں بعد وسم کوہ پہنچی تھی
برکیارق مرو پہنچا تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ ہر طرف اعلان کردیا کہ وہ اب سلطان نہیں اور اب محمد اور سنجر سلطان ہیں برکیارق نے عوام میں مقبولیت حاصل کرلی تھی لوگوں نے یہ فیصلہ سنا تو چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے کہ بھائیوں میں اختلافات پیدا ہو گیا ہے اور چھوٹے دونوں بھائی جیت گئے ہیں اور انہوں نے بڑے بھائی کو سلطانی سے معزول کر دیا ہے
عوام کا یہ ردعمل برکیارق تک پہنچا تو اس نے یہ انتظام کیا کہ سرکاری اہلکار لوگوں کو تمام سلطنت میں بتا دیں کہ یہ فیصلہ اس نے خود بیماری کی وجہ سے کیا ہے اور لوگ محمد اور سنجر کے وفادار ہو جائیں
لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ برکیارق بیمار ہے تو مسجدوں میں اس کی صحت یابی کی دعائیں ہونے لگیں اس کی بیماری کی خبر تمام تر سلطنت میں پھیل گئی اور اصفہان تک بھی پہنچی
اصفہان کی جامع مسجد کے خطیب اس وقت کے ایک بڑا ہی مشہور عالم قاضی ابو الاعلاء بن ابو محمد نیشاپوری تھے عالم ہونے کے علاوہ وہ مرد میدان بھی تھے ان کے خطبوں میں جہاد کی تلقین زیادہ ہوتی تھی وہ جب خطبہ دیتے تو اس میں الفاظ کا ہیر پھیر اور پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ ایسی سادہ زبان میں خطبہ دیا کرتے تھے کہ معمولی سے ذہن کے لوگ بھی اصل بات سمجھ جاتے تھے وہ باطنیوں کے بہت بڑے دشمن تھے انہیں پتہ چلا کے برکیارق بیمار ہوگیا ہے اور بیماری نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ اس نے سلطانی چھوڑ دی ہے تو وہ اسی وقت مرو کے لیے روانہ ہوگئے بڑے ہیں لمبے سفر کے بعد وہ مرو پہنچے اور برکیارق کا مہمان بنے برکیارق انہیں اپنا دینی اور روحانی پیشوا سمجھا کرتا تھا قاضی ابو الاعلاء نے برکیارق سے پوچھا کہ اس کی بیماری کیا ہے وہ دیکھ رہے تھے کہ برکیارق وقت سے پہلے مرجھا گیا ہے لیکن اسے ظاہری طور پر کوئی بیماری نہیں برکیارق نے انہیں بتایا کہ وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے ذہن پر کیا اثر ہو گیا ہے کہ وہ کھویا کھویا سا رہتا ہے اور یوں خوف سا محسوس کرتا ہے جیسے کوئی ناخوشگوار واقعہ یا حادثہ ہونے والا ہو
قاضی ابو الاعلاء نے اسے تمام علامات پوچھیں اور اس کے طبیب کو بلایا طبیب آیا تو قاضی نے طبیب سے پوچھا کہ اس نے برکیارق میں کیا بیماری دیکھی ہے
یہ پتا چل جاتا تو میں اب تک انہیں صحت یاب کر چکا ہوتا طبیب نے کہا میں اپنا تمام تر علم اور تجربہ آزما چکا ہوں لیکن سلطان ٹھیک نہیں ہورہے معلوم ہوتا ہے ان کے ذہن اور دل پر کوئی ایسا بوجھ ہے جسے یہ بیان نہیں کر سکتے یا سمجھ ہی نہیں سکتے
قاضی نے برکیارق سے بہت پوچھا کہ وہ دل پر کیا بوج لیے ہوئے ہے لیکن برکیارق نے بتانا مناسب نہ سمجھا وہ بیان ہی نہ کر سکا کہ اسے اندر ہی اندر کیسی دیمک کھا رہی ہے
مجھے اچھی طرح یاد ہے قاضی ابوالاعلاء صاحب نے کہا آپ کے والد محترم ملک شاہ کو باطنیوں نے دھوکے میں ایسا زہر پلا دیا تھا جو آہستہ آہستہ انہیں کھاتا رہا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے معلوم ہوتا ہے آپ کو بھی باطنیوں نے کوئی چیز کھلا دی ھے جس کا آپ کو پتہ ہی نہیں چلا
میں نے اس شک کے پیش نظر بھی دوائیاں دی ہیں طبیب نے کہا اگر انہیں کسی بھی قسم کا زہر پلا دیا گیا ہوتا تو اس کے اثرات ان دوائیوں سے ختم ہو جاتے یہ کچھ اور ہی ہے
میں آج رات تنہائی میں بیٹھونگا قاضی نے کہا اللہ نے مجھے کشف کی کچھ طاقت عطا فرمائی ہے مجھے کچھ شک ہے کہ یہ سفلی تعویز کا اثر ہے حسن بن صباح سفلی عمل سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ وہ یہ عمل اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال بھی کرتا ہے اگر ایسا ہوا تو مجھے آج رات پتہ چل جائے گا
برکیارق نے قاضی ابوالاعلاء صاحب کے لیے ایک خاص کمرہ تیار کروا دیا جس میں مصلّہ قرآن پاک اور جو کچھ بھی قاضی نے کہا رکھ دیا گیا رات عشاء کی نماز کے بعد قاضی ابو الاعلاء نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور مصلّے پر بیٹھ گئے وہ رات کے آخری پہر تک مراقبے میں رہے اور پھر تہجد ادا کی اذان کے بعد فجر کی نماز پڑھی اور سوگئے طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد وہ کمرے سے نکلے اور برکیارق کے پاس گئے
میرا شک صحیح نکلا ہے اس نے برکیارق سے کہا یہ سفلی تعویز کا اثر ہے لیکن یہ حسن بن صباح نے نہیں کیا بلکہ یہاں کوئی آدمی ہے جس نے اپنے طور پر آپ کو ختم کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے میں اس کا توڑ کر دوں گا لیکن یہاں نہیں میں کل صبح اصفہان کے لئے روانہ ہو جاؤں گا اس تعویذ کے لئے کم از کم تین راتوں کا چلّہ کرنا پڑے گا پھر تعویذ لکھا جائے گا جب یہ تعویذ تیار ہوگیا تو میں آپ کو بھیج دوں گا اسے کس طرح استعمال کرنا ہوگا وہ میں تعویذ لانے والے کو بتا دوں گا
برکیارق کو باطنی معاف نہیں کرسکتے تھے پہلے سنایا جاچکا ہے کہ برکیارق ایک لڑکی کے ساتھ شادی کر کے نہ دانستہ طور پر حسن بن صباح کا اعلی کار بن گیا تھا یہ اس لڑکی کا کمال تھا لیکن وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ برکیارق کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کی عقل سے پردہ اٹھ گیا یہ شمونہ کا کمال تھا برکیارق نے اپنی اس بیوی کو اپنے ہاتھوں قتل کیا اور اس کے بعد اس نے حکم دے دیا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کر دیا جائے گا باطنی اپنے اتنے زیادہ ساتھیوں کا خون کیسے معاف کر دیتے انہوں نے جس طرح دوسری کئی ایک شخصیات کو قتل کیا تھا برکیارق کو بھی قتل کر دیتے لیکن انہیں موقع نہیں مل رہا تھا کیونکہ برکیارق جدھر بھی جاتا تھا اس کے اردگرد محافظوں کا حصار ہوتا تھا اگر قاضی ابو الاعلاء کی تشخیص صحیح تھی تو یہ عمل باطنیوں نے ہی کیا تھا
قاضی ابو الاعلاء اگلے روز فجر کی نماز کے فوراً بعد واپس اصفہان کو چل پڑے ان کے ساتھ دس بارہ آدمی تھے جو ان کے ایسے مرید تھے کہ ان پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے، وہ قاضی کو کہیں اکیلا نہیں جانے دیتے تھے کیونکہ اس وقت تک باطنی کئی ایک علماء دین کو قتل کر چکے تھے
اصفہان میں اہلسنت کی اکثریت تھی وہ اپنے خطیب قاضی ابو الاعلاء کی غیرحاضری بڑی بری طرح محسوس کر رہے تھے وہ پوچھتے تھے خطیب کہاں گئے انہیں بتایا گیا کہ سلطان برکیارق بیمار ہیں اور ان کی عیادت کو گئے ہیں یہ تو لوگوں کو پہلے پتا تھا کہ برکیارق بیمار ہے لیکن جب انہیں یہ پتہ چلا کہ جامع مسجد کے خطیب ان کی عیادت کو گئے ہیں تو لوگ متفکر ہوئے کہ برکیارق کچھ زیادہ ہی بیمار ہو گیا ہے وہاں کے لوگ برکیارق کو اس لیے زیادہ عزیز رکھتے تھے کہ اس نے باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا اصفہان میں باطنیوں نے مسلمانوں کا اچھا خاصا کُشت و خون کیا تھا
آخر ایک روز ان کے لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کے خطیب واپس آگئے ہیں کئی لوگ ان کے گھر جا پہنچے اور برکیارق کی صحت کے متعلق پوچھا قاضی ابوالاعلاء نے کہا کہ اتفاق سے کل جمعہ ہے میں مسجد میں سب کو بتاؤں گا کہ برکیارق کس بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے اور اب اس کی حالت کیا ہے
اگلے روز جمعہ تھا جمعہ کے روز تو جامع مسجد نمازیوں سے بھر جایا کرتی تھی لیکن اس جمعہ کی نماز کے وقت یہ حالت ہو گئی تھی کہ مسجد کے اندر تیل دھرنے کو جگہ نہیں رہی تھی اور بہت سے نمازیوں کو مسجد کے باہر صفیں بچھانی پڑیں سب سلطان برکیارق کی بیماری کے متعلق تازہ اطلاع سننے آئے تھے خطبے سے پہلے قاضی ابوالاعلاء صاحب ممبر پر کھڑے ہوکر بڑی ہی بلند آواز سے برکیارق کی بیماری کے متعلق بتانے لگے
برکیارق بن ملک شاہ کو کوئی جسمانی بیماری نہیں قاضی ابو الاعلاء نے کہا میں نے مراقبے میں بیٹھ کر کشف کے ذریعے معلوم کیا ہے برکیارق پر سفلی تعویز کا اثر ہوگیا ہے اور یہ کارستانی کسی باطنی کی ہے سب لوگ برکیارق کی صحت یابی کے لیے دعا کریں کوئی پتہ نہیں کس کی اللہ سن لے اور برکیارق کی صحت بحال ہوجائے میں اس کے لیے ایک تعویذ تیار کر رہا ہوں جس میں تین چار دن لگ جائیں گے اس تعویز سے ان شاء اللہ اس پر جو سفلی کے اثرات ہیں رفع ہو جائیں گے
نماز کے بعد برکیارق کی صحتیابی کے لئے خصوصی دعا کی گئی قاضی ابوالاعلاء نے یہ اعلان کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی کہ وہ تعویذ تیار کر رہا ہے ان کے ذہن سے شاید یہ حقیقت نکل گئی تھی کہ باطنی نظر نہ آنے والے سائے کی طرح ہر جگہ موجود رہتے ہیں اور ذرا ذرا خبر اوپر پہنچا کر اس کے خلاف جو کارروائی ضروری ہو کرتے ہیں
اگلے روز فجر کی نماز کے وقت جماعت کھڑی ہوئی تو قاضی ابوالاعلاء امامت کے لیے مصلے پر جا کھڑے ہوئے عموماً یوں ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے پہلی صف میں ان کے خاص آدمی کھڑے ہوتے تھے تاکہ قاضی پر کوئی حملہ نہ کر سکے اس روز فجر کی نماز کے وقت جب قاضی مصلے پر کھڑے ہوئے اور تکبیر پڑھی جا رہی تھی تو دوسری صف سے ایک آدمی بڑی تیزی سے آگے بڑھا اور اگلی صف کے دو آدمیوں کو زور سے دھکا دیا دونوں آدمی اس دھکے سے سنبھل نہ سکے اور امام کے ساتھ ٹکرائے اس شخص نے اتنی دیر میں خنجر نکال لیا تھا قاضی ابو الاعلاء چوک کر پیچھے مڑے کہ یہ کیا ہوگیا ہے بیشتر اس کے کہ انہیں پتہ چلتا یہ کیا ہوا ہے خنجر ان کے دل میں اتر چکا تھا خنجر باہر نکلا اور پھر ان کے دل میں اتر گیا
نمازی تو کچھ بھی نہ سمجھ سکے ادھر قاضی مصلے پر گرے ادھر ان کا قاتل ممبر پر چڑھ گیا اور خنجر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر کیا اور بڑی زور سے نعرہ لگایا شیخ الجبل امام حسن بن صباح کے نام پر اور اس نے خنجر نیچے کو کھینچا اور اپنے سینے میں اتار لیا
ایک اور عالم دین باطنیوں کے نذر ہوگئے یہ پانچویں صدی ہجری کا آخری سال تھا
قاضی ابوالاعلاء صاعد بن ابو محمد نیشاپوری کے قتل کی اطلاع مرو پہنچی تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ سلطان کے محل میں کیا ردعمل ظاہر ہوا ہوگا وہ تو ایک دھماکہ تھا جس نے پہلے تو سب کو سن کر دیا اور اس کے بعد سب شعلوں کی طرح بھڑک اٹھے برکیارق کا سب سے چھوٹا بھائی سنجر کچھ زیادہ ہی جوشیلا تھا لیکن وہ ایسا جذباتی نہیں تھا کہ عقل پر جذبات کو غالب کر دیتا پھر اسے فن حرب و ضرب میں بہت ہی دلچسپی تھی اور اس میں قیادت کے جوہر بھی تھے ابھی وہ جوان تھا اور جوانی نے ایسا جوش مارا کہ اس نے اعلان کر دیاکہ وہ باطنیوں کے قلعوں پر حملہ کرے گا اور واپس مرو میں اس وقت آئے گا جب باطنیوں کا نام و نشان مٹ چکا ہوگا
اس وقت سلطنت سلجوقیہ کا وزیراعظم فخرالملک ابوالمظفر علی تھا وہ اس سلطنت کے مشہور وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی مرحوم کا بیٹا تھا پندرہ برس پیشتر ایک باطنی نے نظام الملک خواجہ حسن طوسی کو قتل کردیا تھا اب ان کا بیٹا ابو مظفر علی وزیراعظم تھا اور سلطان نے اسے مخرالملک کا خطاب دیا تھا وہ اپنے باپ جیسا دور اندیش اور دانشمند تھا اسے قاضی ابو الاعلاء کے قتل کی خبر ملی تو وہ اسی وقت سلطان کے محل پہنچا
وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سلطان محمد اور سلطان سنجر کا رد عمل کیا ہے اس نے دیکھا کہ ردعمل بڑا ہی شدید ہے تو اسے خطرہ محسوس ہوا کہ یہ دونوں بھائی اس غم و غصے سے مغلوب ہو کر کوئی غلط فیصلہ یا جلد بازی کر گزریں گے اس نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ منصوبہ اسے بنانے دیں کہ انتقامی کاروائی کیسے کی جائے اور کب کی جائے
اب ہم سوچنے میں مزید وقت ضائع نہیں کریں گے محمد نے کہا اب ہمیں الموت پر یا باطنیوں کے دوسرے بڑے اڈے قلعہ شاہ در پر حملہ کر دینا چاہیے یہی فیصلہ کرتا ہوں اور میں اس فیصلے کی تائید چاہتا ہوں کہ شاہ در میں حسن بن صباح کا استاد رہتا ہے ہم پہلے اس اڈے کو تباہ کریں گے
شاہ در وہ قلعہ بند شہر تھا جہاں سے حسن بن صباح اپنے استاد احمد بن عطاش سے تربیت حاصل کر کے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع و عریض علاقے پر چھا گیا تھا اور اس نے الموت میں جنت بھی بنا لی تھی
وزیر اعظم ابو المظفر علی اپنے مرحوم باپ کی طرح صرف وزیراعظم ہی نہیں تھا بلکہ سپہ سالار بھی تھا یعنی جنگجو تھا اور میدان جنگ میں قیادت کی اہلیت بھی رکھتا تھا اس نے برکیارق محمد اور سنجر سے کہا کہ اسے اجازت دیں کہ وہ قلعہ شاہ در کے محاصرے کا منصوبہ تیار کرے اور اپنے لشکر کو اپنی نگرانی کے تحت تیار کرے
آپ ضرور کریں محمد نے کہا لیکن تین چار دنوں سے زیادہ وقت ضائع نہ ہو اس حملے اور محاصرے کی قیادت میں خود کروں گا آپ منصوبہ تیار کرلیں اور لشکر کو بھی ضروری تربیت دے لیں
اُدھر قلعہ وسم کوہ میں شافعیہ اگلے روز ہوش میں آئی اس نے ہوش میں آتے ہی پہلی بات طبیب کو یہ بتائی کہ وہ چار پانچ دنوں سے بھوکی ہے اور صرف پانی پی رہی ہے طبیعت نے اپنے ایک آدمی سے کہا کہ وہ مریضہ کے منہ میں قطرہ قطرہ شہد اور دودھ ٹپکاتا رہے اسے فوراً اتنی غذا نہیں دینی تھی جس سے پیٹ بھر جاتا کیونکہ اس کا جسم اتنی زیادہ غذا کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا اس وقت برکیارق مرو جانے کے لیے وسم کوہ سے رخصت ہو چکا تھا
طبیب نے سالار اوریزی کو اطلاع دی کہ مریضہ ہوش میں آگئی ہے سالار اوریزی اسی وقت پہنچا اور مریضہ کی حالت دیکھی وہ تو زندہ لاش تھی ابھی کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی وہ شافعیہ کو تسلی دلاسا دے کر وہاں سے آ گیا اس نے بہتر یہ سمجھا کہ مریضہ کے ساتھ کوئی عورت ہونی چاہیے وہاں عورتوں کی کمی نہیں تھی لیکن محسوس یہ کیا گیا کہ اس لڑکی کے ساتھ کوئی عقل والی عورت ہو اوریزی نے اس لیے یہ محسوس کیا تھا کہ شافعیہ نے سرگوشی میں ایک آدھ بات بڑی مشکل سے کہی تھی اور یہ بات ایسی تھی کہ اوریزی سمجھ گیا کہ یہ کوئی عام سی قسم کی لڑکی نہیں اور اس کا کوئی خاص پس منظر ہے اسے شک ہوا تھا کہ یہ باطنیوں کی لڑکی ہو گی
سالار اوریزی نے مزمل کے ساتھ بات کی تو مزمل نے کہا کہ وہ شمونہ کو لڑکی کے پاس بھیج دے گا جس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ عورت عورت کے ساتھ دل کی بات کر دیا کرتی ہے شمونہ تجربے کار تھی جس سے یہ امید رکھی جاسکتی تھی کہ وہ شافعیہ کے سینے سے راز کی کوئی بات اگر ہوئی تو نکال لے گی
دن گزر گیا اور رات گہری ہونے لگی شافعیہ کو اتنا زیادہ شہید دودھ دیا جا چکا تھا کہ اس کے جسم میں جان آگئی اور وہ تھوڑا تھوڑا بولنے لگی رات کو اس نے اپنے ہاتھ سے شہد ملا دودھ پیا اور پھر اسے تھوڑی سی ٹھوس غذا دی گئی شمونہ اس کے ساتھ رہی شافعیہ بے ہوشی کی نیند سو گئی اور اگلے سورج نکل آنے کے خاصا بعد جاگی شمونہ نے دیکھا کہ اب وہ اچھی طرح بول سکتی ہے
شمونہ نے اس سے پوچھا وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے؟
شافعیہ نے کہا کہ وہ یہیں سے گئی تھی اور واپس یہیں آگئی ہے یہاں سے گئی تھی تو میرے ساتھ میری چھوٹی بہن تھی اور چچا بھی تھا شافعیہ نے کہا واپس آئی ہوں تو اکیلی ہوں
شافعیہ نے شمونہ کو اپنی پوری داستان سنا ڈالی کہ وہ کس طرح اور کیوں یہاں سے رخصت ہوئی تھی اور کہاں تک گئی اور کسطرح واپس آئی اس نے کسی بات پر پردہ نہ ڈالا
شمونہ اسی وقت گھر گئی اور مزمل کو شافعیہ کی ساری داستان سنائی مزمل اسی وقت سالار اوریزی کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ لڑکی نے اپنے متعلق کیا سنایا ہے سالار اوریزی نے کہا کہ وہ حیران تھا کہ اس کا یہ عہدے دار شمشیر ابلک کہاں غائب ہو گیا ہے اس کی کہیں لاش نہیں ملی تھی نہ ہی وہ کہیں زخمی حالت میں پڑا تھا اب شافعیہ نے سالار اوریزی کو اس سوال کا جواب دے دیا
شافعیہ زرتوش کو قتل کر کے وہاں سے نکلی تو نقشے نے اس کی صحیح رہنمائی کی وہ تین چار دن گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھی سفر طے کرتی رہی اسے اس جنگل میں کوئی بستی اور کوئی انسان نہ ملا اس نے بہت مشکلات برداشت کیں اسے یہ احساس رہا ہی نہیں تھا کہ کتنے دن اور کتنی راتیں گزر گئیں ہیں وہ جنگل سے نکل کر بنجر ویرانوں میں داخل ہوئی جہاں پانی کا ایک قطرہ بھی نظر نہیں آتا تھا نہ وہاں کوئی سبز پتا دکھائی دیتا تھا وہ وہاں سے بھی نکل آئی سفر کے آخری آٹھ دس دن اس کے لیے قیامت کے دن تھے اس پر ایک آفت یہ پڑی کہ ایک گھوڑے کو رات کے وقت زہریلے سانپ نے ڈس لیا اور گھوڑا تڑپ تڑپ کر مر گیا اب اس کے پاس ایک گھوڑا رہ گیا تھا وہ اس پر سوار ہوئی اور دو دنوں بعد پھر ایک بھرے جنگل میں داخل ہوئی اور طوفان باد باراں میں پھنس گئی بڑا ہی خوفناک طوفان تھا بجلی کڑکتی تھی اور دو مرتبہ بجلی دو درختوں پر گری اور ٹہن ٹوٹ کر نیچے آ پڑی آگے ایک ندی تھی جس میں سیلاب آ گیا تھا شافعیہ نے روکنے کی بجائے گھوڑا ندی میں اتار دیا لیکن سیلاب اس قدر تیز و تند تھا کہ گھوڑے کو اپنے ساتھ بہانے لگا بہت دور جا کر پانی پھیلا تو گھوڑا پانی میں چل کر باہر نکل آیا لیکن شافعیہ یہ معلوم نہ کر سکی کہ وہ اب کہاں ہے اس نے کپڑا نکالا اس کپڑے پر کوئلے کی لکیریں ڈالی گئی تھیں مصیبت یہ آ پڑی کہ وہ سیلاب میں اتری تھی اور تمام کپڑے بھیگ گئے تھے اس لیے اس کپڑے سے کوئلے کی لکیریں مٹ گئی تھیں
وہ اللہ کے بھروسے آگے ہی آگے بڑھتی گئی ایک اور دن کی مسافت کے بعد اس کے راستے میں ایک اور چشمہ آ گیا وہاں وہ گھوڑے کو پانی پلانے کے لئے رک گئی اس نے خود بھی پانی پیا لیکن اس کے پاس کھانے کا سامان ختم ہو چکا تھا وہ جب پانی پی چکی تو اسے یاد آیا جب وہ خزانے والی غار کی طرف جارہی تھی تو یہ چشمہ راستے میں آیا تھا اس چشمے کے قریب ایک اونچی ٹیکری تھی وہ اس ٹیکری پر چڑھ گئی اور ادھر ادھر دیکھا اسے دو اور نشانیاں نظر آ گئیں اور یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ وہ ایک دن زیادہ سے زیادہ دو دن کی مسافت دور رہ گئی ہے اور اب اس کی منزل آئی کہ آئی پھر یوں ہوا کہ وہ ایک جنگل میں جا رہی تھی اب اس کے دل پر ایسا بوجھ نہیں تھا کہ وہ ایک بار پھر راستہ بھول گئی ہے اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ صحیح راستے پر جا رہی ہے پہلے وہ اللہ کی مدد اور رہنمائی مانگتی تھی اب اس نے اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کر دیا وہ جا رہی تھی کہ اچانک سات آٹھ بھیڑیے کہیں سے نکلے اور اس کی طرف دوڑ پڑے گھوڑے کو ایڑ لگانے کی ضرورت نہیں تھی گھوڑا ڈر کر ہی خود بھاگ اٹھا اور بہت ہی تیز بھاگا بھیڑیے بھی رفتار کے بہت تیز تھے اور یقیاً بھوکے تھے اس لئے وہ دوڑے ہی چلے آ رہے تھے اور فاصلہ بہت کم ہوتا جا رہا تھا
شافعیہ نے سوچا کہ بھیڑیوں نے گھوڑے کو پکڑ لیا تو گھوڑا گرے گا اور وہ بھی گھوڑے کے ساتھ گرے گی اور کچھ بھیڑیے گھوڑے کو اور کچھ اسے مار کر کھانا شروع کردیں گے وہ سوچنے لگی کہ گھوڑے سے کس طرح کود کر اترے اور کسی اور طرف دوڑ پڑے لیکن کودنا تو شاید آسان تھا لیکن خطرہ یہ تھا کہ دو چار بھیڑیئے اس کے پیچھے دوڑ کر اسے پکڑ لیں گے
شافعیہ نے سامنے دیکھا ایک پھیلا ہوا بہت بڑا درخت راستے میں آ رہا تھا درخت کا ایک ٹہن زمین سے متوازی تھا
شافعیہ نے سوچ لیا کہ وہ اس ٹہن کو پکڑ لے گی اور گھوڑا اس کے نیچے سے نکل جائے گا گھوڑا پوری رفتار سے جا رہا تھا اور بھیڑیے اس کے اتنے قریب آ گئے تھے کہ آدھے دائیں طرف اور آدھے بائیں طرف ہو گئے تھے درخت قریب آگیا شافعیہ نے رکابوں سے پاؤں باہر نکال لیا اور جب وہ درخت کے نیچے سے گزری تو ہاتھ اوپر کرکے ٹہن پکڑ لیا اس کا خیال تو یہ تھا کہ ٹہن بڑے آرام سے اس کے ہاتھ میں آجائے گا اور گھوڑا نیچے سے نکل جائے گا لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکی کہ وہ کس رفتار سے جا رہی ہے اس نے ٹہن پکڑ لیا اور ٹہن نے جب اسے اتنی زیادہ رفتار سے روکا تو اسے یوں لگا جیسے اس کے بازو ٹہن کے ساتھ رہ گئے ہیں اور باقی جسم گھوڑے کے ساتھ چلا گیا ہے اسے اپنے سے الگ ہوتے ہی وہ گر پڑی کچھ چوٹ گرنے سے آئی اور شدید درد کرنے لگی اسے حاصل صرف یہ ہوا کہ بھیڑیوں سے بچ گئی تھی گھوڑا اور بھیڑیے دور نکل گئے تھے
شافعیہ نے ذرا بلند زمین پر کھڑے ہو کر دیکھا اسے کچھ ایسی امید تھی کہ شاید گھوڑا اتنا تیز دوڑے کے بھیڑیے ہار کر اسے چھوڑ دیں اور گھوڑا واپس آجائے لیکن یہ امید ایک جھوٹی امید تھی گھوڑا ایک طرف موڑا تھا اور بھیڑیے لپک جھپک کر اس کی ٹانگوں پر منہ ڈال رہے تھے آخر شافعیہ نے اپنے گھوڑے کو گرتے دیکھا وہ ایک بار اٹھا لیکن بھیڑیوں نے اسے پھر گرا لیا اور اس کے بعد وہ اٹھ نہ سکا
اب شافعیہ نے منزل تک پیدل پہنچنا تھا وہ گھوڑے کی پیٹھ پر رہتی تو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دن بعد منزل پر پہنچ جاتی لیکن نہ جانے کتنے دن اسے اپنا جسم اپنی ٹانگوں پر گھسیٹنا تھا وہ بھیڑیوں کی طرف سے مطمئن ہو گئی تھی کیونکہ بھیڑیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے اتنا بڑا اور اتنا تندرست گھوڑا مل گیا تھا اب بھیڑیوں کو ضرورت نہیں رہی تھی پھر بھی شافعیہ اس راستے سے ہٹ کر چلنے لگی
وہ چھٹی یا ساتویں دن وسم کو پہنچی لیکن اس حالت میں جیسے وہ اپنی لاش اپنے کندھوں پر اٹھائے وہاں پہنچی ہو
سالار اوریزی نے شافعیہ کی یہ داستان سنی تو اس نے کہا کہ اس لڑکی کو سرکاری حیثیت دے کر خصوصی مہمان بنا کر رکھا جائے
مرو میں روز و شب بڑے ہی سرگرم تھے فوج کو محاصرے کی اور قلعہ توڑنے کی اور پھر دست بدست لڑائی لڑنے کی تربیت دی جارہی تھی یہ راز چھپایا نہ گیا کہ قلعہ شاہ در کو محاصرے میں لے لیا جائے گا اس ٹریننگ کی نگرانی وزیراعظم فخرالملک ابوالمظفر علی کر رہا تھا محمد اور سنجر اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ وہ لشکر کو فوراً کوچ کے لیے تیار کرے لیکن ابو مظفر علی جلد بازی کا قائل نہیں تھا اس نے یہ بھی کہا تھا کہ بے شک قیادت محمد اور سنجر ہی کریں لیکن وہ خود ساتھ ہوگا وہ لوگوں کو بھی ترغیب دے رہا تھا کہ اپنی فوج میں شامل ہوجائیں اور باطنیوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوں
لوگ جوق درجوق فوج میں شامل ہو رہے تھے اور ابو المظفر علی ان سب کو بڑی تیزی سے ٹریننگ دلوا رہا تھا برچھیاں اور تیر الگ بن رہے تھے اور وزیراعظم ان کی بھی نگرانی کرتا تھا مختصر یہ کہ ہر طرف ابوالمظفر علی ہی نظر آتا تھا اپنے عوام میں وہ پہلے ہی مقبول تھا لیکن اب لوگوں نے اسے باطنیوں کے خلاف اتنی تیاریوں میں دیکھا تو اس کے کردار اور زیادہ قائل ہوگئے اور اسے بڑی ہی اونچی اور قابل قدر شخصیت سمجھنے لگے وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ خانہ جنگی میں جو لوگ مر گئے تھے ان کا انتقام لینے کا وقت آ گیا ہے یہ ایک ایسی خلش تھی جو لوگوں کو فوج میں شامل ہونے پر اکسا رہی تھی
مشہور تاریخ دان ابن اثیر نے ایک بڑا ہی دردناک واقعہ لکھا ہے وہ یوں ہے کہ محرم کی دس تاریخ تھی اس روز ابوالمظفر علی نے روزہ رکھا صبح کے وقت وہ روز مرہ معمولات کے لئے باہر نکلا تو اس نے محمد اور سنجر اور اپنے تین چار احباب سے کہا کہ گزشتہ رات اس نے حضرت حسینؓ کو خواب میں دیکھا ہے حضرت حسینؓ اسے کہتے ہیں جلدی آ جاؤ آج کا روزہ تم نے ہمارے پاس آکر افطار کرنا ہے
فخر الملک! ایک بڑے قریبی دوست نے ابوالمظفر علی سے کہا ہونا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے خواب مبارک ہے لیکن میری ایک بات مان لیں آج کا دن اور آنے والی رات آپ گھر سے باہر نہ نکلیں مجھے کچھ خطرہ محسوس ہو رہا ہے
حضرت حسینؓ یاد فرمائیں اور میں گھر میں چھپ کر بیٹھ جاؤ ابو المظفر علی نے مسکراتے ہوئے کہا بلاوا آیا تو میں حاضری ضرور دونگا
اس روز ابوالمظفر علی روزمرہ معمول سے ہٹ کر یوں کیا کہ گھر چلا گیا اور زیادہ وقت نفل پڑھنے اور تلاوت قرآن میں گزارا کچھ صدقہ بھی دیا عصر کے وقت گھر سے باہر نکلا اسے گھر کے سامنے ایک مفلوک الحال شخص ملا جو رونی صورت بنائے اس کے سامنے آن کھڑا ہوا
مسلمان تو جیسے ختم ہی ہو گئے ہیں اس شخص نے مایوسی کے لہجے میں کہا کوئی ایک بھی نہیں رہا جو مجھ مظلوم کی فریاد سنئے
میں سنوں گا میرے بھائی! ابو المظفر نے اس کے اور قریب جا کر پوچھا بتاؤ تو سہی تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟
اس شخص نے اپنی جیب میں سے ایک کاغذ نکالا اور ابوالمظفر علی کی طرف بڑھا کر بولا کہ میں نے اپنی فریاد لکھ لی ہے اور یہ پڑھ لیں ابوالمظفر علی اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر پڑھنے لگا تو اس شخص نے بڑی تیزی سے کپڑوں کے اندر سے چھری نکالی اور ابو المظفر علی کے پیٹ میں گھونپ کر ایسی پھیری کہ ابو المظفر علی کا پیٹ چاک ہو گیا ابوالمظفر علی تو گر پڑا لیکن اتفاق سے کچھ آدمی وہاں سے گزر رہے تھے انہوں نے دیکھ لیا یہ پہلا باطنی تھا جس نے فوراً ہی اپنے آپ کو مار نہ لیا اسے شاید خودکشی کی مہلت نہ ملی کیونکہ ان آدمیوں نے اسے پکڑ لیا تھا اور اس کے ہاتھ سے چُھری بھی لے لی تھی
فخر الملک ابو المظفر علی کے قتل کی خبر فوراً شہر میں پھیل گئی اور لوگ اکٹھے ہونے سے شروع ہوگئے برکیارق محمد اور سنجر بھی پہنچ گئے اس وقت ابو المظفر علی فوت ہو چکا تھا قاتل بھی وہی تھا سلطان سنجر نے کہا کہ اسے اسی چھری سے یہی اس طرح قتل کیا جائے کہ اس کی گردن کاٹ کر اور سر الگ کر کے پھینک دیا جائے
او باطنی کافر! محمد نے اس سے پوچھا تو نے دوسرے باطنی قاتلوں کی طرح خود کشی کیوں نہیں کر لی؟
میں جانتا ہوں مجھے قتل کے بدلے قتل کیا جائے گا قاتل نے کہا میں مرنے سے پہلے تم لوگوں کے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ تمہارے اپنے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں تم اپنا مخلص اور ہمدرد سمجھتے ہو لیکن وہ باطنی ہیں اور وہ ایک ایک آدمی کو قتل کریں گے
باطنی نے سات آٹھ آدمیوں کے نام لئے وہ کوئی اونچے عہدوں والے آدمی نہیں تھے لیکن ان کی کچھ نہ کچھ سرکاری حیثیت تھی اس وقت برکیارق محمد اور سنجر پر ایسی کیفیت طاری تھی کہ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ابن اثیر نے لکھا ہے کہ انہوں نے اسی وقت ان سات آٹھ آدمیوں کو بلوا لیا اور جلاد کو بھی بلا کر حکم دیا کہ اس باطنی سے پہلے ان آدمیوں کی گردنیں اڑا دی جائیں وہ سب آدمی چلاتے چینختے رہے کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن ان کی گردنیں اڑا دی گئیں
جلاد آخری آدمی کو قتل کر چکا تو ابوالمظفر علی کے قاتل نے پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے شروع کر دیئے اس سے پوچھا وہ کیوں ہنسا ہے
ہنسوں نہ تو اور کیا کرو باطنی نے کہا یہ سب بے گناہ تھے میں نے یہ سوچ کر ان کے نام لیے تھے کہ میں تو مر ہی رہا ہوں تو کیوں نہ چند مسلمان کو ساتھ لے کر مروں تم سب جاھل اور گنوار ہو کہ عقل سے ذرا بھی کام نہیں لیتے
سلطان کے حکم سے اسے بھی جلاد کے حوالے کر دیا گیا جلاد نے اس کی گردن اپنی تلوار سے نہ کاٹی بلکہ حکم کے مطابق اسے نیچے گرایا اور اسی کی چھری سے اس کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا گیا
اب ہم قلعہ شاہ در کا محاصرہ کریں گے سنجر نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا کل صبح کوچ ہوگا
ابوالمظفر علی کے قتل نے مرو کی آبادی کو تو جیسے آگ لگا دی تھی لوگ مقتول کے گھر کی طرف دوڑ پڑے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا روکے ہوئے سیلاب کی طرح یہ ہجوم بے قابو ہوتا جا رہا تھا اور انتقام انتقام کے فلک شگاف نعرے زمین و آسمان کو جھنجوڑ رہے تھے ابو المظفر علی کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر سے نکل کر مضافاتی علاقوں میں پہنچ گئیں وہاں کے لوگ بھی شہر کی طرف دوڑ پڑے
برکیارق کے چھوٹے بھائی سنجر نے ابو المظفر کی لاش کے قریب کھڑے ہو کر اعلان کردیا کہ اب قلعہ شاہ در کا محاصرہ ہوگا اور کل کوچ کیا جائے گا لیکن ان کے بزرگ مشیروں نے کہا کہ ایسے فیصلے غصے اور جذبات سے مغلوب ہوکر نہیں کیے جاتے ورنہ جلد بازی میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے ان مشیروں کا مشورہ یہ تھا کہ اطمینان سے بیٹھ کر کوچ کا اور محاصرے کا منصوبہ تیار کر لیا جائے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوچ چند دنوں بعد کیا جائے کیونکہ شہریوں کا جوش وخروش اور جذبہ انتقام ایسا نظر آرہا ہے کہ لشکر میں کچھ اور شہری شامل ہو جائیں گے
محاصرے کا منصوبہ تو بالکل تیار تھا جو ابوالمظفر علی مرحوم نے بنایا تھا اس کے مطابق لشکر کو اسی کی نگرانی میں ٹریننگ دی گئی تھی اب کوچ کا دن ہی مقرر کرنا تھا مقتول وزیر اعظم کی تہجیز و تکفین ہوچکی تو برکیارق محمد سنجر اور جنگی امور کے مشیروں کی کانفرنس ہوئی اس میں سالاروں کو بھی شامل کیا گیا اسی کانفرنس میں ضروری امور طے کر لیے گئے اور کوچ کا دن بھی مقرّر ہو گیا اس روز مرو میں اور اردگرد کے علاقوں میں منادی کرادی گئی کہ جو لوگ لشکر میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ فوراً مرو پہنچ جائیں تین چار دنوں میں اس لشکر کی نفری بے انداز ہوگئی اور کوچ کا دن آگیا کسی بھی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ اس لشکر کی تعداد کتنی تھی اور اس میں سوار کتنے اور پیادہ کتنے تھے صرف یہ لکھا ہے کہ ایک تو باقاعدہ فوج تھی اور اس کے ساتھ ایک لشکر غیر فوجیوں کا تیار کیا گیا تھا یہ لوگ گھوڑے اپنے لائے تھے اور ہتھیار بھی ان کے اپنے ایک فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس لشکر کی قیادت سنجر نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی محمد کرے گا
پھر صبح طلوع ہوئی تمام لشکر جس میں باقاعدہ فوج بھی تھی اور تربیت یافتہ شہری بھی میدان میں ترتیب سے کھڑے ہوگئے محمد گھوڑے پر سوار لشکر کے سامنے آیا اور اس نے لشکر سے خطاب کیا
اسلام کے مجاہدوں! محمد نے بلند آواز میں کہا یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں ہم کوئی ملک فتح کرنے نہیں جا رہے ہم ابلیسیت کو جڑ سے اکھاڑنے جارہے ہیں یہ کسی سلطان کی جنگ نہیں اور یہ کسی سلطنت کی بھی جنگ نہیں یہ ہم سب کی ذاتی جنگ ہے ہم سب کا اللہ ایک رسول اللہﷺ اور ایمان ایک ہے ہم سب ایک ہی جذبے سے سرشار ہوکر ایک ہی ہدف پر جا رہے ہیں ہم نے کوئی ملک کو فتح نہیں کرنا فتح ہوگی تو یہ اسلام کی فتح ہوگی اور اگر خدا ناخواستہ ہم پسپا ہوئے تو ہم پر اللہ کی لعنت پڑے گی میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے حسن بن صباح کی ابلیسی فرقے کو ختم کرنا ہے بے گناہوں کے خون کا انتقام لینا ہے خون خرابہ روکنا ہے اور مت بھولو کہ یہ وہ ابلیسی فرقہ ہے جس نے یہاں بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیا اور بھائی نے بھائی کا خون بہا دیا تھا ان باطنیوں نے ہمارے علمائے دین کو قتل کیا نظام الملک خواجہ حسن طوسی جیسی شخصیت کو قتل کیا اور اب ان کے بیٹے ابو المظفر علی کو قتل کر دیا ہے اور یہ تو تم جانتے ہو کہ اس فرقے نے اصفہان میں شاہ در میں اور کئی دوسری جگہوں پر کس بے رحمی سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے تم نے لڑنا ہے اور کسی اجر کے لالچ کے بغیر لڑنا ہے فتح تبھی حاصل کرو گے جب اللہ کی راہ میں خون کے نذرانے پیش کرو گے یہ تو تم جانتے ہو کہ اللہ کسی کا جذبہ جہاد اور جذبہء ایثار فراموش نہیں کیا کرتا میں ایک آخری بات کہوں گا تم میں سے کسی کے دل میں کوئی شک اور شبہ ہے یا کوئی وہم ہے یا وہ دلی طور پر اس جہاد کے لئے تیار نہیں تو میں اسے اجازت دیتا ہوں کہ وہ ابھی لشکر سے نکل جائے کوچ شروع ہو گیا اور کسی نے پیٹھ دکھانے کی کوشش کی تو اسے وہی قتل کر دیا جائے گا
ایک فلک شگاف نعرہ بلند ہوا اس نعرے میں ان عورتوں اور بچوں کی آوازیں بھی شامل تھیں جو لشکر کو رخصت کرنے کے لئے اور خدا حافظ کہنے کے لیے وہاں اکٹھے ہوگئے تھے مکانوں کی چھتوں پر بھی عورتیں کھڑی تھیں لشکر وہاں سے چلا تو عورتوں نے ہاتھ پھیلا کر اللہ سے لشکر کی سلامتی اور فتح کی دعائیں مانگیں
قلعہ الموت میں حسن بن صباح کو اطلاع دے دی گئی تھی کہ وزیراعظم ابوالمظفر علی کو قتل کر دیا گیا ہے اور قاتل نے خودکشی کرلی ہے کچھ دنوں بعد اسے دوسری اطلاع یہ دی گئی کہ سلطنت سلجوقیہ کا ایک بہت بڑا لشکر شاہ در کی طرف کوچ کر گیا ہے اور اب تک وہ وہاں پہنچ چکا ہوگا یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ حسن بن صباح مسکرایا نہیں بلکہ اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر آگیا اس سے پہلے اسے اطلاع ملتی تھی کہ مسلمانوں نے فلاں قلعے کا محاصرہ کر لیا ہے تو وہ یوں مسکرا اٹھتا تھا جیسے اسے کوئی غم اور کوئی فکر نہ ہو مسلمان کوئی قلعہ فتح کرلیتے تو بھی حسن بن صباح کے چہرے پر پریشانی کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں آتا تھا لیکن اب یہ سن کر کہ سلطنت سلجوقیہ کا لشکر شاہ در پہنچ چکا ہوگا تو وہ خلاؤں میں دیکھنے لگا
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح کے پاس فدائیوں کی کوئی کمی نہیں تھی وہ تو ایک لشکر تھا حسن بن صباح کسی بھی فدائی کو اشارہ کر دیتا تو وہ فدائی اپنی جان اپنے ہاتھ سے لے لیتا تھا لیکن یہ فدائی ایک منظم فوج کی طرح لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے فدائیوں کے خنجر اور ان کی چھُریاں چلتی تھی وہ دھوکے میں قتل کرتے تھے یا زمین کے نیچے سے وار کر جاتے تھے تھے حسن بن صباح نے سلطنت سلجوقیہ میں خانہ جنگی کرا دی تھی اس نے ایسی بہت سی شخصیات کو قتل کروا دیا تھا جنہیں کلیدی حیثیت حاصل تھی اس وقت تک دو وزیراعظم فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے یہ حسن بن صباح کا ہی کمال تھا لیکن اس کے ایک اشارے پر جان قربان کردینے والا فدائیوں کا لشکر میدان میں آکر جنگ نہیں لڑ سکتا تھا
حسن بن صباح کو قلعہ شاہ در کے محاصرے کی اطلاع ملی تو وہ متفکر ہو کر گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور اپنے مشیروں وغیرہ کو بلایا
شاہ در بڑا ہی مضبوط قلعہ بند شہر ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن اب ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ہم نے سلجوقیوں کو جتنی ضرب لگائی ہے وہ ان کی برداشت سے باہر ہو گئی ہے اب وہ زخمی شیر کی طرح انتقام لینے نکلے ہیں یہ مت بھولو کہ شاہ در میرے لیے قلعہ الموت سے زیادہ مقدس ہے وہاں میرا پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش رہتا ہے شاہ در کو ہر قیمت پر بچانا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ سلجوقی اس شہر کو فتح کر لیں اگر انہوں نے یہ قلعہ سر کرلیا تو وہ میرے پیرومرشد کو بڑی ہی تزلیل اور توہین کریں گے ہمارے پاس ایسا کوئی منظم لشکر نہیں جو یہاں سے کوچ کر جائے اور محاصرے کو محاصرے میں لے لے ہمیں اپنا طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا یہاں سے دس فدائی بھیج دو وہ اپنے آپ کو اہل سنت کہلائیں گے اور مبلغ بن کر جائیں گے وہ سلطان محمد کو قتل کریں گے اور سپہ سالار کو بھی قتل کریں گے اور اگر دو اور سالاروں کو قتل کر دے تو محاصرہ نہ صرف ٹوٹ جائے گا بلکہ پورے کا پورا لشکر بھاگ جائے گا
اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا ایک معمر مشیر نے کہا صرف سلطان مارا گیا تو محاصرے میں ذرا سی بھی جان نہیں رہے گی میں اپنے منتخب کئے ہوئے فدائی بھیجوں گا
میرا پیر و مرشد عبدالمالک بن عطاش اتنا کچا نہیں کہ وہ شہر سلجوقیوں کو دے دے گا حسن بن صباح نے کہا وہ کوئی نہ کوئی ڈھنگ کھیلے گا اور میرا خیال ہے وہ سلجوقیوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجائے گا پھر بھی میں اسے فرض سمجھتا ہوں کہ باہر سے اس کی مدد کروں میں دس قلعے دے سکتا ہوں شاہ در نہیں دونگا فدائیوں کو بھیج دو
اس زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا سپہ سالار مارا جاتا تو پورے کا پورا لشکر بددل ہو جاتا تھا بادشاہ خود اپنے لشکروں کی قیادت کیا کرتے تھے لیکن بادشاہ مارا جاتا تو سارا لشکر بھاگ جاتا تھا حسن بن صباح کی یہ سوچ بے بنیاد نہیں تھی کہ محمد کو قتل کر دیا جائے محمد سلطان تھا جس کے مارے جانے سے محاصرے ٹوٹ جانا تھا باطنی فدائیوں کے لیے کسی کو قتل کر دینا معمولی سا کرتب تھا فدائیوں کو پکڑے جانے کا اور سزا کا تو کوئی ڈر ہی نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے شکار کو قتل کر کے اپنے آپ کو بھی مار ڈالتے تھے
شاہ در قلعہ بند شہر تھا اور یہ قلعہ الموت کے بعد باطنیوں کا بڑا مضبوط اڈا تھا اس شہر کا جو قلعہ تھا وہاں بہت سے برج اور برجیاں تھیں شہر کے ارد گرد جو شہر پناہ تھی وہ کوئی معمولی سی دیوار نہ تھی بلکہ خاصی چوڑی تھی بلند بھی تھی اور بہت ہی مضبوط یہ شہر ایسی جگہ آباد کیا گیا تھا کہ اس کے پیچھے اور ایک پہلو پر اونچی پہاڑی تھی ان اطراف سے قلعے پر حملہ کرنا خود کشی کے برابر تھا دوسرے دو اطراف میں دیوار پر چھوٹی بڑی برجیاں تھی جن میں ہر وقت تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے تیار رہتے تھے شہر کے چاروں اطراف کی لمبائی تاریخ میں چھ کوس لکھی ہے
اس شہر کا حکمران حسن بن صباح کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش کا ایک بیٹا احمد بن عبدالملک تھا اس کا ایک بھائی احمد بن عطاش بھی وہی تھا دونوں جنگجو تھے اور دھوکہ دہی اور فریب کاری میں خصوصی مہارت رکھتے تھے
سلطان برکیارق نے جب باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا تو حسن بن صباح نے اس کے جواب میں حکم دے دیا تھا کہ مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا جائے میں نے پہلے یہ قتل اور انتقام کا سلسلہ سنا چکا ہوں باطنی قافلوں کو لوٹا کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے پناہ مال ودولت اکٹھا کر لیا تھا سلجوقی سلطانوں نے یہ لوٹ مار کا سلسلہ خاصی حد تک روک دیا تھا دو شہروں مرو اور رے میں سلطان کے حکم سے کسی باطنی کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا تھا اس کے جواب میں شاہ در میں عبدالملک بن عطاش کے حکم سے مسلمانوں کو قتل کیا جانے لگا اور وہاں سے مسلمان بھاگ کر دوسرے شہروں میں چلے گئے تھے اس سے پہلے شاہ در میں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی تھی اور اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی عبدالملک بن عطاش نے قافلے لوٹنے کا حکم بھی دے دیا تھا ان لوگوں نے تین چار قافلے لوٹے تھے جن میں سے ایک قافلہ حجاج کا تھا اس قافلے میں بہت سے ملکوں کے حاجی تھے ہندوستان کے حاجی بھی اس میں شامل تھے یہ خبریں سلجوقی سلطنت کے سلطان تک پہنچتی رہی تھیں اور اس کا ایک ہی حل سوچا گیا تھا کہ شاہ در پر حملہ کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کر دی جائے
اب اس شہر کو محاصرے میں لے لیا گیا تھا
شاہ دیر کو محاصرے میں لینے کی اطلاع وسم کوہ سالار اوریزی کو بھی مل گئی وہ تو قلعہ الموت پر حملے کے منصوبے بناتا رہتا تھا اور اس مقصد کے لئے وہ زمین ہموار کر رہا تھا اور اس نے ایک فوج بھی تیار کرنی شروع کر دی تھی اسے جب شاہ در پر محاصرے کی اطلاع ملی تو اس نے مزمل آفندی اور بن یونس کو بلایا یہ دونوں ابھی تک یہیں تھے ان دونوں نے بھی باطنیوں کو تہس نہس کر دینے کا تہیہ کر رکھا تھا
میں نے تم دونوں کی مدد سے وسم کوہ تو فتح کرلیا ہے سالار اوریزی نے کہا لیکن مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں یہاں ہوں مجھے اس وقت شاہ در ہونا چاہیے تھا میں اس قلعے کو اپنے ہاتھوں تباہ کرتا ان باطنیوں نے وہاں کسی ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑا زندہ وہی رہا جو وہاں سے بھاگ آیا تھا
الموت کو فتح کرنے کی تیاریاں جاری رکھیں مزمل نے کہا اگر آپ نے الموت فتح کرلیا تو آپ کا یہ کارنامہ تاریخ قیامت تک لوگوں کو سناتی رہے گی اور یہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہوگا لیکن میں ایک بات سوچتا ہوں میں نے الموت اچھی طرح دیکھا تھا اب سنا ہے کہ الموت ایک بند شہر بن گیا ہے اور کوئی اجنبی وہاں چلا جائے تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس طرف جا رہا ہے یا وہ کس طرف سے آیا تھا یہ بھی سنا ہے کہ اس کا دفاع زیادہ مضبوط کر دیا گیا ہے لیکن اس شہر کے اب دو حصہ بن گئے ہیں۔ ایک جو شہرہ ہے اوپر نظر آتا ہے اور دوسرا شہر اس کے نیچے ہے جسے آپ زمین دوز کہہ لیں سنا ہے نیچے ایسی بھول بھلیاں ہیں جن میں گیا ہوا آدمی نکل نہیں سکتا میرا خیال ہے الموت پر حملے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس شہر کے اندر کیا ہے اور اسے کس طرح فتح کیا جاسکتا ہے
تم وہاں کس طرح جاکر دیکھ سکتے ہو؟
سالار اوریزی نے پوچھا
اتفاق ایسا ہوا ہے کہ یہ بات آج ہی ہوگئی ہے مزمل نے کہا میں آپ کے ساتھ یہ بات کرنا ہی چاہتا تھا میں اور بن یونس الموت جائیں گے ہمارا جانے کا سب سے بڑا مقصد حسن بن صباح کا قتل ہوگا میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کام تقریبا ناممکن ہے لیکن میں دوسرا کام ضرور کروں گا وہ یہ کہ اس شہر کے نیچے جا کر دیکھوں گا کہ وہاں کیا ہے اور پھر شہر کے ارد گرد گھوم کر دیکھوں گا کہ اس میں کس طرح لشکر کو داخل کیا جاسکتا ہے جب تک یہ پتا نہیں چلے گا ہم کتنا ہی بڑا لشکر لے جائیں کامیاب نہیں ہوسکیں گے
شہر کے اندر جانے کے لیے تمہارا روپ بہروپ کیا ہوگا ؟
سالار اوریزی نے پوچھا
فدائی! مزمل نے جواب دیا ہم دونوں حسن بن صباح کے فدائی یا پیروکار بن کر جائیں گے
یہ بات ہم پر چھوڑیں۔۔۔ بن یونس نے کہا۔۔۔ ہم نے سب کچھ سوچ لیا ہے زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ہم مارے جائیں گے اگر آپ ابلیسیت کے اس طوفان کو روکنا چاہتے ہیں تو کسی نہ کسی کو تو اپنی جان قربان کرنا پڑے گی ان ہزارہا جانوں کو یاد کریں جو حسن بن صباح کے حکم سے باطنیوں کے ہاتھوں سے ہوئی اور پھر مرو کی خانہ جنگی کو یاد کریں جس میں بے حساب خون بہہ گیا تھا ہم نے اس خون کا حساب چکانا ہے ہم جس روز ان جانوں کو اور خون کو بھول گئے اس روز ہمارے عظیم دین اسلام کا زوال شروع ہو جائے گا
مزمل اور بن یونس کا عزم اور منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح باطنی مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب اور سرکاری انتظامیہ میں کسی نہ کسی بھیس اور بہروپ میں مخلص اور بے ضرر افراد کی حیثیت سے داخل ہوکر ڈنک مار جاتے ہیں اسی طرح ایک جماعت تیار کی جائے جو حسن بن صباح کے اندرونی حلقوں تک پہنچ جائے اور پہچانی نہ جاسکے اور اس طرح باطنیوں کے جڑوں میں بیٹھ کر ان کا خاتمہ کیا جائے مزمل کی بیوی شمونہ بھی یہی مشن اپنے دل میں لیے بیچ و تاب کھاتی رہتی تھی اب اسے پتہ چلا کہ مزمل اور بن یونس قلعہ الموت جارہے ہیں تو وہ بھی تیار ہوگئی شافعیہ کے دل میں شمونہ کی ایسی محبت پیدا ہو گئی تھی کہ جب اس نے سنا کہ شمونہ الموت جارہی ہے اور کیوں جارہی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئی اس کے دل میں بھی باطنیوں کے خلاف زہر بھر گیا تھا ویسے بھی وہ اکیلی رہہ گئی تھی وہ تھی تو نوعمر لیکن خزانے والے غار سے تنہا واپسی کے دوران اسے جو تجربات ہوئے تھے ان سے اس کی شخصیّت میں پختگی پیدا ہو گئی تھی اور پھر اس کے اندر ایک عزم بھی پیدا ہو گیا تھا جسے وہ اچھی طرح سمجھ نہیں سکتی تھی لیکن شمونہ کے ساتھ رہنے سے اس کے سامنے ہر ایک چیز واضح ہوگئی اس نے شمونہ سے کہا کہ وہ بھی ان کی مہم میں شامل ہونا چاہتی ہے
شمونا نے مزمل اور بن یونس کے ساتھ بات کی تو انہوں نے اس خیال سے شافعیہ کو اپنے ساتھ لے جانا بہتر سمجھا کہ وہ جس بہروپ میں جائیں گے اس میں ایک نوجوان لڑکی کارآمد ثابت ہوگی ان چاروں نے زیادہ انتظار نہ کیا پانچ گھوڑے لیے چار گھوڑوں پر یہ پارٹی سوار ہوئی اور پانچویں گھوڑے پر کھانے پینے کا اور دیگر سامان لاد لیا گیا ان کی منزل قلعہ الموت تھی دراصل موت کی منزل تھی زیادہ تر امکان یہی تھا کہ وہ زندہ واپس نہیں آسکیں گے مزمل کو پہلے وہاں کا تجربہ ہو چکا تھا وہ تو زندہ ہیں آیا تھا لیکن وہ جس جذبے والا مزمل تھا وہ مرگیا تھا شمونہ نے شافعیہ کو ذہن نشین کرا دیا تھا کہ وہ جہاں جا رہے ہیں وہاں موت زیادہ قریب ہو گی اور اگر وہ زندہ رہی تو ذلت و خواری میں زندہ رہے گی شافعیہ نے یہ سنا تو اس نے کہا کہ وہ جو عزم ساتھ لے کر چلی ہے اس پر وہ اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہے
شاہ در کا محاصرہ مکمل ہوچکا تھا اور شہر میں داخل ہونے کے لیے حملے بھی شروع ہوگئے تھے محمد نے اور اسکے سالاروں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ بہت ہی مضبوط ان کی توقعات سے بھی زیادہ مستحکم قلعہ ہے جسے چند دنوں یا چند مہینوں میں سر نہیں کیا جاسکے گا شہر پناہ پر تیر اندازوں اور برچھیاں پھینکنے والوں کا ایک ہجوم کھڑا تھا ان کے سامنے پتھروں کی بڑی مضبوط آڑیں تھیں
محمد نے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچتے ہی جاسوسوں سے رپورٹیں لی تھی سلجوقیوں کے جاسوسی کا نظام مضبوط اور کارآمد تھا شاہ در میں بھی جاسوس موجود تھے جو محاصرے سے پہلے ہی باہر نکل آئے تھے کیونکہ انہوں نے محمد کو اندر کی ساری صورت حال اور احوال اور کوائف بتانے تھے انہوں نے بتایا کہ شاہ در میں کوئی باقاعدہ فوج نہیں لیکن ہر شہری لڑنے کے لیے تیار ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان شہریوں کو قلعے سے باہر لایا جائے تو یہ باقاعدہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں اور نہ ہی انہیں ایک لڑنے والے لشکر کی تربیت اور تنظیم کا علم ہے البتہ ان میں جذبہ بڑا ہی سخت ہے جاسوس نے یہ بھی بتایا کہ اس شہر میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کو اس شہر سے قتل عام اور لوٹ مار کے ذریعے بھگا دیا گیا یا قتل کر دیا گیا تھا
اندر کی ایک اور بات معلوم ہوئی یہ جاسوسوں نے نہیں بتائی تھی ایک اور ذریعے سے معلوم ہوئی تھی بندہ ناچیز شفیق الرحمان تبسم یہ ذریعہ آپ کو بعد میں بتائے گا شاہ در کے باطنیوں نے چند مہینے پہلے ایک قافلہ لوٹا تھا اس قافلے میں زیادہ تر حجاج تھے جو حج سے واپس آرہے تھے اس میں امیر کبیر تاجر بھی تھے مال ودولت کے علاوہ باطنیوں نے قافلے سے کچھ نوجوان اور خوبصورت لڑکیاں بھی اغوا کرلی تھیں تاریخ میں ایک لڑکی کا ذکر ملتا ہے جس کا نام نور تھا وہ عراق کی رہنے والی تھی اور اپنے باپ کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کرنے گئی تھی باپ کے علاوہ اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی اور ایک بھائی بھی ماں اور بھائی باطنی ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے گئے تھے باپ بچ گیا تھا وہ کسی طرح شاہ در اپنی بیٹی کے پیچھے آ گیا تھا
اس وقت نور کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی اور وہ کچھ زیادہ ہی حسین تھی اس قسم کی لڑکیوں کو قلعہ الموت بھیج دیا جاتا تھا جہاں انہیں حسن بن صباح کی جنت کی حوریں بنایا جاتا اور خاص تربیت دی جاتی تھی ان لڑکیوں میں اگر کوئی اور خصوصی ذہانت ہوتی تو انہیں دوسرے علاقوں میں تخریب کاری کے لیے بھیج دیا جاتا تھا نور کچھ ایسی حسین لڑکی تھی کہ یہ حسن بن صباح کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش کے چھوٹے بھائی احمد بن عطاش کو پسند آگئی اور اس نے نور کے ساتھ شادی کرلی اس وقت احمد بن عطاش کی عمر پچاس سال تھی
لڑکی روز و شب روتے گزارتی تھی اس کی ماں ماری گئی تھی اور اس کا بھائی بھی قتل ہو گیا تھا اس کا باپ اپنی اس بیٹی کے ساتھ اتنی محبت اور پیار کرتا تھا کہ وہ بھی ساتھ آگیا اور احمد بن عطاش کا ملازم بن گیا نور اپنے باپ کو اس روپ میں دیکھتی تو اور زیادہ روتی اور کڑھتی تھی نور کے باپ نے احمد بن عطاش کا اعتماد حاصل کرلیا وہ اکثر سوچتا تھا کہ یہاں سے اپنی بیٹی کو کس طرح نکال کر لے جائے لیکن کوئی ذریعہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا
آخر ایک روز باپ بیٹی کو خبر ملی کہ سلجوقیوں کے لشکر نے شہر کا محاصرہ کرلیا ہے نور نے وضو کیا اور اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے نفل پڑھنے لگی وہ روتی جاتی اور نفل پڑتی جاتی تھی آخر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سسکیاں لے لے کر اللہ کو پکارا اور کہا یا اللہ اپنے اس گھر کی لاج رکھ لے جس کا حج کر کے آئی ہوں شیطان کے چیلوں کو تباہ کر دے اس نے اللہ سے شکوہ بھی کیا کہ اللہ نے اسے حج کا کیا اجر دیا ہے وہ بار بار کہتی تھی کہ شیطان کے ان چیلوں کو تباہ کر دے اس کی آواز بلند ہوتی چلی گئی اور اتنی میں احمد بن عطاش کمرے میں داخل ہوا اس نے نور کی یہ دعا سن لی تھی
اللہ اس گھر کی لاج رکھے گا جہاں تم موجود ہو احمد بن عطاش نے طنزیہ کہا فوراً اٹھو اور یہ دعا ختم کردو تم میری بیوی ہو اور تم آزاد نہیں ہوسکتی
اگر میرا اللہ سچا ہوا تو تم ذلیل ہوکر مرو گے نور نے احمد بن عطاش سے کہا تم نے مجھے اللہ کی عبادت سے روکا ہے تم ذلیل ہو کر مرو گے میں تمہیں ذلت کی موت مرتا دیکھوں گی
نور نے پہلی بار اپنے خاوند کے خلاف زبان کھولی تھی اس کی آواز میں غصہ اور انتقام تھا اور اس کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی احمد بن عطاش نے اس کے منہ پر بڑا ہی زور دار تھپڑ مارا نور چپ ہو گئی اور احمد بن عطاش کمرے سے نکل گیا
یہ شروع کے سلسلے میں سنایا جاچکا ہے کہ عبدالملک بن عطاش کسی سفلی عمل کا یا ایسے ہی کسی اور عمل کا ماہر تھا جس سے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاسکتا تھا یا دوسروں پر اثر انداز ہوا جا سکتا تھا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس نے یہ عمل حسن بن صباح کو بھی سکھایا تھا لیکن بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے یہ عمل کم ہی استعمال کیا تھا اس کی شخصیت اور کردار کا اپنا ہی ایک جادو تھا جس کے زور پر اس نے وہ مقبولیت حاصل کی تھی جس نے تاریخ میں ایک نئے اور انوکھے باب کا اضافہ کردیا تھا
عبدالملک بن عطاش ضعیف العمر تھا اس نے شہر اور دیگر امور اپنے بیٹوں کے حوالے کردیے تھے اور وہ خود اسی سفلی عمل میں لگا رہتا تھا ایک مورخ لکھتا ہے کہ ایک خاص کمرہ تھا جس میں کوئی اجنبی چلا جاتا تو اس پر غشی طاری ہونے لگتی تھی کیونکہ اس کمرے میں ایک تو بدبو ناقابل برداشت تھی اور دوسرے یہ کہ اس میں انسانی کھوپڑیاں اور دوسری ہڈیاں رکھی ہوئی تھیں اس کے علاوہ اس کمرے میں چند ایک پنجرے رکھے ہوئے تھے کسی میں سانپ بند تھا اور کسی میں اُلُّو بند کئے ہوئے تھے تاریخ میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ اس نے کوئی ایسا عمل کیا ہو کہ فلاں شہر یا فلاں سلطان یا فلاں بادشاہ تباہ ہو جائے اور وہ تباہ ہوگیا ہو لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی تھوڑی بہت طاقت ضرور تھی جسے مؤرخین نے سفلی عمل کہا ہے
اسے جب اطلاع ملی کہ سلجوقی لشکر نے شہر کو محاصرے میں لے لیا ہے اور لشکر اتنا زیادہ ہے کہ شہر کو فتح کر ہی لے گا تو وہ اپنے اس خاص کمرے میں پہنچا اور ایک پنجرے میں سے ایک اُلو نکالا اس نے کمرے کا دروازہ بند کرلیا اس کا خاص نوکر ہر وقت کمرے کے دروازے کے باہر موجود رہتا تھا جسے وہ کسی ضرورت کے تحت اندر بلا لیا کرتا تھا یہ خاص نوکر نور کا باپ تھا
عبدالملک بن عطاش دو دن اور دو راتیں کمرے میں بند رہا اس دوران نوکر اسے صرف دودھ پلاتا رہا جس میں شہد ملا ہوتا تھا اس کے بعد اس نے نوکر سے کہا کہ وہ فلاں اور فلاں آدمی سے کہے کہ ایک نابینا آدمی کہیں سے پکڑ کر لایا جائے یہ حکمران خاندان کا تھا جسکا حکم چلتا تھا
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک بھکاری سا نابینا پکڑ کر لایا گیا اور اسے عبدالملک بن عطاش کے حوالے کردیا گیا عبدالملک اسے اپنے کمرے میں لے گیا اور دو دن اور دو راتیں اسے اپنے ساتھ رکھا معلوم ہوا کہ عبدالملک اس نابینا کے جسم پر چھُری کی نوک مارتا تھا اور وہاں سے جو خون نکلتا تھا وہ اس اُلو کو پلاتا تھا
یہ نابینا جب اس کمرے سے نکلا تو اس کے جسم پر بہت سے زخم تھے جو ایسے ہی تھے کہ وہاں چھُری بار بار چبھوئی گئی تھی عبدالملک بن عطاش نے نوکر سے کہا کہ اسے طبیب کے پاس لے جا کر اس کی مرہم پٹی کرادے اور پھر اسے اس کے بیٹے احمد بن عطاش کے پاس لے جائے اور کہے کہ اسے اچھی خاصی رقم انعام کے طور پر دے دی جائے یہ کارروائی مکمل ہوگئی تو نوکر پھر عبدالملک کے پاس آیا عبدالملک نے اسے اندر بلایا اور کہا کہ اس الّو کو پکڑ کر رکھے نوکر نے پکڑا اور عبدالملک کے کہنے پر اس کا منہ کھولا عبدالملک نے اس کھلے ہوئے منہ میں چھوٹا سا ایک کاغذ تہہ در تہہ کرکے ڈال دیا اور نوکر سے کہا کہ اس کا منہ کالے دھاگے سے اچھی طرح باندھ دے پھر عبدالملک بن عطاش نے یہ الو پنجرے میں بند کردیا اور نوکر کے ساتھ کچھ باتیں کیں اس نوکر پر اسے پورا پورا اعتماد تھا اور کچھ راز داری بھی تھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس نوکر نے یہ اعتماد اس مقصد کے لئے پیدا کیا کہ اسے کبھی یہ موقع مل جائے کہ اپنی بیٹی نور کو اس سے آزاد کر کے نکل بھاگے اور سلجوقیوں کے پاس پہنچ جائے
محمد نے اپنے تیر اندازوں کو کئی بار دیوار کے قریب جاکر اوپر کے ہجوم پر تیر چلانے کے لیے بھیجا لیکن اوپر سے بارش کی طرح تیر آتے تھے اور محمد کے تیرانداز پیچھے ہٹاتے تھے محمد نے حکم دیا کہ فوری طور پر بڑی کمانے تیار کی جائیں جن سے نکلے ہوئے تیر دور سے دیوار کے اوپر تک پہنچ جائیں
محمد اپنی ایک سالار کے ساتھ قلع کے ارد گرد گھوم رہا تھا وہ گھوڑے پر سوار تھا اور دیکھ رہا تھا کہ کوئی ایسی جگہ نظر آ جائے جہاں سے دیوار توڑنے کی کوشش کی جائے یا کوئی اور ذریعہ نظر آجائے محمد چونکہ سلطان تھا اور اس لشکر کا کمانڈر بھی تھا اسلئے سلجوقی پرچم بھی اس کے ساتھ تھا اس کے پیچھے دائیں بائیں اور آگے اس کے سوار محافظ تھے جنہوں نے اسے حصار میں لے رکھا تھا
پرچم اور محافظ دو ایسی نشانیاں تھیں کہ دور سے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ بادشاہ سلطان ہے یا اس لشکر کا سپہ سالار ہے پھر دشمن کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسی پر حملہ کیا جائے یا زیادہ تر تیر وہیں پھینکے جائیں اور اسے مارا جائے تاکہ پرچم گر پڑے پرچم گرنے کی صورت میں لشکر کے کماندار یا بادشاہ کے مارے جانے کی صورت میں پورا لشکر بددل ہو کر پسپا ہو جایا کرتا تھا
محمد کے ساتھ بھی ایسی ہی ہوا وہ جدھر جاتا تھا تیر ادھر ہی زیادہ آتے تھے لیکن وہ تیروں کی زد سے باہر تھا چلتے چلتے وہ ایک درخت کے قریب پہنچا تو ایک تیر درخت کے تنے میں آن لگا اور وہیں کُھب گیا وہاں تو تیروں کی بارش آرہی تھی اس لیے ایک ایک تیر کو دیکھنے کا کوئی مطلب نہیں تھا لیکن یہ تیر جو درخت کے تنے میں زمین سے ذرا اوپر لگا تھا محمد کی نظروں میں آگیا اس تیر کے ساتھ کوئی کاغذ یا کپڑا بندھا ہوا تھا محمد رک گیا اور اس نے ایک محافظ سے کہا کہ یہ تیر تنے سے نکال لائے محافظ گھوڑے سے اترا اور وہ تیر تنے سے نکال کر محمد کو دے دیا
محمد نے ٹھیک دیکھا تھا تیر کے درمیان میں تہہ کیا ہوا ایک کاغذ یا چھوٹا سا کپڑا دھاگے سے لپٹا ہوا تھا محمد نے جلدی جلدی سے دھاگا اتارا اور دیکھا یہ کاغذ جیسے باریک چمڑے کا چند انچ چوڑا اور اتنا ہی لمبا ٹکڑا تھا اور اس پر کچھ لکھا ہوا تھا محمد نے تحریر پڑھی اس میں لکھا تھا کہ آج یا کل یا کسی بھی وقت شہر سے ایک الّو اڑے گا جو آپ کے لشکر کی طرف آئے گا اور شاید یہ ان تمام لشکر کے اوپر سے چکر کاٹ کر شہر میں واپس آجائے یا کہیں غائب ہو جائے یہ الّو جونہی نظر آئے اسے تیروں سے مار گرائیں اور جہاں یہ گرے وہیں اس پر خشک گھاس وغیرہ ڈال کر آگ لگا دینا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے
یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ عبدالملک بن عطاش نے کہا تھا کہ اس نے جو عمل کیا ہے اس سے سلجوقیوں کا پورا لشکر نہیں تو لشکر کا کمانڈر اندھا ہو جائے گا اگر آنکھوں سے اندھا نہ ہوا تو عقل سے اندھا تو ضرور ہی ہوجائے گا اور پھر وہ جو بھی فیصلہ یا جو بھی کاروائی کرے گا وہ اس کے خلاف جائے گی
محمد نے اس پیغام کو بے معنی اور فضول سمجھ کر پھینک نہ دیا اسے معلوم تھا کہ باطنی اور خصوصاً عبدالملک بن عطاش کالا جادو جانتے ہیں اور انہوں نے ضرور کچھ عمل کیا ہوگا اور یہ پیغام اپنی ہی کسی جاسوس نے باہر پھینکا ہوگا
محمد نے یہ پیغام اپنے سالاروں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ تمام لشکر میں یہ پیغام پہنچا دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ جونہی انہیں الو اڑتا ہوا اپنی طرف آتا نظر آئے اس پر تیر چلائیں اور اسے گرانے کی کوشش کریں اور وہ جب گر پڑے تو اس کو وہی جلا ڈالیں پیغام فوراً تمام لشکر تک پہنچ گیا اس پیغام کے بعد لشکر کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ شہر کی دیوار پر کھڑے تیراندازوں پر تیر چلاتے تھے اور بار بار اوپر بھی دیکھتے تھے وہ دن گزر گیا اور رات کو بھی سپاہی اوپر دیکھتے رہے پھر اگلا دن طلوع ہوا ایک طرف سے شور اٹھا تھا کہ وہ الو اڑا سب نے دیکھا کہ ایک الّو شہر میں سے اڑا اور ایک طرف سے سلجوقی لشکر کے اوپر گیا لشکر کے مجاہدین نے اس پر تیر چلائے اور اتنے تیر چلائے کہ اس کا بچ کر نکلنا ممکن نہیں تھا الّو گرا اور سب نے دیکھا کہ چار پانچ تیر اس کے جسم میں اتر گئے تھے
محمد کو اطلاع دی گئی تو وہ گھوڑا سرپٹ دوڑاتا وہاں پہنچا اس نے دیکھا کہ الّو کا منہ کالے دھاگے سے بندھا ہوا تھا محمد نے حکم دیا کہ ابھی گھاس وغیرہ لائی جائے اور آگ لگا دی جائے وہاں خشک گھاس کی کمی نہیں تھی مجاہدین گھاس لے آئے اور خشک ٹہنیاں بھی اٹھا لائیں اور الو کے اوپر ڈھیر کرکے آگ لگادی
کیا اللہ نے نور کی دعا سن لی تھی؟
کیا یہ معجزہ تھا؟
آخر یہ کون تھا جس نے دشمن کے گھر سے یہ پیغام پھینکا تھا؟
بہرحال یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ خطرہ ٹل گیا تھا
ادھر مزمل بن یونس شمونہ اور شافعیہ الموت کی طرف جارہے تھے الموت میں خطرہ شمونہ اور مزمل کے لئے تھا حسن بن صباح کے خاص آدمی ان دونوں کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا اور حسن بن صباح نے اس کا دماغ الٹا چلا گیا تھا اور وہ واپس مرو یہ ارادہ لے کر گیا تھا کہ سلطان ملک شاہ کو قتل کرے گا
شمونہ حسن بن صباح کی خاص چیز بنی رہی تھی اب شمونہ جوان نہیں تھی بلکہ جوانی کی آخری حد پر تھی پھر بھی حسن بن صباح اور اسکے آدمی اسے اچھی طرح پہچان سکتے تھے اس طرح مزمل اور شمونہ نے بہت بڑا خطرہ مول لے لیا تھا مزمل نے داڑھی پوری طرح بڑھا لی تھی اور شمونہ نقاب میں تھی شافعیہ کا چہرہ بھی نقاب میں تھا لیکن انہیں الموت پہنچ کر کہیں نا کہیں بے نقاب ہونا ہی تھا انہوں نے اپنے بچاؤ کی کچھ ترکیبیں سوچ لی تھیں لیکن جو خطرہ انہوں نے مول لیا تھا وہ کوئی معمولی خطرہ نہیں تھا پہلے دن کے سفر کے بعد انہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد ایک بڑی خوبصورت جگہ پر قیام کیا یہ ایک ندی تھی جس کے کنارے انہوں نے ڈیرہ ڈال دیا انہیں رات بھر وہی رکنا تھا گھنے درخت تھے خودرو پودے تھے اور سامنے ایک ٹیکری تھی وہ بھی سبزے سے ڈھکی ہوئی تھی انہوں نے گھوڑوں کو کھول دیا گھوڑوں نے پانی پیا اور پھر گھاس کھانے لگے
شام تاریک ہوگئی تو انہوں نے دو مشعلیں جلائیں اور زمین میں گاڑ دیں کھانا کھولا اور دستر خوان بچھا دیا چاروں کی نظریں دسترخوان پر لگی ہوئی تھیں مزمل نے ویسے ہی اوپر دیکھا تو اسے سات آٹھ قدم دور ایک آدمی کھڑا نظر آیا اس آدمی کے قدموں کی آہٹ نہیں سنائی دی تھی یوں معلوم ہوا جیسے زمین میں سے اوپر سے اٹھ آیا ہو یہ شک بھی ہوتا تھا کہ یہ کوئی جن ہے جو انسان کے روپ میں ظاہر ہوا ہے اس نے لمبی سفید عبا پہن رکھی تھی اور اس کے سر پر عمامہ تھا وہ جوان سال تھا اور اس کی داڑھی بڑی اچھی طرح تراشی ہوئی تھی وہ جس لباس میں تھا یہ اس علاقے کے معززین کا لباس تھا
او بھائی! مزمل نے اسے کہا دسترخوان تیار ہے آؤ ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ
میں مہمان نہیں اس آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا میں پہلے سے یہاں موجود ہوں تم لوگ ابھی ابھی پہنچے وہ اس لیے تم مہمان ہوں اور میں میزبان ہوں ہم دس آدمی ہیں جو اس ٹیکری کے دوسری طرف پڑاؤ کی ہوئے ہیں کھانا مجھے پیش کرنا چاہیے تھا
مزمل اور شمونہ اسے بڑی ہی غور سے دیکھ رہے تھے یہ دونوں ہلتی ہوئی جھاڑیوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے تھے
میں ابھی آیا اس سفید پوش نے کہا اور وہاں سے چل پڑا
یہ ٹیکری کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی مٹی کے اونچے ڈھیر کی مانند تھی وہ آدمی اس ٹیکری کے پیچھے چلا گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا اس کے واپس آنے تک مزمل اور اس کی پارٹی حیران و پریشان رہے اور یہ لوگ کچھ بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ شخص آیا کیوں تھا اور یہ چلا کیوں گیا ہے خطرہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ ایک بڑی ہی خوبصورت اور نوجوان لڑکی تھی اس آدمی نے کہا تھا کہ وہ دس آدمی ہیں دس آدمی ان دو آدمیوں پر آسانی سے قابو پا سکتے تھے اور شمونہ اور شافعیہ کو اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے
وہ آدمی آیا تو اس نے ہاتھوں میں کچھ اٹھا رکھا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی وہ ان لوگوں کے پاس آکر دوزانو ہوا اور جو کچھ اس نے ہاتھوں میں لے رکھا تھا وہ ان کے دستر خوان پر رکھ دیا وہ بھنے ہوئے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے وہ چمڑے کا ایک چھوٹا سا مشکیزہ بھی لایا تھا بڑا ہی خوبصورت مشکیزہ تھا اور یہ بھرا ہوا تھا پانی ہی ہوسکتا تھا
یہ مشکیزہ اپنے پاس رکھیں اس نے کہا یہ ایک خاص شربت ہے یہ پی کر دیکھیں تمہاری طبیعت ہشاش بشاس ہوجائے گی اور تھکن کا تو نام و نشان نہیں رہے گا میں تمہارے کھانے میں اور زیادہ مخل نہیں ہونا چاہتا
وہ اٹھا اور چلا گیا وہ ٹیکری کی اوٹ میں ہوا تو مزمل اٹھا اور دبے پاؤں تیز تیز چلتا ٹیکری پر چڑھ گیا اور ٹیکری کے اوپر جا کر لیٹ گیا مزمل نے دیکھا کہ ٹیکری سے بیس پچیس قدم دور تین مشعلیں جل رہی تھیں اسی کے لباس جیسے دس آدمی نیم دائرے میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے مزمل چھپتا چھپاتا پھونک کر قدم رکھتا ٹیکری سے اتر گیا وہ ان لوگوں کی باتیں سننا چاہتا تھا…
 

 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:44 }
مزمل نے دیکھا کہ ٹیکری سے بیس پچیس قدم دور تین مشعلیں جل رہی تھیں، اسی کے لباس جیسے دس آدمی نیم دائرے میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے مزمل چھپتا چھپاتا پھونک کر قدم رکھتا ٹیکری سے اتر گیا وہ ان لوگوں کی باتیں سننا چاہتا تھا
جب وہ نیچے اترا تو وہ کھڑا نہ رہا بلکہ بیٹھ کر آہستہ آہستہ سرک گیا وہ آدمی جو انہیں گوشت دے گیا تھا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا پہنچا تھا وہ ہنس بھی رہا تھا مزمل اٹھا اور جھک جھک کر ایک چوڑے تنے والے درخت تک جا پہنچا اور اس طرح چھپتا چھپاتا ان کے قریب چلا گیا جہاں سے وہ ان کی باتیں سن سکتا تھا
کمال کی چیز ہے بھائیو! اس آدمی نے کہا دوسری بھی بُری نہیں لیکن اس کی عمر شاید تیس برس سے زیادہ اوپر ہوگئی ہے پھر بھی اچھی چیز ہے
شیخ الجبل کی نظر کرم ہے بھائی! ایک نے کہا یہ اسی کا کرم ہے کہ ہمیں سفر میں اتنی خوبصورت چیز مل گئی ہے
اب سوچوں انہیں یہاں لائیں کیسے؟
ایک نے کہا
یہ اپنی چیزیں سمجھو بھائی! ایک اور بولا دو آدمی ہمارا کیا بگاڑ لیں گے،پہلے کھانا کھا لو اور انہیں بھی کھا لینے دو مشکیزہ بھی انہیں ہمارا یار دے آیا ہے تھوڑی دیر بعد انہیں اس دنیا کی ہوش بھی نہیں رہے گی
مزمل نے اور کوئی بات نہ سنی اس کا شک رفع ہو گیا تھا وہ جس طرح چھپتا چھپاتا وہاں تک پہنچا تھا اسی طرح دبے پاؤں جھکا جھکا ایک درخت سے دوسرے درخت تک اوٹ میں چلتا ٹیکری تک پہنچا اور ٹیکری کے اوپر جانے کی بجائے ایک طرف سے ٹیکری سے گھوما اور اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا
اس کی غیر حاضری میں شمونہ نے مشکیزہ کھولا تھا اور پھر اسے سونگھا تھا اس کا تو لڑکپن اور نوجوانی کا زیادہ حصہ ان باطنیوں کے ساتھ اور حسن بن صباح کے ساتھ گزرا تھا اس نے مشکیزہ سونگھا تو اٹھی اور مشکیزہ ندی میں انڈیل دیا
ہوشیار رہنا بھائی! مزمل نے کہا شیخ الجبل کے آدمی ہیں حسن بن صباح کے اب یہ دیکھنا ہے کہ حسن بن صباح کے یہاں ان کی کیا حیثیت ہے اور یہ کہاں جا رہے ہیں ہو سکتا ہے فدائی ہوں لیکن ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا
باطنی ہی معلوم ہوتے ہیں شمونہ نے کہا میں نے مشکیزہ کھول کر سونگھا اس میں حشیش ملا ہوا شربت تھا میں ندی میں انڈیل آئی ہوں اب یہ آدمی آئے تو انہیں ہی بتائیں گے کہ ہم نے مشکیزہ خالی کردیا ہے اور شربت واقعی اچھا تھا
ان کا گوشت بھی نہ کھاؤ بن یونس نے کہا اس میں بھی کچھ ملا ہوا ہوگا میں سمجھتا ہوں ان کی نظر شافعیہ اور شمونہ پر ہے ہم سے انہوں نے کیا لینا ہے
مزمل نے گوشت کے تمام ٹکڑے بیٹھے بیٹھے ندی میں پھینک دیئے اور اپنا کھانا کھا لیا اتنے میں ان دس آدمیوں میں سے تین آدمی آگئے مزمل اور بن یونس نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور وہ تینوں بیٹھ گئے
مشکیزہ والا شربت پی لیا ہے ؟
ایک نے پوچھا
پی لیا ہے مزمل نے جواب دیا اور مسکراتے ہوئے کہا اس شربت نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم اور تم آپس میں بھائی بھائی ہیں ایسے دو مشکیزے اور دے دو ہم وہ بھی پی جائیں گے مزمل نے ان کے ذرا فریب سرک کر رازدارانہ لہجے میں کہا ہم شاہ در سے آرہے ہیں اور شیخ الجبل کے پاس جا رہے ہیں ہم دونوں بھی فدائی ہیں اس لڑکی کو شیخ الجبل کی خدمت میں پیش کرنا ہے
تم لوگ محاصرے سے کس طرح نکل آئے ہو؟
ایک سفید پوش نے پوچھا
ہم محاصرے سے ایک روز پہلے نکل آئے تھے مزمل نے کہا محاصرے کی اطلاع تو ہمیں پہلے ہی مل چکی تھی شیخ الجبل امام حسن بن صباح کے پیرو مرشد عبدالملک بن عطاش نے ہمیں ایک پیغام دے کر امام کی طرف بھیجا
پیغام کیا ہے؟
ایک نے پوچھا
یہ جانتے ہوئے کہ تم ہمارے ہیں بھائی ہو یہ راز تمہیں نہیں بتاؤں گا مزمل نے کہا اور تم مجھ سے پوچھو گے بھی نہیں اپنا آپ تم پر اس لئے ظاہر کردیا کہ تمہارے متعلق یقین ہوگیا ہے کہ تم اپنی ہی آدمی ہو
کیا شاہ درکے فدائی حملہ آوروں کے سالاروں کو ختم نہیں کر سکتے؟
ایک اور سفید پوش بولا
کیوں نہیں کر سکتے تھے مزمل نے کہا لیکن ہمیں حکم ہی کچھ اور دیا گیا ہے اور ہم اس حکم کی تعمیل کے لیے جارہے ہیں اگر ہم دونوں کو حکم ملتا تو ہم برکیارق محمد اور سنجر کو اور انکے ایک دو سالاروں کو ختم کرچکے ہوتے
وہ ہم کرلیں گے ایک سفید پوش نے بے اختیار کہہ دیا دیکھتے ہیں محاصرہ کس طرح قائم رہتا ہے
یہ وہی دس فدائی تھے جو حسن بن صباح کے حکم سے بھیجے جارہے تھے اور ان کا کام یہ تھا کہ انہوں نے محمد اور اسکے سالاروں کو قتل کرنا تھا ان کے قتل کا طریقہ پہلے بتایا جاچکا ہے یہ ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا
یہ تینوں فدائی کچھ دیر باتیں کرکے اور اپنی اصلیت بے نقاب کرکے چلے گئے ان کے جانے کے بعد مزمل نے اپنے ساتھیوں کو بتایا آج رات سونا نہیں بتایا نہیں جا سکتا کہ آج رات کیا ہو جائے
اس رات بہت کچھ ہوگیا انہوں نے مشعلیں جلتی رکھیں انہیں جلائے رکھنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ درندے آگ کے قریب نہیں آتے اس کے علاوہ انہیں روشنی کی ضرورت تھی
آدھی رات سے کچھ پہلے تک سبھی جاگ رہے تھے وہ بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ لیٹے ہوئے تھے انہیں اس طرح محسوس ہوا جیسے کوئی ٹیکری کے قریب آرہا ہے وہ جنگل کا کوئی جانور اور درندہ بھی ہو سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس کو کچھ اور ہی تھا مزمل نے سرگوشی میں سب سے کہا کہ اس طرح آنکھیں بند کر لیں جیسے گہری نیند سوئے ہوئے ہوں
وہ دو آدمی تھے مزمل اور بن یونس نے آنکھیں ذرا سی کھول کر دیکھ رہے تھے انہوں نے لیٹنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ مزمل تھا اس کے قریب شافعیہ تھی پھر یونس تھا اور اس سے ذرا پرے شمونہ تھی دونوں آدمی دبے پاؤں ان کے بالکل قریب آگئے ایک مزمل کے اوپر جھکا اور دوسرا بن یونس کے اوپر دونوں نے آہستہ آہستہ خراٹے لینے شروع کر دیئے
پھر دونوں اکٹھے ہو کر شافعیہ پر جھوکے وہ رکوع کی پوزیشن میں چلے گئے تھے ایک نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی انہیں کوئی ہوش نہیں آرام سے اٹھاؤ اور وہ دونوں اپنے اپنے بازو شافعیہ کے نیچے کرکے اٹھانے لگے
پیشتر اس کے کہ ان دونوں کو پتہ چلتا کہ یہ کیا ہوا ہے ایک ہی پیٹھ میں مزمل کا اور دوسرے کی پیٹھ میں بن یونس کا خنجر اتر چکا تھا ان دونوں نے ان پر ایک ایک اور وار کیا اور پھر دونوں کو گھسیٹ کر ندی میں پھینک دیا ندی تو ایسی گہری نہیں تھی لیکن پہاڑی ندی ہونے کی وجہ سے اس کا بہاؤ بڑا تیز تھا ندی چند قدم ہی دور تھی مزمل اور بن یونس بڑے اطمینان سے آکر پھر اسی طرح لیٹ گئے
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ تین اور سفید پوش آگئے انہوں نے بھی وہی کاروائی کی جو پہلے ان کے دو ساتھی کر چکے تھے ان میں سے بھی ایک نے سرگوشی کی یہ ہوش میں معلوم نہیں ہوتے دوسرے نے سرگوشی میں کہا کہ معلوم نہیں وہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں پھر یہ بھی شافعیہ کو اٹھانے کے لئے جھکے اور پھر مزمل اور بن یونس کے خنجر حرکت میں آگئے وہ تینوں فدائی تھے جو زندگی اور موت کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کے ساتھ جو ہوا وہ ان کے لیے غیر متوقع تھا اگر انہیں معلوم ہوتا یا ذرا سا بھی شک ہوتا تو وہ اپنے ہتھیار ہاتھوں میں تیار رکھتے لیکن ان پر جو حملہ ہوا وہ اچانک تھا
مزمل بھائی! بن یونس نے کہا اب باقی جو پانچ رہ گئے ہیں ان کا انتظار یہاں نہ کرو چلو ان لڑکیوں کو بھی تلوار یا خنجر دو پہلے وہ آئے تھے اب ہم چلتے ہیں
پیشتر اس کے کہ باقی پانچ یا ان میں سے دو تین آتے ان چاروں نے جلدی جلدی سے ایک اسکیم تیار کرلی اور سامنے والی ٹیکری کے اوپر چلے گئے دونوں لڑکیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھی مزمل اور بن یونس خنجروں سے مسلح تھے
مزمل کی قیادت میں اس کے ساتھی چھپتےچھپاتے آگے بڑھتے گئے اور اتنے آگے چلے گئے جہاں سے وہ ان کی باتیں سن سکتے تھے وہ اپنے ساتھیوں کی باتیں کر رہے تھے
ایک نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے ہمارے اپنے بھائی ہمیں ایک لڑکی کے پیچھے دھوکا دے رہے ہیں
سب چلو اور ان کو دیکھتے ہیں ایک نے کہا اگر وہ کوئی گڑبڑ کر رہے ہوئے تو انہیں یہیں ختم کر دیں گے
پانچوں چل پڑے مزمل اور اس کے ساتھی وہیں جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گئے وہ پانچوں ان کے قریب سے گزرے مزمل کے اشارے پر سب نے ان پر خنجروں اور تلواروں سے حملہ کردیا مزمل کی بدقسمتی کی اس کا پاؤں کسی جھاڑی میں یا درخت کی جڑ کے ساتھ اٹک گیا اور وہ منہ کے بل گرا اس کے ساتھیوں نے حملہ بھرپور کیا تھا لیکن ان پانچ سفید پوشوں میں سے ایک الگ ہوگیا اور وہ مزمل کے قریب اس حالت میں آیا کہ مزمل اٹھ رہا تھا اس سفید پوش فدائی نے بڑی تیزی سے اپنا خنجر نکالا اور مزمل پر وار کیا مزمل نے وار تو بچا لیا لیکن خنجر اسکے دائیں کندھے میں اتر گیا اور یوں لگا جیسے ہنسلی کٹ گئی ہو مزمل نے جوابی وار ایسا کیا کہ فدائی پاؤں پر کھڑا نہ رہ سکا مزمل نے بڑی تیزی سے دو تین خنجر مارے اور اسے گرا لیا اس کے ساتھیوں نے باقی چار کو گرا لیا اور ان سب پر اتنے وار کئے گئے کہ ان کا زندہ رہنا ممکن ہی نہ رہا
انہوں نے بہت بڑا اور خطرناک شکار مارا تھا لیکن مزمل ایسا زخمی ہوا کہ اس کا خون امڈ امڈ کر باہر آ رہا تھا وہ اب آگے سفر کرنے کے قابل نہیں رہا تھا بن یونس نے اسکے زخم میں کپڑا ٹھوس کر اوپر ایک اور کپڑا باندھ دیا اور سب نے فیصلہ کیا کہ یہیں سے اور اسی وقت واپسی کا سفر اختیار کیا جائے تاکہ دوپہر تک وسم کوہ پہنچ جائیں مزمل کا اتنا زیادہ خون ضائع نہیں ہونا چاہیے تھا انھوں نے اسی وقت رخت سفر باندھا اور واپسی کے سفر کو روانہ ہو گئے انہوں نے ان دس فدائیوں کا سامان دیکھا ہی نہیں نہ ہی اسے یہ ہاتھ لگانا چاہتے تھے البتہ ان کے گھوڑے اور ہتھیار اپنے ساتھ لے گئے یہ ان کا مال غنیمت تھا انہیں غالبا یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ انہوں نے ان دس فدائیوں کو قتل کرکے شاہ در کے محاصرے میں کیسی جان ڈال دی ہے یہ دس فدائی وہاں پہنچ جاتے تو محمد بھی نہ ہوتا اور وہاں کے سالار بھی مارے جاتے پھر محاصرے نے بری طرح ناکام ہونا تھا
محاصرہ بڑا ہی سرگرم ہوگیا تھا لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی چونکہ مرو کا لشکر انتقام سے پاگل ہوا جارہا تھا اس لیے سالاروں کو یہ مشکل پیش نہیں آئی تھی کہ وہ انہیں آگے کس طرح دھکیلیں بلکہ مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ یہ لشکر بار بار دیوار کے قریب یا دروازوں کی طرف اٹھ دوڑتا تھا اور اسے روکنا پڑتا تھا وہاں شجاعت اور بے خوفی کی تو ضرورت یقیناً تھی لیکن عقل کے بغیر شجاعت بڑی ہی نقصان دہ تھی
یہاں تک دلیرانہ کاروائی کی گئی کہ ایک رات دیوار کے قریب جاکر کمند اوپر پھینکی گئی کمند چھوٹی دو برجوں کے درمیان اٹک گئی اور دو تین مجاہدین رسّہ پکڑ کر اوپر جانے لگے دیوار کے اوپر سے تیر آتے تھے اور ان تیر اندازوں کو دور رکھنے کے لئے سلجوقی تیر اندازوں نے بے پناہ تیر پھینکنے شروع کردیئے مجاہدین رسّہ چڑھتے گئے لیکن کچھ دور سے دیوار والے تیر اندازوں نے رسّہ چڑھتے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کردیے اور برچھیاں بھی پھینکی گئیں اور ان پر جلتی ہوئی مشعلیں بھی پھینکیں مجاہدین زخمی بھی ہوئے اور دو کے کپڑوں کو آگ لگ گئی مگر اس آگ کے باوجود اوپر ہی جاتے رہتے تو رسّے کو بھی آگ لگ سکتی تھی بہرحال اوپر جانا ممکن نہ رہا اور یوں کچھ مجاہدین شدید زخمی ہو کر رسّی سے اتر آئے
شہر کے دو اطراف پہاڑی تھی اس طرف بھی تیر اندازوں کو لے جایا گیا لیکن وہاں مشکل یہ تھی کہ پہاڑی کے دامن اور شہر کی دیوار کے درمیان فاصلہ بہت تھوڑا تھا مجاہدین پہاڑی پر چڑھتے تھے تو شہر پناہ کے تیر انداز ان پر تیروں کی بارش برسا دیتے تھے
دروازے توڑنے کی بھی کوشش کی گئی مجاہدین کلہاڑوں سے توڑنے کے لئے دروازوں تک پہنچ گئے لیکن آدھے ہی زندہ واپس آ سکے دروازہ توڑنے کا ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ درختوں کے بہت وزنی ٹہن کاٹے گئے ان سے شاخیں وغیرہ اتار دی گئیں اور بےشمار مجاہدین نے ایک ٹہن کو کندھوں پر اٹھایا اور دوڑتے ہوئے ایک دروازے تک گئے اور اس ٹہن کا اگلا سرا دروازے پر مارا دروازے اتنے مضبوط تھے کہ نہ ٹوٹ سکے توڑے تو جاسکتے تھے لیکن اوپر سے برچھیاں اور تیر آتے تھے
آخر منجنیقیں استعمال کی گئیں یہ سب چھوٹی منجنیقیں تھیں جن میں زیادہ وزنی پتھر نہیں ڈالے جاسکتے تھے بہرحال ہر منجنیق ایک من وزنی پتھر پھینک سکتی تھی
شہر پناہ کے ارد گرد گھوم پھر کر دیکھا گیا شاید کہیں سے ذرا سی دیوار کمزور ہو ایسی دو تین جگہیں دیکھی گئیں اور منجنیقوں سے وہاں پتھر مارے گئے لیکن دیوار اس قدر چوڑی تھی کہ اس میں شگاف ڈالنا ممکن نہیں تھا
ادھر قلعہ الموت میں حسن بن صاح پیچ و تاب کھا رہا تھا وہ صبح و شام اس خبر کا منتظر رہتا تھا کہ اس کے ان فدائیوں نے جنہیں اس نے خود بھیجا تھا محمد اور اسکے تمام سالاروں کو قتل کردیا ہے اور خودکشی کرلی ہے لیکن ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا اور اسے ایسی کوئی خبر نہیں مل رہی تھی اسے شاہ در کے اندر سے خبر نہیں جا سکتی تھی کیونکہ شہر محاصرے میں تھا اسے باہر کے جاسوس خبریں پہنچاتے تھے وہ یہ جواز تو قبول کرتا ہی نہیں تھا کہ قتل کا موقعہ نہیں ملا
اس نے آخر اپنے جاسوس بھیجے اور کہا کہ ان دس بھائیوں کا سراغ لگاؤ وہ کہاں چلے گئے ہیں انہیں پتا نہ چلے درپردہ وہ یہ معلوم کرو کہ انہوں نے ابھی تک اپنا کام کیوں نہیں کیا
اس کے جاسوس قلعہ الموت سے شاہ در کے مضافات میں پہنچ گئے انہوں نے بہت تلاش کی عمرو بھی گئے اور رے بھی گئے لیکن وہ دس فدائی انہیں کہیں نظر نہ آئے آخر کسی اور نے جنگل میں سے گزرتے بکھری ہوئی ہڈیاں دیکھیں اور سفید عمامے اور پھٹی ہوئی عبائیں دیکھیں کچھ اور نشانیاں بھی وہاں موجود تھیں کھوپڑیاں دیکھیں تو یہ پوری نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے دس فدائین ہی ہو سکتے تھے جن کی لاشیں درندوں اور گدھوں نے کھا لی تھی کچھ اور نشانیاں مل گئی اور حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی کہ فدائی اپنے ہدف تک پہنچ ہی نہیں سکے تھے
تاریخ میں شہادت ملتی ہے کہ ضعیف العمر عبدالملک بن عطاش کسی کسی وقت دیوار پر جا کھڑا ہوتا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بلند آواز سے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالتا رہتا اور سلجوقی لشکر کی طرف پھونک مارتا رہتا تھا معلوم ہوتا ہے اس کا سفلی عمل یا اسکا جو کوئی عمل اس کے ہاتھ میں تھا ناکام ہوچکا تھا وہ یہ فقرہ بار بار کہا کرتا دشمن آنکھوں سے اندھا نہ ہوا تو عقل سے اندھا ہو جائے گا
محاصرے کو تین چار مہینے گزر گئے تو شاہ در والوں نے ایک بڑی دلیرانہ کاروائی شروع کر دی رات کے وقت شہر کا کوئی ایک دروازہ کھلتا اور اس میں سے دو سو یا تین سو آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح بڑی تیزی سے باہر نکلتے اور بالکل سامنے سلجوقی لشکر پر ٹوٹ پڑتے جس قدر نقصان کر سکتے کرکے اسی تیزی سے واپس چلے جاتے تھے ان کا اپنا جانی نقصان تو ہوتا تھا لیکن سلجوقی لشکر کا جانی نقصان کئی گناہ زیادہ ہوتا تھا بے شمار سلجوقی شدید زخمی بھی ہوجاتے تھے تیسری چوتھی رات شاہ در کے دروازے سے ایسا ہی حملہ اچانک ہوتا اور پھر واپس چلا جاتا تھا ان کا انداز بگولے جیسا ہوتا تھا یہ دلیرانہ کاروائی ڈیڑھ دو مہینے چلتی رہی آخر محمد نے دیکھا کہ محاصرہ طول پکڑ رہا ہے اور ذرا سی بھی کامیابی نہیں ہو رہی تو اس نے حکم دیا کی منجنقیں شہر کے اردگرد لگا کر کم وزنی پتھر شہر کے اندر پھینکے جائیں اور اس کے ساتھ ہی فلیتے والے تیر آگ لگا کر مسلسل اندر پھینکے جاتے رہے
دو تین مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ شہر سے جو آدمی حملہ کرنے کے لئے باہر آتے تھے ان میں سے بعض اتنے زخمی ہوتے تھے کہ واپس نہیں جا سکتے تھے ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ شہری محاصرے سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ محاصرہ جلدی ٹوٹ جائے یا شہر محاصرہ کرنے والوں کے حوالے کردیا جائے شہری ضروریات زندگی سے محروم ہوگئے تھے اور زیادہ نقصان تاجروں اور دکانداروں کا ہو رہا تھا جنہیں باہر سے مال مل ہی نہیں رہا تھا مورخوں نے لکھا ہے یہ تھی وجہ کہ محمد نے شہریوں کو اور زیادہ پریشان کرنے کے لیے شہر پر پتھر اور فلیتے والے آتشی تیر برسانے شروع کر دیئے محاصرے کو آٹھ نو مہینے ہو چلے تھے
ایک صبح شہر کا ایک دروازہ کھلا اور ایک آدمی باہر آیا جس کے ہاتھ میں سفید جھنڈا تھا باہر آتے ہی اس کے پیچھے دروازہ پھر بند ہو گیا یہ آدمی سلجوقی لشکر کے قریب آگیا اور اس نے بلند آواز سے کہا کہ وہ سلجوقی سلطان کے لیے ایک پیغام لایا ہے
ایک سالار کو جو وہاں کہیں قریب ہی تھا اطلاع دی گئی سالار آیا اور وہ اس آدمی کو سلطان محمد کے پاس لے گیا یہ پیغام قلعے کے حاکم احمد بن عبدالملک کی طرف سے تھا اس نے لکھا تھا کہ ہم لوگ تمہارے ایک اللہ اور ایک رسول اور ایک قرآن کو مانتے ہیں اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ محمد الرسول اللہﷺ آخری رسول ہیں اس کے بعد ہم شریعت کی پوری پابندی کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں آزادی سے زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جا رہا ہمارا اختلاف صرف امامت پر ہے آپ ہمارے امام کو نہیں مانتے تو یہ اتنی بڑی بات نہیں کیونکہ امام نبی یا رسول نہیں ہوتا پھر ہم اطاعت قبول کرتے ہیں تو کیا شریعت میں جائز ہے کہ ایک ہی مذہب کا ایک فرقہ اطاعت قبول کرلے تو اسے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور اسے جینے کے حق سے محروم رکھا جائے؟
چونکہ اس پیغام میں اطاعت کا ذکر بھی تھا اس لئے محمد نے اپنا رویہ کچھ نرم اور صلح جُو کرلیا لیکن اس میں چونکہ مذہب کا ذکر بھی تھا اس لئے محمد نے بہتر سمجھا کہ علماء سے فتویٰ لے لیا جائے محمد نے پیغام کا جواب دیا کہ وہ اپنے علماء سنت والجماعت سے فتوی لے کر فیصلہ کرے گا
اس موقع پر علمائے دین نے اپنا وہی کردار پیش کیا جو آج تک چلا آرہا ہے ابوالقاسم رفیق دلاوری نے لکھا ہے کہ علماء اس مسئلے پر متحد اور متفق نہ ہوئے بعض علماء نے تو یہ فتوی دے دیا کہ حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے اس لیے اس پر تشدد جائز نہیں بعض علماء نے کوئی بھی فتوی دینے سے معذوری کا اظہار کردیا اس وقت ایک بڑے ہی مشہور عالم دین جن کا نام شیخ ابوالحسن علی بن عبدالرحمن تھا انہوں نے فتوی دیا کہ باطنی اسلام کا فرقہ نہیں بلکہ ان کے عقائد خلاف اسلام ہیں اور ان کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا قتل واجب ہے اور حالات و واقعات گواہ ہیں کہ باطنی قتل و غارت گری میں یقین رکھتے ہیں اور ان میں ابلیسیت کا عنصر غالب ہے انہوں نے فتوے میں یہ بھی لکھا کہ باطنی اپنے امام کا حکم مانتے ہیں اور شریعت کو الگ رکھتے ہے یہ فرقہ ان چیزوں کو بھی حلال قرار دیتا ہے جو شریعت اسلامی کی رو سے حرام قرار دی جا چکی ہے لہذا اس فرقے کو بخشنا اسلام کے حق میں نہیں
محمد نے یہ فتویٰ شاہ در احمد بن عبدالملک کی طرف بھیج دیا شہر کے اندر سے ایک اور پیغام آیا جس میں لکھا تھا کہ حاکم قلعہ درخواست کرتا ہے کہ سلجوقی سلطان اپنے علمائے دین کو شہر کے اندر بھیجے تاکہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ بحث مباحثہ ہو سکے اور پھر یہ معاملہ کسی نتیجے پر پہنچایا جائے
اس وقت اصفہان کے قاضی ایک عالم دین قاضی ابوالاعلاء صاعد بن یحییٰ تھے جو شیخ الحنفیہ تھے محمد نے انہیں شاہ در بلوایا قاضی بن یحییٰ آئے تو محمد نے انھیں بتایا کہ انھیں شادر کے اندر حاکم شہر کے پاس بھیجا جا رہا ہے متعدد مورخوں نے لکھا ہے کہ اصفہان کے اس قاضی کو شاہ در احمد بن عبدالملک کے مطالبے پر بھیجا گیا تھا کہ اس نے جو مسئلہ پیش کیا تھا اس مسئلہ پر شاہ در کے علماء سے بحث کرنی تھی تاکہ کسی نتیجے پر یا کسی فیصلے پر پہنچا جائے
قاضی صاعد بن یحییٰ چار محافظوں کے ساتھ شہر کے اندر چلے گئے توقع تو یہ تھی کہ ان کا سارا دن شہر میں ہی گزر جائے گا کیونکہ مسئلہ بڑا نازک اور پیچیدہ تھا جس پر بحث اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتی تھی لیکن قاضی موصوف جلدی واپس آگئے اور سلطان محمد سے ملے
سلطان محترم! قاضی بن یحییٰ نے کہا اپنا وقت ضائع نہ کریں اور یہ شہر کسی نہ کسی طرح فتح کرنے کی کوشش کریں یہ باطنی انتہائی عیار لوگ ہیں حاکم شہر کے چہرے پر میں نے ابلیسیت اور عیاری کا بڑا نمایاں تاثر دیکھا ہے انہیں کسی بھی شرعی مسئلے پر بات نہیں کرنی تھی اور نہ ہی یہ کوئی وضاحت چاہتے تھے مجھ سے ان کے علماء نے بحث تو کی لیکن صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ کچھ اور چاہتے ہیں میں نے یہ بھی اپنے دماغ اور تجربے سے معلوم کر لیا اس شہر کا حاکم اور حاکم کا بوڑھا باپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی طرح یہاں سے ٹل جائیں یا انہیں اتنا وقت مل جائے کہ یہ شہر کو بچانے کی مزید تیاریاں کرلیں یہ لوگ صرف اوقت اور مہلت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں
محمد کے ساتھ اسکے سالار بھی تھے سالاروں نے قاضی صاعد بن یحییٰ کی تائید کی اور کہا کہ ان باطنیوں کو مزید مہلت نہ دی جائے
قابل احترام قاضی اصفہان! محمد نے کہا میں آپ کے سامنے طفل مکتب ہوں میرے دل میں اسلام اور شریعت کا احترام ہے میں ڈرتا ہوں کہ میرا کوئی قدم اور کوئی کاروائی شریعت کے خلاف نہ ہو جائے آپ یہ بتائیں کہ انہوں نے یہ جو مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ باطنی مسلمان ہیں وغیرہ یہ کہاں تک صحیح ہے اور کیا ہمیں شریعت اجازت دیتی ہے کہ انہیں ختم کیا جائے یا بخش دیا جائے؟
کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا قاضی بن یحییٰ نے دوٹوک لہجے میں کہا یہ باطنی ابلیس کے پجاری ہیں انہیں بخشنا غیر اسلامی فعل ہے ان لوگوں کا دوسرا گناہ یہ ہے کہ یہ شریعت کے قائم کئے ہوئے اصولوں کو توڑ موڑ کر قرآن کی خلاف ورزی اور توہین کر رہے ہیں آپ ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں
ایک اور بات بتائیں محمد نے پوچھا کیا آپ نے یہ دیکھنے کی کوشش کی تھی کہ اندر شہر کا کیا حال ہے اور شہریوں کا ردعمل اور ان کی حالت کیا ہے؟
ہاں سلطان! قاضی موصوف نے کہا یہ تو مجھے صاف طور پر پتہ چل گیا ہے کہ شہر کی حالت بہت بری ہے اور شہری شہر کے حاکم کے پیچھے بری طرح پڑے ہوئے ہیں کہ محاصرے کسی نہ کسی طرح ختم کروایا جائے یہ بات حاکم شہر نے خود بھی کہی ہے اس نے انداز تو اپنا اختیار کیا تھا لیکن میں اصل بات سمجھ گیا اس نے کہا تھا کہ شہر میں گھوم پھر کر دیکھیں آپ لوگوں نے اتنی سنگ باری کی ہے کہ کئی مکان ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اور لوگوں نے گھروں میں بیٹھنا اور سونا چھوڑ دیا ہے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آتشی تیروں نے کئی مکان جلا ڈالے ہیں اس نے یہ بھی کہا کہ امن وامان ختم ہو چکا ہے اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچ رہی ہے میں نے شہر کی یہ حالت اپنی آنکھوں دیکھی ہے حاکم شہر وقت اور مہلت چاہتا ہے کہ اس کے شہری ذرا سانس لے لیں اور ان کا تعاون حاصل کرلیا جائے اس کے ساتھ ہی حاکم شہر آپ کو دھوکہ دے کر باہر سے رسد منگوانا چاہتا ہے آپ محاصرے میں شدت پیدا کردیں فتح ان شاءاللہ آپ کی ہوگی
محمد نے قاضی اصفہان کو پورے احترام سے رخصت کیا اور اپنے کچھ گھوڑسوار محافظ ساتھ بھیجے
محمد نے محاصرے میں یوں شدت پیدا کی کہ منجینیقوں سے سنگ باری اور تیز کردی اور فلیتوں والے تیر اور زیادہ پھینکنے شروع کر دیئے اس کے ساتھ ہی تقریباً ہر رات دروازوں پر حملے شروع کردیئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہریوں کے حوصلے بالکل ہی پست ہوگئے اور دیکھا گیا کہ شہرپناہ پر تیراندازوں کی تعداد آدھی بھی نہیں رہ گئی تھی ان میں تو کچھ مر گئے اور کچھ زخمی ہوئے تھے لیکن بہت سے اچھے بھلے تیرانداز بھی منہ موڑ گئے تھے وہ اب اس ذہنی کیفیت تک پہنچ گئے تھے جہاں جذبے ختم ہوجاتے ہیں اور ہتھیار ڈالنے کا ارادہ پیدا ہوجاتا ہے مختصر بات یہ کہ لڑنے والے شہری اب یہ چاہتے تھے کہ وہ مزاحمت کم کردے اور سلجوقی لشکر شہر لے لیں تاکہ یہ قیامت جو ان پر دن رات گرتی رہتی ہے ختم ہو جائے
چند ہی دنوں بعد شہر کا ایک دروازہ کھلا اور ایک آدمی جو گھوڑے پر سوار تھا ہاتھ میں سفید جھنڈا لیے باہر آیا اور دروازہ پھر بند ہو گیا یہ سوار کوئی پیغام لایا تھا اسے سلطان کے پاس لے گئے
حاکم شہر نے اس پیغام میں استدعا کی تھی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اس شہر سے اپنی آبادی کے ساتھ نکل جائے اور اسے دوسری اجازت یہ دی جائے کہ وہ قلعہ خلجان میں چلا جائے آبادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ شاہ در کی تمام تر آبادی وہاں سے چلی جانا چاہتی تھی بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو لوگ یہاں سے جانا چاہتے ہیں انہیں جانے دیا جائے
خالنجان اصفہان سے تھوڑی ہی دور ایک قلعہ تھا کسی وقت باطنیوں نے اس قلعے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے اپنا ایک اور اڈا بنانے کی کوشش کی تھی لیکن سلطان ملک شاہ مرحوم نے اس قلعے پر اچانک ایسی یلغار کی کے قلعے پر قبضہ کرلیا اور اسی باطنی کو زندہ رہنے ملا جو بھاگ نکلا تھا اب وہ قلعہ کسی کے بھی قبضے میں نہیں تھا
یہاں آیا یقیناً عبدالملک بن عطاش یاد آتا ہے اس نے کہا تھا کہ سلجوقی سلطان اور سالار اگر آنکھوں سے اندھے نہ ہوئے تو عقل سے اندھے ہو جائیں گے وہ مسلسل اپنا عمل کرتا رہا تھا اور شہر پناہ پہ کھڑے ہو کر اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کچھ بڑبڑاتا اور باہر والے لوگوں پر پھونکیں مارتا رہتا تھا کچھ ایسی شہادت ملتی ہے کہ اس کے عمل نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھایا تھا
محمد دیکھ چکا تھا کہ حاکم شہر نے مذہب کے نام پر کس قسم کی عیاری اور مکاری کا مظاہرہ کیا ہے اسے اصفہان کے قاضی نے بھی بتایا تھا کہ یہ باطنی صرف عیاری کر رہے ہیں کہ انہیں کچھ مہلت اور وقت مل جائے پھر بھی محمد کا رویہ یہ تھا کہ شاہ در کے حاکم نے یہ نیا استدعا باہر بھیجی کہ اسے اس کی بجائے دوسرا قلعہ دے دیا جائے تو محمد نے یہ استدعا قبول کرلی اور شہر پر سنگباری اور آتشی تیر اندازی رکوادی تھی اور پھر اس پیغام کا جواب دیا کہ ایک مہینے کی مہلت دی جاتی ہے اس عرصے میں جس کسی نے اس شہر سے نکلنا ہے نکل جائے
شاہ در کے باطنیوں نے اپنی ابلیسی ذہنیت کا ایک اور مظاہرہ کر دیا وہ اس طرح کے سلجوقی لشکر کے کچھ لوگ شہر میں بھیج دیئے گئے اور ان کے ساتھ ایک سالار کو بھی بھیج دیا گیا ان کا کام یہ تھا کہ جو لوگ شاہ در سے نکل رہے ہیں انہیں جلدی نکالا جائے اور کوئی مزید گڑبڑ نہ ہو لیکن سلجوقی لشکر کا ایک عہدیدار کسی گلی میں جا رہا تھا تو تین چار باطنیوں نے اس پر حملہ کر دیا یہ اس کی اپنی شجاعت اور قسمت تھی کہ وہ صرف زخمی ہوا مرا نہیں لیکن باطنیوں نے اپنی نیت ظاہر کردی
سلطان محمد کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اس نے اپنے آدمیوں کو شہر سے باہر نکال کر پھر شہر پر سنگ باری شروع کردی اور آگ والے تیر پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں چھوڑنا شروع کر دیے شہرمیں چیخ وپکار بلند ہونے لگیں اور نفسانفسی کا عالم پیدا ہوگیا
اب حاکم شہر احمد بن عبدالملک خود اپنے چند ایک محافظوں کے ساتھ شہر کے ایک دروازے سے باہر آیا ایک محافظ نے سفید جھنڈا اٹھا رکھا تھا وہ سلطان محمد سے ملنا چاہتا تھا اسے محمد تک پہنچادیا گیا
اس نے محمد سے معافی مانگی اور کہا کہ یہ چند ایک اشخاص تھے جنہوں نے سلجوقی عہدیدار پر حملہ کیا تھا اور اس میں حاکم شہر کی رضا شامل نہیں تھی محمّد نے پہلے تو اس کی معافی قبول نہ کی اور کہا کہ اب وہ بزورشمشیر یہ شہر لے گا اور اس کے بعد شہریوں سے اور حاکم شہر اور اس کے خاندان سے پورا پورا انتقام لے گا لیکن حاکم شہر گڑ گڑا کر معافی مانگ رہا تھا محمد نے صاف کہہ دیا کہ اسے قلعہ خالنجان نہیں دیا جائے گا
احمد بن عبدالملک رو پڑا اور اس نے کہا کہ خالنجان اسے نہ دیا جائے اس کی بجائے ایک اور چھوٹا سا قلعہ جس کا نام ناظر و طبس تھا اسے دے دیا جائے اور اس کے بعد وہ امن و امان سے رہے گا
سلطان محمد کے دل میں رحم کی موج اٹھی اور اس نے باطنیوں کی یہ شرط اور درخواست قبول کرلی اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اس قلعے میں منتقل ہوجائیں اس کے ساتھ ہی سلطان محمد نے حکم دیا کہ شاہ در کی شہر پناہ اسی طرح رہنے دی جائے لیکن قلعہ مسمار کردیا جائے سلجوقی لشکر نے اسی وقت قلعے کو مسمار کرنا شروع کردیا
شاہ در پر سلجوقی سلطان کا قبضہ تو ہوگیا تھا لیکن باطنی سانپ اور بچھو تھے جو ڈسنے سے باز نہیں آسکتے تھے اس شہر کا قلعہ بہت ہی بڑا اور پیچ در پیچ تھا اس میں چھوٹی برجیاں اور اس سے بڑے برج اور اس سے بڑے برج بھی تھے کسی نے دیکھ لیا کہ ایک بڑے برج میں کوئی چھپا بیٹھا ہے ایک سالار کچھ مجاہدین کو ساتھ لے کر دیکھنے گیا دیکھا وہاں عبدالملک بن عطاش کا چھوٹا بھائی احمد بن عطاش چھپا بیٹھا تھا اسے پکڑ لیا گیا
یہ بہت بڑا برج تھا جس کے کئی حصے تھے اس کے کچھ کمرے بالائی منزل میں تھے محمد کو اطلاع ملی تو اس نے کہا کہ صرف اس برج کی ہی نہیں بلکہ ایسے تمام برجوں کی تلاشی لی جائے اس برج کی تلاشی لی گئی تو تاریخ کے مطابق 80 اور باطنی برآمد ہوئے یہ سب خنجروں اور چھوٹی تلواروں سے مسلح تھے اور چند ایک کے پاس کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی تیر کشیں بھی تھیں ان سب کو سلطان کے سامنے لے جایا گیا تب معلوم ہوا کہ احمد بن عطاش کا ایک جوان سال بیٹا بھی اس کے ساتھ تھا
ابن عطاش! محمد نے احمد بن عطاش سے پوچھا تو یہاں چھپا کیا کر رہا تھا؟
اگر سچ بولو گے تو شاید پہلے کی طرح اب بھی میرے دل میں رحم کی لہر اٹھائے گی اگر جھوٹ بولنے کا ارادہ ہے تو میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ تجھے کیسی کیسی اذیتیں دے دے کر ماروں گا
کیا سلطان اتنی سی بھی بات نہیں سمجھ سکتا احمد بن عطاش نے بڑی دلیری سے جواب دیا میں تمہاری پیٹھ میں خنجر اتارنے کے لئے یہاں رک گیا تھا ہم اتنی جلدی شکست تسلیم نہیں کیا کرتے
میں نے تیری ایک پیشنگوئی سنی تھی محمد نے کہا تو نے پیشن گوئی کی تھی کہ اصفہان میں تیری شوکت اور عظمت کے نقارے بجے گے اب بتا کہاں گئی تیری وہ عظمت؟
میری پیشن گوئی غلط نہیں نکلی احمد بن عطاش نے کہا سلطان اب بھی جاکر اصفہان میں دیکھ لے کہ لوگ میرا نام ایک پیرومرشد کی طرح لیتے ہیں میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اصفہان پر میری حکومت ہوگی میری پیشن گوئی کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں پر میری حکومت ہوگی اور میں اصفہان میں جدھر سے بھی گزرونگا لوگ میرے آگے سجدے کریں گے
تاریخ میں لکھا ہے کہ سلطان محمد کی ہنسی نکل گئی
میں تجھے اصفہان کی گلیوں میں ہی پھیرا رہا ہوں محمد نے کہا اور اپنے پاس کھڑے دو سالاروں کو حکم دیا اس شخص کو اور اس کے بیٹے کو پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اور ہاتھ باندھ کر اور ان دونوں کے منہ کالے کرکے اصفہان کی تمام گلیوں میں گھماؤ اور سرعام ان دونوں کے سر کاٹ کر بغداد خلیفہ کے حضور پیش کر آؤ
اصفہان وہاں سے قریب ہی تھا اسی وقت احمد بن عطاش اور اس کے جواں سال بیٹے کے پاؤں میں اور ہاتھوں میں زنجیریں ڈال دی گئیں اور وہاں ان کے منہ کالے کردیئے گئے
سلطان محمد کی یہ کچہری کسی کمرے میں نہیں بلکہ باہر ایک درخت کے نیچے لگی ہوئی تھی ایک تو وہاں وہ 80 باطنی کھڑے تھے جنہیں برجوں میں سے پکڑا گیا تھا اور بہت سے شہری اور سلجوقی لشکر کے کچھ مجاہدین بھی وہاں موجود تھے جب احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے کو زنجیریں ڈال کر ان کے منہ کالے کر دیے گئے تو تماشائیوں کے ہجوم میں سے ایک نوجوان لڑکی نکلی اور دوڑ کر احمد بن عطاش کے سامنے آن کھڑی ہوئی وہ اس کی بیوی نور تھی جس کا پیچھے ذکر آچکا ہے
آئے سیاہ رُو انسان! نور نے بڑی بلند آواز میں کہا تو نے مجھے عبادت سے اٹھایا تھا اور میں نے تجھے کہا تھا کہ تو ذلیل و خوار ہو کر مرے گا اب بتا اللہ تیرا ہے کہ میرا
جس وقت لوگ شاہ در سے نکل رہے تھے اس وقت احمد بن عطاش کا شاہی خاندان بھی شہر سے جا رہا تھا نور کو موقعہ ملا تو وہ تیز دوڑ پڑی اور سلطان محمد تک آن پہنچی اس کے ساتھ اس کا باپ بھی تھا جو عبدالملک بن عطاش کا قابل اعتماد ملازم بن گیا تھا باپ نے محمد سے اپنا تعارف کرایا اور اپنی بیٹی کے متعلق بھی بتایا کہ اسے قافلے سے اغوا کرکے احمد بن عطاش نے اپنی بیوی بنا لیا تھا اس باپ نے ہی عبدالملک بن عطاش کے متعلق ساری باتیں بتائی تھی کہ کس طرح اس نے الّو کے ذریعے کالا جادو کیا تھا اور اس کے بعد اپنا جادو چلاتا ہی رہا تھا نور کے باپ نے محمد کو بتایا کہ چمڑے پر لکھا ہوا پیغام تیر کے ذریعے اسی نے باہر پھینکا تھا اس باپ نے اور بھی بہت سی باتیں بتائیں
محمد نے حکم دیا کے نور اور اس کے باپ کو سلطان کے مہمان سمجھ کر رکھا جائے اور ابھی انہیں مرو بھیج دیا جائے
احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے کو دو اونٹوں پر بیٹھا کر اصفہان بھیج دیا گیا ان کے ساتھ ایک عہدیدار تھا اور پچاس مجاہدین گھوڑوں پر سوار تھے ابن اثیر نے لکھا ہے کہ ان دونوں کو اصفہان کی گلیوں اور بازاروں میں گھمایا پھرایا گیا اور ساتھ ساتھ یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ ان کا جرم کیا ہے اور یہ لوگ کالے جادو کے ذریعے یا کسی سفلی عمل کے ذریعے سلجوقی لشکر کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں پھر انہیں شہر کے وسط میں کھڑا کر کے سارے شہر کو اکٹھا کیا گیا اور ان کے سر تن سے جدا کر دیے گئے سلطان محمد کے حکم کے مطابق دونوں کے سر بغداد لے جائے گئے جو دارالخلافہ تھا اور یہ سر خلیفہ کو پیش کیے گئے خلیفہ نے ان سروں کی نمائش کی اور پھر دونوں سر آوارہ کتوں کے آگے پھینک دیے
اس وقت احمد بن عطاش کی پہلی بیوی قلعہ ناظروطبس میں پہنچ چکی تھی اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے خاوند اور اس کے جوان بیٹے کا سر کاٹ دیا گیا ہے اس سے پہلے دونوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے اصفہان کی گلیوں میں گھمایا گیا تھا یہ عورت بیوی بھی تھی اور جوان بیٹے کی ماں بھی وہ قلعے کی سب سے اونچے برج پر چڑھ گئی اور وہاں سے اس نے چھلانگ لگادی اور یوں اس نے خودکشی کرلی
سلطان محمد شاہ در پر اپنے لشکر کا قبضہ مضبوط کرکے واپس مرو آ گیا اس کا استقبال بڑی ہی شان و شوکت سے کیا گیا کیونکہ وہ باطنیوں کے بہت بڑے اڈے کو تباہ کر کے آیا تھا مرو میں ہر کوئی فکر مند اور پریشان تھا کہ شاہ در کو فتح نہیں کیا جاسکے گا اللہ محمد اور لشکر کو خیریت سے واپس لے آیا محمد لشکر کے ساتھ صرف خیریت سے ہی واپس نہ آیا بلکہ وہ فاتح کی حیثیت سے اپنے دارالحکومت میں داخل ہوا
سلطان محمّد نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو شاہ در بھیج دیا اور اس کے سپرد یہ کام کیا کہ وہاں کے سرکاری انتظامات کو اپنے سانچے میں ڈھال کر رواں کرے اور قلعہ جو مسمار کیا گیا ہے اسے از سر نو تعمیر کرے لیکن اس کی شکل قلعے جیسی نہ ہو
اور میرے بھائی! محمد نے اپنے بھائی سنجر سے کہا اصل کام جو تمہیں وہاں کرنا ہے وہ غور سے سن لو شاہ در کی تقریبا آدھی آبادی وہاں سے نہیں گی ان لوگوں نے وہیں رہنا پسند کیا ہے خیال رکھنا کہ یہ سب باطنی ہیں ضروری نہیں کہ یہ حسن بن صباح کے فدائی ہی ہوں اور یہ محض اس کے پیروکار ہوں لیکن محتاط ہونا پڑے گا کہ ان میں کچھ فدائی ہوسکتے ہیں فدائی نہ ہوئے تو حسن بن صباح کے جاسوس تو ضرور ہونگے یہ انتظام میرا ہوگا کہ یہاں سے بڑے تجربے کار جاسوس اور مخبر مستقل طور پر شاہ در بھیج دوں گا وہ وہاں کے ہر گھر کے اندر بھی نظر رکھیں گے اور کوئی ذرا سا بھی مشکوک شخص نظر آیا تو اسے تمہارے سامنے کھڑا کر دیں گے ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس طرح حسن بن صباح نے اور اس کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش نے شاہ در کو اپنا ایک مضبوط اڈہ بنایا رکھا تھا اسی طرح ہم اس شہر کو اپنا دوسرا مرکز بنا لیں گے جہاں سے تبلیغ بھی ہوگی اور دوسری کاروائیاں بھی کی جایا کریں گی میں یہاں کے پورے پورے خاندان شاہ در بھیج کر وہاں آباد کردوں گا ان خاندانوں کے افراد کو بتایا جائے گا کہ وہ کس طرح وہاں کے باطنیوں کو واپس اسلام میں لے آئیں تم کل صبح روانہ ہو جاؤں
سنجر اگلی صبح روانہ ہوگیا
دو تین دنوں بعد محمد نے دربار عام منعقد کیا اس میں وہ ان مجاہدین کو انعام و اکرام دینا چاہتا تھا جنہوں نے شاہ در کے محاصرے کو کامیاب کرنے کے لیے غیر معمولی شجاعت کے مظاہرے کیے تھے اس نے نور اور اس کے باپ کو خصوصی انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا اس کا کارنامہ پہلے سنایا جاچکا ہے محمد نے نور اور اس کے باپ کو اپنے محل میں ایک کمرہ دے دیا تھا اور انہیں شاہی مہمان کی حیثیت دی تھی
اگلے روز دربار منعقد ہوا اور محمد نے پورے لشکر کو خراج تحسین پیش کیا پھر چند ایک نام پکارا اور انہیں اس طرح انعام دیے گئے ان کے کارنامے بھی بیان کیے آخر میں نور اور اس کے باپ کو آگے بلایا گیا محمد نے نور کے باپ کا کارنامہ سنایا اور کہا کہ وہ جو الو تیروں سے گرایا گیا تھا وہ پورے لشکر کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا لیکن نور کے باپ نے ایک تیر کے ساتھ پیغام باندھ کر باہر بھیج دیا اور اس طرح اس الو کو مار لیا گیا پھر محمد نے اعلان کیا کہ نور اور اس کے باپ کو کیا انعام دیا جا رہا ہے
سلطان محمد کے وزیراعظم کا نام سعد الملک تھا جو اس وقت دربار میں موجود تھا اور سلطان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا انعام و اکرام کی یہ تقریب ختم ہوئی تو دربار برخاست کر دیا گیا نور کا باپ محمد کے پاس جا کھڑا ہوا اور سرگوشی میں کہا کہ وہ اس کے ساتھ ایک خفیہ بات کرنا چاہتا ہے لیکن اس طرح کے کوئی اور موجود نہ ہو اور کسی اور کو پتہ بھی نہ چلے کہ وہ سلطان کو ملا ہے سلطان نے اسے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں چلا جائے اور سلطان خود اس کے پاس آجائے گا
محمد سلطان تھا اسے چاہیے تاکہ اس شخص کو اپنے دربار میں بلاتا لیکن اس نے کہا کہ وہ اس شخص کے کمرے میں جائے گا یہ محمد کے کردار کی بلندی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نور کے باپ نے نا صرف یہ کہ تیر کے ذریعے باہر ایک پیغام پہنچایا تھا پھر خود بھی وہاں سے اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر سلطان کے پاس آگیا تھا بلکہ اس نے سلطان محمد کو شاہ در کے شاہی خاندان کے اندر کی بہت سی باتیں بتائی تھی اور یہ بھی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف کیا کیا کاروائیاں کرتے اور کس طرح کیا کرتے تھے یہ ساری معلومات بڑی قیمتی تھی
محمد نور اور اس کے باپ کے پاس چلا گیا
سلطان عالی مقام! نور کے باپ نے کہا دربار میں آپ کی بائیں طرف ایک معزز انسان بیٹھا ہوا تھا مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ سلطان کا وزیراعظم ہے کیا یہ واقعی آپ کا وزیراعظم ہے؟
ہاں! محمد نے کہا یہ میرا وزیراعظم ہے اور اس کا نام سعد الملک ہے کیوں کیا بات ہے؟
پھر تو مجھے سوچ اور سمجھ کر بات کرنی چاہیے نور کے باپ نے قدر گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ہو سکتا ہے میری نظروں نے دھوکا کھایا ہو لیکن
نظروں نے دھوکا کھایا ہے یا نہیں محمد نے اس کی بات کاٹ کر کہا تمہیں جو بات کرنی ہے کہہ ڈالو مجھے تم پر اعتماد ہے کہوں کیا بات ہے
اگر میں غلطی پر ہوں تو معاف کر دیجیے گا نور کے باپ نے کہا آپ کے اس وزیراعظم کو میں نے تین بار شاہ در میں عبدالملک بن عطاش کے پاس بیٹھے دیکھا ہے وزیراعظم ہر بار رات کو وہاں پہنچا اور پوری رات عبدالملک کے ساتھ رہا تھا
اسے تو میں نے بھی وہاں دیکھا تھا نور جو پاس ہی بیٹھی تھی بول پڑی مہمانوں کو شراب پلانا میرا کام تھا میں نے اس شخص کو عبدالملک بن عطاش کے کمرے میں اس کے ساتھ بیٹھے دیکھا اور شراب پیش کی تھی اور اس نے شراب پی تھی
کیا تم یہ تینوں دن بتا سکتے ہو؟
محمد نے کہا اگر دن یاد نہ ہو تو یہ تو بتا سکو گے کہ یہ کتنے کتنے وقفے کے بعد وہاں گیا تھا
نور کے باپ نے کچھ سوچ کر بتایا کہ اس کی یہ تین ملاقاتیں تین تین چار چار مہینوں کے وقفے سے ہوئی تھیں نور نے بھی اس کی تصدیق کردی سلطان محمد گہری سوچ میں کھو گیا
تمہاری اطلاع غلط نہیں ہوسکتی محمد نے اس طرح کہا جیسے اپنے آپ سے بات کی ہو تینوں بار اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ سلطنت کے دورے پر جارہا ہے تینوں بار اس نے مختلف جگہ بتائی تھی اور ہر بار چند دن مرو سے غیر حاضر رہا تھا
اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ وہ یہی شخص تھا نور کے باپ نے کہا اگر آپ مجھے اور نور کو اس کے سامنے کھڑا کر دیں تو ہم یہی بات اس کے منہ پر کہہ دیں گے
نہیں! محمد نے کچھ دیر سوچ کر کہا تمہارا کہنا کافی نہیں اگر میرے وزیراعظم کا تعلق درپردہ حسن بن صباح کے استاد کے ساتھ ہے تو یقینا یہ اتنا چالاک اور عیار ہوگا کہ ثابت کر دے گا کہ تم غلط کہہ رہے ہو تم کوئی ثبوت تو پیش نہیں کرسکتے میں اسے کسی اور طرح پکڑوں گا تم دونوں کسی کو یہ پتا نہ چلنے دینا کہ تم نے یہ بات مجھے بتائی ہے
محمد اور سنجر کے باپ سلطان ملک شاہ نے خواجہ حسن طوسی کو اپنا وزیراعظم بنایا تھا اور اسے نظام الملک کا خطاب دیا تھا نظام الملک عالم فاضل انسان تھا اور سپہ سالاری کے جوہر بھی جانتا تھا وہ باطنی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو نظام الملک کے بڑے بیٹے ابوالمظفر علی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور اسے فخر الملک کا خطاب دیا گیا وہ بھی اپنے باپ کی طرح بڑا ہی قابل اور عالم انسان تھا وہ بھی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو نظام الملک کا ایک بیٹا رہ گیا تھا جس کا نام ابو نصر احمد تھا قابلیت کے لحاظ سے وہ بھی اپنے باپ اور بڑے بھائی جیسا تھا لیکن محمد کے ہاتھ میں سلطنت آئی تو اس نے سعد الملک کو وزیراعظم بنا دیا اس شخص سے سلطان محمد کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گیا تھا لیکن اب اس کے متعلق یہ رپورٹ ملی کہ وہ حسن بن صباح کے استاد عبدالملک بن عطاش کے یہاں جاتا رہا ہے
سلطان محمّد نے اپنے بڑے بھائی برکیارق اور چھوٹے بھائی سنجر سے بات کی تینوں بھائیوں نے اپنے ایک معتمد خاص کو بلاکر مشورہ کیا اور ان سب نے ایک طریقہ سوچ لیا اسی شام وزیراعظم سعد الملک نور اور اس کے باپ کے کمرے میں گیا دونوں اسے دیکھ کر گھبرا سے گئے یہ شخص اپنا راز چھپائے رکھنے کے لیے ان دونوں کو غائب کرا سکتا تھا لیکن اس نے بات کچھ اور کی
آج کا انعام تمہیں مبارک ہو سعد الملک نے بڑے ہی خوشگوار لہجے میں کہا میں یہ کہہ کر تم پر احسان نہیں کر رہا کہ تمہیں میرے کہنے پر انعام دیا گیا ہے شاہ در کی فتح ویسے ہی حاصل نہیں ہوگئی تم نے مجھے دو تین بار عبدالملک بن عطاش کے پاس دیکھا ہوگا تم مجھے یہ دیکھ کر حیران ہوئے ہوں گے کہ میں تو سلجوقی سلطان کا وزیراعظم ہوں میں تمہیں ایک تو مبارکباد دینے آیا تھا دوسری یہ بات کہنی تھی کہ میں وہاں جاسوس بن کر گیا تھا اور عبدالملک پر یہ ظاہر کیا تھا کہ میں درپردہ باطنی ہوں اور شیخ الجبل کے لیے کام کر رہا ہوں وہ بوڑھا اپنے آپ کو بڑا جادوگر اور استاد سمجھتا تھا لیکن میں اس کے دل میں اتر گیا اور ایسے راز حاصل کرلئے جو اس کی شکست کا باعث بنے
سلطان کو تو معلوم ہوگا کہ آپ وہاں جاسوس بن کر جاتے رہے ہیں نور کے باپ نے کہا آپ کو تو بے انداز انعام ملنا چاہیے
نہیں! سعدالملک نے کہا میں نے جو کیا وہ سلطان کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا مجھے انعام و اکرام کی ضرورت نہیں میں تمہیں یہ کہنے آیا ہوں کہ کبھی سلطان کے ساتھ ذکر نہ کر دینا کہ تم نے مجھے وہاں دیکھا تھا میں جس مقصد کے لیے وہاں جاتا رہا ہوں وہ میں نے پالیا ہے لیکن اب اسے پتہ چلا کہ میں وہاں جاتا رہا ہوں تو میرے خلاف بڑا ہی بے بنیاد اور خطرناک شک پیدا ہو جائے گا
نہیں محترم وزیراعظم! نور کے باپ نے کہا ہم ایسی اونچی حثیت کے بندے تو نہیں ہیں کہ سلطان کے ساتھ اس کے وزیراعظم کی باتیں کریں میں نے اپنی اس بیٹی کو اس بوڑھے کے پنجوں سے آزاد کرانا تھا وہ کرا لایا ہوں اب میرے جینے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس بیٹی کو کسی جوان اور معزز آدمی کے ساتھ بیاہ دوں اور خود اللہ اللہ کرتے زندگی پوری کر جاؤں
میں یہ فرض ادا کروں گا سعد الملک نے کہا تمہاری بیٹی کی شادی ایسے ہی آدمی کے ساتھ کراؤنگا جیسا تم چاہتے ہو یہ میری اپنی بیٹی ہے
نور کے باپ نے ہاتھ جوڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اسے انعام و اکرام اور دولت کی ضرورت نہیں اس کی بیٹی ٹھکانے لگ جائے گی
دو دن گزرگئے رات گہری ہو چکی تھی اور سعد الملک کھانے سے فارغ ہو کر اپنے خاص کمرے میں جا بیٹھا تھا اس کے ایک ملازم نے اسے اطلاع دی کہ ایک گھوڑسوار آیا ہے اور اس سے ملنا چاہتا ہے ملازم نے یہ بھی بتایا کہ گھوڑسوار کی حالت اور حلیہ بتاتا ہے کہ بڑا لمبا سفر کرکے آیا ہے سعد الملک نے اسے فوراً بلوا لیا
بہت دور سے آئے معلوم ہوتے ہو سعد الملک نے اس آدمی سے کہا اور پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟
قلعہ ناظر و طبس سے اس آدمی نے جواب دیا اور ادھر ادھر دیکھا جیسے وہ کوئی راز کی بات کہنا چاہتا ہو امام کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش نے بھیجا ہے کیا میں یہاں کھل کر بات کر سکتا ہوں
ضرور کرو سعد الملک نے کہا اونچی آواز میں نہ بولنا کیا پیرومرشد ابھی ناظر و طبس میں ہی ہیں؟
ایک دو دنوں بعد وہاں سے الموت چلے جائیں گے اس آدمی نے کہا انہوں نے آپ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب آپ آسانی سے اور بے خطرہ شاہ در جا سکتے ہیں کیونکہ اب شاہ در آپ کی سلطنت میں آگیا ہے اور آپ اس سلطنت کے وزیراعظم ہیں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے کچھ آدمی پیچھے چھوڑ آئے ہیں آپ وہاں جائیں گے تو یہ آدمی خود ہی آپکو مل جائیں گے پیرومرشد نے کہا ہے کہ محمد اور سنجر کو جلدی ختم کرنا ہے لیکن یہ آپ نہیں کریں گے بلکہ یہ شاہ در کے آدمی کریں گے
ان آدمیوں کے نام جانتے ہو؟
سعد الملک میں پوچھا
نہیں! اس آدمی نے مسکرا کر کہا کیا آپ جانتے نہیں کہ نام نہیں بتائے جاتے میں یہاں زیادہ نہیں رہوں گا میں اس شہر میں اجنبی ہوں یہاں اپنا کوئی آدمی ہے تو آپ اسے یقینا جانتے ہوں گے مجھے اس کے گھر کا راستہ بتا دیں یا وہاں تک پہنچانے کا کوئی بندوبست کر دیں میں کل صبح واپس چلا جاؤں گا
ایک نہیں یہاں اپنے تین آدمی ہیں سعد الملک نے کہا میں تمہیں ان میں سے ایک کے گھر پہنچا دوں گا
سعد الملک نے ایسی باتیں کیں جن سے صاف پتہ چل گیا کہ یہ شخص باطنی ہے اور باطنیوں کے لیے ہی کام کر رہا ہے اس نے اس آدمی کو ایک گھر کا پتہ اور راستہ سمجھا دیا اور کہا کہ وہ خود اس کے ساتھ جا سکتا ہے نہ کسی ملازم کو بھیج سکتا ہے کیونکہ اس سے اس کے خلاف شک پیدا ہو جائے گا
اب میری بات غور سے سن لو سعد الملک نے کہا دروازے پر تین بار دستک دینا اندر سے آواز آئے گی کون ہے تم نے کہنا ہے ملک الملک پھر دروازہ کھلے گا اور اندر جا کر بتانا کہ تم کہاں سے آئے ہو اور یہاں تک کس طرح پہنچے ہو
سعد الملک حسب معمول اپنے دفتر گیا پہلے سلطان محمد سے ملا اور معمول کے مطابق کچھ باتیں کی اور اپنی روزمرہ کے کام میں لگ گیا اس نے سلطان محمد کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ دیکھی سوائے اس کے کہ سلطان اس صبح پہلے سے کچھ زیادہ ہی مسکرا کر باتیں کرتا تھا
آدھا دن گزر گیا تو محمد نے سعد الملک کو بلوایا سعد الملک سلطان کے دفتر والے کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹک کر رک گیا اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا سلطان اکیلا نہیں تھا اس کے پاس ایک تو نور بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ نور کا باپ بیٹھا ہوا تھا ایک طرف وہ آدمی کھڑا تھا جو رات اس کے پاس گیا تھا اور عبدالملک بن عطاش کا پیغام دیا تھا اس کے ساتھ تین آدمی زنجیروں میں جکڑے کھڑے تھے
آگے آؤ سعد الملک! محمد نے اسے کہا ڈرو مت یہ سب تمہارے اپنے آدمی ہیں اور انہیں تم بڑی اچھی طرح جانتے ہو یہ سب تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں یہ تین آدمی جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں وہ آدمی ہے جو اس مکان میں رہتے تھے جہاں تم نے اس آدمی کو بھیجا تھا ہم نے رات کو ہی انہیں اس مقام پر چھاپا مار کر پکڑ لیا تھا
سعد الملک پر غشی طاری ہونے لگی تھی اس کی زبان بالکل ہی بند ہو گئی تھی
اور ان دونوں کو تم اور زیادہ اچھی طرح جانتے ہو سلطان محمد نے نور اور اس کے باپ کی طرف اشارہ کرکے کہا اس لڑکی کے ہاتھوں تم نے کئی بار شراب بھی پی ہے اسے تو تم کبھی بھی بھول نہیں سکو گے یہ تمہارے پیرومرشد کی بیوی تھی کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟
میں وہاں جاسوسی کے لیے جاتا رہا ہوں سعدالملک نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا اس سے آگے وہ بول نہ سکا
تم نے کبھی مجھے راز کی کوئی بات تو بتائی نہیں تھی محمّد نے کہا تم وہ سانپ ہو جس نے اس سلطنت کی آستین میں پرورش پائی ہے اور اس سلطنت کو ڈنک مارا ہے کیا تم نے دیکھ نہیں لیا کہ فتح حق کی ہوا کرتی ہے باطل کی نہیں میں تمہارا یہ جھوٹ مان بھی لوں کہ تم وہاں جاسوسی کے لیے جاتے رہے ہو تو تمہارے پاس اس کا کیا جواز ہے کہ تم ان تین فدائیوں کو جانتے تھے اور انہیں گرفتار نہیں کیا بلکہ میرے ایک جاسوس کو اپنا آدمی سمجھ کر ان کے پاس رات بسر کرنے کے لیے بھیجا اب سزا کے لئے تیار ہو جاؤ
اگلی صبح گھوڑ دوڑ کے میدان میں سلطنت کے تمام تر لشکر کو ایک ترتیب میں کھڑا کیا گیا شہری بھی تماشہ دیکھنے آ گئے کچھ دیر بعد سعد الملک اور تین فدائیوں کو جنہیں ان کے مکان سے گرفتار کیا گیا تھا میدان میں لایا گیا اور لشکر کے سامنے کھڑا کردیا گیا کچھ دیر بعد سلطان محمد اور اس کا چھوٹا بھائی سنجر اور ان کا بڑا بھائی برکیارق اپنی تین چار بڑے حاکموں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار وہاں آگئے باقی سب نے گھوڑے پیچھے روک لئے محمد آگے چلا گیا اور ان مجرموں کے قریب جاکر گھوڑا روکا
تم سب اپنے وزیراعظم کو بیڑیوں میں بندھا ہوا دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے سلطان محمّد نے اپنے لشکر سے خطاب کیا یہ شخص جسے میں نے وزیراعظم بنایا تھا درپردہ حسن بن صباح کا کام کرتا رہا ہے اور شاہ در کی فتح سے پہلے چوری چھپے وہ حسن بن صباح کے استاد عبدالملک بن عطاش کے پاس جاتا رہا ہے اس سے یہ اگلوانا ممکن نہیں کہ اس کے حکم سے یا اس کے ہاتھوں میرے کتنے آدمی قتل ہو چکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ اس نے ہمارے بہت سے آدمی قتل کروائے ہیں یہ سانپ میری آستین میں پلتا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ باپ اپنے بیٹے پر بیٹا اپنے باپ پر ماں اپنی بیٹی پر اور بیٹی اپنی ماں پر اعتماد نہ کرے لیکن میں یہ صورت پیدا نہیں ہونے دوں گا میں ہر کسی کو صاف لفظوں میں بتا رہا ہوں کہ ہم نے شاہ در فتح کرلیا ہے تو اب ہم قلعہ الموت بھی لے لیں گے اور اس باطل فرقے کا قلع قمع کرکے ہی رہیں گے اپنا جرم اپنے ساتھیوں سے چھپایا جاسکتا ہے لیکن مت بھولو کہ اللہ کی ذات بھی موجود ہے اور اللہ تبارک و تعالی گنہگاروں کو پکڑ لیا کرتا ہے یہ گنہگار سعد الملک اپنے ان تین قاتل فدائیوں کے ساتھ پکڑا گیا ہے اور آج اسے سزائے موت دی جا رہی ہے
سلطان محمد نے جلادوں کو اشارہ کیا جلاد آگے آئے اور ان چاروں کو ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑا کرکے انہیں آگے کو جھکا دیا اور ایک ہی بار چاروں کی تلوار حرکت میں آئی اور چار سر جسموں سے کٹ کر مٹی میں جا پڑے
تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ سعد الملک ایسا ڈھکا چھپا رہا تھا کہ کسی کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا اسے سزائے موت دی گئی اور وہیں سلطان محمد نے اعلان کیا کہ اب سلطنت کا وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی کا چھوٹا بیٹا ابونصر احمد ہوگا
ابونصر احمد اپنے باپ اور بڑے بھائی کی طرح عالم فاضل اور سلطنت کے امور کو بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا اس نے وہیں اعلان کردیا کہ میں اب قلعہ الموت پر فوج کشی کروں گا اور اس کی قیادت بھی میں خود کرونگا جس طرح ہم نے شاہ در فتح کرلیا ہے اسی طرح ہم الموت کا قلعہ بھی لے لیں گے لشکر سے تکبیر کے نعرے بلند ہونے لگے اور ان نعروں سے زمین و آسمان ہل رہے تھے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

 

www.urducover.com



 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles