حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 12

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 12

قسط نمبر    “45”   سے قسط    نمبر”48″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:45 }
سلطان محمد نے قلعہ شاہ در فتح کرکے احمد بن عطاش کی یہ شرط مان لی تھی کہ وہ اس کا خاندان اور شہر کے جتنے لوگ شہر سے جانا چاہتے ہیں انہیں قلعہ ناظر و طبس جانے کی اجازت دے دی جائے یہ دراصل شرط نہیں بلکہ ایک درخواست تھی جو ایک ہارے ہوئے حاکم قلعہ نے سلطان محمد کے آگے پیش کی تھی
سلطان محمد نے یہ درخواست قبول کرکے بڑی غلطی کی تھی اگر وہ یہ درخواست قبول نہ کرتا تو تاریخ کا رخ بدل جاتا لیکن سلطان محمد پر فتح کی خوشی اس حد تک طاری ہوگئی تھی کہ اس نے بادشاہوں والی فیاضی کا مظاہرہ کیا اور ان سانپوں اور بچھوؤں کو اجازت دے دی کہ وہ زندہ رہیں اور جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں چلے جائیں
اس درخواست میں یہ بھی تھا کہ شہر سے جانے والے آدھے لوگ ناظر و طبس جائیں گے اور باقی قلعہ الموت جائیں گے
ان دونوں گروہوں کو سلطان محمد مسلح حفاظت دے جو انہیں وہاں تک پہنچا دے
سلطان محمد نے یہ درخواست بھی قبول کرلی
شاہ در سے جو لوگ جارہے تھے انہیں غیر مسلح کر دیا گیا تھا یعنی وہ نہتے تھے انہوں نے اس خطرے کا اظہار کیا تھا کہ راستے میں ان پر قافلے لوٹنے والوں کا حملہ ہو سکتا ہے یا کوئی اور مصیبت ان پر نازل ہو سکتی ہے
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ شاہ در کی فتح کوئی معمولی فتح نہیں تھی بلکہ اس فتح کی اہمیت ایسے تھی جیسے حسن بن صباح کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا گیا ہو قلعہ الموت کے بعد باطنیوں کا دوسرا مضبوط اور پرخطر اڈہ شاہ در تھا اس فتح کی خبر دارالحکومت میں پہنچنے کے لیے تیز رفتار قاصد روانہ کر دیے گئے تھے یہ خبر قلعہ وسم کوہ میں سالار اوریزی تک بھی پہنچ گئی اس وقت مزمل آفندی شدید زخمی حالت میں پڑا تھا پھر یہ خبر حسن بن صباح تک بھی پہنچی اور کچھ دنوں بعد شاہ در کے وہ لوگ جو قلعہ الموت جانا چاہتے تھے وہ بھی اس کے پاس پہنچ گئے
عبدالمالک بن عطاش کو راستے میں اطلاع مل گئی تھی کہ اس کے چھوٹے بھائی احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے اور اس کے 89 باطنی فدائیوں کو مرو میں قتل کر دیا گیا ہے عبدالملک کو یہ اطلاع ان جاسوسوں نے پہنچائی تھی جو مرو میں موجود تھے
عبدالملک کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی تھی یہ صدمہ اس کے لیے کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا ویسے بھی عبدالملک بوڑھا آدمی تھا اور اس میں قوت برداشت کم ہوگئی تھی پھر اسے یہ اطلاع بھی ملی کہ احمد بن عطاش کی بیوی نے اپنے خاوند کی یہ خبر سن کر کے اسے جلاد کے حوالے کر دیا گیا ہے ایک بلندی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی ہے عبدالملک کے لیے یہ دوسرا صدمہ تھا
عبدالملک بن عطاش قلعہ ناظروطبس میں پہنچا یہ قلعہ اصفہان کے قریب ہی تھا عبدالملک نے دو ایلچی اور کچھ اور آدمی اصفہان بھیجے اصفہان میں باطنیوں کے جو جاسوس تھے انہوں نے عبدالملک کو یہ خبر دے دی تھی کہ سلطان محمد اس وقت اصفہان میں ہے اور کچھ دنوں بعد اپنے دارالحکومت مرو چلا جائے گا عبدالملک نے سلطان محمد کی طرف ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیجے تھے کہ اس کے چھوٹے بھائی احمد اور احمد کے بیٹے اور احمد کی بیوی کی لاشیں دے دی جائیں
احمد اور اس کے بیٹے کی لاشیں ایک ہی گڑھے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی گئی تھی دونوں کے سر کاٹ کر بغداد خلیفہ کے پاس بھیج دیے گئے تھے احمد کی بیوی کو ان آدمیوں نے جو اس کے ساتھ تھے باقاعدہ دفن کیا تھا عبدالملک کے ایلچی سلطان محمد کے پاس پہنچے تو سلطان محمد نے انہیں اجازت دے دی کے وہ ان تینوں کی لاشیں نکال کر لے جائیں
ایک روز یہ تین لاشیں قلعہ ناظر و طبس پہنچ گئیں عبدالملک نے جب دیکھا کہ اس کے بھائی اور بھائی کے بیٹے کی لاشیں بغیر سروں کے ہیں تو اس پر غشی طاری ہونے لگی وہ اپنا کالا جادو اور شعبدہ بازی بھول ہی گیا اسکی تو کمر ہی دوہری ہوگئی ان تینوں لاشوں کو احترام کے ساتھ دفن کیا گیا
عبدالملک بن عطاش حسن بن صباح کا استاد اور پیرومرشد تھا مختلف مورخوں نے مختلف رائے دی ہے بعض نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح سرتاپا اندار اور باہر سے ابلیس تھا اس نے اپنے اس پیرومرشد اور استاد کو بھی دھوکے دیے تھے اور کوشش یہ کی تھی کہ اسے اتنی اہمیت اور مقبولیت نہ ملے جتنی اسے حاصل ہو گئی تھی یہاں تک کہ بعض لوگ حسن بن صباح کو امام ہی نہیں نبی بھی کہنے لگے تھے بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے عبدالملک کے ساتھ پوری وفاداری کی تھی ذہنی طور پر حسن بن صباح عبدالملک کو پیر استاد مانتا تھا اور جب اسے یہ اطلاع ملی کہ عبدالملک شاہ در سلجوقیوں کو دے کر آ گیا ہے اور اس کے چھوٹے بھائی کو اور بھائی کے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے تو اس نے ضروری سمجھا کہ قلعہ ناظر و طبس جا کر اپنے استاد کی دلجوئی کرے
حسن بن صباح جب اپنے قلعہ الموت سے ناظروطبس کے سفر کو روانہ ہوا تو یوں لگتا تھا جیسے ساری دنیا کا بادشاہ یہی اکیلا شخص ہو اس کے لیے ایسی پالکی تیار کی گئی تھی جسے بیس آدمی اٹھاتے تھے دس آدمی آگے اور دس پیچھے پالکی کے پردے خالص ریشم کے تھے اور باقی پالکی کمخواب سے تیار کی گئی تھی اس کے اندر بڑے ہی نرم گدے اور گاؤ تکیے رکھے گئے تھے حسن بن صباح کے ساتھ اس پالکی میں اسکی جنت کی دو حوریں بھی تھیں جو اس کی مٹھی چاپی کرتی جا رہی تھیں اس وقت حسن بن صباح بوڑھا ہوچکا تھا تقریبا بیس فدائی تلواروں اور برچھیوں سے مسلح اس کے آگے آگے جا رہے تھے بیس پچیس دائیں طرف اور اتنی ہی بائیں طرف اور اتنی ہی اس کے پیچھے تھے یہ سب گھوڑوں پر سوار تھے اور ان کے لباس بڑے ہی دلکش اور دلفریب تھے اس کے پیچھے اونٹوں پر سامان تھا اور اس سامان میں خوردونوش کی وہ اشیاء تھیں جو جنت میں ہی کسی کو مل سکتی ہوں گی ان اونٹوں کے ساتھ ساتھ اور کچھ پیچھے سو ڈیڑھ سو مریدوں کا گروہ تھا وہ سب کے سب مسلح تھے
حسن بن صباح کا یہ قافلہ جب پہلا پڑاؤ کرنے لگا تو فدائیوں نے اس جگہ کو حصار میں لے لیا اس کے لئے زمین پر نرم و گداز گدے بچھا دیے گئے اور اردگرد ریشم کے پردے تان دیے گئے باہر کا کوئی آدمی اس کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اس شخص نے مسلمان کے خون کے دریا بہا دیے تھے اس نے نہایت اہم اور تاریخ ساز شخصیتوں کو قتل کروا دیا تھا سیکڑوں قافلے اس کے اشارے پر لوٹے گئے تھے قافلوں کے ساتھ جو کمسن اور جوان بچیاں تھیں وہ اغوا کی گئی تھیں اور انہیں جنت کی حوریں بنایا گیا تھا اب اس شخص کو ہر لمحہ اپنی جان کا غم لگا رہتا تھا اسے کوئی ملنے کے لئے جاتا تو اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور اگر کسی کو اجازت مل جاتی تو اس کی جامہ تلاشی بڑی سختی سے کی جاتی تھی
دو پڑاؤ کے بعد جب حسن بن صباح کا قافلہ ناظروطبس کے قریب پہنچا تو قافلے کا ایک سوار گھوڑا دوڑاتا قلعے میں پہنچا اور عبدالملک کو اطلاع دی کہ شیخ الجبل حسن بن صباح کی سواری آرہی ہے یہ خبر قلعے میں فوراً پھیل گئی ان تمام باطنیوں کو جو وہاں موجود تھے خوشیاں منانی چاہیے تھی کہ شیخ الجبل ان کے یہاں آ رہا ہے لیکن سب پر موت کی مرونی چھا گئی اور ان کے سر جھک گئے وہ سب شکست خوردہ تھے شاہ در جیسا قلعہ سلجوقیوں کو دے آئے تھے عبدالملک کے تاثرات کچھ اور تھے غموں نے اور بڑھاپے نے اسے جھکا دیا تھا اس نے حکم دیا کہ قلعے کے تمام لوگ قلعے سے باہر جاکر راستے میں دونوں طرف کھڑے ہو جائیں اور اپنی امام کا استقبال کریں
آخر حسن بن صباح کی سواری قلعے تک پہنچی اور قلعے کے لوگ دونوں طرف کھڑے بازو لہرا لہرا کر نعرے لگا رہے تھے
بند کرو یہ نعرے پالکی میں سے حسن بن صباح کی آواز گرجی ان ہارے ہوئے بزدلوں کو کیا حق ہے کہ وہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگائیں انہیں کہو خاموش رہیں
اس کا یہ حکم لوگوں تک پہنچا دیا گیا اور وہاں موت کا سکوت طاری ہو گیا
عبدالملک بن عطاش اس کے استقبال کے لئے دروازے تک نہ آیا وہ اپنے کمرے میں بیٹھا رہا کچھ دیر بعد حسن بن صباح اس کے کمرے میں داخل ہوا عبدالملک نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن حسن بن صباح نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اٹھنے نہ دیا عبدالملک کے آنسو جاری ہوگئے اور کچھ دیر بعد وہ سسکنے لگا حسن بن صباح اس کے پاس بیٹھ گیا اور اسے تسلیاں دینے لگا
ابن صباح! عبدالملک نے کچھ دیر بعد کہا تم لوگوں کو دھوکے میں قتل کروانا جانتے ہو لیکن قلعوں کے دفاع کا تمہیں کوئی خیال نہیں ہمیں ایک باقاعدہ فوج تیار کرنی چاہیے ورنہ تم دیکھ لینا ایک روز قلعہ الموت بھی ہم سے چھن جائے گا
پیرومرشد! حسن بن صباح نے پراعتماد لہجے میں کہا وہ وقت کبھی نہیں آئے گا البتہ اس وقت کا انتظار کریں جب سلجوقیوں کی سلطنت ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی اور یہ سلطان اور ان کے خاندان ہمارے قیدی ہوں گے میں جانتا ہوں آپ پر احمد اور اس کے بیٹے اور اس کی بیوی کا غم حاوی ہوگیا ہے شاہ در ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اس کا اتنا غم نہ کریں ہمیں قلعوں کی نہیں لوگوں کی ضرورت ہے ہم لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں
ہوش میں آ ابن صباح! عبدالملک نے کہا میں تجھے شیخ الجبل اور امام بنایا ہے معلوم ہوتا ہے تو اپنی طاقت اور مقبولیت کا اندازہ بڑا غلط لگا رہا ہے خوش فہمیوں سے نکل اگر ہمارا یہی حال رہا تو ہمارا فرقہ سکڑ سمٹ کر صرف ہم تک رہ جائے گا سلجوقیوں کو ہم پر یہ پہلی فتح حاصل ہوئی ہے یہ کوئی معمولی فتح نہیں ہم شاہ در کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے لیکن اہلسنت سلجوقیوں کے ہاتھ میں بھی کوئی طاقت آ گئی ہے میں نے اپنا جادو چلایا جو کبھی ناکام نہیں ہوا تھا لیکن میں نے الّو چھوڑا تو سلجوقیوں کے تیر اندازوں نے اسے تیروں سے گرا لیا اس سے مجھے خیال آیا کہ سلطان محمد کو کسی طرح پہلے پتہ چل گیا تھا کہ قلعے کے اندر سے ایک الّو اُڑے گا جو پورے لشکر پر اڑ کر واپس آ جائے گا لیکن الّو اڑا اور تیر اندازوں نے اسے گرا لیا بتاؤ میں کیا سمجھوں
نہیں پیرومرشد! حسن بن صباح نے کہا میں اس شکست کو فتح میں بدل کر دکھا دوں گا آپ اس صدمے کو اپنے اندر جذب کر لیں اور میری رہنمائی اسی طرح کرتے رہیں جس طرح کرتے رہے ہیں یہ بتائیں آپ وہاں کیا چھوڑ آئے ہیں؟
میں وہاں جانباز قسم کے فدائی چھوڑ آیا ہوں عبدالملک نے کہا وہ عقل اور ہوش والے ہیں وہ کسی کو یوں قتل نہیں کریں گے کہ قتل کیا اور خودکشی کرلی میں انہیں پوری ہدایت دے کر آیا ہوں وہ مسجدوں میں امام بنیں گے بچوں کو قرآن اور احادیث کی تعلیم دیں گے اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں معزز افراد کی حیثیت سے رہیں گے میں زیادہ کیا بتاؤں وہ بڑے ہی زہریلے سانپ ہیں جو میں شاہ در میں چھوڑ آیا ہوں وہ ان سلجوقیوں کو ایسے ڈنک مارے گے کہ وہ شاہ در سے بھاگ جائیں گے مجھے گلہ اور شکوہ تم سے ہے کہ ہم اتنا زیادہ عرصہ محاصرے میں رہے کہ نہ جانے کتنے چاند طلوع ہوئے اور ڈوب گئے لیکن تم سے اتنا بھی نہ ہوا کہ کچھ فدائ بھیج دیتے جو سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو اسی طرح قتل کر دیتے جس طرح وہ پہلے قتل کرتے چلے آئے ہیں
مجھے محاصرے کی اطلاع مل گئی تھی حسن بن صباح نے کہا میں نے دس منتخب فدائی بھیجے تھے جنہوں نے سلطان محمد اور اسکے سالار وغیرہ کو قتل کرنا تھا لیکن آپ سن کر حیران ہوں گے کہ ان دس فدائوں کا کچھ پتہ ہی نہ چلا کہاں غائب ہوگئے ہیں آخر کچھ عرصے بعد یہ اطلاع ملی کہ ان دس کی لاشیں جنگل میں پڑی ہیں اور انھیں جنگل کے درندے کھا چکے ہیں
تم نے ابھی نقصان کا اندازہ نہیں کیا ابن صباح! عبدالملک نے کہا ہماری آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوگیا ہے ہمیں جو دولت اور قیمتی اشیاء قافلوں سے ملتی تھی وہ اب نہیں مل سکیں گی شاہ در بڑی موزوں جگہ تھی میں نے جو آخری قافلہ لٹوایا تھا اس سے ہمیں بے شمار دولت ملی تھی میں شاہ در میں بے انداز خزانہ چھوڑ کر آیا ہوں میں سمجھ نہیں سکتا وہ خزانہ وہاں سے کس طرح نکلوا سکتا ہوں
وہ خزانہ کہاں ہے؟
وہ میں نے ایسی جگہ چھپا لیا تھا جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا عبدالملک نے جواب دیا شاہ در میں اپنے جو آدمی چھوڑ آیا ہوں ان میں ایک یا دو اس جگہ سے واقف ہیں میں ذرا سنبھل لوں تو یہاں سے آدمی بھیجوں گا جو وہ خزانہ نکالنے کی کوشش کریں گے یہ بعد کی باتیں ہیں ابن صباح فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ فوج تیار کرو اگر نہیں کروگے تو قلعہ الموت بھی خطرے میں رہے گا مت بھولو کہ سلجوقیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور ان کے لیے یہ معمولی فتح نہیں کہ انہوں نے احمد کو سزائے موت دی ہے
یہ اس دور کا واقعہ ہے جب حسن بن صباح کی ابلیسیت ایک پرکشش اور پراثر عقیدے کی شکل میں دور دور تک پھیل گئی تھی اور اس کے اثرات سلجوقی سلطنت میں داخل ہو چکے تھے یہ ایک ایسا سیلاب تھا جو زمین کے نیچے نیچے آیا تھا اور لوگ شیخ الجبل کو نبی تک ماننے پر اتر آئے تھے سلجوقی سلاطین پکے مومن تھے اور وہ اہل سنت والجماعت تھے وہ دل اور روح کی گہرائیوں سے اس فتنے کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے اور سرگرم عمل بھی تھے لیکن یہ فتنہ بڑھتا ہی جا رہا تھا ایک بڑی پرانی کتاب تاریخ آل سلجوقی اصفہانی میں یہ سراغ ملتا ہے کہ سلجوقی سلاطین میں وہ کونسی کمزوری تھی جس سے باطنیوں کو اپنے باطل عقیدے پھیلانے کا موقع مل گیا اس کتاب میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا جاسوسی کا نظام بڑا ہی کارگر ہوا کرتا تھا مسلمانوں کے جاسوس کفار کے درمیان موجود رہتے تھے اور پل پل کی خبر پیچھے بھیجتے تھے لیکن سلطان ملک شاہ کے باپ الپ ارسلان نے یہ محکمہ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر توڑ دیا تھا پھر یوں ہوا کہ مسلمانوں کے جاسوس واپس آگئے
الپ ارسلان کو جاسوسوں کی ضرورت نہیں رہی تھی اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابھی حسن بن صباح کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا حسن بن صباح سلطان ملک شاہ کے دور میں اٹھا تھا سلطان ملک شاہ نے بھی جاسوسی کی طرف توجہ نہ دی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حسن بن صباح کے جاسوس ہی نہیں بلکہ اس کے تخریب کار بھی مسلمانوں میں آگئے اور انہیں کوئی بھی پہچان نہ سکا انہوں نے نفسیاتی تخریب کاری بھی کی اور نظریاتی بھی اور اس کے بعد انہوں نے اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ شروع کر دیا
یہ تھی مسلمانوں کی وہ کمزوری جس سے باطنی فریقین نے فائدہ اٹھایا سلطان ملک شاہ کے وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی نے شدت سے محسوس کیا کہ جاسوسوں کے بغیر دشمن پر کاری ضرب نہیں لگائی جاسکتی سلطان ملک شاہ نظام الملک کا تو مرید تھا اور وہ اس کی رہنمائی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتا تھا نظام الملک نے جاسوسی کا نظام قائم کرنے کی تجویز پیش کی اور سلطان ملک شاہ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا
ابتدا میں مسلمان جاسوسوں کو بہت ہی دشواریوں اور خطروں کا سامنا کرنا پڑا حسن بن صباح کے جاسوس انہیں فوراً پہچان لیتے تھے مزمل آفندی کی مثال پہلے تفصیل سے سنائی جا چکی ہے مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن واپس یہ ارادہ لے کر آ گیا کہ وہ سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کو قتل کرے گا یہ حسن بن صباح کے ایک ایک خاص نظام کا کمال تھا اس کے بعد مسلمانوں کے جاسوس کامیابیاں حاصل کرنے لگے لیکن ابھی تک ان کا یہ نظام کمزور تھا اب شاہ در کے محاصرے کے دوران نور کے باپ نے تیر کے ذریعے پیغام باہر بھیجا تو سلطان محمد نے سوچا کہ یہ تو اللہ کی خاص نوازش تھی کہ ایک آدمی کے دل میں باغیوں کے خلاف عناد بھرا ہوا تھا اور اس نے سلطان محمد کی مدد کی تو کیوں نہ ان باطنیوں میں اپنے جاسوس چھوڑ دیے جائیں جو ذرا ذرا سی بھی باتیں آکر بتاتے رہیں گے یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو شاہ در بھیجا تھا اور اسے خاص طور پر کہا تھا کہ اس شہر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں وہ بظاہر بے ضرر سے لگتے ہیں لیکن ان میں فدائی اور حسن بن صباح کے خاص جاسوس اور تخریب کار یقیناً ہوں گے سلطان محمد نے سنجر سے کہا تھا کہ وہ باطنیوں کے بہروپ میں اپنے جاسوس شاہ در بھیج دے گا
یہ صحیح ہے کہ سلجوقیوں نے باطنیوں کے ہاتھوں بہت ہی نقصان اٹھایا تھا سلجوقیوں نے حوصلہ ہارنے اور مایوس ہونے کی بجائے اپنا جہاد اس باطل کے خلاف جاری رکھا اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا بدی کے خلاف لڑنے والوں کی مدد اللہ یقینا کیا کرتا ہے یہ ایک معجزہ تھا کہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے دس فدائ جنہوں نے سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو قتل کرنا تھا خود قتل ہوگئے یہ بھی تو ایک معجزہ تھا کہ عبدالملک کے کالے جادو کو اس کے اپنے ہی قابل اعتماد ملازم نے ضائع کر دیا وہ جو پیغام تیر کے ساتھ بندھا ہوا باہر آیا وہ یوں تھا جیسے آسمانوں سے اللہ تبارک وتعالی نے پھینکا ہو
حسن بن صباح اپنے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کو تسلیاں دے کر اور اس کا حوصلہ مصبوط کرکے واپس الموت چلا گیا
سنجر شاہ در پہنچ گیا تھا اس نے پہلا کام یہ کیا کہ شاہ در کی جو آبادی پیچھے رہ گئی تھی اسے ایک میدان میں اکٹھا کر لیا زیادہ تر آبادی یہاں سے چلی گئی تھی پیچھے جو لوگ رہ گئے تھے ان کی تعداد پانچ چھے ہزار تھی جانے والے سب باطنی تھے اور پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی باطنی تھے لیکن کچھ تعداد مسلمانوں کی بھی تھی
سنجر نے اس آبادی کے صرف مردوں ہی کو باہر اکٹھا نہ کیا بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی ان کے ساتھ بلوالیا
باطنیوں کے چہروں پر خوف و ہراس نمایاں تھا عورتوں پر تو خوفزدگی طاری تھی ان کی آنکھیں ٹھہری ٹھہری تھیں اور چہروں پر گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی ان میں جواں سال اور بڑی اچھی شکل و صورت کی عورتیں بھی تھیں ان میں کمسن اور نوجوان لڑکیاں بھی تھیں اصل خطرہ تو انہیں تھا اس زمانے میں فاتح فوج مفتوحہ شہروں کی عورتوں سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا کرتی تھیں ان لوگوں کے چہروں پر بھی یہی خوف نظر آرہا تھا کہ نہ جانے اب انہیں کیا سزا ملے اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک ہو
سلجوقی فوج کی کچھ نفری اس ہجوم کے اردگرد کھڑی کردی گئی تھی اور فوج کی باقی نفری قلعہ مسمار کر رہی تھی
سنجر گھوڑے پر سوار وہاں آیا اور اس نے پہلے سارے مجمعے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا
تم لوگ ڈرے ڈرے سے کیوں لگتے ہو؟
سنجر نے کہا کیا تم مجھے اور اس فوج کو اجنبی اور غیر سمجھتے ہو؟
ہم نے نہ کوئی قلعہ فتح کیا ہے اور نہ ہی تم لوگوں کو قتح کیا ہے میری ایک بات اچھی طرح سن لو نہ میں فاتح ہوں نہ تم مفتوح ہو ہم نے صرف یہ فتح حاصل کی ہے کہ اس شہر سے باطل کو نکالا ہے کیا تم خوش نہیں ہوں گے کہ جن لوگوں نے تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر کفر کی راہ پر ڈالا تھا وہ مارے گئے ہیں یا یہاں سے جا چکے ہیں ؟
تمہارے دوسرے خوف سے بھی میں واقع ہوں تم لڑکیوں کے لئے یقیناً پریشان ہو رہے ہو ہم یہاں ان کی عزت کے ساتھ کھیلنے نہیں بلکہ ان کی عزت کی حفاظت کرنے آئے ہیں اپنی بیٹیوں سے کہو کہ یہ تمہارا اپنا شہر ہے اس کی گلیوں میں بے خوف و خطر گھومو پھیرو اور اگر تمہاری عزت پر فوج کا کوئی آدمی یا کوئی اور ہاتھ ڈالتا ہے تو میرے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں میں فریاد سنوں گا اور اس آدمی کو تمہارے سامنے جلاد کے حوالے کروں گا بڑے لمبے عرصے تک محاصرے میں رہے ہو تم پر پتھر برستے رہے ہیں اور تم پر آگ بھی برستی رہی ہے تم مجھے اور میری فوج کو دل ہی دل میں کوس رہے ہوں گے اور بددعائیں دے رہے ہوں گے کہ ہم نے تم پر پتھر برسائے اور آگ بھی برسائی اور تمہارے گھر جلا دیے ہیں لیکن سمجھنے کی کوشش کرو اس شہر پر یہ پتھر اور آتشی تیر اللہ نے برسائے ہم تو اس کا ایک سبب بنے تھے ایسا کیوں ہوا؟
صرف اس لئے کہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹایا گیا اور تم نے اسی کو دین اور مذہب سمجھ لیا یہاں شیطان کی حکمرانی رہی ہے یہ تمہارا امام جیسے تم نبی مانتے ہو کہاں ہے؟
یہ امام کا پیرومرشد جسے تم یوں مانتے تھے جیسے وہی تمہیں اگلے جہان جنت میں داخل کرے گا وہ شکست کھا کر بھاگ گیا ہے
سنجر نے انہیں سنایا کہ عبدالملک بن عطاش جسے وہ پیرومرشد سمجھتے رہے ہیں کالے جادو میں یقین رکھتا تھا اور اس نے محاصرہ توڑنے کے لیے کالا جادو استعمال کیا تھا اور ایک الو کو اڑایا تھا لیکن وہ الو تیروں سے مار کر گرا لیا گیا اس نے کہا کہ جہاں ایمان میں بجھے ہوئے تیر چلتے ہیں وہاں جادو نہیں چل سکتا سنجر نے حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ سنایا کہ انھوں نے کس طرح فرعون کے جادوگروں کو نیچا دکھایا تھا اور کس طرح ان جادوگروں کے سانپوں کو حضرت موسی علیہ السلام کا عصا نکل گیا تھا اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کو دریا نیل نے راستہ دے دیا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا
یہ لوگ تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے سنجر نے کہا یہ سرتاپا ابلیس ہے اور یہ لوگ ابلیس کی پوجا کرتے ہیں اور انہوں نے تم سب کو بھی ابلیس کا پوجاری بنا دیا ہے تم خوش قسمت ہو کہ یہ شہر ہماری عملداری میں آ گیا ہے اور وہ ابلیس یہاں سے نکل گئے ہیں ہم یہاں تم پر حکومت کرنے نہیں آئے ہم بادشاہ نہیں نہ تمہیں اپنی رعایا سمجھتے ہیں ہم اللہ کا وہ پیغام اور وہ حکم لے کر آئے ہیں جس کے مطابق تمام انسان برابر ہیں نہ کوئی بادشاہ نہ کوئی رعایا اب میں چاہوں گا کہ تم خود زبان سے بولو کیا یہ غلط ہے کہ یہاں قافلوں کے لٹیرے رہتے تھے اور یہاں قافلوں کو لوٹا ہوا مال آتا تھا؟
سنجر نے تمام مجمعے پر اپنی نگاہیں گھمائیں اور خاموش رہا
بولو کچھ دیر بعد اس نے کہا دل میں کوئی بات نہ رکھو کہو میں نے جھوٹ کہا ہے یا سچ
ہاں سلطان! آخر ایک آدمی کی آواز آئی یہاں قافلوں کا لوٹا ہوا مال آتا تھا
اور یہاں اغواء کی ہوئی بچیاں اور نوجوان لڑکیاں لائی جاتی تھیں
ہماری بچیوں کو یہاں سے اٹھایا گیا ہے ایک اور آواز آئی ہماری بچیوں کے ساتھ شادی کر کے انہیں غائب کیا گیا ہے
میں تمہیں بتاتا ہوں لوٹی ہوئی یہ دولت اور یہ بچیاں کہاں جاتی رہی ہیں سنجر نے کہا یہ تمام دولت قلعہ الموت اس حسن بن صباح کے پاس اکٹھی ہوتی رہی ہے جسے تم امام اور نبی اور نا جانے کیا کیا مانتے ہو تمہاری بچیاں اور قافلوں سے اٹھائی ہوئی بچیاں وہاں حوریں بنائی گئی ہیں
ہمیں ایک بات بتاؤ سلطان! ایک ضعیف العمر آدمی نے ہجوم سے آگے ہو کر کہا قافلے ہم نے تو نہیں لوٹے اور بچیوں کو ہم نے تو اغواء نہیں کیا پھر ہمیں کس گناہ کی سزا دی گئی ہے تمہاری فوج کے آتشی تیروں نے میرا گھر جلا دیا ہے شہر میں گھوم پھر کر دیکھو بہت سے گھر جلے ہوئے نظر آئیں گے تمہاری فوج کے برسائے ہوئے پتھروں سے ہمارے بچے ہلاک ہوئے ہیں
میں نے شہر میں گھوم پھیر کر دیکھ لیا ہے سنجر نے کہا جن لوگوں کے گھر جل گئے ہیں یا پتھروں سے تباہ ہوئے ہیں انہیں وہ گھر دیئے جائیں گے جو بالکل ٹھیک کھڑے ہیں اگر وہ پورے نہ ہوئے تو جلے ہوئے گھر سرکاری خزانے سے نئے کر دیے جائیں گے جب تک یہ مکان نہیں بنتے میں تمام لوگوں کا مالیہ لگان اور دیگر محصولات معاف کرتا ہوں
سنجر نے اسلامی فاتحین کی روایات کے عین مطابق شاہ در کے لوگوں کے دلوں سے خوف و ہراس نکال لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ انسان واجب التکریم ہے اور اس شہر کے لوگوں کو پوری تکریم دی جائے گی اور ان کے حقوق پورے کئے جائیں گے سنجر ان لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتا تھا لیکن ان لوگوں میں حسن بن صباح کے تخریب کار موجود تھے جنہیں عبدالملک بن عطاش اور احمد بن عطاش خاص طور پر پیچھے چھوڑ گئے تھے سنجر جب اس مجمعے سے خطاب کر رہا تھا اس وقت دو آدمی ان لوگوں کے پیچھے کھڑے تھے اور سنجر کا ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے
یہ شخص ہمارے لئے مشکل پیدا کر رہا ہے ایک نے دوسرے سے کہا اگر یہاں کے لوگوں نے اس سلطان کی باتوں کو دلوں میں بٹھا لیا اور انہیں دل و جان سے قبول کر لیا تو ہمارے لئے ایک مسئلہ پیدا ہو جائے گا
کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا دوسرے نے کہا یہ لوگ ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتے ہمارا شکار یہ سلطان سنجر ہے لوگ نہیں
اور اب میں ایک نہایت ضروری بات کہنا چاہتا ہوں سنجر نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا مجھے معلوم ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے استاد عبدالملک بن عطاش کے تخریب کار یہاں موجود ہیں وہ مسجدوں میں بھی موجود ہوں گے اور وہ ہر جگہ تمہارے درمیان گھومتے پھرتے رہیں گے انہیں پکڑنا یا ان کی نشاندہی کرکے پکڑوانا تمہارا فرض ہے اگر تم اپنے فرض سے کوتاہی کروگے تو ایک بار پھر تمہیں تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا تم میں سے کوئی آدمی کسی ایسے شیطان کو پکڑ کر لائے گا یا نشاندہی کرے گا اسے بے دریغ انعام دیا جائے گا
سلطان محمد نے جب سنجر سے کہا تھا کہ وہ شاہ در چلا جائے اور وہاں کا انتظام سنبھال لے تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے تربیت یافتہ آدمی شاہ در بھیجے گا جو جاسوسوں اور تخریب کاروں کو زمین کے نیچے سے بھی نکال لائیں گے کچھ آدمی تو سنجر کے ساتھ ہی آ گئے تھے اور کچھ بھیجے جا رہے تھے
ناچیز شفیق الرحمان تبسم اس داستان کو اس مقام پر لے جا رہا ہے جہاں مزمل افندی بن یونس شمونہ اور شافعیہ نے دس باطنی فدائوں کو جنگل میں قتل کیا تھا مزمل شدید زخمی ہوگیا تھا اس کے دائیں کندھے میں ایسا خنجر لگا تھا کہ ہنسلی سے بھی نیچے چلا گیا تھا وہاں سے خون امڈ امڈ کر باہر آ رہا تھا جسے نہ رکنے کی صورت میں موت کا خطرہ تھا انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ آگے جانے کی بجائے پیچھے وسم کوہ چلے جائیں وہ اسی وقت واپس چل پڑے تھے
وسم کوہ ایک دن کی مسافت تھی وہ آدھی رات کو چلے تو ان کا ارادہ تھا کہ بہت تیز چلیں گے تاکہ جلدی منزل پر پہنچ جائیں اور مزمل کا خون روک دیا جائے لیکن مزمل کا گھوڑا تیز دوڑتا یا چلتا تھا تو جھٹکوں سے اس کا خون اور زیادہ نکلنے لگتا تھا اس کے زخم میں کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا اور اوپر بھی کپڑا باندھ دیا گیا تھا لیکن خون پوری طرح روکا نہیں تھا اس کے باوجود مزمل نے گھوڑے کی رفتار تیز رکھی لیکن راستے میں اس پر غشی طاری ہوگئی اور گھوڑوں کی رفتار کم کردی گئی
اگلے روز آدھا دن گزر چکا تھا جب یہ لوگ وسم کوہ پہنچ گئے مزمل کا چہرہ اور جسم پیلا پڑ گیا تھا جو اس امر کی نشانی تھی کہ جسم میں خون ذرا سا ہی باقی رہ گیا ہے اسے فوراً سالار اوریزی کے پاس پہنچایا گیا طبیب اور جراح دوڑے آئے اور انہوں نے مزمل کا خون روکنے کی کوششیں شروع کردیں
سالار اوریزی کو بتایا گیا کہ وہ دس فدائیوں کو قتل کر کے واپس آگئے ہیں اور فدائیوں سے ایسا اشارہ ملا تھا جیسے وہ شاہ در جا رہے تھے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو اسی طرح قتل کردیں جس طرح انہوں نے پہلے اہم شخصیتوں کو قتل کیا تھا
مزمل افندی دو دنوں بعد ہوش میں آیا اور اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ کہاں ہے اور اس کے ساتھی کہاں ہیں اسے بتایا گیا کہ وسم کوہ میں ہے اور اللہ نے اسے نئی زندگی عطا فرمائی ہے اس کے بعد اس نے طبیب اور جراح سے کہا کہ اسے بہت جلدی ٹھیک کر دیں تاکہ وہ قلعہ الموت کے لیے روانہ ہو سکے طبیب اور جراح اسے کہتے تھے کہ وہ جسم کو زیادہ ھلائی نہیں ورنہ زخم کھل جائے گا دراصل مزمل جوشیلا آدمی تھا وہ برداشت نہیں کر رہا تھا کہ چار پائی پر ہی لیٹا رہے
اس کا زخم ملتے ایک مہینہ گزر گیا تھا اس دوران وسم کوہ میں یہ خبر پہنچی کہ شاہ در فتح کر لیا گیا ہے اور اس شہر کی زیادہ تر آبادی وہاں سے نکل گئی ہے پھر یہ خبر بھی وہاں پہنچی کہ عبدالملک ناظروطبس چلا گیا ہے اس قلعے میں پہچے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے
مزمل آفندی آخر بالکل ٹھیک ہو گیا
اسے ایسی غزائیں دی جاتی رہی تھیں کہ اس کے خون کی کمی پوری ہو گئی تھی اسے جب یہ خبر ملی کہ عبدالملک قلعہ ناظروطبس چلا گیا ہے اور اس کے ساتھ شاہ در کی کچھ آبادی بھی وہاں آگئی ہے تو مزمل فوراً سالاراوریزی کے پاس گیا بن یونس کو بھی اپنے ساتھ لیتا گیا
سالار محترم! مزمل نے کہا آپ قلعہ ناظروطبس لے سکتے ہیں
وہ کیسے؟
سالاراوریزی نے پوچھا
عبدالملک چند دن پہلے وہاں پہنچا ہے مزمل نے کہا اس کے ساتھ شاہ در کی کچھ آبادی ہے اور کوئی فوج اس کے پاس نہیں اس قلعے میں پہلے سے کچھ لوگ آباد ہوں گے جو اتنی جلدی اس کی لڑائی نہیں لڑیں گے ہم اس قلعے کو محاصرے میں میں نہیں لیں گے میں نے ایک ترکیب سوچی ہے
اس نے اور بن یونس نے سالار اوریزی کو اپنا پلان بتایا سالار اوریزی پہلے ہی پیچ و تاب کھا رہا تھا کہ وہ ایک عرصے سے وسم کوہ میں بیٹھا ہے اور کچھ کر نہیں رہا وہ تو باطنیوں کا ایسا دشمن تھا کہ کسی پر شک ہوتا کہ یہ حسن بن صباح کا پیروکار ہے تو اسے قتل کروا دیتا تھا اس نے تجویز سنی تو مزمل اور بن یونس کو اجازت دے دی کہ وہ اس پر عمل کریں
ایک پہلو پر غور کر لیں بن یونس نے کہا سلطان محمد نے عبدالملک کو اجازت دی ہے کہ وہ قلعہ ناظروطبس چلا جائے سلطان نے اسے حفاظتی دستہ بھی دیا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطان نے اس شخص کی جان بخشی کر دی تھی اگر آپ اس قلعے پر چڑھائی کرکے یہ قلعہ لیتے ہیں تو سلطان شاید اس کارروائی کو پسند نہ کرے اور وہ اسے حکم عدولی بھی سمجھ سکتا ہے
میں سلطان کے حکم کا نہیں اللہ کے حکم کا پابند ہوں سالار اوریزی نے کہا ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ حسن بن صباح کی ابلیسیت کو کچل اور مسل دیا جائے میں وہ قلعہ اپنی ذات کے لیے نہیں سر کرنا چاہتا تم اپنی تجویز پر عمل کرو میں تمہارے ساتھ ہوں
حسن بن صباح عبدالملک بن عطاش کو تسلی دے کر اور اس کا حوصلہ مضبوط کرکے قلعہ الموت جا چکا تھا عبدالملک نے خود بھی بہت کوشش کی تھی کہ اس کا حوصلہ مضبوط ہو جائے لیکن یہ کام کوئی آسان نہیں تھا وہ اپنے چھوٹے بھائی اس کے بیٹے اور بھائی کی بیوی کے موت کے غم کو اپنی ذات میں جذب کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہا تھا اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو رہا تھا لیکن اسے جو چیز کھائے جا رہی تھی وہ انتقام کا جذبہ تھا یہ جذبہ آگ بن کے جلا رہا تھا اسے حسن بن صباح پر غصہ بھی تھا کہ اس نے قاتل تو ہزارہا پیدا کر لیے تھے لیکن لڑنے والا کوئی ایک آدمی بھی تیار نہیں کیا تھا شاہ در سے اس کے ساتھ جو لوگ گئے تھے ان میں مردوں کی تعداد چھ سات ہزار تھی باقی ان کی عورتیں بوڑھے اور بچے تھے عبدالملک نے سوچا کہ انہیں کو فوج کی صورت میں منظم کر لے
سب سے پہلے ضرورت ہتھیاروں کی تھی شاہ در سے انہیں نہتا کر کے نکالا گیا تھا انہیں گھوڑے اور اونٹ بھی نہیں دیے گئے تھے وہ سب پیدل یہاں تک پہنچے تھے ایک روز اس نے ان تمام آدمیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ یہاں پہلا کام تو یہ ہے کہ از سر نو آباد ہونا ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ باقاعدہ لڑائی کی تیاری شروع کر دی جائے تاکہ سلجوقیوں سے اس شکست کا انتقام لیا جائے
اس نے دیکھا کہ ان لوگوں پر خوف و ہراس طاری تھا جیسے وہ لڑنے کے لیے تیار ہونے سے گھبرا رہے ہوں اگر عبدالملک کوئی سالار ہوتا یا عام سا حاکم ہوتا تو لوگ شاید اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیتے لیکن عبدالمالک ان کا پیرومرشد اور ان کے امام شیخ الجبل کا استاد تھا وہ جانتے تھے کہ امام حسن بن صباح بھی اسے اپنا پیر استاد مانتا ہے یہ ایسی وجہ تھی کہ کوئی بھی اس کے آگے بول نہیں سکتا تھا کسی نے جرات کر کے لوگوں کی نمائندگی یہ کہہ کرکی کہ ابھی تو ہمارے پاس ہتھیار بھی نہیں اور گھوڑے بھی نہیں
سب کچھ آجائے گا عبدالملک نے گرج کر کہا ہتھیار اور گھوڑے الموت سے آ جائیں گے میں آج ہی قاصد کو الموت روانہ کر دوں گا اور پیغام بھیجو گا کہ ہمیں گھوڑے اور ہتھیار فوراً بھیجے جائیں تم لوگ اب ایک فوج کی صورت میں منظم ہو کر لڑو گے
اس نے جوشیلی اور اشتعال انگیز تقریر ہی کر ڈالی جس میں اس نے ان لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ اللہ کی نگاہ میں برتری انہیں حاصل ہے سلجوقیوں کو نہیں اس نے کہا کہ جنت کے حقدار تم ہو سلجوقی نہیں لیکن جنت حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں
اس طرح اس نے اپنے آدمیوں کو بنی نوع انسان سے برتر ثابت کیا اور سلجوقیوں کے خلاف وہ زہر اگلا کہ اس کے یہ آدمی لڑنے کے لیے تیار ہوگئے عبدالملک آخر استاد تھا اور استاد بھی ایسا جس نے حسن بن صباح کو تعلیم و تربیت دے کر امام اور شیخ الجبل بنا ڈالا تھا
اس سے اگلے ہی روز کا ذکر ہے سورج سر پر آ گیا تھا جب دو مرد اور دو عورتیں قلعہ ناظروطبس میں داخل ہوئے چاروں گھوڑوں پر سوار تھے اور پانچویں گھوڑے پر کچھ سامان لدا ہوا تھا ایک گھوڑے پر مزمل آفندی سوار تھا دوسرے پر بن یونس تیسرے پر شمونہ اور چوتھے گھوڑے پر شافعیہ سوار تھی انہوں نے تین دنوں کا سفر دو دنوں میں طے کر لیا تھا وہ جب قلعے میں داخل ہوئے تو لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے ہر کوئی ان سے یہی ایک سوال پوچھ رہا تھا کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں
لوگو تیار ہو جاؤ مزمل نے آواز میں گھبراہٹ کا تاثر پیدا کر کے کہا قلعہ وسم کوہ سے سلجوقیوں کی فوج آرہی ہے یہ وہی فوج ہے جس نے وسم کوہ فتح کیا تھا اس کو سلطان کا حکم ملا ہے کہ قلعہ ناظروطبس میں جاکر کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑو پیر استاد عبدالملک بن عطاش کہاں ہیں؟
ہم بڑی مشکل سے وہاں سے نکل کر آئے ہیں ہمیں پیر استاد تک پہنچا دو ہم انہیں خبر کر دیں
لوگوں میں افراتفری بپا ہوگئی اور وہ اپنے اپنے گھروں کو دوڑ پڑے اگر بات صرف لڑنے کی ہوتی تو وہ لڑنے کے لئے تیار ہوجاتے مگر وہاں تو یہ عالم تھا کہ وہ نہتے تھے اگر ان کے پاس ہتھیار ہوتے تو بھی ان کا خوف و ہراس بجا تھا شاہ در پر جس طرح منجنیقوں کے پتھر اور آتشی تیر گرے تھے اس کا خوف ابھی تک ان پر طاری تھا
مزمل کا یہ چھوٹا سا قافلہ ابھی عبدالملک تک نہیں پہنچا تھا کہ عبدالملک کو پہلے ہی کسی نے اطلاع دے دی کے باہر سے کوئی لوگ آئے ہیں اور انہوں نے لوگوں میں بھگدڑ بپا کردی ہے اور لوگ گھبراہٹ کی حالت میں بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں اور بعض لوگ بھاگ جانے کی تیاری کر رہے ہیں عبدالملک باہر نکل آیا تھا اور اپنی آنکھوں سے لوگوں کی خوفزدگی اور نفسانفسی دیکھ رہا تھا اتنے میں مزمل بن یونس شمونہ اور شافعیہ اس کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے اور گھوڑوں سے اترے
کون ہو تم ؟
عبدالملک نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
مزمل اور بن یونس گھوڑوں کو پیچھے چھوڑ کر عبدالملک کی طرف بڑھے اور جھک کر اس کے گھٹنے چھوئے اور پھر اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر چوما اور آنکھوں سے لگایا عبدالملک نے غصیلی آواز میں پوچھا کہ وہ ہیں کون اور آئے کہاں سے ہیں اور انہوں نے لوگوں سے کیا کہہ دیا ہے کہ یہاں بھگدڑ مچ گئی ہے
ہم آپ کے مرید ہیں یا پیرومرشد! مزمل نے ادب و احترام سے کہا ہم امام حسن بن صباح پر جانیں قربان کرنے والے لوگ ہیں یہ میری بیوی ہے اور یہ لڑکی میری بہن ہے یہ میرا بھائی ہے اس کی بیوی اور دو بچے وسم کوہ میں ہی رہ گئے ہیں سلجوقیوں نے قلعہ وسم کوہ فتح کرلیا تو ہم کوشش کے باوجود وہاں سے نکل نہ سکے اور یہ اتنا لمبا عرصہ وہیں رہے ہم یہ ظاہر کرکے وہاں وقت گزارتے رہے کہ آپ کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں اور ہم اہل سنت والجماعت ہیں وسم کوہ کا حاکم اور سپہ سالار اوریزی ہے میں نے اس کی ملازمت حاصل کر لی تھی اور میں نے اس پر اپنا اعتماد جما لیا تھا
میں نے تم سے کچھ اور پوچھنا ہے عبدالملک نے بے صبر ہو کر کہا یہ تو معلوم ہو گیا ہے کہ تم وسم کوہ سے آئے ہو یہ بتاؤ کہ ان لوگوں کو کیا کہہ دیا ہے کہ یہ بھاگے دوڑے پھر رہے ہیں؟
گستاخی معاف یا پیر استاد! مزمل نے جھک کر کہا یہ لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم نے بروقت اطلاع دے دی ہے کہ ان کی طرف کیا قیامت بڑھتی چلی آ رہی ہے انہوں نے ہم سے پوچھا تو ہم نے انہیں بتایا کہ وسم کوہ سے فوج چل پڑی ہے اور اس فوج کو سلطان کا حکم ملا ہے کہ شاہ در سے عبدالملک بن عطاش اتنے ہزار لوگوں کے ساتھ ناظروطبس کے قلعے میں چلا گیا ہے اپنی فوج بھیجو اور ان سب کو قتل کر کے اس قلعے پر قبضہ کر لو ہم نے لوگوں کو بس یہ بات بتائی ہے
عبدالملک انہیں اپنے گھر لے گیا اجڑے تھے تو لوگ اجڑے تھے عبدالملک کا رہن سہن یہاں بھی شاہانہ تھا اس نے جو مشروب مزمل وغیرہ کو پیش کئے وہ کوئی بادشاہ ہی اپنے یہاں رکھ سکتا تھا گھر لے جاکر عبدالملک نے شمونہ اور شافعیہ کو اپنی عورتوں کے حوالے کردیا اور مزمل اور بن یونس کو اپنے پاس بٹھا لیا
سلطان نے تو ہمیں امان دے دی تھی عبدالملک نے کہا ہم نے اسے جس طرح کہا اس نے اسی طرح کر دیا ہم نے کہا کہ شاہ در سے جانے والے آدھے لوگ ناظروطبس چلے جائیں گے اور آدھے قلعہ الموت جائیں گے ہم نے کہا کہ ہماری حفاظت کے لیے ایک ایک دستہ بھیجا جائے سلطان محمد نے یہ بھی قبول کر لیا اور دو دستے ساتھ کر دیے لیکن اب اس نے ہم پر فوج کشی کا حکم دے دیا ہے
صرف فوج کشی کا نہیں قتل کا بھی حکم دیا ہے بن یونس نے کہا ہم دونوں نے سالار اوریزی کی ملازمت حاصل کر لی تھی میرا بھائی مزمل تو اس کا قابل اعتماد آدمی بن گیا تھا اس کی موجودگی میں سلطان کا حکم آیا تھا کہ قلعہ ناظروطبس میں فوج بھیج کر سب کو قتل کر دیا جائے اور عبدالملک کو بالکل نہ بخشا جائے
کیا یہ ہمارے ساتھ دھوکا نہیں ہوا ؟
عبدالملک نے کہا میں نے اس سلجوقی سلطان پر اعتبار کیا تھا اور میں خوش تھا کہ اس نے کشادہ ظرفی اور فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے کہ مجھے اور وہاں سے نکلنے والے ہر شخص کو اجازت دے دی تھی
آپ اس کی یہ چال سمجھے نہیں یا پیر استاد! مزمل نے اس کی بات کاٹ کر کہا اس نے آپ کے لوگوں کو دو حصوں میں کاٹ کر بکھیر دیا یہ غلطی آپ کی ہے کہ آپ نے خود ہی اس کا کام آسان کر دیا آپ نے اسے کہا کہ آدھے آدمی الموت چلے جائیں گے اور آگے اس قلعے میں آ جائیں گے اس نے آپ کی یہ شرطیں اس لئے مان لی تھیں کہ آپ قلعہ چھوڑ دیں اور وہ قلعے میں داخل ہو جائے
اب زیادہ باتیں کرنے کا وقت نہیں بن یونس نے کہا فوج وسم کوہ سے چل پڑی ہے اس وقت مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کو اور آپ کے خاندان کے ہر فرد کو بچایا جائے
فوج کب تک یہاں پہنچے گی؟
عبدالملک نے پوچھا
دو دنوں بعد! مزمل نے کہا آپ یہاں سے نکلنے کی تیاری کریں ہم آپ کے ساتھ الموت جائیں گے یہاں پہلے جو لوگ آباد تھے ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں اور اونٹ بھی ہم ان میں سے گھوڑے بھی لے لیں گے اور اونٹ بھی لیکن یہاں سے روانگی رات کے وقت ہوگی تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ آپ جا رہے ہیں اگر آپ لوگوں کے سامنے نکلے تو لوگ آپ کے خلاف ہو جائیں گے
وہاں کے لوگوں میں افراتفری بپا رہی اور شام تک کچھ لوگ اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر قلعے سے نکل گئے وہ قلعہ الموت کی طرف جا رہے تھے عبدالملک نے مزمل بن یونس شمونہ اور شافعیہ کو اپنے گھر میں ہی رکھا انہوں نے طے کرلیا تھا کہ آدھی رات کے وقت نکلیں گے اور قلعہ الموت کا رخ کرلیں گے عبدالملک مزمل اور بن یونس کو اس لیے بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا کہ ان کے پاس تلوار اور خنجر تھے شمونہ اور شافعیہ بھی تلواروں سے مسلح تھیں اور ان کے پاس بھی خنجر تھے
عبدالملک کہتا تھا کہ اسے اپنی جان کا کوئی غم نہیں وہ اپنے خاندان کی عورتوں کو محفوظ کرنا چاہتا تھا اور دوسرا اس کا الموت جانے کا مقصد یہ تھا کہ اس نے حسن بن صباح کو مجبور کرنا تھا کہ وہ فوج تیار کرے اور سلجوقیوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ لڑ کر انہیں ختم کرے شہر کے لوگوں سے دو اونٹ اور کچھ گھوڑے لے لیے گئے تھے یہ سارا انتظام خفیہ رکھا گیا تھا رات کو جب قلعے کے اندر خاموشی طاری ہوگئی اور لوگ گہری نیند سو گئے تھے تو دو اونٹ اور گھوڑے عبدالملک کے گھر کے سامنے پہنچ گئے اس کا خاندان تیار تھا جو سامان ساتھ لے جانا چاہتا تھا وہ بھی تیار کر لیا گیا تھا
کچھ دیر بعد ایک قافلہ شہر سے نکلا چونکہ اس شہر میں فوج تھی ہی نہیں اس لیے دروازوں پر کوئی پہرا اور کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی اس شام لوگوں نے خود ہی شہر کے دروازے بند کرلیئے تھے ایک دروازہ کھول لیا گیا اور یہ قافلہ نکل گیا
مزمل اور بن یونس قافلے کے محافظ تھے ناظروطبس سے کوئی ایک میل دور گئے ہونگے کہ مزمل نے گھوڑے کے ساتھ بندھی ہوئی مشعل کو آگ لگائی عبدالملک نے پوچھا کہ مشعل کی کیا ضرورت ہے چاند اوپر آ رہا ہے مزمل نے کوئی جواب نہ دیا اور مشعل بلند کر کے دائیں بائیں تین بار ہلائی اور پھر مشعل بجھا دی
عبدالملک نے پوچھا کہ یہ اس نے کیا کیا ہے مزمل نے اسے ویسے ہی باتوں میں ٹال دیا ذرا ہی دیر بعد دور سے گھوڑوں کے ہلکے ہلکے ٹاپ سنائی دینے لگے جو تیزی سے بڑھتے آ رہے تھے عبدالملک نے چونک کر کہا یہ گھوڑ سوار نہ جانے کون ہیں مزمل نے کہا کہ کوئی ایسا خطرہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی اپنی آدمی ہوں اور وہ مشعل کی روشنی دیکھ کر ادھر آ رہے ہوں
وہ سوار جو آرہے تھے جنگل میں کہیں چھپے ہوئے تھے وہ مزمل اور بن یونس کے ساتھ وسم کوہ سے آئے تھے اور ناظروطبس سے کچھ دور ان سے الگ ہو گئے تھے ان کی تعداد چالیس پچاس تھی انہیں کچھ دور جا کر چھپے رہنا تھا اور مزمل کے اسی اشارے کا انتظار کرنا تھا طے یہی کیا گیا تھا کہ مزمل اور بن یونس عبدالملک کو آدھی رات کے وقت قلعے سے نکالیں گے ان کی یہ اسکیم کامیاب ہو گئی تھی اور مزمل نے انہیں مشعل کا اشارہ دے دیا تھا
گھوڑ سواروں نے قریب آکر اس قافلے کو گھیرے میں لے لیا اور مزمل نے عبدالملک سے کہا کہ وہ گھوڑے سے اتر آئے وہ گھوڑے سے اترا ہی تھا کہ ایک گھوڑ سوار نے تلوار نکالی اور عبدالملک کا سر تن سے جدا کر دیا
اس کے خاندان کی جو عورتیں تھیں انہوں نے چیخ و پکار شروع کردی مزمل نے عورتوں سے کہا کہ ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا اور انہیں واپس قلعے میں بھیج دیا جائے گا اس خاندان کے دو آدمی بھی ساتھ تھے انہیں قتل کردیا گیا اور پھر عبدالملک کی لاش اور اس کا سر اٹھا کر یہ قافلہ ناظرو طبس واپس چلا گیا
ایک گھوڑ سوار نے عبدالملک کا سر اپنی برچھی کی انی سے اڑس لیا اور اس کے خاندان کی عورتوں کو قلعے میں داخل کر کے سب قلعہ وسم کوہ کی طرف چل پڑے مزمل کا خیال تھا کہ عبدالملک کا سر قلعہ الموت کے دروازے پر رکھ آتے ہیں لیکن سواروں کا کماندار نہ مانا اور اس نے کہا کہ اس کا فیصلہ سالار اوریزی کرے گا
تیسری صبح سوار وسم کوہ پہنچ گئے وہ برچھی جس میں عبدالملک کا سر اڑسا ہوا تھا سالار اوریزی کو پیش کی گئی سالار اوریزی نے کہا کہ یہ سر کپڑوں میں لپیٹ کر سلطان محمد کے پاس بھیج دیا جائے شاید یہ سر بھی وہ بغداد بھیجنا چاہتا ہو اس کے بعد تاریخ میں اس کا سراغ نہیں ملتا کہ اس کا سر بغداد میں بھیجا گیا تھا یا نہیں یہ صاف شہادت ملتی ہے کہ سالار اوریزی نے سلطان کے حکم کے بغیر ہی اپنی آدھی فوج قلعہ ناظروطبس اس حکم کے ساتھ بھیج دی کہ اس قلعے پر قبضہ کر لیا جائے فوج کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ کسی کے ساتھ ذرا سی بھی زیادتی نہ کی جائے بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ ان کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی اور کسی عورت پر دست درازی نہیں ہوگی فوج اس حکم کو بڑی اچھی طرح سمجھتی تھی وہ زمانہ چونکہ قتل و غارت کا زمانہ تھا باطنی مسلمانوں کو قتل کرتے تھے اور مسلمانوں کی طرف سے باطنی جوابی قتل ہوتے تھے اور فوج کو یہ حکم تھا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کر دیا جائے ان حالات میں سالار اوریزی نے اپنی فوج کو خاص طور پر کہا کہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے
فوج چلی گئی اور پانچویں چھٹے روز ناظروطبس سے قاصد آیا اور اس نے بتایا کہ وہاں امن و امان ہے اور جو لوگ بھاگ رہے تھے انہیں روک لیا گیا ہے اس پیغام کے ملنے کے بعد سالار اوریزی ناظروطبس چلا گیا مزمل اور بن یونس بھی اسکے ساتھ گئے شمونہ اور شافعیہ وسم کوہ میں ہی رہیں
سالار اوریزی نے اس قلعہ بند آبادی کے تمام لوگوں کو اکٹھا کرکے ویسا ہی لیکچر دیا جیسا سنجر نے شاہ در میں دیا تھا اس نے خاص طور پر زور دے کر کہا کہ اللہ کے راستے پر واپس آ جاؤ تمہیں جنہوں نے پیرومرشد اور امام بن کر گمراہ کیا تھا ان کا انجام دیکھ لو تم نے اپنے شیخ الجبال اور امام حسن بن صباح کے استاد کی لاش دیکھ لی ہوگی اس کی لاش کے ساتھ سر نہیں تھا اگر یہ اللہ کا اتنا ہی برگزیدہ شخص تھا تو وہ اس انجام کو کیوں پہنچا؟
مختصر یہ کہ اوریزی نے ان لوگوں کو باطنی فتنے سے نکالنے کے لیے بہت کچھ کہا وہ لوگ پہلے ہی خوفزدہ تھے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ سلجوقی فوج آئی اور اس نے قلعے پر قبضہ کر لیا یہ موقع ہوتا ہے جب فاتح فوج شہریوں پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور پہلا ہلا وہاں کی عورتوں پر بولتی ہے لیکن اس فوج نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی اس کی بجائے اس فوج کا کماندار شہر سے بھاگنے والوں کو روکتا تھا اور روک روک کر واپس ان کے گھروں میں بھیجتا تھا اور پھر لوگوں کو یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کے محافظ بن کر آئے ہیں لٹیرے بن کر نہیں
جب سالار اوریزی ان لوگوں کے سامنے گیا تو لوگ پہلے ہی مطمئن ہو چکے تھے اوریزی کی ایک ایک بات ان کے دلوں میں اترتی جا رہی تھی وہ تو اب عقیدوں فرقوں اور مذہب کی بات ہی نہیں کرتے تھے انہوں نے شاہ در میں بہت برا وقت دیکھا تھا اب تو وہ اپنے اہل و عیال کی سلامتی اور عزت و آبرو چاہتے تھے وہ انہیں ملتی نظر آ گئی تو وہ سالار اوریزی کی ہر آواز پر لبیک کہنے لگے
سالار اوریزی نے اپنا ایک خاص ایلچی سلطان محمد کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اس نے اس طرح قلعہ ناظروطبس اپنے قبضے میں لے لیا ہے سالار اوریزی کو توقع یہ تھی کہ سلطان ناراض ہو گا کہ اس کے حکم کے بغیر ایسا کیوں کیا گیا لیکن جب ایلچی واپس آیا تو پتہ چلا کہ سلطان اس اقدام پر بہت ہی خوش ہوا ہے اور سالار اوریزی کو خراج تحسین پیش کیا ہے
قلعہ ناظروطبس کے لوگوں نے سالار اوریزی کی اطاعت قبول کر لی تھی لیکن ان میں کچھ کٹر باطنی بھی تھے جن کے دلوں میں ذرا سا بھی اثر نہ ہوا وہ حسن بن صباح کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کا قتل برداشت نہ کر سکتے تھے ان میں سے ایک آدمی الموت جا پہنچا اور حسن بن صباح کو جا اطلاع دی کہ پیرومرشد عبد الملک بن عطاش قتل کر دیے گئے ہیں
حسن بن صباح پر تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا اس کے دل میں اپنے پیر استاد کا احترام تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے اس کے لیے اصل دھچکہ یہ تھا کہ سلجوقیوں نے بھی اس کی طرح اہم شخصیتوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا اس آدمی نے جو حسن بن صباح کو اطلاع دینے گیا تھا تفصیل سے بتایا کہ کس طرح دو آدمی اور دو عورتیں وہاں آئی تھیں اور انہوں نے کیا افواہ پھیلائی اور وہ کس طرح عبدالملک کو لے گئے تھے اور اگلی صبح عبدالملک کی لاش شہر کے ایک دروازے میں پڑی ملی تھی
حسن بن صباح یکلخت چونکا اور واہی تباہی بکنے لگا اس کے مشیر اور دیگر درباری اٹھ کھڑے ہوئے اور تھر تھر کانپنے لگے انہوں نے حسن بن صباح کو اتنے غصہ میں کبھی نہیں دیکھا تھا وہ ہر صورت حال میں خندہ پیشانی سے بات کیا کرتا تھا اور تبسم اس کے ہونٹوں پر رہتا تھا یہ پہلا موقع تھا کہ جن ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی ان ہونٹوں سے جھاگ پھوٹنے لگی اور وہ جب غصے سے بولتا تھا تو یہ جھاگ اڑ کر سننے والوں پر پڑتی تھی وہ اپنے پیر استاد کا انتقام لینا چاہتا تھا یہ ممکن نہ تھا اس لئے اس کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا وہ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ اپنے فدائیوں کو سالار اوریزی سلطان محمد اور سنجر کو قتل کرنے کے لئے کہہ دیتا لیکن اس کے لیے وقت اور موقع درکار تھا
غصے سے وہ پاگل ہوا ہی جارہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے عبدالملک کی دونوں بیویاں اور دو بیٹیاں اور ان کے بیٹوں کے ایک ایک دو دو بچے آئے ہیں حسن بن صباح باہر کو دوڑ پڑا اپنے پیر استاد کے ان پسماندگان کا استقبال وہ آگے جاکر کرنا چاہتا تھا اس نے استقبال یوں کیا کہ عبدالملک کی بوڑھی بیوی کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے قدموں میں سر رکھ دیا اس کی دوسری بیوی ابھی جوانی کی عمر میں تھی حسن بن صباح انہیں اپنے کمرے میں لے آیا
کیا سلجوقیوں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے حسن بن صباح نے پوچھا یا آپ خود کسی طریقے سے وہاں سے نکل آئی ہیں
سلجوقی سالار اوریزی آیا تھا بڑی بیوی نے جواب دیا اس نے ہمیں بڑے اچھے لہجے میں کہا کہ یہاں رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو تمہاری حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہوگی اور اگر الموت جانا چاہتی ہو تو اپنے محافظوں کے ساتھ الموت تک پہنچا دوں گا میں نے کہا ہمیں الموت پہنچا دیا جائے مجھے زیادہ ڈر اس جوان بیٹی کا تھا لیکن یوں لگا تھا جیسے یہ جوان بیٹی کسی کو نظر آئی ہی نہیں ورنہ ایسی جوان لڑکی کو کون معاف کرتا ہے لیکن سالار اوریزی نے جیسا کہا تھا ویسا کر کے دکھا دیا ہمیں محافظ دستہ دے کر رخصت کیا اور وہ دستہ قلعہ الموت کے باہر چھوڑ کر چلا گیا ہے
حسن بن صباح نے حکم دیا کے اسے ایک خاص قسم کے فدائی کی ضرورت ہے اس نے بتایا کہ سالار اوریزی کو قتل کرنا ہے اس کے آدمی اچھی طرح جانتے تھے کہ کون سے آدمی کو قتل کرنے کے لیے کس قسم کے فدائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ حسن بن صباح کا مطلب سمجھ گئے پھر بھی حسن بن صباح نے انہیں مزید سمجھا دیا کہ سالار اوریزی بڑا ہی ہوشیار اور دانش مند آدمی ہے اور اس کی نظریں گہرائی تک چلی جاتی ہیں اس لیے اس کے مطابق کوئی فدائی بھیجا جائے اور اس کا جواں سال ہونا ضروری ہے
تاریخوں میں لکھا ہے کہ حسن بن صباح کو ہر بڑی شخصیت کی نفسیات تک سے بھی واقفیت تھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس کا جاسوسی کا نظام بڑا ہی کارگر تھا اس میں عام قسم کے یا اوسط درجے کے آدمی نہیں تھے بلکہ اونچی حیثیت کے لوگ بھی تھے اور خاص طور پر عقل مند آدمی بھی تھے
یہ پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کی جنت میں فدائی پرورش پاتے تھے ان کے دماغوں پر حشیش اور انتہائی خوبصورت لڑکیوں کا قبضہ ہوتا تھا ان کی اپنی تو کوئی سوچ ہوتی ہی نہیں تھی حسن بن صباح کی ایک جنت اور بھی تھی اس کے متعلق تاریخ میں کم ہی لکھا گیا ہے لیکن دو وقائع نگاروں نے اس کی بھی تفصیلات لکھی ہیں جو مختصراً یوں ہے کہ کچھ نوجوانوں کو ایک خاص قسم کی بوٹی کا نشہ پلایا جاتا تھا اور انہیں ایسی جگہ رکھا جاتا تھا جہاں غالباً اسی بوٹی کا ہلکا ہلجا دھواں پھیلا رہتا تھا اس نشے کا اور اس دھوئیں کا اثر یہ ہوتا تھا کہ وہ آدمی اگر کنکریاں کھا رہا ہوتا تو یوں محسوس کرتا جیسے مرغن کھانے کھا رہا ہے انہیں کھانے تو مرغن ہی دیئے جاتے تھے لیکن ان کے تصورات میں ایک جنت آباد کر دی جاتی تھی جن میں حوریں بھی ہوتی تھیں اور شراب بھی ہوتی تھی لیکن وہ حقیقت میں نہ حوریں ہوتی تھیں نہ شراب وہ آدمی اس تصور کو حقیقت سمجھتے تھے تاریخ سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اس خیالی جنت میں بہت ہی تھوڑے نوجوان کو رکھا جاتا تھا کیونکہ باہر بھیجے جانے کی صورت میں ان کا نشہ اتر بھی سکتا تھا ان میں سے اگر کسی کو الموت سے باہر بھیجا جاتا تو ساتھ حشیش کا نشہ دیا جاتا تھا حشیش ایسی چیز تھی جو دماغ کو حقیقی حالت میں آنے ہی نہیں دیتی تھی
تھوڑی ہی دیر بعد چھبیس ستائس سال عمر کا ایک خوبرو آدمی حسن بن صباح کے سامنے لا کر کھڑا کیا گیا اس آدمی نے حسن بن صباح کے آگے سجدہ کیا حسن بن صباح نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ سجدے سے اٹھا
ہمیشہ کے لیے جنت میں رہنا چاہتے ہو؟
حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہاں یا امام! اس آدمی نے جواب دیا آپ کا حکم ہوگا تو ہمیشہ جنت میں رہنا چاہوں گا اور آپ جہنم میں پھیکنگے تو وہاں بھی میری زبان پر آپ ہی کا نام ہوگا
نہیں جہنم میں نہیں پھیکوں گا حسن بن صباح نے کہا میں تمہیں اس جنت میں بھیج رہا ہوں جس میں تم ہمیشہ رہو گے اور ہمیشہ جوان رہو گے
اگر ہم آج کل اور جدید دور کی زبان میں بات کریں تو یہی کہیں گے کہ اس جوان آدمی اور اس جیسے دوسرے آدمیوں کی برین واشنگ ایسی خوبی سے کر دی گئی تھی کہ وہ حسن بن صباح کے اشارے پر جہنم میں جانے کے لیے بھی تیار ہو جاتے تھے یورپ کے دو تین نفسیات دانوں نے حسن بن صباح کی جنت کا نفسیاتی تجزیہ بھی کیا ہے جو یہاں پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ بڑا ہی خشک اور سائنسی موضوع ہے حسن بن صباح کا اپنا ایک طریقہ اور انداز تھا جو وہ ایسے نوجوان پر استعمال کرتا تھا اس نے اس جوان سال آدمی کو بتایا کہ وہ قلعہ وسم کوہ جائے گا اور وہاں اسے ایک سپہ سالار دکھایا جائے گا جس کا نام اوریزی ہے اسے قتل کرنا ہے اور خود بھی قتل ہو جانا ہے اگر وہ اسکو قتل کرکے زندہ نکل سکتا ہے تو یہ اس کی اپنی قسمت ہے وہ واپس یہاں آئے گا تو جنت میں رہے گا اور اگر اپنے آپ کو مار لے گا یا کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا تو اس سے زیادہ خوبصورت جنت میں جائے گا
حسن بن صباح کے فدائی کوئی اور دلیل تو سمجھتے ہی نہیں تھے ان کے دماغوں پر حشیش اور عورت اور لذت پرستی سوار ہوتی تھی جان لینے اور جان دینے کو تو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے اس جواں سال آدمی کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ وہ یہ کام کس طرح کرے گا اور وہ اکیلا نہیں ہوگا وہاں دو آدمی ایسے ملیں گے جو اسے اپنی پناہ میں رکھیں گے اوریزی کے قتل میں اس کی رہنمائی اور مدد کریں گے
حسن بن صباح نے ایسے انداز سے بات کی تھی جیسے اس نے اس جوان سال شخص پر بہت بڑی نوازش کی ہو کہ اسے اپنے حکم کی تعمیل کا موقع دیا ہو
وسم کوہ ایک قلعہ بند شہر تھا جس کے متعلق پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ یہ کس طرح اور کتنی مدت میں فتح کیا گیا تھا اب اس کے اندر کے حالات بالکل نارمل تھے عام خیال یہی تھا کہ اس قصبے میں اب کوئی باطنی نہیں رہا لیکن یہ سوچنے والے حقیقت سے بے خبر تھے وہاں چند ایک باطنی موجود تھے جو صرف باطنی ہی نہیں تھے بلکہ حسن بن صباح کے جاسوسوں اور تخریب کار بھی تھے وہ اس معاشرے میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ان پر ذرا سا بھی شک نہیں کیا جا سکتا تھا وہ وسم کوہ کی خبریں الموت پہنچاتے رہتے تھے ابھی تک انہوں نے کوئی تخریبی کارروائی نہیں کی تھی شاید انہیں ایسا کوئی مشن دیا ہی نہیں گیا تھا ان کی تعداد بھی کوئی زیادہ نہیں تھی پانچ سات ہی ہوں گے
وسم کوہ میں دو ادھیڑ عمر آدمی رہتے تھے ان کے گھر ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے دونوں بیوی بچوں والے تھے ایک بڑھئی کا کام کرتا تھا اور دوسرا سبزیاں کاشت کر کے لوگوں کو بھیجتا تھا دونوں نے معاشرے میں اپنی عزت کی جگہ بنا رکھی تھی اور لوگ انہیں عزت و احترام سے دیکھتے تھے وہ بھی سب میں گھل مل کر رہتے تھے وہ جو بڑھئی کا کام کرتا تھا اس کے گھر ایک جوان سال آدمی آیا جو اس کا مہمان سمجھا گیا لیکن وہ وہیں رہنے لگا بڑھئی اور اس سبزی فروش نے لوگوں کو بتایا کہ یہ بڑھئی کا بھتیجا ہے رے میں رہتا تھا اور اس کا باپ مر گیا ہے اب یہ اپنے بڑھئی چچا کے ساتھ رہنے کے لیے یہاں آیا ہے اور اپنے چچا کے ساتھ کام کرتا ہے اس کا نام عبید عربی بتایا گیا
عبید عربی خاموش طبع انسان تھا لوگوں سے کم ہی ملتا اور بولتا تو بہت ہی کم تھا اس کے چہرے پر اداسی سی چھائی رہتی تھی کوئی اسے سلام کرتا ملتا تو اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی تھی پھر فوراً مسکراہٹ غائب ہوجاتی اور چہرے پر اداسی عود کر آتی تھی اس کے انداز سے یوں لگتا تھا کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ کسی کی طرف نہ دیکھے اور کوئی اس کے ساتھ سلام دعا نہ کرے یہ وہی خوبرو جوان تھا جسے حسن بن صباح نے ذاتی طور پر وسم کوہ سالار اوریزی کے قتل کے لیے بھیجا تھا
وہ اس بڑھئی کا بھتیجا تھا یا نہیں اس کا باپ مر گیا تھا یا نہیں بہرحال یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ بڑھئی اور سبزیاں اگانے اور بیچنے والا اس کا پڑوسی باطنی تھے وہ صرف باطنی نہیں تھے بلکہ تجربے کار جاسوس اور تخریب کار تھے وسم کوہ سے الموت خبریں پہنچاتے رہتے تھے ان دونوں نے عبید عربی کو اپنی پناہ میں رکھا اور اس جوان سال اور خوبرو آدمی نے ان دونوں کی ہدایات اور رہنمائی سے سالار اوریزی کو قتل کرنا تھا
وسم کوہ میں ایک وسیع و عریض میدان تھا جیسے گھوڑ دوڑ کا میدان کہا کرتے تھے فوجی وہاں لڑائی کی مشک وغیرہ کیا کرتے تھے اور سوار گھوڑے دوڑاتے تھے سالار اوریزی ہر روز کچھ دیر کے لیے وہاں جاتا اور گھوڑے پر سوار اس میدان میں گھوم پھیر کر اور فوجیوں کو ٹریننگ کرتے دیکھا کرتا تھا اور پھر واپس آ جاتا تھا ایک روز عبید عربی ان لوگوں میں کھڑا تھا جو فوج کا یہ تماشا دیکھ رہے تھے سالار اوریزی ان لوگوں کے قریب سے گزرا تو عبید عربی اس کی طرف چل پڑا ایک فوجی نے دوڑ کر اسے وہیں روک لیا اور پوچھا کہ وہ آگے کیوں آیا ہے
میں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں عبید عربی نے کہا میں اسی لئے سپہ سالار کے سامنے جانا چاہتا ہوں
نہیں بھائی! فوجی نے کہا میں تمہیں وہ جگہ دکھا دوں گا جہاں فوج میں آدمی بھرتی کیے جاتے ہیں تم وہاں چلے جانا اور تمہیں بھرتی کر لیا جائے گا
میں صرف بھرتی کے لیے سپہ سالار سے نہیں ملنا چاہتا عبید عربی نے کہا یہ سپہ سالار مجھے بہت اچھا لگتا ہے میں اس کا عقیدت مند ہوں یہ بہادر سالار ہے اور پکا مسلمان ہے میں اس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتا ہوں اور اس کے ہاتھ چومنا بھی چاہتا ہوں
نہیں میرے بھائی! فوجی نے کہا بڑا سخت حکم ہے کہ کوئی باہر کا آدمی سپہ سالار کے قریب نہ جائے تمہیں بھی سپہ سالار سے سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی
وہ کیوں؟
عبید عربی نے پوچھا
یہ تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے فوجی نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسن بن صباح کے فدائی یہاں کتنی حاکموں کو قتل کر چکے ہیں ان کا طریقہ قتل یہی ہے کہ عقیدت مند بن کر یا فریادی بن کر کسی حاکم کے قریب روتے دھوتے چلے جاتے ہیں اور خنجر نکال کر اس حاکم کو قتل کر دیتے ہیں پھر خود کشی کر لیتے ہیں
دراصل عبید عربی دیکھنا چاہتا تھا کہ سالار اوریزی کے قریب جایا جا سکتا ہے یا نہیں اسے پتہ چل گیا کہ وہ یا کوئی اور اس سالار کے قریب نہیں جاسکتا اسے اب کوئی اور طریقہ سوچنا تھا
سورج غروب ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی شافعیہ قلعہ وسم کوہ کی دیوار پر اکیلی ہی ٹہل رہی تھی وہ تو اس دنیا میں رہ ہی اکیلی گئی تھی اسے ماں باپ یاد آ رہے تھے اور پھر اسے اپنا چچا ابو جندل یاد آنے لگا اس کے چچا کے مارے جانے کا اسے کوئی افسوس نہیں تھا لیکن اس کے دل پر بوجھ بڑھتا ہی جا رہا تھا پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے چچا ابو جندل کے ساتھ دور دراز کے ایک پہاڑی علاقے میں خزانے کی تلاش میں گئی تھی شافعیہ کو کسی خزانے کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی لیکن ابوجندل شافعیہ اور اس کی بہن کو بھی ساتھ لے گیا تھا کہ پیچھے ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا
ابو جندل جس طرح خزانے والے غار میں مارا گیا تھا اور جس طرح شافعیہ وہاں سے نکلی اور جن مصائب میں الجھتی اور نکلتی واپس وسم کوہ پہنچی تھی وہ پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے
شافعیہ قلعے کی دیوار پر چلتے چلتے رک گئی اور اس جنگل کی طرف دیکھنے لگی جس میں سے گزر کر وہ واپس آئی تھی اس کے دل پر ہول سا طاری ہونے لگا وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ وہ یقینی موت کے پیٹ میں سے نکل آئی تھی وسم کوہ میں اس کا اپنا کوئی عزیز رشتے دار نہیں رہا تھا لیکن وہ یہیں واپس آگئی…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:46 }
شافعیہ قلعے کی دیوار پر چلتے چلتے رک گئی اور اس جنگل کی طرف دیکھنے لگی جس میں سے گزر کر وہ واپس آئی تھی اس کے دل پر ہول سا طاری ہونے لگا وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ وہ یقینی موت کے پیٹ میں سے نکل آئی تھی وسم کوہ میں اس کا اپنا کوئی عزیز رشتے دار نہیں رہا تھا لیکن وہ یہیں واپس آگئی
وہ خوش قسمت تھی کہ اسے مزمل اور شمونہ کی پناہ مل گئی تھی ان دونوں نے اسے وہی پیار دیا جو اس کے ماں باپ اور پھر اس کا چچا ابو جندل اپنے ساتھ ہی لے کر اس دنیا سے اٹھ گئے تھے پھر وہ اللہ کا شکر اس لیے بھی ادا کرنے لگی کہ ابوجندل نہ صرف باطنی تھا بلکہ حسن بن صباح کا جاسوس اور تخریب کار تھا لیکن شافعیہ اور اس کے راستے سے ہٹ کر اللہ کی راہ پر آ گئی اس راہ پر مزمل اور شمونہ نے اور سالار اوریزی نے بھی اسکا ہاتھ تھام لیا تھا
سورج افق تک پہنچ گیا تھا اور شفق بڑی ہی دلکش ہوتی جا رہی تھی شافعیہ اس شفق کے رنگ دیکھنے لگی اسے اپنے پیچھے قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ سنائی دی یہ چاپ بتا رہی تھی کہ کوئی خراماں خراماں چلا آرہا ہے شافعیہ نے پیچھے دیکھا ایک خوبرو جوان آہستہ آہستہ چلا آ رہا تھا
شافعیہ نے اسے دیکھا اور پھر شفق کی طرف نظریں پھیر لی لیکن اچانک اس نے پھر پیچھے دیکھا اسے اس جواں سال آدمی کا چہرہ کچھ مانوس سا اور کچھ شناسا لگا اس نے اس چہرے کو غور سے دیکھا اور ذہن پر زور دے کر یاد کرنے لگی کہ یہ چہرہ اسے کہاں نظر آیا تھا اسے اتنا یاد آیا کہ یہ چند دنوں چند مہینوں یا چند سالوں پہلے کی بات نہیں بلکہ بڑی ہی پرانی بات ہے کہ یہ چہرہ یا اس سے ملتا جلتا چہرہ دیکھا تھا
اس نے اس شخص سے نظریں ہٹا لی اور وہ جواں سال شخص اسی رفتار سے چلتا آیا اور شافعیہ کے قریب پہنچ گیا شافعیہ نے ایک بار پھر منہ اس کی طرف کرکے دیکھا وہ آدمی بھی اسے دیکھ رہا تھا اس آدمی کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ چونک اٹھا ہے اور وہ شافعیہ کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے اب دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے اور ان کے درمیان بمشکل ایک قدم کا فاصلہ تھا وہ جوان آدمی شافعیہ کی عمر کا تھا اس وقت شافعیہ کی عمر پچیس چھبیس سال ہو گئی تھی
کیا تم مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟
شافعیہ نے بلاجھجک پوچھا اور جواب سنے بغیر کہا کوشش کرو ضرور کوشش کرو مجھے بھی کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پہلے بھی کبھی ملے ہیں اگر ملے نہیں تو ایک دوسرے کو دیکھا ضرور ہے اور کچھ ایسا بھی لگتا ہے جیسے ہم نے صرف ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں بلکہ کسی جگہ ہم اکٹھے رہے ہیں
مجھے خوشی ہے کہ تم نے برا نہیں جانا اس شخص نے کہا جو تم محسوس کر رہی ہو وہ میں بھی محسوس کر رہا ہوں
تم ناصر تو نہیں ہو؟
شافعیہ نے پوچھا خدا کی قسم تم ناصر ہو اب یاد آیا میری یاد مجھے دھوکا نہیں دے سکتی تم میرے بچپن کے ساتھی ہو مجھے وہ کشادہ گلی یاد آگئی ہے جہاں ہم کھیلا کرتے تھے اور تم مجھ سے اور میں صرف تم سے کھیلا کرتی تھی کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟
تم غلط نہیں کہہ رہی اس شخص نے کہا تمہیں میرا نام یاد نہیں رہا شاید بچپن میں میرا نام ناصر ہی ہوگا لیکن بعد میں میرا نام عبید عربی ہو گیا تھا ہاں تم میرے بچپن کی ساتھی ہو اس کے بعد تم وہاں سے چلی گئی تھی اور پھر شاید تمہیں ایک دو مرتبہ دیکھا ہو اور اس کے بعد میں کہاں کہاں پھیرا اور مجھ پر کیا گزری یہ لمبی کہانی ہے اصل بات یہ ہے کہ تمہیں یہاں دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ہے
کیا تم نے شادی کرلی ہے؟
شافعیہ نے پوچھا
نہیں شافعیہ! عبید عربی نے کہا لڑکیاں تو بہت ملیں لیکن پیار والی کوئی نہ ملی میں تمہیں دل کی بات بتاتا ہوں وہ یہ کہ مجھے جسم نہیں چاہیے وہ محبت چاہیے جو روح کے اندر سے پھوٹا کرتی ہے اور وہ روح کے غنچوں کو بھی کھلا دیتی ہے
اس خوبرو جوان آدمی نے شافعیہ کی روح کے مرجھائے ہوئے غنچے کو تروتازہ کر کے کھلا دیا اس کا ذہن ایک ہی اڑان میں ماضی کے اس دور میں پہنچ گیا جب وہ عبید عربی کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اسے گئی گزری باتیں یاد آنے لگیں اس کا ساتھ بچپن تک ہی نہیں بلکہ بچپن سے نکل کر لڑکپن تک پہنچ گیا تھا شافعیہ کے ماں باپ ایک دوسرے کے بعد اسی عمر میں مر گئے تھے اور اسے اور اس کی چھوٹی بہن کو ان کے چچا ابو جندل نے سنبھال لیا اور بڑے پیار سے پالا پوسا تھا جب ماں مر گئی اور دو چار مہینوں بعد اس کا باپ بھی مر گیا تو وہ عبید عربی کے ساتھ پہلے سے زیادہ کھیلنے لگی تھی اور اب وہ کھیلتی کم تھی اور عبید کو اپنے پاس بٹھا کر باتیں زیادہ کرتی تھی عبید اس کچی عمر میں بھی شافعیہ کو تسلیاں اور دلاسے دیا کرتا تھا
نہیں نہیں شافعیہ نے عبید عربی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تمہارا نام ناصر تھا عبید عربی نہیں میں تمہیں ناصر ہی کہوں گی میرے دل میں وہ ناصر زندہ ہوگیا ہے
شافعیہ کے جذبات میں جو ہلچل بپا ہو گئی تھی ویسی ہی عبید عربی کے جذبات میں پیدا ہوگئی اسے یاد آنے لگا کہ اس شافعیہ کے ساتھ اسے کتنا پیار تھا اس کے بغیر وہ خوش رہتا ہی نہیں تھا اپنے ہمجولیوں کے ساتھ تو کھلتا ہی نہیں تھا اسے وہ وقت یاد آنے لگا جب ماں باپ کی موت کے بعد شافعیہ اس کے پاس بیٹھ کر رویا کرتی اور انہیں یاد کیا کرتی تھی تو عبید کس پیار سے اسے بہلایا کرتا تھا
شافعیہ! عبید عربی نے کہا تم اس عمر میں خوبصورت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی آج ہو
عبید عربی نے یہ بات کچھ ایسے جذباتی لہجے میں اور خوشگوار انداز میں کی تھی کہ شافعیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور اس بے ساختہ ہنسی نے اس کی ذات سے وہ سارا غبار اڑا دیا جو اسے کچھ دیر پہلے پریشان کیے ہوئے تھا وہ محسوس کیا کرتی تھی جیسے اس کی ذات سے اور اس کے اندر سے دھواں اٹھتا رہتا ہے جس سے اس کا دم گھٹ جاتا ہے عبید عربی کی شگفتگی نے اس کی یہ ساری گھٹن ختم کردی
سورج غروب ہو گیا تھا اور قلعے میں کئی جگہوں پر مشعلیں جل اٹھی تھیں شام گہری ہو گئی تھی شافعیہ کو یہ خیال آیا ہی نہیں کہ شمونہ اور مزمل اس کے لئے پریشان ہوں گے
تمہاری شادی تو ہو چکی ہوگی؟
عبید عربی نے پوچھا
نہیں شافعیہ نے جواب دیا شادی کی بات سامنے آتی ہے تو یوں لگتا ہے اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ بیچ رہی ہوں شاید گم گزشتہ پیار کی تلاش میں ہوں جو ملنا محال نظر آتا ہے
وہ مل گیا ہے عبید عربی نے کہا ہم دونوں کو مل گیا ہے کس کے پاس رہتی ہو؟
اپنا کوئی بھی نہیں رہا شافعیہ نے جواب دیا اللہ کے دو ایسے بندے مل گئے ہیں جن کے دلوں میں وہی پیار ہے جو میرے ماں باپ کے دلوں میں ہوا کرتا تھا میں تمہیں ان سے ملواؤں گی
تمہیں یہاں زیادہ دیر رکنا نہیں چاہیے عبید عربی نے کہا جن کے پاس رہ رہی ہو وہ تمہارے خون کے رشتے دار نہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تم پر کوئی شک کریں
تم اپنی بتاؤ شافعیہ نے پوچھا تمہارا گھر کہاں ہے پہلے تو تمہیں وسم کوہ میں کبھی نہیں دیکھا
میرے بھی ماں باپ مر گئے تھے عبید عربی نے جواب دیا تم اصفہان سے اپنے چچا کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی تو اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد میرے ماں باپ بھی مر گئے تھے میں کہیں اور رہتا تھا لیکن اب یہاں رہنے کے لئے آ گیا ہوں یہاں ایک بڑھئی ہے وہ میرا چچا ہے میں اب اسی کے ساتھ رہوں گا اور اس نے مجھے اپنا کام سکھانا شروع کر دیا ہے آؤ چلیں کل کہاں اور کس وقت ملوں گی
جہاں کہو گے شافعیہ نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں جواب دیا جس وقت کہو گے آ جاؤ گی
قلعے کے باہر آ سکوں گی عبید عربی نے پوچھا اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر بولا قلعے کے ساتھ ہی سبزیوں کا ایک باغ ہے وہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے وہاں درخت بہت زیادہ ہیں اور ان پر بیلیں چڑھی ہوئی ہیں اور وہاں پھول دار پودے بھی ہیں وہ باغ یہاں ہمارے ایک پڑوسی کا ہے وہ سبزیاں اُگاتا ہے اور قلعے میں بیچتا ہے فوج کو بھی سبزیاں وہی دیتا ہے اگر کل کسی وقت وہاں آ سکو تو میں وہی ملوں گا اس باغ کے مالک سے ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ ہمارا پڑوسی ہے اور میرے چچا کا بھائی بنا ہوا ہے
ہاں وہ باغ شافعیہ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا میں دو تین بار اس باغ میں گئی ہوں بہت ہی خوبصورت جگہ ہے میں وہاں آ جاؤں گی
انہوں نے اگلے روز کی ملاقات کا وقت مقرر کر لیا اور پھر قلعے کی دیوار سے اتر کر اپنے اپنے گھر چلے گئے
شافعیہ تو عبید عربی کی ذات میں گم ہوگئی تھی اسے تو جیسے احساس ہی نہ رہا تھا کہ شام بہت گہری ہوگئی ہے اور اسے اپنے گھر پہنچنا ہے وہ سوچنے لگی کہ مزمل اور شمونہ اسے پوچھیں گے کہ وہ کہاں رہی ہے تو وہ کیا جواب دے گی اس نے کوئی جھوٹ گڑھنا چاہا تو ضمیر نے اس کا ساتھ نہ دیا وہ مزمل اور شمونہ کے آگے جھوٹ بولنا نہیں چاہتی تھی انہوں نے جو پیار اور جو احترام اسے دیا تھا اس کی قدر وہ صرف اس طرح کر سکتی تھی کہ ان کے ساتھ مخلص رہے اور صداقت کا دامن نہ چھوڑے
وہ گھر میں داخل ہوئی تو شمونہ اس کے لئے خاصی پریشان ہو رہی تھی مزمل نے اسے بتایا کہ وہ اس کی تلاش میں نکلنے ہی والا تھا دونوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں چلی گئی تھی وہ کھانے کے لئے اس کا انتظار کر رہے تھے
بچپن کا ایک ساتھ ہی مل گیا تھا شافعیہ نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا اس کے ساتھ قلعے کی دیوار پر کھڑی بچپن کو یاد کرتی رہی ہوں
کون ہے وہ؟
شمونہ نے پوچھا
کچھ دن ہوئے یہاں آیا ہے شافعیہ نے جواب دیا ہم بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے آج اس عمر میں ملاقات ہوئی ہے اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو فوراً پہچان لیا تھا
اگر تم اسے اچھی طرح جانتی ہو تو پھر کوئی بات نہیں مزمل نے کہا اگر اسے اتنا ہی جانتی ہوں کہ بچپن میں تمہارے ساتھ کھیلا کرتا تھا تو پھر محتاط رہنا آج کل کسی کا بھروسہ نہیں
نہ ملو تو بہتر ہے شمونہ نے کہا
یہ بات غلط ہے مزمل نے کہا اسے ضرور ملو اگر وہ شہر میں ابھی ابھی آیا ہے تو اسے ضرور ملو لیکن یوں نہیں کہ تمھیں اس سے بچپن میں پیار تھا بلکہ اس لیے ملو کہ اسے غور سے دیکھو اور یہ جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کرو کہ یہ کوئی غلط آدمی تو نہیں وہ حسن بن صباح کا بھیجا ہوا فدائی بھی ہوسکتا ہے ہم نے جس طرح قلعہ ناظر و طبس لیا ہے اسے حسن بن صباح بخشے گا نہیں ہم نے اس کے پیرومرشد کو قتل کیا ہے حسن بن صباح انتقام لے گا اور ضرور لے گا ہوسکتا ہے وہ سپہ سالار اوریزی کو بھی قتل کروا دے ایسا کوئی اجنبی شہر میں نظر آئے تو اسے ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھو
مزمل آفندی نے یہ جو بات کرنی تھی بالکل ٹھیک کہی تھی سالار اوریزی نے جاسوسوں اور مخبروں کو بلاکر خاص ہدایات دی تھی کہ قلعے میں کوئی اجنبی آئے تو اسے اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھیں شہر میں فدائیوں کی موجودگی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تھا سالار اوریزی نے ایک خاص ہدایت یہ دی تھی کہ تاجروں کا جب مال آتا ہے تو اسے ضرور دیکھیں اگر مال اتارتے وقت اچھی طرح نہ دیکھ سکے تو یہ دیکھیں اس میں سے مختلف اشیاء کہاں کہاں جاتی ہیں وہاں جا کر دیکھیں اوریزی نے بڑی عقلمندی کی بات کی تھی وہ کہتا تھا کہ جہاں فدائی ہوں گے وہاں حشیش ضرور ہوگی حشیش باہر ہی سے آتی ہوگی حشیش کے ذریعے فدائیوں کو پکڑا جا سکتا ہے اس سے پہلے کسی شہر میں اور کسی قلعے میں ایسی جانچ پڑتال اور دیکھ بھال کا کسی کو بھی خیال نہ آیا تھا اوریزی کو احساس تھا کہ عبدالملک بن عطاش کو وہ مروا کر وہ خود بھی زندہ نہیں رہ سکتا اس پر قاتلانہ حملہ ہونا ہی تھا
شافعیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ اس خوبرو جوان سال آدمی کا اصل نام ناصر تھا اور وہ یہاں آکر عبید عربی بن گیا تھا لیکن شافعیہ نے نام کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی نام پر توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا تھی عبید عربی نے کہا تھا کہ کبھی وہ ناصر ہوا کرتا تھا اور پھر اس کا نام عبید عربی رکھ دیا گیا تھا شافعیہ نے اس کی اس بات اور وضاحت کو سچ مان لیا تھا
شافعیہ! شمونہ نے کھانے کے بعد شافعیہ سے کہا اب تم اپنے لیے کسی کو منتخب کر ہی لو
شمونہ نے شافعیہ کو یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ یہ لڑکی عالم شباب میں ہے اور غیر معمولی طور پر حسین بھی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پیار کے دھوکے میں آکر حسن بن صباح کی جنت میں پہنچا دی جائے
میں عبید کو کسی دن گھر لاؤں گی شافعیہ نے کہا آپ دونوں بھی اسے دیکھ لیں اور مجھے بتائیں کہ میرا انتخاب کیسا ہے
تمہارا انتخاب یقینا اچھا ہوگا شافعیہ! مزمل نے کہا لیکن ہم صرف یہ نہیں دیکھیں گے کہ عبید کتنا خوبرو ہے اور تمہیں کتنا چاہتا ہے ہمیں تو اس کی اصلیت اور اس کا باطن دیکھنا ہے ہم تمہیں کسی فریب کار کے چنگل میں نہیں جانے دیں گے
شافعیہ نے وہ رات بیچینی سے کروٹیں بدلتے گزاری آنکھ لگتی تھی تو اسے خواب میں عبید عربی نظر آتا تھا آنکھ کھل جاتی تو اسی کے تصور میں گم ہو جاتی وہ محسوس کرنے لگی جیسے رات بڑی ہی لمبی ہو گئی ہو آخر صبح طلوع ہوئی اور شافعیہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی ملاقات کا وقت ابھی دور تھا وقت گزارنے کے لیے وہ کام کاج میں مصروف ہو گئی اور ملاقات کا وقت قریب آگیا
میں اسے ملنے جا رہی ہوں شافعیہ نے شمونہ سے کہا میری اتنی فکر نہ کرنا میں بچی تو نہیں ہوں
پھر بھی محتاط رہنا شمونہ نے کہا اسے اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھو اور اسے یہاں ضرور لانا
شافعیہ گھر سے نکلی پھر قلعے سے نکل گئی اور سبزیوں والے باغ میں جا پہنچی عبید عربی اس کے انتظار وہاں پہلے سے موجود تھا شافعیہ کو دیکھ کر دوڑا آیا اور اس کا بازو پکڑ کر باغ کے اندر ایک ایسی جگہ لے گیا جہاں درختوں پر چڑھی ہوئی بیلوں نے چھاتہ سا بنا رکھا تھا اس کے نیچے گھاس تھی اور تین اطراف بیلوں اور پودوں کی اوٹ تھی تنہائی میں بیٹھنے کے لئے وہ جگہ موزوں تھی اور رومان پرور بھی تھی دونوں وہاں جا بیٹھے تھوڑی دیر بعد دونوں دنیا سے بے خبر ہو گئے
پہلے ایک فیصلہ کرلو شافعیہ نے عبید عربی سے کہا میں تمہیں ناصر کہا کرو یا عبید؟
عبید بہتر ہے عبید عربی نے جواب دیا نام کو اتنی اہمیت کیوں دیتی ہو اگر محبت ہے تو نام کچھ بھی ہو سکتا ہے محبت نہیں تو بڑے پیارے پیارے نام بھی بھدے اور بےمعنی لگتے ہیں
اس روز انہوں نے بہت باتیں کیں پیار کی باتیں گزرے ہوئے وقت کی باتیں لیکن ایسی نہیں کہ دلوں پر اداسی اور ملال آجاتا شافعیہ نے اسے کہا تھا کہ ایسی کوئی بات یاد نہ کرو یا یاد نہ دلاؤ جس میں تلخیاں ہو وہ کہتی تھی کہ ہم آہیں بھریں گے فریادی کریں گے اور روئیں گے تو بھی ہمیں ماں باپ نہیں ملیں گے نہ ان کا پیار ملے گا پیار تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دینا ہے
وہ ایک دوسرے میں گم ہوگئے محبت کی وارفتگی اور خودسپردگی ایسی جیسے یہ دو جسم ایک ہو جانے کی کوشش کر رہے ہوں شافعیہ کہتی تھی کہ وجود ہو تو محبت کا ہو ہمارے اپنے کوئی وجود نہیں اگر ہیں تو انہیں اس طرح پاک اور صاف رکھنا ہے کہ خیال ہی نہ آئے کہ جسم کو تسکین کی ضرورت ہے
عبید عربی نے اسے یقین دلایا کہ اس کی نظر جسم پر ہے نہیں وہ بار بار ایک تشنگی کا اظہار کرتا تھا یہی وہ تشنگی تھی جس سے شافعیہ مری جا رہی تھی اب وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے پیار و محبت کے چشمے بن گئے وہ یوں محسوس کرنے لگے جیسے یہ چشمے سوکھ گئے تھے اور اچانک پھوٹ پڑے ہوں
دن آدھا گزر چلا تھا جب وہ کسی کی آواز پر اچانک بیدار ہوگئے اور گھروں کو جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے
میں تمہیں کسی دن اپنے گھر لے چلو گی شافعیہ نے کہا میں تمہیں ان لوگوں سے ملواؤں گی جن کے پاس میں رہتی ہوں انہیں تم میرے ماں باپ ہی سمجھو
شافعیہ! عبید عربی نے کہا ان کے پاس لے جانے سے پہلے مجھے خود سمجھ لو میں کچھ نہیں چاہتا میں پیار کا تشنہ ہوں وہ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے
محبت نے ان پر دیوانگی طاری کر دی تھی اسی شام دونوں قلعے کی دیوار پر وہیں کھڑے تھے جہاں گزشتہ شام ان کی ملاقات ہوئی تھی
اگلے روز پھر سبزیوں کے باغ میں اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے شام کے وقت وہ پھر قلعے کی دیوار پر کھڑے تھے
اس طرح وہ آٹھ دس روز ملتے رہے اور ایک روز شافعیہ عبید عربی کو اپنے گھر لے گئی شمونہ کو عبید خاص طور پر پسند آگیا تھا مزمل نے اس کے ساتھ کچھ ایسی ذاتی سوالات کیے جنہیں وہ ضروری سمجھتا تھا عبید عربی نے اسے مایوس نہ کیا
میری ایک خواہش ہے عبید عربی نے مزمل سے کہا میں سپہ سالار اوریزی سے ملنا چاہتا ہوں اس کے ہاتھ چومنے کو جی چاہتا ہے اس نے جو کارنامے کر دکھائے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکتا عبدالملک بن عطاش کو قتل کون کرسکتا تھا یہ قلعہ وسم کوہ کوئی اور فتح نہیں کر سکتا تھا اور پھر جس طرح اس سالار نے قلعہ ناظروطبس لیا ہے یہ اسی کی دانش مندی اور عسکری فہم و فراست کا نتیجہ ہے مجھے اس سے ملا دیں
میں ملوں آؤں گا مزمل نے کہا
میں دراصل فوج میں جانا چاہتا ہوں عبید عربی نے کہا میں سپہ سالار اوریزی کے ماتحت سلطنت کی اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں
شمونہ اور مزمل کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ عبید عربی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا فدائی ہے مزمل دلی طور پر تیار ہو گیا تھا کہ اسے سالار اوریزی سے ملوا دیا جائے گا اس نے عبید عربی سے کہا کہ سالار اوریزی سے ملاقات کرا دی جائے گی لیکن تمہاری جامع تلاشی ہوگی اور تمہارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوگا
میں نے ان سے ملنا ہے عبید عربی نے کہا ان کے سامنے کسی ہتھیار کی نمائش نہیں کرنی
عبید عربی کو وسم کوہ میں آئے دو مہینے ہو گئے تھے اور قلعہ الموت میں حسن بن صباح اس خبر کا انتظار بڑی بے تابی سے کر رہا تھا کہ سالار اوریزی کو عبید عربی نے قتل کر دیا ہے اس دوران بڑھئی نے اپنے ایک جاسوس کو یہ پیغام دے کر قلعہ الموت بھیجا تھا کہ امام سے کہنا سالار اوریزی کو اتنی جلدی قتل نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ کوئی آدمی اس کے قریب نہیں جاسکتا بڑھئی نے حسن بن صباح کو یقین دلایا تھا کہ یہ کام ہو جائے گا اور عبید عربی موقع ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہا ہے بڑھئی نے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ عبید عربی نے اس گھر تک رسائی حاصل کر لی ہے جس گھر کے افراد سالار اورریزی کے قابل اعتماد لوگ ہیں بلکہ یہ اس حلقے کے لوگ ہیں جو سالار اوریزی کی دوستی کا ذاتی حلقہ ہے امید ہے ان لوگوں کے ذریعے سالار اوریزی تک عبید عربی پہنچ جائے گا
ایک روز شافعیہ نے صاف طور پر محسوس کیا کہ عبید کچھ پریشان ہے اور بولتا ہے تو اس کی زبان لڑکھڑاتی ہے شافعیہ نے پوچھا تو اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شافعیہ کو ٹال دیا لیکن باتیں کرتے کرتے عبید کی بے چینی بڑھتی گئی ایک بار اس نے یوں کیا کہ شافعیہ کا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا اور اس نے اپنی انگلیاں شافعیہ کی انگلیوں میں الجھا رکھی تھیں عبید عربی نے اپنے ہاتھ کو اتنی شدت سے مروڑا جیسے اس کے ہاتھ میں لڑکی کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ لکڑی کا ایک ٹکڑا تھا اور اسے وہ توڑنے کی کوشش کر رہا تھا شافعیہ درد سے بلبلا اٹھی اس نے عبید کا چہرہ دیکھا تو چہرہ لال سرخ ہوا جا رہا تھا شافعیہ نے بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے
کچھ نہیں شافعیہ! کچھ نہیں ہوا عبید عربی نے اکھڑی اکھڑی آواز میں کہا کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے میں جلدی ہی اپنے آپ میں آ جاؤں گا یوں محسوس کرتا ہوں جیسے کوئی غیبی طاقت میرے وجود کے اندر آکر مجھ پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہو تم گھبراؤ نہیں چلو گھر چلیں میں شام تک ٹھیک ہو جاؤں گا اور ہر روز کی طرح دیوار پر ملیں گے
عبید عربی کی یہ حالت دیکھ کر شافعیہ کو بھی ویسی ہی بے چینی محسوس ہونے لگی تھی عبید عربی نے اسے بہت تسلی دی اور کہا کہ وہ شام کو اسے بالکل ہشاش بشاس دیکھے گی شافعیہ اپنے گھر چلی گئی اور عبید عربی بڑھئی کے گھر چلا گیا
شافعیہ اس کی یہ کیفیت سمجھ ہی نہیں سکتی تھی عبید کو جسمانی ایٹھن ہو رہی تھی جو صاف علامت کی کہ یہ شخص نشے سے ٹوٹا ہوا ہے
تمہیں امام کی قسم کوئی بندوبست کرو عبید نے بڑھائی سے کہا آج تو میری حالت بہت ہی بگڑ گئی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی کو یا کسی اور کو کچھ شک ہوجائے اگر آج مجھے حشیش نہ ملی تو میں پاگل ہو جاؤں گا اور ہو سکتا ہے اس پاگل پن میں تمہاری گردن مروڑ دوں
آج شام تک امید ہے تمہارا نشہ پورا ہو جائے گا بڑھئی نے کہا میں نے تمہیں بتایا ہے کہ یہاں آنے والے مال کو کھول کر دیکھا جاتا ہے سالار اوریزی نے بڑا سخت حکم جاری کر رکھا ہے کہ حشیش کا ایک ذرہ بھی اس قلعہ بند شہر میں نہ آئے اور اگر کسی کے پاس حشیش یا اس قسم کا کوئی اور نشہ پکڑا جائے اسے فورا قید خانے میں بند کر دیا جائے
سالار اوریزی نے یہ حکم یہ سوچ کر جاری کیا تھا کہ حشیش صرف فدائی یا حسن بن صباح کے جاسوسوں اور تخریب کار پیتے ہیں یہ نشہ ان باطنیوں کا ہی تھا سالار اوریزی نے سوچا تھا کہ ان لوگوں کو یہاں نشہ نہ ملا تو یہاں سے بھاگ جائیں گے پھر بھی کسی نہ کسی طریقے سے حشیش وہاں پہنچ ہی جاتی تھی مگر اتنی زیادہ دن ہوگئے تھے الموت سے حشیش نہیں آئی تھی عبید عربی نشے سے ٹوٹا ہوا تھا
دن کے پچھلے پہر جب سورج مغرب کی طرف اتر رہا تھا شافعیہ قلعے کی دیوار پر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی ہر شام اس کی عبید عربی کے ساتھ ملاقات ہوتی تھی شافعیہ گھر سے نکلنے ہی لگی تھی کہ مزمل آگیا اس نے شافعیہ کو بازو سے پکڑا اور اندر شمونہ کے پاس لے گیا
میں تمہیں بہت بری خبر سنانے لگا ہوں شافعیہ! مزمل نے کہا وقتی طور پر تمہیں یہ خبر بری لگے گی لیکن اچھا ہوا کہ ایک بہت بڑے خطرے کا پہلے ہی علم ہو گیا ہے
شمونہ اور شافعیہ کے رنگ اتنی سی بات سے ہی اڑ گئے دونوں خبر سننے کو بے تاب ہو گئیں
خبر یہ تھی کہ تاجروں کا مال اونٹوں سے قلعے کے باہر اترا تھا مال سے مال کے تبادلے وہی ہوا کرتے تھے جس روز تاجروں کا مال آتا تھا اس روز وہاں بہت ہی رونق اور لوگوں کا جمگھٹا ہوتا تھا ویسے بھی وہاں منڈی لگتی تھی لیکن اتنے زیادہ لوگ ہر روز نہیں ہوتے تھے سالار اوریزی کے حکم کے مطابق وہاں کچھ لوگ گھومتے رہتے اور دیکھتے پھرتے کہ کون کیا لایا ہے اور یہاں کون کیا خرید کر قلعے کے اندر لے جا رہا ہے
ایک مخبر نے ایک آدمی کو دیکھا جو الگ تھلگ کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا تھا یہ تھیلا اتنا سا ہی تھا کہ چغّے کے اندر چھپایا جا سکتا تھا مخبر نے دیکھا کہ بڑھئی اور عبید عربی اس کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے پھر بڑھئی نے وہ تھیلا اس سے لے لیا اور اپنی چغّے کے اندر کر کے اوپر بازو رکھ دیئے اور ایک طرف چل پڑا عبید عربی بھی اس کے پیچھے گیا
مخبر کو کچھ شک ہوا اس نے ان دونوں آدمیوں کو بتایا جو کسی بھی تاجر کا مال کھول کر دیکھ سکتے تھے یہ دونوں آدمی دوڑتے ہوئے بڑھئی اور عبید عربی کے پیچھے گئے انھیں دیکھ کر وہ دونوں بھی دوڑ پڑے اور ایک دروازے میں داخل ہو گئے یہ قلعے کی ایک طرف کا دروازہ تھا
وہ بھاگ کر جا ہی کہاں سکتے تھے انہیں قلعے کے اندر پکڑ لیا گیا انہیں یہ تھیلا جس آدمی نے دیا تھا وہ پہلے ہی کہیں روپوش ہو گیا تھا اس تھیلے کو کھول کر دیکھا تو اس میں خشک حشیش بھری ہوئی تھی یہ خاصی لمبی مدت استعمال کے لئے کافی تھی بڑھئی اور عبید عربی کو پکڑ کر کوتوال کے پاس لے گئے کوتوال نے دونوں کو قید خانہ میں بھیج دیا
شافعیہ نے جب سنا کہ عبید عربی قید خانے میں بند ہوگیا ہے تو اس کے آنسو بہنے لگے اور وہ مزمل کے پیچھے پڑ گئی کہ وہ اسے قید خانے میں لے چلے وہ عبید عربی سے ملنا چاہتی تھی وہ کہتی تھی کہ عبید عربی ایسا آدمی نہیں شمونہ اور مزمل اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ کسی انسان کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ درپردہ کیا ہے لیکن شافعیہ عبید عربی کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں تھی وہ کہتی تھی عبید ایسا آدمی نہیں اور یہ ضرور کہیں غلط فہمی ہوئی ہے
مزمل نے شافعیہ کی یہ جذباتی حالت دیکھی تو وہ پریشان سا ہو گیا اس نے شافعیہ سے کہا کہ وہ جا کر معلوم کرتا ہے کہ عبید عربی حشیش اپنے پاس رکھنے کا مجرم ہے یا نہیں ہو سکتا ہے اسے معلوم ہی نہ ہو اور یہ حشیش اس کے چچا بڑھائی کے لیے آئی ہو
مزمل آفندی اور بن یونس سالار اوریزی کے خاص آدمی تھے اوریزی نے ان دونوں کو جاسوسی کے محکمے میں باقاعدہ طور پر رکھ لیا تھا لیکن اوریزی کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ بھی ہو گئے تھے قید خانے میں کوئی اور آدمی نہیں جا سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس کے لیے کہیں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی مزمل بن یونس کو ساتھ لے کر قید خانے کے مہتمم سے ملا اور کہا کہ وہ ان دو قیدیوں سے ملنا چاہتا ہے جنہیں گزشتہ روز حشیش کے سلسلے میں گرفتار کر کے یہاں بھیجا گیا تھا
مہتمم نے اسی وقت قیدخانے کے دروغہ کو بلا کر کہا کہ ان دونوں کو ان دو قیدیوں کے پاس لے جائیں جن کے قبضے سے حشیش برآمد ہوئی تھی دروغہ نے ان دونوں کو لے گیا اور دروغہ نے ہی انہیں بتایا کہ بڑھئی کو ایذارسانی والے کمرے میں لے جایا گیا ہے اور اسے بہت ہی اذیتیں دی جا رہی ہیں لیکن وہ بتا نہیں رہا کہ یہ حشیش کہاں سے آئی تھی اس پر شک یہ ہے کہ وہ فدائی ہے اور الموت کا جاسوس بھی ہے عبید عربی کے متعلق دروغہ نے بتایا کہ وہ کوٹھری میں بند ہے اور وہ تو یوں سمجھو کہ پاگل ہو چکا ہے دروغہ نے یہ رائے دی کہ وہ نشے سے ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا ہے اور بھول ہی گیا ہے کہ وہ انسان ہے
بڑھئی کو تو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی مزمل اور بن یونس کوٹری تک گئے جس میں عبید عربی بند تھا اس نے جب مزمل کو دیکھا تو دوڑ کر سلاخوں تک آیا اور سلاخوں کو پکڑ کر جھنجھوڑنے لگا
خدا کے لئے مجھے تھوڑی سی حشیش دے دو عبید عربی نے چلا چلا کر کہا میں مرجاؤں گا مجھے اتنی زیادہ اذیت دے کر نہ مارو مجھے حشیش نہیں دیتے تو مار ڈالو
مزمل نے اسے بتایا کہ حشیش تو قلعے میں بھی داخل نہیں ہوسکتی اسے قید خانے میں حشیش کیسے دی جاسکتی ہے عبید عربی نے یہ سنا تو اس نے سلاخوں کو پکڑ کر زور زور سے اپنا سر سلاخوں کے ساتھ مارا اس کی پیشانی سے خون بہنے لگا دروغہ ساتھ تھا اس نے جب اس قیدی کی یہ حالت دیکھی تو دو تین سنتریوں کو پکارا
تین سنتری دوڑے آئے دروغہ نے انہیں کہا کہ وہ رسیاں لے آئیں اور اس قیدی کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دیں اور ٹانگیں بھی باندھ دیں
وہ طریقہ بڑا ہی ظالمانہ تھا جس سے عبید عربی کے ہاتھ اور پاؤں باندھے گئے مزمل اور بن یونس وہاں سے آگئے عبید عربی کی چیخیں دور تک ان کا تعاقب کرتی رہیں
اسے تھوڑی سی حشیش دے دی جائے تو یہ بتا دے گا کہ حسن بن صباح کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے مزمل نے دروغہ سے کہا صاف پتہ چلتا ہے یہ نشے سے ٹوٹا ہوا ہے
پھر بھی نہیں بتائے گا دروغہ نے کہا ہمیں ان لوگوں کا بہت تجربہ ہے اسے تھوڑی سی بھی حشیش مل گئی تو یہ شیر ہوجائے گا پھر تو یہ بولے گا ہی نہیں
مزمل اور بن یونس قید خانے سے مایوسی کے عالم میں نکل آئے ان دونوں کو اگر کچھ دلچسپی تھی تو وہ شافعیہ کے ساتھ تھی ان دونوں کو تو یقین ہو گیا تھا کہ عبید عربی حشیش کے نشے سے ٹوٹا ہوا ہے اور یہ مشکوک آدمی ہے اب یہ معلوم کرنا تھا کہ اس کا تعلق حسن بن صباح کے ساتھ ہے یا نہیں لیکن شافعیہ نہیں مان رہی تھی ان دونوں نے گھر جاکر شافعیہ کو یقین دلانے کی کوشش کی بھی لیکن وہ نہیں مانتی تھی وہ روتی اور بری طرح تڑپتی تھی کہتی تھی مجھے سالار اوریزی تک لے چلو میں عبید کو قید خانے سے نکلوا لوں گی سالار اوریزی قلعے کا امیر بھی تھا وہ عبید عربی کو چھوڑ سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس ایسی شفارش نہیں کرنا چاہتے تھے وہ جانتے تھے کہ سالار اوریزی باطنیوں کے معاملے میں کس قدر حساس ہے اور انتقام سے بھرا ہوا ہے
اگلے روز شافعیہ کی جذباتی حالت بہت ہی بگڑ گئی اور اس نے رو رو کر برا حال کر لیا اس نے مزمل کو مجبور کر دیا کہ وہ آج بھی قید خانے میں جائے اور عبید عربی کو دیکھ کر آئے اور اسے بتائے کہ وہ کس حال میں ہے
مزمل چلا گیا اور عبید کو دیکھ آیا عبید کی حالت اب یہ تھی کہ اس کے ہاتھ پاؤں تو بندھے ہوئے تھے ماتھے سے خون رس رہا تھا اور وہ ایسی بری طرح چیخ اور چلا رہا تھا جیسے کسی کتے کو باندھ کر مارا پیٹا جارہا ہو
مزمل نے شافعیہ اور شمونہ کو عبید عربی کی یہ حالت بالکل ایسی ہی بتائی جیسی وہ دیکھ کر آیا تھا یہ سن کر شافعیہ کی حالت بھی ویسی ہی ہونے لگی شمونہ عورت تھی شافعیہ کی یہ حالت اسے برداشت نہ ہو سکی اور وہ رونے لگی مزمل نے کہا کہ چلو دونوں سالار اوریزی کے پاس چلتے ہیں
کیا سالار اوریزی اسے چھوڑ دے گا؟
شمونہ نے پوچھا
چھوڑے گا تو نہیں مزمل نے جواب دیا میں سالار اوریزی سے صرف یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ طبیب کو قید خانے میں بھیجے کہ وہ عبید عربی کو دیکھے اور کوشش کرے کہ اس کے ذہن سے نشے کا اثر اتر جائے اور وہ صحیح حالت میں آ جائے پھر اس سے پوچھیں گے کہ حشیش اس کے پاس کہاں سے آئی تھی بس یہی ایک صورت ہے کہ ہم عبید عربی کو بچا سکتے ہیں اگر وہ نہیں بتائے گا تو ہم بھی اس کی کوئی مدد نہیں کریں گے پھر تو ہم یہی سمجھیں گے کہ وہ حسن بن صباح کا آدمی ہے اس صورت میں اگر شافعیہ مر بھی گئی تو ہم پرواہ نہیں کریں گے
اس زمانے میں قیدی کے ساتھ کسی کو ذرا سی بھی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہوا کرتی تھی قید خانے میں قیدی مرتے ہی رہتے تھے قید خانے میں ڈالے جانے کا مطلب ہی یہی ہوتا تھا کہ یہ شخص بڑا خطرناک مجرم ہے اور یہ ذرا سے بھی رحم کا حقدار نہیں
مزمل اور شعمونہ سالار اوریزی کے پاس جا پہنچے انہوں نے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ شافعیہ بھی روتی رہی چلاتی وہاں پہنچ گئی دربان اسے اندر جانے سے روکتا تھا لیکن شافعیہ اسے دھکیلتی اور اس کا منہ نوچتی تھی آخر دربان نے اندر جا کر سالار اوریزی کو بتایا کہ ایک لڑکی باہر یوں واویلا بپا کیے ہوئے ہے اور روکے رکتی نہیں سالار اوریزی نے اسے بھی اندر بلا لیا
سالار اوریزی کو بتایا جا چکا تھا کہ ایک بڑھئی اور اس کا جوان سال بھتیجا حشیش کے ساتھ پکڑے گئے ہیں اور انہیں یہ حشیش باہر کا ایک آدمی دے کر غائب ہو گیا تھا سالار اوریزی نے حکم دے دیا تھا کہ یہ مرتے ہیں تو مر جائیں ان سے پوچھے کہ یہ کون لوگ ہیں ان کا تعلق باطنیوں کے ساتھ ضرور ہوگا اب مزمل اور شمونہ سالار اوریزی کو عبید عربی اور شافعیہ کی ملاقاتوں کا قصہ سنا رہے تھے شافعیہ اندر گئی تو اس نے اپنا واویلا بپا کر دیا وہ کہتی تھی عبید ایسا آدمی نہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے
سالار اوریزی شافعیہ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس لڑکی کے متعلق سب کچھ جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ یہ لڑکی کس طرح اس علاقے میں پہنچی تھی اور اس نے اور کیا کچھ کیا ہے لیکن اوریزی کسی مشکوک آدمی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا شافعیہ کی جذباتی حالت یہ تھی کہ اس نے عبید عربی کی رہائی کے خاطر آگے بڑھ کر اور اس کے پاؤں پکڑ لیے وہ کہتی تھی کہ اسے قید خانے میں جانے دیا جائے وہ عبید سے صحیح بات پوچھ لے گی اور وہ اسے بتا بھی دے گا
سالار اوریزی نے حکم دیا کے طبیب کو قید خانے میں بھیجا جائے کہ وہ عبید عربی کی مرہم پٹی کرے اور اگر کوئی دوائی کارگر ہو سکتی ہے تو وہ بھی دے اور شافعیہ کو بھی قید خانے میں جانے دیا جائے کہ یہ عبید کی حالت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے
طبیب اور شافعیہ قید خانے میں گئے مزمل اور شمونہ ان کے ساتھ تھے قید خانے کے دو سپاہی بھی ان کے ساتھ ہو لئے تاکہ عبید عربی کو قابو میں رکھا جائے
عبید کی حالت پہلے سے زیادہ بری اور قابل رحم ہو چکی تھی اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور وہ فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اور اس کے حلق سے بڑی ڈراؤنی آوازیں نکل رہی تھیں ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر سلاخوں والا دروازہ کھول دیا
شافعیہ دوڑ کر اندر چلی گئی کوٹھڑی میں ناقابل برداشت بدبو تھی عبید نے شافعیہ کو دیکھا تو رو رو کر اس کی منتیں کرنے لگا کہ انہیں کہو اسے کھول دیں اس نے چیخنا چلانا بند کر دیا وہ اب شافعیہ شافعیہ ہی کہے جا رہا تھا اس کے ماتھے سے خون بہہ بہہ کر اس کے چہرے پر جم گیا تھا شافعیہ نے فرش پر بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اسے اس طرح تسلی دلاسے دینے لگی جیسے ماں دودھ پیتے بچے کے ساتھ پیار کیا کرتی ہے
شافعیہ شافعیہ عبید عربی ہناپتی آواز میں کہہ رہا تھا مجھے پاگل ہونے سے بچا لو ان لوگوں سے مجھ بچالو اپنی پناہ میں لے لو مجھے شافعیہ! شافعیہ
طبیب عبید کی مرہم پٹی کرنا چاہتا تھا اور اسے کوئی دوائی بھی دے دی تھی لیکن شافعیہ کی وارفتگی اور دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے عبید کو اپنی گود میں اور زیادہ گھسیٹ لیا اور اپنا ایک گال اس کے چہرے پر رکھ دیا شافعیہ تو شاید بھول ہی گئی تھی کہ وہاں اس کے اور عبید کے سوا کوئی اور بھی موجود ہے
تم میری پناہ میں ہوں عبید! شافعیہ نے اس کے ساتھ پیار کرتے ہوئے کہا ہم دونوں اللہ کی پناہ میں ہیں تم پاگل نہیں ہوں گے اور یہ لوگ جو یہاں موجود ہیں تمہارے ہمدرد اور اور غمخوار ہیں زخم کی مرہم پٹی کرا لو پھر میں تمہارے پاس بیٹھو گی
نہیں! عبید عربی نے شافعیہ کا ایک بازو دونوں ہاتھ میں بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور بولا تم چلی جاؤ گی مجھے ان لوگوں کے حوالے کر کے نہ جانا یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے پانی پلاؤ شافعیہ پانی مجھے کچھ چاہئے پتا نہیں کیا چاہیے
شافعیہ نے اسے بٹھا کر اپنے ہاتھوں پانی پلایا پھر اپنے ہاتھوں اس کے چہرے سے خون دھو ڈالا اور پھر طبیب نے اس کی مرہم پٹی کردی اگر شافعیہ اسے مرہم پٹی کروانے کو نہ کہتی تو وہ طبیعت کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیتا عبید عربی کی ذہنی حالت بلکل بگڑ گئی تھی وہ بے معنی سی باتیں بھی کر جاتا تھا اور اس کی بعض باتیں تو تو پلّے ہی نہیں پڑتی تھیں اس کی زبان جیسے اکڑی ہوئی تھی جو صحیح الفاظ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھی
اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا خدا نے آدم کو جنت سے نکال دیا تھا اس نے یہ الفاظ اس طرح کہے تھے جیسے خواب میں بول رہا ہو شافعیہ کے سوا یہ الفاظ کوئی نہ سمجھ اور سن سکا
طبیب نے تھوڑے سے پانی میں ایک دوائی کے چند قطرے ڈال کر شافعیہ کو پیالہ دیا کہ اسے پلا دے شافعیہ کے ہاتھ سے اس نے یہ دوائی پی لی کچھ دیر انتظار کیا گیا تو دیکھا کہ عبید عربی پر خاموشی طاری ہوگئی تھی اور نیند سے اس کا سر ڈولنے لگا تھا یہ دوائی کا اثر تھا
ذرا ہی دیر بعد عبید عربی کی آنکھیں بند ہو گئی اور سر ڈھک گیا اسے فرش پر لیٹا دیا گیا طبیب نے اشارہ کیا کہ سب لوگ یہاں سے نکل چلیں شافعیہ وہاں سے اٹھتی نہیں تھی لیکن طبیب نے اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی سب باہر نکل آئے اور کوٹھڑی کا دروازہ پھر مقفل کر دیا گیا شافعیہ سلاخوں کو پکڑ کر وہیں کھڑے سوئے ہوئے عبید عربی کو دیکھتی رہی شمونہ نے اسے پکڑا اور ساتھ لے آئی یہ سب دروغہ کے ساتھ قید خانے کے دفتر میں جا بیٹھے
میں حیران ہوں محترم طبیب! دروغہ نے کہا کل یہی شخص سلاخوں کے ساتھ اپنا سر پھوڑ رہا تھا اگر ہم اسے باندھ نہ دیتے تو اب تک یہ زندہ نہ ہوتا میں حیران ہوں آج اس لڑکی کو دیکھ کر یہ قیدی آگ سے پانی بن گیا ہے
میں نے اسے بڑی ہی غور سے دیکھا ہے طبیب نے یوں بات کی جیسے قاضی فیصلہ سنا رہا ہو مجھے اس کے کل کے رویے کے متعلق کچھ بتایا دیا گیا تھا میں نے خود دیکھا ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ لگ کر وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا میں نے اسے جو دوائی دی ہے یہ صرف نیند کے لیے ہے میں اسے سلانا چاہتا ہوں تاکہ اس کا تھکا ٹوٹا ہوا ذہن ٹھکانے پر آجائے اسے علاج نہ سمجھا جائے میں نے اس کا علاج دیکھ لیا ہے یہ علاج صرف شافعیہ کے پاس ہے شافعیہ اس کے پاس آتی رہے تو یہ اپنی صحیح ذہنی حالت پر آ جائے گا یہ نشے سے ٹوٹا ہوا ہے اور خطرہ ہے کہ یہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے گا
طبیب نے تشخیص کرکے کچھ ہدایات دی اور زور دے کر کہا کہ اس قیدی کو شافعیہ کے ساتھ کچھ دن رکھا جائے یہ اپنے دل کی ڈھکی چھپی باتیں بھی شافعیہ کے آگے اُگل دے گا
قید خانے سے نکل کر یہ سب لوگ سالار اوریزی کے پاس گئے طبیب نے سالار اوریزی کو عبید عربی کے متعلق رپورٹ دی اور اسے بھی کہا کہ عبید کا علاج شافعیہ ہے
سالار محترم! شافعیہ نے کہا اگر آپ مجھے عبید کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیں تو کیا میں اس کے ساتھ قید خانے کی کوٹھری میں رہوں گی؟
میں اس کے ساتھ وہاں بھی رہنے کو تیار ہوں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے کسی اچھی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں میں اس کے ساتھ دلجمعی کے ساتھ رہ سکوں؟
میں پہلے جو بات نہیں مانتی تھی وہ اب مان لی ہے عبید نشے سے ٹوٹا ہوا ہے مجھے اس سے پہلے کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا کہ یہ کوئی نشہ کرتا ہے اگر آپ اس سے کچھ اور پوچھنا چاہتے ہیں تو وہ میں پوچھ لوں گی مجھے پورا یقین ہے کہ یہ باطنی نہیں
جذبات سے نکلو شافعیہ! سالار اوریزی نے کہا مجھے اب یقین ہونے لگا ہے کہ عبید اور یہ بڑھئی حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہیں مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ عبید تمہیں محبت کا دھوکا دے رہا ہے اور یہ لوگ تمہیں یہاں سے اڑا لے جائیں گے اور قلعہ الموت میں حسن بن صباح کے حوالے کر دیں گے یہ لوگ اتنے پکے ہوتے ہیں کہ بڑھئی نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا حالانکہ اسے ایسی اذیتیں دی گئیں ہیں جو ایک تندرست گھوڑا بھی شاید برداشت نہ کرسکے عبید ابھی کچا معلوم ہوتا ہے
شافعیہ نے سالار اوریزی کو کہا تھا کہ عبید کو کسی اچھی جگہ منتقل کر دیا جائے تو وہ اس سے اگلوا لے گی کہ وہ اصل میں کیا ہے کہاں سے آیا ہے اور کس ارادے سے آیا ہے اور اس بڑھئی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے سالار اوریزی کو تو اصل راز کی ضرورت تھی کسی کو اذیت میں ڈالنا ضروری نہیں تھا اس نے حکم دے دیا کہ عبید عربی کو کسی اچھی جگہ منتقل کردیا جائے یہ جگہ قید خانے کے باہر بھی ہوسکتی ہے اور وہاں پہرا کھڑا کر دیا جائے یعنی عبید کو قیدی قرار دے کر رکھا جائے اور شافعیہ جس وقت چاہے اور جتنی دیر تک چاہے اس کے پاس رہ سکتی ہے
عبید عربی کو اسی دن قلعے میں ایک کمرہ تیار کرکے بھیج دیا گیا اور باہر دو سپاہی پہرے پر کھڑے کر دیے گئے اس کمرے میں بڑا اچھا پلنگ اور نرم بستر تھا اور ضرورت کی دوسری چیزیں بھی وہاں موجود تھیں ایک ملازم بھی وہاں بھیج دیا گیا
اس رات شافعیہ عبید عربی کے کمرے میں آئی اور اس نے دیکھا کہ بہت دیر سوکر وہ کچھ سکون میں آگیا تھا اسے دراصل یہ تھوڑا سا سکون اس لیے ملا تھا کہ اسے قید خانے سے نکال دیا گیا تھا اور شافعیہ اس کے پاس تھی ویسے وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں لگتا تھا
شافعیہ اس کے پاس پلنگ پر اسی طرح بیٹھی جس طرح وہ سبزیوں کے باغ میں بیلوں اور پودوں کی اوٹ میں بیٹھا کرتے تھے اب اس کمرے میں جس کا دروازہ بند تھا اور کسی کے آنے کا خطرہ نہیں تھا شافعیہ نے اور زیادہ جذباتی مظاہرے کیے جن میں بناوٹ نہیں بلکہ اس کی روح شامل تھی عبید اس کے ساتھ اس طرح لگ کر بیٹھ گیا تھا جس طرح ڈرا سہما ہوا بچہ ماں کی آغوش کی پناہ میں جا دبکتا ہے اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ عبید عربی حشیش کے نشے سے ٹوٹا ہوا تھا جن فدائیوں کو باہر قتل یا کسی دوسری واردات کے لیے بھیجا جاتا تھا انہیں حشیش ملتی رہتی تھی اور وہ جیسا نشہ بھی طلب کرتے انہیں مل جاتا تھا لیکن وسم کوہ میں جیسا کہ سنایا جاچکا ہے سالار اوریزی نے حشیش اور دوسری منشی اشیاء کی بھی بندش لگا رکھی تھی
حشیش نہ ملنے کے اثرات تو دماغ پر بہت ہی برے ہوتے تھے لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ ایسا آدمی جو نشے سے ٹوٹا ہوا ہوتا تھا محض نشے کی خاطر راز اگل دیتا تھا عبید کو پاگل ہو جانا چاہیے تھا لیکن شافعیہ ایک ایسا نشہ تھا جس نے عبید کے دماغ سے حشیش نہ ملنے کے اثرات زائل کرنے شروع کر دیے
اس کے ساتھ طبیب کی دوائی کے اثرات بھی تھے طبیب اپنی دوائی کی خوراک کم کرتا جا رہا تھا اس سے عبید کو نیند کم آنے لگی تھی مختصر یہ کے شافعیہ کے والہانہ پیار نے اور طبیب کی دوائی نے عبید کو نشے کی طلب کی اذیت سے نکال لیا ایک روز شافعیہ پیار ہی پیار میں اسے اس بات پر لے آئی کہ وہ اپنا آپ بے نقاب کر دے
عبید عربی تو جیسے اسی انتظار میں تھا کہ شافعیہ اس سے یہ بات پوچھے اس نے بڑی لمبی کہانی شروع کر دی اس نے شافعیہ کو سنایا کہ جب شافعیہ اصفہان سے اپنے چچا ابو جندل کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی تو تھوڑا ہی عرصے بعد عبید اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک قافلے میں کہیں جا رہا تھا اس کا باپ تاجر تھا اور مال بیچنے اور خریدنے کے لئے جا رہا تھا پہلی بار وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا اس وقت عبید کا نام ناصر تھا اور یہی وہ نام تھا جو اس کے ماں باپ نے رکھا تھا
راستے میں قافلے پر لٹیروں نے حملہ کردیا عبید عربی نے سنایا کہ لٹیروں نے جہاں سب کچھ لوٹ لیا وہاں یہ ظلم بھی کیا کہ خوبصورت بچیوں اور جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے گئے اور ایک لٹیرے نے اسے بھی اٹھا لیا اسے ابھی تک یاد تھا کہ اس لٹیرے نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ بڑا ہی خوبصورت بچہ ہے اس وقت اس کی عمر بارہ تیرہ سال تھی عبید نے سنایا کہ اس کی ماں بھی اور اس کا باپ بھی لٹیرے کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے اس نے اپنے ماں باپ کو قتل ہوتے دیکھا تھا وہ تو رو رو کے بے ہوش ہو گیا تھا
لٹیروں نے اسے شاہ در پہنچا دیا شاہ در میں اس کی تربیت ہونے لگی اور وہ بڑا ہونے لگا جب اس کی عمر انیس بیس سال ھو گئی تو اسے قلعہ الموت بھیج دیا گیا وہاں اسے حسن بن صباح کو پیش کیا گیا جس نے اسے جنت میں داخل کر لیا اسے دوسروں کی طرح حشیش پلائی جاتی تھی اور وہاں بڑی خوبصورت لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ وہ رہتا اور عیش و تفریح کرتا تھا
اسے وہاں ہر عیش اور موج حاصل تھی لیکن پیار کہیں بھی نہیں تھا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ شیخ الجبل ایک دن اسے بلائے گا اور کہے گا کہ اپنا خنجر نکالو اور اپنے آپ کو قتل کر لو یہ مظاہرہ اس کے سامنے چند مرتبہ ہوا تھا اور ہر بار ایک فدائی اپنی ہی ہاتھوں ہلاک ہو جاتا تھا
عبید عربی کی شخصیت ہی بدل گئی اور وہ اس ذہنی مقام تک پہنچ گیا جہاں وہ خود چاہنے لگا کے شیخ الجبل اسے حکم دے کہ اپنا پیٹ چاک کر دو تو وہ اسے اپنا پیٹ چاک کرکے دیکھا دے پھر بھی پیار کی تشنگی پوری طرح ختم نہ ہوئی حسن بن صباح کی جنت میں ایک سے ایک حسین اور نوجوان لڑکی تھی لیکن وہ سب خوبصورت اور پرکشش جسم تھے ان کے اندر جیسے دل تھا ہی نہیں اور روح بھی نہیں تھی
آخر ایک روز اسے شیخ الجبل امام حسن بن صباح نے بلایا اور کہا کہ تم وسم کوہ جاؤ گے اور وہاں سپہ سالار اوریزی کو قتل کرنا ہے اور پھر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا بلکہ وہاں اپنے آپ کو اسی خنجر سے ہلاک کر لینا
وہ یہاں آیا یہ بڑھئی اس کا چچا بالکل نہیں لگتا بلکہ یہ اسی کام کے لئے یہاں موجود ہے کہ کوئی فدائی آئے تو اسے پناہ دی جائے اور یہاں کی خبریں الموت بھیجی جائیں اس نے سبزیوں کے باغ کے مالک کا نام بھی لیا اور کہا کہ وہ بھی حسن بن صباح کا آدمی ہے
عبید نے بتایا کہ وہ ابھی دیکھ رہا تھا کہ سالار اوریزی کو کس طرح اور کہاں قتل کیا جا سکتا ہے کہ اتنے میں اسے شافعیہ مل گئی اور شافعیہ سے اسے وہ پیار مل گیا جس کے لیے وہ مرا جا رہا تھا
بڑھئ اور سبزی والے کے پاس حشیش ختم ہوگئی انہوں نے عبید کو دوسرے نشے پلائے لیکن وہ حشیش ہی طلب کرتا تھا حشیش آئی اور پکڑی گئی اس سے جو حالت اس کی ہوئی وہ پہلے سنائی جا چکی ہے اس نے حیرت کا اظہار کیا کہ حشیش کے نشے سے وہ اس حد تک ٹوٹ گیا تھا کہ اس نے اپنا سر پھوڑ لیا تھا لیکن اس نے قید خانے میں شافعیہ کو دیکھا تو اسے ٹوٹنے کے اثرات کم ہو گئے دراصل پیار کی اثرات زیادہ زہریلے تھے شافعیہ نے والہانہ محبت کا مظاہرہ یہ کیا کہ اسے قید خانے سے نکلوا لیا اور اس کمرے میں لے آئی مختصر یہ کہ یہ حشیش پر شافعیہ کی والہانہ محبت غالب آگئی اور عبید نے اپنا یہ راز اگل کر یوں سکون محسوس کیا جیسے اسکے وجود میں زہر بھرا ہوا تھا اور یہ زہر نکل گیا ہو
میں اس گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں شافعیہ! عبید عربی نے کہا سپہ سالار اوریزی کو یہ ساری بات سنا دو اور اسے کہو کہ مجھے جو سزا دینا چاہے وہ میں ہنسی خوشی قبول کر لوں گا
سالار اوریزی نے اسے کوئی سزا نہ دی بڑھئی اور سبزیوں کے باغ کے مالک کو سر عام سزائے موت دی گئی ان کی لاشیں اور سر شہر سے دور جنگل میں پھینک دیئے گئے
حق و باطل کا تصادم اسی روز شروع ہو گیا تھا جس روز غار حرا سے نور حق کی کرنیں پوٹی تھیں حق و باطل کے لشکروں نے میدانوں اور صحراؤں میں خونریز لڑائیاں لڑیں دشت و جبل میں برسرپیکار ہوئے پہاڑوں دریاؤں اور سمندروں میں ان کے معرکے ہوئے اور ہوتے ہی چلے آ رہے تھے دونوں فریقوں کی فوج کے خون سے صحراؤں کے ریت اور سمندروں کا پانی لال ہو گیا مطلب یہ کہ حق و باطل جب بھی باہم متصادم ہوئے دُوبدو معرکہ آرا ہوئے لیکن حسن بن صباح اٹھا تو اس نے حق کے خلاف ایک ایسی جنگ شروع کردی جس کا حق پرستوں کے یہاں کوئی تصور ہی نہ تھا یہ ایک زمین دوز جنگ تھی یہ ساری داستان جو اب تک میں نے سنائی ہے ایسی ہی انوکھی جنگ کی داستان ہے یہاں اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں
اہلسنت حق پرستوں نے پہلے پہل اسی لیے بہت نقصان اٹھایا کہ وہ اس طریقہ جنگ سے واقف نہ تھے وہ تو مردان حُر تھے جو میدان میں اتر کر لڑا کرتے تھے یہ سنایا جاچکا ہے کہ کتنی اہم شخصیات باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے لیکن اب مسلمان اس طریقہ جنگ کو سمجھ گئے اور انھوں نے باطنیوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا شاہ در کی فتح تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل ثابت ہوئی یہ بھی سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کا قتل بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا مورخین لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح کو کہیں سے بھی اپنے فرقے کے نقصان کی کوئی خبر ملتی تھی تو وہ مسکرا دیا کرتا تھا جیسے اسے اس کی کوئی پرواہ نہ ہو اس کے قلعے لے لیے گئے تو بھی اس نے ہنس کر ٹال دیا مگر اب اس پر سنجیدگی طاری ہو گئی تھی
حسن بن صباح کا پیرومرشد تو مار آ ہی گیا تھا اور حسن بن صباح نے یہ انتہائی کڑوا گھونٹ بھی نگل لیا تھا لیکن عبدالملک اس کے سامنے ایک اور مسئلہ رکھ گیا تھا وہ یہ کہ اس نے قلعہ ناظروطبس میں حسن بن صباح سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اس نے شاہ در سے کچھ دور اچھا خاصا خزانہ چھپا کر رکھا ہوا ہے جسے وہ بوقت ضرورت استعمال کرے گا اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے علاوہ صرف دو آدمی ہیں جو جانتے ہیں کہ یہ خزانہ کہاں ہے
عبدالملک نے یہ بات کیوں کی تھی جیسے اسے یقین تھا کہ اس نے تو مرنا ہے ہی نہیں وہ یہ خزانہ پیچھے چھوڑ کر دنیا سے اٹھ گیا یا اٹھا دیا گیا اس نے حسن بن صباح کو یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ خزانہ کہاں ہے یہی بتایا تھا کہ دو آدمی جانتے ہیں لیکن اس نے ان دو آدمیوں کے نام نہیں بتائے تھے نہ یہ بتایا کہ وہ کہاں ہے حسن بن صباح کو تو خزانے کی ضرورت ہر وقت رہتی تھی ضرورت نہ بھی ہوتی تو بھی اس کی فطرت خزانوں کی متلاشی رہتی تھی وہ اب اس سوچ میں گم رہنے لگا کہ اپنے پیر و مرشد کا یہ خزانہ کس طرح ڈھونڈے اور وہ جانتا تھا کہ جب تک ان دو آدمیوں کا اتا پتہ نہ ملے خزانہ نہیں مل سکے گا
عبدالملک حسن بن صباح کے آگے ایک اور مسئلہ رکھ گیا تھا اس نے کہا تھا کہ ہم لوگ چوری چھپے قتل کرانا جانتے ہیں اور ہمارے پاس ایسے فدائی موجود ہیں جو قتل کر کے خودکشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے قاتل فوجوں کی یلغار کو نہیں روک سکتے نہ ہی وہ محاصرے کو توڑتے ہیں اس کے لیے باقاعدہ فوج کی ضرورت ہے اور اس فوج کو محاصرہ توڑنے کی اور محاصرہ کرنے کی اور میدان میں لڑنے کی تربیت دی جائے اس نے حسن بن صباح سے یہ بھی کہا تھا کہ جن سلجوقیوں شاہ در لے لیا ہے وہ اب سیدھے الموت پر آئیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہ الموت کو بھی فتح کر لیں حسن بن صباح نے اس تجویز پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا تھا اس نے اپنے مشیروں کو بتا دیا تھا کہ وہ ایک لشکر تیار کر لیں اور پھر اس کی تربیت کا بندوبست کیا جائے
جس طرح اللہ تبارک و تعالی نے کفار کو شکست دینے کے لیے ابابیلیں بھیجی تھیں جن کی چوچوں میں کنکریاں تھیں اسی طرح حسن بن صباح کے فرقے کے خاتمے کے لئے خداوند تعالی نے کنکریاں والی ابابیلوں کا ہی بندوبست کردیا یہ اللہ کی مدد کی تھی اور اللہ حق پرستوں کو کچھ عرصہ آزمائش میں ڈال کر ان کی مدد کا بندوبست کر ہی دیا کرتا ہے ورنہ شافعیہ جیسی حسین و جمیل اور مصیبت زدہ لڑکی ایسے باطنیوں کی ہلاکت کا باعث نہ بنتی جو سالار اوریزی کو قتل کرنے آئے تھے اور وسم کوہ میں رہ کر نہ جانے اور کتنی اور کیسی تباہی لاتے ایسا دوسرا کردار جو تاریخ کے اس باب میں ابھرا وہ نور تھی اور اس کے ساتھ اس کا باپ تھا
شافعیہ کی طرح نور بھی حسین و جمیل اور جوان سال لڑکی تھی اس کی داستان سنائی جا چکی ہے یہ کہنا غلط نہیں کہ شاہ در کی فتح کا باعث اس کا باپ بنا تھا اور وہ خود بھی اب وہ مرو میں سلطان کے محل میں تھی سلطان محمد نے اسے اور اس کے باپ کو خاصا انعام و اکرام دیا تھا اور دونوں کو محل میں رہنے کے لیے جگہ دے دی تھی
نور اب آزاد تھی حسین بھی تھی جوان بھی تھی اسے اب زندگی سے لطف اٹھانا چاہیے تھا اور یہ اس کا حق بھی تھا اس پر جو گزری تھی وہ بڑا ہی دردناک حادثہ تھا اسے ایک بوڑھے نے زبردستی اپنی بیوی بنا لیا تھا لیکن اس کی حیثیت ایک زرخرید لونڈی جیسی تھی وہ تو جہنم سے نکل کر جنت میں آئی تھی اب اس پر کوئی پابندی نہیں تھی وہ اپنی پسند کا کوئی آدمی دیکھ کر اس کے ساتھ شادی کر سکتی تھی ایک سے بڑھ کر ایک امیر زادہ اس کی راہ میں آنکھیں بچھانے کو بیتاب تھا لیکن اس کی اپنی بے تابیاں کچھ اور ہی نوعیت کی تھی اس کے اندر انتقام کی آگ جل رہی تھی بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ کسی سوچ میں کھو جاتی اور اچانک پھٹ پڑتی اور باپ سے کہتی تھی کہ وہ کچھ کرنا چاہتی ہے وہ اس پر مطمئن نہیں تھی کہ اس کا خاوند سزائے موت پا گیا ہے اور عبدالملک بن عطاش بھی جہنم واصل ہو چکا ہے اور ان کا انتہائی مضبوط اڈہ جسے شاہ در کہتے تھے حق پرستوں کے قبضے میں آگیا ہے انتقام کا جذبہ اسے بحال کئے جا رہا تھا
باپ اسے ٹھنڈا کرانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ اب اس کی شادی کسی موزوں آدمی کے ساتھ ہو جائے اور وہ اپنے اس فرض سے سبکدوش ہوکر باقی عمر اللہ اللہ کرتے گزارے نور کہتی تھی کہ شادی تو اسے کرنی ہی ہے لیکن وہ باطنیوں کے خلاف کچھ کیے بغیر کسی کی بیوی بننا پسند نہیں کرتی
ایسی ہی باتیں کرتے کرتے ایک روز نور نے باپ سے کہا کہ وہ شاہ در جا کر آباد ہو جائیں اور شاید اسے چین آ جائے اس کا یہ خیال اچھا تھا جس شاہ در میں وہ زرخرید بیوی یا لونڈی تھی اس شاہ در میں جاکر وہ آزادی سے گھومنا پھیرنا چاہتی تھی اس کے باپ نے اپنی کوئی رائے ضرور دی ہوگی لیکن نور فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ باپ کو ساتھ لے کر شاہ در چلی جائے گی اور باقی عمر وہیں گزارے گی ایک روز اس نے اپنے باپ کو مجبور کر دیا کہ وہ سلطان کے پاس جائے اور اسے کہے کہ وہ انہیں شاہ در پہنچانے کا بندوبست کر دے اور وہاں ان کا کوئی ذریعہ معاش بھی ہو جائے تو وہ باقی عمر وہیں گزاریں گے
اس کا باپ سلطان محمد کے پاس گیا اور عرض کی کہ وہ اسی طرح سلطان کے محل میں سرکاری ٹکڑوں پر زندہ نہیں رہنا چاہتے کیونکہ یہ ان کے وقار کے خلاف ہے باپ نے کہا کہ وہ کوئی ایسا بوڑھا تو نہیں ہوگیا کہ اپنے ہاتھوں کچھ کما نہ سکے وہ شاہ در کو ہی موزوں سمجھتا ہے جہاں وہ اپنی روزی خود کمائے گا
سلطان محمد نے اسی وقت حکم دے دیا کہ نور اور اس کے باپ کو شاہ در پہنچا دیا جائے اور سنجر کو یہ پیغام دیا جائے کہ اس باپ بیٹی کو اتنی زمین دے دی جائے جو انہیں باعزت روٹی بھی دے اور معاشرے پر وقار مقام بھی بن جائے اس طرح کچھ دنوں بعد نور اور اس کا باپ شاہ در پہنچ گئے انہیں سرکاری انتظامات کے تحت گھوڑا گاڑی میں وہاں تک پہنچایا گیا تھا سنجر کو سلطان کا حکم دیا گیا کہ انہیں زمین اور مکان فوراً دے دیا جائے سنجر تو ان پر بہت ہی خوش تھا نور باپ نے جو کارنامہ کر دکھایا تھا اس کی قیمت تو دی ہی نہیں جا سکتی تھی سنجر نے انہیں ایک تو بڑا ہی اچھا مکان دے دیا اور پھر قلعے کے باہر اچھی خاصی زرخیز زمین بھی دے دی کچھ مالی امداد بھی دی تھی تاکہ یہ اپنی زمین کی کاشت شروع کر سکیں
باپ بیٹی اس مکان میں آباد ہو گئے اور پھر باپ نے ایسے نوکروں کا انتظام کرلیا جن کا پیشہ کاشتکاری تھا
نور اس محل میں گئی جہاں عبدالمالک اور اس کا بھائی احمد شہنشاہوں کی طرح رہتے تھے وہ جب اس محل میں داخل ہوئی تو اس کا دم گھٹنے لگا وہ یوں محسوس کرنے لگی جیسے اس کا خاوند یہیں ہے اور جونہی وہ اندر داخل ہوئی خاوند اسے دبوچ لے گا لیکن جب وہ اس محل میں داخل ہوئی تو سنجر کی دونوں بیویوں نے اس کا استقبال بڑے ہی پیار اور خلوص کے ساتھ کیا وہ جانتی تھیں کہ اس لڑکی اور اس کے باپ نے شاہ در کی فتح میں کیا کردار ادا کیا ہے نور نے وہ کمرہ دیکھا جس میں وہ اپنے بوڑھے خاوند کے ساتھ راتیں بسر کرتی تھی اب اس کمرے میں کوئی پلنگ نہیں تھا نہ اس وقت کی کوئی چیز موجود تھی وہاں سنجر کے تین بچے اتالیق سے دینی تعلیم لے رہے تھے نور کو روحانی تسکین ہوئی اس کی ذات میں انتقام کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ کچھ سرد ہو گئی
اس کا باپ علی الصبح اپنی زمین پر چلا جاتا اور نوکروں سے کام کروایا کرتا تھا انہیں کچھ کھیتیاں تو ایسی مل گئی تھیں جن میں فصل پک رہی تھی نور اپنے لیے اور باپ کے لیے کھانا تیار کرکے وہی کھیتوں میں لے جایا کرتی تھی باپ اسے کہتا تھا کہ کھانا نوکر لے آیا کرے گا لیکن نور آزاد گھومنا پھرنا چاہتی تھی اور اسے یہ کھیت جو قلعے کے باہر تھے بڑے ہی اچھے لگتے تھے یہ اس کی نئی زندگی کا آغاز تھا
ایک روز دوپہر کے وقت باپ کے ساتھ کھانا کھا کر نور کھیتوں کی طرف نکل گئی فصل کی ہریالی سمندر کی لہروں جیسی لگتی تھی ہوا کے جھونکوں سے لہلہاتے کھیت اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری کرنے لگے وہ دو کھیتوں کے درمیان آہستہ آہستہ چلی جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک جوان سال آدمی آتا نظر آیا اس شخص کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر لگتی تھی بڑا ہی خوبرو جوان تھا دور سے ہی نور کو اس کا چہرہ شناس اور مانوس سا لگا وہ آدمی بھی نور کو دیکھ کر کچھ ٹھٹھک سا گیا اور پھر اس نے اپنے قدم تیز کر لئے اسے بھی نور کا چہرہ ایسا لگا جیسے یہ چہرہ اس نے کئی بار دیکھا ہوگا وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے اور پھر دونوں کے قدم تیز ہو گئے اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے رک گئے اللہ کرے وہ خبر غلط ہو جو میں نے سنی ہے اس آدمی نے کہا سنا تھا آپ بیوہ ہو گئی ہیں اور عبدالملک بن عطاش بھی قتل کر دیا گیا ہے اور تم نے جو سنا ہے وہ ٹھیک سنا ہے نور نے مسکرا کر کہا اب یہ نہ کہنا کہ تمہیں یہ خبر سن کر دلی رنج ہوا ہے مجھے ذرا سا بھی رنج اور ملال نہیں ہوا اور میں اب آزاد اور خوش ہوں مجھے تمہارا نام یاد ہے حاذق ہے نا تمہارا نام؟
اب مجھے آپ نہ کہنا میں تم سے تین چار برس چھوٹی ہوں اور مجھے تم کہو تو زیادہ اچھا لگے گا
اس آدمی کا نام حاذق ہی تھا وہ شاہ در کا ہی رہنے والا تھا نور کو تو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ شخص کیا کام کرتا ہے وہ اتنا ہی جانتی تھی کہ شاہ در کے محاصرے سے پہلے اونچی حیثیت کا آدمی تھا تیسرے چوتھے روز عبدالملک سے ملنے آیا کرتا تھا نور کے خاوند سے بھی بڑے پیار اور دوستانہ انداز سے ملا کرتا تھا اور خاصا وقت ان کے پاس اندرونی کمرے میں بیٹھا رہتا تھا اس محل میں حاذق کو خصوصی احترام حاصل تھا کبھی نور سے اس کا آمنا سامنا ہو جاتا تو نور کو وہ مسکرا کر اور بڑے ادب و احترام سے سلام کیا کرتا تھا
نور کو یہ شخص دلی طور پر اچھا لگتا تھا لیکن اس کے ساتھ اس سے بات کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا صرف مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا تھا اونچی حیثیت کا ہونے کے علاوہ یہ شخص خوبرو تھا دراز قد تھا اور قد کاٹھ میں اتنی جاذبیت تھی کہ عورتیں اسے رک کر دیکھتی تھیں تب نور کے دل میں ایک خواہش سر اٹھانے لگی کہ اس شخص کو کسی دن روک لے اور اپنے کمرے میں بٹھائے اور اس کے ساتھ باتیں کرے یہ ضروری نہیں تھا کہ حاذق اسے بہت ہی اچھا لگتا تھا یہ دراصل اس کا نفسیاتی اور جذباتی معاملہ تھا وہ حاذق کو اپنے بوڑھے خاوند کے مقابلے میں دیکھتی تھی باہر کا کوئی اور آدمی تو اس محل میں جا ہی نہیں سکتا تھا یہ واحد آدمی تھا جو وہاں جاتا تھا اور اسے محل میں خصوصی پوزیشن حاصل تھی دوسری بات یہ تھی کہ نور کے دل میں اپنے خاوند کے خلاف انتقامی جذبہ بھی پرورش پا رہا تھا نور حاذق کو دیکھ کر مسکرا اٹھتی تھی اس مسکراہٹ میں صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافر کی پیاس تھی اور اس مسکراہٹ میں پنجرے میں بند پنچھی کی تڑپ تھی اس کو اس بے ساختہ مسکراہٹ میں بیڑیوں میں جکڑی ہوئی لونڈی کی آہیں اور فریادیں تھیں نور پر پابندیاں ایسی لگی ہوئی تھیں کہ وہ حاذق کو روک نہیں سکتی تھی لیکن اس کی مسکراہٹوں کو تو بیڑیاں نہیں ڈالی جاسکتی تھیں حاذق اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا تو اس کا دل ڈوبنے لگتا تھا
اب وہ حاذق اس کے سامنے کھیتوں میں کھڑا تھا نور نے پہلے تو کچھ یوں محسوس کیا جیسے وہ حاذق کو خواب میں دیکھ رہی ہو یا یہ اس کا تصور ہو لیکن جب باتیں ہوئیں تو حاذق اس کے سامنے حقیقی روپ میں آ گیا اب نور آزاد تھی شاید اسی لیے وہ پہلے سے زیادہ حسین لگتی تھی اس کے چہرے پر اداسی اور مظلومیت کے تاثرات نہیں تھے جو اس کے چہرے پر چپکے رہ گئے تھے اس کی بیڑیاں ٹوٹ چکی تھیں شاہ در کی دنیا ہی بدل گئی تھی عبدالملک کا محل تو وہی تھا لیکن اب اس میں وہ نحوست اور ابلیسیت نہیں تھی اب نور کے اور حاذق کے درمیان کچھ بھی کوئی بھی انسان حائل نہیں ہو سکتا تھا
میرا خیال تھا تم یہاں نہیں ہو گے نور نے حاذق سے کہا اور بے اختیار اسکا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا
مجھے جانا ہی کہا تھا حاذق نے نور کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا یہ لوگ حسن بن صباح کے فرقے کے تھے اور میں اہل سنت ہوں اور پکا مومن ہوں میں نے تو اللہ کا شکر ادا کیا ہے کہ ان کا تختہ الٹ گیا ہے اور اسلام ایک بار پھر شاہ در میں داخل ہوگیا ہے
کیا تم شہر میں رہتے ہو؟
نور نے پوچھا
نہیں! حاذق اپنے ایک گاؤں کی طرف اشارہ کر کے کہا میں اس گاؤں میں رہتا ہوں اکیلا ہی رہتا ہوں
اکیلا کیوں؟
نور نے پوچھا
بیوی دھوکا دی گئی ہے حاذق نے جواب دیا الموت بھاگ گئی ہے وہ باطنیوں کے جال میں آ گئی تھی یہ مجھے بعد میں پتہ چلا مجھے اس کا کوئی غم نہیں وہ ایک ابلیس کی مرید تھی اچھا ہوا اسی کے پاس چلی گئی ہے اور میں دھوکے اور فریب سے محفوظ ہو گیا ہوں
نور نے حاذق کو بتایا کہ یہ اتنی زیادہ زمین اور کھیتیاں اسے اور اس کے باپ کو سلطان نے عطا کی ہیں اور شہر میں بڑا ہی اچھا اور کشادہ مکان بھی دیا ہے
حاذق نے اسے بتایا کہ اس کے آگے گاؤں کے ارد گرد تمام کھیتیاں اس کی ہیں اور ان کھیتوں نے اسے اچھی خاصی دولت دی ہے اور شہر میں عزت بھی دی ہے
آؤ میں تمہیں اپنے باپ سے ملواؤں نور نے کہا اور حاذق کا بازو پکڑ کر اس کی طرف چل پڑی جہاں اس کا باپ کام کروا رہا تھا
نور کے باپ نے دیکھا کہ اس کی بیٹی ایک آدمی کو اپنے ساتھ لا رہی ہے تو وہ اس کی طرف چل پڑا ذرا قریب گیا تو اس کے قدم رکنے لگے کیونکہ وہ حاذق کو پہچانتا ہی نہیں بلکہ جانتا بھی تھا نور کا باپ عبدالملک کا قابل اعتماد خادم بنا ہوا تھا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:47 }
نور کے باپ نے دیکھا کہ اس کی بیٹی ایک آدمی کو اپنے ساتھ لا رہی ہے تو وہ اس کی طرف چل پڑا ذرا قریب گیا تو اس کے قدم رکنے لگے کیونکہ وہ حاذق کو پہچانتا ہی نہیں بلکہ جانتا بھی تھا نور کا باپ عبدالملک کا قابل اعتماد خادم بنا ہوا تھا کئی بار حاذق عبدالملک کے پاس نور کے باپ کی موجودگی میں آیا اور ان کی باتیں نور کے باپ نے بھی سنیں اس کی نگاہ میں حاذق باطنی تھا اور عبدالملک کا بڑا ہی پکا اور برخودار مرید تھا اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ حاذق حسن بن صباح کے فرقے کا خاص آدمی تھا
حاذق نے آگے بڑھ کر نور کے باپ سے مصافحہ کیا اور پھر اس کے ساتھ بغلگیر ہو گیا لیکن جس وارفتگی کا مظاہرہ اس نے کیا تھا اتنی ہی سرد مہری کا مظاہرہ نور کے باپ نے کیا میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم باطنی نہیں ہو؟
نور کے باپ نے پوچھا
کیا یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ ہے حاذق نے جاں فضا مسکراہٹ سے جواب دیا میرا یہاں موجود ہونا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ میں پکا مسلمان ہوں اور ان باطنیوں کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں میں نور کو بتا چکا ہوں کہ میری بیوی باطنی تھی اور وہ مجھے دھوکا دے کر بھاگ گئی ہے میں پہلے ہی جان نہ سکا کہ وہ ان شیطانوں کے چنگل میں آئی ہوئی ہے آپ نے مجھ پر بجا طور پر شک کیا ہے عبدالمالک اور اس کے بھائی اور بیٹے کو میں نے اپنا دوست بنا رکھا تھا یہ محض ایک فریب تھا وہ دیکھیں میری کھیتیاں کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں اگر میں ان لوگوں کے ساتھ بگاڑ کر رکھتا تو وہ مجھے قتل کر کے میری اتنی وسیع و عریض جائیداد پر قبضہ کر لیتے میں اپنی اس جائیداد کو اور اپنی حیثیت کو بچانے کی خاطر ان کے سامنے باطنی بنا رہا اور گھر میں باقاعدہ صوم و صلاۃ کی پابندی کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ میں سر اونچا کرکے اور سینہ تان کر اس شہر میں گھومتا پھرتا ہوں اگر میں باطنی ہوتا تو میں پہلی صف کا باطنی ہوتا میری کاروائیاں بڑی ہی تباہ کن ہوتیں لیکن یہاں مجھے جاننے والے جو لوگ ہیں ان سے پوچھو وہ تمہیں بتائیں گے کہ میں نے کوئی ایسی حرکت یا کوئی ایسی بات کی ہو عبدالملک بڑا استاد بنا پھرتا تھا لیکن میں اسے بے وقوف بناتا رہا اور اسے اپنی مٹھی میں بند رکھا اس کے قتل کی خوشی جتنی مجھے ہوئی ہے وہ شاید کسی اور کو نہیں ہوگی اللہ نے اس خاندان پر قہر نازل کیا اور پورا خاندان ہی ختم ہو گیا
حاذق نے اور بھی بہت سی باتیں کہہ سنا کر ثابت کر دیا کہ وہ حسن بن صباح کا پیروکار نہیں بلکہ مرد مومن ہے اور اب اسلام کے فروغ اور اس عظیم دین کی بقاء کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے وہ جب وہاں سے رخصت ہوا تو نور بڑی بے تابی سے کچھ دور تک اس کے ساتھ گئی اور چلتے چلتے اس سے پوچھا کہ وہ اسے کب اور کہاں ملے گا
حاذق نے اسے بتایا کہ کل وہ شہر میں جو باغ ہے اسے وہاں ملے گا اس نے وقت بھی بتا دیا اور باغ کا ایک خاص گوشہ بھی شہر کے اندر یہ بڑا ہی خوبصورت باغ تھا جہاں اچھی حیثیت کے لوگ سیر سپاٹے کے لئے جایا کرتے تھے
حاذق چلا گیا اور نور نے یوں محسوس کیا جیسے اس کا چین اور سکون حاذق کے ساتھ ہی چلا گیا ہو اس نے اپنے آپ پر قابو پا لیا ورنہ اس کے قدم حاذق کے پیچھے ہی اٹھ چلے تھے وہ وہیں کھڑی حاذق کو جاتا دیکھتی رہی اگر باپ اسے آواز نہ دیتا تو وہ حاذق کو دیکھتی ہی رہتی
نور اپنے باپ کے پاس پہنچی تو باپ سے یہ نہ پوچھا کہ اس نے کیوں بلایا ہے بلکہ اس کے ساتھ حاذق کی ہی بات چھیڑ دی وہ باپ سے منوانا چاہتی تھی کہ حاذق باطنی نہیں اور یہ پکا مسلمان ہے نور کے باپ کو مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی وہ پہلے ہی نہ صرف یہ کہ قائل ہو چکا تھا بلکہ وہ حاذق کا گرویدہ بن گیا تھا یہ حاذق کی زبان کا جادو تھا جو باپ بیٹی پر اثر کر گیا تھا اس کے بولنے کا انداز بڑا ہی پیارا اور اثر انگیز تھا
اتنی بڑی حیثیت کا آدمی اکیلا رہتا ہے نور نے کہا اس کی زمینیں دیکھو کتنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں
میں تمہاری بات سمجھتا ہوں نور! نور کے باپ نے کہا میں جانتا ہوں تم نے کیا سوچ کر یہ بات کہی ہے لیکن کسی سے متاثر ہو کر فورا ہی اپنی آئندہ زندگی کے متعلق کوئی فیصلہ کر لینا اچھا نہیں ہوتا میں تمہارے متعلق ہی سوچتا رہتا ہوں یہ اب مجھے سوچنے دو کہ تمہارے لئے حاذق کا انتخاب کروں یا اور انتظار کرلوں
نور تو اپنی زندگی کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن ابھی اس نے باپ کے ساتھ کھل کر بات نہ کی
وسم کوہ میں سالار اوریزی نے یہ جو تجربہ کیا تھا کہ حشیش کا داخلہ شہر میں بند کر دیا جائے اور تاجروں کا سامان کھول کر دیکھا جائے پوری طرح کامیاب رہا تھا اس کی کامیابی کا ایک واقعہ سنایا جاچکا ہے اس نے دوسرا تجربہ یہ کیا تھا کہ کوئی شخص اس کے قریب نہ آئے اگر کسی کا اس کے قریب آنا بہت ہی ضروری ہوتا تو اس شخص کی پوری طرح جامہ تلاشی لی جاتی تھی سالار اوریزی نے سنجر کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ بھی شاہ در میں بھی یہی طریقہ اختیار کرے شاہ در ایک بڑا شہر تھا اور بڑی منڈی بھی تھی اور یہاں سے اناج دوسرے مقامات کو جاتا تھا سالار اوریزی نے سنجر کو تفصیلی پیغام بھیجا کہ وہ تاجروں کا سارا سامان کھول کر دیکھا کرے اور ایسا انتظام کرے کہ شہر کے اندر جو سامان لایا جائے خواہ وہ چھوٹی سی پوٹلی کیوں نہ ہو کھول کر دیکھی جائے
سالار اوریزی نے دوسرا طریقہ یہ پیغام میں شامل کیا کہ سنجر کسی بھی آدمی کو خواہ وہ غریب ہو یا امیر اپنی قریب نہ آنے دے اور کسی کا آنا ضروری ہی ہو تو اس کی جامہ تلاشی لی جائے
جس وقت سالار اوریزی کا قاصد سنجر کے پاس بیٹھا یہ پیغام دے رہا تھا اس وقت نور شہر کے سب سے بڑے اور بڑے ہی خوبصورت باغ میں حاذق کے پاس ایک ایسے گوشے میں بیٹھی تھی جہاں انہیں ٹھنڈی ہواؤں کے سوا کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا نور بالکل اسی طرح حاذق میں جذب ہوگئی تھی جس طرح شافعیہ نے اپنے آپ کو عبید عربی کی ذات میں تحلیل کر لیا تھا یہ صرف محبت نہیں بلکہ عشق کی دیوانگی تھی نور پر تو اس صحرا نورد کی کیفیت طاری تھی جو بھٹک بھٹک کر پیاس سے مرتا کرتا اور اپنے آپ کو گھسیٹتا ایک نخلستان میں پہنچ گیا ہوں اور اس نے فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ باقی عمر اسی نخلستان میں گزار دے گا وہاں ٹھنڈا پانی تھا اور گھنے پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں کی
اس کے بعد نور کی زندگی ایک بڑے ہی حسین خواب کی طرح گزرنے لگی نور نے حاذق کو بتا دیا تھا کہ اس کا باپ علی الصبح نکل جاتا ہے اور وہ گھر میں دوپہر تک اکیلی ہوتی ہے حاذق نے نور کو اپنے ایک دوست کا گھر بتا دیا تھا جو اکیلا رہتا تھا پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا کہ حاذق کبھی نور کے گھر آ جاتا اور کبھی نور حاذق کے دوست کے گھر میں چلی جاتی اور وہ بہت دیر تک اس طرح بیٹھے رہتے تھے جیسے ان کے جسم ایک ہو گئے ہوں حاذق نے نور کو تو جیسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا حقیقت یہ تھی کہ نور ہپنا ٹائز ہونا چاہتی تھی اس پر خود سپردگی کی کیفیت طاری رہتی تھی
اس کے ساتھ ہی حاذق تقریبا ہر روز نور کے باپ سے ملتا تھا اور اس کی زمینوں میں عملی دلچسپی لیتا تھا وہ اس طرح کہ اس نے نور کے باپ کے نوکروں کے ساتھ اپنے مزارعے بھی لگا دیئے نور کا باپ کاشتکاری سے واقف نہیں تھا حاذق نے اس کا یہ کام آسان کردیا نور کے باپ نے دو تین مرتبہ حاذق کو شام کے کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا یہ باپ اپنی بیٹی کی جذباتی حالت بھی دیکھ رہا تھا اور حاذق کی نیت کو اور خلوص کو بھی دیکھ رہا تھا جس میں سے کوئی شک شبہے والی بات نظر نہیں آتی تھی
ایک روز حاذق نے نور کے باپ سے نور کو مانگ ہی لیا نور کا باپ اسی کا منتظر تھا حاذق کے منہ سے بات نکلی ہی تھی کہ نور کے باپ نے بصد خوشی ہاں کر دی
اب شادی کا دن مقرر کرنا تھا یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا کسی دن بھی یہ بات ہو سکتی تھی شام گہری ہوئی ہی تھی کہ حاذق کے گھر ایک گھوڑسوار بڑے لمبے سفر سے آیا حاذق اٹھ کر اور بازو پھیلا کر اس سے بغلگیر ہو کر ملا یہ سوار الموت سے آیا تھا اور حسن بن صباح کا ایک پیغام لایا تھا حاذق نے اپنے نوکر سے کہا کہ وہ ٹھنڈا مشروب لائے لیکن سوار نے کہا کہ پہلے وہ پیغام سن لے کھانا پینا بعد کی بات ہے
حاذق بھائی! سوار نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ شیخ الجبل کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش قتل ہوچکے ہیں یہ جو انقلاب آیا ہے اس سے تو واقف ہو
اس کے متعلق بات کرنا بیکار ہے شیخ الجبل امام حسن بن صباح کو ایک اور غم کھا رہا ہے اس کے پیرو مرشد نے اسے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک خزانہ چھپایا تھا وہ جگہ کسی کو معلوم نہیں امام نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ شاہ در میں وہ آدمی ہیں جو اس خزانے سے واقف ہیں خزانہ ایسی چیز ہے کہ بھائی اپنے بھائی کا گلا کاٹ دیتا ہے خطرہ یہ ہے کہ وہ دو آدمی خزانے پر ہاتھ صاف کر جائیں گے امام نے تمہارے لیے پیغام بھیجا ہے کہ پہلے ان دو آدمیوں کا سراغ لگاؤ یہاں کے معاملات تمہارے ہاتھ میں ہیں اپنے تمام آدمیوں کو تم جانتے ہو شیخ الجبل امام حسن بن صباح کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ جب ہمارے لوگ شاہ در سے بھاگے تھے تو وہ دو آدمی بھی بھاگ گئے ہونگے اگر ایسا ہے تو پھر اس خزانے کو ذہن سے اتار دینا چاہیے
عمار بھائی! حاذق نے حسن بن صباح کے اس قاصد سے کہا تم شاید نہیں جانتے کہ میں امام حسن بن صباح کا کس قدر شیدائی اور گرویدہ ہوں یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں اس کی عظیم ذات کو دھوکا دوں گا خزانے سے جو دو آدمیوں واقف ہیں ان میں ایک تو میں ہوں اور دوسرا شاہ در کے اندر رہتا ہے وہ بھی دھوکا دینے والا آدمی نہیں ہم دونوں یہاں اسی لئے ٹھہرے ہوئے ہیں کہ امام کا حکم آئے اور ہم یہ خزانہ نکال کر اس کے قدموں میں رکھ دیں اگر کچھ دن اور امام کا حکم نہ آتا تو میں خود الموت پہنچ جاتا اور امام کو اس خزانے کے متعلق بتا دیتا
تو اب میں امام کو جا کر کیا جواب دوں؟
عمار نے پوچھا
کہنا کے خزانہ کچھ دنوں تک الموت پہنچ جائے گا حاذق نے جواب دیا تم کل صبح ہی واپسی سفر پر روانہ ہو جانا
شیخ الجبل امام نے مجھے ایک اور بات بھی کہی تھی عمار نے کہا اس نے کہا تھا کہ تمہیں یا کسی اور کو میری ضرورت ہو تو میں یہاں رکا رہوں
نہیں! حاذق نے کہا تم چلے جاؤ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہم دو آدمی کافی ہیں میں امام کے لئے ایک حور بھی لا رہا ہوں
کون ہے وہ ؟
عمار نے پوچھا کہاں سے ملی ہے شاہ در کے امیر احمد بن عطاش کی نوجوان بیوی تھی حاذق نے جواب دیا ہمہارے ہاتھوں سے شاہ در جو نکلا ہے اس کے پیچھے اسی لڑکی اور اس کے باپ کا ہاتھ تھا لیکن عمار بھائی ایک مشورہ دو مجھے پہلی بار کسی لڑکی کے ساتھ دلی بلکہ روحانی محبت ہوئی ہے اپنی جنت کی حوروں کے ساتھ بھی وقت گزارا ہے اور زندگی میں چند اور لڑکیاں بھی آئی ہیں لیکن وہ سب جسمانی معاملہ تھا یہ پہلی لڑکی ہے جو میرے دل میں اتر گئی ہے اور میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن امام کی اجازت کے بغیر میں شادی نہیں کروں گا
حاذق بھائی! عمار نے کہا تم یہ خزانہ امام تک پہنچا دو اور ساتھ یہ کہہ دینا کہ یہ لڑکی تمہیں انعام کے طور پر دے دے تو مجھے یقین ہے امام انکار نہیں کرے گا کیا تم لڑکی کو ساتھ لا رہے ہو ؟
لڑکی کو بھی اور لڑکی کے باپ کو بھی ساتھ لا رہا ہوں حاذق نے جواب دیا اگر میں لڑکی کو ساتھ نہ لایا تو یہ کسی سلجوقی کے قبضے میں چلی جائے گی
میں امام کو پہلے ہی بتادوں گا عمار نے کہا اور تمہاری سفارش بھی کر دوں گا
وہ دوسرا آدمی جو اس خزانے سے واقف تھا حاذق کا وہی دوست تھا جو شاہ در شہر میں اکیلا رہتا تھا اور نور حاذق سے اس کے گھر میں کئی بار ملی تھی اور ہر بار اس نے وہاں خاصا وقت گزارا تھا اگلے ہی روز حاذق علی الصبح شہر کے دروازے کھلتے ہی آگیا اور نور کے گھر پہنچا نور کا باپ ابھی روزمرہ کے کام کاج کے لیے گھر سے نہیں نکلا تھا نور اسے دیکھ کر خوش بھی ہوئی اور اور حیران بھی کہ حاذق اتنی سویرے کیوں آگیا ہے حاذق نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ضروری بات کرنے آیا ہے
تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ عبدالملک کے ساتھ میرے تعلقات کتنے گہرے تھے حاذق نے کہا تمہیں اندازہ نہیں کہ ہم کس حد تک ایک دوسرے کے ہمراز تھے میں تمہیں ایسی بات کرنے لگا ہوں جس کا کسی کے ساتھ ذکر نہ ہو ورنہ ہم تینوں قتل ہو جائیں گے بات یہ ہے کہ عبدالملک نے شاہ در سے کچھ دور ایک جگہ بہت بڑا خزانہ چھپایا تھا میں اس کے ساتھ تھا اور ہمارے ساتھ ایک اور دوست تھا عبدالملک مجھے باطنی سمجھتا تھا اور قابل اعتماد دوست بھی میں اس کی زندگی میں اسے ایسا دھوکا نہیں دینا چاہتا تھا کہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر وہ خزانہ اڑا لے جاتا اور پھر کبھی ادھر کا رخ ہی نہ کرتا اب وہ اس دنیا سے اٹھ گیا ہے اور اس کے گھر کا کوئی مرد زندہ نہیں رہا تو میں نے سوچا کہ میں یہ خزانہ کیوں نہ نکال لوں
یہ تمہارا جائز حق ہے نور نے کہا میرے دل سے پوچھو تو مجھے خزانے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن چونکہ یہ خزانہ ان باطنیوں کا تھا بلکہ باطنیوں کے پیر و مرشد کا تھا اس لئے اسے اٹھا لینا یا نکال لینا ایک نیکی کا کام ہے اور یہ تمہارا جائز حق ہے
مجھ سے پوچھو تو میں بھی یہی کہوں گا نور کا باپ بولا خزانہ نکالو اور اپنی ملکیت میں رکھو
لیکن میں اس خزانے کا اکیلا مالک نہیں بننا چاہتا حاذق نے کہا تم نے اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا ہے خزانے پر میرا اتنا حق نہیں جتنا تم دونوں کا ہے نور پر ان لوگوں نے جو ظلم ڈھائے ہیں میں اس کی یہ قیمت دے سکتا ہوں کہ ان لوگوں کا خزانہ نور کے قدموں میں رکھ دوں میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گا
یہ بھی تو سوچو نور کے باپ نے کہا یہ سارا خزانہ لوٹ مار کا ہے نہ جانے یہ لوگ کب سے قافلوں کو لوٹ رہے ہیں اور یہ خزانہ اکٹھا کرتے رہے ہیں اس خزانے کو نکال ہی لینا چاہیے
تمہیں بھی تو لوٹا گیا تھا حاذق نے کہا اللہ کا کرم دیکھو تم سے جو لوٹا گیا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ تمہیں اللہ نے دے دیا ہے خزانہ تو سمجھو نکل آیا اب میں وہ بات کہنے لگا ہوں جو بہت ہی ضروری ہے ہم جب خزانہ نکالنے جائیں گے تو تم دونوں ہمارے ساتھ ہو گے پھر ہم نے یہاں واپس نہیں آئیں گے ورنہ خزانہ چھپانا مشکل ہو جائے گا ہم وہیں سے اصفہان چلے جائیں گے جہاں ہمیں جاننے اور پہچاننے والا کوئی نہیں ہوگا میں تمہیں خواب نہیں دیکھا رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم تینوں وہاں شاہانہ زندگی بسر کریں گے
حاذق در اصل نور اور اس کے باپ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر رہا تھا وہ تیار ہو گئے تو اس نے انہیں بتانا شروع کیا کہ خزانہ کہاں ہے اور کس قسم کے خطروں میں سے گزر کر خزانے تک پہنچا جائے گا شاہ در سے تقریباً ایک دن کی مسافت پر ایک بہت بڑی جھیل ہوا کرتی تھی یہ جھیل نیم دائرے میں تھی اس کے درمیان خشکی تھی اور اس خشکی پر بڑی اونچی اور کچھ نیچی چٹانیں تھیں ان کے پیچھے خشکی ہی تھی لیکن کچھ آگے جا کر جھیل کا پانی پھر وہاں پھیل گیا تھا اس جھیل کے کناروں پر دلدل تھی یہ جگہ مگرمچھوں کے لیے بڑی موزوں تھی اس جھیل میں مگرمچھ رہتے تھے جن کی تعداد بہت زیادہ تو نہیں تھی لیکن تھوڑی بھی تھی تو یہ تعداد بہت ہی خطرناک تھی مگرمچھ بہت بڑے بڑے تھے اور ان میں مگرمچھوں کی وہ قسم بھی پائی جاتی تھی جن کی لمبائی تھوڑی سی ہوتی ہے
نور نے پوچھا کہ ان مگرمچھوں سے کس طرح بچا جائے گا تو حاذق نے بتایا کہ اس کا انتظام وہ کرے گا اور یہ انتظام انہیں جھیل پر پہنچ کر دکھایا جائے گا لیکن یہ بھی کہا کہ انہیں جان کے خطرے کے لیے تیار رہنا چاہیے
خزانہ ایسی چیز ہے کہ انسان جان کا خطرہ بھی مول لے لیا کرتا ہے باپ بیٹی ان خطروں میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے اور حاذق نے انہیں بتا دیا کہ کس روز روانہ ہونا ہے اس نے انہیں یہ بھی بتایا کہ روانگی کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ شاہ در کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہے جائیں گے
دو دنوں بعد نور اس کا باپ گھر سے نکلے تو ان کے ساتھ گھر کا کچھ ضروری سامان تھا وہ ہمیشہ کے لئے شاہ در سے نکل رہے تھے کسی نے ان کی طرف توجہ نہ دی کے یہ کیا اٹھا کر لے جا رہے ہیں اور کسی کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ یہ آج واپس نہ آنے کے لئے جا رہے ہیں شہر سے نکل کر وہ اپنی کھیتیوں میں گئے اور وہاں رکے نہیں کام کرنے والے نوکروں نے کچھ دیر بعد آنا تھا وہ چلتے چلے گئے اور حاذق کے گھر جا پہنچے ایسے ہی طے کیا گیا تھا حاذق ان کا منتظر تھا
کچھ دیر بعد حاذق کا دوست بھی آ گیا انہوں نے سارا دن وہیں گزارا حاذق اور اس کا دوست باہر چلے گئے تھے کیونکہ انہوں نے بہت سے انتظامات کرنے تھے
شام گہری ہو گئی تو شاہ در کے تمام دروازے بند ہوگئے اور شہر باہر کی دنیا سے کٹ گیا شہر سے تھوڑی ہی دور چھوٹے سے ایک گاؤں سے ایک گھوڑا گاڑی نکلی یہ گھوڑا گاڑی حاذق کے گھر سے نکلی تھی یہ کوئی شاہانہ بگھی نہیں تھی بلکہ بار برادری والی تھی اس پر تازہ کٹی ہوئی ہری فصل کے چند ایک گٹھے لدے ہوئے تھے اور کچھ گھریلو سامان تھا جس میں دو تین چار پائیاں بھی تھیں گھوڑوں کی باگیں حاذق کے ہاتھ میں تھی اور اس کے ساتھ اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا پیچھے سامان پر نور اور اس کا باپ سوار تھے
اس سامان کے ساتھ پانچ بھیڑے بھی تھیں جو ان گاڑی میں جا رہی تھیں حاذق نے نور اور اس کے باپ کو بتایا تھا کہ یہ سامان نئی جگہ لے جانا بالکل ضروری نہیں یہ اس لیے ساتھ لے جایا جا رہا ہے کہ خزانہ کے بکس اس سامان کے نیچے چھپائے جائیں گے خزانے والی جگہ سے اصفہان تک کئی دنوں کی مسافت تھی اور لٹیروں کا خطرہ بھی تھا بھیڑیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ یہ جھیل پر جا کر بتائے گا
جھیل تک کا سفر تقریباً ایک دن کا تھا لیکن حاذق نے کچھ دور جا کر گھوڑے دوڑا دیے اور یہ سفر تیزی سے کم ہونے لگا گھوڑے بڑے ہی تندرست اور اچھی نسل کے تھے راستہ صاف تھا اس لئے ان کی رفتار تیز ہی تیز ہوتی چلی جا رہی تھی آدھے راستے میں حاذق نے گاڑی روک لی تاکہ گھوڑے ذرا دم لے لیں
آدھی رات کے بعد وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئے حاذق نے گاڑی کو جھیل کے کنارے سے کچھ دور دور رکھا تھا کہ مگرمچھ گھوڑوں پر لپک نہ سکیں مگرمچھ پانی میں اپنا شکار پکڑا کرتا ہے خشکی پر آکر وہ شکار نہیں کھیلا کرتا حاذق نے ایسی جگہ گاڑی روکی جہاں چار پانچ کشتیاں کنارے پر رکھی ہوئی تھیں یہ پانی میں نہیں بلکہ خشکی پر تھیں
سب گھوڑا گاڑی میں سے اترے حاذق نے سامان میں سے چار بڑی مشعلیں نکالیں اور چاروں کو جلا لیا ان کے دستے ایک ایک گز سے زیادہ لمبے تھے اور ان کے شعلے تو بہت ہی اوپر جا رہے تھے حاذق نے ایک ایک مشعل سب کو دے دی اب چاروں کے ہاتھوں میں ایک ایک مشعل تھی
وہ جھیل کے کنارے پڑی ہوئی کشتیوں کے قریب گئے دو کشتیاں تو بلکل ٹوٹ گئی تھیں ان سب میں ایک کشتی بڑی بھی تھی اور صحیح سلامت بھی تھی اور اس میں دو چپو لگے ہوئے تھے حاذق اور اس کے دوست نے پانچوں بھیڑیوں کو اٹھا کر کشتی میں ڈال لیا اور پھر حاذق کے کہنے پر سب کشتی میں سوار ہوگئے دونوں دوستوں نے چپو سنبھال لیے
کشتی کنارے سے ذرا ہی دور گئی ہوگی کہ مشعلوں کی روشنی میں دو تین مگرمچھوں کے منہ پانی سے ابھرے ہوئے نظر آئے یہ مگرمچھ بڑی تیزی سے کشتی پر حملہ کرنے کے لیے آرہے تھے حاذق کے دوست نے چپو چھوڑ کر ایک بھیڑ کو اٹھایا اور پانی میں پھینک دیا سارے مگرمچھ اس بھیڑ کی طرف ہوگئے اور اس پر ٹوٹ پڑے بھیڑ نے ایسی خوفزدگی کے عالم میں آوازیں نکالیں کہ دل دہل جاتے تھے
یہ مگرمچھ اس بھیڑ کو چیرنے پھاڑنے لگے یوں لگا جیسے پانی میں طوفان آگیا ہو
کشتی آگے نکل گئی کچھ آگے گئے تو دو اور مگرمچھ کشتی کی طرف آتے نظر آئے حاذق کے دوست نے ایک اور بھیڑ کو اٹھا کر پانی میں پھینک دیا یہ مگرمچھ بھی بھیڑ پر جھپٹ پڑے اور کشتی آگے نکل گئی
حاذق نے نور اور اس کے باپ کو بتایا کہ اب مگرمچھوں کا کوئی خطرہ نہیں رہا کیوں کہ جھیل کے سارے مگرمچھوں کو پتہ چل گیا تھا کہ پانی میں کوئی نیا شکار آیا ہے وہ سب بڑی تیزی سے تیرتے اپنے ان ساتھیوں تک جا پہنچے جو ان بھیڑیوں کو چیر پھاڑ رہے تھے
آخر کشتی اس خشکی تک جا پہنچی جو اس جھیل کے درمیان تھی وہاں بھی ایک بھیڑ پھینکنی پڑی کیونکہ وہاں کنارے پر تین چار مگرمچھ موجود تھے بھیڑ کے گرتے ہی وہ بڑی تیزی سے اس تک پہنچے اور حاذق اور اس کا دوست کشتی کو کنارے تک لے گئے اور دونوں کود کر خشکی پر گئے اور کشتی کا رسّہ کھینچ کر ایک بڑے پتھر کے ساتھ باندھ دیا نور اور اس کے باپ کو بھی اترنے کے لیے کہا گیا دونوں بڑے آرام سے اتر گئے
حاذق آگے آگے جا رہا تھا زمین بڑی ہی ناہموار تھی چھوٹے بڑے پتھروں پر پاؤں پڑتے اور پھسلتے تھے ذرا آگے گئے تو چٹانوں کی گلیاں سی آ گئیں حیرت والی بات یہ تھی کہ یہ خشکی جھیل کے درمیان تھی لیکن وہاں گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی ایسی چٹانیں بھی آئیں جن کے درمیان سے گذرنا ناممکن نظر آتا تھا لیکن یہ لوگ جسم کو سکیڑ سمیٹ کر گزر گئے انہی کئی موڑ کاٹنے پڑے اور چٹانیں اونچی ہی اونچی ہوتی چلی گئیں
قدرت نے ان چٹانوں کی شکل و صورت ایسی بنائی تھی کہ یہ انسان معماروں کی بنی ہوئی لگتی تھیں بعض جگہوں پر گلیاں اتنی تنگ تھی اور چٹان اتنی اونچی کے وہاں دم گھٹتا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے یہ چٹانیں آگے بڑھ کر ان انسانوں کو کچل ڈالیں گی آخر ایک گلی ایک غار کے دہانے پر جا ختم ہوئی
اس دہانے میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے وہ ایک کشادہ کمرے میں آ گئے ہوں ایک جگہ بہت سے پتھر ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئے تھے حاذق نے سب سے کہا کہ یہ پتھر ایک طرف پھینکنے شروع کردو نور کو بھی پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینکنے پڑے کچھ پتھر تو زیادہ ہی وزنی تھے
پتھر آدھے ہی ہٹائے گئے ہوں گے کہ ان کے نیچے پڑے ہوئے چار بکس نظر آنے لگے باقی پتھر بھی ہٹا دیے گئے
حاذق اور اس کے دوست نے چاروں بکسوں کے ڈھکنے اٹھا دئے بکس مقفل نہیں تھے جب ڈھکنے اٹھے تو نور اور اس کے باپ کو تو جیسے غشی آنے لگی ہو ان بکس میں سونے کے سکے اور زیورات تھے اور ہیرے جواہرات تھے اور ایک بکس میں بڑے قیمتی رنگدار اور چمکدار چھوٹے چھوٹے پتھر تھے یہ بادشاہوں کے کام کی چیزیں تھیں یا بڑے ہی امیر لوگ ان کے خریدار تھے مشعلوں کی روشنی میں سونا ہیرے جواہرات اور یہ پتھر چمکتے تھے اور ان میں سے رنگارنگ کرنیں پھوٹتی تھیں
حاذق نے کہا کہ اب زیادہ وقت ضائع نہ کرو اور یہ بکس کشتی تک پہنچاؤ اس وقت حاذق اور اس کے دوست کی جذباتی کیفیت ایسی ہوگئی تھی جیسے انھوں نے کوئی نشہ پی لیا ہو یہ خوشی کی انتہا تھی اور یہ خزانے کا نشہ یا جادو جو ان کے دماغوں کو چڑھ گیا تھا وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے جو خوشی کی انتہا کی علامت تھی
یا شیخ الجبل! حاذق کے دوست نے بازو اوپر کر کے کہا یہ سب تیری دولت ہے ہم یہ خزانہ تیرے قدموں میں رکھیں گے
ہمارے پیر استاد عبدالملک کی روح بھی خوش ہوجائے گی جب ہم الموت حاذق بولتے بولتے چپ ہو گیا اور لہجہ بدل کر بولا بکس جلدی اٹھاؤ ہمیں اصفہان پہنچنا ہے
نور کے باپ نے ان دونوں کی باتیں سن لی تھیں حاذق نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور نور کے باپ نے منہ پھیر لیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو اسے یقین ہو گیا کہ یہ دونوں باطنی ہیں اور یہ خزانہ الموت لے جائیں گے نور کے باپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے اور اس کی بیٹی کے ساتھ یہ کیا سلوک کریں گے اس نے بڑی تیزی سے سوچ لیا کہ کیا کرنا ہے
بکسوں کے دونوں طرف لوہے کے کنڈے لگے ہوئے تھے جنہیں پکڑ کر بکس اٹھائے جاتے تھے ایک بکس حاذق اور اس کے دوست نے اِدھر اُدھر سے پکڑ کر اٹھا لیا اور دوسرا بکس نور اور اس کے باپ نے اٹھایا بکس وزنی تو تھے لیکن وہ اٹھا کر باہر لے آئے اب ان کے لئے چلنا خاصا دشوار ہو گیا تھا لیکن وہ بکسوں کو کہیں اٹھاتے اور کہیں گھسیٹتے دکھیلتے جھیل تک لے آئے
انھوں نے یہ دونوں بکس کشتی میں رکھ دئیے نور کے باپ نے دیکھا کہ کشتی کا اگلا حصہ خشکی پر تھا اور زیادہ تر حصہ پانی میں تھا جب حاذق اور اس کا دوست تو بکس رکھ کر واپس غار کی طرف گئے تو نور کے باپ نے کشتی کو دھکیل کر پانی میں کردیا کشتی رسّے بندھی ہوئی تھی اس لیے اس کے بہہ جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا باپ بیٹی کشتی سے کود کر اترے اور خزانے کی طرف چلے گئے
جس طرح وہ چاروں پہلے دو بس اٹھا کر لے آئے تھے اسی طرح باقی دو بکس بھی اٹھا لائے ایک ایک ہاتھ سے بکس اٹھاتے تھے اور دوسرے ہاتھوں میں ایک ایک مشعل تھی
اب وہ کشتی کی طرف بکس اٹھا کر آ رہے تھے تو پہلے کی طرح نور اور اس کا باپ پیچھے نہیں تھے بلکہ آگے آگے آرہے تھے وہ اتفاقیہ آگے آگے نہیں آئے تھے بلکہ نور کے باپ نے کچھ سوچ کر یہ پھرتی دکھائی تھی کہ غار میں جاکر بکس اٹھایا اور تیزی سے غار سے نکل آیا تھا
نور اور اس کے باپ نے بکس کشتی میں رکھا اور دونوں کشتی میں آگئے حاذق اور اس کا دوست بکس اٹھائے ہوئے کشتی کے قریب آئے تو نور کے باپ نے لپک کر بکس پکڑا اور گھسیٹ کر کشتی میں کر لیا اب اُن دونوں نے کشتی میں سوار ہونا تھا نور کے باپ نے فوراً اپنی مشعل نور کے ہاتھ سے لی اور بڑی ہی تیزی سے مشعل پہلے حاذق کے جسم کے ساتھ لگائی اور پھر فوراً ہی اس کے دوست کے جسم کے ساتھ لگا دی
مشعل کا شعلہ بہت بڑا تھا اس شعلے نے دونوں کے کپڑوں کو آگ لگا دی اور آگ نے یکلخت ان کے پورے لباس کو لپیٹ میں لے لیا اس کے ساتھ ہی نور کے باپ نے نور سے کہا کہ مشعل آگے کرو اور کشتی کا رسّہ جلا ڈالو رسّہ بندھا ہوا تھا جسے کھولنے کے لیے نور یا اس کے باپ کو کشتی سے اترنا تھا لیکن اتنا وقت نہیں تھا نور نے مشعل آگے کر کے رسّے کے درمیان لگا دی فوراً ہی رسّہ جل گیا اور کشتی پانی میں آگئی لیکن آہستہ آہستہ چل پڑی
حاذق اور اس کے دوست کے کپڑوں کو آگ لگی تو دونوں پانی میں کود گئے آگ تو بجھ گئی لیکن ان کے جسم جل گئے تھے جن پر پانی پڑا تو تکلیف بڑھنے لگی آخر وہ دو نوجوان اور دلیر آدمی تھے پانی میں ہی دونوں نے اپنی تلوار نکال لی اور کشتی کی طرف لپکے اتنی سی دیر میں نور اور اس کے باپ نے مل کر تیزی سے چپو مارے تو کشتی کنارے سے دور آ گئی لیکن وہ دونوں بھی کشتی کے قریب آگئے
نور کے باپ نے نور سے کہا کہ دونوں چپّو سنبھالو اور کشتی کو رکنے نہ دینا حاذق اور اس کا دوست بڑی تیزی سے تیرتے کشتی کے قریب آئے اور انہوں نے کشتی کو پکڑنے کی کوشش کی نور کے باپ نے دونوں مشعلیں اٹھا کر ایک حاذق کے چہرے پر اور دوسرا اس کے دوست کے چہرے پر رکھ دیا اور زور سے آگے کو دھکیلا
تصّور میں لایا جا سکتا ہے کہ ان کی آنکھیں تو فوراً ہی بیکار ہو گئی ہونگی اور چہرے تو بری طرح جل گئے ہوں گے دونوں کی اس طرح چیخیں سنائی دینے لگی جیسے بھیڑیے غرّا اور چلا رہے ہوں اب ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ آگے بڑھتے وہ تو ڈوب رہے تھے
نور کے باپ نے ایک چپّو نور کے ہاتھ سے لے لیا اور دونوں تیزی سے چپّو چلانے لگے دونوں دائیں بائیں جھیل میں دیکھ رہے تھے کہ مگرمچھ نہ آ جائیں آ بھی آ جاتے تو ان کے پاس بندوبست موجود تھا دو بھیڑ اب بھی کشتی میں موجود تھی لیکن اب مگرمچھوں کو شکار مل گیا تھا یہ تھا حاذق اور اس کا دوست دور سے ان دونوں کی بڑی ہولناک آوازیں سنائی دیں جو فوراً ہی ختم ہو گئی یوں لگتا تھا جیسے دونوں کو مگر مچھوں نے پکڑ لیا ہو مشعلوں کی روشنی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی کشتی میں مشعلیں کھڑی رکھنے کا انتظام تھا نور کے باپ نے دونوں مشعلیں ان جگہوں میں پھنسا دی تھیں
نور کے باپ نے یہ کوشش نہ کی کہ کشتی کو اس جگہ تک لے جائے جہاں سے انہوں نے کشتی لی تھی اور جہاں گھوڑا گاڑی رکی کھڑی تھی ان دونوں نے کشتی کو قریبی کنارے پر لگا دیا اور اتر آئے دونوں نے پورا زور لگا کر کشتی کو اتنا کھینچا کہ کشتی خشکی پر آگئی
باپ نے نور سے کہا کہ وہ کشتی کے قریب کھڑی رہے اور اگر کشتی پانی میں جانے لگے تو اسے پکڑ کر کھینچ لے وہ خود گھوڑا گاڑی لینے چلا گیا اب وہ ہر خطرے سے نکل آئے تھے
نور کا باپ گھوڑا گاڑی وہیں لے آیا اور کشتی کے قریب روک کر باپ بیٹی کشتی سے بکس اتارنے لگے وہ علاقہ ایسا تھا جہاں سے کسی انسان کا گزر نہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ علاقہ کسی راستے میں نہیں آتا تھا اور خطرناک بھی اتنا تھا کہ ادھر سے کوئی گزرتا ہی نہیں تھا
دونوں نے زور لگا کر چاروں بکس گھوڑا گاڑی میں لاد لیے اور سوار ہوگئے گھوڑوں کی باگیں باپ نے سنبھال لی اور گاڑی شاہ در کی طرف موڑ کر چل پڑے نور ابھی دیکھ رہی تھی کہ باپ یہ خزانہ کہاں لے جاتا ہے نور کی توجہ دراصل خزانے پر تھی ہی نہیں وہ بہت بڑے صدمے سے دوچار تھی اسے جس کے ساتھ روحانی محبت ہو گئی تھی اسے وہ اپنے ہاتھوں جلا کر اور ڈبو کر جا رہی تھی حاذق کے خیال سے اور اس کے انجام سے اسے اتنا شدید صدمہ ہوا کہ اس کے آنسو بہہ نکلے اور وہ سسک سسک کر رونے لگی
روتی کیوں ہو؟
باپ نے نور سے کہا کیا ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ہم بہت بڑے دھوکے سے بچ گئے ہیں؟
یہ باطنی تھے اور یہ سیدھے الموت جا رہے تھے مجھے تو یہ راستے میں ہی ختم کر دیتے اور تمہیں وہاں لے جاکر حسن بن صباح کی حوالے کر دیتے اور وہ ابلیس تمہیں اپنی جنت کی حور بنا دیتا آج تو ایک خاوند کی تلاش میں ہو وہاں ہر روز تمھارا ایک نیا خاوند ہوتا اللہ کا شکر ادا کرو جس نے ہمیں اس ذلت سے بچا لیا ہے خدا کی قسم مجھے اس خزانے کی خوشی نہیں خوشی ہے تو یہ ہے کہ میں آخر تمہیں بچا لایا ہوں
نور کو اصل غم تو یہ تھا کہ اس کی قسمت میں یہی لکھا گیا تھا کہ ایک فریب کار کے چنگل سے نکلے تو ایک اور فریب کار کی جال میں آجائے نور کے لئے یہ صدمہ برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا بہرحال اس نے یہ انتہائی تلخ گھونٹ نگلنے کی کوشش شروع کر دی اور باپ اسے سمجھاتا گیا اور پھر اسے امید بھی دلاتا رہا کہ اس کے لئے ایک مرد حق یقینا منتظر ہے اللہ نے جہاں اتنا کرم کیا ہے وہ یہ کرم بھی ضرور کرے گا کہ نور کی شادی ہو جائے گی
نور کے باپ نے گھوڑے دوڑا دیئے وہ بہت جلدی شاہ در پہنچنا چاہتا تھا راستے میں وہ ایک جگہ روکے،گاڑی میں کھانے پینے کا سامان موجود تھا گھوڑوں کو سستا لیا اور باپ بیٹی نے کھا پی لیا اور پھر گاڑی میں سوار ہوئے اور باپ نے گھوڑے دوڑا دیئے
دن تقریبا آدھا گزر گیا تھا سنجر اپنے دفتر میں بیٹھا روزمرہ کے کام کاج میں مصروف تھا اس کے ذمے بڑا ہی نازک اور پیچیدہ کام تھا اس نے اس شہر کو ازسرنو آباد کرنا تھا اور اس شہر کو باطنیوں سے صاف بھی کرنا تھا دربان نے اسے اطلاع دی کہ باہر ایک آدمی آیا ہے جس کے ساتھ ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی ہے اور وہ گھوڑا گاڑی پر آئے ہیں دربان نے بتایا کہ یہ وہی باپ بیٹی ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک مکان دیا گیا تھا اور زمین بھی دی گئی تھی
سنجر نے کسی حد تک بے دلی سے کہا کہ انہیں اندر بھیج دو اس نے غالباً یہ سوچا ہوگا کہ اپنی کسی ضرورت کی خاطر آئے ہوں گے دربان نے باہر جا کر انہیں کہا کہ وہ اندر چلے جائیں لیکن نور کے باپ نے کہا کہ وہ اندر نہیں جانا چاہتے سلطان خود باہر آئے
اردو تحریر پڑھنے کے لیے گروپ لنک حاصل کریں
03354851151
سنجر کو جب یہ بتایا گیا کہ باپ بیٹی اسے باہر بلا رہے ہیں تو سنجر جھنجھلاہٹ کے عالم میں باہر آگیا نور کے باپ نے اسے کہا کہ وہ گھوڑا گاڑی تک چلے اس وقت سنجر نے قدرے اکتاہٹ سے کہا کہ آخر بات کیا ہے؟
وہ کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ کوئی اسے جدھر لے جانا چاہے وہ اس طرف چل پڑے نور اور اس کا باپ کچھ بھی نہ بولے اور اسے گھوڑا گاڑی تک لے گئے
نور کے باپ نے گاڑی پر جا کر چاروں بکس کھول دیئے اور سلطان کو اشارہ کیا کہ وہ اوپر آجائے سنجر پہلے ہی اُکتایا ہوا تھا وہ غصے کی حالت میں گھوڑا گاڑی پر چڑھا اور جب اس نے کھلے ہوئے بکس دیکھے تو اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی
یہ مال کہاں سے آیا ہے؟
سنجر نے ہکلاتی ہوئی زبان سے پوچھا اور جواب کا انتظار کئے بغیر کہا یہ تو بے انداز اور بے حد قیمتی خزانہ ہے
یہ میں سلطان کو اندر بیٹھ کر بتاؤں گا کہ یہ مال کس طرح آیا ہے نور کے باپ نے کہا یہ سارا مال نہ آپ کا ہے نہ میرا ہے بلکہ یہ سلطنت سلجوقیہ کا مال ہے اور یہ وہ خزانہ ہے جو یہ باطنی بلیس قافلوں سے لوٹتے رہے ہیں
سنجر نے فوراً چاروں بکس اٹھواۓ اور اپنے کمرے میں رکھوا دیے پھر اس نے باپ اور بیٹی کو اپنے پاس بٹھا کر پوچھا کہ یہ خزانہ کہاں سے آیا ہے
نور کے باپ نے اسے ساری داستان سنا ڈالی
میں تمہیں اس میں سے دل کھول کر انعام دونگا سنجر نے کہا میں اس میں سے ایک ذرہ بھی نہیں لونگا نور کے باپ نے کہا یہ سلطنت کی ملکیت ہے اور یہ اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کی جائے میں اپنا انعام لے چکا ہوں مجھے مکان مل گیا ہے اور زمین بھی مل گئی ہے مجھے اور کچھ نہیں چاہئے
ابتداۓ اسلام سے لے کر حسن بن صباح تک تاریخ کے مختصر حالات
مکہ میں جناب سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی پیدائش سے لے کر ان کے دنیا سے پردہ فرمانے تک حالات پر اگر روشنی ڈالیں تو یہ ایک بہت وسیع موضوع بن جائے گا
یہاں پر اختصار کے ساتھ اسلامی انقلاب کے حالات کا تذکرہ ہو گا
حضور اکرمﷺ نے مکہ سے اسلام کی تبلیغ کی ابتداء کی اور ہر قسم کی سختیاں برداشت کیں
اور جب اللہ پاک کا حکم ہوا آپﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مدینہ دارالسلام قرار پایا
مدنیہ اسلامی ریاست بنی اور اسلام اپنے عروج پر پہنچ گیا یہ سب آپﷺ کی محنت اور لگن کا نتیجہ تھا
جناب رسول اکرمﷺ کے دور میں ان کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہو گے جنہوں نے نبوت کے دعوے کیے حق اور باطل ہمیشہ سے ہی ساتھ ساتھ چلتے آۓ ہیں
کبھی حق غالب تو کبھی باطل
نبی رحمتﷺ کی حیات میں حق اپنے عروج پر رہا اور باطل کا منہ کالا رہا
جب نبی کریمﷺ نے دنیا سے پردہ فرما گئے
اور جناب حضرت ابو بکر صدیقؓ خلافت کی مسند کی بیٹھے اور پہلے مسلمانوں کے خلیفہ کہلاے تو اس وقت بھی نبوت کے جھوٹے دعویدار اپنی اپنی کارستانیوں میں مصروف تھے مگر جناب ابو صدیقؓ نے ان جھوٹے دعویداروں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور ان کو کچلا
جناب ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد خلافت حضرت عمرؓ کے سپرد کی گئی اور آپ نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ان سے سب واقف ہیں یہاں کہ یہودونصاری آج بھی کہتے ہیں کہ اگر اسلام کو ایک عمر اور مل جاتا تو پوری دنیا میں صرف ایک ہی مذہب ہوتا اور وہ اسلام ہوتا
حضرت عمرؓ کی خلافت کا دور سنہری دور کہلاتا تھا
آج بھی جو پوری دنیا میں فوجی انتظامات چھاؤنیاں تنخواہ اور زرعی سماجی معاشی امور ہیں یہ سب حضرت عمرؓ کے قائم کردہ ہیں
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنیؓ مسند خلافت پر بیٹھے اور اسلام کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا سلطنت میں مزید بہتری کے کام کیے قرآن پاک کی تجوید کی معاشی اور دیگر امور کو بہتر بنایا آخر کار حضرت عثمانؓ کو بھی شہید کر دیا گیا
اور اس کے بعد حضرت علیؓ نے خلافت سنبھالی تو آپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا سب سے بڑا مسئلہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کا تھا کہ ان کو پکڑا جاے اور سزا دی جاے اس بات پر مسلمان دو گروپوں میں تقسیم ہو گۓ ایک گروپ حضرت علیؓ کا اور دوسرا گروپ حضرت امیر معاویہؓ کا تھا جناب امیر معاویہؓ نے کہا کہ عثمانؓ کے قاتلوں کو پکڑ کر سزا دی جاے
حضرت علیؓ نے جب اس طرف توجہ دی تو خارجی آپ کے دشمن بن گے اور آخر کار حضرت علیؓ کو بھی شہید کروا دیا گیا حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد آپ کے بیٹے حضرت حسنؓ کو خلافت پر بیٹھایا گیا چونکہ عثمانؓ کی شہادت کے بعد فتنوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اس لیے حضرت امام حسنؓ زیادہ عرصہ خلافت پر نہ رہ سکے اور آپؓ نے امت میں مزید انتشار کے ڈر سے جناب امیر معاویہؓ کی خلافت کے حق میں دستبردار ہو گئے اور اس طرح خلافت بنو امیہ میں منتقل ہو گئی اور جناب امیر معاویہؓ بنو امیہ کے پہلے خلیفہ بن گے امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا یزید مسند خلافت پر بیٹھا اور بنو امیہ کا دوسرا خلیفہ کہلایا یزید عیاش طبیعت کا مالک تھا اس وقت بنو امیہ کی حکومت اپنے عروج پر جب یزید نے حضرت امام حسینؓ کو کربلا میں شہید کروا دیا تو اس کے ساتھ ہی بنو امیہ پر زوال شروع ہوگیا بنو امیہ کی بادشاہت دن بدن ڈاون ہونے لگی لوگ یزید کے اس طرز عمل پر کہ جناب امام حسینؓ شہید کروا دیا ہے متنفر ہونے لگے یزید کی موت کے بعد یزید دوم تخت پر بیٹھا مگر اس نے بھی جلد ہی تخت چھوڑ دیا اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو گیا اس کے بعد بنو امیہ کے بادشاہ بدلتے رہے بادشاہت کی خاطر قتل و غارت ہو نے لگی یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک مروان سے عبدالملک اور پھر ولید اور پھر سلیمان تخت پر بیٹھے مگر ریشہ دوانیاں بڑھتی گئ اور اقتدار بدلتے گے آخر کار بنو امیہ ایک عزیم انسان حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خلافت سنبھالی اور موروثی قتل و غارت کو ختم کیا حکومتی انتظامات کو بہتر کیا لوگوں کی بھلائی کے کام کیے اور اسلام بنیادوں پر حکومت کو استوار کیا اور ان کے دور میں بنو امیہ کی حکومت نے وہ دور دیکھا جو اس سے پہلے بنو امیہ میں نہیں آیا تھا
آپ نے اتنے عدلوانصاف سے حکومت کی ایک مثال بن گئ دن رات لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا مدرسے بناے علم کو فروغ دیا
اور پھر جناب عمر بن عبدالعزیز بھی اس دنیا سے رخصت ہو گے اور ان کی وفات کے بعد بنو امیہ ایسا زوال کا شکار ہوئی کہ پھر کبھی بھی سنبھل نہ سکی اور جب بنو امیہ کی عیاشیوں کی وجہ سے بہت ابتر حالت ہو گئی تو پھر اقتدار بنو عباس نے سنبھال لیا اور بنو امیہ کی ڈوبتی کشتی کو پھر سہارا مل گیا مگر بنو امیہ کا نام ختم ہو گیا اور بنو عباس کی حکومت عباسیہ کہلانے لگی
بنو عباسیہ کے شہانہ دور گزرے فتوحات ہوئیں تعلیم کو فروغ ملا اسلام کو تقویت ملی اور ایک بار اسلام کا سورج پوری آب و تاب سے چمکنے لگا
پھر آہستہ آہستہ بنو عباسیہ بھی عیاشیوں میں پڑ گے مناظرے ہونے لگے اور غیر مسلموں نے آنکھیں دکھانی شروع کر دیں
راہزنی شروع ہوگی لوگوں کے اموال غیر محفوظ ہوگے
ایسے میں اللہ پاک نے مسلمانوں کی حالت پر رحم کھایا اور سلجوقیوں کو سہارا بنا کر بیھج دیا
سلجوقی کون تھے یہ ترکستان کے رہنے والے تھے اور بہت جنگجو تھے اور ترکستان کے خاقان کے ملازم تھے
چونکہ اس وقت خاقانی سب قبیلوں میں بھٹے ہوے تھے ان کی باقاعدہ حکومت نہ تھے جو قبیلہ زیادہ طاقتور ہوتا وہ باقی کمزور قباٸل کو اپنا مطیع بنا لیتا چنگیز خاں کا تعلق بھی انہی قبائل سے تھا
سلجوقی غیر مسلم تھے اور سلجوق بن یکاک کی نسل سے تھے اور ترکستان کے خاقان کے ملازم اور جنگجو بھی تھے بہت بہادر قبیلہ تھا سلجوق بن یکاک نے بخارا ہجرت کرنے کا سوچا اور اپنے قبیلہ کو بتایا تو اس کا سارا قبیلہ اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گیا
سلجوقی بخارا پہنچے تو وہاں پر سب مسلمان تھے ان رہائش بودوباش اور اخلاق سے متاثر ہو کر سلجوق نے اسلام قبول کر لیا اور جب اس کے قبیلہ کو پتہ چلا تو انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا یوں سلجوقی اسلام میں داخل ہوے اور بخارا میں رہنے لگے
بخارا میں ان کی جوانمردی سامنے آنے لگی تو شاہ بخارا نے ان کو اپنی فوج میں شامل کر لیا
المختصر وقت گزرتا گیا اور سلجوقی حکومتی سطح پر پہنچ گے اور پھر سلجوقیوں کا پہلا بادشاہ سلجوق بن یکاک بنا جو اسلام کا شیدائی تھا اس نے بادشاہ بنتے ہی اسلام کو فروغ دیا مدرسے بنواے اور رفاع عامہ کے بہت کام کیے
سلجوق بن یکاک کے دو پوتے تھے ایک کا نام طغرل بیگ سلجوقی اور دوسرے کا نام چغرل بیگ سلجوقی تھا سلجوق بن یکاک کی وفات کے بعد حکومت اس کے پوتوں کے ہاتھ میں آئی اس وقت سلجوقیوں کی سلطنت افغانستان سے لے کر ایران شام عراق وغیرہ تک پھیل چکی تھی لہذا دونوں پوتوں نے سلطنت کے انتظام کو دیکھتے ہوئے سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا چغرل بیگ کو ترکستان مرو اور خراسان کے علاقے حصے میں آے
یہ 450 ہجری کا دور تھا جب عباسیہ سلطنت کا خلیفہ بامراللہ تھا جو کہ صرف نام کا خلیفہ تھا
چغرل بیگ کا پوتا سلطان ملک شاہ خراسان کا سلطان تھا جبکہ مرو میں سلطان الپ ارسلان کی بادشاہت تھی
خراسان کے شہر طوسی میں علی بن احمد صباح اسماعیلی کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام حسن رکھا گیا جو کہ بعد میں حسن صباح کے نام سے مشہور ہوا
بعد میں یہ لوگ رے چلے گے جہاں علی بن احمد نے رے کے حاکم ابو مسلم رازی سے جا کر دوستی کی اور اس کا منظور نظر بن گیا حسن جب بڑا ہوا تو اسکی تعلیم کے لیے ایک اسماعیلی شیعہ عبدالملک بن عطاش کو استاد مقرر کیا گیا جو کہ شیعہ تھا جبکہ باپ نے رے کے حاکم کو کہا تھا کہ وہ کٹر سنی ہے جب رے کے حاکم کو پتہ چلا تو اس نے حسن کے باپ سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں ورنہ میں حسن نیشاپور امام موافق کے مدرسہ میں تعلیم دلواتا رے کے حاکم نے اخراجات کا ذمہ لیا اور حسن کو نیشاپور بھیج دیا گیا یوں حسن شیعہ ہونے کے باوجود سنی مسلک کے متعلق مکمل جان گیا اور ایک عالم بن گیا مدرسہ سے فراغت کے بعد حسن پھر عبدالملک بن عطاش کی شاگردی میں آ گیا عطاش ایک ابلیسی طبیعت کا مالک تھا اس نے حسن کو بھی ابلیسیت میں رنگ لیا اور یہی حسن کا باپ چاہتا تھا اور پھر وقت نے دیکھا کہ حسن بن علی بن احمد صباح جس نے علی ہٹا کر اپنے نام کے ساتھ صباح لگا لیا اور حسن بن صباح کہلانے لگا
حسن بن صباح نے 90 سال عمر پائی اور ان 90 سال میں ایک کام بھی اچھا نہیں کیا بلکہ ابلیس کا پیرو کار رہا اور اسی حالت میں 28 ربیع الثانی 518 ہجری کو طبعی موت مر گیا اس نے 35 سال قلعہ الموت میں گزارے
یہ سارا واقعہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو خواہ کسی نے ہی سرانجام دیا تھا یہ سالار اوریزی کے کام آیا اتنی بڑی کامیابی کو وہ اپنے تک ہی محدود نہیں رکھ سکتا تھا اس نے سلطان محمد کو اطلاع دینے کے لئے قاصد مرو بھیج دیا دوسرا قاصد سنجر کی طرف شاہ در بھیجا سنجر بھی سلطان ہی تھا
سالار اوریزی کا قاصد سلطان محمد کے پاس پہنچا اور یہ پیغام سنایا تو سلطان محمد کچھ دیر تک اس کو دیکھتا رہا جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو جیسے وہ قاصد کی بات نہ سمجھ سکا ہو اسے توقع نہیں تھی کہیں سے اس کام کی خبر بھی آئے گی کہ حسن بن صباح کے آدمی بھی پکڑے جائیں گے اور راز فاش کر دیں گے جو پتھر دل تھے سلطان محمد کی حیرت زندگی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک دو روز پہلے اسے سنجر نے پیغام بھیجا تھا کہ بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا ہے اس خزانے کے ساتھ دوسری اچھی خبر یہ تھی کہ حسن بن صباح کے دو بڑے ہی تجربے کار تخریب پکڑے گئے اور انہیں مگر مچھوں نے کھا لیا تھا
اس وقت حسن بن صباح کی سلطنت دور دور تک پھیل گئی تھی اور وہ اس سلطنت کا بے تاج بادشاہ تھا کم و بیش ایک سو چھوٹے اور بڑے قلعے باطنیوں کے قبضے میں تھے یہ کوئی باقاعدہ سلطنت نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے اثرات لوگوں نے اس انداز سے قبول کر رکھے تھے کہ حسن بن صباح دلوں پر راج کرتا تھا تاریخ نویسوں نے بھی اس کے زیر اثر علاقوں کو اس کی سلطنت ہی لکھا ہے اتنی بڑی سلطنت میں حسن بن صباح کے دو چار تخریب کاروں اور فدائیوں کا مار جانا کوئی ایسا نقصان نہیں تھا کہ حسن بن صباح کے بازو اور اس کے اثرات کمزور ہوجاتے اس کے پاس پچاس ہزار سے زائد فدائی تھے لیکن نور کے باپ نے جس طرح خزانہ حاصل کرلیا تھا اور اس کے تخریب کاروں کو مگرمچھوں کے حوالے کردیا تھا اور پھر عبید عربی نے جو پردے اٹھائے اور دو باطنیوں کو سزائے موت دلوائی تھی اور پھر ابن مسعود کا واقعہ تھا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ سلطان محمد سلطان سنجر اور سالار اوریزی اور ان کے دیگر سالاروں کے حوصلوں میں جان آگئی اور ان سب نے ان واقعات کو خدائی اشارہ سمجھا کہ فتح حق پرستوں کی ہوگی
ادھر الموت میں وسم کوہ سے بھاگا ہوا باطنی حسن بن صباح کی پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ وسم کوہ میں کیا انقلاب آگیا ہے اس نے تفصیل سے بتایا کہ عبید عربی جو سالار اوریزی کو قتل کرنے گیا تھا اس نے اپنے دو آدمی سالار اوریزی سے قتل کروا دئیے ہیں اور پھر ایک اور پرانے فدائی ابن مسعود نے وسم کوہ کے تمام باطنیوں کو پکڑوا دیا ہے لیکن وہ پکڑے نہیں گئے بلکہ انہوں نے خودکشی کرلی ہے
مؤرخین لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح اس قسم کی خبروں سے کبھی پریشان نہیں ہوا تھا لیکن اب اسے ایسی خبر ملتی تھی تو وہ گہری سوچ میں کھو جاتا اور اس کے چہرے پر رنج و الم کا تاثر آ جاتا تھا اس کی ایک وجہ تو عمر تھی وہ خاصا بوڑھا ہوچکا تھا دوسری وجہ اس کے پریشان ہونے کی یہ تھی کہ اس نے ابھی تک اپنی فوج نہیں بنائی تھی فوج سے مراد تربیت یافتہ لشکر تھا جسے وہ میدان جنگ میں لڑا سکتا اس کے پاس فدائیوں کی کوئی کمی نہیں تھی اور اس کے فدائی اس کے اشارے پر اپنی جان قربان کر دیا کرتے تھے لیکن وہ صرف چھوری چاقو چلانا جانتے تھے اور لوگوں کو دھوکے میں لا کر قتل کرنے کے فن کے ماہر تھے اس نے تھوڑے عرصے سے اپنے مشیروں اور مصاحبوں سے کہنا شروع کردیا تھا کہ باقاعدہ فوج تیار کی جائے جو باقاعدہ جنگ کی تربیت یافتہ ہو وہ مشیروں سے کہتا تھا کہ سلجوقی ایک نہ ایک دن الموت پر حملہ ضرور کریں گے الموت کا قلعہ ناقابل تسخیر تھا ایک تو وہ وسیع و عریض چٹان پر بنایا گیا تھا اور اس کے تین طرف دریا تھا لیکن وہ بے خبر نہیں تھا کہ مسلمان قربانی دینے پر آگئے تو وہ اس قلعے میں داخل ہوجائیں گے
اس نے اسی وقت اپنے مشیروں وغیرہ کو بلایا اور بتایا کہ وسم کو میں کیا ہوا ہے اور ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی پیروکار اس طرح غداری نہ کرے کچھ دیر مشورے اور بحث مباحثے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ہر شہر اور قصبے میں دو دو فدای بھیج دیئے جائیں جو وہاں اپنے آدمیوں پر نظر رکھیں اور ان سے ملتے ملاتے رہے ہیں اور جہاں کہیں شک ہو کہ فلاں شخص غداری کرے گا کسی ثبوت کے بغیر اس شخص کو قتل کر دیا جائے
جب سے حسن بن صباح کا پیر استاد عبدالملک بن عطاش قتل ہوا تھا حسن بن صباح کچھ مغموم سا رہنے لگا تھا شاید وہ تنہای محسوس کر رہا تھا وسم کوہ سے بھاگ کر آنے والا آدمی حسن بن صباح کو ساری بات سنا چکا تو حسن بن صباح کو اپنا پیر و مرشد بہت یاد آیا اس پر کبھی کوئی مشکل آ پڑتی تو وہ اپنے مرشد کی طرف قاصد بھیج کر مشورہ لے لیتا یا اسے اپنے ہاں بلا لیتا تھا اب وسم کوہ کی یہ خبر سن کر اسے اپنا پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش یاد آیا لیکن اب اسے اپنے مرشد سے زیادہ خزانہ یاد آیا جسے نکلوانے کے لیے اس نے قاصد کو حاذق کے پاس بھیجا تھا اور حاذق نے قاصد کو یقین دلایا تھا کہ وہ کچھ دنوں بعد وہ خزانہ امام حسن بن صباح کے قدموں میں لا رکھے گا بہت دن گزر گئے تھے شاہ در سے حاذق نے کوئی اطلاع نہیں بھیجی تھی کہ اس نے خزانہ نکال لیا ہے یا نہیں اسے یہ خیال آ رہا تھا کہ خزانہ حاذق نکال چکا ہوتا تو اب تک وہ الموت پہنچ گیا ہوتا حاذق نے خزانہ شاہ در تو نہیں لے جانا تھا
حسن بن صباح کو شک ہونے لگا کہ حاذق دھوکا نہ دے گیا ہو وہ جانتا تھا کہ خزانہ ایسی چیز ہے جو باپ بیٹے کو اور سگے بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے وسم کوہ وہاں سے بھاگا ہوا آدمی ابھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا حسن بن صباح کے دو تین مصاحبین بھی وہاں موجود تھے اس نے ان کے ساتھ شاہ در کے خزانے کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ خزانہ مرشد عبدالملک بن عطاش چھپا گیا تھا اور دو آدمی اس خزانے کی اصل جگہ سے واقف تھے اور اس جگہ تک پہنچنے کا راستہ صرف ان دو کو معلوم تھا لیکن ابھی تک وہ دونوں نہیں پہنچے
یا امام! ایک مصاحب نے کہا زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ خزانے کا معاملہ ہے اس آدمی کو ایک بار پھر شاہ در بھیجیں اور وہ حاذق سے مل کر واپس آئے اور بتائے کہ وہ کیا کر رہا ہے ہوسکتا ہے حاذق وہاں موجود ہی نہ ہو اگر وہ شاہ در سے جاچکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خزانہ نکال کر کہیں غائب ہو گیا ہے یا وہ زندہ ہی نہیں
ہمارا آدمی شاہ در تک ہی جا سکتا ہے حسن بن صباح نے کہا یہ تو ہم میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ خزانہ ہے کہاں
مجھے معلوم ہے یا شیخ الجبل! وسم کوہ سے بھاگ کر جانے والے آدمی نے کہا آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میں نے ایک لمبا عرصہ شاہ در میں گزارا ہے اور میں حاذق کے ساتھ رہا ہوں اور ہمارے پیر استاد عبدالملک بن عطاش مجھ پر پورا اعتماد رکھتے تھے کیا یہ بہتر نہیں کہ میں شاہ در چلا جاؤں؟
حسن بن صباح تو خوشی سے اچھل پڑا اسے تو توقع ہی نہیں تھی کہ کوئی اور بھی اس خزانے سے واقف ہو گا جو اس کا پیرومرشد نہ جانے کتنے عرصے سے کہیں رکھ رہا تھا اس نے اس آدمی سے کہا وہ فوراً شاہ در کو روانہ ہو جائے
یا شیخ الجبل! ایک اور مصاحب نے کہا اگر یہ شخص خزانے والی جگہ سے واقف ہے تو اس کے ساتھ دو تین آدمی بھیج دیئے جائیں اگر حاذق شاہ در میں نہ ملے تو یہ شخص خزانے والی جگہ چلا جائے اور دیکھے وہاں کچھ ہے بھی یا نہیں اگر حاذق بھی نہیں اور خزانہ بھی نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ یہ مال و دولت حاذق لے اڑا ہے
حسن بن صباح نے اسی وقت یہ انتظام کرنے کا حکم دے دیا اس نے دوسرا حکم یہ دیا کہ خزانہ اگر حاذق نے نکال لیا ہے تو وہ جہاں کہیں نظر آئے اسے قتل کردیا جائے باطنیوں اور خصوصاً فدائیوں کے لیے اپنے دشمن کو ڈھونڈ نکالنا کوئی مشکل کام نہیں تھا وسم کوہ سے بھاگ کر آنے والا یہ جوانسال آدمی جس کا نام حیدر بصری تھا دو روز بعد دو آدمیوں کو ساتھ لے کر شاہ در کے لئے روانہ ہو گیا
سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت مرو میں فوجی سرگرمیاں عروج کو پہنچی ہوئی تھیں حسن بن صباح کی طاقت کو کچلنے کے لیے ایک فوج تیار ہو رہی تھی لوگ اس فوج میں شامل ہو رہے تھے اور انہیں جنگ کی تربیت دی جا رہی تھی اب اس فوج کا ہدف قلعہ الموت تھا سب جانتے تھے کہ الموت کو فتح کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور ہے فوج کو ذہن نشین کرایا جارہا تھا کہ قلعہ الموت کی ساخت کیسی ہے اور شکل و صورت کیسی ہے اور وہ کس طرح ایک چٹان پر بنایا گیا ہے اور اس کے دروازے تک پہنچنے میں کیسی کیسی دشواریاں اور خطرے حائل ہیں
یہ حکم تو سلطان محمد کا تھا کہ ایسی فوج تیار کی جائے جس کی نفری کم نہ ہو اور اگر کم ہو بھی تو اس میں ایسا جذبہ اور ایسی اہلیت اور صلاحیت ہو کہ اگلی جنگ کو فیصلہ کن بنا سکے اور اس کے بعد باطنی فرقے کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہو لیکن سلطان محمد ضرورت سے زیادہ محتاط تھا وہ ابھی اس فوج کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا سلطان محمد کا وزیر ابونصر احمد تھا ابونصر احمد سلطان محمد کے باپ سلطان ملک شاہ کے وزیر خواجہ حسن طوسی نظام الملک مرحوم کا چھوٹا بیٹا تھا ابو نصر احمد اپنی نگرانی میں یہ فوج تیار کروا رہا تھا اور وہ اس کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن تھا اس معاملے میں وہ سلطان محمد سے اتفاق نہیں کرتا تھا اس کا ارادہ یہ تھا کہ الموت پر فوراً حملہ کردیا جائے تاکہ حسن بن صباح کو مزید تیاری کا موقع نہ ملے
سلطان محمد اسے ابھی حملے کی اجازت نہیں دے رہا تھا لیکن ابو نصر احمد کا باطنیوں کے خلاف جذبہ بڑا ہی شدید تھا اور کبھی کبھی تو وہ جذباتی بھی ہو جایا کرتا تھا ایک تو مسلمان کی حیثیت سے وہ حسن بن صباح کو ابلیس کہتا ہے اور اس سے شدید نفرت کرتا تھا اور اس کے ساتھ ابونصر احمد حسن بن صباح کو اپنا ذاتی دشمن بھی سمجھتا تھا پہلے یہ سنایا جاچکا ہے کہ ابو نصر احمد کے باپ نظام الملک مرحوم کو حسن بن صباح کے ایک فدائی نے قتل کیا تھا پھر ابو نصر احمد کا بڑا بھائی ابو المظفر علی وزیر بنا تو اسے بھی ایک فدائی نے قتل کر دیا تھا ابونصر احمد اپنے باپ اور اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کو بے تاب تھا
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ ابو نصر احمد کی یہ ایک خامی تھی کہ وہ جذبے میں جذبات کو شامل کر لیتا تھا اور پھر بھول جاتا تھا کہ جنگ میں کچھ احتیاط بھی لازمی ہوتی ہے
اب ابونصر احمد کو خبر ملی کہ وسم کوہ میں دو باطنی صراط مستقیم پر آکر حسن بن صباح کے دو فدائی صراط مستقیم پر آکر حسن بن صباح سے متنفر ہو گئے ہیں تو وہ اپنے کسی خیال کے پیش نظر وسم کوہ جانے کے لیے بے تاب ہو گیا اس نے سلطان محمد سے اجازت چاہی اور ساتھ یہ وجہ بتائی کہ وہ ان دونوں فدائیوں سے قلعہ الموت کے اندر کی باتیں معلوم کرے گا جو حملے میں ہمارے کام آئیں گی سلطان محمد نے اسے اجازت دے دی
ایک روز ابو نصر احمد محافظ دستے کے آٹھ گھوڑ سواروں کے ساتھ وسم کوہ روانہ ہوگیا اس کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی اس مسافت کو کم کرنے کے لیے اس نے گھوڑوں کی رفتار تیز رکھی اور اپنے محافظوں سے کہا کہ شام سے پہلے کہیں پڑاؤ نہیں کیا جائے گا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:48 }
ایک روز ابو نصر احمد محافظ دستے کے آٹھ گھوڑ سواروں کے ساتھ وسم کوہ روانہ ہوگیا اس کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی اس مسافت کو کم کرنے کے لیے اس نے گھوڑوں کی رفتار تیز رکھی اور اپنے محافظوں سے کہا کہ شام سے پہلے کہیں پڑاؤ نہیں کیا جائے گا گھوڑے دن بھر چلتے رہے اور شام کو پہلا پڑاؤ کیا گھوڑوں کو کھلایا پلایا گیا اور خود بھی کھا پی کر تھوڑا سا آرام کیا اور آدھی رات سے کچھ بعد ابونصر احمد نے روانگی کا حکم دیدیا اس طرح اگلے روز کے پچھلے پہر یہ قافلہ وسم کوہ پہنچ گیا
سالار اوریزی ابو نصر احمد کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا وہ بھی ابونصر احمد کا ہم خیال تھا اور چاہتا تھا کہ الموت پر فوراً حملہ کیا جائے لیکن دونوں مجبور تھے کیونکہ سلطان اجازت نہیں دے رہا تھا رات کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی ابونصر احمد کے کہنے پر سالار اوریزی نے ابن مسعود کو بلایا اور اس کا تعارف ابو نصر احمد سے کروایا
سالار اوریزی نے ابن مسعود کے جذبات اور باقی ساری باتیں ابونصر احمد کو سنائیں ابو نصر احمد نے بے تحاشا خراج تحسین پیش کیا اور اسے کہا کہ وہ اسے اپنی فوج میں بڑا عہدہ دے گا
مجھے کسی چھوٹے بڑے عہدے کی خواہش نہیں ابن مسعود نے کہا قابل احترام سالار اوریزی نے آپ کو بتا دیا ہے کہ میرا عزم کیا ہے اور میرے سینے میں کیسی آگ بھڑک رہی ہے میں حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کروں گا اور اپنی بہن کو واپس لاؤں گا
کیا تمہاری بہن تمہارے کہنے پر تمہارے ساتھ آ جائے گی؟
ابو نصر احمد نے پوچھا
نہیں! ابن مسعود نے جواب دیا میں تو نشے کی کیفیت سے نکل کر ہوش و حواس میں آگیا ہوں لیکن میری بہن اسی کیفیت میں ہوگی جس میں اسے رکھا جاتا ہے وہ تو مجھے پہچانے گی ہی نہیں اگر پہچان بھی لے گی تو مجھے اپنا بھائی تسلیم نہیں کرے گی اسے اٹھا کر لانا پڑے گا
یہ کام اکیلے نہیں کر سکو گے ابو نصر احمد نے کہا یہ ایک فوج کا کام ہے اور فوج بھی ایسی جو بہت ہی طاقتور ہو میں نے ایسی فوج تیار کرلی ہے میں تمہیں اس فوج کے ساتھ لے جاؤں گا اور تم میری رہنمائی کرو گے مجھے یہ بتاؤ کہ قلعے کا محاصرہ کر کے ہم قلعے میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں اور جب داخل ہو جائیں گے تو اندر ہمارا کیسا مقابلہ ہوگا
اصل مقابلہ تو اندر ہوگا ابن مسعود نے کہا اگر میں یہ کہوں کہ الموت میں داخل ہونا ناممکن ہے تو آپ شاید تسلیم نہ کریں الموت ایک قلعی بند شہر ہے جو ایک چٹان پر کھڑا ہے اگر آپ نے یہ باہر سے دیکھا ہے تو آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ محاصرہ کیسے کریں گے محاصرہ چٹان کے نیچے ہو گا جس سے اندر والوں کو یہ تکلیف پہنچا سکیں گے کہ باہر سے رسد اندر نہیں جا سکے گی اور اندر سے کوئی باہر نہ آ سکے گا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ چٹان کے دامن میں کھڑے ہو کر تیر پھینکیں اور وہ قلعے کی دیواروں تک پہنچ جائیں
دروازے کیسے ہیں؟
ابو نصر احمد نے پوچھا
بہت مضبوط! ابن مسعود نے جواب دیا چٹانوں جیسے مضبوط بڑی موٹی لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور ان پر لوہے کے خول چڑھے ہوئے ہیں قابل صد احترام وزیر! الموت قدرت کا ایک شاہکار ہے یا اسے ایک عجوبہ سمجھیں یقین نہیں آتا کہ یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر ہوا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ چٹان کا ایک حصہ ہے اور اسے قدرت نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے آپ حسن بن صباح کی دانش اور عقل تک نہیں پہنچ سکتے محاصرے میں نقصان آپ کا ہوگا وہ اس طرح کے اوپر سے جو تیر نیچے آئیں گے وہ خطا نہیں جائیں گے
قلعے میں داخل ہونے کی ایک ہی صورت ہے سالار اوریزی نے کہا اندر کچھ آدمی ہوں جو حسن بن صباح کے مخالف اور ہمارے حامی ہوں وہ اندر سے دروازے کھول دیں یا ایک ہی دروازہ کھول دیں
الموت کے اندر آپ کو کوئی ایک بھی انسان حسن بن صباح کا مخالف نہیں ملے گا ابن مسعود نے کہا وہ تو آپ کے مقابلوں میں جانوں کی بازی لگا دیں گے آپ کو کوئی غدار نہیں ملے گا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ابھی سے کچھ آدمی باطنیوں کے بہروپ میں الموت میں داخل کر دیں یہ آدمی یہ ظاہر کرتے رہیں گے کہ وہ حسن بن صباح کے مرید یا پیروکار ہی نہیں بلکہ اس کے شیدائی ہیں لیکن محترم سالار آپ کسی پتھر دل آدمی کو بھی اندر بھیج دیں تو وہ چند دنوں کے اندر ہی اندر آپ کا آدمی نہیں رہے گا الموت میں ایسے آدمی موجود ہیں جو کسی مشکوک کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے انھوں نے اس شخص کا ضمیر اور اس کی روح بھی دیکھ لی ہو اسے وہ قتل نہیں کرتے بلکہ جنت میں داخل کر دیتے ہیں پھر وہ خدا کو بھی بھول جاتا ہے اور جب وہ باہر نکلے گا تو اس عزم کے ساتھ نکلے گا کہ آپ کو قتل کردے
تم نے الموت میں تیس سال گزارے ہیں ابو نصر احمد نے کہا کیا تم کوئی طریقہ نہیں سوچ سکتے ہمارے پاس ایسے جاں باز موجود ہیں جو اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن صرف جان قربان کردینے سے ہی کچھ حاصل نہیں ہوا کرتا اپنا مقصد پورا ہو جائے اور جان چلی جائے تو ہم لوگ کہتے ہیں کہ شہیدوں کا لہو رنگ لایا کرتا ہے
میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ اندر کیا ہے اور یہ قلعہ کس قام کا ہے ابن مسعود نے کہا آپ کی فوج قلعے میں داخل ہو بھی گئی تو اصل لڑائی قلعے کے اندر ہوگی عموماً یوں ہوتا ہے کہ فاتح فوج قلعے میں داخل ہوتی ہے تو قلعے کی فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے یا شہر کی آبادی اپنی فوج کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ فاتح فوج شہر کو تباہ کر دے گی لیکن الموت میں معاملہ الٹ ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی فوج کو اندر کھینچنے کے لیے خود ہی دروازے کھول دیئے جائیں گے اور آپ اس خوش فہمی میں اندر چلے جائیں کہ آپ نے قلعہ سر کرلیا تو یہ ایک بڑا ہی خطرناک پھندہ ہوگا جس میں آپ کی فوج پھنسا کر تباہ و برباد کر دی جائے گی قلعے کے اندر آپ کو بھول بھلیاں ملیں گی ان میں سے وہی گزر سکتا ہے جو ان سے واقف ہو اجنبی ان بھول بھلیوں میں بھٹک جاتے ہیں قلعے اور شہر کے نیچے چٹان کاٹ کاٹ کر وسیع تہہ خانے بنے ہوئے ہیں اور ان میں جو بھی راستے ہیں وہ بھول بھلیوں جیسے ہیں اندر جاکر آپ کی فوج بکھر جائے گی یا فرد فرد بکھر جائیگی پھر فدائی اور دوسرے باطنی آپ کی فوج کو کاٹ دیں گے
ابن مسعود اچھا خاصا تجربے کار اور ہوشمند معلوم ہوتا تھا وہ ہر بات جنگی نقطہ نگاہ سے کر رہا تھا ابو نصر احمد اور سالار اوریزی اس سے جو تفصیلات معلوم کر رہے تھے وہ سب جنگی نوعیت کی تھی وہ سالاروں کی نگاہ سے الموت کے اندرونی ماحول کو دیکھ رہے تھے
مگرمچھ بڑا ہی خوفناک جانور ہوتا ہے ابن مسعود نے کہا جانور نہیں میں تو اسے درندہ کہوں گا اس پر نہ تیر اثر کرتا ہے نہ برچھی نہ تلوار لیکن اسکا بھی ایک نازک حصہ ہوتا ہے اور وہ ہے اس کا پیٹ وہاں ذرا سا چاقو مارو تو مگرمچھ بھی بس ہو جاتا ہے اسی طرح قلعہ الموت ایک پہاڑ نظر آتا ہے جسے زلزلے کے شدید جھٹکے بھی راستے سے نہیں ہٹا سکتے لیکن اس میں بھی ایک دو کمزوریاں ہیں ایک کمزوری اس شہر کی آبادی ہے یہ لوگ آپ کی فوج کے خلاف لڑیں گے لیکن جلدی حوصلہ ہار جائیں گے اصل لڑنے والے فدائی ہیں جن کی تعداد ہزار ہا ہے اور وہ پورا ایک لشکر ہے لیکن یہ لشکر پراسرار قتل اور خودکشی میں مہارت رکھتا ہے یا چھوری چاقو چلا سکتا ہے ان لوگوں کو امام نے حکم دے رکھا ہے کہ ہتھیار ڈالنے یا پکڑے جانے سے بہتر یہ ہے کہ خود کشی کر لو یہ لوگ جانوں کی بازی لگا کر آپ کا مقابلہ کریں گے لیکن جوں ہی دیکھیں گے کہ مقابلہ آسان نہیں تو اپنی تلوار اور خنجر اپنے ہی جسموں میں اتار لیں گے لیکن یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب آپ کی فوج بھی اس طرح جانوں کی بازی لگا کر یا یوں کہیں کی دیوانگی کے عالم میں لڑے گی اور ان لوگوں پر غالب آجائے گی
اب میں آپ کو الموت کا وہ پیٹ دکھاتا ہوں جو مگرمچھ کی طرح بہت ہی نازک ہے وہاں آپ چاقو کی نوک سے کھال چیر کر اسے بے بس بھی کر سکتے ہیں اور اس میں داخل بھی ہو سکتے ہیں یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ الموت کی تین اطراف دریا بہتا ہے اس کے پچھلے حصے میں جو چٹان ہے اس کے نیچے دامن میں ایک دروازہ چٹان کاٹ کاٹ کر بنایا گیا ہے وہاں سے دریا چٹان کے ساتھ ٹکرا کر گزرتا ہے یہ دروازہ جو ایک غار کے دہانے جیسا ہے تقریباً آدھا دریا میں ڈوبا رہتا ہے اندر کی طرف بڑا ہی مضبوط دروازہ لگایا گیا ہے جو اندر سے مقفل رہتا ہے دریا کا پانی اس دروازے تک آ جاتا ہے اور اگر دروازہ کھولا جائے تو پانی اور اندر آ جاتا ہے لیکن آگے راستہ دریا کی سطح سے اونچا بنایا گیا ہے اس لئے پانی آگے تک نہیں آ سکتا اس دروازے تک پہرا بھی ہوتا ہے لیکن بہت اندر کی طرف سنتری گشت کرتا ہے یہ قلعے کا تہہ خانہ ہے جس میں اترو تو آگے بھول بھلیاں آ جاتی ہیں ان میں سے وہی اس دروازے پر پہنچ سکتا ہے جو ان بھول بھلیوں سے واقف ہو
یہ دروازہ کس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے؟
ابو نصر احمد نے کہا
نکل بھاگنے کے لیے ابن مسعود نے کہا میں فدائیوں کے اس درجے تک پہنچ گیا تھا جس درجے کے ہر فدائی کو قلعے کے بہت سے راز بتا دیے جاتے ہیں میں نے یہ ساری بھول بھلیاں اور یہ راستے دیکھے ہوئے ہیں دریا کی طرف یہ چور دروازہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ قلعہ کوئی طاقتور فوج فتح کرلے تو حسن بن صباح اور اس کے قریبی مصاحب مشیروں وغیرہ اس دروازے سے بھاگ نکلیں دروازے سے کچھ دور کشتیاں ہر وقت تیار رہتی ہیں کوئی مان ہی نہیں سکتا کہ دریا میں دروازہ بھی ہوگا اندر سے اس دروازے تک جو راستہ جاتا ہے وہ ایسی بھول بھلیوں میں سے گزر کر جاتا ہے کہ کوئی بھولے بھٹکے بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا میں پہنچ سکتا ہوں
بس اتنا کافی ہے ابو نصر احمد نے کہا میں جو معلوم کرنا چاہتا تھا وہ تم نے زیادہ ہی تفصیل سے بیان کردیا ہے جس کی مجھے توقع نہیں تھی مجھے ایسے ہی ایک آدمی کی ضرورت تھی جو الموت کے اندر چلا جائے اور دروازہ کھولے یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہاں کوئی چور دروازہ بھی ہے وہ تم نے بتا دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ صرف تم اس دروازے تک پہنچ سکتے ہو اب تم بتاؤ کہ الموت کو محاصرے میں لیں تو کیا تم اندر جاکر وہ دروازہ کھول سکتے ہو؟
ایک بات آپ بھول گئے محترم وزیر! سالار اوریزی نے کہا پہلا کام تو یہ ہے کہ یہ یا کوئی اور قلعے میں داخل ہو سوال یہ ہے کہ وہ داخل کس طرح ہوگا؟
وہ میں ہوں گا ابن مسعود نے کہا یہ خبر حسن بن صباح تک پہنچ چکی ہوگی کہ میں نے وسم کوہ میں تمام باطنیوں کی نشاندہی کرکے سب کو مروا دیا ہے ان میں سے ایک بھاگ گیا تھا وہ یقین حیدر بصری تھا میں الموت چلا جاؤں گا اور حسن بن صباح سے کہوں گا کہ ان باطنیوں کو پکڑوانے اورمروانے والا یہی حیدر بصری تھا اور میں تو سلجوقیوں کا قیدی بن گیا تھا اور انہوں نے مجھ پر اتنا تشدد کیا کہ میرے تو ہوش بھی ٹھکانے نہیں رہے اور اب میں فرار ہو کر آیا ہوں
ہم تمہیں ایسے خطرے میں بھی نہیں ڈالنا چاہتے ابونصر احمد نے کہا حسن بن صباح استادوں کا استاد ہے وہ تمہاری بات کو سچ مانے گا ہی نہیں
یہ آپ مجھ پر چھوڑیں ابن مسعود نے کہا جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح فریبکار ہی فریب کار کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا ڈھونگ رچاؤں گا یہ تو ابھی سوچنا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ میں حسن بن صباح کو دھوکا دے سکوں گا
سب دیکھ رہے تھے کہ ابن مسعود حسن بن صباح اور اس کے فرقے کے خلاف اس قدر بھپرا اور بھڑکا ہوا تھا کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس قسم کے خطرے مول لینے کو بھی تیار ہوگیا تھا کہ وہ الموت جاکر حسن بن صباح جیسے ابلیس کو دھوکہ دے گا اور پھر اس کے بعد چور دروازہ بھی کھول دے گا بہرحال سالار اوریزی اور ابو نصر احمد کو یہ کاوش نہ کرنی پڑی کہ وہ ابن مسعود کو دلائل دے کر یا کسی اور طریقے سے الموت جانے کے لیے تیار کرتے وہ خود ہی تیار ہو گیا تھا اب سوال یہ سامنے آیا کہ ابن مسعود کب جائے اور اسے کس طرح بھیجا جائے اور اسے کس طرح اندر اطلاع بھیجی جائے کہ اب وہ دریا والا دروازہ کھول دے
اس سوال پر جب بات شروع ہوئی تو مشکل یہ سامنے آئی کہ سلطان محمد کو کس طرح راضی کیا جائے کہ وہ الموت پر حملے کی اجازت دے دے ابونصر احمد کہتا تھا کہ فوج بالکل تیار ہے سالار اوریزی ابونصر احمد کا ہم خیال تھا آخر طے یہ پایا کہ جب فوج مرو سے کوچ کرے گی تو پانچ سات روز پہلے وسم کوہ ابن مسعود کو اطلاع بھجوا دی جائے گی کہ اب وہ الموت چلا جائے الموت کو محاصرے میں لے لیا جائے گا تو ابن مسعود اگر حسن بن صباح کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا تو وہ کسی رات شہر کی دیوار سے مشعل ہلائے گا جو یہ اشارہ ہوگا کہ اس نے دروازہ کھول دیا ہے اور پھر ابو نصر احمد کچھ جانبازوں کو دریا کی طرف سے قلعے میں داخل کر دے گا اور وہ کام کر لیں گے
نہیں قابل احترام وزیر! ابن مسعود نے کہا مجھے اتنا انتظار نہیں کرنا چاہیے بہتر یہ ہے کہ میں کل صبح روانہ ہو جاؤں گا اور اپنا کھیلوں گا اگر میں کامیاب ہوگیا تو مجھے خاصا وقت چاہیے کہ میں ان راستوں سے اور زیادہ واقف ہو جاؤں اور ان راستوں کے سنتریوں کے ساتھ بھی علیک سلیک ہو جائے اور انہیں یہ تاثر ملے کہ میں اس طرف امام کی اجازت یا حکم سے آتا جاتا رہتا ہوں آپ جب کبھی الموت کو محاصرے میں لے لیں گے تو میں دریائی دروازہ کھول کر مشعل سے آپ کو اشارہ دے دوں گا
وزیر نصراحمد اور سالار اوریزی ابن مسعود کی اس تجویز سے متفق ہوگئے اور اسے کہہ دیا کہ وہ اگلی صبح جس حلئیے اور جس حالت میں جانا چاہتا ہے روانہ ہو جائے
اگلے روز ابونصر احمد مرو کو واپسی سفر پر روانہ ہوا تو سالار اوریزی بھی اس کے ساتھ تھا ابو نصر احمد نے ہی سالار اوریزی سے کہا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے اور دونوں مل کر سلطان محمد کو قائل کریں گے کہ وہ فوری طور پر حملے کی اجازت دے دیں
تقریباً تین دنوں کی مسافت کے بعد دونوں مرو پہنچے اور اگلے روز دونوں سلطان محمد کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے سلطان محمد کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح انہوں نے الموت کے اندرونی ساخت اور دیگر احوال وکوائف کے متعلق کتنی قیمتی معلومات حاصل کرلی ہیں اور جس شخص نے یہ معلومات دی ہے وہ محاصرے سے پہلے الموت میں داخل ہو چکا ہو گا دونوں نے سلطان محمد کو ابن مسعود کی ساری باتیں سنائی اور کہا کہ انہیں حملے کی اجازت دی جائے
بہت دیر بعد تبادلہ خیالات اور بحث مباحثہ ہوتا رہا اور آخر سلطان محمد نے ابو نصر احمد کو الموت پر حملے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ کوچ ایک مہینے بعد ہوگا اور اس ایک مہینے میں فوج کو دن رات تیاری کروائی جائے گی سلطان محمد نے دوسری بات یہ کہی کہ اس حملے میں سالار اوریزی شامل نہیں ہوگا بلکہ وہ واپس وسم کوہ جاکر اپنی فوج تیار کرے گا اور ابو نصر احمد کو جتنی بھی کمک کی ضرورت ہوگی وہ سالار اوریزی وسم کوہ سے بھیجتا رہے گا
اس وقت جب ابو نصر احمد اور سالار اوریزی مرو میں سلطان محمد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے الموت میں حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی کہ وسم کوہ سے ایک فدائی جو اپنا نام ابن مسعود بتاتا ہے بڑی بری حالت میں آیا ہے اور شرف ملاقات کا متمنی ہے حسن بن صباح کسی فدائی کو نہیں ٹالا کرتا تھا اس نے ابن مسعود کو بلایا
ابن مسعود جب حسن بن صباح کے سامنے گیا تو رک گیا اس کی حالت بہت ہی بری تھی کپڑے انتہائی میلے اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے وہ ننگے پاؤں تھا اس کے ایک پاؤں سے تھوڑا تھوڑا خون نکل رہا تھا اس کے سر کے بال مٹی سے اٹے ہوئے تھے اس کے جسم سے بدبو آتی تھی
وہ حسن بن صباح کے کمرے میں داخل ہوا تو صاف نظر آتا تھا کہ اس کی ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہیں وہ پاؤں گھسیٹ رہا تھا وہ رکا اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوئیں پھر اس کا سر ڈولا اور وہ اس طرح گرا کے پہلے اس کے گھٹنے فرش پر لگے پھر پہلو کو لڑھک گیا حسن بن صباح نے کہا اسے طبیب کے پاس لے جایا جائے اور وہ اس کا علاج معالجہ کرے اور اسے کچھ کھلایا پلایا بھی جائے
یہ کون ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا مجھے اس کا نام ابن مسعود بتایا گیا ہے اور یہ وسم کوہ سے آیا ہے کیا یہ وہی ابن مسعود نہیں جس کے متعلق حیدر بصری نے یہاں آکر بتایا تھا کہ ابن مسعود نے وہاں تمام فدائیوں کو پکڑوا دیا تھا اور ان سب نے اپنی جانیں اپنے ہاتھوں لے لی ہیں؟
حسن بن صباح کو بتایا گیا کہ یہ وہی ابن مسعود ہے حسن بن صباح کچھ حیران ہوا کہ اس نے اگر وسم کوہ میں اپنے ساتھیوں کو پکڑوا دیا تھا تو اسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا اور سلجوقی ایسے تو بے مروت نہیں کہ اسے انعام و اکرام نہ دیتے اور اس حالت میں اسے چھوڑ دیتے حسن بن صباح کے مشیروں نے کہا کہ ان سوالوں کے جواب یہی شخص دے سکتا ہے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا چاہیے
حیدر بصری کو حسن بن صباح نے اس کام کے لیے شاہ در کے لئے روانہ کر دیا تھا کہ وہ حاذق سے ملے اور اس سے پوچھے کہ اس نے ابھی تک خزانہ الموت کیوں نہیں پہنچایا حیدر بصری کے ذمے یہ کام بھی تھا کہ حاذق اگر شاہ در سے غیر حاضر ہے تو حیدر بصری اسے ڈھونڈے اور اگر وہ نہ ملے تو حیدر بصری اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اس جگہ چلا جائے جہاں خزانہ رکھا ہے اور وہاں سے اٹھا کر الموت پہنچا دے حیدر بصری نے حسن بن صباح کو بتایا تھا کہ اسے معلوم ہے وہ خزانہ کہاں ہے اور وہاں سے کس طرح نکالا جا سکتا ہے
ابن مسعود کو رات بہت دیر بعد ہوش میں آیا اسےنہلایا گیا صاف ستھرے کپڑے پہنائے گئے اور پھر اسے کچھ کھلایا پلایا گیا طبیب نے اسے سلا دیا تاکہ اس کی کمزوری کم ہو جائے اور پھر یہ غشی میں نہ چلا جائے
اگلی صبح اسے حسن بن صباح کے پاس لے گئے حسن بن صباح اس کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا وہ جانتا تھا کہ وسم کوہ میں یہ انقلاب کس طرح آیا ہے حیدر بصری نے اسے بتایا تو تھا لیکن ابن مسعود کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہونے لگا اور وہ ابن مسعود سے وسم کوہ کی ورادات سننے کو بے تاب تھا
ابن مسعود کو جب حسن بن صباح کے کمرے میں داخل کیا گیا تو اس سے اچھی طرح چلا نہیں جاتا تھا حسن بن صباح نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا کہ وہ اس حالت میں کہاں سے آیا ہے اور اس پر کیا گزری ہے اور وسم کوہ میں کیا ہوا تھا
میں سلجوقیوں کی قید سے فرار ہو کر آیا ہوں یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے لرزتی کانپتی اور قدر نحیف آواز میں کہا وہ ظالم سلجوقی مجھ سے الموت کی باتیں پوچھتے تھے اور یہ بھی پوچھتے تھے کہ یہاں اور کون کون تمہارے فرقے کا آدمی ہے میں انہیں کوئی جواب نہیں دیتا تھا تو وہ مجھے ایسی ایسی اذیتیں دیتے تھے جو شاید ہی کوئی انسان برداشت کر کے زندہ رہ سکتا ہو لیکن میں اپنے شیخ الجبل اور امام کو ذہن میں رکھ لیتا تھا اور میرا جسم ہر اذیت برداشت کر لیتا تھا میں نے انہیں کچھ بھی نہیں بتایا
پھر تمہارے ساتھیوں کی نشاندی کس نے کی تھی؟
حسن بن صباح نے پوچھا تم شاید نہیں جانتے کہ تمہارا ایک ساتھی حیدر بصری یہاں پہنچ گیا ہے اور وہ پوری بات سنا چکا ہے
حیدر بصری! ابن مسعود نے کہا اس نے تو یہاں پہنچ کر اپنے مطلب کی کہانی سنانی ہی تھی میں نہیں جان سکتا نہ جاننا چاہوں گا کہ حیدر بصری نے آپ کو کیا بات سنائی ہے میں یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم سب کو حیدر بصری نے مروایا ہے اس سے پہلے ہمارا ایک فدائی وہاں سالار اوریزی کو قتل کرنے گیا تھا لیکن ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی کے جال میں آ گیا اور اس نے اُن دو آدمیوں کو مروا دیا جنہوں نے اسے آپ کے حکم کے مطابق رکھا تھا سالار اوریزی نے ان دونوں کو گرفتار کرکے سرعام ان کے سر قلم کر دیے ہیں
ابن مسعود نے عبید عربی کا نام اس لیے نہیں لیا تھا کہ وہ اسے کسی مصیبت میں ڈالنا چاہتا تھا بلکہ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ اب یہ باطنی اسے پکڑ کر الموت نہیں لا سکیں گے
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا عبید عربی کی نشاندہی پر حیدر بصری پکڑا گیا ہے حیدر بصری نے یقیناً سلجوقیوں سے منہ مانگا انعام لیا اور ہم سب کو پکڑوا دیا سلجوقیوں نے سب سے پہلے مجھے پکڑا اور پوچھا کہ یہاں باطنی کون کون ہیں میں نے انہیں صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میرے جسم کی بوٹیاں نوچنی شروع کر دو میں اپنے کسی ساتھی کا سراغ نہیں دونگا تب سالار اوریزی نے خود آکر مجھے بتایا کہ تمہارے ایک ساتھی حیدر بصری نے سب کچھ بتا دیا ہے اور اسے اتنا زیادہ انعام دیا گیا ہے جو تم لوگ تصور میں بھی نہیں لا سکتے میں نے کہا کہ تم لوگوں کو ہر باطنی کا پتہ چل گیا ہے تو مجھ سے کیوں پوچھتے ہو یا شیخ الجبل انہوں نے مجھے تو مار ہی ڈالا تھا اور شاید وہ یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ میں اب یہاں سے نکل ہی نہیں سکتا جسمانی طور پر میں بہت ہی کمزور ہو گیا تھا آخر ایک روز مجھے فرار کا موقع مل گیا اور میں وہاں سے نکل آیا امام آپ کے عظیم نام پر میں نے اس جسمانی حالت میں بھوکے پیاسے یہ سفر طے کیا ہے
ابن مسعود کی آواز یوں ڈوبتی چلی جا رہی تھی جیسے وہ ابھی بے ہوش ہوجائے گا وہ ذرا خاموش ہوا اور لمبے لمبے سانس لئے اور پھر کمزور سی آواز میں بولنے لگا
یہاں میں اتنی مسافت پیدل طے کرکے جھوٹ بولنے نہیں آیا یا امام! ابن مسعود نے کہا میں وہیں وسم کوہ میں رہتا تو اپنی جنت کی حوروں جیسی ایک نوجوان لڑکی کا خاوند ہوتا مجھے ایسی دو لڑکیاں یوں دکھائی گئی تھیں کہ انہیں باری باری میرے حوالے کر دیا گیا تھا میرے لیے وہاں شہزادوں جیسی زندگی تھی لیکن میں شیخ الجبل کو جان دے سکتا ہوں دھوکہ نہیں دے سکتا
اگر حیدر بصری کو تمہارے سامنے بٹھا دیا جائے حسن بن صباح نے کہا اور وہ وہی بیان دے جو وہ دے چکا ہے تو تم اسے کس طرح جھٹلاؤ گے؟
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا اس وقت حیدر بصری کو میرے سامنے بیٹھا ہوا ہونا چاہیے تھا آپ اسے بلاتے کیوں نہیں میں تو اس امید پر آیا تھا کہ حیدر بصری کی موجودگی میں یہ سارا بیان دوں گا
وہ شاہ در چلا گیا ہے حسن بن صباح نے کہا اسے آ لینے دو تمہیں ایک بار پھر حیدر بصری کی موجودگی میں یہ بیان دینا پڑے گا
میری ایک التجا ہے یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا آپ اسے یہاں فوراً بلوا لیں میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میرے جسم پر آپ کو کوئی زخم یا کوئی چوٹ نظر آئے گی لیکن آپ کی آنکھ میرے جسم کے اندر دیکھ سکتی ہے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ میں زندہ کس طرح ہوں میرے جسم کے اندر اتنی چوٹیں ہیں کہ میں شاید جانبر نہیں ہو سکوں گا میں مرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ یقین ہوجائے کہ میں سچا اور حیدر بصری جھوٹا اور دھوکے باز ہے
حسن بن صباح کو جیسے یقین ہونے لگا کہ ابن مسعود جھوٹ نہیں بول رہا لیکن حیدر بصری کو اس نے شاہ در بھیج دیا تھا حسن بن صباح نے اپنے دو مشیروں سے بات کی کہ حیدر بصری کب تک واپس آ سکتا ہے مشیروں نے کچھ باتیں کچھ مشورے دیے اور حسن بن صباح کچھ دیر ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ وہ تو خزانہ لانے گیا ہے اسے ابھی واپس نہ بلوایا جائے تو ٹھیک ہے
کیسا خزانہ؟
ابن مسعود نے بیدار ہوتے ہوئے بلکہ چونک کر پوچھا کونسا خزانہ؟
اگر آپ نے اسے کہیں سے خزانہ یا کوئی قیمتی مال لانے کے لئے بھیج دیا ہے تو پھر یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ واپس آ جائے گا آپ ایک بڑے زہریلے سانپ کو اعتماد میں لے رہے ہیں اس کے پیچھے کچھ آدمی بھیجیں جو اسے پکڑ کر لے آئے کوشش کریں کہ وہ خزانے تک نہ پہنچ سکے
ابن مسعود کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ خزانے کا معاملہ کیا ہے شاہ در سے دور جھیل میں سے جو خزانہ حاذق نکالنے گیا تھا اس کے متعلق ابن مسعود کو کچھ بھی معلوم نہ تھا پھر بھی وہ دماغ لڑا لڑا کر بات کر رہا تھا اور اس کی ہر بات اب قیاس آرائیوں سے تعلق رکھتی تھیں وہ اسی حسن بن صباح کا تربیت یافتہ تھا اسی شیخ الجبل اور امام نے اسے بدی اورابلیسیت کے راستے پر ڈالا تھا اس نے بہت حد تک حسن بن صباح کو متاثر کرلیا تھا اس کے بولنے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابن مسعود کو کو سچا سمجھنے لگا ہے اس نے یہ فیصلہ سنایا کہ ابن مسعود کو حیدر بصری کی واپسی تک قید میں نہ ڈالا جائے بلکہ اپنی نگرانی میں رکھا جائے اور یہ پابندی عائد کردی جائے کہ یہ قلعے سے باہر نہ جائے
اس وقت حیدر بصری اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ شاہ در میں اپنے باطنی ساتھیوں کے یہاں بیٹھا ہوا تھا اس نے حسن بن صباح سے یہ تو کہہ دیا تھا کہ وہ عبدالملک بن عطاش کے خزانے والی جگہ سے واقف ہے لیکن شاہ در پہنچ کر اسے خیال آیا کہ اس جگہ تک پہنچنے کا طریقہ اور راستہ تو اسے معلوم ہی نہیں نہ یہ معلوم ہے کہ خزانہ چٹانوں میں کس جگہ رکھا گیا تھا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پریشانی کے عالم میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا
وہ عبدالملک بن عطاش کے عروج کے زمانے میں شاہ در رہ چکا تھا حاذق بھی یہیں تھا حیدر بصری بھی حاذق کے درجے کا فدائ تھا اس لیے وہ عبدالملک بن عطاش کی محفل میں جایا کرتا تھا اور کبھی کوئی راز کی بات ہوتی تو اس میں بھی حیدر بصری کو شامل کیا جاتا تھا لیکن جہاں تک خزانے کا تعلق تھا عبدالملک بن عطاش نے حیدر بصری کو اس سے ناواقف رکھا تھا اسے اس خزانے کا جو پتہ چلا تھا وہ حاذق نے اسے بتایا تھا حاذق کے ساتھ حیدر بصری کی بڑی گہری دوستی تھی جب حاذق نے اسے خزانے کے متعلق بتایا تو اس نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسے شخص کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اب حسن بن صباح نے اس کا براہ راست تعلق پیدا کر دیا اور اسے شاہ در بھیج دیا کہ وہ خزانہ نکال کر لے آئے اور حیدر بصری نے پورے اعتماد کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ لے آئے گا مگر جب تفصیلات جاننے کی ضرورت پڑی تو حیدر بصری کو خیال آیا کہ وہ تو صرف ایک جھیل اور جھیل کے درمیان تھوڑے سے چٹانی علاقے سے آگاہ ہے اور اس سے زیادہ اسے کچھ بھی معلوم نہیں
ایک روز نور کا باپ اکیلا اپنے کھیتوں میں گھوم پھیر رہا تھا نور اپنے گھر میں تھی اچانک دو آدمیوں نے پیچھے سے نور کے باپ کو پکڑ لیا وہ پیچھے مڑا تو دیکھا ان میں ایک حیدر بصری تھا جیسے وہ بڑی اچھی طرح جانتا تھا پہلے سنایا جاچکا ہے کہ نور کا باپ عبدالملک کا خاص معتمد ملازم تھا اس لئے عبدالملک کے پاس جو لوگ آتے جاتے رہتے تھے انہیں نور کا باپ بڑی اچھی طرح جانتا تھا
اوہ حیدر بصری ہو نور کے باپ نے مسرت کے لہجے میں کہا تم پھر آگئے ہو؟
تمہیں مل کر میرا دل خوش ہو گیا ہے لیکن میرے دوست بہت احتیاط سے رہنا سلجوقی سلطان سنجر یہاں موجود ہے اور سلجوقی ذرا سے شک پر بھی باطنیوں کو پکڑ لیتے ہیں
ہمیں دھوکا نہ دے بڈھے! حیدر بصری نے کچھ طنز اور غصے کے لہجے میں کہا مجھے الموت میں معلوم ہو گیا تھا کہ تو نے اور تیری بیٹی نور نے پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش کو دھوکا دیا تھا اور اس کی شکست کا باعث بنے تھے
اور اب یہ سلجوقیوں کا وفادار بن گیا ہوگا حیدر بصری کے ساتھی نے طنزیہ کہا اس کے پاس اتنی خوبصورت لڑکی جو ہے
نور کے باپ نے پراعتماد اور پراثر لہجے میں انہیں بتانا شروع کردیا کہ اس نے کسی کو دھوکا نہیں دیا بلکہ عبدالملک بن عطاش نے یہاں سے جاتے وقت ان کی پروا ہی نہ کی اور باپ بیٹی کو سلجوقی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے گئے اس نے انہیں یہ یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ وہ ابھی تک حسن بن صباح کا پیروکار ہے اور اس نے اپنی بیٹی کسی کے حوالے نہیں کی نہ ہی وہ اسے یہاں کسی سے بیاہے گا
تم نہیں جانتے حیدر بصری! نور کے باپ نے کہا کہ تمہیں دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے میں تم جیسے کسی ساتھی کے انتظار میں تھا کہ وہ مجھے اور میری بیٹی کو الموت پہنچا دے حاذق تھا اسے میں چوری چھپے مل لیا کرتا تھا اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اور میری بیٹی کو الموت لے جائے گا لیکن وہ ایسا گیا کہ وہ واپس ہی نہیں آیا
یہاں نہیں حیدر بصری نے کہا ہمارے ساتھ چلو اور وہاں باتیں ہونگی ہم تمہیں پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ تمہیں ہم نے زندہ چھوڑنا ہی نہیں چونکہ تم ہمارے ساتھی رہے ہو اس لیے تمہیں یہ موقع دیں گے کہ جو کہنا چاہتے ہو کہہ لو
تمہاری جگہ نہیں تم میرے گھر چلو نور کے باپ نے کہا وہاں تمہیں میری بیٹی بھی ملے گی اور پھر میں تمہیں یقین دلاؤں گا کہ میں تمہارا ہی ساتھی ہوں اور یہاں کچھ مجبوری اور زیادہ تر اپنے مقصد کے لئے رکا ہوا ہوں
حیدر بصری اور اس کا ساتھی اس کے ساتھ جانے پر راضی نہیں ہو رہے تھے حیدر بصری نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ وہ انھیں پکڑوا دے گا
تم مجھے یرغمال بنائے رکھو نور کے باپ نے کہا تم دونوں کے پاس خنجر تو ضرور ہوں گے اگر نہیں تو پھر تم فدائی ہو ہی نہیں سکتے تمہیں جہاں تک شک ہو کہ میں نے تمہیں دھوکا دیا ہے اور اب تم پکڑے جاؤں گے تو خنجر میرے سینے میں اتار دینا اور نکل بھاگنا اور نکل نہ سکے تو اپنے آپ کو ختم کرنا تو جانتے ہی ہو میں کہتا ہوں میرے ساتھ چلو
حیدر بصری اور اس کا ساتھی کوئی جاھل اور گنوار تو نہ تھے کہ اس کی باتوں میں آجاتے وہ بھی تجربے کار آدمی تھا اور اتنی زیادہ عمر میں اس نے عملی زندگی کا بہت تجربہ حاصل کر لیا تھا بہت سی بحث اور جھک جھک کے بعد حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو اپنے گھر لے جانے میں کامیاب ہوگیا
نور نے حیدر بصری کو دیکھا تو اسے پہچاننے میں کوئی دشواری محسوس نہ ہوئی نور نے حیدر بصری کو اپنے سابق خاوند عبدالملک بن عطاش کے ساتھ کئی بار دیکھا تھا گھر میں داخل ہوتے ہی نور کے باپ نے نور کو آنکھوں سے ایسا اشارہ دے دیا جو نور سمجھ گئی اور بڑے تپاک سے حیدر بصری سے ملی نور نے بھی ایسی باتیں کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تک باطنی ہے اور حسن بن صباح کو اپنا امام سمجھتی ہے اس نے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کی خوب خاطر تواضع کی
اس دوران حیدر بصری اور اس کا ساتھی نور کے باپ کے ساتھ باتیں کرتے رہے صاف پتہ چلتا تھا کہ انہیں نور کے باپ پر ابھی اعتبار نہیں آیا اور اسے شاہ در کی شکست کا مجرم سمجھ رہے ہیں نور کے باپ نے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کوئی زیادہ باتیں نہ کی اور یہ کہا کہ حاذق یہاں ہوتا تو وہ ثبوت پیش کرتا کہ وہ ابھی تک حسن بن صباح کا مرید ہے یا نہیں یہاں سے حاذق کی بات چلی تو نور کے باپ نے کہا کہ وہ اتنا ہی جانتا ہے کہ حاذق کسی جگہ کی بات کر رہا تھا کہ وہاں پیرومرشد عبدالملک بن عطاش نے خزانہ رکھا تھا
خزانے کی بات شروع ہوئی تو حیدر بصری کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ وہ اسی خزانے کے لیے آیا ہے اور وہ خزانے والی جگہ سے بھی واقف ہے لیکن یہ بھول گیا ہے کہ اس جگہ تک کس طرح پہنچا جا سکتا ہے
نور کے باپ نے حیدر بصری کی یہ بات سنی تو اس کے دماغ میں روشنی چمکی اور اس کے چہرے پر رونق آگئی
اب میں تمہیں یقین دلا سکوں گا کہ میں کس کا وفادار ہوں نور کے باپ نے حیدر بصری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا میں تمہیں وہاں تک لے جاؤں گا اور سیدھا خزانے تک پہنچا دوں گا ظاہر ہے تم لوگ خزانہ نکال کر واپس شاہ در نہیں آؤ گے بلکہ وہیں سے الموت چلے جاؤ گے میں نور کو بھی ساتھ لے جاؤں گا اور تم لوگ خزانے کے ساتھ ہم دونوں کو بھی الموت لے چلنا اس طرح میں اور میری بیٹی سلجوقیوں کی قید سے اور اس پابند زندگی سے آزاد ہو جائیں گے
نور کے باپ نے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو بتایا کہ حاذق کے ساتھ اس کا یارانہ بڑا ہی گہرا اور رازدارانہ تھا حاذق نے اسے خزانے والے راز میں بھی شریک کر رکھا تھا
حیدر بصری نے جب یہ بات سنی تو وہ بھول ہی گیا کہ نور کا باپ مشتبہ اور مشکوک آدمی ہے اس کے ذہن پر تو اس کا شیخ الجبل امام حسن بن صباح سوار تھا اس نے نور کے باپ سے کہا کہ وہ اس خزانے کو نکالنے میں اس کی مدد کرے اور وہ اسے اور اس کی بیٹی کو الموت پہنچا دے گا
ظاہر ہے یہ تفصیلات اور یہ منصوبے کوئی اتنی جلدی طے نہیں ہوئے ہوں گے ہوا یہ کہ نور کے باپ نے کہا کہ وہ ایک اپنے قابل اعتماد آدمی کو بھی ساتھ لے جائے گا اور تمام انتظامات مکمل کر لے گا اس نے یہ بھی کہا کہ اسے باہر نکلنا پڑے گا تاکہ وہ آدمی کو بھی تیار کر لے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو یہ سن کر شک ہوا کہ یہ شخص انہیں پکڑوا دیئے گا حیدر بصری نے یہ شک صاف الفاظ میں ظاہر کر دیا
پھر اس کا مطلب یہ ہو گا نور کے باپ نے کہا کہ تم صرف مجھے اور میری بیٹی کو اپنے ساتھ قیدی بنا کر لے جاؤ گے اور خزانہ تمہارے ساتھ نہیں ہوگا اگر خزانہ چاہتے ہو تو مجھے باہر نکلنے دو یہ ہے میری بیٹی اسے یرغمال بنا کر جہاں جی چاہے لے جاؤ میں دلی طور پر یہ چاہتا ہوں کہ ہم سب الموت اکٹھے جائیں اور خزانہ ہمارے ساتھ ہو اس طرح مجھے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ شیخ الجبل میری نیت پر شک نہیں کرے گا اور اس کے دل سے یہ الزام نکل جائے گا کہ شاہ در کی شکست کا ذمہ دارمیں ہوں
نور کے باپ نے اس مسئلے میں بھی حیدر بصری کو اپنا ہم خیال بنا لیا اور اسے کہا کہ وہ ایک بڑی گھوڑا گاڑی اور تین زندہ بھیڑوں کا انتظام کرلے حیدر بصری نے پوچھا کہ بھیڑوں کو کیا کرنا ہے تو نور کے باپ نے کہا کہ یہ وہاں چل کر بتاؤں گا وہ جب حاذق کے ساتھ خزانے والی جھیل تک جا رہا تھا تو حاذق پانچ بھیڑیں اپنے ساتھ لے گیا تھا نور کے باپ نے اس سے پوچھا تھا کہ بھیڑوں کا کیا استعمال ہوگا تو حاذق نے یہی جواب دیا تھا کہ وہاں چل کر بتاؤں گا
مختصراً یہ واقعہ یوں ہوا کہ حیدر بصری اور اس کا ساتھی گھوڑا گاڑی کا انتظام کرنے چلے گئے اور نور کا باپ یہ بتا کر کہ وہ اپنے آدمی کے پاس جا رہا ہے سلطان سنجر کے وزیر کے پاس چلا گیا اور اسے بتایا کہ دو فدائی اس کے جال میں آگئے ہیں لیکن وہ انہیں پکڑوانا نہیں چاہتا بلکہ بہت برے انجام تک پہنچانا چاہتا ہے اس نے وزیر کو یہ بھی بتایا کہ انہیں حسن بن صباح نے اسی خزانے کے لیے بھیجا ہے جو سلطنت کے سرکاری خزانے میں جمع ہو چکا ہے
وزیر نے اسے اجازت دے دی اور کہا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی بیٹی کو بھی پوری طرح محفوظ رکھے اور کوئی خطرہ مول نہ لے اور اسے جو کچھ بھی چاہیے وہ یہاں سے لے لے
رات کا پہلا پہر گزر گیا تھا شاہ در شہر پر نیند کا غلبہ طاری ہو چکا تھا اس شہر کے مضافات کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک گھوڑا گاڑی نکلی جس کا رخ اس جھیل کی طرف تھا جس کےوسط میں عبدالملک بن عطاش کا خزانہ تھا اور جو اب وہاں نہیں تھا گاڑی کے آگے دو گھوڑے جتے ہوئے تھے اور ان کی بھاگیں نور کے باپ کے ہاتھ میں تھی گاڑی میں نور بھی تھی حیدر بصری اور اس کے دو ساتھی تھے اور ایک آدمی وہ تھا جیسے نور کا باپ اپنے ساتھ لایا تھا گاڑی میں تین بھیڑیں بھی تھیں نور کا باپ راستے سے اچھی طرح واقف تھا اس راستے پر وہ جا بھی چکا تھا اور واپس بھی آ چکا تھا
شہر سے کچھ دور جا کر نور کے باپ نے گھوڑوں کی رفتار تیز کر دی وہ اس کوشش میں تھا کہ صبح طلوع ہونے تک وہ آبادیوں سے دور جنگل بیابان میں جا پہنچے اس نے سب کو بتا دیا تھا کہ پوری رات گاڑی چلتی رہے گی اور صبح کے وقت کہیں رکیں گے
صبح طلوع ہوئی تو وہ ایک ایسے جنگل بیابان میں پہنچ چکے تھے جس کے پیڑ پودوں کے لئے انسان ایسا جانور تھا جو انہوں نے پہلے کبھی دیکھا نہ ہو دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا اور پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے کبھی کسی انسان کا گزر نہیں ہوا نور کا باپ اس بیابان میں سے پہلے حاذق کے ساتھ گزرا تھا انہوں نے کچھ دیر گھوڑوں کو آرام دیا اور خود بھی کچھ کھایا پیا اور پھر چل پڑے
نور اور اس کا باپ حاذق کے ساتھ اس طرف آئے تھے تو حاذق بڑی جلدی میں تھا اس نے گھوڑوں کو اتنا زیادہ دوڑایا تھا کہ گھوڑے پسینے سے نہا گئے اور ہانپ کانپ رہے تھے اب گھوڑوں کی باگیں نور کے باپ کے ہاتھ میں تھی اور اسے کوئی جلدی نہیں تھی اسے معلوم تھا کیا کرنا ہے اور اس نے اپنے ساتھی کو بھی اچھی طرح سمجھا دیا تھا اور نور کو بھی اب وہ بڑے آرام سے گھوڑوں کو چلا رہا تھا اور ایک اور رات آ گئی وہ گھوڑوں کو کھلانے پلانے کے لیے اور خود آرام کرنے کے لیے رک گئے وہ گزشتہ رات جاگتے رہے تھے اس لئے جونہی لیٹے سب سو گئے نور کا باپ اور اس کا ساتھی حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو سوتے میں بڑے آرام سے قتل کر سکتے تھے لیکن نور کا باپ اس قدر جلا بھونا ہوا تھا کہ وہ انھیں بڑے ہی خوفناک انجام تک پہنچانا چاہتا تھا نور کا باپ قافلے کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان باطنی لٹیروں نے اس قافلہ کو لوٹ لیا اور اس کی بیٹی کو اٹھا کر لے آئے تھے اور اس کے باقی بچوں کو انہوں نے قتل کر دیا تھا اور اس کی بیوی کو بھی قتل کر دیا تھا اس کے سینے میں ان باطنیوں کے خلاف انتقام کے شعلے بھڑکتے رہتے تھے
رات گزر گئی اور یہ قافلہ گھوڑا گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑا نور کا باپ حاذق کے ساتھ آیا تھا تو رات کو جھیل پر پہنچے تھے لیکن اب نور کا باپ دن کے وقت وہاں پہنچ رہا تھا فاصلہ بہت ہی تھوڑا رہ گیا تھا نور کے باپ نے دانستہ رات وہاں گزاری تھی
کچھ دیر بعد وہ جھیل پر پہنچ گئے نور کے باپ نے دو چیزیں دور سے ہی دیکھ لیں
ایک تو چار پانچ مگرمچھ تھے جو جھیل سے نکل کر خشکی پر سوئے ہوئے تھے دوسری چیز وہ کشتی تھی جس میں وہ خزانہ نکال کر لایا تھا وہ کشتی اسی جگہ جھیل کے کنارے موجود تھی جہاں اس نے اور نور نے اسے گھسیٹ کر آدھا خشکی پر کر دیا تھا کچھ ٹوٹی پھوٹی کشتیاں بھی پڑی تھیں لیکن اصل کشتی ان سے کچھ دور تھی نور کے باپ نے گھوڑا گاڑی وہاں جا روکی اور سب کو اترنے کے لیے کہا
سب اترے اور بھیڑوں کو بھی اتار لیا گیا پھر بھیڑوں کو کشتی میں پھینک کر سب سوار ہوگئے اور چپّو نور کے باپ نے اور اس کے ساتھی نے سنبھال لیے کشتی جونہی جھیل میں ذرا آگے گئی تو تین چار مگرمچھ بڑی تیزی سے کشتی کی طرف آئے نور کے باپ نے کہا کہ ایک بھیڑ جھیل میں پھینک دو
ایک بھیڑ حیدر بصری نے اٹھائی اور جھیل میں پھینک دی سارے مگرمچھ اس بھیڑ پر ٹوٹ پڑے کچھ اور آگے گئے تو دو اور مگرمچھ آگئے نور کے باپ نے حیدر بصری سے کہا کہ ایک اور بھیڑ جھیل میں پھینک دے جو اس نے پھینک دی نور کا باپ اور اس کا ساتھی بڑی تیزی سے چپو مار رہے تھے جھیل کا پانی پرسکون تھا اس لیے کشتی کی رفتار خاصی تیز تھی
چھوٹے مگرمچھ بھی جھیل میں نظر آ رہے تھے لیکن وہ سب ادھر کو ہی چلے گئے جدھر مگرمچھوں نے دو بھیڑوں کو پکڑ لیا اور اسے اپنی اپنی طرف کھینچ رہے تھے
آخر کشتی اس خشکی پر جا لگی جس پر چٹانیں تھیں اور اس ذرا سے اس چٹانی علاقے کے وسط میں خزانے والے غار تھے نور کے باپ نے حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اتر جائے اور وہ کشتی باندھ کر آتا ہے نور کے باپ کا ساتھی اور نور بھی اس طرح اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کشتی میں سے اتریں گے حیدر بصری اور اس کے دونوں ساتھی کود کر خشکی پر چلے گئے نور کے باپ نے انہیں کہا کہ وہ آگے چلیں
جونہی ان تینوں نے پیٹھ پھیری نور کے باپ نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور دونوں نے چپو مارنے شروع کر دیے اور کشتی خشکی سے ہٹ آئی اور تیزی تیز ہوتی چلی گئی حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں نے گھوم کر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ یہ لوگ کشتی کہاں لے جا رہے ہیں آخر حیدر بصری نے بلند آواز سے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو
ان چٹانوں کے اندر چلے جاؤ نور کے باپ نے کہا تمہیں خزانہ مل جائے گا ہمیں خزانے کی ضرورت نہیں
نور کے باپ اور اس کے ساتھی نے بڑے بلند قہقہے لگائے تب حیدر بصری سمجھا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے تینوں نے جھیل میں چھلانگیں لگا دیں اور کشتی کی طرف تیرنے لگے انہیں غالباً یہ توقع تھی کہ وہ تیر کر اس ساحل پر پہنچ جائیں گے جہاں سے وہ کشتی پر سوار ہوئے تھے لیکن مگرمچھوں نے انہیں دیکھ لیا اور بڑی تیزی سے ان کی طرف بڑھے نور کے باپ نے کشتی کی رفتار اور تیز کردی اور کنارے جا لگے انہوں نے ایک بھیڑ بچا لی تھی جسے اٹھا کر وہ کشتی سے نکل آئے ان تینوں باطنیوں کے انجام کا تماشہ دیکھنے لگے ان تینوں کی آخری چیخیں آسمان کا سینہ چاک کر رہی تھیں لیکن یہ چیخیں الموت تک نہیں پہنچ سکتی تھیں کچھ دیر تک ان کی چیخیں اور آہ و بکا سنائی دیتی رہیں اور وہ تینوں دکھائی دیتے رہے اور پھر مگرمچھ انہیں پانی کے نیچے لے گئے
نور کے باپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے بازو پھیلائے اور لمبی آہ بھری اور پھر نور اور اپنے ساتھی کو سر کا اشارہ کیا کہ آؤ چلیں
یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ہو گئے تھے اور ہوتے چلے جا رہے تھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو حسن بن صباح زوال پذیر ہوجائے گا
کچھ عرصہ پہلے تک یوں نظر آتا تھا جیسے فتح اور ہر ابلیسی کام میں کامیابی حسن بن صباح کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اس کے جانباز فدائی سلطنت سلجوقیہ کی جڑوں میں اتر گئے تھے اس نے مسلمانوں میں خانہ جنگی تک کرا دی تھی اپنوں نے اپنوں کا اس قدر خون بہایا تھا کہ تاریخ کے اوراق اس خون سے لال ہیں حسن بن صباح نے جس سیاسی معاشرتی اور مذہبی شخصیت کو اور جس حاکم کو قتل کرنا چاہا وہ اپنے فدائیوں سے کرا دیا حکمرانی تو سلجوقیوں کی تھی لیکن ان لوگوں کے دلوں پر حسن بن صباح راج کرتا تھا ایک تو وہ لوگ تھے جو اس کے مرید ہو گئے تھے ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو اسے نبی مانتے تھے اور زیادہ تر لوگ آسمان سے اترا ہوا امام سمجھتے تھے دوسرے وہ لوگ تھے جن پر حسن بن صباح اور اس کے فدائی دہشت گرد بن کر اسیب کی طرح سوار ہو گئے تھے
لوگ یقین سے کہتے تھے کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی جادو ہے ورنہ ایسا کبھی بھی نہ ہوتا کہ ایک آدمی ایک طاقتور سلطنت کے لئے اتنا خطرناک اور دہشت گرد مسئلہ بن جاتا مورخوں نے بھی یہی لکھا ہے تاریخ ایسی شہادت پیش کرتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جادو ضرور تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ دن کو رات اور رات کو دن بنا دیتا
سلطنت سلجوقیہ کی فوج میں اور لوگوں میں بھی بدلی سی پائی جاتی تھی جیسے وہ حسن بن صباح کو شکست نہیں دے سکیں گے اس فوج نے باغیوں کے قبضے میں آئے ہوئے جس قلعے کا بھی محاصرہ کیا وہاں سے فوج ناقابل برداشت جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہو آئی تھی…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

www.urducover.com



 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles