Hassan bin Sabah and his artificial paradise
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 7
قسط نمبر “25” سے قسط “28” تک
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:25 }
احمد اوزال مزمل آفندی کے متعلق سوچتا پریشانی کے عالم میں ابھی ابھی سویا تھا دروازے پر دستک ہوئی اس کی آنکھ پہلے دستک پر ہی کھل گئی وہ اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اس نے ذرا بلند آواز سے کہا اللہ کرے مزمل ہو اس نے دیا جلایا ہاتھ میں لے کر صحن میں نکلا اور دروازہ کھولا
دو آدمی اسے دھکیلتے ہوئے اندر آگئے ایک شمش تھا اور دوسرا عمر ان کے ہاتھوں میں لمبے خنجر تھے انہیں معلوم تھا کہ احمد اوزال اکیلا رہتا ہے اب اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ شخص سلجوق اور سلطنت سلجوقی جاسوس ہے اور مزمل نے ان لوگوں کے شج کی تصدیق کر دی تھی
احمد اوزال کے دونوں پہلوؤں کے ساتھ خنجروں کی نوکیں لگی ہوئی تھیں جو اسے چبھ رہی تھیں وہ خالی ہاتھ تھا اس کے ہاتھ میں بڑے سائز کا جلتا ہوا دیا تھا دیا آدھے سے زیادہ تیل سے بھرا ہوا تھا
تم چاہتے کیا ہو ؟
احمد اوزال نے پوچھا
خاموشی سے اندر چلے چلو شمش نے کہا اندر چل کے بتائیں گے وہ اسے خنجر کی نوک سے دھکیلتے اندر لے گئے شمش نے دروازہ بند کر دیا
تمہارے پاس سونا ضرور ہوگا شمش نے کہا وہ اور نقدی ہمارے حوالے کردو
یوں کہو کہ تم ڈاکو ہو احمد اوزال نے کہا خنجر ہٹاؤ میرے پاس سونے کے تین ٹکڑے اور کچھ نقدی ہے وہ میں تمہیں دے دیتا ہوں وہ لو اور جاؤ
ہم تمہیں بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے شمش نے کہا ہمیں دراصل ضرورت تو تمہاری ہے
مجھے ساتھ لے جا کر کیا کرو گے؟
احمد اوزال نے پوچھا
کیا فضول باتیں شروع کردیں ہیں شمش!
عمر نے کہا ختم کرو اس سلجوقی جاسوس کو اس کا مال ہمارا ہی ہے اُدھر سے تم خنجر دباؤ اِدھر سے میں دباتا ہوں
اگر یہ بتا دے کہ خلجان میں اس کے کتنے ساتھی ہیں تو اسے زندہ رہنے دیں گے شمس نے کہا یہ بھی بتا دے کہ وہ کہاں کہاں رہتے ہیں
احمد اوذال سمجھ گیا کہ یہ حسن بن صباح کے آدمی ہیں اور انہیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ جاسوس ہے یہ بھی سمجھ گیا کہ مزمل آفندی کسی طرح ان کے ہاتھ چڑھ گیا ہے اور اس نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے اسے یہ تو معلوم تھا کہ حسن بن صباح نے جانبازوں کے گروہ بنا رکھے ہیں جو درندوں سے بڑھ کر ہی کم نہیں اور ان کے اندر انسانی جذبات ہے ہی نہیں وہ ان دو آدمیوں سے رحم اور مفاہمت کی توقع رکھ ہی نہیں سکتا تھا وہ قتل کرنا ہی جانتے تھے لیکن ایسے رحم دل نہیں تھے کہ فوراً مار ڈالتے وہ بڑی ظالمانہ ایذا رسانی سے جان نکالتے تھے
احمد بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا
اس شہر میں تمہارے ساتھی کہاں کہاں رہتے ہیں ؟
عمر نے پوچھا ان کے نام اور گھر فوراً بتا دو
یہ دیا رکھ دو
احمد اوزال نے دیا اوپر کی طرف سے شمس کے منہ پر مارا اور حیران کن پھرتی سے پہلو بدل کر لات اتنی زور سے عمر کے پیٹ میں ناف کے نیچے ماری کے عمر کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا اور وہ ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر آگے کو جھک گیا احمد اوزال نے بڑی تیزی سے خنجر اٹھا لیا اور جھکے ہوئے عمر کی پیٹ میں اتنی زور سے گھونپ دیا کہ خنجر کا صرف دستا باہر رہ گیا احمد نے فوراً خنجر باہر نکالا دوسرا وار کرنے کی ضرورت نہیں تھی عمر گر پڑا تھا
احمد اوزال نے دیا شمس کے منہ پر مارا تھا اس سے کمرے میں اندھیرا ہو جانا چاہیے تھا لیکن کمرہ پہلے سے زیادہ روشن ہو گیا تھا کیونکہ دیا خاصا بڑا تھا اور آدھے سے کچھ زیادہ تیل سے بھرا ہوا تھا اور اس کی بتی خاصی موٹی تھی تیل شمس کی آنکھوں میں چلا گیا اور اس کے چہرے سے تیل اس کے کپڑوں پر گیا تھا اس کی ڈیڑھ دو انچ لمبی داڑھی تھی اتنے بڑے شعلے والی جلتی بتی نے اس کی داڑھی کو آگ لگا دی وہاں سے آگ پلک جھپکتے کپڑوں کو لگی شمس کے ہاتھ سے بھی خنجر گر پڑا اور وہ چیخنے لگا احمد اوذال کے ہاتھ میں عمر کا خنجر تھا اس نے شمس کے ایک پہلو میں خنجر گھونپا اور زور سے دوسرے پہلو کی طرف جھٹکا دیا شمس کا پیٹ چاک ہوگیا اور اتڑیاں باہر آگئیں شمس گرا اس کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی پیٹ چاک ہوا تو اس کی چیخیں بند ہوگئیں وہ بہت تڑپا اور ختم ہو گیا
یہ سارا عمل چند سیکنڈ میں ہو گیا
احمد اوزال بڑی تیزی سے اپنی قیمتی چیزیں ایک گٹھری میں باندھی تلوار کمر سے باندھی اور شمس کی لاش کو جلتا چھوڑ کر صحن میں نکلا دروازہ بند کر دیا اور زین اٹھا کر اپنے گھوڑے پر کسی گٹھری زین کے ساتھ باندھی اور گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے دوست کے گھر پہنچا دستک دی دوست باہر آیا تو احمد اوزال نے اسے سارا واقعہ سنایا
میں مرو جا رہا ہوں اس نے کہا
فوراً نکلو دوست نے کہا صبح تک بہت ہی دور نکل جانا
مزمل آفندی کا کچھ پتہ نہیں چلا احمد اوزال نے کہا وہ باطنیوں کے قبضے میں آگیا ہے میری نشاندہی اسی نے کی ہے جس نے بھی کی ہے دوست نے کہا اور جو کچھ بھی ہوا ہے تم یہاں سے نکلو تم خوش قسمت ہو کہ حسن بن صباح کے دو آدمیوں کو قتل کر کے جا رہے ہو اس کے جانباز قتل کیا کرتے ہیں قتل ہوا نہیں کرتے
احمد اوزال خدا حافظ کہہ کر روانہ ہو گیا شہر سے وہ آہستہ آہستہ نکلا کچھ دور جا کر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی
امیر الموت مہدی علوی حسن بن صباح اور اسکے تمام آدمیوں کو الموت لے گیا حسن بن صباح کو اس نے اپنے محل کے دو کمرے دیے جن میں شاہانہ زندگی کی ہر آسائش موجود تھی کمرے میں سجاوٹ ایسی جو صرف بادشاہوں کے یہاں ہی ہوا کرتی تھی حسن بن صباح نے ان کمروں میں ٹھہرنے سے انکار کر دیا
کسی ایک پیغمبر کا نام لو جس نے ایسی شہانہ رہائش اختیار کی تھی حسن بن صباح نے کہا کیا ہمارے رسولﷺ بوریا نشین نہیں تھے کیا ہمارے خلفائے راشدین کے بھی ایسے محل ہوتے تھے؟
نہیں مہدی علوی! میں نبیوں اور پیغمبروں سے بہتر تو نہیں مجھے کٹیا دے دو
نہیں امام! مہدی علوی نے کہ آپ کو کٹیا میں بٹھا کر میں خدا کے حضور کیا جواب دوں گا
میرے اور خدا کے درمیان جو باتیں ہوتی ہیں وہ آپ نہیں جانتے حسن بن صباح نے کہا میں خدا کے حکم کا پابند ہوں ہاں ایک بات سوچی جاسکتی ہے اگر آپ کو میرا کٹیا میں رہنا پسند نہیں تو سادہ سا کوئی کمرہ دے دیں میری ضرورت یہ ہے کہ سر پر چھت ہو اور روحانی ضرورت یہ ہے کہ چھت آسمان ہو لیکن یہ آپ کو اچھا نہیں لگتا میں نہیں چاہتا کہ کسی کو میری طرف سے ذرا سی بھی پریشانی ہو
مہدی علوی نے محل سے ہٹ کر ایک مکان حسن بن صباح کے لیے خالی کرا دیا تھا یہ سادہ سا مکان تھا جس میں بہت سے کمرے تھے ایک کمرہ حسن بن صباح کے لئے اور دوسرے کمرے اس کے خاص آدمیوں کے لیے تھے باہر محافظ کھڑے رہتے تھے کسی کو مکان کے قریب بھی جانے کی اجازت نہیں تھی مہدی علوی جو امیر شہر تھا اور حسن بن صباح کا میزبان بھی تھا وہ بھی اس مکان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا تھا
اس مکان کے اندر کیا ہوتا تھا کسی کو معلوم نہیں تھا باہر کے لوگ کہتے تھے کہ امام عبادت میں مگن رہتا ہے اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے اس کے عقیدت مندوں کے ہجوم میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا
تاریخ میں آیا ہے کہ احمد بن عطاش اپنے کام اور مطلب کے آدمیوں کو خلجان شاہ در اور دوسرے شہروں اور علاقوں سے قلعہ الموت میں لا لا کر آباد کر رہا تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو پس منظر میں رکھا ہوا تھا مہدی علوی کو کبھی کبھار ملتا تھا لیکن خلجان اور شاہ در کے قلعہ دار اور امیر شہر کی حیثیت سے یا حسن بن صباح کے مرید کی حیثیت سے
مہدی علوی کو تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ جس شہر کا وہ امیر ہے اس میں کیا ہو رہا ہے حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کہ اتنے خوبصورت شہر کے دفاع کا کوئی انتظام نہیں اس کے لیے فوج کی ضرورت ہے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ سلجوقیوں کے پاس بڑی ہی مضبوط فوج ہے وہ کسی بھی وقت حملہ کرکے یہ شہر لے لیں گے
حسن بن صباح نے مہدی علوی کو پہلی ملاقات میں ہی اپنے اوپر کشف اور مراقبے کی کیفیت طاری کرکے پیشن گوئی کی تھی دشمن بڑھ رہا ہے گھٹا گہری ہو رہی ہے اگر آپ نے فوج رکھ لیں تو یہ گھٹا جس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اڑ جائے گی اور آپ محفوظ رہیں گے فوج تجربے کار ہونی چاہیے بغیر فوج کے آپ قلعہ گواں بیٹھے گے
مہدی علوی یہ پیشن گوئی سن کر گھبرا گیا اور اس نے کہا تھا کہ وہ اتنی زیادہ فوج رکھ نہیں سکتا کیونکہ فوج کے اخراجات پورا کرنا اس کے بس کی بات نہیں حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کہ وہ فوج کو صرف دو وقت کی روٹی دے دیا کرے باقی اخراجات حسن بن صباح نے اپنے ذمے لے لیے اور مہدی علوی کے ساتھ تحریری معاہدہ کر لیا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے دو ہزار نفری کی فوج بن گئی یہ تمام فوج حسن بن صباح کے مریدوں کی تھی جو اس پر جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اس فوج کے کمانڈر حسن بن صباح کے اپنے تربیت یافتہ آدمی تھے جو نہ کسی سے رحم مانگتے تھے نہ کسی پر رحم کرتے تھے
ایک روز حسن بن صباح نے مہدی علوی کو بلایا مہدی علوی دوڑا آیا اور اس نے حسن بن صباح کے آگے باقاعدہ سجدہ کیا
کیا آپ نے اپنی فوج دیکھ لی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
دیکھ لی ہے یا امام
کیا آپ اپنے اندر کوئی تبدیلی محسوس کر رہے ہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا
کر رہا ہوں یا امام! مہدی علوی نے جواب دیا یہ فوج دیکھ کر میں اپنے آپ کو محفوظ ہی نہیں بلکہ طاقتور سمجھ رہا ہوں کبھی یوں بھی محسوس کرتا ہوں کہ سلجوقی سلطان کو یا کسی اور قوم کو للکاروں کے میرے مقابلے میں آئیں
نہیں امیر شہر! حسن بن صباح نے کہا یہ رعونت ہے تکبر ہے ایسا نہ سوچیں میں نے آپ کو کچھ اور بتانے کے لئے بلایا ہے گزشتہ رات مجھے اللہ کی طرف سے ایک اشارہ ملا ہے الموت میں جنت بنے گی یہاں حوریں اتریں گی فرشتے اتریں گے اور یہاں ہر لمحہ اللہ کی رحمت برستی رہے گی
مہدی علوی کی باجھیں پھیلتی جا رہی تھیں وہ محسوس نہیں کر رہا تھا کہ حسن بن صباح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بات کرتا ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی ادھر ادھر نہیں کرتا اس کے بولنے کا انداز اتنا پیارا اور اتنا اثر انگیز ہے کہ اس کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سننے والے کی روح میں اترتا جارہا ہے
یہ تھا ایک ابلیسی وصف جو حسن بن صباح نے اپنے آپ میں پیدا کر لیا تھا اس انداز میں ہپنا ٹائز کر لینے کی طاقت تھی مہدی علوی ہپنا ٹائز ہو چکا تھا
میں آپ کو ایک بات اور بتاتا ہوں حسن بن صباح نے کہا ابھی یہ بات بتانی تو نہیں چاہیے تھی لیکن یہ جگہ آپ کی ہے اور یہاں جو کچھ ہے آپ کا ہے یہ جو آپ کو بڑی ہی حسین لڑکیاں نظر آتی ہیں یہ میرے ساتھ آئی ہے یہ دراصل حوریں ہیں آسمان کی مخلوق ہیں جو زمین پر بسنے والی عورتوں کے روپ میں میرےپاس آ گئی ہیں اگر یہ اس دنیا کی لڑکیاں ہوتی تو میں انہیں اپنے پاس نہ رکھتا
یہ خدیجہ اور دوسری لڑکیاں ہاں ہاں حسن بن صباح نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا یہ آسمانی مخلوق ہیں لیکن آپ انہیں زمین کی مخلوق سمجھیں ان سے جو خدمت لینا چاہیں لیں انکی روحیں میرے قبضے میں ہیں انہیں اپنا سمجھیں
حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ اس کی بہت ہی حسین اور فریب کاری کی ماہر جوان سال عورت خدیجہ مہدی علوی پر چھا گئی ہے اور مہدی علوی اسے رات اپنے پاس رکھتا ہے اسے یہ بھی معلوم تھا کہ دو تین نوجوان لڑکیاں بھی مہدی علوی کے ہوش گم کیے رکھتی ھیں خدیجہ مہدی علوی کو خاص قسم کا شربت بھی پلا رہی تھی اور اس پر دیوانگی طاری کرکے اس سے اپنا دامن بھی بچا رہی تھی
یا امام! مہدی علوی نے التجا کے لہجے میں کہا ایک عرض ہے اجازت ہو تو
میرے ساتھ بات کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے کہا اگر کوئی بات میرے خلاف بھی دل میں آئے تو بلا خوف کہو اب بتاؤ کیا بات ہے
میں خدیجہ کی بات کرنا چاہتا ہوں مہدی علوی نے جھجکتے ہوئے کہا
آپ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں حسن بن صباح نے کہا انسان کے دل کی بات اس کے چہرے پر لکھی ہوتی ہے پڑھنے والی آنکھیں چاہیے دلوں کی تحریر روحوں کی آنکھ سے پڑھی جاتی ہے
مہدی علوی جو اچھا خاصا دانشمند اور معزز ہوا کرتا تھا حسن بن صباح کی اس بات پر حیران رہ گیا کہ اس نے اس کے دل کی بات پڑھ لی ہے حالانکہ یہ بات قابل فہم تھی کہ خدیجہ حسن بن صباح کے ساتھ آئی تھی مہدی علوی نے خدیجہ سے کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے اب وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکا کہ خدیجہ نے ہی حسن بن صباح کو یہ بات بتائی ہو گی لیکن مہدی علوی کی اتنی برین واشنگ ہو چکی تھی کہ عام فہم باتیں بھی سمجھنے کے قابل نہیں رہا تھا
ان شاءاللہ بندہ ناچیز (شفیق الرحمان تبسم) آگے آپ کو مہدی علوی کی برین واشنگ کا عمل تفصیل سے سنائے گا
ہاں امام! مہدی علوی نے کہا آپ نے میرے دل کی تحریر پڑھ لی ہے لیکن آپ فرماتے ہیں کہ یہ حوریں ہیں جو زمین کی عورتوں کے روپ میں آئیں ہیں
پھر بھی اس کے ساتھ آپ کی شادی ہو سکتی ہے حسن بن صباح نے کہا شرط یہ ہے کہ آپ کو انسانیت کی سطح سے اوپر اٹھنا پڑے گا اور یہ کوئی مشکل کام نہیں
کیا مجھے کچھ کرنا پڑے گا؟
مہندی علوی نے احمقوں کے انداز سے پوچھا
ہاں حسن بن صباح نے جواب دیا روح کی سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کرنا پڑے گا
وہ کیسے؟
مراقبہ چلّہ کشی حسن بن صباح نے کہ ریاض آپ کو تنہائی میں دنیا سے لاتعلق ہو کر میری طرح اللہ کے حضور بیٹھنا پڑے گا آپ یہ کام کر لیں گے اور میرے والا مقام حاصل کر لیں گے آپ دیکھ رہے ہیں کہ لڑکیاں پروانوں کی طرح میرے ارد گرد منڈلاتی رہتی اور میرے آگے بچھ بچھ جاتی ہیں
کیا آپ میری رہنمائی کریں گے؟
مہدی علوی نے پوچھا
آپ نے جس پیار اور عقیدت سے مجھے اپنے یہاں مہمان رکھا ہے میں اس کا صلہ ضرور دوں گا حسن بن صباح نے کہا میری رہنمائی کے بغیر آپ یہ کام کر ہی نہیں سکتے میں آپ کا ہاتھ تھامو گا
مہدی علوی ذہنی اور روحانی طور پر حسن بن صباح کی نظر نہ آنے والی زنجیروں میں جکڑا گیا اسے ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ الموت جیسا مضبوط ناقابل تسخیر اور خوبصورت قلعہ ہاتھ سے جا رہا ہے اس کی تو اپنی شخصیت پر اپنی ذات اور اپنے کردار پر گرفت نہیں رہی تھی اتنے بڑے قلعے اور اتنے بڑے شہر کو وہ کیسے گرفت میں رکھ سکتا تھا
الموت پر حسن بن صباح نے ابھی باقاعدہ قبضہ تو نہیں کیا تھا امیر شہر اس کے قبضے میں آ گیا تھا
احمد اوزال چوتھے دن مرو پہنچ گیا نظام الملک سے ملا اور اسے سنایا کہ مزمل آفندی لاپتہ ہے
ایسے جذباتی اور اناڑی آدمی کو اتنی خطرناک مہم پر بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا احمد اوزال نے کہا مجھے یقین ہے کہ وہ حسن بن صباح کے خفیہ گروہ کے ہاتھ چڑھ گیا ہے اور میری نشاندہی اسی نے کی تھی یہ تو اللہ نے میری مدد کی اور میں دو آدمیوں کو مار کر نکل آیا ورنہ میں قتل ہوجاتا
مزمل کو انہوں نے قتل کردیا ہوگا نظام الملک نے کہا تم آرام کرو میں کچھ سوچ لوں
محترم! احمد اوزال نے کہا میں آپ کو صاف صاف بتادوں ہم ان باطنیو کو جاسوسی اور تخریب کاری کے میدان میں شکست نہیں دے سکتے آپ کے پاس فوج ہے خلجان اور الموت پر حملہ کرنا پڑے گا مزمل آفندی کو بھول جائیں اسے وہ لوگ قتل کر چکے ہونگے
اُس وقت مزمل بن عابد کے ساتھ قلعہ الموت پہنچ گیا تھا بن عابد اسے اسی مکان میں لے گیا جس کے ایک کمرے میں حسن بن صباح رہتا تھا مزمل کو اس کمرے میں بٹھا کر بن عابد اس کمانڈر سے ملا جسکی اجازت کے بغیر کوئی شخص حسن بن صباح کے کمرے کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتا تھا بن عابد نے کمانڈر کو بتایا کہ وہ سلجوقیوں کے بھیجے ہوئے ایک آدمی کو لایا ہے یہ آدمی حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے
کمانڈر نے بن عابد سے پورا واقعہ سنا اور اسے حسن بن صباح کے پاس لے گیا بن عابد نے ایک بار پھر پوری بات سنائی کے اس نے مزمل کو کس طرح پکڑا اور کیا دھوکہ دے کر ساتھ لایا ہے
حسن بن صباح کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی ان ہونٹوں سے یہی حکم نکلا تھا سر کاٹ دو حسن بن صباح قتل سے کم سزا نہیں دیا کرتا تھا لیکن
اسے بند کردو حسن بن صباح نے کہا دو دن نہ کھانے کے لئے دو نہ پینے کے لئے پھر مجھے اطلاع دیں میں اسی شخص کو نظام الملک کے قتل کے لئے تیار کروں گا یہ شخص نظام الملک کو قتل کر کے خوشی محسوس کرے گا
مزمل آفندی کمرے میں بیٹھا اپنے نئے دوست بن عابد کا انتظار کر رہا تھا وہ بہت خوش تھا کہ اسے اپنا ایک ہم خیال مل گیا تھا بن عابد بھی اسی جذبے سے سرشار تھا جس جذبے نے مزمل آفندی کو دیوانہ بنا رکھا تھا اس کے دماغ پر خون سوار تھا وہ سوچ رہا تھا کہ حسن بن صباح کو وہ کس طرح قتل کرے گا اس نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کا سر کاٹ کر اپنے ساتھ لے جائے گا اور سلطان ملک شاہ کو پیش کرے گا پھر وہ اس سر کو برچھی کی انی میں اڑس کر مرو کے سارے شہر میں اس کی نمائش کرے گا تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا مزمل آفندی نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اسے معلوم تھا کہ بن عابد کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا بن عابد نے اسے یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ یہ اسی شخص کا گھر ہے جسے وہ قتل کرنے آیا ہے اس نے دیکھا کہ کمرے میں داخل ہونے والا بن عابد نہیں تھا بلکہ وہ دو اجنبی تھے جنہیں مزمل نے پہلے دیکھا ہی نہیں تھا
کیا تم بن عابد کے ساتھ آئے ہو؟
ایک آدمی نے مزمل سے پوچھا
ہاں! مزمل نے جواب دیا میں ہی ہوں
ہمارے ساتھ آؤ اس آدمی نے کہا
مزمل اٹھا اور ان کی طرف بڑھا دونوں آدمی اسے اپنے درمیان رکھ کر چل پڑے
بن عابد کہاں ہے ؟
مزمل نے پوچھا
وہ یہی ہیں مزمل کو جواب ملا ہم تمہیں اسی کے پاس لے جا رہے ہیں
وہ چلتے گئے اور شہر کے ایک اور حصے میں جا پہنچے وہ کہیں بھی نہ رکے شہر ختم ہو رہا تھا مزمل آفندی نے سوچا کہ بن عابد اتنی جلدی کہاں چلا گیا ہے
تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟
مزمل نے پوچھا کیا وہ اتنی جلدی اتنی دور نکل آیا ہے
ہم جانتے ہیں میرے دوست ایک آدمی نے کہا تم حسن بن صباح کا کام تمام کرنے آئے ہو نا
ہاں بھائی! مزمل نے کہا
تو پھر ہم سے کچھ بھی نہ پوچھو دوسرے آدمی نے کہا ہم سب تمہارے ساتھ ہیں تم وہ کام اکیلے نہیں کر سکتے جو کرنے آئے ہو خاموشی سے ہمارے ساتھ چلتے چلو
وہ اب ایسے علاقے میں سے گزر رہے تھے جہاں بے آب و گیاہ چٹانیں تھیں یہ خطہ سرسبز اور روح پرور تھا لیکن اس کا یہ تھوڑا سا حصّہ بالکل خشک بنجر اور ویران تھا گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی اگر وہاں کوئی درخت تھا بھی تو وہ بالکل خشک تھا
وہ چٹانوں کے اندر چلے گئے چند ایک موڑ کاٹ کر اور چٹانوں کے اندر ہی گھوم پھر کر وہ اس چٹانی سلسلے سے باہر نکلے تو کچھ اور ہی منظر سامنے تھا قلعے کی طرح ایک عمارت تھی اس کی دیواریں پتھروں کی تھی اور پتھر سیاہ تھے یہ چھوٹا سا قلعہ ہی معلوم ہوتا تھا دیوار بہت اونچی تھی دیواروں کے چاروں کونوں پر لکڑی کے جھونپڑے سے بنے ہوئے تھے یہ برج معلوم ہوتے تھے سامنے والی دیوار کے درمیان ایک بہت بڑا آہنی دروازہ تھا جس میں سالاخیں لگی ہوئی تھیں دو آدمی برچھیاں اٹھائے اس دروازے کے باہر یوں کھڑے تھے جیسے پہرہ دے رہے ہوں اس آہنی دروازے کے بالکل اوپر دیوار پر پتھروں کا ہی ایک کمرہ بنا ہوا تھا پتھروں کا رنگ ایسا ہو گیا تھا جسے دیکھ کر اداسی کا تاثر پیدا ہوتا تھا مزمل آفندی کچھ بھی نہ سمجھ سکا اس نے ان دو آدمیوں سے پوچھا بھی نہیں کہ یہ کیا عمارت ہے اس نے خود ہی سوچ لیا کہ یہ قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا قلعہ ہے یہ شاہی خاندان کے لیے بنایا گیا ہوگا کہ جب کوئی دشمن قلعے کا محاصرہ کرے تو شاہی خاندان اس اندرونی قلعے میں منتقل ہوجاتا ہوگا مزمل آفندی کو بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ جگہ شاہی خاندان کے لیے نہیں بلکہ یہ الموت کا ہیبت ناک قید خانہ ہے جہاں نہ جانے اس وقت تک کتنے ہزار لوگوں کے سر کاٹ چکے تھے اور کتنے ہی ہزار لوگ اس قید خانے کی کال کوٹھریوں میں مر کر گل سڑ گئے تھے
وہ قید خانے کی سیاھ کالے آہنی دروازے پر پہنچ گئے اس دروازے کے ایک کواڑ میں چھوٹا سا ایک اور دروازہ تھا اندر سے ایک آدمی چابیوں کا گچھا اٹھائے ہوئے دوڑا آیا اور اندر سے تالا کھولنے لگا
لے آئے ہو اسے دروازہ کھولنے والے نے کہا ہمیں اطلاع مل چکی ہے
دونوں آدمی مزمل آفندی کو چھوٹے دروازے میں سے اندر لے گئے جب اس دروازے پر بڑا سا تالا لگ گیا اس وقت مزمل ذرا سا چونکا اور اس نے ان دو آدمیوں کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ان دونوں نے اس کا ایک ایک بازو پکڑ لیا اور اسے اندر لے گئے
کون ہے یہ؟
مزمل نے پیچھے دیکھا وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے آ رہا تھا جس نے چھوٹا دروازہ کھولا اور پھر تالا لگا دیا تھا اس کے ہاتھ میں چابیوں کا وہی گچھا تھا جو مزمل نے دروازے میں داخل ہوتے وقت دیکھا تھا اسی نے پوچھا کہ یہ کون ہے
یہ امام کو قتل کرنے آیا ہے مزمل کو اندر لانے والے ایک آدمی نے جواب دیا
تینوں آدمیوں نے بڑی زور سے قہقہ لگایا اور وہ کچھ دیر ہنستے ہیں رہے مزمل رک گیا
بن عابد کہاں ہے؟
مزمل نے پوچھا
ایک آدمی نے اس کی گردن پر پیچھے سے ہاتھ رکھا اور اس قدر زور سے دھکا دیا کہ مزمل تین چار قدم آگے جا کر منہ کے بل گرا وہ اٹھا تو دوسرے آدمی نے اسی طرح اس کی گردن پر ہاتھ رکھا اور ویسا ہی دھکا دیا مزمل ایک بار پھر منہ کے بل گرا تو ایک آدمی نے اسے پکڑ کر آہستہ آہستہ لٹو کی طرح گھمایا
اچھی طرح دیکھ لو تم کہاں ہو اس آدمی نے کہا
مزمل نے دیکھا یہ ایک وسیع و عریض جگہ تھی جو بد رنگ پتھروں کی چار بہت ہی اونچی اونچی دیوارو میں گھری ہوئی تھی ایک طرف پتھروں کی بارکیں سی کھڑی تھیں بہت سا حصہ میدانی تھا وہاں قیدی مختلف کاموں میں لگے ہوئے تھے ہر ایک قیدی کے پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے پہرےدار ہاتھوں میں ہنٹر اٹھائے ان کے درمیان گھوم پھر رہے تھے کوئی قیدی ذرا سی بھی سستی کرتا تو پہرے دار اسے دو تین ہنٹر مار کر اس کی چیخیں نکال دیتا تھا قیدی پورے لباس میں نہیں تھے ناف سے اوپر ان کے جسم ننگے تھے ان کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں ان کے چہرے سوکھ گئے تھے چہروں پر کربناک تاثر تھا ان قیدیوں کے دو ہی کام تھے ایک جانوروں کی طرح مشقت کرنا اور دوسرا مار کھانا مزمل کے قریب جو قیدی تھے ان کی پیٹھوں پر لمبے لمبے لال سرخ نشان تھے یہ ہنٹر اور بیدوں کے نشان تھے
مزمل آفندی پر ہول طاری ہوگیا وہ اگر حسن بن صباح کو قتل کرکے اس قید خانے میں آتا تو اسے ذرا سا بھی افسوس نہ ہوتا وہ تو پہلے ہی پکڑا گیا تھا اس کا خیال تھا کہ اس کا ساتھی بھی پکڑا گیا ہوگا اور اسے بھی اس قید خانے میں لایا گیا ہو گا یا اسے لے آئیں گے اسے تو وہم بھی نہیں ہوا تھا کہ جس پر اس نے اعتماد کیا اور اس کا ہمسفر بن کر الموت آیا تھا اس کا نام بن عابد نہیں تھا اس کا اصل نام کچھ اور تھا بن عابد حسن بن صباح کے خاص گروہ کا آدمی تھا
آگے ایک اور اونچا دروازہ آ گیا یہ لکڑی کا دروازہ تھا جس کے آگے تالا لگا ہوا تھا یہ بھی ایک عمارت تھی جس کی دیواریں پتھروں کی بنی ہوئی تھی چابیوں والے سنتری نے آگے ہو کر دروازہ کھولا مزمل کو دھکیلتے ہوئے اس کے اندر لے گئے آگے سیڑھیاں نیچے اترتی تھیں یہ سیڑھیاں اتر گئے یہ ایک راہداری تھی نیچے جا کر چند قدم آگے گئے تو ایک دیوار آگئی وہ بائیں کو گھومے کچھ اور آگے جا کر دائیں کو مڑے تو پھر پانچ چھ سیڑھیاں آگئیں جو نیچے کو اترتی تھیں اور ایک ذرا فراخ راہداری تھی جس میں یہ لوگ آگے چلے گئے مزمل کو یوں محسوس ہوا جیسے اسے زمین کی آخری تہہ تک لے جایا جا رہا ہو اسے یاد ہی نہ رہا کہ وہ کتنی بار دائیں یا بائیں مڑ چکا ہے آخر وہ جگہ آ گئی جس کے دونوں طرف آمنے سامنے کوٹھریاں تھیں
یہ قید خانے کا تاریک تہہ خانہ تھا جسے مشعلوں سے روشن کیا گیا تھا وہاں ایسا تعفن تھا کہ صاف ستھری زندگی بسر کرنے والے مزمل جیسے آدمی کے لیے ناقابل برداشت تھا ایک تو دیواروں کے ساتھ اڑسی ہوئی مٹی کے تیل کی بدبو تھی اور دھواں تھا اور اس بدبو میں ایک تعفن ایسا تھا جیسے اس زمین دوز دنیا میں انسانی لاشیں یا جانوروں کے مردار پڑے گل سڑ رہے ہوں مزمل کو چکر سا آیا اور اس کے قدم رکنے لگے ایک آدمی نے پیچھے سے اس کی کمر میں اتنی زور سے لات ماری کے وہ چند قدم آگے پتھروں کے فرش پر اوندھے منہ گرا اس سے تو جیسے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا اسے گھسیٹ کر اٹھایا گیا اور دھکیل کر لے گئے
یہ دو آدمی جو مزمل کو لائے تھے قید خانے کے باہر انسانوں کی طرح بولتے اور چلتے تھے لیکن قید خانے میں داخل ہوتے ہی وہ درندے بن گئے مزمل نے دائیں بائیں دیکھا ہر کوٹھری کی سلاخوں کے اندر تین چار قیدیوں کو کھڑے دیکھا تو وہ حیران ہوا کہ لاشوں جیسے یہ انسان اپنے پاؤں پر کھڑے کس طرح ہیں
مزمل کو ایک اور طرف موڑ کر لے جایا گیا چابیوں والے سنتری نے دوڑ کر ایک کوٹھڑی کا دروازہ کھولا مزمل کو اس کے سامنے کھڑا کرکے یہ نہ کہا گیا کہ اندر چلو بلکہ اسے اس کوٹھری میں داخل کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک آدمی نے اس کا ایک بازو پکڑا اور دوسرے نے دوسرا بازو پکڑا اور ذرا آگے ہو کر ان دونوں نے اتنی زور سے مزمل کو اندر کی طرف جھٹکا دیا کہ وہ تنگ سی اس کال کوٹھڑی کی دیوار کے ساتھ جا لگا وہ سر دیوار سے ٹکرانے کی وجہ سے چکر آ گیا اور گر پڑا جب ذرا سنبھل کر اور اپنے آپ میں آ کر اٹھا تو دروازہ بند ہوچکا تھا اور اسے کال کوٹھری میں پھینکنے والے جا چکے تھے
مزمل نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور دیکھا اس کا ہاتھ خون سے لال ہو گیا تھا اس نے کرتے کا دامن ماتھے پر رکھا جب ہٹایا تو دامن خون سے تر ہو گیا تھا اس کی مرہم پٹی کرنے والا کوئی نہ تھا حسن بن صباح نے کہا تھا کہ اسے دو دن بھوکا اور پیاسا رکھا جائے مزمل کو اس حکم کا علم نہیں تھا ہوتا بھی تو وہ کیا کر لیتا اس کے ماتھے سے خون بہہ بہہ کر اس کی آنکھوں کے راستے اس کے گالوں پر آکر اس کے سامنے قطرہ قطرہ گرتا رہا
مزمل آفندی کا دماغ جو ماؤف ہو گیا تھا آہستہ آہستہ بیدار ہوگیا اور مزمل سوچنے لگا کہ وہ اس کال کوٹھری تک کس طرح آ پہنچا ہے اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا احمد اوزال نے اسے کہا بھی تھا کہ سلطان ملک شاہ اور نظام الملک حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتے ہیں اسے قتل کروا نہیں سکتے
احمد اوزال کی اس بات پر مزمل نے توجہ نہیں دی تھی وہ یہ سمجھتا رہا کہ حسن بن صباح کوئی عام سا فریب کار آدمی ہے جو ادھر ادھر گھومتا پھرتا بھی ہوگا اور اسے آسانی سے قتل کیا جا سکے گا مزمل کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ وہ حسن بن صباح کے قتل کے لیے اپنی جان قربان کر دینے کا عہد کرکے آیا تھا مزمل جذبات میں الجھ کر جس طرح خلجان پہنچا تھا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک نے اسے نہیں روکا تھا اور اسے نہیں بتایا تھا کہ حسن بن صباح کوئی معمولی سا آدمی نہیں بلکہ وہ اس کے علاقے کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان اور وزیر اعظم کو خود معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح کیا طاقت حاصل کر چکا ہے مزمل کے لیے اب ہر سوچ محض بیکار تھی اسے بن عابد یاد آیا تو اسے احساس ہوا کہ حسن بن صباح کے یہ لوگ کس قدر عقل مند اور تجربہ کار ہیں کہ بن عابد نے اسے پتہ ہی نہیں چلنے دیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کے ایک خاص گروہ کا آدمی ہے
مزمل آفندی کا خون بہتا رہا اس کا دماغ سوچ سوچ کر تھک گیا اور وہ دروازے کی سلاخیں پکڑ کر کھڑا ہو گیا وہ پیاس سے مرا جا رھا تھا مگر وہ اسے پانی پلانے والا کوئی نہ تھا کوئی ہوتا بھی تو اس نے مزمل کو پانی نہیں دینا تھا
رات کے کھانے کے بعد امیر الموت حسن بن صباح کے پاس گیا اسے اس احترام سے بٹھایا گیا جس احترام کا وہ حقدار تھا اور اسے بتایا گیا کہ امام عبادت میں مصروف ہیں اور کچھ دیر بعد باہر آئیں گے مہدی علوی اس کے انتظار میں بیٹھ گیا
حسن بن صباح جس کی عبادت میں مصروف تھا وہ یہ تھی کہ وہ شراب پی رہا تھا اور اس کے ساتھ اس کی زنانہ گروہ کی دو سب سے زیادہ حسین لڑکیاں تھیں اسے اطلاع دے دی گئی کہ امیر الموت ملنے آیا ہے
خاصا انتظار کروا کر حسن بن صباح اس کمرے میں آیا جہاں مہدی علوی بیٹھا تھا مہدی علوی اسے اٹھ کر اس طرح ملا کہ اس کے آگے رکوع میں چلا گیا اور اس کے گھٹنے چھو لیے
مہدی علوی کی اہمیت صرف یہ تھی کہ وہ الموت کا امیر تھا اس کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں تھا وہ جنگجو بھی نہیں تھا اور اس نے کوئی لڑائی فتح نہیں کی تھی وہ ولی اللہ بھی نہیں تھا اور وہ صوفی بھی نہیں تھا عالم دین بھی نہیں تھا وہ قلعے یا کسی بھی شہر کے امراء جیسا ایک امیر تھا وہ عیش و عشرت کا دلدادہ تھا اور اسی کو وہ زندگی سمجھتا تھا اس میں وہ عیب تھا جو امراء میں ہوتا تھا وہ حسین عورتوں کا شیدائی اور خزانے کا متمنی تھا حسن بن صباح نے اس کی یہ خواہش معلوم کر لی تھی کہ وہ اس کے گروہ کی ایک بڑی ہی خوبصورت اور جوان عورت خدیجہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا
یا امام! مہدی علوی نے حسن بن صباح سے منت سماجت کے لہجے میں کہا آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے چلہ کاٹنے کے سلسلے میں کچھ رہنمائی کریں گے
آپ اچھے وقت آ گئے ہیں حسن بن صباح نے کہا مجھے گزشتہ رات اشارہ ملا ہے کہ آپ کہاں بیٹھ کر چلا کریں گے یہ سوچ لیں کہ چلہ چالیس دن کرنا پڑے گا آپ ایک جگہ بیٹھے رہیں گے اور چالیس دن وہی گزارنے ہوں گے
یا امام! مہدی علوی نے کہا آپ جو بتائیں گے وہ میں کرونگا
گزشتہ رات ہی مجھے صاف ایک تصویر نظر آئی ہے حسن بن صباح نے کہا کسی بھی وقت میں آپ کو بلاؤں گا آپ نے اسی وقت جنگل کی طرف میرے ساتھ چلنا ہوگا وہاں اس جگہ کا اشارہ ملے گا جہاں آپ ایک دائرے میں بیٹھ کر چلہ کریں گے میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ نے پڑھنا کیا ہے یہ ایک ورد ہوگا جو آپ چالیس دن کریں گے دن نہیں بلکہ رات کہیں کیونکہ چلہ رات کو ہو گا دن کے وقت آپ سو سکتے ہیں اور آپ اپنے خیمے کے اندر ہی رہنا ہے
حسن بن صباح نے مہدی علوی میں وہ تمام کمزوریاں بیدار کر کے انہیں اس کی عقل پر غالب کر دیا تھا جن انسانی کمزوریوں نے بادشاہیوں کے تختے الٹے ہیں ان کمزوریوں میں ایک تو خوبصورت عورت ہے دوسری ایسا خزانہ جو کبھی ختم نہ ہو اور تیسری کمزوری یہ کہ شب و روز عیش و عشرت میں گزرے مہدی علوی اپنے گھر چلا گیا
اگلے روز دوپہر کے وقت مہدی علوی کو حسن بن صباح نے یہ پیغام بھیجا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر فوراً آجائے
حسن بن صباح تیار ہو کر باہر نکل آیا تھا اس کا گھوڑا تیار کھڑا تھا اس کے ساتھ اپنے چند ایک آدمی تھے
مہدی علوی تھوڑی سی دیر میں گھوڑے پر سوار ہوا اور وہ جنگل کی طرف روانہ ہوگئے ایک جنگل تو وہ تھا جو بہت ہی خوش نما اور سرسبز تھا لوگ وہاں سیر سپاٹے کے لئے جایا کرتے تھے جنگل کا ایک حصہ ایسا تھا جہاں اونچی نیچی چٹانیں تھیں اور وہاں اتنی ہریالی نہیں تھی کہ اس علاقے کو دیکھنے کے قابل سمجھا جاتا حسن بن صباح شہر سے بہت دور اس علاقے میں جا پہنچا
جگہ یہی ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن یہ اشارہ بھی ملنا باقی ہے کہ آپ کا خیمہ کس جگہ لگایا جائے یہ اشارہ ایک کبوتر دے گا ایک کبوتر اڑتا آئے گا وہ درخت پر نہیں بلکہ زمین پر بیٹھے گا جہاں کبوتر زمین پر اترے گا اس جگہ خیمہ لگانا ہے اور آپ وہاں چلہ پورا کریں گے
حسن بن صباح نے اوپر دیکھنا شروع کیا وہ فضا میں ہر طرف دیکھ رہا تھا مہدی علوی اور دوسرے چند ایک جو آدمی تھے وہ بھی آسمان کی طرف دیکھنے لگے
بتادے اللہ! حسن بن صباح نے آسمان کی طرف منہ کرکے کہا بتا دے اللہ بتا دے
بہت وقت گزر گیا مہدی علوی تو بہت ہی بے چین تھا اسے کوئی بھی پرندہ اڑتا نظر آتا تو وہ کہے اٹھتا وہ رہا کبوتر لیکن وہ کبوتر نہیں ہوتا اور وہ جو پرندہ بھی ہوتا آگے نکل جاتا تھا
وہ دیکھئے ایک آدمی نے بلند آواز میں کہا وہ بلاشک و شبہ کبوتر ہے
سب نے دیکھا وہ کبوتر تھا اور وہ دوسرے پرندوں کی طرح سیدھا نہیں اڑتا جا رہا تھا بلکہ زمین پر اترتا آ رہا تھا آخر وہ ایک جگہ زمین پر اترا اور ایک طرف کو چل پڑا حسن بن صباح گھوڑے سے کود کر اترا مہدی علوی بھی گھوڑے سے اترا حسن بن صباح نے اس جگہ پر جا پاؤں رکھا جہاں پر کبوتر اترا تھا
یہاں خیمہ لگے گا حسن بن صباح نے مہدی علوی سے کہا ابھی اپنے آدمی بھیجو جو یہاں سپاہیوں والا خیمہ گاڑ دیں
دو مؤرخوں نے دو مختلف حکایتیں لکھی ہیں کہ حسن بن صباح نے قلعہ الموت پر کس طرح قبضہ کیا تھا لیکن یہ دونوں حکایتیں قابل اعتماد نہیں لگتی ان مؤرخوں کا بیان میں یہاں موزوں نہیں سمجھتا تین اور مورخوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے جو بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے دھوکہ دہی اور فریب کاری میں حسن بن صباح کو غیر معمولی مہارت حاصل تھی یہ تو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اپنے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو صرف متاثر ہی نہیں بلکہ بولنے کے انداز سے اور الفاظ کے انتخاب سے ہپنا ٹائز کرلیا کرتا تھا یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ مہدی علوی کے اندر نفسانی خواہشات ابھر آئی تھیں جو حسن بن صباح نے خاص طور پر ابھاریں تھیں
قرآن پاک میں واضح الفاظ میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ جو بھی مصیبت میں میرے بندوں پر آتی ہے وہ بندوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے آتی ہیں
مہدی علوی نے اپنے اعمال کو اور اپنی سوچوں کو اپنی نفسانی خواہشات کے تابع کر لیا تھا اب یہ دیکھیں کہ حسن بن صباح نے الموت جیسا قلعہ بند شہر مہدی علوی سے کس طرح خون کا ایک قطرہ بھی بہائے بغیر لے لیا
آہستہ آہستہ یہ خبر شہر میں پھیل گئی کہ امیر الموت طارک الدنیا ہو گیا ہے اور اس نے جنگل کے ویران اور اجاڑ حصے میں جا خیمہ لگایا اور وہاں اللہ اللہ کرتا رہتا ہے اس طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی خیمے سے دور دور دو تین آدمی گھومتے رہتے تھے جو کسی بھی آدمی کو اس طرف جانے نہیں دیتے تھے خیمے کے اندر مہدی علوی کا بستر تھا جو فرش پر بچھایا گیا تھا جہاں کبوتر زمین پر اترا تھا اس جگہ ایک مصلیٰ بچھا دیا گیا تھا مہدی علوی سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد قبلہ رو ہو کر بیٹھ جاتا اور ان الفاظ کا ورد شروع کر دیتا تھا جو اسے حسن بن صباح نے بتائے تھے
تاریخ میں وہ الفاظ یا وہ وظیفہ نہیں ملتا جو حسن بن صباح نے مہدی علوی کو بتایا تھا حسن بن صباح نے اسے سختی سے کہا تھا کہ پہلے دو دن اور دو راتیں وہ صرف پانی پی سکتا ہے لیکن کچھ کھا نہیں سکتا
اس نے مہدی علوی کو کہا تھا کہ وہ اپنی ذات کو اور اپنی ضروریات کو بالکل بھول جائے اور اگر وہ دو دن کچھ کھائے پیے بغیر تکلیف کے گزار گیا تو جنگل کے درخت بھی اس کے آگے سجدہ کریں گے اور جنگل میں جاتے اگر شیر بھی اس کے سامنے آجائے گا تو اسے راستہ دے دے گا
تیسرے روز میں خود یہاں آؤں گا حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کچھ دیر اس مصلے پر بیٹھوں گا اور کشف کے ذریعے مراقبے میں جا کر بتاؤں گا کہ یہ چلہ آپ کو کیا کچھ دے گا
اسے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک آدمی اس کے خیمے کے باہر حاضری میں موجود رہے گا جو اسے پانی پلاتا رہے گا
مہدی علوی کو بتانے والا کوئی نہ تھا کہ وہ کبوتر جو اڑتا آیا اور زمین پر بیٹھ گیا تھا وہ خود نہیں آیا تھا اس جگہ کے قریب ہی ایک چٹان تھی حسن بن صباح کا ایک آدمی کبوتر لے کر بہت پہلے اس چٹان کے پیچھے چلا گیا تھا اس نے کبوتر کے پَر کھینچ لئے اور اسے لمبی اڑان کے قابل چھوڑا ہی نہیں تھا حسن بن صباح مہدی علوی کو ساتھ لے کر وہاں گیا تو ادھر سے اس آدمی کو ایک مخصوص اشارہ ملا اس نے چٹان کے پیچھے سے کبوتر کو زور سے اوپر پھینکا کبوتر زیادہ اڑنے کے قابل نہیں تھا وہ جتنا اڑ سکا اور اور زمین کی طرف آنے لگا حتیٰ کہ وہ اس جگہ زمین پر اتر آیا حسن بن صباح فورا اس جگہ پہنچا اور جہاں کبوتر اترا تھا وہاں پاؤں رکھ دیا مہدی علوی کی توجہ حسن بن صباح کی طرف تھی اس کی عقل پر حسن بن صباح نے پردہ ڈال دیا تھا وہ دیکھ ہی نہ سکا کہ کبوتر کہاں چلا گیا ہے کبوتر اڑنے کی بجائے چل پڑا تھا اور چلتے چلتے دور نکل گیا تھا
مہدی علوی کے خیمے سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک اور خیمہ نصب کیا گیا تھا اس میں ایک آدمی رہتا تھا اس نے پانی کا ذخیرہ اپنے پاس رکھ لیا تھا اور اپنے کھانے پینے کا انتظام بھی اس نے وہی کر لیا تھا اس شخص نے مہدی علوی کی دیکھ بھال اور خدمت کرنی تھی
دن کے وقت جب بھی مہدی علوی اس سے پانی مانگتا وہ اسے پانی پلا دیتا شام کے بعد جب مہدی علوی مصلے پر ورد شروع کرتا تو حسن بن صباح کا یہ آدمی اسے پانی ضرور پیلاتا تھا اس پانی میں تھوڑی سی مقدار میں حشیش ڈال دی جاتی تھی حسن بن صباح نے اپنے اس آدمی سے کہہ رکھا تھا کہ وہ دوسرے تیسرے روز حشیش کی مقدار میں اضافہ کرتا جائے
یہ تو ایک نشہ تھا جو مہدی علوی کو دھوکے میں آہستہ آہستہ بلایا جا رہا تھا دوسرا نشہ حسن بن صباح نے اس پر پہلے ہی طاری کر رکھا تھا اس نشے میں بھی اس نے آہستہ آہستہ اضافہ کرنا تھا دو دن گزرگئے تو حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کہ اب وہ اونٹنی کا دودھ پی سکتا ہے لیکن کچھ کھا نہیں سکتا مہدی علوی کو یہ اجازت تھی کہ دن کے وقت وہ قریبی ندی میں جا کر نہا سکتا ہے اور دیگر قدرتی حاجات سے فراغت حاصل کر سکتا ہے
چلے کا ساتواں دن تھا حسن بن صباح نے اسے پیغام بھیجا کہ آج رات تقریباً نصف شب قریب سے اسے الّو کی آواز آئے گی وہ اس آواز پر مصلے سے اٹھے اور مصلے کے نیچے عین درمیان سے زمین کھودے حسن بن صباح نے پیغام میں کہا تھا کہ اسے معلوم نہیں کہ زمین میں سے کیا برآمد ہو گا وہ اللہ کی طرف سے کوئی تحریری پیغام بھی ہو سکتا ہے اور کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے وہ جو کچھ بھی برآمد ہو نکال کر اس جگہ مٹی ڈال دیجیے یہ خیال رکھے کہ ارد گرد زیادہ زمین نہ کھو دے
رات آدھی گزر گئی تھی مہندی علوی مصلے پر بیٹھا چلہ کر رہا تھا اسے الو کی آواز سنائی دی جو قریب ہی سے آئی تھی مہدی علوی فوراً اٹھا اس کے لئے جو خاص خادم چھوڑا گیا تھا وہ بھی الو کی آواز سن کر دوڑا آیا اسے بھی بتا دیا گیا تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے مہدی علوی نے فورا مصلیٰ ہٹایا خادم نے آ کر مصلیٰ کے درمیان کی جگہ سے زمین تھوڑی سی کھودی اور ہاتھ ڈالا تو اسے کوئی چیز محسوس ہوئی اس نے مہدی علوی سے کہا کہ وہ خود یہ چیز نکالے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا یعنی خادم کا ناپاک ہاتھ لگ جائے تو غیب سے آئی ہوئی یہ چیز غیب کو ہی واپس چلی جائے
مہدی علوی نے چھوٹے سے اس گڑھے میں ہاتھ ڈالا تو اس کے ہاتھ ایک چیز آئی جو اس نے باہر نکالی مشعل کی روشنی میں یہ چیز چمکی تو مہدی علوی پر کوئی اور ہی تاثر طاری ہوگیا وہ جانتا تھا کہ یہ کیا ہے یہ سونے کا ایک چوکور ٹکڑا تھا مہدی علوی نے اس ٹکڑے کو ہتھیلی پر رکھ کر اس کے وزن کا اندازہ کیا یہ ایک پاؤں سے کچھ زیادہ وزنی تھا اس نے گاڑھے میں پھر ہاتھ ڈالا تو ایسے ہی دو ٹکڑے اور نکلے حسن بن صباح کی ہدایت کے مطابق گڑھا اس سے گہرا یا چوڑا نہیں کھودنا تھا اس زمانے میں ان ٹکڑوں کو سونے کی اینٹیں کہا جاتا تھا حسن بن صباح کی ہدایات کے مطابق یہ گھڑا بھر دیا گیا اور اس پر پھر مہدی علوی نے مصلہ بچھا لیا اور خادم سے کہا کہ وہ علی الصبح یہ تینوں ٹکڑے امام کی خدمت میں پیش کر دے مہدی علوی کی ذہنی حالت کچھ اور ہی ہو گئی تھی وہ یوں و مسرت و شادمانی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اس حسین اور دلنشین پگڈنڈی پر جارہا ہو جو ذرا ہی آگے جا کر جنت میں جا نکلے گی اور اسے اسی دنیا میں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی
فردوسِ بریں سے نکالے ہوئے آدم کو ابلیس جنت ارضی میں داخل کر رہا تھا اس جنت کی کوئی حقیقت نہیں تھی اگر کچھ حقیقت تھی تو وہ تصوراتی تھی انسان جب نفسانی خواہشات کے چنگل میں آجاتا ہے تو اس کے تصورات اس قدر دلفریب ہو جاتے ہیں کہ وہ حقیقی زندگی سے ناتہ توڑ کر تصوراتی دنیا کو حقیقی سمجھنے لگتا ہے یہ کیفیت مہدی علوی پر طاری ہو چکی تھی اسے یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ رات کو جو آلو بولا تھا وہ الّو نہیں بلکہ اس کا خادم تھا جس نے خیمے سے ذرا پرے جا کر الو کی آواز نکالی تھی اور یوں دوڑا آیا تھا جیسے الو کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی ہو اور وہ مہدی علوی کے پاس پہنچ گیا ہو
اس وقت اس علاقے میں کوئی اُلو نہیں تھا اگر کوئی اُلو تھا تو وہ مہدی علوی تھا مہدی علوی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سونے کے یہ ٹکڑے غیب سے نہیں آئے تھے بلکہ یہ حسن بن صباح کی طرف سے آئے تھے صبح جب مہدی علوی ندی پر گیا تھا اس وقت خادم نے مصلے کے نیچے چھوٹا سا گڑھا کھودا اور سونے کے یہ تین ٹکڑے رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی تھی اور پھر اس پر مصلیٰ بچھا دیا تھا خادم کو معلوم تھا کہ مہدی علوی کو یہ شک نہیں ہوگا کہ یہاں پہلے ہی گڑھا کھودا گیا تھا خادم نے ہی آکر اس گڑھے کو کھودنا تھا دھوکہ دہی کا یہ کام مشکل نہ تھا
اگلی صبح مہدی علوی کا خادم جو حسن بن صباح کا خاص آدمی تھا سونے کے ٹکڑے لے کر شہر آیا اور حسن بن صباح سے ملا لو امام! اس نے کہا یہ کام بھی ہو گیا ہے یہ لیں اپنے سونے کی اینٹیں
حسن بن صباح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
اس شخص کا چلّہ کامیاب رہے گا حسن بن صباح نے ہلکی سی ہنسی سے کہا وہ چلہ کشی ختم کرے گا تو اس کا یہ شہر الموت ہمارا ہوگا تم جاؤ اس کے پاس چلے جاؤ اور کل سے اگلا عمل شروع کر دینا
الموت شہر میں ایک بڑی مسجد تھی شہر کے لوگ جمعہ اور عیدین کی نماز مسجد میں پڑھا کرتے تھے اس مسجد کا خطیب ایک عالم دین امام شامی تھا تاریخ میں اس کا پورا نام نہیں ملتا سوائے اس کے کہ وہ دور دور تک امام شامی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا وہ کئی برسوں سے حج کے لیے گیا تھا پھر خانہ کعبہ کا ہی ہو کے رہ گیا لوگ اسے بھول تو نہیں سکتے تھے لیکن وہ یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ امام شامی جیسے عالم دین سے محروم ہوگئے ہیں مسجد میں ایک اور خطیب موجود تھا لیکن اس میں وہ بات اور وہ عظمت نہیں تھی جو ضعیف العمر شامی میں تھی جس رات مہدی علوی کو سونے کی تین ایٹیں مصلے کے نیچے سے ملیں اس رات اچانک امام شامی آگیا لوگ فجر کی نماز کیلئے مسجد میں گئے تو امام شامی کو دیکھ کر انہیں خوشگوار دھچکا لگا لوھ تو اسے پیرومرشد کی طرح مانتے تھے لوگوں نے اس کے ہاتھ چومے اس کے آگے صرف سجدہ ریز نہ ہویے باقی کسر انہوں نے چھوڑی کوئی نہیں تھی شہر بھر میں خوشی منائی گئی کہ شہر کا محبوب امام اور خطیب واپس آ گیا ہے
لوگ امام شامی کو دیکھ کر تو بہت خوش ہو گئے لیکن امام شامی لوگوں کو دیکھ کر خوش نہ ہوا اس نے پہلی بات یہ دیکھی فجر کی نماز کے وقت اس تعداد کے آدھے نمازی بھی نہیں تھے جو پہلے ہوا کرتے تھے نماز کے بعد جب لوگ اسے مل رہے تھے اس نے شہر کے دو معمر بزرگوں سے پوچھا کہ نمازی کہاں کھو گئے اسے جو جواب ملا اس جواب نے اسے پریشان کر دیا ابھی اسے تفصیلات معلوم نہیں ہوئی تھی صرف یہ پتہ چلا کہ ایک اور امام شہر میں آگیا ہے جو مسجد میں تو کبھی نہیں آیا لیکن اپنے گھر میں سنا ہے ہر وقت عبادت میں مصروف رہتا ہے یہ بھی بتایا گیا کہ لوگ اسے امام ولی اللہ ہی نہیں بلکہ نبی تک تسلیم کرنے پر آگئے ہیں
امام شامی چپ رہا اس نے کسی سے سوال نہ کیا نہ کسی سے کوئی تفتیش کی اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ امیر شہر مہدی علوی کے پاس جائے گا اور اس سے پوچھے گا کہ شہر میں کیا انقلاب آگیا ہے اور یہ کونسا امام ہے جو مسجد کی بجائے اپنے گھر اکیلا ہی عبادت کرتا ہے
مہدی علوی عبادت گزار یا زاہد اور پارسا تھا یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے وہ امام شامی کا مرید تھا اور دل و جان سے اس کی قدر کرتا تھا قدر بھی اس حد تک کے انتظامی امور میں امام شامی سے مشورہ لیا کرتا اور آخری بات امام شامی کی ہی چلتی تھی
نماز سے اور ملاقاتیوں سے فارغ ہوکر امام شامی مہدی علوی کے گھر چلا گیا مہدی علوی کی دو بیویاں تھیں دو بیٹے اور تین چار بیٹیاں تھیں یہ اولاد ابھی لڑکپن میں اور کچھ بچپن میں تھیں ان میں کوئی بھی جوان نہیں تھا اس گھر میں امام شامی کی بڑی قدر و منزلت تھی اسے دیکھ کر مہدی علوی کی دونوں بیویاں دوڑی آئیں اور اس کے آگے جھک کر سلام کیا اس نے پوچھا کہ امیر شہر کہاں ہے جواب میں دونوں بیویاں خاموش رہیں اور ان کے چہروں پر اداسی کا تاثر آگیا
کیوں ؟
امام شافعی نے پوچھا کیا بات ہے
بیویوں نے امام شامی کو اندر بٹھایا اور وہیں بیٹھ گئیں
امیر شہر تاریک الدنیا ہو کر جنگل میں چلہ کشی کر رہے ہیں بڑی بیوی نے کہا سات روز گزر گئے ہیں سنا ہے چالیس روز پورے کرنے پڑیں گے
اس راستے پر اسے کس نے ڈالا ہے؟
امام شامی نے پوچھا
شہر میں ایک امام آیا بیٹھا ہے بڑی بیوی نے کہا لوگ اس کے مرید ہوتے چلے جارہے ہیں اس کے ساتھ چند ایک اتنی حسین اور نوجوان لڑکیاں ہیں جنھیں دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ اس زمین کی پیداوار ہیں وہ جنت کی حوریں لگتی ہیں
اور محترم امام! چھوٹی بیوی نے کہا ہمارے امیر شہر بھی اس کے مرید ہوگئے ہیں یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ان پر ان حوروں جیسی لڑکیوں کا جادو چل گیا ہے گھر میں انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تو خدا کو بھی بھول گئے ہیں اور اس نئے امام کو اپنا امام نہیں بلکہ پیغمبر تسلیم کر لیا ہے جس کا نام حسن بن صباح ہے اسی امام نے امیر شہر کو چلہ کشی کے راستے پر ڈالا ہے
حسن بن صباح امام شامی نے چونک کر کہا وہ یہاں پہنچ گیا ہے اس کی شہرت تو وہاں خانہ خدا تک پہنچ چکی ہے اس شخص کا نام مدینہ میں سنا تھا لیکن سنانے والے نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ شخص کوئی برگزیدہ شخصیت ہے بلکہ اس نے کہا تھا کہ ابلیس ایک بار پھر دنیا میں انسان کے روپ میں آگیا ہے ایک آدمی ایسا بھی ملا تھا جس نے حسن بن صباح کو برگزیدہ شخصیت کہا تھا میں یہ دیکھتا ہوں کہ جس آدمی نے مہدی علوی جیسے دانش مند آدمی کو چلہ کشی پر لگا دیا ہے وہ اللہ کا برگزیدہ بندہ نہیں ہو سکتا اسلام نے عبادت کا حکم دیا ہے چلہ کشی کا نہیں چلہ کشی دنیاوی مقصد اور اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے کی جاتی ہے
امیر شہر عقلمند یا پرہیز گار تھے یا نہیں بڑی بیوی نے کہا حسن بن صباح نے انہیں چلہ کشی جیسی گمراہی میں ڈال دیا ہے
نہیں امام شامی نے کہا انہیں حسن بن صباح نے نہیں بلکہ اپنے نفس نے اس گمراہی میں ڈالا ہے انسان جب اپنی خواہشات کا غلام ہو جاتا ہے تو وہ ایسے ہی جھوٹے سہارے تلاش کرتا ہے بہرحال میں وہاں جاؤں گا اور امیر شہر کو واپس لانے کی کوشش کروں گا
آپ وہاں نہ جائیں بڑی بیوی نے کہا وہاں پہرے لگے ہوئے ہیں امیر شہر نے بھی حکم جاری کیا ہے کہ کوئی بھی اس علاقے کی طرف نہ جائے جہاں وہ چلہ کشی کر رہے ہیں اس حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی آدمی ادھر جاتا دیکھا گیا تو اسے دور سے تیر مار دیا جائے گا
امیر شہر گھر میں ایک دو خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں لانا چاہتی ہیں چھوٹی بیوی نے کہا یہ تو کوئی معیوب بات نہیں وہ دو بیویاں اور لا سکتے ہیں ہم دونوں ان کا استقبال کریں گے لیکن امیر شہر اس نئے امام کے فریب میں آ گئے ہیں کیا امیر شہر کے لیے خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کی کمی ہے؟
اس دور میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا امراء کے گھروں میں دو دو تین تین اور بعض کے یہاں چار بیویاں بھی ہوتی تھیں چونکہ یہ ایک رواج تھا اس لئے بیوی آپس میں لڑتی نہیں تھی نہ ان میں سوکنوں والی رقابت ہوتی تھی یہاں تک بھی ہوتا تھا کہ کوئی بیوی اپنے طور پر اپنے خاوند کے لیے کوئی خوبصورت لڑکی لے آتی اور اسے اپنے خاوند کے ساتھ بیاہ دیتی تھی
محترم امام! بڑی بیوی نے کہا ہمارے شوہر کو واپس لے آئیں ہمیں خزانے نہیں چاہیے ہمیں اپنے شوہر کی ضرورت ہے
میں اس نئے امام حسن بن صباح سے ملونگا امام شامی نے کہا پہلے تو یہ دیکھوں گا کہ یہ شخص ہے کیا اور یہ کرتا کیا ہے میں نے یہ دیکھنا ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی علم ہے بھی یا نہیں
مہدی علوی کے گھر سے اٹھ کر امام شامی حسن بن صباح کے یہاں چلا گیا حسن بن صباح کے ایک آدمی نے اندر اطلاع دی کہ امام شامی آئے ہیں یہ کہنے کی بجائے کہ امام شامی کو اندر بھیج دو وہ اٹھا اور دوڑتا ہوا اس کمرے میں گیا جہاں امام شامی کو بٹھایا گیا تھا وہ امام شامی کے سامنے فرش پر دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اس کے پاؤں چھوئے پھر گھٹنے چھوئے پھر اپنا سر امام شامی کے گھٹنوں پر رکھ دیا امام شامی نے اس کا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اوپر کیا اور اسے کہا کہ وہ اس کے پاس بیٹھ جائے
نہیں امام! حسن بن صباح نے رندھی ہوئی آواز میں کہا میں اس قابل نہیں کہ آپ جیسے عظیم امام اور خطیب کی برابری میں بیٹھوں میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ آج آپ کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے میں نے آپ کی شہرت برسوں پہلے سنی تھی اور سنتا ہی چلا آ رہا ہوں یہاں آ کر پتہ چلا کہ آپ تو کئی برسوں سے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر عبادت کر رہے ہیں میں علم کی تلاش میں بھٹکتا پھر رہا ہوں یہاں آیا تو کچھ لوگوں نے بتایا کہ امام شامی واپس آجائیں تو تم یوں سمجھو کہ علم و فضل کا چشمہ پھوٹ پڑا ہے آپ مجھے اپنے قدموں میں بٹھا لیں اور میری تشنگی کی تسکین کریں
میں نے تو کچھ اور سنا ہے امام شامی نے کہا میں نے سنا ہے کہ تم امام کہلاتے ہو اور کچھ لوگوں نے تمہیں نبی بھی کہنا شروع کر دیا ہے
یہ ان لوگوں کی سادگی ہے بھول ہے حسن بن صباح نے کہا میں تو امامت کا بھی دعویٰ نہیں کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ کچھ لوگ مجھے نبی مانتے ہیں میں ان لوگوں کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میں اگر دن رات کی عبادت میں لگا رہتا ہوں تو یہ میری اپنی ذات کے لئے ہے میں کسی کی قسمت تبدیل نہیں کر سکتا یہ وہی بات ہے جو رسول اللہﷺ نے فرمائی تھی کہ سزا اور جزا کا انحصار تمہارے اپنے اعمال پر ہے ہر انسان دنیا سے ہی اپنی جنت اور اپنا جہنم لے کر جاتا ہے
یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو امام شامی نے کہا لیکن یہ چلہ کشی دین اسلام میں تم کہاں سے لے آئے ہو؟
میں سمجھتا ہوں کے آپ کا اشارہ امیر شہر مہدی علوی کی طرف ہے حسن بن صباح نے کہا انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ وہ چلہ کرنا چاہتے ہیں میں نے انہیں روکا تھا لیکن وہ اسے عبادت کے رنگ میں لیتے ہیں میں نے انہیں بہت کچھ سمجھایا تھا لیکن حقیقت یہ ہے محترم امام! امیر شہر اپنے نفس کے غلام ہو گئے ہیں میں نے سوچا کہ انہیں چلہ کرنے دوں لیکن میرے ذہن میں عبادت تھی میں نے انہیں کہا کہ وہ چالیس روز جنگل میں جا بیٹھیں اور یوں عبادت کریں کہ اس دنیا سے تعلق توڑ دیں اس سے میرا مطلب یہ تھا کہ دنیا سے لاتعلق ہوکر جب یہ عبادت کریں گے تو چالیس دنوں بعد یہ دنیا کو بھولے ہوئے ہوں گے
امام شامی عالم دین تھے اور معمر بھی تھے ان کی عمر کا اندازہ اس سے ہوتا تھا کہ ان کے سر اور داڑھی کا کوئی ایک بھی بال سیاہ نہیں رہا تھا ان کی آنکھوں کا نور بھی ختم ہو چکا تھا پھر بھی ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو علم و دانش اور روح کا نور تھا انہوں نے کتابیں بھی پڑھی تھیں دنیا کے اچھے برے انسانوں کو بھی پڑھا تھا لیکن حسن بن صباح وہ انسان تھا جس کا ذکر کسی کتاب میں نہیں ملتا تھا نہ انہوں نے ایسا انسان پہلے کبھی دیکھا تھا وہ جب باتیں کر رہا تھا تو امام شامی نے صاف طور پر محسوس کیا کہ یہ شخص عام انسانوں کی سطح سے یا تو بالا ہے یا بہت ہی پست بہرحال حسن بن صباح کو انہوں نے سمجھنے میں دشواری محسوس کی
میں امیر شہر کے پاس جاؤنگا امام شامی نے کہا میں اسے واپس حقیقی دنیا میں لے آؤں گا
ہاں امام محترم! حسن بن صباح نے کہا اگر آپ انہیں لے آئیں تو میں سمجھوں گا کہ آپ نے ان پر نہیں بلکہ مجھ پر احسان کیا ہے جو بات میں انہیں سمجھانا چاہتا تھا ہوسکتا ہے وہ آپ کی زبان سے سمجھ جائیں
اگر حسن بن صباح امام شامی کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث میں الجھ جاتا تو امام شامی کا رویہ اور ان کا استدلال کچھ اور ہوتا لیکن حسن بن صباح نے ایسی فریب کاری کا انداز اختیار کر لیا تھا کہ امام شامی نے کچھ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا تھا نہ وہ اس شخص کی اصل نیت کو سمجھ سکے وہ اٹھے اور کچھ کہے بغیر وہاں سے آگئے ان کے باہر نکلتے ہی حسن بن صباح اپنے کمرے میں چلا گیا اور اس نے اپنے تین بڑے ہی خاص آدمیوں کو بلایا اور انہیں کچھ ہدایات دینے لگا…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:26 }
اس روز ظہر کی نماز کے وقت مسجد میں نمازیوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی کیونکہ سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ ان کے محبوب امام اور خطیب امام شامی آ گئے ہیں انہوں نے امام شامی کے پیچھے نماز پڑھی لیکن عصر کی نماز کے وقت امام مسجد میں نہ آیا مغرب کی نماز کے وقت بھی امام غیر حاضر رہا اور عشاء کی نماز کے وقت بھی لوگوں کا محبوب امام لاپتہ تھا ان کے گھر سے پتا کیا گیا معلوم ہوا کہ وہ عصر کی نماز کے بعد کہیں چلے گئے تھے ایک معمہ تھا جو حل نہ ہو سکا کوئی بھی نہ تھا جو یہ بتاتا امام شامی کہاں چلا گیا ہے دو یا تین آدمیوں نے بتایا کہ امام کو شہر سے باہر جاتے دیکھا گیا تھا رات کو انہیں کہاں تلاش کیا جاتا لوگ صبح کا انتظار کرنے لگے
فجر کی نماز کے وقت بھی امام شامی نہ آئے لیکن نماز کا وقت گزر گیا تو شہر میں ایک سنسنی خیز خبر پھیل گئی جو یہ تھی کہ ایک آدمی شہر کے باہر سے آ رہا تھا تو اس نے ویرانے میں ایک درخت کے صحن کے ساتھ کسی کا کٹا ہوا سر لٹکتا دیکھا اس نے اچھی طرح دیکھا تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا یہ سر امام شامی کا تھا جو بڑی صفائی سے جسم سے کاٹا گیا تھا لوگ حیران اس پر ہوئے کے امام شامی کے ساتھ کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی تھی کہ انہیں اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے
یہ خبر حسن بن صباح کو پہنچائی گئی وہ دوڑتا باہر نکلا لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا حسن بن صباح نے گھوڑا منگوایا اور اس پر سوار ہو کر اس طرف چل پڑا جدھر بتایا گیا تھا کہ امام شامی کا سر درخت کے ساتھ لٹکا دیکھا گیا ہے شہر کے لوگ ہجوم کرکے اس کے ساتھ دوڑے جا رہے تھے
حسن بن صباح اس درخت تک پہنچا جہاں ابھی تک امام شامی کا سرا لٹک رہا تھا اس نے سر دیکھا یہ درخت کے ایک ٹہن کے ساتھ بالوں سے بندھا ہوا تھا امام شامی کے بال شانوں تک لمبے تھے
یہ دیکھو ایک بازو! کسی آدمی کی بڑی ہی بلند اور گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی
لوگ اس طرف دیکھنے لگے اور پھر سب اس طرف دوڑ پڑے حسن بن صباح بھی اس طرف گیا اور گھوڑے سے اتر کر بازو دیکھا جو کندھے سے کاٹا گیا تھا
سب لوگ ادھر ادھر پھیل جاؤ حسن بن صباح نے اعلان کیا امام کے جسم کے کچھ اور ٹکڑے ملیں گے میں سمجھ گیا ہوں کہ ان کا قاتل کون ہے وہ انسان نہیں کسی اور دنیا کی مخلوق ہے جو یقینا جنات میں سے ہو گی
لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور تلاش کرنے لگے تھوڑی سی تلاش کے بعد آوازیں آنے لگیں یہ ایک ٹانگ پڑی ہے پھر کچھ دور سے آواز آئی یہ ایک بازو پڑا ہے اس طرح آوازیں آتی رہیں اور امام شامی کے کٹے ہوئے اعضاء مل گئے بازو الگ اور ٹانگیں الگ پھینک دی گئی تھیں
مہدی علوی رات بھر چلّے میں بیٹھا رہا تھا اور صبح طلوع ہوتے ہی وہ سو گیا تھا اس کا خیمہ وہاں سے کچھ دور تھا اور چٹانوں کی اوٹ میں تھا اسے پتہ ہی نہ چلا کہ امام شامی قتل ہو چکا ہے اور اس کے جسم کے کٹے ہوئے اعضاء اکٹھے کیے جا چکے ہیں لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہوگیا تھا وہ حسن بن صباح کے ارد گرد اکٹھا ہو گئے اور ان سے پوچھنے لگے کہ یہ حادثہ کس طرح ہوا ہے ؟
حسن بن صباح پہلے بتا چکا تھا کہ امام شامی کے قاتل جنات ہیں اب اس نے دیکھا کہ لوگ اسکے گرد جمع ہوگئے ہیں تو اس نے لوگوں کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا
لوگوں ہوش میں آؤ اور میری بات غور سے سنو حسن بن صباح نے گھوڑے پر سوار ہو کر بڑی ہی بلند آواز میں کہا تم سب جانتے ہو کہ امیر شہر یہاں سے تھوڑی دور آگے چلہ کشی کر رہے ہیں تمام شہر میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ کوئی شخص اس طرف نہ آئے لوگوں کو روکنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ امیر شہر کی چلہ کشی میں خلل نہ پڑے اور اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ایسا چلہ کر رہے ہیں کہ بہت سے جنات اس علاقے میں آ گئے ہیں امیر شہر جو وظیفہ پڑھتے ہیں اس میں ایسا اثر ہے جو جنات کو متاثر کر لیتا ہے اور وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں اگر کوئی آدمی اس خیال سے ادھر آئے کہ امیر شہر کو چلہ کشی کی حالت میں دیکھے تو جنات اسے روکتے ہیں اور اگر وہ نہ روکے تو اس کا وہی حال کر دیتے ہیں جو تم لوگوں نے اپنے امام کا دیکھا ہے اسی لیے میں نے انتظام کردیا تھا کہ یہاں دور دور تک کچھ آدمی بٹھا دیے تھے جو کسی کو ادھر آنے نہیں دیتے تھے میں تم سب کے سامنے ان آدمیوں سے پوچھتا ہوں کہ انہوں نے امام کو اس طرف آتے دیکھا ہوگا
یا امام! ہجوم میں سے ایک آدمی کی آواز سنائی دی میں نے کل شام سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے امام شامی کو اس طرف آتے دیکھا تھا میں ان کی طرف دوڑا اور انہیں روک دیا اور بتایا کہ وہ آگے نہ جائیں انہیں وجہ بھی بتائی لیکن انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور کہا کہ وہ ضرور آگے جائیں گے میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ میں امام حسن بن صباح کا حکم مانو یا امام شامی کا امام شامی کے سامنے میری حیثیت ہی کیا تھی میں نے سوچا کہ یہ اللہ کے برگزیدہ اور عظیم امام ہیں جنات ان کے قریب آنے کی جرات نہیں کریں گے میں ان کے راستے سے ہٹ گیا وہ آگے چلے گئے اور پھر میری نظروں سے اوجھل ہو گئے کیونکہ آگے ٹیلے بھی تھے اور چٹانیں بھی یہ تو صبح میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ امام شامی کا سر ایک درخت کے ٹہن کے ساتھ بالوں سے بندھا ہوا ہے اب تم سب نے دیکھ لیا کہ ان کے جسم کو کاٹ کر جنات نے کس طرح بکھیر دیا ہے
لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا حسن بن صباح نے ہجوم پر نظر گھمائی اس نے ہر کسی کے چہرے پر خوف کا تاثر دیکھا
اتنا زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے لوگوں سے کہا تم لوگ اب احتیاط کرنا کے کوئی بھی اس علاقے میں نہ آئے میں اس پاگل جن کو حاضر کر کے زندہ جلا دوں گا
لوگ آہستہ آہستہ شہر کی طرف چل پڑے حسن بن صباح گھوڑے پر سوار کسی اور طرف چلا گیا
قتل کے ہولناک واردات یوں ہوئی تھی کہ امام شامی جب حسن بن صباح کے گھر سے نکلا تھا تو حسن بن صباح نے اپنے آدمیوں کو بلایا تھا انہیں جو ہدایات دی تھیں وہ یہ تھی کہ امام شامی پر نظر رکھیں اگر وہ اس طرف جاتا ہے جہاں مہدی علوی چلہ کشی کر رہا ہے تو اسے وہیں کہیں ختم کردیں
یا امام! حسن بن صباح کے ایک دست راست نے کہا یہ نہ کہیں کہ اگر وہ ادھر آ جائے تو اسے قتل کیا جائے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ امام شامی کا اس شہر کے لوگوں پر اس قدر اثر اور رسوخ ہے کہ لوگ اسے پیر اور مرشد مانتے ہیں میں نے گھوم پھر کر دیکھا ہے پھر آپ سے یہ بات کر رہا ہوں اگر یہ شخص الموت میں رہا تو کوئی بعید نہیں کہ یہ ہمارے خلاف محاذ بنا لے اور ہم نے اس شہر کے لوگوں میں جس طرح اثر پیدا کیا ہے وہ رائیگاں چلا جائے اس آدمی کا اس شہر میں رہنا بلکہ اس دنیا میں رہنا خطرناک ہوگا
تو اسے ختم کر دو حسن بن صباح نے کہا لیکن قتل اس طرح کرو کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کسی انسان نے قتل کیا ہے یہ مہدی علوی کے پاس ضرور جائے گا اسے اس ویرانے میں قتل کرو اور اس کے بازو ٹانگیں سر کاٹ کر الگ الگ پھینک دو پھر میں آکر لوگوں کو بتاؤں گا کہ اس کا قاتل کون ہے پھر لوگ اسے بھول جائیں گے اور میرے اور زیادہ معتقد ہو جائیں گے
امام شامی کے دن پورے ہو چکے تھے وہ اسی شام موت کی وادی کی طرف چل پڑا اور حسن بن صباح کے آدمیوں نے اسے اسی طرح قتل کر دیا جس طرح حسن بن صباح نے بتایا تھا اور پھر اس ابلیس نے لوگوں سے منوالیا کہ یہ قتل جنات نے کیا ہے
سورج غروب ہونے کو تھا جب امام شامی کو قبر میں اتارا گیا نماز جنازہ حسن بن صباح نے پڑھائی تھی اور اس کے بعد اس نے امام شامی کی وفات پر ایسی نوحہ خوانی کی تھی کہ لوگوں کے آنسو ہی نہیں بلکہ سسکیاں اور ھچکیاں نکل آئی تھیں
اگلی صبح حسن بن صباح مہدی علوی سے ملنے چلا گیا مہدی علوی خیمے میں زمین پر بچھے ہوئے بستر پر گہری نیند سویا ہوا تھا یہ چلے کا اٹھواں یا نواں دن تھا خادم نے اسے جگایا اور بتایا کہ امام حسن آئے ہیں مہدی علوی ہڑبڑا کر اٹھا حسن بن صباح خیمے میں آ کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا
اس نے مہدی علوی کے چہرے کا جائزہ لیا وہ اندازہ کرنا چاہتا تھا کہ مہدی علوی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کی ذہنی حالت کیا ہے
کیا آپ یہ چلہ جاری رکھ سکیں گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہاں امام! مہدی علوی نے جواب دیا میں چلہ جاری رکھوں گا مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی بلکہ ایک عجیب سا سرور محسوس ہوتا ہے جسے میں بیان نہیں کر سکتا تصورات میں ہی حسین ذہن میں آتے ہیں اور یہ اپنے آپ ہی آ جاتے ہیں
آپ کو تو سکون ملتا ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن آپ کے اردگرد جو علاقہ ہے یہ بڑا ہی خطرناک ہوگیا ہے میں نے آپ کو جو وظیفہ بتایا ہے اس کے اثرات پوری کائنات پر ہوتے ہیں یہ دراصل سلیمان علیہ السلام کا وظیفہ ہے اسے جنات پڑھا کرتے تھے آپ کے خیمے کے اردگرد جنات کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا ہے یہ اس وظیفے کی کشش اور جنات کی عقیدت مندی ہے
تو کیا یہ جنات مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے؟
مہدی علوی نے ذرا ڈرے ہوئے لہجے میں پوچھا
نہیں امیر الموت! حسن بن صباح نے جواب دیا یہ تو آپ کی خوش نصیبی کی نشانی ہے کہ آپ کا پڑھا ہوا وظیفہ کائنات پر اثر انداز ہو رہا ہے ہو سکتا ہے کہ کچھ جنات انسانوں کے روپ میں آکر آپ کے آگے سجدہ ریز ہو جائیں ،اگر ایسا ہوا تو آپ ڈریں بالکل نہیں، وہ خاموشی سے آپ کا ورد سنتے رہیں گے اور پھر چلے جائیں گے
مجھے یہ بتائیں کہ سونے کی یہ تین ایٹم کس طرح برآمد ہوئی ہیں ؟
مہدی علوی نے پوچھا کیا مصلے کے نیچے سے مزید خزانہ برآمد ہوگا؟
میں گزشتہ رات سو نہیں سکا حسن بن صباح نے کہا سونے کی یہ تین اینٹیں ایک اشارہ ہے میں رات بھر مراقبے میں رہا ہوں معلوم یہ کرنا تھا کہ یہ اشارہ کیسا ہے صبح کاذب کے وقت مجھے یہ راز معلوم ہوا خزانہ برآمد ہو گا لیکن ابھی یہ پتا نہیں چل رہا کہ وہ خزانہ کہاں سے برآمد ہو گا مجھے امید ہے کہ پندرہ سولہ دنوں بعد یہ بھی پتہ چل جائے گا سونے کے یہ تین ٹکڑے ایک بڑا واضح اشارہ ہے کہ آپ کو تین اور شہر ملیں گے پھر الموت کو ملا کر ان چار شہروں کی ایک سلطنت بن جائے گی جس کے سلطان آپ ہونگے اس سلطنت کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ایک ہے کہ آپ اسی طرح صبر و تحمل اور پوری یکسوئی کے ساتھ پورے چالیس دن یہ وظیفہ پورا کردیں
مہدی علوی کو باقاعدہ حشیش پلائی جا رہی تھی خادم حشیش کی مقدار میں اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا اسے اوٹنی کا دودھ پینے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ دودھ ہر روز اس کے خیمے میں پہنچا دیا جاتا تھا اس میں بھی ذرا سی حشیش ڈال دی جاتی تھی کچھ تو اس کی اپنی خواہشات کے تصور تھے جو اس کے ذہن میں نکلتے ہی چلے آرہے تھے کچھ حسن بن صباح کی باتوں کے اثرات تھے کہ مہدی علوی کے ذہن سے اترتا جارہا تھا کہ وہ الموت کا امیر ہے اور اس کی حیثیت ایک بادشاہ جیسی ہے
میں آپ کو ایک بُری خبر سنا رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا آپ کے محبوب امام شامی اچانک حجاز سے واپس آگئے تھے انہیں پتہ چلا کہ آپ یہاں چلہ کشی میں بیٹھے ہیں تو وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ آپ کو چلہ کشی سے روکیں گے میرے دل میں امام شامی کا بے تحاشہ احترام ہے میں نے انہیں کہا کہ وہ آپ کو چلہ کشی میں مداخلت نہ کریں ورنہ اس میں آپ کی جان جانے کا خطرہ ہے اور امیر الموت کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ان کی اور ہم سب کی بدقسمتی کہ وہ نہ مانے اور کل آپ کے پاس آنے کے لئے چل پڑے ہمیں اطلاع ملی کہ ان کے سر ویرانے میں ایک درخت کے ساتھ بالوں سے لٹک رہا تھا مجھے سب پتا چل گیا کہ انہیں جنات نے کاٹ کر پھینک دیا تھا کیونکہ وہ جنات کے پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے وظیفے کی توہین کر رہے تھے یہ توہین ہی تھی کہ وہ آپ کو اس وظیفے سے ہٹانے آ رہے تھے کل میں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ہے اور انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ہے
حسن بن صباح کو توقع تھی کہ مہدی علوی کا ردعمل بڑا ہی شدید ہوگا اور وہ روئے گا کیونکہ وہ امام شامی کا معتقد تھا بلکہ اس کا مرید تھا لیکن اس نے اپنے امام کی موت کی خبر سنی تو اس کا چہرہ بے تاثر رہا جیسے اس پر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا ہو اس کی آنکھیں خشک رہی اس کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا حسن بن صباح نے جب یہ دیکھا کہ مہدی علوی نے کوئی اثر لیا ہیں نہیں تو وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا وہ مہدی علوی کی حِسّیں مردہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا
میں یہ چلہ پورا کروں گا اور امام محترم! مہدی علوی نے کہا یہ دیکھنا آپ کا کام ہے کہ میں اس میں کامیاب ہوجاؤں گا یا نہیں
وہ تو میں دیکھ چکا ہوں حسن بن صباح نے کہا اور میں آپ کو بتا بھی چکا ہوں سونے کی تین اینٹوں کا برآمد ہونا وظیفے کی کامیابی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور امام شامی کا جنات کے ہاتھوں قتل ایک اور ثبوت ہے آپ دلجمعی سے چلہ جاری رکھیں
کیا میں اونٹنی کا دودھ ہی پیتا رہوں؟
مہندی علوی نے پوچھا
ہاں! حسن بن صباح نے کہا آج کا دن ملا کر دو دن اور آپ اونٹنی کے دودھ پر ہی رہیں گے اس کے بعد آپ اس دودھ کے ساتھ دن رات میں صرف ایک بار آدھی روٹی کھا سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں
حسن بن صباح نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اتنے تندرست اور اتنے صحت مند جسم والا امیر شہر غذائیت کی کمی کی وجہ سے کچھ کمزور ہو گیا تھا حسن بن صباح نے اسے اور زیادہ کمزور کرنا تھا
حسن بن صباح مہدی علوی کی اور زیادہ حوصلہ افزائی کرکے وہاں سے آگیا مہدی علوی نے حسن بن صباح کی جو پیشن گوئیاں سنی تھی انہوں نے اسے نہایت حسین اور دل پسند تصوروں میں دھکیل دیا
سات آٹھ دن اور گزر گئے مہدی علوی اب ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا جس میں اس کے ذہن کے تصورات حقیقی زندگی کی صورت میں محسوس ہونے لگے اور حقیقی زندگی اس کے ذہن سے بہت حد تک نکل گئی
پندرہ سولہ دن گزر گئے تو حسن بن صباح ایک بار پھر مہدی علوی کے خیمے میں گیا اس نے مہدی علوی کے چہرے کا اور ذہنی کیفیت کا اندازہ کیا اس نے دیکھا کہ وہ بڑے اچھے نتائج حاصل کر رہا ہے مہدی علوی بڑی جاندار آواز میں بولتا تھا لیکن صاف پتہ چلتا تھا کہ اس کا ذہنی توازن صحیح نہیں رہا یہ شخص اس طرح زندگی کی حقیقتوں سے کٹ گیا ہے جس طرح ہرے بھرے درخت کی ایک شاخ کٹ کر گر پڑتی ہے اس شاخ کو سوکھ کر پتّا پتّا ہو جانا ہوتا ہے یہی کیفیت مہدی علوی کی ہو رہی تھی
کیا آپ کچھ اور بھی دیکھ رہے ہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا کوئی اور چیز آپ کو نظر آئی ہو؟
ہاں محترم امام! مہدی علوی نے مخمور سی آواز میں کہا میں نے گزشتہ رات ایک عجیب چیز دیکھی ہے میں وظیفہ میں مصروف تھا کہ ایک انتہائی خوبصورت لڑکی اس طرح میرے سامنے سے گزر گئی جیسے وہ چل نہیں رہی تھی بلکہ بادلوں پر تیر رہی تھی میں چونکہ وظیفے میں مصروف تھا اس لیے میں نے اس کی طرف زیادہ نہ دیکھا اتنا ہی دیکھا کہ وہ میرے سامنے سے گزری اور غائب ہو گئی میں تو کہوں گا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی حور تھی میں نے اپنی پوری کی پوری توجہ وظیفے پر مرکوز کردی ذرا ہی دیر بعد ایک اور لڑکی جو پہلی جیسی حسین اور دلکش تھی میرے سامنے سے گزر گئی میں کچھ ڈرا بھی اور گھبرایا بھی لیکن اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ آسمان کی مخلوق ہے پھر یہ خیال بھی آیا کہ یہ جنات ہی نہ ہوں چونکہ آپ نے بھی کہا تھا کہ انسان کے روپ میں آ سکتے ہیں
ابھی کچھ اور چیزیں بھی آپ کو نظر آئیں گی حسن بن صباح نے کہا آپ جو کچھ بھی خدا سے مانگ رہے ہیں وہ سب کچھ آپ کو مل جائے گا یہ خدائی اشارہ ہے سونے کی تین ٹکڑوں کا اشارہ آپ کو بتایا ہے اب آپ نے دو لڑکیاں دیکھیں ہیں آپ خود ہی سمجھ لیں کہ آپ کی یہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی جس طرح آپ چاہتے ہیں
مہدی علوی یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ دو لڑکیاں حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہو سکتی ہیں کوئی اسے بتاتا تو بھی وہ یقین نہ کرتا کیونکہ رات کے وقت شہر سے دور اس ویرانے میں کوئی لڑکی نہیں آ سکتی تھی حقیقت یہ تھی جس سے وہ بے خبر تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں شام کو ہی وہاں پہنچا دی گئی تھیں مہدی علوی مصلے پر بیٹھ چکا تھا لڑکیاں خادم کے خیمے میں بیٹھی رہیں انہیں ایسے لباس پہنائے گئے تھے جو عام طور پر لڑکیاں نہیں پہنا کرتی تھیں وہ رنگدار باریک ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں اس کے باوجود وہ عریاں لگتی تھیں کیونکہ کپڑے بہت ہی باریک تھے وہ جب مہدی علوی کے آگے سے گزری تھی تو ان کی چال عام چال نہیں تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ قدم اٹھا نہیں رہی بلکہ زمین پر کھڑے کھڑے تیرتی جا رہی ہوں
آخر چالیسویں رات بھی گزر گئی مہدی علوی کو اچھلتے کودتے نعرے لگاتے خیمے سے باہر آنا چاہیے تھا لیکن وہ اس طرح سر جھکائے ہوئے باہر جا رہا تھا جیسے اس نے منوں بوجھ اٹھا رکھا ہو خیمے سے باہر آکر اس نے دیکھا اسے اس کے خادم کا خیمہ نظر نہ آیا اس نے خادم کو پکارا بہت آواز دی لیکن اسے کوئی جواب نہ ملا وہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف چل پڑا اسے تو جیسے یاد ہی نہ رہا تھا کہ اس نے چالیس راتیں چلہ کیا ہے اور شاید وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس نے چلہ کیوں کیا تھا اس کا دماغ کسی وقت روشن ہو کر سوچنے کے قابل ہوجاتا لیکن فوراًّ ہی بعد دماغ پھر سو جاتا اس کے ذہن میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا اس کا ذہن ذرا سا اپنے آپ میں آتا تو اسے یاد آتا کہ یہاں وہ اکیلا نہیں تھا پھر وہ پریشان ہو جاتا کہ وہ اکیلا کیوں ہے اس کا ذہن خالی ہو جاتا اور اس کیفیت میں وہاں سے قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا گیا وہ لاشعوری طور پر چلتا جا رہا تھا یا جیسے وہ خواب میں چل رہا ہو
سورج بہت اوپر آ گیا تھا جب حسن بن صباح کو اس کی ایک آدمی نے اطلاع دی کہ امیر الموت آ رہا ہے حسن بن صباح اس کے انتظار میں تھا اسے معلوم تھا کہ مہدی علوی کس حالت میں واپس آئے گا حسن بن صباح باہر نکل آیا اور اس نے دیکھا کہ مہندی علوی چلا آ رہا ہے وہ قدم گھسیٹ رہا تھا اس کا حال ہے اس قدر بدل گیا تھا کہ حسن بن صباح کو یہ نہ بتایا جاتا کہ امیر الموت آ رہا ہے تو وہ اسے پہچان ہی نہ سکتا اس کی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی ہوتی تھی لیکن چالیس دنوں میں داڑھی لمبی اور بے ترتیب ہو گئی تھی اس کے سر کے بال بھی کندھوں تک پہنچ رہے تھے حسن بن صباح اسے اپنے مکان کی طرف آتا دیکھتا رہا حتیٰ کہ مہدی علوی حسن بن صباح کے سامنے آ رکا
پانی پلاؤ مہدی علوی نے نحیف سی آواز میں کہا بہت تھک گیا ہوں پانی پلاؤ
حسن بن صباح اسے اندر لے گیا اور اپنے کمرے میں بٹھایا اس نے ایک آدمی سے کہا کہ اسے سادہ پانی پلاؤ مہدی علوی کو سادہ پانی دیا گیا جو اس نے پی لیا
مجھے پانی پلاؤ مہدی نے ذرا جاندار آواز میں کہا
امیرالموت! حسن بن صباح نے کہا پانی تو آپ پی چکے ہیں
یہ پانی نہیں مہدی علوی نے ذرا غصیلی آواز میں کہا جو وہاں مجھے خادم پلایا کرتا تھا
حسن بن صباح سمجھتا تھا کہ یہ کون سے پانی کی طلب محسوس کر رہا ہے پھر بھی اس نے اسے شربت پلایا مہدی علوی نے شربت پی لیا
میں وہ پانی مانگ رہا ہوں مہندی علوی نے اب کے ذرا بلند آواز میں کہا
وہ دراصل اس پانی کا عادی ہو گیا تھا جو اسے چالیس روز خادم پلاتا رہا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس پانی میں حشیش ملی ہوئی ہوتی تھی وہ جو سرور محسوس کرتا تھا اسے وہ روحانی سکون سمجھتا تھا اور اس سکون کو وظیفے کی فضیلت کہتا تھا گزشتہ شام اس نے حشیش والا پانی پیا تھا وہ وظیفے کے دوران بھی رات کو یہ پانی پیا کرتا تھا خادم اچھا خاصا پانی اس کے مصلے کے پاس رکھ دیا کرتا تھا گزشتہ شام سے اگلے دن پہلے پہر تک اسے وہ پانی نہیں ملا تھا وہ نشے سے ٹوٹا ہوا تھا
آپ ہیں کون؟
حسن بن صباح نے پوچھا
میں امیر الموت ہوں! مہدی علوی نے جواب دیا میرا نام مہدی علوی ہے
اس کے بعد یوں ہوا کہ الموت کی گلیوں اور بازاروں میں ایک پاگل بلند آواز سے کہتا پھرتا تھا میں اس شہر کا امیر ہوں میں مہدی علوی ہوں بہت سے بچے اسے پتھر اور ڈھیلے مار رہے تھے اور وہ آگے آگے بھاگتا پھر رہا تھا اس آدمی کا حلیہ یہ تھا کہ سر کے بال لمبے جو کندھوں پر آئے ہوئے تھے اور کچھ بال چہرے پر گرے ہوئے تھے اس کی داڑھی لمبی تھی اور اس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے
شہر میں آسمان سے حوریں اتریں گی یہ پاگل کہہ رہا تھا میں آسمان سے خزانے لاؤں گا مجھ پر آسمان سے خزانے اتریں گے میں اس شہر کا امیر ہوں حوریں آئیگی میں تمہارا امیر ہوں
وہ اپنے گھر کی طرف گیا یہ گھر مہدی علوی کا تھا وہ جب گھر میں داخل ہونے لگا تو وہاں جو دو دربان کھڑے تھے انہوں نے اسے دھکے دے دے کر باہر نکال دیا اس کی اپنی دونوں بیویوں اور اولاد نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیا تین چار فوجی آ گئے انہوں نے اس پاگل کو پکڑ لیا اور اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں لے گئے سارا شہر امڈ کر اس میدان میں اکٹھا ہو گیا فوج کا ایک دستہ وہاں آ گیا سپہ سالار اس کے ساتھ تھا یہ پاگل مہدی علوی ہی تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ وہی اس شہر کا امیر تھا لیکن وہ پاگل ہو چکا تھا اور لوگ مانتے ہی نہیں تھے کہ یہ مہندی علوی ہے سپہ سالار اسے بازو سے پکڑ کر ایک ذرا بلند جگہ پر لے گیا جہاں لوگ اسے اچھی طرح دیکھ سکتے تھے
الموت کے لوگوں سپہ سالار نے اعلان کیا یہ شخص پاگل ہے اور سارے شہر میں بدامنی پھیلا رہا ہے
کیا آپ اسے امیر شہر تسلیم کریں گے؟
لوگوں کے ہجوم نے اسے امیر شہر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اگر یہ واقعی مہدی علوی ہے سپہ سالار نے کہا تو بھی اسے ہم امیر شہر نہیں مانیں گے کیونکہ یہ پاگل ہو چکا ہے
تاریخوں میں آیا ہے کہ لوگ مخالفت کرتے یا حمایت پوری کی پوری فوج نے اس پاگل کو امیر تسلیم کرنے سے انکار کردیا یہ پوری کی پوری فوج حسن بن صباح کی بنائی ہوئی تھی اور اس میں اس نے اپنے مریدوں کو بھرتی کیا تھا اور انھیں ذہن نشین کرایا تھا کہ اس شہر پر قبضہ کرنا ہے
سپہ سالار نے لوگوں سے کہا کہ اس اتنے بڑے شہر کے دفاع کے لیے فوج تھی ہی نہیں ہم نے لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے فوج بنائی ہے اور اس کے اخراجات امام حسن بن صباح پورے کر رہے ہیں سپہ سالار نے اعلان کیا کہ یہ فوج کا فیصلہ ہے کہ امام حسن بن صباح کو امیر شہر بنایا جائے
اس وقت تک بے شمار لوگ حسن بن صباح کے مرید بن چکے تھے انہوں نے بیک زبان کہا کہ امیر شہر حسن بن صباح کو بنایا جائے اس طرح حسن بن صباح الموت کا امیر بن گیا اس نے مہدی علوی کی دونوں بیویوں اور اس کی اولاد کا باقاعدہ وظیفہ مقرر کروادیا
مہدی علوی کو خوش و خرم فتح کے نشے سے سرشار خیمے سے نکلنا چاہیے تھا کہ اس نے چالیس راتوں کا چلّہ کامیابی سے کاٹ لیا تھا شہر میں آ کر وہ حسن بن صباح سے کہتا کہ اب مجھے اس کے نتائج دکھاؤ لیکن وہ خیمے سے پاگل ہو کر نکلا
مزمل آفندی کو قید خانے میں بند کر دیا گیا تھا اسے چالیس دنوں کے بعد قید خانے سے رہا کردیا گیا اسے پاگل ہو کر نکلنا چاہیے تھا لیکن وہ جب قید خانے سے نکلا تو اس کی گردن تنی ہوئی تھی اور اس کی چال ڈھال ایسی تھی جیسے اس شہر کا امیر وہی ہو اور جو کوئی اس کے راستے میں آئے گا اسے وہ قتل کر دے گا وہ قید خانے سے نکل کر سیدھا حسن بن صباح کے پاس پہنچا حسن بن صباح نے اس کا پرتپاک استقبال کیا
آگئے مزمل! حسن بن صباح نے اس سے دوستوں کی طرح پوچھا اب کیا کرو گے
میرے کرنے کا ایک ہی کام ہے مزمل آفندی نے بڑی دلیری اور جرات مندی سے جواب دیا مرو جاؤں گا اور نظام الملک کو قتل کروں گا
کب جاؤ گے ؟
جب آپ حکم دیں گے مزمل نے کہا کہیں تو میں آج ہی روانہ ہو جاتا ہوں چند دنوں میں نظام الملک کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھوں گا
حسن بن صباح نے اسے اپنے پاس بٹھائے رکھا اور اسے اپنے ہاتھوں سے شراب پیش کی اس رات مزمل نے کھانا بھی حسن بن صباح کے ساتھ کھایا
اگلی صبح اسے ایک نہایت اعلی نسل کا گھوڑا دیا گیا وہ گھوڑے پر سوار ہوا حسن بن صباح نے باہر آ کر اسے رخصت کیا مزمل گھوڑے پر یوں تن کے بیٹھا ہوا تھا جیسے یہ سارا علاقہ دور دور تک اس کی سلطنت ہو اور وہ اس کا سلطان ہو اس کی کمر کے ساتھ ایک تلوار لٹک رہی تھی اور اس کے پاس بڑا ہی خوبصورت خنجر بھی تھا وہ سلجوقیوں کے دارالسلطنت مرو جا رہا تھا
اس عرصے میں سلطان ملک شاہ اور نظام الملک اگر مزمل آفندی کو بھول نہیں گئے تھے تو انہوں نے اسے یاد بھی نہیں رکھا تھا انہیں احمد اوزال نے یقین دلا دیا تھا کہ مزمل قتل ہو چکا ہے اور اب اس کی واپسی کی امیدیں دل سے نکال دی جائیں
وہ اگر زندہ تھا تو شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کے دلوں میں زندہ تھا داستان گو پہلے تفصیل سے سنا چکا ہے کہ شمونہ مزمل آفندی پر دل و جان سے قربان ہو رہی تھی یہ محبت جذباتی تو تھی ہی لیکن دونوں کا جذبہ بھی مشترک تھا دونوں حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عزم لیے ہوئے تھے شمونہ اور مزمل کی محبت میں رومان کی چاشنی تو تھی ہی لیکن عزم کی گرمی زیادہ تھی
مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے روانہ ہو گیا اب شمونہ کے کانوں میں ایک ہی آواز گونجتی تھی کہ مزمل باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہے مزمل کو گئے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا تھا جب احمد اوزال خلجان سے بھاگ کر مرو آیا تھا تو اس نے یہ خبر سنائی تھی کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کے جال میں آ گیا ہے اور اب تک وہ قتل ہو چکا ہوگا سلطان ملک شاہ اور نظام الملک نے تو فوراً مان لیا تھا کہ اوزال جو کچھ کہہ رہا ہے وہی ہوا ہوگا لیکن شمونہ نہیں مانتی تھی وہ کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ احمد اوذال کے پیچھے پڑ گئی تھی کہ وہ واپس جائے اور مزمل کو ڈھونڈ کر لائے احمد اوذال جانتا تھا کہ یہ حسین لڑکی جذبات کی رو میں بہی جا رہی ہے اور یہ حقیقت کو قبول نہیں کر رہی احمد اوزال نے اسے یقین دلانے کی بہت کوشش کر ڈالی تھی کہ مزمل اس دنیا سے اٹھ گیا ہے لیکن شمونہ چیخ چیخ کر کہتی تھی کہ مزمل مر نہیں سکتا وہ حسن بن صباح کو مار کر مرے گا یہ الفاظ اس کی زبان پر چڑھ گئے تھے کہ حسن بن صباح زندہ ہے تو میرا مزمل بھی زندہ ہوگا
شمونہ اپنی ماں کو ساتھ لے کر سلطان ملک شاہ کے پاس گئی تھی اور رو رو کر اس نے سلطان کی منتیں کیں تھیں کہ وہ دو تین آدمیوں کو خلجان اور الموت بھیجے جو مزمل کو ڈھونڈ کر واپس لے آئیں سلطان نے اسے بڑے پیار سے اور ہمدردی سے سمجھایا تھا کہ مزمل کے زندہ نکل آنے کی کوئی صورت ہے ہی نہیں پھر وہ نظام الملک کے پاس گئی تھی نظام الملک نے بھی اسے وہی جواب دیا تھا جو سلطان ملک شاہ دے چکا تھا
شمونہ احمد اوزال کے لئے مصیبت بن گئی تھی احمد اوزال نے اسے ہر بار یہی کہا تھا کہ وہ خلجان اور الموت جانے سے نہیں ڈرتا لیکن وہاں اسے حسن بن صباح اور اس کے خفیہ آدمی بڑی اچھی طرح سے پہچانتے ہیں اور وہ اس خفیہ گروہ کے دو آدمی قتل کر کے بھاگا ہے وہ فورا پکڑا جائے گا اور فورا ہی اسے قتل کردیا جائے گا
میں خود وہاں چلی جاؤں شمونہ نے کئی بار کہا تھا لیکن حسن بن صباح کے ساتھ میں رہی ہوں بہت سارے لوگ وہاں مجھے پہچانتے ہیں حسن بن صباح پہلے ہی مجھے قتل کرنے کا حکم دے چکا ہے وہ تو مجھے دیکھتے ہی مار ڈالے گا وہ نہ دیکھ سکا تو اس کا کوئی بھی آدمی مجھے پہچان لے گا اور مجھے پکڑ لے گا اور حسن بن صباح کے حوالے کر دے گا
سلطان ملک شاہ نے شمونہ اور اس کی ماں کو مرو میں ایک بڑا اچھا مقام دے دیا تھا جس میں ماں بیٹی اکیلی رہتی تھیں سلطان نے ان کے لیے وظیفہ بھی مقرر کر دیا تھا سلطان اور نظام الملک کے بعد احمد اوزال سے مایوس ہوکر شمونہ نے ماں کو پریشان کرنا شروع کر دیا تھا ماں نے کئی بار اسے ڈانٹ دیا اور کہا کہ وہ اپنے دماغ کو اپنے قابو میں رکھے ورنہ وہ پاگل ہوجائے گی وہ مزمل کو بھولتی ہی نہیں تھی اور یہ مانتی ہی نہیں تھی کہ مزمل قتل ہوچکا ہے اس کا یہ روز مرہ کا معمول بن گیا تھا کہ صبح چھت پر چلی جاتی اور اس راستے کو دیکھتی رہتی تھی جو خلجان سے مرو کو آتا تھا دن میں کئی بار اس طرف آنے والی پگڈنڈی کو دیکھنا شروع کر دیتی تھی کئی بار ماں چھت پر جا کر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لائی اور اسے ڈانٹا لیکن شمونہ ایک ہی بات کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ واپس آئے گا
وہ گھوڑ سواری کی شوقین تھی کبھی کبھی وہ سلطان کے اصطبل سے گھوڑا منگوا لیتی اور شہر سے باہر نکل جایا کرتی تھی گھوڑے کو کچھ دیر دوڑاتی اور گھر آ جایا کرتی تھی ایک روز اس نے ماں سے کہا کہ اسے گھوڑا منگوادے وہ باہر جانا چاہتی ہے
شمونہ! ماں نے کہا اب میں تمہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی تمہارا دماغ دن بدن بیکار ہوتا چلا جا رہا ہے مجھے ڈر ہے کہ باہر جاکر خلجان کا رخ کر لوں گی
نہیں ماں! شمونہ نے کہا میں پہلے بتا چکی ہوں کہ میں مزمل کی تلاش میں باطنیوں کے علاقے میں نہیں جا سکتی میں پہلے نہیں گئی تو اب بھی نہیں جاؤں گی گھر میرا دم گھٹتا ہے مجھے ذرا کھلی ہوا میں گھومنے پھرنے کے لیے جانے دیں
ماں نے اسے گھوڑا منگوا دیا اور وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور باہر نکل گئی اس کی ماں بھی چاہتی تھی کہ یہ لڑکی اسی طرح گھوم پھر کر دل بہلائے رکھے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تو پاگل ہوئی جا رہی تھی مرو کے اردگرد بہت ہی دلفریب مناظر تھے ندی بھی قریب سے گزرتی تھی اور ایک جگہ سے چشمہ پھوٹتا تھا لوگ سیر و تفریح کے لیے وہاں جایا کرتے تھے لیکن شمونہ کو سیر کے لیے وہی پگڈنڈی اچھی لگتی تھی جو خلجان سے آتی تھی اس روز بھی وہ گھوڑے پر سوار ہوئی شہر سے نکلی اور گھوڑا اسی پگڈنڈی پر ڈال دیا یہ اس کا معمول تھا اس پگڈنڈی پر جاکر وہ گھوڑے کو ایڑ لگاتی گھوڑا سر پٹ دوڑتا اور شمونہ کوئی ڈیڑھ کوس جا کر گھوڑا روک لیتی اور وہاں سے واپس آ جاتی اس روز بھی وہ اسی پگڈنڈی پر چلی گئی اس نے اپنے معمول کے مطابق گھوڑا سرپٹ دوڑایا سامنے سے ایک گھوڑا سوار چلا آ رہا تھا
شمونہ اس کے قریب سے گزری تو اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا
شمونہ! گھوڑے کے قدموں کے بے ہنگم شور اور ہوا کی شائیں شائیں آواز سنائی دی پکارنے والا کوئی آدمی تھا
شمونہ نے گھوڑا روک لیا اور پیچھے کو موڑا وہ گھوڑ سوار جو اس کے قریب سے گزرا تھا اس نے بھی گھوڑا موڑ لیا اور اس کی طرف بڑی تیزی سے آرہا تھا دونوں گھوڑے قریب آئے اور سواروں نے ایک دوسرے کو دیکھا مزمل! شمونہ کے منہ سے تو جیسے چیخ نکل گئی ہو
شمونہ کود کر گھوڑے سے اتری وہ مزمل آفندی ہی تھا بلا شک و شبہ وہ مزمل ہی تھا نظر کا دھوکہ نہیں تھا اور یہ خواب بھی نہیں تھا
شمونہ بازو پھیلا کر مزمل کی طرف دوڑی اور مزمل اسی کی طرح بازو پھیلا کر اس طرف آیا پھر دونوں ایک دوسرے کے بازوؤں میں جکڑے گئے جیسے دو جسم ایک ہوگئے ہوں
میں ہر روز کہتی تھی کہ میرا مزمل زندہ ہے شمونہ یہی الفاظ کہے جا رہی تھی
شمونہ کی جذباتی کیفیت اور بے تابی کا یہ عالم تھا جیسے ماں کو اس کا کھویا ہوا بچہ مل گیا ہو وہ مزمل کو اپنے بازوؤں میں سے نکلنے ہی نہیں دے رہی تھی بچھڑے ہوئے دو دلوں کو اس بے تابی اور دیوانگی سے ملتا ہوا دیکھ کر سورج افق کے پیچھے چھپ گیا اور ان پر شام کا پردہ ڈال دیا رات شمونہ مزمل کو اپنے گھر لے گئی مزمل کو اسی گھر میں آنا تھا
شمونہ کی ماں میمونہ نے بھی مزمل کو دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا
میں ابھی وزیراعظم نظام الملک کو اطلاع دیتی ہوں میمونہ نے کہا وہ سن کر بہت خوش ہوں گے کہ مزمل واپس آ گیا ہے یہاں تو سب یقین کیے بیٹھے تھے کہ تم قتل ہوچکے ہو
نہیں! مزمل نے کہا اسے کوئی اطلاع نہیں دے گا میں خود اس کے پاس جاؤنگا
میمونہ نے مزمل اور شمونہ کو تنہا بیٹھنے کے لئے یوں کیا کہ نیند کا بہانہ کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی شمونہ یہی چاہتی تھی وہ مزمل کو اپنے کمرے میں لے گئی اور دروازہ بند کر لیا وہ مزمل سے سننا چاہتی تھی کہ خلجان میں اس پر کیا بیتی ہے وہ محسوس کر رہی تھی کہ مزمل ذرا رک رک کر اور کچھ سوچ سوچ کر بات کرتا ہے
سلطان اور وزیراعظم نظام الملک کہتے تھے کہ مزمل باطنیو کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے شمونہ نے کہا میں کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ واپس آئے گا یہ لوگ نہیں مانتے تھے احمد اوزال بھی یہی کہتا تھا
نظام الملک چاہتا ہی یہی تھا کہ میں قتل ہو جاؤ مزمل نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا اب دیکھنا کون کس کے ہاتھوں قتل ہو گا
کیا کہہ رہے ہو شمونہ نے کہا میں محسوس کر رہی ہو کہ وہاں تم پر بہت بری گزری ہے جس کا تمہارے دماغ پر بہت برا اثر معلوم ہوتا ہے کس کے قتل کی بات کر رہے ہو؟
بہت بری نہیں شمونہ! مزمل نے کہا مجھ پر بہت اچھی گزری ہے میری تو آنکھیں کھل گئیں ہیں اور میرا دماغ روشن ہوگیا ہے میں حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا وہاں جا کر مجھ پر یہ راز کھلا کہ میں نے حسن بن صباح کو نہیں بلکہ کسی اور کو قتل کرنا ہے میں نے بہت سوچا لیکن یہ راز مجھ پر نہیں کھل رہا تھا کہ وہ کون ہے جس نے میرے ہاتھوں قتل ہونا ہے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ میں نے کسی کو قتل ضرور کرنا ہے کچھ دنوں بعد یہ راز کھل گیا آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا جس کا خون میرے ہاتھوں پر لکھا ہوا ہے
کون ہے وہ ؟
شمونہ نے گھبرا کر پوچھا
نظام الملک! مزمل نے کہا
مزمل! شمونہ نے اسکے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پوچھا کیا کہہ رہے ہو کیا تم نظام الملک کو قتل کرو گے؟
شمونہ! مزمل نے شمونہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اور اسے اپنے قریب کر کے کہا اندازہ کرو کہ تمہاری محبت میرے دل اور روح میں کتنی گہری اتری ہوئی ہے کہ میں تمہیں ایک ایسا راز بتانے لگا ہوں جو مجھے کسی کو بھی نہیں بتا دینا چاہیے تھا میں تمہارے بغیر ایک قدم چل نہیں سکتا میں کسی اور ارادے سے خلجان گیا تھا لیکن اب میں کسی اور ارادے سے یہاں آیا ہوں
کھل کر بات کرو مزمل! شمونہ نے کہا میں نے اپنی جان تمہارے لیے وقف کر رکھی ہے یہ راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھوں گی میں تم سے یہ سننا چاہتی ہوں کہ تم پر وہاں کیا گزری ہے؟
وہاں مجھ پر جو گزری ہے وہ اچھی گذری ہے مزمل نے بڑے سنجیدہ اور کچھ طنزیہ سے لہجے میں کہا بلکہ بہت اچھی گذری ہے وہاں تک تو میں اندھیرے میں پہنچا تھا یہ مجھے وہاں جا کر پتہ چلا کہ میری روح اب تک بھٹکتی رہی ہے وہاں میری روح کو روشنی ملی پھر مجھے پتا چلا اور میں نے صاف دیکھا کہ دوست کون اور دشمن کون ہے میرے خیالات اور میرے عقیدے بدل گئے اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی تو وہ یہ تھی کہ مجھے شمونہ سے محبت ہے اور میرا دل اس تبدیلی کو بھی قبول نہیں کرے گا کہ میرا دل شمونہ کی محبت کو نکال دے
شمونہ مزمل کی باتیں تو غور سے سن رہی تھی مگر وہ زیادہ غور ان تاثرات پر کر رہی تھی جو مزمل کے چہرے پر آ اور جا رہے تھے اس نے ایسے تاثرات مزمل کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھے تھے
راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھوں گی مزمل! شمونہ نے کہا میرے جسم سے جان نکل سکتی ہے یہ راز نہیں نکلے گا لیکن یہ تو بتاؤ گے تم نظام الملک جیسے عظیم آدمی کو کیوں قتل کرو گے؟
عظیم انسان! مزمل نے کہا عظیم نظام الملک نہیں حسن بن صباح عظیم ہے میں اسے قتل کرنے چل پڑا تھا لیکن وہاں جاکر میں نے محسوس کیا کہ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اس عظیم شخصیت کے پاس آنے کا ایک بہانہ مل گیا
شمونہ لرز کر رہ گئی لیکن اس نے اپنے رد عمل کا اظہار نہ کیا نہ مزمل کو پتہ چلنے دیا کہ اس کا رد عمل کس قدر شدید ہے جسے برداشت کرنا اس کے لئے محال ہے
ایک بات بتاؤ مزمل! شمونہ نے پوچھا نظام الملک کو کب قتل کرو گے میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ تم جلد بازی نہ کر بیٹھو تم نے مجھے کہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ دوں اگر تمہیں مجھ پر اعتماد ہے تو یہ کام مجھ پر چھوڑ دو میں موقع پیدا کرو گی اور تم اپنا کام کر گزرنا لیکن میں موقع ایسا پیدا کرو گی کہ تم اسے بھی قتل کر دو اور پکڑے بھی نہ جاؤ
ہاں شمونہ! مزمل نے کہا مجھے تم پر اعتماد ہے اور مجھے تم سے یہی امید تھی کہ تم میرے اس کام میں میری مدد کرو گی تم موقع پیدا کرو
مزمل آفندی بڑے لمبے سفر سے آیا تھا اس لئے تھکا ہوا تھا باتیں کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی شمونہ اٹھی کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور اپنی ماں کے پاس چلی گئی اس نے اپنی ماں کو کچھ بھی نہ بتایا
شمونہ ساری رات سو نہ سکی وہ سمجھ گئی تھی کہ مزمل کو باطنیوں نے پکڑ لیا تھا لیکن قتل کرنے کی بجائے انہوں نے یہ بہتر سمجھا کہ اسے قاتل ہی رہنے دیا جائے لیکن وہ قتل کسی اور کو کرے شمونہ حسن بن صباح کے ساتھ رہ چکی تھی وہ حسن بن صباح کے منظور نظر داشتہ تھی وہ قدرتی طور پر غیر معمولی ذہانت کی تھی اس نے حسن بن صباح سے کئی ایک راز لیے تھے اور حسن بن صباح اسے راز دے بھی دیتا تھا کیونکہ وہ شمونہ کے حسن و جوانی کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا تھا خود شمونہ اپنے حسن کو بڑی خوبی اور کامیابی سے استعمال کرتی تھی وہ جانتی تھی کہ حسن بن صباح کے پاس ایسے حربے اور طریقے ہیں کہ وہ پتھر کو بھی موم کر لیتے ہیں وہ کسی بھی شخص کو ایک خاص عمل میں سے گزار کر اس کی سوچ اس کے ارادے اور اس کے عقیدے یکسر بدل دیتے ہیں اس کے سامنے دو آدمیوں پر یہ عمل کیا گیا تھا یہ کوئی جادو یا روحانی عمل نہیں تھا بلکہ یہ ایک نفسیاتی طریقہ کار تھا شمونہ جان گئی کہ مزمل کا جسم اور اس کا نام نہیں بدل نہ جا سکا اس کے کردار کو اور اس کے عقیدے کو اور اس کے ارادوں کو بالکل الٹ کر دیا گیا ہے مہینہ ڈیڑھ مہینہ اس عمل کے لیے خاصا عرصہ تھا اسے نظام الملک کے قتل کے لیے واپس بھیجا گیا ہے اور یہ شخص عزم لے کر آیا ہے کہ نظام الملک کو قتل کرنا ہے
اگلی صبح مزمل آفندی اٹھا شمونہ خود ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں گئی اور دونوں نے اکٹھے ناشتہ کیا
اب میری بات سنو مزمل! شمونہ نے کہا میں نے اپنی ماں کو یہ بات نہیں بتائی اور تم بھی نہ بتانا نظام الملک سے ملے ہوئے مجھے کچھ دن گزر گئے ہیں میں ابھی اس کے پاس جا رہی ہوں اور کچھ جذباتی سی باتیں کرو گی کہ میں اسے صرف ملنے آئی ہوں میں اسے اسی طرح دو تین مرتبہ ملو گی اور مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے جذبات میں الجھا لوں گی اور پھر میں ایک دن اسے باہر لے جاؤں گی تمہیں پہلے بتا دوں گی تم نے کوئی اوجھی اور الٹی سیدھی حرکت نہیں کرنی میرے آخری اشارے کا انتظار کرنا ہے
مزمل آفندی کے چہرے پر سکون اور اطمینان کا تاثر آگیا
مجھے تم سے یہی امید تھی شمونہ! مزمل نے شمونہ کو اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لے کر کہا تم تصور میں نہیں لا سکتی کہ میں یہ کام کر چکا تو تمہیں کس جنت میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا تم موقع پیدا کرو میں تمہارے آخری اشارے کا انتظار کروں گا
شمونہ کو بہت دکھ ہوا کہ مزمل جیسا پیارا اور جذبے والا آدمی اور دین اسلام پر اپنا آپ بھی قربان کرنے والا یہ خوبرو جوان کس طرح ضائع ہوگیا ہے اس نے مزمل پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ اسے کتنا دکھ پہنچا ہے اس نے اپنے ہونٹوں پر بڑی ہی جاں فضا مسکراہٹ قائم رکھی وہ ناشتے کے بعد کمرے سے نکل آئی ماں سے کہا کہ وہ برتن اٹھا لے اور وہ خود گھر سے نکل گئی وہ نظام الملک سے ملنے جا رہی تھی
نظام الملک گھر ہی مل گیا وہ ابھی ابھی ناشتے سے فارغ ہوا تھا اسے اطلاع ملی کہ شمونہ آئی ہے تو اس نے اسے بلا لیا اور سوچا کہ یہ لڑکی آج پھر ضد کرنے آئی ہے کہ دو تین آدمیوں کو خلجان اور الموت بھیجو جو مزمل کو ڈھونڈ لائیں اس نے شمونہ کو اسی خیال سے بلا لیا تھا کہ اسے بہلائے پھسلائے گا اور اس کے دل سے مزمل کو نکالنے کی کوشش کرے گا
آؤ شمونہ! نظام الملک نے کہا بیٹھو آج شاید تمہیں پھر مزمل یاد آ رہا ہے یا خواب میں آیا ہوگا
نہیں محترم! شمونہ نے کہا وہ خواب میں نہیں آیا بلکہ وہ حقیقت میں آگیا ہے کل شام زندہ وسلامت میرے پاس پہنچ گیا ہے
کیا تمہارا دماغ حاضر ہے شمونہ! نظام الملک نے اس طرح کہا جیسے اسے شک ہوا ہو کہ یہ لڑکی دماغی توازن کھو بیٹھی ہے وہ میرے پاس کیوں نہیں آیا ؟
کیا وہ کچھ بتاتا ہے کہ اس پر کیا بیتی ہے؟
محترم! شمونہ نے کہا میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ وہ میرے پاس آ گیا تھا کہیں وہ سیدھا آپ کے پاس نہ پہنچ گیا ورنہ بات کچھ اور بن جاتی
کیا کہہ رہی ہو! نظام الملک نے پوچھا کیا بات بن جاتی؟
معلوم ہوتا ہے تم ذہنی طور پر بہت پریشان ہو
ہاں محترم! شمونہ نے کہا میں ساری رات سوئی نہیں میں تمہید باندھے بغیر یہ بتانے آئی ہوں کہ آپ نے جس کو حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا وہ آپ کو قتل کرنے کے لئے واپس آیا ہے
مجھے حیران نہیں ہونا چاہیے نظام الملک نے کہا مجھے معلوم ہے کہ حسن بن صباح کے پاس ایسا جادو ہے جو مزمل جیسے جوانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے مزمل پر بھی یہی جادو چل گیا ہوگا
محترم! شمونہ نے کہا آپ نے تو صرف سنا ہے کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی ایسا جادو ہے میں نے اپنی آنکھوں سے یہ جادو چلتا دیکھا ہے یہ میں آپ کو تفصیل سے بتاؤ گی لیکن فوری طور پر یہ سوچیں کہ مزمل کا کیا کیا جائے اسے اس طرح آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا میں اسے محبت کی زنجیروں میں باندھ کر رکھ سکتی ہوں لیکن یہ زنجیریں کسی وقت کچی بھی ثابت ہوسکتی ہیں کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی وقت وہ آپ پر قاتلانہ حملہ کردے؟
میں ڈرتی ہوں ایسا ہو جائے گا آپ دانش مند ہیں میں آپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ایک مشورہ ہے اگر آپ کو اچھا لگے تو مزمل کو قید خانے میں بند کر دیں
نہیں شمونہ! نظام الملک جو عقل و دانش کے لیے مشہور تھا بولا میں اتنا خوبصورت جوان اور اتنا جذبہ والا جوان ضائع نہیں کروں گا اسے کچھ دنوں کے لیے آزاد رکھنا پڑے گا لیکن میں اس کے لیے ایک جواز پیدا کروں گا جس طرح اسے حسن بن صباح نے اپنے مقاصد کے لیے حربہ اور آلہ کار بنایا ہے اسی طرح میں اسے واپس لاؤں گا اور اسے ویسا ہی مرد مومن بناؤں گا جیسا یہ تھا اندازہ کرو شمونہ اس نے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو دل سے اتار دیا تھا اور یہ ایک عزم لیے ہوئے تھا کہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ حسن بن صباح کو ایک انسان سمجھ کر قتل نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ ایک باطل نظریے اور ابلیسیت کا گلا کاٹنا چاہتا تھا میں اسے صراط مستقیم پر لے آؤں گا لیکن اس کے لئے ہمیں ایک کھیل کھیلنا پڑے گا میں اپنے آپ کو خطرے میں ڈالوں گا
اگر اس کھیل میں میں نے کچھ کرنا ہے تو مجھے بتا دیں شمونہ نے کہا
تمہارے ذمے ایک کام ہے نظام الملک نے کہا آج شام اسے میرے پاس بھیج دو اسے کہنا کہ میں فلاں کمرے میں اکیلا ہوں گا اسے یقین دلانا کے نظام الملک کو قتل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے قتل کرنے کا طریقہ یہ بتانا کے نظام الملک پیٹھ پھیرے تو خنجر نظام الملک کی پیٹھ میں اتار دینا باقی میں سنبھال لوں گا
نہیں محترم وزیراعظم! شمونہ نے کہا میں ڈرتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کھیل ہی کھیل میں خنجر آپ کے دل میں اتر جائے تم اسے بھیج دینا نظام الملک نے کہا میں چوکنّا رہوں گا تم جاؤ شمونہ واپس آئی اور اس نے مزمل کو ویسے ہی بتایا جیسے نظام الملک نے اسے بتایا تھا شمونہ نے مزمل سے کہا کہ آج موقع ہے یہ کام آج ہی کر گزرو
نظام الملک نے شمونہ کو وہ کمرہ دکھا دیا تھا وہ کمرہ ایسا تھا جس کا تعلق اتنے بڑے مکان کے دوسرے کمروں کے ساتھ نہیں تھا نظام الملک صرف اس وقت اس کمرے میں بیٹھا کرتا تھا جب اسے کسی پیچیدہ مسئلے پر غور کرنا ہوتا تھا کوئی بھی اس کے کام میں مخل نہیں ہو سکتا تھا
شام کو مزمل آفندی اپنے کپڑوں کے اندر خنجر چھپائے نظام الملک کے یہاں چلا گیا دروازے پر کوئی دربان نہیں تھا یہ بھی اس کھیل کا ایک حصہ تھا کہ دربان ہٹا دیے گئے تھے شمونہ نے مزمل کو وہ خاص کمرہ اچھی طرح سمجھا دیا تھا مزمل اس گھر میں زخمی حالت میں رہ بھی چکا تھا پھر اس گھر میں وہ صحت یاب ہوا تھا اس لیے وہ اتنی بڑی حویلی سے واقف تھا وہ اس کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا اور دستک دی نظام الملک نے خود اٹھ کر دروازہ کھولا باہر مزمل کھڑا تھا نظام الملک نے اسے گلے لگالیا اور خوشی کا اظہار کیا کہ وہ زندہ واپس آ گیا ہے اسے کمرے میں لے جا کر اشارہ کیا کہ یہاں بیٹھ جاؤ
نظام الملک نے اس کی طرف پیٹھ کی اور دو تین قدم آگے کو چلا اسے معلوم تھا کہ اب کیا ہوگا مزمل جو ابھی بیٹھ ہی رہا تھا تیزی سے کھڑا ہو گیا اور اسی تیزی سے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور نظام الملک کی پیٹھ پر مارنے کے لیے اس نے ہاتھ اوپر اٹھایا جب اس کا ہاتھ خنجر مارنے کے لئے آگے ہوا تو اسی تیزی سے نظام الملک پیچھے کو مڑا اور اس نے خنجر والے ہاتھ کی کلائی اپنے ہاتھ پر روک لی اور اس کلائی کو مضبوط سے پکڑ لیا اس کو اس نے زور سے جھٹکا دیا تو مزمل اس کے جسم کے ساتھ لگ گیا نظام الملک نے نیچے سے اپنا گھٹنا اوپر کو مارا جو مزمل کے پیٹ میں لگا مزمل درد کی شدّت سے دوہرا ہو گیا نظام الملک نے اس کی کلائی دونوں ہاتھوں سے مروڑی مزمل اس طرف گھوما نظام الملک نے ایسا داؤ چلا کہ مزمل پیٹھ کے بل فرش پر گرا اور اس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا نظام الملک نے اپنا پاؤں گرے ہوئے مزمل کی شہ رگ پر رکھ کر پورے جسم کا زور ڈالا مزمل تڑپنے لگا
نظام الملک نے ایک آواز کا اشارہ مقرر کر دیا تھا جو اس نے دیا اس کے دونوں دربان دوڑے آئے اور آگے یہ منظر دیکھا خنجر فرش پر پڑا تھا اور مزمل نظام الملک کے پاؤں کے نیچے تھا دربانوں نے مزمل کو پکڑ لیا
لے جاؤ نظام الملک نے کہا قید خانے میں بند کر دو میں اسے کل دیکھوں گا
دربانوں نے مزمل کو پکڑ لیا ہاتھ باندھ دیے اور اسے لے گئے
نظام الملک بوڑھا آدمی تھا اس میں اگر طاقت تھی تو وہ عقل و دانش کی اور ایمان کی طاقت تھی وہ مزمل جیسے گٹھے ہوئے جوان آدمی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھا لیکن اس کی روحانی قوت بیدار تھی پھر وہ صرف عالم دین ہی نہ تھا وہ سالار بھی تھا تیغ زنی اور تیر اندازی میں مہارت رکھتا تھا اس نے اسی روز سلطان ملک شاہ کو یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ وہ مزمل کو واپس اپنی طرف لے آئے گا
سلطان مکرم! نظام الملک نے کہا اب ہمیں الموت پر فوج کشی کرنی پڑے گی اس باطل کو فوجی طاقت سے ہی کچلا جا سکتا ہے حملہ آور فوج کا سپہ سالار میں خود ہوں گا آپ کی اجازت چاہیے ہاں خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا آپکو اجازت ہے…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:27 }
مزمل آفندی کو جب گھسیٹتے دھکیلتے ہوئے قید خانے میں لے گئے اور اسے ایک کوٹھری میں بند کر دیا تو اس نے سلاخوں کو پکڑ کر زور زور سے ہلانا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا
تم مجھے قبر میں دفن کر دو تو بھی اس شخص کو قتل کرنے کے لیے نکل آؤں گا مزمل یہی الفاظ دہرائے چلا جا رہا تھا
نظام الملک نے جب حکم دیا تھا کہ مزمل آفندی کو قید خانے میں ڈال دو تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ میں اسے کل دیکھوں گا اگلے روز اس نے قید خانے میں جانے کا ارادہ کیا تو اسے خیال آگیا کہ پہلے معلوم کر لیا جائے مزمل کس حال میں ہے اور اس کا رد عمل اور رویہ کیا ہے نظام الملک نے قید خانے میں ایک آدمی کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ معلوم کرکے آئے کہ مزمل کس حال میں ہے
کچھ وقت بعد اسے بتایا گیا کہ مزمل رات بھر جاگتا چیختا اور چلاتا رہا ہے اور اب بھی وہ اسی کیفیت میں ہے
کیا کہتا ہے؟
نظام الملک نے پوچھا
کہتا ہے میں نظام الملک کو قتل کرکے مرونگا قید خانے سے آنے والے آدمی نے جواب دیا
نظام الملک کو شمونہ نے تفصیل سے بتایا تھا کہ حسن بن صباح کے یہاں کس طرح لوگوں کے دماغوں اور دلوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے سانچے میں ڈھال لیا جاتا ہے اور کس طرح انھیں قاتل بنایا جاتا ہے نظام الملک نے اپنے ایک خاص معتمد کو بلایا اور اسے سرگوشیوں میں کچھ اشارہ دے کر بھیج دیا اس شخص کے جانے کے بعد نظام الملک نے اپنے ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ طبیب نجم کو اپنے ساتھ لے آئے جس طبیب کو نظام الملک نے بلایا تھا اس کا پورا نام نجم بن انجم مدنی تھا وہ ضعیف العمر آدمی تھا مرو میں ہی نہیں اور سلطنت سلجوقی میں ہی نہیں بلکہ دوسری بادشاہیوں اور دور دور کے علاقوں میں بھی اس کی شہرت تھی اسے سلجوقی سلطان کچھ ایسے اچھے لگے کہ وہ یہیں کا ہو کے رہ گیا تھا وہ اسلام کا اور رسول اکرمﷺ کا شیدائی تھا وہ اتنا ضعیف ہو چکا تھا کہ اب کم ہی کبھی باہر نکلتا تھا اور عام قسم کی بیماریوں کے مریضوں کو دیکھنے کا اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا اور نہ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی لیکن وہ آرام بھی نہیں کرتا تھا کیمیاء گری اور تجربات میں لگا رہتا تھا
اسے جونہی نظام الملک کا پیغام ملا وہ سواری پر بیٹھا اور نظام الملک کے پاس پہنچ گیا نظام الملک کو اطلاع ملی کے طبیب نجم مدنی کی سواری آئی ہے تو وہ باہر کو دوڑ پڑا اور طبیب کا استقبال اس طرح کیا جس طرح اس نے سلطان ملک شاہ کا کبھی نہیں کیا تھا
محترم طبیب! نظام الملک نے کہا مجھے خود آپ کے پاس آنا چاہیے تھا میں آپ کو زحمت نہ دیتا
وزیراعظم! طبیب نجم مدنی نے اس کی بات کاٹ کر کہا کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ نے مجھے جس مقصد کے لیے بلایا ہے وہ بیان کر دیں؟
نظام الملک نے طبیب کو مزمل آفندی کے متعلق بتانا شروع کردیا اس نے تفصیل سے بتایا کہ مزمل اس کے پاس کس جذبے سے اور کس طرح یہاں پہنچا تھا اور پھر اس نے ایک جنگ میں کیا کارنامہ سر انجام دیا تھا اور پھر اس نے طبیب کو تفصیل سے بتایا کہ مزمل آفندی نے اپنے جینے کا یہی ایک مقصد بنا لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا پھر اس نے طبیب کو بتایا کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کے قتل کے ارادے سے چلا گیا لیکن چالیس بیالیس روز بعد واپس آیا تو اس کی شکل و صورت اور چال ڈھال تو وہی تھی لیکن وہ بالکل ہی بدل گیا تھا
اس نے آتے ہی مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا نظام الملک نے کہا یہ تو مجھے قبل از وقت معلوم ہو گیا تھا کہ وہ مجھے قتل کرے گا اس لئے میں بچ گیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے یہ موقع میں نے خود فراہم کیا تھا کہ وہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کرے
نظام الملک نے شمونہ کا حوالہ دے کر طبیب کو تفصیل سے بتایا کہ اس لڑکی نے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ مزمل مجھ پر قاتلانہ حملہ کرے گا نظام الملک نے طبیب کو شمونہ کے متعلق بھی سب کچھ بتایا اور اسے قاتلانہ حملے کا اور مزمل کی گرفتاری کا واقعہ سنایا
کیا وہ اس لڑکی شمونہ کو چاہتا ہے ؟
طبیب نے چونک کر پوچھا
چاہتا ہی نہیں محترم طبیب! نظام الملک نے جواب دیا وہ تو اس لڑکی کو عشق کی حد تک چاہتا ہے اور اگر کسی انسان کے آگے سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو مزمل اس لڑکی کے آگے سجدے کرتا رہتا
اس لڑکی کو یہیں بلا لو طبیب نے کہا آپ نے ابھی تک مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ چاہتے کیا ہیں کیا آپ اس شخص مزمل آفندی کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اور مجھ سے مشورہ لے رہے ہیں
اس کی قسمت کا فیصلہ کرنا میرے لیے کوئی مشکل نہیں تھا نظام الملک نے کہا فیصلہ کرنا ہوتا تو مجھے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں تھی میں اسے اسی وقت اپنے محافظوں کو حکم دے کر قتل کروا دیتا اور کہتا کہ اس کی لاش کو دفن نہیں کرنا کہ اسے کتے اور گدھے کھا جائیں لیکن محترم طبیب! میں مزمل آفندی جیسے قیمتی جواں سال اور خوبرو آدمی کو ضائع نہیں کرنا چاہتا میں شاید آپ کو بتا نہیں سکتا کہ اس جوان سال آدمی میں اسلام کی کس قدر شدید اور جذباتی محبت ہے میرا ایک مقصد تو یہ ہے کہ میں اسے واپس اپنی اصلی حالت میں لے آؤں دوسرا مقصد یہ ہے جو صرف آپ پورا کر سکتے ہیں وہ یہ کہ اسے حسن بن صباح کے یہاں کسی ایسے عمل سے گزارا گیا ہے جس نے اس کے دل و دماغ کو الٹا دیا ہے اس کی نگاہ میں دوست و دشمن بن گئے ہیں میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنے تجربے کی روشنی میں دیکھیں کہ وہ باطنی کس طرح اچھے بھلے انسان کو اپنوں کا ہی قاتل بنا دیتے ہیں
عزیز نظام الملک! طبیب نے کہا آپ نے یہ بات آج سوچی ہے میں بڑے لمبے عرصے سے اس مسئلے پر کام کر رہا ہوں ایک مدت گزری مجھے پتہ چلا کہ باطنی لوگوں کی سوچوں پر اور خیالوں پر قابض ہو کر انہیں مکمل ابلیس اور مکمل انسان کُش بلکہ آدم خور بنا رہے ہیں میں نے اپنے آدمی وہاں بھیجے جنہوں نے مجھے کچھ ضروری باتیں بتائیں یہ حشیش کا کمال ہے اور پھر یہ کمال ہے ان لوگوں کا یعنی ان باطنیو کے اپنے دماغ کا کہ انھوں نے انسانی فطرت کی سب سے بڑی کمزوری کو استعمال کیا ہے
محترم طبیب! نظام الملک نے کہا یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کس طرح لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرتے اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کا کوئی توڑ ہے؟
جی ہاں! طبیب نے جواب دیا اس کا توڑ میں نے سال ہا سال کی محنت سے تیار کیا ہے لیکن میرے عزیز نظام الملک! ہم صرف اس شخص کو واپس اس کی اصلیت میں لا سکیں گے جو مزمل جیسا اکا دکا ہمارے پاس پہنچ جائے گا حسن بن صباح اور اسکے ابلیسی گروہ نے اپنے زیر اثر علاقوں میں اجتماعی طور پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اس کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہیں ہاں آپ کے پاس اس کا ایک علاج موجود ہے وہ کریں اور اس ابلیسی فتنے کو ختم کریں یہ ہے فوج کشی حملہ کریں حسن بن صباح احمد بن عطاش اور ان کے خاص گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں اور اس کے بعد اسلام کی تبلیغ کریں
یہ تو ہم کر ہی رہے ہیں نظام الملک نے کہا میں نے سلطان ملک شاہ سے حملے کی اجازت لے لی ہے اور اس حملے کی قیادت میں خود کرونگا
لیکن آپ کو بہت کچھ سوچ کر قدم اٹھانا ہوگا طبیب نجم مدنی نے کہا میں نے کسی زمانے میں قلعہ الموت دیکھا تھا اب تو سنا ہے کہ اس کے دفاعی انتظامات اور زیادہ مضبوط کر دیے گئے ہیں آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ قلعہ بلندی پر ہے
ہاں محترم طبیب! نظام الملک نے کہا یہ فوجی اور جنگی مسئلہ ہے یہ مجھ پر چھوڑیں آپ اتنا کریں کہ مزمل آفندی کے دماغ کو اس کی اصلی حالت میں لے آئیں
قید خانے کی ایک کوٹھری میں مزمل آفندی چیخ چلا کر تھک گیا تھا اور دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے فرش پر بیٹھا تھا اس کا سر جھکا ہوا تھا دروازے کی سلاخوں کے باہر ایک آدمی آ کر رک گیا
مزمل! اس آدمی نے سرگوشی کی
مزمل نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا
مزمل آفندی! اس آدمی نے اب ذرا بلند سرگوشی کی یہاں آؤ
مجھے کیوں بلا رہے ہو؟
مزمل آفندی نے گرج کر کہا یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں
آہستہ بول احمق آدمی! اس آدمی نے ذرا اور بلند سرگوشی میں کہا میں تمہارا دوست ہوں یہاں آؤ
مزمل آفندی سلاخوں کے قریب آ کر اس آدمی کے سامنے بیٹھ گیا
مجھے آج صبح پتہ چلا ہے کہ تمہیں قید کر دیا گیا ہے اس آدمی نے کہا میں تمہیں یہاں سے فرار کرا دوں گا خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو انہیں تنگ نہ کرو ورنہ یہ تمہیں اتنا مارے پیٹیں گے کہ تم جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھو گے میں جانتا ہوں کہ تم الموت سے کیوں یہاں آئے تھے تمہیں جن لوگوں نے بھیجا ہے میں ان کا جاسوس ہوں اور مجھے ہر بات کا علم ہے اس قید خانے میں میرا اثر و رسوخ چلتا ہے میں بھی نظام الملک کو قتل کرنا چاہتا ہوں لیکن الموت سے امام حسن بن صباح کا پیغام ملا ہے کہ یہ کام مزمل آفندی کرے گا مجھے یہ فرض سونپا گیا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں اور تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو میں تمہیں اس میں سے نکالوں تم آرام سے اور مکمل خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو تمہیں یہاں سے نکلوانا اور واپس الموت بھیج دینا میرا کام ہے
کیا میں نظام الملک کو قتل کر سکوں گا؟
مزمل نے پوچھا
پہلا کام تمہیں یہاں سے فرار کرانا ہے اس آدمی نے کہا اس کے بعد دیکھنا کہ نظام الملک کو قتل کرنے کا موقع مل سکتا ہے یا نہیں اگر دو یا تین دن موقع نہ ملا تو تمہیں واپس الموت بھجوا دیں گے اور موقع پیدا کرکے تمہیں واپس لے آئیں گے
ایک کام کر سکتے ہو ؟
مزمل آفندی نے کہا شمونہ نام کی ایک لڑکی یہاں ہے
ہاں مزمل! اس آدمی نے کہا میں اسے جانتا ہوں یہ بھی کیا جاسوسی ہوئی کہ میں شمونہ کو جان نہ سکتا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت وہ نظام الملک کے یہاں گئی ہوئی ہے
میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کے وہ ٹھیک تو ہے مزمل نے کہا کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے بھی پریشان کیا جا رہا ہو
نہیں! اس آدمی نے کہا اسے کوئی پریشانی نہیں اگر تمہارے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اسے بھی مشکوک سمجھا گیا ہوتا تو اسے تمہارے ساتھ ہی قید خانے میں پھینک دیا گیا ہوتا تم چاہو گے تو اسے بھی یہاں سے نکلوا کر تمہارے ساتھ بھیج دیں گے
مزمل آفندی یوں مطمئن ہو گیا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر پانی پھینک دیا گیا ہو
اب تمہارے کھانے پینے کا انتظام میرے ہاتھ میں ہوگا اس آدمی نے کہا میری کوشش یہ ہوگی کہ میں خود تمہیں کھانا دینے آیا کرو اگر میں نہ آ سکوں تو جو کوئی آدمی جو کچھ بھی کھانے پینے کے لئے لائے وہ آرام اور اطمینان سے لے کر کھا لینا یوں ظاہر کرو جیسے تم اندر سے مر گئے ہو اور اب تم کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کروگے، مجھے اب یہاں سے چلے جانا چاہیے
ہاں بھائی میرے! مزمل نے کہا میں تم پر بھروسہ کروں گا تم جاؤ لیکن میرے فرار کا انتظام جلدی کرو میں کوشش یہ کروں گا کہ نظام الملک کو قتل کر کے واپس الموت جاؤں
ایسا ہی ہوگا مزمل! اس شخص نے کہا اور وہ چلا گیا
شمونہ نظام الملک کے خاص کمرے میں بیٹھی طبیب نجم مدنی کو سنا رہی تھی کہ وہ جب حسن بن صباح کے ساتھ تھی تو کیا کیا طریقے استعمال کر کے اپنے مطلب کے لوگوں کو اپنا شکار بنایا جاتا تھا شمونہ نے طبیب کو یہ بھی بتایا کہ اسے اور اس جیسی لڑکیوں کو تربیت دے کر استعمال کیا جاتا تھا
محترم بزرگ! شمونہ نے کہا حسن بن صباح کے پاس جادو بھی ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ جادو اس نے احمد بن عطاش سے سیکھا ہے لیکن یہ جادو کم ہی استعمال کیا جاتا ہے اس کی بجائے ایک اور جادو استعمال کیا جاتا ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا وہ جادو میں ہوں مجھے دیکھ لیں میں نے یہ جادو اپنے ہاتھوں اور اپنی زبان سے چلایا بھی ہے اور چلتا دیکھا بھی ہے
تو اب میری بات سنو شمونہ! طبیب نجم نے کہا اب تمہیں یہی جادو مزمل آفندی پر چلانا ہے میرا خیال ہے کہ تمہارا جادو آسانی سے چل جائے گا کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ تم سے دلی نہیں بلکہ روحانی محبت کرتا ہے
ہاں میرے بزرگ! شمونہ نے کہا مزمل کو واپس اسی مقام پر لانے کے لیے میں تو اپنی جان بھی قربان کر دوں گی آپ مجھے کہیں گے کہ اپنی جان دے دو تو مزمل اپنی اصلی حالت میں آ جائے گا تو میں اس کے لیے تیار ہوں
ایسی ضرورت نہیں پڑے گی طبیب نے کہا میں تمہیں کچھ باتیں اور کچھ طریقہ بتاؤں گا تم نے اس کے مطابق عمل کرنا ہے
اس زمانے میں برین واشنگ کی اصطلاح سے کوئی واقف نہیں تھا لیکن برین واشنگ کا عمل موجود تھا اور حسن بن صباح برین واشنگ کا غیر معمولی طور پر ماہر تھا اور اس نے جو طریقے وضع کیے تھے انہیں آج کے ماہرین نفسیات اور ڈاکٹر بھی مستند مانتے ہیں
میرے عزیز نظام الملک! طبیب نجم مدنی نے کہا اللہ نے ہر جاندار کا جوڑا پیدا کیا ہے نر اور مادہ کیا آپ نے جانوروں کو دیکھا نہیں کہ ایک مادہ کی خاطر وہ ایک دوسرے کا خون بہا دیتے ہیں انسان کو خدا نے عقل دی ہے جذبات دیے ہیں اور کچھ حِسّیں دی ہیں اس لئے انسانی نر اور مادہ ایک دوسرے کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے طریقے سوچ لیتے ہیں کہ انسان خود بھی حیران رہ جاتا ہے مرد کی فطرت میں عورت کی طلب بڑی شدید ہوتی ہے مرد نے جب بھی دھوکا کھایا عورت کے ہاتھوں کھایا اس لڑکی شمونہ جیسی عورت ایک دلکش نشہ بن کر اپنی پسند کے آدمی پر طاری ہوجاتی ہے اگر عورت خود غرض ہے اور وہ اپنی پسند کے مرد سے کوئی دنیاوی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے مثلا اس کے مال و اموال پر قبضہ کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی نسوانیت کے نشے کے ساتھ کوئی اور نشہ بھی شامل کر لیتی ہے جو وہ دھوکے سے اس شخص کو دیتی رہتی ہے اس کے ساتھ وہ پیار و محبت کی ایسی ایسی مصنوعی حرکتیں کرتی ہے کہ اس کے چنگل میں آیا ہوا مرد اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتا رہتا ہے حسن بن صباح یہی نسخہ استعمال کر رہا ہے میں اس کی عقل کی تعریف کرتا ہوں کہ حشیش کو جس طرح اس نے استعمال کیا ہے وہ آج تک اور کسی کے دماغ میں نہیں آیا میں مزمل آفندی کے دماغ پر جو حشیش کے اثرات ہیں وہ اتار دوں گا
کیا آپ اسے کوئی دوائی دے گے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا ہے؟
نظام الملک نے پوچھا
ہاں! طبیب نجم نے جواب دیا اسے دوائی پلائی جائے گی لیکن آپ نے بتایا ہے کہ وہ قید خانے کی کوٹھری میں بہت زیادہ ادھم برپا کررہا ہے آپ اسے دوائی کس طرح پلائیں گے یہ کام آپ کو کرنا ہو گا
ہاں محترم طبیب! نظام الملک نے کہا میں نے ایک انتظام تو کیا ہے کہ اس شخص پر قابو پایا جا سکے ذرا ٹھہریے میں معلوم کرتا ہوں کہ وہ آدمی واپس آیا یا نہیں،
نظام الملک نے دربان کو بلا کر پوچھا کہ وہ آدمی آیا ہے کی نہیں دربان کو معلوم تھا کہ کس شخص کے متعلق پوچھا جا رہا ہے اس نے بتایا کہ وہ ابھی ابھی آیا ہے نظام الملک نے اسے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیج دو دربان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد وہی آدمی جو قید خانے میں حسن بن صباح کا جاسوس بن کر مزمل آفندی کے پاس گیا اور اسے ٹھنڈا کر آیا تھا اندر آیا
کہو بھائی! نظام الملک نے اس سے پوچھا کیا کرکے آئے ہو
سب ٹھیک کر آیا ہوں اس شخص نے جواب دیا وہ بالکل ٹھنڈا ہوگیا ہے میں نے اسے کہا ہے کہ آئندہ اس کے کھانے پینے کا انتظام میں کروں گا اس نے بخوشی یہ صورت قبول کر لی ہے اس نے مجھ پر مکمل اعتماد کیا ہے
آفرین! نظام الملک نے کہا پھر وہ طبیب سے مخاطب ہوا اب اسے وہ دوائی آسانی سے پیلائی جا سکے گی جو آپ اسے دینا چاہیں گے
نظام الملک نے اس آدمی کو باہر بھیج دیا
میں آپ کو خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں طبیب نے کہا دوائی تو میرے پاس تیار ہے یہ میرا پہلا تجربہ ہو گا اس دوائی کا اثر یہ ہو گا کہ مزمل بے ہوش ہو جائے گا یا یوں کہہ لے کے سو جائے گا، ایسا ہونا تو نہیں چاہیے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ دوائی کی مقدار ایک آدھ قطرہ بھی زیادہ ہوگئی تو اس شخص کی موت واقع ہو سکتی ہے
نہیں میرے بزرگ! شمونہ نے تڑپ کر کہا اور طبیب کے دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر التجا کے لہجے میں بولی ایسا نہ کہیں جان لینی ہے تو میری لے لیں موت واقع ہو تو میری ہو مجھے کوئی طریقہ بتائیں اگر کہیں تو میں اس کی کال کوٹھری میں بند ہو جاتی ہوں شب و روز اس کے ساتھ رہوں گی اور مجھے امید ہے کہ اسے واپس اپنی اصلی ذہنی اور جذباتی حالت میں لے آؤں گی
شمونہ بیٹی! نظام الملک نے کہا ہم مزمل جیسے قیمتی آدمی کو زیادہ دیر تک ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتے میں بھی تمہاری طرح مزمل کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں
گھبراؤ نہیں لڑکی! طبیب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا میں نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ ضرور ہی مر جائے گا میں نے صرف اظہار کیا ہے ایک خطرے کا ہمیں یہ خطرہ مول لینے دو زیادہ تر کام تو تم نے کرنا ہے اور یہ میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم نے کیا کرنا ہے
محترم طبیب! نظام الملک نے کہا آپ دوائی دیں صرف یہ خیال رکھیں کہ اس کی مقدار کم رکھیں میں نہیں سمجھتا کہ جڑی بوٹیوں سے بنائی ہوئی دوائی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے
میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کے اس دوائی میں کیا کیا ڈالا گیا ہے طبیب نے کہا یہ نایاب جڑی بوٹیوں سے بنی ہے جو ہمارے علاقے میں شاید ہی کہیں نظر آئے اس میں صحرائی سانپ کے زہر کا کشتہ بھی شامل ہے اس میں کچھوے کی چربی بھی ایک خاص عمل سے گزار کر شامل کی گئی ہے یہ تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ صحرائی سانپ ملنا کتنا دشوار ہے صحرا کہاں ہے اور کون وہاں سانپ کی انتظار میں بیٹھا رہتا ہوگا بہرحال میں نے یہ سانپ حاصل کیا اور اس کا زہر مار کر دوآئی میں شامل کیا
طبیب نے شمونہ اور نظام الملک کو کچھ ہدایات دینی شروع کر دیں
سورج غروب ہو گیا قید خانے کی راہداریوں کی مشعلیں جلا دی گئیں کچھ دیر بعد قیدیوں میں کھانا تقسیم ہونے لگا
ایک سنتری نے مزمل آفندی کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور خود ایک طرف ہو گیا کوٹھری میں وہ شخص داخل ہوا جو مزمل کو ٹھنڈا کر گیا تھا اس نے کھانا اٹھا رکھا تھا سالن اور روٹیوں کے علاوہ ایک پیالہ دودھ کا بھرا ہوا تھا مزمل یہ کھانا دیکھ کر حیران رہ گیا
تمہارے چہرے پر حیرت کیوں؟
آدمی نے کہا میں نے تمہیں کہا تھا کہ آئندہ تمہارے کھانے کا انتظام میں کیا کروں گا تمہیں اب یہی کھانا ملا کرے گا میں نے تمہارے فرار کا انتظام کر لیا ہے تمہیں دو یا تین دن انتظار کرنا پڑے گا آرام سے کھانا کھاؤ اور یہ دودھ پی لو میں جا رہا ہوں
اس شخص نے یہ بات مزمل کے کان میں اتنی دھیمی آواز میں کہی تھی کہ سنتری کو سنائی نہیں دیتی تھی کوٹھڑی کا دروازہ پھر بند ہوکر مقفل ہو گیا سنتری اس راہداری میں جس میں مزمل آفندی کی کوٹھری تھی آہستہ آہستہ ٹہل رہا تھا یہ اس کی اور اس جیسے سنتریوں کی ہر رات کی ڈیوٹی تھی لیکن یہ سنتری جب مزمل کی کوٹھری کے آگے سے گزرتا تھا تو اس کے قدم رک جاتے اور مزمل کو وہ سلاخوں میں سے غور سے جھانکتا تھا مزمل کھانا کھا رہا تھا سنتری دوسرے چکر پر آیا تو دیکھا کہ مزمل نے دودھ کا پیالہ منہ سے لگا رکھا تھا
سنتری آگے نکل گیا اور کہیں رک گیا تھا کچھ وقت گزار کر وہ پھر راہداری میں آیا اور حسب معمول مزمل کی کوٹھری کے سامنے آ کر بہت آہستہ ہو گیا اس نے دیکھا کہ پیالہ فرش پر پڑا تھا مزمل نے سارا دودھ پی لیا تھا اور وہ دیوار کے ساتھ بیٹھ لگائے بیٹھا تھا اس کا سر ڈول رہا تھا اور آنکھیں بند ہو رہی تھیں سنتری دو چار قدم آگے گیا اور رک گیا وہ پھر واپس آیا تو دیکھا کہ مزمل فرش پر پیٹھ کے بل پڑا تھا اور اس کے خراٹے سنائی دے رہے تھے سنتری دوڑ پڑا اور راہداری سے نکل گیا
تھوڑی ہی دیر بعد وہی شخص آیا جو مزمل کا دوست بن کر اسے کھانا اور دودھ دے گیا تھا سنتری اس کے ساتھ تھا اس کے اشارے پر سنتری نے دروازہ کھولا وہ شخص اندر گیا اور مزمل کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا اس نے مزمل کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہلایا
مزمل بیدار نہ ہوا
دوسری بار اس آدمی نے مزمل کے سر کو ذرا زور سے ہلایا پھر بھی مزمل کی آنکھ نہ کھلی وہ آدمی اٹھا اور سنتری کو یہ کہہ کر تیزی سے نکل گیا کہ کوٹھری کو مقفل کر دو
وہ آدمی دوڑتا ہوا راہداری سے نکلا دوڑتا ہوا ہی قید خانے سے نکلا باہر اس کا گھوڑا کھڑا تھا اس پر سوار ہو کر اس نے ایڑ لگا دی قیدخانہ شہر سے ذرا دور ویران اور بنجر سے علاقے میں تھا
اس نے گھوڑا ملک شاہ کے دروازے پر جا روکا اور وہ کود کر گھوڑے سے اترا وہ دوڑتا ہوا اندر چلا گیا دربان اور محافظ کھڑے تھے لیکن انہوں نے اسے نہ روکا وہ جانتے تھے کہ یہ شخص آئے تو اسے روکنا نہیں
وہ ایک کمرے میں چلا گیا جہاں طبیب نجم مدنی نظام الملک اور شمونہ موجود تھے
کیا خبر ہے؟
نظام الملک نے پوچھا
بڑی اچھی خبر ہے اس آدمی نے جواب دیا وہی اثر ہوا جو محترم طبیب نے بتایا تھا وہ اتنی گہری نیند سو گیا ہے کہ میں نے اسے زور زور سے ہلایا اس کے سر کو جھنجوڑا لیکن اس کے پپوٹوں میں ذرا سی بھی حرکت نہیں ہوئی
کیا وہ زندہ ہے؟
شمونہ نے تڑپ کر پوچھا ہاں وہ زندہ ہے اس آدمی نے جواب دیا کیا میں اتنا احمق نظر آتا ہوں کہ مجھے سوئے ہوئے اور مرے ہوئے آدمی میں فرق معلوم نہ ہو
نظام الملک! طبیب نجم نے کہا اسے یہاں لے آؤ
کچھ دیر بعد مزمل آفندی کی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا ایک چارپائی کوٹھری میں داخل ہوئی جس کے ساتھ چار آدمی تھے چارپائی فرش پر رکھ کر ان آدمیوں نے فرش پر پڑے ہوئے مزمل کو اٹھایا اور چارپائی پر ڈال دیا اسمیں بیداری کے کوئی آثار نہیں تھے
ان آدمیوں نے چارپائی اٹھائی اور کوٹھری سے سے نکل گئے پھر وہ قید خانے سے بھی نکل گئے
نظام الملک طبیب اور شمونہ بے تابی سے انتظار کر رہے تھے ان میں شمونہ بہت ہی بے چین اور بے تاب تھی اس کے حسین چہرے پر گھبراہٹ اور دل میں دعائیں تھیں وہ بار بار باہر دیکھتی تھی
آخر وہ لوگ مزمل کو اٹھائے ہوئے آگئے اور چارپائی اسی کمرے میں لا رکھی شمونہ نے لپک کر مزمل کی کلائی پکڑ لی اور اس کی نبض محسوس کی اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان کا تاثر آگیا مزمل آفندی زندہ تھا
مزمل کو اٹھا کر پلنگ پر ڈال دیا گیا اور وہ آدمی چارپائی اٹھا کر کمرے سے نکل گئے شمونہ! طبیب نے مزمل کی نبض پر انگلیاں رکھے ہوئے کہا خطرہ ٹل گیا ہے نبض بالکل ٹھیک چل رہی ہے اگر دوائی کا اثر وہ ہوتا جو میں نے بتایا تھا کہ ہو سکتا ہے تو مزمل کی نبض اس وقت تک خاموش ہو چکی ہوتی ہم چلے جائیں گے تم یہاں رہوں گی اور اگر تمہیں ساری رات جاگنا پڑا تو جاگتی رہنا میں نے تمہیں ساری بات بتا دی ہے اور اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ تم نے کیا کرنا ہے دودھ وہ رکھا ہے یہ جاگ اٹھے تو پہلا کام یہ کرنا کے اسے یہ دودھ پلا دینا اور جو کچھ تم نے کرنا ہے وہ میں تمہیں بتا چکا ہوں یہ پھر سو جائے گا اسے زبردستی بیدار کرنے کی کوشش نہ کرنا تم خود بھی سو جانا یہ بہت دیر بعد کل دن کو کسی وقت جاگے گا آج رات کے پچھلے پہر اسے کچھ بیدار ہونا چاہیے
اور شمونہ! نظام الملک نے کہا دروازے کے باہر چار آدمی ہر وقت موجود رہیں گے کوئی مشکل پیش آ جائے یا مزمل بیدار ہو کر پھر ہنگامہ برپا کرے یا بھاگنے کی کوشش کرے تو یہ آدمی اسے سنبھال لیں گے
اب یہ سوچ لو شمونہ! طبیب نجم نے کہا اب تم پر منحصر ہے کہ اسے سنبھال لیتی ہو یا مزید بگاڑ دیتی ہو تم خود عقل والی ہو اور مردوں کو لگام ڈالنا جانتی ہو یہ تو پہلے ہی تمہاری محبت میں گرفتار ہے
شمونہ نے انہیں تسلی دی کہ وہ مزمل کو سنبھال لے گی وہ دونوں کمرے سے نکل گئے اور شمونہ اسی پلنگ پر بیٹھ گئی جس پر مزمل پیٹھ کے بل پڑا دھیمے دھیمے خراٹے لے رہا تھا
یہ کمرہ خاص طور پر مزمل آفندی کے لیے تیار کیا گیا تھا نظام الملک کے گھر کا کوئی کمرہ اسی طرح تیار کیا جا سکتا تھا لیکن طبیب نے وہ مناسب نہ سمجھا کیونکہ مزمل نظام الملک کی دشمنی لے کر آیا تھا خطرہ تھا کہ بیداری کے بعد اسے پتہ چلتا کہ وہ نظام الملک کے گھر میں ہے تو وہ پھر بے قابو ہو سکتا تھا نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کو اس سارے واقعے سے باخبر رکھا ہوا تھا طبیب نے سلطان سے کہا تھا کہ وہ اس کے محل کا ایک کمرہ استعمال کرنا چاہتا ہے سلطان نے بخوشی اجازت دے دی تھی
اس کمرے کی زیب و زینت کا اہتمام طبیب نے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کیا تھا بستر نہایت نرم ملائم اور آرام دہ تھا کمرے کے دروازوں اور کھڑکیوں پر خاص رنگ کے پردے لٹکائے گئے تھے قالین بیش قیمت اور دلفریب تھا کمرے میں خاص قسم کے پھولوں والے پودے جو گملوں میں لگے ہوئے تھے رکھوائے گئے تھے طبیب نے ایک خاص قسم کا عطر تیار کر رکھا تھا جو اس نے تھوڑا تھوڑا بستر پر اور پردوں پر مل دیا تھا
شمونہ کے لیے طبیب نے کچھ سوچ کر انتخاب کیا تھا کہ یہ کون سا لباس پہنے اس نے کہا تھا کہ وہ بالوں کو باندھ کر نہ رکھے بلکہ بال کھلے چھوڑ دے اسے قمیض ایسی پہنائی گئی تھی کہ اس کے کندھے اور بازو ننگے رکھے گئے تھے طبیب نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح استعمال کرے گی طبیب نے زور دے کر کہا تھا کہ اپنے جسم کو بچا کر رکھے اور اپنی روح کو پیار اور محبت کے ذریعے مزمل کی روح پر غالب کر دے شمونہ نے طبیب سے کہا تھا کہ وہ اس کھیل کی مہارت اور تجربہ رکھتی ہے مزمل کے معاملے میں سہولت یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے تھے
شمونہ سوئے ہوئے مزمل کو دیکھتی رہی وہ اس کے بیدار ہونے کا انتظار کر رہی تھی کبھی وہ اٹھ کھڑی ہوتی اور کمرے میں ٹہلنے لگتی کبھی وہ مزمل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگتی اس کا انداز ایک ماں جیسا تھا جس کا بڑا ہی پیارا بچہ سویا ہوا ہو
رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی شمونہ کو غنودگی آنے لگی تھی وہ سو ہی جانے کو تھی کہ مزمل کے جسم کو حرکت ہوئی شمونہ بیدار ہوگئی اور مزمل کے پلنگ پر جا بیٹھی مزمل نے کروٹ بدلی شمونہ کو معلوم تھا کہ اب اس نے کیا کرنا ہے
مزمل نے کروٹ اس طرح بدلی تھی کہ اس کا منہ شمونہ کی طرف تھا شمونہ اس کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی تھی مزمل کا ایک ہاتھ شمونہ کی گود میں آ گیا شمونہ وہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے آہستہ آہستہ مسلنے لگی پھر اس نے مزمل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں
مزمل کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھلنے لگیں
مزمل! شمونہ نے اس پر جھک کر اپنے ہونٹ مزمل کے کان کے قریب کرکے کہا تم میرے پاس آ گئے ہو اب کوئی ہمیں جدا نہیں کر سکتا
مزمل کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں اور وہ پیٹھ کے بل ہو گیا شمونہ اس پر اس طرح جھک گئی کے اس کے ریشم جیسے کھلے بال مزمل کے گالوں اور گردن پر رینگنے لگے
میں کہاں ہوں ؟
مزمل نے خوف ناک آواز میں پوچھا تم کون ہو ؟
تم میرے پاس ہو شمونہ نے پیار بھری آواز میں کہا تم اس پیار کی جنت میں آگئے ہو جہاں کوئی کسی کا خون نہیں بہا سکتا میں ہوں تمہاری روح
میں قید خانے میں ہوں ؟
مزمل نے پوچھا جیسے نیند میں بول رہا ہو
ہاں تم میرے دل کے قید خانے میں بند ہو شمونہ نے پہلے سے زیادہ پیاری آواز میں کہا تم میری محبت کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہو
مزمل آفندی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں اس کے اور مزمل آفندی کے چہرے کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا اس کا ایک ہاتھ اپنے آپ ہی شمونہ کے بالوں میں الجھ گیا شمونہ کے ہونٹوں پر تبسم تھا اس نے آنکھیں مزمل کی آنکھوں میں ڈال دیں طبیب نے ہدایات دی تھی ان کے مطابق اس نے مزمل کے ساتھ باتیں کیں اس کا اثر یہ ہوا کہ مزمل ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا وہ کمرے کو دیکھنے لگا اس کی نظریں سارے کمرے میں گھوم گئیں
شمونہ! مزمل نے دھیمی سی اور حیرت زدہ سی آواز میں پوچھا تم کب آئی؟
تم جھوٹ تو نہیں بولوں گی میں کہاں سویا تھا؟
میں نے میں نے شمونہ! میں نے شاید خواب دیکھا ہے اس کے ماتھے پہ شکن ظاہر ہوئی جیسے وہ ذہن کے ویرانے میں کچھ ڈھونڈ رہا ہو لیکن اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا
شمونہ نہیں چاہتی تھی کہ مزمل ایک بار پھر سو جائے وہ اسے بیدار رکھنا چاہتی تھی اور اسے واپس اسی ذہنی کیفیت میں لانا چاہ رہی تھی جس کیفیت میں وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا تھا لیکن طبیب مدنی نے اسے کہا تھا کہ یہ جاگ اٹھے تو اس کے ساتھ ایک دو باتیں کرنا اور یہ تمہیں پہچان لے کہ تم شمونہ ہو اور اس کے بعد اسے پھر دودھ کا پیالہ دے دینا شمونہ کو معلوم تھا کہ اس دودھ میں وہی دوائی شامل کی گئی ہے لیکن اس کی مقدار اب کم رکھی گئی ہے
مزمل! شمونہ نے اسکے گالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا تم بڑے لمبے اور بڑے کٹھن سفر سے واپس آئے ہو میں تمہیں دودھ پلاؤ گی پھر سوجاؤ تھکن دور ہو جائے گی نا تو میں تمہارے پاس بیٹھو گی اور پھر ہم پھر وہی پیار کی باتیں کریں گے
شمونہ اٹھی اور دودھ کا پیالہ اٹھا لائی مزمل اسے حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا شمونہ نے پیالہ اپنے ہاتھوں میں ہی رکھا اور اس کے ہونٹوں سے لگا دیا مزمل نے دو تین سانسوں میں دودھ پی لیا دودھ میں اتنا میٹھا ڈالا گیا تھا جس سے دوائی کا ذائقہ دب گیا تھا
مزمل پھر غنودگی میں چلا گیا شمونہ کو طبیب نے بتایا تھا کہ یہ پھر غنودگی میں جائے گا تو اس کے ساتھ کیا باتیں کرنی ہے اور اس وقت تک یہ باتیں کرنی ہے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ یہ سو گیا ہے
شمونہ نے اب جو پیار کی باتیں شروع کیں تو اس کے اپنے آنسو نکل آئے پیار کی ان باتوں میں ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت کی بات نہیں تھیں بلکہ بنی نوع انسان کی محبت ان باتوں میں رچی بسی ہوئی تھیں طبیب کا در اصل مطلب یہ تھا کہ غنودگی کے عالم میں مزمل کے ذہن سے تخریب کاری اور قتل کے خیالات نکال کر اس میں پیار و محبت اور روحانیت کا نور بھرا جائے شمونہ نے ایسے پر اثر طریقے سے یہ باتیں آہستہ آہستہ کیں کہ مزمل نے شمونہ کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہونٹوں سے لگایا اور اس کے ساتھ ہی وہ گہری نیند سو گیا شمونہ کو ایسی بری نیند آئی تھی کہ وہ بھی وہیں لڑھک گئی اور سو گئی
صبح طلوع ہوئی تو طبیب اور نظام الملک یہ دیکھنے آئے کہ رات کس طرح گزری ہے نظام الملک نے دروازے پر دستک دی اور انتظار کرنے لگا خاصی دیر گزر جانے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب نہ آیا نہ شمونہ باہر نکلی تو اس نے ایک بار پھر دستک دی پھر بھی کوئی جواب نہ آیا تو نظام الملک نے دروازہ کھولا اور طبیب کو ساتھ لے کر وہ اندر چلا گیا دیکھا کہ شمونہ اس طرح گہری نیند سوئی ہوئی تھی کہ اس کا سر مزمل کے سینے پر تھا اور اس کی ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹک رہی تھیں مزمل ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا طبیب نے وہ پیالہ دیکھا جس میں رات کو پلانے والا دودھ کا پیالہ خالی تھا
آئے نظام الملک! طبیب نے کہا شمونہ نے اسے رات کو دودھ پلا دیا تھا پیالہ خالی پڑا ہے یہ دوپہر کے بعد جاگے گا شمونہ شاید جلدی جاگ اٹھے اس کی نیند بتاتی ہے کہ یہ رات بھر سو نہیں سکی
دونوں کمرے سے نکل گئے
تین دن اور رات مسلسل مزمل کو یہ دوائی دودھ میں ملا کر پلائیں جاتی رہی ہر بار دوائی کی مقدار کم کرتے چلے گئے وہ جب بیدار ہوتا تھا تو شمونہ اس کے ساتھ اس طرح کی باتیں کرتی تھیں جس طرح اسے طبیب نجم مدنی نے بتائی تھی اس وقت مزمل کا ذہن نیم بیدار ہوتا تھا اور شمونہ جس پیارے انداز میں بات کرتی تھی وہ اس کے ذہن میں اترتی چلی جاتی تھی
یہ عمل طبیب کی نگرانی میں جاری رکھا گیا اور چوتھے دن اسے کوئی دوا نہ دیں گی جب وہ بیدار ہوا تو طبیب نے اس کے پاس بیٹھ کر اس کی کنپٹییاں اپنے دونوں انگوٹھوں سے آہستہ آہستہ ملنی شروع کردیں اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ باتیں کیں یہ ایک قسم کا وہ عمل تھا جسے آج ہپناٹائزم کہتے ہیں یہ برین واشنگ جیسا ہی ایک عمل تھا جو سات آٹھ روز چلتا رہا اور کامیاب رہا مزمل خاصی تیزی سے اپنے آپ میں آ گیا طبیب کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اصلی ذہنی کیفیت میں آجائے گا طبیب کی دوائی کا اپنا اثر تو تھا ہی خود طبیب نے کہا کہ اس دوائی کے اثر کو تیز اور کئی گناہ زیادہ کرنے میں شمونہ کا ہاتھ تھا ایک روز نظام الملک مزمل کے سامنے آیا کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ مزمل کا رد عمل اور رویہ کیا ہوگا طبیب نجم بھی وہاں موجود تھا اور شمونہ بھی تھی کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی باہر نظام الملک کے محافظ تیار کھڑے تھے
مزمل آفندی نے نظام الملک کو دیکھا اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا نہایت آہستہ آہستہ اٹھا نظام الملک بازو پھیلا کر اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے ہوئے اس کی طرف تیزی سے بڑھا
مزمل نے بھی بازو پھیلا دیے اور دوسرے لمحے وہ ایک دوسرے کے بازوؤں میں تھے
کیوں مزمل! نظام الملک نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بڑے پیار سے پوچھا کہاں چلے گئے تھے؟
میں تو سمجھا تھا کہ تم چلے ہی گئے ہو
یہ تو میں بتا نہیں سکتا مزمل نے کہا آپ کو دیکھ کر کچھ یاد آتا ہے یہ بھی یاد آتا ہے کہ آپ نے مجھے جانے سے روکا تھا اور میں پھر بھی چلا گیا تھا
اور اب نظام الملک نے بڑے پیارے لہجے میں پوچھا اب تو نہیں جاؤ گے
نہیں مزمل نے مسکرا کر جواب دیا نہیں جاؤں گا اب کہیں نہیں جاؤں گا
دو تین دن اور گزرے تو مزمل کو سب کچھ یاد آنے لگا اب ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس کی حالت پھر بگڑ جائے گی اس پر ایک اور ہی قسم کی کیفیت طاری ہوگئی یہ پچھتاوے شرمندگی اور حسن بن صباح سے انتقام لینے والی کیفیت تھی نظام الملک اور شمونہ نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور ایک دو دن صرف کرکے اسے اس کیفیت سے نکال لیا
مزمل آفندی! ایک روز نظام الملک نے اسے کہا جو ہو گیا سو ہو گیا اب مجھے یہ بتاؤ کہ وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ باطنی کس طرح تم جیسے جذبے والے آدمی پر بھی غالب آجاتے ہیں اور اسے اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں
میں بتا سکتا ہوں مزمل آفندی نے کہا مجھے وہاں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آگیا ہے میں خود چاہتا ہوں کے آپ کو وہ ساری روداد سناؤں آپ کسی اور خیال سے مجھ سے وہ باتیں سننا چاہتے ہیں لیکن میں اس خیال سے آپ کو سنانا چاہتا ہوں کہ آپ کو پتہ چلے کہ میں کتنا مجبور ہوگیا تھا میرا دماغ میرے قابو سے نکل گیا تھا
وہ بھول جاؤ نظام الملک نے کہا تم نے کوئی گناہ نہیں کیا مجھے بتاؤ کہ تمہارے ذہن پر قبضہ کس طرح کیا گیا تھا
انہوں نے مجھے کال کوٹھری میں بند کر دیا مزمل آفندی نے کہا اس کوٹھری میں ایسی بدبو تھی جیسے وہاں مردار یا انسانی لاشیں گل سڑ رہی ہوں مجھے تین دن نہ کچھ کھانے کے لیے دیا گیا اور نہ پینے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ دیا گیا ایک طرف میرا خون کھولتا تھا ابلتا تھا کہ میں دھوکے میں آگیا ہوں اگر میں حسن بن صباح کو قتل کر چکا ہوتا تو پھر وہ مجھے کیسی ہی اذیتیں کیوں نہ دیتے میں برداشت کر لیتا اور اس موت کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیتا جو آہستہ آہستہ اور مجھے اذیتیں دے دے کر مارتی دوسری طرف جسم جواب دے رہا تھا میں سات آٹھ دن بھوکا رہ سکتا تھا لیکن پانی کے بغیر ایک دن بھی گزرنا محال تھا
اس کمرے میں جو بدبو تھی وہ میں بیان ہی نہیں کر سکتا کہ یہ کیسی تھی اس بدبو نے میرا دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا پھر میں خود اپنا خون پی رہا تھا کیونکہ میں جس مقصد کے لئے آیا تھا وہ پورا نہیں ہوا تھا ایک طرف بھوک اور پیاس اور دوسری طرف یہ جلنا اور کڑھنا تیسرے چوتھے دن مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میں بہت جلدی پاگل ہو جاؤں گا بلکہ پاگل پن شروع ہو چکا تھا پھر ایک روز مجھے آدھی روٹی اس طرح دی گئی کہ دروازہ کھلا اور وہیں سے ایک آدمی نے میری طرف آدھی روٹی اس طرح پھینکیں جیسے کتے کی طرف کوئی چیز پھینکی جاتی ہے اس نے مٹی کا ایک غلیظ پیالہ دروازے کے قریب رکھ دیا اور چلا گیا میں اپنی خودداری اور اپنے وقار کو بھول گیا تھا میں کتوں کی طرح ہی روٹی کے ٹکڑے پر جھپٹ پڑا اور گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل اس چھوٹے سے پیالے تک گیا جو وہ آدمی دروازے کے اندر رکھ گیا تھا وہ تھوڑا سا سالن تھا میں نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ یہ کس چیز کا شوربہ تھا یا گدلا نمکین پانی تھا میں لقمے اس میں ڈبو ڈبو کر حلق میں اتارتا گیا یہ روٹی ذرا سی دیر میں ختم ہوگئی اور اس سے میری بھوک اور تیز ہو گئی میں اٹھا اور دروازے کی سلاخیں پکڑ کر چلانے لگا کے مجھے اور روٹی دو خدا کے لئے مجھے اور روٹی دو
ایک سنتری آیا میں دروازے کی سلاخیں پکڑے کھڑا تھا اس نے سلاخوں کے درمیان سے میرے منہ پر اتنی زور سے گھونسا مارا کے میں پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا سر کا پچھلا حصہ دیوار سے بڑی زور سے ٹکرایا تھا جس سے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا معلوم نہیں میں کتنی دیر غشی میں پڑا رہا
جب میں ہوش میں آیا تو میں کوٹھری میں نہیں تھا وہ ذرا بہتر اور صاف ستھرا کمرہ تھا میں فرش پر لیٹا ہوا تھا ایک آدمی ہاتھ میں برچھی لئے میرے پاس کھڑا تھا اس نے جب دیکھا کہ میری آنکھیں کھل گئیں ہیں تو اس آدمی نے میرے پہلو میں پاؤں سے ٹھوکر لگا کر کہا ہوش آ گئی ہے میں تو بول بھی نہیں سکتا تھا میں اٹھ کر بیٹھ گیا وہ آدمی باہر نکل گیا پھر وہ فوراً ہی واپس آگیا اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جس کی چال ڈھال ڈیل ڈول اور لباس ایسا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ یہ شخص کوئی بڑا عہدہ دار ہے
مزمل آفندی نے آگے اپنی جو داستان سنائی وہ کچھ اس طرح تھی
یہ معزز آدمی اس کے پاس آکر کھڑا ہوگیا
مزمل آفندی! اس آدمی نے کہا تم یہاں کیوں آئے تھے ؟
پانی! مزمل کے منہ سے جیسے سسکی نکلی ہو پانی پانی
تم یہاں کیوں آئے تھے ؟
اس عہدے دار نے کہا میرے سوال کا جواب دو گے تو پانی مل جائے گا تم یہاں کیوں آئے تھے؟
قتل ہونے کے لئے مزمل نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ اپنے منہ سے باہر دھکیلے
یہ میرے سوال کا جواب نہیں عہدے دار نے کہا
مزمل آفندی کا منہ پیاس کی شدت سے کھل گیا تھا وہ تو اب سرگوشی بھی نہیں کر سکتا تھا اس نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بولنے کے قابل نہیں اس کے ہونٹ ہلے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے دو مرتبہ پانی پانی کہا ہے
نہیں! عہدے دار نے کہا پانی نہیں ملے گا
مزمل کی آنکھیں بند ہونے لگی اور وہ ایک طرف لڑھک گیا پیاس کی شدت نے اس پر غشی طاری کر دی تھی
مزمل آفندی ہوش میں آیا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اب وہ فرش پر نہیں ایک نرم سے بستر پر پڑا ہے اس کے پاس ایک نوخیز دوشیزہ بیٹھی ہوئی تھی مزمل نے آنکھیں کھولیں تو اسے سب سے پہلے جو چیز نظر آئی وہ اس لڑکی کی دلفریب مسکراہٹ تھی مزمل نے نظام الملک کو سنایا کہ وہ اسے خواب سمجھا
اٹھو مزمل! لڑکی نے بڑے پیار سے کہا کھانا کھا لو
پانی! مزمل کے ہونٹوں سے سرگوشی پھسلی پانی مزمل کا منہ کھلا رہا اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے اور اس کی زبان بگڑ گئی تھی
خالی پیٹ پانی نہیں دونگی لڑکی نے کہا پہلے کھانا کھا لو تھوڑا سا کھا لو پھر پانی پینا
مزمل اتنا کمزور ہوچکا تھا کہ اس لڑکی نے اسے سہارا دے کر اٹھایا مزمل نے دیکھا کہ یہ نہایت اچھا سجا سجایا کمرہ تھا کمرے کے وسط میں ایک گول میز رکھی ہوئی تھی اور اس میز پر کھانا پڑا ہوا تھا تب مزمل کو پکے ہوئے گوشت اور روٹیوں کی بو محسوس ہوئی وہ فوراً اٹھا اور میز کے قریب پڑے ہوئے اسٹول پر بیٹھ گیا
وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سالن ایک قسم کا نہیں بلکہ تین چار قسم کے سالن تھے یہ کسی شہزادے یا بہت بڑے حاکم کا کھانا تھا مزمل آفندی ذرا جھینپ گیا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کھانا اس کے لیے رکھا گیا ہے لیکن وہ اس قدر بھوکا تھا کہ اس نے نتائج سے بےپرواہ کھانا شروع کر دیا وہ شائستہ اور معزز خاندان کا تہذیب یافتہ بیٹا تھا لیکن بھوک اور پیاس نے اس کا دماغ ایسا ناکارہ کر دیا تھا کہ وہ جانوروں کی طرح کھانا کھا رہا تھا اسے یہ بھی خیال نہیں رہا تھا کہ سالن میز پر گر رہا ہے وہ دسترخوان کے آداب بھول چکا تھا
بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے چند ایک نوالہ حلق سے اتار کر وہ صراحی پر لپکا جو میز پر پڑی ہوئی تھی لڑکی بڑی تیزی سے آئی اور اس نے مزمل کے ہاتھ سے صراحی لے لی
پانی میں پلاؤں گی لڑکی نے کہا بہت تھوڑا تھوڑا ایک ایک گھونٹ بلاؤں گی ایک ہی بار پانی نہیں پینا
لڑکی نے ایک خوشنما پیالے میں تھوڑا سا پانی ڈال کر مزمل کو دیا مزمل ایک ہی بار یہ پانی پی گیا اور پھر کھانے پر ٹوٹ پڑا تھوڑا سا کھانا کھا کر وہ پھر صراحی پر جھپٹا لیکن لڑکی نے پہلے کی طرح اس کے ہاتھ سے صراحی لے لی اور اب ذرا زیادہ پانی پیالے میں ڈال دیا مزمل نے وہ پانی بھی ایک ہی سانس میں پی ڈالا
دیکھتے ہی دیکھتے مزمل تمام روٹیاں اور اتنے زیادہ سالن صاف کر گیا یوں پتہ چلتا تھا جیسے سالن والے برتن دھلے ہوئے ہیں مزمل نے صاف کر دیا تھا اب کے اس نے لڑکی سے پانی مانگا
اب پانی نہیں لڑکی نے بڑی دلفریب مسکراہٹ سے کہا اب شربت پلاؤں گی
لڑکی نے ایک اور صراحی اٹھائی اور اس میں سے شربت گلاس میں انڈیل دیا جو مزمل نے اٹھا کر ایک ہی بار خالی کردیا
مزمل آفندی لڑکی سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے اتنی غلیظ کوٹھری سے نکال کر یہاں کیوں لایا گیا ہے اور ایسا امیرانہ کھانا اسے کیوں دیا گیا ہے لیکن وہ کچھ بھی نہ پوچھ سکا کیوں کہ اس پر غنودگی طاری ہو گئی تھی اور وہ بستر کی طرف دیکھنے لگا تھا لڑکی نے اسے کہا کہ وہ سو جائے وہ اٹھ کر بستر پر بیٹھا تو حیرت زدہ نظروں سے لڑکی کو دیکھنے لگا اس کی آنکھوں میں ایک سوال تھا لیکن یہ سوال زبان پر آنے سے پہلے اس کی آنکھیں بند ہو گئی اور لڑکی نے اسے سہارا دے کر پلنگ پر لٹا دیا
صبح جب مزمل اس کمرے سے نکلا تو اس نے یوں محسوس کیا جیسے یہ دنیا بالکل ہی بدل گئی ہو اس کے سامنے ایک وسیع باغ تھا جس میں ایسے ایسے پھول تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے گھاس بہت ہیں سر سبز تھیں اور یہ گھاس اوپر سے اس طرح تراشی ہوئی تھیں جیسے زمین پر سبز رنگ کا قالین بچھا ہوا ہو مزمل آگے بڑھا تو کمرے سے لڑکی نکل آئی وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑی
کیا تم مجھے کچھ بتا سکتی ہو ؟
مزمل نے لڑکی سے پوچھا مجھے اس غلیظ کوٹھری میں سے نکال کر اس امیرانہ کمرے میں کیوں لایا گیا ہے اور ایسا مرغن اور پرلطف اور لذیذ کھانا کیوں دیا گیا ہے؟
تمہیں امام کے حکم سے قید خانے سے نکالا گیا لڑکی نے جواب دیا اور یہ کھانا اسی کے حکم سے تمہیں کھلایا گیا ہے اور مجھے امام نے ہی تمہاری خدمت کے لیے بھیجا ہے
کون امام؟
مزمل نے حیرت سا ہو کے پوچھا
امام حسن بن صباح! لڑکی نے جواب دیا مزمل چلتے چلتے رک گیا اور اس نے حیرت زدگی کے عالم میں لڑکی کو دیکھا، لڑکی مسکرا رہی تھی
کیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ؟
مزمل نے کہا جیسے اپنے آپ سے بات کر رہا ہوں
میں سمجھتی ہوں تم کیا سوچ رہے ہو لڑکی نے کہا امام کو کل بتایا گیا ہے کہ تم اسے قتل کرنے کے لیے آئے تھے اسے یہ بھی بتایا گیا کہ تمہیں قید خانے کی انتہائی غلیظ کوٹھری میں بند کر دیا گیا ہے امام نے تمہیں قید خانے میں ڈالنے والوں کو بلایا اور حکم دیا کہ انہیں بیس بیس کوڑے لگائے جائیں کیونکہ انہوں نے اس کے حکم کے بغیر ایک مہمان کو قید خانے میں ڈال دیا تھا اس طرح تمہاری رہائی کا حکم دیا گیا اور تم یہاں پہنچ گئے کیا تم واقعی حسن بن صباح کو قتل کرنے آئے تھے
ہاں! مزمل نے یوں کہا جیسے اسے شرمندگی تھی کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے آیا ہے
امام کس وقت یہاں آئے گا لڑکی نے کہا یا وہ تمہیں اپنے پاس بلائے گا
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں نہ آئے؟
مزمل نے پوچھا اور کیا یہ ممکن ہے کہ وہ مجھے اپنے پاس نہ بلائے؟
تم یہ کیوں سوچ رہے ہو؟
میں نے اگر اسے کہہ دیا کہ میں اسے قتل کرنے آیا تھا تو وہ پھر مجھے اپنے قید خانے میں پھینک دے گا مزمل نے کہا میں اس کے آگے جھوٹ نہیں بول سکو گا
تم نہیں جانتے مزمل! لڑکی نے کہا امام حسن بن صباح ایک برگزیدہ اور اللہ کی بڑی پیاری شخصیت ہیں وہ صرف سچ سنتا ہے اور سچ بولتا ہے تم صاف کہہ دینا کہ میں آپ کے دشمنوں سے متاثر ہوکر آپ کو قتل کرنے چلا آیا تھا
لڑکی مزمل کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے حسن بن صباح کی ایسی تصویر پیش کرتی رہی جو کسی فرشتے کی یا کسی پیغمبر کی ہی ہو سکتی تھی باتیں کرتے کرتے وہ مزمل کو واپس کمرے میں لے آئی مزمل نے کمرے میں پہنچتے ہی اس سے شربت کی فرمائش کی جو لڑکی نے گزشتہ رات اسے پلایا تھا صراحی کمرے میں ہی رکھی تھی لڑکی نے اسے پیالہ بھر دیا جو مزمل نے پی لیا
مزمل کا جی چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے ساتھ باتیں کرتی رہے اور وہ خود بھی بولے اور بولتا ہی چلا جائے اس غلیظ اور بدبودار کوٹری کی قید نے بھوک اور پیاس نے اس کے دماغ پر ایسا اثر کیا تھا جیسے اس کی سوچنے کی صلاحیت سو گئی ہو یا آدھی سے زیادہ صلاحیت مر ہی گئی ہو پھر اس کے دماغ پر یہ لڑکی اور اس کی باتیں غالب آ گئیں بات وہی ہوئی کہ ایک تو یہ لڑکی نشہ بن کر اس پر طاری ہوئی اور دوسری یہ بات کے اس لڑکی نے اسے حشیش پلانی شروع کر دی تھی
مزمل کے ذہن پر اور ضمیر پر بھی اب کوئی بوجھ نہیں تھا وہ ایسے احساس سے سرشار اور مخمور ہوا جا رہا تھا جیسے وہ باطنیوں میں سے ہی ہو اور یہ احساس بھی کہ وہ مکمل طور پر ہوش میں ہے
دروازے پر دستک ہوئی مزمل نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا لڑکی نے جا کر دروازہ کھولا
امام تشریف لا رہے ہیں مزمل کو باہر سے آواز سنائی دی
لڑکی نے دروازے کے دونوں کواڑ کھول دیے
حسن بن صباح کمرے میں داخل ہوا
مزمل اسے دیکھ کر اٹھا اور حیرت سے اسے دیکھتا ہی رہا
لڑکی دروازہ بند کرکے باہر ہی کھڑی ہو گئی
کمرے میں حسن بن صباح اور مزمل رہ گئے حسن بن صباح کے چہرے پر سنجیدگی سی تھی مزمل اسے خاموشی سے دیکھتا رہا اور حسن بن صباح آہستہ آہستہ کمرے میں ٹہلنے لگا کمرے میں سناٹا طاری تھا یہی وہ حسن بن صباح تھا جسے قتل کرنے کو مزمل اس قدر بے تاب تھا کہ منع کرنے کے باوجود وہ اسے قتل کرنے یہاں پہنچ گیا تھا لیکن اب اس کی حالت یہ تھی کہ اس کے دماغ میں یہ بھی سوچ نہیں آرہی تھی کہ وہ حسن بن صباح کا سامنا کس طرح کرے اور کیا کہے اس کا دل اس جذبے سے خالی ہوچکا تھا جو جذبہ اسے یہاں لایا تھا
دہکتے ہوئے انگارے برف کے ٹکڑے بن گئے تھے
مزمل آفندی! حسن بن صباح نے مزمل کے سامنے کھڑے ہو کر کہا مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ تم میرے قلعے میں مہمان بن کر آئے اور تمہیں ان بدبختوں نے قید خانے میں بند کر دیا تم مجھے قتل کرنے آئے ہو؟
حسن بن صباح مزمل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا تھا اور مزمل یوں محسوس کر رہا تھا جیسے یہ شخص اس کی روح میں اتر گیا ہو اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا اس نے اتنا ہی محسوس کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن نہ دماغ اس کا ساتھ دے رہا ہے نہ زبان میں حرکت ہو رہی ہے
حسن بن صباح نے چغّہ پہن رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک لمبا تھا اس نے چغّے کے اندر ہاتھ ڈالا اور جب ہاتھ باہر نکالا تو اس ہاتھ میں تلوار تھی مزمل نے جب حسن بن صباح کے ہاتھ میں تلوار دیکھی تو اسے موت نظر آنے لگی وہ خالی ہاتھ تھا
یہ لو! حسن بن صباح نے تلوار اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مزمل کو پیش کی اور بولا تلوار لو اور مجھے قتل کرو
مزمل تلوار کی طرف تو دیکھ ہی نہیں رہا تھا اس کی نظریں حسن بن صباح کے چہرے پر جمی ہوئی تھی حسن بن صباح نے تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ میں دے دیا مزمل نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی حسن بن صباح نے اس کی طرف پیٹھ کر لی
مزمل خاص طور پر محسوس کر رہا تھا کہ اس میں اتنی ہمت ہے ہی نہیں کہ وہ تلوار سے حسن بن صباح کی گردن اڑا دے اسے تو جیسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ حسن بن صباح کو وہ اپنا نہیں بلکہ اسلام کا بدترین دشمن سمجھتا تھا
حسن بن صباح کچھ دیر مزمل کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا رہا پھر وہ آہستہ آہستہ مڑا اور اس نے مزمل کا سامنا کیا
اگر میں جھوٹا ہوتا تو اب تک میرا سر تمہارے ہاتھوں میں میرے جسم سے الگ ہو چکا ہوتا حسن بن صباح نے کہا تم ایسے لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کر یہاں آ گئے ہو جو میری صداقت سے واقف نہیں سلطنت سلجوقی سلطان نہیں چاہتے کہ کوئی ایسی طاقت ابھرے جو بنی نوع انسان کو ان سلطانوں اور بادشاہوں سے آزاد کرا دے بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں تم تلوار چلاؤ تلوار میرے جسم کے قریب آکر رک جائے گی کیونکہ اللہ نے ابھی میرے خلاف فیصلہ نہیں دیا
مزمل کی برین واشنگ پہلے ہی ہوچکی تھی اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو وہ حسن بن صباح نے پوری کردی مزمل نے تلوار اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھائی اور حسن بن صباح کے آگے دو زانو ہو کر اس نے ہاتھ آگے کیے اور تلوار حسن بن صباح کو پیش کی حسن بن صباح نے تلوار لے لی اور چغّے کے اندر نیام میں ڈال لی
مزمل آفندی! حسن بن صباح نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے کہا تم میرے مہمان ہو میرے ساتھ آؤ
مزمل آفندی حسن بن صباح کے ساتھ چلا گیا حسن بن صباح نے غالباً دیکھ لیا تھا کہ مزمل دلیر اور خطرہ مول لینے والا جوان ہے اور یہ بڑا ہی آسان شکار ہے اس لیے حسن بن صباح نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا تھا
محترم وزیراعظم! مزمل نے نظام الملک کو اپنی یہ پراسرار داستان سناتے ہوئے کہا حسن بن صباح مجھے جب اپنے ساتھ لے گیا تو میں ایک ایسی دنیا میں داخل ہوگیا جسے میں آج ایک بڑا ھی حسین اور طلسماتی خواب سمجھتا ہوں اگر جنت کا وجود ہے تو میں نے وہ حسن بن صباح کی دنیا میں دیکھی ہے آج جب میں اپنے ہوش و حواس میں آگیا ہوں اس جنت کو خواب ہی سمجھتا ہوں حسن بن صباح میرے ساتھ خاص طور پر شفقت کرتا تھا میں اسے یوں مقدس اور متبرک شخصیت سمجھنے لگا تھا کہ آسمان پر خدا ہے تو زمین پر حسن بن صباح ہے اس نے چند دنوں میں ہی مجھے اپنے راز دینے شروع کر دیے تھے اس نے نہایت پرکشش طریقے سے مجھے آپ کے خلاف کیا اور میرے دل میں آپ کی دشمنی بھر دی میں تو بہت جلدی آپ کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا حسن بن صباح کو مجھ پر ایسا اعتبار آیا کہ اس نے اپنے کچھ راز بھی مجھے دے دیے
اب دوسری باتوں کو چھوڑو نظام الملک نے کہا میں راز کی باتیں سننا چاہتا ہوں
مزمل آفندی نے راز کی جو باتیں سنائیں وہ ابوالقاسم رفیق دلاوری نے متعدد مورخوں کے حوالوں سے “آئمہ تلبیس” میں تفصیل سے بیان کی ہیں وہ یوں ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے خاص مریدوں کو تین گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا
ایک گروہ دوسرے ملکوں میں تبلیغ کا کام کرتا تھا لیکن اس گروہ کے آدمی عام لوگوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ حاکموں اور سرداروں کی سطح کے لوگوں سے ملتے اور انہیں اپنے نظریات بتاتے اور ایسے طریقے اختیار کرتے تھے کہ یہ سرکردہ لوگ ان کے ہمنوا ہو جاتے تھے
دوسرے گروہ کے آدمیوں کو رفیق کہا جاتا تھا یہ حسن بن صباح کا ذاتی حلقہ تھا اور تمام رفیق اس کے اس حلقے میں شامل تھے
تیسرا گروہ فدائیوں کا تھا یہ جاں باز لوگ تھے جن میں سے وہ کسی کو حکم دیتا کہ اپنے آپ کو قتل کر دو تو وہ شخص تلوار اپنے دل میں اتار لیتا تھا مزمل نے بتایا کہ اس تیسرے گروہ میں جو لوگ شامل تھے اور جنہیں شامل کیا جا رہا تھا وہ تھے تو انسان ہی لیکن ان کی فطرت میں خونخواری اور مردم کُشی بھر دی گئی تھی انہیں بلّی کا گوشت کھلایا جاتا تھا وہ اس لئے کہ بلّی جب حملہ کرتی ہے تو بڑی غضب ناک ہو کر حملہ کرتی ہے اور اپنے شکار کو مار کر ہی دم لیتی ہے
فدائیوں کو تو بلّی کا گوشت کھلایا جاتا تھا لیکن رفیقوں کو یعنی دوسرے گروہ کے آدمیوں کو بادام شہد اور کلونجی کھلائی جاتی تھی یہ خوراک ان کے جسموں میں گرمی پیدا کرتی تھی اور جب یہ گرمی دماغ کو چڑھتی تھی تو انہیں جو بھی حکم دیا جاتا ہے اسی وقت پورا کرتے تھے رفیق آمنے سامنے کی لڑائی لڑتے تھے لیکن فدائی اپنے شکار کو دھوکے میں لاکر زمین دوز طریقوں سے ختم کرتے تھے حسن بن صباح نے جتنی تاریخی شخصیتوں کو قتل کروایا ہے وہ انہیں فدائیوں کے ہاتھوں کروایا ہے
ان شاء اللہ آگے کے سلسلے میں آپ کو حسن بن صباح کی جنت اور اس کی دنیا کے خفیہ گوشے تفصیل سے ملیں گے
یہاں بات صرف مزمل آفندی اور نظام الملک کی ہوگی نظام الملک نے قلعہ الموت پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کی فوج کو ٹریننگ دی جا رہی تھی
اب بتاؤ مزمل! نظام الملک نے پوچھا کیا اب بھی تم چاہتے ہو کہ اکیلے جاکر حسن بن صباح کو قتل کر دو گے؟
نہیں وزیراعظم! مزمل نے جواب دیا مجھے الموت جانے سے روکنے والے سچ کہتے تھے کہ انسان حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتا ہے اسے دھوکے میں لاکر قتل نہیں کیا جاسکتا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حسن بن صباح کو زندہ رہنے کا حق دے رکھیں اگر آپ میرے مشورے کو قبول کریں تو میں یہی کہوں گا کہ فوج کشی کے بغیر آپ باطنیوں کے پھیلتے ہوئے طوفان کو نہیں روک سکتے میں کچھ دن اس دنیا میں گزار آیا ہوں میں نے وہاں دیکھا ہے اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ نے حسن بن صباح کا راستہ نہ روکا تو وہ دن جلدی آجائے گا جب سلطنت سلجوق پر بھی حسن بن صباح کی بادشاہی ہو گی
نظام الملک نے اپنی فوج کو قلعہ الموت پر حملے کے لیے تیار کر لیا تھا اس نے بہتر یہ سمجھا کہ خونریزی نہ ہی ہو تو اچھا ہے اس نے سلطان ملک شاہ سے کہا کہ وہ حسن بن صباح کی طرف اپنا ایک ایلچی بھیجنا چاہتا ہے سلطان نے اسے اجازت دے دی اور اسی روز ایک ایلچی اس پیغام کے ساتھ الموت بھیج دیا گیا کہ حسن بن صباح اپنی یہ سرگرمیاں جو اسلام کے سراسر خلاف ہیں ختم کر دے اور سلطان ملک شاہ کی اطاعت قبول کرلے
ایلچی چلا گیا اور الموت پہنچ کر وہ حسن بن صباح سے ملا اور اسے سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کا پیغام دیا
اپنے سلطان کو اور نظام الملک کو میرا پیغام دینا حسن بن صباح نے کہا میں نے کبھی کسی کی اطاعت قبول نہیں کی اے نظام الملک! ہم دونوں اکٹھے پڑھے ہیں اور ایک ہی استاد سے پڑھے ہیں مجھے تم اس زمانے سے جانتے ہو میں تمہیں ایک مخلص دوست کی حیثیت سے مشورہ دیتا ہوں کہ الموت کا کبھی رخ نہ کرنا اور اے سلطنت سلجوق کے سلطان ملک شاہ اپنی سلطنت کی حدود میں رہو یہی تمہارے لیے بہتر ہے اور تمہارے لیے یہ بھی بہتر ہے کہ مجھے میری دنیا میں آزاد رہنے دو اگر تمہیں میرا یہ مشورہ اچھا نہ لگے تو میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تمہارا اور تمہاری فوج کا انجام بہت برا ہوگا
ایلچی وہاں سے رخصت ہونے لگا تو حسن بن صباح نے اسے روک لیا
ٹھہر جاؤ! حسن بن صباح نے اسے کہا تم شاید سمجھے نہیں کہ میں نے کیا کہا ہے یا شاید تم یہ سمجھے ہو گے کہ میں نے ویسے ہی بڑ ماری ہے میں تمہیں اپنے الفاظ کو عملی شکل میں دکھاتا ہوں
حسن بن صباح کے حکم سے سو ڈیڑھ سو آدمی جو دراصل اس کے فدائین تھے وہاں ایک صف میں آکر کھڑے ہوگئے
میرے دوستو! حسن بن صباح ان سے مخاطب ہوا میں تم سے کسی ایک کو اللہ کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں جو اللہ کے پاس جانا چاہتا ہے وہ آگے آ جائے تمام آدمی ایک ہی بار آگے آ گئے اور ہر ایک نے بلند آواز سے کہا کہ میں اللہ کے پاس جانا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے ایک آدمی کو اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ آدمی دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا
اپنے آپ کو قتل کردو حسن بن صباح نے اسے کہا
جواں سال آدمی نے اپنے کمربند میں اڑسا ہوا خنجر نکالا خنجر کی نیام الگ کر کے پرے پھینکی اور خنجر پوری طاقت سے اپنے دل میں اتار دیا وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر اس کے منہ سے بڑی زور کا نعرہ نکلا امام حسن بن صباح زندہ باد اور اس کے بعد وہ آدمی گر پڑا اور مر گیا
حسن بن صباح نے ایک اور ویسے ہی جوانسال آدمی کو بلایا وہ سب آدمی جوان تھے یا نوجوان تھے وہ آدمی دوڑتا ہوا حسن بن صباح کے سامنے جا رکا
دوڑ کر قلعے کی دیوار پر چڑھ جاؤ حسن بن صباح نے اسے کہا اور اپنے آپ کو سر کے بل نیچے گرا دو وہ نوجوان فوراً دوڑ پڑا اور تھوڑی دیر بعد وہ قلعے کی اتنی اونچی دیوار پر کھڑا نظر آیا اس نے اپنے آپ کو اس طرح سر کے بل دیوار سے گرایا جس طرح تیراک بلندی سے پانی میں ڈائیو کیا کرتے ہیں
زیادہ تر مؤرخوں نے ان دو آدمیوں کا ہی ذکر کیا ہے بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے ایک اور فدائی کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ ڈوب کر مر جائے وہ فدائی اسی وقت چلا گیا اور ڈوب کر مر گیا اس تیسرے فدائی کی موت کے ساتھ یہ نہیں لکھا گیا کہ وہ دریا میں کودا تھا یا کوئی جھیل تھی یا کوئی گہرا حوض تھا بہرحال یہ لکھا گیا ہے کہ وہ ڈوب کر مر گیا
اپنے سلطان ملک شاہ کو یہ سب کچھ سنانا جو تم نے دیکھا ہے حسن بن صباح نے ایلچی سے کہا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس اس قسم کے بیس ہزار فدائین ہیں سلطان سے پوچھنا کے تمہارے اتنے بڑے لشکر میں کوئی ایک بھی سپاہی ہے جو اس طرح تمہاری اشارے پر اپنی جان دے دے؟
اور میرے دوست نظام الملک سے کہنا کہ میں آج بھی تمہارا احترام کرتا ہوں لڑکپن کی دوستی کو قائم رکھو اور مجھ پر فوج کشی کا خیال دل سے نکال دو اگر تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی تو بے شک آ جاؤ اور جتنا بڑا لشکر اکٹھا کر سکتے ہو لے آؤ
ایلچی کے چہرے پر حیرت زدگی بلکہ کسی حد تک خوف زدگی کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے وہ چپ چاپ وہاں سے چل پڑا
ایلچی واپس مرو پہنچا تو سلطان ملک شاہ اور نظام الملک نے بے تابی سے اس سے پوچھا کہ حسن بن صباح نے کیا جواب دیا ہے ایلچی نے جو سرفروشی اور جانثاری کے مظاہرے وہاں دیکھے تھے وہ انہیں سنا دیئے اور حسن بن صباح نے جو جواب دیا تھا وہ بھی سنا دیا
سلطان ملک شاہ پر خاموشی طاری ہوگئی لیکن نظام الملک کو جیسے غصہ آگیا ہو وہ اٹھ کر کمرے میں تیز تیز چلنے لگا اور بار بار وہ اپنے ایک ہاتھ کا مکا اپنے دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا
کیا سوچ رہے ہو خواجہ ؟
سلطان ملک شاہ نے پوچھا اس کا لب و لہجہ کچھ ٹھنڈا سا تھا
میں اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں سوچ سکتا کہ فوراً کوچ کیا جائے نظام الملک نے کہا کیا یہ ابلیس یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کے گیدڑ بھبکیوں سے ڈر جائیں گے سلطان محترم میں کل صبح فجر کی نماز کے بعد کوچ کر جاؤں گا امید ہے آپ مجھے روکے گے نہیں
ہاں خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا تم کل صبح لشکر لے کر نکل جاؤ میری دعائیں تمہارے ساتھ جائیں گی
اگلی صبح فجر کی نماز سے فارغ ہوکر خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے اپنے لشکر سے خطاب کیا اس نے گزشتہ روز تمام لشکر کو تیاری کا حکم دے دیا تھا صبح لشکر کوچ کے لئے تیار تھا نظام الملک نے مختصر الفاظ میں اپنے لشکر سے کہا کہ وہ کسی کا ملک فتح کرنے نہیں جا رہے اس نے حسن بن صباح اور باطنیوں کے متعلق کچھ باتیں کی اور کہا کہ ہم سلطنت سلجوق کی توسیع کے لیے نہیں جا رہے بلکہ ایک ابلیسی قوت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے جا رہے ہیں اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم نے وقت ضائع کیا یا وہاں جا کر ہم نے جانیں قربان کرنے سے منہ پھیر لیا تو سمجھ لو کہ تمہارا دین اسلام چند دنوں کا مہمان ہے پھر یہاں نہ کوئی اللہ کا اور نہ اللہ کے رسولﷺ کا نام لینے والا زندہ رہے گا
لشکر روانہ ہوگیا عورتوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر لشکر کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا کچھ لوگ لشکر کے ساتھ دور تک گئے اور لشکر کو خدا حافظ کہہ کر واپس آگئے
لشکر ابھی راستے میں ہی تھا کہ حسن بن صباح کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ سلجوقیوں کا لشکر آ رہا ہے انہوں نے لشکر کی صحیح تعداد بھی بتا دی حسن بن صباح کے جاسوس ہر جگہ موجود تھے مورخ لکھتے ہیں کہ کوئی بات ابھی سلطان تک نہیں پہنچتی تھی لیکن حسن بن صباح تک پہلے پہنچ جاتی تھی
مسلمان مورخوں کے علاوہ دو یوروپی مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اطلاع ملی کے نظام الملک لشکر لا رہا ہے تو حسن بن صباح کا ردے عمل صرف اتنا سا تھا کہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اس نے ایسا نہیں کیا کہ اٹھ کر دوڑ پڑتا اور اپنے لشکر کو تیاری کا حکم دیتا یا لشکر کو اکٹھا کرکے کوئی اشتعال انگیز تقریر کرتا وہ اطمینان اور آرام سے بیٹھا رہا اس کے پاس تین چار خاص معتمد اور مشیر بیٹھے ہوئے تھے
تم نے سن لیا ہے حسن بن صباح نے انہیں کہا نظام الملک کو راستے میں ہی قتل کر دو
بس اتنی سی بات تھی جو حسن بن صباح کے منہ سے نکلی اس کے پاس بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے ایک اٹھا اور باہر نکل گیا
یہاں تاریخ نویسوں میں تھوڑا سا اختلاف پایا جاتا ہے جو کوئی اتنا اہم نہیں لیکن اس کا ذکر ضروری ہے کچھ نے لکھا ہے کہ نظام الملک کو سلطان ملک شاہ نے مرد سے ہی رخصت کر دیا تھا لیکن زیادہ تعداد تاریخ نویسوں کی ایسی ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ بغداد جا رہا تھا وہ لشکر کے ساتھ چل پڑا اس کا ارادہ یہ تھا کہ راستے سے بغداد کی طرف چلا جائے گا چونکہ مورخوں کی زیادہ تعداد نے یہی لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ لشکر کے ساتھ گیا تھا اور اس سے آگے کے جو حالات تاریخ میں نظر آتی ہیں وہ بھی گواہی دیتی ہیں کہ سلطان ملک شاہ لشکر کے ساتھ گیا تھا اس لئے داستان گو یہی صحیح سمجھتا ہے
راستے میں جاکر سلطان ملک شاہ نے خواہش ظاہر کی کہ نہاوند کے مقام پر پڑاؤ کیا جائے نہاوند بڑا مشہور قصبہ تھا جس کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت تھی بیسویں ہجری میں یہ مقام حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فتح ہوا تھا اس لڑائی میں صحابہ کرامؓ کی اچھی خاصی تعداد شہید ہوئی تھی
وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا ان لوگوں نے نہاوند پہنچ کر روزہ افطار کیا رات تراویح کی نماز سب نے پڑھی نماز تراویح کے بعد نظام الملک اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑا تاریخ کے مطابق لشکر نے تو اپنے لیے خیمے گاڑ لیے تھے لیکن سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کی رہائش کا انتظام قصبے میں ایک بڑے اچھے مکان میں کیا گیا تھا اس وقت سلطان ملک شاہ نظام الملک کے ساتھ نہیں تھا…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:28 }
وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا ان لوگوں نے نہاوند پہنچ کر روزہ افطار کیا رات تراویح کی نماز سب نے پڑھی نماز تراویح کے بعد نظام الملک اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑا تاریخ کے مطابق لشکر نے تو اپنے لیے خیمے گاڑ لیے تھے لیکن سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کی رہائش کا انتظام قصبے میں ایک بڑے اچھے مکان میں کیا گیا تھا اس وقت سلطان ملک شاہ نظام الملک کے ساتھ نہیں تھا
نظام الملک جب اپنی قیام گاہ کے قریب پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ اکٹھے دیکھے جو نظام الملک کو دیکھنے یا اسے ملنے آئے تھے نظام الملک ان کے درمیان جا پہنچا اور جو کوئی بھی آگے آیا اس کے ساتھ اس نے ہاتھ ملایا
کیا سلجوقیوں کا وزیراعظم ایک مظلوم کی فریاد سنے گا؟
ایک آواز سنائی دی میں درخواست لے کر آیا ہوں
نظام الملک عدل و انصاف کا پابند تھا اور ہر کسی سے انصاف کرنا وہ اپنا دینی فریضہ سمجھتا تھا اس نے جب یہ فریاد سنی تو بلند آواز سے کہا کہ یہ شخص آگے آکر اپنی عرضی مجھے دے دے
ایک جواں سال آدمی آگے آیا اور اس نے احتجاج یا غصے کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ اس کے ہاتھ میں جو کاغذ تھا وہ نظام الملک کے ہاتھ میں دینے کی بجائے اس کے قدموں میں پھینک دیا اور غصے سے بولا یہ لو میری فریاد اور مجھے انصاف دو
نظام الملک کاغذ اٹھانے کے لیے جھکا کاغذ پھینکنے والے شخص نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور جھکے ہوئے نظام الملک کی پیٹھ میں اس قدر زور سے مارا کہ خنجر دل کو چیرتا ہوا دوسری طرف نکل گیا
لوگوں نے قاتل کو وہیں پکڑ لیا نظام الملک پیٹھ میں خنجر لئے ہوئے سیدھا ہوا اس کے آخری الفاظ یہ تھے اسے میرے قصاص میں قتل نہ کرنا لیکن لوگوں نے اس کی نہ سنی کچھ نے نظام الملک کو اٹھایا اور زیادہ تر نے قاتل کے جسم کو قیمہ بنا ڈالا
اس قاتل کا نام ابو طاہر تھا وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا
نظام الملک کو 1092 عیسوی میں قتل کیا گیا تھا
انا للہ و انا الیہ راجعون
سلطان ملکشاہ کو اطلاع ملی تو وہ دوڑا آیا نظام الملک فوت ہو چکا تھا اور قاتل کی لاش اس حالت میں باہر پڑی تھی کہ لوگوں نے اس کے اعضاء بھی کاٹ کر اِدھر اُدھر پھینک دیے تھے سلطان نے الموت پر فوج کشی کا ارادہ ترک کر دیا اور وہیں سے واپس آ گیا
خواجہ حسن طوسی نظام الملک کوئی معمولی آدمی نہیں تھا وہ درباری قسم کا یا رسمی سا وزیراعظم بھی نہیں تھا اس نے اپنی زندگی میں ہی ایک مدرسہ کھولا تھا جو آج بھی بغداد میں موجود ہے نظام الملک نے اس مدرسے کا نام مدرسہ نظامیہ رکھا تھا، اس مدرسے نے بڑی نامور اور تاریخی شخصیتیں پیدا کی ہیں امام غزالیؒ اس مدرسے سے پڑھے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی اور بہاءالدین شداد جو ایک مشہور اسکالر اور عالم تھا صلاح الدین ایوبی کے ساتھ اس مدرسے میں پڑھا تھا بہاءالدین شداد تمام صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ایوبی کے ساتھ پرسنل سیکریٹری کی حیثیت سے ایلچی اور مشیر کی حیثیت سے رہا تھا
سلطان ملک شاہ کی فوج جب واپس آتے ہوئے مرو سے کچھ دور تھی تو لوگ گھروں سے نکل آئے اور جو کوئی جس کام میں مصروف تھا وہ چھوڑ کر اس راستے پر آ کھڑا ہوا جس پر فوج آ رہی تھی عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہ سمجھے جو فوج اتنی جلدی واپس آ رہی ہے وہ یقیناً فتحیاب واپس آ رہی ہے
لوگ دوڑ کر آگے چلے گئے تاکہ اپنی فاتح فوج کا استقبال جوش و خروش اور فتح کے نعروں سے کریں انہوں نے دیکھا کہ فوج کے آگے آگے مجاہدین نے کسی کی لاش اٹھا رکھی تھی پوچھا تو جواب ملا کہ وزیراعظم نظام الملک قتل ہوگئے ہیں یہ بھی لوگوں کو بتا دیا گیا کہ قاتل باطنیوں کا فدائ تھا لوگ واپس شہر کی طرف دوڑے اور نظام الملک کے قتل کی خبر سارے شہر میں پھیلا دی
پورا شہر ماتم کدہ بن گیا نظام الملک لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا تھا وہ ہر کس و ناکس کا ہمدرد تھا شہر میں کہرام بپا ہوگیا عورتیں باہر آ کر بین کرنے لگیں
لوگوں نے حسن بن صباح اور باغیوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگانے شروع کر دیئے
ایک بھی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
حسن بن صباح کو یہاں لاکر درخت کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دیں گے
انتقام خون کا بدلہ خون انتقام
فوج کو پھر واپس لے جاؤ
اور ایسی بے شمار آوازیں تھیں جو بگولے بن کر اٹھ رہی تھیں مائیں بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ہم اپنے جوان بیٹے قربان کر دے گی لڑکے اور نوجوان بے قابو ہوئے جارہے تھے وہ کہتے تھے کہ وہ الگ لشکر بناکر الموت پر حملہ کریں گے
نظام الملک کی میت اس کے گھر لائی گئی جہاں میت کو غسل دے کر اسے کفن پہنا دیا گیا پھر میت کو ایک خوشنما پلنگ پر رکھ کر سر سبز لان میں رکھ دیا گیا شہر کے تمام لوگ ایک قطار میں میت کے قریب سے گزرنے اور اپنے محبوب وزیراعظم کا آخری دیدار کرنے لگے وہاں صرف یہ نہیں تھا کہ تمام آنکھیں اشکبار تھیں بلکہ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے بعض جوشیلے آدمی میت کے قریب ہو کر انتقام اور خون کا بدلہ خون کے نعرے لگا کر آگے جاتے تھے لوگ اس قدر مشتعل تھے کہ ماتم ایک بے قابو ہنگامے کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا کئی عورتیں سینہ کوبی کر رہی تھیں
سلطان ملک شاہ کی جذباتی حالت عام شہریوں جیسی ہی تھی وہ تو ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا نظام الملک اس کا دست راست تھا اس کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی تھی نظام الملک صرف انتظامی امور کا ہی ماہر نہ تھا بلکہ جنگی امور اور سپہ سالاری میں بھی مہارت رکھتا تھا سلطان ملک شاہ نے دیکھا کہ لوگ انتقام کی آگ میں جلنے لگے ہیں اور ان پر قابو پانا ضروری ہے تو وہ نظام الملک کے گھر کے اندر چلا گیا وہ بالائی منزل کی ایک کوٹھری میں جا کھڑا ہوا جو باہر کی طرف کھلتی تھی
مرو کے لوگوں! سلطان ملک شاہ نے بلند آواز سے کہا تھوڑی سی دیر کے لیے خاموش ہو جاؤ
کئی آوازیں سنائی دیں خاموش خاموش سلطان کی بات سنو خاموش
اپنے جذبات پر قابو پاؤ سلطان ملک شاہ نے کہا مت سوچو کہ میں نظام الملک کے خون کو بھول جاؤں گا باطنیوں نے نظام الملک کی پیٹھ میں خنجر نہیں مارا بلکہ انہوں نے سلطنت سلجوقیہ کے دل میں خنجر اتار دیا ہے لیکن یہ سلطنت خداداد اس طرح نہیں گرے گی جس طرح حسن بن صباح اور اس کے باطنی سمجھتے ہیں میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ نظام الملک کے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے بیس بیس باطنیوں کا خون بہایا جائے گا یہ باطنی اسلام کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں ہم نے لشکر کشی سے کوئی ملک کو فتح نہیں کرنا ہم نے اس باطل کو خاک و خون میں گم کر دینا ہے میں اپنی فوج کو نہاوند سے ہی اس لئے واپس لے آیا ہوں کہ تمام فوج پر رنج و غم کے بادل چھا گئے تھے اور ہر مجاہد پر ماتم اور انتقام کی کیفیت طاری ہوگئی تھی اس جذباتی کیفیت میں لڑائیاں لڑیں تو جا سکتی ہیں لیکن جیتی نہیں جاسکتی میں اپنے لشکر کی نفری میں اضافہ کروں گا اور ہم المُوت پر ایسا حملہ کریں گے کہ باطنیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا اور الموت کو ہم کھنڈر بنا کر واپس آئیں گے
ہم سب اس لشکر میں شامل ہوں گے پہلے ایک آواز آئی اور پھر بہت سی آوازیں گوجنے اور گرجنے لگیں لشکر فوراً بناؤ ہم سب تیار ہیں ہم کسی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
عورتوں کا جوش و خروش الگ تھا عورتوں کی طرف سے بار بار یہی للکار سنائی دے رہی تھی ہمارے بیٹوں کو لے جاؤ انہیں اسلام کے نام پر قربان کر دو نظام الملک کے خون کا انتقام لو
ادھر الموت میں حسن بن صباح کو خبر مل چکی تھی کہ نظام الملک کو نہاوند میں ابو طاہر نام کے ایک فدائی نے قتل کر دیا ہے حسن بن صباح نے یہ خبر ملتے ہی اپنے خصوصی نائبین کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا تھا
ابو طاہر نے ایک آدمی کو ہی ختم نہیں کیا حسن بن صباح کہہ رہا تھا اس نے ایک فوج کو قتل کر دیا ہے کہاں ہے سلجوقیوں کی وہ فوج جو الموت کو محاصرے میں لینے آ رہی تھی؟
وہ فوج واپس چلی گئی ہے میں نے تمہیں کچھ عرصہ پہلے یہ بات کہی تھی کہ فوج کا آمنے سامنے آ کر لڑنا نقصان دہ ہوتا ہے اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ حملہ آور فوج کو مارنے کی بجائے اس حاکم کو مار ڈالوں جس کے حکم سے فوج لڑتی ہے اب تم نے عملی طور پر اس اصول کا مظاہرہ اور نتیجہ دیکھ لیا ہے تم کسی دشمن بادشاہ کے لشکر کو کیوں مارنے یا شکست دینے کی کوشش کرتے ہو؟
خود اس بادشاہ کو ہی مار ڈالو اس کا لشکر خود ہی بھاگ جائے گا کیا مرو تک ہمارا کو آدمی پہنچا ہے یا نہیں؟
ہاں امام! ایک آدمی نے جواب دیا وہ تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جس وقت یہ اطلاع پہنچی تھی کہ نظام الملک کو ہمارے ایک فدائی نے قتل کردیا ہے
مجھے بہت جلدی معلوم ہونا چاہیے کہ مرو کے لوگوں کا کیا ردعمل ہے حسن بن صباح نے کہا سب سے زیادہ ضروری بات تو یہ معلوم کرنی ہے کہ سلطان ملک شاہ اب کیا جوابی کارروائی کرے گا وہ ڈر کر تو نہیں بیٹھ جائے گا اس نے انتقامی کاروائی ہر حال میں کرنی ہے لیکن میں وہاں کے لوگوں کے تاثرات معلوم کرنا چاہتا ہوں
ہاں امام! وہی آدمی بولا ہم نے یہ بندوبست بھی کر لیا ہے
مجھے ایک ایک لمحے کی اطلاع ملنی چاہیے کہ مرو میں کیا ہو رہا ہے حسن بن صباح نے کہا اگر سلطان ملک شاہ الموت پر حملے کی تیاری کر رہا ہو تو ہم اسے بھی نظام الملک کی طرح خدا کے پاس بھیج دیں گے
سلطان ملک شاہ کے تین بیٹے تھے بڑے کا نام برکیارق تھا اس سے چھوٹا محمد تھا اور اس کے بعد سنجر تھا چھوٹے دونوں بھائی نوجوان تھے اور برکیارق ایک اچھا خاصہ بارعب جوان بن چکا تھا اور وہ عقلی طور پر اتنا بالغ ہو گیا تھا کہ وہ باپ کو بڑے کارآمد مشورے دینے لگا تھا
ان کا ردے عمل تو بہت ہی شدید تھا مزمل آفندی بھی مرو میں ہی رہتا تھا اس کی سلطان ملک شاہ کے تینوں بیٹوں کے ساتھ گہری دوستی تھی مزمل آفندی پر تو دیوانگی طاری ہو چکی تھی وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن وہاں اس کی ایسی برین واشنگ ہوئی کہ وہ نظام الملک کو قتل کرنے کے ارادے سے واپس آ گیا تھا یہ تو شاہی طبیب اور شمونہ کا کمال تھا کہ ان دونوں نے مزمل آفندی پر قابو پا لیا اور اسے بیدار کر لیا تھا اس کے سینے میں تو حسن بن صباح کی نفرت ایسی شدید صورت اختیار کر گئی تھی جیسے اس کے وجود میں آگ لگی ہوئی ہو اس کے ذہن میں ایک ہی سوچ تڑپتی رہتی تھی کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا لیکن ہوا یہ کہ اس کا پیرومرشد نظام الملک حسن بن صباح کے ایک فدائی کے ہاتھوں قتل ہوگیا
نظام الملک کو دفن ہوئے بہت دن گزر گئے تھے سلطان ملک شاہ نے حکم دے دیا تھا کہ لشکر کی نفری بڑھائی جائے اور لشکر کو تیار کیا جائے شہر کے جوان دھڑا دھڑ لشکر میں شامل ہو رہے تھے اور ان کی ٹریننگ شروع کردی گئی تھی انہی دنوں مزمل آفندی سلطان ملک شاہ کے تینوں بیٹوں کے پاس گیا ملک شاہ کے بیٹوں پر بھی جوش و خروش اور انتقام کا جذبہ غالب تھا
میرے دوستو مزمل آفندی نے کہا بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے میں تمہیں آج ہی بتا دیتا ہوں کہ بڑے سے بڑا لشکر بھی الموت جاکر ناکام ہو جائے گا اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ایک تو الموت کا قلعہ ایسا ہے کہ اسے محاصرے میں لیا ہی نہیں جا سکتا یہ بھی حقیقت ہے کہ حسن بن صباح کے پاس جو جانباز ہیں ان جیسے جانباز ہمارے لشکر میں نہیں حسن بن صباح کوئی ایسی چال چلے گا جس سے ہمارا لشکر بیکار ہو کر رہ جائے گا
پھر کیا کرنا چاہیے؟
سلطان ملک شاہ کے بڑے بیٹے برکیارق نے پوچھا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم خاموش ہو کر بیٹھ جائیں
یہی بات تو میں تم تینوں سے کرنے آیا ہوں مزمل آفندی نے کہا باطنیوں کو شکست دینے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے پیر و مرشد احمد بن عطاش کو قتل کر دیا جائے لیکن کام یہ بھی آسان نہیں تم تینوں اچھی طرح جانتے ہو کہ میں حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا پھر مجھ پر جو بیتی وہ بھی تم جانتے ہو میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس قسم کے چند ایک جانباز تیار کرو جیسے حسن بن صباح نے تیار کر رکھے ہیں میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کی رہنمائی کروں گا لڑنا ہوا تو لڑوں گا اور قتل کرنے کا موقع ملا تو جس جس کو قتل کرنا ہے کروں گا
میں آج ہی سالاروں کو بلا کر کہہ دوں گا برکیارق نے کہا مجھے امید ہے کہ اپنی جانوں پر کھیلنے والے چند ایک آدمی ضرور ہی مل جائیں گے
لیکن برکیارق! مزمل آفندی نے کہا اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم کسی کو سونے چاندی کا لالچ دے کر تیار کرلو گے کہ وہ اپنی جان پر کھیل جائے گا تو تم بہت بڑی اور بڑی ہی خطرناک خوش فہمی میں اپنے آپ کو مبتلا کروگے حسن بن صباح نے اپنے جانبازوں پر مذہب اور عقیدے کا جنون طاری کر رکھا ہے اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے جانبازوں کو بلا کر ان کے دماغوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہاں تو یہ عالم ہے کہ سوچتا حسن بن صباح ہے اور عمل اس کے فدائی کرتے ہیں کیا ہم اس طرح اور اس طریقے سے جانباز پیدا نہیں کر سکتے ؟
کر سکتے ہیں برکیارق کے چھوٹے بھائی محمد نے کہا لیکن پہلے سالاروں کے ساتھ بات کر لی جائے
یہاں جانبازوں کی بات تو ہو رہی تھی اور ان لوگوں کو امید تھی کہ وہ اسی قسم کی جانباز تیار کر سکیں گے جیسے حسن بن صباح نے تیار کر رکھے تھے لیکن مورخ لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح نے جس طرح فدائی تیار کیے تھے اس طرح بعد میں کوئی نہیں کر سکا پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے جانبازوں کو خوراک کیا کھلائی جاتی تھی پلایا کیا جاتا تھا اور انھیں عیش و عشرت کے لئے کیسے کیسے سامان مہیا کیے جاتے تھے باطنی جانبازوں کو تو حسن بن صباح نے درندے بنا ڈالا تھا جن کا کام چیرنے پھاڑنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا ان کے ذہنوں میں یہ ڈالا گیا تھا کہ جان دے کر ایک اور زندگی شروع ہوتی ہے جس میں صرف عیش و عشرت ہے اس کے سوا اور کوئی ذمہ داری اور کوئی کام نہیں
مرو میں شمونہ بھی تھی اسے چھوٹی سی عمر میں حسن بن صباح کے ڈاکوؤں نے قافلے سے اغواء کیا تھا اور اس طرح اسے ماں باپ سے جدا کر دیا تھا پھر ان لوگوں نے اس کے باپ کو قتل کر دیا تھا وہ مرو میں جس طرح آئی اور جس طرح نظام الملک کے سائے میں پہنچی وہ پہلے سنایا جاچکا ہے وہ تو نظام الملک کو اپنا روحانی باپ سمجھتی تھی اس باپ کو بھی حسن بن صباح کے ایک فدائی نے قتل کر دیا وہ اس قدر روئی کہ اس کی ماں کو یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ یہ لڑکی روتے روتے مر جائے گی یا دماغی توازن کھو بیٹھے گی
ایک روز اچانک اس کا رونا بند ہوگیا اور اس کی آنکھیں خشک ہو گئی وہ ماں کے پاس جا بیٹھی
رات خواب میں نظام الملک سے ملاقات ہوئی ہے شمونہ نے ماں سے کہا انہوں نے گلہ کیا ہے کہ تم نے ابھی تک میرے قتل کا انتقام نہیں لیا
اس کی ماں نے یہ بات سنی اور جس انداز سے شمونہ نے یہ بات کی تھی اس سے ماں کو یقین ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے
انہیں تم سے بہت پیار تھا ماں نے کہا بس یہی وجہ ہے کہ وہ تمہیں خواب میں نظر آئے ہیں
نہیں ماں! شمونہ نے کہا وہ مجھے کہنے آئے تھے کہ میرے خون کا انتقام صرف تم لے سکتی ہو اور تم انتقام لو میں اب انتقام لے کے ہی رہوں گی نظام الملک میرے روحانی باپ تھے
انتقام لو گی کیسے؟
ماں نے پوچھا کیا تم الموت جاکر حسن بن صباح کو قتل کر سکتی ہو؟
ماں نے پوچھا اور کہا تم اس کے پاس رہ چکی ہو وہ جونہی تمھیں دیکھے گا حکم دے دے گا کہ اس لڑکی کو قتل کر دیا جائے اس کے کئی آدمی تمہیں پہچانتے ہوں گے
میری بات غور سے سنو ماں شمونہ نے کہا میں نے زبان کے داؤ پیچ اور ہیر پھیر حسن بن صباح سے سیکھے ہیں یہ اسی پر آزماؤں گی میرے پاس خنجر ہو گا میں اس کے پاس چلی جاؤں گی اور کہوں گی کہ تمہاری محبت مجھے تمہارے پاس کھینچ لائی ہے اس سے پہلے کے وہ مجھے جلاد کے حوالے کرے میں خنجر اس کے دل میں اتار چکی ہونگی
ماں نے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے بہت دلیل دی اپنی محبت کا واسطہ بھی دیا اور یہ بھی کہا کہ تم نہ رہی تو میرا اس دنیا میں اور کون ہوگا میں اپنی جان خود ہی لے لوں گی لیکن شمونہ پر کسی بات کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا شمونہ اپنے ارادے پر ڈٹی رہی وہ ماں کی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہوتی تھی
ماں نے جاکر مزمل آفندی کو بتایا مزمل آفندی اس کے گھر چلا گیا اس نے شمونہ کو ایسی جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں دیکھا جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ حسین و جمیل لڑکی اپنے آپ میں ہے ہی نہیں اور اس کا دماغی توازن مشکوک ہے مزمل نے اس پر اپنی محبت کا طلسم طاری کرنے کے لئے کچھ جذباتی باتیں کیں
مجھے کچھ نہ کہو مزمل! شمونہ نے کہا محبت بعد کی بات ہے اس وقت میری عقل اور میری روح پر نظام الملک کا خون سوار ہے جب تک میں اس خون کا قرض چکا نہیں لیتی میں اس محبت کو ذہن میں لا ہی نہیں سکتی
یہ بھی سن لو شمونہ! مزمل نے کہا جب تک میں زندہ ہوں تم گھر سے باہر قدم نہیں رکھوں گی کیا تم یہ سمجھتی ہوں کہ ہم مرد مرگئے ہیں یا ہم اتنے بے حس اور بے غیرت ہو گئے ہیں کہ نظام الملک جیسے انسان کا خون ذہن سے اتار دیں گے؟
میں جاؤنگا ہم جانبازوں کا ایک گروہ تیار کر رہے ہیں مجھے پوری امید ہے کہ وہ دن جلدی طلوع ہوگا جس دن میں احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی لاشیں تمہارے قدموں میں لا رکھوں گا
تم پہلے بھی وہاں گئے تھے شمونہ نے کہا
وہ تجربہ اب مجھے کام دے گا مزمل نے کہا
اب میں اکیلا نہیں جاؤں گا جانبازوں کا ایک گروہ لے کر جاؤں گا کیا تم دیکھ نہیں رہی ہوں کہ الموت پر حملے کے لئے اتنا بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے؟
میں کچھ دن انتظار کر لونگی شمونہ نے کہا اگر تم لوگ ناکام ہو گئے تو پھر یہ کام میں کرکے دکھا دوں گی
وہاں اگر کوئی سب سے زیادہ اذیت میں مبتلا تھا تو وہ سلطان ملک شاہ تھا اس سلطان کے آباؤ اجداد نے اسلام کے گرتے ہوئے پرچم کو سنبھالا اور سلطنت سلجوقیہ قائم کی تھی
تمام مؤرخ اس حقیقت پر متفق ہیں کہ سلطان ملک شاہ اس دور میں اسلام کا محافظ اور پاسبان تھا اس وقت کا خلیفہ تو برائے نام تھا سلطان ملک شاہ حالات کے ایسے بھنور میں آ گیا تھا جس میں سے اسکے لئے اکیلے نکلنا محال تھا اس کے انتظامی اور دیگر امور اور مسائل میں نظام الملک کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے جسم میں دماغ ہوتا ہے نظام الملک سلطان ملک شاہ کا بازو ہی نہیں بلکہ زور بازو بھی تھا اسے اپنے تین بیٹوں میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں تھا ان میں قومی اور دینی جذبہ تو تھا اور ان میں جوش وخروش بھی تھا لیکن ان میں وہ عقل اور فہم و فراست نہیں تھی جس کی ان حالات میں ضرورت تھی
جو مشکلات اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھیں ان میں ایک یہ تھی کہ قلعہ الموت عام قلعوں جیسا نہیں تھا پہلے اس قلعے کی ساخت اور محل وقوع بیان ہو چکا ہے یہاں مختصراً ذکر ہوگا کہ یہ قلعہ کیسا تھا یہ قلعہ پہاڑی کے اوپر تھا اس کے ایک طرف دریا اور دوسری طرف دلدل اور جھیل تھی یہ قلعہ تو بہت ہی خوبصورت اور خوش نما تھا وہاں گھنے درخت تھے رنگا رنگ پھولوں والے خود رو پودے تھے رنگارنگ پتوں والی خوشنما جھاڑیاں تھیں اور گھاس مخمل کے فرش کی طرح پھیلی ہوئی تھی جس پہاڑی پر یہ قلعہ اور شہر تھا وہ تو ہریالی اور خودرو پھول دار پودوں اور بڑے ہی خوشنما درختوں کی وجہ سے اس قدر خوبصورت تھی کہ یہ اس زمین کا حصہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا اس سارے خطے کو دیکھ کر بڑے ہیں حسین خواب کا گمان ہوتا تھا لیکن قدرت کے اس حسن میں بڑے ہی خوفناک خطرے پوشیدہ تھے
یہ ایک قدیم قلعہ تھا جو سلطان ملک شاہ نے دو تین مرتبہ دیکھا تھا اس قلعے میں خطرہ یہ تھا کہ جتنا اوپر نظر آتا تھا اس سے تین گناہ زیادہ نیچے پہاڑی کے اندر یعنی زمین دوز تھا نیچے بڑی مضبوط چٹان تھی جو خاصی لمبی اور چوڑی تھی کاریگروں نے اس چٹان کو نیچے سے کاٹ کاٹ کر رہداریوں کمروں اور راستوں کی بھول بھلیاں بنا ڈالی تھیں کوئی اجنبی وہاں جا نکلتا تو پھر اس کا وہاں سے نکل آنا ممکن نہیں ہوتا تھا وہاں گھوڑے اور اونٹ غائب ہو جاتے تھے سلطان ملک شاہ کو جو مسئلہ پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ اس قلعے کو محاصرے میں لینے کے لئے اور پھر اس پر حملہ کرنے کے لئے بہت ہی بڑے لشکر کی ضرورت تھی اور پھر اصل ضرورت یہ تھی کہ اس لشکر کو خاص قسم کی ٹریننگ دی جائے
سلطان ملک شاہ نے وہاں اور ارد گرد کے علاقے میں اپنے جاسوس پھیلا رکھے تھے الموت کے اندر بھی جاسوس موجود تھے وہ وقتاً فوقتاں مرو آ کر سلطان ملک شاہ کو وہاں کی خبریں اور اطلاع دیتے رہتے تھے لیکن اب وہاں سے جو اطلاعات آ رہی تھیں وہ مشکلات میں اضافہ کر رہی تھیں مثلا نظام الملک کے قتل کے ایک مہینے بعد دو جاسوسوں نے الموت سے آکر سلطان ملک شاہ کو اکر بتایا کہ باغیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور انہوں نے تبلیغ کا کام تیز کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اردگرد کے بلکہ دور دور تک کے قلعوں پر لڑے بغیر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے سب سے زیادہ خطرناک خبر یہ تھی کہ ان تمام علاقوں پر باطنی اس طرح غالب آ گئے تھے جیسے وہاں کے لوگ حسن بن صباح کو امام ہی نہیں بلکہ نبی تک ماننے لگے تھے عام سی قسم کے لوگوں میں بھی حسن بن صباح کے حکم پر جان قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا
ایک روز سلطان ملک شاہ نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا
میرے عزیز بیٹوں! سلطان ملک شاہ نے کہا اسلام پر اتنا خطرناک وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا جتنا خطرناک اور خوفناک وقت اب آیا ہے ہم نے اپنی سلطنت کا ہی دفاع نہیں کرنا بلکہ ہماری ذمہ داری اسلام کا تحفظ اور فروغ ہے جس روز سلطنت سلجوقیہ ختم ہوگئی اسی روز اسلام کا پرچم بھی گر پڑے گا بادشاہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوا کرتے لیکن میں اللہ کے حضور جوابدہ ہوں یہ سلطنت میری نہیں تمہاری نہیں اور تمہارے آبا واجداد کی بھی نہیں یہ اللہ کی سلطنت ہے جس کا دفاع ہماری ذمہ داری ہے میں نے تمہیں بتایا نہیں تھا کہ میں کئی رات سویا بھی نہیں ہوں میں ہمہ وقت پریشان رہتا ہوں میں اپنے سر میں گرانی محسوس کرنے لگا ہوں میں اکیلا رہ گیا ہوں
پیدر محترم ! بڑے بیٹے برکیارق نے کہا ہم تین بھائیوں کی موجودگی میں آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ آپ اکیلے رہ گئے ہیں میں ایک بات کہوں گا نظام الملک شہید کو ہم اپنا روحانی باپ سمجھتے تھے اللہ نے جو عقل و دانش انہیں عطا کی تھی وہ کسی کو عطا نہیں ہوا کرتی یہ میں بھی محسوس کیا کرتا ہوں کہ نظام الملک کے اٹھ جانے سے ہم کمزور ہوگئے ہیں لیکن ہم نے یہ کمزوری اپنے آپ میں ان کی زندگی میں ہی پیدا کر لی تھی آپ کے سامنے کوئی مسئلہ آیا تو آپ نے خود سوچنے اور فیصلہ کرنے کی بجائے وہ مسئلہ نظام الملک کے سپرد کر دیا یہ وجہ ہے کہ آج آپ اپنے آپ کو تنہا اور کمزور سمجھ رہے ہیں بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے اور اس لشکر میں آگ جیسا جذبہ موجود ہے یہ لشکر جب حملہ کرے گا تو باطنیو کے لیے یہ خاک و خون کا طوفان ثابت ہوگا
نہیں بیٹے! سلطان ملک شاہ نے کہا یہی تو اس مسئلہ کا وہ پہلو ہے جسے تم سمجھ نہیں رہے الموت کو لشکر کے زور پر فتح نہیں کیا جا سکتا میں تو سوچ سوچ کر پریشان ہو گیا ہوں تم مجھے سوچنے میں مدد دو ہمیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا
ہمیں موقع دے پیدر محترم! اس کے بیٹے محمد نے کہا آپ اتنے زیادہ بھی پریشان نہ ہو جائیں ہم نے خود بھی ایک اور طریقہ اختیار کر رہے ہیں ہم جانبازوں کا ایک گروہ تیار کر رہے ہیں
سلطان ملک شاہ نے اپنے بیٹوں کو اپنی جو ذہنی اور جذباتی حالت بتائی تھی وہ بہت ہی کم بتائی تھی مورخ لکھتے ہیں کہ اس وقت سلطان ملک شاہ اعصابی تکلیف میں مبتلا ہو چکا تھا مسائل تو الگ تھے صرف نظام الملک کے غم نے ہی اسے نڈھال کر دیا تھا وہ عیش و عشرت کا دلادہ نہیں تھا بنی نوع انسان کی محبت دل میں رکھنے والا سادہ طبیعت انسان تھا اس کی عمر بھی کچھ زیادہ ہوگئی تھی جس سے جسم میں قوت مدافعت کم ہو گئی تھی غم اور مسائل نے اس کے اعصاب پر اتنا زیادہ بوجھ ڈال دیا تھا جو اس کے اعصاب برداشت نہ کر سکے ایک روایت یہ بھی ہے کہ تنہائی میں اسے روتے بھی دیکھا گیا تھا اس کی چال ڈھال میں پہلے والی شان وشوکت نہیں رہی تھی اس نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت شروع کردی تھی شب بیداریوں کا اثر الگ تھا
جس طرح الموت کی خبریں اور اطلاعات سلطان ملک شاہ کے جاسوس مرو تک پہنچا رہے تھے اسی طرح حسن بن صباح کے جاسوس مرو کی خبریں حسن بن صباح تک لے جا رہے تھے
دونوں اطراف میں فرق یہ تھا کہ سلطان ملک شاہ کو جب الموت کے بارے میں راز کی کوئی بات معلوم ہوتی تھی تو وہ پریشان ہو جاتا تھا لیکن جب حسن بن صباح کو اس کا کوئی جاسوس مرو سے جا کر یہ بتاتا تھا کہ مرو میں بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے اور اس لشکر کو جنگی تربیت دی جا رہی ہے اور اس لشکر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو حسن بن صباح کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہونے کی بجائے اس کے ہونٹوں پر لطیف سا تبسم آ جاتا تھا اسے یہاں تک معلوم ہو گیا تھا کہ سلطان ملک شاہ پہلے والا تندرست و توانا اور چاک و چوبند سلطان نہیں رہا جاسوسوں نے حسن بن صباح کو یہ بھی بتایا تھا کہ سلطان ملک شاہ کی چال ڈھال اور بولنے کے انداز میں بھی نقاہت آ گئی ہے
ایک روز مزمل آفندی گھڑ دوڑ کے میدان کے باہر تماشائیوں میں کھڑا سواروں کی ٹریننگ دیکھ رہا تھا اسے کوئی جواں سال آدمی ملتا تو وہ اسے سب سے پہلے یہ بات کہتا تھا کہ وہ لشکر میں کیوں شامل نہیں ہوا اس روز وہ گھوڑ سواروں کی ٹریننگ اتنی دل چسپی سے نہیں دیکھ رہا تھا جتنی توجہ سے وہ تماشائیوں کو دیکھتا پھرتا تھا وہ تین چار نوجوانوں سے کہہ چکا تھا کہ وہ تماشا دیکھنے کی بجائے لشکر میں شامل ہوجائیں تو انہیں شہسوار بنا دیا جائے گا وہ اس کوشش میں تھا کہ لشکر میں اضافہ ہوتا چلا جائے اور زیادہ نوجوان لشکر میں بھرتی ہوں
وہ تماشائیوں میں گھوم پھر رہا تھا کہ اسے اپنی عمر کا یعنی جواں سال ایک آدمی نظر آیا یہ چہرہ اسے کچھ مانوس معلوم ہوا وہ سوچنے لگا کہ اسے اس نے پہلے کہا دیکھا ہے اتنا تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس شہر کی آبادی بھی کچھ کم نہیں چلتے پھرتے کہیں نہ کہیں یہ شخص سامنے آگیا ہوگا لیکن مزمل یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کہیں اور دیکھا تھا اور کسی خاص موقع پر اور کس خاص صورت حال میں دیکھا تھا اس نے اس آدمی کے چہرے کو اور زیادہ غور سے دیکھا
مزمل کو دراصل اس آدمی کی دائیں آنکھ کے ذرا نیچے گال کی ہڈی پر ایک تل نظر آرہا تھا جو مٹر کے دانے جتنا تھا اور یہ کالا تل بھرا ہوا تھا مزمل اس دن یا موقع کو نظر انداز نہ کر سکا اس آدمی نے مزمل کی طرف دیکھا تو اس شخص کے چہرے کا تاثر بدل گیا اور وہاں سے کھسکنے لگا اس سے مزمل کو کچھ شک ہوا
ذرا رکنا بھائی! مزمل نے اس کے پیچھے جاتے ہوئے کہا
وہ آدمی یوں چلتا گیا جیسے اس نے مزمل کی آواز سنی نہ ہو مزمل تیز تیز چلتا اس کے پاس جا پہنچا
ہم اس سے پہلے کہاں ملے تھے ؟
مزمل نے پوچھا اور اس کا چہرہ اور زیادہ غور سے دیکھتے ہوئے بولا آپ کو میں نے یہاں اس شہر میں نہیں دیکھا ہم کہیں اور ملے تھے
ضرور ملے ہوں گے بھائی! اس آدمی نے کہا میں تمہارے اخلاق کی تعریف کروں گا کہ تم نے مجھے یاد رکھا اور اتنی محبت سے مجھے بلایا مجھے بلکل یاد نہیں کہ ہم کہیں ملے بھی تھے یا نہیں ہو سکتا ہے ہم کسی قافلے میں ہم سفر رہے ہوں یا کسی سرائے میں تم نے مجھے دیکھا ہو میں تجارت پیشہ آدمی ہوں شہر شہر قصبہ قصبہ گھومتا رہتا ہوں میں یہاں کا رہنے والا نہیں
مجھے تمہارا یہ موٹا تل یاد ہے مزمل نے کہا
اس آدمی نے زور دار قہقہ لگایا اور مزمل کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے کر زور سے دبایا
اس تل کی وجہ سے ہی جو مجھے ایک بار دیکھ لیتا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے اس آدمی نے بڑے ہی شگفتہ لہجے میں کہا اور پوچھا کیا تم یہیں کے رہنے والے ہو
ہاں بھائی! مزمل آفندی نے جواب دیا میں یہی کا رہنے والا ہوں
اچھا دوست! اس آدمی نے مزمل سے ہاتھ ملایا اور کہا میں تمہاری محبت کو یاد رکھوں گا
وہ آدمی چلا گیا اور مزمل کھڑا سوچتا رہا اسے اتنا ہی یاد آرہا تھا کہ یہ شخص اسے کہیں خاص صورت حال اور کسی خاص جگہ ملا تھا اور اس کے ساتھ اس کی اچھی خاصی باتیں بھی ہوئی تھیں
کچھ دن اور گزر گئے مزمل سلطان ملک شاہ کے بیٹوں سے ملتا ملاتا ہی رہتا تھا ان میں بڑا بیٹا برکیارق چونکہ عمر میں ذرا بڑا تھا اس لئے فہم و فراست رکھتا تھا اس لیے بات بھی کر لیتا تھا اور سمجھتا بھی تھا
مزمل آفندی زیادہ تر اسی کے ساتھ رابطہ رکھتا تھا دوستی کے علاوہ ان کا ایک تعلق یہ بھی تھا کہ دونوں ایک جانباز گروہ تیار کر رہے تھے ایک صبح مزمل برکیارق کے یہاں گیا دونوں اکٹھے وہاں جایا کرتے تھے جہاں فوجیوں کو تیغ زنی تیر اندازی اور برچھی بازی سکھائی جاتی تھی مزمل نے اس روز برکیارق کو پریشان سا دیکھا مزمل نے اس سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہوگئی ہے کہ وہ اتنا پریشان نظر آ رہا ہے
ہاں بھائی! برکیارق نے بتایا سلطان تو صاحب فراش ہی ہو گئے ہیں
کوئی خاص تکلیف ہو گئی ہے؟
مزمل نے پوچھا
کسی خاص مرض کا نام نہیں لیا جاسکتا برکیارق نے جواب دیا کہتے ہیں کہ سر میں گرانی ہے اور کسی وقت سارے جسم میں ایسی بے چینی شروع ہوجاتی ہے جو ان کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے کمزوری اتنی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی ٹانگیں جسم کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں رہیں
طبیب نے دیکھا ہو گا ؟
طبیب تو تین چار دنوں سے باقاعدہ آرہا ہے برکیارق نے جواب دیا طبیب نے کہا ہے کہ سلطان کو ذہنی سکون کی شدید ضرورت ہے وہ مسکّن اور مقوی دوائیاں دے رہا ہے لیکن کوئی افقہ نظر نہیں آتا بلکہ حالت کبھی تو زیادہ ہی بگڑ جاتی ہے
انہیں نظام الملک کا غم لے بیٹھا ہے مزمل نے کہا پھر ان کے ذہن اور دل پر یہ بوجھ آ پڑا ہے کہ وہ باطنیوں کو شکست نہیں دے سکیں گے یہ ہمارا کام ہے کہ انھیں یقین دلائیں کہ ہم باطنیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیں گے کیا یہ مناسب ہوگا کہ مجھے سلطان کے پاس لے چلو مجھے امید ہے کہ میں انہیں اٹھا لوں گا میرے ساتھ ان کا اچھا خاصا پیار ہے
نہیں مزمل بھائی! برکیارق نے کہا طبیب نے سختی کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ باہر کا کوئی آدمی سلطان کے پاس نہ آئے جب تک سلطان خود کسی کو نہ بلائیں گھر کا بھی کوئی فرد ان کے پاس نہ جائے
اس کے بعد مزمل اپنے کام میں مصروف ہوگیا اس کا اب یہی ایک عزم تھا کہ جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرنا ہے اور انہیں اسی طرح بنانا ہے جس طرح سلطان کا ایک ایلچی الموت جاکر حسن بن صباح کے فدائیوں کو دیکھ آیا تھا مزمل چاہتا تھا کہ خواہ بیس ہی جانباز تیار ہو جائیں لیکن وہ اس طرح تیار ہوں کہ اگر کسی سے کہا جائے کہ وہ اپنے پیٹ میں تلوار اتار لے تو وہ بلاحیل و حجت اپنے پیٹ میں تلوار اتار لے مزمل کا یہ عزم تو تھا لیکن اسے ایسا کوئی تجربہ حاصل نہیں تھا کہ اس طرح کے جاں باز کیسے تیار کیے جاتے ہیں بہرحال اسے دس بارہ نوجوان مل گئے تھے جنہیں ایک سالار ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دے رہا تھا اس کے بعد انہیں حسن بن صباح کے فدائیوں کی طرح جانبازی کے لیے تیار کرنا تھا مزمل زیادہ تر وقت ان کے ساتھ صرف کر رہا تھا اور ان کے دلوں میں وہ باطنیوں کی نفرت کی آگ جلانے کی کوشش کر رہا تھا
ایک روز برکیارق اپنے گھر سے نکلا تو اسے باہر والے دروازے پر ایک درویش صورت آدمی کھڑا نظر آیا دربان اس آدمی کو اندر جانے سے روک رہے تھے اس درویش نے برکیارق کو دیکھا تو اسے دور سے ہی ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا اور برکیارق اس تک جا پہنچا دربان نے اسے بتایا کہ یہ درویش اندر جانے اور سلطان کو دیکھنے کی اجازت مانگ رہا تھا
درویش کے ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں عصا تھا اس نے سر پر سفید پگڑی لپیٹ رکھی تھی اور اس پر ایک چوڑا سبز رنگ کا کپڑا ڈال رکھا تھا جو اس کے کندھوں تک آیا ہوا تھا اس نے سبز رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک لمبا تھا اس نے گلے میں موٹے موتیوں کی ایک مالا ڈال رکھی تھی اس کی داڑھی خشخشی تھی اور اس داڑھی اور چہرے سے وہ چالیس سال کے لگ بھگ عمر کا لگتا تھا بہرحال وہ ہر پہلو سے درویش معلوم ہوتا
آپ سلطان سے کیوں ملنا چاہتے ہیں ؟
برکیارق نے پوچھا اور اسے بتایا آپ کو شاید معلوم نہیں کہ سلطان بیمار پڑے ہیں اور طبیب نے ان کی ملاقاتیں بند کر دی ہیں آپ مجھے بتائیں میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں یہاں جو بھی آتا ہے وہ مایوس واپس نہیں جایا کرتا میں نے آپ کو مجبوری بتا دی ہے ورنہ سلطان فوراً آپ کو ملاقات کے لیے بلا لیتے
میں جانتا ہوں درویش نے کہا میں یہی سن کر آیا ہوں کہ سلطان بیمار پڑے ہیں میں نے یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ سلطان کو کیا مرض لاحق ہوگیا ہے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سلطان کو طبیب نے ایسی دوائیاں دی ہیں جن کے زیر اثر سلطان سوئے رہتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ طبیب کا علاج روک دیا جائے وہ علاج جاری رکھا جائے میں روحانی عامل ہوں مجھے شک ہے کہ سلطان پر کوئی سفلی عمل کیا گیا ہے اور میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفلی عمل باطنیوں نے کروایا ہے مجھے صرف ایک بار سلطان سے ملنے دیں میں صرف انہیں دیکھوں گا
میں سلطان سے پوچھ کر آپ کو کچھ بتا سکونگا برکیارق نے کہا اس وقت تو وہ سوئے ہوئے ہیں
انہیں بے آرام نہیں کرنا درویش نے کہا میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں آپ کو مجھ پر اتنی جلدی اعتماد نہیں کرنا چاہئے میں آپ کے لئے اجنبی ہوں اپنے متعلق یہ بتا دو کہ میں آگے جا رہا ہوں یہاں کچھ دنوں کے لیے روکا ھوں اور سرائے میں ٹھہرا ہوں اگر آپ چاہیں تو سرائے میں آجائیں اور میری کچھ باتیں سنیں اور کچھ باتیں میں آپ سے پوچھوں گا پھر آپ مجھ پر اعتماد کر لیں مجھے کوئی لالچ نہیں آپ میرے پاس آئیں
میں ابھی نہ چلا چلو؟
برکیارق نے پوچھا
یہ تو اور زیادہ اچھا رہے گا درویش نے کہا آئیے
راستے میں درویش باتیں کرتا گیا برکیارق کو بولنے کا موقع نہ ملا لیکن درویش کی باتوں سے وہ متاثر ہو گیا تھا
چلتے چلتے وہ سرائے میں جا پہنچے درویش برکیارق کو بلائی منزل پر لے گیا اس کا کمرہ اوپر تھا
وہ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ایک نوجوان لڑکی نے اس کا استقبال کیا
یہ سلطان مکرم کے بڑے فرزند برکیارق ہیں درویش نے لڑکی سے کہا سلطان سوئے ہوئے تھے ان سے ملاقات ہو گئی اور یہ میرے ساتھ ہی آگئے
خوش آمدید! لڑکی نے ذرا جھجک کر کہا سلطان کی بیماری نے ہمارے دلوں پر بہت اثر کیا ہے میں ان کے لئے دعا کرتی رہتی ہوں اگر یہ ممکن ہو تو میں اپنی زندگی سلطان کو دے دوں سلطان ملک شاہ ہی ہیں جو اسلام کے ایک بڑے ہی مضبوط ستون ہیں اللہ انہیں سلامت رکھے
یہ میری چھوٹی بہن روزینہ ہے درویش نے کہا فرزند سلطان یہ میرے کندھوں پر بہت بڑی اور بڑی ہی نازک ذمہ داری ہے میں اس ذمہ داری سے فارغ ہونا چاہتا ہوں لیکن کوئی موزوں آدمی نظر نہیں آتا اگر کوئی آدمی ٹھیک ملتا بھی ہے تو اس کا خاندانی پس منظر ٹھیک نہیں ہوتا نظریات اور عقیدوں کا فرق بھی ہوتا ہے میں اس بہن کو پھینکنا یا ضائع نہیں کرنا چاہتا
برکیارق سلطان زادہ تھا حکمران خاندان کا چشم و چراغ تھا اور وہ جوان بھی تھا وہ تھا تو پکا مسلمان لیکن اپنی باپ کی طرح مومن نہ تھا وہ عیش پرست اور مے نوش تو نہ تھا لیکن اتنی نو جوان اور حسین لڑکی کو دیکھ کر متاثر نہ ہونا اس کی فطرت میں نہیں تھا کچھ دیر کے لئے تو وہ یہ بھول ہی گیا کہ لڑکی کا بڑا بھائی درویش کمرے میں موجود ہے برکیارق کی نظریں اس لڑکی کی زلفوں میں الجھ کے رہ گئیں برکیارق کی نظروں سے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی گزری تھی بعض کو تو وہ کچھ دیر بعد بھول جاتا تھا کچھ اسے ایک دو دن یاد رہتی تھیں اور کبھی کوئی لڑکی اسے اپنے حسن و جوانی کی وجہ سے کئی کئی دن یاد رہتی تھیں وہ شہزادوں کی طرح لڑکیوں میں دلچسپی رکھنے والا آدمی نہیں تھا اس پر اپنے باپ کا کم از کم یہ یہ اثر ضرور تھا کہ وہ لڑکیوں کا شیدائی نہیں تھا لیکن آخر وہ جواں سال آدمی تھا اس لڑکی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا روزینہ حسین تو تھی ہی لیکن برکیارق نے اس میں کوئی ایسی کشش و جاذبیت یا کوئی ایسا طلسم اثر دیکھا کہ اس کی جی میں یہی آتی تھی کہ کچھ وقت اس کمرے میں اس لڑکی کے ساتھ گزارے لڑکی کے چہرے کے نقش و نگار کوئی غیر معمولی طور پر پرکشش نہیں تھے لڑکی کا انداز کچھ ایسا تھا جس کے اثر سے برکیارق اپنے آپ کو بچا نہ سکا برکیارق لڑکی کی طرف دیکھتا تو وہ نظریں جھکا لیتی تھی جب برکیارق درویش کی طرف متوجہ ہوتا تو لڑکی برکیارق کے چہرے پر نظریں گاڑ دیتی تھی
میں حج کے لئے جا رہا ہوں درویش نے کہا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس سال بھی میں حج نہیں کر سکوں گا میں حج پر اس وقت جاؤں گا جب روزینہ کا ہاتھ کسی معزز انسان کے ہاتھ میں دے دوں گا یہ میرے مرحوم ماں باپ کی امانت ہے اسے بچا بچا کر اور سینے سے لگا کر رکھا ہوں
برکیارق نے ابھی شادی نہیں کی تھی وہ یہ تو بھول ہی گیا کہ وہ اس درویش کے ساتھ کیوں آیا تھا وہ اس سوچ میں گم ہو گیا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو کیا سلطان ملک شاہ اسے اس کی اجازت دے دے گا اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ شادی کرے گا تو اس لڑکی کے ساتھ کرے گا مشکل یہ تھی کہ سلطان ملک شاہ اعصاب زدگی میں پڑا تھا اس حالت میں برکیارق اس سے یہ نہیں پوچھ سکتا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے کیا اسے اجازت مل سکتی ہے یا نہیں؟
میں سلطان ملک شاہ کا مرید اور معتقد ہوں درویش نے کہا یہاں آ کر پتہ چلا کہ وہ تو بیمار پڑے ہیں میں نے ان کے مرض کی علامات ادھر ادھر سے معلوم کی میرا باپ علم روحانیت میں مہارت رکھتا تھا اس نے دو تین کرامات مجھے ورثے میں دی تھی مجھے جب سلطان کی علامات معلوم ہوئی تو میرا دھیان حسن بن صباح اور اس کے باطنی فتنے کی طرف چلا گیا مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کے پیدر محترم نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کیا کیا جتن کیے ہیں مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حسن بن صباح اور اسکا استاد سفلی علم کے ماہر ہیں نظام الملک تو قتل ہو گئے ہیں لیکن سلطان کو یہ باطل پرست سفلی علم سے مفلوج کر دینا چاہتے ہیں یا انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں میں گزشتہ رات نفل پڑھ کر مراقبے میں گیا مجھے جو صورت حال نظر آئی اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے سلطان پر کوئی دوائی اثر نہیں کرے گی لیکن دوائیں روکنی بھی نہیں کیونکہ یہ دوا انہیں سلا دیتی ہے اور ان کے لیے سوئے رہنا ہی اچھا ہے میں ان کا روحانی علاج کرنا چاہتا ہوں اور اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں جو انہیں سفلی اثرات سے نجات دلادے
اس کے بعد درویش نے ایسی طلسماتی اور پراسرار سی باتیں کیں کہ برکیارق نے شدت سے محسوس کیا کہ ابھی اس درویش کو اپنے باپ کے پاس لے جائے اور انہیں کہیں کہ وہ اس درویش کا علاج فوراً شروع کردیں
ایک بات بتائیں؟
برکیارق نے درویش سے پوچھا کیا سفلی عمل سے کوئی ہماری پوری سلطنت کو تباہ کر سکتا ہے؟
نہیں! درویش نے جواب دیا ایسا نہیں ہوسکتا ذرا تصور میں لائیں کہ ایک گھر کے ذمہ دار افراد کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا جائے یا ان پر اعصابی مرض طاری کر دیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟
وہ گھر تباہ حال ہو جائے گا یہی مثال ایک سلطنت کی ہوتی ہے سلطان ملک شاہ کو دماغی اور جسمانی لحاظ سے معذور کردیا گیا ہے اگر آپ ان کے جانشین ہوں گے تو آپ کا بھی یہی انجام ہوگا پھر سلطنت تو تباہ ہونا ہی ہے
آپ کا طریقہ علاج کیا ہوگا؟
برکیارق نے پوچھا کیا آپ ان کے لیے دعا کریں گے یا کوئی اور طریقہ اختیار کریں گے؟
میں دعا بھی کروں گا درویش نے کہا اور میں کلام اللہ کے تعویز لکھ کر بھی دونگا لیکن میرا طریقہ علاج اس وقت کامیاب ہوگا جب میں سلطان کو دیکھ لوں گا آپ مجھے ان سے جلدی ملوا دیں میں اپنے پیرومرشد کو اس روحانی اذیت میں پڑا ہوا نہیں دیکھ سکتا
میں خود بھی تو انہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا برکیارق نے کہا وہ آپ کے پیرومرشد ہیں اور میرے باپ ہیں میں جاتا ہوں وہ جونہی جاگے میں یہاں آجاؤ گا اور آپ کو ساتھ لے جاؤں گا کیا آپ سارا دن یہی رہیں گے؟
ہاں! درویش نے جواب دیا میں جب تک سلطان کو دیکھنا لو یہیں رہوں گا
بھائی جان! روزینہ نے درویش سے کہا آپ وہ کام کرائے لیکن ذرا جلدی آ جانا
ہاں! درویش نے کہا تم نے یاد دلایا ہے میں وہ کام کر آتا ہوں اتنی دیر فرزند سلطان تمہارے ساتھ رہیں گے
درویش نے برکیاروق سے کہا یہ اکیلے ڈرتی ہے میرا چھوٹا سا ایک کام ہے آپ اس کے پاس بیٹھیں میں ابھی آتا ہوں
درویش باہر نکل گیا
آپ تو شادی شدہ ہوں گے؟
روزینہ نے برکیارق سے کہا
نہیں روزینہ! برکیارق نے کہا ہمارے خاندان کا یہ دستور ہے کہ اولاد کی شادی اس وقت کرتے ہیں جب وہ ذہنی طور پر پوری طرح بالغ ہو جاتی ہے میں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ میں کس کے ساتھ شادی کروں گا
کیا آپ کسی لڑکی کو چاہتے ہیں؟
روزینہ نے شرماتے ہوئے پوچھا
لڑکیاں بہت دیکھی ہیں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی دیکھی ہے لیکن میرے دل نے کسی ایک کو بھی پسند نہیں کیا
کیا آپ لڑکی میں کوئی خاص وصف دیکھنا چاہتی ہیں؟
روزینہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہاں! برکیارق نے جواب دیا میں خاص وصف ہی ڈھونڈ رہا ہوں
کیا وہ کسی ایک بھی لڑکی میں نظر نہیں آئی؟
روزینہ نے پوچھا
آج نظر آگیا ہے برکیارق نے کہا وہ وصف تم میں نظر آیا ہے
لیکن میں شاہی خاندان کے قابل تو نہیں روزینہ نے کہا میں اپنی حیثیت کو اچھی طرح پہچانتی ہوں
دیکھو روزینہ! برکیارق نے کہا تھوڑی سی دیر کے لیے بھول جاؤ کہ میں سلطان زادہ ہوں مجھے اپنے ساتھ کا ایک آدمی سمجھو اور دیانتداری سے بتاؤ کہ میں تمہیں اچھا لگتا ہوں یا نہیں؟
آپ نے بڑا ہی مشکل سوال کیا ہے روزینہ نے کہا اگر میں نے کہا کہ آپ مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں تو آپ کہیں گے کہ آپ شاہی خاندان کے فرد ہیں اس لئے مجھے اچھے لگتے ہیں اگر میں نے کہا کہ میں نے آپ میں اچھا لگنے والا کوئی وصف نہیں دیکھا تو آپ ناراض ہو جائیں گے دانش مند کہتے ہیں کہ بادشاہوں سے دور رہو خوش ہوتے ہیں تو اشرفیوں سے جھولی بھر دیتے ہیں ناراض ہو جائیں تو سولی پر کھڑا کر دیتے ہیں
میں تم میں ایک اور وصف دیکھنا چاہتا ہوں برکیارق نے کہا میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں جرات بھی ہے نہیں میں ایسی لڑکی کی تلاش میں ہوں جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے
یہ وصف مجھ میں ہے روزینہ نے کہا میں سچی بات کہہ چکی ہوں وہ ایک بار پھر کہہ دیتی ہوں اگر میں نے کہا کہ آپ میرے دل کو بہت ہی اچھے لگتے ہیں تو آپ کے دماغ میں سلطانی بیدار ہو جائے گی اور آپ شک کریں گے کہ مجھے آپ کے ساتھ نہیں آپ کے رتبے کے ساتھ محبت ہے آپ نے بہت سی لڑکیاں دیکھی ہیں اور کسی ایک کو بھی اپنے قابل نہیں پایا میں نے بھی بہت لڑکے دیکھے ہیں نوجوان بھی اور پکی عمر کے جوان بھی آپ کی طرح مجھے بھی کسی میں وہ وصف نظر نہیں آیا جو آپ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں
کیا وہ وصف مجھ میں نہیں؟
برکیارق نے پوچھا اب میں توقع رکھوں گا کہ تم جرات سے بولوں گی
ہاں آپ میں مجھے وہ خوبی نظر آ گئی
کیا ہے وہ خوبی؟
برکیارق نے پوچھا
آپ سلطان کے بیٹے ہیں روزینہ نے جواب دیا لیکن میں نے آپ کے انداز میں سلطانی نہیں دیکھی آپ نے میرے درویش بھائی سے کہا تھا کہ آپ نے لڑکیوں میں کبھی دلچسپی نہیں رکھی اگر آپ نے سچ بولا تھا تو آپ وہ آدمی ہیں جسے میں اپنے خاوند کی حیثیت سے پسند کروں گی لیکن میں اتنی کم تر ہوں کہ آپ سے یہ درخواست کروں گی ہی نہیں کہ آپ مجھے قبول کر لیں اور میرا بھائی میرے قرض سے فارغ ہوکر حج کے لئے چلا جائے
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ برکیارق لڑکیوں کا شیدائی نہیں تھا جس طرح کے شہزادے ہوا کرتے ہیں یہ پہلی لڑکی تھی جو اس کے دل میں اتر گئی تھی تھوڑی ہی دیر میں روزینہ اس کے دل پر ہی نہیں بلکہ دماغ پر بھی غالب آ گئی اس نے روزینہ کو اپنا فیصلہ سنا دیا لیکن روزینہ نے پھر بھی یہ کہا کہ وہ ڈرتی ہے کہ برکیارق کے دماغ میں سلطانی بیدار ہوگئی تو وہ روزینہ کو اٹھا کر باہر پھینک دے گا
نہیں نہیں روزینہ نے کہا یہ شادی نہیں ہو سکے گی سلطان ملک شاہ آپ کو اجازت نہیں دیں گے کہ آپ ایک ایسی لڑکی سے شادی کرلیں جس کا نہ کوئی گھر گھاٹ ہے اور نہ اس کا کوئی ٹھکانہ ہے
برکیارق نے اسے قسمیں کھا کھا کر یقین دلانا شروع کر دیا کہ اسے اگر سلطان نے شادی کی اجازت نہ دی تو وہ روزینہ کو ساتھ لے کر یہاں سے چلا ہی جائے گا
میں تمہاری محبت پر سلطنت کی جانشینی اور وراثت قربان کر دوں گا برکیارق نے کہا اللہ گواہ ہے کہ تم پہلی لڑکی ہو جسے میں یہ الفاظ کہہ رہا ہوں
آپ میری محبت پر سلطنت کی وراثت قربان کر رہے ہیں روزینہ نے کہا اور میں آپ کی سلطانی پر اپنی محبت قربان کرتی ہوں آپ سلطان کے بڑے بیٹے ہیں ان کے بعد آپ سلطان بنیں گے میں آپ کو سلطان کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں آپ مجھے زیادہ مجبور نہ کریں
تمہارے بھائی جان آ رہے ہوں گے برکیارق نے کہا اور اس سے پوچھا اگر میں تمہیں تنہائی میں ملنا چاہو تو کیسے مل سکتا ہوں؟
میں آپ کو تنہائی میں بھی مل سکتی ہوں روزینہ نے کہا لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتی ہوں کے آپ سلطان کے بیٹے کی حیثیت سے مجھے ملنے آئے تو وہ ہماری آخری ملاقات ہوگی میرے پاس کوئی دولت نہیں میرا بھائی درویش ہے اس کے پاس اتنی سی پونجی ہوتی ہے کہ ہم دو وقت عزت کی روٹی کھا لیتے ہیں اور سفر کے اخراجات ادا کر سکتے ہیں لیکن میرے پاس جو دولت ہے وہ میری آبرو میری عصمت ہے میں جان دے دوں گی اس دولت سے دستبردار نہیں ہونگی آپ میرے قدموں میں اشرفیوں کا انبار لگا دیں آپ مجھے خرید نہیں سکیں گے
کیا تم میری محبت کو بھی قبول نہیں کروں گی؟
برکیارق نے پوچھا کیا تم اس روحانی محبت کو نھیں پہچان سکوں گی جس کا تعلق جسموں کے ساتھ نہیں ہوتا
میں اسی محبت کی جستجو میں ہوں روزینہ نے کہا لیکن سنا ہے شاہی خاندانوں میں ایسی محبت ملا کرتی جس کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے جسموں کے ساتھ نہیں
میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں برکیارق نے کہا تم یہ بتاؤ کہ تنہائی میں کہاں اور کس وقت مل سکوں گی؟
رات کو میرا بھائی بڑی ہی گہری نیند سویا کرتا ہے روزینہ نے کہا اس کے سر پر ڈھول بچتے رہیں اس کی آنکھ نہیں کھلتی سرائے کے پچھواڑے بڑا خوبصورت باغ ہے آپ نے دیکھا ہو گا درخت بے شمار ہیں آپ آدھی رات کے وقت یہاں آ جائیں میں آپ کے ساتھ باغ تک چلی چلوں گی
میں آج رات باغ میں آ جاؤں گا برکیارق نے کہا آدھی رات کے وقت آؤنگا اور تمہارا انتظار کروں گا
برکیارق تو جیسے بھول ہی گیا تھا کہ وہ اتنی بڑی سلطنت کے سلطان کا بیٹا ہے اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ روزینہ صرف خوبصورت ہی نہیں اس میں خود اعتمادی اور جرات بھی ہے ان اوصاف نے روزینہ کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا کچھ دیر پہلے برکیارق اس سے محبت کی بھیک مانگ رہا تھا یہ لڑکی اس پر طلیسم ہوش روبا بن کر غالب آگئی تھی اور برکیارق یوں محسوس کر رہا تھا جیسے اس پر کوئی نشہ طاری ہوگیا ہو
درویش آ گیا وہ خاصا وقت لگا کر آیا تھا لیکن برکیارق نے یوں محسوس کیا جیسے وہ صرف ایک لمحہ باہر رہا ہو اس نے برکیارق کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی غیر حاضری میں وہ اس کی بہن کے پاس بیٹھا رہا تھا
برکیارق وہاں سے اٹھنا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن اسے اٹھنا پڑا وہ اٹھا اور قدم گھسیٹنے کے انداز سے چلتا کمرے سے باہر نکل آیا
اس روز برکیارق دن بھر کے کام کاج بھول گیا تھا وہ سرائے سے سیدھا اپنے گھر گیا اس نے باپ کو جاکر دیکھا باپ جاگ اٹھا تھا وہ باپ کے پاس بیٹھ گیا
برکیارق بیٹا! سلطان ملک شاہ نے بڑی ہی نحیف آواز میں کہا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس حقیقت کو قبول کر لو کہ میں دو چار دنوں کا ہی مہمان ہوں سلطان کی ساری ذمہ داریاں تمہارے کندھوں پر آ رہی ہیں تم نے صرف اتنی بڑی اسلامی سلطنت کو ہی نہیں سنبھالنا بلکہ اسلام کی پاسبانی بھی کرنا ہے اور اولیت دین اسلام کو دینا
اتنی مایوسی! برکیارق نے سلطان ملک شاہ سے کہا ابھی تو اللہ نے آپ سے بہت کام لینے ہیں خدا کے لئے اس مایوسی کو اپنے ذہن سے جھٹک ڈالیں میں نے طبیب سے پوچھا ہے وہ کہتا ہے سلطان کو کوئی جسمانی مرض لاحق نہیں انہوں نے اپنے ذہن اور دل پر خود ہی بوجھ ڈال لیا ہے اب آپ میری ایک بات غور سے سنیں میں آپ کا روحانی علاج کرانا چاہتا ہوں
میں خود روحانیت کا قائل ہوں سلطان ملک شاہ نے کہا لیکن مجھے کوئی علم روحانیت کا عالم نظر نہیں آتا
مجھے ایک عالم اور روحانی علاج کا ماہر نظر آگیا ہے برق یاری نے کہا اس نے یہی بتایا ہے کہ آپ کو کوئی جسمانی عارضہ لاحق نہیں آپ پر سفلی عمل کیا گیا ہے یہ تو آپ جانتے ہیں کہ یہ عمل کس نے کیا ہوگا ؟
حسن بن صباح کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا اس عالم نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی ہے
برکیارق نے سلطان ملک شاہ کو وہ ساری باتیں سنائیں جو درویش نے اس کے ساتھ کی تھی جوں جوں وہ درویش کی باتیں سناتا جا رہا تھا اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق ود کرتی آ رہی تھی طبیب نے اسے کئی بار بتایا تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیدار ھو جائے اور یقین کر لے کے وہ کسی جسمانی مرض میں مبتلا نہیں طبیب نے اسے الگ الگ کر کے بتایا تھا کہ اس کے ذہن پر کون کون سی باتیں نظر انداز ہو رہی ہیں اور اس کا علاج یہ نہیں کہ انسان ہتھیار ڈال کر لیٹ ہی جائے اور اپنے آپ کو مردہ سمجھ لے لیکن سلطان ملک شاہ طبیب کی کسی بات کو قبول نہیں کرتا تھا وہ اس کی صرف دوائیاں قبول کر رہا تھا اس کے اپنے بڑے بیٹے برکیارق نے اس درویش کا تفصیلی ذکر کیا تو وہ فوراً مان گیا اور اس نے بیٹے سے کہا کہ وہ اس درویش کو ساتھ لے آئے
برکیارق اٹھ دوڑا اسے اپنے باپ کی صحت کے ساتھ تو دلچسپی تھی ہی لیکن اس سے زیادہ دلچسپی روزینہ کے ساتھ تھی وہ یہ سوچ کر سرائے کی طرف جا رہا تھا کہ درویشے کہے گا کہ روزینہ کو کمرے میں اکیلی نہ چھوڑے اور اسے اپنے ساتھ لے چلے
ایسے ہی ہوا جیسا اس نے سوچا تھا وہ درویش کو شاہی بگھی میں بٹھا کر لے آیا روزینہ بھی اس کے ساتھ تھی اپنے محل جیسے گھر میں آکر برکیارق نے روزینہ کو اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھیج دیا اور درویش کو اپنے باپ کے پاس لے گیا
درویش نے سلطان ملک شاہ کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں اور مراقبے میں چلا گیا اس دوران تسبیح جو اس کے ہاتھ میں تھی اس کے دانے دونوں انگلیوں سے آگے چلاتا رہا ،mتھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور تسبیح کے دانے کو دیکھنے لگا پھر اس نے تسبیح الگ رکھ دیں اور سلطان ملک شاہ کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا
قابل صد احترام سلطان! درویش نے کہا بات وہی نکلی جو میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا دشمن نے گھر بیٹھے وار کیا ہے اس محل کے احاطے کے اندر کہیں نہ کہیں کالی بلی کا سر دفن ہو گا میں ابھی یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ سر کہاں دفن کیا گیا ہے یہ بعد کی بات ہے میں وہ سر نکال کر آپ کو دکھا دوں گا فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ آپ پر اس سفلی عمل کے جو اثرات ہیں وہ اتر جائیں اور آپ کا دماغ پہلے کی طرح کام کرنے لگے
آپ یہ علاج کس طرح کریں گے؟
سلطان ملک شاہ نے پوچھا کیا مجھے بھی کچھ کرنا پڑے گا؟
میں آپ سے نماز پڑھواؤں گا درویش نے کہا ایک وظیفہ بتاؤں گا جو آپ نے ہر نماز کے بعد کرنا ہو گا باقی سارا کام میں خود کرونگا میں نے دیکھ لیا ہے کہ مجھے کیا عمل کرنا ہے آپ سات دنوں بعد پہلے کی طرح تروتازہ ہو جائیں گے
ایک اور بات بتائیں سلطان ملک شاہ نے پوچھا کیا آپ کے پاس کوئی ایسا عمل یا وظیفہ ہے جو کیا جائے تو طاقتور دشمن بھی زیر ہو جائے؟
بہت کچھ ہو سکتا ہے درویش نے کہا لیکن ایک سے زیادہ کام ایک ہی بار شروع نہیں ہوں گے سب سے پہلے تو آپ کو زندگی کے راستے پر رواں کرنا ہے جیسا کہ آپ پہلے ہوا کرتے تھے اس کے بعد اگلا کام ہوگا
یہ جس دور کی داستان سنائی جا رہی ہے اس دور میں انسانی فطرت کی کی کمزوریاں عروج پر پہنچی ہوئی تھیں یوں کہیں تو زیادہ صحیح ہو گا کہ انسان کی فطرت میں کمزوریاں تو ہر وقت رہی ہیں لیکن حسن بن صباح کی ابلیسی فطرت نے ان کمزوریوں کو اس طرح ابھارا اور لوگوں کو یقین دلایا کہ یہی کمزوریاں ان کی خوبیاں ہیں جنہیں اللہ زیادہ پسند کرتا ہے ادھر حسن بن صباح تھا اور ادھر سلطان ملک شاہ کو ایک روحانی عامل مل گیا اس سلطان کی اپنی فطری کمزوریاں تھیں یہی وہ شخص تھا جو جنگی قوت سے یا کسی بھی طریقے سے ابلیسیت کے اس طوفان کو اور اس سیلاب کو روک سکتا تھا اور روکنے کی پوری پوری کوشش کر بھی رہا تھا اس کی فطرت کی کمزوریاں ابھری تو اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جو یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ پردوں کے پیچھے کی باتیں بتا سکتا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ سلطان پہلے یہ دیکھتا کہ یہ شخص ہے کون اور کیا اس میں اتنی بڑی طاقت ہے بھی یا نہیں کہ یہ غیب کی باتیں بتا سکے
ادھر اس کے بڑے بیٹے برکیارق میں ایک فطری کمزوری ایک حسین اور نوجوان لڑکی نے ابھار دی وہ جو کہتا تھا کہ اس نے لڑکیوں میں کبھی دلچسپی نہیں لی اس نے اس لڑکی کو اپنے اعصاب بلکہ اپنی عقل پر غالب کر لیا یہ ذمہ داری برکیارق کی تھی کہ وہ پہلے دیکھ لیتا کہ اس درویش کے پاس کوئی علم یا کسی عمل کی طاقت ہے بھی یا نہیں یا یہ سلطان کو خوش کر کے انعام و اکرام حاصل کرنے کے چکر میں ہے
اس وقت ضرورت یہ تھی کہ سلطان ملک شاہ کو بیدار کیا جاتا اور اس کی جو ذمہ داریاں تھیں وہ اس کے آگے رکھی جاتیں اور اسے کہا جاتا کہ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے تیار ہو جاؤ اور میدان عمل میں کود پڑو
یہاں تک تو بات بلکل ٹھیک تھی کہ اس درویش نے اسے کہا تھا کہ وہ نماز باقاعدگی سے پڑھے اور ایک وظیفہ بھی کرے سلطان ملکشاہ ویسے بھی عبادت کا قائل تھا اور صوم و صلوۃ کا پابند بھی تھا لیکن درویش نے اسے یہ جو کہا تھا کہ باقی عمل وہ خود کرے گا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ سلطان کے ہاتھ میں روحانیت کی لاٹھی دے دی گئی تھی کہ وہ اس کے سہارے چلے گا یہ درویش بھی مخلص ہوتا تھا اور اس کی بہن روزینہ بھی سچے دل سے بر کیارق کے ساتھ محبت کر سکتی تھی لیکن اس وقت کی صورتحال ایسی تھی کہ سلطان کو خود بھی اور اس کے بیٹوں کو بھی بیدار اور ذہنی طور پر چوکس رہنا تھا اور ہر وقت اللہ سے مدد مانگی تھی
سلطان عالی مقام! درویش نے کہا میں نے غیب کے پردے اٹھا کر دیکھ لیا ہے حسن بن صباح نے جو سفلی عمل آپ پر کروایا ہے وہ الٹا ہو کر اسی پر جا پڑے گا اس کی وہی حالت ہوجائے گی جو آپ کی ہو رہی تھی میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ جب کسی کا کیا ہوا عمل الٹا ہو کر اس پر جاتا ہے تو بہت ہی زیادہ نقصان کرتا ہے میں ابھی تو نہیں کہہ سکتا لیکن دھاندلی سے ایک بات ہے جو میں آپ کو بتا دیتا ہوں امکان موجود ہے کہ حسن بن صباح اس اثر کو برداشت بھی نہ کرسکے اور مر جائے وہ مرگیا تو اس نے جو فتنہ کھڑا کیا اور اسے پھیلایا ہے وہ خود ہی ختم ہو جائے گا میں آپ کو باداموں کیساتھ گریاں اور ساتھ ہی چھوہارے دوں گا آپ نے یوں کرنا ہے کہ بادام کی ایک گیری ہر صبح نہار منہ کھا لینی ہے اور رات سونے سے پہلے ایک چھوہارا کھانا ہے یہ خیال رکھیں کہ بادام کی گیری اور چھوہارا بہت دیر چپ آتے رہنا ہے اور جب یہ لعاب کی صورت اختیار کر لے تو نگل لینا ہے ہو سکتا ہے کہ ان سات دنوں میں آپ یوں محسوس کریں جیسے آپ کی تکلیف بڑھ گئی ہے تو پریشان نہیں ہونا آٹھویں روز آپ اچھل کر پلنگ سے اٹھیں گے اور زندگی کے اس راستے پر چل پڑیں گے جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے
درویش نے اپنے تھیلے میں سے باداموں کی سات گیریاں اور سات چھوہارے نکالے اور سلطان ملکشاہ کے ہاتھ میں دے دیے
یہ الگ رکھ دیں درویش نے کہا میں نے ان پر اپنا عمل کر دیا ہے اس عمل کے لیے میں گزشتہ رات سویا بھی نہیں یہ رات بھر کا عمل تھا
درویش نے اپنے مخصوص انداز سے باتیں شروع کردیں ان باتوں میں امید کی چمکتی ہوئی کرن تھی اور یہ کرنیں دلفریب رنگوں والی تھیں جن میں سلطان ملکشاہ کو مستقبل درخشاں نظر آرہا تھا درویش کی باتیں جو تھیں وہ اپنی جگہ پر اثر تھیں لیکن درویش کے بولنے کا انداز جو تھا اصل اثر تو اس کا تھا یہ اثر ایسا تھا جیسے کسی کو ہپنا ٹائز کیا جا رہا ہو یہ اثرات سلطان ملکشاہ کے چہرے پر صاف نظر آنے لگے تھے اس کی آنکھوں میں چمک آتی جا رہی تھی اور اس کا چہرہ جو زردی مائل ہو گیا تھا اپنے قدرتی رنگ میں نظر آنے لگا تھا
سلطان مکمل طور پر بلکہ کچھ غیر قدرتی طور پر بیدار ہو گیا اور اس نے درویش سے اس کے متعلق کچھ ذاتی سوالات پوچھنے شروع کر دیے درویش نے سلطان کو وہی باتیں بتائیں جو وہ برکیارق کو بتا چکا تھا
سلطان عالی مقام! درویش نے کہا میرے سر پر صرف ایک ذمہ داری ہے جس سے میں فارغ ہوگیا تو باقی عمر خانہ کعبہ میں اللہ اللہ کرتے گزار دوں گا میرے ساتھ میری چھوٹی بہن ہے میں اس کی شادی کسی ایسے آدمی کے ساتھ کرانا چاہتا ہوں جو مخلص اور درد مند ہو اور صحیح معنوں میں مسلمان ہی نہ ہو بلکہ مرد و مومن ہو
تمہاری بہن کہاں ہے؟
سلطان نے پوچھا
میرے ساتھ ہے درویش نے جواب دیا اسے اپنے ساتھ لایا ہوں میں اسے اکیلی نہیں چھوڑتا
پیدر محترم! برکیارق بولا میں نے ان کی بہن کو دیکھا ہے اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے اس کے پاس کچھ دیر بیٹھنا پڑا میں نے اس کے ساتھ باتیں کیں تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی بہن صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ ان میں عقل بھی ہے اور فہم و فراست بھی ہے اگر آپ اجازت دیں گے تو میں ان کی بہن کے ساتھ شادی کر لوں گا
لڑکی کو یہاں لاؤ سلطان ملک شاہ نے کہا
لڑکی آ گئی اس کے ساتھ برکیارق کی ماں بھی تھی سلطان ملکشاہ پر درویش نے ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ اس نے کچھ زیادہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی اس نے لڑکی کو سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا
برکیارق! سلطان ملک شاہ نے ایسے لہجے میں کہا جیسے کوئی فرمان جاری کر رہا ہوں تم اس لڑکی کے ساتھ شادی کرو گے
برکیارق کی ماں بھی اس لڑکی سے متاثر ہو گئی تھی اس نے خندہ پیشانی سے اپنے خاوند کے فرمان کی تائید کی
نہیں سلطان عالی مقام! درویش نے ہاتھ جوڑ کر کہا میں اس قابل نہیں ہوں کہ اتنی اونچی پرواز کی توقع رکھوں فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس محل میں میری بہن کو یہ طعنے ملنے شروع ہوجائیں کہ تو ایک بے گھر اور بے ٹھکانہ درویش کی بہن ہے
میں نے فیصلہ دے دیا ہے سلطان نے کہا یہ اسلام کے شیدائیوں اور رسول اللہﷺ کے عاشقوں کا خاندان ہے یہاں لڑکی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا جو خدشہ تم نے ظاہر کیا ہے وہ ان دیواروں کے اندر ایک گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے
سلطان! برکیارق کی ماں نے کہا آپ پہلے صحت یاب ہو جائیں آپ اٹھ کر باہر نکلیں گے برکیارق کی شادی اس لڑکی کے ساتھ کر دی جائے گی برکیارق کی ماں تو بہت ہی خوش تھی کیونکہ وہ سلطان کے چہرے پر تندرستی اور بشاشت کے آثار دیکھ رہی تھی وہ بھی درویش سے متاثر ہوئی اور اس نے انعام و اکرام کا اشارہ کیا لیکن درویش نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ کسی انعام کے لالچ میں سلطان کو زندگی کی گہما گہمی میں واپس نہیں لا رہا بلکہ ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر رہا ہے
کچھ دیر بعد درویش روزینہ کو ساتھ لے کر رخصت ہوگیا
سلطان ملکشاہ کا معمول بن گیا کہ صبح جاگتا توں پہلا کام یہ کرتا کہ درویش کی دی ہوئی بادام کی ایک گیری منہ میں ڈال کر چبانے لگتا اس کے بعد وہ نہا کر نماز پڑھتا اور پھر درویش کا بتایا ہوا وظیفہ کرنے لگتا عشاء کی نماز کے بعد بھی وہ وظیفہ کرتا اور اس کے بعد ایک چھوہارا منہ میں ڈال کر چبانے لگتا
برکیارق ہر روز روزینہ سے ملنے چلا جاتا تھا روزینہ نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے سرائے کے پچھواڑے والے باغ میں آدھی رات کے وقت ملا کرے گا لیکن اب اس احتیاط اور خفیہ ملاقات کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ چند دنوں بعد برکیارق اور روزینہ نے میاں بیوی بن جانا تھا برکیارق سرائے میں درویش کے کمرے میں چلا جاتا اور درویش کسی نہ کسی بہانے باہر نکل جاتا روزینہ اس پر ایک بڑے ہی حسین تلچھٹ کی طرح طاری ہوجاتی اور برکیارق خود فراموشی کی کیفیت میں گم ہو جاتا
درویش ہر روز کچھ دیر کے لئے سلطان کے پاس جا بیٹھتا اس کی آنکھوں میں جھانکتا اور پھر آنکھوں میں پھونک مار کر کچھ باتیں کرتا اور وہاں سے چلا آتا
پانچواں یا چھٹا روز تھا کہ سلطان نے اپنے سینے میں بے چینی سی محسوس کرنی شروع کر دی اس نے کہا کہ درویش کو فوراً بلایا جائے کچھ دیر بعد درویش آ گیا اس کے آنے تک سلطان ملک شاہ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ سینے کی بے چینی بڑھ گئی اور ایسی ہی بے چینی کھوپڑی کے اندر دماغ میں بھی شروع ہو گئی تھی
ایسا ہونا تھا درویش نے کہا یہ تکلیف برداشت کریں کل اس وقت تک یہ تکلیف کم ہونے لگے گی اور اس کے بعد آپ بالکل قدرتی حالت میں آجائیں گے
وہ دن اور وہ رات سلطان ملکشاہ سو بھی نہ سکا اگلی صبح اس نے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس کی اس نے ایک بار پھر درویش کو بلایا درویش نے آکر پھر کل جیسی تسلیاں دیں اور مسرت کا اظہار کیا کہ جو عمل سلطان پر کیا گیا تھا وہ نکل رہا ہے اور یہ اس کے اثرات ہیں
اگلے روز سلطان نے صبح اٹھ کر بادام کی آخری گیری بھی کھا لی اور وہ سارا دن تڑپتے گزارا اور سورج غروب ھو گیا سلطان نے کہا کہ درویش کو بلاؤ اور کہو کہ کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزارے تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے..
www.urducover.com