مس عائشہ اور طارق
مس عائشہ ایک چھوٹے سے شہر میں پرائمری اسکول کلاس 5 کی ٹیچر تھیں۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ “آئی لو یو آل” بولتی تھیں۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ سچ نہیں کہتی تھیں۔ وہ کلاس کے تمام بچوں سے یکساں پیار نہیں کرتیں تھیں۔
کلاس میں ایک ایسا بچہ تھا جو مس عائشہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس کا نام طارق تھا۔ طارق میلی کچیلی حالت میں اسکول آ جاتا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، جسم پر میل کا نشان ہوتا۔ لیکچر کے دوران بھی اس کا دھیان کہیں اور ہوتا۔
مس عائشہ کے سامنے وہ چونک کر انہیں دیکھنےتو لگتا ۔ مگر اس کی خالی خالی نظروں سے انہیں صاف پتہ لگتا تھا کہ طارق جسمانی طور پر کلاس میں موجود ہونے کے باوجود دماغی طور پر غائب ہے۔ رفتہ رفتہ مس عائشہ کو طارق سے نفرت سی ہونے لگی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی طارق مس عائشہ کی سخت تنقید کا نشانہ بننے لگتا۔ ہر بُری مثال طارق کے نام سے منصوب کی جاتی۔ بچے اس پر کھلکھلا کر ہنستے اور مس عائشہ اس کی تذلیل کر کے تسکین حاصل کرتیں۔ طارق نے کبھی بھی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔
مس عائشہ کو وہ ایک بے جان پتھر کی طرح لگتا جس کے اندر احساس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر ڈانٹ، طنز اور سزا کے جواب میں وہ بس اپنی جذبات سے عاری نظروں سے انہیں دیکھتا اور سر جھکا لیتا۔ مس عائشہ کو اب اس سے شدید چڑ ہو چکی تھی۔ پہلا سیمسٹر ختم ہوا اور رپورٹ بنانے کا مرحلہ آیا تو مس عائشہ نے طارق کی ترقی کی رپورٹ میں اس کی تمام برائیاں لکھ ماریں۔ پروگریس رپورٹ والدین کو دکھانے سے پہلے،ہیڈ مسٹریس کے پاس جاتی تھیں۔ جب انھوں نے طارق کی رپورٹ دیکھی، تو فوراً مس عائشہ کو بلا لیا ۔ “مس عائشہ، ترقی کی رپورٹ میں کچھ تو ترقی بھی نظر آنی چاہیے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے طارق کے والدین اس سے بالکل ہی نا امید ہو جائیں گے۔” “میں معذرت خواہ ہوں مگر طارق ایک بالکل ہی بدتمیز اور نکما بچہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اس کی ترقی کے بارے میں کچھ لکھ سکتی ہوں۔” مس عائشہ نفرت انگیز لہجے میں بول کر وہاں سے اٹھ آئیں۔
ہیڈ مسٹریس نے ایک عجیب حرکت کی۔ انہوں نے چپڑاسی کے ہاتھ مس عائشہ کی ڈیسک پر طارق کی گذشتہ سالوں کی ترقی کی رپورٹ رکھوا دی۔ اگلے دن مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو رپورٹ پر نظر پڑی۔الٹ پلٹ کر دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ طارق کی رپورٹ ہے۔ “پچھلی کلاسوں میں بھی اس نے یقیناً یہی گل کھلائے ہوں گے۔” انہوں نے سوچا اور کلاس 3 کی رپورٹ کھول لی۔ رپورٹ میں ریمارکس پڑھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ رپورٹ اس کی تعریفوں سے بھری پڑی تھی۔ “طارق جیسا ذہین بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔” “انتہائی حساس بچہ ہے اور اپنے دوستوں اور ٹیچر سے بے حد لگاؤ رکھتا ہے۔”
آخری سیمسٹر میں بھی طارق نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ “مس عائشہ نے غیر یقین کی حالت میں کلاس 4 کی رپورٹ کھولی۔ “طارق کی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے۔ اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ گئی ہے۔” “طارق کی ماںکو آخری سٹیج کی کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔ گھر پر اس کا اور کوئی خیال رکھنے والا نہیں ہے جس کا گہرہ اثر اس کی پڑھائی پر پڑا ہے۔”
طارق کی والدہ فوت ہوچکی ہیں اور ان کے ساتھ ہی طارق کی زندگی کا بھی کوئی اور رنگ باقی نہیں رہا۔ اسے بچانا ممکن نہیں، کیونکہ بہت دیر ہو چکی ہے۔ مس عائشہ پر لرزہ طاری تھا، ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور انہوں نے پروگریس رپورٹ بند کی۔ ان کی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک آنسو گرنے لگے۔ اگلے دن جب مس عائشہ کلاس میں آئیں، تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اپنا روایتی جملہ “آئی لو یو آل” کہا۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ آج بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔ کیونکہ اسی کلاس میں بیٹھے ایک بے ترتیب بالوں والے بچے طارق کے لیے جو محبت وہ آج اپنے دل میں محسوس کر رہی تھیں، وہ کلاس میں بیٹھے کسی اور بچے کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
لیکچر کے دوران، انہوں نے طارق سے ایک سوال کیا جس پر طارق نے ہمیشہ کی طرح سر جھکایا۔ جب کچھ دیر تک مس عائشہ کی طرف سے کوئی ڈانٹ پھٹکار اور ہم جماعت ساتھیوں کی طرف سے ہنسی کی آواز اس کے کانوں میں نہ پہنچی، تو اس نے اچنبھے میں سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ توقع کے برخلاف، ان کے ماتھے پر بل نہ تھا، بلکہ وہ مسکرا رہی تھیں۔ مس عائشہ نے طارق کو اپنے پاس بلایا اور اسے سوال کا جواب بتا کر زبردستی دہرانے کو کہا۔
طارق تین چار دفعہ کے اسرار کے بعد آخر کار بولا۔ اس کے جواب دیتے ہی مس عائشہ نے نہ صرف خود تعریف کی بلکہ باقی سب کو بھی بولا۔ یہ روز کا معمول بن گیا کہ مس عائشہ ہر سوال کا جواب خود بتاتی اور پھر اس کی خوب پذیرائی کرتی۔ ہر اچھی مثال طارق سے منسوب کی جاتی۔ رفتہ رفتہ پرانا طارق سکوت کی قبرسے نکلنے لگا۔ اب مس عائشہ کو سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ روز بلا ناغہ جوابات دے کر سب کو متاثر کرتا اور نئے سوالات پوچھ کر سب کو حیران بھی کرتا۔
اس کے بال اب کسی حد تک سنورے ہوئے تھے، کپڑے بھی کافی حد تک صاف ہوتے، جنہیں شاید وہ خود دھونے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال ختم ہوا اور طارق نے دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مس عائشہ کے لیے خوبصورت تحفے لے کر آئے اور مس عائشہ کو دینےلگے۔ ان خوبصورت تحفوں میں ایک پرانا اخبار میں بد سلیقہ انداز میں لپٹا ہوا تحفہ بھی تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے، لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تحفے کے نام پر یہ چیز طارق لایا ہوگا۔
مس عائشہ نے تحفے کے اس چھوٹے سے پیکٹ کو محبت سے باہر نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک عطر کا آدھی استعمال شدہ شیشی اور ایک ہاتھ میں پہننے والا بوسیدہ ساکڑا تھا، جس کے زیادہ تر موتی جھڑ چکے تھے۔ مس عائشہ نے خاموشی سے اس عطر کو خود پر چھڑک لیا اور کڑا ہاتھ میں پہن لیا۔ بچے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے، اور خود طارق بھی۔ آخر کار طارق سے رہا نہ گیااور مس عائشہ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اٹک اٹک کر مس عائشہ کو بتایا، “آج آپ سے بالکل میری ماں جیسی خوشبو آ رہی ہے۔“
وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔دن ہفتوں،ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدلتے بھلا کہاں دیر لگتی ہے؟مگر ہر سال کے اختتام پر مس عائشہ کو طارق کی طرف سے ایک خط باقاعدگی کے ساتھ موصول ہوتا جس میں لکھا ہوتا کہ “میں اس سال بہت سارے نئے ٹیچرز سے ملا مگر آپ جیسا کوئی نہیں تھا۔”پھر طارق کا اسکول ختم ہو گیا اور خطوط کا سلسلہ بھی۔کئی سال مزید گزرے اور مس عائشہ ریٹائر ہو گئیں۔ایک دن انہیں اپنی ڈاک میں طارق کا خط ملا جس میں لکھا تھا
“اس مہینے کے آخر میں میری شادی ہے اور میں آپ کی موجودگی کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایک اور بات، میں زندگی میں بہت سارے لوگوں سے مل چکا ہوں، مگر آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔۔۔فقط ڈاکٹر طارق
ساتھ ہی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ بھی لفافے میں موجود تھا۔ مس عائشہ خود کو ہرگز نہیں روک سکتی تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے اجازت لی اور دوسرے شہر کے لیے روانہ ہو گئیں۔ شادی کے دن جب وہ شادی کی جگہ پہنچیں تو تھوڑی دیر ہو چکی تھی، تقریب ختم ہو چکی تھی۔ مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں، بزنس مین اور یہاں تک کہ وہاں موجود نکاح خواں بھی اکتا چکے تھے، لیکن طارق تقریب کی ادائیگی کے بجائے گیٹ کی طرف دیکھتا رہا اور ان کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں، طارق ان کی طرف لپکااور ان کا وہ ہاتھ پکڑ لیا جس میں انہون نے اب تک وہ بوسیدہ سا کڑا پہنا ہوا تھا اور انہیں سیدھا اسٹیج پر لے گیا۔
مائک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے کچھ یوں اعلان کیا: “دوستو ، آپ سب ہمیشہ مجھ سے میری ماں کے بارے میں پوچھتے رہے ہیں اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ سب کو ان سے ملواؤں گا۔۔۔ یہ میری ماں ہیں ۔”
www.urducover.com