پانچواں رکن اسلام روزہ
عمارت اسلام کا پانچواں اور آخری ستون روزہ ہے۔ یہ فرض عبادت ایک مہینے پر محیط ہے
عمارت اسلام کا پانچواں اور آخری ستون روزہ ہے۔یہ فرض عبادت ایک مہینے پر محیط ہے اور اس کی فرضیت صرف امت مسلمہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ سابقہ امتوں پر بھی فرض تھے ۔ رمضان کے روزوں کا بنیادی فلسفہ امت مسلمہ کو ایک ایسے ماحول سے گزارنا ہے جس میں دنیا کی ہر قسم کی خواہشات کی تکمیل کے لئے سب سامان موجود ہو لیکن امت مسلمہ کی تربیت ، ان میں روحانی بالیدگی ، طہارت ، تقوی ، نفس کی نظافت اور روحانی وجسمانی پاکیزگی کےلئے حکم دیا گیا ہے کہ روزے کی حالت میں ان خواہشات سے بچنا بچیں جس کی تمنا تمہارانفس کرتا ہےاور اس ایک مہینے کی ترتیب کامقصد اہل ایمان میں پاکیزگی کا ایک ایسا روحانی جوہر پیدا کرنا ہے جو اسے گیارہ مہینوں تک محسوس ہوتارہے یوں تربیت نفس کا ہر سال روزے کی روحانی مشق کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے ۔
روزے کی فرضیت اور بنیادی مقصد
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(پ ۲ ، البقرۃ :۱۸۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
خزائن العرفان میں حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے روزہ شرع میں اس کا نام ہے کہ مسلمان خواہ مرد ہو یا حیض یا نفاس سے خالی عورت صبح صادق سے غروب آفتاب تک بہ نیت عبادت خورد و نوش و مجامعت ترک کرے(عالمگیری وغیرہ) رمضان کے روزے ۱۰ شعبان ۲ ھ کو فرض کئے گئے(درمختار و خازن) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے عبادت قدیمہ ہیں۔زمانہ آدم علیہ السلام سےتمام شریعتوں میں فرض ہوتے چلے آئے اگرچہ ایام و احکام مختلف تھے مگر اصل روزے سب امتوں پر لازم رہے۔اور تم گناہوں سے بچو کیونکہ یہ کسر نفس کا سبب اور متقین کا شعار ہے۔
آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔
(صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۰)
روزے کی روح اور راز
حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی اِحیاء العلوم جلد اول میں فرماتے ہیں:’’ روزے کی روح اور راز ان قوتوں کو کمزور کرنا ہے جو برائیوں کی طرف لوٹانے میں شیطان کا ذریعہ ہیں اور یہ چیز کم کھانے سے حاصل ہوتی ہے یوں کہ وہ اتنا کھاناکھائے جتنا روزہ دار نہ ہونے کی صورت میں ہر رات کھاتا ہے۔ اگر اس نے صبح سے شام تک کا کھانا کھایا تو اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ روزے کے آداب میں سے ہے کہ وہ دن کو زیادہ نہ سوئے تاکہ اسے بھوک اور پیاس کا احساس ہو اور اعضاء کی کمزوری محسوس ہو ، دل اسی صورت میں صاف ہوگا پھر ہر رات اسی قدر کمزوری پیدا ہوگی تو اس پر تہجد اوردیگراورادد ووظائف پڑھنا آسان ہو جائے گا۔ پس ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل پر چکر نہ لگائے اور وہ ملکوت کی بادشاہی دیکھ لے اور لیلۃ القدر اسی رات کو کہتے ہیں جس میں ملکوت کی کوئی چیز منکشف (ظاہر) کی جاتی ہے ۔ ‘‘(احیاء العلوم مترجم ، جلد ۱ ، ص ۷۱۶)
قدیم عبادت
شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ مفتی محمد قاسم قادر ی صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں فرماتے ہیں:’’اس آیت میں فرمایا گیا ’’جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ ‘‘(صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۰)
چند دن کی ترتیب اور دور رس نتائج
روزےکی فرضیت کے بعد اس روحانی نظام کا جدول بتایا جارہاہےکہ یہ {اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ: گنتی کے چند دن ہیں۔} آیت کے اس حصہ کی تفسیر میں حضرت علامہ مفتی قاسم زید مجدہ فرماتے ہیں :’’ فرض روزے گنتی کے دن ہیں یعنی صرف رمضان کا ایک مہینہ ہے جو انتیس دن کا ہوگا یا تیس دن کا۔ لہٰذا گھبرا نے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ذہن میں رکھو کہ جس رب عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں گیارہ ماہ کھلایا پلایا ، وہ اگر ایک ماہ صرف دن کے وقت کھانے پینے سے منع فرما دے اور اس فاقے میں بھی تمہارے جسم و روح، ظاہر و باطن، دنیا و آخرت کا فائدہ ہو تو ضرور اس کی اطاعت کرو۔ ‘‘ (صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۱)
روزہ فرض ہونے کی وجہ
شیخ الطریقت ، امیر اہلسنت حضرت علامہ مولنا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ اپنے مشہور زمانہ کتاب ’’فیضان رمضان‘‘ میں روزہ فرض ہونے کی وجہ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:’’ اِسلام میں اکثر اَعمال کسی نہ کسی رُوح پرور واقعے کی یاد تازہ کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔ مثلاً صفا و مروَہ کے درمیان حاجیوں کی سعی حضرت سَیِّدَتناہاجرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی یاد گار ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے لخت جگر حضرت سَیِّدُنا اِسماعیل ذَبِیحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکیلئے پانی تلاش کرنے کیلئے
اِ ن دونوں پہاڑوں کے درمیان سات بار چلی اور دَوڑی تھیں ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو حضرت سیِّدَتُنا ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی یہ ادا پسند آگئی ، لہٰذا اِسی ادائے ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے باقی رکھتے ہوئے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لئے صفا و مروہ کی سعی واجب فرمادی۔اِسی طرح ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں سے کچھ دن ہمارے پیارے سرکار ، مکے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غارِ حرا میں گزار ے تھے، اِس دَوران آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دن کو کھانے سے پرہیز کرتے اور رات کو ذِکرُاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتے تھے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن دِنوں کی یا د تازہ کرنے کیلئے روزے فرض کئے تاکہ اُس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت قائم رہے ۔ ‘‘ (فیضانِ رمضان ،ص ۵۸ تا۵۹)
انسانی صحت پر روزے کے اثرات
تفسیر صراط الجنا ن میں روزے کے 6طبی فوائد ذکر کئے گئے ہیں
روزہ رکھنے سے معدے کی تکالیف اور اس کی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور نظام ہضم بہتر ہو جاتا ہے۔
( روزہ شوگر لیول،کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اور اس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ نہیں رہتا۔
روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے دل کوانتہائی فائدہ مند آرام پہنچتا ہے۔
روزے سے جسمانی کھچاؤ، ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے ۔
روزہ رکھنے سے موٹاپے میں کمی واقع ہوتی اور اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔
روزہ رکھنے سے بے اولادخواتین کے ہاں اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
(صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۳)
جسم کی زکٰوۃ
ہر شے کیلئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صَبْرہے۔ ( ابنِ ماجہ ج ۲ ص۳۴۷حدیث۱۷۴۵،(فیضانِ رمضان ،ص ۷۰)
روزے کے فضائل سے متعلق چند احادیث مبارکہ
جنتی دروازہ
{۱}بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَان کہا جاتا ہے ،اس سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہوگا۔کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں ؟پس یہ لوگ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور اِس دروازے سے داخِل نہ ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پس پھر کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔ (بُخاری ج۱ص۶۲۵حدیث۱۸۹۶)
سابقہ گناہوں کا کفارہ
{۲}جس نے رَمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اُس کاکفارہ ہو گیا ۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابنِ حَبّان ج۵ ص۱۸۳حدیث۳۴۲۴)
جہنم سے 70سال کی مسافت دُور
{۳}جس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت دور کردے گا۔ ( بُخاری ج۲ص۲۶۵حدیث۲۸۴۰)
ایک روزے کی فضیلت
}۴}جس نے ایک دن کا روز ہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصِل کرنے کیلئے رکھا ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا کہ ایک کوّا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہوکر مَرجائے۔ ( ابو یعلٰی ج۱ ص۳۸۳حدیث۹۱۷)
سرخ یاقوت کا مکان
{۵}جس نے ماہِ رَمضان کاایک روزہ بھی خاموشی اور سکون سے رکھا اس کے لئے جنت میں ایک گھرسبز زَبرجد یا سرخ یا قوت کا بنایا جائے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج ۱ ص ۳۷۹ حدیث ۱۷۶۸) (فیضان رمضان ، ص ۶۹ تا ۷۰)
اسلام کے پانچویں رکن کو سمجھنے اور فلسفہ صوم کی حقیقت جانے نیز مسائل روزہ کے بارےمیں مکمل طور پر کتب فقہاء کے ذخیرے موجود ہیں اور تحقیق کرنے والوں کو مطالعہ کے لئے دعوت نظارہ دے رہے ہیں ۔رمضان کے روزے انسا ن کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں لاتے ہیں، رمضان کے روزے کس طرح رکھنا ہے ، رمضان کا اہتمام کس طرح کرنا ہے۔
ارکان اسلام کا ایک مختصرا خاکہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیاہے ارکان اسلام کےبارے میں بہت طویل بحثوں پر مشتمل کتابیں عالم اسلام کے عظیم مفکروں ، دانشوروں اور قلمکاروں ، اور علماء نے لکھی ہیں ۔ مزید مطالعہ کےلئے کتاب ’’ بہار شریعت‘ ‘ کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔