Hassan bin Sabah and his artificial paradise
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 8
قسط نمبر “29” سے قسط نمبر”32″ تک
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:29 }
اگلے روز سلطان نے صبح اٹھ کر بادام کی آخری گیری بھی کھا لی اور وہ سارا دن تڑپتے گزارا اور سورج غروب ھو گیا سلطان نے کہا کہ درویش کو بلاؤ اور کہو کہ کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزارے تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے
مزمل آفندی بہت دنوں سے سلطان کو نہیں دیکھ سکا تھا اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ طبیب نے اور اب درویش نے سختی سے کہا ہے کہ سلطان کے پاس کوئی ملاقاتی نہ آئے اس شام جب سلطان کی تکلیف بہت ہی بڑھ گئی تھی مزمل بے تاب سا ہو گیا اور سلطان کو دیکھنے چلا گیا برکیارق سے تو اس کی ملاقات ہر روز ہی ہوتی تھی اور برقیارق اسے بتاتا رہتا تھا کہ درویش نے کیا کہا ہے اور سلطان کی حالت کیا ہے لیکن اس شام وہ سلطان کے محل میں چلا گیا اسے برکیارق ملا مزمل نے برکیارق سے کہا کہ وہ سلطان کو دیکھنا چاہتا ہے اس نے ایسی بے تابی کا اظہار کیا کہ برکیارق اسے سلطان کے کمرے میں لے ہی گیا
وہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سلطان پلنگ پر لیٹا ہوا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اس کے چہرے کا رنگ لاش کی طرح سفید تھا مزمل تو سلطان ملک شاہ کا مرید تھا اور سلطان کو بھی مزمل سے بہت پیار تھا مزمل کی نظر درویش کے چہرے پر پڑی جو قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کا چہرہ دیکھتے ہیں مزمل کو دھچکا سا لگا جیسے اس کے پاؤں فرش سے اکھڑ رہے ہوں مزمل نے درویش کی آنکھ کے قریب گال کی ابھری ہوئی ہڈی پر کالا تل دیکھا جو مٹر کے دانے کے برابر تھا
ایسے تل والا آدمی اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا اور مزمل نے اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی اور اسے کہا بھی تھا کہ وہ کہیں مل چکے ہیں مزمل کو یاد آیا کہ اس تل والے آدمی کی داڑھی بڑے سلیقے سے تراشی ہوئی اور چھوٹی چھوٹی تھی اور وہ جوان تھا لیکن اس درویش کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی اور اس کی عمر کا اندازہ چالیس سال کے لگ بھگ تھا اچانک مزمل کو یاد آگیا کہ اس نے اس تل والے آدمی کو خلجان میں دیکھا تھا اور یہ آدمی اس کے ساتھ الموت تک گیا تھا اب اسے خیال آیا کہ یہ حسن بن صباح کا آدمی ہے
مزمل کی کھوپڑی کے اندر جیسے دھماکا ہوا ہو اس نے کچھ سوچے بغیر لپک کر بلکہ جھپٹ کر اپنا ہاتھ درویش کی لمبی داڑھی پر رکھا اور زور سے جھٹکا دیا لمبی داڑھی مزمل کے ہاتھ میں آ گئی اور درویش کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی کالی داڑھی رہ گئی یہ وہ آدمی تھا جو اسے خلجان میں ملا تھا اور الموت تک اس کے ساتھ گیا تھا اور یہ یاد میں اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا مزمل نے اس کی پگڑی اتار دی دیکھا کہ اس کے لمبے بال جو اس کے کندھوں تک پہنچتے تھے مصنوعی تھے سلطان چونک کر اٹھ بیٹھا برکیارق کھڑا ہوگیا
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص نے آپ کو باداموں کی گیری اور چھوہاروں میں زہر کھلا دیا ہے فوراً طبیب کو بلائیں
سلطان کی تلوار دیوار کے ساتھ لٹک رہی تھی مزمل نے لپک کر وہ تلوار نیام سے نکالی اور اس کی نوک درویش کی شہ رگ پر رکھ دی
سچ بتاؤ تم کون ہو ؟
مزمل نے پوچھا اور تمہارے ساتھ جو لڑکی ہے وہ کون ہے وہ تمہاری بہن نہیں اور تم حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہو
میرے دوست! درویش نے مسکرا کر کہا تم مجھے قتل کر سکتے ہو میں نے اپنا کام کر دیا ہے یہ لڑکی جو میرے ساتھ ہے اسے مشکوک یا مجرم نہ سمجھنا یہ میری بہن ہے یہ میری خفیہ زندگی سے لاعلم ہے میں سلطان کا قاتل ہوں اس لئے میں اس حق سے محروم ہو گیا ہوں کہ سلطان سے درخواست کرو کہ میری بہن کو پناہ دی جائے اور میرے جرم کی سزا اسے نہ دی جائے
سلطان ملک شاہ نے سنا کہ اس شخص نے درویشی کے بہروپ میں اسے زہر دے دیا ہے تو اسے موت سر پر کھڑی نظر آنے لگی
او ظالم انسان! سلطان نے اس جعلی درویش سے کہا اگر تو اس زہر کا اثر اتار دے تو میں تیرا یہ جرم معاف کر کے عزت سے رخصت کردوں گا اور تیری بہن کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کر دوں گا اور جو انعام مانگو گے دوں گا
نہیں بدنصیب سلطان! اس شخص نے کہا اس زہر کا کوئی تریاق نہیں جو میں نے باداموں اور چھوہاروں میں ملا کر آپ کو دیا ہے مجھے مرنے کا ذرا سا بھی غم نہیں مجھے انعام نہیں چاہیے میں امام حسن بن صباح کا فدائی ہوں میرے لئے یہی انعام کافی ہے کہ میں نے امام کی خوشنودی حاصل کر لی ہے اور میں سیدھا جنت میں جا رہا ہوں امام نے مجھے جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ میں نے کر دیا ہے
طبیب آ گیا تھا اس نے سلطان کی نبض دیکھی ایک دوائی بھی دی لیکن اس کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر آ گیا تھا اسے وہ چھپا نہ سکا
برکیاروق کی ماں اور روزینہ بھی سلطان کے کمرے میں آ گئی تھیں ماں نے تو رونا اور چلانا شروع کر دیا تھا برکیارق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر بھی وہاں موجود تھے
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص کو میرے حوالے کر دیا جائے اسے میں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا
اسے لے جاؤ! سلطان نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اسے کمر تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دو اور ایک قبر کھود کر اس کی بہن کو زندہ دفن کر دو
روزینہ نے خوفزدہ نظروں سے برکیارق کو دیکھا برکیارق روزینہ کے آگے جا کر کھڑا ہوا
نہیں! اس نے کہا بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی
بے وقوف نہ بن برکیارق! مزمل نے کہا یہ ناگن ہے جسے تم اپنی پناہ میں لے رہے ہو
خبردار برکیارق نے کہا اس لڑکی کے قریب نہ آنا اور سب یہ بھی سوچ لو کہ سلطان زندہ نہ رہے تو میں ان کا جانشین ہوں میں سلطان ہوں اب میرا حکم چلے گا
اس نے حسن بن صباح کے فدائی کی طرف اشارہ کرکے کہا اسے اسی طرح ہلاک کیا جائے جس طرح سلطان معظم نے حکم دیا ہے یہ ہنگامہ جاری ہی تھا کہ سلطان ملک شاہ نے آخری ہچکی لی اور فوت ہوگیا جعلی درویش کو قید خانے میں بھیج دیا گیا اسے اگلے روز کتوں سے مروانا تھا
اب برکیارق سلطنت سلجوقی سلطان تھا
یہ دوسری بڑی شخصیت ہے جسے حسن بن صباح نے نظام الملک کے بعد قتل کروایا
تاریخوں میں آیا ہے کہ برکیارق نے سلطان بنتے ہی تین حکم دیے
ایک یہ کہ سلطان ملک شاہ کو زہر دینے والے باطنی کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح سلطان نے وفات سے پہلے حکم دیا تھا
دوسرا یہ کہ اس باطنی کی بہن روزینہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا
اور اس نے تیسرا حکم یہ دیا کہ یہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ سلطان کو ایک باطنی نے زہر دے کر مارا ہے ہر کسی کو یہ بتایا جائے کہ سلطان طویل علالت کے بعد فوت ہوئے ہیں
اس تیسرے حکم کی تعمیل تو کی گئی لیکن موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا سلطان ملک شاہ کی موت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا نہ وہ کوئی عام آدمی تھا کہ لوگ سنتے اور رسمی سا افسوس کر کے بھول جاتے ملک شاہ کوئی روایتی سلطان یا بادشاہ بھی نہیں تھا کہ رعایا کو افسوس نہ ہوتا لوگ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے کہ آج ایک مرگیا تو کل دوسرا بادشاہ آجائے گا سلطان ملک شاہ کی موت تو یوں تھی جیسے سلطنت اسلامیہ کا سب سے زیادہ مضبوط ستون گر پڑا ہو
باطنی ابلیسیت کے طوفان کو روکنے والا یہی ایک شخص ہی تو تھا یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ اس طوفان کو نہیں روک سکا تھا اور ابلیسیت پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی لیکن سلطان ملک شاہ نے اپنی پوری توجہ اور اپنے پورے ذرائع اور اپنی پوری جنگی طاقت اسی کے خلاف مرکوز کر رکھی تھی وہ اسلام کا پاسبان تھا اسلام کے اصل نظریے اور روح کی آبیاری کرنے والا ملک شاہ ہی تھا وہ صرف اپنے خاندان کو ہی عزیز نہ تھا بلکہ رعایا کا بچہ بچہ اس کا نام احترام اور محبت سے لیتا تھا
وہ جب فوت ہوا تو اس کے گھر میں جو کہرام بپا ہوا وہ جنگل کی آگ کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں پھیل گیا ایک ہجوم تھا جو اس کے گھر پر ٹوٹ پڑا تھا دربان کسی کو اندر جانے سے روک نہ سکے تھے خود دربان دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ان سب کے سامنے اس باطنی جعلی درویش کو پکڑ کر باہر لائے اور اسے زود و کوب کیا جا رہا تھا گھر کی عورتیں چیخ چلا رہی تھیں کہ اس کافر نے سلطان کو زہر دے دیا ہے اس قسم کی صورتحال میں سلطان کی موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا
ایک تو سارے شہر میں برکیارق نے اعلان کروا دیا کہ سلطان ملک شاہ فوت ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف قاصد دوڑا دیے گئے کہ تمام سلطنت میں یہ اطلاع پہنچ جائے اس کے اعلان کے ساتھ دوسرا اعلان یہ بھی کروا دیا کہ کل نماز جنازہ کے بعد تمام لوگ گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھے ہو جائیں ایک باطنی کو سزائے موت دی جائے گی اس اعلان سے قدرتی طور پر ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کے اس باطنی کو سزائے موت کیوں دی جائے گی
سلطان ملک شاہ کا سرکاری عملہ گھر کے ملازمین اور دیگر شاہی خاندان سے کوئی نہ کوئی تعلق رکھنے والے افراد کچھ کم تعداد میں نہ تھے جذبات کی گرما گرمی میں ہر فرد جو اس راز سے واقف تھا یہ سوال پوچھنے والوں کو صحیح جواب دیتا اور غصے کا اظہار یوں کرتا تھا کہ کل اس کافر کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے گا
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلے روز ظہر کی نماز کے بعد جنازہ اٹھا اس وقت تک جہاں جہاں تک اطلاع پہنچ سکتی تھی وہاں وہاں سے لوگ سیلاب کی طرح امنڈ کر مرو میں آگئے تھے نماز جنازہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں پڑھائی گئی اس کے بعد سلطان ملک شاہ کو قبر میں اتارا گیا اور جب قبر میں مٹی ڈال دی گئی تو اس باطنی کو میدان میں لایا گیا جس نے سلطان مرحوم کو زہر دیا تھا اس کی سزا کے لئے گڑھا پہلے سے تیار تھا اسے گڑھے میں کھڑا کر دیا گیا جو اس کے گھٹنوں سے ذرا اوپر تک گہرا تھا
گڑھے میں مٹی ڈال کر مٹی کو اچھی طرح کُوٹ کُوٹ کر دبا دیا گیا اس شخص کے بازو کھول دیے گئے ایک طرف سے چار خونخار شکاری کتے لائے گئے اس شخص کے قریب لا کر کتے کھول دیے گئے اس باطنی کے جسم پر کوئی بو مل دی گئی تھی جس پر کتے ٹوٹ پڑے تماشائیوں کا ہجوم دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا اس باطنی کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلا رہی تھی آخر اس نے بڑی ہی بلند آواز میں نعرہ لگایا امام حسن بن صباح زندہ باد یہ اسکی آخری آواز تھی اس وقت تک کتے اس کی کھال ادھیڑ چکے تھے تھوڑی ہی دیر میں کتوں نے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیا اس کا سر دور جا پڑا اور پھر کتے اس کے جسم کے ٹکڑے اٹھا کر ادھر ادھر ہو گئے
لوگوں کو یہ نہ بتایا گیا کہ اس شخص کو یہ سزا کیوں دی گئی ہے لیکن لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ اس نے سلطان ملک شاہ کو زہر دیا ہے ایسی غصیلی آوازیں اور ایسی للکار بھی سنائی دیں کہ اس شخص کے خاندان کے بچے بچے کو یہاں لاکر کتوں سے پھڑوا دو کوئی کہہ رہا تھا کہ اس کے گھر کو آگ لگادو یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا
اس سوال کا صحیح جواب صرف روزینہ دے سکتی تھی جو اس باطنی کی بہن تھی اس وقت روزینہ سلطان کے محل کے ایک کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوگا
سلطان ملکشاہ سپرد خاک ہو گیا اور اس کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا اور سلطان کے گھر میں روزینہ ایک مسئلہ بن گئی اس خاندان کی کوئی عورت روزینہ کو قبول نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ سلطان کے قاتل کی بہن تھی یہ شک بے جا نہ تھا کہ وہ بھی قاتل کی اس سازش میں شریک تھی سب دیکھ رہے تھے کہ اس نے سلطان کے بڑے بیٹے برکیارق کو دام محبت میں گرفتار کر لیا تھا اور برکیارق نے اعلان کردیا تھا کہ کوئی بھی روزینہ سے باز پرس کی جرات نہ کرے اور وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا
برکیارق نے تو یہ اعلان کر دیا تھا لیکن برکیارق کی ماں کے لیے یہ شادی قابل قبول نہیں تھی وہ شام کے وقت کسی کو بتائے بغیر اس کمرے میں چلی گئی جہاں روزینہ اکیلی بیٹھی تھی تصور میں لایا جا سکتا ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوی کس قدر غمگین اور اداس ہو گی روزینہ نے اسے دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی
بیٹھ جاؤ لڑکی! سلطان مرحوم کی بیوہ نے ایک طرف بیٹھتے ہوئے کہا میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنے آئی ہوں تمہیں صرف میرے بیٹے نے ہی پسند نہیں کیا تھا بلکہ مرحوم سلطان نے اور میں نے بھی تمہیں دل سے پسند کیا اور فیصلہ کردیا تھا کہ برکیارق تمہارے ساتھ شادی کرلے لیکن جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں کہ اس شخص کی بہن کو اپنی بہو بنا کر ایک سلطان کے خاندان کی فرد بنا لو جس نے صرف مجھے ہی بیوہ نہیں کیا بلکہ مرحوم کی دو اور بیویاں بھی وہ ہوئی ہیں اور لوگوں سے پوچھنا کہ وہ یوں کہہ رہے ہیں کہ سلطنت سلجوقیہ بیوہ ہو گئی ہے میں تمہیں کوئی سزا سنانے نہیں آئی میں تمہارے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتی ہوں یہ بتاؤ کہ تمہیں کہاں جانا ہے میں دوچار محافظوں کے ساتھ باعزت طریقے سے تمہیں وہاں تک پہنچانے کا انتظام کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے غم سے بوجھل آواز میں کہا یہ تو بعد کا حادثہ ہے کہ سلطان میرے بھائی کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اس صورت میں یہی ھونا چاہیئے کہ آپ سب مجھے دھتکار دیں میں اس سے پہلے کی بات آپ کو سناتی ہوں برکیارق نے جب مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو میں نے انکار کر دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میں شاہی خاندان کے قابل نہیں ہم آپ کے مقابلے میں بہت چھوٹے لوگ ہیں خاتون محترم! برکیارق نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اسکے ساتھ یہاں آؤں اور سلطان مرحوم اور آپ مجھے دیکھیں میں نہیں آرہی تھی آئی اس لئے کہ میرے بھائی نے یہاں آنا تھا اور وہ مجھے اکیلا سرائے میں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی یعنی میرے بھائی کی نیت کیا تھی میں یہاں آگئی سلطان مرحوم نے مجھے دیکھا
وہ باتیں مجھے کیوں سناتی ہو سلطان مرحوم کی بیوہ نے کہا میں نے تمہیں کوئی سزا نہیں دینی میں کہہ چکی ہوں کہ تمہیں باعزت طریقے سے رخصت کروں گی
میری عرض ہے کہ میں جو کہنا چاہتی ہوں وہ آپ سنیں روزینہ نے کہا میں یہ بتا رہی ہوں کے میں برکیارق کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرچکی تھی برکیارق نہیں مان رہا تھا سلطان مرحوم نے اور آپ نے بھی مجھے قبول کر لیا تو میں خاموش ہوگئی اس کے بعد جو خوفناک اور انتہائی المناک صورت پیدا ہوئی اس کے پیش نظر میں اپنے آپ کو اس احترام اور عزت کی حقدار نہیں سمجھتی جو آپ مجھے دے رہی ہیں میری آپ سے درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے میرے بھائی کو سزائے موت دی ہے اسی طرح مجھے بھی سزائے موت دیں میں سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ہوں میں رحم کی طلب گار نہیں
کیا تمہیں معلوم تھا کہ تمہارا بھائی سلطان کو زہر دینا چاہتا ہے؟
بیوہ نے پوچھا
نہیں روزینہ نے بڑی زور سے سر ہلا کر کہا اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں برکیارق کو یتیم نہ ہونے دیتی اور اسے دھوکہ نہ دیتی میں کوئی بات چھپا نہیں رہی سچ بول رہی ہوں سچ یہ ہے کہ برکیارق پہلا آدمی ہے جسے میں نے دل و جان سے چاہا ہے اور برکیارق مجھے اس سے بھی زیادہ چاہتا ہے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر سکوں میں اب برکیارق کی بیوی نہیں بنوں گی مجھے اپنے بھائی کی نیت کا علم تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ میں سلطان کے قاتل کی بہن ہوں مجھے سزائے موت ملنی چاہیے
تم لوگ آخر آئے کہاں سے تھے ؟
سلطان کی بیوہ نے پوچھا کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تمہارا بھائی باطنی ہے ؟
یہ میں کیسے مان سکتی ہوں میرا خیال ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا
محترم خاتون! روزینہ نے کہا ہمارا کوئی ایک ٹھکانہ ہوتا تو میں آپ کو بتاتی کہ ہم کہاں سے آئے ہیں بھائی نے بتایا تھا کہ ہم اصفہان کے رہنے والے تھے بچپن میں میرے ماں باپ مر گئے تھے اور اس بھائی نے مجھے پالا پوسا تھا میں نے اسے خانہ بدوش ہی دیکھا چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا جس سے ہمیں دو وقت کی روٹی اور سفر کے اخراجات مل جاتے تھے ہم کئی ایک شہروں اور قصبوں میں ایک ایک سال اور دو دو سال بھی رہے ہیں بھائی مجھے ہمیشہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اس لئے میں نہیں بتاسکتی کہ باہر اس کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ ہر سال حج کا ارادہ کرتا تھا جو پورا نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ میرے فرض سے فارغ ہوکر حج کا فریضہ ادا کرنے کا عزم کیے ہوئے تھا
اس گفتگو کے دوران روزینہ روتی رہی آنسو پوچھتی رہی اور کبھی تو وہ سسکنے لگتی تھی
میرے بیٹے نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ہی شادی کرے گا سلطان کی بیوہ نے کہا وہ میری نہیں مانے گا اور وہ کسی کی بھی نہیں مانے گا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر سکتی ہو؟
انکار ہی تو کر رہی ہوں روزینہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا میں یہ جو کہتی ہوں کہ مجھے بھی سزائے موت دے دیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں قاتل کی بہن ہوں اور اس کے ساتھ تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں کوئی گھر اور میرا کوئی وارث نہیں میرے لیے ایک ہی پناہ ہے اور وہ قبر ہے میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ مجھے قبر میں اتار دیں میں آپ کو فیصلہ سناچکی ہوں کہ آپ کے خاندان کی فرد نہیں بنوں گی نہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتی ہوں
برکیارق کی ماں روزینہ کے رونے سے اس کے بولنے کے انداز سے اور اس کے بار بار یہ کہنے سے کہ اسے سزائے موت دی جائے اتنی متاثر ہوئی کہ اس سوچ میں پڑ گئی کہ اس لڑکی کو بھٹکنے کے لئے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ چڑھ جانے کے لیے تنہا نہ چھوڑے یہ تو برکیارق کی ماں کا فیصلہ تھا کہ اس کا بیٹا اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرے گا لیکن وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ لڑکی کو کہاں بھیجے ویسے بھی وہ سلطان مرحوم کی طرح رحمدل عورت تھی
میں تمہیں اپنے گھر سے نکالنا نہیں چاہتی روزینہ! سلطان کی بیوہ نے کہا اگر میں تمہاری شادی کسی اور سے کرا دوں تو تم قبول کروگی؟
میں بلا سوچے کوئی جواب نہیں دے سکتی روزینہ نے کہا خدا کی قسم ابھی تو میرے دل اور دماغ پر اس قدر بوجھ ہے کہ میں یہی ایک فیصلہ کئے ہوئے ہوں کہ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں
میں تمہیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہوں سلطان کی بیوہ نے کہا تم سوچ لو پھر مجھے بتا دینا میں تمہارا کوئی بہتر بندوبست کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے کہا آپ یہ کام کریں کہ برکیارق کے دل سے مجھے نکال دیں میرا مطلب یہ ہے کہ اسے قائل کریں کہ میرا خیال چھوڑ دے بے شک وہ سلطان ہوگیا ہے اور اس نے سلطان کی حیثیت سے حکم دیا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی شادی کرے گا لیکن اس کا یہ حکم مجھے اچھا نہیں لگا بیٹے ماؤں کو حکم دیتے اچھے نہیں لگتے بلکہ یہ گناہ ہے میں اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتی
سلطان کی بیوہ نے سر جھکا لیا جیسے اسے کوئی اور سوچ آ گئی ہو کمرے کا دروازہ کھلا ماں نے اور روزینہ نے دیکھا دروازے میں برکیارق کھڑا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے ماں کا اس کمرے میں آنا اچھا نہیں لگا
آپ کا احترام مجھ پر فرض ہے ماں برکیارق نے اپنی ماں سے کہا لیکن یہ پوچھنا میرا حق ہے کہ آپ یہاں کیوں آئیں ہیں میرا خیال ہے کہ آپ اسے یہ کہنے آئی ہیں کہ یہ قاتل کی بہن ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا برکیارق روزینہ کے بہتے آنسو دیکھ رہا تھا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی ماں اسے کیا کہہ رہی ہوگی
برکیارق! روزینہ نے کہا اور ذرا رک کر بولی معاف رکھنا مجھے برکیارق نہیں بلکہ مجھے سلطان محترم کہنا چاہیے آپ کی والدہ نے جو کچھ کہا اور جو کچھ میں نے انہیں کہا ہے وہ میں لفظ با لفظ سنا دیتی ہوں
روزینہ نے وہ تمام باتیں جو اسکے اور برکیارق کی والدہ کے درمیان ہوئی تھی سنادیں
تمہیں اس فیصلے پر عمل کرنا ہوگا جو میں سنا چکا ہوں برکیارق نے کہا میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں تمہیں حکم دیکر اپنی بیوی بناؤں گا یہ میرے دل کی آواز اور میری روح کا مطالبہ ہے
روح کی آواز روح ہی سن سکتی ہے سلطان محترم! روزینہ نے کہا میری روح مر گئی ہے میرے بھائی نے سلطان کو ہی زہر نہیں دیا بلکہ میری روح کو بھی زہر دے کر مار ڈالا ہے میرے ضمیر پر بڑے ہی گھناؤنے جرم کا بوجھ ہے میں یہاں سے بھاگ جاؤ گی اور میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے بھاگ جانے دیں
میرے عزیز بیٹے! برکیارق کی ماں بول پڑی تم ابھی نوجوان ہو میری عمر دیکھو میں نے دنیا دیکھی ہے اور انسانوں کو پڑھا ہے میں تمہیں اس شادی کی اجازت دے سکتی ہوں لیکن آگے جو کچھ ہو گا وہ میں جانتی ہوں
یہ بتاؤ روزینہ! برکیارق نے پوچھا تم نے میری ماں سے کہا ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہارے بھائی کی باہر سرگرمیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا وہ باطنی کیسے بنا؟
اس نے مرنے سے پہلے امام حسن بن صباح کا نعرہ لگایا تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا وہ فدائی کیسے بنا تھا؟
تم جانتی ہو گی
میں کچھ بھی نہیں جانتی روزینہ نے جواب دیا وہ مجھے الموت لے گیا تھا وہاں ہم سات آٹھ مہینے رہے تھے میں نے آپ کی والدہ محترمہ کو بتایا ہے کہ مجھے وہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اور مجھے کچھ بھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ باہر کیا کرتا ہے اب معلوم ہوا ہے کہ وہ باطنیوں سے جا ملا تھا اور جیسے کہ آپ کہہ رہے ہیں وہ فدائی بن گیا ہوگا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ روزینہ اللہ کرے تمہیں کسی نیک آدمی کے پلے باندھ دوں تو میں حج کا فریضہ ادا کر لوں
ماں! برکیارق نے کہا آج ہی ہم نے اپنے عظیم باپ کو دفن کیا ہے غم اور دکھ ابھی تازہ ہے کچھ دن گزر جانے دیں اس لڑکی کو یہی رہنے دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا کچھ دن انتظار کرلیں
سلطان محترم! روزینہ نے کہا آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو میری یہ خوبی پسند آئی ہے کہ میں وہی بات کرتی ہوں جو میرے دل میں ہوتی ہے میں سچ بولتی اور سچ سنتی ہوں خواہ وہ کتنا ہی تلخ ہو میرے ذہن میں گناہ کا تصور ہی نہیں آیا اس لئے مجھ میں اخلاقی جرات بھی ہے میں آپ کو آپ کا باپ واپس نہیں دے سکتی میں چاہتی ہوں کے اپنی جان دے دوں شاید اس سے آپ کے اور آپ کی والدہ محترمہ اور خاندان کے دوسرے افراد کی تسکین ہو جائے یہ میری روح کی آواز ہے کہ مجھے بھی سزائے موت ملنی چاہئے میں آپ کی والدہ محترمہ کو بتا چکی ہوں کہ میں زندہ رہوں گی بھی تو کس کے لیے؟
میرے لئے برکیارق نے کہا میں جو فیصلہ کر چکا ہوں اس پر قائم رہوں گا لیکن اپنی ماں سے اجازت لینے کے لیے میں کچھ دن انتظار کروں گا
یہ حسین و جمیل لڑکی برکیاروق کے اعصاب پر تو پہلے ہی غالب آ چکی تھی لیکن اب اس نے جو باتیں کی اور جس انداز سے کیں برکیارق اور زیادہ متاثر ہوا اس کی ماں بھی شش و پنج میں پڑ گئی اور ماں بیٹے نے فیصلہ کیا کہ روزینہ کو کچھ دن یہیں رکھا جائے اور پھر کچھ فیصلہ کیا جائے
مرو پر غم و غصے کی جو گھٹا چھا گئی تھی وہ سلطان کی موت کی خبر کے ساتھ ساتھ تمام سلطنت سلجوقیہ پر چھا گئی ساری سلطنت ماتم کدہ بن گئی
الموت میں خوشیوں کا ہنگامہ تھا وہاں سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر پہنچی تو باطنی گھروں سے نکل آئے اور خوشی سے ناچنے کودنے لگے جشن کا سا سماں بندھ گیا مرو چونکہ دارالسلطنت تھا اس لیے اس شہر میں باطنیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی جونہی سلطان مرحوم کے قاتل کو کتوں نے چیر پھاڑ دیا ایک جاسوس الموت کی طرف چل پڑا تھا
یا امام ! اس جاسوس نے حسن بن صباح سے کہا تھا سب سے بڑا دشمن مارا گیا ہے دفن بھی ہو گیا ہے اور اس کی گدی پر اس کا بڑا بیٹا برکیارق بیٹھ گیا ہے
اور قاتل کا کیا بنا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اسے آدھا زمین میں گاڑ کر کتوں سے مروایا گیا ہے جاسوس نے بتایا
اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
حسن بن صباح نے پوچھا تھا کچھ معلوم ہے وہ کہاں ہے؟
سلطان کے گھر میں ہے جاسوس نے جواب دیا تھا اس نے نئے سلطان کو پہلے ہی اپنی جال میں لے لیا تھا
کیا وہ اکیلی کچھ کر سکے گی؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اس سوال کا جواب دو تین دنوں بعد آجائیے گا جاسوس نے کہا تھا میں سلطان ملک شاہ کے دفن ہونے کے بعد اپنے آدمی کی سزائے موت دیکھ کر چل پڑا تھا
حسن بن صباح نے اپنے جاسوس کو فارغ کردیا اور اپنے مصاحبوں اور نائبین کو بلایا وہ فوراً سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر سن کر خوشی اور فتح کا واویلا بپا کرنے لگے
دیکھ لیا تم نے حسن بن صباح نے کہا میں نے کچھ عرصہ پہلے تم لوگوں کو ایک اصول بتایا تھا کہ کسی خاندان کو تباہ کرنا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے ہر فرد کو قتل کردیا جائے بلکہ اتنا ہی کیا جائے کہ اس خاندان کے سربراہ کا دماغ خراب کر دو
اسے عیش و عشرت میں ڈال دو اور اسے یہ یقین دلادوں کہ تم آدھی دنیا کے بادشاہ ہوں اور تم جیسا کوئی نہیں اس پر کوئی نشہ طاری کردو خوبصورت اور چالاک عورت سے بڑھ کر کوئی ایسا نشہ نہیں جو کسی زاہد اور پارسا کی توبہ اور قسمیں نہ توڑ سکے کسی خاندان کو تباہ کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس خاندان پر ایک شیطان عورت آسیب کی طرح غالب کر دو تم نے ایسے خاندان دیکھے ہونگے جو عورت اور دولت پر تباہ ہوئے ہیں
یا امام! ایک مصاحب نے کہا ہم نے دیکھ لیا ہے
کسی سلطنت کو تباہ کرنا ہو تو حسن بن صباح نے کہا اس کے حکمران کو عظمت کے راستے سے ہٹا دو اور اس کے دل سے رعایا کی محبت نکال دو پھر بھی کام نہ بنے تو اسے قتل کردو
یا امام! ایک مصاحب نے پوچھا یہ کام تو ہو گیا اب بتائیں اس سے آگے کیا کرنا ہوگا؟
یہ کام وہ لڑکی کرے گی حسن بن صباح نے کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکی بڑی تیز ہے اور اپنا کام کرنے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتی ہے اس لڑکی کا انتخاب میں نے خود کیا تھا اب یہ کرنا ہے کہ کوئی ایسا عقلمند آدمی مرو جائے جو روزینہ کے ساتھ رابطہ رکھے مجھے کون بتا سکتا ہے کہ یہ لڑکی قابل اعتماد ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ کر لی گی
میں بتا سکتا ہوں یا امام! ایک آدمی بولا اس کی تربیت میری نگرانی میں ہوئی ہے مرو میں اس کے ساتھ ایک تجربے کار آدمی اور دو بڑی خرانٹ عورتیں موجود ہیں
تم جانتے ہو ہم نے مرو میں کیا کرنا ہے حسن بن صباح نے کہا ہمارے اس فدائی نے وہاں زمین ہموار کر دی ہے اس نے سلطنت سلجوقیہ کا سر کاٹ دیا ہے اب اس کا باقی جسم دو حصوں میں کاٹنا ہے
ہاں امام! ایک آدمی نے کہا سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت میں خانہ جنگی کرانی ہے یہ کام روزینہ کرا لے گی
ملک شاہ کا بڑا بیٹا برکیارق جوان آدمی تھا حسن بن صباح نے کہا اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی میں اس کی فطرت اور خصلت کے متعلق تمام معلومات حاصل کر چکا ہوں وہ تو یوں سمجھو جیسے موم ہے اگر روزینہ ثابت قدم رہی تو وہ اس موم کو پگھلا کر اپنے سانچے میں ڈھال لے گی روزینہ بہت ہی حسین لڑکی ہے میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہوں
یا امام! اس کے ایک مصاحب نے کہا آپ یہ بات کیوں دہراتے ہیں ایک بار آپ نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ ملک شاہ کے قتل کے بعد کیا کرنا ہے یہ ہم پر چھوڑیں کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یا نہیں
تم اچھی طرح جانتے ہو حسن بن صباح نے کہا کہ میرے حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو ان سب کا کیا انجام ہوگا جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا
یہ داستان اس دور میں داخل ہو گئی تھی جو بلا شک و شبہ حسن بن صباح کا دور تھا ابلیسیت نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی اس سے مرو اور رے جیسے شہر بھی محفوظ نہیں رہے تھے
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح نے ایک جنت بنائی تھی اس جنت میں جو داخل ہوتا تھا وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا اسے کچھ عرصے کے لیے وہاں سے نکال لیا جاتا تو وہ اسی جنت میں جانے کو تڑپتا تھا اسے کہا جاتا کہ وہ فلاں فلاں بڑی شخصیت کو قتل کر آئے تو وہ ہمیشہ اسی جنت میں رہے گا اس طرح وہ آدمی جا کر دو تین بتاۓ ہوئے آدمیوں کو قتل کر دیتا اور بعد میں اسے بھی قتل کر دیا جاتا تھا اس جنت کی حقیقت اس سے کچھ مختلف تھی جو تاریخ نے بیان کی ہے
بیشتر مؤرخوں نے حسن بن صباح کی جنت کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی تفصیل “ائمہ تلبیبس” میں ان الفاظ میں ملتی ہے حسن بن صباح نے جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی اور اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے انکی لوح دل پر یہ بات ثبت کرادی کہ شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح تمام دنیا کا مالک اور اس دنیا میں بڑا قادر ہے اس تعلیم و تلقین کے علاوہ اس نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی وجہ سے اس جماعت کو جاں سپاری پر آمادہ کرنا بالکل چٹکی بجانے کا کام تھا
اس نے اپنا قلعہ الموت کے اردگرد نظر فریب مرغزاروں اور جاں بخش نزہت گاہوں میں نہایت خوبصورت محل برج اور کوشکیں کی تعمیر کروائیں عالی شان محلات کی دل آویزی اور خوشنمائی باغوں اور مرغزاروں کی نزہت اور تروتازگی دیکھنے والے کے دل پر جادو کا اثر کرتی تھی ان کے بیچوں بیچ جنت کے نام سے ایک نہایت خوشنما باغ بنوایا جس میں وہ تمام سامان مہیا کیے جو انسان کے لیے موجب تفریح ہو سکتی ہیں مثلا اشیاء تعیش ہر قسم کے میوہ دار درخت پھول چینی کے خوبصورت ظرورف بلوری طلائی اور نقرائی سامان بیش قیمت فرش یونان کے اسباب تعیشات پر تکلف سامان خوردنوش نغمہ سرور جنت کی دیواروں پر نقش و نگار کا نہایت نازک کام بنوایا
نالوں کے ذریعے سے محلات میں پانی دودھ شراب اور شہد جاتا تھا ان سب لذائذ کے علاوہ دل بہلانے کے لئے پری تمثال کمسن نازنین موجود تھیں ان کی سادگی وضع اور ان کے حسن و جمال کی دلربائی وہاں دیکھنے والوں کو یہ یقین دلاتی تھی کہ یہ عالم سفلی کے سوا اور ہی عالم کی پیکر ہیں کوشش کی گئی تھی کہ اس جنت میں داخلے کے بعد زائر کے دل پر فرحت کا احساس شیری اثر پیدا کیا جائے کہ وہ اس فرحت اور مسرت کو دنیاوی نہیں بلکہ اخروی یقین کرے
یہاں کے حوروغلمان کا تمام کاروبار بالکل راز داری سے انجام پاتا تھا ہر وہ چیز جس کی باہر سے مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اس حسن اسلوب سے فراہم کی جاتی تھی کہ کسی کو بھی سراغ نہ لگ سکتا تھا
حسن بن صباح علاقہ طالقان اور روزبار وغیرہ کے خوبصورت تندرست اور قوی ہیکل نوجوان جو سادہ لوح ہوتے اور ان میں ہر بیان باور کرنے اور ایمان لانے کی صلاحیت نظر آتی فدائین کی جماعت میں بھرتی کر لیتا یہ وہ لوگ تھے جو حسن بن صباح کے ہر حکم کی بلاعذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے
بھنگ جسے عربی میں حشیش کہتے ہیں شاید ان ایام میں ایک غیر معمولی اور غیر معمولی چیز تھی اور غالبا حسن بن صباح ہی پہلا شخص ہے جس نے اپنی دانشمندی سے وہ کام لیا جو اس سے پہلے شاید کسی نے نہ لیا ہوگا جب فدائی امیدواری کا دور ختم کر لیتا تو حسن بن صباح اسے بھنگ کے اثر سے بے ہوش کرکے جنت میں بھجوا دیتا جہاں وہ جاں پرور حوروں کی گود میں آنکھ کھولتا اور اپنے آپ کو ایسے عالم میں پاتا جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں شاید بڑے بڑے شاہان عالم کو بھی نصیب نہیں تھیں
یہاں وہ انواع و اقسام کی نزہت گاہوں کی سیر کرتا حوروں کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ان کی صحبت انکی جانستانی کرتی اور ان مہوشوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر مئے ارغوانی کے جام اڑاتا اعلی سے اعلی غذائیں اور بہترین قسم کے میوے کھاتا اور ہر طرح کے تعیشات میں محو رہتا ہفتہ عشرہ کے بعد جب ان محبت شعار حوروں کی محبت کا نقش اس کے دل پر اتنا گہرا پڑجاتا کہ پھر مدت العمر مٹ نہ سکے تب وہی حوریں بھنگ کا ایک جام پلا کر اسے شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح کے پاس بھجوا دیتیں جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے شیخ کے قدموں میں پاتا اور جنت کے چند روزہ قیام کی خوشگوار یاد اس کو سخت بے چین کر دیتی
حسن بن صباح اس کو جنت میں بھیجے جانے کی پھر امید دلاتا اور کہتا کہ جنت کے دائمی قیام کی لازمی شرط جاں ستانی اور جاں سپاری ہے وہ شخص جس کے دل پرگذشتہ عیش و عشرت کا اثر اتنا مضبوط پڑ چکا تھا اور حوروں کی ہم نشینی کی تصویر ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی تھی وہ حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل میں کس طرح کوتاہی کر سکتا تھا
چنانچہ جب حسن بن صباح کو کسی دشمن کا قتل کرانا منظور ہوتا تھا تو وہ ایک فدائی نوجوان کو حکم دیتا کہ جا فلاں شخص کو قتل کرکے قتل ہوجا مرنے کے بعد فرشتے تجھے جنت میں پہنچا دیں گے
یہ فدائی اپنے حوصلے سے بڑھ کر مستعدی دکھاتا تاکہ کسی طرح جلد جنت میں پہنچ کر وہاں مسرتوں سے ہمکنار ہو یہی وہ خطرناک لوگ تھے جن سے خون آشامی کا کام لیا جاتا تھا ان لوگوں کو جس کے قتل کا بھی اشارہ دیا جاتا وہ وہاں کوئی روپ بھر کر جاتے رسائی اور آشنائی پیدا کرتے اس کے معتمد بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کر دیتے تھے
تاریخ کی یہ تحریر شہادت مصدقا تسلیم نہیں کی جاسکتی اس دور میں محلات کی تعمیر چند دنوں یا چند مہینوں میں ناممکن تھی جس قسم کے محلات مورخوں نے بیان کئے ہیں ان کی تعمیر کے لئے پچیس تیس سال درکار تھے پھر پھلدار درختوں کا جو ذکر آتا ہے وہ اس لیے مشکوک ہے کہ درخت اتنی جلدی تناور نہیں ہو سکتا کہ وہ پھل اور میوہ جات دینے لگتا مؤرخوں اور ان کے بعد آنے والے تاریخ نویسوں نے ایک دوسرے کی تحریروں میں زیب داستان اور مبالغہ آرائی کے ذریعے اضافے کئے اور ہمارے سامنے اس جنت کا نقشہ آگیا جو اللہ کی بنائی ہوئی جنت سے بھی زیادہ خوشنما اور دلفریب لگتا ہے دودھ شہد اور شراب کے نلوں کو تو شاید تصور میں لایا جا سکے اور لایا بھی جا رہا ہے لیکن ان کا وجود بھی مشکوک ہے
پھر یہ سب کیا تھا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی اس کے قاتل فدائین نے اسی جنت میں جنم لیا تھا ان قاتلوں کی اگلی نسلیں حسن بن صباح کی موت کے بعد بھی قاتل ہی کہلاتی رہیں اور ان نسلوں نے کرائے کے قتل کی وارادتوں میں نام حاصل کیا تھا
قارئین کرام کو قبل از مسیح کے دور میں کچھ دیر کے لیے لے چلتا ہوں ایسی ایک جنت کا ذکر یونان کی دیو مالائی داستانوں میں ملتا ہے یہ اس دور کی بات ہے جب یونان والوں نے پوجا کرنے کے لئے کئی دیوتا اور دیویاں تخلیق کر لی تھیں یہ معبود آسمانوں پر رہتے تھے اور زمین پر بھی ایک داستان میں اس جنت کا ذکر ملتا ہے جس کی خوشنمائی اور دلکشی کی تفصیلات پڑھو یا سنو تو حسن بن صباح کی جنت سامنے آجاتی ہے لیکن وہ یونانی داستان لکھنے والے تھے جنہوں نے اس جنت کی حقیقت بھی بیان کردی تھی اس جنت کا تجزیہ آج کے سائنسی دور میں جب دیگر علوم بھی نقطہ عروج پر ہیں کرو تو یقین آجاتا ہے کہ وہ جنت ہی تھی لیکن اس کی حقیقت کیا تھی؟
حقیقت یہ تھی کہ یونان میں ایک پہاڑ تھا اس پہاڑ میں ایک غار تھا جو دور اندر تک چلا گیا تھا لیکن سیدھا نہیں بلکہ بھول بھلیوں کی صورت میں اس وقت کے بادشاہ نے اس غار کے اندر کوئی ایسی جڑی بوٹیاں رکھ دی تھیں جن کی بو پھیل گئی تھی تھوڑے تھوڑے عرصے بعد یہ جڑی بوٹی تروتازہ پھر وہاں بکھیر آتے تھے
بادشاہ اپنے کسی مخالف کو یا کسی اور وجہ سے کسی آدمی کو کوئی لالچ دے کر اس غار میں بھیج دیتا تھا وہ شخص اس غار میں دور اندر تک جاتا تو اسے اندر حوریں نظر آنے لگتی تھیں اور اسے یوں نظر آتا جیسے وہ اس کے استقبال کے لیے بے تاب ہوں وہ ان کے ساتھ عیش عشرت کرتا اور پھر اسے یہ حوریں ایسے ایسے کھانے پیش کرتیں جو زمین پر رہنے والے انسانوں نے کبھی دیکھے اور کبھی سنے نہیں تھے یہ تحریر بھی کیا گیا کہ اندر جانے والے اور کچھ دن اندر رہنے والے شخص کو باہر لائے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آیا اور دوڑ کر پھر غار میں چلا گیا وہ اس جنت میں سے کسی قیمت پر نکلنا نہیں چاہتا تھا وہ پھر اندر چلا جاتا اور چند دنوں میں ہی مر جاتا اور تھوڑے عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتی حقیقت یہ تھی کہ اس غار کے اندر چھوٹی چھوٹی چٹانیں ستونوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں ان چٹانوں کو وہ حوروغلمان سمجھ لیتا تھا اور یہ چٹانے اسے حوروغلمان ہی کی شکل میں نظر آتی تھیں وہ جو مرغن اور عجیب و غریب خانے کھاتا تھا وہ کنکریاں اور مٹی ہوتی تھیں
یہ اس بو کا اثر تھا جو جڑی بوٹیوں سے اٹھتی اور غاروں کے اندر فضا میں پھیلتی رہتی تھی اس بو میں نشے کا ایسا اثر تھا جو ذہن کو انتہائی خوبصورت اور دلفریب تصور دیتا تھا یہ دیومالائی داستان بہت ہی طویل ہے جس میں تخیلاتی اور انہونی واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں لیکن داستان لکھنے والے نے دانشمندی کا یہ ثبوت دیا ہے کہ اس جنت کی اصل حقیقت پوری طرح بیان کر دی ہے
میں آپکو یہ سنانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یونان کی اس دیومالائی داستان کا ایک باب مختصراً بیان کر دوں اس میں وہ عقل و دانش کا راز نظر آتا ہے جو ہر انسان کے لیے سمجھنا ضروری ہے یہ داستان لکھنے والا لکھتا ہے کہ ایک شہزادے کے دل میں یہ خواہش ابھری کے وہ اس غار میں جائے اور اس جنت میں دو تین دن گزار کر واپس آجائے
اس نے اپنے بوڑھے اتالیق سے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا تو بزرگ اتالیق نے اسے سمجھایا کہ اس جنت کی حقیقت کیا ہے شہزادہ چونکہ شہزادہ تھا اس لیے وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے اتالیق کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کے ساتھ اس غار تک چلے اتالیق نے دھاگے کا ایک گولا اٹھایا اور شہزادے کو ساتھ لے کر اس پراسرار غار تک چلا گیا اس نے دھاگے کا ایک سرا شہزادے کے کلائی سے باندھ کر کہا کہ تم غار کے اندر چلے جاؤ اندر بھول بھلیاں ہیں جن میں تم گم ہو جاؤ گے ان میں سے تم نکل نہیں سکو گے تمہیں یاد ہی نہیں رہے گا کہ تم کس راستے سے اندر آئے تھے یہ دھاگہ ٹوٹنے نہ دینا میں باہر بیٹھ جاؤں گا اور دھاگا کھولتا جاؤں گا جہاں تمہیں حوریں اور ایسی ہی چیزیں نظر آنے لگیں وہیں سے اس دھاگے کو پکڑ کر واپس آ جانا یہ دھاگا تمہاری رہنمائی کرے گا
شہزادہ غار میں داخل ہوگیا اور بزرگ اتالیق دھاگا ڈھیلا کرتا گیا کرتا گیا حتیٰ کہ بڑاہی لمبا دھاگا شہزادے کے ساتھ غار کے اندر چلا گیا دن گزر گیا مگر شہزادہ باہر نہ آیا یہاں کئی اور واقعات بیان کئے گئے ہیں لیکن میں آپ کو صرف ایک حصہ پیش کرکے بتانا چاہتا ہوں
بزرگ اتالیق نے جب دیکھا کہ شہزادہ ابھی تک باہر نہیں آیا وہ دھاگے کا باقی گولا باہر رکھ کر دھاگے کو پکڑ پکڑ کر غار کی بھول بھلیوں میں جاتے شہزادے تک پہنچ گیا خود اس معمر اور دانشمند اتالیق کو حسین و جمیل چیزیں نظر آنے لگیں مگر اس نے اپنی ناک پر کپڑا باندھ لیا اور شہزادے تک جا پہنچا شہزادہ مٹی کھا رہا تھا اور قہقہے لگارہا تھا اور بازو پھیلا کر یوں بازو اپنے سینے پر سمیٹ لیتا تھا جیسے اس نے اپنے بازوؤں میں کوئی چیز دبوچ لی ہو اتالیق شہزادے کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر لایا اگر دھاگہ ٹوٹ جاتا تو دونوں باہر نہ نکل سکتے
باہر آکر شہزادہ اپنے اتالیق سے الجھ پڑا اور پھر غار کی طرف دوڑا اتالیق نے اسے پکڑ لیا لیکن اتالیق بوڑھا اور شہزادہ نوجوان تھا شہزادے کو بے بس کرنے کے لئے اس کے سر کے پچھلے حصے پر پتھر کی ضرب لگائی شہزادہ بے ہوش ہو کر گرپڑا شہزادہ جب ہوش میں آیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر فورا ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے غار کا دہانہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا اس نے اتالیق سے پوچھا اتالیق نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ اپنے منہ میں انگلیاں ڈالو اور انگلیاں دیکھو شہزادے نے اپنے منہ میں ایک انگلی پھیری تو اسے کچھ مٹی نظر آئی جو اس کی انگلی کے ساتھ لگ گئی تھی اس وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کے دانتوں کے درمیان ریتی اور مٹی موجود ہے اس نے تھوک تو مٹیالے رنگ کا تھوک تھا شہزادے نے اپنے دانشمند اتالیق کی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا
میرے عزیز شہزادے! اتالیق نے کہا میں آج تمہیں ایسا سبق دوں گا جو مرتے دم تک تمہیں فریب کاروں اور بے وفا لوگوں کے دھوکوں سے بچائے رکھے گا اس غار کے اندر کوئی جنت نہیں نہ کوئی حور ہے اور نہ حوروں جیسے لڑکے اور نہ ہی وہاں آسمان سے اترے ہوئے کھانے ہیں اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی شراب ہے جسے تم سمجھتے ہو زمین پر نہیں ملتی یہ جنت ہر انسان کے اپنے ذہن میں موجود ہے ہر انسان زندگی کے حقائق سے بھاگ کر اپنے ذہن کی جنت میں چلا جانا چاہتا ہے لیکن اس کے ہوش و حواس اس حد تک بیدار رہتے ہیں کہ وہ تصور کو تصور ہی سمجھتے ہیں اس غار میں ایک خاص بوٹی کی بو چھوڑی گئی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن سے یہ حقیقی زندگی نکل جاتی ہے اور جو حسین تصور انسانی ذہن نے تخلیق کیے ہوتے ہیں وہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتے ہیں یوں سمجھ لو کے انسان کی بیداری والی حس سو جاتی ہے اور تصورات پیدا ہو جاتے ہیں
تمہارے پھیپڑوں میں یہ بو گئی اور تمہارے دماغ پر قابض ہو گئی پھر تم حقیقت سے کٹ گئے اور تمہارے ذہن نے جو خوبصورت تصورات تخلیق کر رکھے تھے وہ باہر تمہارے سامنے حوروں اور جنت نظیر ماحول کی صورت میں سامنے آگئے انسان بڑی کمزور چیز ہے انسان ذہن کا غلام ہوتا ہے تخریبی قوتوں کا حملہ ذہن پر ہوتا ہے انہیں تخریبی اور سفلی قوتوں کو شیطان کہا گیا ہے میں نے تمہاری کلائی کے ساتھ دھاگا باندھ دیا تھا اور اس کا دوسرا سرا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا غور کرو شہزادے میں زندہ حقیقی زندگی میں بیٹھا ہوا تھا اور تم تصورات میں گم ہوگئے تھے لیکن یہ دھاگا حقیقت اور تصور کے درمیان ایک رشتہ تھا یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو تم ہمیشہ کے لئے حقیقی زندگی سے کٹ جاتے یاد رکھو حسین تصورات اور حقیقی زندگی کے درمیان صرف ایک کچا دھاگا حائل ہے جس نے اس دھاگے کو توڑ ڈالا وہ اپنی موت خود مرا اور جس نے اس دھاگے کو ٹوٹنے نہ دیا وہ بھٹک بھٹک کر کبھی تو واپس حقیقت میں آ ہی گیا
یہ ایک نشہ ہے جو کسی جابر بادشاہ پر بھی طاری ہو جائے تو وہ حسین تصورو میں جا پڑتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد گم ہو جاتا ہے بادشاہ اپنے دشمن کو قتل کروا دیتے ہیں دشمن کو مارنے کا بہترین اور بڑا ہی حسین طریقہ یہ ہے جو ہمارے بادشاہ نے اختیار کیا ہے دشمن کو کسی نشے میں مبتلا کرکے اس میں یہ غلط احساس پیدا کر دو کہ تم ساری دنیا کے بادشاہ ہو اور اتنے خوب رو ہو کے کسی بھی دیس کی شہزادیاں تم پر مر مٹے گی اس کی زندہ مثال تم اس غار کے اندر دیکھ آئے ہو تمہارے لیے سبق یہ ہے کہ اپنے ذہن کو اپنے قابو میں رکھو اپنے ہوش و حواس کو اپنے ذہن کے حوالے کبھی نہ کرو اور بچو اس نشے سے جو نیک وبد کا احساس ہی مٹا دے لیکن انسان کی فطرت اتنی کمزور ہے کہ وہ لذت اور تعیش کو فوراً قبول کرلیتی ہے اور انسان کا حلیہ ہی بگاڑ دیتی اور اسے تباہی کی گہری کھائی میں پھینک دیتی ہے…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:30 }
آج کی سائنس نے قدیم زمانے کے اسرار کو بے نقاب کردیا ہے کوئی انسان غصے سے باؤلا ہو جائے درندہ بن جائے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تو چھوٹی سے ایک گولی یا ذرا سا ایک انجکشن اس کے ذہن کو سلا دیتا ہے اور وہ کمزور سا ایک انسان بن جاتا ہے اب تو ایسے ملزموں کو جو اپنے جرم کا اقبال نہیں کرتے دھوکے میں کھانے یا پینے کی اشیاء میں ذرا سی دوائی ملا کر دی جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں جیسے وہ بہت بڑی شخصیت ہو اور حسین ترین لڑکیاں اس پر جان نثار کرتی ہوں اور اسے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ اس قدر بہادر دلیر اور دانشمند ہے کہ اس نے وہ جرم کیا ہے جو اور کوئی نہیں کر سکتا اس طرح دو چار مرتبہ اسے یہ دوائی کھانے پینے میں دی جاتی ہے اور وہ بڑے فخر سے اپنے جرم کا اقبال ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ایک تفصیل سنا دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے
حسن بن صباح کی جنت کا زیادہ تر تعلق انسانی ذہن ہی سے تھا تاریخوں میں جو تفصیلات آئی ہیں ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اختلاف ہے لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حسن بن صباح اپنے فدائین کو حشیس پلاتا تھا حشیش کے جو اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ ان تمام منشی اشیاء کے اثرات سے مختلف ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں
حشیش پی کر انسان نے اگر ہنسنا شروع کر دیا تو وہ نشہ اترنے تک ہنستا ہی چلا جائے گا اور اگر وہ رونے پر آیا تو گھنٹوں روتا ہی رہے گا کسی انسان کو آہستہ آہستہ حشیش پلاتے رہیں اور ساتھ ساتھ کوئی بڑا ہی حسین منظر الفاظ میں بیان کرتے رہیں تو وہ شخص ایسے ہی منظر میں چلا جائے گا خواہ اس منظر کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو
تاریخ میں یہ بالکل صحیح لکھا گیا ہے کہ جس دانشمندی سے حسن بن صباح نے حشیش کو استعمال کیا ہے اس طرح اس وقت تک اور کوئی نہیں کر سکا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح غیر معمولی طور پر دانشمند آدمی تھا
یونان کی دیو مالائی داستان کی جنت اور حسن بن صباح کی جنت میں فرق یہ تھا کہ اس یونانی داستان میں ایک غار تھا جس میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں ابھری تھیں اور وہاں کنکریاں اور مٹی تھیں لیکن حسن بن صباح نے جس علاقے میں جنت بنائی تھی وہ بڑا ہی حسین اور روح افزا جنگل تھا اس جنگل میں پھل دار درخت بھی تھے اور پھولدار خودرو پودے بھی تھے ایسے اور بھی بہت سے پودے وہاں اگائے گئے تھے اور اس خطے کو کاٹ کاٹ کر مزید خوبصورت بنا دیا گیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعہ الموت بلندی پر تھا اور اس کا اپنا ایک حسن تھا یہ قلعہ بنانے والوں نے اس کی خوبصورتی کا خاص طور پر خیال رکھا تھا
حسن بن صباح کے یہاں نوجوان اور بڑی ہی حسین لڑکیوں کی کمی نہیں تھی اس کا ایک گروہ ہر ایک دن قافلے لوٹنے میں لگا رہتا تھا یہ گروہ قافلوں سے سونے چاندی کے علاوہ نقد رقم لوٹ لیتا اور اس کے ساتھ ہی کمسن بچیوں کو بھی اٹھا لاتا تھا ان بچیوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی تھی لیکن ان پر ذرا سا بھی ظلم اور تشدد نہیں کیا جاتا تھا انہیں بڑی خوبصورت زندگی مہیا کی جاتی تھی اور اسکے ساتھ انہیں مردوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی لڑکیوں کے ہاتھوں سے فدائین کو تیار کرنے کے لئے حشیش پلائی جاتی تھی حشیش پلا کر یہ لڑکیاں ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتی تھیں جن سے انہیں یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ اتنے بہادر ہیں کہ جسے چاہیں قتل کر دیں اور چاہیں تو ساری دنیا کو فتح کر لیں
مختصر یہ کہ حسین اور نوجوان لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے ان آدمیوں کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا جاتا تھا اس کے ساتھ وہاں کا قدرتی ماحول اپنا ایک اثر رکھتا تھا کچھ دنوں بعد اس شخص کو اس ماحول ان لڑکیوں اور حشیش سے محروم کرکے قلعے کے تہہ خانے میں پہنچا دیا جاتا تھا وہ شخص تڑپتا اور کاٹنے کو دوڑتا تھا اس کیفیت میں اسے حسن بن صباح کے سامنے لے جایا جاتا اور تاثر یہ دیا جاتا کہ حسن بن صباح ساری دنیا کا بادشاہ ہے اور وہ جسے چاہے جنت عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے جہنم میں پھینک دیتا ہے
اس شخص کی اس ذہنی اور جذباتی حالت میں حسن بن صباح اپنا جادو چلاتا تھا وہ اسے قتل کرنے اور قتل ہو جانے پر آمادہ کرلیتا تھا بات وہیں پر آتی ہے کہ یہ ان انسانوں کے ذہن تھے جن پر حسن بن صباح قابض ہونا ہوجاتا اور انہیں اس مقام تک لے جاتا تھا جہاں وہ لوگ اس کے اشارے پر جانیں قربان کر دیتے تھے
انسان کی سب سے بڑی کمزوری تعیش پرستی ہے اللہ کے بندوں کی یہی وہ دکھتی رگ ہے جسے ابلیس اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اسی لئے حسن بن صباح کی جنت کو ابلیسی جنت کہا گیا ہے
پھر حقائق سے فرار انسان کی دوسری بڑی کمزوری ہے کوئی انسان جب عورت کو فرار کا ذریعہ بناتا ہے تو اس کے ذہن میں ابلیس کی جنت کا وجود آ جاتا ہے پھر اس انسان کو دنیا کی کوئی طاقت تباہی سے نہیں بچا سکتی ایسا انسان اللہ کے اس فرمان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے جس میں اللہ نے انسان کو یہ وارننگ دی ہے کہ تم پر جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی اعمال بد کا نتیجہ ہوتی ہے
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ
حسن بن صباح کا باطنی عقیدہ بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا تھا اور بے شمار علاقہ اس کی زد میں آچکا تھا اس عقیدے نے تیزی سے ہی پھیلنا تھا انسان فطری طور پر خود سر اور سرکش واقع ہوا ہے یہ بھی ایک فطری کمزوری ہے اگر کوئی مخلص قائد مل جائے اور وہ کچھ انسانوں کی خود سری اور سرکشی کو منظم طریقے سے کسی نصب العین کے لیے استعمال کرے تو یہ ایک قوت بن جاتی ہے لیکن اسی خودسری اور سرکشی کو انسان جب اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اوصاف اس کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں انسان پابندیاں قبول نہیں کیا کرتا حسن بن صباح نے لوگوں کو جو عقیدہ دیا تھا اس کا نام اسلام ہی رہنے دیا تھا لیکن اس میں ترمیم یہ کی تھی کہ انسان کے باطن میں جو کچھ ہے وہی مذہب ہے اس نے شریعت کو اسلام میں سے نکال دیا تھا
وہ پسماندگی کا دور تھا تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ان علاقوں کے لوگ مسلمان تھے حسن بن صباح نے ان کو مسلمان ہی رہنے دیا اور کمال یہ کر دکھایا کہ انہیں تمام مذہبی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد کردیا
اس کا باطنی عقیدہ تیزی سے پھیل رہا تھا پھر بھی سلطان ملک شاہ اس کے راستے میں ایک رکاوٹ بنا ہوا تھا اسے معلوم تھا کہ یہ سلطان اس کے خلاف بہت بڑی فوج تیار کر رہا ہے حسن بن صباح نے اپنے ایک فدائین کے ہاتھوں سلطان ملک شاہ کا پتہ ہی کاٹ دیا تو یہ رکاوٹ راستے سے ہٹ گئی اسے برکیارق کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا اس نے اپنے مصاحبوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ جوان آدمی ہے جس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اسے ذہنی طور پر بیدار کرنے کے لئے روزینہ کو بھیج دیا تھا جس کے حسن و جمال اور انداز میں طلسماتی اثرات چھپے ہوئے تھے
اس علاقے میں ابھی کچھ اور قلعے ایسے تھے جو حسن بن صباح کے قبضے میں نہیں آئے تھے وہ اس خیال سے ان قلعوں کی طرف نہیں بڑھتا تھا کہ سلطان ملک شاہ فوج لے کر آ جائے گا
ان قلعوں میں ایک اہم قلعہ قلعہ ملاذ خان تھا جو فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا کسی وقت یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے قبضے میں تھا وہ قافلوں کو لوٹتے اور مال اس قلعے میں لاکر جمع کر دیتے تھے قافلوں میں سے انہیں کمسن بچیاں اور نوجوان لڑکیاں ملتی تھیں تو انہیں بھی اس قلعے میں لے آتے تھے
ان ڈاکوؤں کے ڈر سے قافلوں کی آمد و رفت و بند ہوگئی اور اس کا اثر تجارت پر بھی پڑا لوگ سلطان ملک شاہ کے یہاں گئے اور فریاد کی کہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے ان دنوں سلطان ملک شاہ جوان تھا اور نیا نیا سلطان بنا تھا اس نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ وہ اس قلعے پر قبضہ کرے اور ان ڈاکوؤں کا قلع قمع کردے اس سالار کا نام عفد الدولہ بن بویا تھا سلجوقیوں کی تاریخ کا یہ ایک نامور سالار تھا اس نے ایک روز طوفان کی طرح جا کر قلعے کا محاصرہ کرلیا ڈاکو آخر ڈاکو تھے وہ کوئی جنگجو نہیں تھے سالار بویا نے اپنے سپاھیوں کو حکم دیا کہ کمندیں پھینک کر قلعے کی دیواروں پر چڑھیں اور اپنی جانیں قربان کردیں
وہ مجاہدین تھے جنہیں بتایا گیا تھا کہ ان ڈاکوؤں نے کتنے ہی قافلے لوٹے ہیں اور سیکڑوں کمسن لڑکیوں کو اغوا کیا ہے اور سیکڑوں نہیں ہزاروں گھروں میں صف ماتم بچھا دی ہے ان مجاہدین نے جانوں کی بازی لگادی اور قلعے میں دیوار پھاند کر داخل ہوگئے تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں طوفان کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے ان کا جذبہ ایسا تھا کہ انہیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اللہ کے حکم سے اس قلعے پر حملہ آور ہوئے ہوں
ایک بھی ڈاکو قلعے میں سے زندہ نہ نکل سکا سب کو کاٹ دیا گیا صرف عورتوں اور بچوں کو زندہ رہنے دیا گیا جنہیں سلطان ملک شاہ کے حکم سے دارالسلطنت میں بھیج دیا گیا تھا اور ان سب کو لوگوں کے گھروں میں آباد کر دیا گیا تھا
سلطان ملک شاہ نے یہ قلعہ اپنے ایک رئیس میرانز کو بطور جاگیر دے دیا اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد حسن بن صباح نے اپنا ایک وفد میرانز کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ یہ قلعہ خریدنا چاہتا ہے رائیس قلعہ نے صاف انکار کردیا اور یہ پیغام کا جواب دیا کہ آئندہ کوئی باطنی اس قلعے میں داخل ہونے کی جرات نہ کرے
قافلے محفوظ ہوگئے اور اس وسیع علاقے میں لوگ آکر آباد ہونے لگے حتٰی کہ یہ ایک شہر کی صورت اختیار کرگیا حسن بن صباح کی نظر ہمیشہ اس قلعے پر لگی رہی لیکن اس نے ظاہر یہ کیا کہ اسے اس قلعے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں
سلطان ملک شاہ قتل ہوگیا تو حسن بن صباح نے اپنے خاص مصاحبوں سے کہا کہ اب قلعہ ملاذ خان اپنے قبضے میں آ جانا چاہیے
رئیس قلعہ بن بویا شام کے وقت اپنے مصاحبوں میں بیٹھا ہوا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ ایک سفید ریش بزرگ اسے ملنے آئے ہیں بن بویا بااخلاق اور صاحب اقتدار رئیس تھا وہ اس بزرگوں کو اندر بلانے کی بجائے خود اس کے استقبال کے لئے چلا گیا اسے بڑے تپاک اور احترام سے ملا اور اندر لے آیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا کے کان میں سرگوشی کی میں علاحدگی میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں
بن بویا اسے دوسرے کمرے میں لے گیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بات شروع کی میں آپکو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں باطنی ہوں آپ نے اس قلعے میں باطنیوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے
پھر آپ اس قلعے میں کس طرح داخل ہوئے؟
بن بویا نے ذرا تحکمانہ لہجے میں کہا کیا دروازے پر آپ سے کسی نے پوچھا نہیں تھا
پوچھا تھا بزرگ نے جواب دیا میں نے جھوٹ بولا تھا کہ میں اہل سنت ہوں اب آپ پوچھیں گے کہ میں نے جھوٹ کیوں بولا میرا اپنا کچھ ہی کیوں نہ ہو میں تارک الدنیا ہوں اور میرے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے خداوند تعالی نے مجھے کشف کی طاقت دی ہے میں اس قلعے میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا نہ میرا یہاں کوئی کام تھا میں اس قلعے کی دیوار کے ساتھ جاتے ہوئے راستے پر جا رہا تھا کہ مجھے ایک اشارہ سا ملا اور میں نے گھوڑا روک لیا کوئی طاقت جو کشش کی طاقت ہی ہوسکتی ہے مجھے قلعے کی دیوار کے قریب لے آئی مجھے صاف اور واضح اشارہ ملا کہ قلعے کے اندر خزانہ دفن ہے میں نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہونا چاہیے تھا اور یقین ہے کیونکہ یہ قلعہ صدیوں سے ڈاکوؤں کے قبضے میں تھا جہاں ڈاکو ہوتے ہیں وہاں کی زمین میں خزانہ کا مدفون ہونا لازمی ہوتا ہے
کیا آپ مجھے اس خزانے کی خوشخبری سنانے آئے ہیں؟
بن بویا نے کہا اس کے بعد آپ یہ کہیں گے کہ میں آدھا خزانہ آپ کو دینے کا وعدہ کروں تو آپ خزانے کی نشاندہی کریں گے
میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ میں تاریک الدنیا ہوں بزرگ نے کہا میں نے خزانہ حاصل کرکے کیا کرنا ہے میں خزانے کی نشاندہی کر دوں گا لیکن شرط یہ نہیں ہوگی کہ آدھا خزانہ مجھے دیں بلکہ شرط یہ ہوگی کہ اس خزانے میں لوگوں کا لوٹا ہوا مال ہے اس خزانے کے لئے ڈاکوؤں نے نہ جانے کتنے سو یا کتنے ہزار آدمی مار ڈالے ہوں گے یہ خزانہ نہ میرا ہے نہ آپ کا میں اسکی نشاندہی کروں گا لیکن اس شرط پر کہ اس خزانے کا صرف چالیسواں حصہ آپ لینگے باقی سب غریبوں میں تقسیم کر دیں گے
ہاں بزرگوارِ محترم! بن بویا نے کہا میں خزانہ غریبوں میں تقسیم کر دونگا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خزانہ کتنا کچھ ہے؟
نہیں! بزرگ نے جواب دیا یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خزانہ زیادہ ہے ایک بات اور بھی ہے جو ذرا تحمّل سے سنیں آپ ہم باطنیوں کو کافر کہتے ہیں میں کبھی خود بھی شک میں پڑ گیا تھا لیکن جب مجھے کشف ہونے لگا تو یہ خیال آیا کہ میں کافر ہوتا تو اللہ کی ذات مجھے کشف کی طاقت نہ عطا کرتی آج مجھے اس خزانے کا اشارہ ملا تو میں نے پہلے یہ سوچا کہ خزانہ ہے تو پڑا رہے مجھے اس سے کیا خیال آگیا کہ نہیں یہ خزانہ اللہ کے بندوں کے کام آنا چاہیے اس پر مجھے اشارہ ملا کہ یہ غریبوں میں تقسیم ہو میں بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک بار ہمیں موقع دیں کہ ہم آپ کے ساتھ باطنی عقیدے پر بات کر سکیں میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہمارے عقیدے میں آجائیں البتہ میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں
کیا آپ ہم سے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ؟
رئیس قلعہ بن بویا نے پوچھا اگر ایسی بات ہے تو مناظرہ آپ کریں گے یا کوئی اور آئے گا؟
میں مناظرے کی بات نہیں کر رہا بزرگ نے کہا مناظرے کا مطلب ہوگا کہ ہم آپ کو جھٹلانے کی کوشش کریں گے نہیں رئیس قلعہ! میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں نہ میں آپ کی توہین کرنے کا خواہشمند ہوں میں اپنا مطلب پھر واضح کر دیتا ہوں کہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیں تاکہ ہم آپ کا دل صاف کر سکیں
کیا آپ خزانے کی بات اس کے بعد کریں گے؟
بن بویا نے پوچھا یا آپ یہ کوشش کریں گے کہ میں آپ کے عقیدے کو قبول کر لوں؟
نہیں رئیس قلعہ! بزرگ نے جواب دیا خزانے کی بات الگ ہے میں وہ بھی کروں گا میں آپ کے ساتھ رہ کر خزانے کی نشاندہی کروں گا عقیدوں کی میں نے جو بات کی ہے وہ تو میں نے آپ سے اجازت مانگی ہے آپ اس قلعے کے مالک ہیں اجازت نہ دیں گے تو میں آپ کا کیا بگاڑ لوں گا میرے دل میں اللہ کے ہر بندے کی محبت ہے
بن بویا ایک تو اس بزرگ کی باتوں سے متاثر ہوا اور خزانے کی موجودگی نے تو اس کا دماغ ہیں پھیر دیا خزانہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مدفون خزانہ کوئی عجوبہ نہیں ہوتا تھا اس دور میں قدیم بادشاہ بھی اپنے خزانے کا کچھ حصہ کسی خفیہ جگہ دفن کر دیا کرتے تھے چونکہ یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کا تھا اس لئے رئیس قلعہ بن بویا نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہے مدفون خزانوں کے متعلق دو روایات مشہور تھیں جو آج بھی سنی سنائی جاتی ہیں ایک یہ کہ جہاں خزانہ دفن ہوتا ہے وہاں ایک بڑا ہی زہریلا سانپ ہوتا ہے جو خزانہ کے قریب آنے والے کو ڈس لیتا ہے دوسری روایت یہ ہے کہ خزانہ زمین کے اندر چلتا رہتا ہے اور اصل جگہ سے دور پہنچ جاتا ہے ایک عقیدہ ہے کہ خزانے کی سراغرسانی کوئی ایسا شخص کر سکتا ہے جس کے پاس کشف کی طاقت ہوتی ہے
مجھے یہ بتائیں بزرگوار ! رئیس بن بویا نے پوچھا آپ کتنے آدمیوں کو اپنے ساتھ لائیں گے
رائس قلعہ! بزرگ نے کہا میرے ساتھ کوئی عام سے آدمی نہیں ہوں گے وہ چند ایک علماء ہیں اور کچھ ان کے شاگرد ہوں گے ان سب کی دلچسپی صرف مذہبی عقیدوں کے ساتھ ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ساتھ کم وبیش چالیس علماء اور ان کے شاگردوں کو لے آؤں میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ وہ یہاں آکر آپ کے لوگوں میں گھومے پھیرے سلام و دعا کریں اور اس طرح ہم میں بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جائے
میں اجازت دے دوں گا بن بویا نے کہا لیکن میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ کے آدمی یہاں تبلیغ شروع کردیں
نہیں کرینگے بزرگ نے کہا اگر میرے ساتھ آنے والا کوئی بھی اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہوا پکڑا گیا تو میں آپ سے کہوں گا کہ اسے جو بھی سزا دینا چاہتے ہیں دے دیں
اور خزانے کی بات اسی روز ہوگی؟
بن بویا نے پوچھا
نہیں! بزرگ نے کہا میں ان لوگوں کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا اور دو چار دنوں کے بعد آپ کے پاس واپس آ جاؤں گا پھر میں آپ کو ساتھ لے کر خزانے کا سراغ لگاؤں گا اور اپنی موجودگی میں کھدائی کرواؤں گا
رئیس قلعہ بن بویا نے اس بزرگ کے ساتھ ایک دن طے کرلیا کہ وہ اپنے علماء کے ساتھ آ جائے اس کے دماغ پر خزانہ سوار ہوگیا تھا سورج غروب ہوچکا تھا اس لئے بن بویا نے اس بزرگ کو رات بھر کے لیے اپنے یہاں مہمان رکھا اور اگلی صبح رخصت کردیا
اگلی صبح بزرگ کو رخصت کرکے بن بویا نے شہر کی بڑی مسجد کے خطیب کو بلایا اور اسے بتایا کہ فلاں دن باطنیوں کے علماء آئیں گے اور خطیب انہیں جھٹلانے کے لیے تیاری کرلے
مقررہ روز یہ بزرگ دوپہر کے وقت کم و بیش چالیس آدمیوں کو ساتھ لیے پہنچ گئے تھے ان کی پگڑیاں عالموں جیسی تھیں پگڑیوں کے اوپر بڑے سائز کے رومال ڈالے ہوئے تھے جو ان کے کندھوں سے بھی نیچے آئے ہوئے تھے سب کے ہاتھوں میں تسبیح تھی ان کا لباس ان کی چال ڈھال اور ان کے بولنے کا انداز بتاتا تھا کہ ان لوگوں کو مذہب کے سوا کسی اور چیز میں کوئی دلچسپی نہیں رئیس قلعہ نے انکا استقبال بڑے احترام سے کیا اور انکی خاطر تواضع کی
بزرگ تین چار علماء کو ساتھ لے کر رئیس قلعہ کو الگ کمرے میں لے گیا اس نے رئیس قلعہ سے کہا تھا کہ وہ الگ بیٹھ کر بات کریں گے
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا سے کہا ہم آپکے ساتھ باتیں کریں گے اور آپ کی باتیں سنیں گے آپ نے اچھا کیا ہے کہ اپنے خطیب کو بھی یہاں بلا لیا ہے جتنی دیر ہم آپس میں بات چیت کرتے ہیں اتنی دیر میں ہمارے ساتھ آئے ہوئے آدمی شہر میں گھوم پھر لیں گے آپ بالکل مطمئن رہیں یہ بے ضرر آدمی ہیں
بن بویا مسکرا دیا اور اس نے کچھ بھی نہ کہا اسکے اپنے حکم کے مطابق کسی باطنی کا اس قلعہ بند شہر میں داخل ہونا ممنوع تھا لیکن خزانے کی خاطر وہ اس باطنی بزرگ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے رہا تھا وہ ان باطنی علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا اور باقی باطنی شہر میں نکل گئے ان کا انداز یہ تھا کہ ہر آدمی کو جو ان کے قریب سے گزرتا تھا السلام علیکم کہتے اور جو سلام پر رک جاتا اس سے وہ بغلگیر ہو کر ملتے تھے لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ باطنی ہیں اور انہیں رئیس قلعہ نے قلعے میں آنے کی اجازت دی ہے لوگ انہیں مذہبی پیشوا یا کسی دوسرے شہر کے دینی مدرسے کے استاد سمجھ رہے تھے
یہ باطنی کچھ آگے جا کر تین چار ٹولیوں میں بٹ گئے ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھی اور ان کے ہونٹ ہل رہے تھے جیسے کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہوں لوگ انہیں دلچسپی سے دیکھ رہے تھے
ان میں سے آٹھ نو آدمی قلعے کے بڑے دروازے تک چلے گئے دروازے کے ساتھ اندر کی طرف ایک کمرہ تھا جس میں دروازے کے پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے دو محافظ دروازے پر کھڑے تھے یہ باطنی ان دونوں محافظوں کے ساتھ بغلگیر ہو کر ملے اور باتوں باتوں میں انہیں اپنے ساتھ محافظوں کے کمرے میں لے گئے
کمرے میں جو پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے ان باطنیوں کو عالم سمجھ کر بڑے احترام سے ملے ایک باطنی نے کمرے کا دروازہ بند کردیا تمام باطنیوں نے اپنے چغوں کے اندر ہاتھ ڈالے اور جب ان کے ہاتھ باہر آئے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک چھوٹی تلوار تھی محافظ نہتے تھے ان کی تلواریں اور برچھیاں الگ رکھی تھیں انہیں اپنے ہتھیاروں تک پہنچنے کی مہلت ہی نہ ملی باطنیوں نے انہیں دبوچ لیا بعض نے اپنے ہاتھ آئے ہوئے محافظوں کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور دوسروں نے تلواروں سے ان کے پیٹ چاک کر دیئے ان محافظوں میں قلیدبردار بھی تھا یعنی وہ محافظ جو محافظوں کا کمانڈر جس کے پاس قلع کی چابیاں تھیں ان باطنیوں نے اس کی لاش سے چابیاں اپنے قبضے میں لے لیں
باقی باطنی بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر ہو گئے شہر کے وہ لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے جو باطنی تھے اور پہلے ہی اس قلعے میں موجود تھے انہیں معلوم تھا کہ حسن بن صباح چالیس فدائی بھیج رہا ہے جو علماء کے بھیس میں آئینگے اس قلعے میں فوج تو تھی لیکن اس کی تعداد بہت ہی کم تھی قلعے میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قلعے پر حملہ بھی ہوسکتا ہے حملہ ہوا بھی تو ایسا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی رئیس قلعہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا باطنی فدائین نے اس تھوڑی سی فوج کی ساری نفری کو مار ڈالا یا بیکار کر دیا
ایک باطنی اس کمرے میں داخل ہوا جس میں رائس قلعہ بن بویا باطنیوں کے ساتھ محو گفتگو تھا اس باطنی نے السلام علیکم کہا یہ ایک اشارہ تھا کہ باہر کام مکمل ہوگیا ہے ایک باطنی جو دوسروں کی طرح علماء کے بھیس میں تھا اٹھا اور اس نے بن بویا کو دبوچ لیا ایک اور باطنی نے خطیب کو دبوچ لیا اور انہوں نے دونوں کو قتل کر دیا اس طرح یہ قلعہ باطنیوں کے قبضے میں چلا گیا
حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی اس نے ایک آدمی کو امیر قلعہ بنا کر بھیج دیا
قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور ایک اور قلعہ تھا جس کا نام قستان تھا کسی بھی تاریخ میں اس قلعے کے حاکم کا نام نہیں ملتا اس کے نام کے بجائے تقریبا ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ وہ فاسق اور بدکار تھا اسے سلجوقیوں نے یہ قلعہ دیا تھا تمام مستند تاریخوں میں اس قلعے کی کہانی بیان کی گئی ہے
اس قلعے میں بھی ایک شہر آباد تھا اس شہر کا ایک رئیس تھا جس کا نام منور الدولہ تھا اس کے متعلق تاریخوں میں آیا ہے کہ صحیح العقیدہ اور جذبے والا مسلمان تھا اس قلعے پر بھی باطنیوں کی نظر تھی قلعے کے دفاع کے لیے کوئی خاص فوج نہیں تھی چند سو محافظہ قلعے میں موجود رہتے تھے چونکہ امیر قلعہ اپنی عیش و عشرت میں مگن رہتا تھا اس لیے باطنی قلعے میں کھلے بندوں آتے جاتے تھے
رئیس قلعہ منور الدولہ کو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک مکان میں پانچ باطنی رہتے ہیں جو یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ باطنی ہیں وہ اپنے آپ کو پکا مومن ظاہر کرتے ہیں ان کی سرگرمیاں مشکوک سی تھیں
دو چار آدمیوں نے رئیس منور کو بتایا کہ یہ لوگ خطرناک معلوم ہوتے ہیں ان کی موجودگی کی اطلاع امیر قلعہ تک پہنچنی چاہیے تاکہ وہ ان پر جاسوس اور مخبر مقرر کردے امیر قلعہ تک کوئی رئیس ہی سہی پہنچ سکتا تھا ایک روز منورہ چلا گیا اور اسے ان باطنیوں کے متعلق بتایا رئیس منور امیر قلعہ کے یہاں آتا جاتا رہتا تھا
ہمارے لوگ وہمی ہیں منور! امیر قلعہ نے بے نیازی اور بے پرواہی سے کہا کہو تمہاری بہن کا کہیں رشتہ ہوا ہے یا نہیں؟
منور کو اس پر طیش آئی کہ وہ بات کتنی اہم کرنے آیا تھا اور امیر قلعہ اس کی بہن کے رشتےکے متعلق پوچھ رہا تھا منور کی ایک چھوٹی بہن تھی جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئی تھی مورخ لکھتے ہیں کہ وہ بہت ہی حسین اور شوخ لڑکی تھی اس کے حسن کی شہرت سارے شہر میں پھیلی ہوئی تھی امیر قلعہ نے اس لڑکی کے رشتے کے متعلق پوچھا تو منور نے بات کو ٹال دیا اور کہا کہ وہ جس کام کے لیے آیا ہے اس کا ان کی طرف توجہ دینا بہت ہی ضروری ہے
میں دیکھوں گا امیر قلعہ نے کہا میں ان پر اپنے جاسوس مقرر کر دوں گا
چونکہ منور صحیح معنوں میں مسلمان تھا اس لیے وہ باطنیوں کا جانی دشمن بنا ہوا تھا
تین چار دنوں بعد وہ پھر امیر قلعہ کے پاس گیا اور اسے کہا کہ اس نے ابھی تک ان مشکوک باطنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی
تمہیں میرے قلعے کا اتنا فکر کیوں لگا ہوا ہے؟
امیر قلعہ نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا یہ پانچ سات باطنی میرا کیا بگاڑ لیں گے؟
امیر محترم! منور نے کہا کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ یہ باطنی کس طرح چھاتے چلے جارہے ہیں سلطان ملک شاہ کو انہوں نے قتل کیا ہے اس سے پہلے سلطان مرحوم کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی نظام الملک کو بھی انہیں باطنیوں نے قتل کیا تھا اگر آپ بیدار نہ ہوئے تو اس قلعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرلیا ہے
کیا بات کرتے ہو منور! امیر قلعہ نے ہنس کر کہا باطنی میرے قلعے پر قبضہ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے وہ یہاں آ بھی گئے تو یوں سمجھو کہ انہیں موت یہاں لے آئی ہے
یہ قلعہ اتنا اہم تو نہ تھا کہ اسے تاریخ میں اتنا زیادہ بیان کیا جاتا لیکن اس کے ساتھ جو واقعہ وابستہ ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے اسی وجہ سے مورخوں نے یہ واقعہ تاریخ میں شامل کیا ہے
منور الدولہ کے جذبے کا یہ عالم کہ وہ قلعے کی سلامتی کے متعلق پریشان تھا اور وہ ان پانچ آدمیوں کے متعلق بھی فکر مند تھا جن کے متعلق بتایا جارہا تھا کہ مشکوک ہیں اور باطنی معلوم ہوتے ہیں لیکن امیر قلعہ کی ذہنی حالت یہ تھی کہ جس روز رئیس منور اسے ملا اس سے دو روز بعد امیر قلعہ نے اپنے دو خاص آدمیوں کے ہاتھ منور کی طرف بیش قیمت تحفہ بھیجے اور ساتھ یہ پیغام کہ منور اپنی بہن کو اس کی بیوی بنا دے
کیا امیر قلعہ کا دماغ ٹھیک کام کرتا ہے؟
منور نے تحفے دیکھ کر اور اس کا پیغام سن کر کہا یہ تو تحفے واپس لے جاؤ اور اسے کہنا کہ میں اپنی نوجوان بہن کو ایک ایسے بوڑھے کے حوالے نہیں کروں گا جو شرابی بھی ہے بدکار بھی ہے اور جس کی پہلی ہی نہ جانے کتنی بیویاں ھیں
اس کی یہ جرات امیر قلعہ لانے اپنے تحفے واپس آتے دیکھ کر اور رئیس منور کا انکار سن کر کہا میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دوں گا میں اس کے ساتھ دوستی قائم رکھوں گا اور تم دیکھنا کہ بہت جلد اس کی بہن میرے پاس ہوگی
منور اپنے آپ میں یوں تڑپنے لگا جیسے امیر قلعہ نے اسے بڑی شدید ضرب لگائی ہو منور کو قلعے کا غم کھائے جا رہا تھا اور امیر قلعہ کی نظر اس کی بہن پر لگی ہوئی تھی منور کی ایک ہی بیوی اور دو بچے تھے اور اس کے گھر کی ایک فرد اس کی یہ بہن تھی منور نے بڑے غصے کی حالت میں اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ یہ بات تفصیل سے کردی
میں ان پانچ چھے باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں منور نے کہا اگر یہ پکڑے گئے اور یقین ہوگیا کہ یہ باطنی جاسوس اور تخریب کار ہیں تو میں اپنے ہاتھوں انہیں قتل کروں گا
تاریخی واقعات کے ایک انگریزی مجموعے میں یہ واقعہ اس طرح عیاں ہے کہ منور کی بہن کا قومی جذبہ بھی منور جیسا ہی تھا اس نے جب اپنے بھائی کی زبان سے سنا کہ وہ ان باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ بھائی نے اسے آمیر قلعہ سے بیاہنے سے انکار کردیا ہے تو اس لڑکی کے دل میں بھائی کی عظمت اور قومی جذبہ اور زیادہ شدت سے ابھر آیا
میرے عزیز اور عظیم بھائی! بہن نے منور سے کہا میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں مجھے بتائیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں میں آپ کے خلوص آپ کی محبت اور آپ کے جذبے کو دیکھ کر اپنا ایک راز آپ کو دے رہی ہوں یہ جو پانچ چھے جواں سال آدمی ہیں اور جن پر آپ کو شبہ ہے ان میں سے ایک مجھے چاہتا ہے اور میں اسے پسند کرتی ہوں میں بلا جھجک آپ کو بتا رہی ہوں کہ میں اس آدمی سے تین چار مرتبہ تنہائی میں مل چکی ہوں میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ہوا ہے وہ بھی میرے ساتھ بات محبت کرتا ہے اگر آپ کہیں تو میں اس آدمی کو جذبات میں الجھا کر معلوم کر سکتی ہوں کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
آفرین! منور نے کہا کوئی بھائی اپنی نوجوان بہن کو اس طرح استعمال نہیں کیا کرتا لیکن تمہارا ان لوگوں میں سے ایک کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے تو اس تعلق کو استعمال کرو اگر تمہیں کہیں بھی خطرہ محسوس ہو تو فوراً مجھے بتا دینا تم اس کے ساتھ حسن بن صباح کی بات چھیڑ دینا اور اس طرح باتیں کرنا جیسے تم حسن بن صباح کو اچھا سمجھتی ہوں اور اس کے پاس جانا چاہتی ہو
منور کی بہن خوبصورت تو تھی لیکن شوخ اور ذہین بھی تھی اس نے منور سے کہا کہ وہ ان لوگوں کی اصلیت معلوم کرلے گی
امیر قلعہ نے منور کو اپنے یہاں بلایا منور نے جانے سے انکار کردیا اس انکار کے جواب میں امیر قلعہ نے اپنی محفل میں اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ منور کو اڑا دے گا اور اس کی بہن کو اپنے یہاں لے آئے گا اس کی یہ دھمکی منور کے کانوں تک پہنچ گئی اس کا اس پر بہت ہی برا اثر ہوا اور وہ ایک کشمکش میں مبتلا ہوگیا کشمکش یہ تھی کہ وہ اپنے جذبے کو قائم رکھے یا امیر قلعہ کے رویے سے متاثر ہوکر اپنے جذبے سے دستبردار ہو جائے اسے یہ خیال بھی آیا کہ امیر قلعہ کو اپنے قلعے کا کچھ خیال نہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ جاسوسیاں کرتا پھرے جذبے مرا تو نہیں کرتے اس کے خیالوں پر قومی جذبہ غالب آگیا
تین چار دنوں بعد ہی منور کو اس کی بہن نے بتایا کہ یہ لوگ باطنی ہیں اور جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے یہاں آئے ہیں لیکن ابھی اپنے باطنی عقیدے کی درپردہ تبلیغ کر رہے ہیں
تم نے کیسے معلوم کیا ہے؟
منور نے بہن سے پوچھا
مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی بہن نے کہا جس طرح آپ نے کہا تھا میں نے اسی طرح کیا میں نے حسن بن صباح کی باتیں ایسے الفاظ میں کیں جیسے میں اسے نبی سمجھتی ہوں اور اسے دیکھنے کو بے قرار ہوں لیکن میں اسے جذبات میں لے آئی اور اپنی بات پر قائم رہی دوسرے دن وہ میری بات پر آگیا اور اس نے کہا کہ وہ مجھے حسن بن صباح کے پاس لے جائے گا اس نے یہ بھی کہا کہ امام حسن بن صباح تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا
مختصر یہ کہ اس لڑکی نے پانچ آدمیوں کے اس گروہ کی اصلیت معلوم کرلی وہ جس آدمی سے محبت کرتی تھی اس آدمی نے وہ دن بھی مقرر کردیا تھا جب اس آدمی نے اس لڑکی کو اس شہر سے لے جانا تھا دو دن گزرگئے منور کی بہن باہر نکلی اور پھر واپس نہ آئی سورج غروب ہوگیا رات گہری ہوگئی لڑکی واپس نہ آئی تب منور کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے بہن کو خطرناک آدمی کے ساتھ دوستی بنائے رکھنے پر اکسایا تھا اس میں کوئی شک تھا ہی نہیں کہ اس کی بہن اس باطنی کے ساتھ چلی گئی ہے منور کو معلوم تھا کہ حسن بن صباح کے پاس اس قسم کے سیکڑوں حسین اور تیز طرار لڑکیاں ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے یہ سوچ کر منور کا غصہ بڑھتا ہی گیا اور وہ بیچ و تاب کھانے لگا کہ وہ کیا کرے اسے امیر قلعہ کا خیال آیا کہ اسے جا کر بتائے اور وہ ان مشکوک آدمیوں کو پکڑ کر معلوم کرے کہ لڑکی ان کے قبضے میں ہے یا نہیں لیکن اس نے جب سوچا کہ امیر قلعہ نے اسے دشمن سمجھ لیا ہے تو اس نے امیر قلعہٰ کو ذہن سے اتار دیا رات گزرتی جارہی تھی
میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے منور کو اس کی بیوی نے کہا آپ امیر قلعہ کے پاس جائیں اور اسے بتائیں کہ اس کی بہن کو ان مشکوک آدمیوں میں سے ایک آدمی نے محبت کا جھانسہ دے کر غائب کر دیا ہے پھر امیر قلعہ سے کہیں کہ اگر آپ میری بہن کو ان سے آزاد کروا دیں تو میں اپنی بہن کو آپ کے ساتھ بیاہ دوں گا
یہ تو میں کسی قیمت پر نہیں کروں گا منور نے کہا بہن مجھے نظر آ گئی تو میں اسے قتل کر دوں گا اسے اس امیر قلعہ کی جوزیت میں نہیں دوں گا
میں آپ سے یہ تو نہیں کہہ رہی کہ اپنی بہن ضرور ہی اسے دینی ہے منور کی بیوی نے کہا پہلے اپنی بہن کا سراغ تو لگائیں وہ مل گئی تو امیر قلعہ کو صاف کہہ دینا کہ میں تمہیں اپنی بہن نہیں دوں گا آپ ڈرے نہیں میرے تین بھائی ہیں میں ان کے ہاتھ امیر قلعہ کو قتل کروا سکتی ہوں
منور اسی وقت امیر قلعہ کے یہاں چلا گیا امیر قلعہ شراب پی رہا تھا اور اس وقت اس کے ساتھ ایک نوخیز لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اس نے منور کو اندر بلایا اور لڑکی کو وہاں سے اٹھا دیا
کہو رئیس! امیر قلعہ نے طنزیہ سے لہجے میں پوچھا کیسے آنا ہوا ؟
مجھے آپ کی مدد کی ضرورت آ پڑی ہے منور نے کہا میری بہن لاپتہ ہوگئی ہے مجھے انہیں پانچ آدمیوں پر شک ہے جن کے متعلق میں آپ کے ساتھ بات کر چکا ہوں میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک آدمی نے میری بہن کو محبت کا جھانسہ دیا تھا مجھے شک ہے کہ میری بہن کو وہی لے گیا ہے اور میں جس مسئلہ پر پریشان ہو رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میری بہن کو حسن بن صباح تک پہنچا دیا جائے گا
وہ کہیں نہیں گئی امیر قلعہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں شراب کا اثر نمایاں تھا وہ یہی ہے اور میرے پاس ہے پریشان مت ہو رئیس! اگر تم اجازت دے دو تو یہ شادی دھوم دھام سے ہوگی اور اگر تم اجازت نہیں دو گے تو بھی یہ شادی ہو کر رہے گی اور تم منہ دیکھتے رہ جاؤ گے کہو کیا کہتے ہو کیا تم بھول گئے تھے کہ میرے ہاتھ میں کتنی طاقت ہے؟
شراب کی طاقت کوئی طاقت نہیں ہوتی منور نے اٹھتے ہوئے کہا میں تمہیں صرف ایک بار شرافت اور دوستی سے کہوں گا کہ میری بہن ابھی میرے حوالے کر دو دوسری بار نہیں کہوں گا
اس وقت امیر نشے میں بدمست تھا شراب کا نشہ تو کوئی نشہ نہیں تھا اصل نشہ تو یہ تھا کہ وہ قلعے کا اور اس شہر کا حاکم تھا یہ تھا اصل نشہ
رئیس منور! امیر قلعہ نے کہا تم چلے جاؤ سوچ کر کل مجھے جواب دینا اگر اس وقت دھمکیوں کی زبان میں بات کرو گے تو میں اپنے نوکروں کو بلاکر تمہیں دھکے دلوا کر گھر سے نکالوں گا اور شکاری کتے تم پر چھوڑ دوں گا
منور وہاں سے نکل آیا منور اپنے گھر پہنچا تو منور وہ منور نہیں تھا جو قومی جذبے سے سرشار رہتا تھا اس کے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے اور اس کی ذات میں آتش فشاں پھٹ پڑا تھا بیوی نے اس سے پوچھا تو وہ چپ رہا بیوی کو ایک طرف کر دیا اور تلوار لے کر پھر باہر نکل گیا اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑی اور باہر تک آ گئی منور نے رک کر پیچھے دیکھا
تم واپس چلی جاؤ اس نے بیوی سے کہا میں کسی کو قتل کرنے نہیں جا رہا میں ان شاءاللہ زندہ واپس آؤں گا
بیوی واپس اپنے گھر آگئی لیکن وہ بہت ہی پریشان تھی منور نے اس حویلی کے دروازے پر جا دستک دی جس میں پانچ مشکوک آدمی رہتے تھے دروازہ کھلا تو منور نے دیکھا کہ دروازہ کھولنے والا وہی آدمی تھا جسے اس کی بہن چاہتی تھی اور جو اس کی بہن کو چاہتا تھا منور اسے اور وہ منور کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا وہ منور کو اندر لے گیا سارے آدمی منور کے پاس بیٹھ گئے
میرے دوستو! منور نے کہا میں قتل کرنے نہیں آیا نہ قتل ہونے کا ارادہ ہے میری بہن لاپتہ ہے اور مجھے پتا چل گیا ہے کہ وہ امیر قلعہ کے پاس ہے وہ بدبخت کب کا میری بہن کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور میں اسے صاف الفاظ میں کہہ چکا تھا کہ میں اپنی بہن اس کی زوجیت میں نہیں دوں گا
آپ ہمارے پاس کیوں آئے ہیں؟
اس آدمی نے پوچھا جس کے ساتھ منور کی بہن کی محبت تھی ہم آپ کی جو مدد کر سکتے ہیں وہ بتائیں
میرے دوستو ! منور نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم سب باطنی ہو اور حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے یہاں آئے ہو میں تمہیں کسی بھی وقت پکڑواکر قتل کروا سکتا تھا لیکن میری یہ بات اب غور سے سنو میں تمہارا ساتھی ہوں مجھ پر اعتبار کرو صبح ہوتے ہی تم میں سے کوئی ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جائے اور اسے کہے کہ اپنے آدمی بھیجے جس طرح تم نے قلعی ملاذخان میں بھیجے تھے یہ قلعہ بھی لے لو
اس سلسلے میں ان کے درمیان کچھ اور باتیں ہوئیں اور ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جانے کے لئے تیار ہوگیا منور کی حالت ایسی تھی جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو اس کو بہن سے بہت ہی پیار تھا اس بہن کو امیر قلعہ لے اڑا تھا وہ پاگل نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا وہ بھول ہی گیا کہ وہ باطنیوں کا دشمن ہے اور باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے
دو یا تین دن گزرے ہونگے کہ جو آدمی حسن بن صباح کے پاس گیا تھا وہ واپس آ گیا اور اسی روز شہر میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا ان کے ساتھ اونٹ تھے جن پر اناج اور مختلف قسم کا سامان لدا ہوا تھا ان تاجروں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی یہ سرائے میں ٹھہرے
رات کا پہلا پہر تھا امیر قلعہ حسب معمول شراب پی رہا تھا اس نے منور کی بہن کو اپنے پاس بٹھا رکھا تھا اور شراب پینے پر مجبور کر رہا تھا لڑکی رو رو کر انکار کر رہی تھی امیر قلعہ قہقہے لگا رہا تھا عین اس وقت دربان نے اندر جا کر اسے بتایا کہ رئیس شہر منور الدولہ آئے ہیں امیر قلعہ نے قہقہہ لگا کر کہا کہ اسے اندر بھیج دو
جب منور اندر گیا تو وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پیچھے آٹھ نو آدمی تھے امیر قلعی نے حیرت زدہ سا ہو کر ان سب کو دیکھا لیکن اسے یہ پوچھنے کی مہلت نہ ملی کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں انہوں نے امیر قلعہ کو پکڑ لیا اور ان میں سے ایک نے خنجر امیر قلعہ کے دل میں اتار دیا ایک ہی وار کافی تھا
یہ جو تاجر آئے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے وہ ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور جب امیر قلعہ کو قتل کیا گیا اس وقت تک وہ ان چند سو محافظوں پر قابو پا چکے تھے جو مختلف جگہوں پر سوئے ہوئے تھے اگلی صبح اعلان ہوا کہ اب امیر قلعہ کوئی اور ہے اس طرح یہ قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں چلا گیا
منور کو توقع تھی کے باطنی اسے کوئی اعزاز دیں گے تاریخی حوالوں کے مطابق اس کی خواہش یہ تھی کہ اسے اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنی بیوی کو بہن اور بچوں کو ساتھ لے کر مرو یا رے چلا جائے لیکن اس کا انجام بہت برا ہوا منور پراسرار طریقے سے ختم ہوگیا اور اس کی بہن کو حسن بن صباح کی جنت میں بھیج دیا گیا اس کے بیوی بچوں کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:31 }
منور الدولہ قتل ہوگیا اس کے بیوی بچے کا کچھ پتہ ہی نہ چلا وہ کہاں غائب ہوگئے ہیں یا غائب کر دیئے گئے ہیں اور اس کی بہن کو باطنی لے اڑے منور الدولہ نے اسی بہن کے خاطر قلعہ قستان پر باطنیوں کا قبضہ کروا دیا تھا وہ تو پکا مومن تھا لیکن بہن کی عزت اور عصمت پر اس نے اپنا ایمان بھی قربان کر دیا تھا منور الدولہ کے خاندان کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا تھا لیکن یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی
اس کی بہن کا نام حمیرا تھا تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑی ہی حسین لڑکی تھی وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی اپنے دین وایمان کی پکی تھی اس میں اپنے بھائی منور الدولہ جیسا جذبہ تھا اس کے دل میں بھی حسن بن صباح اور اسکے باطنی فرقہ کی نفرت موجزن تھی لیکن اسے محبت ہوئی تو ایک باطنی سے ہوئی وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ خوبرو اور جواں سال آدمی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا تخریب کار اور جاسوس ہے
پہلے گزر چکا ہے کہ اس شہر کے مکان میں پانچ آدمی رہتے تھے جو بظاہر دیندار اور زاہد تھے لیکن یہ انکا بہروپ تھا وہ پانچوں وقت مسجد میں جاکر نماز ادا کرتے اور وہ اتنے ملنسار ہر کسی کے ہمدرد اور اتنے ہنس مکھ تھے کہ ہر کوئی انہیں محبت اور احترام سے ملتا اور ہر محفل میں انہیں تعظیم دی جاتی تھی یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ان کی سرگرمیاں کتنی پراسرار اور مشکوک سی تھی کہ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ لوگ باہر سے کچھ اور اور اندر سے کچھ اور ہیں شہر کے بیشتر لوگ ان پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں کرتے تھے منور الدولہ کو تو آخر میں آکر یقین ہوگیا تھا کہ یہ پانچ مذہبی قسم کے آدمی باطنی ہیں اور کسی بھی وقت کوئی تباہ کاری کر سکتے ہیں لیکن قلعے کا حاکم منور الدولہ کی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا
منور الدولہ اس شہر کا رئیس تھا لیکن اس میں وہ تکبر اور غرور نہیں تھا جو اس وقت کے رئیسوں میں ہوا کرتا تھا وہ صاف ستھرا مسلمان تھا صوم و صلوۃ اور حقوق العباد کا پابند تھا عبادت کے ساتھ ساتھ وہ عسکریت پسند بھی تھا اسے اپنی بہن حمیرا کے ساتھ بہت ہی پیار تھا اسی پیار کا کرشمہ تھا کہ حمیرا بھی خیالات اور کردار کے لحاظ سے اپنے بھائی کے نقشے قدم پر چل رہی تھی اسے گھوڑسواری کا بہت شوق تھا منور نے اسے شہسوار بنا دیا تھا اسے تیغ اور خنجر زنی نیزابازی اور تیر اندازی بھی سکھا دی تھی وہ آخر شہر کے رئیس کی بہن تھی اس لیے اس میں خود اعتمادی اور جرات تھی وہ دوسرے تیسرے دن شام کے وقت گھوڑے پر سوار ہوتی اور شہر سے نکل جاتی تھی گھوڑا دوڑاتی اور جدھر چاہتی ادھر ہو آتی تھی
ایسے ہی ایک شام وہ شہر سے کچھ دور گھوڑا دوڑا رہی تھی ایک بڑا ھی خوبرو گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا حمیرا نے اپنا گھوڑا اس کے قریب سے گزارا تو اس سوار نے اسے غور سے دیکھا اور فوراً ہی گھوڑا اس کے پیچھے دوڑا دیا دونوں گھوڑے جب پہلو بہ پہلو ہوئے تو حمیرا نے اس سوار کو غصیلی نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا کہ وہ کس نیت سے اس کے پاس چلا آیا ہے
گھوڑا فوراً روک لیں اس سوار نے کہا آپ کی زین کسی ہوئی نہیں ڈھیلی ہے اور آپ گر پڑیں گی
حمیرا نے گھوڑا روک لیا اور اتر آئی وہ آدمی بھی گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے گھوڑے کی زین دیکھی واقعی زین کسی ہوئی نہیں تھی اس نے زین اچھی طرح کس دی
اب جائیں اس سوار نے کہا بس مجھے آپ سے اتنی ہی دلچسپی تھی
حمیرا کو یہ شخص شکل و صورت اور جسم کے لحاظ سے بھی اچھا لگا اور بول چال کے انداز سے بھی وہ کوئی چھوٹی سی حیثیت کا آدمی نہیں لگتا تھا
آپ کون ہیں؟
حمیرا نے پوچھا کیا آپ یہیں کے رہنے والے ہیں
میرا نام جابر بن حاجب ہے اس سوار نے جواب دیا پردیسی ہوں بغداد سے یہاں علم کی تلاش میں آیا ہوں اپنے جیسے چار پانچ آدمی مل گئے ہیں ان کے ساتھ رہتا ہوں
لیکن آپ تو شہسوار معلوم ہوتے ہیں حمیرا نے کہا اس زین پر میں سوار تھی اور مجھے پتہ نہ چلا کہ یہ پوری طرح کسی ہوئی نہیں آپ کو اتنا تجربہ ہے کہ آپ نے دور سے دیکھ لیا اور مجھے گرنے سے بچا لیا
کیا علم کی جستجو میں مارے مارے پھرنے والے شہسوار نہیں ہوسکتے؟
جابر بن حاجب نے مسکراتے ہوئے کہا
ہوتا تو یہی ہے حمیرا نے کہا عالم عموماً تارک الدنیا سے ہو جاتے ہیں
میں ان عالموں میں سے نہیں جابر نے کہا دنیا سے تعلق توڑ لینا علم کے خلاف ورزی ہے بلکہ میں اسے علم کی توہین سمجھتا ہوں میں مسلمان ہوں وہ مسلمان ہی کیا جو شہسوار نہ ہو اور جس کا ہاتھ تلوار برچھی اور کمان پر صاف نہ ہو میں ایک زندہ قسم کا عالم بننا چاہتا ہوں اس عالم کو میں نامکمل انسان سمجھتا ہوں جو عمل سے کتراتا ہو
دونوں اپنے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑے آہستہ آہستہ چلنے لگے جابر کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں کوئی ایسا تاثر تھا کہ حمیرا کو جیسے یہ بھی یاد نہ رہا ہوں کہ اسے واپس گھر بھی جانا ہے گھوڑے آگے ہی آگے چلے جارہے تھے آگے دریا تھا جہاں گھوڑے رک گئے
وہ علاقہ بڑا ہی سرسبز تھا جس میں پیڑ پودوں کی افراط تھی اس ماحول کی اپنی ایک رومانیت تھی جو حمیرا پر اثر انداز ہونے لگی جابر نے حمیرا کو یاد دلایا کہ شام گہری ہو گئی ہے اس لیے اسے گھر جانا چاہیئے حمیرا وہاں سے چل تو پڑی لیکن وہ محسوس کرنے لگی کہ اس کا دل وہیں دریا کے کنارے رہ گیا ہے اس نے گھوم گھوم کے پیچھے دیکھا آخر گھوڑے کو ایڑ لگا دی
یہ حمیرا اور جابر کی پہلی ملاقات تھی اس کے بعد حمیرا گھوڑ سواری کے لیے ہر شام باہر آنے لگی اس کی نظریں جابر کو ڈھونڈتی تھیں لیکن جابر ہر روز باہر نہیں جاتا تھا تیسرے چوتھے روز اسے جابر مل جاتا اور دونوں دریا کے کنارے اس جگہ چلے جاتے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا جابر نے کوئی ایسی بات کی تھی نہ حمیرا نے کوئی ایسا اشارہ دیا تھا کہ ان کی محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ ہے یہ دو روحوں کی محبت تھی اور ان کی روحوں کا جسمانی آسودگی اور نفسانی خواہشات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا وہ گھوڑوں سے اتر کر ایک دوسرے میں گم ہو جایا کرتے تھے
انہوں نے شادی کے عہدوپیمان کرلیے حمیرا نے جابر کو بتا دیا تھا کہ اس کا بھائی شہر کا ریس ہے اس لیے وہ اس کی شادی کسی رئیس زادے سے ہی کرے گا
اگر تم بھائی سے کہو کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو کیا وہ انکار کردے گا؟
جابر نے پوچھا
ہاں ! حمیرا نے جواب دیا میں اسے اجازت تو ضرور لوں گی اسے میرے ساتھ اتنا پیار ہے جو اسے اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں لیکن اس نے انکار کر دیا تو میں تمہارے ساتھ جہاں کہو گے چلی چلوں گی میرا دل کسی رئیس زادے یا کسی امیر زادے کو قبول نہیں کرے گا یہ لوگ عیش پرست ہوتے ہیں میں کسی کے حرم کی قیدی نہیں بنوں گی میں ایک انسان کی رفیقہ حیات بنونگی
حمیرا کسی وقت بھی محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص باطنی ہے اور علم و فضل کے ساتھ اسکا دور کا بھی تعلق نہیں اور یہ حسن بن صباح جیسے ابلیس کا پیروکار ہے پھر وہ دن آیا جس دن منور الدولہ نے حمیرا کو بتایا کہ فلاں مکان میں جو پانچ آدمی رہتے ہیں وہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے بڑے ہی خطرناک آدمی ہیں
باطنیوں کو تم جانتی ہو نا حمیرا ! منور نے کہا اسلام کا نام لے کر یہ فرقہ اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہے اور اگر انہیں یہیں پر روکا نہ گیا تو اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا جو ہمیں رسول اللہﷺ نے دیا تھا
حمیرا نے وہ مکان دیکھا تھا جس میں جابر بن حاجب رہتا تھا اور اس نے جابر کے ساتھی بھی دیکھے تھے اپنے بھائی کی یہ بات سن کر اسے افسوس ہوا کہ جابر بھی باطنی ہے اور اس نے جھوٹ بولا ہے کہ وہ بغداد سے علم کی تلاش میں آیا ہے
میرے عظیم بھائی! حمیرا نے پوچھا کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ باطنی ہیں؟
ابھی یقین نہ کہو منور نے جواب دیا شک پکا ہے کچھ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ پانچ چھ آدمی مشکوک ہیں
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ منور امیر شہر کے پاس گیا اور اسے بتایا تھا کہ یہ پانچ آدمی ٹھیک معلوم نہیں ہوتے اور انہیں پکڑنا چاہیے لیکن امیر نے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لی تھی منور مومن اور مجاہد قسم کا مسلمان تھا اس نے حمیرا سے کہا کہ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا قلع قمع کرے لیکن یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ یہ لوگ واقعی باطنی ہیں اور تخریب کاری کی نیت سے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں
حمیرا نے بھائی سے کہا کہ اگر سوال اسلام کی سربلندی اور باطنیوں کی سرکوبی کا ہے تو وہ یہ راز نکال لائے گی پہلے سنایا جاچکا ہے کہ وہ ان پانچ چھ آدمیوں کی اصل حقیقت معلوم کر لائی اس نے یہ راز جابر بن حاجب سے لیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جابر کو حمیرا سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ اس نے حمیرا کو اپنا راز دے دیا حمیرا کے دل میں بھی جابر کی بے پناہ محبت تھی لیکن اسے جو محبت اپنے بھائی سے اور اسلام سے تھی اس پر اس نے اپنی محبت قربان کردی اس راز سے اس قلعہ بند شہر کے زمین وآسمان تہہ و بالا ہو گئے
قلعے میں خونریز ہنگامہ شروع ہوا تو جابر حمیرا کے گھر جا پہنچا اس وقت منور گھر نہیں تھا وہ امیر شہر کے گھر میں تھا جہاں کچھ باطنی اس کے ساتھ تھے اور پھر امیر شہر کو قتل کر دیا گیا تھا جابر نے حمیرا کو ساتھ لیا اور شہر سے نکل گیا
حمیرا اس توقع پر جارہی تھی کہ جابر اسے اپنے گھر بغداد لے جا رہا ہے لیکن شام کے بعد جب وہ ایک جگہ روکے تو حمیرا پر یہ انکشاف ہوا کہ اسے بغداد نہیں بلکہ الموت لے جایا جا رہا ہے
یہ اسے اس طرح پتہ چلا کہ وہ جب اپنے شہر سے نکلی تھی تو جابر اس کے ساتھ اکیلا تھا دونوں گھوڑے پر جا رہے تھے جابر بہت ہی آہستہ رفتار پر جارہا تھا حمیرا نے اسے کہا کہ تیز چلنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس کا بھائی تعاقب میں آجائے جابر نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے انتظار میں ہے وہ بھی شہر سے نکل آئے ہوں گے کچھ دیر بعد جابر کے پانچ ساتھی اس سے آ ملے قلعے پر قبضہ کرنے کے لئے دوسرے باطنی پہنچ گئے تھے جابر اور اس کے ساتھیوں کا کام ختم ہوگیا تھا جابر نے قلعہ سر کرنے کے علاوہ ایک بڑا خوبصورت شکار بھی مار لیا تھا حسن بن صباح جن لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا تھا حمیرا اگر ان سے کچھ درجہ زیادہ حسین نہیں تھی تو کسی سے کم بھی نہیں تھی حمیرا کو الموت پہنچ کر کچھ ٹریننگ دینی تھی اور پھر اسے حسن بن صباح کی جنت میں حور بنا کر داخل کرنا تھا
سورج غروب ہوگیا اور یہ چھوٹا سا قافلہ چلتا گیا اور جب رات زیادہ گہری ہوگئی تو یہ لوگ روک گئے وہ کھانا اپنے ساتھ لے آئے تھے جو انہوں نے خود بھی کھایا اور حمیرا کو بھی کھلایا انہوں نے حمیرا کی موجودگی میں ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کو یقین ہوگیا کہ اسے بغداد لے جایا جا رہا ہے جہاں جابر اس کے ساتھ شادی کرلے گا کھانا کھا چکے تو انہوں نے سونے کا بندوبست اس طرح کیا کہ حمیرا کے لئے الگ چادر بچھا دی اور باقی آدمی اس سے ذرا پرے ہٹ کر لیٹ گئے حمیرا پختہ کردار اور ایمان والی لڑکی تھی لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ گھر سے بھاگ آئی تھی اس کی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ وہ اپنے آپ میں بے چینی محسوس کر رہی تھی کبھی تو اس کو خیال آتا کہ اس نے گھر سے نکل کر کوئی غلط کام نہیں کیا وہ فخر سے کہہ سکتی تھی کہ وہ باعصمت لڑکی ہے اور محبت میں مبتلا ہوکر بھی اس نے اپنی عصمت کو داغدار نہیں ہونے دیا وہ اس خیال سے بھی خوش تھی کہ اس نے اپنے بھائی کو ناراض نہیں کیا اور اس کے آگے جھوٹ نہیں بولا لیکن فوراً ہی اس کا ضمیر لعنت ملامت کرنے لگا کہ ایک طرف تو وہ اسلام کی محبت کو دل میں لئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اس نے ایک شہر باطنیوں کے حوالے کروا دیا ہے بیشک اسکے بھائی نے امیر شہر سے انتقام لے لیا تھا لیکن ایک شہر اور مسلمان شہر کی آبادی باطنیوں کے حوالے کردینا ایک گناہ تھا
حمیرا کی ذات میں ایسی کشمکش پیدا ہوگئی کہ وہ بے چین ہی ہوتی چلی گئی اس کیفیت میں اسے نیند کیسے آتی وہ دل ہی دل میں اللہ سے معافیاں مانگنے لگی اپنے دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ کو سبز باغ بھی دکھائے اس نے تصور میں دیکھا کہ وہ جابر کی بیوی بن گئی ہے اور زندگی بڑی ہی پرسکون ہو گئی ہے جابر نے اسے یہ تو بتا دیا تھا کہ اس کے ساتھی باطنی ہیں لیکن اپنے متعلق یہ بتایا تھا کہ وہ باطنی نہیں اور وہ ان آدمیوں کے ساتھ اس لئے رہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے عقیدے اور نظریے معلوم کرنا چاہتا ہے اور جب اسے یہ سب کچھ معلوم ہو جائے گا تو پھر وہ حسن بن صباح کے عقیدوں کے خلاف تبلیغ کا فریضہ انجام دے گا
جابر حمیرا کے پاس آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ سوئی ہوئی ہے آنکھیں بندکر لیں جابر چلا گیا وہ یہی دیکھنے آیا تھا کہ حمیرا سو گئی ہے یا نہیں وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا بیٹھا وہ حمیرا سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا یہی کوئی آٹھ دس قدموں کا فاصلہ ہوگا
سوگئی ہے یہ جابر کی آواز تھی جو حمیرا کو سنائی دی
حمیرا پہلے ہی بیدار تھی اس نے جابر کی یہ بات سنی تو وہ بالکل ہی بیدار ہوگئی اور اس نے کان ان لوگوں کی طرف لگا دیے اسے شک اس لیے ہوا کہ جابر نے یہ بات کچھ اور ہی انداز سے کی تھی
اسے شک تو نہیں ہوا کہ ہم اسے کہیں اور لے جا رہے ہیں؟
جابر کے ایک ساتھی نے پوچھا
نہیں! جابر نے جواب دیا میں نے اسے شک نہیں ہونے دیا
خدا کی قسم! ایک نے کہا امام اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اگر یہ چل پڑی تو ہو سکتا ہے امام اسے باہر بھیج دیں
میں تمہیں ایک بات بتا دو دوستو! جابر نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ میں اسے کس کام کے لیے لے جا رہا ہوں لیکن میں نے اس کے ساتھ جو محبت کی ہے اس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں میں اسے اپنی روح میں بٹھا چکا ہوں میں جانتا ہوں کہ میں نے اپنے لیے کتنی بڑی دشواری پیدا کر لی ہے
اگر ایسی بات ہے تو شیخ الجبل کو پتہ نہ چلنے دینا ایک اور ساتھی بولا شیخ الجبل کو پتہ چل گیا کہ تم اس لڑکی کے معاملے میں جذباتی ہو تو تم جانتے ہو کہ تمہیں کیا سزا ملے گی ہاں جانتا ہوں جابر نے کہا امام اپنا خنجر دے کر مجھے کہے گا کہ یہ اپنے دل میں اتار لو میں محتاط رہوں گا کہ امام کو اپنی جذباتی حالت نہ بتاؤں
حسن بن صباح کو اس کے پیروکار امام کہا کرتے تھے اور تاریخوں میں اسے شیخ الجبل کہا گیا ہے
اس کے بعد ان لوگوں نے حمیرا کو سویا ہوا سمجھ کر ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کے ذہن میں کوئی شک وشبہ نہ رہا کہ اسے دھوکے میں الموت لے جایا جا رہا ہے وہاں وہ اسی ابلیسیت کا ایک کل پرزہ بن جائے گی جس کے خلاف اس کے دل میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ پہلے ہی بے چینی میں مبتلا تھی اب وہ یوں محسوس کرنے لگیں جیسے اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی ہو اس نے پہلے تو یہ سوچا کہ ان لوگوں کے پاس چلی جائے اور کہے کہ وہ یہاں سے آگے نہیں جائے گی لیکن عقل نے اس کی رہنمائی کی اس نے سوچا کہ یہ چھ آدمی ہیں اور یہ چھے آدمیوں سے آزاد نہیں ہو سکتی اس نے ان کے ہاتھوں مر جانے کا بھی فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے پر قائم نہ رہ سکی اس نے یہ بھی سوچا کہ جب یہ سب سو جائیں تو اٹھے اور دبے پاؤں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ نکلے اس پر اس نے غور کیا اور یہی فیصلہ کرلیا کہ یہ سو جائیں تو وہ بھاگ جائے گی
آدھی رات ہونے کو آئی تھی جب یہ چھ آدمی سونے لگے جابر ایک بار پھر حمیرا کے قریب آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے آنکھیں بند کر لیں جابر یہ یقین کرکے کہ لڑکی سو گئی ہے اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا پھر وہ سب سو گئے
حمیرا تو پوری طرح بیدار اور تیار ہو چکی تھی اب اسے انتظار تھا کہ یہ اور زیادہ گہری نیند میں چلے جائیں تو وہ یہاں سے اٹھے اور نکلے گھوڑے پندرہ بیس قدم دور بندھے ہوئے تھے زین ان آدمیوں نے اپنے قریب رکھی ہوئی تھیں
حمیرا کو ان کے خراٹے سنائی دینے لگے اس نے کچھ دیر اور انتظار کیا آخر وہ اٹھی اور دبے پاؤں زینوں تک پہنچی اس نے ایک زین اٹھا لی لیکن زین وزنی تھی وہ زین اٹھا کر چلی تو زین پر پڑی ہوئیں ایک زین سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا اور وہ گر پڑی لوہے کی رکابیں آپس میں ٹکرائیں تو بڑی زور کی آواز اٹھی رات کے سناٹے میں یہ آواز زیادہ ہی زوردار سنائی دی جابر کی آنکھ کھل گئی باقی ساتھی سوئے ہوئے تھے ادھر حمیرا اٹھی ادھر جابر اٹھا اور حمیرا تک پہنچا
کیا کر رہی ہو؟
جابر نے سرگوشی میں پوچھا تا کہ اس کے ساتھی نہ جاگ پڑیں کیا تم گر پڑی تھی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے ساتھ آؤ
حمیرا نے جابر کا بازو پکڑا اور اسے اس کے ساتھیوں سے دور لے گئی اور دونوں وہاں بیٹھ گئے
مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟
حمیرا نے پوچھا
قلعہ الموت جابر نے بڑے تحمل سے جواب دیا
الموت! حمیرا نے پوچھا کیا ہم بغداد نہیں جا رہے
سنو حمیرا ! جابر نے کہا میں باطنی نہیں ہوں
اور تم مجھے اس ابلیس حسن بن صباح کے حضور پیش کرو گے حمیرا نے کہا اور وہ مجھے اپنی بہشت کی حور بنادے گا جابر میں نے رات تم سب کی باتیں سنی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ باطنیوں کو مجھ جیسی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے
مجھے معلوم ہے تم سب کچھ جانتی ہو جابر نے کہا لیکن تم مجھے پوری طرح نہیں جان سکی میں اپنے امام حسن بن صباح کے اس گروہ کا آدمی ہوں جو کسی لڑکی یا کسی آدمی کو پھانسنے کے لیے ایسی جذباتی اور پراثر باتیں کرتے ہیں کہ ان کا شکار ان کا گرویدہ ہو کر ان کے قدموں میں آ گرتا ہے لیکن ان میں جذبات ہوتے ہی نہیں کسی دوسرے کی جان لے لینا اور اپنی جان دے دینا میرے گروہ کے لئے ایک کھیل ہوتا ہے ان لوگوں میں اپنی بہنوں اور اپنی ماؤں کے لیے بھی کوئی جذبات نہیں ہوتے لیکن حمیرا تم پہلی لڑکی اور شاید آخری بھی ہو جس نے میرے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اب کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ میں تمہیں فریب اور جھانسے دیتا چلا جاؤں اب تم پوری طرح ہمارے قبضے میں ہو یہاں سے بھاگو گی تو کتنی دور تک پہنچ جاؤں گی؟
اور پھر جاؤں گی کہاں؟
اگر تم ہمارے قابو میں آؤں گی تو ہم تمہارے اس حسین جسم سے پورا پورا لطف اٹھا کر تمہیں قتل کر دیں گے
اور میں یہی صورت قبول کرونگی کہ اپنے آپ کو پہلے ہی ختم کر لوں حمیرا نے کہا میں مسلمان کی بیٹی ہوں اپنا آپ کسی کے حوالے نہیں کروں گی
کیا تم میری پوری بات نہیں سنوں گی جابر نے کہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب میں تمہارے ساتھ محبت کی جو بات کر رہا ہوں یہ فریب نہیں محبت میرے لئے ہمیشہ ایک سراب بنی رہی ہے اور میں اس سراب کے پیچھے دوڑتا اور بھٹکتا اور گرتا ہی رہا ہوں میں گر گر کر اٹھا اور اٹھ اٹھ کر محبت کے سراب کے پیچھے دوڑتا رہا ہوں حتیٰ کہ میں الموت پہنچ گیا میں کوئی لمبی چوڑی کوئی میٹھی کڑوی باتیں نہیں کروں گا مجھے محبت تم سے ملی ہے میرے سوئے ہوئے اور فریب خوردہ جذبات کو تم نے جگایا ہے تم اتنا کرو کہ خاموشی سے اور اطمینان سے میرے ساتھ چلی چلو ہمارا طریقہ یہ ہے کہ لڑکی کو پھانس کر لاتے ہیں اور الموت کی جنت میں داخل کر دیتے ہیں ایسی لڑکیوں کو سنبھالنے اور اپنے راستے پر چلانے والے وہاں موجود ہیں وہ دو تین دنوں ہی میں اس کے ذہن پر اور دل پر قبضہ کرلیتے ہیں پھر کوئی لڑکی وہاں سے بھاگنے کے متعلق سوچتی ہی نہیں لیکن حمیرا میں ایسے نہیں کروں گا میں اپنی روحانی محبت کا جو تم سے ہے پورا پورا ثبوت پیش کروں گا دیکھ حمیرا ہر انسان اس عقیدے کو اور اس مذہب کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے جو اسے باپ سے ورثے میں ملا ہے عقیدہ غلط بھی ہو سکتے ہیں انسان جب سے پیدا ہوا ہے عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا چلا آیا ہے میں تمہیں اسلام کے راستے سے نہیں ہٹا رہا ہمارا امام حسن بن صباح اسلام کا شیدائی ہے تم چل کے دیکھو اگر یہ عقیدہ تمہارے دل نے قبول کرلیا تو وہاں رہنا ورنہ مجھے اپنا قائل کر لینا اور میں تمہارے ساتھ بغداد چلا چلوں گا میں تم سے محبت کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کسی کے حوالے نہیں کروں گا اپنے پاس رکھوں گا
خنک اور خاموش رات گزرتی جارہی تھی اور جابر اپنی زبان کا جادو جگا رہا تھا اس کے دل میں حمیرا کی محبت تو تھی ہی لیکن اس دل میں حسن بن صباح بھی موجود تھا حمیرا پر غنودگی اور خاموشی طاری ہوتی چلی جارہی تھی وہ اتنا تو تسلیم کرتی تھی کہ وہ تنہائیوں میں جابر سے ملتی تھی لیکن جابر نے کبھی اشارتاً بھی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کی ساری دلچسپیاں اور چاہت حمیرا کے جسم کے ساتھ ہے اب آبادیوں سے دور جنگل میں جہاں حمیرا کو اس شخص سے بچانے والا کوئی بھی نہ تھا جابر نے نفسانی خواہش کا ذرا جتنا بھی اظہار نہیں کیا تھا حمیرا جابر کو ہی اپنا ہمسفر اور محافظ سمجھ رہی تھی اور اس نے اس شرط پر جابر کی ہمسفر رہنا قبول کرلیا کہ وہ الموت جاکر دیکھیں گی کہ وہاں کیا ہے اور اس کا دل کیا کہتا ہے
اگلی صبح یہ قافلہ اپنی منزل کو روانہ ہوگیا
سلجوقی سلطان ملک شاہ کو دفن ہوئے دو مہینے اور کچھ دن گزر گئے تھے یہی ایک طاقت تھی جو حسن بن صباح کی ابلیس کے سیلاب کو روک سکتی تھی گو اس طاقت کو اب تک ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن یہ طاقت ہاری نہیں تھی اور نئی تیاریوں میں مصروف ہوگئی تھی اس کا مقصد اور نصب العین صرف یہ تھا کہ حسن بن صباح کی جنت کو اس کے لئے اور اس کے فدائین کے لئے جہنم بنا دیا جائے لیکن ملک شاہ ایک فدائی کا شکار ہوگیا اگر اس کا بڑا بیٹا برکیارق جو اس کی جگہ ایک عظیم سلطنت کا سربراہ بنا تھا اپنے باپ جیسا ہوتا تو یہ طاقت ابلیسی جنت پر بجلی بن کر گرتی لیکن برکیارق اسی قاتل کی بہن کی زلفوں کا اسیر ہوگیا تھا جس نے صرف اسے ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کو بھی یتیم کر دیا تھا
یہ لڑکی جس کا نام روزینہ تھا اس قاتل کی بہن نہیں تھی وہ تو حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی لڑکی تھی جس نے مرو میں خانہ جنگی کا بیج بونا تھا قاتل نے اپنا کام کر دیا تھا اور روزینہ مقتول کے جانشین کو اپنے طلسماتی حسن میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی یہ بھی اسکی کامیابی تھی کہ اس نے برکیارق کی ماں اور اس کے خاندان کے دیگر اہم افراد سے منوالیا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے پہلے یہ تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ روزینہ نے ایسی حیران کن مہارت سے پورے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں
وہ لوگ اس خاندان کے خون کے رشتے دار نہیں تھے جو کہتے تھے کہ یہ لڑکی مشکوک ہے اور خطرناک بھی لیکن برکیارق کسی کی سنتا ہی نہیں تھا اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا سلطان ملک شاہ کا چہلم ہو چکا تھا کئی دن گزر گئے تھے اب کسی بھی دن برکیارق نے روزینہ کے ساتھ شادی کر لینی تھی
مزمل آفندی اور شمونہ کی محبت کا پہلے ذکر آچکا ہے ان کی محبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ دو نوجوان تھے اور خوبصورت بھی تھے اور پہلی نظر میں ہی ایک دوسرے کے ہوگئے تھے بلکہ ان کی محبت کی ایک بنیاد تھی اور اس کے پس منظر میں ایک مقصد تھا جو ان دونوں میں مشترک تھا یہ تھی حسن بن صباح کی نفرت اور یہ ارادہ کے اس ابلیس کو قتل کرنا ہے
شمونہ حسن بن صباح کی داشتہ اور اعلی کار رہ چکی تھی اس نے حسن بن صباح کے لیے کچھ کام بڑی کامیابی سے کیے تھے لیکن اللہ نے اسے روشنی دکھائی اور وہ پھر واپس اسلام کی گود میں آگئی ابومسلم رازی نے جو سلطنت سلجوقہ کے دوسرے بڑے شہر کا امیر تھا شمونہ کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا اس حسین و جمیل لڑکی کے دل میں انتقام کے شعلے اٹھ رہے تھے
مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا مگر خواجہ حسن طوسی کو قتل کرنے واپس آ گیا تھا یہ تو شمونہ کی محبت اور شاہی طبیب نجم مدنی کا کمال تھا کہ انہوں نے مزمل آفندی کے ذہن سے حسن بن صباح کے اثرات بد نکال دیے تھے اور وہ اپنی اصلیت میں واپس آگیا تھا مزمل بھی انتقام کی آگ میں جل رہا تھا
مزمل اور شمونہ ملتے اور گھنٹوں اکٹھے بیٹھے رہتے تھے شمونہ اور اس کی ماں کو جس کا نام میمونہ تھا سلطان ملک شاہ نے ایک مکان دے دیا اور ان کا وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا مزمل اپنے کاروبار میں لگ گیا تھا لیکن وہ اور شمونہ اپنے مشترک مشن کی تکمیل کے لیے تڑپتے رہتے تھے ایک روز مزمل شمونہ کے گھر میں آیا بیٹھا تھا شمونہ کی ماں نے انہیں کہا کہ وہ شادی کر لیں اس نے وجہ یہ بتائی کہ وہ دونوں نوجوان ہیں اور اکٹھے بیٹھتے اٹھتے ہیں اور اس سے لوگ شک کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے لوگ انہیں بدنام کر دیں اور سلطان برکیارق کے کان بھرنے شروع کر دیں جسکا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا میمونہ نے دوسری دلیل یہ دی کہ وہ دو نوجوان ہیں اور ایک دوسرے کو روحوں کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جذبات سے مغلوب اور اندھے ہوکر وہ گناہ کر بیٹھیں
مزمل نے کوئی بات نہ کی اس نے شمونہ کی طرف دیکھا اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی ماں کو شمونہ خود ہی کوئی جواب دے
میری ایک بات یقین سے سنو ماں! شمونہ نے کہا اگر میری اور مزمل کی محبت جسمانی ہوتی تو اب تک ہم میاں بیوی بن چکے ہوتے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم وہ گناہ کر چکے ہوتے جس کا تمہیں ڈر ہے ہماری محبت روحوں کا عشق ہے ہمارا نصب العین ایک اور راستہ ایک ہے ہمارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے اور ہم دونوں کا اللہ حامی اور ناصر ہے مجھے جس روز یہ اشارہ ملا کہ مزمل کو میرے حسن اور میرے جسم کے ساتھ محبت ہے تو اسی روز میرے اور اس کے راستے الگ ہوجائیں گے
شمونہ بیٹی! میمونہ نے کہا میں نے دنیا دیکھی ہے حسن اور جوانی میں وہ طاقت ہے
مجھے اپنے حسن اور اپنی جوانی سے نفرت ہے ماں! شمونہ نے جھنجلا کر کہا اس حسن اور جوانی نے مجھے اس ذلیل انسان کے قدموں میں جا پھینکا تھا مجھے اپنے اس جسم سے نفرت ہوتی جارہی ہے جسے لوگ اتنا زیادہ پسند کرتے ہیں میرے پاس روح رہ گئی ہے اس کا مالک مزمل ہے میں جو کچھ بھی ہوں پاک و پلید ہوں مزمل کی ہوں لیکن شادی ہمارا نصب العین نہیں میں لوگوں کے لیے بڑا ہی حسین دھوکا بنی رہی تھی میں نے اللہ کو ناراض کیا اللہ نے مجھے ایمان کی روشنی بخشی اس کے شکرانے کے لیے یہ میرا فرض ہے کہ اللہ کو راضی کروں اور اپنی روح کو پاک کروں پھر میں اپنا آپ ایک بیوی کے طور پر مزمل کو پیش کروں گی کیوں مزمل کیا تمہیں میری اس بات سے اختلاف ہے؟
نہیں شمونہ! مزمل نے جواب دیا میں بولتا تو میں بھی یہی کہتا جو تم نے کہا ہے میں نے سب سے پہلے اپنا مقصد پورا کرنا ہے تم نے ماں کو یہ جواب دے کر میرے ایمان میرے کردار اور میرے عزم کو نئی تازگی دی ہے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں کہیں دیتی ہوں شمونہ نے مزمل سے کہا میں اپنی ذات کو اور اپنے وجود کو مزمل کے بغیر نامکمل سمجھتی ہوں دونوں نے میمونہ کو یقین دلا دیا کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہتے رہیں لیکن وہ اس گناہ کا تصور بھی اپنے ذہن میں نہیں لائیں گے جس کی طرف میمونہ نے اشارہ کیا تھا
ایک بات بتاؤ مزمل! شمونہ نے پوچھا تم نے پھر برکیارق کو نہیں کہا کہ یہ لڑکی مشکوک ہے
ایک ہی بار کہہ کر دیکھ لیا تھا مزمل نے کہا اس نے مجھے ڈانٹ کر چپ کرادیا تھا میں تو ابھی تک اسے دوست سمجھ رہا تھا لیکن وہ جس لہجے میں بولا اس سے مجھے یاد آگیا کہ یہ شخص اب دوست نہیں بلکہ سلطان بن گیا ہے
تم رے کیوں نہیں چلے جاتے شمونہ نے کہا تم ابومسلم رازی سے بات کرکے دیکھو وہ اتنے بڑے شہر اور اتنے وسیع علاقے کا حاکم ہے سلطان ملک شاہ مرحوم کا وہ خاص معتمد اور مشیر تھا ہوسکتا ہے وہ برکیارق کو سمجھا بجھا کر اس لڑکی سے شادی کرنے سے روک دے
ابومسلم رازی سلطان ملک شاہ مرحوم کا معتمد اور مشیر تھا مزمل نے کہا برکیارق اس کی بھی نہیں مانے گا تم شاید نہیں جانتی کہ برکیارق روزینہ کے لیے پاگل ہوا جارہا ہے ابومسلم رازی برکیارق کی شادی پر آرہا ہے اس سے پہلے اسے ملنا بیکار ہے شادی تو ہونی ہی ہے میں ابومسلم رازی سے کہوں گا کہ روزینہ کو کسی طرح غائب کیا جائے ابھی تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ روزینہ کیا کر گزرے گی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ دکھائے گی ضرور پھر برکیارق زندہ رہا تو باقی عمر پچھتاتا رہے گا
شادی ہو جانے دو شمونہ نے کہا میں روزینہ کے ساتھ دوستی لگانے کی کوشش کروں گی اگر میں کامیاب ہوگئی تو اسے زہر پلا دو گی
سلطان ملک شاہ مرحوم تو حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کا دشمن تھا ہی لیکن ابومسلم رازی کی تو زندگی کا جیسے مقصد ہی یہی تھا کہ اس فرقے کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے وہ تو صاف الفاظ میں کہا کرتا تھا کہ یہ کام تبلیغ سے نہیں ہوگا یہ کام صرف تلوار سے ہو سکتا ہے اس سلسلے میں پہلے سنایا جا چکا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اتنی شہرت نہیں ملی تھی اور وہ ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ ابومسلم رازی نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن کسی طرح حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ رے سے غائب ہوگیا تھا
برکیارق اور روزینہ کی شادی کا دن آگیا بارات نے تو کہیں جانا نہیں تھا دلہن سلطان کے محل میں موجود تھی سلطان برکیارق کے حکم سے سارے شہر میں رات کو چراغاں کی گئی اور اس شادی پر جو ضیافت دی گئی اس کے چرچے تاریخ تک پہنچے اور آج تک سنائی دے رہی ہیں ایک دعوت عام تھی امراء اور وزراء اور دیگر رتبوں والے افراد کے لیے الگ انتظام تھا اور شہر کے لیے باہر کھلے میدان میں کھانا رکھا گیا تھا دور دور سے ناچنے گانے والے آئے تھے ناچنے والیوں نے بھی آکر اپنے فن کے مظاہرے کیے اور سب نے سلطان سے انعام وصول کیے
یہ ہنگامہ خیز شادی جس پر خزانے کا منہ کھول دیا گیا تھا یہ انداز اس خاندان کی روایت کے منافی تھے سلطان ملک شاہ مرحوم ہر دلعزیز سلطان تھا اسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے اور کچھ دن گزرے تھے لوگ اس کے غم میں نڈھال ہوئے جارہے تھے لیکن برکیارق کی شادی کے دن لوگ سلطان مرحوم کا غم جیسے بھول ہی گئے تھے برکیارق کا مقصد ہی یہی تھا
جب اندر نکاح وغیرہ ہو رہا تھا اس وقت مزمل آفندی رے کے امیر ابو مسلم رازی کے پاس جا بیٹھا برکیارق کے دونوں چھوٹے بھائی محمد اور سنجر بھی اس کے پاس آ بیٹھے یہ دونوں بھائی خاصے مغموم تھے صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک تو انہیں اپنا باپ یاد آرہا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ اپنے بھائی کی شادی پر خوش نہیں
امیرمحترم! مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا آپ جب سلطان مرحوم کی وفات پر یہاں آئے تھے تو مجھے آپ کے ساتھ بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اب میں نے موقع نکالا ہے کیا آپ کو کسی نے پہلے بتایا ہے کہ ہمارے نئے سلطان کی دلہن باطنی ہے اور یہ اپنے آپ کو سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ظاہر کرتی ہے؟
ہاں مزمل آفندی! ابومسلم رازی نے جواب دیا میری مخبری کے ذرائع ایسے ہیں کہ زمین کے نیچے کی ہوئی بات بھی میرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے مجھے معلوم ہو چکا ہے
سلطان برکیارق کی دلہن سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن نہیں مزمل نے کہا یہ اس کے ساتھ الموت سے آئی تھی کیا آپ اس کے متعلق کچھ سوچ رہے ہیں ؟
میں سب کچھ سوچ چکا ہوں ابومسلم رازی نے کہا اور سوچ بھی رہا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو؟
امیرمحترم! مزمل نے جواب دیا میں یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ لڑکی نہ جانے کیا گل کھلائے گی آپ سے میں نے صرف یہ کہنا ہے کہ جہاں کہیں آپ کو میری ضرورت پڑے مجھے فوراً بلائیں آپ اس لڑکی کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں جس کا نام شمونہ ہے وہ آگ بگولا بنی بیٹھی ہے آپ اسے بھی استعمال کر سکتے ہیں
تم کسی بھی دن رے آ جاؤ ابومسلم رازی نے کہا اطمینان سے بیٹھے گے اور کچھ سوچ لیں گے
کیا یہ لڑکی ہمارے بھائی کو مار ڈالے گی؟
برکیارق کے بھائی محمد نے پوچھا
شاید نہیں ابومسلم رازی نے کہا یہ لڑکی سلطان برکیارق کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور اس کی توجہ حسن بن صباح سے ہٹا دے گی مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ سلطان مرحوم کی وفات کے بعد باطنیوں کی تبلیغ بہت تیز ہوگئی ہے اور ان کے اثرات دور دور تک پھیلنے شروع ہوگئے ہیں میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ سلطان برکیارق کیا کرتے ہیں
ہمارا بھائی برکیارق کچھ بھی نہیں کرے گا محمد نے کہا ہم اسکے ساتھ رہتے ہیں ہم دونوں بھائی دیکھ رہے ہیں کہ برکیارق کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل ہی بدل گیا ہے جیسے ہم اس گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور دو چار دنوں بعد رخصت ہو جائیں گے
ایک خیال کرنا محم ! ابو مسلم رازی نے کہا اور تم بھی سنجر اگر برکیارق یا اس کی بیوی کوئی بدتمیزی یا تمہارے ساتھ برا رویہ اختیار کرے تو خاموش رہنا میں ابھی ایک بات زبان پر نہیں لانا چاہتا تھا مگر تم لوگوں کو ذرا سا اشارہ دے ہی دوں تو بہتر ہے مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس لڑکی کے ذریعے حسن بن صباح ہماری سلطنت میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے خانہ جنگی کیسے ہوگی اس پر ابھی نہ سوچو میں موجود ہوں تم دونوں بھائی چوکنے رہنا اور تم مزمل ادھر ادھر دھیان رکھنا جونہی کوئی بات معلوم ہو میرے پاس آ جانا
اگلے روز دعوت ولیمہ دی گئی جو شادی کی ضیافت جیسی ہی تھی امراء وزراء اور دیگر اعلی سرکاری رتبوں والے افراد فرداً فرداً سلطان برکیارق کو مبارک باد کہنے گئے برکیارق نے ہر ایک سے کہا کہ یہ لوگ تین چار دن یہیں رہیں کیونکہ وہ ان سے خطاب کرے گا
یہ لوگ روکے رہے پانچویں روز برکیارق نے ان سب کو اکٹھا کرکے خطاب کیا یہ ایک تاریخی اہمیت کا خطاب تھا تاریخی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ نئے سلطان نے سلطنت سلجوقیہ کی گاڑی الٹے رخ چلا دی تھی تاریخ میں آیا ہے کہ اس نے خطاب میں جو نئے اعلان کئے وہ کچھ اس طرح تھے
نیا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری ہوگا
انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں گی
حسن بن صباح کا مقابلہ تبلیغ سے کیا جائے گا کیونکہ وہ ایک مذہبی فرقہ ہے جسے فوجی طاقت سے نہیں دبایا جاسکتا سلطان برکیارق نے زور دے کر کہا کہ پہلے بہت زیادہ جانی نقصان کرایا جاچکا ہے جو اب ختم کیا جا رہا ہے
محصولات زیادہ کیے جائیں گے
وہاں جتنے بھی امراء وزراء اور سالار وغیرہ بیٹھے تھے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے سب نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ سلطان نشے کی حالت میں بول رہا ہے یہ نشہ سلطانی کا بھی تھا اور روزینہ کے حسن و جوانی کا بھی
سلطان محترم! ابومسلم رازی بے قابو ہوکر بول پڑا حسن بن صباح ایک خطرناک فتنہ ہے اور اسلام کا بدترین دشمن نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کا قاتل حسن بن صباح ہے
سلطان برکیارق نے ابومسلم جیسے عالم مجاہد اور بزرگ کو آگے بولنے نہ دیا
اب کوئی قتل نہیں ہوگا سلطان برکیارق نے کہا یہ سوچنا میرا کام ہے آپ کا نہیں آپ رے میں امن وامان قائم رکھیں
سلطان برکیارق کی اس نئی حکمت عملی سے سب کو اختلاف تھا لیکن جس طرح اس نے ابومسلم رازی کو ٹوک کر اپنا حکم چلایا اس سے سب خاموش رہے سب نے جان لیا کہ یہاں بولنا بیکار ہے یہ سب چھوٹے بڑے حاکم سلطان برکیارق کے باپ کے وقتوں کے تھے اور سب کی عمریں اس کے باپ جتنی تھیں لیکن برکیارق نے کسی ایک کا بھی احترام نہ کیا اور کسی کو وہ تعظیم بھی نہ دی جو سرکاری طور پر ان کا حق تھا وہ اپنا خطاب ختم کر کے وہاں سے چلا گیا
باہر آ کر آپس میں سب نے کھسر پھسر کی مگر اونچا کوئی بھی نہ بولا بعض پر تو حیرت کی خاموشی چھا گئی تھی ابومسلم رازی برکیارق کی ماں کے پاس چلا گیا اس گھر میں اس کی اتنی قدر و منزلت ہوتی تھی جیسے وہ اسی خاندان کا ایک فرد ہو برکیارق کی ماں اسے دیکھ کر رونے لگی مجھے غم تھا کہ میں بیوہ ہو گئی ہوں ماں نے کہا لیکن ایک اور غم یہ آ پڑا ہے جیسے میرا بیٹا برکیارق بھی مر گیا ہو روزینہ اس پر نشے کی طرح طاری ہوگئی ہے ولیمے کے بعد میرا بیٹا باہر نکلا ہی نہیں کیا دن کیا رات کو دلہن کے ساتھ کمرے میں بند رہا کل شام دونوں بگھی پر باہر نکلے تو میں ان کے خواب گاہ میں چلی گئی خادمہ برتن اٹھا رہی تھی دو چاندی کے پیالے پڑے تھے پاس ایک صراحی رکھی تھی میں نے پیالے سونگھے تو عجیب سی بو آئی یہ اگر شراب نہیں تھی تو کوئی اور مشروب نہیں بلکہ یہ کوئی اور نشہ تھا
آپ اتنے بھی پریشان نہ ہو جائیں ابومسلم رازی نے برکیارق کی ماں کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہا یہ آپ کے بیٹے کا نہیں یہ جوانی کا قصور ہے کچھ دنوں بعد نشہ اتر جائے گا اور مجھے امید ہے کہ لڑکا اپنے خاندان کے راستے پر آ جائے گا میں نے دنیا دیکھی ہے برکیارق کی ماں نے کہا میں اپنے آپ کو یہ دھوکہ کس طرح دوں کہ بیٹا اپنے باپ کے راستے پر واپس آجائے گا ہم نے بھی جوانی دیکھی ہے سلطان مرحوم کے ساتھ میری شادی ہوئی تھی تو میں اس لڑکی جیسی خوبصورت تھی اور کمسن بھی تھی سلطان مرحوم کبھی میرے ساتھ کمرے میں بند نہیں ہوئے تھے انہوں نے مجھے ایک نشہ نہیں بنایا بلکہ ایک خوبصورت بیوی سمجھ کر اس حیثیت میں رکھا جو بیوی کو اسلام نے دی ہے خوبصورت عورت بجائے خود ایک نشہ ہوتی ہے اللہ نے مرد میں کمزوری رکھ دی ہے کہ وہ حسین عورت کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیتا ہے چالاک اور مطلب پرست عورت جس مرد پر بدنیتی سے یا اپنے مطلب کے لئے قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ شخص اس عورت کا زر خرید غلام ہو جاتا ہے ایسی بدفطرت عورت مردوں کو اس مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہوجاتی ہے اس مقام پر جا کر اسے سود و زیاں کا احساس ہی نہیں رہتا وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس کی تباہی کی ذمہ داری یہ عورت ہے اور وہ اس عورت کا پوجاری بن جاتا ہے عورت کے ہاتھوں بادشاہیاں الٹ گئی ہیں
ابومسلم رازی جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوہ جو کہہ رہی ہے ٹھیک کہہ رہی ہے یہ مشاہدے کی باتیں تھیں لیکن اب تو یہ سوچنا تھا کہ برکیارق کو کس طرح اس لڑکی کے نشے سے نکالا جائے ابومسلم نے اس خاتون کو جھوٹی سچی تسلیاں دیں اور کہا کہ وہ نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ سلطنت کا وقار قائم رہے
اس سے کچھ عرصہ پہلے حمیرا جابر کے ساتھ قلعہ الموت پہنچ گئی تھی ان لوگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ کوئی آدمی کسی لڑکی کو ورغلا کر الموت لاتا تو اس لڑکی کو لڑکیوں کے گروہ کے نگراں کے حوالے کردیا جاتا تھا اگر کوئی لڑکی اکھڑ پن پر اتر آتی اور ان لوگوں کی بات پر آنے سے انکار کردیتی تو ان کے پاس اس کا بھی علاج موجود تھا ایک علاج تو تشدد اور زبردستی تھا لیکن یہ علاج کم سے کم استعمال کیا جاتا تھا ان لوگوں کے پاس بڑے ہی پیارے اور دل کو لبھانے والے طریقے تھے جو بڑی اکھڑ لڑکیوں کو بھی موم کر لیتے تھے جابر کو بھی یہی چاہیے تھا کہ وہ حمیرا کو متعلقہ گروہ کے نگراں کے حوالے کر دیتا اس کا کام ہو گیا تھا لیکن جابر نے اس مروّجہ طریقہ کار سے انحراف کیا اور حمیرا کو اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا
اس کا یہ دوست تھا تو باطنی لیکن وہ فدائین میں سے نہیں تھا نہ کبھی اسے ذمہ داری کا کوئی کام سونپا گیا تھا اس دوست نے جابر سے کہا کہ وہ کیوں اس لڑکی کو ساتھ لئے اور چھپائے پھرتا ہے اسے ان کے حوالے کیوں نہیں کر دیتا جو نئی آنے والی لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں
نہیں بھائی! جابر نے اپنے دوست سے کہا اس لڑکی کے ساتھ میرا کچھ جذباتی ساتھ تعلق پیدا ہوگیا ہے اسے آخر اسی جگہ بھیجنا ہے جس جگہ کے لیے میں اسے ساتھ لایا ہوں لیکن اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میں اسے کسی اور کے حوالے کروں میں اسے خود تیار کروں گا
دراصل جابر کو حمیرا سے محبت ہی اتنی زیادہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ اسے باطنیوں کے مقاصد کے لیے تیار بھی کرلے اور یہ لڑکی اس سے متنفر بھی نہ ہو دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ حمیرا کو ایک بار حسن بن صباح کے سامنے لے جائے اور اس سے درخواست کرے کہ وہ اس لڑکی کو خود تیار کرنا چاہتا ہے دوست نے اسے یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ وہ کبھی اس لڑکی کے ساتھ پکڑا گیا یا کسی کو پتہ چل گیا کہ جابر نے ایک لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے تو اسے موت سے کم سزا نہیں ملے گی
جابر نے اس مشورے کو بڑا قیمتی مشورہ جانا اور ایک روز حمیرا کو حسن بن صباح کے پاس لے گیا حمیرہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس نے سوچا کہ اس انسان کو ایک بار دیکھ تو لے جس نے ایک باطل عقیدے کو اتنی جلدی اور اتنی دور دور تک پھیلا دیا ہے حمیرا نے یہ بھی سنا تھا کہ حسن بن صباح اپنے کسی فدائی سے کہتا ہے کہ اپنی جان لے لو تو وہ فدائی اپنے آپ کو مار دینے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتا اور وہ فوراً خنجر اپنے سینے میں اتار لیتا ہے حمیرا نے سوچا دیکھوں تو سہی کہ وہ انسان کیسا ہے
جابر اسے سیدھا حسن بن صباح کے پاس نہ لے گیا بلکہ اسے ایک جگہ چھوڑ کر پہلے خود حسن بن صباح کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ اس لڑکی کو لایا ہے جس کے بھائی نے انہیں قستان جیسا اہم قلعہ دلایا ہے حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ یہ قلعہ بند شہر کس طرح اس کے قبضے میں آیا ہے جابر نے حسن بن صباح کو پوری تفصیل سنائی
تم اب چاہتے کیا ہو ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یا شیخ الجبل! جابر نے کہا میں اس لڑکی کو کچھ انعام دینے کی درخواست کرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میں اسے خود تیار کروں اس پر تشدد نہ ہو یا اسے حشیش نہ پلائی جائے اور اسے دھوکے میں بھی نہ رکھا جائے اگر میں اسے بقائمی ہوش و حواس تیار کرلوں تو یہ لڑکی پہاڑوں کو آپ کے قدموں میں جھکا دے گی
میرا خیال ہے کہ تم خود انعام لینا چاہتے ہو حسن بن صباح نے کہا ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی سے بڑھ کر اور انعام کیا ہوسکتا ہے کیا تم انعام کے طور پر اس لڑکی کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو؟
یا شیخ الجبل! جابر نے سر جھکا کر کہا جس روز میرے دل میں یہ آئی کہ میں اپنے امام کو دھوکہ دوں اس روز میں اپنے خنجر سے اپنے آپ کو ختم کر لوں گا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لایا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ آپ کے پاس تھوڑی سی دیر بیٹھی تو اس کا اکھڑ پن ختم ہو جائے گا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس لڑکی کے دل میں آپ کی اور ہم سب کی نفرت بھری ہوئی ہے میں یہ بھی عرض کر دیتا ہوں کہ اس کے دل میں میری محبت موجزن ہے آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں
حسن بن صباح کے اشارے پر جابر اٹھا اور باہر جاکر حمیرا کو اپنے ساتھ لے آیا حمیرا حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئی حسن بن صباح کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اس شخص کی آنکھیں بھی مسکرا رہی ہوں ان مسکراتی آنکھوں نے حمیرا کو جیسے جکڑ لیا ہو اور حمیرا کی آنکھوں میں پلک جھپکنے کی بھی سکت نہ رہی ہو حمیرا نے محسوس کیا کہ جیسے حسن بن صباح کی آنکھوں سے غیر مرائی اور بڑے پیارے رنگوں والی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں اور شعاعیں حمیرا کی آنکھوں کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہو رہی ہوں حمیرا اپنی ذات میں تبدیلی سی محسوس کرنے لگی اس کے اندر ایسا احساس بیدار ہونے لگا جیسے حسن بن صباح اتنا قابل نفرت نہیں ہے جتنا وہ سمجھتی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے یہ پراسرار طاقت بڑی محنت سے اور استادوں کے قدموں میں سجدے کر کر کے حاصل کی ہے
ایک بات بتاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا تمہارے دل میں کسی کی محبت تو ضرور ہوگی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے دل میں اللہ کی محبت ہے
اس کے بعد کون ؟
اللہ کے آخری رسول حمیرا نے جواب دیا
اس کے بعد ؟
اپنے بھائی منور الدولہ کی محبت میرے دل میں رچی بسی ہوئی ہے حمیرا نے جواب دیا
اور اس کے بعد ؟
حمیرا نے جابر کی طرف دیکھا اور زبان سے کچھ بھی نہ کہا
ایک بات بتا لڑکی! حسن بن صباح نے کہا جس دل میں محبت کا سمندر موجزن ہے اس میں نفرت کہاں سے آگئی؟
حمیرا نے چونک کر حسن بن صباح کی طرف دیکھا لیکن کچھ بھی نہ کہہ سکی
جاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے کہا تم قدرت کے حسن کا شاہکار ہو تم پھول ہو جو خوشبو دیا کرتے ہیں اپنے پھول جیسے حسن میں نفرت کی بدبو نہ بھرو جاؤ جابر کے ساتھ رہو جب تمہارے دل سے نفرت نکل جائے گی اور ضرور نکلے گی پھر تمہارا دل تمہیں کہے گا کہ چلو اسی شخص کے پاس پھر تم خود میرے پاس آؤں گی
حمیرا آنکھیں حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہ کر سکی اسے اٹھنا تھا لیکن نہ اٹھی اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی تھی اور وہ اپنی ذات میں کوئی ایسا تاثر محسوس کر رہی تھی جیسے وہ یہاں سے اٹھنا نہیں چاہتی اگر جابر اس کا بازو پکڑ کر نہ اٹھاتا تو وہ وہیں بیٹھی رہتی جابر حمیرا کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آیا
جابر کے دوست کے گھر پہنچنے تک حمیرا نے کوئی بات نہ کی وہ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی محسوس کر رہی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی وہ انسان اور ابلیس کے اس پہلو سے ناواقف تھی کہ جب کوئی انسان اپنے اپنے ابلیسی اوصاف پیدا کرلیتا ہے تو اس میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ خام کردار والے لوگ اس کی طرف کھینچے ہوئے چلے جاتے ہیں اگر وہ بدصورت ہو تو بھی دیکھنے والوں کو خوبصورت لگتا ہے اس کی زبان میں ایسا طلسماتی تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جب بات کرتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں اس کا ایک ایک لفظ اترتا چلا جاتا ہے یہ تو اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو انسان میرے راستے سے ہٹ کر ابلیس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اس پر میں ایک ابلیس مسلط کر دیتا ہوں
حمیرا اس لیے بھی حسن بن صباح سے اچھا تاثر لے کر آئی تھی کہ وہ تو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا اس کے پیروکار اسے نبی بھی مانتے تھے وہ جسے چاہتا ایک اشارے پر قتل کروا دیا کرتا تھا یہ شخص کہہ سکتا تھا جابر تم جاؤ اور اس لڑکی کو میرے پاس رہنے دو لیکن حسن بن صباح نے جیسے حمیرا کے حسن و جوانی کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی اس لحاظ سے وہ جابر کے کردار کی بھی قائل ہوگئی تھی اتنے دن اور اتنی راتیں جابر کے ساتھ رہ کر اس نے دیکھا کہ جابر نے کبھی اس سے پیار اور محبت کی باتوں کے سوا کوئی بے ہودہ بات یا حرکت نہیں کی تھی
حمیرا کو اپنا بھائی ماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آتے تھے اسے اپنے بھائی کی بیوی اور اس کے بچے بھی یاد آتے تھے لیکن وہ گھر سے کبھی واپس نہ جانے کے لیے نکلی تھی وہ اس کوشش میں لگی رہتی تھی کہ ان سب کو دل سے اتار دے ایک دو دنوں بعد جابر نے حمیرا سے کہا آؤ تمہیں یہاں کا قدرتی حسن دکھاؤں تم کہے اٹھو گی کے اگلے جہان کی جنت اس سے خوبصورت کیا ہوگی وہ دونوں شہر سے باہر نکل گئے قلعہ اور یہ شہر پہاڑی کے اوپر تھے دور جا کر وہ اس پہاڑی سے اترے آگے دریا تھا دریا اور پہاڑی کے درمیان ذرا کشادہ میدان تھا جس میں بڑے خوبصورت اور دلنشین پودے تھے درخت تھے اور گھاس تھی حمیرا کو یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی اس کے دل پر جو بوجھ سا اور گرفت سی رہتی تھی وہ کم ہونے لگی اس نے محسوس کیا جیسے وہ یہاں سے واپس نہیں جاسکے گی جابر اسے دریا کے کنارے لے گیا یہ کنارہ بہت ہی اونچا تھا دریا بہت نیچے بہتا چلا جا رہا تھا وہاں دریا کا پاٹ تنگ تھا سامنے والا کنارہ بھی اونچا تھا وہاں سے دریا مڑتا بھی تھا اس لئے وہاں پانی کا جوش بڑا ہی زیادہ تھا اور بھنور بھی پیدا ہو رہا تھا یہ دراصل پہاڑی تھی جسے کاٹ کر دریا گزر رہا تھا جابر اور حمیرا کنارے پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے
یہاں سے دریا میں کوئی گر پڑے تو کیا وہ بچ کے نکل آئے گا؟
حمیرا نے پوچھا
ناممکن جابر نے جواب دیا کوئی تیراک بھی نہیں نکل سکے گا کیونکہ پاٹ تنگ ہے اور پانی زیادہ اور تیز بھی ہے اور دریا یہاں سے مڑتا بھی ہے یہ دریا یہاں سے کھڑے ہوکر دیکھو تو ہی اچھا لگتا ہے
اپنے امام کے پاس پھر کبھی لے چلو گے؟
حمیرا نے پوچھا
کیا تم اس کے پاس جانا چاہو گی؟
جابر نے مسکراتے ہوئے پوچھا
میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے حمیرا نے کہا اور پھر آہ بھر کر بولی اپنے بھائی کو ماں کو اور بھائی کے بچوں کو دل سے اتارنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں
میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں جابر نے کہا اور کچھ توقف کے بعد بولا تم ان سب کو بھول ہی جاؤں تو بہتر ہے تمہارا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا
کیا کہا حمیرا نے تڑپ کر پوچھا وہ اس دنیا میں نہیں رہا؟ کیا ہوا اسے؟
اسے قتل کر دیا گیا تھا جابر نے کہا اس کے بیوی بچوں کا اور تمہاری ماں اور بہن بھائیوں کا بھی یہی انجام ہوا
میرے بھائی کو کس نے قتل کیا تھا؟
میرے ساتھیوں نے جابر نے جواب دیا تمہارے ساتھیوں نے حمیرا نے چلا کر کہا اور جابر پر جھپٹ پڑی
اس وقت جابر دریا کے کنارے پر کھڑا تھا حمیرا نے اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پوری طاقت سے دھکا دیا پیچھے ہٹنے کو جگہ تھی ہی نہیں پیچھے دریا تھا جابر اتنے اونچے کنارے سے گرا اس کی چیخیں سنائی دیں اور جب وہ دریا میں گرا تو اس کی چیخیں گرنے کی آواز میں دب گئی حمیرا نے اوپر سے دیکھا جابر ہاتھ مار رہا تھا دریا اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا لیکن موڑ پر بھنور تھا جابر اس بھنور میں آگیا اور ایک ہی جگہ لٹو کی طرح گھومنے لگا حمیرا نے دائیں بائیں دیکھا ایک بڑا ہی وزنی پتھر پڑا تھا حمیرا نے پتھر اٹھایا جو اس سے ذرا مشکل سے ہی اٹھا جابر اس کے بالکل نیچے پھنسا ہوا تھا حمیرا نے اوپر سے پتھر پھینکا جو جابر کے سر پر گرا اس کے بعد جابر پانی سے ابھر نہ سکا
جابر ڈوب گیا تو حمیرا نے توجہ اپنی طرف کی اس حقیقت نے اس کے دل کو مٹھی میں لے لیا کہ وہ اکیلی رہ گئی ہے اب وہ واپس جابر کے دوست کے پاس نہیں جا سکتی تھی اسے اب وہاں سے فرار ہونا تھا اس کی خوش نصیبی تھی کہ سورج غروب ہو رہا تھا وہ آگے کو چل پڑی اس نے رو رو کر اللہ کو یاد کیا اور تیز ہی تیز چلتی گئی اور جب سورج غروب ہوگیا تو وہ گھنے جنگل میں پہنچ چکی تھی
وہ اس خیال سے دوڑ پڑی کے رات ہی رات وہ اتنی دور نکل جائے کہ کوئی اس کے تعاقب میں نہ آ سکے رات تاریک ہوتی چلی گئی حمیرا کو راستے کا کچھ اندازہ تھا وہ اس راستے پر ہو لی
الموت کا قلعہ اور شہر اندھیرے میں چھپ گئے تھے حمیرا نے اللہ کا نام لے کر اپنے حوصلے مضبوط کرنے کی کوشش شروع کر دی وہ چلتی چلی گئی رات کی تاریکی اسے دنیا سے چھپائے ہوئے تھی وہ بہت دور نکل گئی اور اسے یوں سنائی دیا جیسے کوئی گھوڑا آ رہا ہو وہ راستے سے ذرا ہٹ کر ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئی اندھیرے میں ذرا ذرا نظر کام کرتی تھی
گھوڑا قریب آ گیا اس پر ایک آدمی سوار تھا حمیرا ڈرپوک لڑکی نہیں تھی اس کے دماغ نے ایک ترکیب سوچ لی جونہی گھوڑا قریب آیا حمیرا تیزی سے گھوڑے کے راستے میں جا کھڑی ہوئی اس نے بازو پھیلا دیے اور بڑی زور سے چیخیں مارنے لگیں یہ چیخیں اس طرح کی نہیں تھی جو خوف یا تکلیف کی حالت میں منہ سے نکلا کرتی ہیں حمیرا نے چڑیلوں کے قصے سنے تھے وہ چڑیلوں کی طرح چیخ رہی تھی اور بڑی بھدی سی آواز میں بولی مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل نہیں تو کلیجہ نکال لوں گی
لوگ چوڑائلوں کے وجود کو مانتے تھے سوار اسے چوڑیل نہ سمجھتا تو اور کیا سمجھتا رات کو اس ویرانے میں کوئی عورت اور وہ بھی اکیلی جا ہی نہیں سکتی تھی حمیرا ایسے خوفناک طریقے سے چیخیں تھیں کہ گھوڑا بھی بدک گیا تھا سوار کود کر گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے آگے گھٹنے زمین پر ٹیک کر ہاتھ جوڑ دیئے وہ بری طرح کانپ رہا تھا وہ چڑیل سے اپنی جان کی بخشش مانگ رہا تھا حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:32 }
حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا
ایسے شدید اور تیزوتند بھنور میں آیا ہوا جابر بن حاجب اس میں سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا وہ اس میں سے نکل نہیں سکتا تھا لیکن حمیرا نے اوپر سے اس کے سر پر بڑا وزنی پتھر گرایا تو وہ پانی کے نیچے چلا گیا اور بے ہوش ہوگیا سر پر اتنا وزنی پتھر گرنے سے وہ بڑی جلدی مر گیا ہوگا حمیرا وہاں سے بھاگ گئی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ پیچھے کیا ہوا ہے
جابر جب دریا کے نیچے سے ابھرا تو بھنور نے اسے دور پھینک دیا یا اگل دیا وہ مر چکا تھا وہاں سے کوئی ایک میل آگے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو جاتا تھا وہاں کنارے پر پکی گھاٹ بنی ہوئی تھی دریا میں تیراک کے شوقین آیا کرتے تھے اور نہایا کرتے تھے سورج غروب ہورہا تھا اس لئے وہاں چار پانچ ہی آدمی تھے جو گھاٹ سے دریا میں کود کود کر ہنس کھیل رہے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے ان میں سے ایک نے ڈبکی لگائی اور جب وہ پانی میں سے ابھرا تو اس کا سر ایک انسانی جسم کے ساتھ ٹکرایا جسے وہ اپنے کسی ساتھی کا جسم سمجھا اس نے پھر ڈبکی لگائی اور ذرا ایک طرف ہو کر پانی سے ابھرا تب اس کے کانوں میں اپنے ساتھیوں کی آواز سنائی دی لاش ہے ڈوب کر مرا ہوگا اسے پکڑو اور باہر گھسیٹ لو اس فدائی نے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا سر اسی لاش کے ساتھ ٹکرایا تھا
یہ تو جابر بن حاجب ہے ایک فدائی نے لاش کو پہچانتے ہوئے کہا یہ کیسے ڈوب گیا ہے؟
ان میں سے دو فدائین جابر کو اچھی طرح جانتے تھے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جابر ایک نئی لڑکی کو ساتھ لایا تھا اور حسن بن صباح نے اس کی درخواست پر اسے اجازت دے دی تھی کہ وہ تھوڑا عرصہ اس لڑکی کو اپنے پاس رکھے اور خود اسے اصل کام کے لئے تیار کرے
یہ فدائین اپنا شغل میلہ بھول گئے اور وہ جابر کی لاش اٹھا کر قلعے میں لے گئے
شیخ الجبل کو اطلاع کر دینی چاہیے ایک نے کہا
لاش وہیں اٹھا لے چلو دوسرے نے کہا
وہ لاش اٹھا کر حسن بن صباح کی رہائش گاہ میں لے گئے اور لاش برآمدے میں رکھ کر اندر اطلاع بھجوائی حسن بن صباح جسے لوگ امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی خود باہر آ گیا اور اس نے جابر کی لاش دیکھی
یہ ایک لڑکی کو ساتھ لایا تھا حسن بن صباح نے کہا یہ جہاں رہتا تھا وہاں جاؤ اور اس لڑکی کو ساتھ لے آؤ
ایک فدائن دوڑا گیا اور کچھ دیر بعد دوڑا ہوا ہی آیا اور اس نے بتایا کہ لڑکی وہاں نہیں ہے
وہ بھی اس کے ساتھ ڈوب گئی ہوگی حسن بن صباح نے کہا اس کی لاش دریا کے تیز بہاؤ میں چلی گئی ہوگی
جابر کی لاش دریا کے کنارے کنارے بہی جارہی تھی جہاں پانی کا بہاؤ تیز نہیں تھا یہ تو کسی کے ذہن میں آئی ہی نہیں اور آسکتی بھی نہیں تھی کہ حمیرا نے جابر کو اونچے کنارے سے دھکا دے کر دریا میں پھینکا تھا رات گہری ہو گئی تھی اس لیے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ حمیرا کہاں غائب ہوگئی ہے یا یہی یقین کر لیا جاتا کہ وہ بھی ڈوب کر مر گئی ہے
اسے لے جاؤ ۔حسن بن صباح نے کہا اس کے کفن دفن کا انتظام کرو اور منادی کرادو کے اس کا جنازہ کل دوپہر کے وقت ہوگا اور جنازہ میں پڑاٶ ہوگا لڑکی کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی جائے
صبح قلعہ الموت میں یہ منادی کرادی گئی کہ جابر بن حاجب دریا میں ڈوب کر مر گیا ہے اور اس کا جنازہ دوپہر کے وقت اٹھے گا
جابر کو جاننے والے اور اس کے دوست دوڑے آئے اور جابر کا آخری دیدار کیا لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور خاصہ ہجوم ہوگیا لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ایک سوال ہر کسی کی زبان پر تھا کہ جابر ڈوبا کیسے؟
میں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ دریا کی طرف جاتے دیکھا تھا ایک فدائین نے کہا میں اس وقت قلعے کی دیوار پر ویسے ہی ٹہل رہا تھا دونوں قلعے کی پہاڑی سے اتر کر خاصی دور چلے گئے تھے پھر میں نے دونوں کو دریا کے اس کنارے کی طرف جاتے دیکھا جو بہت اونچا ہے وہاں ایک ٹیکری ہے جس نے ان دونوں کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا تھا میں ادھر ہی دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد میں نے لڑکی کو وہاں سے واپس آتے دیکھا وہ سامنے آئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی پھر ایک طرف کو دوڑ پڑی اب جابر اس کے ساتھ نہیں تھا میں نے جابر کو وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا تھا لڑکی وہاں سے غائب ہوگئی تھی میں بہت دیر وہاں کھڑا رہا مجھے جابر نظر نہ آیا پھر سورج غروب ہوگیا اور میں نے دوسری طرف دیکھا جدھر گھاٹ ہے لیکن میری نظروں کو ان چٹانوں نے روک لیا تھا جو وہاں سے دور آگے تک دریا کے کنارے کھڑی ہے
پھر لوگوں میں ایک اور خبر پھیل گی جو یوں تھی کہ آج الصبح ایک آدمی سرائے میں آیا اور اس نے بتایا ہے کہ راستے میں گزشتہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اور اسے گھوڑے سے اتار کر اس پر خود سوار ہوئی اور گھوڑا لے کر غائب ہو گئی
یہ خبر حسن بن صباح کے اس گروہ کے ایک دو آدمیوں تک پہنچی جو جاسوسی اور نگرانی میں خصوصی مہارت رکھتے تھے انھوں نے اس آدمی کو ڈھونڈ نکالا اور اس سے پوچھا کہ وہ چڑیل کیسی تھی اور کس روپ میں اس کے سامنے آئی تھی
چاندنی دھوپ جیسی شفاف تھی اس شخص نے کہا چڑیل بڑی ہی حسین اور نوجوان لڑکی کے روپ میں تھی وہ اچانک میرے سامنے میرے راستے میں نمودار ہوئی اور اس قدر زور سے اس نے چیخ ماری کے میرا گھوڑا بدک گیا میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ میرا دل اس کی مٹھی میں آ گیا ہے اس نے کہا اے مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل ،نہیں تو کلیجہ نکال لونگی میں ڈرتا کانپتا گھوڑے سے اترا اور اس کے قریب جا کر گھٹنوں کے بل ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگی اس نے اور کچھ بھی نہ کہا میرے گھوڑے کی طرف گئی اور پلک جھپکتے گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو پیچھے موڑا اور گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑا میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گھوڑا گیا ہے میری جان ہی نہیں چلی گئی میں الموت کی طرف دوڑ پڑا صبح یہاں پہنچا اور سرائے میں ٹھہرا وہاں جو چند آدمی تھے انہیں یہ بات سنائی
اس سے پوچھا گیا کہ لڑکی چڑیل نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے تھے اور اس کے چہرے کے نقش ونگار کیسے تھے اس نے حمیرا کے کپڑوں کا رنگ بناوٹ وغیرہ اور چہرے کا حلیہ بتایا
حسن بن صباح جب جنازے کے لئے آیا تو اس کے جاسوسوں نے اسے بتایا کہ انہیں کیا کیا سراغ ملے ہیں ایک تو اس آدمی کو حسن بن صباح کے سامنے لایا گیا جس نے جابر اور حمیرا کو دریا کے اونچے کنارے کی طرف جاتے دیکھا تھا پھر اس آدمی کو حسن بن صباح کے آگے کھڑا کیا گیا جس نے کہا تھا کہ رات ایک چڑیل اس سے گوڑا چھین کر لے گئی ہے
حسن بن صباح نے دونوں کے بیان سن کر ان پر جرح کی اور اس کا دو رس دماغ اس یقین پر پہنچ گیا کہ لڑکی اس کے فدائین جابر بن حاجب کو دریا میں ڈبو کر بھاگ گئی ہے اگر جابر خود ہی پھسل کر گر پڑا ہوتا تو حمیرا بھاگ نہ جاتی بلکہ وہیں شورشرابہ کرتی کہ کوئی مدد کو پہنچ جائے یا واپس قلعے میں آجاتی
دو آدمی ابھی قستان چلے جائیں حسن بن صباح نے حکم دیا وہ وہیں ہوگی یہ لڑکی مل گئی تو اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی ہمیں ایسی ہی لڑکیوں کی ضرورت ہے اسے ہر جگہ اور ہر طرف تلاش کیا جائے ہوسکتا ہے وہ مرو یا رے چلی گئی ہو
حسن بن صباح کے حکم کے مطابق اسی وقت آدمی روانہ ہوگۓ
جس وقت وہ آدمی قلعہ الموت کی ایک سرائے میں اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا کہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اس وقت حمیرا چند گھروں کی ایک بستی میں جا پہنچی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بستی کے اندر جاؤں یا آگے نکل جاؤں ابھی پو پھٹ رہی تھی صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا رات نے اسے اس طرح چھپائے رکھا تھا جس طرح ماں اپنے بچے کو آغوش میں چھپا لیا کرتی ہے اسے ذرا سا بھی خوف نہیں محسوس ہوا تھا وہ فاتحانہ مسرت سے سرشار تھی کہ شیطانوں کے چنگل سے نکل آئی تھی اسے جب اپنا بھائی منور الدولہ یاد آتا تو اس کا دل بیٹھ جاتا اور آنسو جاری ہوجاتے تھے ایسے میں اس کے وجود میں انتقام کے شعلے بھڑک اٹھے تھے الموت سے بچ کر نکل آنے کی خوشی اس کے غمگین دل کو سہلا دیتی تھی وہ اسی رنگ بدلتی کیفیت میں گھوڑے پر سوار سفر طے کرتی گئی لیکن رات نے اپنے پردے سمیٹے اور رخصت ہو گئی
صبح کی پہلی دھندلی دھندلی کرنیں نمودار ہوئیں تو حمیرا کا دل یکلخت ایک خوف کی گرفت میں آگیا وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی ڈرنے والی یا خطرے والی بات نہیں تھی خطرہ یہ تھا کہ وہ نوجوان تھی اور بہت ہی حسین اور نظروں کو گرفتار کر لینے والی لڑکی تھی کوئی بھی اسے دیکھ لیتا تو کبھی نظرانداز نہ کرتا وہ اس ویران علاقے میں تھی جہاں ابلیس کا قانون چلتا تھا اسے اپنے سامنے چند گھروں کی ایک بستی نظر آرہی تھی
اس نے گھوڑے کی رفتار کم اور سوچنے کی رفتار تیز کر دی اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ روکے یا آگے نکل جائے لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ اس نے یہ بھی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ جائے کہاں اسے جابر نے بتایا تھا کہ اس کا بھائی مارا جاچکا ہے اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں شاید وہ بھی قتل کردیئے گئے تھے یہ تو حمیرا کو معلوم تھا کہ قستان میں اب اس کا کوئی نہیں رہا اور وہاں اب ان باطنیوں کا قبضہ ہے
وہ تذبذب کے عالم میں آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور بستی کے قریب روک گی یہ چند ایک مکان تھے جو معمولی سے لوگوں کے معلوم ہوتے تھے ایک مکان باقی سب سے بہت مختلف تھا وہ کسی امیر آدمی کا مکان معلوم ہوتا تھا اس کا دروازہ بڑا خوبصورت اور اونچا تھا حمیرا اس دروازے سے پندرہ بیس قدم دور گھوڑے روکے کھڑی تھی
دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک سفید ریش بزرگ باہر آیا اس نے لمبا سفید چغہ پہنے رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک چلا گیا تھا اس کے سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی اور ہاتھ میں لوٹے کی شکل کا ایک برتن تھا جس میں سے دھواں نکل رہا تھا اس نے حمیرا کو دیکھا تو آہستہ آہستہ چلتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا اس بزرگ کی داڑھی دودھ جیسی سفید تھی اور اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر نورانی سے رونق تھی وہ حمیرا کے سامنے کھڑا اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا حمیرا نے اپنا چہرہ اس طرح چھپا لیا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں اپنا چہرہ اس نے اس خیال سے ڈھانپ لیا تھا کہ کوئی اس کی عمر کا اندازہ نہ کرسکے اور کوئی یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے
آؤ خاتون! بزرگ نے کہا مسافر ہو تو روکو اور ذرا سستالو راستہ بھول گئی ہو تو اپنی منزل بتاؤ کوئی اور مشکل آن پڑی ہے تو زبان پر لاؤ یہ ہمارا مندر ہے جہاں ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے
آپ اپنے مندر کے راہب ہیں؟
حمیرا نے کہا لیکن میں کیسے یقین کرلوں کہ میں آپ کے مندر میں محفوظ رہوں گی
سفید ریش راہب نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا دھونی دان آگے کیا اور اسے ذرا سا ایک دائرے میں گھومایا اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں حمیرا کے گھوڑے کے منہ کو چھونے لگا پھر یہ دھواں حمیرا تک پہنچا حمیرا نے بڑی پیاری خوشبو سونگھی
تم شاید مسلمان ہو؟
راہب نے کہا آؤ ہمارے مندر میں تم وہیں روحانی سکون پاؤ گی جو تم اپنے خدا کے حضور جھک کر پایا کرتی ہو گھوڑے سے اترو اور مجھے امتحان میں نہ ڈالو
صرف ایک بات بتا دو مقدس راہب! حمیرا نے کہا کیا انسان اندر سے بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا وہ چہرے سے نظر آتا ہے میرا تجربہ کچھ اور ہے
راہب نے کوئی جواب نہ دیا وہ آگے بڑھا اور گھوڑے کے پہلو میں رک کر اپنا ایک ہاتھ حمیرا کی طرف بڑھایا کہ وہ اس کا ہاتھ تھام کر گھوڑے سے اتر آئے حمیرا اس کی خاموشی سے کچھ ایسی متاثر ہوئی کہ وہ راہب کا ہاتھ تھامے بغیر گھوڑے سے اتر آئ راہب نے اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا
میرا گھوڑا ایسی جگہ باندھیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے حمیرا نے کہا وہ میرے تعاقب میں آرہے ہونگے
کون؟
باطنی! حمیرا نے جواب دیا تعاقب سے یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی جرم کرکے بھاگی ہوں میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی متاع لے کر ان ظالموں سے نکلی اور یہاں تک پہنچی ہوں میری متاع میری عصمت ہے اور میرا دینی عقیدہ
اتنے میں ایک اور آدمی مندر سے باہر آیا راہب نے اسے کہا کہ وہ گھوڑے لے جائے اور ایسی جگہ باندھے جہاں کسی کو نظر نہ آ سکے راہب حمیرا کو مندر میں لے گیا اور دائیں کو مڑا ایک دروازہ کھلا یہ ایک کمرہ تھا جو عبادت گاہ نہیں تھی بلکہ رہائشی کمرہ تھا راہب نے حمیرا کو پلنگ پر بٹھا دیا اور پوچھا کہ وہ کچھ کھانا پینا چاہتی ہو گی
میں بھوکی نہیں ہوں حمیرا نے کہا اور میں پیاسی بھی نہیں گھوڑے کے ساتھ پانی بھی تھا اور ایک تھیلی میں کھانے کا سامان بھی تھا تھوڑی ہی دیر پہلے میں نے پیٹ بھر لیا تھا
حمیرا نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا راہب نے اس کا چہرہ دیکھا تو یوں چونک پڑا جیسے حمیرا نے اسے قتل کرنے کے لئے خنجر نکال لیا ہو راہب کچھ دیر حمیرا کے چہرے کو دیکھتا ہی رہا
تم یقین کرنا چاہتی ہوں کہ یہاں محفوظ رہوں گی یا نہیں راہب نے کہا لیکن اب میں شک میں پڑ گیا ہو کہ میری ذات اور یہ مندر تم سے محفوظ رہے گا یا نہیں
کیا میرے چہرے پر بدی کا کوئی تاثر نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
باطنیوں کے امام شیخ الجبل حسن بن صباح کے پاس تم جیسی بے شمار لڑکیاں موجود ہیں راہب نے کہا میں ان میں سے آج پہلی لڑکی دیکھ رہا ہوں میں نے سنا ہے کہ ان باطنیوں کا امام کسی کو اپنے جال میں پھانسنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ تم جیسی لڑکی کو بھیجتا ہے اور وہ لڑکی تمہاری طرح مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی کوئی کہانی سناتی ہے
حمیرا اسے بڑی غور سے دیکھ رہی تھی
مقدس راہب! حمیرا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا مجھے ایسی ہی لڑکی بنانے کے لیے دھوکے سے اپنے قلعہ الموت لے جایا گیا تھا لیکن میں آپ کو سناؤں گی کہ میں وہاں سے کس طرح نکل بھاگی پہلے میں آپ کو یہ بتا دو کہ میں قستان کے رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں امیر قستان کو باطنیوں نے قتل کردیا اور میرے بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا ہے
ہاں میں سن چکا ہوں راہب نے کہا قستان پر باطنی قابض ہو چکے ہیں اور منور الدولہ ان کے ہاتھوں دھوکے سے قتل ہوا ہے وہاں کا امیر شہر بڑا ہیں بدطینت انسان تھا اب تم سناؤ تم پر کیا بیتی ہے
حمیرا نے اسے سارا واقعہ کہہ سنایا یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے شخص سے محبت کر بیٹھی تھی جو درپردہ باطنی تھا ورنہ وہ کبھی الموت تک نہ پہنچتی اس نے یہ بھی سنایا کہ اس شخص کو اس نے کس طرح دریا میں پھینکا اور خود بھاگ آئی اور پھر یہ گھوڑا اسے کس طرح ملا
اس دوران مندر کا ایک آدمی ان کے آگے ناشتہ رکھ گیا تھا
تم اب یقیناً قستان جانے کی نہیں سوچو گی راہب نے کہا قستان کو اب دل سے اتار دو
پھر میں کہاں جاؤں؟
حمیرا نے پوچھا
سلجوقی سلطان کے پاس راہب نے جواب دیا وہی ایک ٹھکانہ ہے جہاں تم جاسکتی ہو اور جہاں تمہیں پناہ مل سکتی ہے مرو یا رے یہ نہیں بتا سکتا کہ نیا سلجوقی سلطان کیسا آدمی ہے وہ جو نیک آدمی تھا اور جس نے باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا عزم کر رکھا تھا وہ مر چکا ہے اس کا نام سلطان ملک شاہ تھا اب اس کا بیٹا برکیارق سلطان ہے بہتر یہ ہوگا کہ تم رے چلی جاؤ وہاں کا حاکم ابومسلم رازی بڑا ہی نیک بزرگ اور عالم دین ہے اس کے پاس چلی جاؤں تو نہ صرف یہ کہ محفوظ رہوں گی بلکہ وہ تمہیں اسی حیثیت سے اپنے پاس رکھے گا جو تمہیں قستان میں حاصل تھی
کیا میں وہاں تک اکیلی جاؤنگی ؟
حمیرا نے پوچھا اور کہا اگر اکیلی جانا ہے تو پھر مجھے رات کو سفر کرنا چاہیے
تم اس وقت میری نگاہ میں اس مندر کی طرح مقدس ہو میں تمہیں اکیلا بھیج کر اپنے دیوتاؤں کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کر سکتا میرے دو آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے اور تمہیں کسی اور بھیس میں بھیجا جائے گا
حمیرا نے ایسا سکون محسوس کیا جیسے اس پر کسی نے پہاڑ جیسا بوجھ ڈال دیا تھا اور یہ بوجھ یکلخت ہٹا دیا گیا ہو
مقدس راہب! حمیرا نے پوچھا میرا مستقبل کیا ہوگا کیا وہ اجنبی لوگ مجھے کسی اور دھوکے میں نہیں ڈال دیں گے
تم کون ہو؟
کچھ بھی نہیں راہب نے کہا میں کیا ہوں؟
کچھ بھی نہیں تم یہ پوچھو کہ اسلام کا مستقبل کیا ہوگا اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے مذہب کا مستقبل کیا ہوگا تمہیں اور مجھے اس اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خدا نے جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے ہم پورا کررہے ہیں یا نہیں وہ مقصد کیا ہے؟
بنی نوع انسان کی محبت
اسلام کا مستقبل آپ کو کیا نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
کچھ اچھا نظر نہیں آتا راہب نے جواب دیا اس وقت سب سے بڑا مذہب اسلام ہے لیکن اسکی جو بڑائی ہے وہ چھوٹی ہوتی جارہی ہے باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئےہیں جھوٹ موٹ کا یہ عقیدہ بڑی ہی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے حسن بن صباح نے ابلیسیت کو جائز قرار دے کر رائج کردیا ہے انسان لذت پرستی کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے عورت اور شراب میں اسے جو لذت ملتی ہے وہ خدا پرستی میں نہیں مل سکتی تم نے مستقبل کی بات کی ہے ایک وقت آئے گا کہ حسن بن صباح دنیا میں نہیں ہوگا اور اس کا عقیدہ آہستہ آہستہ مٹ جائے گا لیکن لوگ عیش و عشرت کو نہیں مٹنے دیں گے حسن بن صباح تو کسی نہ کسی روپ میں زندہ رہے گا لذت پرستی ہر مسلمان کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا اور ایک وقت آئے گا کہ وہ مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے،ان میں وہ طاقت نہیں رہے گی جو ہوا کرتی تھی
مجھے آپ کس وقت یہاں سے روانہ کریں گے؟
حمیرا نے پوچھا
سورج غروب ہونے کے بعد راہب نے جواب دیا
سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برکیارق کی ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا ماں کے آنسو بہہ رہے تھے
کیا اپنے بیٹے برکیارق پر آپ کا کچھ اثر نہیں رہا ؟
عبدالرحمن سمیری نے پوچھا
تم اثر کی بات کرتے ہو برکیارق کی ماں نے جواب دیا وہ تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ میں اس کی ماں ہوں کئی دنوں سے میں نے اس کی صورت بھی نہیں دیکھی البتہ اس کی ملکہ روزینہ کبھی نظر آجاتی ہے تو وہ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتی اگر کوئی بات کرتی بھی ہے تو وہ حکم کے لہجے میں کرتی ہے اپنے بھائیوں کے ساتھ برکیارق کا سلوک اور برتاؤ دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے میں ڈرتی ہوں کہ بھائی کہیں آپس میں نہ ٹکرا جائیں
میں آپ کے ساتھ یہی بات کرنے آیا ہوں عبدالرحمن سمیری نے کہا سلطان برکیارق کاروبار سلطنت میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان ملک شاہ مرحوم کے دور حکومت نے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا فوج برکیارق سے بیزار ہوتی جا رہی ہے ادھر باطنی پھیلتے اور غالب آتے چلے جارہے ہیں اگر ہم نے فوج میں بے زاری اور مایوسی پیدا کردی تو سلجوقی سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے
کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟
ماں نے پوچھا
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے جواب دیا بات کہاں کروں وہ تو باہر نکلتے ہی نہیں
تم یہیں بیٹھو ماں نے اٹھتے ہوئے کہا میں اسے باہر نکالتی ہوں میں آخر ماں ہوں
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے اٹھ کر برکیاروق کی ماں کو روکتے ہوئے کہا آپ اس کے پاس نہ جائیں وہ بدتمیزی پر اتر سکتا ہے اگر اس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا کر گزروں گا
برکیارق کی ماں نے اسکی نہ سنی اور ہاتھ سے اسے ایک طرف کر کے باہر نکل گئی اس نے برکیارق کی خواب گاہ کے بند دروازے پر دستک دی دروازہ کھلا اور روزینہ باہر آئی
کیا بات ہے؟
روزینہ نے پوچھا
ماں نے اسے کوئی جواب دینے کی بجائے کواڑ دھکیل کر اندر چلی گئی برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا
کیا ہوگیا ہے ماں ؟
برکیارق نے غنودگی کے عالم میں پوچھا
کیا باہر نکل کر یہ دیکھنا تمہارا کام نہیں کہ کیا ہورہا ہے ماں نے غصیلے لہجے میں کہا کیا باپ کو تم نے اس وقت کبھی اپنی خوابگاہ میں دیکھا تھا تم خارش کے مارے ہوئے کتے کی طرح اس وقت بھی خواب گاہ میں پڑے ہوئے ہو
ان کی طبیعت ٹھیک نہیں روزینہ نے کہا آپ یہاں سے چلی جائیں اور وزیراعظم سے کہیں کہ وہ اپنا کام کرے
میں تم سے مخاطب ہوں برکیارق! ماں نے اپنا لرزتا کانپتا ہاتھ برکیارق کی طرف بڑھا کر کہا سلطان تم ہو تمہاری یہ چہیتی بیگم نہیں تمہارے باپ نے یہ فوج باطنیوں کو ختم کرنے کے لئے تیار کی تھی اور آج تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس فوج کو اس مہینے کی تنخواہ بھی نہیں دی گئی
تو پھر کیا قیامت آگئی ہے برکیارق نے خفگی اور بے رخی سے کہا میں اتنی زیادہ فوج رکھوں گا ہی نہیں میں سالاروں کو بلا کر کہہ رہا ہوں کہ آدھی فوج کو چھٹی دے دیں
پھر اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر تیار ہو جاؤ ماں نے کہا تم فوج کی چھٹی کراؤ اور کچھ ہی دنوں بعد باطنی آ کرتمہارے چھٹی کرا دیں گے ہوش میں آ برکیارق! ہوش میں آ اپنے باپ کی قبر کی یوں توہین نہ کر یاد کر یہ سلطنت کیسی کیسی قربانیاں دے کر قائم کی گئی تھی اپنے آباء اجداد کی روحوں کو یوں اذیت نہ دے یہ جوانی چند دنوں کا میلہ ہے ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا صرف اللہ ہے
آپ انہیں اتنا پریشان تو نہ کریں ماں! روزینہ نے بیزاری کے لہجے میں کہا
تو خاموش رہ لڑکی! ماں نے روزینہ سے کہا اور مجھے ماں نہ کہہ میں اس کی ماں ہوں اور میں ماں ہوں سلطنت کی جو ہمارے بڑے بزرگوں نے اسلام کا پرچم اونچا رکھنے کے لیے بنائی تھی تجھے اس کے ساتھ روحانی دلچسپی ہوتی تو اسے یوں مدہوش کر کے کمرے میں قید نہ رکھتی
اچھا ماں اچھا برکیارق نے اٹھتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ تھکن سے چور تھا تم جاؤ میں تیار ہو کر باہر نکلتا ہوں
میں تمہیں ابھی باہر نکلتا دیکھنا چاہتی ہوں ماں نے کہا ابھی اٹھ
برکیارق آہستہ آہستہ اٹھنے لگا اور ماں کمرے سے نکل آئی روزینہ نے بڑے غصے سے دروازہ بند کرکے زنجیر چڑھا دی اور برکیارق کے پاس گئی
کچھ دیر اور لیٹے رہیں روزینہ نے برکیارق کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے ذرا سا دھکیلا اور لیٹا کر بولی ماں قابل احترام ہی سہی لیکن ماں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ بیٹا کس حال میں ہے ان لوگوں کو آپ کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں آپ کی ماں کو اور دونوں بھائیوں کو صرف سلطنت کا غم کھا رہا ہے معلوم نہیں انہیں یہ خطرہ کیوں نظر آنے لگا ہے کہ ان سے یہ سلطنت چھن جائے گی یہ لوگ بادشاہی چاہتے ہیں
روزینہ ابھی تک شب خوابی کے لباس میں تھی اس کے ریشم جیسے نرم و ملائم بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے وہ بلاشک و شبہ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی لیکن اسکے جو انداز تھے اس میں طلسماتی سا تاثر تھا اور یہ برکیارق کو مدہوش کر دیا کرتے تھے گھروں میں بند بعض بیویاں روزینہ سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں لیکن ان میں چونکہ روزینہ والے ناز و انداز مکاری اور عیاری نہیں ہوتی اس لئے خاوندوں کو وہ اتنی خوبصورت نظر نہیں آتی جتنی کوئی پیشہ ور عورت دل پر غالب آجاتی ہے روزینہ تربیت یافتہ لڑکی تھی اسے ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ مرد کی کون کون سی رگ کمزور ہوتی ہے ایسی لڑکیاں ان رنگوں کو مٹھی میں لے لیتی ہے
روزینہ نے برکیاروق کو لٹا کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں اور اس پر اس طرح جھکی کے اس کے بکھرے ہوئے نرم و گداز بال اس کے چہرے کو چھونے لگے پھر اس نے برکیارق کے عریاں سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور دو تین بار اپنے گال اسکے سینے سے لگائے پھر اسکی ٹانگیں دبانی شروع کر دیں
برکیارق جو ماں کی آواز سے بیدار ہو گیا تھا پھر مدہوش ہوگیا روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلا دیا اس سارے عمل کے دوران وہ بڑے ہی اداس اور پراثر لہجے میں برکیارق کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ مظلوم اور تنہا ہے اور اس کے خاندان کا ہر فرد اسے انسان سمجھتا ہی نہیں روزینہ کا تو خداداد حسن تھا اور پھر اس حسن کو ایک نشے اور ایک طلسم کی طرح استعمال کرنے کا سلیقہ تھا اور اس کے ساتھ برکیارق کو وہ جو مشروب پلا رہی تھی اس کا اثر الگ تھا برکیارق بھول ہی گیا کہ اس کی ماں اس کے کمرے میں آئی تھی اور کچھ کہہ کر چلی گئی تھی
دن کے پچھلے پہر برکیارق اس کمرے میں بیٹھا تھا جہاں وہ وزیراعظم اور دیگر اہلکاروں سے+923054856932 امور سلطنت کی باتیں سنتا اور حکم جاری کیا کرتا تھا وہاں جاتے ہی اس نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو بلا لیا تھا
آپ میرے بزرگ ہیں اور میں آپ کا احترام کرتا ہوں اس نے وزیر اعظم سے کہا آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بات نہ ہو کہ میرے دل میں آپ کا احترام کم ہوجائے فوج کو تنخواہ میری ماں نے نہیں بلکہ میں نے دینی ہے آپ کو یہ بات میرے ساتھ کرنی چاہیے تھی آپ نے میری ماں کو بلاوجہ پریشان کیا اور انہوں نے غصے میں آکر میری بیوی کے سامنے میری بےعزتی کر دی میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ آئندہ آپ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے
میں معافی کا خواستگار ہوں سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا میں دو مرتبہ آپ سے درخواست کر چکا ہوں کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ فوج کو بروقت تنخواہ نہ ملی ہو میں ادائیگی کی اس تاخیر سے ڈرتا ہوں کہ فوج میں ذرا سی بھی مایوسی اور بیزاری پیدا نہیں ہونی چاہئے آپ کو تو معلوم ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم نے یہ فوج کس مقصد کے لیے تیار کی تھی زندگی نے وفا نہ کی اگر وہ زندہ رہتے تو قلعہ الموت پر حملہ کرکے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتے مجھے جاسوس اور مخبر روزبروز اطلاع دے رہے ہیں کہ باطنی عقیدے بڑی تیزی سے پھیلتے چلے جارہے ہیں اور یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ ہمارے شہر میں اور دوسرے شہروں میں بھی باطنی آ کر آباد ہوتے چلے جا رہے ہیں وہ اپنے عقیدے مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں
آپ میرے وہ احکام غالباً بھول گئے ہیں جو میں پہلے دے چکا ہوں سلطان برکیارق نے کہا مرحوم سلطان نے فوج تو تیار کرلی تھی لیکن یہ نہ سوچا کہ اس فوج کو ہم کب تک پالتے رہیں گے محصولات کا زیادہ تر حصہ یہ فوج کھا رہی ہے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں حسن بن صباح کی طرف ایک وفد بھیجوں گا اور اس کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کروں گا وہ میری یہ شرط مان لے گا کہ وہ اپنے علاقے میں محدود رہے اور ہمیں اپنے علاقے میں محدود رہنے دے اس بار تو آپ فوج کو تنخواہ دے دیں لیکن فوج کی آدھی نفری کو سبکدوش کر دیں جو گھوڑے فالتو ہو جائیں وہ فروخت کرکے رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں میں اپنے سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو حکم دے رہا ہوں کہ وہ فوج کی چھانٹی کرکے نصف فوج کو ختم کر دیں
سلطان عالی مقام! وزیراعظم نے کہا آپ کے والد مرحوم نے وفد بھیجا تھا جس کا حسن بن صباح نے مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ تمہارے پاس وہ طاقت نہیں جو میرے پاس ہے اس نے ہمارے وفد کے سامنے اپنے تین آدمیوں کو باری باری حکم دیا تھا کہ اپنے آپ کو قتل کردیں ان آدمیوں نے فوراً اپنے خنجروں سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا تھا حسن بن صباح نے ہمارے وفد سے کہا تھا کہ تمہاری فوج میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو اس طرح اپنی جان قربان کر دے
مجھے وہ باتیں یاد نہ دلائیں سلطان برکیارق نے کہا وہ میرے والد مرحوم کے دور کی باتیں ہیں میں اپنا راستہ خود بنا رہا ہوں میں حکم دے رہا ہوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے
جس وقت سلطان برکیارق آپ نے وزیراعظم کو یہ احکام دے رہا تھا اس وقت اس کی بیوی روزینہ کے پاس ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہوئی تھی اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا یہ عورت روزینہ کی خاص ملازمہ تھی اس عورت کو روزینہ نے قابل اعتماد کنیز کا درجہ دے رکھا تھا
اور اسے یہ کہنا روزینہ اس کنیز سے کہہ رہی تھی امام تک یہ خبر جلدی پہنچا دیں کہ میں نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں سب سے زیادہ اہم فیصلہ یہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے گی سلطان برکیارق نے اپنے وزیر اعظم کو یہ حکم دے دیا ہے اور سالاروں کو بلا کر کہہ دے گا کہ آدھی فوج کو چھانٹی کر دو پھر امام تک یہ خبر پہنچا دینا کہ سلطان پوری طرح میری مٹھی میں آ گیا ہے اس کی ماں وزیراعظم اور اس کا بھائی محمد اسے مجھ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن میں اسے ان سب سے متنفر کر دوں گی یہاں فوج میں بیزاری اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی تنخواہ میں اس تاخیر کے پیچھے بھی میرا ہی ہاتھ ہے امام سے کہنا کہ اب اپنے آدمی بھیج دیں کیوں کہ فوج میں چھانٹی ہوگی تو جنہیں نکالا جائے گا انہیں بھڑکانا اور سلطان کے خلاف مشتعل کرنا ضروری ہوگا پیغام میں یہ بھی کہنا کہ ابھی میں رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کے فیصلوں کے خلاف ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس سلسلے میں وہ کیا عملی کاروائی کرے گا تم ابھی چلی جاؤ اور یہ پیغام ان لوگوں کو اچھی طرح سنا دینا اور انہیں کہنا کہ آج ہی ایک آدمی الموت روانہ ہو جائے
یہ حسن بن صباح کا زمین دوز انتظام تھا جس کے تحت سلطنت سلجوقیہ کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا تھا تھوڑے ہی دنوں بعد اس بارود میں ذرا سی چنگاری پھینک دینی تھی قوم اور ملک حکمرانوں کے ہاتھوں ہی تباہ ہوتے چلے آئے ہیں حکمران جب اپنی سوچنے کی صلاحیت اور اپنا وقار کسی دوسرے کے حوالے کردے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا روزینہ سلطان برکیارق کی سلطنت میں تاریخ کو دہرا رہی تھی برکیارق کے ذہن میں وہ یہ بات نقش کر رہی تھی کہ اس سلطنت کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سلطنت برکیارق کی ذاتی ملکیت ہے تباہی کے عمل کو تیز کرنے کے لئے روزینہ سلطنت سلجوقیہ کو اس تلوار سے محروم کر رہی تھی جسے فوج کہتے ہیں
سلطان برکیارق نے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو احکام دے کر فارغ کردیا اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی اور اس کے نائب سالار اوریزی کو بلایا وہ فورا پہنچ گئے
فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان برکیارق نے کہا کل خزانے سے رقم نکلوا کر فوج میں تقسیم کردیں اب میرے اس فیصلے پر عمل شروع کر دیں کہ فوج کی آدھی نفری کو فوج سے نکال دیں میں اب اتنی زیادہ فوج کی ضرورت نہیں سمجھتا آپ دونوں نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ کسے فوج میں رکھنا اور کسی نکالنا ہے
ہاں سلطان محترم! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا فوج آدھی ہو جانی چاہیے ہم آپ کے حکم کی تعمیل بہت جلدی کر دینگے
سلطان محترم! سالار اوریزی نے کہا بصد معذرت عرض کرتا ہوں کہ فوج میں کمی نہیں ہونی چاہئے آپ کو معلوم ہی ہے کہ مرحوم سلطان نے یہ فوج کیوں تیار کی تھی
مجھے اور بھی بہت کچھ معلوم ہے سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کی بات کاٹ کر کہا یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ اتنی زیادہ فوج کو تنخواہ کس طرح دی جاتی ہے میں جو کہہ رہا ہوں سوچ اور سمجھ کر کہہ رہا ہوں اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے
سلطان ٹھیک فرما رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا اتنی زیادہ تنخواہ پوری کرنا بہت مشکل ہے اور خزانے پر بلاوجہ بوجھ پڑا ہوا ہے ہمیں سلطان محترم کے حکم پر فوراً عمل کرنا چاہیے
حکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے سالار اوریزی نے کہا لیکن میں یہ نہیں بھول سکتا کہ یہ ملک ہمارا اپنا ہے اور یہ اسلامی سلطنت ہے یہ فوج اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے تیار کی گئی ہے اس سے ہم نے باطل کی قوتوں کو اسی طرح ختم کرنا ہے جس طرح آتش پرستوں اور رومیوں کی جنگی طاقتوں کو ختم کردیا گیا اگر ہم نے حسن بن صباح کو ختم نہ کیا
میں اس نام سے تنگ آگیا ہوں سلطان برکیارق نے کہا حسن بن صباح کا نام سنتے سنتے میرے کان پک گئے ہیں میں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہم باطنیوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کریں گے
یہ بھی سوچ لیں سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا اگر آپ نے فوج میں سے آدھی نفری نکال دی تو فوج میں اور قوم میں بھی آپ کے خلاف بداعتمادی پیدا ہوجائے گی اس کے نتائج کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں میں ابھی کوئی اور بات نہیں کہنا چاہتا سوائے اس کے کہ یہ نتائج بڑے ہیں خطرناک بھی ہو سکتے ہیں
ہم آپ کو نہیں نکال رہے سالار اوریزی! سپہ سالار نے کہا آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے
میں سب سے پہلے فوج سے نکلوں گا سالار اوریزی نے کہا میں مجاہد ہوں اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے فوج میں شامل ہوا تھا سلطان کی خوشامد کے لیے نہیں جیسا آپ کر رہے ہیں
آپ میری توہین کر رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار نے کہا میں بھی مجاہد ہوں خوش آمدی نہیں
دونوں خاموش ہوجاؤ! سلطان برکیارق نے کہا میں نے تمہیں آپس میں لڑنے کے لیے نہیں بلایا
سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا آپ میری صاف گوئی برداشت کریں یا نہ کریں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ آپ کی سلطنت کی سلامتی کے لئے کہہ رہا ہوں یہ سلطنت آپ کی نہیں یہ میری بھی ہے یہ اللہ کی سلطنت ہے اگر آپ فوج کے متعلق غلط فیصلے کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ جو سالار ان فیصلوں کو غلط سمجھے گا وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور ہمارے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا حکم نہیں مانے گا سپہ سالار حجازی آپ کو خوش کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنے اللہ کو خوش کر رہا ہوں اور یہی میرا فرض ہے
تقریباً تمام مستند تاریخوں میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کا خوشامدی تھا اور سلطان ابلیسی اثرات کے تحت فیصلے کر رہا تھا ایک بیدار مغز اور دیانتدار سالار نے ان کی مخالفت کی تو آگے چل کر یہی اختلاف خانہ جنگی کا بنیادی پتھر بن گیا سلطان برکیارق نے جب ان دونوں سالاروں کو فارغ کیا تو باہر آکر سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے سالار اوریزی کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ جانتا ہے کہ سلطان کا یہ حکم سلطنت کے لیے اچھا نہیں لیکن ہمیں کیا ہمیں سلطان کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہے لیکن سالار اوریزی اس قدر بگڑ گیا تھا کہ اس نے سپہ سالار کے ساتھ بحث بے معنی سمجھی
ایک روز رے میں امیر شہر ابومسلم رازی اپنے دفتر میں امور سلطنت میں الجھا ہوا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے دو آدمی آئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکی ہے ابومسلم رازی نے انہیں فوراً اندر بلا لیا
ہم اس لڑکی کو آپ کے حوالے کرنے آئے ہیں دونوں میں سے ایک آدمی نے کہا ہم مسلمان نہیں یہ لڑکی مسلمان ہے
کون ہے یہ لڑکی؟
ابومسلم رازی نے پوچھا اسے کہاں سے لائے ہو میرے حوالے کرنے کا مقصد کیا ہے ؟
میرا نام حمیرا ہے لڑکی بولی میں قستان کے ایک رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں
قستان پر تو باطنی قابض ہوگئے ہیں ابومسلم رازی نے کہا اور پوچھا تم کس طرح بچ نکلی ہو؟
اگر آپ اجازت دیں گے تو میں اپنی داستان سناؤں گی؟
حمیرا نے کہا سب سے پہلے تو میں ان دونوں کی تعریف کروں گی کہ یہ مسلمان نہیں اور یہ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں
ابومسلم رازی کے کہنے پر حمیرا نے وہ سب کہہ سنائی جو اس پر بیتی تھی اس نے اپنی محبت کی بات بھی نہ چھپائی اور سفید ریش راہب کے منزل تک پہنچنے کی ایک ایک تفصیل سنائی
میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم نے جو بات سنائی ہے وہ بالکل سچ ہے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
آپ کا شک بجا ہے حمیرا نے کہا ان کے بزرگ راہب نے بھی یہی شک کیا تھا میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ میں ثابت کر سکوں کہ میں نے جو بات کہی ہے یہ سچ ہے
ہمارے راہب نے اس لڑکی کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا تھا ایک آدمی نے کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں اور یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو آپ ہم دونوں کو قید خانے میں بند کردیں اور جب آپ کو یقین آجائے گا تو ہمیں رہا کردیں
ابو مسلم رازی نے ان دونوں آدمیوں کو کھانا کھلایا اور مشروبات پلائے اور پھر ان کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں
میں تمہیں اپنی پناہ میں رکھوں گا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا تمہارا کوئی اور ٹھکانہ ہوتا تو میں تمہیں وہاں بھیج دیتا
میری ایک بات ذہن میں رکھ لیں محترم! حمیرا نے کہا میں یہاں آپ کی پناہ میں محتاجوں کی طرح بیٹھی نہیں رہونگی میں نے ان باطنیوں سے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کے خون کا انتقام لینا ہے میں جانتی ہوں کہ آپ باطنیوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں آپ مجھے اس جہاد میں جس طرح بھی استعمال کریں گے میں اپنی جان بھی پیش کردوں گی
ابومسلم رازی نے حمیرا کے ساتھ آئے ہوئے دونوں آدمیوں کا شکریہ ادا کیا انہیں کچھ تحفے دیے اور رخصت کردیا
رے سلطنت سلجوقیہ ان کا ایک بڑا شہر تھا اور یہ دونوں آدمی دیہاتی علاقے میں سے آئے تھے دونوں جب بازار سے گزرے تو گھوڑوں سے اتر آئے انہیں اس شہر کی دوکانیں بڑی اچھی لگ رہی تھیں وہ ایک دکان کے سامنے رک گئے دکان میں سجا ہوا سامان انہیں اچھا لگ رہا تھا
تم اجنبی معلوم ہوتے ہو ؟
انہیں ایک آواز سنائی دی انہوں نے دیکھا ایک آدمی جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ان سے مخاطب تھا معلوم ہوتا ہے بڑے لمبے سفر سے آئے ہو اس آدمی نے کہا
ہاں بھائی! ایک نے کہا ہم بہت دور سے آئے ہیں اور اب واپس جا رہے ہیں
اس دکان سے کچھ خریدنا چاہتے ہو ؟
اس آدمی نے پوچھا
ویسے ہی یہ چیزیں اچھی لگ رہی ہیں ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہم جنگلوں میں رہنے والوں نے کیا خریدنا ہے
تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بتاؤ اس شخص نے کہا تم پردیسی ہو میں تمہیں کوئی تحفہ دینا چاہتا ہوں
کیوں ؟
ایک مسافر نے پوچھا تم ہمیں تحفہ کیوں دینا چاہتے ہو؟
میں نے تم سے کیا لینا ہے اس شخص نے کہا یہ میری عادت ہے کہ کسی سیدھے سادے اجنبی کو دیکھتا ہوں تو اسے ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے پوچھنے سے میرا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے اسے کسی چیز کی کھانے پینے کی یا کسی طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہو اور یہ بیچارا کسی سے کہتا نہ ہو
ہمیں کچھ نہیں چاہئے دوست! ایک نے کہا یہی کافی ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ پیار اور محبت سے بات کی ہے
پھر میری خوشی کی خاطر میرے ساتھ آؤ اس شخص نے کہا میں تمہیں اس شہر کا ایک خاص شربت پلا کر رخصت کرنا چاہتا ہوں
اس شخص نے ایسی اپنائیت کا اظہار کیا کہ وہ دونوں اس کے ساتھ چل پڑے ذرا ہی آگے مشروبات کی ایک دکان تھی جس میں بیٹھنے کا بڑا ہی اچھا انتظام تھا یہ شخص دونوں کو اندر لے گیا اور ان کے لیے شربت منگوایا وہ ایسی باتیں کرتا رہا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ دوسروں کی خدمت کرے
تمہارے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
اس شخص نے پوچھا اور تم امیر شہر کے یہاں گئے تھے وہ لڑکی شاید شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی
سفید ریش راہب نے اپنے ان دو آدمیوں کو حمیرا کے ساتھ بھیجا اور صرف یہ کہا تھا کہ اسے رے کے امیر شہر ابومسلم رازی کے حوالے کرکے واپس آ جائیں انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ کوئی اور پوچھ بیٹھے کہ یہ لڑکی کون ہے تو اسے لڑکی کی اصلیت نہ بتائیں یہ دونوں آدمی حمیرا کی پوری داستان سن چکے تھے انہوں نے حمیرا کے ساتھ اتنا لمبا سفر کیا تھا حمیرا نے خود بھی انہیں سنائی تھی کہ اس پر کیا بیتی ہے اور وہ کس طرح الموت سے نکلی ہے
اب رے سے رخصت ہوتے وقت ان دونوں کو یہ اجنبی میزبان مل گیا تو اس کی باتوں میں آگئے اس نے ان سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے جسے وہ امیر شہر کے یہاں چھوڑ چلے ہیں ان دونوں نے بڑے فخر اور خوشی سے حمیرا کی ساری داستان اس آدمی کو سنا ڈالی اس آدمی نے حمیرا کے اس کارنامے پر دل کھول کر واہ واہ کی اور پھر ان دونوں آدمیوں کے خلوص اور دیانت داری اور ان کے کردار کی بےپناہ تعریف کی اس کے بعد دونوں رخصت ہوگئے
ان کے جانے کے بعد یہ شخص بہت ہی تیز چلتا ایک مکان میں چلا گیا وہاں تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے
لو بھائیو! اس نے کہا وہ مل گئی ہے
کون؟
حمیرا! اس نے جواب دیا اس شہر کے حاکم ابو مسلم رازی کے گھر پہنچ گئی ہے ابھی ابھی دو آدمی اسے اپنے ساتھ لائے تھے اور وہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں اس نے اپنے ساتھیوں کو سنایا کہ کس طرح اس نے ان دونوں آدمیوں کو گھیرا اور ان سے یہ راز لیا ہے یہ سب باطنی تھے اور حسن بن صباح کے جاسوس تھے جو کچھ عرصہ سے رے میں ٹھہرے ہوئے تھے،انہیں دو ہی روز پہلے الموت سے اطلاع ملی تھی کہ حمیرا نام کی ایک لڑکی الموت سے لاپتہ ہو گئی ہے اسے تلاش کیا جائے
الموت کون جائے گا ؟
ان میں سے ایک نے پوچھا اور کہا اگر آج ہی کوئی روانہ ہو جائے تو اچھا ہے امام خوش ہوجائے گا
وہ صرف اتنی سی بات پر خوش نہیں ہوگا کہ لڑکی کا سراغ مل گیا ہے ان میں سے ایک نے کہا اب یہ حکم آئے گا کہ لڑکی کو اغوا کرکے الموت پہنچاؤ
ایک آدمی اٹھا اور سفر کی تیاری کرنے لگا
چند دن گزرے تھے کہ ایک روز سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد رے آ گیا اور ابو مسلم رازی کے یہاں پہنچا ابومسلم اسے اس طرح شفقت اور پیار سے ملا جیسے باپ اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملتا ہے محمد بڑا خوبصورت اور قد آور جوان نکلا تھا اس میں اپنے باپ ملک شاہ والا جذبہ تھا
کہو محمد! ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا مرو کے حالات کیسے ہیں اور تم کیسے آئے ہو؟
بہت برے! محمد نے جواب دیا آپ کے پاس مجھے ماں نے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے بھیجا ہے میں بھائی برکیاروق کو بتائے بغیر آگیا ہوں برکیارق تو پوری طرح اپنی بیوی کے قبضے میں آ چکا ہے وہ اس کے دماغ میں جو کچھ بھی ڈالتی ہے وہ سلطنت کے لئے حکم بن جاتا ہے مجھے اور سنجر کو برکیارق نے بھائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے مجھے کہتا ہے کہ میں تمہیں کسی اچھے عہدے پر لگا دوں گا لیکن کسی بھی وقت میرے راستے میں نہ آنا یہ تو ہماری گھریلو باتیں ہیں اس نے ایک بڑا ہی خطرناک حکم دے دیا ہے جس کے تحت فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیجا جا رہا ہے فوج آدھی رہ جائے گی
کیا کہا؟
ابو مسلم نے چونک کر کہا کیا وہ اتنی خطرناک حماقت پر اتر آیا ہے کہ فوج آدھی کرکے سلطنت کو خطرے میں ڈال رہا ہے؟
کیا وزیراعظم اور تمہاری ماں نے اسے روکا نہیں؟
سب نے روکا ہے محمد نے جواب دیا وہ کسی کی سنتا ہی نہیں اصل خطرہ جو سامنے آگیا ہے اس سے وہ بے خبر ہے لیکن میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں اور میرے آنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں کچھ مشورہ دیں
ہاں محمد! ابومسلم نے کہا یہ تو تم نے بڑی تشویش ناک خبر سنائی ہے
وہاں تو خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوتی جارہی ہے محمد نے کہا فوج میں سے ان آدمیوں کو الگ کیا جا رہا ہے جنہیں فوج سے نکالنا ہے ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ بےروزگار ہو جائیں گے بلکہ وہ سلطنت اور باطنیوں کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ بتا کر فوج میں شامل کیا گیا تھا کہ باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے اسلام کے فروغ کے راستے کھولنے ہیں پھر خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نائب سالار اوریزی بگڑ گیا ہے اس نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ سپہ سالار ابوجعفرحجازی کے خلاف باقاعدہ لڑائی لڑے گا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے گا
میں سپہ سالار حجازی کو اچھی طرح جانتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا خوشامدی آدمی ہے معلوم نہیں سلطان ملک شاہ مرحوم نے اسے سپہ سالار کیسے بنا دیا تھا وہ سوائے خوشامد کے کچھ بھی نہیں جانتا
وہ ہمارےبھائی برکیارق کا ہر غلط حکم بسروچشم مانتا ہے اور دوسروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی یہ حکم مانیں اس میں اور سالار اوریزی میں باقاعدہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے
اوریزی صحیح معنوں میں مجاہد آدمی ہے ابومسلم رازی نے کہا اس نے جو کہا ہے وہ کرکے بھی دکھا دے گا لیکن یہ صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے
وہ خطرہ سامنے آگیا ہے محمد نے کہا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے مخبروں نے انہیں بتایا ہے کہ باطنی تخریب کار دونوں طرف کی فوجیوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں نظر یہی آ رہا ہے کہ وہ فوجی جنھیں نکالا جارہا ہے ان فوجیوں سے ٹکرا جائیں گے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا ہے شہری بھی دو مخالف گروہوں میں بٹے جارہے ہیں اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ باطنی شہریوں میں شامل ہوکر انہیں بھڑکا رہے ہیں کسی بھی روز یہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا
مجھے سوچنے دو ابومسلم نے کہا آج یہ صورتحال ایسی نہیں کہ میں فوراً ہی کوئی مشورہ دے دوں اس وقت میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں یقین دلا دوں کہ میں ہر طرح تمہارے ساتھ ہوں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں اس نفری کو جسے نکالا جارہا ہے یہاں بلا لوں گا اور فوج تیار کرکے سلطان برکیارق کا تختہ الٹ دوں گا بہرحال صورتحال بہت ہی خطرناک ہے تم کچھ دن یہیں ٹھہرو میں کچھ نہ کچھ سوچ لوں گا
وہ اس مسئلے اور اس صورتحال پر باتیں کرتے رہے اور حسن بن صباح کا ذکر آگیا اس ذکر کے ساتھ ابومسلم رازی نے حمیرا کا نام لیا اور مختصراً محمد کو سنایا کہ یہ لڑکی کس طرح اس کے پاس پہنچی ہے اور حسن بن صباح سے انتقام لینے کے لیے بے تاب ہے ابومسلم رازی نے حمیرا کو بلا لیا وہ آئی تو اس کا تعارف محمد سے کرایا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا محمد کچھ دن یہاں رہے گا اس میں وہی جذبہ اور وہی خیالات ہیں جو تمہارے ہیں اس کی میزبانی تم نے کرنی ہے اسے کمرے میں لے جاؤ اور اس کا خیال رکھنا محمد اور حمیرا اٹھے اور کمرے سے نکل گئے دونوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیسی سنسنی خیز کہانی کے کردار بننے جارہے ہیں…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……
www.urducover.com