حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ سوئم

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ سوئم

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:9 }
ملک شاہ نے اسی وقت فوج کے سپہ سالار اور کوتوال کو بلا کر انہیں وہ جگہ بتائی جہاں قافلہ لوٹا گیا اور قافلے والوں کا قتل عام ہوا تھا اس نے حکم دیا کہ ہر طرف ہر شہر اور ہر آبادی میں جاسوس پھیلا دیئے جائیں
یہ کوئی بہت بڑا اور منظم گروہ ہے سلطان ملک شاہ نے کہا تم جاسوسوں اور مخبروں کے بغیر اس کا سراغ نہیں لگا سکتے مجھے ان چھوٹے چھوٹے قلعوں کے مالکوں اور قلعہ داروں پر بھی شک ہے ان کے ساتھ ہمیں مروت سے پیش آنا پڑتا ہے تم جانتے ہو کہ وہ کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتے ہیں میں ان پر فوج کشی نہیں کرنا چاہتا ورنہ یہ شرکس اور باغی ہو جائیں گے
سلطان عالی مقام سپہ سالار نے کہا میری نظر قلعہ شاہ در کے والی احمد بن عطاش پر بار بار اٹھتی ہے مجھے شک ہے کہ وہ کوئی زمین دوز کاروائیوں میں مصروف ہے شاہ در ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی آبادی خاصی زیادہ ہے احمد کو اس آبادی سے فوج مل سکتی ہے
اسے شاہ در کا والی میں نے ہی بنایا تھا سلطان نے کہا اور یہ شہر اس کے حوالے اسکی کچھ خوبیاں دیکھ کر کیا تھا اس کی شہرت یہ ہے کہ وہ اہل سنت ہے اور وہ جب وعظ اور خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو کفر کے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں پہلے والی ذاکر نے وصیت کی تھی کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے
گستاخی معاف سلطان محترم کوتوال نے کہا کسی کے خطابت سے متاثر ہونا اور بات ہے لیکن ایسے خطیب کی نیت اور دل میں چھپے ہوئے عزائم کو سمجھنا بالکل ہی مختلف معاملہ ہے اور یہی ایک راز ہے جو جاننا ضروری ہوتا ہے مجھے کچھ ایسی اطلاع ملتی رہی ہیں جن سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شاہ در میں اسماعیلی اکٹھے ہو رہے ہیں
یہ شک ایک اور وجہ سے بھی پختہ ہوتا ہے سپہ سالار نے کہا احمد نے قلعے کا والی بنتے ہی ان تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا تھا جنہیں سنی عقیدے کے خلاف کام کرتے پکڑا گیا تھا لیکن اب ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اب ہم صرف یہ کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کرنا بھی چاہئے کہ کسی ایسے جاسوس کو شاہ در بھیج دیتے ہیں جو بہت ہی ذہین دانش مند اور ہر بات کی گہرائی میں اتر جانے والا ہے وہ ذرا اونچی حیثیت کا آدمی ہونا چاہیے جو والی قلعہ کی محفلوں میں بیٹھنے کے قابل ہو
ایسا کوئی تمھاری نظر میں ہے؟
سلطان نے پوچھا میرے پاس دو ایسے آدمی ہیں کوتوال نے کہا ان دونوں میں جو بہتر ہے اگر آپ حکم دیں تو میں اسے شاہ در بھیج دوں گا بھیجنے سے پہلے میں اسے کچھ دن تربیت دوں گا بھیج دو ملک شاہ نے کہا اگر فوج کشی کی ضرورت پڑی تو میں حیل و حجت نہیں کرونگا میں اپنی ذات کی توہین برداشت کر سکتا ہوں اپنے عقیدے کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کروں گا
اس شخص کا نام یحییٰ ابن الہادی تھا اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی عراقی عرب تھا خوبرو اتنا کے ہجوم میں ہوتا تو بھی دیکھنے والوں کی نظریں اس پر رک جاتی تھی جسم گٹھا ہوا اور ساخت پرکشش ایسا ہی حسن اس کی زبان میں تھا عربی اس کی مادری زبان تھی فارسی بھی بولتا اور سلجوقیوں کی زبان بھی سمجھ اور بول لیتا تھا یہ ترکی زبان تھی شہسوار تھا تیغ زنی اور تیراندازی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا کوتوال نے اسے آٹھ دس دن اپنے ساتھ رکھا اور تربیت دیتا رہا
ابن الہادی کوتوال نے اسے شاہ در روانہ کرنے سے ایک روز پہلے کہا یہ تو تم جان چکے ہو کہ شاہ در جاسوسی کے لیے جا رہے ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم کامیاب لوٹو گے لیکن ایک بار پھر سن لو کہ تمہارا مقصد کیا ہے شک یہ ہے کہ احمد بن عطاش کی کچھ زمین دوز سرگرمیاں ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اسماعیلیوں اور باغیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اگر ایسا نہیں تو یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟
کیا یہ عزائم سلطنت کے حق میں ہیں یا احمد سرکشی اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے
میں آپ تک خبریں کس طرح پہنچایا کروں گا؟
یحییٰ ابن الہادی نے پوچھا
سنان تمہارے ساتھ جارہا ہے کوتوال نے اسے بتایا وہ تمہیں ملتا رہا کرے گا میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ابن الہادی
اگلی صبح یحییٰ ابن الہادی اور سنان شاہ در کو روانہ ہو گئے
احمد بن عطاش کو بتایا جاچکا تھا کہ قافلہ کامیابی سے لوٹ لیا گیا ہے آٹھ دس دنوں بعد وہ تمام زروجواہرات جو قافلے سے ملے تھے احمد کے حوالے کردیئے گئے تھے پھر باقی سامان بھی تھوڑا تھوڑا اس کو پہنچایا جاتا رہا کسی کو شک تک نہ ہوا کہ قافلہ والی شاہ در کے کہنے پر لوٹا گیا تھا
محترم استاد ایک روز حسن بن صباح نے احمد بن عطاش سے پرمسرت لہجے میں کہا کیا اتنا مال ودولت اور اتنی حسین نوخیز لڑکیاں پہلے بھی آپ کو کسی قافلے سے ملی تھیں
نہیں حسن احمد نے کہا میں نے اب تک جتنے قافلوں پر حملہ کروائے ہیں ان سب کا لوٹا ہوا مال اکٹھا کیا جائے تو اتنا نہیں بنتا جتنا اس قافلے سے حاصل ہوا ہے احمد خاموش ہو گیا اور حسن بن صباح کو غور سے دیکھ کر بولا کیوں حسن آج تم کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے ہو؟
ہاں استاد حسن نے کہا میں اس لیے خوش نہیں کہ اس قافلے نے ہمیں مالامال کر دیا ہے بلکہ میری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ میری بتائی ہوئی ترکیب کامیاب رہی ہے میں کوئ اور بات کہنے لگا تھا اس کامیابی کا جشن منانا چاہیے اور اس جشن میں شہر کے لوگوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے
کیا لوگوں کو کھانا کھلاؤ گے؟
احمد بن عطاش نے پوچھا ناچ گانا کراؤ گے ؟
جو کچھ بھی کرو گے وہ بعد کی بات ہے پہلے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ لوگوں کو کیا بتاؤ گے کہ یہ کیسا جشن ہے؟
بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے حسن نے کہا جشن تو ہم منائیں گے لوگوں کو کسی اور طریقے سے شامل کرنا ہے وہ اس طرح کہ کم از کم دو دن گھوڑ دوڑ نیزہ بازی تیغ زنی تیراندازی کُشتی وغیرہ کے مقابلے کرائیں گے اور جیتنے والوں کو انعام دیں گے ہم نے جشن تو اپنا منانا ہے لیکن اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ لوگ خوش ہو جائیں گے، لوگوں کے ساتھ آپ کا رابطہ بہت ضروری ہے، لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے نہیں آؤں گا یا انہیں اپنا چہرہ نہیں دیکھاؤ گا کیونکہ میں نے بعد میں کسی اور روپ میں سامنے آنا ہے جشن آپ کو ہر دلعزیز بنانے کے لئے ضروری ہے
احمد بن عطاش کو یہ تجویز اچھی لگی کہ اس نے اسی وقت جشن کی تفصیلات طے کرنی شروع کر دی پھر حکم دیا کہ شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں ایک ہی دن میں یہ منادی کرا دی جائے کہ فلاں دن شاہ در میں گھوڑدوڑ نیزہ بازی تیغ زنی کُشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے جن میں جو چاہے شریک ہو کر انعام حاصل کرسکتا ہے
اس منادی سے شاہ در کے ارد گرد کے علاقے میں نئی جان پڑ گئی لوگ ایک دو دن پہلے ہی شاہ در پہنچنا شروع ہو گئے شہر کے ارد گرد خیموں کی ایک وسیع و عریض بستی آباد ہوگئی گھوڑوں اور اونٹوں کا ہی کوئی شمار نہ تھا
مقابلے کے دن سے ایک دن پہلے خیموں کی بستی اتنی دور تک پھیل گئی تھی کہ اس کے درمیان شاہ در گاؤں سا لگتا تھا سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے حسن بن صباح اپنے استاد اور پیرومرشد احمد بن کے ساتھ محل نما مکان کے بالا خانے کی کھڑکی میں کھڑا باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا ان کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں تھی
میرے مرشد حسن بن صباح نے احمد سے کہا یہ ہے وہ مخلوق خدا جسے ہم نے اپنی مریدی میں لینا ہے کیا یہ ممکن ہے؟
ناممکن بھی نہیں حسن احمد نے کہا ہمارا کام آسان تو نہیں ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہے تمہارے ساتھ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں اگر حکومت ہماری ہوتی تو پھر کوئی مشکل نہیں تھی ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ حکمران سلجوقی ہیں اور وہ اہلسنت ہیں ہم تعداد میں تھوڑے ہیں ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنا ہے تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہاری یہ تجویز کتنی قیمتی ہے
تفریح استاد محترم حسن نے کہا انسان کی فطرت تفریح چاہتی ہے انسان حقیقت کا مفرور ہے لذت چاہتا ہے آپ استاد ہیں آفتاب ہیں آپ میں آپ کے سامنے چراغ سے بڑھ کر کیا حیثیت رکھتا ہوں مجھے آپ کا سبق یاد ہے ہر انسان کی ذات میں کمزوریاں ہیں اور ہر انسان اپنی کمزوریوں کا غلام ہے اس ہجوم میں بڑے امیر لوگ بھی ہیں زرپرستی اور برتری ان کی کمزوری ہے اور جو غریب ہیں وہ ایسے خدا کی تلاش میں ہیں جو انہیں بھی امیر بنانے کی قدرت رکھتا ہے
انہیں یہ خدا ہم دیں گے احمد نے کہا انہیں ہم اپنے عقیدے میں لے آئیں گے
سورج غروب ہو گیا شاہ در اور اس کے اردگرد خیموں کی دنیا کی گہماگہمی رات کی تاریکی اور سکوت میں دم توڑتی چلی گئی باہر کے لوگ نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گئے تو احمد اور حسن کی دنیا کی رونق عروج پر پہنچ گئی شراب کا دور چل رہا تھا نیک و بد کی تمیز ختم ہو چکی تھی
صبح طلوع ہوئی تو ہزارہا انسانوں کا انبوہ بے کراں اس میدان کے اردگرد جمع ہوگیا جس میدان میں مختلف مقابلے منعقد ہونے تھے یہ بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا مقابلے میں شرکت کرنے والوں کو منتظمین نے الگ جگہ دے دی تھی اس طرف کسی تماشائی کو جانے کی اجازت نہیں تھی
احمد بن عطاش کے بیٹھنے کی جگہ ایک چبوترے پر تھی جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا شاہی مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام بھی اسی چبوترے پر تھا اس پر بڑا ہی خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا برچھی برادار سنتری اور چوب دار چمکیلے اور رنگ دار لباس میں چبوترے کے نیچے اور اوپر چاک و چوبند کھڑے تھے ہر لحاظ سے یہ اہتمام شاہانہ لگتا تھا روم کے شہنشاہوں کی یاد تازہ ہو رہی تھی
اچانک دو نقارے بجنے لگے ایک طرف سے احمد بن عطاش شاہی مہمانوں اپنے خاندان کے افراد اور مصاحبوں کے جلوس میں شاہانہ چال چلتا آیا اس کے ساتھ ایک باریش آدمی تھا جو سر تا پا ہلکے سبز رنگ کی عبا میں ملبوس تھا اس کا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آتا تھا کیونکہ اس نے سر پر جو کپڑا لے رکھا تھا اس کپڑے نے اس کا آدھا چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں اور ناک ہی نظر آتی تھیں وہ حسن بن صباح تھا جس نے اپنے آپ کو لوگوں سے مستور رکھنا تھا
احمد بن عطاش حسن بن صباح کے ساتھ یوں چل رہا تھا جیسے حسن بن صباح کوئی بہت ہی معزز اور برگزیدہ بزرگ ہو یہ سب لوگ چبوترے پر آکر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرسیوں پر بیٹھ گئے احمد بن عطاش اٹھا اور چبوترے پر دو چار قدم آگے آیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا میں نے ان مقابلوں کا اہتمام اس لیے کرایا ہے کہ اسلام کی پاسبانی کے لئے قوم کے ہر فرد کا مجاہد بننا لازمی ہے جہاد کے لیے تیاریاں کرتے رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم میں کتنے لوگ جہاد میں دشمن کو تہ تیغ کرنے کے قابل ہیں
اس نے ہاتھ بلند کرکے نیچے کیا جو اشارہ تھا کہ مقابلے شروع کردیئے جائیں گھوڑ دوڑ شروع ہوگئ
لوگوں نے داد و تحسین کا شور و غل بپا کردیا
اس کے بعد گھوڑ سواری کے کرتبوں کے مقابلے ہوئے اور اس کے بعد شترسوار میدان میں اترے جب اونٹوں کی دوڑ ختم ہو گئی تو اعلان ہوا کہ اب تیر اندازی کا مقابلہ ہوگا اس اعلان کے ساتھ ہی چار آدمی ایک بہت بڑا پنجرہ اٹھائے ہوئے میدان میں آئے پنجرے میں ڈیڑھ دو سو کبوتر بند تھے ایک آدمی نے اعلان کیا کہ ایک کبوتر اڑایا جائے گا اور ایک تیر انداز اس کبوتر کو تیر سے گرائے گا یہ بھی کہا گیا کہ کوئی تیرانداز پہلے تیر سے کبوتر کو نہ گرا سکے تو وہ دوسرا اور پھر تیسرا تیر بھی چلا سکتا ہے اول انعام ان تیر اندازوں کو دیئے جائیں گے جو پہلے ہی تیر سے کبوتر کو نشانہ بنا لیں گے
کم و بیش ایک سو تیرانداز ایک طرف کھڑے تھے پہلے تیر انداز کو بلایا گیا پنجرے میں سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو پھینکا گیا تیرانداز نے کمان میں تیر ڈالا اور جب کبوتر ذرا بلندی پر گیا تو اس نے تیر چلایا لیکن کبوتر تیر کے راستے سے ہٹ گیا تیرانداز نے بڑی پھرتی سے تیرکش سے دوسرا تیر نکال کر کمان میں ڈالا اور کبوتر پر چلایا وہ بھی خطا گیا تیسرا تیر بھی کبوتر کے دور سے گزر گیا
ایک اور تیر انداز کو بلایا گیا میدان کے وسط میں کھڑے ہو کر اس نے کمان میں تیر ڈالا اور تیار ہو گیا پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو چھوڑا گیا یہ تیر انداز بھی کبوتر کو نہ گرا سکا
دس بارہ تیرانداز آئے کوئی ایک بھی کبوتر کو نہ گرا سکا اگر پرندہ سیدھی اڑان میں اڑتا آئے تو ماہر تیر انداز اسے نشانہ بنا سکتا ہے لیکن جو کبوتر پنجرے سے نکلتا تھا وہ اتنا ڈرا ہوا ہوتا تھا کہ بلندی پر بھی جاتا تھا اور بڑی تیزی سے دائیں اور بائیں بھی ہوتا تھا اس کی اڑان کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اب یہ کس طرف گھوم جائے گا ایسے پرندے کو تیر سے مارنا بہت ہی مشکل تھا
ایک اور تیرانداز آگے آیا اور ایک کبوتر اس کے لئے چھوڑا گیا اس تیر انداز نے بھی یکے بعد دیگرے تین تیر چلائے مگر تینوں خطا گئے لوگوں نے شور و غل بلند کیا تیر اوپر جاتے اور گردے صاف نظر آتے تھے یہ کبوتر تین تیروں سے بچ گیا اور تماشائیوں کے اوپر ایک چکر میں اڑتا بلند ہوتا جا رہا تھا ایک اور تیرانداز میدان میں آ رہا تھا
تماشائی ابھی اوپر اس کبوتر کو دیکھ رہے تھے جو تین تیروں سے بچ کر محو پرواز تھا احمد بن عطاش کے چبوترے کے قریب جو تماشائی کھڑے تھے ان میں سے ایک کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے پیٹ میں اتر گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آنے لگا تماشائیوں پر سناٹا طاری ہو گیا ان کی حیرت قدرتی تھی کبوتر زیادہ بلندی پر چلا گیا تھا اور ابھی تک گھبراہٹ کے عالم میں یوں اڑ رہا تھا جیسے پھڑپھڑا رہا ہو
یہ تیر انداز کون ہے؟
احمد بن عطاش نے اٹھ کر اور چبوترے پر آگے آکر کہا سامنے آؤ خدا کی قسم میں اس تیرانداز کو اپنے ساتھ رکھوں گا
ایک گھوڑسوار تماشائیوں میں سے نکلا اور چبوترے کے سامنے جا کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں کمان تھی اور کندھے کے پیچھے ترکش بندھی ہوئی تھی
کیا نام ہے تمہارا؟
احمد بن عطاش نے اس سے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
کیا تم شاہ در کے رہنے والے ہو؟
میرا نام یحییٰ ابن الہادی ہے تیر انداز نے جواب دیا بہت دور سے آیا ہوں اور بہت دور جا رہا ہوں یہاں کچھ دیر کے لیئے رکا تھا لوگوں کا ہجوم دیکھا تو ادھر آ گیا اگر اجازت ہو تو میں دوڑتے گھوڑے سے تیر اندازی کا مظاہرہ کر سکتا ہوں میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ آپ کو کچھ بہتر تماشہ دکھا سکوں
اجازت ہے احمد بن عطاش نے کہا
یحییٰ ابن الہادی نے گھوڑے کو دوڑایا اور میدان میں لے جاکر کہا کہ جب اس کا گھوڑا دوڑنے لگے تو ایک کبوتر چھوڑ دیا جائے وہ گھوڑے کو ایک طرف لے گیا اور گھوڑا دوڑا دیا پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر چھوڑ دیا گیا یحییٰ نے دوڑتے گھوڑے پر ترکش سے ایک تیر کمان میں ڈالا اور کبوتر کو نشانے میں لینے لگا آخر اس کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے ایک پر کو کاٹتا ہوا اوپر چلا گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آ پڑا
آفرین احمد بن عطاش نے اٹھ کر بے ساختہ کہا میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا شاہ در ہی تمہاری منزل ہے
ایک خالی اونٹ میدان میں دوڑا دیا جائے یحیٰی نے بلند آواز سے کہا اور اس نے گھوڑے کو روک لیا
ایک قوی ہیکل اونٹ کو میدان کے ایک سرے پر لا کر پیچھے سے مارا پیٹا گیا اونٹ ڈر کر دوڑ پڑا تین چار آدمی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے تاکہ اس کی رفتار تیز ہو جائے یحییٰ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے کو گھما پھرا کر اونٹ کے پہلو کے ساتھ کر لیا
گھوڑے کو اپنے ساتھ دوڑتا دیکھ کر اونٹ اور تیز ہوگیا اونٹ کی پیٹھ پر کجاوہ کسا ہوا تھا جو ایک آدمی کی سواری کے لئے تھا اس کی مہار زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی یحییٰ نے ریکاب میں سے پاؤں نکالے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہو گیا وہاں سے اچھلا اور اونٹ کی پیٹھ پر پہنچے گیا اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی گھوڑا اونٹ سے الگ ہو گیا یحییٰ اونٹ کو گھوڑے کے پہلو میں لے گیا اور اونٹ کی پیٹھ سے کود کر گھوڑے کی پیٹھ پر آگیا اس نے یہ کرتب دکھانے سے پہلے اپنی کمان پھینک دی تھی اس نے گھوڑے کو موڑا اور چبوترے کے سامنے جا رکا
یہ وہی یحییٰ ابن الہادی تھا جسے سلطان ملک شاہ کے کوتوال نے جاسوسی کے لئے شاہ در بھیجا تھا وہ دو روز پہلے شاہ در پہنچا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنا کام کس طرح شروع کرے انہیں دنوں مقابلوں کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا پھر مقابلے کا دن آگیا اور وہ تماشائیوں میں جا کھڑا ہوا اس نے جب اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے اور خطا ہوتے دیکھے تو اس نے سامنے آئے بغیر ایک کبوتر پر تیر چلا دیا اس طرح اس کا رابطہ براہ راست احمد بنات عطاش سے ہو گیا موقع بہتر جان کر اس نے گھوڑسواری کا کرتب بھی دکھا دیا
ایک ایک تیر انداز آگے آتا رہا اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے رہے کوئی ایک بھی تیرانداز کبوتر کو نشانہ نہ بنا سکا یحییٰ بن الھادی کی شکل و شباہت، قد، کانٹھ، جسم کی ساخت، ڈیل ڈول، اور انداز ایسا تھا کہ احمد بن عطاش نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے حسن بن صباح سے کہا کہ یہ جواں سال گھوڑسوار کوئی معمولی آدمی نہیں لگتا
اگر یہ مان جائے تو میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں احمد بن عطاش نے حسن سے کہا ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے
پوچھ لیں حسن نے کہا لگتا تو مسلمان ہے معلوم نہیں کون سے قبیلے اور کس فرقے کا آدمی ہے؟
احمد بن عطاش نے ایک چوبدار کو بھیج کر یحییٰ کو بلایا یحییٰ آیا تو احمد نے اسے چبوترے پر بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا ،یحییٰ کا گھوڑا ایک چوبدار نے پکڑ لیا میدان میں مختلف مقابلے یک بعد دیگر رہے تھے لیکن احمد کی توجہ ادھر سے ہٹ گئی تھی وہ یحییٰ کے ساتھ باتیں کررہا تھا پہلا اور قدرتی سوال یہ تھا کہ وہ کون ہے اور کہا جارہا ہے؟
اپنی منزل کا مجھے کچھ پتہ نہیں یحییٰ نے کہا شاید میں بھٹک گیا ہوں
کیا تم صاف بات نہیں کرو گے؟
احمد بن عطاش میں کہا مجھے تمہاری بات میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے کیا تم کچھ دن میرے مہمان رہنا پسند کرو گے ؟
روک جاؤ گا یحییٰ نے جواب دیا اگر میری روح کو یہاں تسکین مل گئی تو اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لوں گا لیکن آپ مجھے یہاں روک کر کریں گے کیا؟
میں چاہتا ہوں کہ لوگ تم سے تیراندازی سیکھیں احمد نے کہا اور تم یہاں ایک محافظ دستہ تیار کرو یہ دستہ گھوڑسوار ہو گا تم نے ہر ایک محافظ کو شہسوار بنانا ہے
کیا آپ اپنی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں؟
یحییٰ نے پوچھا یحییٰ نے یہ سوال جاسوس کی حیثیت سے کیا تھا اسے پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ اس کا سامنا کس قدر گھاگ اور کایاں آدمی سے ہے
اپنی فوج احمد بن عطاش نے چونک کر کہا میں اپنی فوج نہیں بناسکتا میں تو یہاں کا والی ہوں فوج تیار کرنا سلطان کا کام ہے میں یہاں لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں تم نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک بھی ایسا تیر انداز نہیں جو اڑتے کبوتر کو نشانہ بنا سکے گھوڑ سواری میں یہ لوگ اتنے ماہر نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے اگر میں ایک دستے کی صورت میں کچھ لوگوں کو تیار کر لوں گا تو وہ سلطان کے ہی کام آئیں گے تم یقینا اہلسنت والجماعت ہو
میں مسلمان ہوں یحییٰ نے کہا لیکن میں عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں سوچ سوچ کر پاگل ہوا جارہا ہوں کہ کونسا عقیدہ خدا کا اتارا ہوا ہے اور کونسا انسانوں نے خود گھڑ لیا ہے کبھی کہتا ہوں کے اسماعیلی صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور پھر خیال آتا ہے کہ اہلسنت صراط مستقیم پر ہیں میں تو مرد میدان تھا آپ نے دیکھ ہی لیا لیکن دماغ میں ان سوالوں نے سر اٹھایا اور مجھے منزل منزل کا بھٹکا ہوا مسافر بنا ڈالا میری روح تشنہ اور بے چین ہے
احمد نے حسن بن صباح کی طرف دیکھا جس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا حسن بن صباح نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ کہہ دیا
ہم تمہیں بھٹکنے نہیں دیں گے یحییٰ احمد نے کہا خدا نے ہم پر یہ کرم کیا ہے کہ یہ بزرگ ہستی ہمیں عنایت کی ہے یہ دینی علوم کے بہت بڑے عالم ہیں میں ان سے درخواست کروں گا کہ یہ تمہیں اپنی شاگردی میں بیٹھا لیں اور تمہارے شکوک و شبہات رفع کر دیں ،مجھے امید ہے کہ تمہاری روح کی تشنگی ختم ہو جائے گی
اے بھٹکے ہوئے مسافر حسن بن صباح نے کہا مرد میدان ہو تمہیں علم اور خصوصا دینی علم کی جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو ہم تمہیں اپنے پاس بٹھائیں گے کچھ روشنی دکھائیں گے اور تمہاری تسکین کر دیں گے
تیغ زنی وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے تماشائیوں نے بے ہنگم شور و غوغا باپا کر رکھا تھا میدان سے اتنی گرد اڑ رہی تھی کہ مقابلہ کرنے والے اچھی طرح نظر بھی نہیں آتے تھے دوپہر کے بعد کا وقت ہو گیا تھا احمد بن عطاش نے اعلان کروایا کہ باقی مقابلے کل صبح ہوں گے اور جو لوگ اس وقت تک مقابلوں میں کامیاب رہے ہیں انہیں مقابلے ختم ہونے کے بعد انعامات دیے جائیں گے
احمد بن عطاش اٹھ کھڑا ہوا شاہی مہمان وغیرہ بھی اٹھے اور وہ سب چلے گئے احمد نے یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھا گھر لے جا کر اس کا منہ ہاتھ دلوایا اور پھر وہ دسترخوان پر جا بیٹھے کھانے کے دوران بھی ان کے درمیان باتیں ہوتی رہیں یحییٰ نے اپنے متعلق یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار خاندان کا فرد ہے اور اس کا اثر و رسوخ اس وقت صرف اپنے قبیلے پر ہی نہیں بلکہ دوسرے قبیلے بھی اس کے خاندان کے رعب و دبدبے کو مانتے ہیں
یہ بڑا ہی اچھا اتفاق تھا کہ یحییٰ انہی لوگوں میں پہنچ گیا تھا جن کے متعلق اس نے معلوم کرنا تھا کہ ان کے اصل چہرے کیا ہیں اور کیا انہوں نے کوئی بہروپ تو نہیں چڑھا رکھا اب یہ اس کی ذہانت اور تجربے کا امتحان تھا کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح راز کی باتیں اگلوا سکتا ہے
چونکہ احمد بن عطاش حاکم تھا اس لئے اسے اپنے متعلق یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ سرداری کی سطح کا آدمی ہے اور دوچار قبیلوں پر اس کا اثر اور رسوخ کام کرتا ہے اس نے ان کے سامنے اپنی ایک مصنوعی کمزوری بھی رکھ دی تھی کہ وہ دینی علوم کے راز حاصل کرنے کے لئے بھٹکتا پھر رہا تھا
تم آج بہت تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو احمد بن عطاش نے کھانے کے کچھ دیر بعد یحییٰ سے کہا تمہارے لئے اسی مکان میں رہائش کا بندوبست کردیا گیا ہے شام کا کھانا وہیں پہنچ جائے گا آج آرام کر لو کل کام کی باتیں ہونگی
مسلسل سفر میں ہوں یحییٰ نے کہا آپ نے ٹھیک جانا ہے میں بہت ہی تھکا ہوا ہوں ایک درخواست ہے میرا ملازم بھی میرے ساتھ ہے اگر اس کی رہائش کا بھی انتظام ہو جائے
ہوجائے گا احمد نے کہا اسے یہیں لے آؤ
جسے یحییٰ نے اپنا نوکر کہا تھا وہ سنان تھا سنان کو اس کام کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا کہ کوئی ضروری اطلاع وغیرہ ہوگی تو وہ سنان لے کر مرو جائے گا
ایک ملازم کو بلا کر یحییٰ کو اس کے ساتھ اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا یحییٰ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گیا وہ تو شاہانہ کمرہ تھا یحییٰ بہت خوش تھا کہ وہ ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گیا ہے اور وہ چند دنوں میں اپنا کام مکمل کر لے گا
اب بتاؤ حسن احمد بن عطاش نے یحییٰ کے جانے کے بعد حسن بن صباح سے پوچھا اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ایک تو ہم اس سے یہ فائدہ اٹھائیں گے کہ ہمیں تیر انداز اور شہسوار تیار کر دے گا ہم نے قلعہ المُوت تک جتنے قلعہ نما شہر سامنے آتے ہیں انہیں اپنے قبضے میں لینا ہے یہ ہمیں کر ہی لینے پڑیں گے اس کے لئے ہمیں جاں باز فوج کی ضرورت ہے اس کی نفری چاہے تھوڑی ہی ہو یہ شخص خاصہ عقلمند لگتا ہے اور تین قبیلوں پر بھی اس کا اثر اور رسوخ ہے اسے اگر ہم اپنے سانچے میں ڈھالیں تو یہ بڑے کام کا آدمی ثابت ہوگا
ہاں استاد محترم حسن بن صباح نے کہا آدمی تو کام کا لگتا ہے لیکن ہمیں اس پر نظر رکھنی پڑے گی کہ یہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اسے راز کی باتیں بتانا شروع کردیں جیسا کہ یہ کہتا ہے کہ یہ منزل منزل کا مسافر ہے یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہمیں بتائے بغیر غائب ہی ہو جائے احتیاط لازمی ہے
صورت یہ پیدا ہو گئی کہ جو جاسوس بن کر آیا تھا اس کی بھی درپردہ جاسوسی ہونے لگی اگلی صبح اسے کمرے میں ہی ناشتہ دیا گیا اور ناشتے کے بعد ایک چوبدار اسے اپنے ساتھ لے گیا ایک کمرے میں حسن بن صباح اس کے انتظار میں بیٹھا تھا اس کے اشارے پر یحییٰ اس کے سامنے بیٹھ گیا
اب بات کرو یحییٰ حسن نے کہا کیا وہم ہے کیا مسئلہ ہے جو تم اپنے دماغ میں لیے پھرتے ہو؟
کیا میں خدا کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر جا رہا ہوں؟
یحییٰ نے پوچھا کیا میرا عقیدہ صحیح ہے؟
یہ بات نہیں یحییٰ حسن نے کہا اصل سوال جو تمہارے دماغ میں تڑپ رہا ہے اور تمہارے لیے بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خدا کا وجود ہے اگر ہے تو خدا کہاں ہے؟
خدا نظر ہی نہیں آتا تو یہ راستہ اور یہ عقیدہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے حسن بن صباح یحییٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح بات کر رہا تھا جیسے ندی کا شفاف پانی پتھروں پر آہستہ آہستہ جلترنگ بجاتا بہا جا رہا ہو حسن کے ہونٹوں پر روح افزا مسکراہٹ تھی یحییٰ کے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہیں تھا وہ توان لوگوں کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں تھا اسے توقع تھی کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہوا تو اس کے سوال سن کر یہ لوگ اس کے ذہن میں اسماعیلیت ٹھوسنی شروع کر دیں گے لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے دشمن نے اسے تہہ تیغ کرکے نہتا کر دیا ہو حالانکہ حسن بن صباح نے اپنی بات ابھی شروع ہی کی تھی
خدا وہ ہے جو انسان کو نظر آتا ہے حسن کہہ رہا تھا نظر آنے والا خدا ایک نہیں کئی ایک ہے اور یہ سب انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں کسی نے پتھر کو تراش کر خدا کو آدمی کی شکل دے دی کسی نے خدا کو عورت بنا دیا کسی نے شیر کسی نے سانپ اور کسی نے دھڑ جانور کا اور چہرہ انسان کا بنا دیا
بات یہ سمجھنے والی ہے یحییٰ خدا انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان خدا کی تخلیق ہے اور انسان کا ہر قول اور فعل خدا کے حکم کا پابند ہے یہ صراط مستقیم ہی ہے کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو یہاں تمہارے سارے شکوک صاف ہو جائیں گے لیکن یہ ایک دن کا معاملہ نہیں کچھ دن لگیں گے تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو انسان وہی کامل بنتا ہے جو اپنے آپ کو کسی کامل پیر و مرشد کے حوالے کردیتا ہے
قابل تعظیم بزرگ یحییٰ نے التجا کی مجھے اپنی مریدی اور شاگردی میں قبول فرما لیں
دین کی تبلیغ میرا فرض ہے حسن نے کہا میں تمہیں تمہارے متعلق ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں تم نے کہا تھا کہ تم مرد میدان ہو خدا تمہیں منزل پر لے آیا ہے تم نے لوگوں کو اپنے جیسا تیرانداز اور شہسوار بنانا ہے انہیں کفر کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنا ہے میں علم ہو تو عامل ہو خدا کی نگاہ میں تمہارا رتبہ مجھ سے زیادہ بلند ہے یہاں سے جانے کی نہ سوچنا
یحییٰ ابن الہادی تو چاہتا ہی یہی تھا وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی ذات باری نے اس کا کام بہت ہی آسان کر دیا تھا اور اس کے آگے آگے راستہ صاف ہوتا چلا جا رہا تھا
اس کے ساتھی سنان کی رہائش وغیرہ کا انتظام کہیں اور کیا گیا تھا اس نے سنان کو بلاکر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا کہ اس سے کوئی پوچھے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟
تو وہ کیا جواب دے اور وہ سیدھا سادہ بلکہ بیوقوف سا نوکر بنا رہے جو معمولی سی بات سمجھنے میں بھی بہت وقت لگاتا ہے
کچھ دیر بعد یحییٰ احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا ہوا تھا اسے احمد نے بلایا تھا وہاں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں چاروں نوجوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت وہ بہت ہی شوخ اور چنچل تھیں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھیں یحییٰ کی موجودگی کا انہی جیسے احساس ہی نہیں تھا
یحییٰ احمد بن عطاش یحییٰ سے کہہ رہا تھا تم خوش قسمت ہو کہ اتنے بڑے عالم دین نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں اپنی مریدی میں قبول کر لیا ہے اور تمہیں کہا ہے کہ یہیں رہو اور تیر اندازی اور شہسواری کا ہنر جو تم میں ہے وہ دوسروں کو بھی سکھا دو یہ تو کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے خدا کی یاد میں ڈوبے رہتے ہیں اور خدا سے ہی ہم کلام ہوتے ہیں
ہر حکم بجا لاؤں گا یحییٰ نے کہا ان آدمیوں کو میرے حوالے کر دیں جنہیں میں نے سکھلائی دینا ہے
بسم اللہ ان لڑکیوں سے کرو احمد نے کہا یہ میرے خاندان کی لڑکیاں ہیں یہ جب تیر اندازی میں تم جیسی مہارت حاصل کرلیں گی تو دوسری لڑکیوں کی سکھلائی کریں گی ہماری عورتوں کو تیر انداز ہونا چاہیے پھر انہیں گھوڑ سواری کی مشق کرنی ہے میں تمھاری باقاعدہ تنخواہ مقرر کر دوں گا
میں آج ہی یہ کام شروع کر دوں گا یحییٰ نے کہا مجھے تیراندازی کے لیے ایسی جگہ دکھا دیں جہاں سامنے تیروں کے لئے رکاوٹ ہو ورنہ تیر ہر طرف اڑتے پھریں گے اور راہ جاتے لوگ زخمی ہونگے
احمد بن عطاش کے حکم سے سارے انتظامات کر دیے گئے اور یحییٰ چاروں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گیا وہ کمانیں اور تیروں کا ایک ذخیرہ بھی ساتھ لے گیا تھا یحییٰ نے لڑکیوں کی سکھلائی شروع کردی پہلے دن وہ انہیں کمان کھینچنا اور بازوؤں کو سیدھا رکھنا سکھاتا رہا کمانیں بہت سخت تھیں لڑکیاں کمان کھینچتیں تھیں تو ان کے دونوں بازو کانپتے تھے یحییٰ انہیں بتا رہا تھا کہ بازوؤں کو اپنے قابو میں کس طرح رکھنا ہے کہ ان میں لرزا پیدا نہ ہو
ادھر میدان میں کشتیوں اور دوڑوں وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے احمد بن عطاش اور حسن بن صباح وہاں چلے گئے تھے وہ دونوں بہت خوش تھے کہ انہوں نے اتنے زیادہ لوگ اکٹھا کر لیے تھے وہ کھیل تماشوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے بلکہ وہ اپنے اس منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے کہ اس مخلوق خدا کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا ہے
ان چار لڑکیوں میں جو یحییٰ ابن الہادی سے تیراندازی سیکھنے گئی تھیں داستان گو دو کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہے ایک تھی فرح جو حسن بن صباح کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ گئی تھی دوسری زرّیں تھی جس نے شاہ در کے مرحوم والی ذاکر کو اپنے حسن و جوانی اور بھولے پن کے جال میں پھانسا اور اسے دھوکے سے شربت میں زہر پلا پلا کر ایسی بیماری میں مبتلا کردیا تھا کہ کچھ دنوں بعد ذاکر مر گیا طبیب سر پٹختے رہ گئے کہ ذاکر کی بیماری کیا تھی
ذریں غیرمعمولی طور پر حسین اور نوجوان لڑکی تھی احمد بن عطاش نے اس کی تربیت ایسی کی تھی کہ تجربے کار اور معمر استاد بھی اس کے ہاتھوں میں عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے یحییٰ خاص طور پر خوبرو اور پرکشش جوان تھا اور اس نے تیر اندازی اور گھوڑ سواری کے جو کرتب دکھائے تھے ان سے اس نے لوگوں سے بے ساختہ داد و تحسین حاصل کی تھی اور کچھ دلوں میں اس نے ہلچل برپا کردی تھی اس زمانے میں مرد ایسے ہی اوصاف اور کمالات سے باعزت اور قابل محبت سمجھے جاتے تھے
زرین اپنے استاد سے فریب کاری سیکھی تھی اور یہ مفروضہ اس کا عقیدہ بن گیا تھا کہ عورت کا حسن مردوں کو فریب دینے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے احمد نے اس کے دل سے جذبات نکال دیے تھے وہ دانشمند تھا خوب جانتا تھا کہ عورت ہو یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی جذبات میں الجھ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا
صرف یہ راز اپنے دل میں بند کرلو زرّیں احمد بن عطاش نے اسے کئی بار کہا تھا تم ایک ایسا حسین بلکہ طلسماتی پھندہ ہو جس میں انتہائی زہریلا ناگ بھی آ جائے گا اور جانداروں کو چیر پھاڑ دینے والا درندہ بھی تمہارے پھندے میں آ کر تمہارا غلام ہو جائے گا تم نے اس کے لئے ایسا حسین فریب بنے رہنا ہے کہ وہ تمہاری فریب کاری کو بھی تمہارے حسن کا حصہ سمجھے گا اسے یہ تاثر دیے رکھو کہ تم اس کی محبوبہ ہو اور تم اسے خدا کے بعد کا درجہ دیتی ہو اور پھر عملی طور پر ایسے مظاہرے کرتی رہو جیسے تم اس کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتی اس کے جذبات کے ساتھ کھیلوں اور ناز و انداز کے علاوہ اس کے قدموں میں یوں لوٹ پوٹ ہوتی رہو جیسے تم اس کی زر خرید لونڈی ہو اس طرح اس پر اپنے حسن و جوانی اور فریب کاری کا نشہ طاری کرکے اس کی کھال اتارتی رہو اور اس کا خون چوستی رہو
یہ ایک بنیادی سبق تھا جو احمد لڑکپن کے پہلے دن سے زرین کو دیتا چلا آیا تھا لیکن اس نے اسے یہ سبق وعظ کی صورت میں ہی نہیں دیا تھا بلکہ عملی طور پر بھی اسے سمجھایا تھا اس کے پاس ذرا بڑی عمر کی تین چار عورتیں تھیں جنہوں نے زریں کو اس سبق کے عملی مظاہرے کرکے دکھائے تھے ان عورتوں نے زریں کو بڑا ہی حسین اور روشنی میں رنگارنگ شعاعیں دینے والا پتھر یا ہیرا بنا دیا تھا اسے ایسا ہی ایک خوبصورت ہیرا دکھایا بھی گیا تھا
یہ ہیرا دیکھ رہی ہو زریں اسے ہیرا دکھا کر کہا گیا تھا کیا تم نہیں چاہوں گی کہ یہ ہیرا تمہارے گلے کی یا انگلی کی زینت بنے
کیوں نہیں چاہوں گی زریں نے کہا تھا
اگر تمہیں اس کی قیمت بتائی جائے تو تمہارے ہوش اڑ جائیں اسے کہا گیا تھا ایسے ایک ایک ہیرے پر بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں لیکن اس اتنے دلکش اور قیمتی ہیرے کو تم نگلو تو مر جاؤں گی یہ اس ہیرے کے زہر کا اثر ہوگا تم نے یہ ہیرا بننا ہے تمہیں کوئی جنگجو اور جابر بادشاہ بھی دیکھے تو وہ تمہیں حاصل کرنے کے لئے اپنی بادشاہی کو بھی بازی پر لگا دے لیکن جو تمہیں نگلنے یعنی تمہیں زیر کر کے تم پر قبضہ کرلے وہ زندہ نہ رہے
داستان گو آگے چل کر وہ واقعات سنائے گا جو ثابت کریں گے کہ عورت کتنی بڑی قوت کتنا زبردست جادو کا ایسا طلسم ہے حسن بن صباح کی کامیابی کا جو راز تھا اس راز کا نام عورت ہے حسین عورت جسے چاہے قتل کروا سکتی ہے اور جسے چاہے اسے زندہ لاش بنا سکتی ہے عورت قاتل کو تختہ دار سے بھی اتروا سکتی ہے
زریں کی ذات میں یہ سارا زہر بھر دیا گیا تھا اس نے اپنا پہلا شکار بڑی کامیابی سے مار لیا تھا وہ ذاکر تھا کامیابی صرف یہی نہیں تھی کہ اس قلعہ نما شہر کا والی مر گیا تھا بلکہ زریں نے شاہ در جیسا شہر اپنے استاد احمد بن عطاش کی جھولی میں ڈال دیا پھر یہ احمد کی فریب کاری کا کمال تھا کہ سلجوقی سلطان نے اسے قلعے کا والی مقرر کردیا تھا
زریں اس کامیابی پر بہت خوش تھی وہ اگلے شکار کے انتظار میں تھی لیکن اس نے یحییٰ ابن الھادی کو دیکھا تو اس نے اپنے آپ میں کچھ ایسی ہلچل محسوس کی جسے وہ سمجھ نہ سکی اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ یحییٰ کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھے کہ اسے دیکھ کر اس کے اندر بھونچال کے جو ہلکے ہلکے اور لطیف سے جو جھٹکے محسوس ہوتے ہیں یہ کیا ہیں؟
یحییٰ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ خوش طبع آدمی تھا کسی بات میں تلخی ہوتی تو اس بات میں بھی وہ شگفتگی پیدا کر لیا کرتا تھا چاروں لڑکیاں اس کی اس زندہ مزاجی کو اتنا پسند کرتی تھیں کہ اسے اکساتی تھیں کہ وہ باتیں کرے یحییٰ بھی ان لڑکیوں کو باتوں باتوں میں خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ لڑکیاں تیراندازی میں دلچسپی لیتی رہیں لیکن زریں کی جذباتی حالت کچھ اور ہی تھی کبھی تو وہ کچھ دور بیٹھ کر یحییٰ کو دیکھتی رہتی تھی زریں بھی کچھ طبعاً اور کچھ خصوصی تربیت کے زیر اثر زندہ اور شگفتہ مزاج لڑکی تھی لیکن یحییٰ کو دیکھ کر اس پر سنجیدگی سی طاری ہو جاتی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی
یحییٰ ان لڑکیوں کو تیراندازی اس طرح سیکھاتا تھا کہ کمان لڑکی کے ہاتھ میں دیتا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا سکھانے کا طریقہ بھی یہی تھا وہ اپنا بازو لڑکی کے کندھے سے ذرا اوپر کرکے اس کے ہاتھوں میں کمان کو سیدھا کرتا تھا اس طرح اکثر یوں ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیٹھ اسکے سینے کے ساتھ لگ جاتی تھی باقی لڑکیوں کی توجہ تیراندازی میں ہوتی تھی وہ شاید محسوس بھی نہیں کرتی تھی کہ اس کا جسم ایک جوان آدمی کے ساتھ لگ رہا ہے لیکن زریں کا معاملہ کچھ اور تھا وہ دانستہ اپنی پیٹھ یحییٰ کے ساتھ لگا لیتی تھی اور پھر اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ دیر یحییٰ کے ساتھ اسی حالت میں رہے
شاید یحییٰ بھی زریں کے ان جذبات کو سمجھنے لگا تھا
شام گہری ہو چکی تھی یحییٰ سونے کی تیاری کررہا تھا اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی یحییٰ نے دروازہ کھولا باہر زریں کھڑی تھی جو دروازہ کھلتے ہی فوراً اندر آ گئی یحییٰ اسے یوں اندر آتے دیکھ کر ذرا سا بھی حیران یا پریشان نہ ہوا وہ جانتا تھا کہ یہ والی شہر کے خاندان کی لڑکی ہے، اسے اور دوسری لڑکیوں کو بھی وہ آزادی سے گھومتے پھرتے دیکھا کرتا تھا
میں یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہتی ہوں زریں نے کہا تم برا تو نہ جانو گے
برا کیوں جانوں گا زریں یحییٰ نے کہا نیت بری نہ ہو تو برا جاننے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی یحییٰ نے زریں کو غور سے دیکھا اور بولا تم کچھ بجھی بجھی سی اور اکھڑی سی لگ رہی ہو تم تو ان سب لڑکیوں سے زیادہ ہنس مکھ ہو
میرے پاس بیٹھ جاؤ زرین نے سنجیدہ اور متین سے لہجے میں کہا یہاں میرے قریب بیٹھو
یحییٰ اس کے قریب بیٹھ گیا زریں نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا یحییٰ بھی آخر جوان آدمی تھا اور اسے خدا نے ایسی عقل اور نظر دی تھی کہ وہ پردوں کے پیچھے کی بات بھی سمجھ جایا کرتا تھا
تم ٹھیک کہتے ہو یحییٰ زریں نے یحییٰ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے کہا میرے دل کی جو کیفیت ہے وہ میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے میں اتنی سنجیدہ کبھی بھی نہیں ہوئی تھی میں تو سمجھتی تھی کہ میں دنیا میں ہنسنے کھیلنے کے لئے ہی آئی ہوں لیکن تم میرے سامنے آئے ہو تو میں نے اپنے اندر ایسا انقلاب محسوس کیا ہے کہ میرے لئے اپنے آپ کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے بار بار یہی جی میں آتا ہے کہ تمہارے پاس آ بیٹھو اور تمہاری باتیں سنو کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم جب میرے ہاتھ میں کمان دیتے ہو اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر کمان میں تیر سیدھا رکھنے کو کہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ لگ جاتی ہوں اور دانستہ کمان کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے کر دیتی ہوں تاکہ تم کچھ دیر اسی طرح میرے ساتھ لگے رہو اور بار بار میرے ہاتھ پکڑ کر کمان اور تیر سیدھا کرتے رہو
یحییٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی جس ہاتھ میں زریں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اس ہاتھ کو یحییٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا یکلخت یحییٰ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان چاروں لڑکیوں میں یہ لڑکی اسے زیادہ اچھی لگتی تھی اور کبھی کبھی وہ تیر اندازی کی سکھلائی دیتے ہوئے اس لڑکی کو اپنے کچھ زیادہ ہی قریب کر لیا کرتا تھا ،زریں نے جب اپنے جذبات کا اظہار کیا تو یحییٰ نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ زریں نے اپنی نہیں بلکہ اس کے جذبات کی ترجمانی کی ہے
کیا تم میرے ان جذبات کی تسکین کر سکتے ہو زریں نے کہا میں تمہیں صاف بتا دو کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو کیا تم میری محبت کو قبول کرو گے؟
سوچ لو زریں یحییٰ نے کہا تم شہزادی ہو اور میں ایک مسافر ہوں جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی منزل کیا ہے، کہاں ہے؟
ہوسکتا ہے ہماری محبت کوئی قربانی مانگ بیٹھے جو تم نہ دے سکو میں تو اپنی جان بھی دے دوں گا
وہ تم دیکھ لوگے زریں نے کہا کوئی ایسا خطرہ ہوا تو جہاں کہو گے تمہارے ساتھ چل پڑوں گی میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں زریں یحییٰ نے کہا تمہیں دیکھ کر میرے اندر بھی ایسے ہی جذبات امنڈے ہوئے تھے لیکن میں خاموش رہا میرے دل کی بات تم نے کہہ دی ہے صرف ایک بات کا خیال رکھنا کے اس محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ نہ ہو یہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔۔۔ زریں نے کہا میں نے کہا ہے کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، میں یہاں آتی رہا کرو گی اور میں تمہارا انتظار کیا کروں گا یحییٰ نے کہا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:10 }
اس رات کے بعد یحییٰ اور زریں بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے وجود میں تحلیل ہوتے چلے گئے
تیراندازی تیغ زنی وغیرہ کے مقابلوں کا جو میلہ لگا تھا وہ ختم ہو چکا تھا جیتنے والے انعام و اکرام لے کر چلے گئے تھے خیموں کی بستی اجڑ گئی تھی
یحییٰ ان چاروں لڑکیوں کو تیر اندازی کی مشق کروا رہا تھا لڑکیوں کے تیر ٹھکانے پر لگتے تھے
یحییٰ اور زریں کے دلوں میں جو تیر اتر گئے تھے ان سے ابھی دوسرے ناواقف تھے زریں کوئی پردہ دار لڑکی تو نہ تھی کہ اس کے باہر نکلنے پر پابندی ہوتی وہ ہر رات یحییٰ کے کمرے میں پہنچ جاتی اور دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو کر بیٹھے رہتے اور دلوں کی باتیں کرتے رہتے تھے
یحییٰ کی جذباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ وہ جب لڑکیوں کو تیر اندازی کے لئے باہر لے جاتا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ زریں میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہا ہے
وہ جو کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپے نہیں رہ سکتے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں زریں کے ساتھی لڑکیاں بھانپ گئیں کہ یہ معاملہ کچھ اور ہی ہے انہوں نے احمد بن عطاش کو بتایا احمد بن عطاش کچھ پریشان سا ہو گیا احمد کو معلوم نہیں تھا کہ یحییٰ نے یہ راز چھپا کر نہیں رکھا جس وقت لڑکیاں احمد بن عطاش کو یہ بتا رہی تھی بالکل اسی وقت یہ حسن بن صباح کے پاس بیٹھا اسے اپنے دل کی یہی بات بتا رہا تھا
یحییٰ حسن بن صباح سے متاثر ہی نہیں تھا بلکہ مرعوب تھا اس مرعوبیت میں ڈر اور خوف نہیں تھا بلکہ احترام اور تقدس کا تاثر تھا جو اس پر طاری ہو جایا کرتا تھا یہ مرعوبیت ایسی تھی جیسے حسن بن صباح نے اس کو ہپناٹائز کر رکھا ہو حسن اس کے ساتھ دینی امور پر باتیں کرتا تھا ان باتوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حسن راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اس کا درجہ نبیوں سے ذرا سا ہی کم ہے
پیر و مرشد یحییٰ نے ایک روز اس کے سامنے بیٹھے ہوئے کہا وادی شاہ در کے خاندان کی ایک لڑکی زریں اسے دل و جان سے چاہتی ہے اور اس کے اپنے دل میں بھی اس لڑکی کی محبت پیدا ہو گئی ہے اور ہم دونوں تنہائی میں بیٹھ کر پیار و محبت کی باتیں کیا کرتی ہیں کیا میں بددیانتی اور دھوکہ دہی کا ارتقاب تو نہیں کر رہا؟
نہیں حسن بن صباح نے کہا اگر اس محبت کا تعلق جسموں کے بجائے روحوں کے ساتھ ہے تو یہ گناہ نہیں
یہ ہماری روحوں کا معاملہ ہے پیر و مرشد یحییٰ نے کہا
پھر یہ ٹھیک ہے حسن بن صباح نے کہا
ادھر احمد بن عطاش نے زریں کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ یحییٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور ان کی ملاقاتیں کس قسم کی ہیں
یہ شخص مجھے اچھا لگتا ہے زریں نے کہا اور میرا اس کے ساتھ جو تعلق ہے وہ مرد و عورت والا تعلق نہیں
میری بات غور سے سنو احمد بن عطاش نے کہا میں سمجھ گیا ہوں میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس محبت کو گناہ کہا کرتے ہیں جو فرائض سے ہٹادے
میں فرائض سے نہیں ہٹی زریں نے کہا جہاں آپ مجھ میں یہ خامی دیکھیں کہ میں اپنا کوئی ایک بھی فرض بھول گئی ہوں تو مجھے جو سزا چاہیں دے دیں
تم نے شاید سزا کا نام رسمی طور پر لیا ہے احمد بن عطاش نے قدرے با رعب آواز میں کہا لیکن تمہیں بھول نہیں چاہئے کہ یہ سزا کیا ہوگی
میں جانتی ہوں زریں نے کہا مجھے قتل کر دیا جائے گا
قتل نہیں کیا جائے گا احمد بن عطاش نے کہا تمہیں قید خانے میں ان قیدیوں میں پھینک دیا جائے گا جو کئی کئی سالوں سے وہاں بند ہیں اور وہ سب وحشی آدمی ہیں پھر تمہیں اس کال کوٹھری میں بند رکھا جائے گا جہاں زہریلے کیڑے مکوڑے رہتے ہیں یہ مت بھولنا کے تم نے دوسروں کو پھانسنا ہے خود پھنس کے بیکار نہیں ہو جانا
اسی رات احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا انہیں نقصان یہ نظر آ رہا تھا کہ محبت کے نشے میں ایک قیمتی اور تجربے کار لڑکی ضائع ہوجائے گی حسن بن صباح نے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں بلایا زریں جب اس کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر کچھ اور ہی تاثر تھا
دن گزرتے چلے گئے یحییٰ اور زریں ایک دوسرے میں گم ہو گئے یحییٰ نے ان لڑکیوں کو تیر اندازی میں تاک کر دیا تھا اور اب اسے کہا گیا تھا کہ انہیں شہسوار بنا دے شہر کے لوگ دیکھتے تھے کہ پانچ گھوڑے ہر صبح جنگل کو نکل جاتے ہیں ایک پر یحییٰ اور باقی چار پر لڑکیاں سوار ہوتی تھیں صبح کے گئے ہوئے یہ گھوڑے آدھا دن گزار کر واپس آتے تھے یحییٰ کبھی کبھی زریں کو اپنے ساتھ رکھ کر باقی لڑکیوں سے کہتا کہ وہ دور کا چکر لگا کر آئیں لڑکیاں یہ رپورٹ احمد بن عطاش کو دے دیا کرتی تھیں
ادھر مرو میں سلطان ملک شاہ اور اس کا کوتوال ہر روز انتظار کرتے تھے کہ یحییٰ کی طرف سے کوئی پیغام آئے گا لیکن ہر روز انہیں مایوسی ہوتی تھی یحییٰ کے ذہن سے نکل ہی گیا تھا کہ وہ شاہ در کیوں آیا تھا اور اسے ایک روز واپس بھی جانا ہے وہ اپنے ساتھی سنان سے ہر روز ملتا اور اسے کہتا تھا کہ ان لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ کیا ہیں دو چار دنوں بعد کچھ پتہ چل جائے گا
زریں کے اظہار محبت میں اچانک دیوانگی پیدا ہوگئی اس نے یحییٰ کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس میں اب انتظار کی تاب نہیں رہی اور یحییٰ اسے اپنے ساتھ لے چلے یحییٰ نے اسے ابھی تک نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا تھا
زریں نے اس سے کئی بار پوچھا اور یحییٰ نے ہر بار اسے جذبات میں الجھا کر ٹال دیا تھا
ایک رات زریں اس کے کمرے میں آئی تو اس نے اپنی چادر میں چھپائی ہوئی چھوٹی سی صراحی نکالی
میں آج تمہارے لیے ایک خاص شربت لائی ہوں زریں نے صراحی یحییٰ کے ہاتھ میں دے کر کہا یہ احمد بن عطاش خود پیا کرتا ہے اور صرف یہ بزرگ عالم ہے جسے کبھی کبھی پلاتا ہے میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ اس میں شہد ملا ہوا ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس میں ایسے پھولوں کا رس ڈالا گیا ہے جو کسی دوسرے ملک میں ہوتے ہیں احمد کی بیویاں کہتی ہیں کہ اس نے اس شربت کا مشکیزہ بہت سے سونے کے عوض منگوایا ہے سنا ہے یہ شربت پینے والا دو سو سال زندہ رہے تو بھی بوڑھا نہیں ہوتا میں چُرا کے لائی ہوں پی کے دیکھو
یحییٰ نے صراحی ہی منہ سے لگا لی اور پھر آہستہ آہستہ اس نے سارا شربت پی لیا اس دوران زریں اس کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں ایسے والہانہ انداز سے کرتی رہی جیسے وہ نشے میں ہو زریں طلسم کی مانند یحییٰ پر طاری رہتی ہی تھی لیکن اس رات یحییٰ کی جزباتی حالت کچھ اور ہی ہو گئی وہ یوں محسوس کرنے لگا جیسے اسے دنیا بھر کی حاکمیت مل گئی ہو
آخر ہمارا انجام کیا ہوگا یہی؟
زریں نے کہا کیا تم میرے ساتھ یوں ہی محبت کا کھیل کھیلتے رہو گے تم تو اتنا بھی نہیں بتاتے کہ تم ہو کہاں کے میں کہتی ہوں کہ جہاں کہیں کے بھی ہو یہاں سے نکلو اور مجھے اپنے ساتھ لے چلو آج کی رات یہاں کی آخری رات ہونی چاہیے میں تیار ہوں مردانہ لباس پہن لونگی
یحییٰ نے قہقہہ لگاکر زریں کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اس نے اس طرح کا قہقہہ پہلے کبھی نہیں لگایا تھا زریں نے مچل مچل کر اسے کہنا شروع کر دیا کہ وہ اسے اپنے متعلق کچھ بتائیے
سن زریں یحییٰ نے شگفتہ سی سنجیدگی سے کہا یہ بھی سن لے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں اب مجھے تم پر اعتبار آ گیا ہے میں یہاں ایک فرض ادا کرنے آیا تھا وہ ابھی ادا نہیں ہوا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے
پھر مجھے بتاتے کیوں نہیں زریں نے بڑی پیاری سی جھنجلاہٹ سے کہا میں کئی بار کہہ چکی ہوں کہ تمہاری محبت پر میں اپنی جان بھی قربان کر دوں گی
میں مرو سے آیا ہوں یحییٰ نے اپنے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا میں سلجوقی سلطان ملک شاہ کا جاسوس ہوں وہاں یہ شک پایا جاتا ہے کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے اور یہاں شاہ در میں اہل سنت کے خلاف اسماعیلی مرکز بن گیا ہے میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کے اس شک میں حقیقت کتنی ہے یا کچھ حقیقت ہے بھی یا نہیں
کچھ پتہ چلا؟
زریں نے پوچھا
میں ابھی شک میں ہوں یحییٰ نے جواب دیا یوں کہہ لو کہ میرا شک ابھی موجود ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص اہل سنت ہے اس کے ساتھ جو عالم ہے اس نے دینی مسائل کے مجھے بہت سبق دیے ہیں اس میں مجھے اسماعیلیوں والی کوئی بات نظر نہیں آئی لیکن میں نے ان دونوں کو کبھی نماز پڑھتے بھی نہیں دیکھا میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس شہر میں اسماعیلیوں کی اکثریت ہے
تمہارا یہ ساتھی سنان بھی جاسوس ہی ہوگا؟
زریں نے پوچھا
ہاں یحییٰ نے کہا اسے میں نے دو تین دنوں بعد یہ بتا کر واپس بھیجنا ہے کہ میں نے اب تک یہاں کیا دیکھا ہے
یحییٰ زریں نے یحییٰ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالےمیں لے کر جذباتی لہجے میں کہا میری ایک بات مان لو مرو واپس نہ جاؤ یہاں بھی نہ رہو چلو آگے ایران چلے چلتے ہیں تم جہاں جاؤ گے تمہیں وہاں کے حاکم ہاتھوں ہاتھ لے گے تم جیسا تیر انداز اور شہسوار کہاں ملتا ہے مذہب اور فرقوں کے چکر سے نکلو
میں تمہیں ایک بات صاف بتا دیتا ہوں زریں یحییٰ نے کہا میرے دل میں تمہاری جو محبت ہے اس میں کوئی دھوکا یا بناوٹ نہیں تم میری پہلی اور آخری محبت ہو لیکن میں اپنے فرض کو محبت پر قربان نہیں کروں گا
اگر میں تمہارے سامنے کسی اور آدمی کے ساتھ چل پڑوں تو زریں نے کہا
تو میں نظریں پھیر لونگا یحییٰ نے کہا اپنے فرض سے نظر نہیں ہٹاؤں گا سلجوقیوں نے ہزارہا جانے قربان کرکے اور خون کے چڑھاوے چڑھا کر یہ سلطنت بنائی ہے اسے وہ سلجوقی سلطنت نہیں اسلامی سلطنت کہتے ہیں اسلام میں کوئی فرقہ نہیں جو مسلمان یہ کہتا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی امت سے ہے وہ اگر سنت سے منحرف ہے تو وہ رسول اللہﷺ کا امتی نہیں وہ کچھ اور ہے سلجوقی سلاطین اہلسنت والجماعت ہیں اس لئے وہ اللہ کے سچے دین کے پاسبان ہیں میں رسول اللہﷺ کا غلام اور سلجوقی سلطان کا نمک حلال ملازم ہوں یہ میرا ایمان ہے اگر تم اس دعوے میں سچی ہو کہ میری محبت تمہارے روح میں اتری ہوئی ہے تو میرے فرض کی ادائیگی میں میری مدد کرو مجھے ان لوگوں کی اصلیت بتاؤ
کل زریں کھڑی ہوئی اور یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی کل اسی وقت تمہیں راز معلوم ہوجائے گا اور تم اپنے فرض سے فارغ ہو جاؤ گے
یحییٰ پر فاتحانہ کیفیت طاری تھی وہ بہت خوش تھا کہ کل اس کا کام ختم ہو جائے گا وہ یہاں سے ایک قیمتی راز اور ایک حسین لڑکی کو ساتھ لے کر رخصت ہوگا
زریں اپنے کمرے میں گئی تو پلنگ پر اوندھے منہ گر کر ایسے روئی کے اس کی ہچکی بندھ گئی
یہ لڑکی ایک حسینہ اور دھوکہ تھی لیکن یحییٰ کے ساتھ اس کی محبت دھوکا نہیں تھی اس کی محبت کا سرچشمہ اس کی روح تھی وہ روحانی محبت کے نشے سے سرشار ہو گئی تھی مگر محبت ایسے بھنور میں آ گئی تھی جس سے اس کا سلامت نکل آنا ممکن نظر نہیں آتا تھا
لڑکیوں نے احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتا دیا کہ زریں یحییٰ کے ساتھ عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی ہے احمد اور حسن نے اس اطلاع سے یہ رائے قائم کی کہ زریں کے اندر انسانی جذبات ابھی زندہ ہیں اور اس کی ذات میں ابھی وہ عورت زندہ ہے جو مرد کی محبت کی پیاسی ہوتی ہے
دوسری بات یہ کہ زریں ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی جو ابھی مشکوک تھا حسن بن صباح عالم دین کے بہروپ میں یحییٰ کو ہر روز اپنے پاس بیٹھا تھا اور اسے دینی امور سمجھاتا تھا لیکن اس سے بات کروا کے یہ جاننے کی کوشش کرتا تھا کہ یہ شخص ہے کون؟
سلجوقیوں کا ہی آدمی تو نہیں حسن کچھ جان تو نہ سکا تھا لیکن اس نے وثوق سے کہہ دیا تھا کہ یہ شخص مشکوک ہے
اب حسن بن صباح کو پتہ چلا کہ زریں یحییٰ کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے تو اس نے زریں کو اپنے پاس بلایا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ذہن پر قابض ہوگیا لڑکی کی جو تربیت آٹھ دس سال عمر سے شروع ہوئی اور جوانی میں بھی جاری تھی وہ ابھر آئی اور زریں کی عقل پر غالب آ گئی
تم اس سے اگلوالو گی وہ کون ہے یہاں کیوں آیا ہے؟
حسن بن صباح نے کہا
ہاں میں اس سے اگلواؤں گی وہ کون ہے یہاں کیوں آیا ہے زریں نے یوں کہا جیسے اس پر غنودگی طاری ہو
وہ شربت تمہارے ساتھ ہوں
وہ شربت میرے ساتھ ہوگا
اس شربت میں جو زریں صراحی میں لے کر یحییٰ کے پاس گئی تھی اس میں شہد تو ضرور ملا ہوا تھا لیکن اس میں کسی پھول کا رس نہیں تھا اس میں حشیش ڈالی گئی تھی اور اس میں ایک خوشبو ملائی گئی تھی یہ شربت پینے کے بعد یحییٰ نے جو قہقہہ لگایا تھا وہ حشیش کے زیر اثر تھا جسے وہ زریں کے حسن و شباب اور محبت کے والہانہ اظہار محبت کا خمار سمجھتا رہا اس نشے نے اس کے سینے سے راز نکال کر زریں کے آگے رکھ دیا
یحییٰ کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ اسے یہ یاد رہا کہ وہ رسول اللہﷺ کی امت سے ہے اور اہل سنت ہے اور اسے یہ بھی یاد رہا کہ اس کا فرض کیا ہے اور یہ جذبہ ایثار بھی زندہ رہا کہ وہ محبت کو فرض پر قربان کر دے گا لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکا کے اس نے زریں کو اس کا فرض یاد دلادیا ہے وہ یہ عزم لے کر یحییٰ کے کمرے سے نکلی تھی کہ یہ شخص فرض کا اتنا پکا ہے تو میں اپنے فرضوں کو کیوں قربان کرو؟
زریں رات بہت دیر تک روتی رہی اس کے اندر خونریز معرکہ بپا تھا یہ اس کی ذات کے وہ حصے تھے جو ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے محبت اور فرض اور اس کی تربیت
صبح طلوع ہوتے ہی زریں نے پہلا کام یہ کیا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتایا کہ یحییٰ ابن الہادی جاسوسی کے لئے یہاں آیا ہے اور سنان اس کا ساتھی ہے زریں نے یحییٰ کے ساری باتیں سنائی یہ بات سناتے ہوئے زریں کی زبان بار بار ہکلاتی تھی اور اس کے آنسو بھی نکل آئے یہ یحییٰ کی محبت کا اثر تھا ورنہ یہ وہ لڑکی تھی جس نے ذاکر کو اپنے ہاتھوں زہر پلایا تھا
زریں کو اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا کچھ دیر بعد ایک ملازم روزمرہ کی طرح یحییٰ کے کمرے میں ناشتہ لے کر گیا ساتھ شہد ملا دودھ تھا سنان کو بھی ایسا ہی دودھ بھیجا گیا دونوں نے دودھ پیا اور کچھ ہی دیر بعد دونوں کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا پھر ان کی آنکھوں نے دنیا کا اجالا کبھی نہ دیکھا
ادھر آؤ زریں کو آ کے دیکھو ایک ملازمہ زریں کے کمرے سے چیختی چلاتی نکلی جلدی آؤ زریں کو دیکھو
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح بھی زریں کے کمرے میں گئے ایک تلوار زریں کے پیٹ میں داخل ہوئی اور پیٹھ سے باہر نکلی ہوئی تھی وہ ابھی زندہ تھی
تمہیں کس نے مارا ہے زریں؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
میں نے خود زریں نے کہا میں نے دو آدمی قتل کروائے ہیں یحییٰ اور سنان اور میں نے اپنی محبت کو بھی قتل کیا ہے میں نے اپنے آپ کو موت کی سزا دی ہے میں خود ہی جلاد بن گئی تھی
زریں بھی مر گئی
یحییٰ اور سنان کی لاشیں بوریوں میں بند کر کے دریا میں بہا دی گئی
ہمیں کوئی اور ڈھنگ کھیلنا پڑے گا حسن بن صباح نے کہا سلطان کو شک ہو گیا ہے مجھے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مصر جانا چاہیے
نہیں حسن احمد بن عطاش نے کہا پہلے ہم دو تین اور قلعوں پر قبضہ کرلیں پھر ہماری کوشش یہ ہوگی کہ تمہیں سلطان کی حکومت میں کوئی بڑا عہدہ اور رتبہ مل جائے پھر ہم اس سلطنت کی بنیادیں کمزور کر سکتے ہیں…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:11 }
رات کو جب ہزارہا لوگ شاہ بلوط سے دور ستارے کی چمک کے انتظار میں گھروں سے دور بیٹھے تھے اس وقت دو جواں سال آدمی یہودیوں کے مذہبی پیشوا کے گھر اس کی اور پادری کی باتیں سن رہے تھے ان دونوں نے بھی شاہ بلوط ستارے کو چمکتے دیکھا تھا اور وہ بھی قائل ہوگئے تھے کہ یہ آسمان کا ستارہ ہے جو شاہ بلوط کے اس پرانے درخت کی گھنی شاخوں میں اتر آیا ہے
آسمان کے ستارے زمین پر نہیں اترا کرتے ربی نے ان دونوں سے کہا اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا اپنا جلوہ دکھا رہا ہے تو یہ سوچو کہ وہ کسے دکھا رہا ہے کیا حضرت موسی علیہ السلام دنیا میں آگئے ہیں یا حضرت عیسی علیہ السلام پھر زمین پر اتر آئے ہیں؟
نہیں بارہا اپنا جلوہ دکھانے کی خدا کو کیا ضرورت پیش آگئی ہے کیا یہاں کے انسانوں نے خدا کو رد کر کے کسی اور کی عبادت شروع کردی ہے کوئی مسلمان ہے یا عیسائی یا کو یہودی ہے یہ سب اپنے اپنے طور طریقے سے خدا کو یاد کر رہی ہیں میری بات غور سے سنو میرے بچو جس پہاڑی پر یہ درخت اور اس کے پیچھے کی روشنی کاانتظام نہیں تو یہ کوئی شعبدہ بازی ہے تم نے چھپ چھپ کر وہاں پہنچنا ہے اور دیکھنا ہے اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نظر آئے اور پتہ چل جائے کہ یہ کیا راز ہے تو تم نے وہاں کوئی کاروائی نہیں کرنی خاموشی سے واپس آ جانا ہے
یہ ہمارا ذاتی کام نہیں پادری نے کہا یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے یہ کوئی نیا فرقہ اٹھ رہا ہے جس سے لوگ بڑی تیزی سے متاثر ہوئے جا رہے ہیں اگر لوگوں کی عقیدت مندی کا یہی حال رہا تو یہ عیسائیت اور یہودیت کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو گا اگر یہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ ہے تو ہم اسے مزید ہوا دیں گے یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ ہمیں صحیح خبر لا دو
ہم کل سورج غروب سے کچھ پہلے روانہ ہو جائیں گے یہودی جوان نے کہا
جگہ دور ہے عیسائی جوان بولا ہم سیدھے تو جا نہیں سکتے سیدھے جائیں تو ہمارے لیے یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں ہمیں پیدل جانا پڑے گا گھوڑوں پر جائیں گے تو گھوڑوں کو چھپائیں گے کیسے اور گھوڑا کہیں بھی ہنہنا کر اپنی نشاندہی کر دے گا
میں ایک بار صاف کر دوں یہودی جوان نے کہا میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ یہ کام ایک ہی رات میں ہوجائے گا ہوسکتا ہے دو یا تین راتیں ہم واپس ہی نہ آ سکیں
ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ربی نے کہا تم نے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے اور پوری کوشش کرنی ہے کہ زندہ واپس آ جاؤ تاکہ ہمیں صحیح صورت حال معلوم ہو جائے اور ہم اس کا کوئی سدباب کر سکتے ہیں
آپ کو یہ وہم نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کو دھوکا دیں گے یہودی جوان نے کہا ہم آپ کا مقصد سمجھ گئے ہیں
اب تم دونوں چلے جاؤ ربی نے کہا پانی کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کھانے کے لیے کھجوریں ساتھ لے جاؤ
باہر آکر ان دو نوجوانوں نے آپس میں طے کر لیا کہ وہ کہاں ملیں گے یہودی جوان اپنے گھر سیدھا جانے کی بجائے ایک اور طرف سے گیا ایک گھر کے سامنے بچے کھیل رہے تھے ایک بچے سے اس نے پوچھا کی اس کی بہن میرا کہاں ہے؟
بچے نے اسے بتایا کہ تھوڑی دیر ہوئی وہ بکریوں کو لے کر نکلی ہے
یہودی اپنے گھر جانے کی بجائے اس طرف چلا گیا جس طرف میرا گئی تھی گاؤں سے کچھ دور بڑی اچھی چراہگاہ تھی جہاں چھوٹی گھاس بھی تھی اور اونچی بھی یہ دونوں اسی جگہ ملا کرتے تھے وہاں سے چھوٹی سی ایک ندی گزرتی تھی ندّی کے کنارے گھنی جھاڑیاں تھیں اور خودرو بیلیں درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں یہودی ادھر جا رہا تھا کہ میرا نے اسے دیکھ لیا اور وہ اس کی طرف دوڑ پڑی یہودی جوان نے بھی اپنے قدم تیز کرلئے اور دونوں اس طرح ملے جیسے بے خیالی میں ان کی ٹکر ہو گئی ہو دونوں نے ایک دوسرے کو بازؤں میں سمیٹ لیا انہیں ایسی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی انہیں دیکھ رہا ہوگا سب جانتے تھے کہ یہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور ان کی شادی ہوجائے گی وہ اس لئے بھی بے حجاب ہیں کہ یہودی تھے کسی کو بے حیا کہنے کی بجائے یہودی کہہ دینا ہی کافی ہوتا تھا یہودی کی تمام تر تاریخ فتنہ و فساد فریب کاری اور عیاری کی تاریخ ہے اور یہودی نے ہمیشہ اسلام کو اپنا ہدف اور مسلمانوں کو دشمن نمبر ایک بنائے رکھا ہے آج بھی یہ قوم اسلام کی بیخ کنی میں مصروف ہے
اپنے ان ابلیسی عزائم کی کامیابی کے لئے یہودی اپنی لڑکیوں کو بڑے فخر سے استعمال کیا کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کا شعور بیدار ہوتے ہی انہیں بے حیائی کے سبق دینے لگتے تھے سرعام فحش حرکتیں کرنا اور مردوں کے ساتھ قابل اعتراض اور شرمناک حالت میں دیکھے جانا ان کے یہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اپنی بیٹی بہن یا بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر اعتراض کرنا قابل اعتراض فعل سمجھا جاتا تھا البتہ ایسی نوجوان لڑکی یا عورت کے پیش نظر ذاتی عیاشی نہیں بلکہ قومی مقصد ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا
اس جواں سال یہودی اور ایک نوجوان لڑکی کا یوں ملنا کہ ان کے جسموں کے درمیان سے ہوا بھی نہ گزر سکے قابل اعتراض فعل نہیں تھا وہ دونوں ایک دوسرے کی کمر میں بازو ڈالے ندی تک گئے اور وہاں بیٹھ گئے
میں تمہیں الوداع کہنے آیا ہوں میرا یہودی جوان نے کہا
کیا کہہ رہے ہو اسحاق؟
میرا نے بدک کر اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟
ایک مہم پر اسحاق میں کہا
کیسی مہم ؟
کون سی مہم ؟
میرا نے پوچھا کیا یہ کوئی خطرناک کام ہے
خطرناک ہوسکتا ہے اسحاق نے کہا اور آسان اتنا کہ ہوسکتا ہے میں کل ہی واپس آ جاؤں تم نے وہ ستارہ دیکھا ہے نا جو دور پہاڑی پر چمکتا ہے ہم دونوں نے اکٹھے دو تین بار دیکھا ہے میں دیکھنے جا رہا ہوں یہ کیا ہے؟
میرے ساتھ بنو تغلب کا ایک عیسائی آسر بن جوہل بھی جا رہا ہے
اسحاق نے میرا کو اپنے ربی اور پادری کی ساری باتیں سنائیں اور بتایا کہ یہ راز معلوم کرنا کیوں ضروری ہے
اگر یہ جنات ہوئے میرا نے کہا یا کوئی اور غیر انسانی مخلوق ہوئی تو پھر کیا کرو گے؟
ہم دور سے دیکھ کر واپس آ جائیں گے اسحاق نے کہا ہم نے ان پر حملہ تو نہیں کرنا صرف دیکھنا ہے کہ وہاں ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی خدائی اشارہ ہے
میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی میرا نے کہا میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوگی
جذباتی نہ ہو میرا اسحاق نے کہا وہاں تمہارا کوئی کام نہیں میں دو تین دنوں میں واپس آ جاؤں گا
مجھے ساتھ نہیں لے جانا تو تم بھی نہ جاؤ میرا نے روتے ہوئے کہا میں جذبات کی بات نہیں کر رہی میرا دل خوف کی گرفت میں آ گیا ہے اس نے اسحاق کے گلے میں باہیں ڈال کر روندھی ہوئی آواز میں کہا نہ جاؤ اسحاق جانا ہے تو مجھے بھی ساتھ لے چلو
اسحاق کو اس نے اتنا مجبور کردیا کہ اسحاق نے اسے کہا کہ وہ ربی کے پاس جائے اگر ربی اجازت دے دے تو وہ اسے ساتھ لے جائے گا یہ لڑکی اسحاق کو اس قدر چاہتی تھی کہ اسی وقت ربی کے گھر کی طرف دوڑی اور اسے بھی جاکر کہا کہ وہ اسحاق کے ساتھ جانا چاہتی ہے
اسحاق اپنے فرض کے لئے جا رہا ہے ربی نے کہا اور تم محبت کے لئے جا رہی ہو فرض آدمی کو آگے ہی آگے دھکیلتا ہے لیکن محبت پاؤں کی زنجیر بن جایا کرتی ہے نہیں میرا تم ان لڑکوں کے ساتھ نہ جاؤ یہ دو تین دنوں تک واپس آ جائیں گے
مجھے معلوم ہے وہ کیوں جا رہے ہیں میرا نے کہا وہاں انہیں میری ضرورت ہو گی اسحاق نے مجھے بتا دیا ہے کہ وہ مہم کیا ہے جس پر وہ جا رہے ہیں
نادان لڑکی ربی نے کہا یہ کام آدمی کرسکتے ہیں یہ کسی عورت کے کرنے کا کام نہیں
لڑکی ہنس پڑی ربی اور زیادہ سنجیدہ ہو گیا
جو کام میں کرسکتی ہوں وہ اسحاق اور آسر نہیں کرسکتے میرا نے کہا دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی مافوق الفطرت مظاہرہ ہے ہمارے دو آدمی آگے گئے تو وہ مارے بھی جا سکتے ہیں اگر میں آگے چلی گئی تو وہاں اگر انسان ہوئے تو ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی کو دیکھ کر اس طرح دوڑے آئیں گے جس طرح پرندہ دانے کو دیکھ کر جال میں آتا ہے
وہ تمہیں پکڑ لیں گے ربی نے کہا کیا تم نہیں جانتی کہ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟
جانتی ہوں ربی میرا نے کہا کچھ قربانی تو دینی پڑے گی لیکن میں انھیں دھوکہ دے کر وہاں سے نکل آؤں گی میں اس مقصد کو سمجھتی ہوں جس مقصد کے لئے آپ ان دونوں آدمیوں کو بھیج رہے ہیں یہ ہمارا قومی مقصد ہے اور محترم ربی جہاں تک جذبات کا تعلق ہے میں اسحاق کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی اگر اس نے مرنا ہے تو میں بھی اس کے ساتھ مروں گی اگر آپ مجھے نہیں جانے دیں گے تو میں اسحاق کو بھی نہیں جانے دوں گی
ربی کے بوڑھے چہرے کی لکیریں سکڑنے لگی وہ گہری سوچ میں کھو گیا میرا اسے چپ چاپ دیکھتی رہی کچھ دیر بعد ربی نے میرا کی طرف دیکھا
ہاں لڑکی ربی نے کہا اگر تم محبت کی وجہ سے فرض کو ترجیح دیتی ہوں تو اسحاق کے ساتھ چلی جاؤ تم ان کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہو اور تم انہیں ناکام بھی کر سکتی ہوں اگر تم نے عقل سے کام لیا اور ذاتی جذبات کو دبائے رکھا تو تم اس قومی مقصد میں کامیاب لوٹو گی
میرا وہاں سے اٹھ دوڑی اور سیدھی اسحاق تک پہنچی
میرا کے باپ کو پتہ چلا تو وہ ربی کے ہاں دوڑا گیا ربی نے اسے مطمئن کردیا
سورج غروب ہو گیا تھا جب اسحاق آسر اور میرا گاؤں سے نکلے وہ اکٹھے نہیں نکلے تھے انھیں چوری چھپے نکلنا تھا کیوں کہ گاؤں میں مسلمان بھی رہتے تھے جنھیں اس مہم سے بے خبر رکھنا تھا وہ اکیلے اکیلے نکلے تھے اور بہت دور جا کر اکٹھے ہوئے تھے تینوں کے پاس خنجر تھے اسحاق اور آسر کے پاس تلواریں بھی تھی وہ بہت دور کا چکر کاٹ کر جا رہے تھے
وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ اس جگہ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے تھے جہاں سے شاہ بلوط کا درخت نظر آتا تھا جس کم اونچی پہاڑی پر وہ درخت تھا اس کو سیدھے تھوڑے سے وقت میں پہنچ سکتے تھے لیکن انھیں اس پہاڑی کے پیچھے جانا تھا وہ اس ہجوم سے دور ہی دور ہٹتے گئے جو اس انتظار میں وہاں جمع ہو گیا تھا کہ آج رات بھی ستارہ چمکے گا یا وہ سفید پوش آدمی روشنی میں نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے
اسحاق آسر اور میرا اس ندی تک پہنچ گئے جو ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتی تھی وہاں یہ ندی گہری ہوئی تھی اور اس کا بہاؤ تیز بھی تھا کیونکہ یہ پہاڑی ندی تھی وہاں کوئی پل نہیں تھا تینوں ندی میں اتر گئے اور بازو ایک دوسرے میں الجھا لیے پانی یخ تھا اور بہت ہی تیز ان کے پاؤں اٹھنے لگے تینوں نے اپنا ایک ایک بازو ایک دوسرے سے آزاد کرکے تیرنا شروع کردیا پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ اگلے کنارے کی بجائے پانی انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا تھا اور پانی یہ اتنا یخ کہ انکے جسم اکڑنے لگے ندی بہت چوڑی تو نہیں تھی لیکن یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ میلوں چوڑی ہو گئی ہو
وہ آگے جانے کی بجائے خاصا پیچھے کنارے پر لگے تینوں نے کپڑے اتار دئے اور انھیں نچوڑا رات کی یخ ہوا نے ان کے جسموں کو لکڑیوں کی طرح اکڑا دیا میرا کو ایسا کوئی خیال نہ آیا کہ وہ دو جواں سال آدمیوں کے سامنے برہنہ ہو گئی ہے تینوں نے نچوڑے ہوئے کپڑے پہنے اور اسحاق کے کہنے پر تینوں نے ناچنا کودنا شروع کردیا تاکہ جسم گرم ہو جائیں میرا آخر عورت تھی قدرتی طور پر اس کا جسم مردوں جیسا سخت جان نہیں تھا اس لیے اس نے محسوس کیا کہ وہ چل نہیں سکے گی اسحاق اور آسر نے اسے اپنے درمیان کھڑا کرکے ٹخنوں سے کندھوں تک اس کے جسم کو دبانہ اور ملنا شروع کر دیا اور اس طرح کچھ دیر بعد وہ چلنے کے قابل ہوگئی
وہ تینوں ندی کے ساتھ ساتھ چلتے گئے وہ پہاڑیاں قریب آگئی تھیں جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا لیکن یہ اس پہاڑی کا ایک سرا تھا شاہ بلوط کا درخت اس کے دوسرے سرے پر تھا جو سرا ان تینوں کے قریب تھا وہاں یہ پہاڑی ختم ہو جاتی تھی پھر وہاں سے ذرا پیچھے ہٹ کر ایک اور پہاڑی شروع ہوتی تھی ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سے یہ تینوں شاہ بلوط والی پہاڑی کے پیچھے جا سکتے تھے
وہ چلتے گئے چونکہ ان کی رفتار تیز تھی اس لئے انکے جسم گرم ہو گئے اور اکڑن ختم ہو گئ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ پہاڑی کے پیچھے جانا ہے لیکن اس علاقے میں وہ پہلے کبھی نہیں آئے تھے ان کا خیال تھا کہ جس طرح دور سے یہ حطہ سرسبز اور خوبصورت نظر آتا ہے اسی طرح سفر کے معاملے میں بھی یہ سہل اور خوبصورت ہو گا لیکن آگے گئے تو انہیں پتہ چلا کہ اس خطے نے اپنے حسن میں کیسے کیسے خطرے چھپا رکھے ہیں وہ جب دونوں پہاڑیوں کے درمیان پہنچے تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ وہ کسی اور ہی دنیا میں جا نکلے ہوں ان کے سامنے تین طرف پہاڑیاں دیواروں کی طرح کھڑی تھیں یہ دیواریں کسی پرانے قلعے کی پتھروں کی دیواروں جیسی تھیں اندھیرے کے باوجود نظر آ رہا تھا کہ ان کے درمیان گدلا پانی جمع ہے ایک طرف اس پانی اور دیوار کے درمیان اتنی جگہ خالی تھی کہ دو تین آدمی پہلو بہ پہلو آرام سے گزر سکتے تھے لیکن کچھ دور آگے پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ راستہ آگے جاتا ہے یا پانی میں ہی کہیں ختم ہوجاتا ہے یہ خوفناک سی جگہ تھی صرف یہی ایک راستہ تھا جو پہاڑی کے پیچھے جاتا تھا پہاڑی کے اوپر سے تو وہ جا ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اوپر جاکر وہ نظر آسکتے تھے
وہ اس راستے پر اس طرح چلے کے میرا ان کے پیچھے تھی ذرا ہی آگے گئے ہونگے کہ انہیں اپنے پیچھے پانی میں ہلچل سی محسوس ہوئی انہوں نے اس طرف دھیان نہ دیا اچانک میرا کی چیخ بلند ہوئی اسحاق اور آسر نے پیچھے دیکھا میرا گر پڑی تھی اور چیخ چلا رہی تھی انہوں نے یہ دیکھ کہ ایک مگر مچھ کا سر اور اگلی ٹانگیں پانی سے باہر ہیں اور میرا کا پاؤں ٹخنے تک مگرمچھ کے منہ میں ہے مگر مچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا
قدرت نے مگرمچھ کے دانت نوکیلے اور ایسے تیکھے نہیں بنائے کہ وہ انسان یا جانور کے گوشت میں اتر جائیں اس کے دانتوں کے نیچے والے سرے گول ہوتے ہیں جو شکار کو صرف پکڑتے ہیں اور اوپر نیچے کے دانت بڑا مضبوط شکن بن جاتے ہیں
اسحاق اور آسر نے صرف ایک بار مگرمچھ دیکھا تھا وہ دونوں اس وقت کم سن لڑکے ہوا کرتے تھے وہ آدمی ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتے وہاں رک گئے تھے انہوں نے ایک مرا ہوا مگر مچھ گھوڑے پر ڈال رکھا تھا اسحاق اور آسر نے دیکھا تھا اور ان دونوں آدمیوں نے بتایا بھی تھا کہ مگرمچھ کے سر اور پیٹھ پر نہ برچھی اثر کرتی ہے نہ تلوار وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کا پیٹ اتنا نازک ہوتا ہے کہ ایک خنجر بھی پیٹ میں اتر جاتا ہے اسکا دوسرا نازک حصہ اس کا منہ ھے اگر اس کے کھلے ہوئے منہ کے اندر برچھی ماری جائے تو مگرمچھ مرتا تو نہیں زخمی ہو کر بھاگ جاتا ہے یا اس کی آنکھوں میں برچھی یا تلوار ماری جائے تو بھی یہ بھاگ جاتا ہے
مگرمچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اندھیرا تو تھا لیکن پانی کی چمک میں مگر مچھ کا ہیولا نظر آرہا تھا اسحاق نے مگرمچھ کی آنکھ کا اندازہ کر کے تلوار کا زوردار وار کیا آسر نے یہ دلیری کر دیکھائی کہ پانی میں اتر گیا جو اس کے گھٹنوں تک گہرا تھا آسر نے مگرمچھ کے قریب جا کر نیچے سے تلوار برچھی کی طرح مگرمچھ کے پیٹ میں اتار دی
یہ دونوں وار ایسے ٹھکانے پر پڑے کہ مگرمچھ کے منہ سے بڑی خوفناک آواز نکلی اور وہ میرا کا پاؤں چھوڑ کر تڑپتا پھڑپھڑاتا ہوا پانی میں ڈبکی لگا گیا میرا بڑی تیزی سے اٹھی اسحاق اور آسر نے اسے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور دوڑ پڑے آگے انھیں راستہ ملتا گیا پانی میں بڑی زور سے ہلچل ہو رہی تھی یہ یقیناً زخمی مگرمچھ تھا جو تڑپ رہا تھا اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مگرمچھ بھی ڈر کر ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے
یہ راستہ کچھ دور تک چلا گیا پانی پیچھے رہ گیا تھا پانی سے کچھ دور جا کر وہ روکے اور میرا کے پاؤں کا جائزہ لینے لگے جس جگہ مگرمچھ نے اس کا ٹخنہ پکڑا تھا وہاں ہاتھ پھیرا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ خون بہ رہا ہے اگر مگرمچھ کے دانت درندوں کی طرح نوکیلے ہوتے تو میرا کی ہڈی بھی کٹ جاتی اور اس کا پاؤں مگرمچھ کے ساتھ ہی چلا جاتا چونکہ اس لڑکی کا پاؤں مگرمچھ کے جبڑوں کے شکنجے میں آیا تھا اور لڑکی زور لگا کر اپنا پاؤں کھینچتی رہی تھی اور مگرمچھ اسے پانی میں کھینچ رہا تھا اس لیے لڑکی کے ٹخنے سے تھوڑی سی کھال اتر گئی تھی اور ہڈی پر اچھی خاصی ضرب لگی تھی
اسحاق نے اپنے سر پر ڈالا ہوا کپڑا اتارا اور کس کر میرا کے ٹخنے پر باندھ دیا میرا کے لئے درد نا قابل برداشت ہو رہا تھا وہ چلنے میں دشواری محسوس کررہی تھی
میری ایک بات غور سے سنو میرا نے کہا یہ اچھا شگون نہیں میرا دل کہتا ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو
ربی اور فادر ہمیں بزدل کہیں گے آسر نے کہا وہ کہیں گے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں بہتر تو یہ ہے کہ تم یہیں کہیں چھپ کر بیٹھ جاؤ اور ہم اپنا کام کر کے واپس آ جائیں اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے
نہیں میرا نے خوف زدہ آواز میں کہا میں یہاں اکیلی نہیں رہوں گی میں کہہ رہی ہوں واپس چلو میں اتنا زیادہ کبھی بھی نہیں ڈری تھی
تمہیں مگر مچھ نے ڈرا دیا ہے اسحاق نے کہا یہ خوف دل سے اتار دو
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں میرا نے کہا میرے دل پر کوئی خوف نہیں اگر ہم ویسے گھومنے پھرنے آئے ہوتے اور مگرمچھ مجھے یوں پکڑ لیتا تو میں اتنا نہ ڈرتی میں یہ کہہ رہی ہوں کے یہ شگون اچھا نہیں مگر مچھ نے کسی غیبی طاقت کے اشارے پر مجھے پکڑ لیا تھا یہ تمہارے لئے اشارہ ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو ورنہ آگے موت ہے
اسحاق بھائی آس نے کہا وقت ضائع نہ کرو اگر تم اس لڑکی کی باتوں میں آ گئے تو ہم اپنا کام کس طرح کریں گے ربی اور فادر کو کیا جواب دیں گے تم جانتے ہو کہ انہیں ہم دونوں پر کتنا بھروسہ ہے
میری بات سنو میرا اسحاق نے کہا تم نے ربی کے ساتھ جو باتیں کی تھیں وہ نہ بھولو تم نے کہا تھا کہ تم ہماری مدد کروں گی تم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر یہاں کوئی آدمی ہوئے تو تم انہیں اپنے حسن و جوانی کے جال میں لے آؤں گی تمہاری ان باتوں سے متاثر ہوکر ربی نے تمہیں ہمارے ساتھ آنے کی اجازت دی تھی ربی نے تمہیں کہا تھا کہ تم ہمارے پاؤں کی زنجیر بن جاؤں گی تم وہی کام کررہی ہوں جس کا ربی نے خدشہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا ہم تو اب اپنا فرض ادا کر کے ہی جائیں گے
مجھے صاف نظر آرہا ہے اسحاق میرا نے کہا تم یہاں سے زندہ واپس نہیں جاؤ گے
اسحاق اور آسر جھنجلا اٹھے اسحاق نے میرا کا بازو پکڑا اور اسے اٹھا کر کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے
میرا اس کے ساتھ چل پڑی وہ چلنے میں دشواری اور درد محسوس کر رہی تھی اس کی وجہ سے اسحاق اور آسر کی رفتار بھی سست ہو گئی تھی
وہ اب اس پہاڑی کے دامن میں جارہے تھے جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا دامن میں وہ اوپر سے کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے اس پہاڑی کے اوپر جو کچھ بھی تھا اسے دیکھنے کے لئے پچھلی پہاڑی پر جانا ضروری تھا ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان کم و بیش ساٹھ قدم فاصلہ تھا نیچے میدان تھا جس میں اونچی گھاس تھی اور درخت بھی تھے پیچھے والی پہاڑی ایسی نہیں تھی کہ اس کی صرف ڈھلوان ہوتی یہ پہاڑی اونچی نیچی چٹانوں کا جرمٹ تھی جن پر چڑھنا ذرا دشوار تھا
تھوڑا اور آگے گئے تو انہیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان روشنی سی نظر آئی جو سامنے والی پہاڑی پر کہیں اوپر تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی نے آگ جلا رکھی ہے وہ جوں جوں آگے بڑھتے گئے روشنی زیادہ ہوتی گئی اور اس کے ساتھ ہی انھیں کسی کی باتوں کی آواز سنائی دینے لگی کچھ آدمی بہت دور باتیں کر رہے تھے
اسحاق اور آسر نے آپس میں مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہیں سے پچھلی پہاڑی پر چڑھ جائیں کیونکہ پیچھے بلندی پر جا کر ہی پتہ چل سکتا تھا کہ یہ آگ کہاں چل رہی ہے اور باتیں کرنے والے کہاں ہیں وہ کچھ اور آگے جا کر پچھلی پہاڑی پر چڑھنے لگے وہ پہاڑی کچھ عجیب سی تھی کہیں ننگی اور سیدھی کھڑی چٹان آ جاتی تھی اور کہیں دوسری پہاڑیوں کی طرح سبزہ زار اور درخت آ جاتے تھے ایسی ایک چٹان پر چڑھتے چڑھتے اسحاق کا پاؤں پھسل گیا اور وہ چٹان سے گر کر نیچے والی چٹان پر جا پڑا، اور وہاں سے لڑکتا ہوا نیچے جا رکا
میرا اس کے پیچھے اترنے لگی لیکن آسر نے اس کا بازو پکڑ لیا یہیں رہو آس نے کہا تم بھی پھسل کر گرو گی وہ تو مرد ہے برداشت کر لے گا تم پہلے ہی زخمی ہو
اسحاق اٹھا اسے چوٹ تو آئی تھی لیکن وہ چوٹ سے بے نیاز پہاڑی پر چڑھنے لگا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا میرا نے ایک بار پھر اپنے اسی وہم کا اظہار کیا کہ یہ دوسرا برا شگون ہے اور یہ کسی آسمانی مخلوق کے اشارے ہیں کہ واپس چلے جاؤ اور ان کے مظاہر میں دخل نہ دو
اسحاق نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو وہ اس طرح پہاڑی کے اوپر اوپر چل پڑا جیسے اس نے آسمانی مخلوق کا چیلنج قبول کر لیا ہے اس کے چلنے کے انداز میں قہر اور عتاب تھا
ادھر پہاڑی سے کچھ دور لوگوں کا ہجوم اس امید پر پہاڑی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ آج پھر شاہ بلوط میں ستارہ چمکے گا یا وہ سفید پوش نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے تین چار دن نہ ستارہ چمکا تھا نہ سفید پوش نے جلوہ دکھایا تھا یہ خبر اس کے علاقے میں دور دور تک پھیل گئی تھی اس لیے تماشائیوں کا ہجوم بہت ہی زیادہ ہو گیا تھا
اس رات لوگوں کی مراد بر آئی پہلے نقارہ بجا اس کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتے ہوتے رات کی تاریکی میں تحلیل ہو گئی پھر ایک سے زیادہ شہنائیوں کی ایسی لئے ابھری جس میں سحرانگیز سوز تھا ہجوم کا شور و غل ایسے سکوت میں دم توڑ گیا جیسے وہاں کوئی ذی روح کوئی جاندار زندہ ہی نہ ہو زمین و آسمان پر پیڑ پودوں اور پہاڑیوں پر جیسے وجد طاری ہو گیا ہو
لوگوں کو اندھیرے میں شاہ بلوط کیا نظر آتا وہ پہاڑ بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس پر وہ درخت کھڑا تھا لوگ نغمے میں محو تھے کے کی آوازیں اٹھیں وہ چمکا اور اس کے ساتھ ہی لوگوں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا ایک گونج تھی جس میں وجد آفریں تاثر محویت اور تقدس تھا اس کے ساتھ رات کی تاریکی میں ھوا کی لہروں پر شہنائیوں کی تیرتی ہوئی لئے ایسا سما باندھ رہی تھی جس کا تعلق اس دنیا سے معلوم نہیں ہوتا تھا ستارہ بجھ گیا اور پھر پہلے کی طرح ایک روشنی چھتری نما شاہ بلوط پر چلنے لگی پھر یہ ایک مقام پر رک گئی اور نیچے آنے لگی جیسا پہلے ایک رات ہوا تھا روشنی نیچے آئی تو سفید پوش کا سر کندھے اور سینہ نظر آیا اس کے بازو کچھ باہر کو اور کچھ آگے کو پھیلے ہوئے تھے جیسے دعا مانگ رہا ہو روشنی آہستہ آہستہ نیچے گئی اور سفید پوش کے پاؤں تک چلی گئی
ہجوم میں جو چند ایک سبز پوش تھے انہوں نے کہنا شروع کردیا سجدے میں چلے جاؤ ہمارا نجات دہندہ زمین پر اتر آیا ہے کچھ لوگ تو پہلے ہی سجدے میں چلے گئے تھے باقی بھی سجدہ ریز ہو گئے لوگ سجدے سے اٹھے اور انہوں نے سامنے دیکھا وہاں نہ ستارہ تھا نہ سفید پوش
خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے پہاڑ کی طرف سے ایک بڑی ہی بلند آواز ہجوم تک پہنچی وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آئے گا
خدا کا پیغام لائے گا
خدا کا شکر ادا کرو لوگو
اس وقت جب ستارہ ابھی نہیں چمکا تھا اسحاق آسر اور میرا پچھلی پہاڑی پر اتنا آگے چلے گئے تھے کہ انہیں شاہ بلوط والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر ایک خاصا کشادہ غار دکھائی دیا اس کے اندر لکڑیوں کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو آگ لگی ہوئی تھی اس کے شعلے غار کی چھت تک پہنچ رہے تھے اس آگ ہی کی روشنی چونکہ پیچھے والی ڈھلان میں تھی اس لئے اس کی روشنی پہاڑی کی اس جانب نہیں جا سکتی تھی جس جانب لوگوں کا ہجوم ستارہ دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گیا تھا
اسحاق اور اس کے ساتھیوں نے وہاں پانچ آدمی گھومتے پھرتے دیکھے ایک آدمی تھوڑے تھوڑے وقفے سے آگ میں لکڑی پھینک رہا تھا غار سے کچھ دور تقریبا ایک گز لمبی اور اسی قدر چوڑی کسی دھات کی ایک چادر سی رکھی ہوئی تھی کبھی تو شک ہوتا تھا کہ یہ آئینہ ہے اور کبھی یوں لگتا تھا جیسے یہ کسی ایسی دھات کا چادر نما ٹکڑا ہے جو آئینے کی طرح چمکتا ہے یا اس پر چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہے یا اس جیسی کوئی چیز چپکائیں گئی ہے
اسحاق وغیرہ دو درختوں کے تنوں کے پیچھے کھڑے دیکھ رہے تھے فاصلہ زیادہ نہیں تھا انھیں ہر آدمی اور ہر چیز اچھی طرح نظر آ رہی تھی
سامنے والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر شاہ بلوط کے درخت کے قریب وہ چمکتی چادر پڑی تھی دو آدمیوں نے آکر یہ چادر اٹھائی اور ادھر ادھر سے پکڑ کر ایسے زاویے پر کر لیا کہ اس کی چمک سیدھی پچھلی پہاڑی پر ان دو درختوں پر پڑی جہاں اسحاق وغیرہ چھپے دیکھ رہے تھے چمک فیلڈ لائٹ جیسی تھی اتنی تیز کے ان تینوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں وہ فوراً تنوں کے پیچھے ہو گئے
یہ چادر رکھ دی گئی ایک آدمی نہ جانے کہاں سے سامنے آیا وہ سر سے پاؤں تک سفید لبادے میں ملبوس تھا
چلو بھائی آ جاؤ سفید پوش نے کہا اوپر کون جائے گا؟
ایک آدمی آگے آیا اس نے ایک جگہ سے ایک چیز اٹھائی یہ یقیننا آئینہ تھا جس کی لمبائی تقریباً ایک فٹ اور چوڑائی اس سے کچھ کم تھی اس نے پہلے تو یہ اپنے سامنے کر کے یوں دیکھا جس طرح آئینہ دیکھا جاتا ہے پھر اس نے اسے آگے کی طرف کر کے ادھر ادھر ہلایا اس کی چمک پہاڑی کی ڈھلان پر اسی طرح دکھائی دی جس طرح آئینہ سورج کے آگے رکھو تو سامنے کی اشیاء پر اس کی چمک دکھائی دیتی ہے
یہ آدمی آئینہ اٹھائے ہوئے پہاڑی پر شاہ بلوط کی طرف چڑھ گیا اب وہ اندھیرے میں تھا غار کی آگ کی روشنی اس تک نہیں پہنچتی تھی اسحاق اور اس کے ساتھیوں کا صرف اندازہ تھا کہ یہ آدمی درخت پر چڑھ گیا ہے کچھ دیر بعد انہیں درخت کے اندر چمک دکھائی دی جو فوراً ختم ہو گئی
جانتے ہو درختوں میں کیا ہو رہا ہے؟
اسحاق نے آسر سے پوچھا
تمہارے ربی کا شک غلط نہیں نکلا آسر نے کہا میں بتا سکتا ہوں اوپر کیا ہو رہا ہے اس آگ کی چمک اس آئینے پر پڑ رہی ہے جو وہ آدمی اوپر لے گیا ہے اور آئینے کی چمک ان لوگوں کو دکھائی دے رہی ہے جو پہاڑی کے اس طرف ہجوم کی صورت میں موجود ہیں
دیکھو آگ کتنی زیادہ ہے اسحاق نے کہا اگر اتنی آگ پہاڑی کی چوٹی پر جلائی جائے تو یہ سارا علاقہ روشن ہوجائے اب تصور میں لاؤ کے شاہ بلوط کی شاخوں میں تم نے ستارہ چمکتا دیکھا ہے سمجھنا کوئی مشکل نہیں یہ سب انسان ہیں
لیکن یہ ہیں کون ؟
میرا نے پوچھا یہ کیسے معلوم کرو گے؟
ہم تین ہیں اسحاق نے کہا بلکہ ہم دو ہیں میرا کو شامل نہ کرو وہ پانچ ہیں ہم ان پر حملہ نہیں کر سکتے اگر ہمارے ساتھ دو تین آدمی اور ہوتے تو کسی اور طرف سے اس پہاڑی پر جاکر ان میں سے ایک دو کو زندہ پکڑ لیتے
ٹھہرو اسحاق آسر نے کہا وہ آدمی درخت سے اتر آیا ہے وہ دیکھو سفید پوش اوپر جا رہا ہے
میں بتاتا ہوں اب کیا ہوگا اسحاق نے کہا یہ سفید لبادے والا آدمی درخت کے نیچے کھڑا ہو گا اور اس پر چمکتی ہوئی دھات کی چادر کی روشنی ڈالی جائے گی لوگ سمجھیں گے کہ کسی پیغمبر کا ظہور ہوا ہے
ایسے ہی ہوا وہ آدمی درخت کے نیچے چلا گیا ادھر وہ چادر آگ کے سامنے ایسے زاویے پر رکھی گئی کہ اس کی چمک اس آدمی پر پڑنے لگی پہلے اس روشنی کو درخت پر گھمایا گیا پھر اسے اس آدمی پر مرکوز کر دیا گیا ادھر ہجوم نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا تو اس کی گونج ان پہاڑیوں تک سنائی دینے لگی
کچھ دیر بعد یہ پلیٹ یا چادر رکھ دی گئی اور ایک آدمی انتہائی بلند آواز سے اعلان کرنے لگا
خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے
وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آجائے گا
خدا کا پیغام لائے گا
خدا کا شکر ادا کرو لوگوں
پھر وہ سفید پوش واپس آ گیا
ہم نے یہ تو دیکھ لیا ہے کہ یہ ہماری طرح انسان ہیں اسحاق نے کہا اب ہم ربی اور فادر کو بتائیں گے معلوم نہیں وہ کیا کریں گے میں انہیں مشورہ دوں گا کہ جس طرح ہم تینوں یہاں تک پہنچ گئے ہیں اسی طرح کل شام بیس پچیس آدمی سامنے والی پہاڑی کے ایک طرف چھپ کر بیٹھ جائیں اور ان سب کو موقع پر پکڑ لیں پھر لوگوں کو رات کو ہی اس پہاڑی پر لے آئیں اور انھیں دکھائیں کہ یہ شیطان لوگ کس طرح انہیں گمراہ کر رہے تھے مجھے یقین ہے یہ مسلمان ہیں
اسحاق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ میرا کی دلدوز اور بڑی ہی بلند چیخ سنائی دی اسحاق اور آسر نے گھبرا کر ادھر دیکھا غار میں جلتی ہوئی آگ کی روشنی ان تک پہنچ رہی تھی اس روشنی میں انھوں نے دیکھا کہ جس درخت کی اوٹ میں میرا چھپی ہوئی تھی اس کے تنے پر ایک خاصا لمبا سانپ نیچے کو آ رہا تھا میرا کا شاید ہاتھ سانپ کو لگ گیا سانپ نے اسے بازو پر کاٹا تھا
اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور سانپ کے دو ٹکڑے کر دیے میرا اپنے بازو پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی اس کے منہ سے عجیب سی چیخیں نکل رہی تھی اسحاق اور آسر اس کے پاس بیٹھ گئے اور دیکھنے لگے کہ سانپ نے کہاں کاٹا ہے سانپ کی دہشت نے اور میرا کی بگڑتی ہوئی حالت نے ان کے ہوش و حواس اس حد تک کم کر دیے کہ انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ سامنے والی پہاڑی پر سفید پوش اور اس کے ساتھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے ان تینوں کو دیکھ لیا ہے میرا کی چیخ اتنی بلند تھی کہ سامنے والی پہاڑی کے لوگوں نے سن لی تھی اور انھوں نے چونک کر اس طرف دیکھا تھا
سانپ کا زہر میرا کے جسم میں سرایت کر رہا تھا وہ تڑپنے لگی تکلیف کی شدت سے اٹھی اور چکرا کر گری اور ایسی گری کے اوپر سے لُڑکتی ہوئی نیچے جا پڑی اسحاق اور آسر یہ فراموش کر گئے کہ کہاں ہیں؟
اس کے پیچھے بڑی تیزی سے پہاڑی سے اترے میرا تڑپ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ گہرا نیلا بلکہ سیاہ ہوتا جا رہا تھا اور وہ بری طرح تڑپ رہی تھی اسحاق اور آسر اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے
اسے اٹھاؤ اسحاق آسر نے کہا کچھ تم اٹھاؤ کچھ میں اٹھاتا ہوں اور یہاں سے نکلتے ہیں
یہ تو راستے میں مر جائے گی اسحاق نے کہا مر گئی تو اسے مگرمچھوں والے پانی میں پھینک جائیں گے
وہ دونوں میرا کو اٹھانے ہی لگے تھے کہ انہیں قدموں کی آہٹ سنائی دی انہوں نے بدک کر پیچھے دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہوگئے وہ سات آٹھ آدمیوں کے نرغے میں آگئے تھے ان میں سفید پوش بھی تھا ان میں سے کسی کے پاس تلوار تھی اور کسی کے پاس برچھی سفید پوش نے آگے بڑھ کر ان دونوں کی نیاموں میں سے تلوار نکال لی ان میں سے ایک اور آدمی آگے بڑھا اور اس نے ان کے کمر بندوں میں سے اڑسے ہوئے خنجر بھی لے لئے میرا کا تڑپنا خاصا کم ہو گیا تھا اسے مرنا تھا وہ ہوش میں نہیں تھی ،غار کی آگ کی روشنی نیچے تک آرہی تھی
انہیں اوپر لے چلو سفید پوش نے کہا اور اسحاق اور آسر سے کہنے لگا اس لڑکی کو یہی پڑے رہنے دو یہ چند لمحوں کی مہمان ہے میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے سانپ نے ڈسا ہے اس جگہ کے سانپ جسے ڈس لیں اسے زندہ نہیں رہنے دیا کرتے، یہ جوان تھی اس لئے ابھی تک اس کا جسم ذرا ذرا حرکت کررہا ہے
کیا تم لوگ ہمیں رہا نہیں کرتے دیتے؟
اسحاق نے التجا کے لہجے میں کہا
اگر ہم اتنے احمق ہوتے تو اتنی زیادہ مخلوق خدا سے یہ نہ منوا سکتے کہ شاہ بلوط کے نیچے ایک نبی کا ظہور ہو رہا ہے سفید پوش نے کہا جن کے پاس ہمارا اتنا نازک راز ہے انہیں ہم رہا نہیں کر سکتے
ہم دونوں آپ کے ساتھ ہو جائیں گے آسر نے کہا اور آپ جو بھی کام بتائیں گے کریں گے
تم کون ہو ؟
سفید پوش نے اسحاق سے پوچھا تمہارا مذہب کیا ہے؟
سچ سچ بتا د تو شاید ہم تم پر رحم کر دیں
میرا نام اسحاق ہے اس نے جواب دیا اور میں یہودی ہوں
میرا نام آسر ہے آسر نے کہا اور میں عیسائی ہوں
یہاں کیوں آئے تھے؟
سفید پوش نے پوچھا اور کہا مجھے یہ نہ بتانا کہ تم دونوں اس لڑکی کو ساتھ لے کر یہاں سیر اور تفریح کے لیے آئے تھے یہاں تک کوئی آدمی نہیں پہنچ سکتا ایک طرف مگر مچھوں نے راستہ بند کر رکھا ہے اور دوسری طرف ایسی دلدل ہے جس میں سے کوئی گزر نہیں سکتا
اسحاق نے اسے بالکل سچ بتا دیا کہ وہ دونوں یہاں کیوں آئے تھے اور یہ لڑکی کس طرح سات چل پڑی تھی
تمہارے ربی اور پادری کو ہم ایک سبق دیں گے سفیدپوش نے کہا اب یہودیوں کا جادو نہیں چل سکتا اب حسن بن صباح کا جادو چلے گا
اسحاق اور آسر کو اوپر لے گئے وہ اب بھی منت سماجت کر رہے تھے کہ انھیں چھوڑ دیا جائے انہیں باتوں باتوں میں آگ کے قریب لے گئے جو اتنی زیادہ تھی کہ وہاں کھڑا نہیں رہا جاسکتا تھا مشکیزوں والے آدمی آگ پر پانی پھیکنے لگے تھے کیوں کہ اب آگ کی ضرورت نہیں تھی سفید پوش نے اشارہ کرکے انہیں پیچھے ہٹا دیا پھر اس نے دوسرے آدمیوں کو اشارہ دیا کہ دو تین نے اسحاق کو اور دو تین نے آسر کو پکڑ لیا اور انہیں دھکیلتے گھسیٹتے ہوئے آگ کے قریب لے گئے دونوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا
وہ سمجھ گئے تھے کہ انہیں آگ میں دھکیلا جارہا ہے سفید پوش کے آدمیوں نے دونوں کو اتنی زور سے دھکے دیے کہ وہ آگ میں جا پڑے آگ اس قدر زیادہ تھی کہ وہ اس میں گرے اور پھر انکی آواز بھی نہ نکلی جب وہ جل کر کوئلہ ہو گئے تو سفید پوش نے مشکیزوں والوں سے کہا کہ اب آگ پر پانی پھینک دو اس رات کا ناٹک ختم ہوچکا تھا اس لیے اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی
اگلے روز شاہ دیر میں احمد بن عطاش اپنے خاص کمرے میں بڑی بے تابی سے حسن بن صباح کا انتظار کر رہا تھا اس نے دو بار اپنا آدمی اسے بلانے کےلئے بھیجا تھا اور دونوں بار وہ یہ جواب لے کر آیا تھا کہ حسن رات بہت دیر سے آیا تھا اس لئے بڑی گہری نیند سویا ہوا ہے
وہ سفید پوش جو شاہ بلوط کے نیچے لوگوں کو نظر آتا تھا وہ حسن بن صباح ہی تھا رات اسحاق اور آسر کی وجہ سے حسن کو وہاں زیادہ وقت رہنا پڑا تھا اس لئے صبح دیر سے اٹھا وہ جگہ شاہ در سے خاصی دور تھی شاہ در سے وہاں تک یہ لوگ اونٹوں پر جاتے اور صبح طلوع ہونے سے پہلے واپس آ جاتے تھے اونٹوں پر آنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے قدموں کی آہٹ نہیں ہوتی رات کے سناٹے میں گھوڑے کے ٹاپ دور دور تک سنائی دیتے ہیں اس لئے پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں جگہ سے ایک یا ایک سے زیادہ گھوڑ سوار گزرے تھے
سورج سر پر آ گیا تھا جب حسن بن صباح کی آنکھ کھلی اور وہ بڑی تیزی سے غسل وغیرہ کر کے احمد بن عطاش کے یہاں جا پہنچا
آؤ حسن احمد بن عطاش نے کہا مجھے تمہارے ساتھی بتا چکے ہیں کہ رات ایک یہودی اور ایک عیسائی نے نبی کے ظہور کا راز اپنی آنکھوں دیکھ لیا تھا تم نے اچھا کیا کہ دونوں کو آگ میں پھینک دیا
ان کی ساتھی لڑکی کو تو سانپ نے پہلے ہی ختم کر دیا تھا حسن بن صباح نے کہا ان دونوں آدمیوں میں جو عیسائی تھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس لڑکی کو پہلے ایک مگرمچھ نے پاؤں سے پکڑ لیا تھا اور ان دونوں نے تلواروں سے مگرمچھ کو زخمی کر کے لڑکی کو مگرمچھ کے منہ سے نکال لیا تھا
یہ اس سحر کا اثر تھا جو میں نے تمہارے ہاتھوں کروایا تھا احمد بن عطاش نے کہا میں نے اس سحر میں یہ اثر پیدا کیا تھا کہ تمہارے راز تک پہنچنے والے خیریت سے نہ پہنچ سکیں اور اگر پہنچ جائیں تو تمہیں ان کی موجودگی کا اشارہ مل جائے ہمارا جادو کامیاب رہا
محترم استاد حسن بن صباح نے کہا میں نے اس ربی اور پادری کا ٹھکانہ معلوم کرلیا ہے جنہوں نے ان دونوں آدمیوں کو بھیجا تھا انہیں ہمیشہ کے لیے غائب کر دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ ان کا خطرہ موجود رہے گا کہ یہ کسی اور طرح ہمارے راز پا لیں گے ہمیں یہ اطمینان ہوا ہے کہ یہ جاسوس سلجوقیوں کے نہیں تھے
ہاں حسن احمد بن عطاش نے کہا ہمارا منصوبہ ایسا ہے کہ کسی سے ذرا سے بھی خطرے کا صرف شک ہی ہو اسے بالکل ہی غائب کردینا ضروری ہے تمہارے پاس آدمی ہیں انہیں استعمال کرو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں کو کس طرح غائب کرتے ہو
یہ میں کر کے بتاؤں گا کہ میں نے یہ کام کس طرح کیا ہے حسن بن صباح نے ہنستے ہوئے کہا آپ کی شاگردی میں مجھے اتنی سوجھ بوجھ مل گئی ہے کہ میں اس گاؤں کے بچوں سے بڑوں تک کو ایسا لاپتہ کر سکتا ہوں جیسے کبھی وہ دنیا میں آئے ہی نہیں تھے
اب میری ایک دو باتیں غور سے سنو احمد بن عطاش نے کہا ہمارا یہ طریقہ سو فیصد سے کچھ زیادہ کامیاب رہا ہے اب تم نے لوگوں کے سامنے آنا ہے یہ ہزاروں لوگ تمہارے مرید ہو چکے ہیں اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگلے وہ قلعے بھی ہمارے ہیں یہ تمہیں میں بتاؤں گا کہ تم لوگوں کے سامنے کس طرح آؤ گے، دوسری بات یہ ذہن میں رکھ لو کہ سحر اور جادو پر بھروسہ نہیں رکھنا بھروسہ اپنی عقل اور فہم و فراست پر کرنا ہے یہ صحیح ہے کہ طلسم سامری کو توڑنے والا اب کوئی موسی نہیں رہا اور نہ ہی کوئی موسی آئے گا لیکن یہ یاد رکھ لو کے سحر اور جادو ہر قسم کے حالات میں تمھاری مدد نہیں کر سکے گا، اپنی عقل کا جادو چلاؤ یہ ایسی باتیں ہیں جو میں تمہیں بعد میں بھی سمجھاؤں گا
تم نے دیکھ لیا ہے کہ میری اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ لوگوں کو تم بدی سے ہٹنے کے سبق دو گے تو وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم سے پہلے قوموں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیا تھا لوگوں کو اپنا مرید بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ بدی کو کچھ پراسرار طریقے استعمال کرو جو مافوق العقل نظر آئے اور جن میں ایسا تاثر ہو جو لوگ بلا سوچے سمجھے تمہاری اسرارریت سے متاثر ہو کر سجدہ ریز ہوجائیں تم نے دیکھ لیا ہے ہزاروں لوگوں نے تمہارے آگے سجدہ کیا ہے میں پیغمبر نہیں حسن لیکن میں آنے والے وقت کے متعلق پیشن گوئی کرسکتا ہوں کہ لوگ جادوگروں اور ساحروں کے پاس جایا کریں گے اور ان سے اپنی مشکلات حل کرو ائیں گے اور سحر کے ذریعے ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے اور کچھ لوگ لوگوں کو سحر کا دھوکہ دے کر لوٹیں گے آج کے لوگوں کی یہ کمزوری ان کی نسلوں اور نسلوں تک جائے گی یہ باتیں بعد میں ہوگی تم اس یہودی ربی اور عیسائی پادری کا بندوبست کرو
دو ہی دن گزرے سورج غروب ہونے کے بعد دو اجنبی اس یہودی ربی کے یہاں گئے جس نے اسحاق کو بھیجا تھا ،انہوں نے نہایت پر اثر انداز میں ربی کو بتایا کہ اسحاق اور آسر نام کے دو آدمی اور میرا نام کی ایک لڑکی وہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کیلئے انہیں بھیجا گیا تھا لیکن ایک جگہ پھنس گئے ہیں جہاں وہ پھنسے ہیں وہاں کے سرکردہ آدمی اپنی ہی ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب تک ربی اور پادری خود نہیں آئیں گے وہ ان تینوں کو نہیں چھوڑیں گے، وہ لوگ ہماری پوری مدد کریں گے لیکن ربی اور پادری کا وہاں تک جانا ضروری ہے
ان دو آدمیوں نے زبان کے ایسے جادو چلائے کے ربی اور پادری ان کے ساتھ چل پڑے ان دو آدمیوں نے انہیں اپنے گھوڑوں پر سوار کر لیا تھا اور خود پیدل چل رہے تھے
وہ ایک اور راستے سے دو پہاڑیوں کے درمیان سے اس جگہ پہنچے جہاں پانی جمع تھا اور ایک مگرمچھ نے میرا کا پاؤں پکڑ کر اسے پانی میں گھسیٹا تھا اس رات بھی ہزارہا لوگوں کا ہجوم پہاڑی سے کچھ دور اس امید پر بیٹھا تھا کہ ستارہ چمکے گا اور پیغمبر کا ظہور ہوگا لیکن اس رات حسن بن صباح نے یہ ناٹک نہیں دکھانا تھا
پانی کے قریب جاکر ان دونوں آدمیوں نے ربی اور پادری کو یہ کہہ کر گھوڑوں سے اتارا کے گھوڑے پانی پی لیں جونہی یہ دونوں مذہبی پیشوا گھوڑوں سے اترے ان دونوں آدمیوں میں سے ایک نے پادری کو اور دوسرے نے ربی کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ پانی میں جا پڑے دونوں بوڑھے تھے جو ان آدمیوں سے دھکّے کھا کر وہ پانی میں خاصا دور چلے گئے تھے
پانی میں ایک ہڑبونگ سی مچی مگرمچھ بڑی تیزی سے آئے اور ربی اور پادری کو جبڑوں میں جکڑ کر اس قدرتی تالاب کی تہہ میں لے گئے تھوڑی ہی دیر میں ان دونوں کے جسموں کے ٹکڑے مگرمچھوں کے پیٹ میں جا چکے تھے اور وہ دونوں اجنبی گھوڑوں پر سوار شاہ در کے راستے پر جا رہے تھے اس خطے کے لوگ ابلیسیت کے جال میں آ گئے تھے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:12 }
یہودیوں کا ربی اور عیسائیوں کا پادری جس بستی کے رہنے والے تھے اس بستی میں ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھے
ربی کہاں گیا؟
فادر کہاں گیا؟
اسحاق اور آسر کہاں گئے؟
میرا کہاں گئی؟
چند گھروں کی یہ بستی تھی ربی اور پادری تو مذہبی پیشوا تھے کوئی نہایت معمولی سا فرد بستی سے تھوڑی سی دیر کے لیے غیر حاضر ہوتا تو ساری بستی اس کی غیر حاضری کو محسوس کر لیتی تھی ربی اور فادر کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی اسحاق آسر اور میرا بھی اس بستی کے اہم نوجوان تھے لوگ ان کے متعلق کچھ پریشان ہونے لگے
ایک صبح ایک مجذوب سا آدمی جس نے سبز چغہ پہن رکھا تھا اور سر پر سبز پگڑی لپٹی ہوئی تھی بستی میں داخل ہوا وہ “حق ہو حق ہو” کے دھماکہ خیز نعرے لگا رہا تھا اس کی داڑھی بڑی لمبی تھی سر کے بال بھی اتنے لمبے کے شانوں سے نیچے چلے گئے تھے اور اس کی آنکھیں گوشت کی طرح سرخ تھیں وہ بستی کے وسط میں جا کر رک گیا پہلے بچے اس کے اردگرد اکٹھے ہوگئے پھر دوسرے لوگ بھی اس کے قریب آنے لگے
کچھ نہیں رہے گا اس نے دایاں ہاتھ آسمان کی طرف کرکے کہا سب گم ہو جائیں گے کچھ نہیں رہے گا نام و نشان مٹ جائے گا مانو اسے جو روشنی دکھاتا ہے حق ہو حق ہو
وہ توہم پرستی اور ذہنی پسماندگی کا زمانہ تھا داستان گو نے پہلے سنایا ہے کہ لوگ ہر اس چیز کے پیچھے دوڑ پڑتے تھے جو اسراریت کی سیاہ پردوں میں ڈھکی ہوئی ہوتی تھی اور لوگ اسے مانتے تھے جس کی زبان میں چاشنی اور کشش ہوتی تھی مانا اسے جاتا تھا جو الفاظ اور اداکاری کا ماہر ہوتا تھا
اس کے الفاظ اور اس کا انداز ایسا تھا کہ ساری بستی اس کے اردگرد اکٹھی ہو گئی وہ اور زیادہ اونچی آواز میں نعرے لگانے لگا ایک بوڑھا آدمی آگے بڑھا
کیا بتائے گا نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
بوڑھے نے اس سے پوچھا
جو مطلب نہیں سمجھے گا وہ نہیں رہے گا مجذوب نے کہا سمجھے لوگوں سمجھو!
کیا تو ہمارے پاس بیٹھے گا نہیں ؟
بوڑھے نے پوچھا
ہم سمجھنا چاہتے ہیں ایک اور بولا
بیٹھ جا بوڑھے نے کہا ہمیں اپنی کچھ خدمت کرنے دے
مجذوب وہی زمین پر بیٹھ گیا اس نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ سب بیٹھ جائیں سب اس کے سامنے بیٹھ گئے
حق ہو حق ہو مجذوب نے آسمان کی طرف منہ کرکے ہوک لگانے کے انداز سے نعرے لگائے اور بولا جو نہیں مانے گا وہ گم ہو گئے
تو کس کی کہہ رہا ہے کہ وہ گم ہو گئے؟
بوڑھے نے پوچھا
اس بستی کے باپ گم ہو گئے ہیں مجذوب نے کہا بچے بھی گم ہو گئے ہیں
کیا تو ہمارے پادری کی بات کرتا ہے ؟
ایک عیسائی نے پوچھا مجذوب چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتا رہا
کیا تو ہمارے ربی کی بات کرتا ہے؟
ایک یہودی نے پوچھا وہ پھر بھی چپ رہا
کیا تیرا اشارہ میرے بیٹے اسحاق کی طرف ہے؟
ایک آدمی نے پوچھا مجذوب کچھ بھی نہ بولا
کیا تو میرے بیٹے آسر کی بات کررہا ہے؟
ایک اور آدمی نے پوچھا
میری بیٹی میرا بھی تو لاپتہ ہے
ان سب کی بات ایک ہے مجذوب بولا وہ نہیں مانتے تھے اور وہ جو تمہارے مذہبی باپ تھے وہ بھی نہیں مانتے تھے سب گم ہو گئے ہیں
کیا نہیں مانتے تھے؟
بوڑھے نے پوچھا
اسے نہیں مانتے تھے جو روشنی میں سے ظاہر ہوتا ہے وہ اس روشنی کو بھی نہیں مانتے تھے جو خدا اپنے بندوں کو دکھاتا ہے وہ یک لخت اٹھ کھڑا ہوا اور پھر “حق ہو حق ہو” کے دھماکا نما نعرے لگاتا ایک طرف چل پڑا
وہ آ رہا ہے وہ کہتا جارہا تھا وہ اتر رہا ہے جو نہیں مانے گا وہ گم ہو جائے گا
لوگ کچھ دور تک اس کے پیچھے گئے وہ چلتا گیا آگے ایک گھاٹی آگئی جو ندی میں اترتی تھی مجذوب گھاٹی اتر کر ندی میں چلا گیا اور پانی میں یوں چلتا گیا جیسے میدان میں جا رہا ہو درمیان میں پہنچا تو پانی اس کے سینے تک گہرا ہو گیا پھر بھی وہ اس طرح چلتا گیا جیسے میدان میں چل رہا ہو لوگ اوپر کھڑے اسے دیکھتے رہے اور وہ ندی پار کر کے چلا گیا اپنے پیچھے وہ ایک دہشت اور تذبذب کی کیفیت چھوڑ گیا
وہ جب نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگوں واپس ہونے لگے ان پر خاموشی طاری تھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے سے ڈر رہے تھے
اگر ان کے دونوں مذہبی پیشوا موجود ہوتے تو وہ ان سے پوچھتے کہ یہ سب کیا ہے لیکن مذہبی پیشوا ہی تو لاپتہ ہوگئے تھے
ربی اور فادر کہتے تھے کہ یہ جو روشنی نظر آتی ہے یہ سب ایک پراسرار ڈھونگ ہے بستی میں آ کر بوڑھے نے کہا میں تو کہتا ہوں کہ انہیں اسی کی سزا ملی ہے
میں راز کی ایک بات بتاتا ہوں ایک جواں سال آدمی بولا اسحاق میرا گہرا دوست تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ میں کسی کو نہ بتاؤ اسے اور آسر کو ربی اور فادر نے کہا تھا کہ وہ اس پہاڑی کے پیچھے جائیں جس پر یہ روشنی اور پھر روشنی میں ایک سفید پوسش نظر آتا ہے میرا بھی ان کے ساتھ گئی تھی
اس پہاڑی کے پیچھے؟
ایک اور معمر آدمی نے کہا کیا کبھی کسی سے سنا ہے کہ کوئی اس پہاڑی کے پیچھے گیا ہے؟
کبھی کوئی گیا ہے تو اسے کسی نے واپس آتا نہیں دیکھا وہ موت کی وادی ہے وہاں خونخوار اور آدم خور مگرمچھ ہیں وہاں اتنی زہریلے سانپ ہیں کہ ڈستے ہیں تو پلک جھپکتے آدمی مر جاتا ہے زمین پر سانپ درختوں پر سانپ پانی میں سانپ وہاں تو کوئی جنگلی جانور اور کوئی درندہ بھی نہیں جاتا
ایک بات سمجھ میں آتی ہے دوسرے بوڑھے نے کہا اگر روشنی انسان دکھاتے ہیں اور روشنی میں ظاہر ہونے والا سفید پوش بھی انسان ہے تو وہ اس پہاڑی پر جاتے کدھر سے ہیں نہیں وہ انسان نہیں ہو سکتے
میں مانتا ہوں ایک اور آدمی بولا وہ انسان نہیں ہوسکتے کیا تم نے سنا نہیں کہ جس سانپ کی عمر سو سال ہوجاتی ہے وہ انسان کے روپ میں آ جاتا ہے میں کہتا ہوں یہ انسان کے روپ میں سانپ ہیں اور روشنی میں وہ جو سفید پوش نظر آتا ہے وہ شیش ناگ ہوگا
کچھ لوگوں نے اس آدمی کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں تائید تھی اور خوف بھی
کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ایک اور نبی ہے معمر آدمی نے کہا اسے صرف ہم ہی نہیں دیکھ رہے یہ ہزارہا لوگ اتنی دور دور سے آکر اسے دیکھ رہے ہیں وہ ظاہر ہوتا ہے تو سب سجدے میں چلے جاتے ہیں تم نے وہاں درویش صورت انسان دیکھے ہوں گے وہ بھی سجدہ ریز ہو جاتے ہیں یہ سمجھ لو کہ یہ کوئی نیا عقیدہ یا نیا پیغام آرہا ہے اس کی کوئی مخالفت نہ کرے ورنہ پوری بستی کو نقصان ہوگا
یہ کیفیت صرف اس بستی میں ہی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ لوگ خوفزدہ بھی تھے اور آنے والے کے منتظر بھی اس علاقے میں جتنی بستیاں تھیں ان سب میں یہی کیفیت تھی یہ مجذوب جو اس بستی میں گیا تھا کئی اور بستیوں میں گیا اور اپنے مخصوص مجذوبانہ انداز میں یہ خبر سناتا گیا کہ ایک عیسائی اور ایک یہودی مذہبی پیشوا نے روشنی والے کے خلاف بات کی تھی اور دونوں کو آسمان کی غیر مرئی مخلوق اٹھاکر لے گئی ہے
اور ایک روز وہ زمین پر اتر آیا
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ جس پہاڑی پر شاہ بلوط کا درخت تھا اس کے سامنے وسیع و عریض میدان میں جو سرسبز تھا اور جہاں درختوں کی بہتات تھی خیموں کی ایک بستی آباد ہو گئی تھی یہ قبیلوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کے خیمے تھے ہزاروں لوگ کھلے آسمان کے نیچے وہاں موجود رہتے تھے
ایک صبح لوگ جاگے تو انہوں نے دیکھا کہ پہاڑی کے دامن میں جو ٹیکری تھی اس پر پلنگ کی طرح کا ایک تخت رکھا تھا اس کے پائے رنگین اور خوش نما تھے اس پر بڑا قیمتی قالین بچھا ہوا تھا ٹیکری ہری بھری تھی تخت کے دائیں بائیں اور پیچھے درخت تھے ان درختوں کے ساتھ پھولدار بیلیں باندھ کر خوشنما چھت بنا دی گئی تھی
لوگوں نے دیکھا تو وہ آہستہ آہستہ اس طرف چل پڑے وہاں ابھی کوئی آدمی نظر نہیں آرہا تھا لوگ جب قریب پہنچے تو ٹیکری پر ایک آدمی نمودار ہوا وہ عقب سے اوپر چڑھتا آرہا تھا اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے ہاتھ میں سبز جھنڈا تھا اس کا لباس شاہی چوبداروں جیسا تھا تخت کے ایک طرف سے گزرتا وہ تخت سے آگے آکر لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا اس نے جھنڈا ٹیکری پر گاڑ دیا
وہ جو مسجود برحق ہے آرہا ہے چوبدار نے بڑی ہی بلند آواز میں اعلان کیا
خوش نصیب ہو تم کہ وہ تمہارے سامنے آ رہا ہے وہ آئے تو سجدے میں چلے جاؤ لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا
قبیلوں کے سردار آگے آ جاؤ چوبدار نے اعلان کیا سرکردہ آدمی سب سے آگے آکر بیٹھ جاؤ
لوگوں میں سے کئی ایک آدمی آگے چلے گئے اور بیٹھ گئے ان کے لباس اور رنگ ڈھنگ بتا رہے تھے کہ وہ سرکردہ افراد ہیں
ہوا کچھ تیز چل رہی تھی ٹیکری پر چھ آدمی نمودار ہوئے ان کے لباس معمولی سے تھے وہ ملازم لگتے تھے ہر ایک نے ایک ایک دیگچہ نما برتن اٹھا رکھا تھا وہ ٹیکری اتر آئے اور ہجوم کے اس پہلو کو چلے گئے جدھر سے ہوا آرہی تھی انہوں نے یہ برتن تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھ دئیے یہ لوگوں سے دور رکھے گئے تھے پھر ان میں آگ لگا دی گئی لیکن شعلہ کسی میں بھی نہ نکلا ہر برتن میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھنے لگا ہوا کا رخ لوگوں کی طرف تھا اس لئے یہ دھنواں ہجوم میں سے گزرنے لگا وہ آدمی وہیں کھڑا رہے
خدا کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں ٹیکری سے چوبدار کی آواز آئی لوگوں نے ایسی خوشبو محسوس کرنی شروع کردیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی پرکیف اور روح پرور خوشبو تھی یہ اس دھوئیں کی خوشبو تھی جو برتنوں سے اٹھ رہا تھا
نقارہ بجنے لگا اور اس کے ساتھ تین چار شہنائیوں کے لے ابھرے یہ صحرائی نغمے کی لے تھی جس میں وجد طاری کر دینے والا سوز تھا تخت کے عقب سے ایک آدمی ابھرنے لگا جو ایک شہانہ کرسی پر بیٹھا تھا کرسی اس آدمی کو اٹھائے اوپر ہی اوپر اٹھتی آئی پھر چار آدمیوں کے سر ابھرے اور فوراً ہی یہ چاروں آدمی پورے اوپر آ گئے کرسی بڑی تھی اور چوڑی تھی ان چاروں آدمیوں نے کرسی کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا چاروں آدمی عربی لباس میں ملبوس تھے اور جو کرسی پر بیٹھا تھا لباس اس کا بھی عربی نما لیکن کپڑا ریشمی اور چمکدار تھا
سجدہ ایک آواز گرجی سجدہ
وہاں جتنے لوگ تھے سب سجدہ ریز ہو گئے چار آدمیوں نے بڑے آرام سے کرسی تخت پر رکھ دی جس پر قالین بچھا ہوا تھا کرسی پر جو بیٹھا ہوا تھا وہ بادشاہ لگتا تھا داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی اس کے چہرے کا رنگ سفیدی مائل گندمی تھا نقش و نگار میں مردانہ حسن آنکھوں میں چمک اور ایسا تاثر کے کوئی بڑی مضبوط شخصیت والا ہی ان آنکھوں کا سامنا کر سکتا تھا زیرے لب تبسم چہرے کی جاذبیت میں اضافہ کرتا تھا
اس نے سجدہ ریز ہجوم پر نگاہ دوڑائی اس کا زیر لب تبسم مسکراہٹ کی صورت میں کھل گیا اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ لوگ سجدے سے اٹھیں
اللہ اکبر ایک آواز گرجی
ہجوم نے سجدے سے سر اٹھائے ہجوم میں عیسائی بھی یہودی بھی اور مسلمان بھی تھے اور چند ایک بے دین بھی تھے اللہ اکبر کا مطلب یہ تھا کہ یہ جو شہانہ مسند پر بیٹھا ہے مسلمان ہے پھر بھی سب لوگ اسے دیکھنے اور اسے سننے کو بے تاب ہوئے جارہے تھے اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے لیکن اللہ اکبر کی صدا پر ان کے دلوں میں تعصب نے سر نہیں اٹھایا تھا
لوگ اپنے آپ میں ایک پرلطف سی تبدیلی محسوس کر رہے تھے ان کے دلوں سے خوف نکل گیا تھا وہ ہلکے پھلکے ہو گئے تھے ان کے دلوں میں پیار اور محبت کی لہریں اٹھنے لگی تھیں
وہ جو شاہانہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا وہ حسن بن صباح تھا وہ اٹھا اور اپنے دونوں بازو پھیلا دئیے
میں تم میں سے ہوں اس نے کہا میری روح اس نور سے پیدا ہوئی ہے جو تم شاہ بلوط کے درخت میں دیکھتے رہے ہو میں تم میں سے ہوں مجھے خدا نے اپنا ایلچی منتخب کیا ہے میں تمہارے لئے خدا کا پیغام لے کر آیا ہوں لیکن ابھی پورا پیغام سنانے کا وقت نہیں آیا ابھی اتنی سی بات بتاؤں گا کہ خدا کا منشا ہے کہ اس کی زمین پر اس کے بندوں کی حکومت ہو جس طرح خدا نے فرعونوں کا خاتمہ کردیا تھا اسی طرح خدا بادشاہوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اللہ کی رضا اب اس میں ہے کہ کھیتی کا پورا حق اسے ملے جو اس میں ہل چلاتا اور بیچ پھینکتا ہے خدا نے مجھے اپنی رضا کی تکمیل کے لئے تمہارے درمیان اتارا ہے کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی سے آزاد ہو جاؤ
ہاں ہاں ہجوم سے بے شمار آوازیں اٹھیں ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ کام آسان نہیں حسن بن صباح نے کہا تمہیں متحد ہو کر میرے پیچھے چلنا پڑے گا
ہم تمھارے پیچھے چلیں گے ہجوم سے پرجوش آوازیں اٹھیں یاد رکھو حسن بن صباح نے کہا تم یہ وعدہ میرے ساتھ نہیں اس خدا کے ساتھ کررہے ہو جس نے مجھے ایلچی بنا کر تمھارے پاس بھیجا ہے تم وعدے سے پھر گئے تو تم پر خدا کا عذاب نازل ہوگا اگر تم نے خدا سے وعدہ نبھایا تو تم دنیا میں جنت دیکھ لو گے
ہم خدا کو ناراض نہیں کریں گے ہجوم میں سے آوازیں اٹھیں
یہ حسن بن صباح کی رونمائی تھی اس روپ میں وہ پہلی بار لوگوں کے سامنے آیا تھا اس نے دیکھا کہ اتنا بڑا ہجوم اس کا ہمنوا ہو گیا ہے تو اس نے نہایت پراثر الفاظ میں واعظ شروع کردیا
مورخوں کا بیان ہے کہ حسن بن صباح کی اس تقریر میں زبان کا جادو اور خطابت کا کمال تھا علم وفضل کا نام و نشان نہ تھا وہ لوگوں کے دلوں کی بات کر رہا تھا
لوگوں نے اس کے انداز خطابت نے تو متاثر کرنا ہی تھا کیونکہ اس فن میں اس نے کمال حاصل کیا تھا لوگوں کے ذہنوں کو اس نے اس دھوئیں کے ذریعے بھی اپنے قابو میں کر لیا تھا جو دیگچہ نما برتنوں سے اٹھ رہا تھا یہ ایک یا ایک سے زیادہ جڑی بوٹیوں کی دھونی تھی جن کے اثرات ویسے ہی تھے جیسے آج کل مسکّن گولیوں کے ہوتے ہیں حسن بن صباح نے آگے چل کر قلعہ المُوت میں جو جنت بنائی تھی اس میں ان جڑی بوٹیوں کا بے دریغ استعمال ہوا تھا
بعض مورخوں نے یہی لکھا ہے کہ اس نے ہجوم پر اس دھونی کا نشہ طاری کر دیا تھا لیکن دو مورخوں نے لکھا ہے کہ وہاں پانی کے بہت سے مٹکے رکھ دیے گئے تھے جن میں تھوڑا سا سرور پیدا کرنے والی دوائی ملا دی گئی تھی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ اس پانی میں آب کوثر ملا ہوا ہے سب یہ پانی پیئں لوگوں پر اس پانی نے ایسا نشہ طاری کر دیا تھا کہ ان کے ذہن حسن بن صباح کے ایک ایک لفظ کو دل و جان سے قبول کرتے جا رہے تھے
البتہ تاریخوں میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ حسن بن صباح نے قبیلوں اور بستیوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کو پہلے ہی الگ کر لیا تھا اس نے لوگوں کے ہجوم کو وہاں سے چلتا کیا اور سردار وغیرہ کو اوپر ٹیکری پر بلا لیا ٹیکری کے اوپر جگہ اتنی سرسبز اور خوشنما تھی جیسے انسانوں نے اپنے بادشاہ کے بیٹھنے کے لئے یہ جگہ بڑی محنت سے تیار کی ہو
ان سرکردہ افراد کی تعداد کوئی زیادہ نہیں تھی بارہ چودہ ہی تھی انہوں نے حسن بن صباح کے سامنے جاکر اس طرح تعظیم دی کہ رکوع کی حالت میں چلے گئے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ یہ کوئی انسان ہے یا آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہے یا یہ کوئی فریب کار ہی تو نہیں یہ سب اس سے مرعوب ہو گئے
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جڑی بوٹیوں کی دھونی کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا گیا تھا لیکن حسن بن صباح کے پاس لوگوں پر چھا جانے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا یہ تھا سحر یعنی جادو اس کے استاد اور پیرومرشد نے اسے سحر کاری کی خصوصی تربیت دی تھی بعض مورخوں نے وثوق سے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے لوگوں کے ہجوم پر نظر ڈالیں تو تمام کا تمام ہجوم ہپنا ٹائز ہو گیا تھا سردار وغیرہ اوپر گئے تو وہ بھی ہپنا ٹائز کردیئے گئے تھے اسے اجتماعی ہپناٹائز کہا جاتا ہے
حسن بن صباح کی ابلیسیت کی داستان کو بعض لوگ محاذ افسانہ سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ انھیں یقین نہیں آتا کہ ایک انسان کی ایسی فریب کاری جو لاکھوں انسان کو اپنی زد میں لے لے اور لوگ اسے پیغمبر تسلیم کر لیں من گھڑت قصہ ہی ہوسکتی ہے یہ ہے بھی سہی لیکن حسن بن صباح اور اس کے گروہ کے بعض کارنامے اور کمالات ایسے ہیں جو قابل یقین نہیں لگتے لیکن حسن بن صباح نے جو ذرائع استعمال کیے تھے وہ حیران کن کمالات دکھا سکتے تھے سحر کاری اس دور میں کوئی نئی چیز نہیں تھی اتنا ضرور ہے کہ اس دور میں سحر یا کسی بھی قسم کا جادو ہر کسی کے ہاتھ میں نہیں آ سکتا تھا مثال کے طور پر فرعونوں کے پاس جادوگر موجود تھے یہودیوں نے اس فن میں کمال حاصل کیا لیکن یہ فن ایسہ عام اور سہل نہیں تھا کہ ہر کوئی سیکھ لیتا
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حسن بن صباح کے ہاتھ کوئی ایسی جڑی بوٹی لگ گئی تھی جس کی بو یا دھونی انسان کو بڑے دلکش تصورات میں لے جاتی تھی مثلا اس بوٹی کی بو کے زیر اثر کوئی آدمی کنکریاں اور مٹی کھا رہا ہوتا تو وہ پورے یقین کے ساتھ یہ سمجھتا تھا کہ وہ من و سلویٰ کھا رہا ہے پتھروں پر لیٹ کر اسے نرم و گداز بستر کا لطف آتا تھا
آگے چل کر جب داستان گو آپ کو حسن بن صباح کی جنت میں لے جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ وہ جنت کس طرح آباد کی گئی تھی وہ ایک جہنم تھا جسے لوگ جنت سمجھتے تھے
یہ بھی انسانی فطرت کی ایک حقیقت ہے کہ انسانی ذہن نیکی کو سوچ سوچ کر اور خاصا وقت لگا کر قبول کرتا ہے لیکن بدی کی دلکشی کو وہ فورا قبول کرلیتا ہے کوئی بھی انسان اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کرنے شروع کر دیے اور ذرا سی بھی اچھائی کو قبول نہ کرے تو تھوڑے سے وقت میں وہ مکمل ابلیس بن جاتا ہے اس کی زبان میں ایسی چاشنی پیدا ہو جاتی ہے جو پتھروں سے بھی دودھ نکال لیتی ہے ایسا شخص جھوٹ کا سہارا لیتا ہے اور اتنی خوبصورتی سے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگ دل و جان سے اس کے جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں مختصر بات یہ ہے کہ انسان انسانیت کے درجے سے دستبردار ہو جائے اور یہ ذہن میں بٹھا لے کے وہ اشرف المخلوقات نہیں تو وہ شخص شیطانیت کے میدان میں معجزہ کر کے دکھا سکتا ہے جو شخص اپنی ماں بہن بہو بیٹی کی عزت اور آبرو سے دستبردار ہوجائے وہ حیران کن کارنامہ کر کے دکھا سکتا ہے
اگر بات حسن بن صباح کی نفسیات کی لے بیٹھیں تو اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن بات سمجھانے کے لئے بہتر یہ ہے کہ واقعات بیان کر دیے جائیں اور یہ پڑھنے والے پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ سب کیا تھا سمجھنے والی اصل بات یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے استادوں اور اس کے گروہ کا وجود ان کی یہ طلسماتی کارستانی یہ اسلام کی سچائی پر بڑا ہی شدید حملہ تھا اور اسلام کے لیے اتنا بڑا چیلنج جو صلیبیوں کے چیلنج سے بھی بڑا اور خطرناک تھا
صلیبی تو میدان میں آکر لڑے تھے انہوں نے زمین دوز کاروائیاں اگر کی تھی تو وہ اتنی سی تھی کہ انہوں نے اپنی اور یہودیوں کی انتہائی خوبصورت لڑکیاں جاسوسی اور اخلاقی تخریب کاری کے لئے مسلمان امراء اور سالاروں کے درمیان مسلمان لڑکیوں کے روپ میں چھوڑی گئی تھیں اس کے برعکس حسن بن صباح جو اسماعیلی مسلک کا علمبردار تھا اس لیے خطرناک تھا کہ وہ میدان میں لڑنے والا نہیں تھا اس کے حربے اتنے حسین تھے جنہیں صرف عام لوگ بلکہ ذمہ دار لوگ بھی قبول کر لیتے تھے…

📜☜سلسلہ جاری ہے……

 



 

www.urducover.com

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles