حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 9

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 9

قسط نمبر    “33”   سے قسط    نمبر”36″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:33 }
ابومسلم رازی نے محمد اور حمیرا کو دوسرے کمرے میں بھیج دیا اور خود گہری سوچ میں کھو گیا محمد محسوس نہ کر سکا کہ اس نے ابومسلم رازی کو مرو کی جو خبر سنائی ہے اس خبر نے اس جہاندیدہ امیر اور حاکم کی ذات میں کیسا تیز و تند طوفان بپا کردیا ہے ابومسلم رازی اس قدر بے چین اور پریشان ہو گیا تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا وہ رکتا اور ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا اور پھر ٹہلنے لگتا وہ سلطان ملک شاہ کا دست راست تھا دونوں کا جذبہ ایک اور ایمان ایک تھا دونوں باطنیوں کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ حسن بن صباح کا نام آجاتا تو دونوں کا خون کھولنے لگتا تھا سلطان ملک شاہ دنیا سے اٹھ گیا تو اس کے بیٹے نے اس کی گدی پر بیٹھ کر اسی حسن بن صباح اور اسکے فرقے کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ کرلیا تھا
ابومسلم رازی نے دروازے پر کھڑے دربان کو بلایا اور اسے کہا کہ مجید فاضل صاحب کو اپنے ساتھ لے آؤ
مجید فاضل ایک بہت بڑا عالم دین شخص تھا جو دین کے علاوہ سیاست اور امور سلطنت کو بھی خوب سمجھتا اور ان سے متعلق مسائل اور مشکلات کا حل اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں نکال لیا کرتا تھا اس کا پورا نام جو تاریخوں میں آیا ہے وہ ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی تھا اس نے علم و دانش اور تجربے کی تلاش میں کئی ملکوں کا سفر کیا تھا اور اب وہ رے میں رہتا تھا ابومسلم رازی خود بھی بڑھاپے کی عمر میں پہنچ گیا تھا اور اپنے علم و فضل سے اس نے بڑا اونچا مقام حاصل کرلیا تھا لیکن مجید فاضل کو اپنا استاد اور بہترین مشیر سمجھتا تھا کوئی مسئلہ پیش آ جاتا تو اسے بلا لیتا یا خود اس کے یہاں چلا جاتا تھا
اس نے دربان سے اتنا ہی کہا تھا کہ مجید فاضل کو اپنے ساتھ لے آؤ دربان جانتا تھا کہ اس شخصیت کے لئے بگھی لے کر جانا ہے اور اسے اس سواری پر لانا ہے
کچھ دیر بعد بگھی مجید فاضل کو لے آئی ابومسلم رازی اس کے استقبال کے لیے باہر نکلا اور اسے بڑے احترام اور تعظیم سے اندر لے آیا
کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آرہے ہوں مجید فاضل نے اندر آکر بیٹھتے ہوئے پوچھا کوئی پیچیدہ مسئلہ آن پڑا ہے ؟
پیچیدہ نہ ہوتا تو میں آپ کو زحمت نہ دیتا ابومسلم رازی نے کہا وہ خطرہ جس کے متعلق ہم کئی بار بات کرچکے ہیں ایک سیاہ کالی گھٹا کی طرح سلطنت سلجوقیہ پر چھا گیا ہے اس گھٹا کے اندر بجلیاں چھپی ہوئی ہیں وہ آپ خود جانتے ہیں کہ اب یہ گھٹا خون کا مینہ برسائے گی
کوئی اور اطلاع آئی ہے مجید فاضل نے پوچھا
ابومسلم رازی نے وہ ساری صورتحال بیان کر دی جو کچھ دیر پہلے محمد نے اسے سنائی تھی
کیا برکیارق کچھ بھی نہیں سمجھ رہا؟
مجید فاضل نے پوچھا
نہیں! ابومسلم رازی نے جواب دیا میں خود اس کے ساتھ بات کر چکا ہوں محترم جس نے اپنی عظیم ماں کی بات نہیں سنی اور اپنی بیوی کو برتر سمجھا ہے اس پر میری باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے یہ تو وہی باتیں ہیں جو ہم کئی بار کرچکے ہیں اب برکیارق فوج کی آدھی نفری نکال رہا ہے کچھ دنوں بعد باقی فوج میں سے آدھی نفری کو بھی گھر بھیج دے گا محمد بتاتا ہے کہ ان لوگوں میں جنہیں فوج سے نکالا جا رہا ہے اور شہریوں میں بھی غم و غصہ پھیلتا چلا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جو قوم کو خانہ جنگی کی طرف گھسیٹنے گے
تم نے کیا سوچا ہے ؟
مجید فاضل نے پوچھا
یہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا آپ کو زحمت دینے سے میرا مطلب یہی تھا کہ میں غلط سوچ رہا ہوں تو مجھے روکیں اور اگر میں صحیح بات تک پہنچ رہا ہوں تو میری حوصلہ افزائی کریں یا مجھے کوئی راستہ دکھائیں
کیا سوچا ہے؟
خانہ جنگی! ابومسلم رازی نے کہا میں نے محمد سے کہا ہے کہ جن افراد کو فوج سے نکالا جارہا ہے اگر انہوں نے کسی شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور انہیں طاقت اور تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی تو میں ان نکالے جانے والوں کو یہاں لے آؤنگا اور ان کی ایک فوج بنا لوں گا پھر میں برکیارق کی فوج کے مقابلے میں جاؤنگا
میں تمہاری سوچ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں مجید فاضل نے کہا لیکن میں تمہیں پہل کرنے سے روکوں گا یہ دیکھیں گے کہ وہ کیا کرتے ہیں اگر وہ تشدد اور فوجی کارروائی پر اتر آتے ہیں تو پھر تم اپنا فرض اس طرح ادا کرنا کہ اس سرکاری فوج کا خاتمہ نہ ہو تمہارا مقصد صرف یہ ہوکہ برکیارق کو معزول کرکے محمد کو باپ کی گدی پر بٹھایا جائے
میرا مقصد یہی ہے محترم! ابومسلم رازی نے کہا میں یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک بیٹے کو معزول کرکے اس گدی پر خود بیٹھ جاؤنگا اور دوسرے بیٹوں کو ان کے حق سے محروم کر دوں گا محمد اور اس کا بھائی سنجر بڑے ہی عظیم باپ کے بیٹے ہیں سلطان ملک شاہ اور میں ایک ہی منزل کے مسافر تھے
ابومسلم رازی کی آواز رک گئی اور اس کے آنسو پھوٹ آئے
خانہ جنگی ہو کر رہے گی مجید فاضل نے کہا مجھے خبریں مل رہی ہیں میرے شاگرد میرے جاسوس ہیں مرو سے مجھے خبریں ملتی رہتی ہے حسن بن صباح کے دہشتگرد باطنی شہروں میں بھرتے چلے جارہے ہیں یہ تو یقینی امر ہے کہ سلطان برکیارق کی بیوی روزینہ حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے اتنی لمبی عمر کا تجربہ مجھے بتاتا ہے کہ دنیا میں جتنی تباہی عورت لائی ہے اتنی تباہی ایک دوسرے کے ملکوں پر حملے کرنے والے بادشاہ بھی نہیں لا سکے میں ہر عورت کی بات نہیں کر رہا عورت وفادار بیوی بھی ہوتی ہے اور عورت عظیم ماں بھی ہوتی ہے اور اپنے دودھ کی دھاروں میں اپنی عظمت اپنے بچوں کی روح میں ڈال دیتی ہے عورت بہن بھی ہوتی ہے اور جو اپنے بھائیوں کو جہاد کیلیے رخصت کر دیتی ہے میں اس عورت کی بات کر رہا ہوں جسے تربیت ہی یہ ملتی ہے کہ جس کے پاس دھن دولت ہے تخت و تاج ہے اسے پھانس لو اور کنگال کر کے باہر پھینک دو حسن بن صباح اپنی تربیت یافتہ لڑکیوں کو اسی طرح استعمال کرتا ہے یہ تو تم خود جانتے ہو کہ حسین و جمیل نوجوان لڑکی بجائے خود جادو کا اثر رکھتی ہے میں نئی بات نہیں کہہ رہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ برکیارق کو اس لڑکی کے جال سے نہیں نکالا جاسکتا
ایک بات اور ذہن میں آتی ہے ابومسلم رازی نے کہا اگر اس لڑکی کو قتل کر دیا جائے تو آپ کیا مشورہ دیں گے؟
برکیارق کا رد عمل وحشیوں اور درندوں جیسا ہوگا مجید فاضل نے کہا وہ پاگل ہو جائے گا اپنی ماں تک کو قتل کروا دے گا اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو قید خانے میں پھینک دے گا اسے معلوم ہے کہ آپ بھی اس لڑکی کے خلاف ہیں وہ آپ کو اس رتبے سے معزول کر کے قتل کروا دے گا یا قید خانے میں ڈال دے گا میرا مشورہ یہ ہے کہ اسکی گمراہی کے نتائج سامنے آنے دیں خون بہے گا بہنے دیں تاکہ وہ دیکھے کے اس نے کیا گل کھلائے ہیں اور یہ جو خون بےگناہوں کا بہہ گیا ہے یہ اس کے کرتوت کا نتیجہ ہے اور وہ اپنے خاندان اور پوری سلطنت کی تباہی کا اکیلا ذمہ دار ہے اس کی بیوی نہیں بیوی تو آئی ہی اسی مقصد کے لئے تھی
میں یہ بھی جانتا ہوں کے یہ لڑکی جو اس سلطنت کی ملکہ بن بیٹھی ہے خزانہ خالی کر رہی ہے ابومسلم رازی نے کہا اور یہ خزانہ قلعہ الموت میں جارہا ہے ہمیں بہت جلدی کوئی کاروائی کرنی پڑے گی
آپ یہ لعنت اپنے سر نہ لیں مجید فاضل نے کہا حسن بن صباح زیادہ جلدی میں ہے وہ جو چال ایک لڑکی کے ذریعے چل رہا ہے وہ بہرحال کامیاب ہوگی اسے کامیاب ہونے دیں اس کے بعد آپ اپنی چال چلے گے یہ ہو گی خانہ جنگی ہی باطنی خانہ جنگی کے لئے زمین ہموار کر چکے ہیں آدھی فوج کو نکلوا دینا ان کی پہلی چال ہے نائب سالار اوریزی جو سوچ رہا ہے اور کر رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے آپ تیار رہیں جونہی کوئی اس قسم کی صورتحال پیدا ہوجائے تو دیکھ لیں کہ آپ یہاں کچھ کر سکتے ہیں یا آپ کو وہاں پہنچنا چاہیے خانہ جنگی سے نہ ڈرو یہ میں بتا چکا ہوں کہ خانہ جنگی ہو کر رہے گی آپ اسے روکنے کی کوشش کریں گے تو اس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کہ آپ اپنی توانائی اور اپنے وسائل ضائع کریں گے اور آپ دشمنوں کی نظر میں آجائیں گے اور ایک روز یہ خبر ملے گی کہ رے کا امیر ابو مسلم رازی قتل ہوگیا ہے محمد یہاں آیا ہے اسے جلدی واپس بھیج دیں اور اسے یہ کہہ دیں کہ مرو میں کسی کو پتہ نہ چلنے دے کہ وہ یہاں آیا تھا
ہم اسلام کی سربلندی اور فروغ میں مصروف تھے ابومسلم رازی نے کہا لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اس سلطنت کو شکست و ریخت سے بچانا ایک مسئلہ بن گیا ہے
یہ سارا فتنہ اسلام کی تباہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے مجید فاضل نے کہا اسلام ایک مکمل دین ہے اور یہ اللہ کا اپنا دین ہے اور یہ ہمیشہ قائم رہے گا اور باطل کی حکومت اسے کمزور کرتی رہے گی یہ نہ سمجھو کہ حسن بن صباح کے پاس جو تربیت یافتہ لڑکیاں ہیں وہ صرف اغوا کی ہوئی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہودونصاریٰ نے اپنی کمسن اور انتہائی خوبصورت بچیاں حسن بن صباح کے حوالے کر رکھیں ہیں وہ اس باطنی ابلیس کی یہ ضرورت پوری کرتے ہیں یہود و نصاریٰ کو تم ہر دور میں اسلام کی بیخ کنی کے لیے سرگرم دیکھو گے خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ خود مسلمان اسلام کی بیخ کنی کر رہے ہیں
ان کے دماغوں میں حکمرانی کا بھوت سوار ہوگیا ہے حکمرانی اور اقتدار اعلی کی ہوس ایسی خطرناک چیز ہے جو دماغ میں داخل ہوجائے تو وہ اس کی خاطر اپنے دشمن کے ساتھ بھی دوستی کرنے سے گریز نہیں کرتا خلافت اسلام کی مرکزیت کی نشانی تھی لیکن کہاں ہے ہمارا خلیفہ؟
برائے نام ایک آدمی خلافت کی گدی پر بیٹھا ہے اور وہ ایسے حالات پیدا کر لیتا ہے کہ وہ مرجائے تو یہ گدی اس کے خاندان میں ہی رہے شریعت ختم ہو چکی ہے یہی ایک پابندی تھی حسن بن صباح نے یہی کمال کیا ہے کہ شرعی پابندیوں کو ختم کرکے یہ کہا ہے کہ یہ ہے اصل اسلام انسان کی فطرت کسی پابندی کو قبول نہیں کرتی یہ ابلیسی طرز فکر ہے جو انسان کو اچھا لگتا ہے کیونکہ اس میں لذت ہے نشہ ہے اور اس میں کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں بہرحال آپ مرو کے حالات پر نظر رکھیں اور تیار رہیں میں آپ کے ساتھ رابطہ رکھونگا اور مجھے ہر حال میں اور ہر وقت اپنے ساتھ سمجھیں
جب ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی ابومسلم رازی کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت اس سلطان ملک شاہ مرحوم کا بیٹا سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد حمیرا کے ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھا باتیں کر بھی رہا تھا اور سن بھی رہا تھا محمد خوبرو جوان اور خوش گفتار تھا اور وہ سلطان کا بیٹا اور موجودہ سلطان کا چھوٹا بھائی تھا حمیرا جب اس کے ساتھ اس کمرے میں آئی تھی تو اس پر مرعوبیت طاری تھی اور وہ جھینپی ہوئی تھی وہ خاص طور پر حسین اور دلکش لڑکی تھی لیکن اسے باطنیوں کی تربیت حاصل نہیں تھی کہ وہ محمد کو مرعوب کرتی
محترم رازی نے تمہارے متعلق بہت ہی مختصر بات کی ہے محمد نے حمیرا سے کہا میں ساری بات تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں
حمیرا پر جو بیتیی تھی وہ اس نے ہر ایک تفصیل کے ساتھ سنا دی اس کے آنسو بھی نکلے اس نے آہ بھری اور انتقام کے جذبے کا غلبہ ہوا تو اس کے چہرے پر سرخی آ گئی اور اس کے دانت پسنے لگے
اسلام کو تم جیسی بیٹیوں کی ضرورت ہے محمد نے کہا اگر انتقام لینا چاہتی ہو تو مردوں کی طرح حوصلہ مضبوط کرو عورتوں کی طرح رو نہیں
لیکن میں اکیلی کیا کر سکتی ہوں؟
حمیرا نے کہا
بہت کچھ کر سکتی ہو محمد نے کہا تم میں مردوں والی ہمت ہے لیکن ہم مرد جب تک زندہ بیدار ہیں ہم کسی عورت کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے تم نے میری باتیں سنی ہے جو میں محترم رازی کو سنانے آیا تھا تم نے محسوس کیا ہوگا کہ میرا اور تمہارا جذبہ ایک ہے اسلام کو اور اس سلطنت کو میرا بڑا بھائی نقصان پہنچا رہا ہے اسی لیے میں اپنے سگے بھائی کو دشمن کہہ رہا ہوں ہم اس سلطنت کو اسلام کا قلعہ بنا چکے تھے میرے والد مرحوم کا مقصد ہی یہی تھا مگر ان کی وفات کے بعد حالات نے کچھ اور پلٹا کھایا میری عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی کہ میں دانشوروں اور عالموں کی طرح بات کر سکوں میں تمہیں صرف یہ کہوں گا کہ جس طرح تم نے خوف کو قبول نہیں کیا اسی طرح اپنے آپ کو ہمیشہ بے خوف اور نڈر رکھنا اگر تم پر خوف کا غلبہ ہوتا تو الموت سے تم کبھی نہ نکل سکتی اس باطنی کو دریا میں پھینک کر ہلاک نہ کرسکتی اور پھر تنہا سفر کا تو تمہارے ذہن میں خیال بھی نہ آتا لیکن تم نے خوف کو قبول نہیں کیا تھا اس لئے تمہارے دماغ نے تمہاری رہنمائی کی اور تم ایک آدمی سے گھوڑا لے کر یہاں تک پہنچ گئی
کیا یہ سلطنت باطنیوں کو ختم کرسکے گی؟
حمیرا نے پوچھا
کرسکتی تھی محمد نے جواب دیا میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میرے والد مرحوم کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا باطنیوں کا خاتمہ مگر میرا بڑا بھائی باپ کی گدی پر بیٹھا تو اس نے باطنیوں کے خاتمے کی بجائے اپنے باپ کے مقصد کا خاتمہ کردیا
وہ کیسے؟
وہ اس طرح محمد نے جواب دیا کہ وہ باطنیوں کی گود میں جا گرا ہے اس نے سب کی مخالفت کے باوجود ایک باطنی لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ہے اس کی بیوی کا نام روزینہ ہے وہ تم سے زیادہ خوبصورت نہیں لیکن اس کے ہاتھ میں جو جادو ہے اس کو اسے چلانے کی تربیت ملی ہے
کیا ہم اس لڑکی کو ختم نہیں کرسکتے؟
حمیرا نے کہا اگر کوئی اور نہ کر سکے تو یہ کام میرے سپرد کریں میں جب تک چند ایک باطنیوں کا خون اپنے ہاتھوں بہا نہ لونگی مجھے چین نہیں آئے گا میں نے اپنے بڑے بھائی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے خون کا انتقام لینا ہے
اور میں نے اپنے باپ کے خون کا انتقام لینا ہے محمد نے کہا میرے باپ کو باطنیوں نے دھوکے میں ذہر پلا کر مار ڈالا ہے میں بھی تمہاری طرح سوچا کرتا ہوں لیکن ایک دو آدمیوں کو قتل کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کسی کو قتل کرنا کوئی مشکل کام نہیں روزینہ کو میں خود قتل کر سکتا ہوں کروا بھی سکتا ہوں مگر ہم نے اس کے نتائج دیکھنے ہیں میرا بھائی برکیارق ہمیں قتل کروا دے گا وہ اپنے آپ میں ہے ہی نہیں
میں سوچ رہی تھی کہ روزینہ کی کنیز بن جاتی ہوں حمیرا نے کہا میں ایک غریب لڑکی بن کر اس کے پاس جاؤں اور اسے کہوں کہ وہ مجھے اپنی کنیز بنا لے تو میرا خیال ہے کہ میری بات مان جائے گی پھر میں اسے آسانی سے زہر دے سکتی ہوں لیکن آپ نے جو بات کہی ہے وہ میں سمجھ گئی ہوں
تم یہی انتظار کرو محمد نے کہا اپنا خون نہ جلاؤ ہمیں جہاں کہیں تمہاری ضرورت محسوس ہوئی تمہیں بلا لیں گے
میں یہاں کب تک پڑی رہونگی؟
حمیرا نے کہا اچھا نہیں لگتا کہ امیر شہر کے یہاں مہمان ہی بنی رہوں آخر ایک دن یہ مجھ سے تنگ آ جائیں گے میرا تو کوئی گھر ہے ہی نہیں نہ کوئی ٹھکانہ نہ کوئی پناہ
ایسا نہ سوچو! محمد نے کہا یہاں عموماً تم جیسی لڑکیاں اور مظلوم آدمی آتے ہی رہتے ہیں تمہیں یہاں سے کوئی نکال نہیں دے گا
جذباتی سہارا تو مجھے کوئی نہیں دے سکتا حمیرا نے کہا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے میرا بھائی شہر کا رئیس تھا میں نے اچھے خاندان میں پرورش پائی اور اچھی زندگی دیکھی تھی
تمہیں اس سے زیادہ اچھی زندگی ملے گی ان شاءاللہ محمد نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اپنی ذات کے متعلق تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے
میری عمر دیکھیں حمیرا نے کہا میں تو کہوں گی کہ اللہ تعالی نے اتنی اچھی شکل و صورت دے کر مجھ پر کوئی کرم نہیں کیا مجھ جیسی بے آسرا لڑکیوں کے لئے خوبصورتی مصیبت بھی بن جایا کرتی ہے آپ یقینا شادی شدہ ہیں
نہیں حمیرا ! محمد نے مسکراتے ہوئے کہا میں نے ابھی شادی کی سوچی بھی نہیں ماں کو میرا فکر لگا رہتا ہے لیکن سلطنت کے بگڑتے ہوئے حالات نے میری توجہ ادھر سے ہٹا رکھی ہے
حمیرا فوراً کچھ بھی نہ بولی اس کی نظریں محمد کے چہرے پر جم کر رہ گئیں اور پھر اس کی نظریں جھک گئیں صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن کہنے کی جرات نہیں رکھتی
ایک بات پوچھوں حمیرا ؟
محمد نے کہا کیا اپنی پسند کا کوئی آدمی تمہاری زندگی میں آیا ہے
یہی تو غلطی کر بیٹھی تھی حمیرا نے کہا آپ کو سنایا ہے کہ ایک آدمی کو دل میں بٹھایا تھا اور اسی آدمی کو اپنے ہاتھوں دریا میں دھکیل کر اور ڈبو کر مار ڈالا ہے اس کا نام جابر بن حاجب تھا اب تو میں محبت کے نام سے بھی ڈرتی ہوں آنکھیں انسان کو باہر سے دیکھتی ہیں اندر سے نہیں دیکھ سکتیں میری آنکھوں نے اور میرے دل نے مجھے دھوکہ دیا
میری آنکھیں مجھے دھوکا نہیں دے رہیں محمد نے بڑے ہی خوشگوار لہجے میں کہا میری آنکھیں تمہارا ضمیر اور تمہاری روح بھی دیکھ رہی ہیں میں نہیں بتا سکتا کہ میں تمہارے اس ظاہری حسن اور پرکشش جسم سے متاثر ہوا ہوں یا کارنامے سے جو تم نے کر دکھایا ہے یا اس جذبے سے جو تمہیں بے چین اور بے قرار کئے ہوئے ہے یا ان ساری چیزوں نے مل ملا کر ایسا اثر کیا ہے کہ میں تمہیں یہاں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا
آپ کی یہ بات سن کر میری روح کو تسکین ہوئی ہے حمیرا نے سر جھکا کر کہا اگر آپ نے مجھے دلی طور پر قبول کرلیا ہے تو میں اپنے آپ کو یقین دلا سکتی ہوں کہ میری زندگی کی خلا کو صرف آپ کی محبت پُر کرسکتی ہے
دونوں کے ہاتھ آگے بڑھے اور ان ہاتھوں نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا اور پھر ان ہاتھوں نے محمد اور حمیرا کو اتنا قریب کر دیا کہ ان کے درمیان سے ہوا کا گزر بھی ممکن نہ رہا
محترم ابومسلم رازی دانشمند اور دوراندیش ہیں محمد نے مسکراتے ہوئے کہا انہوں نے مجھے تمہارے ساتھ اس کمرے میں بلا مقصد نہیں بھیجا تھا میری ماں نے انہیں دو تین مرتبہ کہا تھا کہ میرے اس بیٹے کے لئے ہمارے خاندان کے مطابق موزوں دلہن تلاش کریں لیکن حمیرا محبت اپنی جگہ اس جذبے اور مقصد کو جو ہم دونوں میں مشترک ہے اولیت حاصل ہونی چاہیے
اس مقصد پر تو میں اپنی محبت بھی قربان کر دوں گی حمیرا نے کہا
وہ ایک دوسرے میں گم ہوگئے تھے کہ انہیں دربان کی آواز سنائی دی امیر محترم یاد فرما رہے ہیں
محمد فوراً اور ابو مسلم رازی کے کمرے میں چلا گیا
محمد بیٹا! ابومسلم رازی نے کہا تم کل علی الصبح مرو کے لیئے روانہ ہو جانا مجھے وہاں کی خبریں بھیجتے رہنا خود آنے کی ضرورت نہیں میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا میں پہنچ جاؤں گا اور نائب سالار اوریزی کے ساتھ رابطہ رکھنا اب یہ بتاؤ کہ اس لڑکی حمیرا کے متعلق کیا خیال ہے
انتقام کا جذبہ اسے پریشان کر رہا ہے محمد نے جواب دیا اچھی لڑکی ہے لیکن تنہائی محسوس کرتی ہے
وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے کہ لڑکی بڑے کام کی ہے ابومسلم رازی نے ذرا تبسم سے کہا جہاں تک اس کی تنہائی کا تعلق ہے اس کا علاج تمہارے پاس ہے
تم آ بھی جاؤ اور یہ ذہن میں رکھنا کہ میں اس لڑکی کو ضائع نہیں ہونے دوں گا
جس وقت محمد اور حمیرا کی ملاقات ہوئی تھی اس سے بہت پہلے حسن بن صباح کو یہ اطلاع پہنچا دی گئی تھی کہ ایک فدائین جابر بن حاجب کی قاتل حمیرا رے کے امیر ابومسلم رازی کی پناہ میں پہنچ گئی ہے حسن بن صباح نے بڑا سخت حکم دیا تھا اس نے کہا تھا کہ اس لڑکی کو اغوا کرکے الموت لایا جائے اور پھر اسے گھٹنوں سے اوپر تک زمین میں گاڑ کر اسکے جسم پر اور منہ پر شہد مل دیا جائے یہ بڑی ہی ظالمانہ سزا تھی جو حسن بن صباح نے سنائی تھی شہد مل دینے سے چھوٹی بڑی چونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں نے اور دیگر حشرات الارض نے حمیرا کے جسم کا گوشت آہستہ آہستہ کھا جانا تھا اس نے آخر مرنا ہی تھا لیکن ایسی اذیت میں مرنا تھا جو پانچ چھے دن اسے ملتی رہتی حسن بن صباح نے کہا تھا کہ اس کی جنت کی تمام لڑکیوں کو یہ منظر اور حمیرا کا حشر دکھایا جائے تاکہ کوئی لڑکی فرار کی یا کسی غلط حرکت کی جرات نہ کرے
حسن بن صباح کو روزینہ کی رپورٹ بھی مل گئی تھی کہ اس نے سلطان برکیارق کو پوری طرح مٹی میں لے لیا ہے اور اس سے یہ فیصلہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے روزینہ نے اپنی اس رپورٹ میں کہا تھا کہ آدمی بھیجیں جائیں جو اس نفری میں اشتعال پیدا کریں جسے فوج میں سے نکالا جا رہا ہے حسن بن صباح کو اس قسم کی رپورٹیں اور اطلاع دینے والی ایک روزینہ ہی نہیں تھی یہ تو اس کا ایک مکمل نظام تھا جو سلطنت سلجوقیہ میں پھیلا ہوا تھا اور اس سلطنت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا تھا
مرو میں سپہ سالار ابو جعفر حجازی اپنے سلطان برکیارق کے حکم کے مطابق فوج کی چھانٹی کر رہا تھا یہ وہ فوج تھی جسے سلطان ملک شاہ مرحوم نے باطنیوں کی سرکوبی کے لیے تیار کیا تھا اور اس فوج میں وہ اضافہ کر رہا تھا
سپہ سالار حجازی جس نفری کو فارغ کر رہا تھا اسے بارکوں میں سے نکال کر الگ کرتا جا رہا تھا اس نفری کے لیے خیمے لگا دیے گئے تھے اسے فوری طور پر فارغ نہیں کیا جا رہا تھا کیوں کہ اس کا حساب کتاب بھی کرنا تھا اور آخر میں یہ ساری نفری سلطان برکیارق کو دکھانی تھی تاکہ اس کا آخری حکم لیا جاسکے اس طرح ایک وسیع میدان میں خیموں کا ایک شہر آباد ہو گیا تھا فارغ کی جانے والی نفری کی تعداد پندرہ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی اس نفری سے گھوڑے اور ہتھیار لے لیے گئے تھے
فوج کی ملازمت بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش بن گیا تھا اس وقت کے فوجیوں کو یہ فائدہ بھی نظر آتا تھا کہ مفتوحہ علاقے سے مال غنیمت بھی ملتا تھا اب ان پندرہ سولہ ہزار آدمیوں سے ذریعہ معاش چھن رہا تھا قدرتی طور پر ان میں مایوسی اور بیزاری پیدا ہوگئی تھی اس بیزاری میں غصے کا عنصر بھی موجود تھا وہ جب آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے تو ہر فوجی یہ ضرور کہتا تھا کہ ہمیں کیوں نکالا گیا ہے ہماری جگہ دوسروں کو کیوں نہیں نکالا گیا انہیں اپنے آپ میں کوئی خامی یا کوئی نقص نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان میں کوئی خوبی نظر آتی تھی جنہیں فوج میں ہی رکھا جا رہا تھا ان آدمیوں کی جذباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ ذرا سی بات پر مشتعل ہوجاتے تھے غصے اور احتجاج سے وہ بارود کی مانند ہوتے جا رہے تھے
ہمیں تو کہتے تھے کہ باطنیوں کو ختم کرنا ہے
اب ہمیں ہی ختم کیا جا رہا ہے
نئے سلطان کی بیوی باطنی ہے
نئے سلطان نے حسن بن صباح کا عقیدہ قبول کرلیا ہے
اور ایسی ہی باتیں تھیں جو خیموں کی اس بستی میں سنی اور سنائی جاتی تھیں چونکہ یہ سب فوجی تھے اس لیے کئی باتیں اخلاق سے گری ہوئی بھی کہتے تھے فارغ کیے جانے والے ان پندرہ سولہ ہزار فوجیوں میں سالار بھی تھے اور عہدے داروں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی باقی سب سپاہی تھے جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس کے متعلق زیادہ تر یوروپی مورخوں نے تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ہزاروں فوجی سراپا احتجاج بن گئے تھے ایک وجہ تو سب کو نظر آرہی تھی وہ یہ کہ ان کی چھٹی کی جارہی تھی لیکن ایک وجہ اور بھی تھی کہ وہ آگ بگولہ ہوتے جا رہے تھے ان کے پاس ان کے رشتے دار دوست اور دوسرے شہری بھی ازراہ ہمدردی آتے رہتے تھے ان میں حسن بن صباح کے تخریب کار بھی شامل ہوتے تھے جن کی اصل حقیقت سے کوئی بھی واقف نہیں تھا ان فوجیوں کو خوب بھڑکاتے اور ان میں طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے تھے
انہیں خفیہ تخریب کاروں نے فارغ کیے جانے والے فوجیوں میں یہ افواہ پھیلا دی کہ جن فوجیوں کو فوج میں ہی رکھا جا رہا ہے وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ جنہیں نکالا گیا ہے وہ بزدل اور بد اخلاق ہیں اور ان میں ایسے آدمی بھی ہیں جو چھٹی پر جاتے ہیں تو رہزنی اور ڈکیتی کی وارادتیں کرتے ہیں یہ افواہ فوجیوں کی ساری بستی میں پھیل گئی اور یہ تمام فوجی اتنے مشتعل ہوئے کہ ان کے پاس ہتھیار ہوتے تو فوج پر حملہ کر دیتے
سپہ سالار ابوجعفر حجازی تو بلا شک و شبہ خوشامدی آدمی تھا اور وہ سلطان کا ہر ناجائز حکم بھی ماننے کو تیار رہتا تھا نکالے جانے والے فوجیوں کا کوئی ہمدرد تھا تو وہ نائب سالار اوریزی تھا اس نے سلطان برکیارق کو برملا کہہ دیا تھا کہ وہ فوج کی چھانٹی کے حق میں نہیں ہے اس کا رویہ اب یہ ہوگیا تھا کہ سپہ سالار حجازی کی بات سن لیتا لیکن اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا تھا اوریزی خیموں میں گیا تو وہاں رہنے والے سابق فوجی اس کے گرد اکٹھے ہوگئے غصے اور عتاب سے وہ پھٹے جارہے تھے انہوں نے کہا کہ ایک تو انہیں بے گناہ اور بلاوجہ فوج سے نکالا جا رہا ہے اور دوسرے یہ کہ سارے شہر میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ انہیں اس لیے نکالا جارہا ہے کہ یہ بزدل اور بدمعاش ہیں اوریزی نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگ بہت ہی مشتعل تھے اوریزی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ سپہ سالار حجازی کے ساتھ بات کرے گا اور ابھی وہ ٹھنڈے رہیں
اس نے وہیں سے جاکر سپہ سالار حجازی کو اس صورتحال سے آگاہ کیا
اوریزی بھائی! سپہ سالار حجازی نے اصل بات سمجھنے کی بجائے یوں کہا میں جانتا ہوں کہ تم اس کے حق میں نہیں کہ فوج کم کی جائے تمہاری موجودگی میں سلطان نے حکم دیا تھا کہ فوج کی نفری آدھی کر دو میں حیران ہوں کہ تم مجھ پر اور اس نفری پر جسے ہم فوج میں ہی رکھ رہے ہیں ایسے بے بنیاد الزام کیوں عائد کر رہے ہو؟
محترم سپہ سالار! نائب سپہ سالار اوریزی نے کہا آپ سلطان کو ضرور خوش کریں لیکن اپنی عقل پر ایسا پردہ بھی نہ ڈالیں کہ کسی اچھی بری بات پر آپ غور بھی نہ کرسکیں میں الزام عائد نہیں کر رہا میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں کہ ہمارے دشمن خیموں میں بھیجے جانے والے فوجیوں میں افواہیں پھیلا رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ جنہیں آپ فوج میں رکھ رہے ہیں انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی میں اس فوج کا سالار ہوں اور میرے ذاتی خفیہ ذرائع بھی ہیں ان سے مجھے سب کچھ معلوم ہوتا رہتا ہے میری بات سمجھنے کی کوشش کریں یہ باطنی تخریب کار ہیں جو فوج کے ان دونوں دھڑوں کو آپس میں لڑانے کے لیے وجوہات پیدا کر رہے ہیں
تو پھر یہ کام تم خود کیوں نہیں کرتے سپہ سالار حجازی نے کہا انہیں بتاؤ کہ یہ افواہ ہے اس پر یقین نہ کریں لیکن اوریزی بھائی یہ کوئی افواہ نہیں یہ خود اپنے پاس سے باتیں کر رہے ہیں کیونکہ انہیں فوج سے نکالا جارہا ہے اب میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں مجھے اطلاع ملی ہے کہ یہ لوگ جنہیں میں نے فوج سے الگ کر دیا ہے جوابی کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کو بھی فوج میں رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے جنہیں رکھا جا رہا ہے
نائب سپہ سالار اوریزی نے سپہ سالار حجازی کو سمجھانے کی بہت ہی کوشش کی کہ یہ افواہ بھی دشمن کی اڑائی ہوئی ہے حقیقتاً خیموں میں رہنے والوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار حجازی نے اپنے نائب اوریزی کی بات سمجھنے کی بجائے اس پر طنز کی اور اس پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ یہ ساری باتیں خود گھڑ رہا ہے
حسن بن صباح کے باطنیوں کا پروپیگنڈہ اور افواہ بازی پورا پورا کام کر رہی تھی یہی افواہیں شہریوں میں بھی پھیلائی جارہی تھیں جس کا نتیجہ یا اثرات یوں سامنے آنے لگے کہ شہری بھی دو حصوں میں بٹنے لگے
تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران طوائف الملوکی شروع کر دیتے ہیں تو خوشامد کا بازار گرم ہو جاتا ہے انتظامی امور خوشامد پرستی اور مفاد پرستی کی نظر ہوتے چلے جاتے ہیں اس صورتحال میں دشمن بلا خوف و خطر اپنی تخریبی کارروائیاں کرتا ہے یہ فضا سلطنت سلجوقیہ کے دارالحکومت میں پیدا ہوگئی تھی جو باطنیوں نے پیدا کی تھی
ایک دو دنوں بعد ایک حادثہ ہوگیا ایک رات ایک فوجی عہدیدار اپنے رہائشی کمرے میں قتل ہوگیا وہ اس فوج میں شامل تھا جسے رکھا جا رہا تھا صبح اسے دیکھا گیا اس کی لاش فرش پر پڑی تھی اس کے پیٹ میں اور سینے میں خنجر مارے گئے تھے اس کے بستر پر بھی خون تھا معلوم ہوتا تھا کہ اسے سوتے میں خنجر مارے گئے اور وہ تڑپتے ہوئے فرش پر گرا اور اس کے بعد اس کی موت واقع ہوئی
تمام فوج میں یہ خبر پھیل گئی کہ فلاں عہدے دار کو قتل کردیا گیا ہے اس خبر کے ساتھ یہ افواہ بھی پھیلتی گئی کہ اسے ان فوجیوں میں سے کسی نے قتل کیا ہے جنھیں فوج میں سے نکالا جارہا ہے یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ نکالے جانے والے فوجی کہتے ہیں کہ وہ اب اسی طرح قتل کی واردات کرتے رہیں گے ان افواہوں میں تاثر یہ پیدا کیا گیا تھا کہ نکالے جانے والے فوجیوں کو رکھے جانے والے فوجیوں نے بزدل اور بداخلاق کہا ہے اس لیے نکالے گئے فوجیوں نے اپنی توہین کا انتقام لیا ہے اس طرح فوج میں اچھی خاصی کشیدگی پیدا ہو گئی بعض فوجیوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نکالے جانے والوں کے ساتھ یہی سلوک کریں گے اور ان کی لاشیں ان کے گھروں تک پہنچیں گی
کسی فوجی کا یوں قتل ہو جانا بڑا ہی عجیب واقعہ تھا ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا سپہ سالار ابوجعفر حجازی اپنے نائب سالار اوریزی کو ساتھ لے کر سلطان برکیارق کے یہاں چلا گیا برکیارق اُسی وقت جاگا تھا روزینہ اسے اتنی جلدی بستر سے نہیں نکلنے دیتی تھی جتنا جلدی سلطان ملک شاہ انہیں اٹھا دیا کرتا تھا
برکیارق کو اطلاع دی گئی کہ دونوں سپہ سالار آئے ہیں تو روزینہ باہر آئی اور ان سے پوچھا کہ وہ اتنی جلدی کیوں آئے ہیں
ہم اتنی جلدی آنے کی معافی چاہتے ہیں سپہ سالار حجازی نے غلاموں کے سے لہجے میں کہا ایک عہدیدار قتل ہوگیا ہے اس کی اطلاع سلطان محترم کو دینی ضروری ہے اور ان سے حکم لینا ہے
روزینہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد واپس آئی اور دونوں سپہ سالار کو اندر سونے کے کمرے میں ہی لے گئی سلطان برکیارق ابھی پلنگ پر ہی نیم دراز تھا
کون بدبخت قتل ہوگیا ہے؟
برکیارق نے مخمور سی آواز میں پوچھا
ہمارا ایک عہدے دار تھا سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے جواب دیا اور بیان کیا کہ وہ کس طرح مردہ پایا گیا لاش کس حالت میں تھی اور لاش فرش پر پڑی تھی
تو پھر قاتل کو ڈھونڈو! سلطان برکیارق نے کہا زندہ مل جائے تو اس کا سر اڑا دو
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے کہا قاتل ان خیموں میں ہے جن میں نکالے جانے والے فوجیوں کو رکھا گیا ہے
سلطان محترم! نائب سالار اوریزی بولا یہ باطنیوں کی دہشت گردی ہے اور اگر مجھے اجازت دیں تو میں بیان کروں کہ اس وقت دونوں دھڑوں کے فوجیوں کے درمیان کس قسم کی کشیدگی پیدا کر دی گئی ہے اور اسی طرح شہر کے لوگ بھی دو دھڑوں میں بٹتے جا رہے ہیں
سپہ سالار حجازی نے اوریزی کی مخالفت شروع کردی سلطان برکیارق کےچہرے پر اکتاہٹ کے تاثرات نمایاں ہوتے جارہے تھے وہ تو جیسے کوئی بات بھی سننے کو تیار نہیں تھا نائب سپہ سالار اوریزی نے سپہ سالار حجازی کو ٹوک کر اپنی بات شروع کردی روزینہ پاس بیٹھی سن رہی تھی
اس باطنی حسینہ نے سلطان برکیارق کو ذہنی طور پر اس قدر کمزور کردیا تھا کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے کی اہلیت سے ہی محروم ہوگیا تھا یہ اثرات اس نشے کے تھے جو وہ اسے پلاتی رہتی تھی اور وہ خود بھی اس کے لئے ایک نشہ بن گئی تھی اس کا ذہن مکمل طور پر روزینہ کے قبضے میں چلا گیا تھا سوچتی روزینہ تھی اور بولتا سلطان برکیارق تھا
سلطان! روزینہ نے کہا ان دونوں کی باتیں آپ کو کسی فیصلے تک نہیں پہنچنے دیں گیں دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ یہ قاتل کو پکڑے جو ممکن نظر نہیں آتا دوسرا اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان فوجیوں میں سے جنہیں نکالا جارہا ہے کوئی دو آدمی پکڑ لئے جائیں اور فوج کے دونوں دھڑوں کو آمنے سامنے کھڑا کرکے ان کے درمیان ان دونوں آدمیوں کے سر اڑا دیے جائیں اعلان کیا جائے کہ ان دونوں نے اس عہدے دار کو قتل کیا ہے اس سے یہ ہوگا کہ آئندہ کوئی اتنی سنگین واردات کرنے کی جرات نہیں کرے گا اگر واقعی اس فوج کے ان دھڑوں میں کشیدگی اور دشمنی پیدا ہوگئی ہے تو وہ اسی طرح ختم کی جا سکتی ہے اگر خیموں میں رہنے والا کوئی فوجی قتل ہوجائے تو وہ فوجی ادھر سے پکڑ کر انہیں سب کے سامنے جلاد سے قتل کروا دیا جائے
سن لیا تم دونوں نے سلطان برکیارق نے کہا جاؤ اور اس حکم پر عمل کرو
بہت اچھا فیصلہ ہے سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے کہا میں آج دو آدمی پکڑ کر قید خانے میں بند کردوں گا اور کل صبح دونوں کو قتل کروا دیا جائےگا
نائب سپہ سالار اوریزی نے کچھ بھی نہ کہا وہ جان گیا تھا کہ یہاں کوئی اس کی سننے والا نہیں اور تباہی سلطنت سلجوقیہ کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے
دونوں سپہ سالار وہاں سے آگئے
اگلے روز سپہ سالار ابوجعفر حجازی خیموں کی طرف گیا کچھ سپاہی جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا باہر بیٹھے تھے سپہ سالار حجازی کے ساتھ بارہ چودہ فوجی تھے جو برچھیوں اور تلواروں سے مسلح تھے سپہ سالار حجازی نے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کیا
انہیں پکڑ کر لے چلو اس نے حکم دیا یہی ہیں اس کے قاتل مسلح فوجی ان دو آدمیوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں گھسیٹتے دھکیلتے اپنے ساتھ لے گئے
یہ خبر خیموں کی ساری بستی میں پھیل گئی پندرہ سولہ ہزار سابق فوجیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی سب جانتے تھے کہ جنہیں پکڑ کر لے گئے ہیں وہ بڑے ہی خوش اخلاق اور شریف سپاہی تھے وہ سب اکٹھے ہوگئے اور شور شرابا کرنے لگے لیکن ان کی سننے والا سوائے نائب سالار اوریزی کے اور کوئی نہ تھا
سپہ سالار حجازی کے حکم سے ان دونوں آدمیوں کو قید خانے میں بند کرنے کے لئے بھیج دیا گیا ان پندرہ سولہ ہزار فوجیوں میں دو سالار بھی تھی جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا وہ دو تین عہدے داروں کو ساتھ لے کر نائب سالار اوریزی کے یہاں چلے گئے اسے بتایا کہ سپہ سالار نے دو آدمیوں کو یہ کہہ کر پکڑ لیا ہے کہ مقتول عہدیدار کو انہوں نے قتل کیا ہے اوریزی نے یہ خبر سنی تو وہ بھڑک اٹھا وہ اسی وقت سپہ سالار حجازی کے پاس چلا گیا
میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو سپہ سالار حجازی نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تم کہو گے کہ دو بے گناہوں کو کیوں پکڑ لیا ہے اوریزی بھائی تمہارے سامنے سلطان نے حکم دیا تھا
اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو ایسا ظالمانہ حکم کبھی نہ مانتا نائب سالار اوریزی نے کہا محترم حجازی آپ کس کے غلام بن گئے ہیں؟
آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے سلطان کی طاقت کو ہم احتراماً مانتے ہیں یہ اسلام کا حکم ہے کہ اپنے امیر کی اطاعت کرو اور اسلام کا حکم یہ بھی ہے کہ امیر کوئی غلط حکم خصوصاً اس قسم کا ظالمانہ حکم دیتا ہے تو وہ حکم نہ مانو
خدا کے لئے اوریزی بھائی! سپہ سالار حجازی نے بے تکلف دوستوں جیسے لہجے میں کہا اگر ہم ان دو ادنیٰ سے سپاہیوں کے سر نہیں کاٹیں گے تو ہم دونوں کے سرکٹ جائیں گے
میں ان ادنیٰ سپاہیوں کی خاطر اپنا سر کٹوانے کے لیے تیار ہوں اوریزی نے کہا میرا خیال ہے کہ میں آپ کے پاس آ کر جھک مار رہا ہوں مجھے یہ بتا دیں کہ آپ واقعی ان دو بےگناہ سپاہیوں کے سر کاٹ دیں گے؟
تو اور کس لیے انہیں قید خانے میں بھیجا ہے سپہ سالار حجازی نے جواب دیا کل سب کے سامنے ان کی گردنوں پر تلواریں چل جائینگی
میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں نائب سالار اوریزی نے کہا یہ آخری بات ہوگی جو میں آپ سے کروں گا اس کے بعد میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ حالات کیا کروٹ بدلیں گے آپ یوں کریں کہ کل ان دونوں سپاہیوں کو قید خانے سے نکال کر ادھر سے انہیں گھروں کو بھیج دیں فوج سے تو وہ نکال ہی دیے گئے ہیں پھر میں آپ کے ساتھ سلطان تک چلوں گا اور کہوں گا کہ ہم دونوں کی موجودگی میں قید خانے میں ان کے سر کاٹ دیے گئے ہیں اور انہیں دفن بھی کر دیا گیا ہے
پھر جانتے ہو سلطان کیا کہے گا ؟
سپہ سالار حجازی نے کہا وہ کہے گا کہ میرے حکم کے مطابق ان کی گردنیں سرعام فوج کے دونوں دھڑوں کے سامنے کیوں نہیں کاٹی گئیں
اس کا جواب میں دوں گا نائب سالار اوریزی نے کہا میں کہوں گا کہ سب کے سامنے انہیں قتل کیا جاتا تو فوج کے دونوں دھڑوں میں فساد کا خطرہ تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ یہ دونوں سپاہی بے گناہ ہیں
اوریزی بھائی! سپہ سالار حجازی نے کہا حکم سلطان کا نہیں سلطان کی بیگم کا ہے وہ قید خانے سے معلوم کروا لی گی کہ اس کے حکم کی تعمیل ہوئی ہے یا نہیں تم خاموش ہی رہوں تو ہم دونوں کے لیے بہتر ہے
اوریزی خاموش رہا اور سر جھکا کر کے ہی سوچ میں کھو گیا وہ جان گیا تھا کہ وہ ایک پتھر سے ہم کلام ہے
انہیں کل کس وقت اور کہاں سزائے موت دی جائے گی؟
نائب سالار اوریزی نے بدلے ہوئے سے لہجے میں پوچھا اور ذرا سوچ کر کہا مجھے آپ کا ساتھ دینا پڑے گا ورنہ آپ مارے جائیں گے
زندہ باد اوریزی! سپہ سالار حجازی نے خوش ہوتے ہوئے اوریزی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا مجھے تم سے یہی توقع تھی میں تمہارے اس تعاون کے لئے ساری عمر ممنون رہوں گا میں جانتا ہوں کہ میرے ہاتھوں کیا گناہ کروایا جارہا ہے
اللہ بخشنے والا مہربان ہے اوریزی نے کہا آپ مجبور ہیں اللہ آپ کو معاف کر دے گا انہیں کونسی جگہ یہ سزا دی جائے؟
وقت اور جگہ تم خود مقرر کر لو سپہ سالار حجازی نے اوریزی کو خوش کرنے کے لیے کہا تم جو جگہ مقرر کرو گے میں اسی کو مان لوں گا
اوریزی اٹھا سپہ سالار حجازی سے ہاتھ ملایا اور وہاں سے آگیا اگلے روز سورج کے طلوع ہوتے ہی یہ ظالمانہ منظر دیکھا کہ ایک طرف نکالی جانے فوج کے پندرہ سولہ ہزار آدمی کھڑے تھے ان کے سامنے خاصے فاصلے پر وہ فوج کھڑی تھی جسے رکھا جا رہا تھا ان کے درمیان دو سپاہی کھڑے تھے جن کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے دونوں کے قریب ایک ایک آدمی چوڑے پھل والی تلواریں لیے کھڑے تھے اس جگہ درختوں کی بہتات تھی بالکل قریب بڑ کی قسم کے دو گھنے درخت تھے منظر خاصہ خوبصورت تھا لیکن خوبصورتی میں موت کی سانسیں صاف سنائی دے رہی تھیں ان دو سپاہیوں کو کچھ دیر بعد سزائے موت دینی تھی ایک نوجوان تھا اور دوسرا ادھر عمر یہ بدنصیب اسی شہر کا رہنے والا تھا کچھ دور شہر کے لوگ کھڑے تھے یہ خبر ان تک بھی پہنچ گئی تھی ان لوگوں میں اس ادھیڑ عمر سپاہی کی بیوی اور چھوٹے چھوٹے دو بچے بھی کھڑے تھے بیوی بھی رو رہی تھی اور بچے بھی بیوی نے ایک بار سپہ سالار حجازی تک رحم کے لیے پہنچنے کی کوشش کی تھی لیکن فوجیوں نے اسے دھکے دے کر پیچھے کردیا تھا شہریوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں
سپہ سالار حجازی گھوڑے پر سوار وہاں آیا اور دونوں بے گناہ سپاہیوں کے پاس گھوڑا روک کر اعلان کیا کہ فوج کا جو عہدیدار قتل ہوا ہے اس کے قاتل یہ دونوں ہیں اور مصدقہ شہادت ملی ہے کہ قاتل یہی ہیں
یہ سپہ سالار جھوٹ بول رہا ہے ادھیڑ عمر سپاہی نے چلا کر کہا اس سے پوچھو یہ کون سے قاضی کا فیصلہ ہے
ایک جلاد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش کر دیا
سپہ سالار حجازی نے اپنا اعلان یہ کہہ کر مکمل کیا کہ ان دونوں کو تم سب کے سامنے سزائے موت دی جا رہی ہے
سپہ سالار ایک طرف چلا گیا دونوں جلادوں نے دونوں فوجیوں کو دو زانو بیٹھا دیا اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر سر نیچے کر دئیے پھر دونوں نے اپنی تلوار اوپر اٹھائی دو بے گناہوں کی زندگی اور موت کے درمیان صرف دو یا تین لمحے رہ گئے تھے تلواروں کا ایک ایک وار ہی کافی تھا
تلوار اور اوپر اٹھی تو تماشائیوں کے اتنے بڑے ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا جیسے وہاں کوئی انسان موجود ہی نہ ہو تلوار اور اوپر اٹھی اور انہیں زناٹے سے نیچے آنا تھا زناٹے تو سنائی دیے لیکن وہ تلواروں کے نہیں بلکہ دو تیروں کے تھے ایک تیر ایک جلاد کے سینے میں اور دوسرا دوسرے جلاد کے سینے میں اتر گیا تھا وہ بے گناہوں کی جانیں لینے والے اپنی جانیں گنوا بیٹھے
یہ تیر کس نے چلایا سپہ سالار حجازی نے ایسی آواز میں کہا جس میں گھبراہٹ بھی تھی غصہ بھی فوراً پکڑو انہیں فوج میں کچھ حرکت ہوئی
نائب سپہ سالار اوریزی گھوڑا دوڑاتا آیا اور بے گناہ سپاہیوں اور مرے ہوئے جلادوں کے پاس آ رکا
خبردار اوریزی نے بلند آواز میں کہا کوئی حرکت نہ ہو اللہ نے انصاف کر دیا ہے یہ دونوں بے گنا ہیں سپہ سالار سے پوچھو انہیں کون سے قاضی نے سزائے موت دی ہے اور کس کس کی شہادت پر سزا دی ہے کیا تم مسلمان ہو؟
کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ جسے چاہوں پکڑ کر اس پر قتل کا الزام لگا دو اور اس کی گردن مار دو؟
کیا تم سب کافر ہو کر مرنا چاہتے ہو؟
ہر طرف خاموشی طاری رہی اوریزی نے ان فوجیوں کی طرف دیکھا جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا
کچھ آدمی آگے آؤ اس نے کہا اپنے ساتھیوں کو لے جاؤ
چار آدمی دوڑے آئے اور وہ اپنے بے گناہ ساتھیوں کے ہاتھ کھول کر انہیں ساتھ لے گئے ادھر سے ادھیڑ عمر سپاہی کی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ دوڑتی آئی باپ نے اپنے دونوں بچوں کو اٹھا لیا اور انہیں پیار کرنے لگا
فوج میں کوئی حرکت نہ ہوئی سپہ سالار ابوجعفر حجازی وہاں سے چلا گیا وہ سلطان برکیارق کو بتانے جارہا تھا کہ اس کے حکم کی تعمیل نہیں ہوسکی اور اس کا ذمہ دار اوریزی ہے
سپہ سالار حجازی کو تو معلوم ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ دو تیر کہاں سے آئے تھے یہ اوریزی کا انتظام تھا ان بے گناہ سپاہیوں کو سزا دینے کی جگہ اسی نے انتخاب کیا تھا وہاں قریب ہی بڑ جیسے دو گھنے درخت تھے ان کے چوڑے پتوں میں بیٹھا ہوا آدمی کسی کو نظر نہیں آ سکتا تھا اوریزی نے رات کو دو تجربے کار تیرانداز تیار کر دیے تھے اور انہیں یہاں لا کر اچھی طرح بتا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے دونوں تیرانداز صبح طلوع ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک درخت اور دوسرا دوسرے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے تھے
سپہ سالار حجازی جاچکا تھا فوج حکم کی منتظر کھڑی تھی نائب سالار اوریزی نے فوج کو بارکوں میں چلے جانے کا حکم دیا اور خود اس انتظار میں اپنے ٹھکانے پر چلا گیا کہ ابھی سلطان کا بلاوا آئے گا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:34 }
سالار اوریزی کی کاروائی بڑا ہی سنگین جرم تھا سلطان نے دو سپاہیوں کو سزائے موت دی تھی لیکن سالار اوریزی نے جلادوں کو مروا دیا اور سپاہیوں کو رہا کرا لیا اس نے دوسرا جرم یہ کیا کہ سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے یہ حکم دیا ان تیر اندازوں کو ڈھونڈو اور پکڑو لیکن سالار اوریزی نے اس کے قریب آ کر للکارا اور کہا خبردار کوئی آگے آنے کی جرات نہ کرے یہ حکم عدولی نہیں بلکہ غداری تھی
یہ الگ بات ہے کہ سپہ سالار حجازی کو سالار اوریزی کی یہ باغیانہ کاروائی اچھی لگی تھی یا بری لگی تھی اسے دراصل خوشی اس بات پر ہوئی تھی کہ اسے سلطان برکیارق کے پاس جانے کا ایک بڑا ہی معقول بہانہ مل گیا تھا اور اس کے ساتھ سالار اوریزی کو سالاری سے معزول کرانے کا موقع بھی مل گیا تھا اسے توقع تھی کے سلطان سالار اوریزی کو صرف معزول نہیں کرے گا بلکہ اسے کوئی اور سزا بھی دے گا پہلے یہ گزر چکا ہے کہ سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کا خوشامدی اور وہ سلطان کے آگے زرخرید غلاموں کی طرح حرکتیں کر کر کے بہت خوش ہوتا تھا اس کے مقابلے میں سالار اوریزی خوددار اور باوقار سالار تھا جس کی اپنی ایک آزاد شخصیت تھی وہ سلطان کا ہر حکم صرف اس لیے نہیں مانتا تھا کہ یہ سلطان کا حکم ہے بلکہ وہ دیکھتا تھا فوجی نقطہ نگاہ سے یہ حکم سلطنت کے لیے نقصان دے تو نہیں یہ سالار اوریزی کا ایمان تھا لیکن سپہ سالار حجازی اسے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتا تھا
سپہ سالار حجازی وہاں سے سلطان برکیارق کے ہاں گیا اور اپنے آنے کی اطلاع دی سلطان نے اسے اسی وقت اندر بلا لیا وہ اندر گیا اور رکوع میں جاکر سلطان کو سلام کیا
کام کر آئے حجازی! سلطان برکیارق نے پوچھا دیکھنے والوں پر دہشت تو طاری ہوگئی ہوگی اب کوئی کسی کو قتل نہیں کرے گا
گستاخی معاف سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے سلطان کے اشارے پر بیٹھتے ہوئے کہا آپ کے حکم کی تعمیل نہیں ہوسکی
کیوں؟
سلطان نے بدک کر پوچھا حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوسکی؟
دونوں جلاد تیروں سے مارے گئے ہیں سپہ سالار حجازی نے کہا
کس نے مارے ہیں؟
سلطان برکیارق نے پوچھا کون تھے وہ تیرانداز کیا انہیں آپ نے پکڑ لیا ہے؟
سپہ سالار حجازی نے سلطان کو پورا واقعہ تفصیل سے سنایا اور سالار اوریزی کے خلاف بغاوت کا جرم ثابت کرنے کے لئے اور بھی بہت کچھ کہا
سلطان عالی مقام! حجازی نے کہا وہ تو کب کا میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ میں سلطان کا یہ حکم نہ مانوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے یہ دونوں تیرانداز اسی کے تھے
یہ جرات سلطان برکیارق نے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا یہ مجال؟
اسے قید خانے کے تہہ خانے کی اس کوٹھری میں بند کردو جس میں سب سے زیادہ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں
اس نے سلطان کی توہین کی ہے روزینہ نے کہا اسے عبرت کا نشان بنا دو ہم یہاں بلا کر اسے سزا دلائیں گے اسے زنجیروں میں باندھ کر یہاں سے بھیجیں گے آپ اسے بازار میں سے گزارنا اور کسی چوک میں کھڑا کر کے لوگوں کو اکٹھا کر لینا اور اعلان کرنا کہ یہ سلطان کا باغی اور غدار ہے اسے ابھی بلایا جائے
ہاں! اسے ابھی بلایا جائے سلطان برکیارق نے اپنی بیوی کا حکم دہرایا
جس وقت سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کی طرف چلا تھا اس وقت نائب سالار اوریزی اپنے ٹھکانے کی طرف چلا گیا تھا اس نے فوج کو واپس بارکوں میں بھیج دیا تھا وہ جب وہاں سے چلا تو اس کے ساتھ چار پانچ آدمی اس نفری میں سے تھے جسے فوج میں سے نکل جانے کا حکم ملا تھا وہ ابھی تک خیموں میں رہتے تھے
میرے رفیقو! سالار اوریزی نے ان چار پانچ آدمیوں سے کہا توقع تو یہ ہے کہ مجھے جلاد کے حوالے کیا جائے گا یا عمر بھر کے لئے قید خانے میں پھینک دیا جائے گا دونوں صورتوں میں مجھے پہلے قید خانے میں لے جائیں گے میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ تم نے کیا کرنا ہے میں تمہیں یہ بھی بتاؤں گا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں ہوگا تو تم نے اس ثابق فوجیوں کو اور شہر کے ہم خیال لوگوں کو اپنے ساتھ کس طرح ملانا ہے ہم بہت سا کام تو کرہی چکے ہیں لیکن میں ڈرتا ہوں کہ تم میری قیادت سے محروم ہو جاؤ گے تو حوصلہ ہی نہ ہار بیٹھو
ہم آپ کی قیادت سے محروم نہیں رہیں گے ایک ادھیڑ عمر فوجی نے کہا ہمیں پوری امید ہے کہ ہم آپ کو جلاد تک پہنچنے ہی نہیں دیں گے
اوریزی نے انہیں کچھ ہدایات دینی شروع کردیں
میں راز کی ایک بات تمہیں آج بتا دیتا ہوں سالار اوریزی نے کہا سلطان ملک شاہ مرحوم کا دوسرا بیٹا محمد اور اس سے چھوٹا سنجر ہمارے ساتھ ہیں اب میری گرفتاری کے بعد جو کچھ بھی ہو گا اس کی اطلاع محمد رے تک پہنچائے گا میں نہ ہوا تو ابومسلم رازی تمہارا سالار اور قائد ہوگا
سالار اوریزی اپنی ہدایات مکمل کر چکا تھا کہ اطلاع ملی کہ سلطان کا بلاوا آیا ہے
میں جاتا ہوں سالار اوریزی نے اپنے آدمیوں سے کہا گھوڑے تیار کرو اور دو آدمی میرے محافظ بن کے میرے ساتھ چلو سالار اپنے محافظ ساتھ لے جا سکتا ہے مجھے اب سزا سنائی جائے گی جس کا دونوں محافظوں کو ہی پتہ چل جائے گا وہ وہاں سے کھسک آئیں گے اور یہاں بتائیں گے کہ مجھے کیا سزا سنائی گئی ہے پھر تم لوگوں نے اپنی کارروائی کرنی ہے میں جارہا ہوں اللہ تمہارا مددگار ہے
سالار اوریزی اپنے ان آدمیوں سے ہاتھ ملا کر باہر نکلا دو محافظ تیار ہوچکے تھے سالار اوریزی گھوڑے پر سوار ہوا جب وہ حویلی کے بڑے دروازے کے سامنے سے گزرنے لگا تو اس کی بیوی اور ایک جوان بیٹی اس کے راستے میں آگئی بیٹی نے اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی
نہ جائیں! بیٹی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ آپ کیا کر آئے ہیں سلطان آپ کی جان بخشی نہیں کرے گا یہی سے کسی طرف بھاگ جائیں ہم آپ کے پیچھے پہنچ جائیں گے
میں آپ کو یہاں سے نکلوا دیتی ہوں بیوی نے کہا سلطان کے سامنے نہ جائیں وہ آپ کی وفا کی کوئی قیمت نہیں دے گا وہ آپ کی گردن کٹوا دے گا
بیٹی رو رو کر اسے روک رہی تھی لیکن اوریزی مسکرا رہا تھا
پریشان نہ ہو بیٹی! سالار اوریزی نے بڑے پیار سے کہا میں جو کچھ کر رہا ہوں مجھے کرنے دو وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا میں جانتا ہوں تم بڑے ہیں حوصلے اور جرات والی عورت ہو میں جو کچھ کر رہا ہوں سوچ سمجھ کر اور اللہ پر بھروسہ رکھ کر کر رہا ہوں اندر جاؤ اور میرے لئے دعا کرو
ماں بیٹی روتی رہیں اسے روکتی رہیں لیکن سالار اوریزی انہیں خدا حافظ کہہ کر چلا گیا دو محافظ اس کے پیچھے پیچھے گھوڑوں پر سوار جارہے تھے بیٹی اور اس کی ماں نے ہاتھ پھیلا کر اور آسمان کی طرف دیکھ کر اس کی سلامتی کی دعائیں مانگی ان کی آہوں اور ان کے آنسوؤں میں بھی دعائیں تھی
وہ سلطان کے محل میں جا پہنچا اور اندر اطلاع پہنچائی اسے فوراً بلا لیا گیا
سالار اوریزی جب سلطان برکیارق کے سامنے گیا تو جھکا نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرح السلام علیکم کہا اور پوچھا کہ اس کے لیے کیا حکم ہے؟
سلطان نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا اور اسے بیٹھنے کو بھی نہ کہا
کیا یہ سچ ہے کہ تم نے دونوں جلادوں کو تیر اندازوں سے مروا دیا ہے؟
سلطان نے اس سے پوچھا
ہاں سلطان محترم! سالار اوریزی نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا جلادوں کو میں نے مروایا ہے
کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ ان دو سپاہیوں کو میرے حکم سے سزائے موت دی جا رہی تھی؟
سلطان برکیارق نے غصیلے لہجے میں پوچھا
معلوم تھا سلطان محترم! سالار اوریزی نے جواب دیا
پھر تم نے میرے حکم کی تعمیل میں یہ رکاوٹ کیوں ڈالی؟
سلطان نے گرج کر پوچھا
اس لئے کہ کسی کو سزائے موت دینے کا جو حکم اللہ نے دیا ہے آپ نے اس حکم کے تقاضے پورے نہیں کیے تھے سالار اوریزی نے کہا آپ ان دو معصوم اور بے گناہ سپاہیوں کو نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کو قتل کروا رہے تھے
یہاں میرا حکم چلتا ہے سلطان برکیارق نے اپنی ران پر بڑے زور سے ہاتھ مار کر کہا
اور میں بحیثیت ایک مسلمان صرف اللہ کا حکم مانتا ہوں یہ سلطنت آپ کی نہیں یہ اللہ کی دی ہوئی سلطنت ہے اسلامی سلطنت میں صرف اسلامی قانون چلے گا آپ مجھے حکم دیں کہ اپنے پیٹ میں تلوار گھونپ دوں کہ اس سے سلطنت کو فائدہ پہنچے گا تو میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا
تم زبان دراز ہو روزینہ بولی اس سلطنت میں کوئی زبان دراز نہیں رہ سکتا تم سالاری کے قابل نہیں
محترمہ! سالار اور یزی نے کہا یہ الموت نہیں یہ مرو ہے یہ باطنیوں کی نہیں مسلمانوں کی سلطنت ہے یہاں حسن بن صباح کا حکم نہیں چلے گا
خاموش بدتمیز! سلطان برکیارق اور زور سے گرجا میں تمہیں اس گستاخی کی ایسی سزا دوں گا کہ دیکھنے والے عبرت حاصل کریں گے
کان کھول کر سن لو سلطان! سالار اوریزی نے کہا میں جانتا ہوں کہ آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ہے میں صرف اللہ سے ڈرتا ہوں تمہارے جلاد کے ہاتھوں سر کٹواوں گا اللہ کے حضور سرخرو ہو جاؤنگا میں صرف اللہ کے آگے جوابدہ ہوں
اس گستاخ زبان داز کو سالاری سے معزول کر دیں
روزینہ نے کہا
نہیں روزینہ! سلطان برکیارق نے کہا میں اسے صرف معزول نہیں کروں گا اسے اور بھی سزا دینی ہے
مجھے سالاری تم نے نہیں تمہارے باپ نے دی تھی سالار اوریزی نے کہا تم مجھ سے سالاری چھین لوگے تو بھی میں اپنی قوم کا سالار ہی رہوں گا اور اس سلطنت کی عظمت اور بقا کے لئے اپنے فرائض پورے کرتا رہوں گا میں ان شہیدوں کی روحوں کے آگے جوابدہ ہوں جن کا خون اس سلطنت کی بنیادوں میں ابھی تک تازہ ہے
میں اپنی اس سے زیادہ توہین برداشت نہیں کر سکتا سلطان برکیارق نے قہر آلود آواز میں کہا اور سن لو اوریزی
یہ عورت! سالار اوریزی نے روزینہ کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ عورت سلطان کی سراپا توہین ہے یہ آستین کا سانپ ہے پھر اس نے سپہ سالار حجازی کی طرف اشارہ کرکے کہا اور سلطان کی آستین میں دوسرا سانپ یہ شخص ہے یہ تمہیں آنے والا وقت بتائے گا
سلطان المقام! سپہ سالار حجازی تڑپ کر بولا اسے آپ مزید توہین کی اجازت نہ دیں اور اسے سزا سنادیں
ہاں سلطان! روزینہ نے کہا اسے سزائے موت نہ دیں عمر بھر کے لئے قید خانے میں ڈال دیں جہاں یہ گل سڑ کر مرے گا مرنے سے پہلے اسے وقتاً فوقتاً باہر نکالیں اور بیڑیاں ڈال کر شہر کے لوگوں کے سامنے کھڑا کریں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ ہے سزا باغی اور غدار کی
سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کو یہی سزا سنا دی اور کہا کہ اس کی تلوار اس سے لے لی جائے
سالار اوریزی نے اپنی تلوار اور نیام اتارکر سلطان کی طرف پھینک دی
یہ لو تلوار سلطان! سالار اوریزی نے کہا میں اس وقت جہاد کے میدان میں اترا تھا جب تم ابھی ماں کا دودھ پی رہے تھے اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر کے کہا یہ ہاتھ تلوار سے کبھی خالی نہیں رہیں گے جذبہ اور ایمان زندہ رہنا چاہیے ان ہاتھوں میں اللہ تعالی خود تلوار دے گا
سلطان برکیارق نے قہقہہ لگایا اور روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ بھی ہنس پڑی
اس شخص کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا ہے سلطان برکیارق نے کہا میں اسے اس کال کوٹھری میں بھجوا رہا ہوں جہاں یہ ایک سال بھی زندہ نہیں رہے گا اور یہ کہتا ہے کہ اللہ اس کے ہاتھ میں تلوار دے گا او بدقسمت انسان تلوار اگر کبھی تمہارے پاس آئی بھی تو وہ تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ جلاد کے ہاتھ میں ہوگی اور تمہارا سر جھکا ہوا ہوگا لے جاؤ اسے
ٹھہرجاؤ! روزینہ نے کہا ہمارے سامنے اس کے ہاتھ بیٹھ کے پیچھے باندھو اور باہر لے جا کر اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں بلکہ پیدل لے کر جاؤ اور اتنا آہستہ چلنا کہ لوگوں کا ہجوم تمہارے پیچھے اکٹھا ہو جائے اور پھر اسے چوک میں کھڑا کر کے لوگوں کو بتانا کہ غداری اور بغاوت کی سزا یہ ہے اور پھر اسے چوک سے فوراً آگے نہ لے جانا زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھیں
سپہ سالار حجازی دوڑتا باہر نکلا واپس آیا اور اس کے ساتھ سلطان کے دو محافظ تھے انہوں نے زنجیریں اور بیڑیاں اٹھا رکھی تھیں جو اوریزی کو ڈال دی گئی
لے جاؤ اسے سلطان برکیارق نےکہا
سلطان! سالار اوریزی نے مسکرا کر کہا میں واپس آؤنگا ان شاءاللہ اس وقت تم سلطان نہیں ہو گے
سالار اوریزی کو جب باہر لایا گیا تو اس کے دونوں گھوڑسوار محافظ ذرا دور کھڑے دیکھ رہے تھے اپنے سالار کو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ اسے قید خانے میں لے جایا جارہا ہے وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور وہاں سے چلے گئے
زنجیر کا ایک سرا سپہ سالار حجازی کے ہاتھ میں تھا جو اس نے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا اس نے بارہ گھوڑسوار محافظ اپنے ساتھ لے لیے اور وہاں سے چل پڑا
آگے آگے وہ جا رہا تھا اس کے گھوڑے کے ساتھ بندھا ہوا سالار اوریزی پیدل چلا جا رہا تھا اور پیچھے بارہ محافظ چل رہے تھے سلطان کے محل سے نکل کر سپہ سالار حجازی اس راستے پر ہو گیا جس راستے میں شہر کی آبادی زیادہ تھی شہر کے کئی لوگ سالار اوریزی کو جانتے اور پہچانتے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ اوریزی کو زنجیروں میں بندھا لے جایا جا رہا ہے تو لوگ پہلے تو حیران ہوئے پھر پیچھے پیچھے چل پڑے وہ محافظوں سے پوچھتے تھے کہ سالار اوریزی نے کیا جرم کیا ہے محافظ لوگوں کو صرف یہی ایک جواب دیتے تھے کہ سالار اوریزی نے بغاوت اور غداری کی ہے
قیدخانہ شہر سے باہر اور کچھ دور تھا اس کے اردگرد گھنا جنگل اور راستے میں تھوڑا سا علاقہ چٹانی بھی تھا قید خانے تک باہر سے جایا جا سکتا تھا لیکن سپہ سالار حجازی اوریزی کو شہر میں لے گیا اور ایک ایسے چوک میں جا روکا جہاں چار بازار ملتے تھے کچھ تو راستے میں لوگ پیچھے پیچھے چل پڑے تھے اور زیادہ تر بازار میں آنے والے لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے سپہ سالار حجازی نے لوگوں سے کہا کہ اسے لمبی میز کی ضرورت ہے ذرا سے وقت میں ایک لمبی اور مضبوط میز آگئی یہ میز چوک میں رکھ کر سالار اوریزی کو اس پر کھڑا کر دیا گیا اور حجازی خود گھوڑے سے اتر کر میز پر اوریزی کے پاس جا کھڑا ہوا اوریزی کی زنجیر اس کے ہاتھ میں تھی گھوڑسوار محافظوں نے اپنی ترتیب اس طرح کرلی کہ دائرے میں ذرا دور دور کھڑے ہوگئے تاکہ لوگ آگے نہ جا سکیں
اگر اوریزی چور ڈاکو یا قاتل ہوتا تو لوگ اسے دیکھ کر ہنستے اس پر لعن طعن کرتے لیکن لوگ جانتے تھے کہ یہ سالار اوریزی ہے اس لئے وہ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ اس سالار سے کیا جرم سرزد ہوگیا ہے
اسی صبح جب دو سابق فوجیوں کو سزائے موت دی جانے لگی تھی شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو ایک ہجوم یہ تماشہ دیکھنے پہنچ گیا تھا وہ تو کوئی اور تماشہ دیکھنے آئے تھے لیکن وہاں کوئی اور ہی تماشہ ہو گیا وہاں جلاد ہی مارے گئے اور لوگوں نے سالار اوریزی کو دیکھا کہ وہ گھوڑا دوڑاتا مرے ہوئے جلادوں کے پاس جا پہنچا اور اس نے مارے جانے والے دونوں آدمیوں کو آزاد کردیا تھا لوگ سمجھ نہ سکے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے اب جس وقت وہ سالار اوریزی کو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا دیکھ رہے تھے اس وقت تک بیشتر لوگوں کو پتہ لگ چکا تھا کہ یہ دونوں آدمی بے گناہ تھے جنہیں سالار اوریزی نے رہا کروایا تھا اس سے لوگوں کے دلوں میں سالار اوریزی کا احترام پیدا ہوگیا تھا
سپہ سالار حجازی نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے لوگ خاموش ہوگئے
اس شخص کو اچھی طرح پہچانو یہ کون ہے سپہ سالار حجازی نے سالار اوریزی کی طرف اشارہ کرکے کہا اسے سلطان محترم نے عمر قید کی سزا دی ہے جانتے ہو کیوں؟
یہ سلطان کا باغی اور غدار ہے یہ شخص قاتلوں کا ساتھی ہے اس نے دو قاتلوں کو سزائے موت سے چھڑوانے کے لیے دو جلادوں کو قتل کروایا ہے یہ فوج بغاوت پیدا کر رہا تھا
اور میرے ساتھ اس سپہ سالار کو بھی پہچان لو اوریزی نے ہنستے ہوئے کہا یہ عیاش سلطان برکیارق کا پوجاری ہے مجھے سلطان نے غدار نہیں کہا بلکہ اسکی باطنی بیوی نے کہا ہے یہ سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کی اس باطنی بیوی کے آگے سجدہ کرتا ہے
خاموش رہ غدار! حجازی نے اوریزی کو ڈانٹ کر کہا اپنے گناہوں پر جھوٹ کا پردہ مت ڈال ورنہ یہی زبان کھینچ لوں گا
بولنے دو اسے ہجوم میں سے کچھ آوازیں سنائی دیں اسے بولنے دو ہمیں پتہ چلنے دو ہوا کیا ہے
سپہ سالار حجازی نے دیکھا کہ لوگوں کا رد عمل اور رویہ کچھ اور ہے تو وہ ذرا دب گیا ہجوم اب شور بپا کرنے لگا تھا کہ اور اسی کو بولنے دیا جائے صاف پتہ چلتا تھا کہ لوگوں کی ہمدردیاں اوریزی کے ساتھ ہیں
میں نے آج صبح دو بےگناہوں کو جلادوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا ہے اوریزی نے بلند آواز میں کہا انہیں ایک فوجی عہدیدار کا قاتل نہ ملا تو سلطان نے بلکہ سلطان کی بیوی نے یہ فیصلہ سنایا کہ سابق فوجیوں میں سے کوئی دو فوجی پکڑ لئے جائیں اور ان کی گردنیں کاٹ دی جائیں اور لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ دو آدمی قاتل تھے
اے لوگو! سپہ سالار حجازی نے کہا اس کی مت سنو یہ تو دھتکارا ہوا مجرم ہے
لوگ شور بپا کیے جارہے تھے سپہ سالار حجازی کے لیے حکم تھا کہ اوریزی کو زیادہ سے زیادہ دیر چوک میں کھڑا رکھا جائے مقصد اس کی تذلیل تھی خود حجاجی بھی یہی چاہتا تھا کہ اوریزی کو خوب ذلیل و خوار کیا جائے لیکن اب لوگوں نے کچھ اور ہی انداز سے واویلا بپا کردیا تھا وہ سوچنے لگا کہ اوریزی کو فوراً قید خانے تک پہنچا دیا جائے لیکن وہ روزینہ سے ڈرتا تھا کہ اسے پتہ چل گیا کہ اوریزی کو زیادہ دیر چوک میں کھڑا نہیں رکھا گیا تو وہ ناراض ہو گی
اے اہل اسلام! سالار اوریزی نے بڑی بلند آواز میں کہا اس اسلامی سلطنت کی حفاظت کے لیے بیدار اور چوکس ہوجاؤ حسن بن صباح آرہا ہے اس شہر میں باطنی چلے آرہے ہیں وہ تخریب کاری کے لیے آئے ہیں اور آرہے ہیں سلطنت کی اصل حکمران ایک باطنی عورت ہے اور سلطان برکیارق برائے نام سلطان ہے اس سلطنت سے عدل و انصاف اٹھ گیا ہے
اس وقت جب سالار اوریزی کو چوک میں کھڑا کرکے ذلیل و رسوا کیا جا رہا تھا اس سے کچھ دیر پہلے سلطان برکیارق کی ماں اور اس کے دوسرے دونوں بیٹوں محمد اور سنجر کو پتہ چلا کہ سالار اوریزی کو یہ سزا دی گئی ہے اور اس کا اصل جرم کیا ہے محمد اور سنجر تو خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن ان کی ماں سے نہ رہا گیا وہ غصے سے اٹھی اور باہر نکلی ایک خادم آرہا تھا اس نے برکیارق کی ماں کو دیکھا تو رک گیا
مادر سلطان! اس خادم نے کہا میں بازار سے آرہا ہوں سالار اوریزی کو سپہ سالار حجازی نے چوک میں کھڑا کر رکھا ہے اور وہاں لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں
تو اس بیچارے کو ذلیل بھی کیا جارہا ہے۔ ماں نے حیرت سے کہا وہ اپنے بیٹے سلطان برکیارق کے کمرے کی طرف لمبےلمبے ڈگ بھرتی چل پڑی کہاں ہے میرا بیغیرت بیٹا! ماں کہتی چلی جارہی تھی میں نے تو حلال کا جنا تھا اس کے باپ کو دھوکا نہیں دیا تھا میں نے اپنی اولاد کے خون میں ملاوٹ نہیں کی تھی اس کی رفتار تیز ہوتی جا رہی تھی اور کہہ رہی تھی کیا اس نے اوریزی کو گرفتار کرلیا ہے ؟
یہ اس باطنی چڑیل کا کام ہے
روزینہ اپنے کمرے میں تھی اسے برکیارق کی ماں کی آوازیں سنائی دینے لگیں اس نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھا اسے برکیارق کی ماں آتی نظر آئی روزینہ نے بڑی تیزی سے ایک طرف جا کر دربان کو بلایا
اسے روک لو روزینہ نے دربان سے کہا کہنا سلطان سو رہے ہیں اسے اندر نہ آنے دینا
دربارن برکیارق کی ماں کے راستے میں کھڑا ہوگیا اور اسے روک دیا یہ بھی کہا کہ سلطان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ سو رہے ہیں لیکن ماں نے اسے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا اور آگے کو چل پڑی
روزینہ بہت ہی چالاک لڑکی تھی اس نے دیکھا کہ ماں روک نہیں رہی تو وہ دوڑی آئی باہر نکلی اور برکیارق کی ماں کے آگے جا کھڑی ہوئی اور بڑے پیار سے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اتنے غصے میں ہیں؟
کیا تمہارے دربان مجھے روک لیں گے ماں نے غصے کے عالم میں کہا روزینہ نے دربان کو ڈانٹ کر کہا کہ اس نے انہیں روکا کیوں ہے کیا وہ بھول گیا ہے کہ یہ عظیم خاتون کون ہیں؟
دربان خاموش کھڑا روزینہ کا منہ دیکھتا رہا
کیا برکیارق سویا ہوا ہے؟
ماں نے روزینہ سے پوچھا
اگر وہ سوئے ہوئے ہیں تو بھی آپ کے لیے جاگ اٹھیں گے روزینہ نے احترام کی اداکاری کرتے ہوئے کہا آپ میرے کمرے میں آ کر بیٹھیں میں انہیں اٹھا کر یہی لے آؤں گی ماں روزینہ کی باتوں میں آ گئی اور اس کے ساتھ اس کے کمرے میں جا بیٹھی روزینہ کمرے سے نکل گئی اور سلطان برکیارق کے پاس چلی گئی اسے بتایا کہ اس کی ماں واہی تباہی بکتی آئی ہے اور اس نے ماں کو دوسرے کمرے میں ذرا ٹھنڈا کرکے بیٹھا لیا ہے
تو میں اس کا کیا علاج کروں؟
برکیارق نے پوچھا
وہ ماں ہے روزینہ نے کہا اس کا احترام ہم پر فرض ہے لیکن وہ ایک باغی اور غدار سالار کا ساتھ دے رہی ہے آپ سلطنت کے مفاد کو دیکھیں گے یا ماں کے احترام کو
میں تو سلطنت کے مفاد کو پہلے دیکھوں گا برکیارق نے کہا تم مجھے یہ بتاؤ کہ میں ماں کے سامنے جاؤں یا نہ جاؤں؟
آپ یہاں سے ادھر ادھر ہو جائیں تو اچھا ہے روزینہ نے کہا
ادھر محمد اور سنجر کو پتہ چلا کہ ان کی ماں بڑے غصے میں برکیارق کی طرف گئی ہے تو انہیں فکر ہوا کہ برکیارق اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے گا دونوں ماں کے پیچھے دوڑ پڑے وہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کی ماں فلاں کمرے میں ہے وہ دونوں اس کمرے میں گئے تو ماں کو بڑے غصے میں ٹہلتے دیکھا
چلو ماں! محمد نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا یہاں آپ کیا لینے آئی ہیں آپ کے اس بیٹے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا
میں اس کا دماغ ٹھیک کرنے آئی ہوں ماں نے کہا میں نہیں کروں گی تو اور کون کرے گا
ہم دونوں بھائی کریں گے محمد نے کہا ہم نے انتظام کر دیا ہے آپ یہاں سے چلیں
ماں جانے پر راضی نہیں ہو رہی تھی محمد اور سنجر کی بہت باتوں اور منت سماجت کے بعد وہ اس پر راضی ہوئی کہ وہ اسی کمرے میں بیٹھی رہے گی اور دونوں بھائی برکیارق کے پاس جائیں گے
میں اس کے پاس کیوں نہ جاؤں؟
ماں نے پوچھا
میں بتاتا ہوں آپ کیوں نہ جائیں سنجر بولا اگر ہمارے اس بڑے بھائی برکیارق نے ہمارے سامنے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں اسے یہیں ختم کر دوں گا کیا آپ اپنے ایک بیٹے کو دوسرے بیٹے کے ہاتھوں مروانا پسند کریں گی؟
وہ آخر ماں تھی اس پر سنجر کی اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس کا منہ ذرا کھل گیا اور آنکھیں ٹھہر گئیں وہ آہستہ سے بیٹھ گئی اور اس نے سر سے اشارہ کیا کہ تم جاؤ میں یہیں بیٹھوں گی
محمد اور سنجر برکیارق سے ملنے کمرے سے نکل گئے ماں اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر رونے لگی اس نے آہ لے کر کہا یہ وقت بھی دیکھنا تھا
آؤ بیٹھو! برکیارق نے اپنے بھائیوں سے کہا اور پوچھا؟
ماں کو کیا ہوگیا ہے سنا ہے وہ چیختی چلاتی یہاں آئی ہے وہ پاگل تو نہیں ہوگئی ؟
ابھی ہوئی تو نہیں بھائی جان! محمد نے کہا ہوجائے گی
جلدی پاگل ہوجائے گی سنجر نے کہا
ابھی تو وہ مجھے پاگل سمجھتی ہے برکیارق نے کہا اب وہ کیا کہنے آئیں ہیں؟
وہ سلطنت کی تباہی کو برداشت نہیں کرسکتی محمد نے پراعتماد اور دوٹوک لہجے میں کہا سالار اوریزی کو آپ نے یہ سزا دے کر اچھا نہیں کیا
کیوں روزینہ! برکیارق نے روزینہ کی طرف دیکھ کر کہا انہیں بتاؤ کہ اوریزی نے کیا جرم کیا ہے
ہم آپ کے ساتھ بات کرنے آئے ہیں بھائی جان! سنجر نے کہا تم ابھی بہت چھوٹے ہو سنجر! برکیارق نے کہا سلطنت کے کاموں کو ابھی تم نہیں سمجھ سکتے
لیکن میں ایک بات سمجھ سکتا ہوں سنجر نے کہا جو مرد اپنی بیوی کا غلام ہو کر اپنے گھر کے سارے معاملات اور فیصلے اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اس کے گھر میں تباہی ذلت اور خواری کے سوا کچھ نہیں رہتا لیکن آپ نے گھر کے نہیں بلکہ اتنی بڑی سلطنت کے معاملات اور فیصلے اپنی بیوی کے ہاتھ میں دے دیے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک قابل تجربے کار اور جذبے والا سالار ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے اور اسے عمر قید دے دی گئی ہے
تم دونوں بھائی میری ایک بات غور سے سن لو برکیارق نے کہا روزینہ میرا دماغ ہے میرے کان اور میری آنکھیں بھی روزینہ ہے
سلطان محترم! محمد نے کہا یہ بات آپ فخر سے نہ کہیں یوں کہیں کہ اللہ نے آپ کے دماغ پر مہر لگا دی ہے اور ایک مشکوک لڑکی کے ہاتھوں آپ کی سوچنے کی طاقت ختم کر ڈالی ہے آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھ چکی ہے
کیا بک رہے ہو محمد! برکیارق نے ڈانٹ کر کہا
میں بک نہیں رہا محمد نے کہا میں وہ بات کہہ رہا ہوں جو اللہ نے قرآن میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ ان گناہ گار لوگوں پر جو اپنے گناہوں پر فخر کرتے ہیں اللہ نے یہ لعنت نازل کی ہے کہ ان کے دماغوں کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی ہے آپ نے اپنے اوپر شیطان کو مسلط کر لیا ہے
آپ کی آنکھیں اس وقت کھلیں گیں جب سلطنت سلجوقہ پر باطنیوں کا قبضہ ہوچکا ہوگا سنجر نے کہا
آپ کی جگہ حسن بن صباح بیٹھا ہوا ہوگا محمد نے کہا اور آپ کی لاش بھی نہیں ملے گی اور یہاں آپ کی اس بیگم کی حکمرانی ہوگی اپنی آنکھوں سے پٹی کھولیں بھائی جان
میں یہاں سے چلی جاتی ہوں روزینہ نے منہ بسور کر کہا ان لوگوں کو میرا وجود اچھا نہیں لگتا
روزینہ دروازے کی طرف چل پڑی سلطان برکیارق اس کے پیچھے دوڑا لیکن وہ دروازے سے نکل گئی اور اپنے کمرے میں پلنگ پر اوندھے منہ گر کر رونے لگی
برکیارق بے تاب ہو کر اسے منانے بیٹھ گیا لیکن روزینہ ہچکیاں لے لے کر رورہی تھی آخر برکیارق نے اسے اٹھا لیا
میری وجہ سے آپ کی ماں آپ کے خلاف ہو گئی ہے روزینہ نے کہا آپ کے بھائی آپ کے دشمن ہو گئے ہیں مجھے آپ کی اور اس سلطنت کی سلامتی چاہیے میں تارک الدنیا ہو کر کسی غار میں جا بیٹھوں گی اور آپ کے لئے اور آپ کی سلطنت کے لئے دعا کرتی رہا کرو گی
برکیارق اتنی بڑی سلطنت کا سلطان تو بن گیا تھا لیکن وہ نہ سمجھ سکا کے چالاک اور عیار عورت جب چاہے اپنے آنسو نکال لے سکتی ہے یہ تو قلعہ الموت کی تربیت یافتہ لڑکی تھی
تم بتاؤ میں کیا کروں برکیارق نے کہا جو فیصلہ تم کرو گی میں اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کو سنا دوں گا
میری اپنی کوئی خواہش نہیں روزینہ نے کہا میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ سلطنت کے معاملے میں پوری دلچسپی لیں اور اسی طرح فیصلے کرتے رہیں جس طرح آپ نے اس سالار کو سزا سنائی ہے میں تو آپ کو روحانی سکون دے رہی ہوں مگر آپ کی ماں اور بھائی یہ سکون تباہ کر رہے ہیں یہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا
تو پھر تم چپ رہو برکیارق نے کہا اگر میری ماں کا منہ بند نہ ہوا تو میں اسے نظر بند کردوں گا
روزینہ کے ہونٹوں پر تبسم آگیا اور برکیارق کی جان میں جان آئی
اپنے بھائیوں کو چلتا کریں روزینہ نے کہا انہیں کہیں کہ وہ ایک باغی اور غدار سالار کی حمایت نہ کریں ورنہ تمہیں بھی وہیں پہنچا دیا جائے گا جہاں اسے پہنچا دیا گیا ہے
سلطان برکیارق لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس کمرے میں گیا جہاں وہ اپنے دونوں بھائیوں کو بیٹھا چھوڑ گیا تھا بھائی وہاں نہیں تھے وہ اس کمرے میں گیا جہاں اس کی ماں بیٹھی تھی ماں بھی جا چکی تھی
سالار اوریزی کو ابھی تک چوک میں کھڑا رکھا ہوا تھا سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے اسے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں
سپہ سالار حجازی جھوٹ کہہ رہا ہے ایک آواز اٹھی
سپہ سالار خود غدار ہے ایک اور آواز
ہم انصاف چاہتے ہیں دو تین آوازیں اٹھیں
اور ہجوم میں ایک بار پھر شوروغوغا شروع ہوگیا حجازی کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار آگئے اور وہ ادھر ادھر آگے اور پیچھے دیکھنے لگا اس کے محافظوں نے پرچھیاں تان لی تھیں اور وہ لوگوں کو پیچھے ہٹا رہے تھے
ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آ رہا تھا لوگوں نے ادھر دیکھا گھوڑے پر کوئی عورت سوار تھی اور اس کے ہاتھ میں سلطنت سلجوقیہ کا پرچم تھا جس پر چاند اور ستارے کا نشان تھا گھوڑا اسی رفتار سے چلا آرہا تھا ہجوم نے اسے راستہ دے دیا گھوڑا دونوں سالاروں کے پاس جا روکا سوار عورت بڑی تیزی سے گھوڑے سے اتری اور اس میز پر کھڑی ہوگئی جس پر دونوں سالار کھڑے تھے عورت نے اپنا نقاب اٹھا دیا وہ سلطان برکیارق کی ماں تھی
میرے عزیز لوگوں! برکیارق کی ماں نے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر کہا اس پرچم کو دیکھو یہ پرچم تمہارے ایمان اور دین کی علامت ہے یہ پرچم تمہاری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کا نشان ہے یہ پرچم اس اسلامی سلطنت کی عظمت ہے جسے حسن بن صباح کے باطنی اس پرچم کو پامال کرنے کے لئے تمہارے درمیان آگئے ہیں انھیں پہچانو اچھے اور برے کو پہچانو مجھے پہچانو میں تمہاری ماں ہوں سلطان ملک شاہ کو یاد کرو اس کے ایمان اور جذبے کو یاد کرو بھول جاؤ کہ میرا بیٹا سلطان ہے میں اس ناخلف انسان کو اپنا بیٹا کہنے سے شرماتی ہوں میرے بیٹے تم ہو میرا بیٹا ایک باطنی چڑیل کے قبضے میں آگیا ہے اسلام کو حسن بن صباح کی گدھوں اور چیلوں نے نوچنا شروع کردیا ہے سلطنت سلجوقیہ کی جس فوجی طاقت پر ہم سب کو اور تم سب کو ناز تھا اس فوجی طاقت کو توڑا جا رہا ہے تمہارے سالار اوریزی کو اس جرم میں قید میں ڈالا جا رہا ہے کہ یہ اس فوجی طاقت کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس میں اضافہ کررہا تھا قید میں اس سپہ سالار حجازی کو ڈالنا چاہیے
محترم ماں! سپہ سالار حجازی نے برکیارق کی ماں کو بازو سے پکڑ کر کہا سلطان برکیارق کا حکم بڑا ہی سخت ہے ،آپ خاموش
چھوڑ دے میرا بازو خوشامدی غلام! برکیارق کی ماں نے اپنا بازو چھوڑاتے ہوئے کہا میرے عزیز لوگو! میری بات غور سے سن لو تمہارے درمیان افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ،حسن بن صباح قلعہ الموت میں بیٹھا تمہیں آپس میں لڑا رہا ہے اگر تم نے آنکھیں نہ کھولیں اور اپنی عقل استعمال نہ کی تو یہاں بھائی بھائی کی گردن کاٹےگا بھول جاؤ کے سلطان میرا بیٹا ہے میں کہہ چکی ہوں کہ میں اس سلطنت کی ماں ہوں میں تمہاری ماں ہوں اوریزی ابھی تک سالار ہے یہ مجرم نہیں اس کے بعد برکیارق کی ماں بولتی رہی لیکن اس کی آواز ہجوم کے شوروغل میں دب گئی ہجوم بھڑک اٹھا تھا لوگ ایسے جوش میں آ گئے تھے کہ سپہ سالار حجازی کو اپنا انجام کچھ اور ہی نظر آنے لگا
اس شوروغل میں سپہ سالار حجازی نے اپنے قریب کھڑے محافظ سے کچھ کہا محافظ نے پیچھے سے اوریزی کو کمر سے دبوچا اور اسے اٹھا کر قریب کھڑے ایک گھوڑے پر بٹھا دیا پھر خود اس گھوڑے پر اوریزی کے پیچھے سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی سپہ سالار حجازی میز سے کود کر اترا اور ایک محافظ کے گھوڑے پر سوار ہوگیا اس نے محافظوں کو کوئی حکم دیا
تمام محافظوں نے گھوڑے دوڑا دیے اور برچھیاں آگے کرلیں تمام لوگ گھوڑوں اور برچھیوں سے ڈر گئے اور ایک طرف ہو گئے اور اس طرح سپہ سالار حجازی اور اس کے محافظ سالار اوریزی کو اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے
پہلے تو محافظوں نے ہجوم کو پیچھے روک رکھا تھا جب محافظ وہاں سے نکل بھاگے تو ہجوم برکیارق کی ماں کے قریب آگیا اس خاتون نے ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ ہر کوئی سالار اوریزی کا حامی ہو گیا تھا
محمد اور سنجر کو کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ ان کی ماں باہر کہیں چلی گئی ہے وہ اسے ڈھونڈنے لگے تو اصطبل سے پتہ چلا کہ ان کی ماں ایک گھوڑا نکلوا کر اور پرچم ہاتھ میں لے کر کہیں چلی گئی ہے سب کا خیال یہی تھا کہ وہ اس چوک میں ہی گئی ہوگی جہاں سالار اوریزی کو تذلیل کے لئے کھڑا کیا گیا ہوگا
محمد اور سنجر نے گھوڑے لیے ان پر سوار ہوئے اور چوک کی طرف گھوڑے دوڑا دیے ان کی ماں وہیں تھی اور ہجوم نعرے لگا رہا تھا دونوں بھائی اس میز پر چڑھ گئے جس پر ان کی ماں کھڑی تھی انہوں نے ماں سے کہا کہ وہ واپس چلے
اے ایمان والوں! ماں نے اپنے ایک پہلو میں محمد کو اور دوسرے پہلو میں سنجر کو کھڑا کرکے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بلند آواز سے کہا میں اپنے یہ دونوں بیٹے اس اسلامی سلطنت پر قربان کر دوں گی
محمد نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے اس جوش وخروش کو قابو میں رکھیں اور ٹھنڈے دل سے سوچیں، اس نے کہا کہ ہم حسن بن صباح کو ختم کرنے کی تیاریاں کررہے تھے لیکن صورتحال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ حسن بن صباح ہمیں ختم کرنے کا بندوبست کر چکا ہے
یہ کہہ دینا تو آسان تھا کہ باطنی شہر میں پھیلتے جا رہے ہیں لیکن یہ معلوم کرنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن تھا کہ شہر کے لوگوں میں باطنی کون کون ہیں بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مرو کا شہر حسن بن صباح کی گرفت میں آگیا تھا اور اس شہر میں خون خرابا تقریبا شروع ہوگیا تھا محمد اور سنجر اپنی ماں کو ساتھ لے کر چلے گئے
سپہ سالار ابوجعفر حجازی سالار اوریزی کو اپنے محافظوں کے ساتھ لے کر سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر شہر سے نکل گیا اس نے پیچھے دیکھا تھا تعاقب میں کوئی بھی نہیں آرہا تھا، اسے تعاقب کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا اس کے محافظ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے شہری تعاقب کی جرات نہیں کر سکتے تھے پھر بھی اس کے دل پر یہ اندیشہ سوار ہوگیا تھا کہ شہری بھڑک اٹھے تھے اور اس کے خلاف ہوگئے تھے
اس نے محافظوں کو گھوڑے آہستہ کرنے کا حکم دیا قیدخانہ ابھی دور تھا وہ جنگل میں داخل ہوگئے تھے اوریزی زنجیروں میں بندھا ایک محافظ کے آگے بیٹھا بالکل خاموش تھا اس کے چہرے پر افسوس اور تذبذب کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا آگے علاقہ چٹانی آگیا راستہ ان چٹانوں کے درمیان سے بل کھاتا گزرتا تھا یہ قافلہ اس راستے پر چلتا چٹانوں کے اندر گیا تو اچانک دائیں بائیں سے بہت سے آدمی جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے ان پر ٹوٹ پڑے حملہ آوروں نے دو تین محافظوں کو تو پہلے حملے میں ہی گھائل کر کے گھوڑے سے گرا دیا جن پر حملہ ہوا تھا وہ کوئی اناڑی نہیں تھے وہ تجربے کار محافظ تھے جنہیں جان قربان کرنے کی تربیت دی گئی تھی وہ فوج سے منتخب کیے گئے تھے
وہاں لڑنے کے لیے جگہ تنگ تھی محافظوں کے لئے مشکل یہ تھی کہ وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور پینترا بدلنے کے لیے گھوڑوں کو تیزی سے موڑنا اور آگے پیچھے کرنا مشکل تھا حملہ آور پیادہ تھے محافظوں نے جم کر لڑنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ گھوڑوں سے اتر آئے
سپہ سالار حجازی نے بلند آواز سے حکم دیا کہ اوریزی کو حفاظت میں لئے رکھو اسے بھاگنے نہ دینا وہ تو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا ہوا تھا وہ بھاگ نہیں سکتا تھا لیکن حجازی یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ حملہ اوریزی کو آزاد کرانے کے لئے ہوا ہے چارپانچ محافظوں نے سالار اوریزی کو گھوڑے سے اتار کر ایک جگہ کردیا اور وہ سب اس کے اردگرد کھڑے ہو کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگے حملہ آوروں کی تعداد محافظوں سے خاصی زیادہ تھی لیکن کسی ایک محافظ نے بھی پیٹھ دکھانے کی نہ سوچی
میرے شیروں! سپہ سالار حجازی کی آواز گرجی قیدی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا اسے قید خانے تک پہنچا دو گے تو تمہیں جھولیاں بھر کر انعام دلواؤں گا
محافظوں کے لئے سالار اوریزی بڑی ہی قیمتی چیز بن گیا تھا وہ اسی کے قریب رہنے کی کوشش کرتے اور لڑ رہے تھے اوریزی کو انہوں نے ایک چٹان کے دامن میں بٹھا دیا تھا دو تین حملہ آور اس چٹان پر چڑھ گئے چٹان اونچی نہیں تھی حملہ آوروں نے اوپر سے محافظوں کو برچھیاں ماری لیکن چٹان کے پہلوؤں کی طرف سے محافظوں نے اوپر جا کر حملہ آوروں کو گرا لیا
لڑتے ہوئے مر جاؤ! سپہ سالار حجازی کی آواز ایک بار پھر گرجی اگر قیدی تمہارے ہاتھ سے نکل گیا تو سلطان تم سب کو سزائے موت دے گا
حملہ آور پیچھے ہٹ گئے اور کچھ دیر کے لیے یہ خون ریز لڑائی تھم گئی، پتہ نہیں چلتا تھا حملہ آور بھاگ گئے ہیں یا چٹانوں میں چھپ گئے ہیں،حجازی نے محافظوں کو اکٹھا کر لیا وہ ابھی نکل نہیں سکتا تھا اس نے محافظوں کو گنا تو پانچ محافظ کم ہوگئے تھے وہ شدید زخمی ہوئے یا مارے گئے تھے حملہ آوروں میں سے بھی کچھ کم ہوگئے تھے
حملہ آور چٹانوں کے پیچھے چھپ گئے تھے محافظ اپنے گھوڑوں کو پکڑ کر لے آئے اور چلنے کی تیاری کرنے لگے اچانک ایک طرف سے پانچ حملہ آور آئے محافظوں نے گھوڑے کو چھوڑا اور حملہ آوروں کے مقابلے کو آگے بڑھا حملہ آور لڑتے ہوئے اس طرح پیچھے ہٹنے لگے جیسے وہ محافظوں کی تلواروں اور برچھیوں اور ان کے جوش و خروش کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوں
پیچھے ہٹتے ہٹتے آدھے حملہ آور ایک چٹان سے ایک طرف مڑ گیا اور باقی ذرا پیچھے جا کر دوسری طرف مڑ گئے اور بھاگنے لگے محافظ ان کے پیچھے دوڑے
ادھر جہاں اوریزی کو بٹھایا گیا تھا وہاں ایک سپہ سالار حجازی تھا اور اس کے ساتھ صرف ایک محافظ تھا
اس قیدی کو میں ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا سپہ سالار حجازی نے محافظ سے کہا اگر ان لوگوں نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا تو میں اسے یہی قتل کردوں گا سلطان یقیناً خوش ہوگا
سالار اوریزی حجازی کی یہ بات سن رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر خوف کا نام و نشان نہ تھا بلکہ وہ مسکرا رہا تھا حجاجی نے اس کی طرف دیکھا
ہاں اوریزی! حجازی نے طنزیہ لہجے میں کہا مسکراتے ہوئے جان دے دو تو بڑا ہی اچھا ہے
سالار اوریزی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا اور مسکراتا رہا منہ سے کچھ نہ بولا
اچانک قریب سے ہی چار پانچ حملہ آور نکلے اور انھوں نے ہلہ بول دیا حجازی کے ہاتھ میں تلوار تھی اور وہ کچھ لڑا بھی تھا لیکن اب وہ بھاگا اور قریب کھڑے گھوڑے پر سوار ہوکر اس نے ایڑ لگا دی پیچھے جو محافظ رھے گیا تھا اسے وہی کاٹ دیا گیا
حملہ آوروں نے اوریزی کو اٹھایا اور ایک گھوڑے پر ڈال دیا اس کے پیچھے ایک حملہ آور سوار ہوگیا اور اس نے گھوڑا دوڑا دیا
حملہ آوروں نے بڑی اچھی چال چلی تھی وہ ایک طرف سے آئے اور محافظوں سے لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتے ہٹتے محافظوں کو اپنے ساتھ چٹانوں کے اندر لے گئے، پیچھے میدان صاف تھا حملہ کرنے اور اوریزی کو اڑا لے جانے کے لیے آدمی موجود تھے ان کی یہ چال کامیاب رہی
دو یا تین محافظ بچ کر نکلے ہوں گے وہ پیدل بھاگ گئے تھے باقی شدید زخمی ہوئے اور مارے بھی گئے تھے ان کے گھوڑے پیچھے رہ گئے تھے
سلطان برکیارق کو دربان نے اطلاع دی کہ سپہ سالار حجازی آیا ہے سلطان نے حکم دیا کہ اسے فوراً اندر بھیجا جائے
حجازی جب سلطان برکیارق کے سامنے گیا تو شکست اور شرم ساری اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی اور اس کا سر جھکا ہوا تھا
آپ اتنے بوڑھے تو نہیں ہوگئے برکیارق نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن تھکن آپ کے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے کیا ایک قیدی کو قید خانے تک پہنچانا لڑائی سے زیادہ بڑی مشقت ہے؟
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے تھکی تھکی اور ہاری ہوئی آواز میں کہا میں لڑائی میں سے ہی نکل کر آیا ہوں
کیسی لڑائی؟
برکیارق نے پوچھا کیا قید خانے کے عملے کے ساتھ لڑائی ہوگئی تھی کیا وہ قیدی کو وصول نہیں کر رہے تھے کس سے لڑائی لڑی ہے؟
ہم قید خانے کے قریب پہنچ گئے تھے حجازی نے کہا ہم جب چٹانوں میں سے گزر رہے تھے تو ہم پر آگے سے پیچھے اور دائیں بائیں سے حملہ ہوگیا حملہ آور تعداد میں زیادہ تھے ان کے پاس تلواریں اور برچھیاں تھیں اور
مجھے صرف ایک بات بتاؤ سلطان برکیارق نے پوچھا کیا اوریزی کو اسی کوٹھری میں بند کر آئے ہو یا نہیں؟
حجازی کی زبان ہل نہ سکی اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور سر جھکا لیا
پھر کہاں ہے اوریزی؟
روزینہ جو اس وقت تک خاموش تھی بولی کیا اسے جنگل میں پھینک آئے ہو ؟
نہیں! سپہ سالار حجازی نے کہا اسے حملہ آور لے گئے ہیں
پھر تم زندہ میرے پاس کیوں آئے ہو سلطان برکیارق نے گرج کر کہا اور پوچھا باقی محافظ کہاں ہیں ؟
صرف ایک میرے ساتھ آیا ہے سپہ سالار حجازی نے کہا باقی شاید زندہ نہیں
حملہ آور کون تھے؟
سلطان برکیارق نے پوچھا کیا تم نے کسی کو پہچانا نہیں؟
میں صرف شک میں بات کرسکتا ہوں سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے جواب دیا مجھے شک ہے کہ حملہ آور ان فوجیوں میں سے تھے جنہیں فوج سے نکال کر ابھی خیموں میں رکھا ہوا ہے میرے ساتھ جو محافظ آیا ہے وہ کچھ وثوق کے ساتھ بات کرتا ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے اندر بلا لوں
سلطان برکیارق کے اشارے پر حجازی باہر گیا اور اس محافظ کو ساتھ لے آیا
کیا تم نے حملہ آوروں کو پہچانا تھا؟
سلطان برکیارق نے محافظ سے پوچھا؟
ہاں عالی جاہ! محافظ نے جواب دیا وہ ہمارے ان ساتھیوں میں سے تھے جنہیں فوج میں سے نکالا جارہا ہے میں نے تین کو تو پہچان لیا تھا اسی لیے میں کہتا ہوں کہ باقی بھی وہی ہونگے جو فوج سے نکالے گئے ہیں
سپہ سالار حجازی نے سلطان برکیارق سے اجازت لے کر اس محافظ کو باہر بھیج دیا
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے کہا پیشتر اس کے کہ آپ مجھے سزا دیں یا کوئی اور حکم دیں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں لیکن کہنے سے اس لیے ڈرتا ہوں کہ میری بات کا تعلق آپ کی محترمہ والدہ اور بھائیوں کے ساتھ ہے
جو کہنا ہے صاف صاف کہو سلطان برکیارق نے کہا میں سنوں گا مجھے صرف سلطنت کے مفاد کا خیال ہے میری ماں ہو یا بھائی ان کا درجہ سلطنت کے بعد ہے ان کے متعلق انتہائی بری اور توہین آمیز بات کرو گے تو میں وہ بھی سنوں گا مجھے صحیح صورت حال معلوم ہونی چاہیے
محترم سلطان آپکا اقبال اور زیادہ بلند ہو حجازی نے کہا کسی نے ہم پر حملے کی جرات نہیں کرنی تھی یہ حملہ آپ کی محترمہ والدہ اور آپ کے بھائی محمد نے کروایا ہے وہ اس طرح کہ میں آپ کے حکم کے مطابق اوریزی کو چوک میں کھڑا کر کے اس کا جرم لوگوں کو بتا رہا تھا اوریزی اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ بول رہا تھا ہجوم بڑھتا ہی جارہا تھا کہ اتنے میں آپ کی والدہ محترمہ گھوڑے پر سوار وہاں آپہنچیں ان کے ہاتھ میں سلطنت کا پرچم تھا وہ گھوڑے سے اتر کر ہمارے پاس آ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے لوگوں کو آپ کے خلاف اور میرے خلاف اتنا زیادہ بھڑکایا کہ لوگ ہمارے خلاف اور اوریزی کے حق میں مشتعل ہوگئے پھر آپ کا بھائی محمد چھوٹے بھائی سنجر کے ساتھ آگیا محمد نے اتنی اشتعال انگیز باتیں تو نہ کی لیکن جو کچھ بھی اس نے کہا تھا وہ اوریزی کے حق میں جاتا تھا لوگوں کا ہجوم اتنا زیادہ مشتعل ہوگیا کہ لوگ ہم پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھنے لگے وہ محافظوں کی برچھیوں سے بھی نہ ڈرے یہ تو میرا کمال تھا کہ میں نے اوریزی کو ایک گھوڑے پر پھینکا اور محافظوں سے کہا کہ یہاں سے نکلیں اور انکی برچھیوں اور گھوڑوں کی زد میں کوئی بھی آتا ہے پرواہ نہ کریں سلطان عالی مقام! میں خوش تھا کے قیدی کو مشتعل ہجوم میں سے نکال لایا ہوں لیکن آگے جاکر ہم پر حملہ ہوا تو میں سمجھ گیا کہ سابق فوجی بھی ہجوم میں موجود تھے وہ کسی اور راستے سے ہم سے پہلے آگے جاکر گھات میں بیٹھ گئے یہ ہے ہم پر حملے کی اصل وجہ
سلطان برکیارق کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اس نے روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ دانت پیس رہی تھی یہ اس کے غصے کی انتہا تھی
اگر وہ میری ماں ہوتی روزینہ نے کہا تو معلوم نہیں میں کیا کر گزرتی وہ آپ کی ماں ہے اس لیے میں کچھ کہہ نہیں سکتی ماں کو اتنا بھی خیال نہیں کہ وہ سلطنت کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک رہی ہے اور آپ کا بھائی محمد ایک احمق آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وہ آپ کا تختہ الٹنا چاہتا ہے اور اس کے دل میں سلطانی کے سوا کچھ بھی نہیں
میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا حجازی! سلطان برکیارق نے کہا اس کی بجائے میں تمہیں مہلت اور موقع دیتا ہوں کہ ان حملہ آوروں کو پکڑو پھر دیکھنا کہ میں انہیں کیا سزا دیتا ہوں
گستاخی معاف سلطان عالی مقام! حجازی نے کہا میں تو ان غداروں اور باغیوں کو پکڑنے کے لیے دن رات ایک کر دوں گا لیکن آپ کی والدہ محترمہ اور بھائی میرے لئے بہت بڑی رکاوٹ بن جائیں گے میں ان کے محاذ کو ایک کاری ضرب سے توڑ سکتا ہوں انکے سر آپ کے قدموں میں پیش کر سکتا ہوں لیکن وہ آپ کی ماں اور آپ کے بھائی ہیں جن پر میں ہاتھ نہیں اٹھا سکتا انہیں اگر آپ پابند کر لیں تو
ماں کو نظربند کردیں روزینہ نے برکیارق سے کہا ماں کو قید خانے میں پھینکنا بہت ہی معیوب ہے انہیں ان کے کمرے میں پابند کردیں کہ وہ باہر نہ نکلیں پہرا کھڑا کردیں بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ آپ کے حکم کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں انہیں ذہن نشین کرائیں کہ حسن بن صباح سیاہ گھٹا کی طرح افق سے اٹھتا چلا آرہا ہے اور اگر یہاں بھائیوں میں ہی اختلاف پیدا ہوگیا تو یہ گھٹا سلطنت سلجوقیہ کو تاریک کر ڈالے گی
اس باطنی لڑکی روزینہ کی ایسی باتیں تھیں جو سلطان برکیارق کو متاثر کرتی تھی اسے کوئی کہتا تھا کہ یہ حسن بن صباح کے گھوسلے سے نکلی ہوئی لڑکی ہے تو برکیارق کا خون کھول اٹھتا اور ایسی باتیں کہنے والوں پر وہ برس اٹھتا تھا
اب سنو حجازی! سلطان برکیارق نے دوٹوک لہجے میں کہا دو راتوں بعد جب تیسری رات آدھی گزر جائے تو اپنی پوری فوج کو بیدار کرو اور ان فوجیوں کے خیموں کو محاصرے میں لے لو جنہیں ہم نے فوج سے سبکدوش کرکے خیموں میں عارضی طور پر رکھا ہوا ہے اپنی فوج کو پہلے ہی بتا دینا کہ وہ تیاری کی حالت میں رہیں اور باہر کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ فوج تیاری کی حالت میں ہے آدھی رات کو صرف ایک اشارے پر فوج خاموشی سے اٹھے اور وہیں سے محاصرے کی ترتیب میں ہوکر خیموں کو اپنے نرغے میں لے لے رات کے وقت کوئی کاروائی نہیں کرنی صبح جب وہ لوگ اٹھیں تو انھیں پکڑ پکڑ کر الگ کھڑا کرتے جانا پھر ہر خیمے کے اندر دیکھنا کہ کوئی چھپا ہوا تو نہیں رہ گیا اپنے اس محافظ کو ساتھ لے لینا اور یہ ان میں سے ان تین آدمیوں کو پہچانے گا جو حملے میں شریک تھے حملے میں تمہارے محافظوں نے کچھ حملہ آوروں کو زخمی بھی کیا تھا ان میں جو زخمی نظر آئے اسے بھی الگ کردینا سختی کرنی پڑے تو تمہیں اجازت ہے کہ کسی کو جان سے مار ڈالو تم خود عقل رکھتے ہو میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے مجھے یہ حملہ آور چاہیے ابھی دو دن اور دو راتیں تم یوں دبک کر رہو جیسے کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی اور تم ڈر گئے ہو اپنی ماں اور بھائیوں کا انتظام میں خود کر لوں گا
سلطان برکیارق نے سر سے اشارہ کیا تو سپہ سالار حجازی رکوع میں چلا گیا اور اسی حالت میں پیچھے ہٹتے ہٹتے دروازے سے نکل گیا اس کے جانے کے بعد سلطان برکیارق اٹھا اور کمرے میں بے چینی سے ٹہلنے لگا وہ کبھی رک جاتا اوپر دیکھتا پھر سر جھکا کر چل پڑتا کبھی رک کر اپنے ماتھے کو زور زور سے ملتا روزینہ پہلے تو اسے دیکھتی رہی پھر اس نے برکیارق کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور بٹھا کر اس پر اس طرح جھوکی کہ اس کے ریشمی بالوں نے برکیارق پر سایہ کر دیا
آپ کو یہ لوگ جینے نہیں دے گے روزینہ نے اس کے ساتھ اس طرح پیار کر کے کہا جس طرح ماں اپنے معصوم بچے کے ساتھ کرتی ہے وہ کہنے لگی ذرا سر میرے ساتھ لگا لیں آپ کی ذہنی حالت تو ان لوگوں نے بگاڑ کر رکھ دی ہے کوئی غیر ہوتا تو اور بات تھی اپنی سگی ماں اور سگے بھائی آپ کو جہنم میں پھینک رہے ہیں
سلطان برکیارق پر خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوگئی اس نے اپنے آپ کو روزینہ کے حوالے کردیا اور دو سال کا بچہ بن گیا کچھ دیر بعد روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلایا سلطان برکیارق محسوس نہ کر سکا کہ اس کے آباء اجداد کی سلطنت اس پیالے میں ڈوبی جارہی ہے
سلطان برکیارق کے ذہن اور دل پر اپنا قبضہ مکمل کرکے روزینہ اٹھی
کیا میں ماں کو بلا کر اسے کہو؟
سلطان برکیارق نے کہا لیکن وہ تو میری جان کو آجائے گی
محمد اور سنجر کو بلائیں روزینہ نے کہا انہیں بتائیں کہ ماں کو ان کے کمرے میں نظر بند کیا جارہا ہے اور انہیں اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ وہ کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کریں
اب وہی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جو روزینہ نے یہاں آتے ہی پیدا کر دی تھی یعنی سوچتی وہ تھی اور عمل برکیارق کرتا تھا برکیارق کا اپنا دماغ روزینہ کی حسین گود میں بے ہوشی کی نیند سو گیا تھا
اس کیفیت میں برکیارق نے اپنے دونوں بھائیوں کو بلایا اور بھائی اطلاع ملتے ہی آگئے
میرے عزیز بھائیو! برکیارق نے کہا تصور میں لاؤ کہ میری جگہ تم ہو اور تم کوئی حکم دیتے ہو اور کچھ لوگ تمہارے حکم کی تعمیل کے راستے میں اس طرح رکاوٹ بنتے ہیں جس طرح میرے محافظوں پر حملہ ہوا صاف اور سچے دل سے بتاؤ کہ تم کیا محسوس کرو گے اور کیا کاروائی کرو گے ؟
یہ نہ کہنا کہ میرا حکم غلط تھا اور اسلام کے منافی تھا سلطان انسان ہے اور غلطی بھی انسان کر سکتا ہے لیکن کوئی سلطان بغاوت اور غداری برداشت نہیں کر سکتا تم نے محمد اپنی ماں کے ساتھ مل کر میرے خلاف زہر اگلا اور یہی وجہ تھی کہ جو محافظ دستہ اوریزی کو قید خانے میں لے جا رہا تھا اس پر حملہ ہوا قیدی کو وہ ساتھ لے گئے اور محافظوں کو قتل کر گئے تم بتاؤ کہ میری جگہ تم ہوتے تو کیا کرتے
ہم حملہ آوروں کو گرفتار کرتے محمد نے کہا اور انہیں سزا دیتے
اگر میں یہ کہوں کہ یہ حملہ تم نے اور ہماری ماں نے کروایا ہے تو تم کیا کہو گے؟
سلطان برکیارق نے پوچھا؟
یہ الزام بے بنیاد ہے محمد نے کہا یہ صحیح ہے کہ ماں وہاں چلی گئی تھی اور اس نے لوگوں سے جو باتیں کیں وہ سلطنت سلجوقیہ اور سالار اوریزی کے حق میں جاتی تھی انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے اس سلطنت پر قربان کر دوں گی لیکن اس پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دوں گی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پرچم اس اسلامی سلطنت کی عظمت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ شہر حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے تجربے کار باطنی تخریب کاروں سے بھرتا جا رہا ہے
ماں نے جو کچھ بھی کہا سلطان برکیارق نے کہا وہ ہماری سلطنت اور اوریزی کے حق میں تو جاتا ہے لیکن ماں اور تم یہ نہ دیکھ سکے کہ لوگ مشتعل ہو رہے ہیں اور ان کے جوش و خروش میں انتقام کی آگ سلگتی جارہی ہے وہاں سابق فوجی بھی موجود تھے ان میں چونکہ لڑنے کا جذبہ ہے اس لیے انہوں نے یہ فوجی کاروائی جس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے اب تم بتاؤ کہ میں کیا کروں؟
اس طرح بھائیوں میں بحث مباحثہ چلتا رہا جو تلخ کلامی کی صورت اختیار کرگیا اور روزینہ برکیارق کے حق میں بول پڑی
تم خاموش رہو لڑکی! محمد نے کہا سلطان ہمارا بھائی ہے اور تمہاری حیثیت صرف ایک بیوی کی ہے میرے ساتھ کوئی بات نہ کرنا
اب میرا فیصلہ سنو محمد اور سنجر! سلطان برکیارق نے کہا میں اپنی ماں کو ان کے کمرے میں نظر بند کر رہا ہوں تم دونوں میرا یہ حکم اس تک پہنچا دو وہ کمرے سے باہر نہ نکلیں باہر دو سنتری بیٹھا دیے جائیں گے میں جانتا ہوں کہ میرا یہ فیصلہ نہ تمہیں اچھا لگا ہے نہ ماں اسے پسند کرے گی بلکہ وہ چیخے چلائی گئی لیکن مجھے اپنی سلطنت کو بھی دیکھنا ہے اور یہ بھی کہ ماں یو ماری ماری نہ پھرے اس کا ہر جگہ پہنچ جانا اور جو منہ میں آیا کہتے جانا اس کے اپنے وقار کے منافی ہے مجھے یہ خطرہ بھی نظر آرہا ہے کہ جس طرح وہ خود کہتی ہے کہ اس شہر میں باطنی اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں کوئی بدبخت باطنی اسے قتل ہی نہ کر دے
باطنی ہی ہماری ماں کو نظر بند کروا رہے ہیں محمد نے اٹھتے ہوئے کہا ہم آپ کا حکم ماں تک پہنچا دیں گے وہ چیخے گی نہ چلائے گی کچھ بھی نہیں کہے گی لیکن میں آپ کو آخری بار بتا رہا ہوں کہ جن باطنیوں کے متعلق آپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ہماری ماں کو قتل کر دیں گے وہی باطنی سلطنت پر حکومت کررہے ہیں اپنی ماں کو نظر بند کرنے کا حکم آپ نے نہیں حسن بن صباح نے دیا ہے کسی باطنی میں اتنی جرات نہیں ہو گی کہ وہ ہماری ماں کو قتل کردے ہمارے بڑے بھائی کا دین ایمان اور کردار باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے آپ جو ہمارے سامنے چلتے پھرتے بولتے اور حکم دیتے نظر آتے ہیں یہ آپ کا صرف جسم ہے سوچتا کوئی اور ہے اور اس پر عمل آپ کا جسم کرتا ہے آج کے بعد آپ ہمیں اپنے سامنے نہیں دیکھیں گے
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دو بھائی جان! سنجر نے کہا آئندہ آپ کا کوئی حکم ہم تک نہ پہنچے ورنہ ہم وہاں تک پہنچ جائیں گے جہاں آپ کے فرشتے بھی نہیں پہنچ پائیں گے ہم بھاگ نہیں جائیں گے مر نہیں جائیں گے اپنے آباء اجداد کی اور اپنے عظیم باپ کی اس سلطنت کو زندہ وپائندہ رکھنے کی پوری جدوجہد کریں گے خواہ ہماری جانیں چلی جائیں
دونوں بھائی کمرے سے نکل گئے اور سلطان برکیارق احمقوں کی طرح منہ کھولے اس دروازے کو دیکھتا رہا جس دروازے سے اس کے بھائی نکل گئے تھے وہ اس وقت بیدار ہوا جب روزینہ کا ایک رخسار اس کے گال کے ساتھ لگا
سالار اوریزی کو محافظوں سے چھین کر وہاں سے شہر میں نہیں لائے تھے بلکہ اسے شہر سے دور ایک ویرانے میں لے گئے تھے اپنی رہائی کا یہ انتظام اوریزی نے خود ہی کیا تھا اسے جب سلطان برکیارق کا بلاوا آیا تھا تو اسے معلوم تھا کہ سلطان اسے بخش نہیں دے گا اسے معلوم تھا کہ سپہ سالار حجازی اسے انتہائی سزا دلوائے گا اسی لیے اس نے اپنے ساتھ دو محافظ لے گئے تھے اور انہیں سلطان کے محل سے ذرا دور کھڑا کردیا تھا اور انہیں بتا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے
سالار اوریزی کو جب سلطان برکیارق نے زنجیروں اور بیڑیوں میں باندھ کر باہر بھیجا تھا تو اوریزی کے محافظوں نے دور سے دیکھ لیا انہوں نے وہاں سے گھوڑے دوڑا دئیے اور ان لوگوں کے پاس جا پہنچے جنہوں نے اوریزی کو رہا کرانا تھا وہ اسی اطلاع کے انتظار میں تھے جونہی انہیں اطلاع ملی وہ کسی اور راستے سے چٹانی علاقے میں جا پہنچے اور گھات میں بیٹھ گئے وہ گھوڑے نہیں لے گئے تھے کیونکہ گھات میں گھوڑے ہنہنا کر راز فاش کردیتے ہیں
انہیں بہت انتظار کرنا پڑا کیونکہ اوریزی کو چوک میں نمائش کے لئے کھڑا کردیا گیا تھا آخر انہیں سپہ سالار حجازی اپنے محافظوں کے ساتھ نظر آیا وہ تیار ہو گئے اور جونہی یہ محافظ دستہ ان کی گھات میں آیا انہوں نے حملہ کردیا اوریزی کو اپنے ساتھ لے گئے
اوریزی نے ہی انہیں ایک جگہ بتائی تھی جہاں چھپنے کا محفوظ مقام تھا وہ ویرانے میں ایک پہاڑی سی تھی جس میں ایک غار تھا غار گھنی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا اور اس کے آگے مٹی کا ایک چھوٹا سا ٹیلا بھی تھا اوریزی کو اس غار میں لے گئے وہاں اس کی زنجیریں اور بھیڑیاں کاٹنے کا انتظام تھا
اوریزی کو جب بتایا گیا کہ اپنے کچھ آدمی مارے گئے ہیں تو اس نے کہا کہ فوراً وہاں جاؤ اور لاشوں کو اٹھا کر لے آؤ اور یہاں دفن کردو ہوسکتا ہے وہاں کچھ زخمی بھی پڑے ہوں
اوریزی کے آدمی محافظوں کے گھوڑے بھی پکڑ لائے تھے بچے ہوئے آدمی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور واپس اس جگہ چلے گئے جہاں انہوں نے گھات لگائی تھی وہ بہت جلدی میں تھے کیونکہ خطرہ تھا کہ سرکاری فوج پہنچ جائے گی اتفاق سے سلطان برکیارق نے بھی نہ سوچا نہ سپہ سالار حجازی نے کہ جا کر حملہ آوروں کی لاش دیکھتے اور ایسے زخمیوں کو اٹھا کر لے آتے جو بھاگنے کے قابل نہیں رہے تھے ان سے پتہ چل جاتا کہ حملہ آور کون تھے حملہ آور لاشیں اور زخمی اٹھانے آے تھے اور اٹھا کر لے گئے
سالار اوریزی نے صرف چار آدمی اپنے ساتھ رکھے اور دوسروں سے کہا کہ وہ چلے جائیں اور پوری جاسوسی اور مخبری کرتے رہیں اور ذرا ذرا اطلاع اس تک غار میں پہنچاتے رہیں اس کا خیال یہ تھا کہ چند دن دبکے رہیں
سابق فوجیوں کو بتا دینا کہ اب تیار رہیں اوریزی نے کہا انہیں یہ بھی بتا دینا کہ انہیں ہتھیار جلدی مل جائیں گے اور اب ہمارا تصادم سرکاری فوج کے ساتھ ہوگا اور اب ہمارا مقصد برکارق کو ہٹا کر اس کی جگہ محمد کو سلطان بنانا ہے اور اس کے بعد فوج تیار کرکے حسن بن صباح کے خلاف محاذ کھولنا ہے لیکن میرے دوستو! ہمیں خون کے دریا میں سے گزرنا پڑے گا ہم کوشش کریں گے کہ بھائی بھائی سے نہ لڑے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا خانہ جنگی ہو کر رہے گی باقی جو کچھ کرنا ہے وہ پانچ سات دنوں بعد بتاؤں گا ابھی ہمیں زمین کے نیچے رہنا ہے
چار پانچ مہینے پہلے باہر سے ایک طبیب آیا تھا جس نے مرو میں اپنا مطب کھولا تھا وہ جراح بھی تھا اس کے ہاتھ میں خدا نے ایسی شفا دی تھی کہ مایوس اور بڑے پرانے مریض صحت یاب ہو گئے تھے لوگ اس کی بہت تعظیم کرتے تھے اوریزی کے فرار کے دو تین روز بعد رات کا وقت تھا طبیب مریضوں سے فارغ ہو چکا تھا اس نے مکان کا باہر والا دروازہ بند کر دیا تھا اور چار آدمی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے
یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے حق میں ہو رہا ہے طبیب نے ان آدمیوں سے کہا اوریزی کا فرار بھی ہمارے حق میں جائے گا میں جانتا ہوں کہ اسے فرار کرانے والے سابق فوجی ہیں مجھے روزینہ نے محل سے اطلاع بھیج دی ہے کہ سلطان نے اپنی ماں کو نظربند کردیا ہے اور سپہ سالار حجازی سے کہا ہے کہ وہ حملہ آوروں کو تلاش کرے اور پکڑے میں نے اپنے آدمی اس سارے کھیل میں شامل کر دیے ہیں اوریزی کا فرار ہی سابق اور حاضر فوجیوں کے درمیان لڑائی کا باعث بن جائے گا
الموت سے امام حسن بن صباح کا حکم آیا ہے کہ مرو شہر کو خون میں ڈوبو دو یہ بھی کہ اپنے آدمیوں کو استعمال کرنا لیکن اس طرح کے اپنے زیادہ تر آدمی محفوظ رہیں بھائی کو بھائی سے لڑاؤ سلطان کی فوج کو دو حصوں میں کاٹ دو اور انہیں آپس میں لڑاؤ امام نے یہ حکم بھی بھیجا ہے کہ تین چار آدمی ہر روز اس شہر میں مرنے چاہئیں ہمیں امام کے اس حکم پر فوری عمل کرنا ہے تم لوگ دو یا تین دنوں بعد خیمے میں رہنے والے تین چار سابق فوجیوں کو رات کے وقت قتل کر دو اور افواہ پھیلا دو کہ انہیں سرکاری فوجیوں نے اپنے محافظوں کے خون کے انتقام میں قتل کیا ہے پھر ایک دو دنوں کا وقفہ دے کر فوج کے دو چار آدمی قتل کر دینا تم خود تجربے کار ہو قتل کرنا جانتے ہو اور افواہیں پھیلانا بھی جانتے ہو جاؤ اور یہ بندوبست کرو…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:35 }
وہ گیارہویں صدی عیسوی تھی جب اسلام اپنی تاریخ کی بہت بڑے خطرے میں گھر گیا تھا مورخوں نے اسے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا خطرہ کہا ہے یہ ویسا ہی خطرہ تھا جیسا آج آپ دیکھ رہے ہیں دنیائے کفر اسلام کو گھیرے میں لے کر حملہ آور ہو چکی ہے بالکل ایسے ہی حالات حسن بن صباح نے گیارہویں صدی عیسوی میں پیدا کر دیے تھے یہود و نصاریٰ اس کے ساتھ مل گئے تھے اور اس کی پوری پوری پشت پناہی کر رہے تھے اسے جس قسم کی مدد درکار ہوتی تھی وہ پیش کرتے تھے
سلطنت سلجوقیہ کے نیچے لاوا پک رہا تھا بلکہ پک چکا تھا اور اب اس آتش فشاں کو پھٹنا تھا سلطنت سلجوقیہ دراصل اسلامی سلطنت تھی اور یہ اسلام کا مرکز بن گئی تھی جس طرح آج دوست اور دشمن کا غدار اور وفادار کا کچھ پتہ نہیں چلتا ایسے ہی اس دور میں چہروں پر ایسے پردے پڑ گئے تھے کہ نیک و بد کی تمیز ختم ہوگئی تھی سلطنت کا حکمران اور برکیارق تھا لیکن حکومت اس کی بیوی روزینہ کر رہی تھی
برکیارق نے اپنی ماں کو اس کے گھر میں نظر بند کر دیا تو برکیاق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر ماں کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لے گئے تھوڑی ہی دیر بعد دو پہرےدار تلواروں اور برچھیوں سے مسلح آ گئے اور دروازے کے باہر کھڑے ہو گئے
یہ کیوں آئے ہیں؟
ماں نے پہرے داروں کے متعلق بیٹوں سے پوچھا
آپ کے سلطان بیٹے نے آپ کو اس گھر میں نظر بند کر دیا ہے محمد نے کہا اور ہمیں کہا ہے کہ ہم اس کا یہ حکم آپ تک پہنچا دیں
ماں پر تو جیسے سکتا طاری ہوگیا ہو اس کے ہونٹ کانپے مگر زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا پھر اس کے آنکھوں میں آنسو آئے جو اس کے رخساروں پر بہہ نکلے
آپ اتنی زیادہ پریشان کیوں ہوگئی ہیں ہم بڑے بھائی کے غلام تو نہیں لیکن مقدس ماں ہمیں اپنی آزادی اور غلامی کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہم اس سلطنت کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں یہ سلطنت حسن بن صباح کے قبضے میں آ چکی ہے حکومت روزینہ کررہی ہے ہم دونوں بھائیوں کو سلطنت کی حکمرانی نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اسلام کی حکمرانی کی ضرورت ہے آپ بالکل خاموش رہے اب برکیارق کے پاس نہیں جانا ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہم نے اپنا بڑا بھائی اس سلطنت کی عظمت پر قربان کر دیا ہے اب ہمیں اجازت دے کے کفر کی اس یلغار کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں
اور مادر محترم! سنجر نے کہا آپ ہمارے لئے صرف دعا کریں آپ کی دعا ہمارے لئے ایک بڑا ہی مضبوط ڈھال ہوگی ہمیں لڑنا ہے اور آج کے بعد سلطنت سلجوقیہ کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی
میرے مجاہد بچو! ماں نے کہا میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں تم جیسے میرے بیس بچے ہوتے تو میں اسلام کی اس سلطنت پر قربان کر دیتی لڑنا ہے تو طریقے سے عقل سے لڑنا ابومسلم رازی کو اطلاع دے دو وہ بہت ہی دانشمند آدمی ہے مشورے بھی اچھے دے گا اور ہر طرح کی مدد بھی کرے گا
اب آپ نے برکیارق کے سامنے نہیں جانا محمد نے کہا اپنے آپ پر غصے کو بھی غالب نہیں آنے دینا اب جو بھی کرنا ہوگا وہ ہم کریں گے
مزمل آفندی آئے ہیں پہرے دار نے اندر آ کر کہا وہ یہاں اندر نہیں آ سکتے کیونکہ ہمیں بڑا سخت حکم ملا ہے محترم محمد اور محترم سنجر ان سے مل سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کمرے میں میرے لیے کیا حکم ہے؟
تمہارے لئے حکم یہ ہے کہ فوراً اس کمرے میں سے نکل جاؤ محمد اور سنجر کی ماں بولی اور کتوں کی طرح باہر کھڑے رہو پہرےدار کھسیانا سا ہوکر محمد کی طرف دیکھنے لگا
مزمل آفندی کو دوسرے کمرے میں بٹھاؤ محمد نے کہا ہم آتے ہیں
مادر محترم! پہرے دار نے محمد کی ماں کے آگے جھک کر کہا ہم حکم کے بندے ہیں ہمیں آپ کے خلاف حکم دیا جاتا ہے لیکن ہمارے دلوں سے آپ کا احترام نہیں نکالا جاسکتا
ماں نے سر جھکالیا پہرےدار آداب بجا لا کر باہر نکل گیا محمد اور سنجر اسی مکان کے ایک اور کمرے میں چلے گئے مزمل آفندی اس کمرے میں داخل ہو رہا تھا
برکیارق اور روزینہ کے پاس سلطنت کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بیٹھا ہوا تھا کچھ دیر پہلے برکیارق نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو کچھ حکم دئے تھے، اور پھر اپنی ماں کی نظربندی کا حکم بھی دیا تھا تو روزینہ نے کہا تھا کہ وہ اپنے وزیراعظم کو بلا کر یہ سارے احکام لکھوا دے اور اسے کہے کہ ان کی تعمیل کی نگرانی وہ کرے
آپ ہر مسئلہ اپنے سر لے لیتے ہیں روزینہ نے کہا تھا آپ آخر ایک انسان ہیں ساری سلطنت کا درد اپنے دل میں بھر کر آپ کو سکون اور چین کہاں سے مل سکتا ہے آپ کا روحانی سکون تو آپ کی ماں اور بھائیوں نے مل کر تباہ کردیا ہے میں تو انہیں کہنا چاہتی تھی کہ آؤ تم سلطانی کی گدی پر بیٹھ جاؤ اور ذرا سلطنت کا کاروبار چلا کر دکھاؤ یہ آپ کی ہی دیانت داری ہے اور خلوص ہے کہ آپ ان پہاڑوں سے ٹکرا رہے ہیں اتنا پریشان نہ ہوں میں اپنا خون آپ کی رگوں میں ڈال دوں گی
برکیارق نے ایک بازو لمبا کر کے روزینہ کی کمر میں ڈالا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھوڑی دیر بعد روزینہ نے ہی دربان کو بلا کر کہا تھا کہ وزیراعظم کو فوراً بلا لاؤ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری فوراً پہنچ گیا برکیارق نے اسے بتایا کہ آج کیا ہوا ہے اور اس نے کیا احکام جاری کیے ہیں
ان امور اور مسائل کی نگرانی آپ نے کرنی ہے برکیارق نے کہا ان احکام کی تعمیل میں یہ نہیں دیکھنا کہ یہ خاتون میری ماں ہے یا وہ لڑکے میرے بھائی ہیں کسی کی حیثیت کا خیال نہیں رکھنا
سلطان محترم! وزیراعظم سمیری نے کہا میں صرف آپ کو جانتا ہوں اگر آپ مجھے حکم دیں گے کہ اپنے ایک بیٹے کا سر کاٹ کر پیش کرو تو میں آپ کا یہ حکم بلا حیل وحجت پورا کروں گا
آپ دیکھ رہے ہیں کہ سلطان کس قدر تھکےتھکے لگتے ہیں روزینہ نے کہا ان کا چہرہ کس طرح اتر گیا ہے میں نہیں چاہتی کہ یہ اور بولیں میں آپ کو بتاتی ہوں کہ انہوں نے آج کیا احکام جاری کیے ہیں یہ تو آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ سالار اوریزی کو قید خانے میں بند کرنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں محافظوں پر حملہ ہوگیا اور حملہ آور محافظوں کو قتل کرکے سالار اوریزی کو چھوڑا کر لے گئے ہیں
یہ خبر مجھ تک پہنچ چکی ہے وزیراعظم سمیری نے کہا میں نہیں جانتا کہ سلطان محترم نے کیا فیصلہ صادر فرمایا ہے اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو اوریزی اور اس کے حامیوں کو فوری طور پر سزائے موت دیتا یہ غداری ہے
سلطان نے یہ حکم دیا ہے روزینہ نے کہا آج سے تیسری رات ان خیموں کو محاصرے میں لے لیا جائے جن میں برطرف کیے جانے والے فوجی رہتے ہیں پھر ایک ایک خیمے میں جا کر انہیں بیدار کیا جائے گا اور ایک جگہ اکٹھا کرکے شناخت کی جائے گی کہ حملہ آور کون کون تھے ہمیں یقین ہے کہ اوریزی کو انہی میں سے چند ایک آدمیوں نے رہا کروایا ہے اس کاروائی کا باقاعدہ منصوبہ تیار کر لیں اس میں ناکامی نہیں ہونی چاہیے اس کے ساتھ ہی اوریزی کو ڈھونڈنا ہے آپ کے پاس جاسوس ہیں اور مخبر بھی ہیں آپ جانتے ہیں کہ مفرور اور روپوش مجرم کو کس طرح ڈھونڈا جاتا ہے
یہ آپ مجھ پر چھوڑیں سلطان عالی مقام! وزیراعظم سمیری نے کہا میں اس غدار کو زمین کی ساتویں تہہ میں سے بھی نکال لاؤں گا آپ آگے فرمائیں
میں نے اپنی ماں کو اسکے گھر میں نظر بند کردیا ہے
برکیارق نے کہا دراصل میری ماں نے ہی لوگوں کو بھڑکایا تھا کہ اوریزی کو ناحق قید کیا جارہا ہے وہ میری ماں نہ ہوتی تو میں اسی وقت اسے جلاد کے حوالے کر دیتا آپ نے یہ نگرانی کرنی ہے کہ میری ماں تک میرے دونوں بھائیوں کے سوا کوئی نہ جائے
یہ آپ کے کردار کی بلندی ہے سلطان محترم! وزیر اعظم سمیری نے کہا یہ آپ کے ایمان کی پختگی ہے کہ آپ اس قسم کی ماں کا اتنا احترام کر رہے ہیں گستاخی نہ ہو اور آپ معاف کردے تو کہو کہ آپ کی ماں میں وہ جذبہ اور وہ عظمت نہیں جو آپ کے والد مرحوم سلطان ملک شاہ میں تھی آپ اپنے والد مرحوم کے صحیح جانشین ہیں
آپ دانش مند ہیں برکیارق نے وزیر اعظم سے کہا مجھے معلوم ہے کہ میری ماں آپ کا بہت احترام کرتی ہے آپ اس کے پاس جائیں اور اسے اور دونوں بھائیوں کو کچھ پند و نصیحت کریں کہ وہ میرے لئے مشکلات پیدا نہ کریں اور میرے ساتھ تعاون کریں وہ میری نہیں مانتے
بات کچھ اور ہے روزینہ نے کہا سلطان برکیارق نے مجھے بےسہارا اور یتیم سمجھ کر میرے ساتھ شادی کرلی ہے ان کی ماں کو ان کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا وہ یہ تو سمجھ ہی نہیں رہیں کہ میں سلطان کی بیوی کم لونڈی زیادہ ہوں میں تو ان کی خدمت کے لیے اور ان کو سکون دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر چکی ہوں
میں سب سمجھتا ہوں وزیراعظم سمیری نے کہا آپ سلطان کے لئے بہت ایثار کر رہی ہیں سلطان محترم آپ نے جو احکام آج صادرفرمائیں ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں میں آپ کی والدہ اور بھائیوں کے پاس جا رہا ہوں میں جانتا ہوں اور برملا کہوں گا کہ آپ کی والدہ کا دماغ چل گیا ہے میں سلطنت کی بقا اور سلامتی کا واسطہ دے کر انہیں اور آپ کے بھائیوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا مجھے امید ہے کہ وہ میری بات سن لیں گے
سلطان برکیارق نے وزیراعظم کو جانے کی اجازت دے دی وزیراعظم جانے لگا تو اسنے برکیارق کی نظر بچا کر روزینہ کو آنکھ سے اشارہ کیا وہ باہر نکلا تو روزینہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی گئی کچھ آگے جا کر دونوں ایک کمرے میں چلے گئے
کوئی خاص بات ہے؟
روزینہ نے وزیراعظم سے رازدارانہ لہجے میں پوچھا
سلطان بہت ہی پریشان ہیں وزیراعظم نے کہا میں جانتا ہوں کے آپ ان کا بہت زیادہ اور ہر وقت خیال رکھتی ہیں لیکن انہیں مزید سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے میں آپ کے جذبہ ایثار کی تعریف کر ہی نہیں سکتا پھر بھی میں آپ سے کہتا ہوں کہ سلطان کو اور زیادہ سکون اور سہارے کی ضرورت ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ماں اور بھائیوں نے ان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے میں یہی کچھ کرسکتا ہوں کہ سلطان کی ذمہ داریاں خود سنبھال لوں لیکن گھر میں آپ نے ان کا خیال رکھنا ہے جو آپ رکھ رہی ہیں میں نے بس اتنی سی بات کہنی تھی
مجھے آپ کے ہی تعاون کی ضرورت ہے روزینہ نے کہا اور وزیراعظم سمیری کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے کر چوم لیا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے مشفق باپ کی طرح روزینہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور چلا گیا
جس وقت وزیراعظم سمیری سلطان برکیارق سے اس کے احکام اور روزینہ سے اس کی باتیں سن رہا تھا اس وقت مزمل آفندی محمد اور سنجر کے پاس بیٹھا انہی مسائل پر باتیں کر اور سن رہا تھا اسے خبر ملی تھی کہ سالار اوریزی کو کچھ حملہ آوروں نے رہا کرا لیا ہے تو اسی وقت محمد اور سنجر کے پاس آ گیا تھا محمد نے اسے سنایا کہ برکیارق نے ماں کو نظربند کردیا ہے
برکیارق نہ کہو! مزمل آفندی نے کہا روزینہ کہو سلطان برکیارق کی حیثیت اٹل ہے کہ وہ سلطان ہے فیصلے روزینہ کرتی ہے یہ بات کوئی نئی نہیں میں بات کرنے آیا ہوں کہ سالار اوریزی کے رہائی ہمارے لئے بہت ہی خوشگوار بات ہے اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ہمارا محاذ مضبوط ہے اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے مجھے پتا چل جائے کہ سالار اوریزی کہاں روپوش ہے تو میں اس کے پاس چلا جاؤں گا اور اس سے پوچھوں گا کہ ادھر ہم کیا کریں؟
وہ خاصی باتیں کر چکے تھے اور اب یہ سوچ رہے تھے کہ کیا کیا جائے کہ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کمرے میں داخل ہوا اسے دیکھ کر مزمل محمد اور سنجر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے وزیراعظم نے تینوں سے ہاتھ ملایا اور سب بیٹھ گئے
کہو لڑکوں! وزیراعظم سمیری نے پوچھا کیا باتیں ہو رہی ہیں مزمل تمہیں بڑے عرصے بعد دیکھا ہے
آپ تو جانتے ہیں کہ ہم کیا باتیں کر رہے ہونگے محمد نے کہا سالار اوریزی کی رہائی کی باتیں ہو رہی تھیں مزمل اسی سلسلے میں آیا ہے اچھا ہوا آپ بھی آگئے نہ آتے تو میں آپ کے پاس آ جاتا
سلطان نے طلب فرمایا تھا وزیراعظم نے کہا انہوں نے اپنے احکام اور فیصلے مجھے سنائیں جو انہوں نے آج صادر فرمائے ہیں آپ کی والدہ محترمہ کو نظربند کردیا گیا ہے یہ تو کہنے والی بات ہی نہیں نہ کہنے کی مزید ضرورت ہے کہ روزینہ نے تو سلطان کو بولنے ہی نہیں دیا ایک حکم مجھے اور ملا ہے وہ یہ کہ میں تم دونوں کو اور آپ کی والدہ کو سمجھاؤں کہ آپ سب سلطان سے تعاون کریں اور ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا نہ کریں
آج اپنی ماں کو نظر بند کیا ہے مزمل نے کہا کچھ دنوں بعد دونوں بھائیوں کو سزائے موت دے دے گا
وہاں تک نوبت نہیں پہنچنے دی جائے گی وزیر اعظم نے کہا میں زندہ اور سلامت موجود ہوں میں سلطان اور سلطانہ کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہوں اگر تم لوگ مجھے ان کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی باتیں سنتے دیکھو اور میں وہاں جو غلامانہ حرکتیں کرتا ہوں تم دیکھ لو تو میرے ساتھ بات کرنا بھی گوارا نہ کرو تم کہو گے کہ یہ تو کوئی خاندانی غلام ہے لیکن میں نے دونوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے روزینہ تو میری مرید بن گئی ہے اب یہ سوچنا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے اوریزی کی رہائی ہمارے محاذ کی بہت بڑی کامیابی ہے
میں صرف ایک بات جانتا ہوں مزمل نے کہا اوریزی کہاں روپوش ہے؟
میں اس تک پہنچنا چاہتا ہوں اس سے ہدایت لینی ہے کہ میں کیا کروں
آج رات کو نہیں تو کل تک مجھے یہ پتا چل جائے گا وزیراعظم سمیری نے کہا تم نے اسے کوئی ہدایت نہیں لینی نہ اس کے پاس جانا ہے سلطنت کے سرکاری مخبر اسے ڈھونڈ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے وہاں تک پہنچ جائیں تم لوگوں کو اب جو ہدایات ملیں گی وہ مجھ سے ملیگی
بات یہ ہے محترم! محمد نے کہا مزمل بہت ہی بے تاب ہو رہا ہے کہ باطنیوں کے خلاف کسی جارحانہ کارروائی میں شامل ہو
بے تاب نہیں ہونا مزمل! وزیراعظم نے کہا اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنا ہے اور جذبات کو قابو میں رکھنے کی شدید ضرورت ہے میری ایک بات غور سے سن لو تم ابھی ان جنگوں کو ذہن میں لئے لئے پھرتے ہو جو ہمارے رسولﷺ نے لڑی تھی اور پھر حضرت خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص اور ان جیسے سپہ سالاروں نے لڑی تھی ہمارے دلوں میں وہ عسکری روایات تو زندہ موجود ہیں لیکن اب جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے وہ ان غزوات اور بعد کی لڑائیوں سے بالکل ہی مختلف ہے ہماری روایات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ میدانوں میں کیا ہے ایک ہزار کو تین سو تیرہ نے اور سوا لاکھ کے لشکر کو صرف چالیس ہزار کے لشکر نے شکست دی تھی انہوں نے رومیوں اور فارسیوں کو ہر میدان میں شکست دی وہ آمنے سامنے کی لڑائیاں تھی لیکن اب ہمارا پالا جس دشمن کے ساتھ پڑا ہے وہ میدان میں نہیں آرہا بلکہ زمین کے نیچے سے وار کر رہا ہے مسلمان اس قسم کی جنگ سے واقف نہیں یہی وجہ ہے کہ آج یہ سلطنت ایک بھیانک خطرے میں پڑ گئی ہے شاید تم جانتے ہوں گے کہ اس شہر میں بےشمار باطنی پہنچ چکے ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں حسن بن صباح کے فدائی بھی ہیں جو صرف یہ جانتے ہیں کہ قتل کر کے قتل ہوجانا ہے ہمیں اب زمین کے اوپر بھی لڑنا ہے اور زمین کے نیچے بھی
یہی تو میں سوچ رہا ہوں مزمل نے کہا جس طرح حسن بن صباح نے روزینہ کو بڑی ہی حسین اور زہریلی ناگن بناکر سلطنت کی بالائی سطح پر پہنچا دیا ہے اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ ایسی ہی ایک ناگن وہاں بھیجی جائے جو روزینہ کا زہر مار ڈالے
ایسی ناگن کہاں سے لاؤ گے؟
وزیراعظم نے پوچھا
وہ میرے پاس ہے مزمل نے جواب دیا اس کا نام شمونہ ہے محمد اور سنجر اسے اچھی طرح جانتے ہیں بڑا اچھا اتفاق ہے کہ برکیارق نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ لڑکی ہے اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حسن بن صباح اور باطنیوں کے خلاف دل میں انتقام کی آگ لیے پھرتی ہے
میں اسے جانتا ہوں وزیراعظم نے کہا اسے دیکھا بھی ہے شکل و صورت اور جسم کی کشش کے لحاظ سے وہ موزوں لڑکی ہے لیکن ایسی کاروائیاں کرنے سے پہلے ہمیں بہت کچھ سوچنا پڑے گا
آپ نے اسے صرف دیکھا ہے مزمل نے کہا اسکے انتقامی جذبے کا اندازہ اس سے کریں کہ اس کے دل میں میری محبت معجزن ہے اور وہ فیصلہ کرچکی ہے کہ شادی میرے ساتھ ہی کرے گی اس کی ماں بھی ہمارے ساتھ ہے لیکن شمونہ کہتی ہے کہ میں جب تک حسن بن صباح پر انتقامی وار نہ کر لوں شادی نہیں کروں گی اگر آپ کہیں تو وہ بڑے آرام سے روزینہ کو زہر دے کر یا ویسے کسی ہتھیار سے اسے قتل بھی کر آئے گی
میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اسے استعمال کریں گے لیکن سوچ سمجھ کر وزیراعظم نے کہا ابھی میں نے ایک خفیہ کاروائی کرنی ہے وہ تم تینوں اچھی طرح سن لو آج سے تیسری رات ان خیموں کو فوج محاصرے میں لے گی جن میں برطرف کیے جانے والے فوجی رہتے ہیں سلطان نے مجھے بتایا ہے کہ ان خیموں کی بستی کو محاصرے میں لے کر تمام سابق فوجیوں کو جگایا اور اکٹھا کیا جائے گا اوریزی کو قید خانے لے جانے والے محافظوں میں سے جو ایک بج گیا ہے وہ ان آدمیوں میں سے حملہ آوروں کو شناخت کرے گا بعض کو سپہ سالار حجازی شناخت کرے گا صاف ظاہر ہے جو پکڑے جائیں گے انہیں اگلے ہی روز سزائے موت دے دی جائے گی میں نے یہ بندوبست کرنا ہے کہ کوئی ایسا آدمی نہ پکڑا جائے
اس کاروائی میں ایک خطرہ اور بھی ہے محمد نے کہا سپہ سالار حجازی اتنا بدنیت آدمی ہے کہ وہ ویسے ہی پندرہ بیس آدمیوں کو الگ کر کے کہہ دے گا کہ یہ تھے وہ حملہ آور اور اگلے روز ان کے سر کٹوا دے گا ہمارے پاس ان لوگوں کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں
میں کچھ نہ کچھ بندوبست کر لوں گا وزیراعظم نے کہا اگر میرا انتظام ناکام رہا تو میں ایسی خفیہ کاروائی کروں گا کہ جب ان لوگوں کو سزائے موت کے لئے لے جائیں گے تو انہیں رہا کرا لیا جائے گا اصل بات یہ ہے کہ اب خون خرابہ ہو کر رہے گا میرے آدمی فوج میں بھی موجود ہیں تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ جاسوسی اور مخبری کا میں نے اپنا ایک ذاتی نظام بھی قائم کر رکھا ہے
ان حالات اور واقعات کی پوری اطلاع رے پہنچنی چاہیے محمد نے کہا ابو مسلم رازی نے مجھے خاص طور پر کہا تھا کہ حالات میں کوئی ذرا سی بھی اچھی یا بری تبدیلی آئے انہیں فوراً اطلاع ملنی چاہیے
ہاں یہ بہت ہی ضروری ہے وزیر اعظم نے کہا کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ مزمل ابھی روانہ ہوجائے میں اپنا آدمی اتنی دور نہیں بھیجوں گا میرے خاص اور خفیہ آدمی دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں
میں ابھی روانہ ہو جاتا ہوں مزمل نے کہا حالات اور واقعات مجھے معلوم ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہاں اور کیا بات کرنی ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ فوجی نہتّے ہیں جنہیں فوج سے برطرف کیا جا رہا ہے ان کے لیے ہتھیاروں اور گھوڑوں کا انتظام کرنا ہے ہماری یہ ضرورت ابومسلم رازی ہی پوری کر سکتے ہیں
وہ تو ہر طرح کی مدد دینے کا وعدہ کر چکے ہیں محمد نے کہا انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ اپنی پوری فوج یہاں بھیج دیں گے
پھر میں چلتا ہوں مزمل نے کہا آپ شمونہ پر غور کرنا وہ کسی طرح سلطان اور روزینہ تک پہنچ جائے تو اور کوئی شدید کاروائی کرے نہ کرے جاسوسی اور مخبری تو کرے گی ہی یہ بھی تو ہماری ضرورت ہے
تم واپس آجاؤ تو یہ بات بھی کر لیں گے وزیراعظم سمیری نے کہا یہ کام کرنا ہی پڑے گا تم جاؤ تیار ہو کر روانہ ہو جاؤں خالی ہاتھ نہ چل پڑنا تمہارے پاس دو یا تین ہتھیار ہونے چاہیے اور گھوڑا کمزور نہ ہو
اسی رات کا واقعہ ہے برطرف کیے جانے والے فوجیوں کے خیموں سے ذرا ہی پرے تین آدمی جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے کچھ دیر بعد ایک آدمی اٹھا اور خراماں خراماں کچھ دور تک چلا گیا وہ ایک جگہ رکا پھر واپس ہوا اور اپنے ساتھیوں میں جا بیٹھا اس کیمپ میں خیموں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی بارہ چودہ ہزار آدمی رہتے تھے ہر خیمے میں پانچ چھے آدمیوں کی رہائش تھی
آدھی رات کے کچھ وقت بعد کسی خیمے میں سے ایک آدمی اٹھا اور خیموں کی بستی میں سے باہر نکل گیا وہ پیشاب کرنے گیا تھا وہ ایک جگہ رکا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک آدمی نے جھپٹ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور پیشتر اس کے کہ اسے پتہ چلتا کہ یہ کون ہے ایک خنجر اس کے سینے میں اس جگہ اتر گیا جہاں دل ہوتا ہے یہ خنجر وہاں سے نکلا اور ایک بار پھر اس کے سینے میں داخل ہوگیا اس کے منہ پر ہاتھ رکھا گیا تھا اس لئے اس کی آواز نہیں نکلی تھی وہ گرا اور مر گیا
وہ تینوں آدمی اس کی لاش وہیں چھوڑ کر ایک اور طرف چلے گئے ایک اور جگہ چھپ کر بیٹھ گئے
آج رات کم از کم تین آدمی مارنے ہیں ان تینوں میں سے ایک نے کہا انہیں خاصی دیر انتظار کرنا پڑا پھر ایک اور آدمی خیمے میں سے باہر نکلتا نظر آیا یہ تینوں قاتل دبے پاؤں سرکے ہوئے اور نہایت آہستہ آہستہ چلتے اس آدمی کے عقب میں پہنچ گئے اس آدمی کو بھی انہوں نے اسی طرح قتل کیا اور اس کی لاش وہیں پھینک کر دوسری طرف جھاڑیوں کے پیچھے جا کر بیٹھ گئے کسی اوٹ میں بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ رات تاریک تھی
اس طرح صبح کاذب تک انہوں نے تیسرے آدمی کو بھی قتل کیا اور وہاں سے چلے گئے انہوں نے آبادی میں جاکر ایک دروازے پر دستک دی اندر سے بلی کی میاؤں کی آواز آئی باہر کھڑے تین میں سے ایک آدمی نے اسی طرح بلی کی آواز میاؤں کیا اور دروازہ کھل گیا تینوں اندر گئے اور دروازہ پھر بند ہوگیا دروازہ کھولنے والا انہیں ایک کمرے میں لے گیا اور دیا جلایا
تمہارے کپڑے بتا رہے ہیں کہ تم کام کر آئے ہو اس آدمی نے کہا اور پوچھا کتنے ؟
تین ایک نے جواب دیا آج رات اتنے ہی کافی ہیں
ہاں امام کے نام پر آج کی رات اتنی ہی کافی ہیں اس آدمی نے کہا باقی قتل و غارت وہ خود ہی آپس میں کرلیں گے اب تم سو جاؤ اگلا کام کرنے والے جلدی اٹھ جائیں گے انہیں میں اطلاع دے دوں گا
یہ اس طبیب کا گھر تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے ہاتھ میں شفا ہے اسی نے اپنے آدمیوں کو یہ حکم سنایا تھا کہ الموت سے امام کا حکم آیا ہے کہ مرو کو خون میں ڈبو دو ہر روز تین چار آدمی قتل ہونے چاہیں
اگلی صبح خیموں کی اس بستی میں جب یہ خبر پہنچی کہ ان کے تین ساتھی باہر مرے پڑے ہیں اور انہیں خنجر لگے ہیں تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہزارہا سابق فوجی اکٹھے ہوگئے راہ جاتے لوگ بھی وہیں رک گئے شہر میں خبر پہنچی تو لوگ ادھر ہی کو اٹھ دوڑے
ایک آواز تھی کہ فوجیوں نے یعنی ان فوجیوں نے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا تھا اپنے عہدے دار کے خون کا بدلہ لیا ہے یہ آواز ہوا کے تیز جھونکے کی طرح ہر طرف پھیل گئی اور ذرا سی دیر میں یہی بات ہر کسی کی زبان پر تھی کہ حاضر فوجیوں نے سابق فوجیوں کے تین بندے مار ڈالے ہیں
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ فوج میں رہنے والے ایک عہدے دار کی لاش ملی تھی اور یہ یقین کر لیا گیا تھا کہ فوج میں سے نکالے جانے والے دو آدمیوں نے اسے قتل کیا ہے سپہ سالار حجازی نے ویسے ہی کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر سابق فوجیوں کے دو آدمی پکڑ کر جلادوں کے حوالے کر دیے تھے اس سے ایسا فساد اٹھا جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگیا
سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو اطلاع ملی تو وہ اپنے محافظوں کو ساتھ لئے گھوڑا دوڑاتا پہنچا خیموں میں رہنے والے سابق فوجیوں نے اسے گھیر لیا اس قدر شوروغل اور احتجاج کا ایسا ہنگامہ کے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون کیا کہہ رہا ہے سپہ سالار حجازی نے بڑی مشکل سے سب کو خاموش کروایا اور کہا کہ کوئی ایک ذمہ دار آدمی بات کرے
میں بات کرتا ہوں ایک نائب سالار سب کی نمائندگی میں بولا اسے بھی فوج سے برطرف کیا جارہا تھا اور وہ انہیں خیموں میں رہتا تھا اس نے کہا حاضر فوجی کا ایک عہدیدار قتل ہوگیا تو ہمارے دو آدمیوں کو ویسے ہی پکڑ لیا گیا تھا اب ہمارے تین آدمی قتل ہوگئے ہیں حاضر فوجیوں کے چھ آدمی پکڑ کر ہمارے سامنے جلادوں کے حوالے کئے جائیں
سپہ سالار حجازی نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ وہ سلطان کے پاس جا رہا ہے اور وہاں سے حکم لے کر واپس آئے گا
حجازی سلطان برکیارق کے پاس جانے کی بجائے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے پاس چلا گیا اور اسے بتایا کہ پہلے ادھر سے ایک آدمی قتل ہوا تھا اور اب ادھر سے خیموں میں رہنے والے تین آدمی قتل ہوگئے ہیں وزیراعظم نے سپہ سالار حجازی کو ساتھ لیا اور دونوں سلطان برکیارق کے پاس چلے گئے اسے نئی واردات سنائی
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے کہا میں تو یہ سمجھا ہوں کہ حاضر اور برطرف فوجیوں میں دشمنی پیدا ہوگئی ہے میرا مشورہ تو یہ ہے کہ برطرف شدہ فوجیوں کو فارغ کر کے گھروں کو بھیج دیا جائے
ایسا ہرگز نہ کرنا وزیراعظم نے کہا یہاں وہ خیمے میں پڑے ہیں انہیں فارغ کیا گیا تو یہ ہتھیار اٹھا لیں گے اور بڑا ہنگامہ ہوگا
وزیراعظم سمیری نے یہ جو مشورہ دیا اس سے اس کا مقصد کچھ اور تھا اس کا جو منصوبہ تھا اس کے مطابق وہ ان فوجیوں کو یہی رکھنا چاہتا تھا یہ اس کی خفیہ فوج تھی جسے اس نے خانہ جنگی کی صورت میں سلطان کی فوج کے خلاف استعمال کرنا تھا اس نے سلطان برکیارق سے منوا لیا کہ انہیں ابھی یہاں سے جانے نہیں دیا جائے گا
ادھر خیموں میں رہنے والے سابق فوجی للکار رہے تھے کہ وہ اپنے مقتولوں کا بدلہ لیں گے شہر میں بھی یہی افواہ گردش کررہی تھی کہ حاضر فوجیوں نے سابق فوجیوں کے تین آدمی قتل کر دیے ہیں کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ غلط ہے بعض جگہوں پر شہری ایک دوسرے سے الجھ بھی پڑے
ابھی کسی کے ذہن میں شک تک نہیں آیا تھا کہ یہ آگ لگانے والے باہر کے لوگ ہیں اور وہ ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ہوچکی ہے یہ افواہ حسن بن صباح کے آدمی پھیلا رہے تھے
سپہ سالار حجازی کے ساتھ وزیراعظم بھی خیموں کی بستی میں گیا اور اس نے بڑی مشکل سے ان لوگوں کو ٹھنڈا کیا اور کہا کہ قاتل بچ کر نہیں جائیں گے
حسن بن صباح کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا تھا اس کی مقبولیت بڑی تیزی سے پھیلتی جارہی تھی اس تبلیغ کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ وہ کسی قبیلے کے سردار کو حوروں جیسی حسین لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے اپنے دامِ کفر میں پھانس لیتا تھا پھر اسے یہ تاثر دیتا کہ اسے اسلام سے خارج نہیں کرایا جارہا بلکہ اسلام کے دائرے میں لایا جارہا ہے حسن بن صباح نے جو دائرہ بنا رکھا تھا اسے وہ اسلام ہی کہتا تھا لیکن اس میں ہر گناہ کی کھلی اجازت تھی قبیلے کے سردار کو وہ ذہنی اور روحانی طور پر اپنی بڑی ہی خوبصورت اور چمکتی ہوئی زنجیروں میں جکڑ لیتا اور پھر اس سے اس قبیلے کو حکم دلواتا کہ وہ سب باطنی عقیدے کے قائل ہو جائیں اور حسن بن صباح کو اپنا امام یا نبی مان لیں
اگر کسی قبیلے کے سردار نے اس کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو اسے حسن بن صباح نے اپنے فدائین کے ہاتھوں قتل کروا ڈالا اس قبیلے کو اپنے شعبدے دکھائے کہ لوگوں نے اس کی امامت کو تسلیم کرلیا اس کے ابلیسی عقائد کے فروغ اور مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا راستہ روکنے والا کوئی نہ تھا اسے صرف سلطنت سلجوقیہ کی طرف سے خطرہ تھا لیکن اسکے ابلیسی دماغ نے ایسی زمین دوز چال چلی کہ اس سلطنت کے حکمران طبقے کو آپس میں ہی ٹکرا دیا اور وہاں خانہ جنگی کا بیج بو ڈالا جو پھوٹ کر باہر نکلا اور ہرا بھرا ہو کر پھیل رہا تھا پھر وہ رات آئی جس رات فوج نے برطرف کئے ہوئے فوجیوں کے خیموں کو محاصرے میں لیتا اور خیموں میں سوئے ہوئے آدمیوں کو جگا کر ایک جگہ کھڑا کرنا تھا آدھی رات کا وقت ہوگا جب وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور سپہ سالار ابوجعفر حجازی فوجیوں کی بارکوں میں پہنچ گئے فوج کو بتا دیا گیا تھا کہ رات کو خیموں کے پورے علاقے کو محاصرے میں لینا ہے فوجیوں کو بڑی سختی سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ باہر کے کسی بھی شخص کو نہ بتائیں کہ آج رات کیا ہونے والا ہے
فوج تیار ہو کر باہر ایک ترتیب میں کھڑی تھی پہلے وزیراعظم سمیری نے ان فوجیوں سے خطاب کیا اس نے کہا کہ عہدیدار کے قاتل اور اوریزی کو محافظوں سے رہائی دلانے والے انہیں آدمیوں میں سے ہیں انہیں شناخت کرنا ہوگا پھر سپہ سالار حجازی نے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے چند ایک باتیں کیں
فوج چل پڑی اس فوج کے پاس تلواریں بھی تھیں اور برچھیاں بھی بعض سپاہیوں کے پاس مشعلیں بھی تھیں جنہیں حکم ملنے پر جلانا تھا ان فوجیوں کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ یہ کوئی حملہ نہیں بلکہ اس محاصرے کا مطلب کچھ اور ہے اس لئے کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے فوجی خود بھی جانتے تھے کہ جنہیں وہ محاصرے میں لینے جا رہے ہیں وہ نہتّے ہیں اور برچھیوں اور تلواروں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں
یہ فوجی پیدل جا رہے تھے ان کی بارکیں شہر کے ایک طرف تھیں اور خیمے شہر کے دوسری طرف اور شہر سے ہٹ کر کے فوجیوں نے مکمل خاموشی اختیار کرکے جانا تھا تاکہ جنہیں محاصرے میں لینا تھا وہ بیدار نہ ہو جائیں سپہ سالار حجازی ان کے ساتھ تھا وزیراعظم پیچھے رک گیا تھا اس نے اس کارروائی کی نگرانی کرنی تھی
فوج خیمہ گاہ سے کچھ دیر دو رہی محاصرے کی ترتیب میں ہوگئی اور پھر اس نے خیمہ گاہ کی طرف پیش قدمی شروع کی خیمہ گاہ کے قریب پہنچ کر جس طرح انہیں پہلے بتا دیا گیا تھا فوج رک گئی
صرف ایک مشعل بردار سپاہی کو کہا گیا کہ وہ مشعل جلا لے یہ سپاہی سپہ سالار حجازی کے ساتھ تھا حجازی نے ہی اسے مشعل جلانے کو کہا تھا یہ ایک اشارہ تھا کہ جس جس سپاہی کے پاس مشعل ہے وہ جلا لیں دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں مشعلیں جل اٹھیں اور رات دن میں تبدیل ہوگئی خیموں میں سابق فوجی اتنی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ کسی ایک کی بھی آنکھ نہ کھلی اگلا اشارہ ملا تو فوجی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے انہیں تلواریں نیاموں میں سے نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی نہ ہی برچھیاں لڑائی کے انداز میں تان کر آگے بڑھنا تھا کیوں کہ یہ حملہ نہیں تھا
پہلے خیمے کے پردے اٹھائے گئے اور مشعل کی روشنی میں اندر دیکھا گیا تو وہاں کوئی ایک بھی آدمی نہیں تھا جس خیمے کو بھی دیکھا گیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا
اچانک عقب سے دوڑتے قدموں کی آوازیں اس طرح سنائی دیں جیسے طوفان آ رہا ہو اور اس کے آگے نہ جانے کیا کیا اڑتا اور بہتا رہا ہو پیشتر اس کے کہ فوجی سمجھ پاتے کہ یہ کیا آ رہا ہے ان پر حملہ ہو گیا حملہ اس نوعیت کا تھا کہ ایک ایک فوجی کو ایک ایک دو دو آدمیوں نے پیچھے سے پکڑ لیا کسی نے کسی فوجی کی تلوار نکال لی اور کسی نے مشعل بردار سپاہی سے مشعل چھین لی یہ بڑی مشعلیں تھی جو ڈنڈوں کے اوپر کپڑے باندھ کر اور اس پر تیل ڈال کر چلائی گئی تھیں فوجی جو ذرا سنبھل گئے یا بروقت چوکنے ہو گئے تھے انہوں نے تلواریں نکال لیں اور جن کی تلواریں چھینی گئی تھیں انہوں نے لڑائی کے انداز میں برچھیاں تان لیں اس کے بعد بڑی ہی خونریز جھڑپ ہوئی بعض فوجیوں کو ان سے چھینی ہوئی مشعلوں سے ہی جلا دیا گیا ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی تو وہ ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے لگے اور جل کر گرتے رہے
سپہ سالار حجازی حیران اور پریشان ہوگیا کہ یہ کیا ہوگیا ہے اس کے لئے اس صورتحال پر قابو پانا ناممکن تھا وہ بارکوں کی طرف بھاگا اس کے دو محافظ اس کے ساتھ تھے دوڑتے دوڑتے وہ بارکوں میں پہنچا اور حکم دیا کے فوج تیار ہو کر فوراً خیمہ گاہ میں پہنچے
یہ حکم دے کر وہ اس جگہ پہنچا جہاں وزیراعظم نے اسے کہا تھا کہ وہ موجود رہے گا اس نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہاں تو کچھ اور ہی ہوگیا ہے خیمہ خالی تھے اور فوج پر پیچھے سے حملہ ہوگیا حجازی نے یہ بھی بتایا کہ وہ مزید فوج بھیج رہا ہے
میں جان گیا ہوں وزیراعظم سمیری نے کہا ہماری یہ کاروائی راز میں نہیں رہ سکی کسی مخبر نے قبل ازوقت خیمہ گاہ میں یہ راز پہنچا دیا ہوگا
وزیراعظم سپہ سالار حجازی کے ساتھ خیمہ گاہ کی طرف چلا گیا خیمہ گاہ سے شعلے اٹھ رہے تھے جن کی روشنی شہر میں آرہی تھی بعض شہری جاگ اٹھے اور چھتوں پر جا کر دیکھنے لگے کہ یہ آگ کہاں لگی ہوئی ہے سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم نے دور سے ہی خیمہ گاہ دیکھ لی وہاں تو باقاعدہ میدان جنگ جیسی لڑائی ہو رہی تھی اور شعلے جو اٹھ رہے تھے یہ جلتے ہوئے خیموں کے تھے مشعلیں بھی لڑائی میں ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہو رہی تھیں بعض سپاہیوں کے ہاتھوں سے مشعلیں خیموں کے اوپر یا اندر گری تو چند ایک خیمے جلنے لگے
ادھر سے مزید فوج برچھیوں اور تلواروں سے مسلح سرپٹ دوڑتی آرہی تھی جب یہ فوج میدان جنگ میں پہنچی تو وہاں لڑائی ختم ہو چکی تھی صرف یہ نظر آیا کہ کچھ آدمی جنگل کی طرف دوڑے جا رہے تھے اور ذرا آگے جا کر غائب ہوگئے کسی فوجی نے ان کا تعاقب نہ کیا
سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم نے خیمہ گاہ میں جا کر دیکھا وہاں فوج کے زخمی تڑپ رہے تھے اور ان کے ساتھ لاشیں بھی پڑی تھیں یہ لاشیں فوجیوں کی بھی تھیں اور ان کی بھی جو فوجی نہیں تھی کچھ دیر بعد یہ راز کھلا کی یہ وہ فوجی تھے جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا اور وہ ان خیموں میں رہتے تھے
تاریخ کے مطابق یہ راز صرف وزیراعظم سمیری کو معلوم تھا کہ یہ ہوا کیا تھا حملہ تو فوج کرنے گئی تھی لیکن حملہ اس پر ہوگیا اس لڑائی کے پیچھے وزیراعظم کا اپنا ہاتھ تھا جن مؤرخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے وہ اس دور کے دستاویزی حوالے دے کر لکھتے ہیں کہ برطرف کیے جانے والے فوجیوں میں اوریزی کے علاوہ ایک اور سالار اور ایک نائب سالار اور چند ایک تجربے کار عہدیدار تھے وزیراعظم سمیری نے انہیں وقت سے خاصہ پہلے اپنے مخبروں کے ذریعے بتا دیا تھا کہ آج رات آدھی رات کے وقت انہیں محاصرے میں لے کر جگایا جائے گا اور ان میں سے ان آدمیوں کو شناخت کیا جائے گا جنہوں نے اوریزی کو رہا کرایا تھا
وزیراعظم سمیری نے انہیں یہ طریقہ بتایا تھا کہ جب سارا شہر سو جائے تو یہ تمام برطرف شدہ فوجی ایک ایک دو دو کر کے خیمہ گاہ سے نکل جائیں اور قریب ہی کہیں جا کر چھپ جائیں ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اتنے تھوڑے سے وقت میں پندرہ سولہ ہزار تلواریں فراہم نہیں کی جاسکتی تھیں انہیں بتایا گیا تھا کہ فوج اپنی تلوار نیاموں میں رکھے گی اور فوج کا ارادہ لڑائی کا نہیں ہوگا سابق فوجیوں کو یہ کہا گیا کہ وہ اس وقت خالی ہاتھ ان فوجیوں پر حملہ کریں جب وہ خیموں میں رہنے والوں کو جگانے جائیں اور ان کی نیاموں سے تلوار کھینچ لیں اور مشعلیں بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور پھر یہ نہ دیکھیں کہ فوج کا ارادہ لڑنے کا تھا یا نہیں انہیں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ وہ لڑائی کے بعد خیمہ گاہ میں نہ آئیں دور پیچھے جنگلوں میں اور پہاڑی علاقوں میں چلے جائیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ انہیں اکٹھا کر لیا جائے گا اور پھر بتایا جائے گا کہ وہ کیا کریں گے
وزیراعظم کا یہ منصوبہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا جب فوج کی کمک پہنچی تو وہاں زخمیوں اور لاشوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا یا جلتے ہوئے خیمے تھے
فوج کی کمک جو لڑنے کے لیے آئی تھی وہ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے میں مصروف ہوگئی سپہ سالار حجازی بار بار وزیراعظم سمیری سے پوچھتا تھا کہ آخر یہ ہوا کیسے؟
وزیراعظم ہر بار گردن کو ذرا سا خم دے کر سر کے اشارے سے یہ تاثر دیتا کہ وہ حیران ہے
صبح سویرے سویرے سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم سمیری سلطان برکیارق کے محل کے باہر اس کے جاگنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے بہت دیر بعد انہیں اندر بلایا گیا وہ جب اندر گئے تو سلطان برکیارق ابھی تک بستر میں تھا
رات کا کام ٹھیک ہوگیا؟
سلطان نے پوچھا کچھ آدمی پہچانے گئے یا نہیں؟
وہاں تو معاملہ ہی کچھ اور بن گیا ہے سلطان محترم! وزیر اعظم سمیری نے کہا فوج گئی تو تمام خیمے خالی تھے فوج خیموں کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ہر طرف سے فوج پر حملہ ہوگیا
سلطان برکیارق جو غنودگی کی کیفیت میں بول رہا تھا بڑی تیزی سے اٹھ بیٹھا اور آنکھیں پھاڑے ہوئے سپہ سالار حجازی اور وزیر اعظم کو دیکھنے لگا
کیا کہہ رہے ہو تم ؟
سلطان برکیارق نے حیرت زدہ سرگوشی سے پوچھا یا شاید میں ابھی تک نیند میں ہوں اور تمہاری بات سمجھا نہیں
نہیں سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا آپ ٹھیک سن رہے ہیں اگر زحمت نہ ہو تو خیمہ گاہ میں چل کر دیکھیں وہاں آپ کو خون اور جلے ہوئے خیموں کی راکھ نظر آئے گی زخمیوں کی مرہم پٹی ابھی تک ہو رہی ہے
لیکن یہ سب ہوا کیسے ؟
سلطان برکیارق نے کہا میرے اس حکم سے آپ دونوں واقف تھے میں یہ سمجھا ہوں کہ خیموں میں رہنے والوں کو قبل از وقت پتہ چل گیا تھا کہ میں نے کیا حکم دیا ہے انہوں نے یہ جوابی وار کیا کہ محاصرے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئے اور فوج پر پیچھے سے حملہ کر دیا مجھے یہ بتائیں کہ انھیں یہ اطلاع کس نے دی تھی؟
سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا ایک انسان اور ہے جسے آپ کے اس حکم کا علم تھا آپ کی بیگم محترمہ لیکن میں ان پر شک کرنے کی جرات نہیں کر سکتا
اور نہ ہی اس پر شک کیا جا سکتا ہے سلطان برکیارق نے کہا
یہ کارستانی اوریزی کی معلوم ہوتی ہے سپہ سالار حجازی نے کہا لیکن اس تک یہ خبر کس طرح قبل از وقت پہنچی؟
سلطان نے غصے سے کہا مجھے اس سوال کا جواب چاہیے
اس سوال کا جواب ملنا ناممکن تھا روزینہ بھی وہاں موجود تھی وہ سلطان برکیارق کی نسبت زیادہ پریشانی کا اظہار کر رہی تھی لیکن دلی طور پر وہ خوش اور مطمئن تھی کہ جو صورت حال حسن بن صباح پیدا کروانا چاہتا تھا وہ پیدا ہوگئی ہے اس نے سلطان سے کہا کہ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے حکم کی بھنک کس طرح خیمہ گاہ میں پہنچ گئی تھی بیکار ہے اور وقت ضائع ہورہا ہے اب کرنے والا کام یہ ہے کہ فوج کو باہر نکال کر ان لوگوں کے تعاقب اور تلاش میں بھیجا جائے وہ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ان پر زوردار حملہ کرکے ان کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے
ہمیں یہی کارروائی کرنی چاہئے سپہ سالار حجازی نے کہا اگر ہم یہاں سوچتے رہے اور باتیں کرتے رہے تو وہ لوگ بکھر کر ادھر ادھر ہو جائیں گے اور اپنے اپنے گھروں کو جا پہنچیں گے پھر ہم انہیں کہاں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے انہیں فوراً پکڑ کر سزا دینی چاہیے
ہاں ہمیں یہی کرنا چاہیے سلطان برکیارق نے کہا حجازی تم فوراً جاؤ اور یہ کاروائی شروع کر دو
شہر میں بھی خبر پھیل گئی تھی کہ رات سابق فوجیوں کی خیمہ گاہ میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی ہے طبیب نے جو حسن بن صباح کے اس مشن کو چلا رہا تھا اپنے آدمیوں کو پہلے ہدایات دے دی تھی ان کے مطابق ان باطنیوں نے شہر میں یہ افواہ پھیلا دی کہ رات فوج نے نہتے لوگوں پر اس وقت حملہ کیا ہے جب وہ سوئے ہوئے تھے اس افواہ نے پورا پورا کام کیا اور لوگوں میں سلطان کی فوج کے خلاف نفرت پیدا ہونے لگی اور ہر کوئی سلطان کو اور فوج کو برا بھلا کہہ رھا تھا
لوگ خیمہ گاہ تک پہنچے تو انہیں وہاں جلے ہوئے خیمے نظر آئے اور ہر طرف خون بکھرا اور جمع ہوا دیکھا زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لے گئے تھے
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ شہر میں جو افواہیں پھیل گئیں ہیں وہ حسن بن صباح کی طرف سے پھیلائی گئی ہیں وزیراعظم نے اپنے خفیہ آدمیوں کے ذریعے بھی شہریوں کو فوج اور سلطان کے خلاف کرنے کے لیے ایسی ہی افواہیں پھیلا دیں ان سے باطنیوں کے محاذ کو تقویت ملی وزیراعظم جو کچھ زیر زمین ہوکر کر رہا تھا وہ اسلام اور سلطان کے مفاد کے لئے ضروری تھا اس کی کوشش یہ تھی کہ سلطان برکیارق سلطانی چھوڑ دے اور اس کی جگہ محمد کو سلطان بنایا جائے تاکہ روزینہ کی صورت میں سلطنت پر جو آسیب طاری ہوگیا ہے وہ اتر جائے وزیراعظم کو اتنا ہی معلوم تھا کہ سلطان برکیارق پر صرف روزینہ غالب ہے یہ حسن بن صباح کی ٹریننگ کا کمال تھا کہ اس کے فدائی اور دیگر پیروکار کسی کو اپنی موجودگی اور تخریبی سرگرمیوں کا پتہ ہی نہیں چلنے دیتے تھے
مزمل رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے پاس پہنچ گیا تھا اور اسے مرو کے حالات بتا دیے تھے
میں پوری طرح تیار ہوں ابومسلم رازی نے کہا یہ تو میرے پاس اپنی کچھ فوج ہے جو کافی تو نہیں لیکن تجربے کار اور جذبے والی ہے اس کے علاوہ میں نے شہریوں کو تیار کر رکھا ہے جونہی ضرورت محسوس ہوئی یہاں سے اچھا خاصا لشکر روانہ کر دوں گا اور اگر میری ضرورت محسوس ہوئی تو میں بھی آ جاؤں گا
انہیں ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ پیچھے مرو میں کیسا خونریز واقعہ ہوگیا ہے مزمل اسی روز وہاں سے چل پڑا ابومسلم رازی نے اسے محمد اور وزیراعظم سمیری کے لیے ایک پیغام اور کچھ ہدایات دی تھیں
مزمل جب واپس آ رہا تھا تو تقریباً نصف راستے میں اسے ایک اور آدمی ملا جس کے ساتھ اس کے دوستانہ مراسم تھے اس نے مزمل کو بتایا کہ وہ ابومسلم رازی کے لیے ایک اور پیغام لے جا رہا ہے اس نے مزمل کو تفصیل سے سنایا کہ فوج نے خیمہ گاہ پر حملہ کیا ہے اور بڑی خونریز لڑائی ہوئی ہے اور اب فوج ان برطرف شدہ فوجیوں کی تلاش میں جا رہی ہے
مزمل اس آدمی کے ساتھ واپس رے کی طرف چل پڑا وہ ابومسلم رازی سے اس نئی صورتحال کے سلسلے میں ہدایات لینا چاہتا تھا
فاصلہ خاصا زیادہ تھا یہ دونوں رات کے وقت ابومسلم رازی کے یہاں پہنچ گئے رازی کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو انہیں فوراً اندر بلا لیا گیا قاصد نے اسے مرو کی نئی صورت حال سنائی اس قاصد کو وزیراعظم سمیری نے بھیجا تھا
یہ ایک بڑا ہی اہم اور تاریخی واقعہ تھا جس نے اسلام اور سلطنت سلجوقیہ کو بڑے خطرناک دو راہے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا مورخوں نے اس واقعہ کی زیادہ تفصیلات نہیں لکھیں البتہ ابن اثیر اور ایک یوروپی مؤرخ نے کچھ حالات بیان کئے ہیں ان سے یہ صورت سامنے آئی ہے کہ ابو مسلم رازی نے اپنی فوج اور شہریوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر اس اجتماع سے خطاب کیا
اسلام کے شیدائیوں شمع رسالت کے پروانوں! ابومسلم رازی نے انتہائی بلند آواز میں کہا تمہاری آزمائش کا اور ایثار کا وقت آ پہنچا ہے مرو میں نہتّے لوگوں پر سلطان کی فوج نے حملہ کرکے قتل عام کیا ہے اس خونریزی کے پیچھے حسن بن صباح کے باطنیوں کا ہاتھ ہے سلطان برکیارق کی بیوی باطنی ہے اور وہ حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے اس نے سلطان کو نشہ پلا پلا کر اور اس پر اپنے حسن کا نشہ طاری کرکے دماغی طور پر بیکار کر دیا ہے سلطان کے ایوان سے جو حکم جاری ہو رہے ہیں وہ سلطان کی بیوی سلطان کی زبان سے جاری کرتی ہے وہاں بھائی کو بھائی سے لڑوایا جارہا ہے اور شہر میں اتنی زیادہ باطنی آچکے ہیں کہ ہمارے اس دارالسلطنت پر باطنی قابض ہوگئے ہیں یہاں سوال صرف سلطنت کا نہیں بلکہ تمہارے دین اور ایمان کا سوال ہے اسلام کے نور کو ہمیشہ کے لئے بجھایا جا رہا ہے اگر تمہیں اپنا دین اور اپنا ایمان عزیز ہے تو اللہ کا نام لے کر اٹھو اور باطل کی اس قوت کو اسی طرح کچل کر رکھ دو جس طرح ہمارے آباء اجداد نے روم اور فارس کی ہیبت ناک قوتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اس سلطنت پر حسن بن صباح کا قبضہ ہوگیا تو تمہاری بیٹیاں اور بہنیں اٹھا لی جائیں گی اور تم جانتے ہو کہ انہیں کس طرح اور کہاں کہاں استعمال کیا جائے گا اگر تم میں غیرت ہے تو مسلح ہو کر باہر آ جاؤ اور اپنے سروں پر کفن باندھ لو اپنے دین کو اور اپنی عزت کو شیطانی فرقے سے بچاؤ تم پر ایک شیطانی قوت قابض ہونا چاہتی ہے میں ایک لشکر مرو روانہ کرنا چاہتا ہوں ایک تو فوج ہے لیکن یہ کافی نہیں جو غیر فوجی اس لشکر کے ساتھ جانا چاہتے ہیں وہ ایک طرف ہو کر کھڑے ہوجائیں انہیں ہتھیار ملیں گے اور ساری سہولتیں ملیں گی البتہ وہ گھوڑے خود لائیں گے جو ان کی اپنی ملکیت میں رہیں گے
ابومسلم رازی کے بولنے کے انداز میں جہاں جوش و خروش اور دین اسلام کی تپش تھی وہاں اس کا انداز بارہا جذباتی ہوتا جاتا تھا اور دو تین مرتبہ اس پر رقت بھی طاری ہوگئی
دیکھتے ہی دیکھتے آدھے شہری ایک طرف ہوگئے وہ حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ہر طرف سے جہاد جہاد کی آواز اٹھ رہی تھی اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر عورتیں کھڑی تھیں انہوں نے بھی ابومسلم رازی کا خطاب سنا تھا انہوں نے بھی نعروں کی زبان میں اپنے مردوں کی حوصلہ افزائی شروع کردی
امیر شہر رازی! ایک چھت سے ایک عورت کی بڑی بلند آواز آئی اگر مقابلہ لڑائی کا ہے تو وہاں عورتوں کی بھی ضرورت ہوگی زخمیوں کو اٹھانا ان کی مرہم پٹی اور پانی پلانا عورتوں کا کام ہے ہمیں بھی اس لشکر کے ساتھ بھیج دیں
اگر نفری کم ہے تو ہم بھی لڑ سکتی ہیں دوسری عورت کی آواز آئی
نہیں ابھی نہیں ابومسلم رازی اپنا گھوڑا اس چھت کے قریب دوڑاتا لے گیا اور روک کر بلند آواز سے کہا جب تک مرد زندہ ہیں عورتوں کو باہر نہیں نکالا جائے گا تم مستورات صرف یہ کام کرو گے کہ اپنے بچوں کو بتاؤ کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کے دشمن کون ہیں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ میری بیٹیوں اور بہنوں میں جہاد کا جذبہ جوش مار رہا ہے تم گھروں میں رہ کر اپنے ان مجاہدوں کے لئے دعا کرتی رہنا
ابومسلم رازی کو شاید معلوم ہی ہوگا کہ جن شہریوں کو اکٹھا کرکے وہ جوش دل آرہا تھا ان میں حسن بن صباح کے فدائین جاسوس اور دیگر پیرو کار بھی موجود تھے ابو مسلم رازی نے اپنے علاقے میں مسجدوں کے اماموں کے ذریعے حسن بن صباح اور اس کے ابلیسی عقیدے کے خلاف نفرت پیدا کر دی تھی اس نے جامع مسجد کے خطیب اور دوسری مسجدوں کے اماموں کو حکم دے رکھا تھا کہ حسن بن صباح کے خلاف بولتے رہا کریں اور لوگوں کے دلوں پر نقش کر دیں کہ حسن بن صباح سراپا ابلیس ہے اور وہ اسلام کا بدترین دشمن ہے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:36 }
دو تین دنوں بعد رے سے اور شہریوں کی کچھ نفری کا ایک لشکر چلا لیکن اسے مرو نہیں پہنچنا تھا بلکہ مرو کے قریب ایک پہاڑی علاقے میں چھپ کر رہنا تھا مزمل اور دوسرا قاصد اس لشکر کے ساتھ تھا یہ لشکر اگلے روز اس مقام تک پہنچا جہاں اسے پہنچنا تھا فوج میں دو تجربے کار سالار تھے جن کا جذبہ ان کے تجربے سے زیادہ تیز تھا
مزمل مرو پہنچا اور سیدھا محمد کے پاس گیا وزیراعظم سمیری کے پاس براہ راست جانا مناسب نہیں تھا اس نے محمد کو بتایا کہ ابو مسلم رازی نے ایک لشکر دیا ہے جو فلاں مقام تک پہنچ گیا ہے اور اسے اگلے حکم کا انتظار ہے
وزیراعظم نے تمام انتظامات اتنی خوبی سے خفیہ طور پر مکمل کر دیے ہیں کہ اس لشکر تک یہ ہدایات پہنچ جائیں گی کہ انہیں کیا کرنا ہے محمد نے کہا میں اسی انتظار میں تھا کہ ابو مسلم رازی کوئی لشکر بھیج دیں معلوم نہیں انہوں نے ہتھیاروں کا الگ ذخیرہ بھیجا ہے یا نہیں
بھیجا ہے مزمل نے جواب دیا بے شمار اونٹوں پر تلواریں پرچھیاں اور کمانیں اور تیر لدے ہوئے آئے ہیں
ہمیں ان ہتھیاروں کی ضرورت تھی محمد نے کہا برطرف کئے ہوئے فوجیوں کو یہ ہتھیار پہنچانے ہیں یہ انتظام موجود ہے کہ ہتھیار ان تک کس طرح پہنچائے جائیں
اتنے دنوں سے سلطان کی فوج شہر سے دور جنگلوں اور پہاڑیوں کے اندر برطرف فوجیوں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی برطرف کیے ہوئے فوجی بھی آخر عسکری تجربہ رکھتے تھے انھوں نے سرکاری فوج کو نقصان پہنچانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب سرکاری فوج کا کوئی دستہ پہاڑیوں کے اندر گشت کرتا آگے نکل جاتا تو اسے پچھلے حصے پر برطرف فوجی حملہ کر دیتے اور چند ایک فوجیوں کو مار کر پہاڑیوں کے اندر ہی ادھر ادھر ہو جاتے ان فوجیوں کی کمان اوریزی کے ہاتھ میں تھی اوریزی کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سرکاری فوج برطرف فوجیوں کی خیمہ گاہ کا محاصرہ کر کے تلاشی لی گی اور کچھ آدمیوں کو گرفتار کیا جائے گا یہ چال اوریزی کے دماغ کی اختراع تھی کہ خیمہ گاہ شام کے بعد خاموشی سے خالی کردی جائے اور فوجیوں پر عقب سے حملہ کیا جائے
اس کی یہ اسکیم کامیاب ہوگئی تو اس نے برطرف فوجیوں کے سالار کو اور دو تین عہدے داروں کو اپنے ساتھ رکھ لیا اور خبر رسانی کا انتظام بھی کر لیا اور سابقہ فوجیوں کو پہاڑیوں کے اندر اور جنگلوں میں بکھیر دیا اوریزی تک ہرخبر بروقت پہنچ رہی تھی یہ طریقہ جنگ اسی نے بتایا تھا کہ سرکاری دستوں کے پچھلے حصے پر چھاپہ مارو اور چند ایک آدمیوں کو گھائل کر کے غائب ہو جاؤ
سپہ سالار حجازی کی جان پر بنی ہوئی تھی سلطان برکیارق اسے ہر روز بلاتا اور پوچھتا تھا کہ برطرف فوجیوں کا کچھ سراغ ملا یا نہیں سپہ سالار حجازی منہ لٹکا کر غلاموں کی طرح یہی ایک جواب دیتا تھا کہ ان کا سراغ تو نہیں ملا لیکن وہ ہر روز ہمارے کسی نہ کسی دستے کے چند ایک آدمی مار کر غائب ہوجاتے ہیں ایک روز تو اس نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ رات ان باغیوں نے فوج پر شب خون مارا ہے اور بہت سا جانی نقصان کرکے غائب ہوگئے ہیں
ایک روز محمد کو ابومسلم رازی کا ایک زبانی پیغام ملا وہ یہ تھا کہ اسے یہ دیکھ کر بہت ہی دکھ ہو رہا ہے کہ ہم لوگ جو سلطنت کو نہیں بلکہ اسلام کو فروغ دے رہے تھے اب اپنا ہی خون بہا رہے ہیں رازی نے محمد سے کہا تھا کے وہ اپنے بڑے بھائی کے پاس جائے لیکن یہ خیال رکھے کہ اس کی باطنی بیگم اس کے ساتھ نہ ہو محمد اسے اسلام اور سلطنت کا واسطہ دے کر کہے کہ وہ ہوش میں آئے اور اگر اسلام کے ساتھ اس کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے تو اپنی سلطنت کو ہی بچا لے
ابومسلم رازی کے قاصد نے محمد سے یہ بھی کہا کہ برکیارق نہ مانے تو اسے بتا دیا جائے کہ وہ سلطانی سے دستبردار ہوجائے یا اپنی باطنی بیوی کو چھوڑ دیے اسی سے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے اور پھر وہی باہمی پیار پیدا ہو جائے گا جو اُس لڑکی کے آنے سے پہلے ہوا کرتا تھا
ابومسلم رازی نے یہ بھی کہا تھا کہ برکیارق نہ مانے تو اسے کہہ دینا کہ وہ نتائج کے لیے تیار رہے اور یہ بھی کہ یہ نتائج اس کے لئے اور اسکی باطنی بیوی کے لیے بڑے ہی بھیانک ہونگے
محمد اسی وقت وزیر آعظم عبدالرحمن سمیری کے پاس گیا اور اسے ابومسلم رازی کا یہ زبانی پیغام سنایا
مجھے توقع تھی کہ وہ ایسا پیغام ضرور بھیجے گا وزیراعظم نے کہا اپنے بھائی تک یہ پیغام تم ہی لے جا سکتے ہو میں تو بظاہر اسی کا اور اس کی بیگم کا آدمی ہوں تم سلطان سے ملو اور اس کے ساتھ یہ بات کرو میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ وہ ذرا سا بھی اثر قبول نہیں کرے گا بلکہ الٹا تمہیں دھمکیاں دے گا بہرحال ہمیں اپنا یہ فرض بھی ادا کر دینا چاہیے کہ ہم نے اسے پہلے خبردار نہیں کردیا تھا
محمد اسی وقت برکیارق کے پاس چلا گیا اتفاق سے وہاں سے اکیلا مل گیا
دیکھا محمد! برکیارق نے کہا یہاں کیا خون خرابہ ہو رہا ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہماری ماں اگر لوگوں کو نہ بھڑکاتی تو وہ اوریزی کو آزاد نہ کراتے یہ سارا خون ریز فساد وہیں سے شروع ہوا ہے
میرے سلطان بھائی! محمد نے کہا میں آپ کے ساتھ آج آخری بات کرنے آیا ہوں ہوش میں آئیں اور دیکھیں یہاں کیا ھو رھا ھے خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے یہ روک سکتی ہے یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ خون خرابہ رکے یا بہتا رہے اور اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے
تم فکر نہ کرو محمد! سلطان برکیارق نے کہا میں نے فوج بھیج دی ہے اور دو تین دنوں تک باغی پکڑے جائیں گے یا فوج انہیں وہیں ختم کر دی گی
سلطان عالی مقام! محمد نے پراعتماد لہجے میں کہا آپ کی فوج کسی ایک باغی کو بھی نہیں پکڑ سکتی میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر روز ہماری فوج کے پندرہ بیس آدمی مارے جا رہے ہیں میں آپکے ساتھ صاف بات کرتا ہوں اگر آپ سچے دل سے چاہتے ہیں کہ آپس کی قتل و غارت بند ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا بلند ہو اور یہ سلطنت قائم رہے تو سلطانی کی گدی سے اٹھ کر الگ ہو جائیں یا اس باطنی لڑکی روزینہ کو چھوڑ دیں کون نہیں جانتا کہ حکم آپکی یہ بیگم دیتی ہے لیکن یہ حکم آپ کی زبان سے نکلتا ہے آپ کے لئے اب کوئی اور راستہ نہیں رہا سلطانی چھوڑ دیں یا اس بیوی کو چھوڑ دیں
ہوش میں آ محمد! سلطان برکیارق نے سلطانوں کے سے لہجے میں کہا پہلے میں نے اپنی ماں کو نظر بند کیا ہے اب ایسا نہ ہو کہ میں اپنے بھائی کو قید خانے میں ڈال دوں میں تمہیں اور سنجر کو چھوڑ دوں گا اپنی اس بیوی کو نہیں چھوڑوں گا اور رہا سوال سلطانی کا تو یہ میں جانتا ہوں کہ ہماری ماں تمہیں اس گدی پر بیٹھانا چاہتی ہے
ٹھیک ہے سلطان محترم! محمد نے کہا آپ کا دماغ آپ کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیا گیا ہے اب میں آپ کو آخری بات کرتا ہوں کہ مجھے آپ قید خانے میں ڈال دیں یا جلاد کے حوالے کردیں لیکن اس سے حالات سدھریں گے نہیں اور زیادہ بگڑے گے اور اسکے جو نتائج ہونگے وہ آپ کے لئے اور آپ کی اس باطنی بیوی کے لیے بڑے ہی بھیانک ہونگے
محمد اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے نکل آیا واپس آکر اس نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو ساتھ لیا اور دونوں اپنی ماں کے پاس گئے ان کی ماں نظر بند تھی لیکن اس کے یہ دونوں بیٹے اسے مل سکتے تھے محمد نے اپنی ماں کو بتایا کہ ابو مسلم رازی کا کیا پیغام آیا ہے پھر اسے بتایا کہ وہ برکیارق کے ساتھ بات کر کے آ رہا ہے لیکن برکیارق نے اسے قید میں ڈالنے کی اور سزائے موت دینے کی دھمکی دی ہے
مقدس ماں! محمد نے کہا میں آپ سے اجازت لینے آیا ہوں اب مجھے جہاد پکار رہا ہے آپ اور سنجر یہیں رہیں گے آپ نے ہماری کامیابی کے لیے دعا کرنی ہے اور اس کے سوا کسی اور کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنی نہ کسی کے ساتھ جھگڑا مول لینا ہے صرف ایک عورت نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا ڈالا ہے اور ایک مجاہد قوم کو دو حصوں میں کاٹ کر انہیں آپس میں ٹکرا دیا ہے ان حالات میں مجھے یہاں نہیں رہنا چاہیے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سے میری بات ہو چکی ہے سالار اوریزی بھی میرا انتظار کر رہا ہے میں آج رات غائب ہو جاؤنگا
تم جہاں بھی جاؤ گے میری دعائیں تمہارے ساتھ ہو گی ماں نے کہا مسلمان مائیں اپنے بیٹوں کو قربان کرتی چلی آئی ہیں میں اس روایت کو زندہ رکھو گی تمہارا باپ تمہاری ہی طرح دیندار اور مجاہد تھا اس نے اپنی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اس نے اپنی جان اس راستے پر دے دی جا بیٹے اللہ تیرے ساتھ ہے
پانچ سات دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک رات شہر کے کسی کونے سے آواز آئی کہ شہر کو ایک لشکر نے محاصرے میں لے لیا ہے یہ آواز ذرا سی دیر میں سارے شہر میں پھیل گئی اور لوگ جاگ اٹھے
ایک زمانہ گزر گیا تھا کہ یہ شہر محاصرے میں نہیں آیا تھا نہ کوئی ایسا خطرہ تھا اس لیے شہر کے تمام دروازے رات کو کھلے رہتے صرف یہ احتیاط کی جاتی تھی کہ ہر دروازے کے ساتھ ایک دو کمرے تھے جن میں فوجی رہتے تھے انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ رات کو کون اندر آیا ہے اور کون نکل گیا اس رات جب شہر محاصرے میں آگیا تو ان فوجیوں نے پہلا کام یہ کیا کہ شہر کے تمام دروازے بند کردیے اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو اطلاع دی حجازی گہری نیند سویا ہوا تھا اس نے محاصرے کا لفظ ہی سنا تو ہڑبڑا کر اٹھا اور شب خوابی کے لباس میں ہی دوڑ پڑا اور شہر پناہ کے ایک برج میں جا کھڑا ہوا
شہر کے دروازے کھول دو باہر سے للکار سنائی دی نہیں کھولو گے تو ہم دروازے توڑ کر اندر آ جائیں گے پھر ہم کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
فوج کے متعدد دستے شہر سے دور سابق فوجیوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے اور کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت کہاں تھے باقی جو فوج تھی اسے اسی وقت جگا کر شہر پناہ پر چڑھا دیا گیا
شہر پناہ برائے نام تھی یہ کوئی مضبوط قلعہ نہیں تھا فوجیوں نے تیر پھینکنے شروع کردیے محاصرہ کرنے والی فوج کی طرف سے ایک بار پھر للکار اٹھی کہ مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ شہریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا لیکن سپہ سالار حجازی نے تیراندازی جاری رکھنے کا حکم دیا حجازی نے للکار کر یہ بھی پوچھا کہ تم کون لوگ ہو اور کس ملک سے آئے ہو اس کا جواب نہ آیا سلطان برکیارق کو اطلاع دی گئی تو وہ اٹھ کر آگیا اور سپہ سالار حجازی کے ساتھ ایک برج میں جا کھڑا ہوا
رات ایسے ہی ایک دوسرے کو للکارتے گزر گئی صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ اپنے ہی لوگ ہیں اور ان میں برطرف کیے ہوئے فوجی بھی شامل ہیں چونکہ شہر کی فوج بہت تھوڑی تھی اس لئے سلطان کے حکم سے شہریوں کو مقابلے کے لیے تیار کیا جانے لگا یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ فوج یا لشکر رے آیا ہے اور یہ وہاں کے امیر شہر ابومسلم رازی کا بھیجا ہوا ہے شہریوں کو یہ خبر ملی تو ان میں بہت سے لوگوں نے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا شہری یہ شور کرنے لگے کہ اپنی فوج نے اپنی ہی شہر کو کیوں محاصرے میں لے لیا ہے اس کی کوئی اور وجہ ہوگی
حسن بن صباح کا ایجنٹ طبیب بہت خوش تھا کہ اس کی زمین دوز کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں اور باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے وہ اس پر تو اور ہی زیادہ خوش تھا کہ شہری بھی مقابلے کے لیے تیار ہوگئے ہیں لیکن اس نے دیکھا کہ شہری مقابلے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ اپنی ہی سلطنت کی فوج ہے طبیب نے دوسری چال چلی وہ یہ کہ اپنے آدمیوں سے کہا کہ شہر میں یہ افواہ پھیلا دی کہ رے کا حاکم ابو مسلم رازی باغی ہو گیا ہے اور اس نے امام حسن بن صباح کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور اس کی مدد سے اس شہر کو فتح کرنے آیا ہے
کچھ ہی دیر بعد یہی افواہ ایک سچی اطلاع اور خبر کی صورت میں سارے شہر میں پھیل گئی شہری ایک بار پھر جوش و خروش سے مقابلے کے لئے تیار ہوگئے شہرپناہ پر ایک انسانی دیوار کھڑی ہوگئی شہر سے تیروں کا مینہ برسنے لگا
محاصرہ کرنے والے نہتّے تو نہیں آئے تھے ان کے پاس بھی کمانیں اور تیروں کا ذخیرہ تھا اور ان کے پاس بڑے ماہر تیر انداز بھی تھے انہوں نے جوابی تیر اندازی شروع کی تو دیوار پر لوگ تیر کھا کھا کر گرنے لگے نقصان دونوں طرف سے ہو رہا تھا
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے دیکھا کہ ایک غلط افواہ پھیلا کر شہریوں کو بھڑکایا گیا ہے تو اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ شہریوں تک یہ خبر پہنچائیں کہ ابو مسلم رازی نے حسن بن صباح کی بیعت نہیں کی بلکہ ہمارا اپنا سلطان اپنی بیوی کے ذریعے حسن بن صباح کا مرید ہو گیا ہے اور اس شہر میں بےشمار باطنی آگئے ہیں
وزیراعظم کے آدمی بھی خاصے تجربہ کار تھے انھوں نے بھی یہ خبر اپنے طریقے سے پہنچانی شروع کردیں اور اس کے اثرات بھی دیکھنے میں آنے لگے وہ اس طرح کے کچھ شہری شہر کے دفاع سے منہ موڑ کر نیچے اتر آئے
ہوا یہ کہ کسی طرح سلطان کی اُس فوج کو پتہ چل گیا کہ شہر محاصرے میں ہے جو فوج برطرف فوجیوں کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھر رہی تھی ان دستوں کا کمانڈر کوئی عقلمند آدمی تھا اس نے اپنے دستے اکٹھے کئے اور انہیں واپس لے آیا اس نے دلیری کا مظاہرہ یہ مظاہرہ کیا کہ عقب سے محاصرہ کرنے والوں پر حملہ کردیا سپہ سالار حجازی نے یہ منظر دیکھا تو اس نے یہ حکم دے دیا کہ شہر کے دروازے کھول دیئے جائیں اور اندر کی فوج اور شہری باہر نکل کر محاصرہ کرنے والوں پر ٹوٹ پڑیں
بڑی خونریز لڑائی لڑی گئی اور سورج غروب ہو گیا اندر سے گئی ہوئی فوج اور شہری واپس آگئے وہ دیکھ نہ سکے کہ ان کے ساتھ ہی حملہ آور فوج یعنی جس لشکر نے شہر کو محاصرے میں لیا تھا وہ بھی شہر میں آگئے انھوں نے شہر کے تمام دروازے پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی اس طرح تمام دروازے جل گئے
رات کو شہر میں لڑائی ہی ہوتی رہی اس کے ساتھ ہی حملہ آور لشکر کی طرف سے یہ اعلان ہوتے رہے کہ ہم تمہارے بھائی ہیں ہمارے خلاف نہ لڑو ہم باطنیوں کو یہاں سے نکالنے آئے ہیں لیکن لڑائی جاری رہی اور شہری دو حصوں میں تقسیم ہوتے گئے بعض طبیب کی افواہ کو سچ مانتے تھے اور دوسرے دوسری قسم کی افواہ کے قائل ہوگئے لیکن شہر کی گلیوں میں خون بہتا رہا
پھر دن اور ہفتے گزرتے چلے گئے اور یہ خون بہتا ہی رہا
ایک خانہ جنگی تھی جس میں حسن بن صباح کے پیروکار اور تخریب کار تیل ڈالتے رہے اور سلطنت سلجوقیہ میں بھائی بھائی کا خون بہاتا رہا تاریخ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سلطان کی گدی کی یعنی اقتدار کی خانہ جنگی تھی لیکن مستند اور حقائق پر نظر رکھنے والے مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ آگ حسن بن صباح نے لگائی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ سلطان برکیارق مسلسل اپنی بیوی روزینہ کے زیراثر چلا آرہا تھا احکام روزینہ کے دماغ کی اختراع ہوتے تھے جس کا خفیہ رابطہ ایک عورت کے ذریعے طبیب کے ساتھ تھا اور اسے حسن بن صباح کے احکام اور ہدایات اسی طبیب کی طرف سے اس عورت کی وساطت سے ملتی تھیں
سلطان برکیارق کے محل کے اردگرد حفاظتی انتظامات بڑی ہی سخت کردیئے گئے تھے یہ تو فورا ہی واضح ہو گیا تھا کہ دو بھائی ایک طرف ہیں اور بڑا بھائی دوسری طرف وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کا کردار ڈھکا چھپا رہا وہ بظاہر برکیارق اور روزینہ کا زر خرید غلام بنا رہا لیکن درپردہ محمد اور ابو مسلم رازی کے ساتھ تھا سلطان کے یہاں جو نیا منصوبہ بنتا یا کوئی حکم ملتا وہ وزیر اعظم ابو مسلم رازی اور محمد تک پہنچا دیا کرتا تھا ان لوگوں کو اور ان کے حامی فوج کو باغی کہا گیا تھا ان باغیوں کا سپہ سالار اوریزی تھا جو بڑا ھی قابل اور قومی جذبے سے سرشار آدمی تھا
ایک روز عبدالرحمن سمیری نے مزمل کے ساتھ درپردہ رابطہ کرکے کہا کہ اب وہ شمونہ کو استعمال کرے کیوں کہ روزینہ کو قتل کرانا یا اس کا اثر برکیارق اسےاتارنا ممکن نظر نہیں آتا شمونہ فریب کاری اور اداکاری کی ماہر تھی اور جب سے خانہ جنگی شروع ہوئی تھی وہ تڑپتی تھی کہ وہ بھی اس میدان میں کچھ کر کے دکھائے اس کے اندر حسن بن صباح کے خلاف جو انتقامی جذبہ پیدا ہو گیا تھا وہ وقت گزرنے کے ساتھ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ اور زیادہ بھڑک اٹھا تھا وہ عقل و دانش والی لڑکی تھی وہ جب دیکھتی تھی کہ باطنیوں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیا ہے اور خون بہتا ہی چلا جارہا ہے تو وہ پنجرے میں بند پنچھی کی طرح پھڑپھڑاتی اور پنجرہ توڑنے کی ناکام کوشش کرتی تھی آخر مزمل نے اسے بتایا کہ اب وزیراعظم سمیری نے اس کے لیے موقع پیدا کرلیا ہے
خانہ جنگی کو چھ سات مہینے گزر گئے تھے یہ بھی واضح ہوگیا تھا کہ ابو مسلم رازی سلطان برکیارق کے خلاف اپنی فوج اور اپنے تمام تر وسائل استعمال کر رہا ہے ایک روز وزیراعظم سمیری روزینہ کے پاس گیا اور اس سے معمول کے مطابق بتایا کہ خانہ جنگی کی صورتحال کیا ہے
آج ایک درخواست لے کر آیا ہوں وزیراعظم نے کہا نیکی کا ایک کام کرنا ہے اور یہ آپ کے اختیار میں ہے
آپ بتائیں کیا کام ہے روزینہ نے پوچھا میں آپ کی خدمت نہیں کروں گی تو اور کس کی کرونگی؟
اس خانہ جنگی نے تو ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے وزیر اعظم نے کہا میں ابو مسلم رازی محمد اور سنجر کو قتل کروانے کا انتظام کر رہا ہوں لیکن اس وقت آپ سے ایک اور عرض کرنا چاہتا ہوں میرا ایک بڑا ہی معزز اور پیارا دوست تھا وہ بیچارہ مارا گیا ہے وہ گھر سے نکلا ہی تھا کہ ایک برچھی جو کسی نے دوسرے کو ماری تھی وہ اسے لگ گئی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا اس کے دو جوان بیٹے تھے دونوں خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں اس کی صرف بیوی اور ایک جوان بیٹی بچ گئی ہے لیکن ان کے گھر میں کھانے کے لئے ایک دانہ بھی نہیں لڑکی جوان ہے اور کچھ زیادہ ہی خوبصورت ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں باغیوں کے ہاتھ چڑھ گئی تو بیچاری کی زندگی برباد ہوجائے گی میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ آپ کے یہاں نوکروں اور نوکرانیوں کی تو کوئی کمی نہیں لیکن ایک سلجھی ہوئی اور سلیقہ شعار اور خوبصورت کنیز آپ کے پاس ضرور ہونی چاہیے اگر آپ میری یہ عرض مان لیں تو میں یہ لڑکی آپ کے حوالے کردوں اس سے ایک تو آپ کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور سب سے بڑی نیکی تو یہ ہوگی کہ ایک پردہ دار یتیم لڑکی کو سہارا اور پردہ مل جائے گا میں اس لڑکی کی ہر طرح ضمانت دینے کو تیار ہوں
آپ کو اتنی لمبی بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی روزینہ نے کہا اس لڑکی کو ساتھ لے آتے اور میں اسے اپنے پاس رکھ لیتی آپ اسے لے آئیں اگر اس کی ماں بھی آنا چاہتی ہے تو آجائے میں اسے رہائش کے لیے جگہ دے دونگی
نہیں بیگم محترمہ! وزیراعظم نے کہا اس کی ماں اپنے گھر میں ہی رہنا چاہتی ہے آپ اس کی بیٹی کو رکھ لیں اور کبھی کبھی اسے اپنے گھر جانے کی اجازت دے دیا کریں
اس طرح شمونہ روزینہ کے پاس پہنچ گئی اس نے روزینہ کو اپنا نام نگینہ بتایا اس کے ساتھ ہی وہ رو پڑی اور اپنے باپ اور بھائیوں کو یاد کر کر کے گھر کی باتیں سنانے لگی شمونہ نے ایسی اداکاری کی جیسے وہ بالکل ہی سیدھی سادی اور پردہ نشین لڑکی ہو اور اسے دنیا کی ہوا ہی نہ لگی ہو
آپ مجھے سمجھاتی رہیں کہ میں نے یہاں کیا کرنا ہے شمونہ نے کہا میں آپ کی پسند اور مرضی پر پوری اترنے کی کوشش کروں گی اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے تو یہ سمجھ کر معاف کر دینا کہ میں غریب اور پسماندہ سے گھرانے کی لڑکی ہوں ایسا شاہانہ گھر تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا
روزینہ کو شمونہ بہت ہی اچھی لگی شمونہ میں اس نے جو سادگی اور بے ساختہ پن دیکھا وہ تو اسے بڑا ہی پیارا لگا شمونہ کی عمر تو جوانی کی تھی لیکن اس نے شادی نہیں کی تھی اور اپنی صحت کو برقرار رکھا تھا اس لیے وہ اپنی عمر سے کم اور نوجوان لگتی تھی شمونہ کو معلوم تھا کہ روزینہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ لڑکی ہے شمونہ اس تربیت سے بہت اچھی طرح واقف تھی اور اس تربیت کو اس نے عملی زندگی میں بھی استعمال کیا تھا
اب وہ ایسی تربیت اور تجربے کو روزینہ کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے لگی
چند دنوں میں ہی شمونہ نے شاہی طور طریقے سیکھ لیے یہ طور طریقے تو وہ پہلے ہی سے جانتی تھی روزینہ کے دل میں اس نے اپنی جگہ پیدا کرلی ابھی سلطان برکیارق نے شمونہ کو نہیں دیکھا تھا روزینہ نے جب دیکھا کہ شمونہ بڑی تیزی سے سارے کام اور انداز وغیرہ سیکھ لیے تو ایک روز اس نے شمونہ کو سلطان برکیارق کے سامنے کیا اور کہا کہ یہ ایک تحفہ ہے جو وہ اسے دے رہی ہے
یہ میری اور آپ کی کنیز ہے روزینہ نے کہا اس کا نام نگینہ ہے اور یہ ہے بھی نگینہ
وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے سلطان برکیارق نے اپنا بازو شمونہ کی طرف پھیلا کر کہا یہاں آؤ ہاں ادھر بیٹھ جاؤ
نہیں! شمونہ نے لجاتے اور شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا میری جگہ آپ کے پلنگ پر نہیں یہ محترمہ بیگم کی جگہ ہے اگر بیگم اجازت دی گی تو میں آپ کے پاس بیٹھ جاؤنگی
میں تمہیں بیگم کی جگہ اپنے پاس نہیں بیٹھا رہا سلطان برکیارق نے ہنستے ہوئے کہا اگر میں تمہیں ایک پھول پیش کروں تو تم اسے ایک بار سونگھوں گی تو ضرور
شمونہ نے روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ نے مسکرا کر اسے سر سے ہلکا سا اشارہ کیا تو شمونہ پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گئی تو سلطان برکیارق نے بازو اس کی کمر میں ڈال کر اپنے قریب کر لیا
آپ نے پھول سونگھ لیا ہے شمونہ نے برکیارق کے بازو سے نکل کر اٹھتے ہوئے کہا اب اسی کے پاس جارہا ہے جس کی ملکیت ہے
روزینہ اور برکیارق نے بے ساختہ قہقہہ لگایا شمونہ کا جادو کام کر گیا تھا
ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ شمونہ کی حیثیت روزینہ کی نگاہوں میں ایسی ہوگئی جیسے وہ اس کی کنیز نہیں بلکہ ہمراز سہیلی ہو ایک روز شمونہ روزینہ سے بڑی سادگی سے پوچھا کہ یہ امام حسن بن صباح کون ہے اور باطنی کسے کہتے ہیں؟
اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے کہ حسن بن صباح امام بھی ہے اور نبی بھی شمونہ نے یہ بھی کہا کہ میں اس کی باتیں سن سن کر دل سے اس کی مرید ہو گئی ہوں
روزینہ نے حسن بن صباح کی باتیں شروع کردیں اور ثابت کر دیا کہ وہ زمین پر امام ہے اور آسمانوں میں نبی ہے اس نے یہ بھی کہا کہ الموت میں خداوند تعالی نے اسے جنت بنادیں ہے اس طرح روزینہ نے حسن بن صباح کی ایسی باتیں سنائیں کہ شمونہ جھوم اٹھی
میری یہ خواہش ہے شمونہ نے کہا ایک بار صرف ایک بار اللہ کے اس مقدس انسان کو دیکھوں میں نے پہلے بھی اس کے متعلق ایسی ہی باتیں سنی ہیں کیا آپ مجھے اس کی زیارت نہیں کرا سکتیں؟
کیوں نہیں نگینہ! روزینہ نے کہا کسی وقت تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر دوں گی
اس روز کے بعد شمونہ اکثر حسن بن صباح کا ذکر چھیڑ دیتی اور اس طرح باتیں کرتی جیسے وہ حسن بن صباح کی عبادت کر رہی ہو اس دوران شمونہ نے وہ عورت دیکھ لی جس کے ذریعے روزینہ طبیب کے ساتھ رابطہ رکھتی اور پیغام دیتی تھی شمونہ وزیراعظم سمیری سے چوری چھپے ملنے کا موقع پیدا کرلیا کرتی تھی
اب وہ وزیراعظم سے ملی تو اسے کہا کہ شاہی طبیب سے کہیں کہ وہ سفوف مجھے دے دیں یہ بھی کہا کہ سفوف تھوڑا نہ ہو اچھی خاصی مقدار میں ہونا چاہیے اور طبیب یہ بھی بتا دے کہ ایک وقت میں یہ کتنا استعمال کیا جائے کہ اس کے ذائقہ اور بو کا پتا نہ چلے
قارئین کو یاد ہو گا کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن وہاں سے یہ ارادہ لے کر واپس آیا کہ وہ سلطان ملک شاہ کو قتل کرے گا یہ حسن بن صباح کے ذاتی طلسم اور حشیش کا اثر تھا کہ اسکا دماغ ہی ان لوگوں نے الٹا کر دیا تھا سلطان کے طبیب نے اسے کچھ دوائیاں پلا پلا کر ٹھیک کیا تھا اور اس کا دماغ واپس اپنی اصلی حالت میں آگیا تھا اب شمونہ اس طبیب سے وہی دوائی منگوا رہی تھی
وزیراعظم نے اگلے ہی روز شمونہ کو وہ دوائی دے دیں جو سفید رنگ کا ایک سفوف تھا وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ ایک صراحی میں اسکی کتنی مقدار ڈالنی ہے
شمونہ دیکھ رہی تھی کہ روزینہ ہر صبح ایک بڑی خوبصورت اور سنہری صراحی میں مشروب ڈالتی تھی اور اس میں کچھ ملاتی تھی شمونہ جانتی تھی کہ یہ صراحی میں کیا ملا رہی ہے روزینہ کو شمونہ پر مکمل طور پر اعتبار آ گیا تھا اس لیے وہ اپنی بیشتر حرکتیں شمونہ سے چھپاتی نہیں تھی اس نے شمونہ سے کہہ رکھا تھا کہ سلطان جب اپنے کام سے واپس آئیں اور وہ موجود نہ ہو تو سلطان کو ایک پیالا اس مشروب کا پلانا ہے
روزینہ اکثر شمونہ کے ساتھ حسن بن صباح اور اسکی جنت کی باتیں کیا کرتی تھی اور شمونہ اس کی یہ باتیں ایسے اشتیاق سے سنا کرتی جیسے اس پر مد ہوشی طاری ہوئی جارہی ہو کبھی شمونہ یہ بھی کہہ دیتی کہ آپ کتنی خوش نصیب ہیں کہ ایسے نبی کی زیارت کر چکی ہیں جسے اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کے لئے اس زمین پر اتارا ہے ایک روز روزینہ نے حسب معمول صراحی میں مشروب ڈالا اور شمونہ سے کہا کہ یہ سلطان کے کمرے میں رکھ دے شمونہ صراحی لے گئی اور سلطان کے کمرے میں بھی چلی گئی لیکن اس نے صراحی وہاں رکھنے کی بجائے غسل خانے میں لے جاکر نالی میں بہا دی
شمونہ نے روزینہ کا روزمرہ کا معمول دیکھ لیا تھا اسے معلوم تھا کہ اس وقت روزینہ کونسے کمرے میں ہوگی اور وہ کتنی دیر وہاں رہے گی شمونہ نے بڑی تیزی سے ویسا ہی مشروب صراحی میں ڈالا اور شاہی طبیب کا دیا ہوا سفوف نکال کر ذرا سا صراحی میں ملا دیا اور اسے اچھی طرح ہلایا
سلطان برکیارق جب اپنے روزمرہ امور سلطنت سے واپس آیا تو روزینہ دوڑی آئی اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اس مشروب کا پیالہ برکیاروق کو پلا دیا
اس روز رات سونے تک سلطان برکیارق کو یہی مشروب پیلایا جاتا رہا شمونہ دو تین مرتبہ سلطان برکیارق کے کمرے میں گئی ایک بار تو برکیارق نے اسے بلایا تھا اور باقی دو مرتبہ وہ کسی نہ کسی بہانے چلی گئی تھی وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ سلطان برکیارق کے رویے میں یا بولنے کے انداز میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں وہ کچھ نہ کچھ تبدیلی دیکھ رہی تھی ایک یہ کہ برکیارق دن کے وقت بھی سویا کرتا تھا اس روز وہ کروٹیں بدلتا رہا اور سو نہ سکا
صبح جب شمونہ اپنے روزمرہ کے کام کاج کے لیے روزینہ کے کمرے میں گئی تو روزینہ نے اسے پہلی بات یہ سنائی کہ سلطان ساری رات بہت بےچین رہے ہیں اور اچھی طرح سو نہیں سکے
بےچین نہ رہے تو اور کیا کریں شمونہ نے کہا جس سلطان کی سلطنت میں آپس کی قتل و غارت ہو رہی ہو اور خانہ جنگی روزبروز خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہو وہ سلطان کیسے سکون سے سو سکتا ہے
شمونہ نے اپنا یہ کام جاری رکھا روزینہ مشروب میں نشہ ملا دیتی اور شمونہ وہ صراحی انڈیل کر اور مشروب ڈال دیتی اور اس میں اپنا سفوف ڈال دیتی وہ سلطان برکیارق میں نمایاں تبدیلی دیکھنے لگی
شمونہ نے موقع پیدا کر کے وزیراعظم سمیری کے ساتھ مختصر سی ملاقات کی اور اسے بتایا کہ وہ اپنا کام کر رہی ہے اور سلطان میں تبدیلی آ رہی ہے تبدیلی یہ کہ وہ اب کسی کسی وقت گہری سوچ میں کھو جاتا اور بات سنجیدگی سے کرتا تھا وزیراعظم نے اسے یہ نئی بات بتائی کے طبیب نے کہا ہے جس مشروب میں کوئی نشہ خواہ اسمیں حشیش ہی ملا ہوا ہو اس میں یہ سفوف معمول کے دگنی مقدار سے ڈال دو تو بھی نشہ اثر نہیں کرتا
طبیب کی یہ ہدایت شمونہ کے لیے بڑی آسان تھی روزانہ مشروب غسل خانے کی نالی میں گرانا خطرناک تھا وہ کسی بھی وقت پکڑی جاسکتی تھی اس نے اب یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزینہ نشے والا سفوف صراحی میں ڈالتی تو شمونہ اس میں اپنا سفوف زیادہ مقدار میں ملا دیتی
خانہ جنگی دور دور تک پھیل گئی تھی سرکاری فوج لڑ تو رہی تھی لیکن اس کی طاقت ختم ہوتی جارہی تھی اس فوج کو باطنیوں نے مسلمانوں کے روپ میں پورا کیا اور اس میں شامل ہوگئے تاکہ یہ آگ جلتی رہے امن و امان تباہ ہوگیا لوگوں کو کھانے کے لیے اناج بھی نہیں ملتا تھا جو لوگ نہ سرکاری فوج کے ساتھ تھے نہ باغیوں کے ساتھ تھے وہ تو ڈر کے مارے باہر ہی نہیں نکلتے تھے باطنی شہر میں بھرتے چلے جارہے تھے اور صاف نظر آنے لگا تھا کہ کسی بھی دن حسن بن صباح یہاں آ دھمکے گا اور سلطان کی گدی پر بیٹھ کر سلطان برکیارق کو قتل کر دے گا
ایک روزا شمونہ وزیراعظم سے ملی اور اسے کہا کہ وہ طبیب سے کوئی ایسا زہر لا دے جو جسم میں جاتے ہی جسم کو بے جان کر دے وزیراعظم نے اسی روز ایک زہر شمونہ کو دے دیا جو شمونہ نے اپنے پاس چھپا کر رکھ لیا
ایک روز سلطان برکیارق نے اپنے آرام والے کمرے میں ہی وزیراعظم سمیری کو بلایا وزیراعظم فوراً پہنچا
کیا آپ نے خانہ جنگی کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں سوچا؟
سلطان برکیارق نے عجیب سی بے بسی کے لہجے میں پوچھا اور آہ بھر کر بولا محترم سمیری آپ میرے باپ ہیں کوئی حل نکالیں یہ خون میرے دماغ کو چڑھ رہا ہے
عبدالرحمن سمیری سلطان برکیارق کی یہ بات سن کر حیران تو ہوا ہی تھا لیکن اسے حیرت اس کے لہجے سے ہوئی وہ تو غنودگی کی حالت میں بولا کرتا تھا یا اس کے لہجے میں رعونت ہوتی تھی پھر وزیراعظم یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ روزینہ کمرے میں داخل ہوئی تو سلطان برکیارق نے اسے کہا کہ تم ذرا باہر ٹھہرو روزینہ نے آنکھیں پھاڑ کر سلطان برکیارق کی طرف دیکھا اور اندر آگئی وہ جب بھی دیکھتی کہ سپہ سالار حجازی یا وزیراعظم آیا ہے تو دوڑ کر سلطان کے پاس آبیٹھتی اور یوں باتیں کرتی تھی جیسے سلطنت کی حکمرانی اس کے ہاتھ میں ہو اور حکم اسی کا چل رہا ہو
باہر کی صورتحال کیا ہے؟
روزینہ نے وزیر اعظم سے پوچھا
روزینہ! سلطان برکیارق نے بڑی جاندار آواز میں کہا میں موجود ہو تو تمہیں بات کرنے کی ضرورت نہیں میں نے تمہیں کہا تھا کہ باہر ٹھہرو
روزینہ آہستہ آہستہ اٹھی اور قدم گھسیٹتی ہوئی باہر نکل گئی
میں آپ سے کچھ کہہ رہا تھا سلطان برکیارق نے وزیر اعظم سے کہا کہ کوئی طریقہ سوچیں کہ یہ خانہ جنگی رک جائے
میں تو سوچتا ہی رہتا ہوں وزیراعظم نے کہا آپ سے بات کرتے ہچکیچا جاتا ہوں بات آپ کے ساتھ کرتا ہوں تو جواب محترمہ بیگم صاحبہ سے ملتا ہے سلطان محترم خون جو بہ رہا ہے یہ میری اور آپ کی گردن پر ہوگا اس کی سزا صاف نظر آرہی ہے نہ یہ سلطنت رہے گی نہ اس کا کوئی سلطان رہے گا نہ کوئی وزیراعظم ہوگا ہم ہونگے لیکن غلامی کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہمارے سر تن سے جدا کر دیے جائیں گے اگر آپ اجازت دیں تو صلح سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے
آپ کسی حل پر پہنچے اور مجھے بتائیں سلطان برکیارق میں نے کہا
شمونہ نے پہلی بار روزینہ کو خفگی یا مایوسی کی حالت میں دیکھا شمونہ نے اس سے پوچھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک ہے یا وہ کوئی گڑبڑ محسوس کررہی ہے روزینہ نے اکھڑی ہوئی سی آواز میں جواب دیا اس وقت روزینہ پیالے میں کوئی مشروب ڈال رہی تھی
میری طبیعت تو ٹھیک ہے روزینہ نے کہا سلطان کی طبیعت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی ان کے لئے یہ خاص شربت تیار کررہی ہوں سلطان کے غم نے ان کے دماغ پر بہت برا اثر کیا ہے کبھی کبھی ان کی یہ حالت ہو جایا کرتی ہے تو میں انہیں یہ شربت پلایا کرتی ہوں وزیراعظم اٹھ کر جائیں گے تو انہیں یہ شربت پلا کر سلا دوں گی پھر وہ ٹھیک ہوجائیں گے
شمونہ سمجھ گئی کہ اس شربت میں یا تو حشیش کی زیادہ مقدار ملائی گئی ہے یا کوئی تیز نشہ ملایا گیا ہے شمونہ کو شک ہوا کہ سلطان برکیارق نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہے جس کی شمونہ کو توقع نہیں تھی شمونہ سلطان برکیارق کو اتنا زیادہ سفوف پلا چکی تھی کہ اب تک سلطان کو صحیح ذہنی حالت میں آ جانا چاہیے تھا
روزینہ نے شربت وہیں پڑا رہنے دیا اور وہاں سے نکل گئی وہ شاید یہ دیکھنے گئی تھی کہ وزیراعظم چلا گیا ہے یا نہیں شمونہ نے طبیب کا دیا ہوا زہر اپنے کپڑوں میں چھپا رکھا تھا اس نے بڑی تیزی سے وہ پڑیا نکالی اور شربت میں ڈال کر حل کر دی
اس کے بعد فوراً روزینہ آ گئی اور کہنے لگی کہ وزیراعظم نے لمبی ہی بات شروع کردی ہے بہتر ہے کہ یہ شربت انھیں ابھی پلا دوں روزینہ نے پیالہ اٹھایا اور سلطان برکیارق کے کمرے کی طرف چلی گئی شمونہ اس کے پیچھے پیچھے گئی
روزینہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوئی شمونہ دروازے کے ساتھ باہر کھڑی رہی اسے روزینہ کی آواز سنائی دی سلطان محترم یہ شربت پی لیں آپ بہت تھکے ہوئے ہیں یہ کہہ کر روزینہ کمرے سے نکلنے لگی شمونہ آگے ہوگئی اس نے دیکھا کہ سلطان برکیارق نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور وہ وزیر اعظم کے ساتھ بات کر رہا تھا بات ختم کرتے ہی اس نے یہ شربت پی لینا تھا جس میں شمونہ نے بڑا ہی تیز زہر ملا دیا تھا
سلطان برکیارق پیالا اپنے منہ کی طرف لے جانے لگا تو شمونہ تیر کی طرح دروازے سے اس تک پہنچی اور بڑی گھبراہٹ میں کہا مت پینا یہ شربت سلطان اس نے لپک کر وہ پیالہ سلطان کے ہاتھ سے لے کر تپائی پر رکھ دیا روزینہ کمرے سے نکل چکی تھی شمونہ کی اس حرکت سے واپس آگئی
یہ کیا بدتمیزی ہے شمونہ! روزینہ نے غصیلی آواز میں کہا سلطان کے ہاتھ سے پیالا کیوں چھین لیا ہے؟
سلطان محترم! شمونہ روزینہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ابھی کسی کو بلا کر کہیں کہ ایک بلی یا کتا یا کوئی اور جانور یہاں لے آئے اور پھر یہ شربت اسے بلا کر دیکھیں اس میں آپ کی بیگم نے زہر ملایا ہوا ہے اگر میں جھوٹی ثابت ہوئی تو اپنا سر پیش کر دوں گی
روزینہ نے تو واہی تباہی بکنی شروع کردی اور سلطان برکیارق حیرت سے کبھی روزینہ کو اور کبھی شمونہ کو دیکھتا تھا وزیراعظم سمیری کو معلوم تھا کہ شمونہ نے اس سے زہر منگوایا تھا وہ دانش مند آدمی تھا وہ سمجھ گیا کہ شمونہ نے کوئی چال چلی ہے سلطان کے حکم کے بغیر وزیراعظم باہر گیا اور ایک خادم سے کہا کہ ایک بلی یا کتا فوراً پکڑ کر لائے
روزینہ وہیں کھڑی رہی اور شمونہ کو دھمکیاں دیتی رہی وہ تو سچی تھی کیونکہ اس نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا اسے صرف یہ ڈر تھا کہ اس شربت میں اس نے ذرا تیز نشہ ملایا تھا بلی یا کتے کو بلانے کی صورت میں یہ ہونا تھا کہ اس جانور نے تھوڑی دیر بعد گر کر سو جانا تھا
سلطان کا حکم تھا اس لئے ایک کتا فوراً حاضر کیا گیا سلطان کتا لانے والے سے کہا کہ اس پیالے میں جو شربت ہے یہ کتے کے منہ میں انڈیل دو خادم نے کتے کا منہ کھولا اور شمونہ نے آدھا پیالہ شربت کتے کے حلق سے نیچے اتار دیا سلطان نے کہا اس کتے کو چھوڑ دو کتے کو چھوڑ دیا گیا
کتا کمرے سے باہر کو چل پڑا دہلیز سے بھی آگے چلا گیا لیکن اس سے آگے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ رک گیا اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلیں اور وہ گر پڑا ذرا سی دیر اس کی ٹانگیں کانپی اور پھر ٹانگیں ساکت ہوگئیں کتا مر گیا تھا
سلطان برکیارق فوراً اٹھا اور اس نے قہر بھری نظروں سے روزینہ کو دیکھا اس نے اس کمرے میں داخل ہوتے ہی روزمرہ کی طرح کمر بند سے لمبا خنجر نکال کر قریب ہی تپائی پر رکھ دیا سلطان نے کچھ بھی نہ کہا لپک کر خنجر اٹھایا اس کی نیام کھیچ کر پرے پھینکی اور روزینہ کی طرف بڑھا روزینہ اس سے دو ہی قدم پر کھڑی حیرت کا مجسمہ بنی ہوئی تھی
نہیں سلطان! وزیراعظم سمیری نے برکیارق کی طرف لپکتے ہوئے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا یہ کام آپ کا نہیں جلاد کا ہے
وزیراعظم کا آخری لفظ اس کی زبان پر ہی تھا کہ سلطان برکیارق کا خنجر روزینہ کے پیٹ میں اتر چکا تھا اس نے خنجر کھینچا اور کہا لوگ سچ کہتے تھے کہ یہ باطنی ہے اور اس ابلیس حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے سلطان روزینہ کے گرنے سے پہلے ایک بار پھر خنجر روزینہ کی پسلیوں میں اتار دیا روزینہ گری سلطان نے خنجر کھینچ لیا اور فرش پر پھینک دیا
سلطان نے کچھ دیر آخری سانس لیتی ہوئی روزینہ کو دیکھا اور اس کے بہتے ہوئے خون کو دیکھا شمونہ اور وزیراعظم بھی روزینہ کو مرتا ہوا دیکھ رہے تھے
محترم سمیری! سلطان برکیارق غم سے بوجھل آواز میں کہا اسے یہاں سے اٹھوا دیں لاش اٹھانے والوں سے کہہ دیں کہ اسے کفن نہیں پہنایا جائے گا نہ ہی اس کا جنازہ پڑھایا جائے گا کتے کو بھی اٹھواں دیں اور کہیں ویرانے میں گڑھا کھود کر کتے کو بھی اس کے ساتھ دفن کردیں
سلطان کا سر ڈولنے لگا جیسے وہ چکرا کر گر پڑے گا وزیراعظم نے لپک کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا
مجھے میری ماں کے پاس لے چلو سلطان برکیارق نے کہا
آپ چل سکیں گے ؟
وزیراعظم سمیری نے پوچھا
ہاں! سلطان برکیارق نے کہا چل کر جاؤں گا
وہ وزیراعظم کے ساتھ کمرے سے نکل گیا ماں جس کمرے میں نظر بند تھی وہ قریب ہی تھا برکیارق اپنے سہارے چلتا ہوا وہاں پہنچا وزیراعظم ساتھ تھا اور شمونہ پیچھے کھڑی دیکھ رہی تھی
برکیارق وزیراعظم کے ساتھ ماں کے کمرے میں داخل ہوا ماں غم کی تصویر بنی بیٹھی تھی برکیارق کو دیکھ کر اس کے چہرے پر غصے کی سرخی آگئی برکیارق اس کو دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور ماں کے قدموں میں گر پڑا پھر سر اس کی گود میں رکھ دیا
مجھے بخش دو ماں! سلطان برکیارق نے روتے ہوئے کہا آپ کا بھٹکا ہوا بیٹا آپ کی آغوش میں واپس آگیا ہے
سلطان نے روزینہ کو قتل کر دیا ہے وزیر اعظم نے کہا اور اب سلطان اپنی خواہش کا اظہار کر کے آپ کے قدموں میں آ گرے ہیں ماں نے برکیارق کو اٹھا کر اپنے بازوؤں میں لے لیا اور اس کا منہ چومنے لگی
باہر خون بہ رہا تھا بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا اور باطنی جلتی پر تیل ڈال رہے تھے
جس وقت ماں برکیارق کو اپنے قدموں سے اٹھا کر اور بازؤں میں لے کر اس کا منہ چوم رہی تھی اس وقت چار پانچ شاہی ملازم روزینہ کی لاش اٹھا رہے تھے
وہ سب حیران تھے کہ یہ ہوا کیا اور یہ کیسے ہوا وہ جانتے تھے کہ سلطنت سلجوقیہ کا سلطان برکیارق نہیں ہے لیکن حکم روزینہ کا چلتا تھا اور اس سلطنت کی وہ ملکہ تھی شمونہ شاہی خاندان کی فرد نہیں تھی وہ تو ایک کنیز تھی ایک خادمہ! ملازم اس سے پوچھ سکتے تھے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے
یہ قتل ہوگئی ہے شمونہ نے بڑے شگفتہ لہجے میں جواب دیا اسے سلطان نے اپنے ہاتھوں قتل کیا ہے
اس سے کیا جرم سرزد ہوگیا تھا؟
کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ باطنی تھی شمونہ نے کہا یہ اُس شیطان حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی تھی
اچھا ہوا سلطان کو پتہ چل گیا عہدےدار نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا اور بولا اللہ تیرا شکر سب تعریفیں تیری ذات کے لیے ہیں سلطان کہاں ہے؟
اپنی والدہ محترمہ کے پاس شمونہ نے کہا اللہ نے اس سلطنت پر بڑا ہی کرم کیا ہے اب آپس کا خون خرابہ بند ہوجائے گا
میرے دو بھائی تھے عہدے دار نے کہا وہ فوج میں عہدے دار تھے دونوں اس خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں میرا گھر ماتم کدہ بنا ہوا ہے
شکر ادا کرو اللہ کا شمونہ نے کہا اللہ تبارک و تعالی نے سلطنت کو بچا لیا ہے یہ باتیں تو ہوتی ہی رہےگی مجھے آپ کے بھائیوں کا بہت افسوس ہے یہ سب اِسی کے ہاتھوں کرایا گیا ہے جس کی لاش آپ دیکھ رہے ہیں سلطان حکم دے گئے ہیں کہ اس کی لاش اور مرا ہوا یہ کتا بوری میں ڈال کر کسی جگہ گڑھا کھود کر دبا دو انہوں نے کہا ہے کہ اسے قبرستان میں دفن نہ کرنا نہ اسے کفن پہنانا ہے نہ اس کا جنازہ پڑھنا ہے اور یہ احتیاط بھی کرنی ہے کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ سلطان نے اپنی بیگم کو قتل کردیا ہے لاش اٹھائیں اور فرش اچھی طرح صاف کروا دیں
ایک بوری لائی گئی جس میں روزینہ کی لاش اور مرے ہوئے کتے کو ڈالا گیا اور بوری کا منہ بند کرکے ملازم اٹھالے گئے، دوسرے ملازم فرش دھونے لگے شمونہ نکل کر برآمدے میں کھڑی ہوگئی روزینہ کی لاش باہر والے دروازے سے بھی بکل گئی تھی شمونہ گہری سوچ میں کھو گئی
کیا کہا شمونہ بی بی! شمونہ کو ایک خادمہ کی آواز سنائی دی جو اس کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی لیکن شمونہ اسے دیکھ نہیں سکی تھی خادمہ سمجھی کہ شمونہ نے اسے کچھ کہا ہے شمونہ نے اس کی طرف دیکھا اور چونکی
میں کہہ رہی تھی کہ انسان اپنی حقیقت اور اصلیت کو بھول جاتا ہے شمونہ نے کہا یہ بدنصیب یوں سمجھ بیٹھی تھی جیسے یہ ہمیشہ اس سلطنت کی ملکہ بنی رہے گی یہ اللہ کو بھول گئی تھی اور شیطان کی پجارن بن گئی تھی حکمرانی کی نشہ اپنا تختہ اپنے ہاتھوں الٹ دیا کرتے ہیں
عبرت تو کوئی حاصل نہیں کرتا خادمہ نے کہا جس کے سر پر سلطانی کا تاج رکھ دیا جاتا ہے وہ سب سے پہلے یہ بھولتا ہے کہ سدا بادشاہی اللہ کی ہے اس ملکہ کا انجام دیکھ لو ایک کتے کے ساتھ دفن ہو رہی ہے
اور اس کی قبر بھی نہیں بنے گی شمونہ نے کہا کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکے گا کہ یہاں وہ عورت دفن ہے جس نے کچھ عرصہ اس سلطنت پر حکومت کی تھی اور سلطان کو بھی اپنا غلام بنا لیا تھا
شمونہ اپنے خیالوں میں کھو گئی تھی روزینہ کی لاش دور نکل گئی تھی محل کے باہر والے دروازے میں ایک عورت آن کھڑی ہوئی دربان نے اسے دیکھا اور سر سے اشارہ کیا عورت اندر آ گئی
شیطان کی دوسری پوجارن آگئی ہے خادمہ نے کہا
غور سے سن لو شمونہ نے خادمہ سے کہا اسے یہ پتا نہ چلے کہ روزینہ ماری جا چکی ہے تم دیکھ رہی ہو کہ باہر والے دربان کو بھی معلوم نہیں کہ یہ جو بوری گھوڑا گاڑی میں محل سے نکالی گئی ہے اس میں روزینہ کی لاش تھی تم یہاں سے چلی جاؤ اور سامنے نہ آنا
یہ تھی وہ عورت جو روزینہ کے پاس آتی اور اسے پیغام لے کر اس طبیب تک پہنچاتی تھی جو حسن بن صباح کا بھیجا ہوا خاص آدمی تھا اور جس نے زمین دوز طریقوں سے خانہ جنگی شروع کرائی تھی یہ عورت پیغام لایا بھی کرتی تھی اس کی عمر پینتیس سال کے لگ بھگ تھی اور وہ خوبصورت عورت تھی ایسا لباس پہنتی تھی کہ کسی شاہی خاندان کی عورت معلوم ہوتی تھی روزینہ نے اسے شمونہ کے متعلق بتا دیا تھا کہ یہ اس کی ہمراز کنیز ہے اور حسن بن صباح کی غائبانہ مرید ہے اس کی وجہ سے یہ عورت شمونہ کے ساتھ بھی کچھ بے تکلف ہو گئی تھی شمونہ کسی کو اپنے ساتھ بے تکلف کرنے کے فن میں مہارت رکھتی تھی اس عورت کے ساتھ شمونہ کی اچھی خاصی دوستی پیدا ہوگئی تھی
یہ عورت ذرا قریب آئی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی شمونہ بھی کھل کر مسکرائی اور اس کے استقبال کو آگے بڑھی
کونسے کمرے میں ہے؟
اس عورت نے روزینہ کے متعلق پوچھا
شمونہ کو کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ اب وہ کسی بھی کمرے میں نہیں بلکہ ایک کتے کے ساتھ بوری میں بند ہے اور شاید اب تک زمین میں بھی دبائی جا چکی ہوگی لیکن شمونہ نے یوں نہ کہا نہ ہی اسے ایسا کہنا چاہیے تھا
آپ آئیں تو سہی شمونہ نے کہا آج آپ کو کچھ انتظار کرنا پڑے گا وہ سلطان کے پاس ہیں اور شاید انہیں معلوم تھا کہ آپ آ رہی ہیں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آپ آئیں گی تو میں آپ کو کمرے میں بیٹھاؤں آ جائیں
شمونہ اسے اس کمرے میں لے گئی جہاں وہ روزینہ کے ساتھ کانا پھوسی کیا کرتی تھی اسے احترام سے بٹھایا اور کہا کہ میں آپ کے لیے کچھ لاتی ہوں روزینہ اس عورت کی بہت خاطر تواضع کیا کرتی تھی شمونہ بھی یہی اشارہ دے کر کمرے سے نکل گئی کہ وہ اس کی خاطر تواضع کرے گی
تھوڑی ہی دیر بعد شمونہ جب اس کمرے میں واپس آئی تو اس کے ساتھ محل کے دو محافظ تھے ایک کے ہاتھ میں بڑی لمبی رسی تھی
اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دو اور اس کے پاؤں بھی باندھو شمونہ نے اسکی طرف اشارہ کرکے کہا
محافظ آگے بڑھے تو وہ عورت حیرت زدگی کے عالم میں شمونہ کی طرف دیکھنے لگی دونوں محافظوں نے اسے گرا کر اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ دیے اور پھر اسی رسی کے ساتھ پاؤں بھی باندھ دیے اس دوران وہ چیختی اور چلاتی رہیں اور شمونہ سے پوچھتی رہی کہ یہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے
اسے فرش پر پھینک دو شمونہ نے محافظوں سے کہا اور دروازہ باہر سے بند کر دو
شمونہ محافظوں کے ساتھ باہر نکل آئی اور دروازہ باہر سے بند کردیا شمونہ وہیں کھڑی کچھ سوچنے لگی
تم دونوں یہیں ٹھہرو شمونہ نے محافظوں سے کہا میں سلطان کو اطلاع دینے جا رہی ہوں
سلطان برکیارق اپنی ماں کے سامنے بیٹھا تھا ماں کے چہرے پر ایک مدت بعد رونق آئی تھی برکیارق کی آنکھیں پرنم تھیں وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اس کی ماں کو سنا چکا تھا کہ روزینہ کو برکیارق نے کیوں اور کس طرح قتل کیا ہے ماں نے جب یہ سنا کے روزینہ اس کے بڑے بیٹے کو زہر پلا رہی تھی تو ماں تڑپ اٹھی اور اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف کیے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کا بیٹا بچ گیا
دربان کمرے میں داخل ہوا سب نے اس کی طرف دیکھا
سلطان محترم کی کنیز آئی ہے دربان نے کہا اندر آنے کی اجازت چاہتی ہے
اسے فوراً اندر بھیج دو برکیارق کی ماں نے کہا یہ تو اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے جس نے میرے بیٹے کی جان بچائی ہے اور سلجوقی سلطنت کو بڑے خطرے سے محفوظ کر دیا ہے
شمونا کمرے میں داخل ہوئی برکیارق کی ماں اٹھی اور لپک کر شمونہ کو گلے لگا لیا وہ شمونہ کو چومتی اور اس کا شکر ادا کرتی تھی
میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے شمونہ نے کہا میں اسی مقصد کے تحت روزینہ کی کنیز بنی تھی یہ باتیں بعد میں کریں گے میں سلطان عالی مقام کو یہ اطلاع دینے آئی ہوں کہ روزینہ کی لاش کتے کے ساتھ بوری میں بند کرکے لے گئے ہیں اور دوسری اطلاع اس سے زیادہ ضروری ہے وہ یہ کہ اتفاق سے ایک عورت آگئی ہے جسے میں اچھی طرح جانتی ہوں وہ روزینہ کو پیغام دینے اور اس کے پیغام لے جانے آیا کرتی تھی یہ پیغام حسن بن صباح کی طرف سے آتے تھے میں نے روزینہ کے ساتھ بے تکلفی پیدا کر لی تھی اور اس عورت کے ساتھ بھی ابھی ابھی تو میں نے اسے یہ کہہ کر کمرے میں بٹھا دیا کہ روزینہ کو اطلاع دیتی ہوں میں محافظ دستے کے دو آدمی ساتھ لے گئی اور ایک رسی بھی میرے کہنے پر انہوں نے اس عورت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہیں اور اسے ایک کمرے میں بند کر دیا ہے یہ ہے وہ عورت جس سے آپ کو بڑے ہی قیمتی اور چونکا دینے والے راز ملیں گے تب آپ کو پتہ چلے گا کہ اس سلطنت پر کتنا بڑا خطرہ منڈلا رہا تھا اور مجھے امید ہے کہ آپ نے بروقت کارروائی کی تو یہ خطرہ ٹل جائے گا اور آپ کو پتہ چلے گا کہ اس شہر میں کتنی زیادہ باطنی اکٹھے ہوگئے ہیں
سلطان برکیارق کو ابھی معلوم نہیں تھا کہ شمونہ کون ہے اور اس نے اس مقصد کو اپنا فرض کیوں بنایا تھا وہ تو اسے ایک کنیز سمجھتا تھا جو کسی مجبوری کے تحت نوکری کی تلاش میں آئی تھی اصل حقیقت تو عبدالرحمن سمیری جانتا تھا
تم یہ ساری باتیں کس طرح جانتی ہو؟
سلطان برکیارق نے شمونہ سے پوچھا
اس سوال کا جواب بعد میں دوں گی شمونہ نے جواب دیا ہو سکتا ہے اس کا جواب سلطان کو کوئی اور دے
تم وہیں چلو برکیارق نے شمونہ سے کہا اس عورت کو کمرے میں بند رہنے دو
سلطان برکیارق اپنے وزیراعظم سمیری سے کہہ چکا تھا کہ خانہ جنگی فوراً بند کر دی جائے لیکن مشکل یہ تھی کہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ لڑائی کہاں کہاں ہو رہی ہے سرکاری فوج تک تو حکم بچایا جاسکتا تھا لیکن باغی فوج تک حکم پہنچانا محال ہو رہا تھا کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے سالار وغیرہ کہاں ہیں سالار اوریزی روپوش تھا اور اس باغی فوج کی کمان برکیارق کے چھوٹے بھائی محمد کے ہاتھ میں تھی اور سلطان تک یہ اطلاع بھی پہنچ گئی تھی کہ رے سے امیر شہر ابومسلم رازی نے بھی اپنی فوج بلکہ ایک بڑا لشکر تیار کر کے محمد اور سالار اوریزی کی مدد کے لئے بھیجا ہے اب یہ پتہ چلانا تھا کہ محمد اور سالار اوریزی کہاں ہیں
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے تین چار قاصد بلوائے ایک کو تو سرکاری فوج کے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ اپنی فوج کو اکٹھا کر کے شہر میں لے آئے اور جنگ بند کر دیں باقی قاصدوں کو یہ کام دیا گیا کہ وہ کسی طرح یہ معلوم کریں کہ سالار اوریزی اور محمد کہاں ہیں اور انہیں یہ پیغام دیں کہ سلطان برکیارق نے اپنی والدہ محترمہ کے حکم سے جنگ بند کرنے کا اعلان کردیا ہے اور وہ دونوں ہمارے پاس پہنچ جائیں
خانہ جنگی بند کرانا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ خانہ جنگی کی صورت یہ نہیں تھی کہ دونوں طرفوں کی فوجی ایک میدان میں لڑ رہی ہوں لڑائی کی صورت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ سرکاری اور باغی فوجی چھوٹے بڑے دستوں میں بٹ گئی تھی اور یہ جنگ شہر سے نکل کر مضافات میں اور اس سے بھی دور دور جنگلوں میں پھیل گئی تھی ایک دوسرے پر شب خون مارے جاتے تھے اور کہیں دستے آپس میں جم کر لڑتے تھے دونوں طرف زخمی اور ہلاک ہورہے تھے بعض کی لاشیں ان کے گھروں تک پہنچ جاتی تھی اور اکثر لاشیں وہیں گھوڑوں تلے روندی کچلی جاتی تھیں
یوں بھی ہوتا تھا کہ سرکاری یا باغی فوج کا کوئی آدمی مارا جاتا اور اس کی لاش گھر آجاتی تو اس کا کوئی بھائی یا باپ یا چاچا وغیرہ اسے ذاتی یا خاندانی قتل سمجھ کر انتقام کے لیے خانہ جنگی میں شامل ہو جاتا باطنیوں نے لوگوں کا یہ ردعمل اور انداز دیکھا تو انہوں نے طبیب کو بتایا طبیب تخریب کاری کا ماہر تھا اس نے اپنے آدمیوں کو ایک خصوصی ہدایت نامہ جاری کیا جس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا کہ کسی آدمی کی لاش شہر میں آتی تو اس کے گھر والوں کو بتایا جاتا کہ اسے فلاں آدمی نے لڑائی میں قتل کیا ہے مقتول کے گھر کے آدمی اس آدمی کے گھر پر ٹوٹ پڑتے اور ان کے ایک دو آدمیوں کو قتل کر دیتے یہ سلسلہ یوں آگے چلایا گیا اور باطنی تخریب کار کسی گھر میں آکر یہ اطلاع دیتے کہ تمہارا جو آدمی لڑنے گیا تھا وہ آدمی مارا گیا ہے اور اس کی لاش کو گھوڑوں تلے کچل اور مسل دیا گیا ہے اور اسے فلاں آدمی نے قتل کیا ہے اس اطلاع کا ردعمل بھی یہی ہوتا کہ مقتول کے وارث اس گھر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتے اس طرح اس خانہ جنگی میں یہ نیا پہلو پیدا ہوگیا جس نے لوگوں کے درمیان ذاتی دشمنی پیدا کردی شہر کے لوگ اپنے گھروں کے دروازے اندر سے مقفل رکھتے تھے
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ خانہ جنگی دو سال جاری رہی تھی لیکن مستند مورخ کچھ حوالے دے کر لکھتے ہیں کہ خانہ جنگی ایک سال اور ایک یا دو مہینے لڑی گئی تھی اور اس نے سلطنت اور لوگوں کو بھی بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا تھا سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا کہ سلطنت کا انتظام تہہ و بالا ہو گیا تھا اور اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوا کہ حسن بن صباح نے بڑے وسیع و عریض علاقے پر قبضہ کرلیا یا یوں کہیے کہ ان علاقوں کو اس نے زیر اثر لے لیا سلطنت سلجوقیہ کو خانہ جنگی میں الجھا کر اس نے اپنا مقصد بڑی آسانی سے پا لیا تھا اسے صرف سلطنت کی فوج روک سکتی تھی لیکن اس سلطنت کو اس نے خاک و خون کے بڑے ہی خوفناک کھیل میں الجھا دیا سرکاری فوج کا سپہ سالار ابوجعفر حجازی چونکہ شہر میں ہی تھا اور یہیں سے لڑائی کو کنٹرول کر رہا تھا اس لئے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے قاصد کے پہنچتے ہی وہ آ گیا اس نے سلطان برکیارق کو اپنی ماں کے پاس بیٹھا دیکھا تو وہ کچھ پریشان بھی ہوا اور حیران بھی
حجازی! سلطان برکیارق نے کہا جنگ فوراً بند کردو اور اپنی فوج کو اس شہر میں بلالو۔
سلطان عالی مقام! حجازی نے کہا سلطان کے حکم کی تعمیل فوراً ہوگی لیکن دستے کچھ ایسے بھی گِھر گئے ہیں کہ انہیں لڑائی سے ہٹانا اور شہر میں لانا بڑا ہی دشوار اور دقت طلب کام ہے
کوشش کرو یہ کام ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر شروع ہو جائے سلطان برکیارق نے کہا اور یہ بھی سن لو کہ ہم نے سالار اوریزی کو معاف کردیا ہے کسی اور کو بھی گرفتار یا ہلاک یا زخمی نہیں کرنا تلواریں نیاموں میں ڈالو
سپہ سالار حجازی فوراً روانہ ہوگیا
سلطان محترم! وزیراعظم سمیری نے کہا خانہ جنگی کو روکنے اور دونوں اطراف فوجوں کو الگ الگ کر کے شہر میں لانے کے لئے کچھ دن تو چاہیے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس عورت سے کچھ پوچھ گچھ کر لیں جسے کنیز نے پکڑا ہے راز کی باتیں تو اس سے معلوم ہو گی لیکن میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ عورتیں یا آدمی اپنی جان دے دیتے ہیں راز نہیں دیا کرتے
ہاں سلطان برکیارق نے کہا یہ خطرہ تو ہے لیکن ہم کوشش کرتے ہیں شاید اس عورت کی زبان سے کچھ اگلوا سکیں ہمیں ناکامی ہوئی تو زندہ یہ بھی نہیں رہے گی میں اپنی اس کنیز نگینہ کا احسان ساری عمر نہیں بھول سکوں گا اگر ماں نے مجھے اجازت دے دی تو میں اس کے ساتھ شادی کر لوں گا
شمونہ نے روزینہ اور سلطان برکیارق کو اپنا نام نگینہ بتایا تھا اس لئے برکیارق اسے نگینہ ہی سمجھ رہا تھا اس کا نام عبدالرحمان سمیری کو معلوم تھا لیکن اس نے سلطان کو ابھی اصل نام نہ بتایا
میرے بیٹے! ماں نے برکیارق سے کہا یہ خون خرابہ رک جائے اور سلطنت پر خطروں کے گھٹائیں منڈلا رہی ہیں یہ اڑ جائیں تو میں تمہیں شادی کی اجازت بھی دے دوں گی اور میرا خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر اچھی لڑکی کوئی اور نہیں ہوگی
وزیراعظم سمیری نے جب یہ سنا کہ سلطان شمونہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے اور سلطان کی ماں بھی اسی لڑکی کو پسند کر رہی ہے تو اسے پریشانی سی ہوئی کیونکہ شمونہ مزمل آفندی کی محبت میں گرفتار تھی اور اس نے مزمل کے ساتھ ہی شادی کرنی تھی سمیری کو پریشانی یہ تھی کہ جب یہ صورت پیدا ہوگئی کہ سلطان شمونہ سے شادی کا فیصلہ کرے گا تو اسے کس طرح قائل کیا جا سکے گا کہ شمونہ سے ہاتھ اٹھا دے اور اسے دل سے نکال دے کیونکہ یہ مزمل کے ساتھ منسوب ہے
دونوں اس کمرے میں گئے جہاں وہ عورت اوندھے منہ فرش پر پڑی تھی اور اس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے سلطان برکیارق نے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلایا اور اسے کہا کہ اس عورت کے ہاتھ پاؤں کھول دے
ذرا سی دیر میں عورت کے ہاتھ پاؤں کھل گئے اور وہ واہی تباہی بکنے لگی کہ سلطان کی ایک ادنیٰ سی کنیز نے اس کے ہاتھ پاؤں بندھوا دیے تھے
تم کون ہو؟
سلطان برکیارق نے پوچھا اور یہاں کیا لینے آئی تھیں
میں سلطان عالی مقام کی بیگم کی سہیلی ہوں! عورت نے جواب دیا میں ان کے پاس آتی رہتی ہوں آج آئی تو آپ کی کنیز نے تمہیں رسیوں سے بندھوا دیا سلطان برکیارق نے اس کی بات کاٹ کر کہا اور تمہیں میری بیگم دیکھنے نہیں آئی تم کس کی بیٹی ہو؟
تم کس کی بیوی ہو؟
تمہارا گھر کہاں ہے ؟
مجھے ٹھیک جواب دو اور میں تمہارے ساتھ تمارے گھر چلوں گا
میرا نام رابعہ ہے عورت نے جواب دیا میں شاہ در کی رہنے والی ہوں اور یہاں اپنے خاوند کے ساتھ رہتی ہوں لیکن میں آپ سے یہ عرض کروں گی کہ میرے گھر نہ آئیں کیونکہ میرا شوہر بڑا ہی ظالم آدمی ہے اور وہ وہمی بھی ہے اگر آپ یا کوئی اور میرے گھر آیا تو میرا خاوند مجھ پر نہ جانے کیسے کیسے الزام تھوپ دے اور میری پٹائی شروع کردے میں شاہ در کے ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی ہوں
تمہارا نام رابعہ نہیں ہے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے کہا تمہارا باپ کسی بھی قبیلے کا سردار نہیں نہ تمہارا کوئی خاوند ہےمیری ایک بات غور سے سن لو اپنی اصلیت فوراً بتا دو اس میں تمہارا فائدہ ہے اگر تمہارا یہ ارادہ ہے کہ تم کوئی راز اگلنے سے پہلے اپنے آپ کو ہلاک کر لو گی تو یہ خیال دل سے نکال دو
سمیری نے محافظ دستے کے کماندار سے کہا اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر پیچھے کرلو
رابعہ فوراً اٹھی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی ناف پر رکھ لئے کماندار طاقتور آدمی تھا اس نے پیچھے ہوکر عورت کے دونوں بازو پکڑے اور بڑی زور سے جھٹکا دے کر بازو اس کی پیٹھ کے پیچھے کرلیے سمیری آگے بڑھا اور اس کی قمیض اوپر کر دی اس نے سلطان برکیارق سے کہا کہ یہ دیکھ لیں عورت نے نیفے میں ایک خنجر اڑسا ہوا تھا سمیری نے یہ خنجر اس کے نیفے سے نکال لیا سلطان محترم! سمیری نے برکیارق سے کہا اس خنجر کی نوک یقیناً زہر میں بجھی ہوئی ہے کسی جانور کو مار کر دیکھ لیں
وزیراعظم سمیری نے اس عورت کے بال مٹھی میں پکڑ کر بڑی زور سے جھٹکا دیا عورت کے دانت بج اٹھے دوسرا جھٹکا دے کر سمیری نے اس کا سر پیچھے کر دیا
ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے سمیری نے کہا ایسی اذیتیں دیں گے کہ مروں گی بھی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہوگی حسن بن صباح تمہیں ہم سے چھوڑا نہیں سکے گا کہو سچ بولتی ہو؟
کیا سچ بولوں رابعہ نے کہا کیا آپ لوگوں میں اتنی بھی تہذیب نہیں کہ میں اتنے بڑے باپ کی بیٹی
وزیراعظم سمیری نے اس کی بات پوری نہ ہونے دی اور بڑی زور سے جھٹکا دیا جس سے وہ پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکرائی محافظوں کا کماندار آگے بڑھا
مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی زبان کھولوں کماندار نے کہا
سلطان برکیارق کے اشارے پر کماندار رابعہ کی طرف بڑھا اور اس کی گردن اور اس کے کندھے کے درمیان میں کوئی رگ اپنی مٹھی میں لے کر دبائی رابعہ تڑپنے لگی اس کا منہ کھل گیا یہ عورت اتنے طاقتور کماندار کی مٹھی میں ایسے ہی تھی جیسے شیر نے ایک خرگوش کو اپنے منہ میں لے رکھا ہو
کہوں میں باطنی ہوں کماندار نے کہا
اس کے ساتھ ہی کماندار نے مٹھی اور زور سے دبائی تو عورت کا چہرہ لال سرخ ہو گیا اور وہ اور زیادہ تڑپنے لگی کماندار نے ایک بار پھر کہا کہ وہ کہے کہ میں باطنی ہوں رابعہ نے اپنا سر زور زور سے ہلایا جیسے وہ اقرار کر رہی ہو کماندار نے اس کی رگ چھوڑ دی وہ فرش پر گری اور ایک ہاتھ سے وہ رگ دبانے لگی اس کا چہرہ بتاتا تھا وہ ابھی تکلیف میں ہے
بولو! کماندار نے اسے پاؤں کی ٹھوکر خاصے زور سے لگا کر کہا
مجھے قتل کردو رابعہ نے روتے ہوئے کہا اگر میں اپنا سینہ کھول کر راز آپ کے آگے انڈیل دیتی ہوں تو بھی مجھے قتل کر دیا جائے گا وہ یہ نہیں کریں گے کہ میری گردن کاٹ دیں گے بلکہ بڑی ہی اذیت ناک موت مارینگے میرے تمام کپڑے اتار کر میرے جسم پر شہد مل دینگے پھر میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر جنگل میں پھینک دیں گے آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے اور مکھیاں کس طرح مجھے کھائیں گی بچھوں اور دوسرے زہریلے کیڑے بھی میری کھال کو کاٹتے رہیں گے میں نے اس طرح ایک عورت کو مرتے دیکھا ہے وہ پورے دس دن تڑپتی رہی تھی اور حشرات الارض آہستہ آہستہ اس کی کھال کو کھاتے رہے تھے میں اس موت سے ڈرتی ہوں
مت ڈرو! سلطان برکیارق نے کہا میں تمہیں ساری عمر یہی اسی محل میں رکھوں گا چاہوں گی تو کسی اچھے آدمی کے ساتھ تمہاری شادی کرا دوں گا یہی آرام سے عمر گزاروں گی اور بڑے ہی عیش و عشرت میں رہوں گی
اگر جھوٹ بولوگی تو سن لو۔ وزیراعظم سمیری نے کہا تمہیں قید خانے میں بڑی ہی بدبودار کوٹھری میں پھینک دیا جائے گا جس میں چوہے اور زہریلے کیڑے رہتے ہیں دن کے وقت تمہیں الٹا لٹکا کر نیچے دہکتے انگارے رکھ دیا کریں گے اور ان پر ایک آدمی مرچیاں پھینکتا رہے گا تصور میں لاؤ کہ مرچوں کا دھواں تمہاری ناک اور منہ کے راستے تمہارے اندر جائے گا تو تمہاری کیا حالت ہوگی رات کو تمہیں اس کوٹھری میں بند کر دیا جائے گا،بہتر ہے کہ تم اپنی اصلیت بتا دو اور تمہارا رابطہ حسن بن صباح کے جن لوگوں کے ساتھ ہے وہ بتا دو کہاں کہاں رہتے ہیں انہیں پتہ ہی نہیں چلنے دیا جائے گا کہ ہمیں یہ راز تم نے دیا ہے
مسلمان مؤرخوں نے اور یوروپی مورخوں نے بھی متفقہ طور پر لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے فدائیوں کو ایسی تربیت دی جاتی تھی کہ ان کی فطرت ہی بدل جاتی تھی ان کے لیے زندگی اور موت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی وہ زندہ رہتے تھے تو صرف حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل کے لئے زندہ رہتے تھے اور جب اپنی جانیں لینے پر آتے تھے تو بڑے فخر اور اطمینان سے اپنی جان دے دیتے تھے ہر فدائی کے پاس وہ عورت ہوتی یا مرد ایک خنجر ہوتا تھا جس کی نوک زہر میں بجھی ہوئی ہوتی تھی ان میں سے کوئی پکڑا جاتا اور وہ دیکھتا کہ فرار کا کوئی راستہ نہیں اور راز اگلنا ہی پڑے گا تو وہ خنجر نکال کر اپنے دل میں اتار لیتا تھا رابعہ نے بھی اپنے پاس ایک خنجر اسی مقصد کے لیے رکھا ہوا تھا لیکن وزیراعظم عبدالرحمن سمیری جانتا تھا کہ ہر فدائی کے پاس خنجر ہوتا ہے اس نے اس عورت کے لباس سے خنجر نکال لیا اس خنجر کی موجودگی ہی یہ پکا ثبوت تھا کہ وہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ عورت ہے سلطان برکیارق کے ذہن میں اگر ابھی تک کوئی شک باقی تھا تو وہ بھی نکل گیا
میں اپنے دو بچوں کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہوں رابعہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا دونوں ابھی چھوٹے ہیں
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا خاوند بھی ہے عبدالرحمن سمیری نے کہا اور وہ بھی یقیناً فدائی ہوگا
میرا کوئی خاوند نہیں رابعہ نے کہا میں کبھی کسی کی بیوی نہیں رہی اس بچے کا باپ کوئی اور ہے اور دوسرے کا کوئی اور میں نے اپنی زندگی شیخ الجبل حسن بن صباح کے نام وقف کر دی تھی میری ساری عمر فریبکاری میں گزری ہے
وہ ہم جانتے ہیں عبدالرحمن سمیری نے کہا ہم جانتے ہیں کہ فدائی عورتیں کیا کچھ کرتی ہیں ہمیں یہ بتاؤ کہ یہاں جو فدائی ہیں وہ کہاں کہاں رہتے ہیں؟
اس شہر کی ایک چوتھائی آبادی باطنیوں کی ہے رابعہ نے کہا کوئی ایک بھی اس شہر کا باشندہ نہیں سب باہر سے آئے ہیں میں اتنے زیادہ لوگوں کے گھر تو بتا نہیں سکتی صرف ایک جگہ بتاتی ہوں وہاں رات کو چھاپہ ماریں تو آپکو فدائوں کا ایک مرکز مل جائے گا وہاں جو آدمی ہونگے ان کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گی کہ ہر آدمی حسن بن صباح کا فدائی ہے اس نے طبیب کے گھر کا پتا بتا دیا پھر اس نے چند اور اہم آدمیوں کے نام اور ٹھکانے بتائے
آپ کی سلطنت میں خانہ جنگی حسن بن صباح نے شروع کرائی تھی رابعہ نے بتایا سلطان کو مٹھی میں لینے اور انہیں کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کے لیے روزینہ کو بھیجا گیا تھا…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

www.urducover.com



 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles