حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 10

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 10

قسط نمبر    “37”   سے قسط    نمبر”40″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:37 }
آپ کی سلطنت میں خانہ جنگی حسن بن صباح نے شروع کرائی تھی رابعہ نے بتایا سلطان کو مٹھی میں لینے اور انہیں کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کے لیے روزینہ کو بھیجا گیا تھا روزینہ سلطان کو صبح شام ایک خاص قسم کی حشیش پلاتی رہی تھی اور پھر اس کیفیت میں وہ اپنے حسن و جوانی کا طلسمی استعمال کرتی تھی سلطان تو جوان ہیں اور ان کے جذبات بھی جوان ہے روزینہ اور اس جیسی لڑکیاں پتھروں کو بھی موم کر لیا کرتی ہیں میں روزینہ اور طبیب کے درمیان ایک رابطہ ہوں اگر روزینہ انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں تو اسے میرے سامنے لائیں میں آپ کو اس محل میں وہ جگہ دکھاؤ گی جہاں اس نے حشیش رکھی ہوئی ہے
کیا روزینہ مجھے قتل کرنا چاہتی تھی؟
سلطان برکیارق نے پوچھا
نہیں! رابعہ نے جواب دیا آپ پوری طرح اس کی مٹھی میں تھے آپ کو قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی قتل صرف اس صورت میں آپ کو کیا جاتا کہ آپ بیدار ہوکر اسکی مٹھی سے نکل آتے ہاں آپ کے دونوں بھائیوں کو آپ کی ماں کو اور آپ کے وزیراعظم کو قتل کرنا تھا لیکن کچھ دیر بعد ایک بات اور بتاتی ہوں لیکن میں شک میں ہوں آپ کی یہ جو کنیز ہے اس نے اپنا نام نگینہ بتایا ہے مجھے کچھ ایسا شک ہوتا ہے کہ اس کا نام نگینہ نہیں کچھ اور ہے میں لڑکپن میں حسن بن صباح کے پاس گئی تھی مجھے دھوکے میں لے جایا گیا تھا مجھے کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ یہ کنیز اس وقت وہیں تھی یہاں میں نے اسے دیکھا تو کچھ یقین بھی آنے لگا کیونکہ یہ روزینہ کے ساتھ پوری طرح بے تکلّف تھی اور اسکی رازدار بھی تھی کبھی کبھی حسن بن صباح کی باتیں بھی کرتی تھی اور روزینہ نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی یہ کنیز فطری طور پر باطنی ہے اور غائبانہ طور پر حسن بن صباح کی مرید ہے
سلطان برکیارق نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کی طرف دیکھا وزیراعظم نے سلطان کو آنکھ کا ہلکا سا اشارہ کیا
کیا تم اپنے بچوں کو یہاں لانا چاہوں گی؟
وزیراعظم سمیری نے رابعہ سے پوچھا
کیا آپ مجھے جانے کی اجازت نہیں دیں گے رابعہ نے پوچھا
نہیں! وزیراعظم سمیری نے کہا تم کہتی ہو کہ اپنے بچوں کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہو اب تم صرف اس صورت میں زندہ رہوں گی کہ یہیں رہو تمھارے بچے یہاں آ جائیں گے ہمیں بتاؤ کہ وہ کہاں ہیں؟
بچے ہیں تو وہیں رابعہ نے کہا میرا اتنا قیمتی سامان بھی وہاں پڑا ہے
سب کچھ آ جائے گا سلطان برکیارق نے کہا تم صرف جگہ بتا دو رابعہ نے اپنا گھر اچھی طرح سمجھا دیا
بچوں کو ابھی لے آئیں رابعہ نے کہا سامان رات کو اس طرح لائیں کہ کسی کو پتہ نہ چلے ورنہ میں ماری جاؤں گی اور میرے بچے بھی محفوظ نہیں رہیں گے لیکن ایک بات تو میں نے سوچی ہی نہیں تھی وہ اب دماغ میں آئی ہے اگر روزینہ یہیں ہے تو میں یہاں کس طرح رہ سکتی ہوں وہ تو کسی وقت بھی مجھے قتل کروا دے گی دھوکے میں زہر پلا دے گی اگر اسنے مجھے قتل نہ کیا تو میرے بچوں کو مروا ڈالے گی یا اغوا کرادے گی اس کے پاس ایک ایسا زہر ہے جس کا کوئی ذائقہ نہیں
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور محافظ دستے کے کماندار نے سلطان برکیارق کی طرف دیکھا اس بات کا جواب سلطان ہی دے سکتا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ سلطان روزینہ کے قتل کو ابھی پردے میں رکھنا چاہتا ہے یا نہ جانے اس کا کیا خیال ہے
تم روزینہ کو یہاں نہیں دیکھ سکوں گی سلطان برکیارق نے کہا وہ دفن ہوچکی ہے اس سارے محل میں گھوم پھر کر دیکھ لو وہ زندہ نہیں
دفن ہو چکی ہے؟
رابعہ نے حیرت سے پوچھا کیوں کیا وہ بیمار ہو کر مر گئی ہے یا ہم پر اس کی اصلیت بے نقاب ہوگئی تھی سلطان برکیارق نے جواب دیا میں نہیں جانتا کہ تمہیں حسن بن صباح سے کیا ملتا تھا اگر یہ بتا دو تو یہاں سے تمہیں دگنا انعام اور معاوضہ ملے گا اب تم وہی کام ہمارے لئے کرو جو تم حسن بن صباح کے لئے کرتی رہی ہو پہلے تم آوارہ پھرتی رہی ہو اب تم اس محل کی ایک قابل عزت فرد بنا دی جاؤ گی سوچ لو اب تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی
پہلے یہ سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے کسی فدائی سے راز لینا ایسا ہی ناممکن تھا جیسے ایک پتھر سے دودھ کی دھاریں نکالی جائیں یہ ایک معجزہ تھا کہ ایک فدائی عورت نے سارے ہی راز دے دیے تھے اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ سلطان برکیارق اس کے بھائی اس کی ماں اور وزیراعظم اسلام کے تحفظ بقا اور فروغ کے لیے لڑ رہے تھے اور ان کا ایمان تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ رابعہ اپنی جوانی حسن بن صباح کے باطل عقیدے کو سینے سے لگائے گزار دی تھی اور وہ سمجھتی تھی کہ حسن بن صباح نے اسکی فطرت ہی بدل ڈالی ہے لیکن ممتا ایسا جذبہ ہے جو ماں کا دین و ایمان بھی ہلا ڈالتا ہے اس کے چھوٹے چھوٹے دو بچوں نے اسے راز اگلنے پر مجبور کر دیا تھا بہرحال یہ ایک معجزہ تھا کہ رابعہ نے تمام راز دے دیے اور بہت سے آدمیوں کی نشاندہی بھی کی
سلطان برکیارق نے رابعہ کی رہائش کا انتظام کرنے کا حکم دیدیا اور یہ بھی کہ اس کے بچوں کو بھی یہاں لے آئیں وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے کہا کہ اس عورت کی رہائش پر پہرہ ضرور ہونا چاہیے اور پہرہ ایسا ہو کہ اسے پتہ نہ چلے دو تین ملازموں کو یہ فرض سونپا جائے کہ وہ ہر وقت اس پر نظر رکھیں سلطان برکیارق نے اس مشورے کے مطابق حکم جاری کردیا
اس کے بعد سلطان برکیارق نے باہر آکر وزیراعظم سے کہا کہ جنگ بند کرانا اس کا کام ہے اور وہ جس قدر جلدی ہو سکے یہ قتل و غارت رکوا دے
سمیری چلاگیا اور سلطان برکیارق نے اپنے دربان سے کہا کہ وہ کنیز نگینہ کو میرے کمرے میں بھیج دیے اس نے جا کر دیکھا اس کے کمرے کے فرش سے روزینہ کا خون دھو دیا گیا تھا اور دروازے کے باہر جو خون گرا تھا وہ بھی صاف کر دیا گیا تھا کمرے میں پھر قالین ویسے ہی بچھ گیا تھا جیسے پہلے ہوا کرتا تھا جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو برکیارق پلنگ پر بیٹھا اور پھر لیٹ گیا زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شمونہ کمرے میں داخل ہوئی اور کنیزوں کی طرح آداب بجا لائی سلطان برکیارق نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ شمونہ قالین پر بیٹھ گئی
نگینہ! سلطان برکیارق نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا اب تم کنیز نہیں ہو میرے دل میں تم نے اپنا درجہ خاصہ بلند کرلیا ہے اوپر بیٹھو یا میرے پاس پلنگ پر بیٹھ جاؤ
شمونہ قالین سے اٹھی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی
تم نے مجھے نئی زندگی دی ہے برکیارق نے کہا تم نے سلجوقی سلطنت کو مزید خون خرابے سے بچا لیا ہے میں تمہیں اس کا انعام دینا چاہتا ہوں بولو کیا چاہیے
سلطان عالی مقام! شمونہ نے کہا میں نے آپ کی والدہ محترمہ سے بھی کہا تھا اور آپ سے بھی کہتی ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے نئی زندگی یا موت دینے والا صرف اللہ ہے اللہ نے اگر مجھے اس کا سبب بنایا ہے تو یہ میرا کمال نہیں میں کوئی انعام نہیں چاہتی
لیکن میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں سلطان برکیارق نے کہا تم نے میری صرف جان ہی نہیں بچائی بلکہ میری ذات اور میری شخصیت کو ایک تباہی سے بچایا ہے میں ایک شیطان کے قبضے میں آگیا تھا اُس نے مجھ سے میری ماں کی توہین کرائی یہ ایک کبیرہ گناہ ہے جو معلوم نہیں اللہ تعالی بھی معاف کرے گا یا نہیں اور اس شیطان نے مجھے میرے بھائیوں کا دشمن بنایا اور یہ جو قتل و غارت میری سلطنت میں شروع ہوگئی ہے یہ بھی میرے حساب میں لکھی جائے گی تم آگئی تو میں راہ راست پر آگیا ہوں یہ کوئی معمولی کارنامہ اور مجھ پر معمولی احسان نہیں
میں نے انعام حاصل کرلیا ہے سلطان محترم! شمونہ نے کہا میں یہ کام کرنا چاہتی تھی مجھے امید نہیں تھی کہ میں کامیاب ہو جاؤں گی لیکن اللہ نے میری دعائیں قبول کی اور میں کامیاب ہوگئی یہ انعام کچھ کم نہیں کہ میں نے جو کرنا چاہا وہ ہوگیا
میں تمہیں ایک انعام دینا چاہتا ہوں سلطان برکیارق نے کہا تم اب روزینہ کی جگہ لوگی آج سے تم کنیز نہیں ہو میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ کر کے حالات کو معمول پر لے آؤں تو تمہارے ساتھ شادی کر لوں گا مجھے ایسی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ تم انکار کرو گی
سلطان محترم! شمونہ نے مسکراتے ہوئے کہا آپ یہی امید رکھیں کہ میں انکار ہی کروں گی اس انکار کا ایک جواز ہے اور اس کا پس منظر بھی ہے آپ پس منظر سنیں پھر شادی کرلیں گے
مطلب یہ کہ تم شادی شدہ ہو سلطان برکیارق نے کہا
میں شادی شدہ نہیں ہوں شمونہ نے کہا لیکن میں مرد کی فطرت کی کمزوریوں سے اور مرد کے وجود سے اور مرد کی عیش پرستی اور لذت پرستی سے ناواقف نہیں ہوں پہلی بات یہ ہے کہ سلطان عالی مقام میرا نام نگینہ نہیں شمونہ ہے میں نے یہاں اپنا صحیح نام اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر نہیں بتایا تھا میں بچپن میں ایک قافلے سے اغوا کی گئی تھی اور میری پرورش حسن بن صباح کی جنت میں ہوئی تھی جوان ہوئی تو میں حسن بن صباح کے زیرسایہ رہی میرے اندر ابلیسیت سمودی گئی تھی اور پھر مجھے اس طرف بھیج دیا گیا میں آپ کو کوئی لمبی داستان نہیں سناؤ گی میں نے بڑے بڑے سرداروں عہدے داروں اور کمانڈروں کو حسن بن صباح کے سانچے میں ڈھالا ہے پھر جس طرح آپ راہ راست پر آگئے ہیں اسی طرح اللہ نے مجھے روشنی دکھائی اور میں بھی اللہ کی راہ پر آگئی اللہ نے مجھے یہ انعام دیا کہ مجھے میری ماں مل گئی جس کی آغوش سے مجھے برسوں پہلے نوچا گیا تھا پھر مجھے ایک اور انسان مل گیا جس نے مجھے ولی اور روحانی محبت سے آشنا ہی نہیں بلکہ سرشار کیا اس آدمی نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے اتنی زیادہ قربانی دی کہ اپنے خاندان سے الگ ہو کر یہیں کا ہو کے رہ گیا ہے وہ اصفہان کا رہنے والا ہے اور اس کا نام مزمل افندی ہے وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے گیا تھا لیکن ان کے جال میں آ گیا انہوں نے اپنے خصوصی طریقوں سے اس کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا اور اسے سلطان ملک شاہ مرحوم کے قتل کے لیے تیار کرکے یہاں بھیج دیا یہ سلطان مرحوم کی خوش نصیبی تھی اور یہ مزمل کی بھی خوش نصیبی تھی کہ اس نے میرے ساتھ اس ارادے کا ذکر کر دیا میں نے سلطان مرحوم کو بتا دیا سلطان مرحوم نے طبیب کو بلایا اور طبیب نے اسے دوائیاں وغیرہ دے کر اس کے دل و دماغ سے باطنیوں کے اثرات نکال لئے اسے واپس اپنی اصلی حالت میں لانے میں میرا عمل دخل بھی ہے ہم دونوں کی محبت ایک دوسرے کی روح میں اتری ہوئی ہے
پھر تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟
سلطان برکیارق نے پوچھا
ہم دونوں کا مقصد اور عہد ایک ہے شمونہ نے کہا ہم نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا ہے یہ عہد پورا کرکے ہم شادی کریں گے لیکن ہمارے سامنے مشکل یہ رہی ہے کہ مجھے بھی اور مزمل کو بھی قلعہ الموت میں بہت سے لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں ہم وہاں گئے تو جاتے ہی پکڑے جائیں گے ہم حسن بن صباح کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی موقع نہیں مل رہا تھا آپ کی شادی روزینہ سے ہوئی تو مجھے بتایا گیا کہ روزینہ حسن بن صباح کی جنت سے آئی ہے پھر میں اور مزمل سنتے رہے کہ اس لڑکی نے آپ کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ خانہ جنگی باطنیوں نے ہی شروع کرائی ہے میں تڑپتی رہی کہ روزینہ کو کس طرح قتل کروں لیکن کوئی راستہ اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا تھا آخر مجھے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سے ملوایا گیا اور انہوں نے مجھے یہاں کنیز رکھوایا
شمونہ نے سلطان برکیارق کو تفصیلا سنایا کہ اس نے روزینہ کے دل میں اپنا اعتماد کس طرح پیدا کیا تھا اس نے بتایا کہ جو تربیت روزینہ کو ملی تھی وہی تربیت اسے دی گئی تھی شمونہ نے بتایا کہ اس نے وہی تربیت اور وہی تجربہ روزینہ پر استعمال کیا اور اس کے دل میں اتر گئی
شمونا نے سلطان برکیارق کو یہ نہ بتایا کہ روزینہ نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا بلکہ زہر شمونہ نے اپنے ہاتھوں سے ملایا اور یہ منصوبہ جو اس نے سوچا تھا کامیاب رہا
شمونہ نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اس نے اگر برکیارق کو بتا دیا کہ روزینہ نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا تو ہو سکتا ہے کہ برکیارق کو افسوس ہو کہ اس نے بلاوجہ روزینہ کو قتل کیا شمونہ نے برکیارق کو یہ بھی بتایا کہ روزینہ شربت میں خاص قسم کی حشیش ملایا کرتی تھی اور شمونہ نظر بچا کر یہ شربت غسل خانے میں انڈیل دیتی اور دوسرا شربت ڈال کر اس میں وہ دوائی ملا دیتی تھی جو طبیب نے مزمل کو دی تھی مختصر یہ کہ شمونہ نے برکیارق کو لمحہ بہ لمحہ اپنے کارنامے کی تفصیلات سنائی برکیارق اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا
سلطان عالی مقام! شمونہ نے کہا اگر آپ نے میرے ساتھ شادی کی یا جذباتی طور پر مجھے مجبور کیا تو یہ انعام نہیں ہوگا بلکہ میرا جو انعام ہے اس سے آپ مجھے محروم کریں گے آپ کی سلطنت میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی موجود ہے مجھے آزاد رہنے دیں میرا عہد ابھی پورا نہیں ہوا میرے سینے میں حسن بن صباح کے خلاف نفرت اور انتقام کا طوفان اٹھتا ہے جسے میں بڑی مشکل سے دباتی ہوں میں اس شیطان تک تو نہیں پہنچ سکتی لیکن جہاں پتہ چلے گا کہ اس کا کوئی فدائی مرد یا عورت فلاں جگہ موجود ہے میں اسے اپنے ہاتھوں سے ذہر پلاؤں گی
میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا سلطان برکیارق نے کہا اور پوچھا مزمل آفندی کہاں ہے؟
وہ سالار اوریزی کے ساتھ ہی شمونہ نے جواب دیا اس کا رابطہ آپکے دونوں بھائیوں محمد اور سنجر کے ساتھ رہتا ہے اسے معلوم ہے کہ باطنی دونوں طرفوں کی فوجوں اور شہر میں بھی موجود ہیں اور وہی جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں مزمل ان باطنیوں کے قتل کے لیے دیوانہ ہوا جاتا ہے میں اسے آپ سے ملواؤں گی
سلطان برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا وہ یکلخت اٹھ بیٹھا اور لپک کر شمونہ کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آنکھوں سے لگایا اور پھر اس ہاتھ کو چوما اور پھر بڑے احترام سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا
اگر ایک عورت اتنا بڑا کام کرسکتی ہے تو میں تو سلطان ہوتے ہوئے اور زیادہ بڑے کام کرسکتا ہوں سلطان برکیارق نے بڑے جوشیلے اور پر عزم لہجے میں کہا زندگی میں صرف شادی ہی تو ایک مسئلہ نہیں ہوتا مجھے بہت کچھ کرنا ہے اور میں کرونگا
اب میرے لیے کیا حکم ہے شمونہ نے برکیارق سے پوچھا اور کہا میں اپنا فرض ادا کر چکی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی ماں کے پاس چلی جاؤں میں اپنے تجربے کی بنا پر کہتی ہوں کہ مجھے یہاں سے چلے ہی جانا چاہئے میں آپ کے سامنے نہ ہی رہوں تو اچھا ہے ورنہ آپ کے ارادے متزلزل رہیں گے اور جب بھی آپ مجھے دیکھیں گے تو آپ کے دل میں یہ خواہش تڑپے گی کہ میں روزینہ کی جگہ لے لوں مجھے آپ جب بھی یاد کریں گے فوراً پہنچوں گی
ہاں شمونہ! سلطان برکیارق نے کہا تم نے مجھے بیدار کردیا ہے اور تم نے میرے اندر ایک عزم پیدا کیا ہے تم نے جو کہا ٹھیک کہا ہے تم اپنی ماں کے پاس چلی جاؤں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر تمہیں بھی مجبور کر دوں کہ میرے ساتھ شادی کر لو اب میں ہمہ وقت سلطنت کے کاموں میں مصروف ہوجاونگا
شمونہ اٹھی اور آداب بجا لا کر برکیارق کے کمرے سے نکل آئی
شمونہ اپنی ماں کے پاس چلی گئی
سلطان برکیارق نے وزیراعظم سمیری کو بلایا تھوڑی دیر بعد سمیری آگیا اس طبیب کے گھر آج رات ہی چھاپہ مارنے کا انتظام کریں سلطان برکیارق نے کہا چھاپہ آدھی رات کے کچھ دیر بعد مارا جائے بہرحال یہ انتظام آپ نے کرنا ہے
انتظام ہو جائے گا وزیراعظم سمیری نے کہا لیکن میں سلطان محترم کو بتا دوں کہ ان لوگوں کو زندہ پکڑنا آسان نہیں ہوگا میں اجازت چاہتا ہوں کہ وہ لوگ مقابلہ کرے تو ہم یہ کوشش نہ کرے کہ انہیں زندہ پکڑا جائے البتہ یہ کوشش ضرور ہوگی کہ ایک دو آدمی زندہ ضرور پکڑے جائیں
یہ سب کچھ سوچنا آپ کا کام ہے سلطان برکیارق نے کہا صبح تک مجھے یہ لوگ زندہ یا مردہ دیکھنے ہیں
اس زمانے میں وزیراعظم سپہ سالاری کا اور فن حرب و ضرب کا پورا پورا تجربہ رکھتے تھے ضرورت کے وقت وزیراعظم فوج کی کمان بھی لے لیا کرتا تھا وزیراعظم نے جاکر چھاپے کیلئے آدمی منتخب کر لیے اس چھاپہ مار جماعت کا جو کماندار تھا اسے بھیجا گیا کہ وہ طبیب کا گھر دیکھ آئے طبیب کا گھر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ پورے شہر میں مشہور ہو گیا تھا بہرحال کماندار چلا گیا اور وہ گھر اس نظر سے دیکھ آیا کہ رات اس گھر پر چھاپہ مارنا ہے
اس رات طبیب کے گھر میں کچھ زیادہ ہی آدمی اکٹھے ہو گئے تھے انہیں پتہ چل گیا تھا کہ خانہ جنگی بند کرنے کا حکم مل گیا ہے پتہ اس طرح چلا کہ سلطان برکیارق نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو حکم دیا تھا کہ سرکاری فوج کو لڑنے سے روک دیا جائے سپہ سالار حجازی نے ہر طرف قاصد دوڑا دیے تھے اور جس طرف زیادہ دستے تھے اس طرف وہ خود چلا گیا تھا اس طرح سلطان کا حکم کوئی راز نہیں رہا تھا یہ فوراً باطنیوں تک پہنچ گیا تھا ان باطنیوں میں جو لیڈر قسم کے افراد تھے وہ طبیب کے یہاں اکٹھے ہوگئے تھے اور وہ اس صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہے تھے انہیں ابھی یہ سوچنا تھا کہ خانہ جنگی کس طرح جاری رکھی جائے اور اس صورتحال میں کس قسم کی تخریب کاری کی جا سکتی ہے
اس حویلی میں کم و بیش بیس آدمی اکٹھے ہوگئے تھے رات گزرتی جارہی تھی اور یہ لوگ اس طرح تبادلہ خیالات اور بحث مباحثہ کر رہے تھے جیسے ان کا سونے کا کوئی ارادہ نہیں طبیب بار بار کہتا تھا کہ خانہ جنگی بند ہوگئی تو وہ شیخ الجبل (حسن بن صباح) کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا
غور اس پر کریں کہ سلطان نے یہ حکم دیا ہی کیوں ہے طبیب کے ایک دست راست نے کہا اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ روزینہ ناکام ہوگئی ہے
میں نے یہی سوچ کر رابعہ کو بلوایا تھا طبیب نے کہا اور اسے روزینہ کے پاس جانے کو کہا تھا لیکن رابعہ ابھی تک واپس نہیں آئی اس کے گھر آدمی بھیجا تو پتہ چلا کہ اس کے بچے بھی گھر میں نہیں ہیں گھر خالی پڑا ہے
پھر وہ پکڑی گئی ہے ایک آدمی نے کہا کہیں ایسا تو نہیں کہ سلطان برکیارق کو بھائیوں نے قتل کردیا ہو خانہ جنگی بند کرنے کا حکم محمد نے ہی دیا ہوگا
اس گروہ کو ابھی پتہ نہیں چلا تھا کہ ہوا کیا ہے وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے اور رات ادھی گزر گئی تھی یہ ایک بڑی حویلی تھی جس کی ساخت ایک قلعے جیسی تھی اس کی چھت ساتھ والے مکانوں کی چھتوں سے ملتی تھی ان آدمیوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ چھت پر کسی کی چلنے کی آہٹ سنائی دے رہی ہے سب خاموش ہو گئے قدموں کی آہٹیں صاف سنائی دے رہی تھیں ان میں سے کچھ آدمی دوڑ کر صحن میں آئے اور اوپر دیکھنے لگے
عبدالرحمان سمیری کی بھیجی ہوئی چھاپہ مار جماعت کسی قریبی مکان میں داخل ہو کر اوپر گئی اور چھتوں کے ذریعے طبیب کی چھت تک پہنچی نیچے سے باطنیوں نے دیکھ لیا اور کوئی زور سے پکارا تیار ہو جاؤ بھائیوں حویلی کے برآمدے میں دو دیے جل رہے تھے ان کی روشنی صحن میں بھی جا رہی تھی
صحن میں جو باطنی نکلے تھے ان میں سے کچھ برآمدے کی طرف دوڑے اور دو دروازے کی طرف گئے اور دروازے کی زنجیر اتارنے لگے منڈیر سے ایک چھاپہ مار نے ان پر برچھی پھینکی جو ایک باطنی کی پیٹھ میں اتر گئی دوسرے نے ایسی دلیری کا مظاہرہ کیا کہ باہر بھاگنے کی بجائے اس نے اپنے ساتھی کی پیٹ میں سے برچھی نکال لی اور چھاپہ ماروں سے مقابلے کے لئے تیار ہوگیا چھاپہ مار دوڑتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف آئے اور بڑی ہی تیزی سے نیچے اترنے لگے
کمرے میں سے تمام باطنی تلواریں اور برچھیاں لے کر نکل آئے چھاپہ ماروں کی تعداد پچیس یا تیس تھی باطنی بیس تھے حویلی کے صحن میں بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا وہ چھاپہ مار دروازے کے قریب کھڑے ہوگئے تھے تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے چھاپہ ماروں کا کماندار بار بار چلا رہا تھا کہ ان میں سے دو تین کو زندہ پکڑو لیکن باطنی زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے انداز سے دلیری سے لڑ رہے تھے
چھاپہ مار تجربہ کار تھے ان کے چند ایک آدمی زخمی ہوچکے تھے اور وہ گر پڑے تھے لیکن زیادہ نقصان باطنیوں کا ہو رہا تھا دیکھا گیا کہ ایک باطنی نے جب دیکھا کہ اس کے ساتھی مارے گئے ہیں اور چھاپہ مار غالب آگئے ہیں تو وہ دوڑ کر ایک طرف ہو گیا دو تین چھاپہ مار اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھے لیکن باطنی نے اپنی تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لی ایک باطنی جو کسی کمرے میں چھپ گیا تھا نکلا اور دروازے کی طرف دوڑا اس وقت کوئی چھاپہ مار دروازے کے قریب نہیں تھا باطنی دروازہ کھول رہا تھا کہ دو چھاپہ ماروں نے اس پر وار کرنے کی بجائے اسے ایسا جکڑا کے وہ لڑنے کے قابل نہ رہا اسے زندہ پکڑ لیا گیا
طبیب بھی مارا گیا اور اس کے گروہ کا کوئی ایک بھی آدمی پاؤں پر کھڑا نہ رہا صرف ایک کو زندہ پکڑا گیا چھاپہ ماروں کا کماندار زخمی باطنیوں کو دیکھ رہا تھا اس کا خیال تھا کہ ان میں کوئی معمولی زخمی ہو گا تو اسے اٹھا کر لے جائیں گے اس نے ایک زخمی کو دیکھا جو پیٹ کے بل پڑا تھا اس نے اپنی تلوار جو اس کے قریب ہی پڑی تھی اٹھائی اور اوپر کرکے اپنے پیٹ میں مار لی پانچ چھاپہ مار مارے جا چکے تھے اور زخمی تقریباً سب ہی ہوئے تھے لیکن وہ چل پھر سکتے تھے چھاپہ ماروں نے اپنے زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا لیا اور زندہ باطنی کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آئے
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری چھاپہ ماروں کی واپسی کے انتظار میں بے تاب ہو رہا تھا آخر چھاپہ مار پہنچ گئے سب کے کپڑے خون سے لال تھے انہوں نے زندہ باطنی وزیراعظم کے حوالے کیا اور اسے بتایا کہ باقی سب مارے گئے ہیں یہ بھی بتایا کہ باطنیوں نے کس بے خوفی سے مقابلہ کیا تھا
اسے اس کمرے میں لے جاؤ وزیراعظم سمیری نے کہا
وہ ایک خاص کمرہ تھا جو محل کے ایک دور کے حصے میں تھا محل کا حسن اور رونق اور کہاں یہ کمرہ کہ اس میں جو داخل ہوتا وہ ناک پر کپڑا رکھ لیتا تھا کیونکہ یہ کمرہ ایسی بدبو سے بھرا رہتا تھا جو ناقابل برداشت تھی یہاں ملزموں اور مشتہبوں سے تفتیش کی جاتی تھی تفتیش کا مطلب پوچھ گچھ نہیں بلکہ ایسی غیرانسانی اذیتیں دی جاتی تھی کہ آدمی مر مر کر جیتا تھا بعض مر جاتے تھے ان کی لاشیں کچھ دن وہیں پڑی رہنے دی جاتی تھی اور وہ دوسرے ملزموں کو دکھا کر کہا جاتا تھا کہ سچ بولو ورنہ تمہاری لاش بھی ان لاشوں کے ساتھ پڑی ہوگی
اس باطنی کو اس کمرے میں لے جایا گیا اور کچھ دیر بعد وزیراعظم سمیری اپنے دو خاص آدمیوں کے ساتھ وہاں گیا باطنی سے کہا کہ وہ اگر سچ بولے گا تو اس کی جان بخشی کردی جائے گی اور انعام بھی دیا جائے گا ورنہ اس کا حشر بہت برا ہوگا
میں شیخ الجبل کو دھوکا نہیں دوں گا اطنی نے کہا میرے جسم کو پاؤں سے کاٹنا شروع کر دو میری زبان سلامت رہنے دو تو بھی میری زبان پر وہ سچ نہیں آئے گا جو تم لوگ سننا چاہتے ہو
اس کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا گیا بہلانے اور ورغلانے کا ہر حربہ آزمایا گیا اور لالچ دیے گئے لیکن وہ شخص مسکراتا رہا اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان تھا وزیراعظم سمیری نے اپنے آدمیوں کو سر سے ہلکا سا اشارہ کیا اور خود باہر نکل آیا ان آدمیوں نے دروازہ بند کر دیا
صبح طلوع ہوئی اور سورج کچھ اوپر اٹھا تو وزیراعظم سمیری اپنے گھر سے نکلا وہ اپنے دفتر میں جانے کی بجائے اسی کمرے میں چلا گیا جس میں باطنی کو رکھا گیا تھا اس نے دیکھا کہ اس باطنی کو اس کے آدمیوں نے الٹا لٹکایا ہوا تھا اور اس کے دونوں ہاتھوں کے ساتھ دس دس سیر وزنی پتھر بندھے ہوئے تھے وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اس نے کچھ بھی نہیں بتایا بلکہ یہ بولتا ہی نہیں وزیراعظم نے انہیں کہا کہ اپنا عمل جاری رکھو اور اگر یہ مر جاتا ہے تو مر جانے دو لیکن کوشش کرو کہ یہ کچھ اگل دے
چار پانچ گھنٹے گزر گئے تو وزیراعظم سمیری ایک بار پھر اس کمرے میں گیا باطنی ابھی تک الٹا لٹکا ہوا تھا سمیری حیران ہو رہا تھا کہ یہ شخص انسان ہے یا پتھر کا مجسمہ ہے اس نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا تھا
کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا وزیراعظم سمیری اور اس کے دونوں آدمیوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا وہ ایک عورت تھی جس کے بال کھلے اور بکھرے ہوئے تھے اس نے غریبانہ سے کپڑے پہن رکھے تھے اور پریشان حال نظر آتی تھی وہ الٹے لٹکے ہوئے باطنی کے ساتھ لپٹ گئی اور رونے اور چیخنے لگی باطنی کو چھوڑ کر وہ وزیراعظم سمیری کے قدموں میں جا گری اور اس کے قدموں میں ماتھا رگڑنے لگی
اللہ تمہیں اس سے بڑا عہدہ دے اس عورت نے روتے ہوئے فریاد کی کہ یہ میرا بھائی ہے ایک ہی ایک بھائی ہے اس پر کوئی شک نہ کرو اسے باطنی نہ سمجھو اس کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اللہ کے نام پر اسے چھوڑ دو ورنہ میرے بچے بھوکے مر جائیں گے
دونوں آدمی اس عورت کو اٹھا کر باہر کو دھکیلنے لگے لیکن وزیراعظم سمیری نے انہیں روک دیا اور اس عورت سے پوچھا کہ وہ اندر کس طرح آ گئی ہے
میں دربانوں کے آگے روئی اور فریادیں کی تھیں عورت نے کہا انہوں نے مجھے روک لیا تھا لیکن ان کے دلوں میں رحم آگیا اور انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ تمہارا بھائی فلاں کمرے میں بند ہے
آرام سے بات کرو وزیراعظم سمیری نے اسے کہا ہم کسی پر بلاوجہ ظلم نہیں کرتے تمہارا یہ بھائی ہم نے اس طبیب کے گھر سے پکڑا ہے جو حسن بن صباح کا بھیجا ہوا خاص آدمی ہے ان لوگوں نے ہمارے چھاپہ ماروں کا مقابلہ کیا تھا اور سب مارے گئے ہیں تمہارا یہ بھائی زندہ پکڑا گیا ہے یہ بتاؤ کہ یہ وہاں کیا کر رہا تھا
میں جانتی ہوں یہ وہاں کیوں گیا تھا عورت نے کہا یہ اس طبیب کے پاس گیا تھا اسے پیٹ کی کوئی بیماری لگی ہوئی ہے طبیب اسے اپنے ساتھ ہی رکھتا تھا اور اس سے اپنے گھر کے اور دوائی خانے کے چھوٹے موٹے کام کرواتا تھا اور اس کی اسے اجرت دیتا تھا
لیکن یہ تو اپنے منہ سے کہتا ہے کہ میں باطنی ہوں وزیراعظم سمیری نے کہا اس نے کہا ہے کہ میں شیخ الجبل کو دھوکا نہیں دوں گا اور سچ نہیں بولوں گا
اس سے پوچھیں کہ یہ جانتا ہے کہ شیخ الجبل کون ہے عورت نے کہا اسے ان شیطانوں نے یہ بتایا ہوگا کہ شیخ الجبل اللہ کا بھیجا ہوا کوئی نبی یا ولی یا امام ہے اس سے پوچھو کہ حسن بن صباح کون ہے تو یہ نفرت سے تھوک دے گا
یہ عورت باربار وزیراعظم کے آگے ہاتھ جوڑتی اور جھک کر اس کے پاؤں پکڑتی اور یہی فریاد کرتی کہ میرے بھائی کو چھوڑ دو یہ بے گناہ ہے اور میرا اور میرے بچوں کا واحد سہارا ہے اس عورت کا تڑپنا رونا اور بے حال ہو ہو جانا کچھ اثر کر گیا وزیراعظم سمیری سوچ میں پڑ گیا آخر اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اسے اتار کر لیٹا دو اور اسے پانی پلاؤ
اب میری ایک بات سنو وزیراعظم سمیری نے اس بدحال عورت سے کہا میں تمہیں اس بھائی کے ساتھ اکیلا چھوڑ دوں گا اگر یہ حسن بن صباح کا چیلا ہے تو بتا دے اگر نہیں تو تم مجھ سے تسلیم کروا لو کہ اس کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں میری تسلی ہوگئی تو میں اسے چھوڑ دوں گا
اس باطنی کو اتارا گیا پانی پلایا گیا اور پھر وزیر اعظم کے کہنے پر اسے کچھ کھلایا گیا اور اس عورت کے ساتھ اسے کمرے میں تنہا چھوڑ دیا گیا وزیراعظم سمیری وہاں سے جاچکا تھا
بےوقوف! اس عورت نے باطنی کے ساتھ لپٹتے ہوئے کہا تم زندہ کس طرح پکڑے گئے تھے بھاگ جاتے مر جاتے
میں تو دروازے سے نکل رہا تھا کہ انہوں نے پکڑ لیا باطنی نے کراہتے ہوئے کہا تم نے تو کمال ہی کر دیا ہے کیا مجھے یہاں سے نکلوا سکو گی؟
میں نے کوئی بھی کام ہاتھ میں لیا ہے تو کرکے ہی چھوڑا ہے عورت نے کہا مجھے امید ہے کہ تمہیں یہاں سے نکال لے جاؤں گی اگر انہوں نے نہ چھوڑا تو مجھے یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ تم یہاں ہو میں تمہیں کسی نہ کسی طرح فرار کرا لونگی مجھے یہ بتاؤ کہ میں کسے اطلاع دوں کہ تم یہاں ہو میں تو اپنے گروہ کو جانتی ہوں لیکن ہر کسی کو نہیں باطنی نے اسے بتانا شروع کردیا
دن کے پچھلے پہر وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سلطان برکیارق کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ خانہ جنگی بند کرانے اور حالات کو معمول پر لانے کا منصوبہ بنا رہے تھے سلطان برکیارق ذہنی طور پر اس قدر ٹھیک ہوگیا تھا کہ وہ اپنے مرحوم باپ سلطان ملک شاہ کی طرح باتیں کرنے لگا تھا اس نے یہاں تک کہا کہ خانہ جنگی رک جائے تو دونوں طرف کے لشکروں کو اکٹھا کرکے میں ایسی طاقتور فوج بناؤں گا جو ایک ہی ہلے میں حسن بن صباح کا صفایا کردے گی
دربان کمرے میں داخل ہوا
سلطان عالی مقام! دربان نے جھک کر کہا ایک عورت آئی ہے ملاقات کی اجازت چاہتی ہے
سلطان برکیارق کے چہرے پر خفگی کے تاثرات آگئے اور اس نے وزیراعظم سمیری کی طرف دیکھا اس وقت سلطان کسی عام آدمی سے ملنے کے موڈ میں نہیں تھا
میں جانتا ہوں وہ کون ہے وزیراعظم سمیری نے کہا اسے آنے دیں سلطان محترم۔
وزیراعظم نے دربان سے کہا کہ اسے اندر بھیج دو
رابعہ کمرے میں داخل ہوئی سلطان برکیارق نے اسے اس حالت میں دیکھا تو کچھ پریشان سا ہو کر بولا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا ہے رابعہ میرے محل میں تم اس حالت کو کس طرح پہنچی ہو ؟
رابعہ ہنس پڑی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑے میلے اور بوسیدہ تھے اور وہ بھیکارن لگتی تھی
یہ میں آپ کو بتاؤں گا سلطان محترم! وزیراعظم سمیری نے کہا پہلے میں اس سے وہ باتیں سن لو جس کے لیے میں نے اسے بلایا تھا
کام کر آئی ہوں رابعہ نے بیٹھتے ہوئے کہا یہ بھی بھلا کوئی کام تھا میں نے اس سے وہ سب کچھ اگلوا لیا ہے جو آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں اس کے جسم کے آپ ٹکڑے کر دیتے وہ نہ بولتا
وہ عورت جو تفتیش والے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور اس باطنی سے لپٹ گئی تھی اور وزیراعظم سمیری کے قدموں میں ماتھا رگڑ رگڑ کر فریادیں کرتی تھی وہ اس باطنی کی بہن نہیں تھی نہ اس کی کچھ لگتی تھی وہ رابعہ تھی رابعہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ تھی پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر سلطان برکیارق کے آگے جھک گئی اور اس نے راز اگل دیئے تھے اور اب عبدالرحمن سمیری نے اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا
اس نے رابعہ کو صبح اپنے پاس بٹھا کر بتایا تھا کہ رات ہم نے طبیب کے گھر چھاپہ مارا ہے اور اسکا صرف ایک آدمی زندہ پکڑا گیا ہے لیکن وہ بولتا نہیں
بولے گا رابعہ نے پراعتماد انداز سے کہا میں وہاں آؤں گی لیکن آپ کا وہاں ہونا لازمی ہے
وزیراعظم سمیری اور رابعہ نے ایک اسکیم بنالی اور رابعہ اٹھ کر چلی گئی جو وقت مقرر کیا گیا تھا اس وقت وزیراعظم اس کمرے میں پہنچ گیا اور رابعہ ایک غریب مفلوق الحال اور پریشان حال عورت کے بہروپ میں اس کمرے میں جا پہنچی اور وہ اداکاری کی جو پہلے سنائی جا چکی ہے وزیراعظم اپنے دونوں آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں سے آگیا اور رابعہ نے اس باطنی کو رام کر لیا یہ باطنی رابعہ کو جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ رابعہ اس قدر عیار اور تجربہ کار ہے کہ جنگل میں نکل جائے تو درندوں کو بھی اپنا مرید بنالیں اس باطنی نے رابعہ کو وہ باتیں بھی بتا دیں جو رابعہ کو بھی معلوم نہیں تھیں یہ باطنیوں کے کچھ اور ٹھکانے تھے اور باطنیوں کی تخریب کاری کی تفصیلات تھیں
یہ کام اور ایک کامیاب اداکاری رابعہ ہی کرسکتی تھی ورنہ یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی غریب سی عورت محل کے احاطے میں داخل بھی ہو سکتی اور پھر وہ اس کمرے تک پہنچ جاتی جہاں کوئی غیر متعلق سرکاری کارندہ بھی نہیں جا سکتا تھا
تم بہت بڑے انعام کی حقدار ہو رابعہ! سلطان برکیارق نے کہا میں تمہارے لئے اس محل میں رہائش کا خصوصی انتظام کروا رہا ہوں تمہارے بچوں کی تعلیم و تربیت ہمارے ذمے ہوگی اب تم جاؤ اپنا حلیہ سہی کرو میں تمہیں پھر بلاؤں گا
رابعہ فاتحانہ چال چلتی وہاں سے چلی گئی وزیراعظم سمیری نے سلطان برکیارق سے کہا کہ اب ہمیں اس باطنی کو زندہ رکھنے کی ضرورت نہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ اسے قید میں ڈالنے کی بجائے ختم ہی کردیا جائے
دربان کو بلایا گیا اور اسے کہا گیا کہ فلاں آدمی کو بلائے وہ آدمی آیا تو سلطان برکیارق نے اسے کہا کہ اس باطنی کو قتل کرکے اس کی لاش کہیں دبا دو لیکن قبرستان میں نہیں
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے سلطان سے ایک ایسا حکم جاری کروایا جس نے تاریخ کا رخ ہی پھیر دیا وزیراعظم نے سلطان کو مشورہ دیا کہ جن باطنیوں کی نشاندہی ہوگئی ہے انہیں پکڑ لیا جائے کسی سے کچھ بھی نہ پوچھا جائے نہ انہیں سزائے قید دی جائے بلکہ قتل کر دیا جائے سلطان برکیارق پہلے ہی شرمشار تھا کہ وہ ایک باطنی لڑکی کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا اور سلطنت کو خانہ جنگی میں جھونک دیا وہ اپنے اندر ایک تلخی محسوس کرتا تھا جو کبھی کم ہوتی اور کبھی اتنی زیادہ کہ اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی اور وہ غصے میں آجاتا تھا اسی کیفیت میں اس نے وزیراعظم کی بات مان لی اور کہا کہ اس کی روحانی تسکین اسی طرح ہوگی کہ اس کے سامنے ان باطنیوں کے سر اڑا دیے جائیں
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری نے مشہور مؤرخ “ابن اثیر” ابن خلدون” اور ابن جوزی” کے حوالوں سے لکھا ہے کہ باطنیوں کے جن ٹھکانوں کی نشاندہی ہوگئی تھی وہاں چھاپے مارے گئے اور یہ چھاپے اس انداز سے مارے گئے کہ زیادہ سے زیادہ باطنی پکڑے گئے جن میں چند ایسے باطنی تھے جو طبیب کی طرح سرداری درجے کے تھے وہ احکام اور ہدایات جاری کرتے تھے اور تخریب کاری کو خوش اسلوبی اور کامیابی سے چلائے رکھنا ان کی ذمہ داری تھی ان تمام سرداروں کو لاکر کچھ بھی نہ کہا گیا صرف یہ کیا گیا کہ تین چار جلاد بلائے گئے جو ان کی گردنیں کاٹتے گئے ان کی لاشیں ایک ہی گھڑے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی جاتی تھی
یہ سلسلہ چار پانچ دن چلتا رہا اور سلطان کو یہ اطلاع ملی کہ خانہ جنگی رک گئی ہے اور تمام سالاروں اور کمانداروں کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے اس اطلاع کے فوراً بعد سپہ سالار ابو جعفر حجازی نائب سپہ سالار اوریزی جو باغی ہوگیا تھا محمد اور سنجر سلطان کے پاس آگئے سلطان یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ابومسلم رازی بھی ان کے ساتھ تھا
سلطان برکیارق دوسروں کے لئے تو نہ اٹھا لیکن ان کے پیچھے ابومسلم رازی کو دیکھا تو وہ اس کے احترام میں اٹھ کھڑا ہوا اور آگے بڑھ کر اور جھک کر اس کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر سب کو بٹھا کر ان کے کھانے پینے کے انتظام کرنے کا حکم دیا
محترم رازی! سلطان برکیارق نے ابومسلم رازی سے کہا آپ کو دیکھ کر مجھے اپنے والد مرحوم یاد آگئے ہیں لیکن آپ یہاں کیسے کیا میری حیرت بے معنی ہے؟
ابومسلم رازی بہت بوڑھا ہو گیا تھا وہ سلطان ملک شاہ مرحوم کا دست راست اور بڑا ہی گہرا دوست تھا ملک شاہ نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ابو مسلم رازی صرف ایک شہر اور اس کے مضافاتی علاقے کا امیر ہے دونوں اسلام کے شیدائی اور حسن بن صباح کے دشمن تھے سلطان برکیارق تو یوں تھا جیسے ابومسلم رازی کے ہاتھوں میں پیدا ہوا ہو
نہیں بیٹے! ابومسلم رازی نے سلطان برکیارق سے کہا تمہاری حیرت بے معنیٰ نہیں تمہیں معلوم نہیں کہ میں اپنے لشکر کے ساتھ تمہارے دارالسلطنت سے تھوڑی ہی دور موجود رہا ہوں میں نے تم سے یہ سلطنت چھینی نہیں تھی بلکہ اس سلطنت کو حسن بن صباح سے محفوظ رکھنا تھا مگر تم ایک باطنی لڑکی کے چنگل میں ایسے آئے کہ تمہیں نیک و بد کی تمیز سے ہی اس نے محروم کردیا اور تم میں سود و زیاں کا احساس ہی نہ رہا اب قاصد نے یہ خبر دی کہ تم نے خانہ جنگی روکنے کا حکم دیا ہے تو یہ لڑکے مان ہی نہیں رہے تھے لیکن میرے عزیز بیٹے میں نے زمانہ دیکھا ہے میں نے انہیں کہا چلو چلتے ہیں شاید بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوجائے
یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے سلطان برکیارق نے کہا اس باطنی لڑکی کو میں نے اپنے ہاتھوں قتل کردیا ہے اور میں سب سے پہلے عظیم ماں کے قدموں میں جا گرا اور اس سے اپنے گناہ بخشوائے پھر میں نے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے آپس میں صلح مشورہ کرکے جو کارروائیاں کی ہیں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں
سلطان برکیارق نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح باطنیوں کے ٹھکانوں کا سراغ لیا گیا ہے اور کس طرح چھاپے مار کر انھیں پکڑا جا رہا ہے اور ان سب کو قتل کیا جارہا ہے ان سب کو پہلے معلوم نہیں تھا کہ دارالسلطنت میں اور سلطان کے محل میں انقلاب آرہا ہے سب حیران بھی ہوئے اور خوش بھی وہ جب یہاں آئے تھے تو ان کے چہروں پر تناؤ تھا اور ان سب کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ سلطان کو شک اور شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں سلطان برکیارق کی باتیں سن کر ان کے چہروں پر رونق آگئی
اب میں چاہتا ہوں سلطان برکیارق نے کہا کہ دونوں طرفوں کے لشکر اکٹھے کرکے ایک لشکر بنا دیا جائے اور پھر اس لشکر کو کچھ دن تربیت دے کر قلعہ الموت پر حملہ کیا جائے چند ایک باطنیوں کو قتل کردینے سے حسن بن صباح کے باطل عقیدے کے طوفان کو ر وکا نہیں جا سکتا مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ اس شیطان نے بڑے ہی وسیع و عریض علاقے کو اپنے زیراثر کرلیا ہے
زیر اثر بھی ایسا کے ہمارا لشکر قلعہ الموت کی طرف پیش قدمی کرے گا تو ان علاقوں کے لوگ ہمارے لشکر کا اگر مقابلہ نہیں کریں گے تو لشکر کے راستے میں رکاوٹ ضرور پیدا کریں گے
ابومسلم رازی کے کہنے پر سلطان برکیارق کی ماں کو وہاں بلا یا گیا ماں آئی تو اپنی تینوں بیٹوں کو اور ان سب کو اکٹھا بیٹھے دیکھ کر رو پڑی اور ہاتھ آسمان کی طرف کر کے ان کے اتحاد اور پیار کی دعائیں مانگنے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج اس کے بیٹے اور بیٹوں کے سالار اور ابو مسلم رازی جیسا عالم اور فاضل یہ سب ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں
اوپر جن مؤرخوں کے حوالے دیے گئے ہیں انہوں نے اور مسیحی مورخوں نے لکھا ہے کہ ابو مسلم رازی عالم اور فاضل تھا دوراندیش اور دانش مند تھا اس نے اس اجتماع میں ایک نئی تجویز رکھی اور زور دیا کہ اس پر فوری طور پر عمل کیا جائے تجویز یہ تھی کہ تینوں بھائی ایک ہی دارالسلطنت میں اکٹھے نہ رہیں کیونکہ انسان بڑی کمزور چیز ہے اور انسان کی سب سے بڑی کمزوری اقتدار پرستی ہے اس سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک حصے کا حکمران سلطان برکیارق ہو اور دوسرے حصے کا محمد اور سنجر لیکن مرکز سلطان برکیارق کے تحت رہے تاکہ سلطنت کی مرکزیت بھی قائم رہے اور اتحاد بھی ابومسلم رازی نے یہ بھی کہا کہ سلطنت کو بانٹا نہ گیا تو امور سلطنت اور دیگر مسائل کا سارا بوجھ صرف ایک سلطان کے سر پر پڑا رہے گا جو اس کے لیے کسی وقت بھی ناقابل برداشت ہو سکتا ہے
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برائے نام وزیراعظم نہیں تھا وہ بھی عمر رسیدہ اور جہاں دیدہ آدمی تھا اس نے ابومسلم رازی کی اس تجویز کی پرزور تائید کی اور کہا کہ یہ تقسیم ابھی ہو جانی چاہیے اسے التوا میں نہ رکھا جائے
سلطان برکیارق کی کی ماں نے بھی اس تجویز کو پسند کیا اور دونوں سالاروں ابوجعفر حجازی اور اوریزی نے بھی کہا کہ یہ قابلِ داد اور قابلِ عمل ہے چنانچہ اسی وقت نقشے سامنے رکھے گئے اور سلطنت کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا لیکن اس پر عمل صرف اس لئے ملتوی کیا گیا کہ سرکاری فوج اور باغی فوج کے دستے شہر میں آجائیں اور اس شہر کو باطنیوں سے صاف کردیا جائے تو پھر اطمینان سے تقسیم پر عمل کیا جائے گا
اس تقسیم پر تینوں بھائی رضامند ہوگئے اور ماں نے بھی اس کی منظوری دے دی
تاریخ کے مطابق جو حصّے محمد اور سنجر کو دیئے گئے ان میں شام عراق موصل آزربائیجان اور ارمنیا قابل ذکر ہیں باقی تمام حصہ برکیارق کو ملا لیکن یہ بھی طے پایا کہ بالادستی اور برتری برکیارق کو حاصل ہوگی
بکھرے ہوئے دستے اکٹھے کیے جارہے تھے اور وہ شہر میں آ رہے تھے سلطان برکیارق نے حکم دے دیا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کردیا جائے اس حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی نے کسی غیر باطنی کو ذاتی رنجش یا دشمنی کی بنا پر قتل کیا اور جواز یہ پیش کیا کہ یہ باطنی تھا اس کے قاتل کو فورا قتل کر دیا جائے گا اور اس کے پسماندگان سے تاوان وصول کرکے مقتول کے پسماندگان کو دیا جائے گا سرکاری طور پر انتظام کیا گیا کہ کوئی مشکوک آدمی شہر میں نظر آئے تو پوری چھان بین کی جائے کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کیا وہ اس شہر کا باشندہ ہے یا نہیں اگر نہیں تو اسے کسی حکم کے بغیر قتل کر دیا جائے
شہر میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو جانتے تھے کہ یہ خانہ جنگی باطنیوں نے زمین دوز تخریب کاری کے ذریعے شروع کرائی ہے وہ یہ جانتے تھے کہ کون باطنی اور کون مسلمان ہیں اور اس شہر کا قدیم باشندہ ہے جب باطنیوں کے قتل کا حکم پہنچا تو انہوں نے باطنیوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیا شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی حکم یہ تھا کہ شہر میں سے کسی ایک کو بھی باہر نہ جانے دیا جائے اور شہر کے اندر صرف ان فوجیوں کو آنے دیا جائے جو شہر سے باہر بکھر کر لڑ رہے تھے اس حکم کا یہ اثر ہوا کہ شہر سے نکلنے کی کوشش کرنے والے باطنی پکڑے گئے اور قتل کردئیے گئے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:38 }
سلطان برکیارق نے باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیدیا اور باطنی ختم ہونے لگے کچھ باطنی تو ایسے تھے کہ جن کے متعلق کوئی شک وشبہ نہیں تھا اور بعض ایسے بھی تھے جن پر شک تھا کہ یہ باطنی ہے شہر کے مسلمانوں نے انہیں بھی قتل کر دیا لیکن سلطان برکیارق اس کے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور ابو مسلم رازی کو اگر یہ یقین تھا کے مرو میں باطنیوں کو قتل کر دینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا تو یہ ان کی بھول تھی اتنا تو وہ جانتے ہی ہونگے کہ باطنیوں کے اس قتل عام کی اطلاع حسن بن صباح تک ضرور ہی پہنچے گی اور وہ جوابی وار ضرور کرے گا انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس ابلیس کا ہر وار زمین دوز ہوتا ہے اور بڑا ہی کاری ہوتا ہے لیکن تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باطنیوں کے متعلق خوش فہمی میں مبتلا تھے انہیں پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ حسن بن صباح کا انتقامی وار کس قدر خطرناک ہوگا اور وہ مسلمانوں کے خون کے دریا بہا دے گا
ابومسلم رازی عبدالرحمن سمیری اور سلطان برکیارق کی ماں نے سلطنت کو بھائیوں میں تقسیم بھی کر دیا لیکن باطنیوں کے قتل عام کا فیصلہ اور سلطنت کی تقسیم کا فیصلہ بڑھتے ہوئے جذبات کے زیراثر کیا گیا تھا حسن بن صباح جس قدر بدترین اور خطرناک دشمن تھا اتنا ہی اس کا فرقہ منظم تھا اس کے تخریبکار فدائی اور جاسوس قلعہ الموت سے جتنی بھی دور ہوتے تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے ہوئے ہوتے تھے مثلاً مرو میں طبیب تھا جو اس علاقے کے فدائین کو ایک بےعیب تنظیم اور بڑے سخت ڈسپلن کے تحت اپنے کنٹرول میں رکھتا تھا اور سوچ سمجھ کر تخریبی کاروائیاں کرواتا تھا خانہ جنگی اسی نے شروع کروائی ہر علاقے میں طبیب جیسے آدمی موجود تھے اور ان سب کا رابطہ قلعہ الموت کے ساتھ جاسوسوں اور قاصدوں کے ذریعے تھا ہر روز ایک قاصد تیز رفتار گھوڑے پر مرو سے قلعہ الموت کو روانہ ہوتا تھا اور وہ جس قدر جلدی ممکن ہو سکتا تھا حسن بن صباح کے پاس پہنچتا اور اسے خبریں دیتا تھا
حسن بن صباح کے جاسوس سلطنت سلجوقیہ کے بڑے شہروں اور قصبوں میں اور دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں اس قدر زیادہ آگئے تھے جیسے ایک پتھر اٹھاؤ تو اس کے نیچے سے ایک باطنی جاسوس یا فدائی برآمد ہوتا تھا اس کے مقابلے میں سلطنت سلجوقی حکمران وزیر اور مشیر لشکر کی زبان میں سوچتے اور ایک دوسرے کو مشورے دیتے تھے حسن بن صباح جیسے دشمن کو فوج اور لشکر سے مارنا آسان نہیں تھا
مرو شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی تاکہ کوئی باطنی شہر سے نکل نہ سکے نہ ہی کوئی باطنی باہر سے آ سکے یہ ناکہ بندی دو تین دنوں میں ختم کردی گئی تھی کیونکہ شہر کے لوگ باہر جاکر اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنا اور شہر میں لانا چاہتے تھے تاکہ ان کے باقاعدہ جنازے پڑھے جائیں اور صحیح طریقے سے تجہیزو تکفین کی جائے ان لوگوں کے لیے شہر کے دروازے کھول دیے گئے تھے
دو دن تو باطنیوں کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا اس کے بعد یہ سلسلہ ذرا تھم گیا اور اکا دکا باطنی قتل ہونے لگے ایسے واقعات بھی تاریخ میں ملتے ہیں کہ کسی نے کسی مسلمان کی طرف اشارہ کرکے کہہ دیا کہ یہ باطنی ہے تو مسلمانوں نے اسے قتل کردیا ہر باطنی کو پہچاننا ممکن نہیں تھا یہ باطنی تھے جو مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو ہی قتل کروا رہے تھے
شہر میں امن بحال ہوتا جا رہا تھا سرکاری فوج اور اس کے خلاف لڑنے والے لشکر کے بکھرے ہوئے دستوں کو شہر میں واپس لایا جا چکا تھا ایک روز سلطان برکیارق نے ان سب کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کیا وہ خود گھوڑے پر سوار تھا اس کے پیچھے گھوڑوں پر عبدالرحمن سمیری ابومسلم رازی محمد اور سنجر اور سپہ سالار ابوجعفر اور سالار اوریزی گھوڑوں پر ایک صف میں کھڑے تھے سلطان برکیارق نے اپنے سامنے اتنے بڑے لشکر کو فوجی ترتیب میں کھڑے دیکھا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھا وہ یقینا اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ یہ لشکر جو اس کے سامنے کھڑا تھا دو مخالف حصوں میں بٹ گیا تھا اور دو چار دن پہلے تک یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے خونی دشمن بن گئے تھے اور اب اللہ کا یہ خاص فضل و کرم تھا کہ دونوں حصے ایک ہوگئے تھے اور ان میں پہلے والا بھائی چارہ پیدا ہو گیا تھا
میرے عزیز ہم وطنو! سلطان برکیارق نے بڑی بلند اور پراعتماد آواز میں لشکر سے مخاطب ہوکر کہا تم اللہ کے سپاہی ہو اور اسلام کا تحفظ تمہارا ایمان ہے مجھے بہت ہی دکھ ہے کہ شیطان ہم پر غالب آگیا تھا ہم میں سے کوئی بھی اس کی چالیں نہ سمجھ سکا اور ہم ایک دوسرے سے ٹکرا گئے بھائیوں نے اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانا شروع کردیا
میں اللہ کے حضور اور تم سب کے آگے شرمسار ہوں کہ یہ خون میری گردن پر ہے اسے میری کوتاہی کہہ لو چشم پوشی کہہ لو کچھ کہہ لو میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ خونریزی میرا گناہ ہے اب میں اس گناہ کا کفارہ دوں گا یہ حسن بن صباح کا پیدا کیا ہوا فتنہ تھا اس کے پیروکار ہماری صفوں میں ہمارے ہمدرد بن کر گھس آئے تھے ہم میں سے کوئی بھی انہیں پہچان نہ سکا
یہود و نصاریٰ اسلام کے ہمیشہ دشمن رہے ہیں اور دشمن ہی رہیں گے لیکن حسن بن صباح اور اس کا فرقہ اسلام کے انتہائی خطرناک دشمن ہے کیونکہ یہ ابلیس جس نے اپنے آپ کو امام اور شیخ الجبل کا نام دے رکھا ہے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اب ہماری آنکھ کھل گئی ہے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کی ذات باری نے ہمیں روشنی دکھائی اور ایسے ذرائع پیدا کیے کہ ہم شیطان کے اثر سے نکل آئے اور صراط مستقیم پر چل پڑے ہیں میں تم سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلطان تو ہوں لیکن تمہیں اپنی رعایا نہیں سمجھتا اللہ کی طرف سے مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہی تم سب کی ذمہ داریاں ہیں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہمارا ایمان ہے
تم نے آپس میں قتل و غارت کی ہے اب ایک دوسرے کے عزیزوں کا خون بخش دو اسلام اتحاد کا سبق دیتا ہے اتحاد میں برکت ہے اور اتحاد ایک ایسی طاقت ہے جسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی دیکھ لو ہم آپس میں الجھ پڑے تو اس کا فائدہ ہمارے دشمن کو پہنچا ہم ایک دشمن کے فریب میں آکر ایک دوسرے کا خون بہانے لگے تو اس دشمن نے ہماری بہت سی زمین پر قبضہ کرلیا اب ہم نے نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے یاد رکھو حسن بن صباح اسلام کا اور تمہاری سلطنت کا سب سے بڑا دشمن ہے ہم نے اس کے مقابلے میں ایک لشکر تیار کرنا ہے
تم میں سے جو شہری سرکاری فوج میں یا دوسرے لشکر میں شامل ہوئے تھے اگر فوج میں رہنا چاہتے ہیں اور باطنیوں کو ختم کرنے میں یقین رکھتے ہیں تو بتا دیں انہیں فوج میں رکھا جائے گا اور جو فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے وہ اپنے گھروں کو چلے جائیں لیکن یہ نہ بھولنا کہ کوئی فوجی ہے یا شہری اسے اسلام کی بقا کی جنگ لڑنی ہے جو صرف فوجیوں کا ہی فرض نہیں اس جنگ کے لیے جو جہاد ہے ہر شہری کو تیار رہنا چاہیے یہ جنگ اللہ کے نام پر لڑی جائے گی اللہ ہر وقت اور ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوگا اب تمہیں اپنے دین اور ایمان کو اور اپنے اس جذبے کو مضبوط رکھنا ہوگا اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو گا
صرف یہ تقریر کر دینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گیا کرنے والے کام ابھی پڑے تھے جن میں ایک یہ تھا کہ سلطنت کے دونوں حصوں کے لیے فوج کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنا تھا لیکن یہ سوچنا بھی ضروری تھا کہ ان حالات میں فوج کو الگ الگ دو حصوں میں تقسیم کیا جائے یا ابھی کچھ انتظار کر لیا جائے اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل تھے
شمونہ اور اس کی ماں میمونہ بہت ہی پریشان تھیں پریشانی یہ تھی کہ جو سرکاری اور باغی دستے لڑنے کے لئے شہر سے باہر چلے گئے تھے وہ سب واپس آگئے تھے لیکن مزمل ابھی واپس نہیں آیا تھا زخمیوں کو بھی اٹھا کر لے آئے تھے اور بہت سے آدمیوں کی لاشیں بھی آ گئی تھیں لیکن مزمل کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں شمونہ اور میمونہ کا خیال تھا کہ وہ واپس آ گیا ہوتا تو سب سے پہلے گھر واپس آتا
شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کے لیے ایک مسئلہ بڑا ہی ٹیڑھا تھا جو یہ تھا کہ وہ کھلے بندوں باہر نہیں نکل سکتی تھیں اس کی وجہ پہلے ہی سنائی جا چکی ہے کہ میمونہ بھی حسن بن صباح کے پاس رہ چکی تھی اور شمونہ تو حسن بن صباح کی منظورنظر اور بڑی ہی قیمتی لڑکی تھی دونوں فرار ہوکر ابومسلم رازی کے پاس پہنچ گئی تھیں ابومسلم رازی نے انہیں الگ ایک مکان دے دیا تھا اور کچھ وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا مزمل آفندی بھی ان کے ساتھ رہتا تھا اور اس نے تجارتی کاروبار شروع کر دیا تھا
شمونہ روزینہ کو سلطان برکیارق کے ہاتھوں قتل کروا کے وآپس اپنی ماں کے پاس آ گئی تھی اور اب وہ مرو میں رہتی تھی مزمل آفندی بھی رے سے مرو آ گیا تھا اب ماں بیٹی دیکھ رہی تھی کہ جنہوں نے واپس آنا تھا وہ سب آگئے ہیں اور فوج کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے تو انہیں بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی ایک روز دونوں سلطان برکیارق ان کے چھوٹے بھائی محمد کے پاس چلی گئیں اور اس سے پوچھا کہ مزمل کے متعلق کیا خبر ہے
تمہیں میں کچھ نہیں بتا سکوں گا محمد نے کہا وہ میرے ساتھ رہا تھا تم تو جانتی ہو کہ باطنیوں کے خلاف کس قدر جوشیلا اور بھڑکا ہوا انسان ہے اس نے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیا تھا جس میں دس یا بارہ اس کے اپنے چنے ہوئے جنگجو اور غیر معمولی طور پر دلیر آدمی تھے اس نے سرکاری فوج کے دستوں پر شب خون اور دن کے وقت چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے وہ سرکاری فوج کے دستوں کے لیے ایک بلائی نگہانی یا آسمان سے گرنے والی بجلی بن گیا تھا اس کے متعلق مجھے جو آخری اطلاع ملی تھی وہ بھی ایک شب خون کی کاروائی تھی میں تمہیں وہ جگہ بتا دیتا ہوں اور راستہ بھی سمجھا دیتا ہوں اگر تم کسی آدمی کو وہاں بھیجو تو شاید وہ محمد خاموش ہوگیا
اس کی خاموشی نے شمونہ کو بنیادوں تک ہلا ڈالا وہ سمجھ گئی کہ محمد یہ کہنا چاہتا ہے کہ شاید تمہیں مزمل کی لاش مل جائے
آپ ہمیں وہ جگہ بتا دیں شمونہ نے کہا میں اور میری ماں خود وہاں جائیں گی
تمہارا جانا ٹھیک نہیں محمد نے کہا اگر اس جنگل بیابان میں تمہیں اور کسی نے پہچان لیا تو پھر ہم تمہیں ڈھونڈتے پھریں گے اپنا انجام سوچ لو
اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ سلطان برکیارق کا دربان آگیا اور اس نے محمد سے کہا کہ اسے سلطان بلاتے ہیں وہ وقت ایسا تھا کہ حکمران بہت ہی مصروف تھے ورنہ محمد ان کے ساتھ ایک دو آدمی بھیج دیتا اس وقت وہ اتنا ہی کر سکتا تھا جو اس نے کیا کہ انہیں وہ جگہ بتائی اور وہاں تک کا راستہ سمجھا دیا اور یہ بھی کہا وہ اگر سالار اوریزی سے ملیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے کوئی اور خبر یا اطلاع مل جائے محمد نے انہیں بتایا کہ مزمل کا رابطہ سالار اوریزی کے ساتھ رہتا تھا
شمونہ اور میمونہ وہاں سے سالار اوریزی کے یہاں چلی گئیں اب سالار اوریزی باغی اور مجرم نہیں تھا اس کی سالاری بحال کردی گئی تھی اتفاق سے وہ شمونہ اور میمونہ کو مل گیا اس سے مزمل کے متعلق پوچھا
مجھے امید نہیں کہ وہ زندہ ہو سالار اوریزی نے کہا مجھے وہ جگہ معلوم ہے جہاں مزمل نے اپنے آٹھ مجاہدوں کے ساتھ سرکاری فوج کے ایک دستے کی خیمہ گاہ پر رات کے وقت شب خون مارا تھا بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا تھا ان آدمیوں میں سے کوئی ایک بھی واپس نہ آیا تھا میں نے اگلے روز وہاں جا کر دیکھنا تھا کہ مزمل اور اس کے ساتھیوں کا کیا بنا لیکن سلطان کا بلاوا آگیا کہ لڑائی بند کر دی جائے اور جو کوئی جہاں بھی ہے وہاں سے واپس شہر میں آجائے میرے لیے یہ حکم تھا کہ میں اپنے دستوں کو فوراً اکٹھا کرکے اسکے حکم کی تعمیل کروں یہ ایسی وجہ تھی کہ میں مجبور ہوگیا اور مزمل اور اس کے جانباز جماعت کو دیکھنے جا ہی نہ سکا اگر مزمل زندہ ہوتا تو خود میرے پاس پہنچ جاتا
سالار اوریزی نے ماں بیٹی کو وہ جگہ بتائی یہی جگہ محمد نے بھی بتائی تھی
شمونہ کی جذباتی کیفیت بگڑنے لگی اور اس نے رونا شروع کردیا لیکن وہ مزمل کی لاش دیکھے بغیر تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی کہ مزمل مارا جا چکا ہے
بیٹی! میمونہ نے کہا اس تلخ حقیقت کو قبول کر لو کہ مزمل اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے اگر تم اکیلی یا ہم دونوں گئی تو پہچانی جاسکتی ہیں سوچ لو کیا ہوگا
جو کچھ بھی ہو گا ہوجائے شمونہ نے پرعزم آواز میں کہا اگر مزمل مرچکا ہے تو میں اس کی لاش لاؤ گی اور اسے باقاعدہ دفن کرو گی اور اگر ماں تم ڈرتی ہو تو نہ جاؤ میں اکیلی چلی جاؤں گی
ماں نے شمونہ کو بہت سمجھایا اور اسے نتائج سے ڈرایا لیکن شمونہ کے دل میں مزمل کی جو محبت تھی اس محبت نے شمونہ پر دیوانگی طاری کر دی تھی اس کے لئے مزمل صرف اس لئے اہم نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے کو عشق کی حد تک چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ مزمل ایک جنگجو مجاہد تھا جس نے اپنے خاندان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے چلا گیا تھا
اس رات شمونہ نے اپنی ماں کو سونے نہ دیا اور نہ خود سوئی رات بھر تڑپتی رہی اور ماں کے ساتھ مزمل کی ہی باتیں کرتی رہی ماں نے سوچا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شمونہ کے ساتھ نہ جائے تو شمونہ اکیلی ہی اسے بتائے بغیر چلی جائے اس نے شمونی سے کہا صبح ہوتے ہی اس جگہ روانہ ہوجائیں گے
اگلی صبح سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ شمونہ اپنی ماں کے ساتھ گھر سے نکلی دونوں گھوڑوں پر سوار تھے وہ گھوڑوں کا اور اونٹوں کی سواری کا زمانہ تھا حسن بن صباح کے ہاں جو لڑکیاں تخریب کاری کے لئے تیار کی جاتی تھیں انہیں شہسوار بنا دیا جاتا تھا اور انھیں خنجر تیراندازی کی خاص طور پر ٹرینیگ دی جاتی تھی اور مشق بھی کرائی جاتی تھی اپنے شکار کو زہر کھلانے یا پیلانے کے طریقے بھی بتائے جاتے تھے لڑکیوں کا دل اور حوصلہ مضبوط کرنے کے لیے ہر لڑکی سے چار چار پانچ پانچ زندہ آدمی خنجروں یا تلواروں سے مروائے جاتے تھے یہ بد قسمت آدمی جنہیں لڑکیوں کو ٹریننگ دینے کے لئے مروایا جاتا تھا وہ قید خانے میں بند قیدی ہوتے تھے یا کسی بھی آدمی کو پکڑ کر ایک لڑکی کے حوالے کردیا جاتا اور اسے کہا جاتا کہ خنجر اس کے دل کے مقام پر مارو دل میں اترا ہوا خنجر شکار کو زندہ نہیں رہنے دیتا اور دوسرے وار کی ضرورت نہیں پڑتی ایسے ہی لڑکی کے ہاتھ میں تلوار دے کر ایک آدمی کو اس کے سامنے جھکا دیا جاتا کہ لڑکی ایک ہی وار میں اس کی گردن صاف کاٹ دے
شمونہ نے بھی یہ ٹریننگ حاصل کی تھی اس کی ماں میمونہ بھی خنجر زنی اور تیغ زنی کی سوجھ بوجھ رکھتی تھی
ان دونوں کے جسم سر سے ٹخنوں تک سیاہ لبادے میں ڈھکے ہوئے تھے اور دونوں کے چہروں پر اس طرح نقاب تھے کہ صرف آنکھیں نظر آتی تھیں انہیں جس جگہ جانا تھا وہ شہر سے کم و بیش دس میل دور تھی وہ علاقہ بڑا خوبصورت سبزہ زار تھا درخت بے شمار تھے اور خودرو پودے اور جھاڑیاں بھی تھیں ہرے بھرے فصل بھی کھڑے تھے کچھ علاقہ ہموار اور میدانی تھا جس میں پگڈنڈی گزرتی تھی آگے علاقہ چٹانیں شروع ہو جاتا تھا جس میں ہری بھری اور اونچی نیچی ٹیکریاں بھی تھیں اور ننگی چٹانیں بھی شفاف پانی کی ایک چھوٹی سی ندی بھی اس علاقے میں سے گزرتی تھی اس علاقے میں تو بیل بوٹوں کی مہک ہوا کرتی تھی لیکن اب وہاں بدبو اور تعفن تھا اس فضا میں جس میں یہ روح افزا مہک ہوتی تھی اب مردارخور گدھ منڈلا رہے تھے یہ گدھ نیچے اترتے اور اڑ جاتے تھے گدھ چند ایک نہیں تھے بلکہ فضا میں جدھر بھی نظر جاتی گدھ ہی اڑتے نظر آتے تھے درختوں پر بھی گدھ بیٹھے ہوئے تھے یہ گدھ ان انسانوں کا گوشت نوچ رہے تھے جو خانہ جنگی میں مارے گئے تھے
شمونہ اور میمونہ اس علاقے میں داخل ہو گئے تھے جو کچھ پہلے تک خونریز لڑائی کا میدان جنگ بنا رہا تھا چلتے چلتے شمونہ کی ہلکی سی چیخ نکل گئی اسے ایک بھیڑیا نظر آیا جس کے منہ میں کسی آدمی کا بازو تھا وہ ایک طرف سے آیا اور بڑی تیزی سے شمونہ اور میمونہ کا راستہ کاٹتا ہوا آگے نکل گیا وہ آدھے سے کچھ زیادہ سفر طے کر چکی تھیں جب وہ چٹانی علاقے میں داخل ہوگئی تو انہیں جگہ جگہ انسانی پنجر نظر آنے لگے کھوپڑیاں ادھر ادھر پڑی نظر آتی تھیں بعض کھوپڑیوں پر تھوڑا سا گوشت تھا اور بعض کو درندوں نے بالکل ننگا کردیا تھا کچھ کھوپڑیاں ایسی بھی تھیں جن کی آنکھیں سلامت تھیں اور کھلی ہوئی بھی تھیں لاشوں کو گیدڑ بھیڑیے اودھ بلا اور گدھ کھا رہے تھے کھانے کے لیے اتنی زیادہ لاشیں تھیں کہ یہ درندے جن میں آوارہ کتے تھے آپس میں ذرا سا بھی لڑ نہیں رہے تھے
ان ہڈیوں میں تھوڑی دور کچھ آدمی ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے اور وہ ہڈیوں کے ہر ڈھانچے کو جھک کر دیکھتے اور کھوپڑیوں کو تو وہ خاص طور پر بیٹھ کر اور پہچاننے کی کوشش کرتے تھے وہ اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے لیکن اب کسی کو پہچاننا ممکن نہیں رہا تھا
ماں بیٹی دو چٹانوں کے درمیان سے نکلیں تو آگے پھر علاقہ کھلا اور ہموار آگیا وہ تو کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا دیس معلوم ہوتا تھا جونہی گھوڑے آگے نکلے دونوں گھوڑے یکلخت رک گئے اور کانپنے لگے گھوڑوں کی یہ بے چینی صاف نظر آرہی تھی دونوں گھوڑے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے شمونہ اور میمونہ نے دیکھا کہ ایک دھاری دار شیر جو بہت بڑا بھی نہیں تھا اور بچہ بھی نہیں تھا منہ میں انسانی جسم کا کچھ حصہ پکڑے آرہا تھا اس انسانی جسم کے حصے کی کھوپڑی تھی اور ایک طرف کا کندھا اور آدھا بازو تھا شیر اسے منہ میں لئے آہستہ آہستہ چلتا آیا اور گھوڑوں سے تھوڑی ہی دور ایک طرف کو مڑا اور جھاڑیوں میں اور پھر ایک ٹیکری کے پیچھے غائب ہوگیا اس شیر کو گھوڑوں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اور ڈر کر کانپنے لگے تھے
نہیں نہیں شمونہ نے تڑپ کر کہا مزمل زندہ ہوگا اس کے جسم کو کوئی درندہ کاٹ نہیں سکتا
شمونہ بچوں کی طرح رو پڑی اور اس کی ہچکی بندھ گئی
شمونہ بیٹی! میمونہ نے شمونہ سے کہا میری مانو اور یہیں سے واپس چلی چلو مزمل اگر تمہیں مل بھی گیا تو اسی حالت میں ملے گا جو حال تم ان انسانوں کی دیکھ رہی ہو جو یہاں لڑے تھے مزمل کی کھوپڑی دیکھ کر اگر تم نے پہچان لی تو تم اپنا دماغی توازن کھو بیٹھوں گی
نہیں! شمونہ نے دبی دبی لیکن پرعزم آواز میں کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ مزمل مجھے زندہ مل جائے گا میں اسے دیکھے بغیر واپس نہیں جاؤں گی اگر اس کی کھوپڑی ہی نظر آگئی تو یہ تسکین تو ہو جائے گی کہ وہ مارا جا چکا ہے اور اب اس سے ملاقات اگلے جہان میں ہوگی
شیر کے غائب ہوجانے کے بعد گھوڑے آگے چل پڑے
ایک ہری بھری ٹیکری سے گھوم کر شمونہ اور میمونہ آگے نکلیں تو انہیں ایک بڑے ہی شفاف پانی کی ندی نظر آئی محمد اور سالار اوریزی نے انہیں بتایا تھا کہ راستے میں ایک ندی آئے گی جس میں سے گزر کر آگے جانا ہے اور ذرا ہی آگے ایک قبرستان ہوگا وہ ندی میں سے گھوڑے نکال کر لے گئیں آگے قبرستان بھی آگیا قبرستان کے قریب ہی ایک گاؤں تھا جو اتنا زیادہ آباد نہیں لگتا تھا ماں بیٹی کو اس قبرستان میں سے گزرنا تھا وہ قبرستان میں داخل ہوگئیں انہیں بہت سی تازہ قبریں نظر آئیں جن کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی
اس قبرستان میں ایک قبر کے قریب ایک ضعیف العمر سفید ریش آدمی کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں لمبی لاٹھی تھی اور وہ اس لاٹھی کے سہارے کچھ جھکا ہوا تھا شمونہ اور میمونہ اس کے قریب جا کر رک گئیں
کیا یہ آپ کے کسی عزیز کی قبر ہے؟
شمونہ نے اس سفید ریش بزرگ سے پوچھا
صرف یہی نہیں بزرگ نے پاؤں پر کھڑے کھڑے ہاتھ پھیلائے اور گھوم کر ساری قبرستان کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ سب میرے عزیز ہیں صرف عزیز ہی نہیں میری تو پوری قوم مر گئی ہے یہ سب نئی قبریں جو تم دیکھ رہی ہو میرے ہی عزیزوں کی ہیں اور تم نے راستے میں دیکھا ہوگا کہ جن لاشوں کو بھیڑیے گیدڑ کتے اور گدھ کھا رہے ہیں وہ بھی میرے عزیز ہیں جس قوم میں پھوٹ اس طرح پڑ جائے کہ وہ قوم اپنا ہی خون بہانے پر اتر آئے اس کی لاش کو کتے اور درندے ہی کھایا کرتے ہیں جن دلوں کے دروازے بند کردیے جائیں تو لوگ کہتے ہیں کہ اب دشمن اندر نہیں آسکتا لیکن دلوں کے دروازے اس طرح کھول دیئے جائیں کہ کفار کا طلسم اس میں داخل ہوتا رہے اور کافر حسینائیں بھی اس میں داخل ہوتی رہیں حکمرانی اور زروجواہرات کی ہوس دل کے دروازوں کو کبھی بند نہ ہونے دے تو قلعے اور اونچی اور چوڑی دیواروں اور لوہے جیسے مضبوط اور بند دروازوں کے باوجود ریت کے گھروندے بن جایا کرتے ہیں عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں پھر اپنا سگا بھائی بھی دشمن نظر آنے لگتا ہے ہماری قوم سے اور ہمارے سلطان سے یہی گناہ سرزد ہوا اور دیکھو اس کی سزا کیسے مل رہی ہے ماؤں کے سجیلے بیٹوں کو کتے اور گدھ نوچ رہے ہیں اور ان کی کھوپڑیاں ہر طرف بکھر گئی ہیں یہ تو خوش قسمت تھے جن کی سالم لاشیں ان کے عزیز اٹھالے لائے اور ان کے جنازے پڑھ کر انہیں دفن کیا گیا انہیں دیکھو جن کے نصیب میں نہ کفن تھا نہ جنازہ نہ قبرمیں دفن ہوئے تم کہاں سےآئی ہو اور کدھر جا رہی ہو؟
یہ میری بیٹی ہے میمونہ نے شمونہ کی طرف اشارہ کرکے کہا ہم اپنے ایک عزیز کی لاش کی تلاش میں نکلی ہیں میں اسے بار بار کہہ رہی ہوں کہ واپس چلی چلو میں جانتی ہوں کہ اس کی لاش مل بھی گئی تو برے حال میں ہوگی لیکن یہ نہیں مانتی
اسے ڈھونڈ لینے دو سفید ریش بزرگ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا ورنہ یہ خلش اسے ساری عمر تڑپاتی رہے گی میرے دو جوان بیٹے اس لڑائی میں ضائع ہوگئے ہیں ان کے ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ وہ مارے گئے تھے لیکن ان کی لاشیں نہیں ملیں میں یہاں قبرستان میں آکر فاتحہ پڑھتا ہوں اور اپنے آپ کو یہ یقین دلا رکھا ہے کہ اب ان سب تازہ قبروں میں جو دفن ہے وہ میرے ہی بیٹے ہیں
ماں بیٹی بوجھل دل سے وہاں سے چل پڑیں اور تازہ قبروں کو دیکھتی ہوئی قبرستان سے نکل گئیں آگے علاقہ پھر غیرہموار سا آگیا لیکن تھا وہ بھی بڑا دلکش اور خوبصورت علاقہ ننگی بے آب و گیاہ چٹانیں بھی تھیں اور درختوں اور گھاس سے لدی ہوئی ٹیکریاں بھی وہ چلتی چلی گئیں اور کچھ دور گئیں تو انہیں ایک چٹان کے دامن میں چشمہ نظر آیا سات آٹھ گز کی گولائی میں پانی جمع تھا اور چشمہ چٹان میں سے نکل رہا تھا پانی اتنا شفاف کے تہہ تک چھوٹی چھوٹی کنکریاں اور ذرا ذرا جتنی مچھلیاں بھی نظر آرہی تھیں
شمونہ نے ماں سے کہا کہ وہ پانی پینا چاہتی ہے ماں بیٹی گھوڑے سے اتریں دونوں نے نقاب ہٹا دیے کیونکہ انہوں نے ہاتھوں سے پانی پینا تھا دونوں چشمے کے کنارے بیٹھ گئیں اور چلّو سے پانی پینے لگیں
شمونہ نے ہاتھ پانی میں ڈبو لیے اور چلو سے پانی پینے لگی تو اسے دائیں طرف گھوڑوں کے قدموں کی آہٹ سنائی دی اس نے اور میمونہ نے دائیں طرف دیکھا دو گھوڑے روکے کھڑے تھے اور ان پر دو آدمی سوار تھے ایک ادھیڑ عمر تھا اور دوسرا اس سے کم عمر شمونہ کے چہرے سے نقاب ہٹا ہوا تھا
ادھیڑ عمر گھوڑسوار کو دیکھ کر شمونہ کے ہاتھ روک گئے اور اس کے ہاتھوں سے پانی نکل گیا شمونہ کے چہرے پر گھبراہٹ کا تاثر آگیا گھوڑسوار کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی وہ گھوڑے سے اتر آیا اس کا ساتھی بھی گھوڑے سے اترا شمونہ نے اپنی ماں سے کہا کہ اٹھو چلیں
کیوں کیا ہوا؟
ماں نے شمونہ کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار دیکھ کر سرگوشی میں پوچھا
اس شخص نے مجھے پہچان لیا ہے شمونہ نے اپنے گھوڑے کی طرف جاتے ہوئے دھیمی آواز میں جواب دیا جلدی آ جاؤ ماں یہ اس ابلیس حسن بن صباح کا خاص آدمی ہے
شمونہ اور میمونہ نے اپنے گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا اس لیے وہ چند قدم دور چلے گئے اور گھاس کھا رہے تھے گھوڑے قریب ہوتے تو وہ دونوں فوراً ان پر سوار ہو جاتیں اور ایڑ لگا دیتیں لیکن شمونہ ابھی اپنے گھوڑے تک نہیں پہنچی تھی کہ وہ ادھیڑ عمر شخص اس تک پہنچ گیا اور اس کے راستے میں آن کھڑا ہوا اب اس کی مسکراہٹ اور زیادہ پھیل گئی تھی
بچھڑے ہوئے راہی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر مل جایا کرتے ہیں اس آدمی نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا امام حسن بن صباح کا کوئی ہیرا گم ہو جائے تو کچھ عرصے بعد ہیرا خود ہی امام کے پاس پہنچ جاتا ہے
کون ہو تم ؟
شمونہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر ذرا غصیلی آواز میں کہا تم ڈاکو یا رھزن معلوم ہوتے ہو اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ ہم عورتیں ہیں اور تم ہم پر قابو پا لو گے
کیا تم بھول گئی ہوں میں کون ہوں اس شخص نے کہا امام آج بھی تمہارے لئے چشم براہ ہے آؤ چلیں
مجھے سوچ سمجھ کر ہاتھ لگانا شمونہ نے کہا بہت برے انجام تک پہنچو گے
کیا چاہتے ہو تم ؟
میمونہ نے اس آدمی کے آگے ہو کر پوچھا میری بیٹی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو
شمونہ! اس شخص نے میمونہ کو نظر انداز کرتے ہوئے شمونہ سے کہا میں اتفاق سے ادھر آ نکلا تھا یہاں امام کا گمشدہ ہیرا نظر آگیا میں اس ہیرے کو کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں تمہیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا
وہ شخص میمونہ کو ہاتھ سے ایک طرف کرکے شمونہ کی طرف بڑھا شمونہ کے لئے پیچھے ہٹنے کو جگہ نہیں تھی کیونکہ پیچھے چشمے کا پانی تھا اور وہ بالکل کنارے پر کھڑی تھی اس شخص نے شمونہ کے قریب جا کر اس کے نقاب پر ہاتھ رکھا وہ اس کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہتا تھا شمونہ نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالا وہ شخص سمجھ نہ سکا کے شمونہ کیا کر رہی ہے شمونہ نے اسی تیزی سے ہاتھ باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں لمبا خنجر تھا وہ گھر سے اپنے نیفے میں اڑس کر لائی تھی اس نے بجلی کی ثرعت سے خنجر اس آدمی کے دل میں اتار دیا خنجر کھینچا اور ایک بار پھر خنجر اسی مقام پر مارا
وہ آدمی سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پیچھے ہٹا اب وہ لڑکھڑا رہا تھا شمونہ جانتی تھی کہ یہ شخص اب چند لمحوں کا مہمان ہے اس شخص نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھا اور تلوار نیام میں سے کھینچی لیکن تلوار ابھی آدھی باہر آئی تھی کہ وہ لڑکھڑایا اور ایک پہلو پر گر پڑا
اس دوران اس کا ساتھی جو اس کی نسبت جوان تھا بڑا تیز دوڑتا ادھر آیا میمونہ بھی تیزی سے دوڑی اور سامنے سے اس آدمی کو اپنے ایک کندھے کی ٹکر اتنی زور سے ماری کہ وہ آدمی سنبھلتے سنبھلتے چشمے میں جاگرا وہ تھا ہی چشمے کے کنارے پر
میمونہ کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا چشمہ اتنا گہرا نہیں تھا کہ وہ آدمی ڈوب جاتا وہ پانی میں گرا اور ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ شمونہ نے جھپٹ کر اس پر جست لگائی اور خنجر اس کی پیٹھ میں اتار دیا وہ چشمے میں گری اور اٹھ کھڑی ہوئی اس آدمی کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی تھی شمونہ اٹھ کر سمبھلی اور ایک بار پھر خنجر اس آدمی کے پہلو میں اتار دیا وہ پانی میں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا پانی بمشکل کمر تک گہرا تھا
وہ چل نہیں سکتا تھا وہ پانی میں ہی گر پڑا اور پھر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا شمونہ نے آگے بڑھ کر اسے اوپر سے دبایا اور اسے ڈبو دیا وہ ذرا سا تڑپا اور ختم ہوگیا
شمونہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر چشمے میں سے نکلی دوسرا آدمی باہر مرا پڑا تھا چشمے کا پانی خون سے لال ہونے لگا یہاں سے پانی ایک نالی کی صورت میں باہر کو بہتا تھا اور آگے جا کر ندی میں مل جاتا تھا
چلو ماں! شمونہ نے کہا کتوں اور گدھوں کو اب تازہ گوشت مل جائے گا
شمونہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئی اس کی ماں نے باہر پڑے آدمی کی لاش سے تلوار کھول لی پھر وہ چشمے میں اتری تو اس آدمی کی تلوار بھی اٹھا لی نیام اس کے کمر سے بندھی ہوئی تھی جو اس نے کھول لی میمونہ نے دونوں کے گھوڑے بھی پکڑ لئے ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ چمڑے کا تھیلا بندھا ہوا تھا میمونہ نے وہ تھیلا کھولا تو اس میں کچھ درہم پڑے ہوئے تھے اور باقی سب سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے تھیلا انہی سے بھرا ہوا تھا ماں نے یہ تھیلا کھول کر شمونہ کو دکھایا
یہ لوگوں کو خریدنے کے لیے ساتھ لایا تھا شمونہ نے کہا اگر یہ شخص شہر میں زندہ پہنچ جاتا تو کوئی نیا ہی طوفان کھڑا کر دیتا اب میرا حوصلہ پوری طرح مضبوط ہوگیا ہے میمونہ نے کہا مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ورنہ ایک لڑکی اتنے تنومند آدمی کو یوں آسانی سے قتل نہ کرتی اور جس طرح اس کا ساتھی تمہارے ہاتھوں مارا گیا ہے یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور اللہ نے ہمارا ہاتھ پکڑ رکھا ہے
انہوں نے ان دونوں آدمیوں کے گھوڑوں کی باگیں اپنے گھوڑوں کے پیچھے باندھ لیں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل پڑیں
اب سنو ماں مزے کی ایک بات سناتی ہوں شمونہ نے کہا میں جب حسن بن صباح کے پاس تھی تو اس شخص نے مجھے خنجر زنی اور تیغ زنی اور گھوڑسواری سکھائی تھی، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ دل کہاں ہوتا ہے اور اس میں خنجر کس طرح مارا جاتا ہے یہ شخص میری سکھلائی اس طرح کرتا تھا کہ عام خنجر جتنا لمبا لکڑی کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ میں دے کر سامنے کھڑا ہو جاتا اور کہتا کہ میرے دل کے مقام پر مارو میں اسکی سکھلائی کے مطابق لکڑی کا یہ ٹکڑا اس کے دل کے مقام پر آہستہ سے مارتی تھی پھر یہ مجھے سکھلاتا تھا کہ خنجر کس طرح تیزی سے نکالا جاتا ہے اور دشمن کسی بھی زاویے پر کھڑا ہو اسے کس طرح مارا جاتا ہے میں نے آج اسی کا سکھلایا ہوا داؤ اسی پر استعمال کیا ہے مرتے وقت اسے یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ میں اسکے سکھلائے ہوئے طریقے بھولی نہیں اس نے مجھے یہ بھی مشق کرائی تھی کہ پیٹھ کی طرف سے دل میں خنجر کس طرح اتارا جاتا ہے میں نے چشمے میں اس کے ساتھی کی پیٹھ میں جو خنجر مارا تھا وہ یقینا اس کے دل میں اتر گیا تھا ورنہ وہ اتنی جلدی نہ گرتا
میں تو اللہ کا ہی شکر ادا کرتی ہوں بیٹی! میمونہ نے کہا اللہ کی مدد کے بغیر کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا
کچھ عرصہ یہ میرا محافظ بھی بنا رہا ہے شمونہ نے کہا حسن بن صباح نے جب مجھے پہلے شکار پر بھیجا تھا تو یہ شخص میرا محافظ بن کر میرے ساتھ آیا تھا میں نے پہلا شکار بڑی کامیابی سے پھانس لیا تھا اور جب اس شخص کو یقین ہوگیا کہ میں اپنے کام میں ماہر ہو گئی ہوں اور قابل اعتماد بھی ہوں تو یہ چلا گیا تھا میں نے اسے صرف اس لئے قتل نہیں کیا کہ یہ مجھے اپنے ساتھ پھر حسن بن صباح کے پاس جانے کی کوشش کر رہا تھا بلکہ اسے دیکھ کر میرے دل میں نفرت کا طوفان اٹھ آیا تھا یہ جب میرے ساتھ میرا محافظ بن کر آیا تھا تو اس نے مجھے اپنی چھوٹی بہن تو نہیں سمجھا تھا یہ شیطان میری عصمت کے ساتھ کھیلتا رہا تھا حالانکہ حسن بن صباح کا حکم یہ تھا کہ مجھ جیسی لڑکیوں کے ساتھ ہوس کاری کا کھیل نہ کھیلا جائے تاکہ یہ خاصی عمر تک تندرست اور فرتیلی رہیں اس وقت تو میں نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا تھا نہ اسے گناہ سمجھا تھا کیونکہ حسن بن صباح کے یہاں عصمت اور آبرو نام کی کوئی چیز نہیں یہ احساس کہ میں آبرو باختہ ہوں اس وقت میرے اندر یہ احساس پیدا ہوا تھا جب میں یہاں آگئی اور مجھے تم ملی اور پھر میرے دل میں مزمل کی محبت پیدا ہوئی آج اس شخص کو دیکھا تو میرے وجود میں آگ لگ گئی اور میں نے عہد کر لیا کہ اپنی عصمت کا انتقام لوں گی وہ میں نے لے لیا ہے اور اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری روح ہلکی پھلکی ہوگئی ہے میری پیاری ماں دعا کرو ہمیں مزمل مل جائے
ایک بات سن لو بیٹی! میمونہ نے کہا دل سے یہ یقین نکال دو کہ مزمل تمہیں زندہ مل جائے گا ورنہ تمہیں بہت زیادہ صدمہ ہوگا اس کی بجائے دل میں یہ رکھو کہ مزمل زندہ نہیں ملے گا میں تو کہتی ہوں کہ ہمیں یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ مزمل زندہ نہیں اگر وہ زندہ مل گیا تو تم دیکھنا تمہیں کتنی خوشی حاصل ہوگی
محمد اور سالار اوریزی نے انہیں جو راستہ بتایا تھا اس کی ایک نمایاں نشانی یہ چشمہ تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اس چشمے سے پانی بہہ کر ایک نالی کی صورت میں آگے جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ چلی جانا اور تھوڑی دور آگے وہ جگہ ہے جہاں مزمل نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرکاری فوج کے ایک دستے کے پڑاؤ پر شب خون مارا تھا وہ چشمہ آ گیا اور اب ماں بیٹی اس کے ساتھ ساتھ جا رہی تھیں
وہ بے آب و گیاہ چٹانوں اور ہری بھری ٹھیکریوں کا علاقہ تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پانی کی یہ نالی مڑتی تھی ماں بیٹی اس کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں مڑتے آگے بڑھتے گئے ایک اور موڑ مڑے تو دیکھا یہ پانی خاصی دور تک بہتا تھا
وہ جگہ تو یہی ہے میمونہ نے کہا وہ دیکھو لمبوتری چٹان کھڑی ہے لیکن شمونہ بیٹی تم کو تو عقل نہیں ذرا سوچو مزمل کوئی بے جان چیز تو نہیں کہ کسی نے ہمیں بتایا ہوکے ایک لمبوتری چٹان آئے گی اور وہ چیز جس کا نام مزمل ہے وہاں پڑی ہوئی مل جائے گی بتانے والوں نے تو ہمیں وہ علاقہ بتایا ہے جہاں مزمل نے شب خون مارا تھا ضروری نہیں کہ وہ اس رات سے اب تک یہیں ہو کسی اور طرف نکل گیا ہوگا
میرے دل کی آواز سنو ماں! شمونہ نے ایسے لہجے میں کہا جو اس کا قدرتی لہجہ نہیں تھا میرے دل کی میرے روح کی آواز سنو اسے میرا وہم ہی سمجھ لو لیکن کوئی جذبہ یا کوئی غیبی طاقت مجھے کہہ رہی ہے کہ چلی چلو تمہیں مزمل مل جائے گا
میمونہ نے شمونہ کا یہ لب و لہجہ دیکھا تو اس کے آنسو نکل آئے صاف پتا چلتا تھا کہ شمونہ کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا میمونہ کچھ دیر شمونہ کو دیکھتی رہی شمونہ کا گھوڑا پانی کی نالی سے بائیں طرف اور میمونہ کا گھوڑا دائیں طرف پہلو بہ پہلو چل رہے تھے شمونہ سامنے دیکھ رہی تھی اور میمونہ کی نظریں شمونہ کے چہرے پر لگی ہوئی تھی میمونہ کو بہت دکھ ہو رہا تھا کہ اس کی بیٹی کی جذباتی کیفیت اس کے قابو سے باہر ہو رہی تھی
وہ دیکھو ماں! شمونہ نے چونک کر سامنے اشارہ کیا اور بےتابی سے کہا وہ دیکھو کوئی آدمی ہے
میمونہ نے سامنے دیکھا اسے کوئی آدمی نظر نہ آیا وہاں درخت زیادہ تھے جھاڑیاں بھی تھیں اور گھاس ذرا اونچی تھیں میمونہ کو کوئی آدمی نظر نہ آیا تو اسے بہت ہی دکھ ہوا کہ اس کی بیٹی کو اب اسی طرح کے واہمیں نظر آنے لگے ہیں جیسے ریگستان میں جاتے ہوئے مسافر کو سراب نظر آنے لگتے ہیں اب تو میمونہ کو یقین ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کا دماغ ماؤف ہو گیا ہے
ہوش میں آ شمونہ! میمونہ نے دکھے ہوئے لہجے میں کہا مجھے تو کوئی آدمی نظر نہیں آرہا
وہ چلتے چلتے بیٹھ گیا ہے شمونہ نے کہا وہ دیکھو
اب میمونہ نے ادھر دیکھا تو اسے ایک آدمی نظر آیا جو ایک درخت کے تنے پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا وہ اس سے تیس پینتیس قدم دور ہوگا اس کے کپڑے سرخ رنگ کے تھے وہ اٹھ کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی
صاف پتا چلتا تھا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا اس نے تنے کو دونوں بازو سے پکڑ رکھا تھا چند لمحوں بعد اس نے تنے کو چھوڑا اور آگے کو قدم اٹھایا وہ بمشکل دو یا تین قدم چلا ہوگا کہ اس کے گھٹنے زمین پر جا لگے اور پھر اس نے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک دیے پانی کی نالی اس سے پانچ چھ قدم دور تھی اب اس آدمی نے اٹھنے کی بجائے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل پانی کی طرف چلنا شروع کر دیا میمونہ اور شمونہ نے اپنے گھوڑے ذرا تیز کر دیئے
گھوڑے اس سے دس بارہ قدم دور رہ گئے تو اس آدمی نے ادھر دیکھا اس وقت میمونہ اور شمونہ نے دیکھا کہ اس شخص کے کپڑے جو دور سے سرخ نظر آتے تھے دراصل خون سے سرخ ہوگئے تھے اس آدمی نے ماں بیٹی کو دیکھا تو اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن گرپڑا اس کے قریب چھوٹا سا ایک درخت تھا اس نے اس طرف ہو کر درخت کا سہارا لیا اور اٹھ کھڑا ہوا پیٹھ درخت کے ساتھ لگا لی اور نیام سے تلوار کھینچ لی ماں بیٹی اس کے بالکل قریب پہنچ گئی اور گھوڑے روک لئے میرے قریب نہ آنا اس آدمی نے کہا تم باطنی ہو میرے قریب آؤ گی تو زندہ نہیں چھوڑوں گا مرتے مرتے تم دونوں کو مار کر مروں گا
ماں بیٹی گھوڑوں سے اتری وہ آدمی بہت ہی زخمی تھا اس کے سر پر کپڑا لپٹا ہوا تھا دونوں اس کے پاس جا رکیں اور اس آدمی نے تلوار تان لی
تم مسلمان لگتے ہو میمونہ نے کہا ہم باطنی نہیں ہم اپنے ایک عزیز کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں تمھیں اس حالت میں یہاں چھوڑ کر نہیں جائیں گی دیکھو ہمارے پاس دو فالتو گھوڑے ہیں جہاں کہو گے تمہیں ایک گھوڑے پر ڈال کر پہنچا دیں گے ہم سے نہ ڈرو میرا خیال ہے کہ شہر میں اردگرد کے علاقے میں کوئی باطنی زندہ نہیں
پھر ڈھونڈ لو اپنے عزیز کو اس زخمی آدمی نے مری مری سی آواز میں کہا یہاں اب تمہیں لاشیں ہی ملیں گیں اگر تمہارے عزیز کا چہرہ سلامت ہوا تو پہچان لینا
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
شمونہ نے پوچھا اور کہا اور بتاؤ کہ ہم تمہیں کہاں لے چلیں
میں پانی پینے آیا ہوں اس آدمی نے کہا یہ دیکھو چھاگل یہ بھر کر اپنے ایک ساتھی کے لیے لے جاؤنگا وہ مجھ سے زیادہ زخمی ہے
وہ آدمی جو جواں سال تھا پاؤں پر زیادہ دیر کھڑا نہ رہ سکا شمونہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے چھاگل لے لی یہ چمڑے کا چھوٹا سا ایک مشکیزہ تھا جو اس دور میں مسافر پانی کے لیے استعمال کیا کرتے تھے شمونہ نے اسکا یہ ذرا جتنا مشکیزہ پانی سے بھر لیا اور اسی سے اسے پانی پلایا اور پھر مشکیزے کا منہ بند کر دیا زخمی آدمی نے پانی پی کر لمبا سانس چھوڑا
یہاں قریب ہی ایک غار ہے اس آدمی نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میرا ایک ساتھی مجھ سے زیادہ زخمی حالت میں وہاں پڑا ہے میں نے اسے جا کر پانی پلانا ہے وہ شاید زندہ نہ رہ سکے وہ نہ رہا تو شاید میں بھی نہ رہوں
ہم تم دونوں کو ساتھ لے جائیں گے میمونہ نے کہا چلو ہم تمہیں سہارا دے کر لے چلتی ہیں
ماں بیٹی نے اسے دائیں بائیں ہو کر اٹھایا اور اسے پہلو سے سہارا دے کر آگے کو چل پڑیں زخمی کو اتنا ہی سہارا چاہیے تھا
صرف ایک دکھ ہے زخمی آدمی نے کہا میرے ہاتھوں میرے بھائی قتل ہوئے ہیں میں سرکاری فوج کے خلاف لڑا تھا اس فوج میں میرے بھائی بھی تھے وہ کوئی غیر تو نہیں تھے دیر بعد پتہ چلا یہ فتنہ باطنیوں نے کھڑا کیا تھا زندہ رہنے کی خواہش صرف اس لیے ہے کہ میں حسن بن صباح کو قتل کروں گا
یہ جواں سال آدمی اس قدر زخمی تھا کہ میمونہ اور شمونہ اسے جہاں بھی ہاتھ رکھتی تھی وہ کہتا تھا کہ ہاتھ ذرا نیچے یا اوپر رکھنا یہاں زخم ہے اس نے بتایا کہ وہ دونوں ساتھی بری طرح زخمی ہیں اور اگر انہوں نے مرنا ہوتا تو دو چار دن پہلے ہی مر چکے ہوتے اس نے پرعزم لہجے میں کہا کہ وہ ابھی تک شاید اس لیے زندہ ہیں کہ اللہ نے ان سے کوئی اور کام کروانا ہے ایسی ہی باتیں کرتے کرتے زخمی ماں بیٹی کے سہارے ایک چٹان کے پہلو کی طرف گیا اور وہاں ایک کشادہ غار دیکھا جو زیادہ لمبا نہیں تھا ایک آدمی جس کے کپڑے خون سے لال سرخ تھے لیٹا ہوا تھا یوں لگتا تھا جیسے اس کا جسم جگہ جگہ سے کٹا ہوا ہو وہ پہلو کے بل لیٹا ہوا تھا اور باہر کی طرف اس کی پیٹھ تھی
مزمل بھائی! زخمی جوان نے اسے پکارا اور کہا یہ لوگ تمہارے لئے پانی لے آئے ہیں اور دیکھو اللہ نے ہمارے لیے گھوڑے بھی بھیج دیے ہیں
میمونہ اور شمونہ نے مزمل کا نام سنا تو چونک اٹھیں ادھر غار میں زمین پر پڑے ہوئے زخمی نے کروٹ بدلی تو اس کا چہرہ سامنے آگیا وہ مزمل افندی تھا اس کے چہرے پر بھی کپڑا لگتا ہوا تھا شمونہ اس پر اس طرح جھپٹی جس طرح شیر شکار پر جھپٹتا ہے وہ اس پر جا پڑی اور پھر مزمل مزمل کہتی ہوئی اسے اٹھانے لگی یہ ایک معجزہ تھا کہ مزمل ہوش میں تھا اور اس نے شمونہ اور میمونہ کو پہچان لیا وہ بیٹھ گیا اور شمونہ نے پانی کی چھاگل کا منہ کھولا اور چھاگل اس کے منہ کے ساتھ لگا دی
مزمل نے پانی پی لیا تو اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہ سکا وہ بہت ہی کمزور ھو گیا تھا اور اس کے جسم میں خون کے چند ہی خطرے رہ گئے تھے شمونہ اسے بازوؤں میں لے کر دیوانوں جیسی حرکتیں کر رہی تھی جیسے ماں کو اپنا وہ گم شدہ بچہ مل گیا ہو جس کے ملنے کی امید دم توڑ گئی تھی
میمونہ اور شمونہ نے ایک گھوڑے پر مزمل کو اور دوسرے پر اس کے ساتھی کو اٹھا کر بٹھایا اور یہ قافلہ شہر کی طرف چل پڑا
مزمل کے ساتھی کا نام رحیم ابن یونس تھا اور وہ بن یونس کے نام سے مشہور تھا میمونہ اور شمونہ نے دیکھ لیا تھا کہ ان دونوں کے جسموں سے کافی خون نکل گیا ہے اور یہ صرف پانی پیتے رہے ہیں اور کھانے کو انہیں کچھ نہیں ملا ان کی حالت بتاتی تھیں کہ مرو تک مشکل سے ہی پہنچیں گے
شمونہ بیٹی! میمونہ نے شمونہ کے قریب ہو کر آہستہ سے کہا ان کا علاج معالجہ شاہی طبیب اور جرح ہی کرسکتے ہیں کوئی عام طبیب ان کے جسموں میں جان نہیں ڈال سکے گا
میں انہیں سلطان کے محل میں لے جاؤں گی شمونہ نے کہا ان کی مرہم پٹی اور علاج سلطان کا طبیب کرے گا
سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی جب چار گھوڑے سلطان کے محل کے باہر والے دروازے میں داخل ہوئے دربان شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کو جانتے تھے اس لیے انہیں روکا نہ گیا نہ روکنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ دو گھوڑوں پر دو زخمی اس حال میں سوار تھے کہ وہ زینوں پر بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ آگے کو پیٹ کے بل ہو گئے تھے اور غالبا وہ ہوش میں بھی نہیں تھے
شمونہ گھوڑے سے کود کر اتری اور محل میں داخل ہوگئی وہ سلطان برکیارق کا پوچھ رہی تھی لیکن اسے بتایا گیا کہ سلطان بھی نہیں وزیراعظم سمیری بھی نہیں اور محمد اور سنجر بھی نہیں ہیں یہ پتا چلا کہ برکیارق کی ماں اپنے کمرے میں ہے شمونہ دوڑتی ہوئی اس کمرے میں پہنچی شمونہ نے روزینہ کو سلطان برکیارق کے ہاتھوں قتل کروا کے محل میں بڑا اونچا مقام حاصل کرلیا تھا برکیارق کی ماں نے شمونہ کو دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بازو پھیلا کر شمونہ کو گلے لگا لیا
مادر محترم! شمونہ نے سلطان کی ماں کے بازو سے نکلتے ہوئے اور روتے ہوئے کہا مزمل آفندی مر رہا ہے اللہ کی راہ میں اسے بچا لیں اس کا ایک ساتھی بھی ہے دونوں اتنے زخمی ہیں کہ ان کے جسم میں خون رہا ہی نہیں اپنے طبیب کو بلائیں
سلطان کی ماں شمونہ کے ساتھ باہر کو دوڑی اس نے دیکھا کہ وہ زخمی گھوڑوں پر بے ہوش پڑے ہیں ماں نے حکم دیا کہ طبیب اور جراح کو فوراً لایا جائے
سلطان کی ماں کے کہنے پر کئی آدمی دوڑے آئے اور وہ دونوں زخمیوں کو گھوڑوں سے اتار کر اور اٹھا کر ایک کمرے میں لے گئے طبیب اور جراح بھی آگئے اور انہوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی شروع کردی سلطان برکیارق کی ماں میمونہ اور شمونہ کو اپنے کمرے میں لے گئی میمونہ نے اسے سنایا کہ شمونہ نے کس طرح دو باطنیوں کو چشمے پر قتل کیا ہے
جس وقت ان زخمیوں کی مرہم پٹی ہو رہی تھی اس وقت قلعہ الموت میں حسن بن صباح اپنے اس خصوصی باغیچے میں ٹہل رہا تھا جو اس نے اپنے لئے تیار کروایا تھا اب حسن بن صباح کوئی جادوگر یا شعبدہ باز نہیں تھا نہ وہ اپنے آپ کو سلجوقیوں سے بھاگا ہوا مجرم سمجھتا تھا نہ اس کے دل میں کسی کا خوف یا ڈر سوار تھا وہ تو اب خدا سے بھی نہیں ڈرتا تھا اپنے پیرومرشد اور استاد احمد بن عطاش سے بھی نظر پھیر لیا کرتا تھا اب وہ ایک طاقت بن گیا تھا وہ سلطانوں اور بادشاہوں جیسی حکمرانی نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ لوگوں کے دلوں کا حکمران تھا سلطان اور بادشاہ لوگوں کے جسموں کو غلام بناتے ہیں لیکن جن علاقوں پر حسن بن صباح قابض ہو گیا تھا ان علاقوں کے لوگ اسے دلی اور روحانی طور پر چاہتے تھے وہ اسے امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو اسے نبی مانتے تھے
وہ جب اپنے اس خاص باغیچے میں ٹہل رہا تھا اس کے ساتھ اس کے دو مصاحب اور مشیر بھی تھے
مرو سے آج بھی کوئی خبر نہیں آئی حسن بن صباح نے اپنے مصاحبوں سے کہا وہاں کی خانہ جنگی اب تک اور زیادہ پھیل جانی چاہیے مرو تو خون میں ڈوب ہی رہا ہے میں چاہتا ہوں کے ابومسلم رازی کے شہر رے کی گلیاں بھی خون کی ندیاں بن جائیں لیکن کیا بات ہے کہ ادھر سے کوئی خبر نہیں آرہی
آجائے گی شیخ الجبل! ایک مصاحب نے کہا سلطنت سلجوقیہ کی بنیادیں ہل رہی ہیں مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے گھوڑے سلجوقیوں کی لاشوں کو روندتے کچلتے اور مسلتے ہوئے مرو میں فاتحانہ چال چلتے ہوئے داخل ہوں گے
سورج غروب ہو رہا تھا جب ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگے ٹاپوں کی آواز قریب آ رہی تھی حسن بن صباح اس طرف دیکھنے لگا ذرا ہی دیر بعد گھوڑا اور اس کا سوار نظر آئے سوار قریب آکر گھوڑے سے کود کر اترا اور تیزی سے چلتا حسن بن صباح کے پاس آیا
مروسے آئے ہو؟
حسن بن صبا نے پوچھا
ہاں شیخ الجبل! سوار نے کہا مرو سے یہاں آیا ہوں
قریب سنگ مرمر کا بنا ہوا ایک تخت سا تھا حسن بن صباح اس پر بیٹھ گیا اور قاصد کو اشارہ کیا کہ وہ اس کے سامنے بیٹھ جائے قاصد اور دونوں مصاحب حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئے
کیا مرو والے ابھی تک ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں؟
حسن بن صباح نے شگفتہ سی آواز میں پوچھا
یا شیخ الجبل! قاصد نے کہا میں کوئی اچھی خبر نہیں لایا خانہ جنگی اچانک رک گئی تھی اور یہ سلطان برکیارق کے حکم سے روکی گئی تھی اس کے فوراً بعد حکم ملا کہ جہاں جہاں کوئی باطنی نظر آتا ہے اسے قتل کر دیا جائے سب سے پہلے ہمارا طبیب اور اس کے ساتھی اپنے گھر میں قتل ہوئے ان کے گھر پر چھاپہ پڑا تھا ہمارے آدمیوں کو بھاگنے کا موقع ہی نہ ملا تھا جس کے متعلق ذرا سا بھی شک ہوا کہ یہ ہمارے فرقے کا آدمی ہے اسے قتل کر دیا گیا
یہ ہوا کیسے؟
حسن بن صباح نے بڑی زور سے اپنا ایک پاؤں زمین پر مار کر پوچھا کیا وہ لڑکی روزینہ دھوکہ دے گئی ہے یا مر گئی ہے؟
اسے سلطان برکیارق نے اپنے ہاتھوں قتل کردیا تھا قاصد نے جواب دیا
اگر تم سب کچھ جانتے ہو تو پوری بات سناؤ حسن بن صباح نے کہا
قاصد نے خانہ جنگی کی تفصیلات سنانی شروع کر دی اور بتایا کہ دونوں طرفوں کے لشکر لڑتے لڑتے شہر سے کتنی دور چلے گئے تھے اس نے یہ بھی بتایا کہ رے کا امیر ابومسلم رازی اپنا لشکر لے کر مرو پہنچ گیا تھا اور وہ سرکاری فوج کے خلاف لڑا تھا پھر اس نے بتایا کہ کس طرح خانہ جنگی اچانک رک گئی اور باطنیوں کا قتل عام شروع ہوگیا
یا شیخ الجبل! قاصد نے کہا میں خانہ جنگی رکھتے ہی وہاں سے چل پڑا لیکن میں نے کچھ راز لینے تھے یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ خانہ جنگی کس طرح روکی اور سلطان برکیارق نے یہ حکم کس کے کہنے پر یا کس کے دباؤ پر دیا تھا بڑی مشکل سے راز حاصل کیے
یہ تو بتا چکا ہوں کہ ہماری لڑکی روزینہ کو سلطان برکیارق نے اپنے ہاتھوں قتل کیا تھا طبیب نے سلطان کے محل کے دو ملازم اپنے ہاتھ میں لے لئے اور انہیں مخبر بنالیا تھا انھوں نے بتایا کہ روزینہ کو ہماری ہی ایک مفرور لڑکی شمونہ نے قتل کروایا ہے شمونہ روزینہ کی کنیز بن کر محل میں داخل ہوئی تھی ان ملازموں کو یہ پتا نہیں چل سکا کے شمونہ نے کس طرح سلطان برکیارق کو اپنے اثر میں لے لیا اور روزینہ کو قتل کروایا تھا البتہ یہ خبر ملی ہے کہ اس کارروائی میں سلطان کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی شامل تھا
یہ لڑکی شمونہ اب کہاں ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
وہ مرو میں ہی ہے قاصد نے جواب دیا اس کی ماں جس کا نام میمونہ ہے وہ بھی اس کے ساتھ ہے
شمونہ ابھی تک وہاں سے اٹھائی کیوں نہیں گئی حسن بن صباح نے غصیلی آواز میں کہا میں کب کا حکم دے چکا ہوں کہ اس لڑکی کو زندہ میرے سامنے لایا جائے کیا میرے فدائی میرا یہ حکم بھول گئے ہیں یا ان میں اتنی ہمت ہی نہیں رہی
صرف شمونہ ہی نہیں یا شیخ الجبل! قاصد نے کہا ہماری ایک اور عورت جس کا نام رابعہ ہے وہ بھی سلطان کے محل میں چلی گئی تھی اس نے ایسے لوگوں کے نام اور پتے بتائیے جو ہمارے خاص آدمی تھے ان سب کو سلطان نے قتل کروا دیا ہے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے کچھ اور آدمیوں کو سلطان کی فوج نے پکڑ لیا تھا اور ان پر اتنا زیادہ تشدد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کی نشاندہی کردی اس طرح ہمارے آدمی مارے گئے
اور یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے فرقے کے قتل عام کا حکم ابومسلم رازی نے دلوایا ہے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی اس کے ساتھ ہے اس وقت صورت یہ ہے کہ سلطان برکیارق ان دونوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے پھر ایک خبر یہ بھی ہے کہ عبدالرحمان سمیری ابومسلم رازی سلطان برکیارق کی ماں نے سلطنت سلجوقی حکومت دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے ایک حصے کا سلطان برکیارق ہوگا اور دوسرا حصہ برکیارق کے چھوٹے بھائیوں محمد اور سنجر کو دے دیا گیا ہے لیکن برتری اور مرکزیت سلطان برکیارق کو حاصل ہوگی تاکہ دونوں حصوں کا اور ان کی فوجوں کا اتحاد قائم رہے
ابومسلم رازی اور عبدالرحمن سمیری کو اب تک زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا حسن بن صباح نے کہا رے میں ایک مشہور عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی ہے مجھے پہلے اطلاع مل چکی ہے کہ یہ عالم ابومسلم رازی کا پیرومرشد بنا ہوا ہے اور رازی اس کے مشوروں اور تجویزوں پر عمل کرتا ہے اس عالم کو بھی ان دونوں کے ساتھ ختم کرنا ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ رے میں گیا تو ابومسلم رازی نے میری گرفتاری کا حکم دے دیا تھا یہ تو مجھے بر وقت پتہ چل گیا اور میں وہاں سے بھاگ کر مصر چلا گیا تھا واپس آیا تو بھی رازی نے میری گرفتاری کا حکم دے دیا اس کا بھی مجھے پہلے ہی پتہ چل گیا اور میں وہاں سے ایک بہروپ دھار کر بھاگ نکلا یہ شخص اسلام کا شیدائی اور سلجوقیوں کی سلطنت کا خیرخواہ بنا ہوا ہے اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں سب سے پہلے میں اس کا پتا کاٹونگا اس کے پیرومرشد ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کو بھی صاف کرا دوں گا
سورج کبھی غروب ہوچکا تھا حسن بن صباح وہی بیٹھنا چاہتا تھا اس لئے فانوس وہی لائے گئے اور رات کو دن بنا دیا گیا حسن بن صباح کے حکم سے شراب کی صراحی اور پیالے وہی آگئے شراب پلانے کے لیے تین چار انتہائی خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں آگئیں ان کے نیم برہنہ جسموں کی خوبصورتی کو صرف جنت کی حوروں سے ہی تشبیہ دی جاسکتی تھی
حسن بن صباح نے چار پانچ آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فوراً بلایا جائے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ یہ سب آدمی دوڑے آئے حسن بن صباح نے انہیں بتایا کہ مرو میں کیا ہوا ہے اور اس کے جواب میں انہیں کیا کرنا ہے یہ آدمی تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے باطنی تخریب کاروں فدائیوں اور جاسوسوں کو سرگرم رکھتے اور ان سے اطلاعیں وصول کیا کرتے تھے
ایک ایک باطنی کے بدلے دس دس مسلمانوں کو قتل کرنا ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن سب سے پہلے ان کے سربراہوں اور قائدین کو ختم کرو تین نام یاد کر لو رے کا حاکم ابو مسلم رازی سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری رے کا ایک عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی سب سے پہلے ان تینوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دو اس کے بعد بتاؤں گا کہ کس کی باری ہے
مشہور تاریخ نویس ابن جوزی اور ابن اثیر نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح صرف مرو یا رے کے مسلمانوں سے باطنیوں کے قتل عام کا انتقام نہیں لینا چاہتا تھا بلکہ اس کی نظریں اصفہان پر لگی ہوئی تھیں دوسرے مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ وہ اصفہان کو اپنا مرکز بنانا چاہتا تھا اس نے اصفہان میں بھی اپنا جال بچھا رکھا تھا مورخوں کے مطابق اس نے اسی محفل میں ایک پلان بناکر اپنے خاص کارندوں کو دے دیا تھا کہ اصفہان میں مسلمانوں کو ایسے خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ انہیں کون قتل کر رہا ہے
تاریخوں سے ایک شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ حسن بن صباح نے یہ حکم دیا تھا کہ اصفہان میں مسلمانوں کو قتل کرکے غائب کر دیا جائے یہ پتہ ہی نہ چلے کہ جو آدمی غائب ہوگئے ہیں وہ زندہ ہیں یا مارے گئے ہیں
اس کی جنت دور دور تک مشہور ہوگئی تھی اور نوجوان اس جنت کو دیکھنے کے لئے بڑی دور کا سفر کرکے قلعہ الموت جاتے تھے وہاں حسن بن صباح کے تجربے کار کارندے ان نوجوانوں پر نظر رکھتے اور ان میں سے اپنے مطلب کے لڑکے منتخب کرلیتے اور انہی اس جنت میں داخل کر دیتے تھے
یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جو کوئی ایک بار اس جنت میں چلا جاتا تھا تو وہ دنیا کو بھول جاتا بلکہ اپنی اصلیت اپنی ذات بھی اسے یاد نہیں رہتی تھی پہلے کسی سلسلے میں بیان ہو چکا ہے کہ اس جنت میں حشیش تھی اور حوریں تھیں قدرت نے اس خطے کو ایسا حسن دیا تھا کہ حشیش اور حسین لڑکیوں کے بغیر بھی وہ خطہ جنت نظیر تھا اب تو اس جنت میں چشمے پھوٹ پڑے تھے جس میں رنگین مچھلیاں چھوڑ دی گئی تھیں اس جنت میں سے جو فدائی تیار ہو کر نکل رہے تھے جو حسن بن صباح کے حکم سے دوسروں کو تو قتل کر دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھی قتل کر دینے میں وہ فخر محسوس کرتے تھے ان فدائیوں کو مسلمانوں کے علاقوں میں پھیلایا جا رہا تھا
حسن بن صباح کے یہاں تبلیغ بہت کم اور زیادہ تر قتل و غارت گری تھی اس کا اصول اور طریقہ کار یہ تھا کہ علماء اور دیگر قائدین کو قتل کر دیا جائے اور عوام کو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بنا کر انہیں ہانک کر اپنے زیر اثر لے لیا جائے
مرو میں امن قائم ہوچکا تھا امن کا مطلب یہ کہ اب وہاں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا لیکن جن گھروں کے جوان بیٹے اس لڑائی میں مارے گئے تھے ان گھروں میں ابھی تک ماتم ہو رہا تھا اگر انہوں نے کفار کی کسی فوج سے لڑائی لڑی ہوتی تو وہ لوگ فخر سے بتاتے کہ ان کا بیٹا حق و باطل کے اس معرکے میں شہید ہوا ہے لیکن وہاں تو بھائیوں نے بھائیوں کا خون بہا دیا تھا البتہ حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اٹھ آیا تھا ہر کسی کو معلوم تھا اور ہر کسی کو بتایا گیا تھا کہ یہ سارا فتنہ باطنیوں نے زمین دوز طریقوں سے شروع کیا تھا
ابومسلم رازی ابھی مرو میں ہی تھا اس نے اپنا لشکر اپنے شہر رے کو بھیج دیا تھا وہ خود اس لئے رک گیا تھا کہ مرو میں تینوں بھائیوں سلطان برکیارق محمد اور سنجر میں سلطنت کی تقسیم کے متعلق امور طے کرنے تھے اس نے دو چار دنوں بعد وہاں سے رے کو روانہ ہونا تھا
مزمل آفندی اور اس کا ساتھی بن یونس موت کے شکنجے سے نکل آئے تھے انہیں دودھ اور شہد پلایا جا رہا تھا اور ایسی غذا دی جارہی تھی کہ ان کا جو خون ضائع ہوگیا تھا وہ پورا ہونا شروع ہوگیا زخم بھی ٹھیک ہو رہے تھے اور اب وہ دونوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے تھے اور بڑی آسانی سے باتیں بھی کرلیتے تھے
سلطان برکیارق اور ابومسلم رازی کو جب پتہ چلا کہ مزمل آفندی زخمی ہوکر آیا ہے تو دونوں بڑی تیزی سے محل میں آئے اور اسے دیکھا تھا انہوں نے طبیب اور جرح سے کہا تھا کہ یہ بہت ہی قیمتی آدمی ہے اسے ہر قیمت پر زندہ رکھنا ہے اور پھر اس میں وہی روحانی اور جسمانی توانائی پیدا کرنی ہے جو زخمی ہونے سے پہلے ہوا کرتی تھی
امیر محترم! مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا میں آج ہی آپ کو بتا دیتا ہوں کہ پوری طرح صحت یاب ہوکر میں اپنے ساتھی بن یونس کے ساتھ قلعہ الموت جاؤنگا اور حسن بن صباح کو قتل کر کے ہی واپس آؤں گا ورنہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی واپس نہیں آئیں گے
پہلے صحتیاب ہو لو ابومسلم رازی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ تو ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہا حسن بن صباح اور اسکے باطل فرقے کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنی جانوں کی قربانیاں دینی پڑے گی ابھی اپنے خون کو اتنا جوش نہ دو پہلے تندرست ہو جاؤ
دو تین دنوں بعد ابومسلم رازی مرو سے رے کو روانہ ہونے لگا سلطان برکیارق اس کے بھائیوں اور اس کی ماں نے ابومسلم رازی کو شاہانہ طریقے سے بڑے تپاک سے رخصت کیا اس کی مزید تعظیم اس طرح کی گئی کہ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اسے الوداع کہنے کے لئے شہر سے باہر تک اس کے ساتھ روانہ ہوگیا وہ دونوں پہلو بہ پہلو گھوڑوں پر سوار چل پڑے ان کے پیچھے آٹھ دس محافظوں کا دستہ تھا اس کے پیچھے اونٹوں اور خچر گاڑی پر سامان وغیرہ جا رہا تھا
سمیری بھائی! چلتےچلتے ابومسلم رازی نے سلطان کے وزیراعظم سے کہا ان لڑکوں پر نظر رکھنا اور انہیں قابو میں رکھنا آپ کا کام ہے بیشک برکیارق راستے پر آ گیا ہے لیکن جوان آدمی ہے کہیں بھٹک نہ جائے اور دوسرے بھائی اس سے چھوٹے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عقل کی بجائے ذاتی جذبات سے سوچنا اور عمل کرنا شروع کردیں حسن بن صباح کا قلع قمع کرنا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں انہیں کھلی جنگ اور حملے سے ختم نہیں کیا جاسکتا میں الموت کی بات کر رہا ہوں ہمیں کچھ اور طریقے سوچنے پڑے گے بہرحال میں آپ سے آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ فرض آپ کا ہے ان لڑکوں پر بھروسہ نہ کرنا
آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میں نے زمین کے نیچے نیچے کیسی کیسی کاروائیاں کی ہیں عبدالرحمن سمیری نے کہا میں آپ کا ہم خیال ہوں آپ کے ساتھ رابطہ رکھوں گا آپ نے بجا فرمایا ہے کہ یہ کام ہم جیسے تجربہ کار اور گہری سوچ وفکر والے آدمیوں کے کرنے کا ہے اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے عبدالرحمن سمیری کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک غریب سا ادھیڑ عمر آدمی ان کے راستے میں سامنے آ کھڑا ہوا اس کی خشخشی داڑھی تھی اور وہ بوسیدہ سا چغہ پہنے ہوئے تھا اس کے چہرے پر اداسیوں کی گہری پرچھائیاں تھی اور تاثر ایسا جیسے وہ مظلوم اور التجا کرنا چاہتا ہو ابومسلم رازی بڑا ہی رحم دل آدمی تھا عبدالرحمن سمیری بھی رحم دلی میں کم نہ تھا دونوں نے گھوڑے روک لیے
یا امیر! اس آدمی نے ہاتھ جوڑ کر ذرا آگے آتے ہوئے کہا ذرا رک جا اور ایک مظلوم باپ کی فریاد سنتا جا
کہو میرے بھائی! ابومسلم رازی نے کہا کہو کیا کہنا چاہتے ہو میں تمہاری مدد کروں گا پھر یہاں سے آگے قدم اٹھاؤ نگا
یا امیر! اس مفلوک الحال آدمی نے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے اور ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا لڑائی تو امیروں اور بادشاہوں کی تھی لیکن میرا ایک ہی ایک جوان بیٹا اس لڑائی میں مارا گیا ہے اگر میرا بیٹا کفار کے مقابلے میں لڑتا ہوا جان دے دیتا تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی بلکہ میں فخر سے اپنا سر اونچا کرکے کہتا کہ میں نے اپنا ایکلوتا بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ہے لیکن یہ کیسی لڑائی تھی جس میں بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا اور تم اپنی فریاد سناؤ میرے بھائی! ابومسلم رازی نے کہا وہ تو میں جانتا ہوں کہ یہ کیا ہوا تھا تم جو چاہتے ہو وہ بتاؤ تاکہ میں تمھاری مدد کروں
اے رحمدل امیر! اس آدمی نے کہا تیرے متعلق جو سنا تھا تو ایسا ہی نکلا اللہ نے تیرے دل میں رحم ڈالا ہے کچھ رحم مجھ پر بھی کردے یہ آدمی جس نے گھٹنے پہلے ہی زمین پر ٹیکے ہوئے تھے سجدے میں چلا گیا اور سجدے میں بولا میں جانتا ہوں کے سجدہ صرف خدا کے آگے کیا جاتا ہے لیکن میں تیرے آگے سجدہ کرتا ہوں
کھڑے ہو کر بات کرو بھائی! ابومسلم رازی نے کہا مجھے گنہگار نہ کرو کہو کیا بات ہے
اس آدمی نے سجدے سے سر اٹھایا اور پھر ہاتھ جوڑ کر بولا مجھے بتائیے امیر میں کہاں جاؤں میری فریاد کون سنے گا تو گھوڑے پر سوار ہے اور میں خاک نشین ہوں میری آواز تیرے کانوں تک نہیں پہنچ پائے گی
ابومسلم رازی کی رحم دلی اور انسان دوستی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھوڑے سے اتر آیا وہ پہلے ہی یہ صدمہ دل پر لئے ہوئے تھا کہ اس آدمی کے بیٹے جیسے نہ جانے کتنے بیٹے خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں اب وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک غریب آدمی جس کا ایکلوتا بیٹا مارا گیا ہے اس کے آگے سجدہ کر رہا ہے
ابومسلم رازی اس کے قریب پہنچا تو وہ آدمی ایک بار پھر سجدے میں چلا گیا رازی نے دیکھ لیا تھا کہ اس آدمی کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے اس نے اس مظلوم آدمی کے اوپر جھک کر اس کے دونوں بغلوں میں ہاتھ رکھے اور اسے اٹھنے کو کہا اور اسے اٹھانے بھی لگا اس وقت ابومسلم رازی رکوع کی حالت میں اس آدمی کے اوپر جھکا ہوا تھا اور وہ آدمی اس کے نیچے تھا
اس آدمی نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھتے اٹھتے اپنے بوسیدہ چغّے کے اندر کیا اور پھر بڑی تیزی سے ہاتھ باہر نکالا پیشتر اس کے کہ ابو مسلم رازی یا کوئی اور دیکھ سکتا کہ اس آدمی کے ہاتھ میں خنجر ہے خنجر ابومسلم رازی کے سینے میں اترچکا تھا اس آدمی نے نیچے سے خنجر کا وار کیا تھا ابومسلم رازی تیزی سے سیدھا ہوا تو اس آدمی نے اٹھ کر دو بار پھر اس کے سینے میں خنجر مارے ابومسلم راضی تیورا کر گرا اور اس کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے
محافظ گھوڑوں سے کود کر اترے اور ابو مسلم رازی کی طرف دوڑے عبدالرحمن سمیری بھی گھوڑے سے اتر آیا اور اس نے ابومسلم رازی کو سہارا دیا لیکن ابومسلم رازی کے گھٹنے زمین سے لگ چکے تھے
باطنی کو وہی پکڑنا تھا لیکن قاتل نے چند قدم پیچھے ہٹ کر اپنے خنجر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اپنے سر کے اوپر کرکے نعرہ لگایا یا شیخ الجبل تیرے نام پر اپنی جان قربان کر رہا ہوں تیرے حکم کی تعمیل کردی ہے اس نے خنجر زور سے نیچے کو کھینچا اور اپنے دل میں اتار لیا ذرا سی دیر وہ پاؤں پر کھڑا رہا پھر گر کر ایک طرف کو لڑھک گیا محافظوں نے اسے اٹھانا چاہا لیکن وہ مر چکا تھا
چونکہ وزیراعظم اور رے کا امیر جا رہے تھے اس لیے لوگ راستے کے دونوں طرف اکٹھے ہوگئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ ایک آدمی نے امیر رے کو قتل کردیا ہے تو وہ قاتل پر ٹوٹ پڑے اسے تلواروں اور خنجروں سے قیمہ کر دیا اور جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا اس نے پتھر اٹھا اٹھا کر اسے مارے اور ذرا سی دیر میں قاتل کے جسم کے چھیتھڑے کر دیے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:39 }
ابومسلم رازی کی لاش گھوڑے پر ڈال کر واپس سلطان برکیارق کے محل میں لے جائی گئی وہاں تو کہرام بپا ہوگیا
ابومسلم رازی کی میت کو مرو میں ہی آخری غسل دے کر کفن پہنا دیا گیا تھا ایک قاصد کو رے کی طرف دوڑا دیا گیا تھا کہ وہ ابومسلم رازی کے خاندان کو اس حادثے کی اطلاع دے دے اور یہ بھی بتائیے کہ اس کی میت لائی جارہی ہے
ابومسلم رازی ایک تاریخ ساز شخصیت تھی حسن بن صباح نے اسے قتل کروا کر ایسا خلا پیدا کر دیا تھا جسے اب کوئی اور پورا نہیں کر سکتا تھا
جب ابو مسلم رازی کی میت رے پہنچی تو سارا شہر ہی ٹوٹ پڑا ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر کوئی جانتا تھا کہ اسے باطنیوں نے قتل کیا ہے لوگ بلند آواز سے حلف اٹھا رہے تھے اور یہ عہد کر رہے تھے کہ وہ اپنے امیر کے خون کا انتقام لیں گے
اس قتل کی اطلاع شہر سے باہر دور دور تک پہنچ گئی تھی اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے جب جنازہ اٹھا تو رے کی فضا میں صرف آہ و بکا اور عورتوں کے بین سنائی دے رہے تھے جنازہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں پڑھا گیا عورتیں چھتوں پر کھڑی رو رہی تھی اور بچے بھی جنازے میں شامل ہوگئے تھے لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم کبھی کم ہی دیکھنے میں آیا تھا
جنازہ ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے پڑھایا جنازہ کے بعد اس نے لوگوں کو بیٹھ جانے کو کہا پھر اس نے بڑی بلند آواز میں لوگوں کو مختصر سا خطاب کیا
اے لوگو! ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے کہا ہوش میں آؤ اور اپنے دین و ایمان کو اور زیادہ مضبوط کرو ابومسلم رازی کو اس ابلیس حسن بن صباح نے قتل کرایا ہے اس سے ہماری قوم کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی صرف ابومسلم رازی ہی کر سکتا ہے لیکن عہد کر لو کہ ہمیں ایک اور ابو مسلم رازی پیدا کرنا ہے پروانے جل جل کر مرتے رہتے ہیں اور شمع جلتی رہتی ہے ہمیں اسلام کی شمع کو جلتا رکھنا ہے اور اس پر اسی طرح جل جل کر مرنا ہے انسان مرتے جاتے ہیں لیکن دین اور ایمان زندہ رہتے ہیں کچھ اور انسان آتے ہیں جو پہلے انسانوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں اب ہر آدمی اس عزم کو اپنے ایمان میں شامل کرلیں کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے اور اس کے فرقے کا نام و نشان مٹا دینا ہے لیکن سوچنا عقل سے جذبات کی شدت اور جوش سے نہیں لوگوں میں اس قدر جوش و خروش اور ایسا غم و غصہ تھا کہ انھوں نے اس عالم کی آگے کوئی بات نہ سنی اور نعرے لگانے شروع کر دیئے اگر انہیں اشارہ بھی دیا جاتا کہ ابھی قلعہ الموت پر حملہ کرنا ہے تو سب اسی حالت میں چل پڑتے اور کچھ بھی نہ سوچتے فاضل اصفہانی نے ہاتھ کھڑے کر کے لوگوں کو خاموش کیا اور دعا پڑھنے لگا لوگوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور ہجوم میں سے راستہ بناتا ہوا مجید فاضل اصفہانی کے پاس جا کھڑا ہوا اور اس نے لوگوں کی طرف منہ کر لیا وہ اس عالم کے پہلو کے ساتھ کھڑا تھا
اے لوگو! اس آدمی نے کہا تم جوش میں آ کر نعرے لگا رہے ہو تم نہیں جانتے کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا کس قدر مشکل کام ہے اس کے لیے صرف دو تین آدمیوں کی ضرورت ہے میں اس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی جان کو پیش کرتا ہوں مجھے دو آدمیوں کی ضرورت ہے
تم ابھی بیٹھ جاؤ میرے عزیز! ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے اس آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ معاملہ ایسا نہیں جو یہاں جذبات کے جوش میں طے کر لیا جائے اس پر بعد میں غور کیا جائے گا
میں نے غور کر لیا ہے اس آدمی نے کہا اور بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا ہوا میں لہرایا اور اس کا یہ خنجر ابو المظفر مجید فاضل اصفہانی کے سینے پر اس جگہ اتر گیا جہاں دل ہوتا ہے اس شخص نے دو وار اور کئے اور بیشتر اسکے کہ لوگ اٹھ کر اسے پکڑ لیتے اس نے اپنا خنجر ہوا میں بلند کرکے نعرہ لگایا شیخ الجبل کے نام پر اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا وہ گرا اور مر گیا یہ ایک اور تاریخی شخصیت تھی جسے حسن بن صباح نے قتل کرایا تھا مجید فاضل اصفہانی صرف عالم ہی نہیں تھا بلکہ وہ عمل کے میدان کا سپاہی تھا حقیقت پسند اور کچھ کر کے دکھا دینے والا ابو مسلم رازی اور مجید فاضل اصفہانی کے قاتل دو تین دن پہلے قلعہ الموت سے آئے تھے
ابومسلم رازی کو دفن کر دیا گیا اور اس کے پیر استاد مجید فاضل اصفہانی کی میت کو اٹھا کر اس کے گھر لے گئے اگلے روز اسی بے پناہ اور بے قابو ہجوم نے اپنے اس عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کا جنازہ پڑھا بے قابو اس لیے کہ ہر کوئی غم و غصے سے پھٹا جا رہا تھا لیکن یہ لوگ اب قیادت سے محروم ہو گئے تھے سلطان برکیارق اور اس کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیر وہیں رکے رہے تھے جنازے کے بعد عبدالرحمن سمیری نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور اپنی عقل پر پردہ نہ پڑنے دیں ان شاءاللہ ان عظیم شخصیتوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا
سلطان برکیارق محمد سنجر ان کی ماں اور ان کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری مرو چلے گئے تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ رے کا شہر اور علاقہ ابومسلم رازی کے بعد کس امیر کو دیا گیا تھا ایک اشارہ ملتا ہے کہ سلطان برکیارق نے اس علاقے کو اپنی عملداری اور نگرانی میں رکھ لیا تھا
ان لوگوں کے دلوں پر بہت ہی بوجھ تھا ایک تو صدمہ تھا اور دوسرے یہ سوچ اور فکر کہ حسن بن صباح کا ہاتھ کس طرح روکا جائے مرو پہنچتے ہی ان لوگوں نے اپنے سالاروں کو بلایا اور باقاعدہ اجلاس میں غور کیا گیا کہ باطنیوں کا قلع قمع کس طرح کیا جاسکتا ہے
اس اجلاس میں کئی ایک طریقے سوچے گئے اور منصوبے بھی بنائے گئے اور اجلاس برخاست ہو گیا ایک فیصلہ یہ ہوا کہ سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن فوج کو ابھی تقسیم نہ کیا جائے ورنہ ہمارا دشمن اتنا شعبدہ باز اور چالاک ہے کہ وہ ان دونوں حصوں کو الگ الگ الجھا کر نقصان پہنچائے گا
جب اجلاس برخاست ہوا تو سلطان برکیارق اور عبدالرحمن سمیری کو دربان نے اطلاع دی کہ تین آدمی بڑی دور سے آئے ہیں اور وہ انہیں ملنا چاہتے ہیں
پہلے ان کی تلاشی لو سلطان برکیارق نے کہا تلاشی بڑی سختی سے لینی ہے ان کے پاس چھوٹا سا چاقو بھی نہیں ہونا چاہیے
کچھ دیر بعد یہ تین آدمی کمرے میں لائے گئے اور بتایا گیا کہ یہ بالکل نہتے ہیں اور بہت دور سے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ ایک شہر ابہر کے رہنے والے ہیں اور تجارت پیشہ ہیں وہ جو مسئلہ لے کر آئے تھے وہ یوں تھا کہ شہر کے قریب ایک قلعہ وسم کوہ پر تھا وسم کوہ ایک پہاڑی تھی جس پر یہ قلعہ بنا ہوا تھا ان آدمیوں نے بتایا کہ اس قلعے پر باطنی فدائی قابض ہوگئے ہیں اور وہاں انہوں نے کسی مسلمان کو زندہ نہیں رہنے دیا انہوں نے بتایا کہ اس قلعے کے قریب سے چھوٹے بڑے قافلے اور ایکّے دکّے آدمی یا پورے پورے خاندان گزرتے رہتے ہیں یہ باطنی فدائی انہیں لوٹ لیتے ہیں اور سارا مال قلعے میں لے آتے ہیں اور یہاں سے یہ مال قلعہ الموت جاتا ہے
یہ آدمی عقلمند معلوم ہوتے تھے اور جنگی امور سے بھی کچھ واقفیت رکھتے تھے انہوں نے بتایا کہ ان فدائیوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں اور وہ باقاعدہ فوجی بھی نہیں ان میں صرف یہ طاقت تھی کہ اپنی جان پر کھیل جاتے تھے لیکن عسکری طریقوں سے بالکل ناواقف تھے
اگر آپ فوج لے کر آئیں تو آپ کو وہاں کے لوگوں کی مدد بھی مل سکتی ہے اس وفد کے ایک آدمی نے کہا وہاں سے قلعہ الموت بہت دور ہے ان قلعہ بند باطنیوں کو کہیں سے مدد یا کمک نہیں مل سکتی اگر اس قلعے پر قبضہ کرلیا جائے تو اتنی زیادہ باطنی ہاتھ آئیں گے جنہیں قتل کیا جائے اور مال و متاع اور جواہرات کا تو کوئی حساب ہی نہیں
کچھ بحث وتمحیص کے بعد سالار اوریزی نے کہا کہ وہ اس قلعے کا محاصرہ کرے گا اور ان شاءاللہ کامیاب بھی ہوگا قلعہ کچھ دور تھا سلطان برکیارق اور عبدالرحمن سمیری نے اسے اجازت دے دی اور محاصرے کا منصوبہ تیار ہونے لگا
دو ہی دنوں بعد سالار اوریزی نے مطلوبہ فوج تیار کرلی اور رخصت ہونے لگا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے اس فوج کو رخصت کرنا تھا جیسے کہ اس زمانے میں رواج تھا سمیری گھر سے نکلا اور اس جگہ کی طرف چل پڑا جہاں فوج تیار کھڑی تھی راستے میں اس نے دیکھا کہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس عورت زمین پر بیٹھی تڑپ رہی ہے اور زمین پر ماتھا مار رہی ہے وہ روتی اور بین کرتی تھی
ایک آدمی اس کے پاس بیٹھ کر اسے بہلانے لگا لیکن عورت ایک ہی رٹ لگائے جا رہی تھی میرا بچہ میرا بچہ مجھے واپس لادو سلطان مر گیا ہے جو میرے بچے کو واپس نہیں لاتا
عبدالرحمن سمیری نے گھوڑا روک لیا اور اس آدمی سے پوچھا کہ عورت کی یہ حالت کیوں ہو رہی ہے
اس بیچاری کا ایک کمسن بچہ باطنی اٹھا کر لے گئے ہیں اس آدمی نے بتایا یہ کہتی ہے کہ ان لوگوں کو جانتی ہے اور وہ ابھی شہر میں ہی ہیں لیکن اس کی فریاد کوئی نہیں سنتا
عبدالرحمن سمیری سے اس عورت کی یہ حالت دیکھی نہ گئی وہ گھوڑے سے اترا وہ اس عورت کو تسلی دلاسا دینا چاہتا تھا کہ اس کے بچے کو برآمد کر لیا جائے گا سمیری اس عورت کے قریب گیا اور اس پر جھکا اس عورت کے پاس جو آدمی بیٹھا ہوا تھا اس نے بڑی تیزی سے خنجر نکالا اور عبدالرحمن سمیری کی پیٹھ میں اتار دیا پھر اسے سیدھا نہ ہونے دیا اور دو تین وار اور کیے وزیراعظم سمیری وہیں گر پڑا
لوگ قاتل کو پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن قاتل نے بھاگنے کی ذرا بھی کوشش نہ کی اس نے دوبار خنجر پوری طاقت سے اس عورت کی پیٹھ میں مارا اور پھر خنجر اپنے دل کے مقام پر اتنی زور سے مارا کہ آدھے سے زیادہ خنجر اس کے سینے میں چلا گیا ظاہر ہے کہ عورت اس قاتل کی ساتھی تھی اور اسے عبدالرحمن سمیری کو جال میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا اگر یہ باطنی اس عورت کو قتل نہ کرتا تو اس سے کچھ راز مل سکتے تھے
یہ ایک اور تاریخی شخصیت تھی جسے حسن بن صباح کے حکم سے ایک فدائی نے قتل کر دیا پانچویں ہجری ختم ہونے میں پانچ سال باقی تھے
سالار اوریزی نے اپنی پیش قدمی ملتوی نہ کی وہ قعلہ وسم کوہ کی طرف کوچ کر گیا یہاں سے قتل و غارت کا ایک اور دور شروع ہوگیا جس نے تاریخ پر لرزہ طاری کر دیا تھا
سالار اوریزی نے یہ فوج اندھادھن تیار نہیں کی تھی اور اس نے کوچ کا جو حکم دیا تھا وہ بھی کوئی رسمی سا حکم نہیں تھا اس نے اس فوج کی تیاری کے دوران دانشمندانہ کارروائیاں کی تھیں
پہلی کاروائی یہ تھی کہ اس نے اس فوج میں منتخب لڑاکے اور جاں باز شامل کیے تھے اس نے اپنے جو نائب کماندار ساتھ لیے تھے وہ بھی چنے ہوئے تھے اور لڑائیوں کا تجربہ بھی رکھتے تھے اور ان میں حسن بن صباح اور ان کے فرقے کی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی سالار اوریزی نے ایک احتیاطی تدبیر اختیار کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح تک یہ خبر نہ پہنچ جائے کہ وہ قلعہ وسم کوہ پر فوج کشی کے لئے جا رہا ہے وہ جانتا تھا کہ گلی گلی کوچہ کوچہ حسن بن صباح کے جاسوس موجود ہیں اور وہ روزبروز قلعہ الموت خبریں پہنچا رہے ہیں
سالار اوریزی نے اپنی اصل مہم پر پردہ ڈالے رکھنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ وہ جب اپنی فوج تیار کر رہا تھا اس نے چند آدمی شہر میں پھیلا دیئے تھے جو یہ خبر مشہور کر رہے تھے کہ سالار اوریزی قلعہ ملاذخان پر حملہ کرنے جارہا ہے قلعہ ملاذخان فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا چند سال پہلے باطنیوں نے یہ قلعہ دھوکے میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا قلعہ وسم کوہ قلعہ ملاذخان سے کم و بیش ایک سو میل دور کسی اور ہی طرف تھا
حسن بن صباح کو یہ اطلاع دی گئی کہ سالار اوریزی اتنی نفری کی فوج سے قلعہ ملاذ خان پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہو رہا ہے یہ سن کر حسن بن صباح نے قہقہہ لگایا
پگلے سلجوقی حسن بن صباح نے کہا اگر وہ قلعہ ملاذ خان لے بھی لیں گے تو کیا کرلیں گے وہ ابھی تک نہیں سمجھے کہ ان کی قسمت اور ان کی جانیں میری مٹھی میں ہے میں یہاں تصور میں جس کا گلا دباؤنگا وہ مرو میں یا رے میں یا وہ جہاں کہیں بھی ہوا مارا جائے گا جب اوریزی مرو سے کوچ کرے اسی وقت ایک آدمی وہاں سے میرے پاس پہنچ جائے اور بتائیے کہ اس کے ساتھ کتنی پیدل اور کتنی سوار نفری ہے اور اس نے کس وقت کوچ کیا ہے
حسن بن صباح نے دو تین آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فورا بلایا جائے وہ آدمی فوراً پہنچے یہ اس کے جنگی مشیر تھے اس نے انہیں قلعہ ملاذ خان کے دفاع کے متعلق ہدایات دینے شروع کردی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ملاذخان تک جگہ جگہ اوریزی کے لشکر پر شب خون مارے جائیں اور گھات لگا کر بھی انہیں نقصان پہنچایا جائے اس نے کہا کہ کہیں بھی جم کر نہیں لڑنا ضرب لگا کر وہاں سے نکل آئیں
وہ راستے سے ہی واپس چلے جائیں گے حسن بن صباح نے کہا اگر وہ واپس نہ آ گئے اور ملاذ خان تک پہنچ بھی گئے تو ان کی نفری آدھی رہ چکی ہوگی اور وہ ایسی حالت میں ہونگے کہ محاصرہ بھی مکمل نہیں کر سکیں گے ملاذ خان میں ہماری نفری تھوڑی ہے وہاں آج ہی جانبازوں کی خصوصی نفری بھیج دو انھیں یہ بتا دینا کہ جونہی وہ سلجوقیوں کے لشکر کو آتا دیکھیں تو قلعے سے نکل کر اور دور کا چکر کاٹ کر پہلو سے اس پر ٹوٹ پڑیں اور سپاہی سے لے کر سالار تک کوئی ایک بھی بندہ زندہ واپس نہ جائے
سالار اوریری رے میں ابومسلم رازی اور ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کے جنازے پڑھ کر آیا تھا اب اس کا لشکر کوچ کے لئے تیار تھا اور وہ عبدالرحمن سمیری کے انتظار میں تھا کہ اس نے آکر انہیں الوداع کہنا تھا لیکن اسے اطلاع ملی کے سمیری کو ایک باطنی نے قتل کرکے خودکشی کرلی ہے اس خبر سے سالار اوریزی کو بھڑک اٹھنا چاہیے تھا اور اس پر جذبات کا غلبہ ہونا ایک قدرتی بات تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو ذہنی اور جذباتی لحاظ سے قابو میں رکھا اور ٹھنڈے دل سے سوچا کہ اسے کیا کرنا چاہیے اگر وہ دوڑا ہوا وہاں جا پہنچتا جہاں عبدالرحمن سمیری کو قتل کیا گیا تھا تو وہ ماتم کرنے لگ جاتا اور اس کی فوج جو کوچ کے لیے تیار تھی انتظار میں کھڑی رہتی یا اسے واپس بلا لیا جاتا
سلطنت اسلامیہ کے پاسبانوں! سالار اوریزی نے اپنی فوج سے یوں خطاب کیا باطنی ایک اور وار کر گئے ہیں ابھی ابھی قاصد اطلاع دے گیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو ایک باطنی نے اسی دھوکے سے قتل کر دیا ہے جس طرح امیر ابومسلم رازی اور ہمارے پیر و مرشد اور عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کو قتل کیا گیا تھا ہم اب کسی کے جنازے کے لیے نہیں رکیں گے اب ہم ان مقتولوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیں گے اب ہمیں پیچھے نہیں دیکھنا بلکہ آگے بڑھنا ہے اب دل میں عہد کرلو کے حسن بن صباح اور اسکے باطل فرقے کو ختم کرنا ہے یا خود ختم ہو جانا ہے لعنت ہے اس زندگی پر جس میں ابلیس ہمارے عمائدین کا خون بہاتے پھرے اللہ اکبر کا نعرہ لگاؤ اور آگے بڑھو اور اس جذبے سے آگے بڑھو کے ہم نے اب واپس اپنے گھروں کو نہیں آنا
لشکر نے جب اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو یوں لگا جیسے آسمان کا سینہ پھٹ گیا ہو اور زمین ہل گئی ہو اس نعرے میں ایمان کی گرج تھی
سالار اوریزی گھوڑے پر سوار تھا وہ لشکر کے آگے آگے نہ چلا بلکہ وہیں کھڑا رہا راستے سے ذرا ہٹ کر زمین کا تھوڑا سا ابھار تھا اوریزی اپنا گھوڑا اس ابھار پر لے گیا اور اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے لشکر کو دیکھنے لگا لشکر کلمہ طیبہ کا بلند ورد کرتا ہوا جارہا تھا تاریخ میں ایسے اعدادوشمار نہیں ملتے کہ اس لشکر کی نفری کتنی تھی اور اس میں پیادے کتنے اور سوار کتنے تھے بہرحال یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اس لشکر میں وہی جوش و خروش تھا جس کی اس صورتحال میں ضرورت تھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سالار اوریزی نے چن چن کر جزبے والے مجاہد اس لشکر میں رکھے تھے وہ صحیح معنوں میں اسلام کے مجاہدین تھے انہیں تنخواہوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور مال غنیمت کا بھی ان کے ذہنوں میں کوئی خیال نہ تھا ان میں انتقام کا جذبہ تھا توڑے سے عرصے کی خانہ جنگی نے کئی گھر اجاڑ دیے تھے اور بھائیوں نے بھائیوں کو قتل کر دیا تھا ان فوجیوں کو جب پتہ چلا تھا کہ اس خانہ جنگی کے پیچھے باطنیوں کا ہاتھ تھا تو وہ نفرت اور انتقام کے جذبے سے اتنے بھر گئے تھے کہ بارود کے چلتے پھرتے پتلے بن گئے تھے وہ اس سے کئی گنا زیادہ باطنیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے جتنے خانہ جنگی میں اپنے آدمی مارے گئے تھے
سالار اوریزی کے پیچھے بارہ چودہ گھوڑسوار محافظ کھڑے تھے اب سالاروں اور دیگر سربراہوں کی حفاظت کے انتظام پہلے سے زیادہ سخت کر دیے گئے تھے لشکر گزرتا جارھا تھا اور سالار اوریزی اسے دیکھ رہا تھا ایک محافظ نے دیکھا کہ ایک درویش آدمی ایک طرف سے چلا آرہا ہے اور اس کا رخ سالار اوریزی کی طرف ہے اس محافظ نے اپنے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا اور ہلکی سے ایڑ لگائی گھوڑا اس درویش کے سامنے جا رکا
اس شخص کا صاف ستھرا لباس پر اثر چہرہ اور انداز بتاتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہے اور درویش بھی اس کے ہاتھ میں قرآن پاک اور دوسرے ہاتھ میں عصا اس کی داڑھی خاصی لمبی تھی اسکے چہرے پر گھبراہٹ نہیں بلکہ خود اعتمادی تھی
میرے راستے میں مت آ اے سوار درویش نے محافظ سے کہا میں اس راستے پر جا رہا ہوں جو اللہ کی اس مقدس کتاب نے مجھے دکھایا ہے اس نے قرآن پاک کو اوپر کرکے کہا یہ قرآن مجید ہے گھوڑے سے اتر اور اس کی توہین نہ کر مجھے سپہ سالار کے پاس جانے دے
آپ کا احترام دل و جان سے کروں گا اے عالم! محافظ نے گھوڑے سے اتر کر کہا لیکن آپ کی جامہ تلاشی لیے بغیر آگے نہیں جانے دوں گا کیا آپ نے نہیں سنا کہ یکے بعد دیگرے تین شخصیتوں کو باطنیوں نے ایسے ہی دھوکے سے قتل کر دیا ہے عالم اور درویش کا بہروپ تو کوئی بھی دھار سکتا ہے
میں تجھے فرائض سے کوتاہی نہیں کرنے دوں گا درویش نے کہا میری جامہ تلاشی لے لے پھر بھی تجھے شک ہے کہ میں سپہ سالار کو قتل کر دوں گا میرے ہاتھ زنجیروں میں میری پیٹھ کے پیچھے باندھ دے میں نے سپہ سالار کو اللہ کا نور دکھانا ہے وہ ابلیس کو تہس نہس کرنے جارہا ہے میں جانتا ہوں کہ اس سپہ سالار کے پاس جسم کی طاقت بھی ہے اور دماغ کی طاقت بھی لیکن میں اس کی روح کو تقویت دینا چاہتا ہوں جا پہلے اس سے پوچھ کے مجھے اپنے پاس آنے دے گا بھی یا نہیں
سالار اوریزی نے اس وقت تک اس درویش کو اور اپنے محافظ کو دیکھ لیا تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ عالم ہے یا درویش جو کوئی بھی ہے اسے ملنا چاہتا ہے
انہیں آنے دو! سالار اوریزی نے اپنے محافظ سے کہا اپنا فرض پورا کر لو
فرض سے مراد یہ تھی کہ اس کی جامہ تلاشی لے لو کہ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو محافظ نے درویش کے کپڑوں کے اندر اچھی طرح دیکھ لیا اور اسے سالار اوریزی کی طرف بھیج دیا لیکن خود اس کے ساتھ رہا دو اور محافظ گھوڑوں سے اتر آئے اور سالار اوریزی کے سامنے جا کھڑے ہوئے محافظ اس طرح کھڑے تھے کہ ایک درویش کے بالکل پیچھے دوسرا اس کے ایک پہلو کی طرف اور تیسرا دوسرے پہلو کی طرف تھا
میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے درویش نے قرآن سالار اوریزی کی طرف بلند کرکے کہا اگر سالار گھوڑے سے اتر آئے تو میں بھی قرآن مجید کی بے ادبی کے گناہ سے بچ جاؤں گا قرآن مجید صرف تمہارے لئے لایا ہوں
سالار اوریزی گھوڑے سے اتر آیا یقیناً اسے اور اس کے محافظوں کو یہی توقع ہوگی کہ یہ درویش یا عالم اچھی نیت سے نہیں آیا باطنیوں نے پہلے تین عمائدین کو اسی طرح قتل کیا تھا اور اب یہ سالار اوریزی کو قتل کرنے آیا ہے جب اوریزی گھوڑے سے اتر کر اس کے سامنے کھڑا ہوا تو تینوں محافظ درویش کے اور زیادہ قریب ہوگئے اور ان کی نظریں اس کے ہاتھوں پر جم گئی
میرے لیے کیا حکم ہے عالم ؟
سالار اوریزی نے پوچھا
حکم دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے درویش نے کہا مجھے کچھ نظر آیا تھا وہ تجھے دکھانے آگیا تیری جسمانی اور تیری دماغی قوت پر مجھے کوئی شک نہیں لیکن تیری روح کو تقویت کے لئے کچھ دینا ہے میں تجھے قتل کرنے نہیں آیا دیکھ لے میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے اور دوسرے ہاتھ میں عصا اگر میں سپاہی ہوتا تو آج تیرے ساتھ جاتا لیکن میری زندگی کا راستہ کوئی اور ہے میں نے تیری فتح کے لیے رات بھر چلّہ کاٹا ہے اللہ نے کرم کیا اور مجھے روشنی کی ایک کرن دکھا دی وہ تیری روح میں ڈالنے آیا ہوں تیرا پورا نام کیا ہے؟
ابن ہاشم اوریزی سالار اوریزی نے جواب دیا
اور تو جا کہاں رہا ہے؟
درویش نے پوچھا قلعہ ملاذخان سالار اوریزی نے جھوٹ بولا
درویش زمین پر بیٹھ گیا وہاں زمین دھول والی تھی اس نے سالار اوریزی کو بھی اشارہ کرکے بٹھا لیا پھر زمین پر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے خاصا بڑا ستارہ بنایا ایک خانے میں اوریزی کا پورا نام لکھا اور اس کے بالمقابل خانے میں ملا ذخان لکھا اس کے بعد اس نے قرآن مجید کھولا اور تھوڑی سی ورق گردانی کرکے ایک آیت پر انگلی رکھی اور وہ آیت بلند آواز سے پڑھی قرآن مجید بند کیا آسمان کی طرف دیکھا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور نیچے ستارے کو دیکھا اس کے تمام خانوں میں کچھ نشان سے لگائے اور پھر سالار اوریزی کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں
تیرے لشکر نے پہلے دو جگہوں پر شکست کا سامنا کیا ہے درویش نے کہا اب تو فتحیاب لوٹے گا درویش نے قرآن اسی جگہ سے کھولا جہاں سے پہلے کھولا تھا اور قرآن مجید اوریزی کے ہاتھوں میں دے کر ایک آیت پر انگلی رکھی اور کہا یہ پڑھ اور اسے زبانی یاد کر لے
سالار اوریزی نے وہ آیت پڑھی اور پھر چند مرتبہ پڑھ کر کہا کہ یہ اسے یاد ہو گئی ہے
اللہ بڑا یا ابلیس؟
درویش نے پوچھا
اللہ! سالار اوریزی نے جواب دیا
جا اللہ تیرے ساتھ ہے درویش نے اٹھتے ہوئے کہا تو نے کہا ہے قلعہ ملاذ خان جا رہا ہے اب یہ خیال رکھنا کہ راستے میں کسی اور طرف کا رخ نہ کر لینا قلعہ ملاذ خان کو ہی محاصرے میں لینا اور اس قلعے کے دروازے تیرے لئے کھل جائیں گے یہ خیال رکھنا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہے
ایسا نہیں ہوگا اے عالم! سالار اوریزی نے کہا میں نے قلعہ ملاذخان کا قصد کیا ہے اور وہی میری منزل ہے
درویش نے قرآن مجید سالار اوریزی کے سر سے ذرا اوپر ایک چکر میں گھمایا
گھوڑا تیرا منتظر ہے درویش نے کہا یہی گھوڑا تجھے فتحیاب واپس لائے گا میں تجھے اللہ کے سپرد کرتا ہوں اسی کی ذات تیری حامی وناصر ہے
سپہ سالار اوریزی گھوڑے پر سوار ہوا گھوڑا لشکر کی طرف موڑا لشکر آگے نکل گیا تھا اب اس کے سامنے سے وہ گھوڑا گاڑیاں بیل گاڑیاں اور اونٹ گزر رہے تھے جن پر لشکر کا سامان وغیرہ لدا ہوا تھا اوریزی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی گھوڑا بڑی اچھی چال دوڑنے لگا اس کے محافظ اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے ان محافظوں کا کماندار اپنے گھوڑے کو سالار اوریزی کے گھوڑے کے پہلو میں لے گیا
سالار محترم! کماندار نے پوچھا کیا ہم واقعی قلعہ ملاذخان جا رہے ہیں آپ نے ہمیں قلعہ وسم کوہ کے متعلق بتایا تھا اور یہی بتاتے رہے ہیں کہ وسم کوہ کے قلعے کی ساخت کیا ہے اور اس کے اردگرد کیا ہے اس کے دروازے کیسے ہیں اور ہم اس قلعے کو کس طرح سر کریں گے قلعہ ملاذخان سے تو ہمارا لشکر واقف ہی نہیں
جہاں تک اس درویش کا تعلق ہے ہم قلعہ ملاذخان ہی جارہے ہیں سالار اوریزی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں قلعہ وسم کوہ جا رہا ہوں
محافظوں کا کماندار کچھ اس طرح اپنا گھوڑا پیچھے لے آیا جیسے وہ اپنے سپہ سالار کی بات سمجھ ہی نہ سکا اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو
درویش سالار اوریزی کو خدا حافظ کہہ کر واپس چلا گیا اور اس نے اپنی چال میں کوئی فرق نہ آنے دیا وہ شہر میں داخل ہوا اور پھر ایک گلی میں گیا اور ایک مکان کے دروازے میں داخل ہوگیا اندر چار پانچ جواں سال آدمی بیٹھے ہوئے تھے
وہ آ گیا ایک آدمی نے کہا پھر درویش سے پوچھا کیا خبر لائے؟
ملاذ خان ہی جارہا ہے درویش نے بیٹھتے ہوئے کہا تصدیق کر آیا ہوں اب ایک آدمی فوراً چل پڑے اور جس قدر جلدی ہو سکے قلعہ المودت پہنچے اور شیخ الجبل کو بتائے کہ سالار اوریزی اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ ملاذخان کو ہی کوچ کر گیا ہے شیخ الجبل نے حکم دیا تھا کہ آخری اطلاع اسے بہت جلدی ملنی چاہیے
میں تیار ہوں ایک جواں سال آدمی نے اٹھ کر کہا گھوڑا بھی تیار ہے میں تمہارے انتظار میں تھا کوئی اور اطلاع ؟
اور کچھ نہیں درویش نے کہا
وہ جواں سال آدمی بڑی تیزی سے وہاں سے چلا گیا اس کا گھوڑا تیار تھا وہ کود کر گھوڑے پر سوار ہوا اور نکل گیا
اس وقت عام خیال یہ تھا کہ اس شہر میں کسی باطنی کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا لیکن حسن بن صباح کا بھیجا ہوا یہ گروہ زندہ وسلامت تھا اور پوری طرح سرگرم تھا انہوں نے اپنے اوپر ایسا دبیز پردہ ڈال رکھا تھا کہ ان پر کسی کو شک ہوتا ہی نہیں تھا یہ سالار اوریزی کی گہری نظر تھی جس نے اس درویش کی اصلیت بھانپ لی تھی ورنہ وہ کون مسلمان ہے جو قرآن سے متاثر نہیں ہوتا سالار اوریزی نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ یہ درویش اس کے پاس آ گیا تھا شکر اس لئے ادا کیا کہ حسن بن صباح کو مصدقہ اطلاع مل جائے گی کہ یہ لشکر قلعہ ملاذ خان کو ہی جا رہا ہے
راستے میں صرف ایک پڑاؤ ہوگا سالار اوریزی نے اپنے نائبین کو حکم دیا یہ پڑاؤ بھی ایک آدھ گھڑی کے لئے ہوگا پوری رات کے لیے نہیں باقی رات کوچ میں گزرے گی اور ہمیں بہت ہی جلدی وسم کوہ پہنچنا ہے
مزمل آفندی اور بن یونس زخمی حالت میں سلطان کے محل کے ایک کمرے میں پڑے ہوئے تھے ان کی جان تو بچ گئی تھی لیکن زخم زیادہ تھے اور خون اتنا بہ گیا تھا کہ ان کا زندہ رہنا ایک معجزہ تھا گو خطرہ ٹل گیا تھا لیکن ابھی تک دونوں بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں ہوئے تھے اچانک شمونہ بڑی تیزی سے دوڑتی ہوئی ان کے کمرے میں داخل ہوئی
مزمل شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی قتل ہوگئے ہیں لاش لائی جا رہی ہے
مزمل اور بن یونس ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھے اور ان کے ساتھ ہی دونوں کی کربناک آہیں نکل گئیں اور وہ پھر لیٹ گئے اس خبر پر تو وہ اٹھ کر باہر نکل جانا چاہتے تھے لیکن زخموں نے انہیں بیٹھنے بھی نہ دیا اور وہ یو لیٹ گئے جیسے گھائل ہو کر گر پڑے ہوں ان دونوں نے شمونہ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ سمیری کہاں قتل ہوا ہے؟
کس طرح قتل ہوا ہے؟
کس نے قتل کیا ہے؟
شمونہ نے انہیں تفصیل سنائی
اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گی شمونہ نے غصے اور جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا میں قلعہ الموت جاونگی اور حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرونگی تم دونوں کو اب گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کی طرح رونا نہیں چاہیے شمونہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اب ہمیں کچھ کرنا پڑے گا سالار اوریزی ایک لشکر لے کر قلعہ وسم کوہ کا محاصرہ کرنے چلے گئے ہیں لیکن میں کہتی ہوں کہ ایک قلعہ سر کرلینے سے کیا حاصل ہو گا ہوسکتا ہے یہ قلعہ سر ہی نہ ہو سکے پہلے ہمارے لشکر شکست کھا کر آ چکے ہیں
ہم سمیری کی شہادت پر آنسو نہیں بہا رہے شمونہ! مزمل نے کہا اپنی اس حالت پر رو رہے ہیں کہ جب ہمیں میدان میں ہونا چاہیے تھا ہم یہاں اس قابل بھی نہیں کہ اپنا وزن بھی سہار سکیں اور تم اتنی زیادہ جذباتی نہ ہو جاؤ کہ عقل سے کام لینا بھی چھوڑ دو کیا میں نے تمہارے ساتھ عہد نہیں کر رکھا تھا کہ ہم نے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے
ہمیں اتنا سا ٹھیک ہونے دو کے چل پھر سکیں بن یونس نے کہا حسن بن صباح ہمارے ہاتھوں مرے گا
شمونہ ان کے پاس بیٹھ گئی اور وہ بہت دیر یہی منصوبے بناتے رہے کہ حسن بن صباح کو کس طرح قتل کیا جا سکتا ہے
تم دونوں نے دیکھ لیا ہے شمونہ نے کہا باطنی اور حسن بن صباح کے فدائی زمین کے اوپر نہیں زمین کے نیچے ملتے ہیں وہ میدان میں لڑنے والے لوگ نہیں بلکہ دوسروں کو میدان میں لا کر ایک دوسرے سے لڑا سکتے ہیں اور انہوں نے یہ کام کر دکھایا میں حسن بن صباح کے پاس رہی ہوں مزمل بھی ان کے یہاں رہ چکا ہے لیکن جو میں جانتی ہوں وہ مزمل تم بھی نہیں جانتے ہمیں زمین کے نیچے نیچے سے حسن بن صباح تک پہنچنا ہے
یہ باتیں ہیں ان باتوں میں ایک عزم تھا عہد تھا اور یہ ان کا ایمان تھا لیکن اس وقت حقیقت یہ تھی کہ حسن بن صباح کا فرقہ آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اسلام کا ہرابھرا شجر سوکھ جائے گا اور اس کی نشوونما رک جائے گی
سلطان کے محل کی سرگوشیاں بھی قلعہ الموت میں حسن بن صباح کو سنائی دیتی تھیں
حسن بن صباح کو جب یہ مصدقہ اطلاع ملی کے سالار اوریزی اپنے لشکر کو قلعہ ملاذ خان کے محاصرے کے لیے لے گیا ہے اس وقت سالار اوریزی وسم کوہ کو محاصرے میں لے چکا تھا حسن بن صباح اس اطلاع پر ذرا سا بھی پریشان نہیں ہوا اس نے قلعہ ملاذ خان کے دفاع کا انتظام پہلے ہی اتنا مضبوط کردیا تھا کہ سالار اوریزی جتنا لشکر اپنے ساتھ لے گیا تھا اس سے دگنا لشکر بھی قلعہ ملاذ خان کو فتح نہیں کر سکتا تھا اس نے وہاں ایک ہزار جانباز بھیج دیے تھے اس کے علاوہ اس نے قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور دور تین جگہوں پر گھات کا بندوبست بھی کر دیا تھا
سالار اوریزی کو توقع تھی کہ وہ قلعہ وسم کوہ کو بڑی آسانی سے لے لے گا لیکن اس نے جب محاصرہ کیا تو قلعے کی دیواروں پر ہزاروں انسانوں کا ہجوم نظر آنے لگا اس ہجوم نے تیروں کا مینہ برسا دیا سالار اوریزی اپنے لشکر کو پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوگیا اور قلعہ توڑنے کے منصوبے سوچنے لگا وہ اتنا جان گیا کہ یہ قلعہ آسانی سے نہیں لیا جا سکے گا اور محاصرہ طول کھینچے گا
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ حسن بن صباح کا انداز ایسا تھا جیسے اسے کوئی غم نہیں کہ کوئی قلعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اس نے اپنے خاص آدمیوں سے کہا کہ اپنے دشمن کے مذہبی اور معاشرتی سربراہوں کو ختم کردو مورخ لکھتے ہیں کہ اسے یہ توقع ذرا کم ہی تھی کہ اس کے فدائی ابومسلم رازی اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری جیسے اہم ترین سربراہوں کو اتنی آسانی سے قتل کر دیں گے فدائیوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا تو حسن بن صباح نے حکم دیا کہ یہی کام جاری رکھو اور دشمن کے کسی بھی حکمران کو اور کسی عالم دین کو زندہ نہ رہنے دو حسن بن صباح اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا لیکن وہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتا تھا تو اس سے اس کی مراد مسلماں ہی ہوتے تھے وہ کسی کے قتل کا حکم دیتا تو اس انداز سے بولتا تھا جیسے اس کی زبان سے خدا بول رہا ہو اس کے پیروکار مان گئے تھے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اسے ہر حکم خدا کی طرف سے ملتا ہے
ابومسلم رازی ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی اور عبدالرحمن سمیری کے قتل کے فوراً بعد جو اہم ترین شخصیت باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں اگر قارئین کو ہر قتل کی تفصیل سنائی جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے ایک ہی واردات ایک ہی جیسے الفاظ میں دہرائی جا رہی ہے باطنیوں کا طریقہ قتل ایک ہی جیسا تھا وہی طریقہ تھا جس سے ابومسلم رازی اور دوسرے سربراہوں کو قتل کیا گیا تھا مشہورومعروف تاریخ نویس ابن جوزی نے لکھا کے چند دنوں میں ہی حسن بن صباح کے فدائیوں نے حاکم دیار بقر اتامک مؤدود کو قتل کیا اور اس کے فورا بعد ابوجعفر شاطبی رازی ابوعبید مستوتی ابوالقاسم کرخی اور ابوالفرح قراتکین کو قتل کیا کچھ دنوں کا وقفہ آیا اور پھر ابلیس کے فدائیوں نے قاضی کرمان امیر بلکابک سرامر اصفہانی اور قاضی عبداللہ اصفہانی کو قتل کیا قتل کی ہر ورادات میں طریقہ قتل ایک ہی استعمال کیا گیا وہ اس طرح کہ فدائی بھیس بدل کر کسی بہانے مقتول تک رسائی حاصل کرتا اور اچانک خنجر نکال کر اسے قتل کر دیتا بیشتر اسکے کہ اسے پکڑا جاتا وہ خودکشی کر لیتا
اس کے بعد باطنی فدائیوں نے ایک طریقہ اور اختیار کیا دو مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے فدائیوں نے سلجوقی فوج کے سالاروں اور نائب سالاروں کو یوں وارننگ دی کہ ان کے گھروں میں رقعے پھینک دیے جن پر تحریر تھا کہ شیخ الجبل امام حسن بن صباح کی اطاعت قبول کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لو ورنہ تمہارا حشر وہی ہوگا جو پہلے کچھ حاکموں امیروں اور علماء دین کا کیا جاچکا ہے ظاہر ہے کہ کسی بھی سالار یا ماتحت کماندار نے حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرنی تھی ان سب نے یہ تحریری جو ان کے گھروں میں پھینکی گئی تھی سلطان برکیارق کو دکھائیں
ان ابلیسوں کی دھمکیوں کو کھوکھلے الفاظ نہ سمجھنا سلطان برکیارق نے سالاروں سے کہا ایک احتیاط یہ کرو کہ کوئی سالار اکیلا کہیں بھی نہ جائے اس کے ساتھ تین چار محافظ ہونے چاہیے رات کو اپنے گھروں کے اردگرد پہرے کھڑے کر دو اپنے آپ کو کسی بھی وقت غیر مسلح نہ رکھو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے قلعوں پر قبضہ کریں گے تم جانتے ہوکہ سالار اوریزی وسم کوہ گیا ہوا ہے اس کے ساتھ ہی ہم نے باطنیوں کا جو قتل عام کروایا ہے وہ کافی نہیں یہ تحریر جو تم سب تک پہنچائی گئی ہے ثبوت ہے کہ باطنی یہاں موجود ہیں اور زمین کے نیچے نیچے پوری طرح سرگرم ہیں میرے مخبر اپنا کام کر رہے ہیں تم اپنے مخبروں کو سرگرم کردو
تاریخوں میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ تمام سالاروں ان کے نائبین اور اہم قسم کے ماتحت کمانداروں نے اپنے آپ کو رات کے وقت بھی مسلح رکھنا شروع کر دیا انہوں نے اپنے گھروں پر پہرے دار مقرر کر دیئے جو رات بھر مکانوں کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے سالاروں نے اپنے مخبر سارے شہر میں پھیلا دیے تھے
پچھلے کسی سلسلے میں ایک سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا تفصیلی ذکر آیا ہے مقتولین کی مندرجہ بالا فہرست میں بھی ایک ابو جعفر کا نام شامل ہے یہ ابوجعفر کوئی عالم دین تھا اور حسن بن صباح کے خلاف عملی طور پر سرگرم رہتا تھا ایک فدائی نے اس کا مرید بن کر اسے قتل کر دیا تھا اب میں آپ کو جس ابوجعفر حجازی کا ذکر سنا رہا ہے ہوں یہ سلطان کی فوج کا یعنی سلطنت سلجوقیہ کے لشکر کا سپہ سالار تھا پہلے بیان کر چکا ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کا خوشامدی تھا اور اس کا ہر غلط حکم بھی بسروچشم مانتا اور اس کی تعمیل کرتا تھا سالار اوریزی کے ساتھ اس کی خاص دشمنی تھی اور اوریزی کو اس نے گرفتار تک کرلیا تھا یہ ساری تفصیل پہلے چند سلسلوں میں سنائی جا چکی ہے
سلطان برکیارق کو اللہ تبارک وتعالی نے روشنی دکھائی اور وہ راہ راست پر آ گیا تو اس نے وہ اہمیت جو کبھی سپہ سالار حجازی کو دیا کرتا تھا سالار اوریزی کو دینی شروع کر دی تھی
سلطان محترم! ایک روز خانہ جنگی کے کچھ دن بعد سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کے یہاں گیا اور کہا گستاخی کی معافی پہلے ہی مانگ لیتا ہوں ایک بات جو دل میں کھٹک رہی ہے وہ ضرور کہوں گا ایک وقت تھا کہ آپ چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر سلطنت کے بڑے سے بڑے مسئلے کے بارے میں میرے ساتھ بات کرتے اور میرے مشورے طلب کیا کرتے تھے مگر میں اب وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے مجھے بالکل ہی نظرانداز کر دیا ہے اور یوں پتہ چلتا ہے کہ سالار اوریزی نہ ہوا تو سلطنت سلجوقیہ کی بنیادیں ہل جائیگی
محترم ابو جعفر! سلطان برکیارق نے کہا آپ میرے والد مرحوم کے وقتوں کے سالار ہیں میرے دل میں آپ کا درجہ روحانی باپ جیسا ہے آپ کا شکوہ بجا ہے کہ میں اب آپ کو وہ قدرومنزلت نہیں دیتا جو کسی وقت دیا کرتا تھا آپ نے دل کی بات کہی ہے اور صاف صاف کہی ہے اور یہ بات مجھے پسند ہے ایسی ہی میں دل کی گہرائیوں سے بات نکالوں گا اور آپ سے کروں گا آپ جس وقت کی بات کرتے ہیں اس وقت میں گمراہ ہوگیا تھا یا گمراہ کر دیا گیا تھا آپ کو تو معلوم ہے کہ ایک حسین و جمیل اور پرکشش لڑکی نے مجھ پر اپنے حسن و جوانی کا جادو اور حشیش کا نشہ طاری کر دیا تھا اس وقت آپ نے مجھے جھنجوڑا نہیں بیدار نہیں کیا بلکہ میری خوشامد کی اور میرا ہر وہ حکم بھی بسروچشم مانا جو سلطنت کے مفاد کے خلاف تھا اللہ نے مجھے اور میری روحانی قوتوں کو بیدار کر دیا تو مجھے پتا چلا کہ یہ سیاہ اور وہ سفید ہے یہ غلط اور وہ صحیح ہے اور اس وقت مجھے پتہ چلا کہ مجھے گمراہ کیے رکھنے میں آپ کا بھی ہاتھ ہے میرے دل میں اگر آپ کا احترام نہ ہوتا تو میں کبھی کا آپ کو جلاد کے حوالے کر چکا ہوتا میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ میرے دل میں آپ اپنا یہ احترام قائم رکھنے کی کوشش کریں گے میں آپ کو صرف ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں جو آپ فوراً سمجھ جائیں گے وہ یہ کہ دل میں خوشنودی اللہ کی رکھیں اپنے حاکم کی یا اپنے سلطان کی نہیں کیا آپ نے یہ حدیث مبارکہ نہیں سنی کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے منہ پر کلمہ حق کہنا ہے مگر آپ نے جابر سلطان کو خوش رکھنے کے جتن کئے اور اللہ کی ذات باری کو نظرانداز کیے رکھا یہ گناہ تھا میرے بزرگوار
کیا آپ میرے بدلے ہوئے کردار کو قبول کریں گے؟
سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا میں آپ کا یہ الزام تسلیم کرتا ہوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ آپ پر کون سا جادو چلایا جارہا تھا لیکن یہ میری لغزش تھی یا گناہ تھا کہ میں نے آنکھیں بند کئے رکھیں اور آپ کی خوشامد میں لگا رہا لیکن سلطان محترم اس خانہ جنگی نے اور اس خون کے دریا نے جو ہم لوگوں نے ایک دوسرے کا بہایا ہے میری روح کو اسی طرح بیدار کردیا ہے جس طرح آپ کی روح بیدار ہوئی ہے مجھے موقع دیں میں اب آپ کو نہیں اللہ کی ذات باری کو راضی کروں گا
اس کے بعد سپہ سالار حجازی نے جیسے عہد کرلیا ہو کہ وہ کسی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑے گا باطنیوں کا جو قتل عام کیا گیا تھا اس میں سپہ سالار حجازی کا خاصہ ہاتھ تھا اس میں قومی جذبہ پیدا ہو گیا تھا
ابوجعفر حجازی سپہ سالار تھا اور وہ جس مکان میں رہتا تھا وہ چھوٹا سا ایک محل تھا وہاں دو تین نوکر تھے ایک ملازمہ تھی اور دو تین سائیس تھے حجازی نے بھی اپنی حفاظت کے انتظامات بڑے سخت کر دیے تھے اور رات کے وقت دو چوکیدار اس کے مکان کے اردگرد گشت کرتے رہتے تھے اس نے فوج کی تربیت یافتہ مخبروں کو سارے شہر میں پھیلا رکھا تھا اور انہیں سختی سے کہا تھا کہ زمین کے نیچے سے بھی باطنیوں کو نکال کر لاؤ اور میرے سامنے کھڑے کر دو اس نے کئی ایک باطنیوں کو اپنے سامنے قتل کروایا تھا لیکن باطنی جو بچ گئے وہ زمین کے نیچے چلے گئے تھے حجازی اب انہیں زمین کے نیچے سے نکالنے کے لیے سرگرم ہوگیا تھا
ایک روز اس کا ایک مخبر اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس کے سائیسوں میں ایک سائیس مشکوک ہے اس مخبر کو تین آدمیوں نے بتایا تھا کہ یہ سائس باطنی معلوم ہوتا ہے ان آدمیوں نے اسکے متعلق کچھ اور باتیں بھی بتائی تھیں وہاں یہ عالم تھا کہ زیادہ گہرائی سے تحقیقات کی ہی نہیں جاتی تھی بہت سے آدمی تو محض شک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے سپہ سالار حجازی نے اپنے اس مخبر سے کہا کہ وہ اس سائیس کے متعلق کچھ اور شہادت حاصل کرنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ہی حجازی نے اپنے ذاتی اصطبل کے دو سائیسوں کو بلا کر کہا کہ وہ اس سائیس پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ وہ جب گھر جاتا ہے تو اس کے گھر کے اندر کیا ہوتا ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ اس کے گھر کا ماحول کیسا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا سارا کنبہ باطنی ہو یہ سائیس حجازی کا ذاتی سائیس تھا اس کے اصطبل میں چھ سات گھوڑے تھے جن میں ایک گھوڑا اسے بہت ہی پسند تھا اور وہ عموما اس پر ہی سواری کیا کرتا تھا وہ سائیس اس گھوڑے پر مقرر تھا اور اس پر حجازی کو پورا پورا بھروسہ تھا وہ تجربےکار سائیس تھا اس سائیس کا باطنی ہونا کوئی عجوبہ نہیں تھا وہاں تو کوئی بھی شخص باطنی ہوسکتا تھا حسن بن صباح کا طلسم دور دور تک اور کونوں کھدروں تک بھی پہنچ گیا تھا
حجازی اصطبل میں اتنا زیادہ نہیں جایا کرتا تھا کبھی کبھی جا نکلتا اور گھوڑوں کو دیکھ کر واپس آجاتا تھا اس نے اپنی حفاظت کا اتنا سخت انتظام کر رکھا تھا کہ وہ اصطبل تک جاتا تو بھی اس کے ساتھ دو محافظ ہوتے تھے باہر نکلتا تو کئی محافظ اس کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں اس کے ساتھ چلتے تھے کوئی اجنبی اس کے قریب نہیں آسکتا تھا اسے قتل کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا تھا ان حالات میں جب اسے یہ اطلاع دی گئی کہ اس کا ذاتی سائیس باطنی ہے اور وہ کسی بھی وقت وار کر سکتا ہے وہ چوکس ہوگیا اس نے اپنی حفاظت کے جو انتظامات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ گھر کا کوئی ملازم اور سائیس اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا بلکہ چھوٹا سا ایک چاقو بھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی
سائیس جب صبح اصطبل میں آتے تھے تو پہنے ہوئے کپڑے اتار کر کام والے کپڑے پہن لیا کرتے تھے ایک روز سپہ سالار حجازی تیار ہو کر باہر نکلا ہی تھا کہ ایک آدمی دوڑا آیا وہ اس کے گھر کا ہی ایک خاص ملازم تھا بلکہ معتمد خاص تھا اس نے حجازی کو بتایا کہ اس کا ذاتی سائیس آج پکڑا گیا ہے بتایا یہ گیا کہ وہ اپنے کپڑے اتار کر الگ رکھ رہا تھا تو ایک سائیس نے اس کے کپڑوں میں خنجر دیکھ لیا
محترم سپہ سالار! اس معتمد ملازم نے کہا اسے ابھی پتہ نہیں چلنے دیا گیا کہ اس کا خنجر دیکھ لیا گیا ہے آپ خود چل کر دیکھیں
سپہ سالار ابوجعفر حجازی اسی وقت ملازم کے ساتھ چل پڑا اصطبل میں جا کر اس نے اپنے سائیس کو بلایا اور اسے کہا کہ اپنا خنجر اس کے حوالے کردے
خنجر ؟
سائنس نے حیرت زدگی کی کیفیت میں پوچھا محترم سپہ سالار کون سا خنجر؟
کیسا خنجر؟
وہ خنجر جو تم نے اپنے کپڑوں میں چھپا رکھا ہے حجازی نے کہا خود ہی وہ خنجر لے آؤ
میں آپ کا بڑا ہی پرانا خادم ہوں سپہ سالار سائیس نے کہا آپ کا حکم ہے کہ کوئی سائیس کیا دوسرا ملازم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا مجھے اپنے پاس خنجر رکھنے کی کیا ضرورت تھی اگر آپ کو شک ہے تو میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ میرے کپڑے کہاں رکھے ہیں خود چل کر دیکھ لیں
سپہ سالار حیجازی اس کے ساتھ چل پڑا سائیس نے اپنے کپڑے اس کمرے میں رکھے ہوئے تھے جہاں باقی سائیس اپنے کپڑے اتار کر رکھتے اور کام والے کپڑے پہنتے تھے سائنس نے اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ اس کے کپڑے پڑے ہیں دیکھ لئے جائیں
حجازی خود گیا اور اس کے کپڑے اٹھائے تو اس میں سے ایک خنجر نکلا حجازی نے خنجر نیام سے نکال کر دیکھا اس نے حسن بن صباح کے فدائین کے خنجر دیکھے تھے غالبا ان پر کوئی نشان ہوتا ہوگا جو حجازی نے دیکھ لیا اس سے اسے یقین ہو گیا کہ اس کا سائیس باطنی ہے اور آج وہ اسے قتل کرنے کے لیے خنجر لایا تھا
سائیس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ یہ خنجر اسکا نہیں نہ وہ اسے اپنے ساتھ لایا تھا اس نے یہ بھی کہا کہ کسی دشمن نے یہ خنجر اس کے کپڑوں میں رکھ دیا ہے
یہاں تمہارا دشمن کون ہو سکتا ہے؟
حجازی کے ایک محافظ نے اس سے پوچھا کیا تم اپنا کوئی دشمن دکھا سکتے ہو؟
سائیس نےاب رونا شروع کردیا اور وہ حجازی کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے پیروں پر ماتھا رگڑنے لگا وہ رو رو کر کہتا تھا کہ یہ خنجر اسکا نہیں لیکن حجازی اسے بخشنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا
حجازی نے خنجر اپنے ایک محافظ کو دیا اور اشارہ کیا محافظ اشارہ سمجھ گیا وہ سائیس کی طرف بڑا سائیس کے چہرے پر خوف و ہراس کے تاثرات نمودار ہوئے اور اس کی آنکھیں اور زیادہ کھل گئی محافظ نے دو تین قدم تیزی سے اٹھائے اور یکے بعد دیگرے سائیس کے سینے میں خنجر کے دو وار کئے سائیس گرا اور ذرا سی دیر بعد اس کی آنکھیں پتھرا گئیں حجازی نے کہا کہ اس کی لاش اس شہر سے دور جنگل میں پھینک دی جائے
دو دن گزرے ہوں گے کہ سپہ سالار حجازی کو اطلاع دی گئی کہ ایک آدمی اسے ملنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ تجربے کار سائیس ہے اور کچھ عرصہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت بھی کر چکا ہے حجازی کو ایک سائیس کی ضرورت تھی اس لئے اس نے اس آدمی کو بلا لیا محافظوں نے اس آدمی کی جامع تلاشی اچھی طرح کی اور حجازی کے پاس لے گئے حجازی نے اس سے پوچھا کہ وہ کتنا کچھ تجربہ رکھتا ہے
اس شخص نے حجازی کو بتایا کہ وہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت کر چکا ہے اور اس نے دو لڑائیاں بھی لڑی تھی اس نے اپنے جسموں پر تلواروں کے زخموں کے دو نشان دکھائے اور کہا کہ ان زخموں کی وجہ سے وہ فوج کے قابل نہیں رہا تھا لیکن سائیس کا کام خوش اسلوبی سے کرسکتا ہے مختصر یہ کہ اس شخص نے حجازی کو قائل اور متاثر کرلیا اور حجازی نے حکم دیا کہ اسے اصطبل میں رکھ لیا جائے
اس نئے سائیس نے اتنا اچھا رویہ اختیار کیا کہ اصطبل کے دوسرے سائیس اس کی تعریفیں کرنے لگے وہ خوش طبع خوش اخلاق اور حلیم قسم کا آدمی تھا ہر کسی کے ساتھ پیار سے بات کرتا تھا اور اپنے کام میں تو وہ بہت ہی ماہر تھا
دو تین دنوں بعد سپہ سالار حجازی اصطبل میں گھوڑے دیکھنے کے لیے گیا اس نے اپنا وہ گھوڑا دیکھا جو اس کا منظور نظر تھا اس نے اس گھوڑے کی دیکھ بھال بڑی محنت سے کی تھی حجازی نے اس گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا نیا سائیس اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور اس گھوڑے کی صفات بیان کرنے لگا اچانک سائیس نے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور پیشتر اس کے کہ حجازی کے دونوں محافظ اس تک پہنچتے اس کا خنجر حجازی کے دل میں اتر چکا تھا
سائیس محافظوں سے بچنے کے لیے دوڑ کر گھوڑے کی دوسری طرف ہوگیا اور خون اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا تب پتہ چلا کہ یہ تو باطنی تھا
مرو شہر کا وہی مکان تھا جس میں وہ درویش داخل ہوا تھا جس نے سالار اوریزی کو قرآن مجید کھول کر ایک آیت پڑھائی اور کہا تھا کہ یہ یاد رکھنا اور اس کا ورد کرتے ہوئے جانا فتح تمہاری ہوگی اس مکان کے اندر وہی درویش اپنے تین چار ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ باہر والا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور ان کا ایک ساتھی دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا
لو بھائیو! اس آدمی نے کہا کام ہو گیا ہے ہمارے فدائی نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو قتل کرکے اپنے آپ کو بھی مار لیا ہے
پہلے سائیس کو مروانے والے باطنی ہی تھے اس سائیس کے کپڑوں میں خنجر باطنیوں نے ہی رکھوآیا تھا اور پھر دوسرا سائیس صرف باطنی ہی نہیں بلکہ فدائ تھا
یہ ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ تاریخوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں مرو کہ معاشرے میں کئی سرکردہ افراد تھے جو باطنیوں کے خلاف سرگرم ہو گئے تھے انہیں قتل کرنا ضروری تھا لیکن ان سب نے اپنی حفاظت کے انتظامات کرلیے تھے اور وہ جہاں بھی جاتے ان کے ساتھ محافظ ہوتے تھے اس صورتحال میں انہیں قتل کرنا آسان نہیں تھا ان کے قتل کا یہی طریقہ اختیار کیا گیا جو حجازی کو قتل کرنے کے لئے آزمایا گیا تھا کوئی فدائی کسی سرکردہ آدمی کے یہاں مظلوم اور غریب بن کر ملازمت حاصل کر لیتا اور موقع پا کر اپنے شکار کو قتل کردیتا تھا دہی علاقوں میں قبیلوں کے سردار تھے جو حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے نہ اپنے قبیلے کے کسی شخص کو ایسی اجازت دیتے تھے کسی پر شک ہو جاتا کہ اس کا ذہن یا رحجان باطنیوں کی طرف ہو رہا ہے تو قبیلے کا سردار اسے قتل کروا دیتا تھا ان سرداروں نے بھی اپنے ساتھ محافظ رکھ لئے تھے انہیں قتل کرنے کا بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اصفہان کو اپنا مرکز بنانا چاہتا تھا تاریخوں کے مطابق اس نے اپنے بے شمار فدائ اور دیگر پیروکار اصفہان بھیج دیے تھے حسن بن صباح نے اصفہان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا ایک اور طریقہ اپنے فدائین کو بتایا مرو میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ ایک مسلمان قتل ہوتا تھا تو اس کے بدلے تین باطنیوں کو قتل کردیا جاتا تھا حسن بن صباح نے اپنے فدائین کو یوں سمجھایا کہ وہ ایک ایک دو دو مسلمانوں کو ایسے قتل کریں کہ ان کی لاشیں نہ ملے اور پتہ ہی نہ چلے کہ وہ قتل ہوگئے ہیں
اصفہان کے ایک حصے میں مکان بہت ہی پرانے تھے جن میں کافی لوگ رہتے تھے گلیاں تنگ تھی اور مکانوں کی دیواریں اور چھتیں بوسیدہ ہو گئی تھیں ایک گلی کے سرے پر ایک اندھا کھڑا نظر آنے لگا وہ اپنے قریب سے گزرتے کسی آدمی کی آہٹ سنتا تو اسے روک لیتا اور کہتا کہ اللہ کے نام پر اسے اس گلی میں ایک جگہ تک پہنچا دے
وہ آدمی اسے اندھا سمجھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور آگے آگے چل پڑتا اندھا اسے کہتا کہ آگے ایک گلی دائیں کو مڑتی ہے اسے اس گلی کے ایک مکان تک پہنچا دیں
یوں وہ شخص اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس گلی کے وسط تک جاتا ایک مکان سے دو تین آدمی نکلتے اور اس آدمی کو پکڑ کر مکان کے اندر لے جاتے اور اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر ڈالتے وہ شخص اندھا نہیں ہوتا تھا گلی میں سے گزرتے ہوئے آدمیوں کو دیکھ سکتا تھا اور پہچان لیتا کہ یہ باطنی نہیں مسلمان ہے اس طرح ایک آدمی کو مروا کر وہ کہیں اور چلا جاتا اور اسی طرح کسی اور آدمی کو اپنا ہاتھ پکڑوا کر اس کے پیچھے چل پڑتا اس کے بعد وہ آدمی کسی کو نظر نہ آتا
ایک مہینے میں بےشمار مسلمان لاپتہ ہو گئے اور شہر بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا ابن اثیر نے لکھا ہے کہ کسی گھر کا کوئی آدمی شام تک گھر واپس نہیں پہنچتا تھا تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی تھی اس کے گھر والے یہ سمجھ لیتے کہ وہ غائب ہوگیا ہے لیکن اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں مل رہا تھا کہ یہ اتنے زیادہ آدمی کہاں لاپتہ ہوگئے ہیں اس زمانے میں بھی روحانی عامل قافیہ شناس اور نجومی موجود تھے لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے معلوم کریں کہ کیا ان لوگوں کو جنات اٹھا کر لے گئے ہیں یا وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں روحانی عاملوں کو کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا صرف ایک عامل نے بتایا کہ جتنے آدمی لاپتہ ہو چکے ہیں ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں لیکن وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ وہ آدمی موت تک کس طرح پہنچیں اور موت کی آغوش میں انہیں کون لے گیا تھا
ایک روز ایک اندھا ایسے ہی ایک آدمی کو روک کر اسے اپنے ساتھ لے گیا یہ آدمی بھی اس دھوکے میں آگیا تھا کہ یہ اندھا بیچارہ مجبور ہے اس لیے اسے اس کے ٹھکانے تک پہنچانا کار ثواب ہے اس کے بعد یہ آدمی کسی کو نظر نہیں آیا لیکن ایک بات یوں ہوئی کہ ایک آدمی نے اسے اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک گلی کے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا اس نے کئی لوگوں کو بتایا کہ گم ہونے والے شخص کو ایک اندھا اپنی رہنمائی کے لیے ایک گلی کے اندر لے گیا تھا
اسی روز یا اگلے روز اس آدمی نے جس نے اس بد قسمت آدمی کو اندھے کے ساتھ دیکھا تھا تین چار آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں ایک جگہ چھپا کر اکیلا آگے گیا اور اندھے کے قریب سے گزرا اندھے نے اسے روک لیا اور کہا کہ وہ اس گلی میں جانا چاہتا ہے لیکن وہ خود راستہ نہیں دیکھ سکتا اللہ کے نام پر اسے اس کے گھر تک پہنچا دیا جائے
اس شخص نے اس کا بازو پکڑ لیا اور گلی میں داخل ہوگیا اس کے جو ساتھی پیچھے چھپے ہوئے تھے وہ دیکھ رہے تھے جب اندھا اس آدمی کے ساتھ گلی کے اندر چلا گیا تو یہ سب آدمی اس گلی تک آگئے اور گلی میں اس وقت داخل ہوئے جب اندھا اس آدمی کو یہ کہہ رہا تھا کہ دائیں طرف والی گلی میں جانا ہے وہ شخص اسے اس گلی میں لے گیا
اس شخص کے ساتھی دبے پاؤں وہاں تک پہنچ گئے جہاں سے گلی دائیں کو مڑتی تھی جب اندھا اس مکان تک پہنچا تو روک گیا اندر سے تین آدمی نکلے اور اس شخص کو پکڑ لیا اس کے چھپے ہوئے ساتھی تلوار نکال کر دوڑتے ہوئے پہنچے اور ان آدمیوں کو تلواروں پر رکھ لیا وہ سب اندر کو بھاگ رہے تھے لیکن وہ تینوں اور اندھا بھی تلواروں سے کٹ مرے مکان کے اندر گئے تو صحن میں ایک جگہ لکڑی کے تختے رکھے ہوئے تھے اور ان پر کچھ سامان پڑا ہوا تھا
وہ بہت ہی پرانے زمانے کا مکان تھا اندر اس قدر بدبو تھی کہ ٹھہرا نہیں جاسکتا تھا لیکن یہ بدبو بتا رہی تھی کہ اس مکان میں مردار گل سڑ رہے ہیں یا انسانوں کی لاشیں پڑی ہیں مکان بالکل خالی تھا کمروں میں دیکھا گیا لیکن کچھ سراغ نہ ملا ایک آدمی کے کہنے پر لکڑی کے تختے ہٹائے گئے تو دیکھا کہ ان کے نیچے ایک گہرا گڑھا کھودا ہوا تھا جس میں بے انداز لاشیں پڑی ہوئی تھیں اوپر والی لاش تازہ لگتی تھی اور بدبو سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے نیچے لاشیں گل سڑ رہی ہیں اور مکان میں ان کی بد بو پھیلی ہوئی تھی
ایک تو یہ طریقہ تھا کہ اس سے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو غائب کر دیا گیا تھا ان میں سے کچھ کی لاشیں اس گڑھے میں سے ملیں اور کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ کتنے مکانوں میں ایسے اور گڑھے ہونگے جن میں لاپتہ ہونے والے مسلمانوں کی لاشیں پڑی ہونگی
مسلمانوں کے غائب ہونے کا سلسلہ روکا نہیں بلکہ چلتا رہا کچھ سراغ نہیں ملتا تھا کہ وہ کہاں غائب کیے جا رہے ہیں مسلمان اتنے بھڑکے ہوئے تھے کہ شہر میں انہیں کوئی نابینا نظر آتا تھا تو اسے قتل کر دیتے تھے پھر بھی مسلمان غائب ہوتے رہے ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا گیا جس کا سراغ مل گیا سراغ یوں ملا کہ ایک آدمی علی الصبح فجر کی اذان سن کر مسجد کو جارہا تھا تو اسے یوں نظر آیا جیسے دو تین آدمی کسی آدمی کو گھسیٹ کر ایک مکان کے اندر لے جارہے ہوں وہ نہتّہ تھا اس لیے اس نے اس آدمی کو چھڑانے کی کوشش نہ کی اس کی بجائے اس نے یہ کارروائی کی کہ مسجد میں جب نمازی اکٹھے ہوئے تو اس نے نمازیوں کو بتایا کہ ایک مکان پر اسے شک ہے اور اس نے جو دیکھا تھا وہ انہیں بتایا نماز کے بعد یہ خبر مسلمانوں کے محلوں میں پھیل گئی اور ایک ہجوم اس مکان کے سامنے اکٹھا ہوگیا
اس ہجوم میں زیادہ تر آدمی تلواروں سے مسلح تھے دروازے پر دستک دی گئی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا آخر یہ لوگ اندر چلے گئے یہ قدیم وقتوں کی حویلی تھی جو غیرآباد نظر آتی تھی اس کے تمام کمروں میں جاکر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہاں بھی بدبو تھی جو صاف پتہ چلتا تھا کہ انسانی لاش یا لاشوں کی ہے ادھر آؤ ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا اس کنوئیں میں دیکھو حویلی کا صحن خاصہ کشادہ تھا اور اس کے ایک کونے میں کنواں تھا کنویں میں جھک کر دیکھا تو آدھا کنواں لاشوں سے بھرا پڑا تھا اوپر سے دو تین لاش نکالی گئی یہ ابھی خراب نہیں ہوئی تھیں ان میں ایک لاش کا خون بالکل تازہ تھا یہ وہی آدمی ہوگا جسے اس شخص نے دیکھا تھا کہ گھسیٹ کر اندر لے جارہے ہیں ان چند ایک لاشوں کے بعد کوئی اور لاشیں نہ نکالی گئیں کیوں کہ دانشمند بزرگوں نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ نیچے لاشوں کی حالت بہت ہی بری معلوم ہوتی ہے نہ ہی نکالی جائیں تو بہتر ہے ورنہ ان کے پسماندگان کے دلوں کو بہت ہی صدمہ پہنچے گا چنانچہ اس کنوئیں کو مٹی سے بھر دیا گیا یہ تو بتایا ہی نہیں جاسکتا کہ اس کنوئیں میں کتنی سو لاشیں پڑی ہوئی ہیں…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:40 }
اس دوران ان باطنیوں نے جن اہم شخصیتوں کو قتل کیا ان کے نام یہ ہیں (امیر اسد ملک شاہی) (امیر بخش) اور (امیر سیاہ پوش) یہ تینوں مختلف علاقوں کے امیر تھے اور انہوں نے حسن بن صباح کے خلاف اپنا اپنا محاذ قائم کر رکھا تھا امیر سیاہ پوش ہمیشہ کالے رنگ کے کپڑے پہنتے اور دن رات کا زیادہ تر وقت عبادت اور تلاوت قرآن میں گزارتے تھے باطنیوں کو قتل تو کیا جارہا تھا لیکن امیر سیاہ پوش پہلے امیر اور عالم دین تھے جس نے باقاعدہ فتوی دیا تھا کہ حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کا قتل گناہ نہیں بلکہ کار ثواب ہے
اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے چند اور شخصیتوں کو قتل کیا گیا ان میں (امیر یوسف) کے معتمد خاص (طغرل بیگ) (امیر ارعش اور ہادی علی گیلانی) خاص طور پر شامل ہیں پھر انہوں نے منقرقہ والی دہستان اور (سکندر صوفی قروینی) کو بھی قتل کیا
مندرجہ بالا مقتولین میں ایک خصوصی اہمیت کا حامل تھا وہ سلطان ملک شاہ مرحوم کا غلام ہوا کرتا تھا ملک شاہ نے جب حسن بن صباح اور اس کے خلاف انسدادی مہم شروع کی تھی تو اس غلام نے کسی کے حکم کے بغیر ہی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بہت سے باطنیوں کو قتل کیا تھا اور ایسے طریقے وضع کیے کہ باطنیوں کے لیے کم ازکم مرو میں ٹھہرنا مشکل ہوگیا تھا سلطان ملک شاہ مرحوم نے دیکھا کہ اس شخص کو اس نے غلام بنا رکھا ہے لیکن اس میں عقل و دانش خصوصی طور پر قابل تعریف ہے ملک شاہ نے اسے چھوٹے سے ایک علاقے کا امیر بنا دیا اس نے اپنے علاقے میں کسی باطنی کو زندہ نہ چھوڑا اور اپنا سارا علاقہ ان ابلیسوں سے پاک کر دیا لیکن حسن بن صباح نے اس کے قتل کا خصوصی حکم دیا اور ایک فدائی نے اسے ایک مسجد میں دھوکے میں قتل کردیا اور خودکشی کرلی
اصفہان میں ایک مشہور ومعروف عالم دین تھے جن کا نام شیخ مسعود بن محمد خجندی فقیر شافعی تھا ان کے پیروکاروں کا حلقہ بہت دور دور تک پھیلا ہوا تھا ان کا واعظ اور خطبہ سننے کے لیے لوگ اکثر دور کا سفر کرکے آیا کرتے تھے اس عالم دین اور فقیر نے جب دیکھا کہ باطنی علماء کو قتل کر رہے ہیں تو اس نے ایک خطبے میں انتقامی وار کا اعلان کر دیا یہ دوسرے عالم دین تھے جس نے خطبے میں یہ فتوی دیا کہ حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کا قتل ہر مسلمان پر فرض ہے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کی ادائیگی میں پس و پیش کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ ابلیس کی جان کا محافظ ہے یہ گناہ کبیرہ ہے اس عالم دین نے یہ انتقامی کاروائی کی کہ شہر کے باہر چار پانچ جگہوں پر کشادہ اور گہرے گڑھے کھودوا دیے ان سب میں لکڑیاں پھینک کر آگ لگادی اور یہ آگ ہر وقت جلتی رہتی تھی لوگوں کے دلوں میں شیخ مسعود خجندی کا احترام بلکہ عقیدت اس قدر زیادہ تھی کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو لوگ برحق سمجھتے اور اس کے کہے ہوئے ہر لفظ کو حکم کا درجہ دیتے تھے لوگوں نے اپنے کام کاج چھوڑ کر یہ گڑھے کھودے اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائے اور ان گڑھوں میں پھینکی اور آگ لگائی
اگلا کام یہ تھا کہ شہر میں مخبر اور جاسوس پھیلا دیئے گئے جو باطنیوں کی نشاندہی کرتے تھے اصفہان میں باطنی کوئی تھوڑی تعداد میں نہیں تھے ایک مورخ نے تو لکھا ہے کہ اصفہان کی تقریبا آدھی آبادی باطنیوں کی تھی مسلمانوں کو جہاں پتہ چلتا کہ یہاں باطنی رہتا ہے وہاں ہلّہ بولتے اور باطنی ایک ہاتھ آجائے دو آجائے یا اس سے زیادہ پکڑے جائیں ان سب کو گھسیٹتے دھکیلتے آگ کے کسی قریبی گڑھے تک لے جاتے اور انہیں زندہ آگ میں پھینک دیتے شیخ مسعود خجندی نے شہر کا قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اس کے حکم سے شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی کیونکہ باطنی بھاگ رہے تھے مسلمانوں نے کسی باطنی کو بھاگنے نہ دیا کوئی بھی بھاگنے کی کوشش کرتا اسے پکڑ کر آگ میں پھینک دیتے تھے اس کا بھاگنا ہی ایک ثبوت ہوتا تھا کہ وہ باطنی ہے
شیخ مسعود خجندی کو کوئی سرکاری حیثیت حاصل نہیں تھی اس لیے اسے سرکاری طور پر محافظ نہیں دیے گئے تھے لیکن مرید از خود ہی ان کے محافظ بن گئے تھے مسجد میں جب وہ واعظ کر رہے ہوتے یا امامت ان کے پیچھے چھ سات آدمی محافظ ہوتے تھے
حسن بن صباح نے جب دیکھا کہ اصفہان میں اس کے فرقے اور فدائیوں کا صفایا ہو رہا ہے تو اس نے حکم دیا کہ عراق کی طرف توجہ دی جائے اور عراق کا دارالخلافہ بغداد کو اپنا مرکز بنانے کی پوری کوشش کی جائے اس حکم میں یہ خاص طور پر شامل تھا کہ وہاں بھی سب سے پہلے علماء دین کو قتل کیا جائے
بغداد میں بھی ایک مشہور عالم دین تھے جسے روحانی پیشوا کا درجہ حاصل تھا ان کا نام امام شیخ الشافیعہ ابوالفرج رازی تھا انہیں صاحب البحر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اپنے نام کے ساتھ صاحب البحر لکھنے کی بجائے اہلسنت لکھا کرتے تھے انہیں شہرت اور مقبولیت میں شیخ مسعود بن محمد خجندی سے زیادہ اونچی حیثیت حاصل تھی ان کی مریدی اور عقیدت مندی کا حلقہ بھی بہت ہی وسیع تھا
اصفہان کی طرح عراق میں بھی مسلمان اس طرح قتل ہونے لگے کہ قاتل کا سراغ نہیں ملتا تھا نہ قتل کی وجہ معلوم ہوتی تھی یہ قتل عام نہیں تھا بلکہ اکا دکا مسلمان قتل ہوجاتا یا لاپتہ ہوجاتا تھا یہ خبریں بغداد تک پہنچی تو فوج کے کچھ دستوں کو مختلف علاقوں میں بھیج دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سرکاری مخبروں اور جاسوسوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قتل کی وارداتوں کا سراغ لگائیں اصفہان میں باطنیوں نے جو خون خرابہ کیا تھا اس کی خبریں بغداد میں بھی پہنچی تھیں آخر وہاں کے حکمران کو یقین کرنا پڑا کے یہ باطنی ہیں جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں یہ خبر بغداد کے مسلمانوں کے گھروں تک پہنچ گئی اور اس طرح لوگ چوکنے ہو گئے
امام شیخ الشافیعہ نے جامع مسجد میں اپنے ایک خطبہ میں لوگوں سے کہا کہ صرف چوکس اور چوکنا ہو جانا کافی نہیں ان باطنیوں کا سراغ لگاؤ اور جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آتا ہے اسے کسی حکم کے بغیر اور قانون سے ڈرے بغیر قتل کر دو لوگوں کے لئے اپنی امام کے یہ الفاظ ایسے تھے جیسے یہ اللہ کا حکم اترا ہو انہوں نے باطنیوں کا سراغ لگا کر انہیں قتل کرنا شروع کر دیا امام شیخ الشافیعہ کے چند ایک معتقد ان کے محافظ بن گئے اور وہ جدھر بھی جاتے یہ محافظ ان کے ساتھ ہوتے تھے مسجد میں جب وہ امامت کے لئے کھڑے ہوتے تو ان کے پیچھے ان کے ساتھ ساتھ آٹھ محافظ کھڑے ہوتے اور پہلی صف کے دوسرے نمازی ان محافظوں کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے تھے کسی اور کو اجازت نہیں تھی کہ وہ پہلی صف میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کر نماز پڑھے
جمعہ کا مبارک دن تھا امام شیخ الشافیعہ نے خطبہ شروع کیا باہر مسجد کے دروازے پر کسی نمازی نے بڑی بلند اور پرجوش آواز میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تمام نمازیوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور امام شیخ الشافیعہ نے اپنا خطبہ روک لیا سب نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں نعرہ لگا کر داخل ہوا ہے اور اس کے کپڑوں پر خون لگا ہوا ہے اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا
میں امام شیخ الشافیعہ کے حکم سے ابھی ابھی تین ابلیسوں کو قتل کر کے آرہا ہوں وہ نمازیوں کے اوپر سے گزرتا اگلی صف کی طرف بڑھا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا یا امام گواہ رہنا میں نے آج بہت بڑا ثواب کمایا ہے
میرے اہلسنت بھائیوں! اس نے خنجر والا ہاتھ بلند کر کے نمازیوں سے مخاطب ہو کر کہا میں نے اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے امام کے حکم کی تعمیل کی ہے میں تم سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور انکی ماں ہے میری زندگی دو چار دن کی رہ گئی ہے کیونکہ باطنی اپنے ساتھیوں کے خون کا بدلہ ضرور لینگے اور مجھے قتل کردیں گے میں اپنی بیوی اور بچوں کو تم سب کے سپرد کرتا ہوں ان کی روزی اور باعزت زندگی کی ذمہ داری تمہیں سونپتا ہوں نمازیوں نے جزاک اللہ جزاک اللہ کا بڑا ہی بلند ورد شروع کردیا اور اس شخص کو خراج تحسین پیش کرنے لگے کئی آوازیں اٹھیں کے تمہارے بچوں کی روزی کے ذمہ دار ہم ہیں امام شیخ الشافیعہ ممبر سے اتر آئے اور اس آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا
ہر ذی روح کی روزی کا ذمہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے امام نے بلند آواز سے کہا یہ ضروری نہیں کہ تم قتل ہو جاؤ گے اگر ایسا ہو بھی گیا تو اللہ تعالی تمہارے بچوں اور تمہاری بیوی کو اس کا پورا پورا اجر دے گا یہ کپڑے تبدیل کرکے اور غسل کر کے آؤ یہ باطنیوں کا خون ہے جو خنزیر کی طرح نجس اور ناپاک ہے
ابھی امام شیخ الشافیعہ یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ اس شخص نے ان کی طرف گھوم کر خنجر امام کے سینے میں اتار دیا اور بڑی تیزی سے دو مرتبہ خنجر امام کے سینے میں مارا امام کے محافظ جو اگلی صف میں بیٹھے تھے بڑی تیزی سے اٹھے امام گرِ پڑے محافظ انہیں سنبھالنے لگے تو قاتل ممبر کے اوپر جا کھڑا ہوا اور اپنا خنجر ہوا میں بلند کرکے زور سے نیچے کھینچا اور اپنے دل میں اتار لیا
یا امام شیخ الجبال! اس نے خنجر اپنے سینے سے نکال کر کہا تیرے حکم کی تعمیل کر کے تیری جنت سے اللہ کی جنت میں جا رہا ہوں اس نے ایک بار پھر خنجر اپنے سینے میں دل کے مقام پر مارا پھر خنجر وہیں رہنے دیا اور ہاتھ آسمان کی طرف کر دیے وہ ممبر سے گرا اور فرش پر آن پڑا
امام شیخ الشافیعہ مر چکے تھے کیونکہ خنجر ان کے دل میں اتر گیا تھا محافظوں نے خنجروں اور تلواروں سے قاتل کے جسم کا قیمہ کر دیا لیکن وہ اپنا کام کر چکا تھا اس کے کپڑوں پر اور خنجر پر کسی انسان کا خون نہیں تھا بلکہ یہ گہرا لال رنگ تھا اس نے ایسا دھوکہ دیا تھا جسے کوئی بھی قبل ازوقت سمجھ نہ سکا
اصفہان کے حاکم اور لوگ مطمئن ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے شہر کو باطنیوں سے پاک کر دیا ہے لیکن ایک روز وہاں کے ایک اور عالم دین قاضی ابو الاعلاء صاعد بن ابو محمد نیشاپوری جامع مسجد میں امامت کرانے کے لیے گئے وہ بھی جمعہ کا مبارک دن تھا اور قاضی ابو العلاء خطبے کے لئے ممبر پر کھڑے ہوئے بالکل ایسے ہی جیسے بغداد میں ہوا تھا ایک آدمی نے مسجد میں داخل ہوکر نعرہ لگایا اور کہا کہ وہ چار باطنیوں کو قتل کرکے آیا ہے اسکے بھی کپڑوں پر خون تھا اور اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا اس نے بالکل ویسا ہی ناٹک کھیلا اور قاضی ابو العلاء تک پہنچ گیا اور نمازیوں سے مخاطب ہوکر ویسے ہی الفاظ کہے جو امام شیخ الشافیعہ کے قاتل نے کہے تھے اور اس کے فوراً بعد قاضی ابوالعلاء کے سینے میں خنجر کے تین وار کئے قاتل ممبر پر چڑھ گیا اور اس نے خنجر سے خودکشی کرلی
ان تاریخی واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ باطنی تعداد میں بہت ہی زیادہ ہوگئے تھے لیکن بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ یوں اہم دینی اور معاشرتی شخصیتوں کو قتل کرتے پھرتے وجہ یہ تھی کہ ان میں حسن بن صباح نے ایسا سفاکانہ جذبہ بھر دیا تھا کہ اس کا ایک فدائی ایک ہجوم میں داخل ہوکر اپنے مطلوبہ شکار کو قتل کردیتا تھا اور پھر اپنے آپ کو بھی مار لیتا تھا
یہ حسن بن صباح کی اس جنت کا کمال تھا جو اس نے قلعہ الموت میں بنائی تھی پہلے اس جنت کی پوری تفصیل بیان ہوچکی ہے اس جنت سے نکال کر کسی کے قتل کے لیے بھیجا تھا اسے یقین دلایا جاتا کہ وہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہے گا اسے یہ بھی بتادیا جاتا کہ وہ قتل کرکے اپنے آپ کو قتل کردے گا لیکن اسے یہ یقین بھی دلایا جاتا کہ وہ اس دنیا کی جنت سے نکل کر اللہ کی جنت میں چلا جائے گا جو اس سے کہیں زیادہ حسین ہوگی اور وہاں اسے جو حوریں ملیں گی وہ اس جنت کی حوروں سے بہت زیادہ خوبصورت ہوں گی آج کے سائنسی دور میں اس عمل کو برین واشنگ کہتے ہیں لیکن آج کی سائنس دل و دماغ پر وہ اثرات پیدا نہیں کرسکتی جو حسن بن صباح نے اس دور میں پیدا کیے تھے یہ ساری کرشمہ سازی حشیش کی تھی
پہلے تو تمام امراء اور علماء نے اپنے ساتھ محافظ رکھنے شروع کیے تھے لیکن جب باطنیوں کی قتل و غارت گری بڑھی تو امراء وزراءاور سالاروں وغیرہ نے کپڑوں کے اندر زرہ پہننی شروع کردیں یہ حفاظتی اقدام ایک ضرورت بن گیا اور پھر اس نے ایک رواج کی صورت اختیار کر لی عام لوگ بھی کپڑوں کے نیچے زرہیں پہننے لگے تاکہ خنجر یا تیر جسم تک نہ پہنچ سکے ہزارہا باطنی قتل کیے جا چکے تھے لیکن مسلمان پہلے کی طرح قتل ہو رہے تھے
رے کا شہر بچا ہوا تھا ایک روز حجاج کا ایک قافلہ رے میں داخل ہوا وہ لوگ حج کا فریضہ ادا کر کے واپس آ رہے تھے اس میں کئی ملکوں کے حجاج تھے اس قافلے میں ہندوستان کے مسلمان بھی تھے ،یہ قافلہ یوں لگتا تھا جیسے ماتمی جلوس ہو اس میں بیشتر لوگ آہ فریاد کررہے تھے اور بہت سے ایسے تھے جن کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے، انہوں نے بتایا کہ رے سے تھوڑی ہی دور ان کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ قافلے پر حملہ کرنے اور لوٹنے والے باطنی تھے
امیر شہر نے اسی وقت اپنی فوج اس طرف روانہ کردی جس طرف سے یہ قافلہ آرہا تھا لیکن سات آٹھ دنوں بعد فوج واپس آگئی اور پتہ چلا کہ ڈاکووں کا کہیں بھی سراغ نہیں ملا اور جس جگہ قافلے کو لوٹا گیا تھا وہاں بے شمار لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور ان لاشوں کو جنگل کے درندے اور گدھ کھا رہے تھے
ڈیڑھ دو مہینے گزرے تو ایک اور قافلہ رے میں داخل ہوا اور پتہ چلا کہ اس قافلے کو بھی باطنیوں نے لوٹ لیا ہے اس قافلے میں تاجروں کی تعداد زیادہ تھی اور چند ایک کنبے بھی اس قافلے کے ساتھ جا رہے تھے جن میں کم عمر اور جوان لڑکیاں بھی تھیں باطنی انہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے مسئلہ یہ پیدا ہوجاتا تھا کہ قافلے کے لٹنے کی اطلاع شہر میں اس وقت پہنچتی تھی جب لوٹیرے اپنا کام کرکے اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے تھے وہ سب گھوڑوں پر سوار ہوتے تھے۔
امیر شہر نے ان رہزنوں کو پکڑنے کا ایک بندوبست کیا تقریبا ایک مہینے بعد رے سے خاصی دور ایک قافلہ جا رہا تھا اس قافلے میں پیدل چلنے والے لوگ بھی تھے اور اونٹوں پر سوار بھی اور گھوڑوں پر بھی کئی لوگ سوار تھے قافلے کے ساتھ گھوڑا گاڑیاں اور بیل گاڑیاں بھی بے شمار تھیں جن پر سامان لدا ہوا تھا اور اس سمان کے اوپر ترپال ڈالے ہوئے تھے یہ گاڑیاں خاصی زیادہ تعداد میں تھیں جنہیں دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ یہ تاجروں کا قافلہ ہے اور بے انداز سامان جا رہا ہے یہ تو ایک خزانہ تھا جو جس منڈی میں لے جایا جاتا وہاں سے سونے اور چاندی کے سکے تھیلیاں بھر بھر کے حاصل کئے جاسکتے تھے اس کے علاوہ اس قافلے میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں جو اونٹوں پر سوار تھیں لٹیروں کے لیے یہ بڑا ہی موٹا شکار تھا
قافلے والوں نے چلنے سے پہلے کوئی احتیاط نہیں کی تھی سب سے بڑی احتیاط یہ کی جاتی تھی کہ پتہ ہی نہیں چلنے دیا جاتا تھا کہ قافلہ اگر کسی شہر میں رکا ہے تو وہاں سے کب چلے گا لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے بتا دیا کہ وہ فلاں دن اور فلاں وقت روانہ ہوں گے قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا کچھ اور تاجر اس میں شامل ہوتے گئے اور ان کی بیل گاڑیاں بھی تھی جو سامان سے لدی ہوئی تھیں
قافلہ رے سے سولہ سترہ میل دور پہنچا وہ اس علاقے میں داخل ہو گیا تھا جو لٹیروں اور رہزنوں کے لئے نہایت ہی موزوں تھا اس علاقے میں چٹانیں اور کچھ کم بلند پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان کشادہ جگہ تھیں اور اس علاقے میں درختوں کی بہتات تھی قافلے عموما پہاڑیوں کے درمیان اس خیال سے پڑاؤ کیا کرتے تھے کہ ایسی جگہ محفوظ ہوتی ہے لیکن یہ ان کی کم فہمی تھی قافلے لوٹنے والے ایسے ہی جگہوں کو پسند کیا کرتے تھے وہ دو پہاڑیوں کے درمیان روکے ہوئے قافلے کو آگے اور پیچھے سے روک لیتے تھے قافلے میں سے کوئی شخص ادھر ادھر بھاگ نہیں سکتا تھا لوٹیرے ہر ایک آدمی کی تلاشی بھی لے سکتے تھے
یہ قافلہ جو تعداد کے لحاظ سے بھی بڑا تھا اور مال و اسباب کے لحاظ سے بھی قیمتی اور پھر اس میں اونٹ اور گھوڑے بھی زیادہ تھے اس لئے بھی یہ قافلہ قیمتی تھا یہ کیوں نا لوٹا جاتا قافلہ جب اس علاقے میں داخل ہوا جو لوٹیروں کے لیے موزوں تھا اس وقت آدھا دن گزر گیا تھا عام خیال یہ تھا کہ قافلے رات کو اس وقت لوٹے جاتے ہیں جب یہ کسی پڑاؤ میں ہوتے ہیں لیکن اس قافلے کے ساتھ یوں ہوا کہ اچانک سامنے سے بھی اور پیچھے سے بھی بے انداز گھوڑ سوار نمودار ہوئے اور انہوں نے قافلے کو گھیر لیا
لوٹیرے جانتے تھے کہ قافلے والے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کرسکتے اگر قافلے کے ہر فرد کے پاس پاس ہتھیار ہوتے تو بھی وہ لوگ لوٹنے سے گھبراتے تھے کیونکہ لڑنے کی صورت میں لٹیرے انہیں قتل کر دیتے تھے، جان بڑی عزیز ہوتی ہے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنا سب کچھ لٹیروں کے حوالے کردے اور اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں اور اپنی عورتوں کی عزتیں بچالے
اگر اپنی جان بچانا چاہتے ہو تو غور سے سن لو لوٹیروں کی طرف سے اعلان ہوا اپنے مال و اسباب کو اور اپنے جانوروں کو چھوڑ کر تمام لوگ ایک طرف ہٹ جاؤ اور تم لوگوں کے پاس جتنی رقم سونا اور چاندی ہے وہ ایک جگہ ڈھیر کر دو اگر ہماری بات نہیں مانو گے تو تمہاری لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہوں گی
قافلے والوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہوکر الگ الگ کھڑے ہوگئے لوٹیروں نے انہیں اور پیچھے ہٹا دیا وہ اتنی پیچھے ہٹ گئے کہ پہاڑیوں کے دامن میں جا پہنچے آدھے ادھر اور ادھر لوٹیرے جو سب کے سب گھوڑ سوار تھے مال واسباب اکٹھا کرنے کے لئے آگے آ گئے ان کی تعداد قافلے کی تعداد کے تقریباً نصف تھی
لوٹیرے گھوڑوں سے اترے اور بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں کے اوپر سے ترپال اتار کر دیکھنے لگے کہ یہ کیا مال ہے ان میں سے چند ایک اس طرف چل پڑے جہاں قافلے کی نوجوان لڑکیاں سکتے کے عالم میں کھڑی تھیں وہ اپنے آدمیوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی تھیں
جوہی لٹیروں نے ترپال اٹھانے شروع کی ترپالوں کے نیچے سے بہت سے آدمی نکلے اور وہ لوٹیروں پر ٹوٹ پڑے لٹیروں نے اپنی تلوار اور خنجر وغیرہ نہیں نکالے تھے وہ تو بہت خوش تھے کہ تلواروں کے بغیر ہی اتنا قیمتی مال انہیں مل گیا تھا لیکن جو آدمی ترپالوں کے نیچے سے نکلے وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے انہوں نے لٹیروں کا قتل عام شروع کردیا اور انہیں ہتھیار نکالنے کی مہلت ہی نہ دی
قافلے کے گرد لوگوں کو کھڑا کردیا گیا تھا انہوں نے بھی تلوار نکال لیں اور لٹیروں پر حملہ کردیا لٹیروں کے لیے فرار کے سوا کوئی راستہ نہ تھا لیکن قافلے والے انہیں اس راستے پر جانے ہی نہیں دے رہے تھے
قافلے لوٹنے والوں کو معلوم نہ تھا کہ یہ کوئی قافلہ نہیں بلکہ یہ رے کی فوج ہے اور اس کے ساتھ کوئی سامان نہیں قافلہ میں لڑکیاں تو لٹیروں کے لیے کشش پیدا کرنے کی خاطر شامل کی گئی تھیں یہ قافلہ جہاں سے چلا تھا وہاں اسی مقصد کے لیے ہر کسی کو بتایا گیا تھا کہ قافلہ فلاں وقت یہاں سے چلے گا اور پڑاؤ فلاں جگہ ہوگا یہ دراصل لٹیروں تک پیغام پہنچانے کا طریقہ تھا
تھوڑی سی دیر میں رے کے ان فوجیوں نے جو مختلف لباسوں میں آئے تھے لٹیروں کو کاٹ کر پھینک دیا ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ نکل سکا فوجیوں نے ان کے گھوڑے پکڑ لیے اور ساتھ لے آئے یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ لٹیرے تمام کے تمام باطنی تھے پتہ اس طرح چلا کہ ان میں جو زخمی تھے ان میں بہت سے ایسے نکلے جو موت سے ڈر گئے تھے وہ منتیں کرتے تھے کہ انہیں جان سے مار دیا جائے یا اٹھا کر اپنے ساتھ لے جائیں اور ان کے زخموں کی مرہم پٹی کریں اور وہ آئندہ اس کام سے توبہ کر لیں گے فوجیوں نے ان زخمیوں سے کہا کہ وہ اتنا بتا دیں کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں انہوں نے بتا دیا کہ وہ باطنی ہیں اور حسن بن صباح کے حکم سے قافلے لوٹتے ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قافلوں سے جو مال اور جو رقم وغیرہ لوٹی جاتی ہے وہ سب قلعہ الموت پہنچا دی جاتی ہے
حاکم رے نے حکم دیا تھا کہ ان لٹیروں میں سے دو تین زخمیوں کو اپنے ساتھ لے آئیں ان سے وہ حسن بن صباح کے کچھ راز معلوم کرنا چاہتا تھا ان فوجیوں نے تین زخمیوں کی عارضی مرہم پٹی کر دی اور ایک گھوڑا گاڑی میں ڈال کر انہیں رے لے آئے انہیں ایک کمرے میں لٹا دیا گیا اور طبیب کو بلایا گیا امیر رے بھی وہاں پہنچ گیا
اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو ہمیں ہر بات سچ سچ بتا دو امیر رے نے ان زخمیوں سے کہا اگر تمہیں اپنی جان عزیز نہیں تو میں تمہیں بہت ہی بری موت ماروں گا تمہارے زخموں پر نمک چھڑکا جائے گا اور تم تڑپ تڑپ کر مروگے
تینوں نے کہا کہ وہ سب کچھ بتا دیں گے ان کے زخموں کا کچھ علاج کیا جائے وہ بہت بری طرح زخمی تھے اور نیم غشی کی حالت میں باتیں کر رہے تھے ان میں دو نوجوان تھے اور ایک ادھیڑ عمر تھا حاکم رے نے طبیب سے کہا کہ ان کی مرہم پٹی اس طرح کی جائے کہ جیسے یہ شاہی خاندان کے افراد ہوں طبیب نے اسی وقت مرہم پٹی شروع کردی
اے امیر شہر! ادھیڑ عمر آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا میں آپکو سارے راز دے دوں گا میں جانتا ہوں ہمیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا لیکن میں پھر بھی ہر بات سہی اور سچ بتاؤں گا ہمیں موت سے نہ ڈرائے امیر! اور زندگی کا لالچ نہ دے میں ہر بات بتاؤں گا اور اس سے پہلے میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جو طوفان قلعہ الموت سے اٹھا ہے اسے آپ کی فوج اور اسے سلطان کی فوج اور اسے سلطنت سلجوقہ کی ساری فوج نہیں روک سکتی
امیر رے نے دیکھا کہ یہ زخمی بے ہوش نہیں اور اتنا زیادہ زخمی ہونے کے باوجود ٹھیک ٹھاک بول رہا ہے تو اس نے سوچا کہ اس سے ابھی پوچھ لیا جائے جو پوچھنا ہے
طبیب نے اپنے دو تین شاگردوں کو بھی بلوا لیا اور وہ جب آئے تو انہیں کہا گیا کہ وہ ان نوجوان زخمیوں کے زخم صاف کر کے مرہم پٹی کر دیں امیر کے اشارے پر ادھیڑ عمر آدمی کو ایک اور کمرے میں لے گئے اور طبیب نے اس کے تمام کپڑے اتروا کر مرہم پٹی شروع کردی امیر رے بھی ان کے ساتھ تھا امیر رے نے اس سے کہا کہ حسن بن صباح کی یہ تنظیم کس طرح چلتی ہے کہ اتنے دور بیٹھا ہوا وہ اتنے بڑے علاقے میں باطنیوں کو اپنی مرضی کے مطابق حرکت میں لا رہا ہے اور فدائی اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں
امیر شہر! ادھیڑ عمر زخمی باطنی نے کہا آپ خدا سے ڈرتے ہیں لیکن حکم ابلیس کا مانتے ہیں میں آپ کی بات نہیں کر رہا میں ہر انسان کی بات کر رہا ہوں آپ زاہد اور پارسا ہو سکتے ہیں لیکن ہر انسان ایسا نہیں ہوسکتا کیا آپ نہیں سمجھ سکتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
صرف اس لئے کہ خدا میں عام لوگ وہ کشش نہیں دیکھتے جو ابلیس میں ہے آپ مجھے ابلیس کا پوجاری کہہ لیں شیخ الجبل حسن بن صباح کہتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کو وعدوں پر ٹالتا ہے وہ جنت کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس کے لیے مرنا ضروری ہے یہ بھی ضروری ہے کہ ساری عمر نیکو اور ثواب کے کاموں میں گزار دو گے تو جنت ملے گی لیکن ہمارا شیخ الجبل حسن بن صباح کہتا ہے کہ وہ ہے جنت جاؤ اس میں داخل ہو جاؤ میں اس جنت میں رہ چکا ہوں شیخ الجبل وعدے نہیں کرتا وہ دیتا ہے اسے آپ ابلیس کہتے ہیں ہم اسے امام کہتے ہیں
اس باطنی نے پراعتماد لہجے میں حسن بن صباح اور اس کی تنظیم اور اس کے طریقہ کار کے متعلق سب کچھ بتا دیا یہ بھی بتا دیا کہ قلعہ الموت کے اندر کیا ہے کتنی فوج ہے اور اس کے حفاظتی انتظامات کیا ہیں یہ بھی بتا دیا کہ قافلوں کو لوٹنے والے باطنی الگ ہیں جن کا صرف یہی کام ہے وہ جو کچھ لوٹتے ہیں قلعہ الموت چلا جاتا ہے اس طرح اس شخص نے ہر ایک بات بتا دی
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں امیر شہر! اس نے کہا میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ آپ شیخ الجبل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے سلطان برکیارق کے ایک سالار اوریزی نے قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لے رکھا ہے چھے مہینے ہو چکے ہیں ابھی تک وہ قلعے کی دیواروں تک نہیں پہنچ سکا اس نے پہنچنے کی کوشش کی تو اپنے بہت سے سپاہیوں کو مروا کر پیچھے ہٹ آیا اس کا محاصرہ کامیاب نہیں ہو سکا اگر ہو بھی گیا تو شیخ الجبل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا
کیا شیخ الجبل نے وسم کوہ کا محاصرہ توڑنے اور پسپا کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا ؟
امیر رے نے پوچھا
میں صحیح جواب نہیں دے سکوں گا باطنی نے کہا اگر چھے مہینے گزر جانے کے باوجود شیخ الجبل نے قلعہ وسم کوہ کو بچانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ سلجوقی سالار یہ قلعہ نہیں لے سکے گا میں اپنے امام شیخ الجبل کے ساتھ رہا ہوں میں اس کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہوں اس نے قلعہ وسم کوہ کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اسے پوری امید ہے کہ سلجوقی سالار اپنا ہر ایک سپاہی مروا کر خود ہی وہاں سے مایوس اور ناکام ہو کر واپس آجائے گا
طبیب اس باطنی کی مرہم پٹی کرتا رہا وہ بولتا رہا اور امیر رے سنتا رہا مرہم پٹی ہو چکی تو امیر رے اور طبیب باہر نکل آئے کچھ دور آ کر امیر رے رک گیا اور طبیب سے پوچھا کہ اس باطنی نے جو باتیں کی ہیں ان کے متعلق اس کا کیا خیال ہے؟
امیرمحترم! بوڑھے طبیب نے جواب دیا عمر گزر گئی ہے مریضوں اور زخمیوں کا علاج کرتے آپ ان کی باتوں کے متعلق میری رائے پوچھ رہے ہیں اور آپ غالبا اس پر بھی حیران ہو رہے ہیں کہ اس نے اس قسم کی باتیں کس قدر پر اعتماد اور بے تکلف لہجے میں کی ہیں لیکن میں حیران ہو رہا ہوں کہ اتنا زیادہ خون نکل چکا ہے کہ اسے زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا لیکن یہ زندہ ہے اور اس کا دماغ اس کے جسم سے زیادہ زندہ ہے اسے کہتے ہیں جذبہ اور عقیدہ یہ الگ بات ہے کہ اس کا جذبہ بھی ابلیسی اور عقیدہ بھی ابلیسی ہے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہے حسن بن صباح کی اصل قوت اس شخص کو موت کا کوئی غم نہیں اور زندہ رہنے کا لالچ بھی نہیں یہ مرے گا تو حسن بن صباح زندہ باد کا نعرہ لگا کر مرے گا اس وقت ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایسا جذبہ پیدا ہو جائے اگر ایسا ہو سکتا ہے تو حسن بن صباح کا یہ فرقہ بھی ختم ہو سکتا ہے دین اسلام کو اسی جذبے اور ایسے ہی عقیدے کی شدت سے زندہ رکھا جا سکتا ہے
امیر شہر نے طبیب کو رخصت کر دیا اور اپنے محافظ دستے کے کماندار کو بلا کر کہا کہ ان تینوں باطنیوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں دور لے جا کر ایک ہی گڑھے میں دفن کر دی جائیں
سالار اوریزی کو قلعہ وسم کوہ کا محاصرہ کیے چھے مہینے گزر گئے تھے قلعے کا دفاع جتنا مضبوط تھا کہ قلعہ سر ہوتا نظر نہیں آرہا تھا سالار اوریزی اپنے ساتھ غیر معمولی طور پر دلیر جانبازوں کا لشکر لے کر گیا تھا ان جانبازوں کا ایک گروہ قلعے کا دروازہ توڑنے کے لئے دروازے تک پہنچ گیا تھا انہوں نے ہتھوڑوں اور کلہاڑیوں سے دروازے پر ضرب لگائیں لیکن اوپر سے باطنیوں نے ان پر جلتی ہوئی لکڑیاں اور انگارے پھینکے چند ایک جانبازوں کے کپڑوں کو آگ لگ گئی وہ پیچھے کو بھاگے اوپر سے باطنیوں نے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیا اور شاید ہی اس گروہ میں سے کوئی جانباز زندہ واپس آیا ہوگا
ایسی قربانی ایک بار نہیں متعدد بار دی گئی جاں باز کسی اور دروازے تک پہنچے لیکن زندہ واپس نہ آ سکے سالار اوریزی نے سرنگ کھودنے کی بھی سوچی لیکن یہ کام آسان نہیں تھا پھر بھی اس نے سرنگ کھدوانی شروع کردی تھی وہ جانتا تھا کہ سرنگ دیوار کے نیچے سے قلعے کے اندر تک چلی بھی گئی تو سارے کا سارا لشکر ایک ہی بار اس سرنگ کے ذریعہ قلعے تک نہیں پہنچایا جاسکے گا تین تین چار چار جانباز اس سرنگ میں سے اندر جائیں گے اور باطنی جس جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں انہیں ختم کرتے چلے جائیں گے لیکن سالار اوریزی کا خیال تھا کہ یہ قربانی تو دینی ہی پڑے گی
سالار اوریزی کو ایک خطرہ اور بھی نظر آرہا تھا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مرو سے کوچ سے پہلے یہ مشہور کر دیا گیا تھا کہ سالار اوریزی اپنے لشکر کو قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرنے کے لئے لے جا رہا ہے اسے توقع یہ تھی کہ حسن بن صباح قلعہ ملاذخان کے دفاع کو مضبوط کرنے میں لگ جائے گا اور اتنی دیر میں وہ قلعہ وسم کوہ کو سر کرلے گا لیکن وہاں تو آدھا سال گزر گیا تھا خطرہ یہ تھا کہ حسن بن صباح کو پتہ چلے گا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے اور اصل میں قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لے لیا گیا ہے تو وہ اپنا ایک لشکر محاصرے پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دے گا اس خطرے کے پیش نظر سالار اوریزی کی نظر پیچھے بھی رہتی تھی اسے ہر روز یہ توقع تھی کہ آج باطنیوں کا لشکر عقب سے ضرور ہی نمودار ہو کر ہلہ بول دے گا لیکن ہر روز کا سورج غروب ہو جاتا تھا اور سالار اوریزی اور زیادہ پریشان ہو جاتا کہ رات کو حملہ آئے گا اسی میں چھے مہینے گزر گئے تھے
حسن بن صباح کو ایک مہینے کے اندر اندر پتہ چل گیا تھا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ اسے پتا ہی نہ چلتا اس کے جاسوس ہر طرف اور ہر جگہ موجود تھے لیکن حسن بن صباح کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ یہ مشہور کر کے کہ قلعہ ملاذ خان کو محاصرے میں لینے کی بجائے سالار اوریزی کا لشکر قلعہ وسم کوہ محاصرے میں لے چکا ہے تو حسن بن صباح کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی تھی
ان سلجوقیوں کی عقل جواب دے گئی ہے حسن بن صباح نے کہا تھا انہوں نے ہمیں یہ دھوکہ اس امید پر دیا ہوگا کہ وہ قلعہ وسم کوہ پر چند دنوں میں قبضہ کرلیں گے قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لیا جا سکتا ہے لیکن سلجوقی لشکر کا کوئی ایک سپاہی اس قلعے کے اندر داخل نہیں ہوسکے گا انہیں زور آزمائی کرنے دو
یا امام! اس کے جنگی مشیر نے کہا تھا کیا ہم یوں نہ کریں گے ان کے محاصرے پر حملہ کردیں؟
ابھی نہیں حسن بن صباح نے کہا انہیں اپنی طاقت وہیں زائل کرنے دو ہم جب دیکھیں گے کہ اب ان کا دم خم ٹوٹ گیا ہے اور ان کا آدھا لشکر وسم کوہ کے تیراندازوں کا نشانہ بن چکا ہے تو ہم حملے کی سوچیں گے اور انہیں اپنا دل خوش کر لینے کیلئے الموت بھیج دیتے ہیں
مزمل آفندی اور بن یونس تقریباً ٹھیک ہو چکے تھے اور یہ دونوں بھی اس لشکر میں شامل ہو چکے تھے
ایک دن سالار اوریزی نے مزمل آفندی سے کہا کہ ظاہری طور پر تو میں ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے آیا ہوں لیکن میرا اپنا ایک منصوبہ ہے وہ یہ ہے کہ یہ قلعہ میرے ہاتھ آ جائے تو میں اسے اپنا ایک مضبوط اڈہ یا ٹھکانہ بنا لوں گا یہاں سے میں باطنیوں کے خلاف مہم شروع کروں گا لیکن اس کے اندر قافلے لوٹنے والے ڈاکو ہیں جو لڑنا اور مرنا جانتے ہیں ان کے پاس تیروں کا ذخیرہ ختم ہی نہیں ہو رہا اور ان کے پاس پھینکنے والی برچھیاں بھی ہیں جو شاید کچھ اور عرصہ ختم نہیں ہونگی میں تقریبا آدھا لشکر مروا چکا ہوں لیکن قلعہ ہاتھ آتا نظر نہیں آتا مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ کسی روز میرے اس محاصرے پر عقب سے حملہ ہوجائے گا میں پورا مقابلہ کروں گا لیکن میرا اور میرے لشکر کا بچ نکلنا ممکن نظر نہیں آتا
پیچھے سے حملہ ہوجائے گا؟
مزمل آفندی نے پوچھا
ہاں مزمل بھائی! سالار اوریزی نے جواب دیا میں حیران ہوں کہ اب تک حسن بن صباح نے یہ کارروائی کیوں نہیں کی اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو فوراً محاصرے کو مزید فوج بھیج کر محاصرے میں لے لیتا محاصرہ کرنے والے لشکر کو محاصرے میں لے لیا جائے تو اس لشکر کا بچ نکلنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے
مزمل آفندی گہری سوچ میں کھو گیا اور اس نے سالار اوریزی کے ساتھ کچھ باتیں کی اور بن یونس کو ساتھ لے کر واپس چل پڑا
ایک برطانوی تاریخ نویس کے مطابق پندرہ سولہ دن گزرے ہوں گے کہ سالار اوریزی نے گھوڑوں کے ٹاپ سنی اس نے پیچھے دیکھا تو ایک گھوڑسوار لشکر سرپٹ چلا آرہا تھا سالار اوریزی جو خطرہ محسوس کر رہا تھا وہ آ گیا تھا اس نے فوری طور پر اپنے لشکر کو جو قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا محاصرے سے ہٹا کر ایک جگہ اکٹھا کر لیا اور پھر اسے ایک جنگی ترتیب دے لی عقب سے یا باہر سے حملے کی صورت میں اپنے لشکر کو اس طرح اکٹھا کرنا ضروری تھا ورنہ محاصرے میں لشکر بندہ بندہ ہوکر بکھرا رہتا ہے
جب گھوڑسوار لشکر کے قریب آیا تو دیکھا کہ آگے آگے دو سواروں کے ہاتھوں میں حسن بن صباح کے پرچم تھے سوار نعرے بھی باطنی فرقے کے لگا رہے تھے سالار اوریزی نے اپنے لشکر کو قلعے سے اور پیچھے ہٹا لیا اور دیکھنے لگا کہ لڑنے کے لئے زمین کون سی موزوں ہے وہ قلعے سے زیادہ دور نہیں ہٹا بڑی پھرتی سے اس نے اپنے بچے کھچے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا دو کو آگے رکھا اور ایک حصے کو ان دونوں کے پیچھے بھیج دیا اب اس کا لشکر مقابلے کے لئے تیار تھا
گھوڑسوار لشکر قلعے کے ایک اور پہلو کی طرف چلا گیا اور رک کر بڑی پھرتی سے جنگی ترتیب میں آ گیا اس لشکر سے اعلان ہونے لگے کہ قلعے کے تمام لوگ باہر آجائیں اور ان مسلمانوں کو گھیرے میں لے کر کاٹ دیں
باہر سے آنے والا سوار لشکر حرکت میں آیا اور سالار اوریزی کے ایک پہلو میں اس طرح سے آ گیا جیسے سالار اوریزی کے لشکر کو گھیرے میں لینا چاہتا ہو گھوڑ سواروں نے برچھیاں بلند کر لی تھی اور پھر انہوں نے برچھیوں کو آنیاں آگے کرلیں اور اب انہوں نے ہلہ بولنا تھا
قلعے کے دروازے کھل گئے اور اندر کا لشکر اس طرح باہر آنے لگا جیسے سیلابی دریا نے بند توڑ ڈالا ہو وہ لشکر سالار اوریزی کے لشکر کے دوسرے پہلو کی طرف چلا گیا اب کوئی شک نہ رہا کہ سالار اوریزی کے لشکر کو باطنیوں نے گھیرے میں لے لیا تھا
سالار اوریزی نے ایک حکم دیا یہ حکم سنتے ہی اس کا لشکر آگے کو دوڑ پڑا اور اس کا ایک حصہ قلعے کے کھلے ہوئے دروازوں کے اندر چلا گیا اور اندر سے دروازے بند کرلئے باقی دو حصے اس لشکر کی طرف آئے جو اندر سے نکلا تھا باہر سے جو گھوڑسوار لشکر آیا تھا اس نے یہ حرکت کی کہ قلعے کے اندر سے آنے والے لشکر پر ہلہ بول دیا دوسرے پہلو سے سالار اوریزی نے ہلہ بولا
اب یہ صورت بن گئی کہ اندر سے نکلنے والا باطنی لشکر گھوڑ سواروں اور سالار اوریزی کے لشکروں کے نرغے میں آ گیا تھا اندر سے آنے والے لشکر حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا بنا وہ تو سمجھ رہے تھے کہ حسن بن صباح نے ان کے لئے مدد بھیجی ہے اور اب محاصرہ کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں رہے گا مگر ہوا یہ کہ وہ خود کٹنے لگے اور گھوڑوں کے قدموں تلے روندے جانے لگے
سالار اوریزی کے لشکر کا جو حصہ قلعے کے اندر چلا گیا تھا اس نے قلعے کے اندر والے لوگوں کا قتل عام شروع کردیا تھا پھر دروازے کھل گئے اور سالار اوریزی کے لشکر کے باقی دونوں حصے اور باہر سے آنے والے گھوڑسوار جنہوں نے حسن بن صباح کے پرچم اٹھا رکھے تھے قلعے کے اندر چلے گئے اور اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے لگے اور سواروں نے اندر جاکر حسن بن صباح کے پرچم پھاڑے اور پھر جلا ڈالے قلعہ وسم کوہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا تھا
یہ کامیابی ایک دھوکے سے حاصل کی گئی تھی دھوکا یہ تھا کہ مزمل آفندی نے سالار اوریزی سے پوچھا تھا کیا پیچھے سے حملہ آسکتا ہے اور اوریزی نے کہا تھا کہ کسی دن بھی پیچھے سے حملہ ہوجائے گا مزمل آفندی کے دماغ میں ایک منصوبہ آ گیا تھا اس نے سالار اوریزی کے ساتھ بات کی اور یہ منصوبہ طے ہوگیا
مزمل آفندی بن یونس کو ساتھ لے کر مرو چلا گیا تھا وہاں اس نے سلطان برکیارق کے ساتھ بات کی اور اسے دو ہزار گھوڑ سوار دے دیے گئے اور ان کا کماندار ایک سالار بھی ساتھ دیا اسی رات اس گھوڑ لشکر نے مرو سے کوچ کیا اور بڑی ہی تیز رفتاری سے جاکر اگلے رات تک قلعہ وسم کوہ کے قریب پہنچ گئے اور وہیں رکے اور رات وہیں گزاری
صبح طلوع ہوئی تو مرو کے ان دو ہزار سواروں نے قلعہ وسم کوہ کا رخ کیا اور اس انداز سے پیش قدمی کی جیسے وہ پیچھے سے محاصرے پر حملہ کریں گے انہوں نے حسن بن صباح کے پرچم خود ہی تیار کر لیے تھے قلعے کے اندر کے لشکر نے جب دیوار کے اوپر سے دیکھا تو انہوں نے حسن بن صباح کے نعرے لگائے قدرتی طور پر وہ سمجھے کہ حسن بن صباح نے یہ گھوڑسوار لشکر بھیجا ہے پھر گھوڑسوار لشکر سے اعلان ہوئے کے اندر کے لوگ باہر آجائیں اور مسلمانوں کو کچل دیں
جوں ہی یہ اعلان ہوا اندر کے تمام لوگ جو لڑنے والے تھے باہر آگئے سالار اوریزی نے اپنے لشکر کا ایک حصہ قلعے کے اندر بھیج دیا اور پھر بیان ہوچکا ہے کہ گھوڑ سواروں نے اور سالار اوریزی کے لشکر نے اندر کے لشکر کو کس طرح گھیرے میں لیا اور اس کے کسی ایک آدمی کو بھی زندہ نہ رہنے دیا
سالار محترم! فتح کی پہلی رات مزمل آفندی نے سالار اوریزی سے کہا اگر حسن بن صباح کو شکست دینی ہے تو دھوکے سے ہی دی جاسکتی ہے وہ شخص سراپا دھوکا اور فریب ہے اس کے لیے ہمیں بھی فریب کار بننا پڑے گا اللہ آپ کو فتح مبارک کرے
سالار اوریزی کو یہ فتح بہت مہنگی پڑی تھی تمام مؤرخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ وسم کوہ کامحاصرہ آٹھ مہینے اور کچھ دن رہا تھا اس عرصے میں سالار اوریزی کا آدھا لشکر کٹ گیا تھا اگر محاصرین کو دھوکے میں نہ مارا جاتا تو محاصرہ ابھی اور طول پکڑ سکتا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قلعے کے اندر خوراک اور دیگر ضروریات کا ذخیرہ اتنا زیادہ تھا کہ قلعے کے اندر کے لوگ محاصرے سے ذرا بھی پریشان نہیں ہوئے تھے
میں آپکو جو یہ داستان سنا رہا ہوں آپکو یہ نہیں بتا رہا کہ فلاں اور فلاں واقعہ کے درمیان کتنا لمبا وقفہ تھا حسن بن صباح کا دور مقبولیت اور اسکی ابلیسیت کی تاریخ کہیں کہیں تاریکی میں چلی جاتی ہے جیسے ریل گاڑی چلتے چلتے کسی تاریک سرنگ میں داخل ہو جاتی ہے اور جب یہ تاریک روشنی میں آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بےشمار سال گزر گئے ہیں وسم کوہ کا قلعہ جس وقت فتح ہوا اس وقت حسن بن صباح بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا اسے جنہوں نے دیکھا تھا اور اس کے متعلق سینہ بسینہ جو باتیں سامنے آئیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حسن بن صباح خاصہ بوڑھا ہو گیا تھا لیکن اس نے اپنی صحت کو ایسا برقرار رکھا تھا کہ لگتا نہیں تھا کہ اس شخص کی جوانی کو گزرے ایک مدت گزر گئی ہے
اوریزی نے اپنے لشکر کو قتل عام کا جو حکم دیا تھا وہ ان شہریوں کے لیے نہیں تھا جو لڑنے میں شامل نہیں تھے قلعے کے اندر سالار اوریزی کے لشکر کا جم کر مقابلہ کرنے والے شہریوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی مسلمان لشکر کو یہ اجازت نہیں تھی کہ اندھادھن قتل کرتے چلے جائیں لوگ گھروں میں دبک گئے تھے اور لڑنے والے شہری بھی گھروں میں جا چکے تھے انہیں پکڑنا ضروری تھا لیکن اس کے لیے یہ طریقہ اختیار نہ کیا گیا کہ ہر کسی کو گھسیٹ کر باہر لے آتے اور اس کی گردن مار دیتے سالار اوریزی وہ روایات برقرار رکھی جو مسلمانوں کا طرہ امتیاز چلا آرہا تھا وہ روایات تھیں مفتوح علاقے کے لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا اور ان کی عزت اور جان و مال کا تحفظ کرنا اور پھر عملاً انہیں یہ یقین دلانا کے انہیں غلام نہیں بنایا جائے گا
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وسم کوہ کے اندر تمام لوگ حسن بن صباح کے پیروکار تھے دوسرے شہروں میں مسلمانوں نے باطنیوں کا قتل عام کیا تھا لیکن اس قلعے میں صورت مختلف تھی وہ یوں کہ ان لوگوں کو بڑے لمبے مقابلے کے بعد شکست دی گئی تھی اور وہ مفتوحین کہلاتے تھے وہ اب فاتح لشکر کے رحم وکرم پر تھے
قلعے کے دروازوں پر اپنے سنتری کھڑے کردیے گئے اور انہیں کہا گیا کہ کسی کو باہر نہ جانے دیں اور جو کوئی اندر آتا ہے اسے آنے دیں سالار اوریزی نے رات گزرنے کا انتظار نہ کیا اور حکم دیا کے گھر گھر کی تلاشی لی جائے اور تمام مردوں کو باہر لایا جائے لیکن کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اس حکم پر سالار اوریزی کے لشکری گھروں میں داخل ہوگئے اور کونوں کھدروں کی تلاشی لے کر مردوں کو باہر لانے لگے چودہ پندرہ سال کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک کو باہر لایا جارہا تھا مشعلیں اتنی زیادہ جلائی گئی تھیں کہ قلعے میں جیسے رات آئی ہی نہیں تھی ان تمام آدمیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا رہا تھا عورتوں کی چیخ وپکار اور آہ و بکاء اور ان کا واویلا اتنا بلند اور اتنا زیادہ تھا کہ آسمان کے پردے چاک ہو رہے تھے لشکری کسی آدمی کو اس کے گھر سے باہر لاتے تو عورتیں اس لشکری کے قدموں میں گر پڑتی یا اسے پکڑ لیتی اور رو رو کر اسے کہتی کہ ان کا آدمی بے قصور ہے اور وہ نہیں لڑا ان عورتوں کو یہ ڈر تھا کہ آدمیوں کو باہر لے جا کر قتل کردیا جائے گا لشکری ان عورتوں کو تسلیاں دیتے تھے کہ ان آدمیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا ان آدمیوں میں ایسے بھی تھے جن کے کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا اور ان کی تلواریں بھی خون آلود تھی یہ ثبوت تھا کہ وہ لڑنے کے بعد گھروں میں چھپ گئے تھے ایسے آدمیوں کو الگ کھڑا کیا جارہا تھا
قلعے کے اندر کا ماحول بڑا ہی بھیانک اور ہولناک تھا لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور خون اتنا کے چلنا محال تھا خون سے پاؤں پھسلتے تھے ان لاشوں میں ایسے زخمی بھی تھے جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے وہ بڑا ہی کربناک واویلا بپا کر رہے تھے اور پانی پانی کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی سالار اوریزی نے اپنے لشکر کے ایک حصے کو اس کام پر لگا دیا کہ اپنے زخمیوں کو اٹھا کر اس جگہ پہنچایا جائے جہاں مرہم پٹی کا انتظام تھا اور اپنے شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ دیں سالار اوریزی نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی باطنی زخمی کو پانی نہیں پلانا قلعے کے اندر سب ہی باطنی تھے اور ان کا قصور صرف یہ نہ تھا کہ انہوں نے سالار اوریزی کے لشکر کا مقابلہ کیا تھا بلکہ ان کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصے سے قافلوں کو لوٹ رہے تھے کوئی قافلے والا مزاحمت کرتا تو اسے یہ لوگ قتل کر دیتے تھے اور ان کی جوان بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے آتے تھے انہیں جینے کا حق نہیں دیا جا سکتا تھا
جب ان لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا رہا تھا تو عورتیں چیختی چلاتی اور بعض سینہ کوبی کرتی وہاں پہنچ گئیں اور سالار اوریزی کو گھیر لیا وہ سب یہی کہہ رہی تھیں کہ ان کے آدمی بے گناہ ہیں سالار اوریزی نے آگے ہو کر ان آدمیوں سے کہا کہ ان میں جو لٹیرے اور ڈاکو ہیں اور جنہوں نے قافلے لوٹے ہیں وہ خود ہی آگے آجائیں ان میں ایسے آدمی تو صاف پہچانے جا رہے تھے جن کی تلوار خون آلود اور جن کے کپڑوں پر بھی خون کے چھینٹے تھے انہیں آگے کر لیا گیا اور چند ایک اور آدمی آگے آگئے سالار اوریزی نے ایک بار پھر کہا کہ خود ہی آگے آجاؤ ورنہ جب انہیں شناخت کرایا جائے گا تو ان کی جان بخشی نہیں کی جائے گی عورتوں نے جب سالار اوریزی کا یہ حکم سنا اور دیکھا کہ کئی ڈاکو اور رہزن آگے نہیں آرہے تو وہ ان لوگوں کے درمیان چلی گئیں اور ایک ایک کو پکڑ کر آگے دھکیلنے لگیں وہ تو جانتی تھی کہ ان میں اصل مجرم کون کون ہے ان کا لشکر اور ان کے دوسرے ساتھی قلعے کے باہر کاٹ دیے گئے تھے ان میں سے اگر کچھ نکل بھاگے ہونگے تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی
بعض باطنیوں کو قلعے کے برجوں میں سے نکال نکال کر لایا جارہا تھا وہ وہاں چھپے ہوئے تھے
مزمل آفندی اور بن یونس بھی سالار اوریزی کے ساتھ تھے وہ دونوں بہت ہی مسرور تھے ان کی چال سو فیصد کامیاب رہی تھی
میرے بھائیوں! سالار اوریزی نے انہیں کہا میں قلعہ الموت سے آنے والی ہواؤں میں یہ خطرہ اب بھی سونگ رہا ہوں کہ حسن بن صباح ہم پر حملہ ضرور کرے گا اسے یہ اطلاع تو مل ہی جائے گی کہ قلعہ وسم کوہ اس کے ہاتھ سے نکل کر ہمارے ہاتھ میں آ گیا ہے
اس کی پیش بندی کر لینی چاہیے مزمل نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں صبح ہی مرو کو روانہ ہو جاؤں گا اور وہاں سے کمک لے آؤں گا
میں مرو سے مزید فوج نہیں منگوانا چاہتا سالار اوریزی نے کہا مرو میں فوج کم ہوئی تو وہ شہر بھی خطرے میں آسکتا ہے ہم یوں کریں گے کہ صبح اپنے سوار لشکر کو قلعے کے باہر مقیم کردیں گے تاکہ اچانک حملہ آجائے تو وہ محاصرے تک نوبت ہی نہ آنے دیں
قلعہ وسم کوہ وسیع و عریض تھا اس میں غیر فوجی آبادی بھی خاصی زیادہ تھی ایک کشادہ میدان تھا جس میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لایا جارہا تھا اور ان کی شناخت ہو رہی تھی سالار اوریزی کی فوج کا ایک عہدیدار تھا جس کا نام شمشیر ابلک تھا تاریخ میں اس کا یہ نام تو آیا ہے لیکن یہ نہیں لکھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا نام سے ظاہر ہے کہ وہ سلجوقی یعنی ترک نسل سے تھا اس کا دادا ان سلجوقیوں میں سے تھا جنہوں نے سلطنت سلجوقیہ کی بنیاد رکھی تھی اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اس کے ساتھ چار سپاہی تھے اور وہ دیوار پر جاکر قلعے کے برجوں کی تلاشی لے رھا تھا اس کے ساتھ دو سپاہیوں کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں وہ دو برجوں میں سے تین چار باطنیوں کو پکڑ کر نیچے بھیج چکا تھا
قلعے کے بڑے دروازے کے اوپر ایک اور کمرہ نما برج بنا ہوا تھا جو اونچا بھی تھا اور لمبا چوڑا بھی شمشیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس برج میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر سیڑھیاں تھیں جو اس برج کی اوپر والی منزل کو جاتی تھی وہ جب سیڑھیاں چڑھنے لگا تو اس کے ایک سپاہی نے سیڑھیوں کے نیچے دیکھا وہاں کچھ سامان اور بستر وغیرہ پڑے ہوئے تھے سپاہی کو یوں شک ہوا تھا جیسے اس نے ان اشیاء کے انبار کے پیچھے دو چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھیں ہوں سپاہی سیڑھیوں پر جانے کی بجائے سیڑھیوں کے نیچے جھک کر دیکھنے لگا وہاں واقعی ایک آدمی تھا جو چھپا ہوا تھا سپاہی کے کہنے پر وہ باہر نکل آیا اس کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے تھے لیکن اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں تھی سپاہی نے اسے کہا کہ اپنی تلوار لے کر آؤ ورنہ اسے زندہ جلا دیا جائے گا وہ سیڑھیوں کے نیچے گیا اور اشیاء کے انبار کے نیچے سے تلوار اٹھا کر لے آیا تلوار خون آلود تھی اس نے تلوار فرش پر پھینک دی
شمشیر ابلک آدھی سیڑھی چڑھ چکا تھا وہ وہیں سے نیچے اتر آیا یہ آدمی شمشیرابلک کی ہی عمر کا تھا اور بڑا صحت مند تھا اس کے چہرے پر کرخت کے تاثرات تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ جلاد ہو
تم بے گناہ نہیں ہوسکتے شمشیر ابلک نے اسے کہا تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم ڈاکو اور رہزن ہو اور نہ جانے کتنے لوگوں کو اب تک قتل کر چکے ہو گے تمہاری تلوار بتا رہی ہے کہ تم آج ہمارے خلاف لڑے تھے چلو نیچے
ہاں میں ڈاکو ہوں اس نے کہا اور میں حسن بن صباح کا پیروکار بھی ہوں میں لڑا بھی ہوں اور تمہارے تین آدمی قتل کئے ہیں انتقام لے لو میں قتل ہونے کے لیے تیار ہوں میں جانتا تھا کہ میرا انجام یہی ہوگا لیکن ایک بات سن لو مجھے قتل کرو گے تو اپنا نقصان کرو گے اور اگر زندہ رہنے دو گے تو تمہیں اتنا خزانہ ملے گا کہ ایک قلعہ خرید سکو گے
زندہ رہنے کی اب کوئی ترکیب کامیاب نہیں ہو گی اے باطنی! شمشیر ابلک نے کہا حسن بن صباح تمہیں چھڑانے نہیں آئے گا تم جس خزانے کی بات کر رہے ہو وہ ہمیں مل گیا ہے اس تہہ خانے کی نشاندہی ہو چکی ہے جس میں اس قلعے کا خزانہ رکھا ہوا ہے
میں جانتا ہوں میرا امام شیخ الجبل مجھے چھڑانے نہیں آئے گا اس نے کہا مجھے یقین ہے کہ میں تمہارے ہاتھوں قتل ہونگا لیکن ایک بات سن لو میں اس خزانے کی بات نہیں کر رہا جو یہاں تہہ خانے میں پڑا ہے وہ خزانہ جو میں بتا رہا ہوں یہاں سے دور پڑا ہے اور میرے سوا کسی کو معلوم نہیں میں چاہتا ہوں کہ وہ تم لے لو کیا تم ان سپاہیوں سے ذرا الگ ہو کر میری بات سننا پسند کروگے؟
اچھی طرح دیکھ لو میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں نہ میں تمہیں کوئی دھوکہ دونگا اور میں دھوکا دے ہی کیا سکتا ہوں تم پانچ مسلح آدمی ہوں اور میں اکیلا اور نہتّہ ہوں
معلوم ہوتا ہے اس شخص کی زبان میں کوئی خاص تاثر تھا یا اس سلجوقی عہدیدار کی شخصیت کمزور تھی کہ اس نے اس ڈاکو کا اثر قبول کرلیا اور اس کی بات سننے پر رضامند ہوگیا اس نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ برج سے نکل کر دروازے کے ساتھ ہی کھڑے رہیں سپاہی نکل گئے تو سلجوقی نے اس ڈاکو کو اپنے پاس بٹھا لیا لیکن بٹھانے سے پہلے اس نے اس ڈاکو کی جامہ تلاشی لے لی تھی وہ جانتا تھا کہ یہ باطنی کس طرح قاتلانہ وار کیا کرتے ہیں
میں شامی ہوں ڈاکو نے کہا میرا نام ابوجندل ہے میں اپنے ساتھ ایک ذمہ داری لیے پھرتا ہوں وہ میری دو یتیم بھتیجیاں ہیں دونوں نوجوان ہیں اور بہت ہی خوبصورت مجھے میرے ساتھیوں نے مشورے دیے تھے اور اب بھی کہتے رہتے ہیں کہ میں ان دونوں کو اپنی امام حسن بن صباح کو پیش کر دوں تو وہ مجھے اپنے یہاں بڑا اونچا رتبہ دے دے گا میرے سلجوقی دوست میں نے دوسروں کی بیٹیاں اغوا کرکے امام کو بھیجی ہیں لیکن جب اپنی ان بھتیجیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا مرا ہوا بھائی یاد آجاتا ہے میں انہیں چھپا چھپا کر رکھتا ہوں
میں مسلمان ہوں شمشیر ابلک نے کہا میں خوبصورت لڑکیوں کے لالچ میں نہیں آؤں گا نہ ہمیں اجازت ہے کہ کسی عورت کو اپنی مرضی سے اپنے پاس رکھ لیں
یہ میں جانتا ہوں ابو جندل نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تم ان لڑکیوں کو اپنے سالار کے حوالے کر دو گے اور وہ چاہے گا تو خود ان کے ساتھ نکاح پڑھا لے گا یا اپنے دو لشکریوں کے ساتھ ان کی شادیاں کر دے گا لیکن کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ان دونوں کو تم اپنے پاس رکھ لوں ایک کو بیوی اور دوسری کو داشتہ بنا لو میں نے جس خزانے کا اشارہ دیا تھا وہ انہیں لڑکیوں کی خاطر ہے مجھے تو قتل ہونا ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ان لڑکیوں کو خالی ہاتھ اس دنیا میں چھوڑ جاؤں
کیا تم میری بات نہیں سمجھے شمشیر ابلک نے کہا میں اپنی مرضی سے کسی عورت کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا اگر تم ان دونوں لڑکیوں کو میرے حوالے کر دو گے تو مجھے یہ لڑکیاں چھوڑنی پڑیں گی یا اپنی فوج چھوڑنی پڑے گی
کیا ملتا ہے تمہیں اس فوج میں ابو جندل نے کہا اور کیا ملا ہے تمہیں مسلمان ہوکر تم سمجھتے ہو کہ تم نے اپنی عاقبت سنوار لی ہے لیکن میں تمہاری دنیا بھی سوار دوں گا پہلے میری پوری بات سن لو پھر انکار یا اقرار کرنا
وہ خزانہ تم خود کیوں نہیں لے لیتے؟
شمشیر ابلک نے پوچھا
یہ میری زندگی کی آخری رات ہے ابو جندل نے جواب دیا صبح تک میں قتل ہو چکا ہونگا اگر تم مجھے قتل ہونے سے بچا لو گے تو بھی میں اکیلا اس خزانے تک نہیں پہنچ سکوں گا میرے تمام ساتھی مارے جا چکے ہیں مجھے کم از کم چار آدمیوں کی ضرورت ہے وہ خزانہ یہاں قلعے کے کہیں قریب نہیں تم میرا ساتھ دو گے اور چار پانچ سپاہی رازداری کے ساتھ لے آؤ گے تو ہم اس خزانے تک پہنچ کر وہاں سے نکال لیں گے
اور وہاں لے جاکر تم مجھے اور میرے سپاہیوں کو بڑی آسانی سے قتل کر سکو گے شمشیر ابلک نے کہا اور اگر میں وہ خزانہ تمہارے ساتھ مل کر نکالوں تو کیا میں واپس اپنی فوج میں آسکوں گا؟
پھر فوج میں واپس آنا ہی نہیں ابو جندل نے پراعتماد لہجے میں کہا ہم دونوں ملک ہندوستان یا دیار حجاز یا مصر کو چلے جائیں گے اور وہاں شاہانہ زندگی بسر کریں گے پہلے میرے گھر چلو اور میری بھتیجیوں کو دیکھ لو مجھ سے ڈرو نہیں میں تمہیں دھوکا نہیں دوں گا مجھے باطنی اور ڈاکو سمجھ کر قتل کر دو قتل سے پہلے میں تمہیں اس جگہ کا راستہ اور نقشہ اچھی طرح سمجھا دوں گا لیکن تم میرے بغیر وہاں تک پہنچ نہیں سکو گے
وہ خزانہ آیا کہاں سے ؟
شمشیر ابلک نے پوچھا اور وہ اس جگہ کیوں رکھا ہے جہاں تم بتا رہے ہو؟
آج میں ہر بات سچی اور کھری کر رہا ہوں ابوجندل نے کہا میں پیشہ ور ڈاکو اور رہزن ہوں یہ میرا آبائی پیشہ ہے میرے باپ کا بھی یہی کام اور دادا کا بھی اور شاید دادے کا دادا بھی یہی کام کرتا ہوگا اس علاقے میں حسن بن صباح کا عقیدہ پھیل گیا اور اس کے اپنے ڈاکو قافلوں کو لوٹنے لگے تو میں مجبور ہوکر اس کے گروہ میں شامل ہوگیا اب ہم لوگ الگ تھلگ قافلوں کو نہیں لوٹ سکتے تھے ہمیں حسن بن صباح کی پشت پناہی اور مدد حاصل ہے میں نے حسن بن صباح کے پاس جا کر اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس کا مرید ہوگیا لیکن آج تک مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ ہم جتنا مال لوٹتے ہیں وہ سارے کا سارا قلعہ الموت بھیجنا ہوتا تھا اس میں سے ہمیں تھوڑا سا حصہ مل جاتا تھا میں نے اپنے پرانے گروہ کے آدمیوں سے کہا کہ لوٹ مار ہم کریں اور خطرے میں ہم اپنے آپ کو ڈالیں اور مال سارا دوسرے لے جائے تو کیوں نہ ہم یہ کام ہی چھوڑ دیں یا اپنے امام کو دھوکہ دے اور آدھے سے زیادہ مال خود رکھا کریں میرا پرانا گروہ بھی امام کے گروہ کے ساتھ مل گیا تھا میں نے اپنے ان پرانے ساتھیوں کے ساتھ یہ بات کی تو انہیں میری بات اچھی لگی ہم نے یوں کرنا شروع کردیا کہ کسی قافلے کو لوٹتے تھے تو لوٹ مار کے دوران میرے گروہ کے دو تین آدمی سونا چاندی اور نقدی اپنے پاس چھپا کر وہاں سے کھسک جاتے اور بہت دور نکل جاتے تھے یہ مال وہ کہیں زمین میں دبا دیتے تھے کچھ دنوں میں اپنے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں جاتا اور مال نکال کر اس جگہ پر پہنچا دیتا تھا جو میں نے تمہیں بتانی ہے ہم لوگ ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دیا کرتے آج تک میرے کسی آدمی نے یوں نہیں کیا کہ یہاں سے غائب ہو جاتا اور اس جگہ سے خزانہ نکال لے جاتا یہ ہے حقیقت اس خزانے کی
یہ تو مان لیا شمشیر ابلک نے کہا لیکن میں تم پر اعتبار کس طرح کروں؟
تم باطنی ہو اور باطنی پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ انسان قتل ہوجاتا ہے
میرے بھائی! ابوجندل نے کہا میرا کوئی مذہب نہیں نہ کوئی عقیدہ ہے میں نے تمہیں بتایا ہے کہ حسن بن صباح ہماری پشت پناہی کرتا تھا اور پناہ بھی دیتا تھا اب ایک کھری سی بات سن لو تم مسلمان ہو اور اس امید پر کوئی برا کام نہیں کرنا چاہتے کہ مر جاؤ گے تو خدا تمہیں جنت میں داخل کر دے گا خدا نے آسمانوں میں جنت بنائی ہے لیکن ساری عمر نیک پاک رہو گے تو تم اس جنت کے حقدار بن سکو گے اس کا کیا اعتبار کہ خدا کی جنت کا وجود ہے کہ نہیں تم یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتے کہ تم نے کبھی گناہ نہیں کیا انسان نادانستہ طور پر بھی گناہ کر گزرتا ہے حسن بن صباح نے زمین پر جنت بنا دی ہے میں نے یہ جنت دیکھی ہے لیکن اس میں جانے کی کبھی خواہش نہیں کی کیوں نہ ہم اپنی جنت خود بنا لیں ہم بنا بھی سکتے ہیں وہ خزانہ ایسا ہے جو ھماری تین نسلیں عیش کرتی رہیں تو بھی ختم نہ ہوگا
شمشیر ابلک کو چپ سی لگ گئی اور اس کے چہرے کے تاثرات سے صاف پتا چلتا تھا کہ وہ قائل ہوگیا ہے اور گہری سوچ میں چلا گیا ہے
میرے سلجوقی دوست! ابوجندل نے کہا میں تمہیں ایک اور بات بھی بتا دیتا ہوں خوش نہ ہونا کہ تم نے قلعہ فتح کرلیا ہے امام شیخ الجبل کا لشکر آ ہی رہا ہوگا اس لشکر میں وہ فدائی ضرور ہونگے جو شیخ الجبل کے نام پر جان قربان کرنے پر فخر کیا کرتے ہیں تمھارے لشکر میں کوئی ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہے گا اس قلعے میں خزانہ بھرا ہوا ہے جو تمہیں معلوم ہو گیا ہے کہ تہہ خانے میں ہے لیکن تمہیں یہاں سوائے موت کے کچھ نہیں ملے گا یہ سارا خزانہ اگر یہاں سے مرو چلا بھی گیا تو تمہیں کیا ملے گا کچھ بھی نہیں یہ سلطان کی ملکیت ہوگا میرے گھر چلو تم دیکھو گے کہ میری دو بھتجیوں کے سوا وہاں کوئی بھی نہیں ویسے بھی ہمیں گھر جانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری بھتیجیوں کو تمہارے دوسرے لشکری لے جائیں اور سالار کے حوالے کردیں تم جب ان لڑکیوں کو اپنے سالار کی ملکیت میں دیکھو گے تو پچھتاؤ گے کہ تم نے پہلے انہیں کیوں نہ دیکھ لیا اور کیوں نہ انہیں غائب کردیا
ہاں! شمشیر ابلک نے کہا ہمیں چلنا چاہیے میرے سپاہی یہ نہ سوچیں کہ معلوم نہیں ہم آپس میں کیا سازباز کر رہے ہیں تم یہیں بیٹھو میں ان کے ساتھ بات کر لوں
شمشیرا بلاک ابوجندل کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر باہر نکلا اور اس نے اپنے چاروں سپاہیوں کے ساتھ یہ ساری بات کیں جو اس کے ساتھ ابو جندل نے کی تھی وہ خود ذمہ دار عہدے دار تھا لیکن قائل ہو گیا تھا یہ تو سپاہی تھے انہوں نے دیکھا کہ ان کا عہدہ دار خزانہ اور دو لڑکیوں کے چکر میں آگیا ہے تو اس کا ساتھ دینا ہی بہتر ہے
کیا آپ نے یقین کرلیا ہے کہ یہ شخص ہمیں دھوکہ نہیں دےگا؟
ایک سپاہی نے پوچھا
یہ اکیلا ہے اور ہم پانچ ہیں شمشیر ابلک نے کہا اور ہم نے اسے نہتّہ کر دیا ہے میرا ساتھ دو اور اس بات کو راز میں رکھنا
شمشیرابلک بُرج میں گیا اور ابو جندل کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا شمشیر ابلک نے اسے کہا کہ وہ ایسے راستے سے اپنے گھر کو چلے کہ انہیں کوئی دیکھ نہ سکے ابوجندل اس قلعے کی بھول بھلیوں سے اچھی طرح واقف تھا وہ انھیں قلعے کی دیوار کے ایسے حصے میں لے گیا جہاں کوئی دیکھنے والا نہ تھا ابوجندل انہیں ادھر سے اتار کر ایک اندھیرے راستے سے اپنے گھر لے گیا
اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہ ملا دروازہ اندر سے بند تھا اس نے بار بار دستک دی تو بھی اندر خاموشی رہی وہ سمجھ گیا لڑکیاں دروازہ نہیں کھول رہی آخر اس نے بلند آواز سے لڑکیوں کو پکارا تب دروازہ کھلا
ابو جندل نے اندر جاتے ہی کہا کہ گھبرائیں نہیں یہ اپنے دوست ہیں شمشیر ابلک نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ صحن میں ہی رہیں اور خود وہ ابوجندل کے ساتھ ایک کمرے میں چلا گیا کمرے میں فانوس جل رہا تھا ابو جندل نے دونوں لڑکیوں کو بلایا شمشیر ابلک نے لڑکیوں کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہ تو بالکل جوان اور بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تھیں
دیکھو لڑکیوں! ابوجندل نے لڑکیوں سے کہا یہ مسلمان فوج کے کماندار ہیں انہوں نے میری جان بخشی کر دی ہے اور تمہاری ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی ہے
دونوں لڑکیاں شمشیر ابلک کی طرف لپکیں اور اپنے بازو اس کے گلے میں ڈال دیئے اور ایک اس کی طرف اور دوسری دوسری طرف بیٹھ گئی اور اپنے گال اس کے گالوں سے ملانے لگیں جیسے وہ ان کے خون کے رشتے کا کوئی عزیز ہوں ان لڑکیوں نے ایسے والہانہ پن کا عملی طور پر اظہار کیا کہ شمشیر ابلک تو جیسے ہپناٹائز ہوگیا ہو
باہر کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور کسی کی آواز آئی کہاں ہے ابو جندل باہر آجاؤ باطنی ڈاکو دو آدمی بڑی تیز تیز چلتے اس کمرے میں آگئے جہاں شمشیر ابلک ابوجندل کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ان آدمیوں کے آنے سے پہلے ہی شمشیر ابلک اٹھ کھڑا ہوا تھا اور لڑکیاں دوڑ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی تھیں ان آدمیوں نے شمشیر ابلک کو دیکھا تو ٹھٹک کر پیچھے ہٹ گئے وہ اس کے اپنے لشکر کے دو لشکری تھے
میں اس گھر کی تلاشی لے چکا ہوں شمشیر ابلک نے کہا میرے ساتھ چار لشکری ہیں یہاں کوئی باطنی نہیں نہ کوئی ڈاکو ہے یہ شخص تاجر ہے اور چند دنوں بعد یہاں سے چلا جائے گا تم لوگ جاؤ میں ذرا اور تسلی کر کے آؤں گا
لشکریوں نے دیکھا کہ ان کا ایک عہدیدار پہلے ہی یہاں موجود ہے تو وہ اس کو سلام کرکے چلے گئے
اب بتاؤ ابوجندل! شمشیر ابلک نے پوچھا وہ جگہ کہاں ہے؟
ابو جندل نے اسے بتانا شروع کردیا کہ وہ جگہ کتنی دور ہے اور وہاں تک ہم کس طرح پہنچیں گے اور وہ علاقہ کیسا ہے وغیرہ وغیرہ
یہ دونوں لڑکیاں ہمارے ساتھ ہونگی ابوجندل نے کہا ہم سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے دو گھوڑے فالتو ساتھ ہونے چاہیے دو بڑے وزنی بکس ہیں ایک ایک گھوڑے پر لاد لے گے اور کچھ سامان ہم اپنے گھوڑوں پر رکھ لیں گے
ہمیں ایک دو دنوں میں ہی نکل جانا چاہیے شمشیر ابلک نے کہا دو تین دن اور باہر سے لاشیں اٹھانے اور انھیں ٹھکانے لگانے کا کام ہوتا رہے گا یہاں سے نکل جانے کے لیے یہ موقع اچھا ہے
ابو جندل نے کہا کہ دو فالتو گھوڑوں کا انتظام وہ کرلے گا اور راستے کی خوراک کا بندوبست بھی وہی کرے گا اس کے پاس گھوڑوں کی کمی نہیں تھی شمشیر اپنے چار سپاہیوں کو ساتھ لے کر وہاں سے چلا گیا اس نے سپاہیوں کو بھی تیار کرلیا تھا انہوں نے تیار تو ہونا ہی تھا کیونکہ انہیں اچھا خاصا حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا
سلطنت سلجوقیہ کے دارالحکومت مرو میں سالار اوریزی کی کامیابی کی دعائیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں لیکن سلطان کے محل میں مایوسی بھی پیدا ہونے لگی تھی محاصرے کو آٹھ مہینے گزر چکے تھے اور وسم کوہ سے اموات کی جو اطلاع آرہی تھی وہ حوصلہ شکن تھیں آخر مزمل اور بن یونس دو ہزار گھوڑ سوار لے کر ایک خاص منصوبے کے تحت گئے تو مایوسی میں کمی آنے لگی لیکن ابھی تک وسم کوہ سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی سلطان برکیارق اور اس کے دونوں بھائی محمد اور سنجر صبح اٹھتے تو سب سے پہلے یہ پوچھتے کہ وسم کوہ سے کوئی قاصد آیا ہے یا نہیں آخر ایک روز قاصد آگیا اور وہ بازو لہرا لہرا کر اعلان کرتا چلا آ رہا تھا کہ وسم کوہ کا قلعہ فتح کرلیا گیا ہے اور باطنیوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے
سلطان تک خبر نہیں پہنچی تھی کہ یہ جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی شہر میں جشن کا سا سماں پیدا ہوگیا اور جب یہ خبر سلطان کے محل میں پہنچی تو وہاں بھی خوشیاں ناچنے لگیں شمونہ اور اس کی ماں میمونہ بھی دوڑی دوڑی سلطان برکیارق تک گئیں سلطان کے محل میں شمونہ کو خصوصی حیثیت حاصل ہو گئی تھی
میں وہاں خود جاؤں گا سلطان برکیارق نے کہا ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میں خود وہاں جاؤں گا یہ فتح کوئی معمولی فتح نہیں
میں بھی ساتھ جاؤں گی سلطان محترم! شمونہ جو پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی بولی میں حسن بن صباح کے پیرو کاروں کی لاشیں اور ان کی ہڈیاں دیکھنا چاہتی ہوں
شمونہ دراصل مزمل آفندی کے لئے پریشان تھی مزمل اور شمونہ نے عہد کر رکھا تھا کہ پہلے حسن بن صباح کا بیڑہ غرق کریں گے اور اس کے بعد شادی کریں گے مزمل نے ایک فتح حاصل کر لی تھی سلطان برکیارق نے شمونہ کو اجازت دے دی کہ وہ اس کے ساتھ جا سکتی ہے
جس وقت سالار اوریزی کا لشکر اور وہ گھوڑسوار لشکر جیسے مزمل آفندی لے کر گیا تھا وسم کوہ کے باہر باطنیوں کو گھیرے میں لے چکے تو ایسے گھمسان کی لڑائی ہوئی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا اس قیامت خیز میں تین باطنی لڑائی سے نکل گئے تینوں زخمی تھے انہوں نے قلعہ الموت کا رخ کرلیا وہ حسن بن صباح کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے
حسن بن صباح تو جیسے قلعہ وسم کوہ کو بھول ہی گیا تھا وہ کبھی پوچھ لیتا تھا کہ وسم کوہ کا محاصرہ ٹوٹا کہ نہیں اسے ہر بار اچھی خبر سنائی جاتی تھی کہ محاصرہ ٹوٹا بھی نہیں اور کامیاب بھی نہیں ہوا اور مسلمانوں کے لشکر کا جانی نقصان مسلسل ہوتا چلا جا رہا ہے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

 www.urducover.com

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles