حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 4

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 4

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:13 }
اب داستان گو کے ساتھ آئیں وہ آپ کو اس ٹیکری پر لے چلتا ہے جہاں بارہ چودہ سرکردہ افراد حسن بن صباح کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے لوگوں کے ہجوم کو حکم دے دیا گیا تھا کہ وہ بہت دور چلے جائیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ سرکردہ افراد مرعوبیت کی کیفیت میں تھے اور ان پر دھونی کا اور حسن بن صباح کی نظروں کا بھی اثر تھا ان پر مجموعی طور پر ایسی کیفیت طاری تھی جیسے وہ اس لیے سانس لے رہے ہیں کہ حسن بن صباح سانس لے رہا تھا اگر حسن بن صباح کے سانسوں کا سلسلہ رک جاتا تو یہ لوگ بھی اپنی سانسیں روک لیتے
تم ان لوگوں کے سردار ہو حسن بن صباح نے کہا یہ گھوڑے ہیں اور یہ مویشی ہیں تم جدھر چاہو انہیں ہانک کر لے جا سکتے ہو میں تمہارے لئے اور مخلوق خدا کے لیے خوش بختی اور خوشحالی لے کر آیا ہوں آج تک جتنے مذہب آئے ہیں انہوں نے انسانوں کے نظریے عقیدے اور پابندیاں دی ہیں لیکن خوش بختی اور خوشحالی کوئی مذہب نہیں دے سکا مذہب صرف اسلام ہے لیکن اسلام بھی تم تک صحیح شکل میں نہیں پہنچا میں تمہیں اس عظیم مذہب کی صحیح شکل دکھاتا ہوں تم نے صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے اپنے قبیلے کو لگام ڈال کر اس راستے پر چلانا ہے جو راستہ خدا نے مجھے دکھا کر زمین پر اتارا ہے
حسن بن صباح نے اسماعیلی مسلک کی تبلیغ شروع کردی اور ان سرداروں کو ایسے سبز باغ دکھائے کے وہ اس کے قائل ہوگئے
اب تمہارے پاس میرے مبلغ آئیں گے حسن بن صباح نے کہا تمہارا فرض ہے ان مبلغوں کی مدد کرنا اور لوگوں کو اس مسئلہ پر متحد کرنا کیا تم یہ کام کرو گے؟
ہاں ائے قابل احترام ہستی ایک معمر سردار نے کہا ہم یہ کام کریں گے
ہم تمہارے حکم پر جانے قربان کردیں گے
ہمیں آزما کے دیکھ
ایسی ہی آوازیں تھیں جو ان بارہ چودہ سرداروں کے سینوں سے پرجوش طریقے سے نکلی حسن بن صباح پہلی ہی بار بغیر کسی دقت کے کامیاب ہوگیا یہ صرف اس علاقے اور چند ایک بستیوں کا معاملہ تھا اگلے ہی روز اس نے چند ایک مبلغ جنہیں احمد بن عطاش نے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا ان بستیوں میں پھیلا دیے اور ایک نئے فرقے کی تبلیغ شروع ہو گئی
لوگ یہ مطالبہ کرنے لگے کہ حسن بن صباح ان کے علاقے میں آئے اپنی زیارت کرائے اور انہیں خدا کی باتیں سنایئے حسن بن صباح ایک اور علاقے میں اسی شان و شوکت سے جس شان و شوکت سے اس نے پہلی بار زیارت کروائی تھی ایک اور علاقے میں بڑے ہی ڈرامائی اور پراسرار طریقے سے اپنی زیارت کروائی اس کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی لوگوں نے حسب عادت اسکے متعلق ایسی ایسی باتیں مشہور کر دی تھیں جو محض زیب داستان تھیں
بھولے بھالے لوگوں نے جب بھی دھوکا کھایا ہے وہ اپنی اسی فطری عادت کی وجہ سے کھایا ہے کہ جس سے متاثر ہوئے اسے پیغمبری کا درجہ دے دیا اور اس کی عام سی باتوں کو اس طرح پھیلایا جیسے یہ باتیں ان سے براہ راست خدا نے کی ہو لوگ ان کے من گھڑت معجزے بھی بیان کرتے ہیں یہ پسماندگی کے اس دور میں بھی ہوا اور یہ آج بھی ہو رہا ہے جب انسان ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ قلعہ شاہ در پر احمد بن عطاش نے کس طرح قبضہ کیا تھا اب آگے ایک اور قلعہ تھا جس کا نام تھا خلجان تھا اس قلعے کے امیر کا نام صالح نمیری تھا اس وقت اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی وہ بہت دنوں سے سن رہا تھا کہ اس علاقے میں ایک شخصیت کا ظہور ہوا ہے شاہ بلوط کے درخت میں چمکنے والے ستارے کے متعلق بھی خبریں صالح نمیری تک پہنچی تھیں
یہ ساری باتیں خلجان کے لوگوں تک بھی پہنچی تھیں اور کئی لوگ اس جگہ آئے بھی تھے جہاں ستارہ دیکھنے کے لیے لوگ جو موجود رہتے تھے حسن بن صباح جب لوگوں کے سامنے آیا تو خلجان کے کچھ لوگ اس کی زیارت کو آئے تھے وہ بھی وہی مرعوبیت لے کر گئے تھے جو ہر کسی پر طاری ہو گئی تھی انہوں نے خلجان میں جا کر لوگوں کو ایسے دلفریب انداز میں حسن بن صباح کا ظہور اور اسکی باتیں سنائی کہ لوگ حسن بن صباح کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہونے لگے کچھ اور لوگ حسن بن صباح کی زیارت کو چل پڑے
صالح نمیری اپنے دوستوں اور مشیروں سے پوچھتا رہتا تھا کہ یہ سب کیا ہے ابتدا میں اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ یہ کوئی ویسا ہی آدمی معلوم ہوتا ہے جیسے پہلے بھی نبی اور پیغمبر بن کر آچکے ہیں یہ کوئی نیا نبی ہوگا لیکن شہر میں حسن بن صباح کے چرچے ہونے لگے یہ آوازیں صالح نمیری کے کانوں تک پہنچی اس نے اپنے مشیروں کو بلایا
یہ میں کیا سن رہا ہوں ؟
صالح نمیری نے کہا مجھے اطلاع ملی ہے کہ شہر کے بچے بچے کی زبان پر اس کا نام ہے جو آسمان سے اترا ہے اور اس کی روح میں ستارے کی روشنی ہے
ہاں آقا ایک مشیر نے کہا آپ کو جو خبریں ملی ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے لوگ اسے دیکھ بھی آئے ہیں بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ زمین کی نہیں آسمان کی مخلوق ہے
ایک خبر میں نے بھی سنی ہے محفل میں بیٹھے ہوئے ایک اور آدمی نے کہا میں نے سنا ہے کہ اس کے مبلغ اس سارے علاقے میں پھیل گئے ہیں اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اس کے دو تین مبلغ کل یہاں بھی پہنچ رہے ہیں
خیال رکھو صالح نمیری نے حکم کے لہجے میں کہا یہ مبلغ آئیں تو انہیں سیدھا میرے پاس لے آؤ شہر کا کوئی شخص ان مبلغوں کو اپنے گھر میں جگہ نہ دے بہتر ہے اعلان کردو کہ مبلغ سب سے پہلے والئ قلعہ سے ملے بغیر کسی کے ساتھ بات نہ کرے
حکم کی تعمیل ہوگی آقا اس آدمی نے کہا ہم خود بھی ان مبلغوں کو لوگوں سے دور رکھنا چاہیں گے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ یہ ہیں کون اور یہ کس عقیدے اور کس مسلک کی تبلیغ کر رہے ہیں؟
یہ اسلام کا ہی کوئی اور فرقہ پیدا ہوگیا ہوگا صالح نمیری نے کہا میں تمہیں سختی سے کہتا ہوں کے کسی اور فرقے کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی اسلام چھوٹے چھوٹے فرقوں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے اور سلطنت اسلامیہ چھوٹی چھوٹی بادشاہوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے مجھے جانتے ہو کہ میں بڑی سختی سے اہلسنت ہوں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سلجوقیوں نے اسلام کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دے دیا ہے ان کی سلطنت میں کوئی شخص سنی عقیدے کے خلاف بات بھی نہیں کرسکتا مجھے ایک شک یہ بھی ہے کہ اسماعیلی درپردہ اپنے فرقے کی تبلیغ کر رہے ہیں یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس تبلیغ کو روکیں
ہاں آقا مشیر نے کہا ہم اسلام کی صداقت اور اسلام کی اصل روح کو قائم رکھنے کے لئے اپنی جان ومال قربان کر دیں گے ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہمارے پاس فوج نہیں
ہم فوج کیسے رکھ سکتے ہیں صالح نمیری نے کہا فوج کو کھلائیں گے کہاں سے اور اسے تنخواہ کہاں سے دیں گے ہم نے کسی سے لڑنا نہیں اگر ہم پر حملہ ہوگیا تو سلجوقی ہماری مدد کو پہنچیں گے یہ بھی ذہن میں رکھو کہ کسی نئے عقیدے یا باطل نظریے کو تلواروں اور برچھیوں سے نہیں روکا جاسکتا باطل کی تبلیغ کا جواب حق کی تبلیغ سے ہی دیا جا سکتا ہے اگر بہت سے لوگ سچ بولنے کے عادی ہوں تو ایک جھوٹا آدمی فوراً پکڑا جاتا ہے اور اس کا جھوٹ نہیں چل سکتا ان مبلغوں کو آنے دو اور انہیں سیدھا میرے پاس لے آؤ
دوسرے ہی دن صالح نمیری کو اطلاع ملی کہ دو مبلغ آگئے ہیں اس نے انہیں اسی وقت اندر بلا لیا ان کے ساتھ صالح نمیری کا اپنا ایک اہلکار تھا مبلغوں کی وضع قطع شریفانہ اور پروقار تھی چال ڈھال اور بات چیت سے وہ خاصے معزز لگتے تھے صالح نمیری نے انھیں بڑے احترام سے بٹھایا اور ان سے پوچھا کہ وہ کس عقیدے کی تبلیغ کر رہے ہیں ؟
اس کا نام حسن بن صباح ہے ایک مبلغ نے بتایا وہ اسلام کا علمبردار ہے
کیا وہ نبوت کا دعوی کرتا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
نہیں مبلغ نے جواب دیا وہ اللہ کا ایلچی بن کر آیا ہے وہ پہلے ایک ستارے کے ساتھ شاہ بلوط کے درخت میں چمکتا رہا پھر آسمان کی ایک روشنی میں اس کا ظہور ہوا اور ایک روز وہ زمین پر اتر آیا
میری ایک بات غور سے سن لو صالح نمیری نے کہا جس علاقے میں تم تبلیغ کرتے پھر رہے ہو اور جس علاقے میں تمہارے خدا کے اس ایلچی کا ظہور ہوا ہے اس علاقے پر میرا کوئی عمل دخل نہیں لیکن ایک اہلسنت مسلمان کی حیثیت سے میں خدا کے اس ایلچی کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کروں گا اس وقت تم دونوں کے لئے میرا حکم یہ ہے کہ اس شہر میں جس طرح داخل ہوئے تھے اسی طرح اس شہر سے نکل جاؤ کبھی کوئی نبی یا خدا کا کوئی ایلچی شاہ بلوط کے درخت کے ذریعے آسمان سے نہیں اترا نبوت کا سلسلہ رسول اکرمﷺ پر ختم ہوچکا ہے اگر تم یہ کہو کہ یہ حسن بن صباح کوئی درویش دانشور یا عالم ہے تو میں آگے بڑھ کر اس کا استقبال کروں گا
آمیر قلعہ ایک مبلغ نے کہا اگر آپ صرف ایک بار تھوڑی سی دیر کے لئے اسے مل لیں تو آپ کا شک رفع ہوجائے گا یہ تو ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ خدا کا ایلچی ہے ہم اس کے اس پیغام سے متاثر ہوئے ہیں جو اس نے ہمیں دیا ہے وہ مسلمان ہے اور اہل سنت ہے ہوسکتا ہے آپ انہیں ملے تو آپ کو صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کوئی دانا عالم ہے یا اس کے دل و دماغ میں کوئی باطل نظریہ ہے
اور یہ بھی ہوسکتا ہے دوسرا مبلغ بولا آپ جیسا عالم اور دانشمند امیر قلعہ اس کے ساتھ گفتگو کرے تو ہمیں بھی اس کی اصلیت معلوم ہوجائے گی ہو سکتا ہے ہم ہی غلطی پر ہوں اور ویسے ہی اس کی شخصیت سے متاثر ہو گئے ہوں
کیا وہ یہاں آئے گا ؟
صالح نمیری نے پوچھا
شاید نہیں ایک مبلغ نے جواب دیا ہم ابھی چلے جاتے ہیں اور ان سے بات کرکے آپ کو بتائیں گے کہ وہ آپ کے پاس آئیں گے یا آپ کو ان کے پاس جانا پڑے گا اگر وہ آپ کو کسی جگہ بلائیں تو کیا آپ وہاں آ جائیں گے؟
ہاں صالح نمیری نے کہا میں آؤں گا
دونوں مبلغ چلے گئے
اُن دنوں حسن بن صباح قلعہ شاہ در میں تھا شاہ در میں بھی وہ لوگوں کے سامنے خدا کے ایلچی کے روپ میں آ گیا تھا دونوں مبلغ ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرکے شاہ در پہنچے اور حسن بن صباح سے ملے یہ مبلغ اس کے اپنے گروہ کے آدمی تھے انھیں خصوصی تربیت دی گئی تھی انہوں نے حسن بن صباح کو خلجان کے آمیر قلعہ صالح نمیری کی باتیں سنائی اور بتایا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے
میں اسے ملوں گا حسن بن صباح نے کہا
میں صالح نمیری کو کچھ کچھ جانتا ہوں پاس بیٹھے ہوئے احمد بن عطاش نے کہا اکھڑ سا آدمی ہے اور بڑا پکا اہل سنت ہے وہ ذرا مشکل سے ہی مانے گا
استاد محترم حسن بن صباح نے کہا آپ کیا کہہ رہے ہیں؟
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اس کے اکھڑ پن کو توڑ نہیں سکوں گا؟
میں تمہاری حوصلہ شکنی نہیں کررہا حسن احمد بن عطاش نے کہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص ایک پتھر ہے جسے ذرا طریقے سے ہی توڑنا پڑے گا
آپ نے اچھا کیا کہہ دیا حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے ہمیں اس شخص کی نہیں بلکہ اس کے قلعے کی ضرورت ہے مجھے پوری امید ہے کہ میں خلجان کا قلعہ اور یہ پورے کا پورا شہر آپ کی جھولی میں ڈال دوں گا
اسے ملو گے کہاں؟
احمد بن عطاش میں کہا
نہ میں اسے یہاں ملوں گا نہ اس کے پاس جاؤں گا حسن بن صباح نے کہا میں اسے چشمے پر ملوں گا جہاں میں دوسری بار لوگوں سے ملا تھا
وہ علاقہ بہت ہی سرسبز اور روح افزا تھا وہاں ایک چشمہ تھا اور چھوٹی سی ایک جھیل تھی پانی اتنا شفاف کے تہہ میں پڑی ہوئی کنکریاں بھی نظر آتی تھیں چشمے کے اردگرد تھوڑا سا کھلا میدان تھا جس میں مخمل جیسی قدرتی گھاس تھی چشمے کی نمی کی وجہ سے وہاں پھول دار پودوں کی بہتات تھی بعض پھول بھینی بھینی خوشبو دیتے تھے ذرا پیچھے ہٹ کر چھوٹی چھوٹی ٹھیکریاں تھیں جو اونچی نیچی گھاس سے ڈھکی ہوئی تھیں ان ٹکریوں پر بڑے خوبصورت درخت تھے بڑے خوش نما درخت چشمے کے اردگرد بھی تھے یہ چھوٹا سا خطہ اس قدر دلنشین اور عطربیز تھا کہ جاں بلب مریض بھی وہاں جاکر اپنے وجود میں روحانی تازگی محسوس کرتا تھا
حسن بن صباح اس جگہ آ چکا تھا اور اسے یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی تھی اس نے احمد بن عطاش سے کہا کہ اس جگہ وہ بڑے خیمے لگا دے اور کھانا پکانے کا انتظام بھی وہیں کر دے اس نے بتایا کہ خیمے کس ترتیب میں گاڑے جائیں
یہ جگہ شاہ در سے کم و بیش تین میل دور تھی وہاں سے خلجان بھی کچھ اتنا ہی دور تھا
احمد بن عطاش نے اسی وقت خیمے اور دیگر سازوسامان وہاں تک پہنچانے کا انتظام کردیا تمام سامان اونٹ پر لاد کر بھیج دیا گیا رات کے وقت حسن بن صباح گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا
وہ اکیلا نہیں گیا تھا اس کے ساتھ اپنے گروہ کے چند ایک آدمی تھے یہ سب اس کے بالکے اور چیلے چانٹے تھے انہیں مختلف رول دیے گئے تھے وہ علمائے دین کے روپ میں تھے وہ خاص مرید اور حاشیہ برادر تھے اور باقی ایسے معتقد تھے جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ حسن بن صباح کی خدمت میں حاضر رہنے کو اپنی روح کی ضرورت سمجھتے ہیں ‏تین لڑکیاں بھی ساتھ تھیں جن میں ایک فرح تھی یہ وہ لڑکی تھی جو حسن بن صباح کی محبت میں دیوانی ہوگئی تھی محبت بھی ایسی کہ جب حسن بن صباح شاہ در کے لیے روانہ ہوا تھا وہ حسن بن صباح کے راستے میں کھڑی ہو گئی تھی اس نے حسن بن صباح کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ جہاں بھی جا رہا ہے اسے ساتھ لے چلے
فرح بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی جسمانی اور ذہنی لحاظ سے چست اور تیز تھی احمد بن عطاش نے اسے دیکھا تو اس نے اس کی خصوصی تربیت شروع کردی تھی
حسن بن صباح تو جیسے اسے دیکھ دیکھ کر جیتا تھا
چشمے پر پہنچ کر حسن بن صباح نے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق خیمے نصب کرائے یہ عام سی قسم کے خیمے نہیں تھے یہ بڑے سائز کے چوکور خیمے تھے اندر سے یہ خیمے لگتے ہی نہیں تھے خوش نما سجے سجائے کمرے لگتے تھے اندر کی طرف ریشمی کپڑے لگائے گئے تھے ان کی بلندی بھی کمروں جیسی تھی
حسن بن صباح نے اپنے اور صالح نمیری کے خیموں کے درمیان فاصلہ زیادہ رکھا تھا ان کے درمیان لڑکیوں کا خیمہ اور تین چار خیمیں ان کے چیلے چانٹوں کے تھے ایک ٹیکری کے پیچھے باورچی خانہ بنا دیا گیا تھا
حسن بن صباح نے انہیں دو مبلغوں کو جو پہلے خلجان گئے تھے صالح نمیری کے نام ایک پیغام دے کر بھیجا کہ وہ تین چار دنوں کے لئے اس کے ساتھ رہے
اگلی ہی شام صالح نمیری ان دو مبلغوں کے ساتھ آگیا حسن بن صباح نے آگے جا کر اس کا استقبال کیا اور پورے احترام سے اسے خیموں تک لایا
صالح نمیری کے ساتھ اس کے چار محافظ تھے جو اس کے پیچھے چلے آ رہے تھے صالح نمیری جب چشمے کے قریب پہنچا تو تینوں لڑکیوں نے اس کے آگے پھول پھینکنے شروع کر دیئے جو انہوں نے چھوٹی چھوٹی ٹوکریوں میں اٹھا رکھے تھے
نہیں صالح نمیری نے آگے بڑھ کر لڑکیوں سے کہا میں اتنا بڑا آدمی نہیں ہوں مجھے پھولوں کو روندنے کا گنہگار نہ کرو
آپ کے یہاں رواج کچھ اور ہوگا فرح نے جانفزا مسکراہٹ سے کہا ہمارے یہاں کوئی معزز مہمان آتا ہے تو ہم اس کے راستے میں پھول بچھاتے ہیں
ہمارا بھی ایک رواج ہے صالح نمیری نے کہا ہمارے یہاں آپ جیسا کوئی مہمان آتا ہے تو ہم اس کے راستے میں آنکھیں بچھاتے ہیں
حسن بن صباح نے زور دار قہقہہ لگایا
صالح نمیری لڑکیوں کے قریب سے گزرتے انہیں دیکھتا رہا اور اس کی ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
صالح نمیری کی خاطر تواضع کی گئی جیسے وہ کسی ملک کا بادشاہ ہو وہ بادشاہ تو نہیں تھا لیکن وہ لگتا بادشاہ ہی تھا خوب روح آدمی تھا چہرے کا رنگ سرخی مائل سفید تھا اور اس کے انداز اور چال ڈھال میں تمکنت تھی
رات کھانے کے بعد وہ اور حسن بن صباح اکیلے بیٹھ گئے
کیا آپ نے نبوت کا دعوی کیا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
نہیں تو حسن بن صباح نے جواب دیا مجھے کچھ حاصل ضرور ہوا ہے لیکن یہ نبوت نہیں میں کچھ سمجھ نہیں سکا یہ کیا ہے میں یہ پورے یقین سے کہتا ہوں کہ میرا درجہ عام انسانوں سے ذرا اوپر ہو گیا ہے یہ مجھے آپ بتائیں گے کہ میں کیا ہوں اور خدا نے مجھے کیوں یہ درجہ بخشا ہے
پہلے تو مجھے یہ بتائیں صالح نمیری نے کہا آپ آسمان سے کس طرح اترے ہیں اور آپ کی روح میں ستاروں کا نور کہاں سے آگیا ہے ؟
لوگ شاہ بلوط کے درخت میں جو ستارہ دیکھتے رہے ہیں یہ کیا تھا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟
میں کچھ نہیں بتا سکتا حسن بن صباح نے کہا میں بھی سنا کرتا تھا کہ ایک درخت میں دوسری تیسری رات ایک ستارہ نظر آتا ہے میری بھی خواہش تھی کہ یہ ستارہ دیکھو لیکن ستارے کے ظہور کے وقت مجھ پر غشی طاری ہوجاتی تھی میں یہ ستارہ دیکھنے گیا تو لوگوں کے ہجوم کے ساتھ میں بھی انتظار ہی کرتا رہا ستارہ نظر نہ آیا
یہ غشی کیسی ہوتی تھی؟
صالح نمیری نے پوچھا
اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے حسن بن صباح نے جواب دیا غشی میں یہ ہوتا تھا کہ ایک بڑی ہی نورانی صورت والا بزرگ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتا اور بتاتا تھا کہ لوگوں کی رہنمائی کی سعادت خدا نے مجھے دی ہے
یہ بزرگ کون تھے جو مجھے سبق دیا کرتے تھے کہ میں لوگوں کی رہنمائی کس طرح کروں گا پھر ایک روز کسی غیبی طاقت نے مجھے
حسن بن صباح صالح نمیری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کوئی نئی کہانی سناؤ تم سے پہلے بھی ایسے ہی نبی ہو گزرے ہیں جنہیں غشی میں ایک بزرگ آکر بتایا کرتے تھے کہ خدا نے تمہیں اپنا ایلچی منتخب کر لیا ہے دیکھو حسن خدا نے اپنے ایلچی بھیجنے کا سلسلہ غار حرا سے اپنا آخری ایلچی بھیج کر بند کر دیا ہے
حسن بن صباح نے صالح نمیری کے ساتھ بحث نہ کی بلکہ وہ اس طرح کی باتیں کرتا رہا جیسے وہ تذبذب میں ہو کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے اور اس تبلیغ کا سلسلہ کیوں شروع کر دیا ہے
اگر میں غلط راستے پر چل نکلا ہوں تو مجھے راہ راست پر لائیں حسن بن صباح نے کہا آپ کچھ دن میرے پاس ٹھہریں میں اپنے متعلق یہ بتا سکتا ہوں کہ میں سحر کی طاقت رکھتا ہوں اور زمین میں دبے ہوئے راز بتا سکتا ہوں مجھے میں کوئی مافوق الفطرت طاقت موجود ہے احمد بن عطاش میرا پیر و مرشد ہے اس نے مجھے ایک پراسرار علم دیا ہے
شاہ در کا والی احمد بن عطاش؟
صالح نمیری نے پوچھا
ہاں حسن بن صباح نے کہا وہی احمد بن عطاش
میں نے پہلے بھی سنا ہے صالح نمیری نے کہا ہاں حسن میں نے پہلے بھی سنا ہے کہ وہ سحر کا یا کسی اور پراسرار علم کا ماہر ہے اور وہ مستقبل کے پردوں میں جھانک سکتا ہے کیا تم نے اس سے کچھ سیکھا ہے؟
بہت کچھ حسن بن صباح نے جواب دیا ستاروں کی چال بھانپ سکتا ہوں ہاتھوں کی لکیریں پڑھ سکتا ہوں
صالح نمیری نے کچھ کہے بغیر اپنا ہاتھ پھیلا کر حسن کے آگے کر دیا
تمہارا امتحان ہے صالح نمیری نے کہا
صالح نمیری سمجھ نہ سکا کے حسن بن صباح نے بات کا رخ پھیر دیا ہے وہ اس بات کو گول کر گیا کہ وہ خدا کا ایلچی ہے اور اس نے وسیع پیمانے پر اپنے عقیدے کی تبلیغ شروع کردی ہے وہ کمال استادی سے گفتگو کو سحر نجوم اور دست شناسی کی بھول بھلیوں میں لے گیا تھا اس نے دیکھ لیا تھا کہ صالح نمیری واقعی پتھر ہے جسے توڑنا آسان کام نہیں
حسن بن صباح نے صالح نمیری کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی ہتھیلی کو پھیلایا اور ہاتھ کی لکیریں دیکھتا رہا کچھ دیر بعد اس نے ہتھیلی پر اپنا سر اس طرح جھکا لیا جیسے لکیروں کو اور زیادہ غور سے دیکھ رہا ہو
اس نے یوں تیزی سے اپنا سر اوپر کرلیا جیسے صالح نمیری کی ہتھیلی سے سانپ نے اس پر حملہ کر دیا ہو پھر اس نے اپنے چہرے پر حیرت کا تاثر پیدا کرکے صالح نمیری کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں
کیا نظر آیا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
حسن چپ رہا اس نے قلم دوات منگوا کر کپڑے کی طرح کے ایک کاغذ پر خانے بنائے کسی خانے میں ایک دو ہندسے اور کسی میں ایک دو حروف لکھے بعض خانوں میں ٹیڑھی میڑھی لکیریں ڈالیں اور بہت دیر انہیں دیکھتا رہا اور سوچتا رہا
کچھ بتاؤ گے ؟
صالح نمیری نے پوچھا
چار دن یہی انتظار کریں حسن نے کہا بات ابھی دھندلکے میں ہے
بات اچھی ہے یا بری؟
اچھی بھی ہوسکتی ہے بری بھی حسن نے کہا اچھی ہے یا بری بات معمولی نہیں شاہی بھی ہوسکتی ہے گدائی بھی چار دن دیکھوں گا پانچویں دن لکیروں اور ستاروں کا بھید آپ کے سامنے آجائے گا
صالح نمیری اذیت ناک تذبذب میں مبتلا ہو گیا
حسن بن صباح کے کہنے پر وہ اپنے خیمے میں جا کر سو گیا
علی الصبح فرح اس کے خیمے میں ناشتہ لے کر گئی اسے ناشتہ رکھ کر واپس آ جانا چاہیے تھا لیکن وہیں کھڑی رہی
کچھ اور چاہیے؟
فرح نے پوچھا
میں تو یہ ناشتہ دیکھ کر حیران ہو گیا ہوں صالح نمیری نے کہا اور تم پوچھتی ہو کچھ اور چاہیے
میں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاؤ ؟
فراح نے شرمیلی سی آواز میں پوچھا
پوچھنے کی کیا ضرورت ہے صالح نمیری نے مسکراتے ہوئے کہا یہاں میرے پاس بیٹھو تم کون ہو؟
حسن بن صباح کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟
میں والئی شاہ در احمد بن عطاش کی بھانجی ہوں فراح نے جھوٹ بولا انہوں نے مجھے ان کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے بھیجا ہے
شادی ہوچکی ہے؟
نہیں فراح نے جواب دیا
اب تک تو تمہاری شادی ہو جانی چاہیے تھی صالح نے کہا
میرے والدین فوت ہوگئے ہیں فرح نے دوسرا جھوٹ بولا ماموں احمد بن عطاش نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ میں جس کسی کو پسند کرو انھیں بتا دوں اور وہ اس کے ساتھ میری شادی کر دیں گے انہوں نے شرط صرف یہ رکھی ہے کہ وہ آدمی اچھی حیثیت والا ہونا چاہیے
تو کیا ابھی تک تمہیں اپنی پسند کا آدمی نہیں ملا ؟
اب ملا ہے فرح نے جواب دیا
وہ خوش نصیب کون ہے ؟
فرح نے صالح نمیری کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں
اتنا زیادہ شرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟
صالح نمیری نے کہا اور پوچھا کیا اس آدمی کو معلوم ہے کہ تم نے اسے پسند کیا ہے
نہیں
اسے بتا دینا تھا صالح نمیری نے کہا
ڈرتی ہوں فرح نے کہا وہ یہ نہ کہہ دے کہ میں اسے پسند نہیں
وہ کوئی جنگلی جانور ہوگا جو تمھیں پسند نہیں کرے گا صالح نے کہا
کیا آپ مجھے پسند کریں گے ؟
فرح نے جھپتے شرماتے پوچھا
کیا تم مجھے قبول کروں گی؟
صالح نمیری نے سوال کے جواب میں سوال کیا
فرح نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ صالح نمیری کی طرف سرکایا دوسرے لمحے اس کی انگلیاں صالح نمیری کی انگلیوں میں الجھی ہوئی تھی پھر صالح نمیری کو یاد ہی نہ رہا کہ اس کے آگے ناشتہ پڑا ٹھنڈا ہو رہا ہے اس روز فرح کو ذرا سا بھی موقع ملتا وہ صالح نمیری کے خیمے میں چلی جاتی اور ہنس کھیل کر واپس آجاتی
اگلی رات حسن بن صباح اور صالح نمیری کھانے کے بعد الگ بیٹھے اس موضوع پر باتیں کرتے رہے کہ حسن بن صباح سہی ہے یا غلط یا اسے وہم ہو گیا ہے کہ وہ خدا کا ایلچی ہے حسن بن صباح کا انداز گفتگو یہ تھا کہ وہ بحث میں نہیں الجھتا تھا اور اس کی کوشش یہ تھی کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ بیٹھے جس سے صالح نمیری خفا ہوجائے صالح نمیری کا گزشتہ رات کا انداز بڑا جارحانہ تھا لیکن اگلی رات اس کے مزاج میں وہ برہمی نہیں تھی اس کی بجائے وہ خاصا نرم تھا اور کسی وقت یوں پتہ چلتا تھا جیسے وہ حسن بن صباح کا قائل ہوتا جا رہا ہے
حقیقت یہ ہے کہ صالح نمیری کے مزاج کی یہ تبدیلی اس وجہ سے نہیں تھی کہ حسن بن صباح نے اسے متاثر کرلیا تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ فرح کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا دوسری وجہ یہ تھی کہ حسن بن صباح نے اس کا ہاتھ دیکھا اور ستاروں کی گردش کا کچھ حساب لگایا تھا اور وہ یوں چپ ہو گیا تھا جیسے اس نے کوئی بڑی ھی خاص بات چھپا لی ہو قدرتی امر ہے کہ وہ یہ راز معلوم کرنے کو بیتاب تھا
اس رات صالح اور حسن خاصی دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر صالح اپنے خیمے میں جا کر سو گیا آدھی رات کا وقت ہوگا صالح نے اپنے چہرے پر کوئی نرم اور ملائم سی چیز رینگتی ہوئی محسوس کی وہ بڑی گہری نیند سویا ہوا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا خیمے میں تاریکی تھی صالح نے اپنے منہ پر ہاتھ مارا توایک نرم و ملائم ہاتھ اس کے ہاتھ میں آیا اس نے اندھیرے میں بھی اس ہاتھ کو پہچان لیا اس نے اس ہاتھ کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور دوسرا ہاتھ اسکی کمر پر ڈال دیا جس کا یہ ہاتھ تھا
فرح اس کے اوپر گری اور اس کی ہنسی نکل گئی
صالح نمیری کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اور فرح پچیس چھبیس سال کی تھی لیکن جسمانی صحت کے لحاظ سے صلح نمیری فرح جیسا ہی جوان لگتا تھا اس کا انداز بھی پر شباب تھا اس نے فرح کو اس طرح اپنے بازوؤں میں لے کر بھیجا جیسے اسے اپنے وجود میں سمیٹ لینا چاہتا ہو
ابھی نہیں کچھ دیر بعد فراح نے کہا پہلے شادی ابھی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں سب سوئے ہوئے ہیں
صالح اٹھ کر بیٹھ گیا اور فرح کو اپنے پاس اس طرح بٹھائے رکھا کہ فرح اس کے ایک بازو میں تھی اور فرح کا سر صالح کے سینے پر تھا وہ کچھ دیر اسی حالت میں پیار و محبت کی باتیں کرتے رہے وہ دلی اور زبانی طور پر ایک دوسرے میں جیسے تحلیل ہو گئے تھے
ایک کام کرو فرح صالح نے فرح کو پلنگ پر اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے کہا حسن بن صباح نے میرا ہاتھ دیکھا تھا اور اس نے ستاروں کی گردش بھی دیکھی تھی پھر وہ یوں چپ ہو گیا تھا جیسے اس نے میری قسمت میں کوئی ایسی بات دیکھ لی ہو جو وہ مجھے نہیں بتانا چاہتا میں نے اس کے چہرے پر کچھ اور ہی تاثر دیکھا تھا وہ مجھے کچھ نہیں بتا رہا کہتا ہے چار روز انتظار کرو میں یہاں اتنا رکنے کے لیے نہیں آیا تھا میں اس شخص سے متاثر نہیں ہوا نہ میں اسکے اس دعوے کو مانتا ہوں کہ یہ خدا کا ایلچی ہے حقیقت یہ ہے کہ میں یہ راز معلوم کرنے کے لئے رکا ہوں کہ اس نے میرے ہاتھ کی لکیروں میں کیا دیکھا ہے؟
کیا تم اس سے معلوم کر سکتی ہو؟
ہاں فراح نے جواب دیا اگر کوئی بہت ہی خطرناک بات نہ ہوئی تو وہ مجھے بتا دے گا
کبھی خیال آتا ہے کہ میں چلا جاؤں صالح نمیری نے کہا میں کٹر اہلسنت ہوں قسمت میں جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن تم میرے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہو
اب آپ جہاں بھی جائیں گے یہ زنجیر آپ کے ساتھ رہے گی فراح نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں کہا اور اس طرح بولی جیسے اسے اچانک یاد آگیا ہو
اوہ میں آپ کے لیے پھول لائی تھی
اس نے پلنگ پر ہاتھوں سے ٹٹولا اور پھول اس کے ہاتھ آ گئے یہ بڑے بڑے تین پھول تھے جنہیں اس نے گلدستے کی طرح ایک دھاگا لپیٹ کر باندھ رکھا تھا اس نے پھول صالح نمیری کی ناک کے ساتھ لگا دئیے
اتنی پیاری خوشبو صالح نے کہا میں نے اس علاقے کے وہ پھول بھی سونگھے ہیں جو دور دراز جنگلوں میں کھلتے ہیں لیکن اس پھول کی خوشبو میرے لیے بالکل نئی ہے
اس نے بار بار ان پھولوں کو سونگھا اور جوں جوں لمحے گزرتے گئے صالح پر ایسی کیفیت طاری ہوتی گئی کے وہ محسوس کرنے لگا کے وہ فرح کے لئے پیدا ہوا تھا اور باقی عمر اس کی غلامی میں گزارے گا
میرا ایک مشورہ مانیں فرح نے کہا حسن بن صباح کو یہ دعوت دیں کہ وہ کچھ دن خلجان میں آپ کا مہمان رہے اگر یہ یہیں سے واپس چلا گیا تو پھر یہ آپ کے ہاتھ کی لکیریں اور ستاروں کا راز اپنے ساتھ لے جائے گا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ یہاں سے واپس گیا تو مجھے بھی ساتھ لے جائے گا ہم خلجان چلے گئے تو میں اسے کہہ سکتی ہوں کہ میں واپس نہیں جاؤں گی میں نے اب باقی عمر آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے
میں ایسے ہی کرتا ہوں صالح نے کہا میں اسے کہوں گا میرے ساتھ خلجان چلو اور مجھے قائل کرو کہ تم خدا کی بھیجی ہوئی برگزیدہ شخصیت ہو اور میں تمہیں صرف مان ہی نہیں لوں گا بلکہ تمہارے عقیدے کی اتنی تبلیغ کروں گا کہ تم حیران رہ جاؤ گے
فرح بہت دیر بعد اس کے خیمے سے نکلی صالح نمیری کو وہ اس جذباتی کیفیت میں چھوڑ آئی کے اس نے باقی رات کروٹیں بدلتے گزار دیں وہ رہ رہ کر یہی چاہتا تھا کہ فرح کے پاس چلا جائے یا اسے اپنے خیمے میں لے آئے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:14 }
ایک روز بعد ایک قافلہ خلجان کی طرف جا رہا تھا صالح نمیری نے حسن بن صباح کو خلجان کی دعوت دی تھی جو اس نے بخوشی قبول کرلی تھی اس نے دونوں لڑکیوں کو واپس شاہ در بھیج دیا تھا صرف فرح کو ساتھ رکھا تھا باورچیوں کو بھی واپس بھیج دیا تھا تمام خیمے اور دیگر سامان بھی واپس چلا گیا اور حسن بن صباح کے ساتھ فرح کے علاوہ چند آدمی رہ گئے تھے
صالح نمیری خلجان کا والی اور امیر تھا اس کی رہائشگاہ محل جیسی تھی رہن سہن امیرانہ تھا اس نے وہاں پہنچتے ہی حسن بن صباح اور فرح کے کمرے الگ کر دیئے اور دوسرے آدمیوں کی رہائش کا بھی بڑا اچھا انتظام کیا
اس نے فرح کو وہ کمرہ دیا جو اس کی اپنی خوابگاہ کے بہت قریب تھا اس کی دو بیویاں تھیں جو اپنے اپنے کمروں میں رہتی تھیں یہ وہ زمانہ تھا جب امیر کبیر آدمی چار چار بیویاں رکھتے تھے اور ان بیویوں کی حیثیت بیوی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتی تھی ہر بیوی کا یہ فرض تھا کہ خاوند کو تفریح اور جسمانی آسودگی مہیا کرے اس زمانے میں ساکن کا تصور ناپید تھا ہر بیوی کو اس کے حقوق ملتے تھے
صالح نمیری کے لیے ایک اور بیوی لے آنا کوئی مسئلہ نہیں تھا
خلجان میں پہلی رات فرح نے وہی حرکت کی جو وہ پہلے کرچکی تھی وہ آدھی رات کے وقت صالح کے کمرے میں چلی گئی صالح کو توقع تھی کہ فرح آئے گی اس لیے اس نے دونوں بیویوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے کمرے میں نہیں رکھا تھا
ایک راز تو مل گیا ہے فرح نے کہا بڑی مشکل سے حسن نے بتایا ہے کہ آپ کی قسمت میں ایک خزانہ لکھا ہے بلکہ ایک خزانہ آپ کی راہ دیکھ رہا ہے
اس نے یہ راز مجھ سے چھپایا کیوں ہے؟
میں اس سوال کا جواب بھی لے آئی ہوں فرح نے کہا وہ کہتا ہے کہ خزانہ ایسی جگہ ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے جان کی بازی لگانی پڑے گی پھر جس جگہ یہ خزانہ ہے وہاں بھی بڑا ہی خوفناک خطرہ ہے ہوسکتا ہے وہاں ایک یا ایک سے زیادہ بڑے زہریلے اور بڑے لمبے سانپ ہوں اگر سانپ نہ ہوئے تو صحرائی بچھو ہونگے جو سانپوں جیسے ہی زہریلے ہوتے ہیں یہ بھی نہ ہوئے تو وہاں درندے ہونگے ان تمام خطروں سے نمٹنے کا انتظام ہو تو کامیابی ہو سکتی ہے
خزانہ کتنا کچھ ہے؟
صالح نے پوچھا خزانے میں کیا ہے؟
کیا اس نے یہ نہیں بتایا؟
اس نے تفصیل نہیں بتائی فرح نے کہا اس نے یہ کہا ہے کہ خزانہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے خلجان جیسے دس بارہ شہر خریدے جا سکتے ہیں اور یہ خزانہ اتنے شہر خرید کر بھی سات پشتوں تک ختم نہ ہو
یہ بھی تو ہوسکتا ہے فرح صالح نے کہا حسن بن صباح خود اس خزانے تک پہنچ جائے اس کے ہاتھ میں سحر اور نجوم کی طاقت ہے
نہیں میرے آقا فرح نے کہا اسے دنیا کی مال و دولت اور ان خزانوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں اس وقت آپ اسے جا کر دیکھیں تو وہ آپ کو عبادت میں مصروف نظر آئے گا اس کا دھیان خدا کی خوشنودی پر مرکوز رہتا ہے دنیاوی لطف اور لذت سے وہ دور رہتا ہے
پھر اس نے تمہیں اپنے ساتھ کیوں رکھا ہوا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
میرے ساتھ اس کا وہ تعلق نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں فرح نے کہا میں اپنے ماموں کی اجازت سے سیروتفریح کے لئے اس کے ساتھ آئی ہوں لیکن اس سے مجھے انکار نہیں کہ یہ شخص میرے ساتھ بہت پیار کرتا ہے یہ پیار کسی اور نوعیت کا ہے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتا ہے اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہتا ہے کہتا ہے کہ تمہارے یہ نرم وملائم ریشمی بال مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں یہ تو اس نے کئی بار کہا ہے کہ میں تمہیں ایک پھول سمجھتا ہوں پھول کو سونگھا جاتا ہے اسے ناپاک نہیں کیا جاتا اور اسے مسلا نہیں جاتا میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اس کے دل میں میرے لئے ایسا پیار ہے جو آب کوثر جیسا مقدس ہے آپ کوئی وہم دل میں نہ رکھیں
میں دل میں وہم نہیں رکھوں گا فرح صالح نمیری نے کہا تم اسے کہو کہ مجھے وہ جگہ اور اس جگہ کا راستہ بتا دے جہاں وہ خزانہ ہے میں ایسا انتظام کرکے جاؤں گا کہ کوئی بھی خطرہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا میرے ساتھ اتنے برچھی برادر اور تیغ زن ہونگے جو سینکڑوں سانپوں کو ختم کردیں گے ذرا سوچو فرح اگر ہمیں یہ خزانہ مل جائے تو ہماری زندگی کس قدر خوبصورت اور شاہانہ ہوگی
اس خزانے کے ساتھ میری دلچسپی بھی اتنی ہی ہے جتنی آپ کی ہے فرح نے کہا میں تو پوچھ کر ہی دم لوں گی
جب فرح صالح کے کمرے میں سے آنے لگی تو صالح نے اسے روک لیا فرح صالح نے کہا وہ پھول جو تم اس رات خیمے میں میرے لیے لائی تھی وہ یہاں سے نہیں مل سکتا
مل سکتا ہے فرح نے جواب دیا آپ کو وہ خوشبو پسند ہے تو میں اس پھول کی بجائے وہ خوشبو تھوڑی سی روئی میں لگا کر آپ کو دے سکتی ہوں لیکن یہ مجھے چوری کرنی پڑے گی یہ عطر حسن بن صباح کے پاس ہے جسے وہ چھپا کر رکھتا ہے یہ اس پھول کا عطر ہے وہ تو اتفاق سے وہاں مجھے دو تین پھول نظر آ گئے تھے جو میں نے آپ کو دے دیے تھے
اگلی شام صالح نمیری اور حسن بن صباح کھانے کے لئے بیٹھے تو صالح نمیری نے اپنی مونچھوں پر یہی عطر لگا رکھا تھا کچھ ہی دیر پہلے فرح موقع دیکھ کر تھوڑی سی روئی پر ایک قطرہ عطر لگا کر صالح نمیری کو دے آئی تھی صالح نمیری نے کھانے سے پہلے یہاں عطر اپنی مونچھوں پر لگا لیا تھا
صالح نے اپنے مزاج میں ایسی نمایاں تبدیلی محسوس کی اس کا جی چاہتا تھا کہ ہنسے اور مسکرائے اور اس زندگی سے پورا لطف اٹھائیے
فرح کو بھی نہ بولا لیں کھانے کے بعد صالح نے حسن سے کہا وہ بھی آخر ایک امیر شہر کی بھانجی ہے
بلا لینا چاہیے حسن نے کہا
تھوڑی ہی دیر بعد فرح آ گئی
میری ایک بات مان لیں فرح نے حسن بن صبا سے کہا امیر خلجان بہت پریشان ہیں آپ نے ان کا ہاتھ دیکھا اور نجوم کا بھی حساب کتاب دیکھا لیکن انہیں آپ نے کچھ بتایا نہیں
ہاں حسن صالح نمیری نے کہا اس سے بہتر تھا کہ آپ میرا ہاتھ نہ دیکھتے اگر کوئی خطرناک معاملہ ہے تو وہ بھی مجھے بتا دیں آپ کی خاموشی نے مجھے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے
بتا دیں فرح نے بچوں کے سے انداز سے کہا اب بتا دیں
حسن بن صباح خاموش رہا اس نے سر جھکا لیا وہ کچھ دیر اسی حالت میں رہا صالح اور فرح سراپا سوال بنے اسے دیکھتے رہے
تھوڑی دیر بعد حسن بن صباح نے سر اٹھایا اور صالح نمیری کی طرف دیکھا
آپ کے ہاتھ کی لکیروں میں ایک خزانہ ہے حسن بن صباح نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا لیکن یہ خزانہ ایسا نہیں کہ آپ وہاں جائیں گے اور وہ خزانہ وہاں سے اٹھا لائیں گے اس میں جان جانے کا خطرہ ہے ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ وہ پورے کا پورا خزانہ اٹھا لائیں اس خزانے کا ایک حصہ الگ کرنا پڑے گا
آپ جتنا حصہ مانگیں گے میں دونگا صالح نمیری نے کہا
یہ بات نہیں حسن بن صباح نے کہا مجھے حصہ نہیں چاہیے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں نے آپ کو اس خزانے کی خبر دے ہی نہیں رہا تھا یہ میرے علم کی کچھ شرطیں ہیں جو آپ کو پوری کرنی پڑے گی اگر نہیں کریں گے تو پھر آپ کا انجام ایسا ہوگا جو میں آپ کو بتاؤں تو اس کے تصور سے ہی آپ کانپ اٹھے
اگر حصہ لینا ہی ہے تو یہ فرح لے سکتی ہے حسن بن صباح نے کہا میں نہیں لے سکتا آپ کا اور کوئی قریبی عزیز لے سکتا ہے بات یہ ہے امیر خلجان یہ خزانہ اس علم کے ذریعے مجھے نظر آیا ہے میں اسی علم کے ذریعے یہ کر سکتا ہوں کہ آپ کو خزانہ مل جائے اور آپ کی جان بھی محفوظ رہے مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک اس قلعے کا کوئی قائم مقام والی مقرر نہ ہو جائے آپ اس خزانے تک نہیں پہنچ سکتے
میری بات سنو حسن صالح نمیری نے کہا آپ مجھے کچھ نہ بتائیں آپکا یہ علم اور عمل جو کچھ بھی کہتا ہے اس کی پابندی کریں مجھے صرف خزانہ چاہیے
پھر آپ میری ہر بات کی پابندی کریں حسن بن صباح نے کہا خزانہ لینے آپ جائیں گے یہ سارا انتظام آپ کا ہوگا خزانہ مل جائے گا تو اس کا ایک چوتھائی حصہ اسے ملے گا جو آپ کی جگہ یہاں قائم مقام والی قلعہ ہوگا
والی قلعہ تو کوئی میرا ہی عزیز ہوگا ؟
صالح نمیری نے کہا
نہیں حسن بن صباح نے کہا میں یہ بھی اپنے علم کی روشنی میں دیکھ چکا ہوں پہلے میں آپ کو یہی بتا دیتا ہوں اور اس شہر کے ہر فرد کو شہر کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی ہے لیکن میں یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں میرے لیے حکم ہے کہ قلعے کا قائم مقام مقرر کروں میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ قائم مقام کون ہوگا میں یہ قلعہ کسی کو بغیر سوچے تو نہیں دے سکتا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش آپ کی جگہ عارضی طور پر خلجان کا والی ہو گا اور جب آپ واپس آئینگے تو آپ خزانے کا چوتھا حصہ اسے دے دیں گے اور وہ شہر آپ کے حوالے کرکے شاہ در چلا جائے گا
مجھے منظور ہے صالح نمیری نے بلا سوچے کہا
اس کی آپ کو تحریر دینی پڑے گی حسن بن صباح نے کہا آپ کو خزانے کا راستہ اور خزانے کی جگہ اس وقت بتائی جائے گی جب آپ یہ تحریر دیں گے یہ ایک معاہدہ ہوگا جس پر آپ کے دستخط اور آپ کی مہر ہوگئی احمد بن عطاش کی جگہ میں دستخط کروں گا اور گواہوں کے طور پر یہاں کے دو مسجدوں کے امام اور اسی شہر کے قاضی کے دستخط ہوں گے اگر آپ زندہ واپس نہ آ سکے تو خلجان کا امیر شہر احمد بن عطاش ہی ہوگا وہ جسے چاہے گا یہ شہر دے گا نہیں دینا چاہئے گا تو اس سے کوئی بھی یہ شہر نہیں لے سکے گا
کیا موت کا خطرہ یقینی ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
خطرہ یقینی ہے حسن بن صباح نے جواب دیا لیکن موت یقینی نہیں واپس آنے کا امکان موجود ہے آپ کے انتظامات جتنے مضبوط ہونگے موت کا خطرہ اتنا ہی کم ہو گا
صالح نمیری کی ایک طرف ذہنی پختگی کا یہ عالم تھا کہ وہ حسن بن صباح کی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ وہ ایک روشنی کے ذریعے آسمان سے اترا ہے لیکن دوسری طرف اس کی شخصی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ حسن بن صباح اسے جو کچھ بھی کہے جا رہا تھا وہ اسے تسلیم کر رہا تھا وہ اتنا بھی نہیں سوچ رہا تھا کہ خزانے کاحصول یقینی نہیں لیکن لالچ کا یہ حال کہ وہ اتنا بڑا شہر ایک غیر آدمی کو لکھ کر دینے پر آمادہ ہو گیا تھا
اس زمانے میں بلکہ اس سے بہت پہلے سے یوں ہوتا تھا کہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے بہت بڑے بڑے گروہ جو بہت ہی بڑے بڑے قافلوں کو لوٹتے تھے لوٹ مار کا قیمتی سامان مثلاً ہیرے اور جواہرات کسی ایسی جگہ رکھ دیتے تھے جو دشوار گزار ہوتی تھی اور وہاں تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکتا تھا بادشاہوں میں بھی یہ رواج تھا کہ وہ اپنا خزانہ کسی خفیہ مقام پر دفن کردیتے تھے کچھ بادشاہ ایسے ہوں گزرے تھے جو ساری دنیا کو فتح کرنے کے لئے نکلے تھے وہ شہروں اور بستیوں کو لوٹتے اور بادشاہوں کے خزانے صاف کرتے چلے جاتے تھے جب ان کے پاس اتنا زیادہ خزانا اکٹھا ہوجاتا جو سنبھالا نہیں جاتا تھا تو اسے وہ کسی بڑے ہی دشوار گزار علاقے میں اس توقع پر دفن کر جاتے تھے کہ واپس آکر نکال لے جائیں گے
ان زمانوں سے اب تک یہ عقیدے یا روایتیں چلی آ رہی ہیں کہ کوئی عامل یا جوتشی یا پراسرار علوم کا کوئی ماہر اس قسم کے خزانے کی نشاندہی کر سکتا ہے یہ بھی مشہور ہے کہ جو کوئی اس قسم کا خزانہ نکالنے کے لئے جاتا ہے وہ زندہ واپس نہیں آ سکتا یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کے اس قسم کے مدفون خزانوں کی حفاظت بڑے زہریلے سانپ کرتے ہیں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قسم کے خزانوں کی حفاظت جنات کیا کرتے ہیں ان تمام خطرات کے باوجود اس قسم کی کہانیاں مشہور تھیں کہ فلاں شخص کو مدفون خزانہ ملا اور وہ بادشاہ بن گیا ایسے لوگ بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے ایسے خزانوں کی تلاش میں ہی زندگی گزار دی تھی
دولت اور عورت دو ایسی چیزیں ہیں جن کی خاطر انسان نے اپنے مذہب کو خیرباد کہا ہے خزانے کا لالچ ایک نشے کی حیثیت رکھتا ہے اس نشے میں اگر عورت کا نشہ شامل ہو جائے تو انسان کی عقل پر سیاہ پردہ پڑ جاتا ہے
صالح نمیری اسی کیفیت کا شکار ہو گیا تھا چالیس سال کی عمر میں ایک نوجوان لڑکی اس کی محبت کا دم بھرنے لگی تھی اور وہ اس کی محبت میں اس قدر بے چین اور بے تاب تھی کہ راتوں کو چھپ کر اس کے پاس پہنچ جاتی تھی اس لڑکی نے اسے پھر سے جوان کردیا تھا پھر اس لڑکی نے اسے ایسے خزانے کی خبر دیدی جس سے وہ خلجان جیسے دس شہر خرید سکتا تھا اور باقی خزانہ اس کی سات پشتوں کے لئے کافی ہو سکتا تھا
وہ صالح نمیری جو اپنے آپ کو اہل سنت اور بڑا پکا مسلمان کہتا تھا روزمرہ کی نمازیں ہی بھول گیا تھا فرح اور خزانہ اس کے ذہن میں عقیدے کی صورت اختیار کر گئے تھے
یہ تو انسانی فطرت کی کمزوریاں تھیں جنہوں نے صالح نمیری کی عقل پر پردے ڈال دیے تھے اور وہ ذہنی طور پر اس طرح مفلوج ہوگیا تھا کہ اپنے آپ کو وہ بہت بڑا دانہ سمجھنے لگا تھا ان مورخوں نے جنہوں نے اس قسم کے واقعات ذرا تفصیل سے لکھے ہیں ایک اور راز سے پردہ اٹھایا انھوں نے لکھا ہے کہ فرح نے صالح نمیری کو رات کی ایک ملاقات میں تین پھول دیے تھے جنہیں سونگھ کر صالح نے پوچھا تھا کہ یہ پھول کہاں سے آئے ہیں اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس علاقے کا پھول ایسا نہیں جو اس نے سونگھا ہو لیکن اس پھول کی خوشبو سے وہ ناآشنا تھا
یہ پھول سونگھنے کے بعد اس نے اپنے مزاج میں اور ذہنی کیفیت میں بڑی ہی خوشگوار تبدیلی محسوس کی تھی جس کے زیر اثر اس پر خودسپردگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی خلجان میں آکر جب فرح اس کے کمرے میں گئی تو اس نے فرح سے پوچھا تھا کہ وہ پھول یہاں کہیں ملتا ہے یا نہیں فرح نے اسے بتایا تھا کہ پھول تو نہیں ملے گا اس کا عطر مل جائے گا اگلی شام فرح نے اس عطر کا ایک قطرہ تھوڑی سی روئی پر لگا کر صالح نمیری کو دیا تھا صالح نے یہ عطر مونچھوں پر مل لیا تھا اس کے بعد وہ حسن بن صباح سے کھانے پر ملا تھا
حسن بن صباح نے جب خزانے کی بات شروع کی تو وہ جو کچھ بھی کہتا رہا صالح بلا سوچے سمجھے قبول کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنا شہر بھی احمد بن عطاش کے نام لکھ دینے پر آمادگی کا اظہار کردیا یہ خزانے کی محبت کا خمار نہیں تھا بلکہ یہ اس عطر کے اثرات تھے جو اس نے مونچھوں کو لگایا تھا تاریخوں میں آیا ہے کہ فرح اس کے پاس جو تین پھول لے گئی تھی اس پر بھی یہی عطر ملا ہوا تھا اس عطر کے اثرات دماغ پر اس طرح کے ہوتے تھے کہ انسان حقیقت سے لاتعلق ہو جاتا اور جو کچھ بھی اس کے ذہن میں ڈالا جاتا اسے وہ حقیقت سمجھتا تھا یوں کہہ لیں کہ اس کا دماغ اس شخص کے قبضے میں آ جاتا تھا جو اس کے سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہوتا تھا
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ حسن بن صباح کی ابلیسی قوتیں اپنے کرشمے دکھاتی تھیں لیکن اس نے سحر کاری کے علاوہ ایسی جڑی بوٹیاں اور پھول وغیرہ دریافت کرلئے تھے جن کی دھونی یا خوشبو انسانی ذہن کو حقیقت سے ہٹا کر بڑے حسین تصورات میں لے جاتی تھیں یہی اس شخص کی قوت تھی جس نے اپنے دور کے لاکھوں انسانوں کو دنیا میں جنت دکھاں دی تھی
صالح نمیری بے تاب تھا کہ اسے خزانے کا راستہ بتایا جائے وہ تو دیوانہ ہوا جا رہا تھا حسن بن صباح نے قلم دوات منگوا کر نقشہ بنانا شروع کردیا وہ صالح نمیری کو بتاتا جا رہا تھا کہ اس راستے پر کیا کیا دشواریاں پیش آئیں گی اور فلاں جگہ کیا خطرہ ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ
آپ یہ علاقے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے حسن بن صباح نے کہا آپ سمجھیں گے کہ یہ کوئی اور ہی دنیا ہے اور یہ وہ زمین نہیں جس پر انسان آباد ہیں مثلا ایک جگہ ایسا جنگل آئے گا جو آپ کو ٹھنڈک پہنچائے گا آپ وہیں رک جانا چاہیں گے زمین کا تھوڑا سا ٹکڑا ایسا آئے گا جہاں آپ کو ہلکا ہلکا کیچڑ نظر آئے گا آپ گھوڑوں پر سوار اس کیچڑ میں سے گزریں گے تو آپ کے گھوڑے دھنس جائیں گے دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اس دلدل سے نہیں نکال سکے گی آپ گھوڑوں سمیت اس دلدل میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے گم ہو جائیں گے
میں ایسی جگہوں پر نظر رکھو گا صالح نمیری نے کہا ایسی جگہ دیکھ کر پہلے وہاں پتھر پھینکونگا اس سے پتہ چل جائے گا کہ یہ دلدل ہے
پھر آپ کو ایسی ریت ملے گی جو آپ کو دلدل کی طرح اپنے اندر غائب کردی گی حسن بن صباح نے کہا راستے میں ایسا صحرا آئے گا جہاں سے کبھی کوئی انسان نہیں گزرا وہاں صحرائی جانور اور کیڑے مکوڑے بھی زندہ نہیں رہ سکتے آپ کو اپنے ساتھ پانی کا بے شمار ذخیرہ لے جانا پڑے گا جس علاقے میں یہ خزانہ ہے وہاں ایسی چٹانیں کھڑی ہونگی جیسے دیواریں کھڑی ہوں ان پر سے گھوڑوں کے پاؤں پھسلے گے بہتر یہ ہوگا کہ گھوڑے پیچھے چھوڑ کر پیدل جائیں بعض چٹانوں پر آپ یوں چلیں گے جیسے دیوار پر چل رہے ہوں وہاں پاؤں پھسلنے کا امکان زیادہ ہو گا
میں اپنے ساتھ جانباز اور عقل والا آدمی لے جاؤں گا صالح نمیری نے کہا آپ مجھے جگہ اچھی طرح سمجھا دیں
حسن بن صباح نے اسے وہ جگہ بڑی اچھی طرح سمجھا دی
آپ کے ساتھ ایک اونٹنی ہونی چاہیے حسن بن صباح نے کہا اور اونٹنی دودھ دینے والی ہونی چاہیے جب آپ خزانے والی جگہ پہنچ جائیں تو اونٹنی کا دودھ دھو کر ایک پیالے میں ڈال دیں اور پیالہ خزانے کی اصل جگہ سے کچھ دور رکھ دیں اس سے یہ ہو گا کہ وہاں جتنے بھی سانپ ہونگے وہ دودھ پر ٹوٹ پڑیں گے اور آپس میں لڑیں گے سانپ دودھ کا عاشق ہوتا ہے اتنی دیر میں آپ خزانہ نکال لیں میں نہیں بتا سکتا کہ اس غار کے اندر کیا چیز ہو گی جو اس خزانے کی حفاظت کے لیے بیٹھی ہو گی میں یہ بتا سکتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعلیں ہونی چاہیے وہ چیز آپ سے ڈر کر بھاگ جائے گی اگر وہاں بچھو ہوئے تو انہیں جلتی ہوئی مشعلوں سے جلایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ اور ہوا تو وہ آپ اپنی عقل اور ہمت سے سنبھال سکتے ہیں
میں خدا کی مدد مانگوں گا صالح نے کہا میں صبح سے ہی جانے کی تیاری شروع کردوں گا
ایک ضروری بات رہ گئی ہے حسن بن صباح نے کہا آپ کو اس جگہ سے آدھی رات کے وقت اس طرح روانہ ہونا چاہیے کہ کوئی آپکو دیکھ نہ سکے
شہر کے چوکیدار تو دیکھ لیں گے صالح نمیری نے کہا انہیں کیا کہا جائے؟
اگر کوئی دیکھ لے تو اسے اصل بات نہ بتائیں حسن بن صباح نے کہا آپ امیر شہر ہیں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟
کوئی پوچھے تو خاموش رہیں
صالح نمیری نے اسی رات ان آدمیوں کا انتخاب کر لیا جنہوں نے اس کے ساتھ جانا تھا اس کے ساتھ ہی اس نے اس سامان کی فہرست تیار کرلی جو اس کے لئے ضروری تھا جو اس نے ساتھ لے جانا تھا
صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد اس نے ان تمام آدمیوں کو جن کی تعداد دس گیارہ تھی اپنے ہاں بلایا اور انہیں صرف یہ بتایا کہ ایک سفر پر جانا ہے جو اگر بخیر و خوبی طے ہو گیا تو سب کو سونے اور جواہرات کی شکل میں انعام ملے گا انہیں یہ بھی بتایا کہ کسی کے ساتھ یہ ذکر نہ ہو کہ وہ کہیں جا رہے ہیں اگر کسی کی زبان سے ایسی بات نکل گئی تو اسے قتل کردیا جائے گا
اس نے ان آدمیوں کو بہت سی ہدایات دی اور کہا کہ وہ آدھی رات کے وقت کوچ کرینگے صالح نمیری کا حکم چلتا تھا اس کے حکم سے تمام ضروری سامان اونٹ اور دودھ والی ایک اونٹنی شام سے پہلے پہلے تیار ہوگئی صالح نمیری نے ان تمام سامان کا معائنہ کیا اور مطمئن ہو گیا
رات جب لوگ سو گئے تو فرح چوری چھپے اس کے کمرے میں آئی اس نے تو آنا ہی تھا، کیوں کہ وہ حسن بن صباح کی اس سازش میں شامل تھی کہ صالح نمیری قلعے کی تحریر لکھ دے اور یہاں سے چلا جائے انہیں یقین تھا کہ صالح خوفناک سفر سے زندہ واپس نہیں آسکے گا انہوں نے صالح نمیری سے شہر احمد بن عطاش کے نام لکھوا لیا تھا۔
فراح نے حسب معمول صالح کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں اور حرکتیں شروع کر دیں اس نے رونے کی بھی اداکاری کی اور اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ اس کی جدائی کو برداشت نہیں کرسکے گی، صالح نمیری کی فرح کی محبت میں جذباتی کیفیت ایسی ہو چکی تھی جو اس کی برداشت سے باہر تھی اس نے فرح سے کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے
میں چلی تو چلوں لیکن ایسا نہ ہو کہ ساتھ جانے سے آپ کی مہم کو کوئی نقصان پہنچے
کوئی نقصان نہیں پہنچے گا صالح نمیری نے کہا تم ساتھ ہو گی تو میری ہمت قائم رہے گی
پھر آپ مجھے اجازت لے دیں فرح نے کہا لیکن میں آپ کو یہ بتادوں کہ مجھے اجازت نہیں ملے گی
صالح نمیری اجازت لینا ہی نہیں چاہتا تھا وہ جان گیا تھا کہ حسن بن صباح سحر اور علم نجوم کا عامل ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی کوئی حیثیت نہیں وہ حسن بن صباح کے اس علم اور عمل کا قائل ہو گیا تھا اس نے سچ مان لیا تھا کہ خزانہ موجود ہے اور اس کا وہی راستہ ہے جو حسن بن صباح نے اسے بتایا ہے اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس قسم کے جادوگر اپنے ساتھ ایک دو خوبصورت لڑکیاں رکھتے ہیں فرح کو بھی اس نے ایسی ہی لڑکی سمجھا تھا اور اس نے یہ بھی مان لیا تھا کہ فرح امیر شاہ در احمد بن عطاش کی بھانجی ہے اور اس نے یہ بھی تسلیم کرلیا تھا کہ فرح اس کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے
یہ سب کچھ جانتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ فرح کو ساتھ لے جانے سے اس کی مہم پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا فرح اس کا جذباتی معاملہ بھی بن گئی تھی لیکن یہ لڑکی اس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی
صالح نمیری آخر اتنے بڑے شہر کا حکمران تھا وہ برداشت نہ کرسکا کہ ایک لڑکی اس کی بات نہیں مان رہی اس نے اسی وقت دو آدمیوں کو بلایا اور انہیں حکم دیا کے اس لڑکی کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے لکڑی کے تابوت جیسے بکس میں ڈال دیا جائے اور اس بکس میں ہر طرف سے سوراخ کر دیے جائیں تاکہ ہوا کا گزر ہوتا رہے
صبح طلوع ہوئی حسن بن صباح جاگا تو وہ اچھل کر بستر سے نکلا اس نے اپنے دو آدمیوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ صالح نمیری کا قافلہ چلا گیا ہے یا نہیں ؟
آپ کا تیر کبھی خطا نہیں گیا ایک آدمی نے ہنستے ہوئے کہا ہم اس کی روانگی کو دیکھنے کے لئے جاگتے رہے ہیں
تم دونوں شاہ در چلے جاؤ حسن بن صباح نے کہا احمد بن عطاش سے کہو کہ میں نے خلجان لے لیا ہے تم یہاں آجاؤ اسے ساری بات بتا دینا کہ صالح نمیری کو ہم نے کس طرح غائب کیا ہے اسے یہ بھی بتانا کہ اس میں فرح کا بھی کمال شامل ہے تم ابھی روانہ ہو جاؤ فرح ابھی سوئی ہوئی ہو گی اسے سویا رہنے دو
حسن بن صباح نے بہت دیر فرح کا انتظار کیا اسے ہر طرف تلاش کیا وہ کہیں بھی نہ ملی
اس وقت فرح سوراخ والے تابوت میں بند نہ جانے کتنے میل خلجان سے دور پہنچ چکی تھی
صالح نمیری کا قافلہ اس جنگل میں داخل ہو چکا تھا جس میں حسن بن صباح کے کہنے کے مطابق بڑی خطرناک دلدل تھی…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:15 }
کیا حسن بن صباح پریشان ہو گیا تھا کہ فرح لاپتہ ہوگئی ہے؟
کیا اس نے اپنے بالکوں کو حکم دیا تھا کہ صالح نمیری کے پیچھے جاؤ فرح اس کے ساتھ چلی گئی ہو گئی ؟
کیا وہ فرح کے فراق میں دیوانہ ہوا جارہا تھا؟
نہیں اس نے فرح کے تعاقب میں اپنے آدمی بھیجنے کی بجائے انہیں شاہ در احمد بن عطاش کے نام یہ پیغام دے کر بھیج دیا کہ میں نے خلجان کا شہر لے لیا ہے فوراً یہاں آ جائیں اس کی نگاہ میں ایک لڑکی کوئی ایسی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ اس کے جذبات میں ہلچل بپا ہو جاتی وہ ایک حسین لڑکی کو دوسروں کے جذبات میں ہلچل بپا کرنے اور دوسروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا ذریعہ سمجھتا تھا
اس کی دنیا کی سرحدیں صرف ایک فرح کی محبت پر ختم نہیں ہو جاتی تھیں وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا انسان تھا
حسن بن صباح تھا تو انسان ہی لیکن اس کی تاریخ کے واقعات گواہی دیتے ہیں کہ وہ انسانیت کی سرحدوں سے نکل کر ابلیسیت کی سرحدوں میں داخل ہو گیا تھا
اس کی نگاہیں افق کے اس لامحدود گول دائرے تک دیکھ رہی تھیں جہاں آسمان جھک کر زمین کو چومتا ہے ایک فرح اسکی نگاہوں کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی
حسن بن صباح ایک آتش فشاں پہاڑ تھا اور وہ اپنے ابلیسی وجود میں ایسا لاوا پکا رہا تھا جس نے بڑی ہی اہم تاریخی شخصیت کو صفحہ ہستی سے غائب کردینا تھا اور بستیاں اجاڑ دینی تھیں
حسن بن صباح نے وہ مقام حاصل کیا کہ اس نے کسی بادشاہ کے قتل کا حکم دیا تو اس کے فدائین نے اسے قتل کر دیا اس نے جو فدائین تیار کیے تھے وہ پاگل پن کی حد تک جنونی تھے
داستان گو آگے چل کر سنائے گا کہ حسن بن صباح نے ان پر یہ جنون کس طرح طاری کیا تھا کہ ان میں سے بعض خود بھی قتل ہو جاتے تھے لیکن اپنے شکار کو قتل کرکے قتل ہوتے تھے
داستان گو حسن بن صباح کے حکم سے قتل ہونے والی جن اہم شخصیتوں اور حکمرانوں کے نام فوری طور پر یاد آئے ہیں وہ یہ ہیں
1092/ عیسوی میں حسن بن صباح نے جو سب سے پہلی نہایت اہم شخصیت قتل کروائی وہ سلجوقی سلطان ملک شاہ کا وزیر خواجہ حسن طوسی تھا جسے غیر معمولی قابلیت اور حُسن کارکردگی کی بدولت نظام الملک کا خطاب دیا گیا تھا نظام الملک حسن بن صباح کا محسن تھا
1092/عیسوی میں ہی حسن بن صباح نے نظام الملک کے دو بیٹوں کو قتل کروایا تھا
1102/عیسوی میں حمس کے ایک شہزادے کو اس وقت قتل کروایا جب وہ جامع مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا
1113/عیسوی میں موصل کے شہزادہ مودود کو جامع مسجد میں نماز پڑھتے قتل کروایا
1114/ عیسوی میں سلجوقی سلطان سنجر شاہ کے وزیر عبدالمظفر علی اور اس کے دادا چکر بیگ کو قتل کروایا
1121/ عیسوی میں فارس کے ایک سلطان کی موجودگی میں مرغ کے ایک شہزادے کا کام بغداد میں تمام کروایا
1121/ عیسوی میں ہی قاہرہ میں ایک مصری وزیر کو حسن بن صباح کے فدائی نے قتل کیا
1126/ عیسوی میں حلب اور موصل کے ایک شہزادے کو مسجد میں قتل کیا گیا
1127/ عیسوی میں سنجر شاہ کے وزیر معین الدین کو فدائین نے قتل کیا
1129/ عیسوی میں مصر کا خلیفہ حسن بن صباح کے فدائین کا شکار ہوا
1134/ عیسوی میں دمشق کا ایک شہزادہ فدائین کے ہاتھوں مارا گیا
1135 سے 1138/عیسوی کے عرصے میں خلیفہ موسترشید خلیفہ رشید اور آذربائیجان کا سلجوقی شہزادہ داؤد قتل ہوئے
1149/ عیسوی میں طرابلس کا حکمران ریمانڈ فدائین کے ہاتھوں قتل ہوا
1174/عیسوی سے 1176/عیسوی کے عرصے میں حسن بن صباح کے فدائین نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر چار قاتلانہ حملے کئے اور سلطان ایوبی ہر بار بچ نکلا
یہ تمام قتل حسن بن صباح کی زندگی میں نہیں ہوئے تھے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے فدائین نے جو حشیشین کے نام سے مشہور ہوئے اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ جاری رکھا تھا پھر آہستہ آہستہ یہ لوگ کرائے کے قاتل بن گئے انہیں عیسائی بادشاہوں اور جرنیلوں نے بھی ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا تھا
یہ بہت بعد کی باتیں ہیں بہت بعد کے واقعات ہیں جب حسن بن صباح بے تاج بادشاہ اور ایک ہیبت کی علامت بن گیا تھا قتل کے یہ تمام واقعات اپنے اپنے مناسب اور موزوں موقع پر سنائے جائیں گے
داستان گو ابھی داستان کے اس انتہائی مرحلے میں ہے جہاں حسن بن صباح اپنے ابلیسی عزائم کی تکمیل کے لئے زمین ہموار کر رہا تھا اس نے اس خطے کا ایک اور قلعہ بند شہر خلجان لے لیا تھا
اس کی نظر اب قلعہ المُوت پر تھی جسے اس نے اپنا مرکز اور مستقر بنانا تھا اتنے بڑے عزائم اور اتنے بڑے منصوبے میں فرح کی کوئی حیثیت نہیں تھی
یا مرشد حسن بن صباح کے ایک خاص آدمی نے اسے آ کر کہا یہ تو معلوم کر لینا چاہئے وہ گئی کہاں ؟
اگر وہ صالح نمیری کے ساتھ چلی گئی ہے تو خطرہ ہے کہ اسے بخیروعافیت واپس لے آئے گی
وہ اسی کے ساتھ گئی ہے حسن بن صباح نے کہا اور اسی کے ساتھ مرے گی صالح نمیری کے دماغ پر جس طرح خزانہ سوار ہوا ہے وہ واپس نہیں آئے گا
اس وقت صالح نمیری اس جنگل میں داخل ہو چکا تھا جس کے اندر کہیں کہیں کچھ حصہ دلدلی تھا
فرح تابوت میں بند تھی تابوت میں ہوا کے لیے سوراخ رکھے گئے تھے تابوت ایک اونٹ پر لدا ہوا تھا فرح کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا صالح نمیری نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ہم بہت دور آ گئے ہیں اگر اس لڑکی کو واپس لے جانے کے لیے ہمارے پیچھے کوئی آتا تو وہ اب تک یہاں پہنچ چکا ہوتا اب اس لڑکی کو تابوت سے نکال لیا جائے تو کوئی خطرہ نہیں
ہاں امیر خلجان اس کے ایک آدمی نے کہا خطرہ کیسا؟
یہ بھاگ کر جائے گی کہاں؟
تابوت کھول کر فرح کو نکال لیا گیا ایک تو وہ تابوت میں گزشتہ رات سے بند تھی اس کے ساتھ اونٹ کے ہچکولے اس کی ہڈیاں بھی دکھ رہی تھیں تابوت سے نکل کر کچھ دیر تو وہ بول ہی نہ سکی صالح نمیری کے آدمی ان دونوں سے دور ایک اوٹ میں بیٹھ گئے تھے مجھے اپنے ساتھ کیوں لے آئے ہو؟
فرح نے ایسی آواز میں کہا جو روندھی ہوئی تھی اور غصیلیی بھی تھی
محبت کی خاطر صالح نمیری نے کہا
اگر تمہیں میرے ساتھ اتنی ہی محبت ہے تو مجھے اتنی خطرناک مہم میں اپنے ساتھ نہ لے جاؤ فرح نے کہا کیا میں اتنی مشکلات اور اتنی زیادہ دشواریاں برداشت کر سکونگی؟
محبت کی ابتدا تو تم نے کی تھی فرح صالح نمیری نے کہا کیا تم میرے پاس محبت کا پیغام لے کر نہیں آئی تھی؟
تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو
فرح کی محبت کی جو حقیقت تھی وہ فرح جانتی تھی اسے تو جال میں دانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا وہ صالح نمیری کو جال میں لے آئی تھی وہی جانتی تھی کہ اس خزانے کا وجود ہے ہی نہیں جس کی تلاش میں صالح نمیری جا رہا ہے وہ یہ بھی جانتی تھی کہ حسن بن صباح نے صالح نمیری کو موت کے منہ میں ڈال دیا ہے اور اس کا زندہ واپس آ جانا کسی صورت ممکن نہیں لیکن اس کے اپنے زندہ واپس آ جانے کے امکانات بھی ختم ہوچکے تھے
وہ تو اب یہ سوچ رہی تھی کہ حسن بن صباح سے وفا کرے یا اپنی زندگی سے یہ عمر مرنے کی نہیں تھی جب اس کا شباب عروج پر تھا صالح نمیری کے ساتھ اس نے بات کر کے دیکھ لی تھی یہ شخص تو ایک چٹان تھا جسے اپنی جگہ سے سرکانا فرح کے بس کی بات نہیں تھی
اس کے سامنے ایک راستہ یہ تھا کہ صالح نمیری کو بتا دے کہ وہ ایسے دھوکے کا شکار ہو رہا ہے جس کا انجام موت ہے اور وہ وہیں سے واپس چلا جائے اور اگر وہ واپس نہ گیا تو وہ صرف مرے گا ہی نہیں بلکہ اس کا اتنا بڑا شہر خلجان اور قلعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور اس کا خاندان بھکاری بن جائے گا
اس نے اس پر غور کیا تو اسے صاف نظر آنے لگا کے اسے حسن بن صباح غداری کے جرم میں قتل کرادے گا اسے معلوم تھا کہ حسن بن صباح کا دل رحم اور بخشش کے جذبات سے خالی ہے کسی کو قتل کرا دینے سے اسے روحانی تسکین ملتی تھی
فرح کے لیے ادھر بھی موت تھی ادھر بھی موت اسے یہ دیکھنا تھا کہ کون سی موت آسان ہے
اگر وہ حسن بن صباح سے وفا کرتی ہے تو وہ آگے آنے والے صحرا میں جھلس کر پیاس سے تڑپ تڑپ کر بڑی ہی اذیت ناک موت مرے گی جل جل کر مرے گی ایسی موت کے تصور سے ہی اس نے اپنے وجود میں لرزہ محسوس کیا
پھر اسے دوسرا خیال آیا وہ صالح نمیری کو واپس لے جاتی ہے اور حسن بن صباح کو اس کی غداری کا پتہ چل جاتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں یا آپ نے کسی آدمی کے ہاتھوں اس کا سر تن سے جدا کر دے گا یہ موت سہل ہوگی
وہ تو زندہ رہنا چاہتی تھی حسن بن صباح نے اسے آلئہ کار بنایا تھا اور اسے شہزادی بنا کے رکھا ہوا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ حسن بن صباح اس کے ہاتھ سے نکل جائے وہ دیکھ رہی تھی کہ حسن بن صباح بادشاہوں کا بادشاہ بنتا جا رہا تھا لیکن زندگی بڑی پیاری ہوتی ہے وہ تو سوچ سوچ کر بے حال ہوئی جا رہی تھی
کسی گہری سوچ میں کھو گئی ہو فرح صالح نمیری نے کہا واپس جانے کا خیال دل سے نکال دو دل میں اس خزانے کو رکھو جو ہم لینے جا رہے ہیں میں واپس آ کر باقاعدہ فوج بناؤں گا اور اس علاقے کے تمام قلعے فتح کر لونگا میں بادشاہ ہونگا تم ملکہ ہوگی
اگر ہم زندہ واپس آئے تو فراح نے کہا
ہم زندہ واپس آئیں گے صالح نمیری نے کہا
اگر میں کہوں کہ آپ جہاں جا رہے ہیں وہاں کوئی خزانہ نہیں تو کیا آپ مان لیں گے؟
فراح نے پوچھا
بالکل نہیں صالح نمیری نے کہا
فرح نے دیکھا کہ صالح نمیری کے دماغ پر خزانہ ایسا سوار ہوا ہے کہ اس کا دماغی توازن صحیح نہیں رہا اس نے ایک اور دلیل سوچ لی
آپ تو بڑے پکے مسلمان ہوا کرتے تھے فرح نے کہا پتہ چلا تھا کہ آپ زاہد اور پارسا ہیں اہل سنت ہیں لیکن اس خزانے نے تو آپ کے دل سے خدا کو نکال دیا ہے میں آپ کی کچھ نہیں لگتی لیکن آپ مجھے اپنے ساتھ لے آئے ہیں صرف اس لئے کہ میں خوبصورت اور جوان لڑکی ہوں
میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو صالح نمیری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا مجھے آگے جانے سے روکنے کے لیے تم یہ کہوں گی کہ مسلمان اپنے دلوں میں خزانے کا لالچ نہیں رکھا کرتے تم مجھے خلفاء راشدین کی سادگی کی باتیں سناؤ گی میری بات غور سے سن لو فرح وہ وقت اور تھا وہ مسلمان اور تھے آج کے وقت کا تقاضا کچھ اور ہے آج طاقت اس کے پاس ہے جس کے پاس خزانہ ہے میں تو کہتا ہوں کہ آج خدا بھی اسی کا ہے جس کے پاس خزانہ ہے میں نے خدا کے آگے رکوع و سجود کرتے ایک عمر گزار دی ہے لیکن خدا نے مجھے اس خزانے کا اشارہ نہیں دیا اچانک اس کی آواز اونچی اور تحکمانہ ہوگئی اس نے کہا تم میری ملکیت ہو سفر کی صعوبتوں اور خطروں کے اور موت کے خوف سے مجھے آگے بڑھنے سے روک رہی ہو میں قلعہ خلجان کا والی اور امیر شہر ہوں میرا حکم چلتا ہے یہ گیارہ آدمی جو میرے ساتھ جا رہے ہیں یہ میرے حکم کے غلام ہیں تم بھی میرے حکم کی پابند ہو
خزانے کے تو اپنے اثرات تھے لیکن صالح نمیری کو فرح نے ایک پھول دیا تھا جس کی خوشبو کی اس نے بہت تعریف کی تھی پھر فرح نے اسے روئی پر اسی خوشبو کا عطر لگا کر دیا جو اس نے اپنی مونچھوں پر مل لیا تھا وہ نہ جان سکا کہ یہ خوشبو حسن بن صباح کی ایجاد ہے اور یہ خوشبو انسان کے خیالات کو بدل دیتی ہے تصور کو انسان حقیقت اور حقیقت کو تصور سمجھنے لگتا ہے
فرح خاموش ہوگئی
دن ابھی آدھا گزرا تھا صالح نمیری نے اپنے قافلے کو کوچ کا حکم دیا اور یہ حکم بھی کے تابوت کو توڑ دیا جائے انہوں نے چار گھوڑے فالتو ساتھ لے لیے تھے سفر ایسا تھا کہ گھوڑے مر سکتے تھے یہ چار گھوڑے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ساتھ لے جائے جارہے تھے ایک گھوڑے پر فرح کو سوار کر دیا گیا
جنگل زیادہ گھنا ہوتا جا رہا تھا اس میں اونچی نیچی ٹیکریاں اور سلّوں والی چٹانیں بھی تھیں جگہ جگہ پانی جمع تھا چلنے کا راستہ مشکل سے ہی ملتا تھا ہر آٹھ دس قدموں کے بعد دائیں یا بائیں مڑنا پڑتا تھا اس طرح فاصلہ زیادہ ہی ہوتا جا رہا تھا
سورج افق کے پیچھے چلا گیا جنگل اتنا گھنا تھا کہ شام بہت جلد تاریک ہوگئی
صالح نمیری وہیں رک گیا اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ رات گزارنے کے لیے جگہ دیکھیں تھوڑی ہی دیر میں ایک جگہ دیکھ لیں گئی جو قدرے وسیع اور ہموار تھی اس کے اردگرد ہری سرسبز ٹیکریاں تھیں گھنے درختوں نے شامیاںے تان رکھے تھے
دو مشعلیں جلا کر زمین میں گاڑ دیں گئیں
صالح نمیری کا خیمہ نصب ہونے لگا تو فرح بھڑک گئی
میں الگ خیمے میں سوؤں گی اس نے کہا اپنے ساتھ چھوٹے خیمے بھی ہیں
آخر تم نے میری بیوی بننا ہے صالح نمیری نے کہا یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے اگر تم میرے خیمے میں سوؤگی تو یہ معیوب فعل نہیں ہوگا
بیوی بن جانے تک آپ میرے لیے غیر مرد ہیں فرح نے کہا میں مسلمان کی بیٹی ہوں میں اسلام کی پوری پابندی کرونگی
ایک چھوٹا خیمہ اور لگا دو صالح نمیری نے حکم کے لہجے میں کہا
خیمہ گاہ میں دو چھوٹے اور دو بڑے خیمے کھڑے ہوگئے بڑے خیمے گیارہ آدمیوں کے لیے تھے جو چھوٹے خیموں سے دور نصب کیے گئے تھے دونوں چھوٹے خیموں کے درمیان فرح نے خاصا فاصلہ رکھوایا تھا
اس نے صالح نمیری کے ساتھ ایسی باتیں کی تھیں کہ یہ شخص اس سے متاثر ہو گیا اور وہ فرح کو شرم حجاب والی بااخلاق لڑکی سمجھ بیٹھا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ لڑکی حسن بن صباح کی شاگرد ہے اور زبان کا جادو چلانے میں مہارت رکھتی ہے فرح نے اسے اپنی محبت کا بھی یقین دلایا تھا
کھانا کھا کر سب سو گئے دن بھر کی گھوڑ سواری نے ان کی ہڈیاں توڑ دی تھیں
انہیں بے ہوشی جیسی نیند نے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا صرف فرح تھی جو جاگ رہی تھی اور نیند پر غلبہ پانے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی وہ دوسروں کے سوجانے اور بہت سا وقت گزر جانے کی منتظر تھی اس نے کچھ سوچ کر صالح نمیری کے ساتھ وہ باتیں کی تھیں جن سے وہ متاثر بلکہ مسحور ہو گیا تھا
چاند اوپر آ گیا تھا مشعلیں سونے سے پہلے بجھا دی گئی تھیں جنگل اور صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف ہوا کرتی ہے چاندنی کی کرنیں درختوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں رات دبے پاؤں گزرتی جا رہی تھی
فرح اس دور کی لڑکی تھی جب عورتیں بھی اپنے مردوں کے دوش بدوش لڑنے کے لیے میدان جنگ میں پہنچ جایا کرتی تھیں یہ الگ بات ہے کہ مرد انہیں پیچھے رکھتے لڑاتے نہیں تھے اس وقت عورتیں بھی گھوڑ سواری تیغ زنی وغیرہ میں مہارت رکھتی تھیں فرح تو خاص طور پر پھرتیلی اور چست و چالاک لڑکی تھی
نصف شب سے کچھ دیر پہلے فرح خیمے میں سے نکلی اور قریب کے ایک درخت کی اوٹ میں ہوگی خیموں کو باری باری دیکھا ہر خیمے کے پردے گرے ہوئے تھے وہ پیچھے ایک اور درخت کی اوٹ میں چلی گئی وہاں اونچی گھاس تھی وہ اس گھاس کے پیچھے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چل پڑی
گھوڑے اور اونٹ خیموں سے کچھ دور ایک ٹیکری کے پیچھے باندھے گئے تھے فرح خیموں سے دور چلی گئی تھی گھاس جھاڑیوں اور درختوں کی اوٹ میں وہ چکر کاٹ کر گھوڑوں تک پہنچی زینیں وغیرہ گھوڑوں کے قریب پڑی تھیں فرح نے ایک زین بغیر آواز پیدا کیے اٹھائی اور ایک گھوڑے کی پیٹھ پر رکھ کر کس دی پھر گھوڑے کے منہ پر لگام بھی چڑھا دیا رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہو گئی
اس نے گھوڑے کو فوراً ایڑ نہ لگائی تاکہ قدموں کی آہٹ نہ ہو لیکن وہ زمین پتھریلی تھی آواز پیدا ہو رہی تھی رات کے سناٹے میں ہلکی سی یہ آواز اتنی اونچی سنائی دی کہ ایک آدمی کی آنکھ کھل گئی اسے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دینے لگی جو دور ہٹتے جا رہے تھی
وہ اپنے کسی ساتھی کو جگائے بغیر خیمے سے نکلا اور گھوڑوں کی طرف گیا ایک گھوڑا کم تھا زینیں دیکھی ایک زین کم تھی
ایک گھوڑا کوئی لے گیا ہے اوئے اس نے بلند آواز سے کہا اس کے ساتھی ہڑبڑا کر اٹھے اور باہر کو دوڑے ادھر کچھ دور گھوڑے کے سرپٹ دوڑتے ٹاپ سنائی دیے فرح نے اس خیال سے گھوڑے کو ایڑ لگا دی تھی کہ وہ خاصی دور نکل آئی ہے اسے واپسی کے راستے کا اندازہ تھا
ان سب کی آوازوں پر صالح نمیری بھی جاگ اٹھا خیمے سے نکل کر اس نے وہیں سے پوچھا یہ کیا شور ہے ؟
ایک گھوڑا چوری ہو گیا ہے ایک آدمی نے کہا
صالح نمیری یہ سنتے ہی فرح کے خیمے کی طرف دوڑا خیمے میں دیکھا فرح وہاں نہیں تھی
بدبختو صالح نمیری نے کہا وہ بھاگ گئی ہے دو آدمی فوراً اس کے پیچھے جاؤ وہ موت کے ڈر سے میرا ساتھ چھوڑ گئی ہے اسے پکڑ کر لے آؤ میں اسے یہی درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر آگے چلا جاؤں گا دو آدمیوں نے بہت تیزی سے گھوڑے پر زین کسی اور سوار ہوکر ایڑ لگا دی
فرح دور نکل گئی تھی اور وہ صحیح راستے پر جا رہی تھی گھوڑا اس کا خوب ساتھ دے رہا تھا شفاف چاندنی اسے راستہ دکھا رہی تھی وہ تین میل سے زیادہ فاصلہ طے کر گئی ایک جگہ درخت کم ہو گئے تھے اور ایک دوسرے سے دور دور تھے
اس نے بڑی زور سے باگ کھینچی طاقتور گھوڑا فوراً رک گیا فرح کو بیس پچیس گھوڑسوار دکھائی دیئے جو دائیں سے بائیں طرف جا رہے تھے یعنی فرح کا راستہ کاٹ رہے تھے فاصلہ ایک سو گز سے کچھ کم ہی تھا فرح ان کے گزر جانے کا انتظار کرنے لگی اس کا راستہ یہی تھا فرح اگر مرد ہوتی تو اسے روکنے کی ضرورت نہیں تھی رات کو مسافر چلتے ہی رہتے ہیں لیکن فرح جوان اور بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی اور اس جنگل میں تنہا تھی اسے کسی آدمی نے بخشا نہیں تھا
ان سواروں میں سے کسی نے فرح کو دیکھ لیا اور ایک آدمی کو بتایا جو اس قافلے کے آگے آگے جا رہا تھا اس نے حکم دیا کے جاؤ دیکھو کون ہے مجھے تو عورت لگتی ہے
ایک سوار نے فرح کی طرف گھوڑا دوڑا دیا فرح نے اپنا گھوڑا ایک اور طرف دوڑا دیا حکم دینے والے آدمی نے کہا کہ دو تین اور آدمی جاؤ تین اور سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے فرح نے ان سے بچنے کی بہت کوشش کی گھوڑے کو بہت موڑا اور گھمایا لیکن وہ چار سواروں کے گھیرے میں آ گئی اور پکڑی گئی
ادھر سے صالح نمیری کے دو سوار آ گئے انہوں نے فرح کو دیکھا تو رک گئے
یہ ہمارے امیر کی لڑکی ہے ایک سوار نے کہا اس سے بھاگ آئی ہے اسے ہمارے حوالے کر دو
نہیں فرح نے کہا یہ جھوٹ کہتے ہیں ان کے امیر کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں یہ مجھے اغوا کرکے لے جا رہے تھے اور میں بھاگ آئی مجھے خلجان پہنچا دو
تم بھائیوں جاؤ صالح نمیری کے ایک سوار نے کہا یہ جس کی لڑکی ہے وہ خلجان کا امیر اور والی قلعہ ہے ہم اسے اس کے حوالے کریں گے
فرح نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا
چاروں سواروں نے صالح نمیری کے سواروں سے کہا کہ وہ واپس چلے جائیں اور اس لڑکی کو بھول جائیں دونوں سواروں نے ان چار سواروں کو عام مسافر سمجھ کر تلواریں نکال لیں ان چاروں نے بھی تلوار نکالی پھر تلواروں سے تلواریں ٹکرا نے لگیں تب ان کو پتہ چلا کہ یہ بڑے ماہر تیغ زن ہیں انہوں نے مقابلہ تو کیا لیکن وہ چار تھے ان کی تلواروں نے ان دونوں کو بری طرح کاٹ پھینکا
ان سواروں نے صالح نمیری کے سواروں کی تلواریں اٹھائیں نیامیں اتار کر تلواریں ان میں ڈالیں ان کے گھوڑے پکڑے اور فرح کو ساتھ لے کر چل پڑے
تم کون لوگ ہو؟
فرح نے ان سے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟
غلط فہمی میں نہ رہنا لڑکی ایک نے کہا ہم کسی کو دھوکے میں نہیں رکھا کرتے ہم صحرائی قزاق ہیں اپنے سردار کے پاس جا رہے ہیں
کیا تم لوگ مجھے خلجان پہنچا دو گے؟
فرح نے کہا مجھے خلجان کے راستے پر ڈال دینا میں اکیلی چلی جاؤں گی
تمہارے اس سوال کا جواب ہمارا سردار ہی دے سکتا ہے ایک سوار نے کہا
جواب مجھ سے سن لو ایک اور سوار بولا تم بہت حسین لڑکی ہو ہیروں کی قدر صرف ہمارا سردار ہی کر سکتا ہے وہ تمہیں نہیں جانے دے گا
فرح کے لیے یہ خبر بہت ہی بری تھی وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ چلی جاتی اس نے کیا بھی یہی مزحمت تو دور کی بات ہے اس نے زبان بھی نہ ہلائی اور اس طرح ان کے ساتھ چل پڑی جیسے وہ اپنی خوشی اور مرضی سے جا رہی ہو لیکن اس کا دماغ بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا
اس کے دل و دماغ پر حسن بن صباح طاری رہتا تھا اس لیے اس کے سوچنے کا انداز حسن بن صباح جیسا ہی تھا اور یہ انداز ابلیسی تھا ایسے انداز فکر میں یہ پابندی نہیں ہوا کرتی کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور اپنا مفاد حاصل کرتے کرتے کسی اور کی حق تلفی نہ ہو جائے اس لڑکی کے سوچنے کا انداز یہ تھا کہ باپ بیٹے کو ذبح کر دے بھائی بہن کا گلا کاٹ دے بیٹا ماں کا پیٹ چاک کر دے میرا بھلا ہو جائے
قزاقوں کے سردار تک پہنچتے فرح کے دماغ نے اسے راہ نجات دکھا دی
اوہ سردار نے چاندنی میں فرح کا چہرہ دیکھ کر حیرت زدگی کے عالم میں کہا کیسے مان لوں کہ تو نسل انسانی سے ہے اور تو جہان دگر کی پر اسرار مخلوق میں سے نہیں؟
سردار لب و لہجے اور انداز تکلم سے عربی لگتا تھا عرب یوں بات کیا کرتے تھے جیسے انداز نظم سنا رہے ہوں
یہ کہتی ہے اسے امیر خلجان اغوا کرکے لے جا رہا تھا ایک سوار نے کہا دو سوار اس کے پیچھے آئے تھے ایک اور سوار بولا ہم نے دونوں کو مار ڈالا ہے
امیر خلجان سردار نے سوالیہ انداز سے پوچھا؟
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ یہ چاند نہیں سورج ہے امیر خلجان کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک لڑکی کو اغوا کر کے لے جا رہا ہو کیا وہ تجھے کہیں سے زبردستی اٹھوا کر خلجان لے جا رہا تھا ؟
گھوڑے سے اترو آؤ ہمارے پاس بیٹھو اور گلاب کی پنکھڑیوں کو ذرا حرکت دو کہ ہم تمہاری اصلیت جان سکیں
پہلے ان پنکھڑیوں کی قدروقیمت پہچانو فرح نے سردار کا انداز تکلم بھانپ کر کہا تم پتھروں کے سوداگر ہو ہیرو کی قدر کیا جانو پہلے میں ایک امیر شہر کی داشتہ تھی اب ایک قزاق کی لونڈی بن گئی ہوں میری اصلیت کو قزاق کا سردار نہیں سمجھ سکتا
ہاہاہاہا سردار نے فرمائشی قہقہہ لگا کر کہا میں چاندنی میں ہیروں کی طرح چمکتی ہوئی تیری آنکھوں کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ انسان کے نطفے سے پیدا ہونے والی کسی عورت کی آنکھیں اس قدر مخمور اور سحر انگیز ہو سکتی ہیں؟
لیکن تیری زبان کا حسن ان نشیلی انکھوں کے سحر سے زیادہ اثر انگیز ہے
میرے حسن کو ہی نہ دیکھ ائے سردار فرح نے کہا میں تجھے ہفت اقلیم کا شہنشاہ بنا سکتی ہوں تیری ذرا سی ہمت کی ضرورت ہے اب اپنی حالت دیکھ اپنے آپ کو پہچان کیا تو شکار کی تلاش میں جنگل جنگل صحرا صحرا مارا مارا نہیں پھر رہا کسی بڑے قافلے کو لوٹ کر تو بہت بڑا خزانہ حاصل کرلیتا ہے لیکن رہتا قزاق کا قزاق ہی ہے میں تجھے ایک خزانے کا راستہ دکھاتی ہوں وہ تیرے ہاتھ آ جائے تو تو ایک فوج تیار کرکے سلطنت پر قبضہ کر سکتا ہے عرب اور مصر کو اپنی سلطنت میں شامل کر سکتا ہے
کیا تو اپنے ہوش و حواس میں ہے لڑکی سردار نے کہا اگر تو دہشت زدگی سے دماغی توازن کھو نہیں بیٹھی تو یوں بول کہ میں کچھ سمجھ سکوں
فرح نے ایک پتھر سے دو پرندے مارنے کی جو ترکیب سوچی تھی وہ ان قزاقوں کے سردار کو سنا دی
امیر خلجان ایک بڑا خزانہ نکال لانے کے لئے جا رہا ہے فرح نے کہا
کہاں سے ؟
نقشہ اس کے پاس ہے فرح نے کہا اس پر راستہ دکھایا گیا ہے واضح نشانیاں بھی موجود ہیں اور جن خطروں کا امکان ہے وہ بھی نقشے میں دکھائے گئے ہیں اور اس جگہ کی نشانیاں صاف دکھائی ہوئی ہے جہاں خزانہ ایک غار میں رکھا ہوا ہے
خزانے کی نشاندہی کس نے کی ہے؟
ایک درویش نے فرح نے جھوٹ بولا امیر خلجان صالح نمیری نے اس کی بہت خدمت کی تھی میں نے سنا تھا کہ اس درویش کی کوئی خواہش تھی یا ضرورت تھی جو امیر خلجان نے بسروچشم پوری کر دی تھی
اور یہ بتا؟
سردار نے پوچھا تو مجھ پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہے کہ اتنا بڑا راز مجھے دے رہی ہے؟
اس کی وجہ بھی سن لے فرح نے کہا میرے دل میں خزانے کی ذرا سی بھی محبت نہیں اس دل میں ایک آدمی کی محبت ہے میری مجبوری یہ تھی کہ میں امیر خلجان کی داشتہ تھی کچھ وقت ملتا تو اس آدمی سے مل لیتی تھی امیر خلجان درویش کے بتا ہوئے خزانے کی تلاش میں چلا تو میں بہت خوش ہوئی کہ یہ جا رہا ہے تو میں اپنے محبوب کے پاس چلی جاؤں گی اور ہماری شادی ہو جائے گی لیکن امیر خلجان مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے آیا سفر میں آج ہماری پہلی رات ہے میں نے موقع غنیمت جانا اور بھاگ نکلی اگر تیرے آدمی مجھے پکڑ نہ لیتے تو میں کل اس کے پاس ہوتی جو مجھے چاہتا ہے
کیا تو یہ چاہتی ہے کہ میں تجھے چھوڑ دوں؟
سردار نے پوچھا
ہاں فرح نے کہا تو خزانوں کا متلاشی ہے میں محبت کی پیاسی ہوں
لیکن تجھے امیر خلجان تک چلنا پڑے گا سردار نے کہا تیری یہ بات دھوکا بھی تو ہوسکتی ہے مجھے نقشہ مل جائے گا تو تجھے آزاد کردوں گا
تو تو مجھے آزاد کردے فرح نے کہا امیر خلجان کو تو نے زندہ چھوڑ دیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا
وہ زندہ نہیں رہے گا سردار نے کہا اٹھو اپنے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ
وہ ابھی تک نہیں آئے صالح نمیری نے کئی بار کہہ چکا تھا
وہ اسے جانے نہیں دیں گے ہر بار اس کا کوئی نہ کوئی آدمی اسے کہتا یا یہ جنگل میں بھٹک گئی ہو گی یا یہ جا نہیں سکتی وہ اسے لے کے ہی آئیں گے
پھر انہیں گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دینے لگی
وہ آرہے ہیں دو تین آدمیوں نے کہا
اب میں اسے ہر رات باندھ کے رکھا کروں گا صالح نمیری نے کہا
نہیں امیر محترم ایک آدمی نے کہا ہم اور آگے نکل جائیں گے تو یہ بھاگنے کی جرات نہیں کرے گی میں جانتا ہوں کل کے سفر میں یہ جنگل ختم ہو جائے گا اور بے آب و گیاہ پہاڑی علاقہ شروع ہو جائے گا
ٹھہرو صالح نمیری نے کہا سنو گھوڑے دو یا تین نہیں لگتے کیا یہ بہت سے گھوڑے نہیں
ہاں امیر محترم ایک آدمی نے کہا
وہ ابھی سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ آنے والے گھوڑے دو ہیں یا تین ہیں یا زیادہ ہیں کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کا طوفان آگیا اور اس کے ساتھ یہ للکار جو جہاں ہے وہیں کھڑا رہے
وہ تقریباً پچیس قزاق تھے جنہوں نے صالح نمیری کی اس چھوٹی سی خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا
امیر خلجان نقشہ میرے حوالے کر دے سردار نے کہا وہ خزانہ ہمارا ہے صالح نمیری چپ چاپ اپنے خیمے میں چلا گیا باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں تلوار تھی
دیکھتے کیا ہو اس نے اپنے آدمیوں سے کہا ہتھیار اٹھاؤ وہ خزانہ ہمارا ہے
ایک بار پھر سوچ لے صالح نمیری سردار نے کہا ہم قزاق ہیں اور ہم زیادہ ہیں نقشہ میرے حوالے کر دو اور زندہ واپس چلے جاؤ
صالح نمیری کچھ جواب دیے بغیر سردار کی طرف تیزی سے بڑھا سردار کا گھوڑا اس کی طرف بڑھا صالح نمیری تیزی سے بیٹھ گیا اور سردار کے گھوڑے کے پیٹ میں تلوار اتاردی گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا اور اچھلنے کودنے لگا سردار گھوڑے سے کود آیا
صالح نمیری کے ساتھ اب نو آدمی رہ گئے تھے ان میں سے بعض نے تلواریں اٹھا لی تھیں اور بعض کے پاس برچھیاں تھیں ان سب نے جانوں کی بازی لگا دی لیکن نو پیادے پچیس سواروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا فرح کھڑی دیکھ رہی تھی اور اپنی چال کی کامیابی پر بہت ہی خوش تھی وہ اب بھاگ نکلنے کا موقع دیکھ رہی تھی اس نے صرف یہ دیکھنا تھا کہ صالح نمیری مارا جاتا ہے یا نکل بھاگتا ہے اسے اتنے گھمسان کے معرکے اور ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے گھومتے مڑتے گھوڑوں میں صالح نمیری اور قزاقوں کا سردار نظر نہیں آرہے تھے
لڑکی ادھر آ جا فرح کو آواز سنائی دی اپنے امیر کے خیمے تک آجا لڑکی
فرح گھوڑے سے اتری اور صالح نمیری کے خیمے تک دوڑتی گئی چاند سر پر آیا ہوا تھا چاندنی بہت ہی صاف ہو گئی تھی اس نے خیمے کے قریب صالح نمیری کی لاش پڑی دیکھی
میرے ساتھ خیمے میں آ سردار نے فرح سے کہا اور بتاؤ وہ نقشہ کہاں ہے؟
سردار اور فرح اندر چلے گئے فرح نے چمڑے کا ایک تھیلا اٹھا کر سردار کے حوالے کیا اور بتایا کہ نقشہ اس میں ہے سردار تھیلا اٹھائے خیمے سے باہر آگیا تھیلے میں کچھ اور چیزیں پڑی تھیں جو سردار نے باہر پھینک دیں پھر اس میں سے نقشہ نکالا فرح نے کہا یہی ہے اور وہ وہاں سے چل پڑی کہاں جارہی ہے تو؟
سردار نے اس سے پوچھا
تجھے خزانے کا نقشہ مل گیا ہے فرح نے چند قدم دور رہ کر کہا سمجھ لے کے تجھے خزانہ مل گیا ہے اور مجھے آزادی مل گئی ہے
ٹھہر جا سردار نے کہا میں اتنی جلدی تجھے آزادی نہیں دوں گا تو مرجھایا ہوا پھول تو نہیں کہ بغیر سونگھے پھینک دوں
وہ قزاقوں کا سردار تھا کوئی شریف اور معزز آدمی نہیں تھا کہ اپنے وعدے کا پاس کرتا اتنی خوبصورت لڑکی کو وہ کیوں کر چھوڑ دیتا فرح اپنے گھوڑے کی طرف دوڑی تو سردار اس کے راستے میں آگیا فرح دوسری طرف دوڑ پڑی لڑائی لڑی جارہی تھی صالح نمیری کے آدمی مارے جا رہے تھے انہوں نے مرنے سے پہلے کچھ قزاقوں کو بھی مار ڈالا تھا
فرح دوسری طرف دوڑی تو سردار اس کے پیچھے گیا فرح اس کوشش میں تھی کہ وہ مرے ہوئے کسی آدمی کے گھوڑے تک پہنچ جائے سواروں کے بغیر گھوڑے ادھر ادھر بکھر گئے تھے لیکن سردار فرح کو کسی گھوڑے کے قریب نہیں جانے دے رہا تھا
فرح پھرتیلی تھی وہ تیز دوڑتی خیمے گاہ سے کچھ دور چلی گئی سردار بھی تیز دوڑا
آگے اونچی اور گھنی جھاڑیاں تھیں جو باڑ کی طرح ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں فرح ان میں سے گزر گئی لیکن آگے دلدل تھی وہ راستہ بدلنے ہی لگی تھی کہ سردار پہنچ گیا فرح دلدل میں چلتی آگے چلی چند ہی قدم آگے گئی ہوگی کہ اسے ایسا لگا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو وہ نیچے جانے لگی
سردار چیتے کی طرح اس پر جھپٹا اور وہ بھی نیچے ہی نیچے جانے لگا یہ دلدل تھی جو ہر چیز کو اپنے اندر غائب کر دیا کرتی ہے فرح اور سردار نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا فرح چیخ اور چلا رہی تھی سردار اپنے آدمیوں کو نام لے لے کر پکار رہا تھا اور وہ دونوں دلدل میں دھنستے چلے جارہے تھے سردار کے ہاتھ سے خزانے کا نقشہ چھوٹ گیا یہ نقشہ بے بنیاد تھا اور خزانہ ایک فریب اور ایک مفروضہ تھا
سردار کے تین چار آدمی پہنچ گئے انہیں اپنے سردار اور فرح کے سر نظر آئے اور یہ بھی دلدل میں غائب ہوگۓ
تیسرے یا چوتھے روز احمد بن عطاش شاہ در سے خلجان پہنچ گیا
خلجان کا قلعہ مبارک ہو پیرومرشد حسن بن صباح نے اس کا استقبال کرتے ہوئے کہا
کیا صالح نمیری کی واپسی کا کوئی امکان نہیں؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
نہیں حسن بن صباح نے جواب دیا خزانہ وہ اژدہا ہے جو آج تک نہ جانے کتنے انسانوں کو نگل چکا ہے اس نے بڑے جابر بادشاہوں کو بھی نگلا ہے اور اس نے مومنین کو زاہدوں اور پارساؤں کو بھی نگلا ہے وہ صالح نمیری جو مجھ پر لعن طعن کرنے آیا تھا کہ تم خدا کے ایلچی کیسے بن گئے اور وہ صالح نمیری جو دعوی کرتا تھا کہ اللہ کے واحد عقیدے کے پیروکار صرف اہل سنت ہیں اور وہی اللہ کے قریب ہیں وہ صالح نمیری خدا اور اپنے عقیدے کو فراموش کر کے خزانے کی تلاش میں چلا گیا فرح بھی اس کے ساتھ چلی گئی ہے
کیا تمہیں اس کا افسوس ہے؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
نہیں مرشد حسن بن صباح نے کہا میں حیران ہوں کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم صالح نمیری کو خزانے کا دھوکا دے کر غائب کر رہے ہیں وہ اس کے ساتھ کیوں چلی گئی ؟
اتنے میں دربان نے اندر آ کر بتایا کہ والی خلجان صالح نمیری کا ایک آدمی بہت بری حالت میں آیا ہے حسن بن صباح نے کہا اسے فوراً اندر لے آؤ
ایک آدمی دربان کے سہارے اندر آیا اس کے کپڑے خون سے لال تھے اور خون خشک ہو چکا تھا اس کے سر پر بازوؤں پر اور ران پر کپڑے لپٹے ہوئے تھے احمد بن عطاش کے کہنے پر اسے پانی پلایا گیا وہ تو جیسے آخری سانسیں لے رہا تھا
کون ہو تم ؟
احمد بن عطاش نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
ایک دن کی مسافت چار دنوں میں طے کی ہے اس نے ہانپتی سانسوں کو سنبھال سنبھال کر بڑی ہی مشکل سے کہا
وہ ان گیارہ آدمیوں میں سے تھا جو صالح نمیری کے ساتھ گئے تھے یہ آدمی قزاقوں کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوا اور اسے وہاں سے نکل آنے کا موقع مل گیا تھا وہ صالح نمیری کے نمک حلال اور وفادار ملازموں میں سے تھا وہ صرف اطلاع دینے کے لئے خلجان آ گیا تھا راستے میں کئی بار بےہوش ہوا گھوڑے سے گرا اٹھا اور چوتھے روز خلجان پہنچ گیا
اس نے بتایا کہ صالح نمیری مارا گیا ہے اور خزانے کا نقشہ قزاقوں کے سردار نے لے لیا ہوگا فرح کے متعلق اس نے بتایا کہ وہ قزاقوں کے قبضے میں تھی اس نے فرح اور سردار کو دلدل میں ڈوبتے نہیں دیکھا تھا
یہ وفادار شخص باتیں کرتے کرتے خاموش ہو گیا اور اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا تھا
حسن بن صباح نے کہا کہ اس کی لاش لے جاؤ اور دفن کر دو
اب یہ قلعہ ہمارا ہوگیا ہے احمد بن عطاش نے کہا اب بتاؤ حسن اس کامیابی سے تم نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟
یہ کہ انسان نفسانی خواہشات کا غلام ہے حسن بن صباح نے کہا کسی بھی انسان کی ان خواہشات کو ابھار دو اور اسے یقین دلا دو کہ اس کی یہ خواہشات پوری ہو جائیں گی تو اسے جس راستے پر ڈال دو وہ اسی راستے پر چل پڑے گا
میں تمہیں یہ سبق پہلے دے چکا ہوں احمد بن عطاش نے کہا ہر انسان کی ذات میں ابلیس موجود ہے اور ہر انسان کی ذات میں خدا بھی موجود ہے یوں کہہ لو کہ انسان بیک وقت نیک بھی ہے بد بھی ہے عبادت کیا ہے؟
بدی پر غلبہ پائے رکھنے کا ایک ذریعہ حسن بن صباح نے کہا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک وسیلہ
ہم نے ہر انسان میں ابلیس کو بیدار کرنا ہے احمد بن عطاش نے کہا صالح نمیری پکا مومن تھا زاہد اور پارسا تھا تم نے اسے ایسے خزانے کا راستہ دکھایا جس کا وجود ہی نہ تھا اس دھوکے میں فرح جیسی حسین لڑکی شامل تھی، تم نے دیکھا کہ اس شخص کی پارسائی اس طرح اڑ گئی جس طرح سورج کی تمازت سے شبنم اُڑ جاتی ہے
تلبیس ابلیس آئمہ تلبیس اور تاریخ ابن خلدون میں تفصیل سے لکھا ہے کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے راتوں کو آئینوں کی چمک دیکھا کر جس طرح لوگوں کو دکھایا تھا کہ خدا کا ایلچی زمین پر اترا ہے اس کا اس وسیع و عریض علاقے کے لوگوں پر وہی اثر ہوا تھا جو پیدا کرنا مقصود تھا
حسن بن صباح نے لوگوں کو اپنی زیارت بھی کرائی تھی اور ایک خاص جڑی بوٹی کی دھونی اتنے بڑے مجمعے کو دے کر لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ حاصل کرلیا تھا یہ تاریخ کی پہلی اجتماعی ہپنا ٹائزم تھی
اگر یہ ڈھنگ اختیار نہ کیا جاتا تو بھی لوگ اس کے قائل ہو جاتے ،کیونکہ لوگوں میں توہم پرستی اور افواہ پسندی جیسی کمزوریاں موجود تھیں حسن بن صباح نے قبیلوں کے سرداروں کو خصوصی اہمیت دی تھی حسن بن صباح کے مبلغوں یعنی پروپیگنڈا کرنے والوں کا بھی ایک گروہ پیدا ہوگیا ،اس گروہ کے آدمی فقیروں اور درویشوں کے بھینس میں بستی بستی پھرتے اور خدا کے ایلچی کے نزول اور اس کے برحق ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے تھے
خلجان کا قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں آگیا تو یہ مشہور کردیا گیا کہ امیر شہر صالح نمیری خدا کے ایلچی سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے قلعہ خدا کے ایلچی کی نذر کر دی ہے اور خود تارک الدنیا ہو کر کہیں چلا گیا ہے
مختصر یہ کہ حسن بن صباح اور احمد بن عطاش نے باطنی نظریات اور اپنی عقیدے لانے کے لئے زمین کا خاصا خطہ حاصل کرلیا اور فضا اور ماحول کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا
اب داستان گو اس داستان کو واپس اس مقام پر لے جا رہا ہے جہاں حسن بن صباح خواجہ طوسی نظام الملک کے پاس اسے ایک وعدہ یاد دلانے گیا تھا اس وقت نظام الملک نیشاپور میں سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم مقرر کیا جا چکا تھا ،داستان کو یاد دہانی کی خاطر ایک بار پھر مختصراً بتا دیتا ہے کہ یہ وعدہ کیا تھا اور یہ کس طرح پورا ہوا
خواجہ حسن طوسی جو بعد میں نظام الملک کے نام سے مشہور ہوا تاریخ کی ایک اور مشہور شخصیت عمر خیام اور حسن بن صباح ایک مشہور عالم امام مؤافق کے مدرسے میں پڑھے تھے مدرسے میں ایک روز حسن بن صباح نے اپنے ان دونوں ہم جماعتوں سے کہا کہ امام مؤافق کے شاگرد بڑے اونچے مقام پر پہنچا کرتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم تینوں یہاں سے فارغ ہو کر اونچے مقام پر پہنچیں گے آؤ وعدہ کریں کہ ہم نے جو کوئی کسی اونچے مقام پر پہنچ گیا وہ دوسرے دو دوستوں کی مدد کرے گا
تینوں دوستوں نے ہاتھ ملا کر یہ وعدہ کیا نظام الملک اور عمر خیام کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حسن بن صباح نے بڑے ہی مذموم مقاصد کی خاطر یہ وعدہ یا معاہدہ کیا ہے، پھر ایسا ہوا کہ تینوں تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی اپنی راہ لگ گئے کچھ عرصے بعد نظام الملک سلطان ملک شاہ کے یہاں گیا اور ملازمت مانگی اس کی قابلیت اور فہم و فراست کو دیکھتے ہوئے سلطان ملک شاہ نے اسے اپنا وزیر بنا لیا اور کچھ ہی عرصے بعد اسے وزیراعظم بنا دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے نظام الملک کا خطاب دے دیا
عمر خیام کو پتہ چلا کہ اس کا ہم جماعت اور دوست وزیراعظم بن گیا ہے تو وہ اس سے جا ملا اور مدرسے کے زمانے کا وعدہ یاد دلایا نظام الملک نے عمر خیام کو ملازمت دلانی چاہی لیکن عمر خیام نے کہا کہ وہ تحقیق کے میدان میں جانا چاہتا ہے پھر وہ کتابیں لکھےگا
نظام الملک نے اسے سلطان سے اچھی خاصی رقم دلوادی، عمر خیام نے حکمت میں نام پیدا کیا اور ایسی کتابیں لکھیں جو آج تک سند کے طور پر استعمال ہوتی ہیں
اس کے بعد حسن بن صباح نظام الملک کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ تالاش روزگار میں مارا مارا پھر رہا ہے اور ذلیل و خوار ہو رہا ہے آخر مجبور ہو کر اس کے پاس آیا ہے کیا تم اتنے لمبے لمبے سال بے روزگار پھرتے رہے ہو؟
نظام الملک نے پوچھا تھا
اگر کہیں روزی کا ذریعہ ملا بھی تو کچھ دنوں بعد ختم ہو گیا حسن بن صباح نے کہا تھا مجھے تاجر بننے کا مشورہ دیا گیا لیکن تجارت کے لیے سرمایہ کہاں سے لاتا دکانداری مجھ سے ہوتی نہیں میں تو روزگار کی تلاش میں مصر تک چلا گیا تھا لیکن قسمت نے کہیں بھی ساتھ نہ دیا لوگ کہتے ہیں کہ تم نے اتنا زیادہ علم حاصل کر لیا ہے کہ تم سرکاری عہدے پر ہی کام کر سکتے ہو
نظام الملک شریف النفس اور مخلص انسان تھا اس نے اپنے دوست اور ہم جماعت کو اس افسردگی مایوسی اور تنگدستی کے عالم میں دیکھا تو اس نے سلطان ملک شاہ کو بتایا کہ اس کا ایک دوست آیا ہے جو غیر معمولی فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کی تعلیمی سند یہ ہے کہ امام مؤافق کے مدرسے کا پڑھا ہوا ہے
ہمارے لئے صرف آپ کی رائے سند ہے سلطان نے کہا تھا اسے آپ جس عہدے کے لیے مناسب سمجھتے ہیں رکھ لیں
نظام الملک کو صرف سلطان کی منظوری درکار تھی وہ مل گئی تو نظام الملک نے اسے ایک اونچے عہدے پر فائز کر دیا یہ شک تو اس کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا تھا کہ حسن بن صباح کچھ اور ہی مقاصد دل میں لے کر حکومت کی انتظامی مشینری میں شامل ہوا ہے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:16 }
داستان گو نے ابتدا میں یہاں تک ہی سنایا تھا کہ حسن بن صباح سلجوقی سلطنت کی انتظامیہ میں کس طرح داخل ہوا تھا وہ جو اس نے نظام الملک کو درد بھری داستان سنائی تھی وہ جھوٹ تھا وہ مصر نہیں گیا تھا نہ اس نے ذریعہ معاش کی تلاش کی تھی نہ وہ تنگدست رہا تھا یہ سنایا جاچکا ہے کہ وہ اپنے استاد عبدالملک بن عطاش کے یہاں چلا گیا تھا جس نے اس کی تربیت شروع کر دی تھی پھر اسے احمد بن عطاش کے پاس بھیج دیا تھا فرح اس کے ساتھ گئی تھی
اس نے خلجان کا شہر لے لیا تھا اور یہ کامیابی حاصل کی تھی کہ لوگوں نے اسے خدا کا ایلچی یا خدا کی بھیجی ہوئی برگزیدہ شخصیت مان لیا تھا اس کے بعد وہ نظام الملک کے پاس گیا اور اس کے آگے یہ رونا رویا تھا کہ وہ اتنا عرصہ بے روزگار اور تنگ دست رہا ہے
حسن بن صباح کو نظام الملک کس طرح یاد آیا تھا؟
ہر مستند تاریخ میں اس سوال کا جواب موجود ہے احمد بن عطاش نے شاہ در کا شہر اور قلعہ دھوکے میں لے لیا تھا پھر حسن بن صباح نے فریب کاری سے خلجان کے امیر صالح نمیری سے تحریر لے کر اسے خزانے کا رستہ دکھا دیا اور وہ موت کے منہ میں چلا گیا یہ شہر بھی ان باغیوں کے قبضے میں آ گیا اب یہ دونوں باتیں سوچنے لگے کہ اس سے آگے کیا کیا جائے؟
تم نے دیکھ لیا ہے حسن احمد بن عطاش نے کہا لوگوں کو اپنے جال میں لانا کوئی مشکل نہیں لوگ افواہ سنسنی اور پراسراریت سے متاثر ہوتے ہیں
اور وہ زبان کے ہیر پھیر کا اثر قبول کرتے ہیں حسن بن صباح نے کہا
اور ان لوگوں کے امراء اور سردار وغیرہ کا معاملہ ذرا الگ ہے احمد بن عطاش نے کہا انہیں یہ تاثر دے دو کہ تم لوگوں کے روزی رساں ہو اور انہیں دولت اور عورت کی جھلک دکھا دو پھر یہ تمہارے غلام ہو جائیں گے لیکن لوگوں کو ساتھ لے کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ حکومت سلجوقیوں کی ہے اور سلجوقی اہل سنت ہیں
ہم لوگوں کو اپنے اثر میں لے کر انہیں سلجوقیوں کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں حسن بن صباح نے کہا
نہیں حسن! احمد بن عطاش نے کہا اس کے لیے کم از کم دو سال کا عرصہ چاہیے اور اس حقیقت کو کبھی نہ بھولنا کے سلجوقی ترک ہیں اور بڑے ظالم اور جنگجو ہیں ان کے پاس فوج ہے اس وقت ضرورت یہ ہے کہ جس طرح ہم نے شاہ در اور خلجان لے لیا ہے اسی طرح سلجوقیوں کی سلطنت پر قبضہ کرلیں
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا حسن! احمد بن عطاش نے کہا عزم پختہ مقصد واضح اور دماغ حاضر ہونا چاہیے ہمیں ان سلاطین کی انتظامیہ میں گھس جانا چاہیے یہ کام تم کر سکتے ہو میں تمہیں ایک نیا محاذ دے رہا ہوں
میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں استاد محترم! حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ بتائیں میں نے کرنا کیا ہے
میرے جاسوسوں نے مجھے ایک اطلاع دی ہے احمد بن عطاش نے کہا خواجہ حسن طوسی سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم بن گیا ہے یہ تو مجھے کبھی کا معلوم تھا کہ اسے سلطان ملک شاہ نے اپنا وزیر بنا لیا ہے لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں وزیراعظم بن جانا بہت بڑی بات ہے یہی نہیں مجھے اطلاع ملی ہے کہ سلطان ملک شاہ اس سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اسے نظام الملک کا خطاب دیا ہے
استاد محترم! حسن بن صباح نے پوچھا وہ تو وزیراعظم بن گیا ہے یہ بتائیں میں نے کیا کرنا ہے کیا اسے قتل کرانا ہے؟
قتل بعد کی بات ہے احمد بن عطاش نے کہا ہمارے راستے میں جو آئے گا وہ قتل ہو گا ابھی یہ کرنا ہے کہ اس کی جگہ لینی ہے کیا تمہیں یاد نہیں کہ خواجہ حسن طوسی تمہارا ہم جماعت تھا
ہاں میرے مرشد! حسن بن صباح نے اچھل کر کہا یہ تو میں بھول ہی گیا تھا
میں یہ بھی جانتا ہوں تم کیوں بھول گئے تھے احمد بن عطاش نے کہا مدرسے سے نکلتے ہی تمہیں عبدالملک بن عطاش کے حوالے کر دیا گیا تھا پھر تمھاری سرگرمیاں ایسی رہی کہ تمہیں اور کچھ یاد آ ہی نہیں سکتا تھا
مجھے کچھ اور بھی یاد آ گیا ہے حسن بن صباح نے کہا مدرسے میں ہم تین دوست تھے عمر خواجہ حسن اور میں ہم نے معاہدہ کیا تھا کہ مدرسے سے فارغ ہو کر ہم میں سے کسی کو کہیں بڑا عہدہ مل گیا تو وہ دونوں کو کسی اچھے عہدے پر فائز کرائے گا میرا کام تو آسان ہوگیا کل صبح روانہ ہو جاؤں گا اور خواجہ حسن کو اس کا وعدہ یاد دلاؤں گا
دیکھا حسن! احمد بن عطاش نے کہا ہمارا ہر کام آسان ہوتا چلا جا رہا ہے یہ ثبوت ہے کہ ہم حق پر ہیں اور خدا ہماری مدد کر رہا ہے یہ بھی یاد رکھو کہ سلطان ملک شاہ اب نیشاپور میں نہیں اب اس کا دارالحکومت مَرو میں ہے
اگلی صبح کا دھندلکا ابھی خاصا گہرا تھا جب حسن بن صباح اپنے اعلیٰ عربی نسل کے گھوڑے کی بجائے معمولی سے ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس کا لباس بھی ایک عام آدمی کا لباس تھا ایسے گھوڑے اور ایسے لباس میں وہ غریب آدمی لگتا تھا اس کے ساتھ ایک گھوڑا اور تھا جس پر ایک جوان اور بڑی ہی دلکش لڑکی تھی اس کا لباس بھی غریبانا تھا
یاد رکھنا حسن! احمد بن عطاش نے کہا اپنے آپ کو اہل سنت ظاہر کرنا ہے اور جمعہ کے روز مسجد میں چلے جایا کرنا اگر تمہیں وہاں کوئی اچھا رتبہ مل گیا تو سلطان ملک شاہ کا منظور نظر بننے کی کوشش کرنا اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھتے رہنا کے نظام الملک کو تم سلطان کی نظروں سے کس طرح گرا سکتے ہو ایک بار وزارت کا عہدہ لے لو پھر سلجوقی سلطنت میں ہماری زمین دوز کاروائیاں شروع ہوجائیگی جاسوس کے ذریعے میرا تمہارے ساتھ رابطہ قائم رہے گا ایک بار پھر سوچ لو کہ اس لڑکی کو تم نے اپنی بیوہ بہن ظاہر کرنا ہے یہ بات تو ہو چکی ہے کہ اس لڑکی کو کس طرح استعمال کرنا ہے
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی سازش یہ تھی کہ نظام الملک کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرکے اسے معزول کرانا اور اس کی جگہ حسن بن صباح نے لینی ہے اور پھر بڑے عہدوں پر اپنے آدمی فائز کروانے ہیں اور سلطنت کی جڑیں کھوکھلی کر کے عالم اسلام کو اپنے فرقے کے تابع کرنا ہے
یہاں ایک غلط فہمی کی وضاحت ہو جائے تو بہتر ہے ایک مقام تک ان لوگوں کی تبلیغ سے پتہ چلتا تھا کہ یہ اسماعیلی عقیدے کے لوگ ہیں لیکن شاہ در سے نکل کر انہوں نے جب خلجان کا رخ کیا اور نئی سے نئی تخریب کاریاں کرنے لگے تو واضح ہو گیا کہ یہ لوگ فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا ہی ایک فرقہ بناتے نچلے جا رہے تھے لہذا حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کو کسی فرقے سے منسوب کرنا صحیح نہیں
داستان گو ایک بات اور کہنا چاہتا ہے اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ حسن بن صباح ایک افسانوی کردار ہے اور قلعہ المُوت میں اس کی خود ساختہ جنت کا بھی حقیقت سے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور یہ الف لیلی کی ایک داستان ہے
ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ داستان اگر خیالی ہوتی تو ابن خلدون جیسا مورخ اسے تاریخ کے دامن میں نہ ڈالتا ابن اثیر اور ابن جوزی اس کا ذکر نہ کرتے درجنوں مستند مورخوں نے حسن بن صباح اور اس کی جنت کا تفصیلی ذکر کیا ہے یوروپی مورخوں نے تو اور زیادہ تحقیق کر کے یہ حالات قلم بند کیے ہیں
اس باب میں ان عظیم شخصیتوں کے نام دیے گئے ہیں جو حسن بن صباح کے پیروکاروں کے ہاتھوں قتل ہوئے اس فہرست کو دیکھ کر بتائیں کہ یہ شخصیت افسانوی ہیں؟
داستان گو آپ کو مرو لے چلتا ہے جہاں حسن بن صباح پہنچ چکا ہے اور نظام الملک کے پاس بیٹھا ہے وہ نظام الملک کو بتا چکا ہے کہ فاطمہ اس کی بہن ہے جو جوانی کی عمر میں ہی بیوہ ہو گئی ہے نظام الملک نے اس کی بہن کو اپنی بیوی کے پاس بھیج دیا ہے
حسن بن صباح نے نظام الملک کو مدرسے کے زمانے کا وعدہ یاد دلادیا اور بڑی ہی دردناک اور اثر انگیز لہجے میں اپنی بے روزگاری اور بدحالی کا قصہ سنایا
میں تمہیں مجبور نہیں کرسکتا خواجہ حسن بن صباح نے کہا تم وزیراعظم ہو اور میں تمہاری رعایا کا ایک نادار آدمی ہوں میں یہ ضرور کہوں گا کہ تم ان مومنین میں سے ہوں جو زہد اور تقوی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں تم جیسے زاہد اور متقی اپنے وعدے پورے کیا کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وعدہ خلافی گناہ ہے یہ بھی سوچو کہ میں نے اتنا ہی علم حاصل کیا ہے جتنا تم نے کیا ہے لیکن تم وزیراعظم ہو اور میں دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا
اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہو حسن نظام الملک نے کہا میں اپنا صرف وعدہ ہی پورا نہیں کروں گا بلکہ تمہیں اپنی ذاتی املاک کا بھی برابر کا حصہ سمجھوں گا
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کو حسن بن صباح کی شخصیت اور علمی قابلیت کی ایسی تصویر دکھائی کہ سلطان نے اسے معتمد خاص کا رتبہ دے دیا مورخ لکھتے ہیں کہ یہ عہدہ وزیر کے برابر تھا لیکن حسن بن صباح ایسا رتبہ چاہتا تھا جس میں وہ آزادانہ فیصلے کر سکتا
نظام الملک اپنے آستین میں ایک سانپ پالنے لگا
تقریباً تمام تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے نظام الملک کو سلطان کی نظروں میں گرانے کے لیے یہ طریقہ سوچا کہ ان اہم رتبوں والے عہدے داروں کو ہاتھ میں لے لیا جائے جن کی بات سلطان توجہ اور دلچسپی سے سنتا ہے ان میں ایک احتشام مدنی تھا جو سلطان کے تین مشیروں میں سے تھا ادھیڑ عمر آدمی تھا پابند صوم وصلاۃ بھی تھا احتشام مدنی شام کے وقت شہر کے ایک باغ میں چہل قدمی کرنے کے لئے جایا کرتا تھا
ایک شام وہ حسب معمول ٹہل رہا تھا کہ ایک جواں سال لڑکی اس کے سامنے اچانک آگئی اور جھجک کر ایک طرف ہوگئی باغ خاص قسم کے لوگوں کے لیے مخصوص تھا اس لڑکی کو احتشام مدنی نے پہلی بار دیکھا تھا لڑکی کسی عام سے گھرانے کی نہیں لگتی تھی احتشام مدنی نے دیکھا کہ لڑکی اچانک سامنے آ جانے سے کچھ گھبرا گئی تھی اور اس پر حجاب طاری ہو گیا تھا ویسے بھی یہ لڑکی اسے بہت اچھی لگی اس نے لڑکی کو بلا کر پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں آئی ہے؟
میں حسن بن صباح کی بہن ہوں لڑکی نے جواب دیا
حسن بن صباح ؟
احتشام مدنی نے پوچھا اور خود ہی بولا اچھا اچھا وہ حسن بن صباح جو چند دن پہلے سلطان کے معتمد خاص مقرر ہوئے ہیں
یہ احتشام مدنی اور اس لڑکی کی پہلی ملاقات تھی بیان ہو چکا ہے کہ یہ لڑکی حسن بن صباح کی بہن نہیں تھی نہ اس کا نام فاطمہ تھا نہ ہی وہ بیوہ تھی اس نے باتوں باتوں میں احتشام مدنی کو بتایا کہ وہ بیوہ ہے اس لئے بھائی اسے ساتھ لے آیا ہے اس سے احتشام مدنی کے دل میں اس لڑکی کی ہمدردی پیدا ہوگئی لڑکی نے ایسے انداز سے باتیں کیں جیسے وہ احتشام مدنی کی شخصیت سے متاثر ہو گئی ہو احتشام مدنی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لڑکی حسن بن صباح اور احمد بن عطاش جیسے باطنیوں کی تربیت یافتہ ہے اور یہ انسان کے روپ میں آئی ہوئی ہیں زہریلی ناگن ہے
وہ جب وہاں سے چلی تو احتشام مدنی جیسے زاہد اور پارسا نے اپنے دل میں دھچکہ سا محسوس کیا اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ یہ لڑکیاں سے ایک بار پھر ملے
لڑکی اسے پھر مل گئی اور پہلے روز سے زیادہ بے تکلفی کی باتیں کیں وہ ظاہر یہ کرتی تھی کہ بیویگی نے اسے مغموم اور رنجیدہ کر رکھا ہے اس طرح اس نے احتشام مدنی کے دل میں اپنی ہمدردی پیدا کر لی
پھر اسی باغ میں شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد ان دونوں کی کئی بار ملاقات ہوئیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی نے احتشام مدنی کو ایک روز اپنے گھر بلا لیا لڑکی نے اسے کہا تھا کہ حسن بن صباح صبح چلا جاتا ہے اور شام کو واپس آتا ہے یہ لڑکی تربیت کے مطابق احتشام مدنی پر ایک نشہ بن کر غالب آگئی تھی اس حد تک کہ صوم و صلوۃ کا پابند یہ معزز شخص اپنا آپ فراموش کر بیٹھا
دن کے وقت وہ اس لڑکی کے گھر میں اس کے حسن و شباب سے مخمور اور مدہوش ہوا جارہا تھا کہ صحن میں کسی کے قدموں کی آہٹ نے اسے چونکا دیا
یہ کون ہے؟
احتشام مدنی نے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا
خادم ہوگا لڑکی نے بڑے اطمینان سے کہا میں دیکھتی ہوں
پیشتر اس کے کہ لڑکی باہر نکلتی حسن بن صباح کمرے میں داخل ہوا احتشام مدنی جیسے مومن آدمی کو اپنی بہن کے ساتھ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا احتشام مدنی اس کے سامنے کھڑا کانپ رہا تھا
میں تم دونوں کو سنگسار کراؤں گا حسن بن صباح نے کہا میں باھر دروازہ بند کرکے سلطان کے پاس جا رہا ہوں حسن بن صباح دروازے کی طرف بڑھا تو لڑکی اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی اور رو رو کر کہنے لگی کہ اس نے اس شخص کو نہیں بلایا تھا
پھر یہ میرے گھر میں کس طرح آ گیا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یہ خود ہی آیا تھا لڑکی نے جواب دیا اور اس نے میرے ساتھ اور محبت کی باتیں شروع کردیں اچھا ہوا کہ تم آگئے اور میں اس کی دست درازی سے بچ گئی
احتشام مدنی نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس لڑکی نے اسے خود بلایا تھا کچھ دیر یہی جھگڑا چلتا رہا
حقیقت کچھ بھی ہے حسن بن صباح نے کہا میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے گھر میں میری بہن کے پاس بری نیت سے آئے بیٹھے ہو میں سلطان کو ضرور بتاؤں گا
احتشام مدنی صرف معزز آدمی ہی نہیں تھا بلکہ وہ سلطان ملک شاہ کا پسندیدہ مشیر بھی تھا اس کی جان چلی جاتی تو وہ قبول کر لیتا لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سلطان اسے معزول کر کے نکال دے اس صورت میں اس کی جو بےعزتی اور بدنامی ہونی تھی اس کے تصور سے ہی وہ کانپ اٹھا اس نے حسن بن صباح کی منت سماجت شروع کر دی کہ وہ اسے معاف کردے لڑکی نے بھی حسن بن صباح سے کہا کہ یہ آخر معزز آدمی ہے اسے بخش دیا جائے
حسن بن صباح گہری سوچ میں چلا گیا جو دراصل اداکاری تھی سوچ سے بیدار ہو کر اس نے احتشام مدنی کا بازو پکڑا اور اسے دوسرے کمرے میں لے گیا جب وہ دونوں باہر نکلے تو احتشام مدنی کے چہرے پر رونق عود کر آئی تھی حسن بن صباح نے اس کے ساتھ سودا بازی کر لی تھی جو مختصر یہ تھی کہ احتشام مدنی نظام الملک کے خلاف حسن بن صباح کا ساتھ دے گا
یہ شخص حسن بن صباح کا پہلا شکار تھا جسے اس نے نظام الملک کو سلطان کی نظروں سے گرانے میں استعمال کرنا تھا
ابلیس نے خدا کی حکم عدولی کی اور انسان کے آگے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اس نے اللہ سے کہا تھا مٹی کا بنا ہوا یہ انسان زمین پر اپنے ہی بھائیوں کا خون بہائے گا فتنہ اور فساد برپا کرے گا اور تیری عطا کی ہوئی اس عظمت کو بھول جائے گا کہ تیرے حکم سے فرشتوں نے اس کے آگے سجدہ کیا تھا
اسے ہم نے اشرف المخلوقات بنایا ہے یہ اللہ کی آواز تھی
یہ حشرات الارض سے بدتر ہوگا یہ ابلیس کی آواز تھی
یہ میرے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا اللہ نے کہا میں اس کی رہنمائی کے لئے نبی اور پیغمبر بھیجتا رہوں گا
میں اسے اپنے راستے پر چلاؤں گا ابلیس نے کہا جو طاقت مجھ میں ہے وہ اس میں نہیں میں آگ سے بنا ہوں یہ مٹی کا پتلا ہے میں اسے بڑی حسین اور دلفریب خواہشوں کا غلام بنا دوں گا
یہ میری عبادت کرے گا
میں اسے دنیا کی چمک دمک کا شیدائی بنا دوں گا ابلیس نے کہا یہ تیری عبادت کرے گا لیکن اس کا دل دولت کا پجاری ہوگا یہ ہر اس چیز کی پرستش کرے گا جس سے ذہنی اور جسمانی لذت حاصل ہو گی اور یہ ہر وہ کام کرے گا جس سے اسے روکا جائے گا یہ بدی سے لطف اندوز ہو گا
جا تو تاقیامت ملعون رہے گا اللہ نے کہا اور ابلیس کو دھتکار دیا
پھر یوں ہوا کہ اللہ کا پہلا ہی بندہ جنت سے نکالا گیا پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ عورت جو آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی وہ آدم کی جڑوں میں بیٹھتی چلی گئی اور آدم کی کمزوری بن گئی کہ وہ مجبور اور بے بس ہوگیا
عورت آدمی کے لیے نشہ بن گیا
آدمی عورت کے دام میں آ کر ابلیس کا پوجاری بن گیا
داستان گو اپنے آپ کو فن داستان گوئی تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے ابلیس کے متعلق ایک پیر طریقت شیخ عربی کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرتا ہے
ابلیس اہل خلوت کو راہ راست سے منحرف کرنے میں ایسے ایسے کمال رکھتا ہے کہ انسان علم و عمل کے بڑے مضبوط قلعے اس کی ادنی فسوں طرازیوں سے آناً فاناً زیر و زبر ہو جاتے ہیں اگر توفیق الہی اور ہدایت ازلی رفیق حال ہو تو انسان اس کی مغویانہ دست بُرد سے ہر وقت محفوظ ہے ورنہ جو بخت خفتہ اور طالع گم گشتہ اپنی قسمت کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں وہ ان کو ایسی بری طرح پٹختا ہے کہ اس کا جھٹکا مشرق و مغرب تک محسوس ہوتا ہے
سلجوقی سلطان ملک شاہ کا مشیر خاص اور منظور نظر احتشام مدنی پابند صوم و صلوۃ تھا زاہد و پارسا اور معزز انسان تھا کوئی ایسا جواں سال بھی نہ تھا کہ جوش شباب میں ایک حسین لڑکی کو دیکھ کر بے قابو ہوجاتا مگر وہ فاطمہ کو دیکھ کر اپنے آپ کو اور اللہ کو بھی بھلا بیٹھا اور حسن بن صباح کے جال میں آ گیا
وہ اس کمرے سے جس میں حسن بن صباح اسے لے گیا تھا نکلا تو اس کے چہرے سے شرمساری اورگھبراہٹ دھل گئی تھی اور رونق عود کر آئی تھی یہ تو واضح ہے کہ حسن بن صباح نے اس کے ساتھ سودا بازی کرلی تھی کہ وہ وزیراعظم نظام الملک کو سلطان ملک شاہ کی نظروں میں گرانے میں اس کی مدد کرے گا لیکن ان کے درمیان باتیں کیا ہوئی تھیں؟
تاریخوں میں جو اشارے ملتے ہیں ان سے یہ بات سامنے آتی ہیں کہ حسن بن صباح نے احتشام کو اندر لے جا کر یوں نہیں کہا تھا کہ احتشام اسے نظام الملک کی جگہ وزیراعظم بنوا دے
تم بے شک سلطان کے مشیر ہو احتشام! حسن بن صباح نے کہا تھا لیکن میرا رتبہ بھی تم سے کم نہیں میں جو بات کرنا چاہوں گا وہ براہ راست سلطان کے ساتھ کرلوں گا لیکن تمہاری اس حرکت سے مجھے مایوسی ہوئی ہے فوری طور پر مجھے خیال آتا ہے وہ یہ ہے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں میں تو دل میں سلطنت سلجوق کی بھلائی لے کر آیا تھا میں اہل سنت والجماعت ہوں مجھے کسی عہدے اور کسی رتبے کی ضرورت نہیں قلعہ شاہ در سے قلعہ خلجان تک کے علاقے کے لوگ مجھے اپنا مرشد اور عالم دین مانتے ہیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ سلطنت سلجوق اور اسلام کے خلاف کچھ فتنے اٹھ رہے ہیں میں یہاں ان خطروں کے انسداد کے لیے یہاں آیا تھا لیکن میں نے یہاں کچھ اور ہی دیکھا ہے
میں اپنی اس حرکت پر نادم ہوں میرے بھائی احتشام مدنی نے کہا صرف یہی ایک حرکت نہیں ہوئی حسن بن صباح نے کہا میں نے یہ عہدہ سنبھالا تو نظام الملک نے سلطان کے اور تمہارے خلاف کان بھرنے شروع کر دئیے تمہیں شاید معلوم ہوگا کہ میں اور نظام الملک امام مؤافق کے مدرسے میں اکٹھے پڑھے ہیں
ہم گہرے دوست ہوا کرتے تھے اس نے خود مجھے یہاں بلایا اور اس عہدے پر یہاں لگوایا ہے یہ سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کر رہا ہے اور اس کے ارادے بڑے خطرناک ہیں یہ خلیفہ سے مل کر ایک فوج تیار کرنے کی کوشش میں ہے یہ سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے
میں سلطان کو خبردار کرونگا احتشام مدنی نے کہا سلطان صرف میری بات سنتا ہے
ایسی حماقت نہ کر بیٹھنا حسن بن صباح نے کہا نظام الملک پہلے ہی تمہیں یہاں سے ذلیل و خوار کرکے نکلوانا چاہتا ہے یہ تو لڑکپن میں مدرسے میں اسی طرح جوڑ توڑ کرتا رہتا تھا اس کا ذہن شازشی ہے سلطان اگر تمہاری سنتا ہے تو اس کی بھی سنتا اور مانتا ہے اگر تم نے جلد بازی سے کام لیا تو یہ شخص تمہیں یہاں سے نکلو آئے گا نہیں بلکہ قید خانے میں بھجوا دے گا میں باہر کے خطروں کو تو بھول ہی گیا ہو احتشام سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے یہ بڑا ہی زہریلا سانپ ہے جو سلطان کی آستین میں پرورش پا رہا ہے
مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟
احتشام نے پوچھا
پہلے میری بات پوری ہونے دو حسن بن صباح نے کہا میں اس وزیراعظم کی سازشوں سے پریشان ہو رہا تھا اور یہی سوچا تھا کہ تمہارے ساتھ بات کروں لیکن تم نے جو حرکت کی ہے اس سے میں بالکل ہی مایوس ہو گیا ہوں اگر مشیر خاص اس طرح کرے کہ حاکموں کے گھروں میں داخل ہو کر ان کی عزت کے ساتھ کھیلے تو اس سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے میں سلطان کو یہ تو ضرور بتاؤں گا کہ اس کی ناک کے عین نیچے کیا ہو رہا ہے
احتشام مدنی نے حسن بن صباح کے آگے ہاتھ جوڑے اور منت سماجت شروع کر دی کہ وہ اسے معاف کر دے اور یہ بات سلطان تک نہ پہنچائے
اگر میں نے تمہاری اس حرکت کی شکایت سلطان کو کر دی تو حسن بن صباح نے کہا تو تم نہیں جانتے کیا ہوگا سلطان نظام الملک سے مشورہ لے گا نظام الملک جس موقع کی تلاش میں ہے وہ اسے مل جائے گا پھر تم سیدھے قید خانے میں جاؤ گے حسن بن صباح سوچ میں پڑ گیا کچھ دیر بعد بولا اگر تم میرا ساتھ دو تو ہم دونوں نظام الملک کو سلطان کی نظروں سے گرانے کی کوشش کریں گے
مجھے اپنے ساتھ سمجھو احتشام نے کہا
لیکن نظام الملک کے ساتھ پہلے کی طرح دوستانہ رویہ رکھنا حسن بن صباح نے کہا اسے شک نہ ہو کہ ہم دونوں اس کے خلاف کچھ کر رہے ہیں
حسن بن صباح کے بولنے کا انداز ایسا تھا جو ایک خاص تاثر پیدا کرتا تھا احتشام مدنی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اس شخص کے جال میں آ گیا ہے جس نے بڑی محنت سے اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کیے ہیں اور دو استادوں نے اس میں ابلیس کی قوت پیدا کرکے اسے مکمل ابلیس بنا دیا ہے
انسانی فطرت کے عالم کہتے ہیں کہ ایسے انسان میں جو اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیتا ہے ایک ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اس کے بولنے کے انداز میں چاشنی پیدا ہوجاتی ہے اس کے ہونٹوں پر ہر وقت بڑا ہی دل فریب تبسم کھلا رہتا ہے ضرورت پڑے تو وہ اپنے اوپر ایسی اداسی غم زدگی اور مظلومیت طاری کر لیتا ہے کہ دوسروں کو رولا دیتا ہے اور وہ جب کسی کے ساتھ خیر سگالی یا محبت کے جذبات کا اظہار کرتا ہے تو دل موہ لیتا ہے لیکن یہ محض اداکاری اور فریب کاری ہوتی ہے
احتشام مدنی نے نظام الملک کے خلاف حسن بن صباح کی باتیں اپنے دل میں اتار لی اور اس کے ساتھ اس طرح بے تکلف ہو گیا جیسے بچپن کے ہمجولی ہوں حسن بن صباح نے تو اس پر طلسماتی اثر پیدا کر دیا تھا بے تکلفی یہاں تک بڑھی کہ احتشام مدنی نے اپنے دل کی بات کہہ دی
میری ایک درخواست پر غور کرو گے؟
حسن احتشام نے پوچھا
دوستوں میں یہ تکلف نہیں ہونا چاہیے احتشام! حسن بن صباح نے کہا درخواست نہ کہو بات کرو اور مجھ پر اپنا حق سمجھ کر بات کرو
کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہاری بہن کے ساتھ شادی کر لوں؟
احتشام نے پوچھا
میرے سامنے مسئلہ اور ہے حسن بن صباح نے جواب دیا سوال یہ نہیں کہ میں پسند کروں گا یا نہیں سوال یہ ہے کہ فاطمہ پسند کرے گی یا نہیں تمہیں شاید میری یہ بات عجیب لگے کہ میں نے یہ فیصلہ اپنی بہن پر چھوڑ دیا ہے بات یہ ہے احتشام اس بہن سے مجھے بہت ہی پیار ہے میں کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اسے اچھا نہ لگے اس کی پہلی شادی میری پسند پر ہوئی لیکن وہ آدمی ٹھیک نہ نکلا فاطمہ کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا تھا اسے شاید اسی کی بددعا لگی کہ وہ ایک ہی سال بعد مر گیا شادی سے یہ ایسی متنفر ہوئی کے شادی کا نام نہیں سننا چاہتی
میں اسے کیسے یقین دلاؤں کہ میں اسے سر آنکھوں پر بیٹھا کر رکھوں گا احتشام مدنی نے کہا میرے دل میں اس لڑکی کی محبت پیدا ہو گئی ہے
میں ایک کام کرسکتا ہوں حسن بن صباح نے کہا فاطمہ سے کہوں گا کہ تمہیں پسند کرلے میں اسے تمہارے ساتھ ملنے سے روکوں گا نہیں
تو کیا اب میں جا سکتا ہوں؟
احتشام نے پوچھا
ہاں احتشام! حسن نے کہا ہم دشمنوں کی طرح ملے تھے اللہ کا شکر ہے کہ تم بھائیوں کی طرح جا رہے ہو
اللہ کرے ہم ہمیشہ کے لئے بھائی بن جائیں احتشام نے کہا
میں پوری کوشش کروں گا میرے بھائی حسن نے کہا میں فاطمہ کو منوا لونگا
احتشام مدنی حسن بن صباح کے گھر سے نکل گیا تو لڑکی ساتھ والے کمرے سے نکلی
شکار مار لیا یا نہیں؟
لڑکی نے ہنستے ہوئے پوچھا
جال میں تم جیسا دانہ پھینکا جائے تو شکار کیوں نہیں پھنسے گا حسن بن صباح نے بازو پھیلا کر فاتحانہ لہجے میں کہا
لڑکی لپک کر اس کے بازوؤں میں چلی گئی اور حسن بن صباح نے اسے بازوؤں میں سمیٹ لیا
وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے لڑکی نے کہا میں دروازے کے ساتھ کان لگا کر سن رہی تھی
یہ یاد رکھنا کے تم اب فاطمہ ہو حسن نے کہا اپنا اصل نام بھول جاؤ ہاں یہ شخص تمہارے ساتھ شادی کرنے کو بے تاب ہے تم اسے ملتی رہنا اور اس کے لیے بڑا ہی حسین سراب بنی رہنا تم نے یہ کہتے رہنا کہ مجھے آپ سے پیار ہے لیکن میں شادی کا نام سنتی ہوں تو مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے اس کے ساتھ اس پر پیار کا ایسا نشہ طاری کیے رکھنا کے یہ مدہوش رہے تمہیں معلوم ہے کہ اس سے ملاقات کے وقت تم نے اپنے کپڑوں اور بالوں پر کون سی خوشبو لگانی ہے اسے پیار دو اس کا پیار لو اور اپنے جسم کو اس سے بچائے رکھو
کیا مجھے یہ باتیں بتانا ضروری ہے؟
لڑکی نے کہا بارہ سال کی عمر سے میں آپ لوگوں سے جو تربیت لے رہی ہوں یہ میری روح میں شامل ہو گئی ہے یہ میرا عقیدہ بن گئی ہے
میں تمہیں اس روز خراج تحسین پیش کروں گا جس روز میں اس سلطنت کا وزیراعظم بن جاؤں گا حسن نے کہا تمہیں ایک خاص سبق دیا جاتا رہا ہے یہ نہ بھولنا میں تمہیں پھر بتا دیتا ہوں تمہارے جذبات بھی ہیں اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک خوبرو اور دلکش جسم والے شہزادے اور امیر زادے موجود ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ
ایسا نہ ہو گا آقا! لڑکی نے کہا
اگر ایسا ہو گیا تو اس کی سزا سے تم واقف ہو حسن بن صباح نے کہا سزائے موت یہ موت اتنی سہل نہیں ہوگی کہ سر تن سے جدا کر دیا اور بات ختم ہو گئی یہ بڑی اذیت ناک موت ہوگی
اس تک نوبت نہیں پہنچے گی آقا لڑکی نے کہا
دوسرے ہی دن احتشام مدنی سلطان ملک شاہ کے پاس بیٹھا کاروبار سلطنت کی باتیں کر رہا تھا
سلطان معظم! احتشام نے پوچھا اس نئے معتمد خاص حسن بن صباح کے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟
جو رائے تمہاری ہوگی وہی میری ہوگی سلطان نے کہا میں اپنے اتنے سارے کارندوں اور امراء کے متعلق الگ الگ کوئی رائے نہیں دے سکتا مجھے خواجہ حسن طوسی نے کہا کہ حسن بن صباح اس کا مدرسے کے زمانے کا دوست ہے علم و فضل سے مالامال باریک بین دور اندیش اور دیانت دار ہے تو میں نے حسن طوسی کی رائے کو مستند مانا مجھے اس وزیراعظم پر اعتماد ہے اسی لیے میں نے اسے نظام الملک کا خطاب دیا ہے تم میرے مشیر خاص ہو اور میں تمہیں قابل اعتماد سمجھتا ہوں تم کسی کے متعلق جو رائے دو گے میں اسے صحیح معنوں گا تم میری رائے کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟
مجھے حسن بن صباح میں کوئی ایسا وصف نظر آیا ہے جو ہم میں سے کسی میں بھی نہیں احتشام نے کہا آپ نے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی کو نظام الملک کا خطاب تو دے دیا ہے لیکن میں جو وصف حسن بن صباح میں دیکھ رہا ہوں وہ نظام الملک میں بھی نہیں
کیا تم میرے ساتھ صاف بات نہیں کرنا چاہو گے؟
سلطان نے کہا تم حسن بن صباح کے متعلق میری ذاتی رائے کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟
آپ نے مجھے بہت بڑا اعزاز بخشا ہے احتشام مدنی نے کہا مجھے آپ نے اپنا مشیر خاص بنایا ہے یہ بہت بڑا اعزاز ہے میں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ میں اس اعزاز کے قابل ہوں میں آپ کا نمک کس طرح حلال کر سکتا ہوں کہ جو اچھی یا بری چیز میں دیکھو وہ آپ کو بھی دکھاؤ اور جو اچھی یا بری بات میں سنو وہ آپ کو بھی دکھاؤ آپ کسی وقت حسن بن صباح کو شرف باریابی بخشیں اور اس کی عقل و دانش کا امتحان لیں
اسے ابھی میرے پاس بھیجو سلطان ملک شاہ نے کہا
تھوڑی ہی دیر بعد حسن بن صباح سلطان کے پاس بیٹھا ہوا تھا سلطان اس کی فہم و فراست کا امتحان لینا چاہتا تھا
حسن! سلطان نے پوچھا کوئی بادشاہ اپنی تمام تر رعایا کو کس طرح خوش اور راضی رکھ سکتا ہے
اپنے دل کو ناراض کرکے حسن نے جواب دیا
اس کی تشریح کرو
بادشاہ اپنے دل سے شاہانہ خواہشات نکال دے حسن نے کہا ہر بادشاہ عیش و عشرت کا دلادہ ہوتا ہے خزانہ اپنے اوپر لٹا دیتا ہے رعایا کے محصولات میں اضافہ کرکے اپنا خزانہ بھرتا ہے اور رعایا کے خون پسینے کی کمائی پر فرعون بن جاتا ہے اگر وہ اپنے دل کو ایک عام انسان کا دل سمجھے تو عقل اسے اس راستے پر ڈال دی گی جس راستے کے دونوں طرف رعایا اس کے دیدار کو کھڑی ہوگی
تم ہمارے معتمد خاص ہو سلطان نے پوچھا کیا تم بتا سکتے ہو ہمارا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟
جو ہماری سلطنت پر کسی بھی روز حملہ کر سکتا ہے
آپ کے دربار کے خوشامدی حسن بن صباح نے جواب دیا سلطان چونک پڑا
میں دوسرے دشمن کی بات کر رہا ہوں سلطان نے کہا کوئی دوسرا ملک کوئی دوسری قوم؟
سلطان عالی مقام حسن بن صباح نے کہا جنگل میں یا کہیں اور آپ کے سامنے سانپ آجائے تو آپ اسے مار سکتے ہیں یا بھگا سکتے ہیں لیکن جو سانپ آپ کے آستین میں پل رہا ہو اس کے ڈنک سے آپ نہیں بچ سکتے وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے
کیا تم نے ہمارے کاروبار سلطنت میں کوئی خطرناک کمزوری یا خامی دیکھی ہے سلطان نے پوچھا
ہاں سلطان عالی مقام! حسن بن صباح نے کہا یہاں میں نے جو سب سے بڑی خامی دیکھی ہے وہ ہے اپنے وزیر اور دیگر اہلکاروں پر اندھا اعتماد
کیا تم ہمارے وزیراعظم میں کوئی خامی دیکھ رہے ہو سلطان نے پوچھا
سلطان عالی مقام! حسن بن صباح نے کہا اگر میں وزیراعظم یا کسی مشیر یا کسی اور حاکم کی خامیاں بیان کرنے لگوں تو یہ غیبت ہو گی غیبت ایک ایسا گناہ ہے جو بادشاہوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے میں اس وقت کوئی خامی بتاؤں گا جب کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہوگا اور جو آپ کو صاف نظر آئے گا
سلطان ملک شاہ دراصل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ شخص کتنا ذہین ہے اور اس کی عقل میں باریک بینی اور دوراندیشی ہے بھی یا نہیں کاروبار سلطنت سے ہٹ کر ایک بات پوچھتا ہوں سلطان نے پوچھا کیا تم نے کبھی شیر یا چیتے وغیرہ کا شکار کھیلا ہے
نہیں سلطان عالی مقام
تو اس کا مطلب یہ ہوا سلطان نے کہا کہ تم ان درندوں سے ڈرتے ہو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان درندوں سے ڈرنا چاہیے؟
نہیں سلطان محترم! حسن بن صباح نے جواب دیا درندوں سے کسی کو بھی نہیں ڈرنا چاہیے میں صرف ایک درندے سے ڈرتا ہوں اور آپ کے دل میں بھی اس کا ڈر پیدا کرنا چاہتا ہوں
ایسا کون سا درندہ ہے ؟
دیمک! حسن بن صباح نے جواب دیا
سلطان ملک شاہ ہنس پڑا
تم میں بذلہ سیخی بھی ہے سلطان نے کہا مجھے یہ وصف اچھا لگا ہے میں نے پہلی بار کسی کو دیمک کو درندہ کہتے سنا ہے
نہیں سلطان معظم حسن بن صباح نے کہا میں اس وقت ہر بات پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں یہ موقع ہنسی مذاق کا نہیں درندہ آپ کے سامنے آتا ہے تو آپ اس پر تیر چلاتے ہیں یا اس سے بچنے کے لیے راستہ بدل لیتے ہیں یا درختوں پر چڑھ جاتے ہیں لیکن دیمک وہ درندہ ہے جو سامنے نہیں آتا آپ اس پر تیر نہیں چلا سکتے نہ آپ درخت پر چڑھ جانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں آپ کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب دیمک اندر ہی اندر کھا کر سب کچھ کھو کھلا اور بے جان کر چکی ہوتی ہے دیمک بادشاہ کے تختوں کو لگ جائے تو بادشاہ کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب تخت بیٹھ جاتا ہے میں نے اب تک جو کچھ کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ڈرو درباری خوشامدی سے آستین کے سانپ سے اور ان کارندوں اور درباریوں سے جو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سلطنت کو کھا رہے ہیں
کیا تم بتا سکتے ہو کہ ہم نے تمہاری یہ باتیں سن کر کیا رائے قائم کی ہے؟
سلطان نے پوچھا
رائے اچھی نہیں ہوسکتی حسن بن صباح نے کہا کیوں کہ میں نے خوشامد نہیں کی بلکہ خوشامد کے خلاف بات کی ہے
نہیں حسن! سلطان نے کہا تمہاری یہ باتیں سن کر ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ تم صاف گو اور صداقت پسند ہو تم جاسکتے ہو
سلطان ملک شاہ حسن بن صباح کے جانے کے بعد کچھ دیر سوچ میں گم رہا اس کے ذہن میں حسن بن صباح کی باتیں گونج رہی تھیں یہ باتیں بے مقصد اور بے معنی نہیں تھی اس نے احتشام مدنی کو بلایا
احتشام! سلطان نے کہا میرا یہ معتمد خاص مجھ پر بڑا اچھا تاثر چھوڑ گیا ہے یہ عمر کے لحاظ سے زیادہ جہاندیدہ اور عالم لگتا ہے
احتشام مدنی جیسے اسی انتظار میں تھا کہ سلطان حسن بن صباح کے متعلق یہ رائے دے سلطان کی اتنی اچھی رائے سن کر احتشام مدنی نے حسن بن صباح کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور دبی زبان میں نظام الملک کے خلاف بھی ایک دو باتیں کہہ دیں
احتشام مدنی نے حسن بن صباح سے جو قیمت وصول کرنی تھی وہ تقریباً طے ہوچکی تھی لیکن یہ قیمت اس نے اپنی کوشش سے حاصل کرنی تھی
اس شام کا دھندلکا جب تاریک ہوگیا تو احتشام فاطمہ کے ساتھ باغ کے ایک ایسے گوشے میں بیٹھا تھا جہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا وہ جسم تو دو تھے لیکن اس طرح باہم پیوست ہوگئے کہ ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی تھی
کل رات تو تم نے مجھے مروا ہی دیا تھا فاطمہ! احتشام نے کہا تم نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ تم مجھے جانتی پہچانتی ہی نہیں
تو میں اور کیا کرتی فاطمہ نے ہنستے ہوئے کہا اگر میں یہ کہہ دیتی کہ آپ کو میں نے خود بلایا تھا تو میرا بھائی میری گردن کاٹ دیتا آپ مرد ہیں سب کچھ کہہ سکتے ہیں میں جانتی تھی کہ آپ میرے بھائی کو ٹھنڈا کر لیں گے وہ آپ نے کرلیا
میں تو اس سے بھی زیادہ اکھڑ اور جابر آدمیوں کو ٹھنڈا کر لیا کرتا ہوں احتشام مدنی نے کہا میرا تو خیال تھا کہ اب تم مجھے کبھی بھی نہیں ملو گی
یہ وہم دل سے نکال دیں فاطمہ نے کہا میں نے آپ سے محبت کی ہے اور یہ محبت وقتی اور جسمانی نہیں
محبت میری بھی وقتی نہیں احتشام نے کہا میں تمہیں اپنی زندگی کی رفیقہ بناؤں گا کہو گی تو اپنی دونوں بیویوں کو طلاق دے دوں گا
نہیں! فاطمہ نے کہا ایسی کوئی ضرورت نہیں اگر آپ کے دل میں میری محبت ہے تو میں دو عورتوں کو کیوں اجاڑوں
اس زمانے کے مسلمان معاشرے میں ایک آدمی چار نہیں تو دو یا تین بیویاں ضرور رکھتا تھا ابھی سوکنوں کی رفاقت کا تصور پیدا نہیں ہوا تھا عرب کی چار دیواری کی دنیا میں تو یہ دستور بھی چلتا تھا کہ کوئی بیوی اپنی کسی خوبصورت سہیلی کو اپنے خاوند کو تحفے کے طور پر پیش کرتی تھی اور خاوند اس کے ساتھ شادی کر لیتا تھا سلجوقیوں کے یہاں یہ رواج ذرا مختلف تھا لیکن احتشام نسلاً عربی تھا
معلوم نہیں میرے بھائی حسن نے آپ کو کیا بتایا ہوگا کہ میں شادی کے نام سے بھی بھاگتی ہوں فاطمہ نے کہا
ہاں فاطمہ احتشام نے کہا حسن نے مجھے تمہارے متعلق سب کچھ بتا دیا ہے اس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میں خود تمہیں شادی کے لیے تیار کرو دیکھو فاطمہ تمام آدمی ایک جیسے نہیں ہوتے تمہارا پہلا خاوند ہوش و حواس میں نہیں تھا اس کا تو دماغی توازن بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا جو تم جیسے پھول کی قدر نہیں کر سکا
میں حیران ہوں کہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہوں فاطمہ نے کہا بیٹھی ہوئی بھی نہیں بلکہ آپ کے بازوؤں میں ہوں حیران اس لئے ہوں کہ مجھے مرد کے تصور سے ہی نفرت ہوگئی ہے آپ نے مجھے بڑے کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے ایک طرف آپ کی شادی کی پیشکش ہے جو میں قبول کرنے سے ڈرتی ہوں دوسری طرف آپ کی محبت ہے جس سے میں دستبردار نہیں ہو سکتی
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں کہ میں تمہارے پہلے خاوند جیسا آدمی نہیں احتشام نے کہا میں اپنی محبت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا
مجھے سوچنے کا موقع دیں فاطمہ نے کہا میں عجیب سی حالت میں پڑی ہوئی ہوں میرے بھائی کو میرا خیال پریشان رکھتا ہے اور میں اپنے اس بھائی کے متعلق سوچتی رہتی ہوں
مجھے بتاؤ فاطمہ! احتشام نے کہا بھائی کے متعلق تم کیا سوچتی ہو؟
میرا بھائی بہت ہی قابل اور عالم فاضل ہے فاطمہ نے کہا یہ جتنا قابل ہے اتنا ہی سادہ آدمی ہے وزیراعظم نظام الملک میرے بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ میرے بھائی سے مشورہ لے کر سلطان کے ساتھ اس طرح بات کرتا ہے جیسے یہ مشورے اس کے اپنے دماغ سے نکلے ہیں میں سلطان کو یہ بات بتا نہیں سکتی سلطان کو اصل حقیقت کا علم ہونا چاہیے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس سلطنت کا وزیراعظم میرا بھائی ہو تو آپ اس سلطنت میں ایسی تبدیلیاں دیکھیں جو آپ کو حیرت میں ڈال دیں
مجھے کچھ وقت چاہیے فاطمہ احتشام نے کہا حسن نے مجھے نظام الملک کے متعلق کچھ باتیں بتائی ہیں میں نے آج ہی سلطان کے ساتھ بات کی ہے معلوم نہیں حسن نے تمہیں بتایا ہے یا نہیں سلطان نے حسن کو بلایا تھا اور ان کے درمیان خاصی دیر بات ہوئی تھی اس کے بعد سلطان نے مجھے بلایا اور اس نے صاف لفظوں میں بتایا کہ وہ حسن سے بہت متاثر ہوا ہے مجھے موقع مل گیا میں نے سلطان کے آگے حسن کو اتنا چڑھایا کہ انتظامی قابلیت اور عقل و دانش کے لحاظ سے اسے آسمان تک پہنچا دیا
کیا میں دل کی بات صاف صاف نہ کہہ دوں فاطمہ نے کہا
کیوں نہیں احتشام نے اسے اپنے اور زیادہ قریب کرتے ہوئے کہا دل کی بات صاف لفظوں میں کہہ دوں گی تو یہ مجھ پر احسان ہوگا
ایسی صورت پیدا کریں کہ سلطان نظام الملک کی جگہ میرے بھائی کو وزیراعظم مقرر کردے فاطمہ نے کہا اگر ایسا ہو جائے تو میں اسی روز آپ کو اپنا خاوند تسلیم کر لوں گی
ایسا ہو کر رہے گا احتشام نے کہا لیکن کچھ وقت چاہیے کسی کے دماغ کو ایک دو دنوں میں بدلا نہیں جا سکتا پھر بھی میں سلطان کو نظام الملک کے خلاف کر دوں گا
کیا احتشام مدنی جس کی عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان تھی اور جو ایک اتنی بڑی سلطنت کے سلطان کا مشیر خاص تھا اتنا سیدھا اور کم فہم تھا کہ ایک جواں سال لڑکی کے ہاتھوں الّو بن گیا تھا؟
وہ سیدھا تھا نہ کم فہم وہ ذہنی طور پر بالغ آدمی تھا سلطنت کے انتظامی امور کا خصوصی تجربہ رکھتا تھا فن حرب و ضرب کی بھی سوجھ بوجھ تھی لیکن وہ انسان تھا مرد تھا اور ہر مرد کی طرح عورت اس کی فطری کمزوری تھی فاطمہ کوئی عام سی عورت نہیں بلکہ حسین و جمیل لڑکی تھی اپنے حسن کے استعمال کی اسے تربیت دی گئی تھی اسے بڑی ہی خرانٹ اور عمر رسیدہ عورتوں نے عملاً بتایا تھا کہ آدمی پر کس طرح حسن کا طلسم طاری کیا جاتا ہے
اس معاشرے میں جس میں مرد دو دو تین تین اور چار چار بیویوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تھے احتشام کا ایک حسین لڑکی کے نشے میں مبتلا ہو جانا کوئی عجوبہ نہیں تھا
ایک تو اس لڑکی کا حسن اور اس کے خصوصی انداز تھے جنہوں نے احتشام کی عقل پر پردہ ڈال دیا دوسرے وہ خوشبو تھی جو حسن بن صباح نے اس لڑکی کو اپنے کپڑوں اور بالوں پر لگانے کے لیے دی تھی اس خوشبو نے احتشام کی سوچنے کی صلاحیت کو سلا دیا تھا احتشام کو محسوس ہی نہ ہوا کہ وہ اپنے گھر اپنی دو بیویوں کے پاس پہنچ چکا ہے اس پر فاطمہ نشے کی طرح طاری تھی
یہ سلسلہ کچھ دن اسی طرح چلا کہ فاطمہ اور احتشام مدنی کی ملاقاتیں اسی باغ میں اسی جگہ ہوتی ہر ملاقات میں فاطمہ احتشام کی آغوش اور بازوؤں میں ہوتے ہوئے بھی اس سے بہت ہی دور ہوتی فاطمہ کی خوشبو احتسام کو مسحور کر لیتی اور وہ ایسی باتیں کرتا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہ ہو یا نشے میں ہو
حسن بن صباح کی ہدایت کے مطابق فاطمہ احتشام کے لیے بڑا ہی حسین اور دلکش سراب بنی رہی
احتشام مدنی کو جب موقع ملتا سلطان کے پاس جا بیٹھتا اور نظام الملک کے خلاف ایک دو باتیں کرکے حسن بن صباح کی تعریف کر دیتا
اس دوران ایک روز حسن بن صباح کے پاس خلجان سے ایک آدمی آیا وہ احمد بن عطاش کا قاصد تھا
قلعدار احمد بن عطاش نے پوچھا ہے کہ یہاں کے حالات کیا ہیں؟
قاصد نے کہا کیا ہم اس مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے جس کے لئے آپ کو یہاں بھیجا گیا ہے
میں تحریری جواب نہیں دے سکتا حسن بن صباح نے کہا میرے مرشد احمد بن عطاش جانتے ہیں کہ ایسی باتیں تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں انہیں میرا سلام کہنا پھر کہنا کہ آپ کا یہ ناچیز شاگرد کبھی ناکام نہیں ہوا ہر مشکل سے بخیر و خوبی نکلا ہے اور اسے پوری امید ہے کہ وہ یہ مہم بھی سر کر لے گا انہیں بتانا کہ آپ نے جو چیز میرے ساتھ بھیجی ہے اس نے بڑی کامیابی سے اپنا راستہ بنالیا ہے میری بات سلطان تک پہنچ گئی ہے اور باقاعدگی سے پہنچائی جا رہی ہے اب میں عملی طور پر کچھ کروں گا اب تم بتاؤ کہ وہاں خلجان میں کیا ہو رہا ہے؟
وہاں اتنی زیادہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے کہ اتنی متوقع نہیں تھی قاصد نے کہا لوگ ابھی تک خدا کے ایلچی کو ڈھونڈ رہے ہیں انہیں بتایا جا رہا ہے کہ خدا کا ایلچی لوگوں کو خدا کا پیغام اور اپنا دیدار دے کر واپس چلا گیا ہے اور کسی روز اچانک واپس آئے گا احمد بن عطاش نے کسانوں کے محصولات اور مالیہ وغیرہ بہت کم کر دیا ہے جس سے لوگ بہت خوش ہیں وہ احمد بن عطاش کو خدا کے ایلچی کا خاص مرید اور نمائندہ سمجھتے ہیں وہ جدھر جاتا ہے لوگ اسے رکوع کی حالت میں جا کر سلام کرتے ہیں
میرے پیر استاد احمد بن عطاش خود دانش مند ہیں حسن بن صباح نے کہا پھر بھی انہیں میری طرف سے کہہ دینا کہ ابھی اسلام اور اہل سنت کے خلاف کوئی بات نہ کریں اور یہ بھی کہنا کہ ایک لشکر تیار کرنا شروع کر دیں جو تنخواہ دار نہیں ہوگا بلکہ ضرورت کے وقت اسے استعمال کیا جائے گا
یہ کام شروع ہو چکا ہے قاصد نے کہا لوگوں میں گھوڑ سواری تیغ زنی اور تیر اندازی کا شوق پیدا کیا جا رہا ہے عنقریب مقابلے منعقد کئے جائیں گے محترم قلعدار نے آخری بات یہ کہی ہے کہ آپ اگر یہاں کامیاب نہ ہوسکے اور کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آۓ تو ہمیں اطلاع دینا ہم نظام الملک کو قتل کروانے کا انتظام کر لیں گے یا اسے اغوا کرکے غائب کردیں گے اور یہ ظاہر کریں گے کہ وہ خود ہی کہیں روپوش ہوگیا ہے
ابھی ایسی کوئی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے کہا مجھے امید ہے کہ میں مطلوبہ کامیابی حاصل کر لوں گا حسن بن صباح نے قاصد کو رخصت کر دیا
داستان گو سنا چکا ہے کہ حسن بن صباح نے جب ایسی سرگرمیاں شروع کی تھی تو یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ شخص اور اس کا استاد اسماعیلی فرقے کے پیروکار ہیں اور اس فرقے اور مکتبہ فکر کی تبلیغ کر کے اسلام کے دوسرے فرقوں خصوصاً سنی عقیدے کو ختم کر دیں گے لیکن آگے چل کر تاریخ صاف گواہی دیتی ہے کہ یہ فرقہ باطنیہ کے لوگ تھے اور یہ اپنا ہی کوئی عقیدہ پھیلا رہے تھے چونکہ ان کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی کتاب تو تھی نہیں نہ ان کی کوئی علمی عقلی یا دینی بنیاد تھی اس لیے وہ فریب کاری اور قتل کا سہارا لے رہے تھے یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ لوگ انسانی فطرت کی کمزوریوں کو ماہرانہ طریقے سے استعمال کررہے تھے
تاریخوں میں دو اہم واقعات ملتے ہیں جن میں حسن بن صباح کو موقع ملتا ہے کہ وہ کھلم کھلا نظام الملک کو نالائق ثابت کرے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ خود بڑا ہی دانش مند ہے ایک واقعہ تقریباً ہر مؤرخ نے لکھا ہے جو یوں ہے کہ ایک بار سلطان ملک شاہ حلب گیا وہاں ایک خاص قسم کا پتھر پایا جاتا تھا جو سنگ رخام کہلاتا تھا اس پتھر سے برتن اور گلدان وغیرہ بنائے جاتے تھے سلطان نے حکم دیا کہ پانچ سو من سنگ رخام اصفہان پہنچایا جائے
یہ ذہن میں رکھیں کہ اس زمانے میں اس علاقے کا من چالیس تولے اور آٹھ ماشے کا ہوتا تھا
دو عربی شتربان اصفہان جا رہے تھے ایک کے چھ اور دوسرے کے چار اونٹ تھے ان دونوں کے اونٹوں پر پہلے ہی پانچ سو من سامان لدا ہوا تھا انہوں نے پانچ سو من سنگ رخام بھی آپس میں تقسیم کر کے اونٹوں پر لاد لیا اگر خالی اونٹ تلاش کیے جاتے تو کئی دن گزر جاتے اتفاق سے یہ شتربان اصفہان کو ہی جا رہے تھے
سلطان واپس اپنے دارالحکومت میں پہنچ گیا اسے اطلاع ملی کہ سنگ رخام پہنچ گیا ہے تو وہ حیران ہوا اور خوش بھی کہ اس کے حکم کی تعمیل اتنی جلدی ہو گئی ہے اس نے حکم دیا کہ ان شتر بانوں کو ایک ہزار دینار انعام کے طور پر دے دیے جائیں
خواجہ طوسی! سلطان ملک نے نظام الملک سے کہا یہ رقم ان دونوں میں تقسیم کر دو
نظام الملک نے چھ اونٹ والے شتربان کو چھے سو اور چار اونٹ والے کو چار سو دینار ادا کر دیے
یہ تقسیم غلط ہے حسن بن صباح نے جو وہاں موجود تھا بول پڑا وزیراعظم کو سوچ سمجھ کر یہ رقم تقسیم کرنی چاہیے
تم اس غلطی کو صحیح کردو حسن! سلطان نے کہا لیکن یہ بتا دو کہ اس تقسیم میں وزیر اعظم نے کیا غلطی کی ہے؟
چھے اونٹ والے شتر Lبان کی حق تلفی ہوئی ہے حسن بن صباح نے کہا چھے اونٹوں والے کو آٹھ سو اور چار اونٹ والے کو دو سو دینار ملنے چاہیے
وہ کیسے ؟
سلطان نے پوچھا
سلطان محترم! حسن بن صباح نے کہا غور فرمائیں اونٹ دس ہیں اور وزن پندرہ سو من اس لیے ہر اونٹ نے ڈیڑھ ڈیڑھ سو من وزن اٹھایا جس کے چھے اونٹ ہیں وہ نو سو من وزن لایا ہے وہ اس طرح کہ پانچ سو من سامان اس کے اونٹوں نے پہلے ہی اٹھا رکھا تھا پھر چار سو من سنگ رخام اس کے اونٹوں پر لادا گیا دوسرے شتربان کے چار اونٹ تھے اس کے اونٹوں پر چھ سو من وزن تھا جس میں سے پانچ سو من پہلے ہی اونٹوں پر لدا ہوا تھا اور ایک سو من سنگ رخام اس کے اونٹوں پر لادا گیا آپ نے ایک ہزار دینا چانچ سو من وزن کے لیے دیا ہے حساب یہ بنا کہ دو سو دینار فی سو من کا انعام ھوا اس حساب سے چھ اونٹ والے کو آٹھ سو دینار اور چار اونٹ والے کو دو سو دینار ملنے چاہیے یہ ہے ہمارے محترم وزیر اعظم کی غلطی
تاریخ میں لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ نظام الملک کا بہت احترام کرتا تھا اور اس کی قابلیت سے متاثر تھا وہ حسن بن صباح کا حساب سمجھ گیا لیکن وہ نظام الملک کو شرمسار کرنے سے گریز کر رہا تھا اس نے حسن بن صباح کا حساب ہنسی مزاق میں ٹال دیا لیکن نظام الملک پر سنجیدگی طاری ہوگئی اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ حسن بن صباح اسے اور اس کی حیثیت کو نقصان پہنچانے پر اتر آیا ہے
اس سے پہلے نظام الملک کو اس کے کارندوں نے کچھ اس قسم کی اطلاع دی تھی کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی اکثر راز و نیاز کی باتیں کرتے دیکھے جاتے ہیں اسے ایک اطلاع یہ بھی ملی تھی کہ احتشام مدنی کو باغ میں حسن بن صباح کی بہن کے ساتھ دیکھا گیا ہے تاریخوں کے مطابق نظام الملک شریف النفس اور بڑے اونچے کردار کا آدمی تھا یہ خبریں سن کر بھی اس کے دل میں حسن بن صباح کے خلاف شک پیدا نہ ہوا وہ کہتا تھا کہ اس نے حسن بن صباح کو جو رتبہ دیا ہے یہ احسان ہے جسے حسن بن صباح کبھی نہیں بھولے گا اور اسے گزند نہیں پہنچا ئے گا…

📜☜ سلسلہ جاری ہے……

 



www.urducover.com

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles