حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 5

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 5

قسط نمبر:17 }
نظام الملک اپنی فطرت کے مطابق مطمئن رہا لیکن حسن بن صباح اپنی فطرت کے مطابق نظام الملک کو ذلیل و خوار کرنے کے موقع کی تلاش میں رہا حسن بن صباح کے سامنے صرف یہ مقصد تھا کہ وہ وزیراعظم بن جائے اس کے بعد ان باطنیوں نے خفیہ قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر کے سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنا تھا
حسن بن صباح کو ایک موقع مل ہی گیا جو اس نے خود پیدا کیا تھا وہ اس طرح کے ایک روز سلطنت کے کچھ حاکم بیٹھے آپس میں تبادلہ خیالات کر رہے تھے کسی نے کہہ دیا کہ سلطان ملک شاہ عرصہ بیس سال سے سلطان ہے اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس عرصے میں رعایا سے محصولات وغیرہ کے ذریعے کتنی رقم وصول کی گئی اور یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی ہے
کون کہتا ہے کہ ساری رقم خرچ ہوئی ہے حسن بن صباح نے کہا میں کہتا ہوں کہ اس میں سے بہت سی رقم خورد بُرد اور غبن ہوئی ہے اگر سلطان مجھے اجازت اور سہولت مہیا کرے تو میں بیس سال کا حساب کتاب تیار کرکے سلطان کے آگے رکھ دوں گا
احتشام مدنی بھی وہاں موجود تھا اس نے سلطان کو بتایا کہ حسن بن صباح نے بڑی عقلمندی کی بات کی ہے احتشام نے سلطان کو پوری بات سنائی جو حاکموں کی اس محفل میں ہوئی تھی احتشام نے خصوصی مشیر کی حیثیت سے سلطان کو مشورہ دیا کہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے
اس سے ہمیں کیا حاصل ہوگا ؟
سلطان نے پوچھا
اگر کچھ رقم خردبُرد ہوئی ہے تو وہ واپس نہیں ملے گی احتشام نے کہا حاصل یہ ہوگا کہ یہ پتہ چل جائے گا کہ ہمارے حکام میں بددیانت کون کون ہےسلطان اور احتشام میں اس مسئلہ پر کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوا احتشام نے سلطان کو قائل کر لیا کہ گزشتہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے سلطان اپنے وزیراعظم نظام الملک کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتا تھا اس نے نظام الملک کو بلایا اور یہ نیا مسئلہ اس کے آگے رکھا
بیس سالوں کا حساب کتنے دنوں میں تیار ہو سکتا ہے؟
سلطان نے نظام الملک سے پوچھا
دنوں میں نظام الملک نے حیرت زدگی کے عالم میں جواب دیا برسوں کی بات کریں پہلے اپنی سلطنت کی وسعت دیکھیں پھر بیس برسوں کے عرصے پر غور کریں پھر دیکھیں کہ وہ جگہ کتنی ہے جہاں محصولات وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع کرائے جاتے ہیں اگر حساب تیار کرنا ہی ہے تو اس کے لیے مجھے دو سال چاہیے
اس وقت احتشام مدنی اور حسن بن صباح بھی وہاں موجود تھے
سلطان معظم! حسن بن صباح نے کہا میں حیران ہوں کہ محترم وزیر اعظم نے دو سال کا عرصہ مانگا ہے میں صرف چالیس دنوں میں یہ حساب بنا کر دے سکتا ہوں شرط یہ ہے کہ میں جتنا عملہ مانگو وہ مجھے دیا جائے اور ہر سہولت مہیا کی جائے
سلطان ملک شاہ نے احکام جاری کر دیے اور حسن بن صباح نے کام شروع کردیا تاریخ داں ابوالقاسم رفیق دلاوری نے مختلف مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ خواجہ حسن طوسی نظام الملک عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا کبھی وہ پریشان ہو جاتا کہ حسن بن صباح نے یہ کام چالیس دنوں میں مکمل کرلیا تو وہ سلطان کی نظروں میں گر جائے گا اور کوئی بعید نہیں کہ سلطان اسے وزارت عظمیٰ سے معزول ہی کر دے اور کبھی نظام الملک یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کے حسن بن صباح یہ کام چالیس دنوں میں تو دور کی بات چالیس مہینوں میں بھی نہیں کرسکے گا اور خود ہی سلطان کی نظروں میں ذلیل ہوگا
البتہ ایک دکھ تھا جو نظام الملک کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا یہ دکھ حسن بن صباح کی احسان فراموشی کا تھا اب تو تصدیق ہو گئی تھی کہ حسن بن صباح اسے معزول کرکے خود وزیراعظم بننا چاہتا ہے
پھر حسن بن صباح نے معجزہ کر کے دکھا دیا اس نے کاغذات کا ایک انبار سلطان ملک شاہ کے آگے رکھ دیا
سلطان عالی مقام! حسن نے سلطان سے کہا میں نے چالیس دن مانگے تھے آج اکتالیسواں دن ہے یہ رہا بیس برسوں کا حساب کیا وہ شخص وزیراعظم بننے کا حق رکھتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ حساب مکمل کرنے کے لیے دو برس درکار ہیں اگر سلطان معظم کے دل پہ گراں نہ گزرے تو میں وثوق سے کہتا ہوں کہ وزیراعظم حسن طوسی جسے آپ نے نظام الملک کا خطاب دے رکھا ہے محصولات کی رقمیں غبن کرتا رہا ہے اپنی لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ حساب تو ہو ہی نہیں سکتا اگر ہوگا تو دو سال لگیں گے
سلطان نے نظام الملک اور احتشام مدنی کو بلایا
خواجہ طوسی! سلطان نے نظام الملک سے کہا یہ ہے وہ حساب جو آپ دو سالوں سے کم عرصے میں نہیں کر سکتے تھے یہ دیکھیں حسن چالیس دنوں میں کر لایا ہے
نظام الملک پر خاموشی طاری ہوگئی اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ وہاں بیٹھ گیا اور معزولی کے حکم کا انتظار کرنے لگا
سلطان نے کاغذات کی ورق گردانی شروع کردی اور ایک ورک پر رک گیا
حسن! سلطان نے کہا اس ورق پر آمدنی اور اخراجات مشکوک سے نظر آتی ہیں یہ مجھے سمجھا دو
حسن بن صباح بغلیں جھانکنے لگا
سلطان نے ایک اور ورق پر روک کر پوچھا حسن نے اس کا بھی جواب نہ دیا سلطان نے کئی اور وضاحت پوچھی حسن کسی ایک بھی سوال کا جواب نہ دے سکا
تم نے یہ اتنا لمبا چوڑا حساب تیار کیا ہے سلطان نے کہا لیکن تمہیں بھی معلوم نہیں کہ یہ کیا ہے
سلطان معظم! نظام الملک بولا میں نے ویسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کے بیس برسوں کے اخراجات اور آمدنی کے گوشوارے تیار کرنے کے لیے کم از کم دو برس درکار ہیں
آپ میرے پاس رہیں حسن طوسی! سلطان نے نظام الملک سے کہا تم دونوں جاؤ میں یہ تمام اعداد و شمار دیکھ کر تمہیں بلاؤں گا
ان کے جانے کے بعد سلطان نے پوچھا یہ سب کیا ہے حسن طوسی! مجھے شک ہے کہ مجھے دھوکہ دیا گیا ہے
سلطان معظم! نظام الملک نے کہا یہ میرا ایمان ہے کہ کسی کو میرے ہاتھ سے نقصان نہ پہنچے لیکن جہاں میری اپنی حیثیت اور میرا اعتماد خطرے میں پڑ گیا ہے میں حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں یہ حساب کتاب تیار کرنے میں آپ کے مشیر خاص احتشام مدنی کا ہاتھ زیادہ ہے حسن بن صباح کے ساتھ اس کی ایک جوان سال بہن رہتی ہے جو اسی عمر میں بیوہ ہو گئی ہے مجھے اطلاع ملی ہیں کہ احتشام اور اس لڑکی کو شام کے بعد باغ میں دیکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ احتشام حسن بن صباح کے گھر زیادہ جاتا اور خاصا وقت وہاں گزارتا ہے جہاں تک مجھے یاد آتا ہے حسن بن صباح کی کوئی بہن نہیں میں اس کے خاندان کو مدرسے کے زمانے سے جانتا ہوں
طوسی! سلطان نے کہا میں یہ ساری سازش سمجھ گیا ہوں کچھ عرصے سے احتشام میرے پاس بیٹھ کر حسن بن صباح کی تعریفیں کر رہا ہے اور یہ شخص ذرا دبی زبان میں آپ کے خلاف بھی ایک آدھ بات کہہ جاتا ہے سلطان بولتے بولتے گہری سوچ میں چلا گیا ذرا دیر بعد سر اٹھایا اور بولا آپ حسن پر ایسا تاثر پیدا کریں کہ میں نے اس کا تیار کیا ہوا حساب سمجھ لیا ہے اور یہ بالکل صحیح ہے باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں میرے سامنے کوئی اور ہی عکس آ رہا ہے
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ سلجوقی جو ترک تھے اور جو اسلام کے دشمن ہوا کرتے تھے مسلمان ہوئے تو اسلام کے شیدائی اور سرفروش بن گئے وہ جنگجو تھے اور فہم و فراست کے لحاظ سے اتنے باریک بین کے ان کی نظریں جیسے پردوں کے پیچھے بھی دیکھ سکتی ہوں انکے سلطان اپنی سلطنت میں کسی کی حق تلفی اور سلطنت کے امور میں کوتاہی اور بددیانتی برداشت نہیں کرتے تھے نظام الملک باہر نکلا حسن بن صباح اور احتشام مدنی باہر سر جوڑے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے نظام الملک کو دیکھ کر دونوں چونکے
حسن مبارک ہو نظام الملک نے کہا تمہارا تیار کیا ہوا حساب بالکل ٹھیک ہے تم جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے وہ میں نے دے دیے ہیں میں نے سلطان سے کہا ہے کہ حسن ابھی نیا ہے اس لیے اسے پچھلے امور وغیرہ کا علم نہیں سلطان تم پر بہت خوش ہیں کہتے ہیں میں حسن کو انعام دوں گا
میں تمہارا یہ احسان ساری عمر نہیں بھولوں گا خواجہ!حسن بن صباح نے کہا نظام الملک سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا تم نے میرا وقار محفوظ کر دیا ہے
تم دونوں چلے جاؤ نظام الملک نے کہا سلطان تمہیں کل بلائیں گے
اس رات احتشام اور فاطمہ کی ملاقات ایسے تھی جیسے وہ جشن منانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہوں گزرے ہوئے دنوں میں زیادہ تر باغ میں ملتے رہے تھے تین مرتبہ وہ الگ الگ جنگل میں چلے گئے اور بہت وقت اکٹھے گزار کر آئے فاطمہ یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ حسن سے چوری گھر سے نکلتی ہے احتشام کو معلوم نہیں تھا کہ حسن خود اسے بھیجتا ہے
فاطمہ ابھی تک احتشام کے لیے سراب بنی ہوئی تھی اس نے ابھی تک احتشام کے ساتھ شادی کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور انکار بھی نہیں کیا تھا اس نے ایسا والہانہ انداز اختیار کرلیا تھا جس سے احتشام پر دیوانگی طاری ہوگئی تھی وہ تو اب حسن بن صباح اور فاطمہ کے اشاروں پر ناچنے لگا تھا حسن بن صباح سے اس نے کہا تھا کہ وہ اسے وزیراعظم بنا کر دم لے گا
جس روز نظام الملک نے حسن بن صباح کو یہ خوشخبری سنائی اس روز احتشام مدنی نے اپنے گھر کے قریب ہی چھوٹا سا ایک مکان جو خالی پڑا تھا صاف کروا لیا اور ایک کمرے میں پلنگ اور نرم و گداز بستر بھجوا دیا اپنی خاص ملازمہ کے ذریعے اس نے فاطمہ کو پیغام بھیج دیا کہ رات وہ فلاں طرف سے اس مکان میں آجائے
فاطمہ وہاں پہنچ گئی احتشام پہلے ہی وہاں موجود تھا
میرا ایک کمال دیکھ لیا فاطمہ احتشام نے فاطمہ کو اپنے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا جعلی حساب کتاب لکھ کر سلطان سے منوالیا ہے کہ یہ حساب بالکل صحیح ہے
آپ کو مبارک ہو فاطمہ نے اپنا گال احتشام کے سینے سے رگڑتے ہوئے کہا اب میرے بھائی کو وزیراعظم بنوا دیں
اب یہ کام آسان ہو گیا ہے احتشام نے کہا کل سلطان ہمیں بلائے گا میں نظام الملک کے خلاف اس کے ایسے کان بھروں گا کہ وہ اسی وقت اسے معزول کر دے گا
احتشام نے فاطمہ کو پلنگ پر بٹھا لیا
سلطان کل حسن کو انعام دے رہا ہے احتشام نے کہا میں نے آج تم سے انعام لینا ہے
فاطمہ نے جھپنے اور شرمانے کی ایسی اداکاری کی کہ احتشام نشے کی سی کیفیت میں بدمست ہو گیا اس نے فاطمہ کو لٹا دیا روحانی طور پر تو ہم میاں بیوی بن چکے ہیں احتشام نے کہا نکاح تو ایک رسم ہے یہ بعد میں بھی ادا ہو سکتی ہے
کمرے کا دروازہ بند تھا زنجیر چڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ باہر کا دروازہ بند تھا مکان کا صحن کشادہ تھا
احتشام مدنی جب فاطمہ کے طلسماتی حسن ناز و انداز اور دکھاوے کے شرم و حجاب میں مدہوش ہو چکا تھا فاطمہ چونکی
ذرا ٹھہریں فاطمہ نے کہا میں نے قدموں کی آہٹ سنی ہے
بلّی ہوگی احتشام نے نشے سے لڑکھڑاتی آواز میں کہا کسی انسان میں اتنی جرات نہیں ہو سکتی کہ اس گھر میں قدم رکھے
چار آدمی اس گھر میں قدم رکھ چکے تھے وہ چھت کی طرف سے آئے تھے اور سیڑھیاں اتر کر صحن میں آگئے تھے فاطمہ نے ایک بار پھر احتشام کو پرے ہٹنے کو کہا اسے ہلکا سا دھکا بھی دیا لیکن احتشام پر بدمستی طاری تھی
کمرے کا دروازہ کھلا احتشام نے ادھر دیکھا دو آدمی اندر آئے احتشام ان دونوں کو جانتا تھا یہ دونوں کوتوال کے ماتحت تھے ان کے پیچھے دو آدمی تھے وہ بھی کوتوال کے کارندے تھے
نکل جاؤ یہاں سے احتشام مدنی نے سلطان کے مشیر خاص کی حیثیت سے حکم کے لہجے میں کہا تمہیں میرے گھر میں آنے کی جرات کیسے ہوئی
ہم سلطان کے حکم سے آئے ہیں عالی جاہ ایک نے کہا آپ کو اور اس لڑکی کو سلطان کے پاس لے جانا ہے
چلو تم نکلو یہاں سے احتشام نے کہا میں تیار ہو کر آتا ہوں
آپ خود نہیں جائیں گے عالی جاہ کوتوال کے آدمی نے کہا ہم آپ کو لے جائیں گے اس لڑکی کو بھی
تیار ہونے کی ضرورت نہیں عالی جاہ دوسرا آدمی بولا ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اور یہ لڑکی جس حالت میں ہوں اسی حالت میں ساتھ لے آنا ہے
وہ دونوں نیم برہنہ حالت میں تھے احتشام پر دو نشے طاری تھے ایک اپنی سرکاری حیثیت کا وہ سلطان کا مشیر خصوصی تھا اور دوسرا نشہ فاطمہ کے حسن و شباب اور نفسانی جذبات کے وبال کا تھا یہ سب نشے ایک ہی بار ہوا ہو گئے
منہ مانگا انعام دوں گا احتشام نے کہا چاروں کو جاکر سلطان سے کہہ دو کہ تم نے مجھے اور اس لڑکی کو کہیں بھی نہیں دیکھا
فاطمہ کپڑے پہننے لگی تھی
اس لڑکی کو پکڑ کر باہر لے چلو اس آدمی نے احتشام کی پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آدمیوں کو حکم دیا اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر لے جاؤ
میرے عہدے اور رتبے سے تم واقف ہو احتشام مدنی نے کہا میں تمہیں اتنی ترقی دلواؤں گا کہ حاکم بن جاؤ گے
مجھے چاہتے ہو تو حاضر ہوں فاطمہ بولی
ہاں بھائیو! احتشام نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا دیکھو کتنی خوبصورت ہے
سلطان کے حکم کی تعمیل کرو کتوال کے آدمی نے کہا انہیں پکڑو اور لے چلو
وہ احتشام سے مخاطب ہوا عالی جاہ ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اگر مزاحمت کریں تو آپ کے سر پر ضرب لگا کر بیہوش کر دیا جائے اور اٹھا کر زندان میں پھینک دیا جائے
احتشام مدنی سر جھکائے ہوئے چل پڑا دو آدمی پہلے ہی فاطمہ کو گھسیٹتے دھکیلتے باہر لے گئے تھے اس کے لیے نیم برہنگی یا مکمل برہنگی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی وہ آبرو باختہ اور تربیت یافتہ لڑکی تھی
ان دونوں کو کتوالی میں لے گئے اور انہیں الگ الگ کمرے میں بند کر دیا گیا
سلطان کا اپنا جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا اسے احتشام مدنی اور فاطمہ کی خفیہ ملاقاتوں کی اطلاعیں ملی تھیں لیکن یہ کوئی اہم یہ نازک خبر نہیں تھی یہ احتشام کا ذاتی معاملہ تھا سلطان کو اس صورت میں ان دونوں کی ملاقاتوں میں خطرہ محسوس ہوتا کہ لڑکی مشکوک اور مشتبہ ہوتی شک یہ ہوتا کہ یہ لڑکی عیسائی یا یہودی ہے اور جاسوس ہے یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہ معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہے
درمیان میں معاملہ بیس برسوں کے حساب کتاب کا آ گیا تو پتہ چلا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی نے سلطان کو دھوکا دیا ہے نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کی آپس میں باتیں ہوئیں تو نئے شکوک پیدا ہوگئے سلطان ملک شاہ عقل و دانش والا آدمی تھا نظام الملک نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح کی کوئی بہن ہے ہی نہیں
سلطان نے نظام الملک سے کہا کہ وہ حسن بن صباح کو خوشخبری سنا دے کہ اس نے بیس برسوں کا آمدنی اور اخراجات کا جو حساب تیار کیا ہے وہ سلطان نے منظور کر کے اسے بالکل صحیح تسلیم کرلیا ہے اس سے سلطان کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی بے فکر اور مطمئن ہو جائیں
سلطان نے اسی وقت کوتوال کو بلایا اور اسے یہ ساری صورت حال بتا کر کہا کہ احتشام اور اس لڑکی کو اکٹھے پکڑنا ہے
ابھی جاکر مخبر مقرر کر دو سلطان نے کہا وہ شام کے بعد ملتے ہیں ایک آدمی احتشام کی نگرانی کرے اور ایک آدمی اس لڑکی کو دیکھتا رہے یہ کہیں باہر اکٹھیں ہوں تو احتشام کے رتبے کا خیال کئے بغیر دونوں کو کوتوالی میں بند کردو انہیں اسی حالت میں لانا ہے جس حالت میں پائے جائیں ضروری نہیں کہ یہ آج ہی مل جائیں گے
کل ملیں پرسوں ملیں دس دنوں بعد ملیں انہیں چھوڑنا نہیں
کوتوال یہ ساری کاروائی اور اس کا پس منظر سمجھ گیا اس نے اسی وقت چار آدمی اس کام پر لگا دیئے انہیں ضروری ہدایات اور احکام دے کر رخصت کر دیا
ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اسی رات پکڑے جائیں گے لیکن احتشام مدنی نے اس رات فاطمہ سے انعام وصول کرنا تھا اس نے فاطمہ کے بھائی حسن کی مدد کی تھی اور سلطان کو بڑی کامیابی سے دھوکہ دیا تھا
سورج غروب ہوتے ہی کوتوال کے دو آدمی بھیس بدل کر چلے گئے ایک احتشام کے گھر کو دور سے دیکھتا رہا اور دوسرا حسن بن صباح کے گھر کی نگرانی کرتا رہا ان دونوں کے ساتھ ایک ایک اور آدمی تھا یہ دونوں دور دور کھڑے تھے پہلے احتشام گھر سے نکلا اور اس مکان میں چلا گیا جو اس نے اس رات کے جشن کے لیے تیار کیا تھا اس کی نگرانی والا آدمی چھپ کر کھڑا رہا
پھر فاطمہ گھر سے نکلی اس کی نگرانی والا آدمی اس کے پیچھے چل پڑا فاطمہ بھی اسی مکان میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند ہوگیا کوتوال کے دونوں مخبر آپس میں مل گئے انہوں نے اپنے دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی بلا لیا ان میں سے ایک عہدے دار تھا انہوں نے کچھ وقت انتظار کیا پھر ساتھ والے گھر کے بڑے آدمی کو باہر بلا کر بتایا کہ وہ کوتوال کے آدمی ہیں اور اس ساتھ والے گھر میں اترنا ہے
آ جائیں اس آدمی نے کہا میری چھت سے اس چھت پر چلے جائیں میں آپ کو بتاؤں گا اس مکان کی سیڑھیاں کہاں ہے
چار آدمی اس شخص کی رہنمائی میں اس مکان میں اتر گئے جس کے ایک کمرے میں احتشام مدنی اور فاطمہ جشن منا رہے تھے
رات کوئی زیادہ نہیں گزری تھی کوتوال کو اطلاع دی گئی کہ دونوں جس حالت میں تھے اسی حالت میں پکڑ لائے ہیں کوتوال کو سلطان نے کہا تھا کہ تحقیقات کرکے اسے بتائے کہ اس لڑکی کی حقیقت کیا ہے کوتوال اسی وقت کوتوالی پہنچا اور اس کمرے میں چلا گیا جس میں لڑکی بند تھی
نام کیا ہے لڑکی؟
کوتوال نے پوچھا
فاطمہ! لڑکی نے جواب دیا میں سلطان کی معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہوں
ہمیں معلوم ہے حسن بن صباح کہاں کا رہنے والا ہے؟
کوتوال نے کہا ہم وہاں سے معلوم کریں گے کہ اس کی کوئی بہن ہے بھی یا نہیں میری ایک بات سن لو بہت ہی اذیت ناک موت مرو گی اپنے متعلق ہر بات سچ بتا دو
کیا آپ اس جسم کو اذیت دیں گے؟
لڑکی نے جذبات کی حرارت سے کِھلی ہوئی مسکراہٹ سے کہا ھاتھ لگا کر دیکھیں گلاب کی پتیوں جیسی ملائمت ہے اس جسم میں وہ نیم برہنہ تھی اس نے اپنے آپ کو اور زیادہ برہنہ کر دیا اس کی مسکراہٹ اور زیادہ ہوگئی اس کی آنکھوں میں سفلی جذبات کا خمار تھا کہنے لگی مرد اتنا زیادہ تو نہیں سوچا کرتے میرے قریب آجائیں
اس کے سر پر اوڑھنی نہیں تھی اس کے بال کھلے ہوئے تھے
ان بالوں کو ہاتھ لگا کر دیکھیں اس نے کہا ان پر ہاتھ پھیر کر دیکھیں ریشم اور مخمل جیسے ملائم ہیں
کوتوال آخر مرد تھا فرشتہ نہیں تھا اس لڑکی کے جسم اور بالوں کو دیکھ کر اسکے جسم نے جھرجھری لی اور اس پر خاموشی طاری ہوگئی وہ آہستہ آہستہ لڑکی کی طرف بڑھا اس کا دایاں ہاتھ اوپر اٹھ رہا تھا قریب جا کر اس کا ہاتھ لڑکی کے سر پر چلا گیا اور اس کی انگلیاں لڑکی کے بالوں میں رینگنے لگی اس کا دوسرا ہاتھ لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا کوتوال فرائض کی دنیا سے ایک ہی اوڑان میں رومانوں کی کہکشاں میں جا پہنچا
خدام! اسے کسی کی آواز سنائی دی کسی نے اسے پکارا تھا
اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا دروازہ بند تھا
ایک خیال رکھنا خدام اسے کمرے میں وہی آواز پھر سنائی دی سنا ہے لڑکی بہت ہی حسین ہے اگر تحقیقات تک نوبت آگئی تو یہ یاد رکھنا کے تم کوتوال ہو یہ بھی یاد رکھنا کہ دھوکا مجھے دیا گیا ہے میں اس سلطنت کا سلطان ہوں میں فرائض میں بددیانتی اور بدمعاشی برداشت نہیں کیا کرتا
یہ الفاظ سلطان ملک شاہ کے تھے جو اس نے احتشام مدنی اور لڑکی کو اکٹھے پکڑنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہے تھے
کوتوال خدام کی انگلیاں لڑکی کے ریشم جیسے ملائم بالوں میں رینگ رہی تھیں اور لڑکی اس کے دوسرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں مسل رہی تھی کوتوال کے ذہن میں سلطان ملک شاہ کے الفاظ ایسے گنجے جیسے سلطان اس بند کمرے میں کھڑا بول رہا ہو
کوتوال کی آنکھوں کے آگے بجلی سی چمکی پھر تاریکی آگئی کوتوال کا وہی ہاتھ جو لڑکی کے نرم و ملائم بالوں میں رینگ رہا تھا مٹھی بن گیا اس مٹھی میں لڑکی کے بال تھے کوتوال نے بالوں کو اتنی زور سے کھینچا کہ لڑکی کی چیخ نکل گئی درد کی شدت سے اس کا منہ کھل گیا
سچ بتا تو کون ہے؟
کوتوال نے بالوں کو مٹھی سے مروڑتے اور کھینچتے ہوئے کہا تیرے بال چھت کے ساتھ باندھ کر تجھے لٹکا دوں گا
درد سے لڑکی کے دانت بجنے لگے کوتوال نے لڑکی کو بالوں سے پکڑے ہوئے اوپر اٹھایا اور فرش پر پٹخ دیا
مر جا یہاں کوتوال نے کہا تیری کوئی نہیں سنے گا سچ بتا تو کون ہے؟
کوتوال کو اس پر بھی غصہ تھا کہ لڑکی نے اسے بھٹکا دیا تھا وہ بول نہیں رہی تھی کوتوال نے اس کے ایک ہاتھ کی انگلیاں ایک شکنجے میں جکڑ دیا اور شکنجے کو تنگ کرنا شروع کردیا لڑکی کی چیخوں سے چھت لرزتی محسوس ہوتی تھی وہ آخر لڑکی تھی کہاں تک برداشت کرتی اسے مردوں کی انگلیوں پر نچانے کی ٹریننگ دی گئی تھی یہ تو اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ کبھی وہ پکڑی بھی جائے گی
اس پر غشی سی طاری ہو رہی تھی جب کوتوال نے اس کی انگلیاں شکنجے سے نکال دیں اسے پانی پلایا لیکن وہ ابھی تک انکار کر رہی تھی کوتوال نے اس کا دوسرا ہاتھ شکنجے میں دینے کے لیے پکڑا تو وہ بلبلا اٹھی اور سچ بولنے پر آگئی اس نے بتا دیا کہ وہ حسن بن صباح کی بہن نہیں اور اسے وہ شاہ در سے لایا تھا
اس نے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح اسے اس مقصد کے لیے ساتھ لایا تھا کہ ایسے حاکموں کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے جن کا سلطان پر اثر اور رسوخ چلتا ہے انہیں نظام الملک کے خلاف استعمال کرنا ہے لڑکی نے بتایا کہ حسن بن صباح وزیراعظم بننا چاہتا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ احتشام مدنی کو اس نے کس طرح اپنے جال میں پھانسا تھا اور اسے شادی کا لالچ دے رکھا تھا
احتشام مدنی حسن بن صباح کی کس طرح مدد کر رہا تھا؟
کوتوال نے پوچھا
کہتا تھا کہ میں نظام الملک کے خلاف سلطان کے دل میں کدورت پیدا کر رہا ہوں لڑکی نے کہا یہ حساب کتاب کا جو مسئلہ کھڑا ہوا تھا اس کے پیچھے احتشام ہی تھا اور اسی نے حسن بن صباح سے یہ حساب تیار کرایا تھا احتشام کہتا تھا کہ اب ایسا موقع پیدا ہو گیا ہے کہ میں آسانی سے نظام الملک کو معزول کرادوں گا
مختصر یہ کہ لڑکی نے اپنی اصلیت اور حسن بن صباح کی نیت بے نقاب کردی لیکن اس نے یہ نہ بتایا کہ حسن بن صباح اور کیا کر رہا ہے اور شاہ در اور خلجان کے علاقے میں اس نے کیا ناٹک کھیلا اور آئندہ کے لیے اس کے کیا منصوبے ہیں
حسن بن صباح کو تو معلوم تھا کہ فاطمہ احتشام مدنی سے ملنے گئی ہے لیکن اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی زیادہ دیر سے واپس آئے گی آدھی رات ہوگئی تو اس نے اپنے ملازم کو جگا کر کہا کہ وہ احتشام مدنی کے ملازموں سے پوچھ آئے کہ وہ گھر ہے یا کہیں باہر گیا ہوا ہے
ملازم گیا اور یہ خبر لایا کہ دربان احتشام کے انتظار میں جاگ رہا ہے وہ ابھی نہیں آیا
حسن بن صباح مطمئن ہو گیا کہ احتشام واپس نہیں آیا تو فاطمہ اس کے ساتھ ہی ہوگی وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ دونوں اس وقت تک کوتوالی میں بند ہوں گے اس روز حسن بن صباح بہت خوش تھا اس نے نظام الملک کے مقابلے میں میدان مار لیا تھا فجر کی اذان کے کچھ دیر بعد حسن بن صباح کے دروازے پر دستک ہوئی وہ سمجھا فاطمہ آئی ہے لیکن ملازم نے اسے بتایا کہ کوتوالی سے دو آدمی آئے ہیں حسن نے انھیں اندر بلایا اور پوچھا وہ کیوں آئے ہیں
حکم ملا ہے کہ آپ گھر سے باہر نہ نکلیں ایک آدمی نے کہا
کیوں ؟
حسن بن صباح نے پوچھا یہ حکم کس نے دیا ہے
وجہ ہمیں معلوم نہیں اس آدمی نے کہا ہمیں یہ حکم کوتوال نے دیا ہے
آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ اپنے گھر میں قید ہیں دوسرے آدمی نے کہا
کوتوال سلطان ملک شاہ کے گھر چلا گیا سلطان فجر کی نماز کے لیے جلدی جاگا کرتا تھا کوتوال نے اسے رات کی روداد سنائی یہ بھی بتایا کہ اس نے احتشام مدنی سے بیان نہیں لیا اور حسن بن صباح کو اس نے اس کے گھر میں نظر بند کر دیا ہے
سلطان نے حکم دیا کے احتشام اور لڑکی کو فوراً اس کے سامنے لایا جائے
سلطان نے نظام الملک اور حسن بن صباح کو بھی بلوا لیا
یہ سب آگئے تو سلطان نے لڑکی سے کہا کہ گزشتہ رات اس نے کوتوال کو جو بیان دیا ہے وہ سب کے سامنے ایک بار پھر دے لڑکی نے روتے ہوئے بیان دے دیا
کیا یہ سچ ہے احتشام ؟
سلطان نے احتشام سے پوچھا اگر یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو بتاؤ سچ کیا ہے میں اس لڑکی کو جلاّد کے حوالے کردوں گا اور اگر تم نے جھوٹ بولا تو
نہیں سلطان معظم! احتشام نے کہا لڑکی کا بیان بالکل سچ ہے میں سزا کا حقدار ہوں میں نے آپ سے نمک حرامی کی ہے اگر آپ مجھے معاف کر دیں گے تو بھی میں آپ کے زیر سایہ نہیں رہوں گا میرا یہاں رہنا آپ کے سائے کی بھی توہین ہے
احتشام! سلطان نے کہا مجھے دکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ آپ جیسا دانش مند انسان ایک لڑکی کے فریب میں آ گیا
سلطان معظم! احتشام مدنی نے بڑی پختہ آواز میں کہا میں بھی اپنے آپکو دانش مند سمجھا کرتا تھا مجھے اپنی عقل و دانش پر اس لئے ناز تھا کہ میں نے آپ کو جو بھی مشورہ دیا وہ آپ نے قبول کرلیا اور عملاً وہ مشورہ کامیاب اور کارآمد ثابت ہوا لیکن میں اب محسوس کرتا ہوں کہ میرا علم اور میرا تجربہ خام تھا میں نے سنا تھا کہ عورت مرد کی سب سے بڑی اور بڑی خطرناک کمزوری ہوتی ہے لیکن مجھے اس کا عملی تجربہ نہیں ہوا تھا نسوانی حسن میں ایک جادو ہے لیکن میں اس جادو سے واقف نہ تھا اب میرا علم اور تجربہ مکمل ہوگیا ہے اس تلخ اور شرمناک تجربے سے میں نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ فریب کار عورت زیادہ دلفریب ہوتی ہے اور اس کے حسن و شباب سے بچنا ممکن نہیں ہوتا اگر اس قسم کی ایک لڑکی مجھ جیسے جہاندیدہ اور دانش مند آدمی کو دام فریب میں لے سکتی ہے تو ان جواں سال آدمیوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا جو عورت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت نے بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں میں یہی سبق لے کر آپ کے دربار میں سے ہی نہیں بلکہ آپ کی سلطنت سے ہی نکل جاؤں گا اگر آپ سزا دینا چاہتے ہیں تو میرا سر حاضر ہے
اس کا فیصلہ میں بعد میں کروں گا سلطان نے کہا آپ بیٹھیں
سلطان حسن بن صباح سے مخاطب ہوا کیوں حسن تم کیا کہتے ہو اگر اس لڑکی کو جھٹلا سکتے ہو تو بولو لیکن بہتر یہ ہے کہ خاموش رہو جھوٹ بولو گے تو بہت بری سزا دوں گا
یہ لڑکی میری بہن نہیں حسن بن صباح نے کہا میں اسے ایک یتیم اور بیوہ لڑکی سمجھ کر اپنے ساتھ لے آیا تھا اگر آپ کا کوئی حاکم اس لڑکی کو غلط راستے پر چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے اس لڑکی کی حالت دیکھیں اس کا چہرہ دیکھیں صاف پتہ چلتا ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا ہے اور اس پر دہشت طاری کرکے یہ بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے
حسن بن صباح کوئی ایسا کچا آدمی نہیں تھا کہ احتشام کی طرح فوراً اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیتا وہ بولتا رہتا اور سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھتا تو سلطان پر غالب آجاتا اور سلطان اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا لیکن اس کے خلاف شہادت ایسی تھی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا تھا احتشام مدنی کا اعتراف جرم لڑکی کے بیان کی تائید کرتا تھا
خاموش! سلطان گرج کر بولا میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ سچے ہو تو زبان کھولنا لیکن تم نے میرے اس حکم کی پروا نہ کی سلطان نے کوتوال سے کہا اسے اور اس لڑکی کو قید خانے میں پھینک دو یہ دونوں قید خانے سے اس وقت نکالے جائیں گے جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ ان کے دماغ صحیح راستے پر آ گئے ہیں احتشام مدنی میں تمہیں قید خانے کی ذلت سے بچا رہا ہوں تم آزاد ہو لیکن میں سوچ کر کوئی فیصلہ کروں گا
سلطان معظم! خواجہ حسن نظام الملک اٹھ کھڑا ہوا اور بولا عفو اور درگزر کا جذبہ اللہ کو عزیز ہے اسلام کی یہ شان ہے کہ دشمن کو بھی بخشا جاسکتا ہے انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کا ایک منصوبہ بنایا تھا اور مجھے اس عزت اور اس بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تھی جو مجھے اللہ نے عطا کیا ہے میں انہیں اللہ کے نام پر معاف کرتا ہوں
میں انہیں معاف نہیں کر سکتا سلطان نے غصے کے عالم میں کہا
سلطان عالی مقام! نظام الملک نے کہا میں نے آج پہلی بار آپ سے ایک ذاتی درخواست کی ہے اور یہ میری آخری درخواست ہوگی حسن بن صباح اور میں امام مؤافق جیسے عالم دین کے شاگرد ہیں حسن کسمپرسی کی حالت میں میرے پاس آیا اور میں نے اسے روزگار اور وقار مہیا کیا تھا میں اسے گناہ سمجھتا ہوں کہ یہ گنہگار ہی سہی لیکن میری وجہ سے اسے قید میں پھینک دیا جائے
سلطان کچھ دیر نظام الملک کے منہ کو دیکھتا رہا وہ شاید سوچ رہا تھا کہ کوئی انسان اتنا بلند کردار والا بھی ہو سکتا ہے
میں تمہاری قدر کرتا ہوں خواجہ حسن طوسی! سلطان نے کہا لیکن میں انہیں یہاں دیکھ نہیں سکتا میں حسن بن صباح اور اس لڑکی کو زندان میں بند نہیں کروں گا حسن بن صباح اور یہ لڑکی ابھی اس شہر سے نکل جائیں
سلطان نے کوتوال سے کہا اپنے آدمی بھیجو جو انہیں شہر سے نکال کر آئیں
حسن بن صباح اور اس لڑکی کو اسی روز شہر بدر کر دیا گیا نظام الملک کو روحانی اطمینان محسوس ہوا کہ اس نے اتنے بڑے فریب کار کو معاف کرکے خداوندی تعالی کو راضی کر لیا ہے لیکن نظام الملک کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے ایک بڑے ہی زہریلے ناگ کو بخش دیا ہے اور وہ وقت بھی تیزی سے چلا آرہا ہے جب نظام الملک ایک لشکر کے ساتھ حسن بن صباح کے لشکر کے مقابل آئے گا اور ایک ہی امام کے دو شاگرد تلوار لہراتے ہوئے ایک دوسرے کو میدان جنگ میں للکاریں گے
تاریخوں میں اس حساب کتاب کے متعلق جو حسن بن صباح نے تیار کیا تھا مختلف روایات ملتی ہیں بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ نظام الملک نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا دستور الوزراء اس کتاب میں نظام الملک نے لکھا تھا کہ حسن بن صباح نے بڑا ہی کمال کیا تھا کہ صرف چالیس دنوں میں اتنے زیادہ علاقوں کے محصولات وغیرہ کی آمدنی اور اخراجات کا حساب تیار کر لیا تھا نظام الملک میں یہ بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے دل میں حسد اور بغض تھا اس لئے خداوند تعالی نے اسے ذلیل و خوار کیا اگر وہ یہی کام نیک نیتی سے کرتا تو سلطان سے اسے انعام و اکرام ملتا کیوں کہ یہ حساب کتاب ایک تاریخی واقعہ ہے اس لئے بہت سے مورخوں نے اسے قلم بند کیا ہے دبستان مذاہب میں یہ روایت ملتی ہے کہ حسن بن صباح یہ کتاب تیار کر چکا تو یہ تمام کاغذات نظام الملک نے دیکھنے کے لئے منگوائے اور ان کے کئی ورق بے ترتیب کر دیے یہ کاغذات جب سلطان کے پاس گئے تو اس نے حسن بن صباح سے کچھ پوچھا تو وہ صحیح جواب نہ دے سکا
ایک روایت یہ بھی ہے کہ نظام الملک نے اپنے رکابدار کو اس طرح استعمال کیا تھا کہ رکابدار نے حسن بن صباح کے ملازم کو کچھ لالچ دے کر پھانس لیا اور اس سے ان کاغذات میں سے چند ایک کاغذات ضائع کروا دیے تھے لیکن یہ روایات صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ نظام الملک بڑا پکا ایماندار تھا اسے یہ کاغذات دکھائے ہی نہیں گئے تھے حسن بن صباح اس لڑکی کے ساتھ رے پہنچا جہاں کا وہ رہنے والا تھا اس نے اپنے باپ کو سنایا کہ سلطان کے یہاں کیا واقعہ ہوگیا ہے
تمہاری عقل ابھی خام ہے باپ نے حسن بن صباح سے کہا تم تمام کام بیک وقت اور بہت جلدی ختم کرنا چاہتے ہو جلد بازی سے بچو تم نے اپنی ملازمت ہی نہیں کھودی بلکہ سلجوقی سلطنت کھودی ہے اب میں تمہیں مصر بھیجوں گا وہاں کے کچھ لوگ یہاں آ رہے ہیں
‏رے کا امیر ابو مسلم رازی تھا جو کٹر اہل سنت والجماعت تھا اسے خفیہ رپورٹیں مل رہی تھیں کہ حسن بن صباح کے باپ کے یہاں مصر کے عبیدی آتے رہتے ہیں سلجوقی عبیدیوں کو اپنا اور اسلام کا بہت بڑا دشمن سمجھتے تھے کیونکہ عبیدیوں کا اپنا ہی ایک فرقہ تھا جو ایک جنگی طاقت بنتا جا رہا تھا ان دنوں مصر پر عبیدیوں کی حکومت تھی
سلطان ملک شاہ کی طرف سے ابومسلم رازی کو ایک تحریری حکم نامہ ملا کہ اس کے شہر رے کے باشندے حسن بن صباح کو سرکاری عہدے سے سبکدوش کرکے نکال دیا گیا ہے اس شخص پر نظر رکھی جائے کیونکہ یہ شخص بڑا پکا فریب کار اور اپنے سابقہ عہدے کو فریب کاری میں استعمال کر سکتا ہے
ابومسلم رازی کو مخبروں سے کچھ ایسی رپورٹیں بھی ملی تھیں کہ حسن بن صباح رے سے دور دراز علاقوں میں اپنا ہی ایک فرقہ تیار کر رہا ہے اور اس فرقے کے عزائم خطرناک معلوم ہوتے ہیں ابومسلم رازی نے حکم دے دیا کہ حسن بن صباح کو گرفتار کر لیا جائے
حسن بن صباح اور اس کے باپ نے مخبری اور جاسوسی کا اپنا ایک نظام قائم کر رکھا تھا اس کا کوئی آدمی ابومسلم رازی کے عملے میں ملازم تھا اس آدمی نے حسن بن صباح کو اطلاع دے دی کہ اس کی گرفتاری کا حکم جاری ہو گیا ہے حسن بن صباح نے اسی وقت شتربانوں کا لباس پہنا اور ایک اونٹ کی مہار پکڑ کر شہر سے نکل گیا اس کی گرفتاری کے لیے کوتوال کے آدمی اس کے گھر گئے تو اس کے باپ نے کہا کہ وہ کچھ بتائے بغیر کہیں چلا گیا ہے
اس وقت حسن بن صباح اونٹ پر سوار شہر سے بہت دور چلا گیا تھا اس کے قریب سے گزرنے والے اسے غریب سا شتربان سمجھتے تھے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شتربان کے لباس میں چھپا ہوا یہ شخص ایسے کارنامے کر دکھائے گا جو الف لیلیٰ کی داستانوں سے زیادہ سنسنی خیز ناقابل یقین ہوں گے اور یہ شخص انسانیت اور تاریخ کے رونگٹے کھڑے کردے گا
حسن بن صباح تو بھیس بدل کر نکل گیا لیکن وہ لڑکی جسے وہ اپنے ساتھ مرو لے گیا تھا اور سب کو بتایا کہ یہ اس کی بہن ہے اور اس کا نام فاطمہ رکھا تھا وہ ایک بڑے ہی بے رحم شکنجے میں آگئی تھی سلطان ملک شاہ نے اسے بھی حسن بن صباح کے ساتھ اپنے دارالسلطنت سے نکال دیا تھا حسن بن صباح تو وہاں وزیراعظم بننے گیا تھا اور اس لڑکی کو اس نے اس مقصد کے لئے استعمال کیا تھا لیکن اسی لڑکی کی زبان نے اس کا وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور کردیا
اس لڑکی کا اصل نام شمونہ تھا احمد بن عطاش کے آدمیوں نے ایک قافلے کو لوٹا تھا اور دیگر مال و دولت کے ساتھ چند ایک لڑکیوں کو بھی پکڑ لائے تھے جن میں تین چار گیارہ سے چودہ سال عمر تک کی تھیں انہیں شاہ در لے آئے تھے جہاں انہیں شہزادیوں کی طرح رکھا گیا اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے مطابق تربیت دی گئی تھی انہیں بڑی محنت سے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی سے کام نکلوانا ہو اس کے لئے کس طرح ایک بڑا ھی حسین سراب بنا جاتا ہے انھیں ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ اپنے جسموں کو کس طرح بچا کر رکھنا اور اپنے جال میں پھنسے ہوئے آدمی پر نشہ بن کر طاری ہو جانا ہے
شمونہ انہیں لڑکیوں میں سے تھی وہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں قافلے سے اغوا ہوئی تھی اب اس کی عمر بیس سال سے تجاوز کر گئی تھی اس نے کامیابی سے سلطان ملک شاہ کے مشیر خاص احتشام مدنی کو مسحور کر لیا تھا یہ اس کا پہلا شکار تھا وہ اس معزز اور باوقار شخصیت پر طلیسم ہوش روبا بن کر طاری ہوگئی اور اپنا دامن بھی بچا کے رکھا تھا لیکن حسن بن صباح نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ نازک اندام لڑکی ہے ایک جابر سلطان کو انگلیوں پر نچا سکتی ہے مگر یہی انگلیاں جابر سلطان کے شکنجے میں آگئی تو یہ ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کرے گی اور تمام راز اگل دے گی
حسن بن صباح اتنا کچا آدمی نہیں تھا کہ اسے یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ کمزور سی لڑکی ایذارسانی برداشت نہیں کرے گی وہ بے رحم انسان تھا اس کے جذبات اتنے نازک اور رومانی نہیں تھے کہ کسی کو اذیت میں دیکھ کر اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی اس نے شمونہ جیسی ہر لڑکی کو اور اپنے گروہ کے تمام آدمیوں کو بتا رکھا تھا کہ اپنی جان دے دینا راز نہ دینا اگر راز دے کر آؤ گے تو اس کے عوض تمہاری جان لے لی جائے گی
حسن بن صباح نے شمونہ کی جان اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی لیکن اسے مہلت نہ ملی امیر شہر ابومسلم رازی کے حکم سے کوتوالی کے آدمیوں نے چھاپہ مارا اگر اسے پہلے اطلاع نہ ملی چکی ہوتی تو وہ گرفتار ہو جاتا وہ بروقت فرار ہوگیا تھا لیکن شمونہ کی قسمت کا فیصلہ سنا گیا تھا
اس بدبخت لڑکی نے تھوڑا سا نقصان نہیں پہنچایا اس نے فرار سے کچھ دیر پہلے اپنے دو خاص مصاحبوں سے کہا تھا اسے خلجان پہنچا دینا میں وہاں پہنچ چکا ہونگا اسے میں تمام لڑکیوں کے سامنے ایسی سزائے موت دوں گا جو ان لڑکیوں کے لئے باعث عبرت ہو گی لڑکیوں کو بتاؤں گا کہ اس کا جرم کیا ہے اسے ابھی کسی گھر میں قید میں رکھو پانچ دنوں بعد اسے یہاں سے نکالنا ابھی کوتوال کے جاسوس میرے گھر کے ارد گرد گھوم پھر رہے ہونگے اگر یہ لڑکی اپنا حوصلہ ذرا مضبوط رکھتی تو میں وزیراعظم بن جاتا
شمونہ کو انہیں آدمیوں میں ایک کے گھر رکھا گیا اور اسے کہا گیا کہ وہ باہر نہ نکلے اور چھت پر بھی نہ جائے اسے وجہ یہ بتائی گئی کہ امیر شہر نے اس کی اور حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے
شمونہ کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں وہ اپنے آپ کو اس گھر میں مہمان سمجھنے لگی اس کے ساتھ بڑے ہیں معزز مہمانوں جیسا سلوک روا رکھا گیا اور اسے الگ کمرہ دیا گیا اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کمرے کی قیدی اور دو دنوں کی مہمان ہے
اس گھر میں ایک آدمی اور اس کی دو بیویاں تھیں اور ایک ادھیڑ عمر نوکرانی تھی شام کے کھانے کے بعد شمونہ اپنے کمرے میں چلی گئی ،گھر کا آدمی ایک بیوی کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا کچھ دیر بعد دوسری بیوی شمونہ کے کمرے میں چلی گئی اس نے پوچھا کہ مرو میں کیا ہوا تھا شمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا
کیا تمہارے آقا نے تمہیں معاف کر دیا ہے؟
عورت نے پوچھا
میں کچھ نہیں کہہ سکتی شمونہ نے کہا یہ بتا سکتی ہوں کہ اس نے مرو سے یہاں تک میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی صرف ایک بار اس نے کہا تھا کہ تم نے میرا ہی نہیں اپنی جماعت کا مستقبل تباہ کر دیا ہے میں نے اسے پہلے بھی کہا تھا کہ ایک بار پھر کہا کہ میں مجبور ہوگئی تھی اس نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دکھا کر کہا یہ دیکھو نشان یہ انگلیاں لوہے کے شکنجے میں جکڑ دی گئی تھیں اور شکنجا آہستہ آہستہ بند کیا جا رہا تھا میری انگلیوں کی ہڈیاں چٹخنے اور پھر ٹوٹنے لگی تھیں شکنجے کو اور زیادہ کسا جا رہا تھا اور مجھ پر غشی طاری ہو رہی تھی
اب میری سن لڑکی! عورت نے کہا آگے مت سونا میں تیرے درد کو اپنے دل میں محسوس کرتی ہوں تو اپنے ماں باپ کے پاس کیوں نہیں جاتی؟
کہاں ہیں وہ؟
شمونہ نے کہا کون ہیں وہ مجھے یاد نہیں خواب کی طرح یاد ہے کہ ایک قافلہ جا رہا تھا اسے ڈاکوؤں نے روک کر لوٹ لیا تھا میرے ماں باپ شاید مارے گئے تھے وہ مجھے یاد نہیں آتے یاد آئیں بھی تو مجھے ان کی جدائی کا ذرا سا بھی افسوس نہیں ہوتا ان سے جدا ہوئے صدیاں تو نہیں گزری چھ سات سال ہی گزرے ہیں مجھے ڈاکو اپنے ساتھ لے آئے تھے
تجھے معلوم نہیں عورت نے کہا تجھے ایسی چیز پلائی اور کھلائی جاتی رہی ہے کہ تیرے دماغ سے خون کے رشتے دھل گئے ہیں اور میں جانتی ہوں تیری تربیت کس پیار سے ان لوگوں نے کی ہے تو نہیں جانتی
یہ حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کا وہ طریقہ کار تھا جسے آج کی صدی میں برین واشنگ کا نام دیا گیا ہے
تم اتنی دلچسپی سے یہ باتیں کیوں پوچھ رہی ہو؟
شمونہ نے پوچھا کیا تمہیں مجھ سے ہمدردی ہے؟
ہاں لڑکی! عورت نے کہا مجھے تجھ سے ہمدردی ہے میرا خاوند انہی لوگوں میں سے ہے یہ لوگ میری چھوٹی بہن کو ورغلا کر لے گئے ہیں وہ بہت حسین لڑکی ہے میں اسے اس جال سے نہیں نکال سکتی تجھے نکال سکتی ہوں لیکن تو اب ان لوگوں کے نہیں بلکہ موت کے جال میں آ گئی ہے
موت کے جال میں ؟
ہاں لڑکی ! عورت نے کہا تیری زندگی چار نہیں تو پانچ دن رہ گئی ہے
یہ کیسے ؟
حسن بن صباح کسی کو معاف نہیں کیا کرتا عورت نے کہا میں جانتی ہوں تو نے کس مجبوری کے تحت راز مرو کے کتوال کو دے دیا تھا لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ تجھے اپنی جان دے دینی چاہیے تھی راز نہ دیتی حسن بن صباح کہہ گیا ہے کہ تجھے خلجان پہنچا دیا جائے حسن بن صباح وہاں پہنچ جائے گا پھر تمہیں تم جیسی لڑکیوں کے سامنے بڑے ہی اذیت ناک طریقے سے قتل کیا جائے گا تاکہ لڑکیوں کو عبرت حاصل ہو
شمونہ کو غشی آنے لگی
میں ابھی مرنا نہیں چاہتی شمونہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا
اور چاہتی میں بھی یہی ہوں کہ تو زندہ رہے عورت نے کہا اگر میری یہ خواہش نہ ہوتی تو میں تمہارے پاس آتی ہی نہ
لیکن میں کروں کیا ؟
شمونہ نے پوچھا کہاں جا پناہ لوں
میں تمہیں یہاں سے نکال سکتی ہو
کیا تم اس کی کچھ اجرت لوگی؟
نہیں! عورت نے جواب دیا میرے لئے یہی اجرت بڑی کافی ہوگی کہ تو یہاں سے نکل جائے اور زندہ رہے مجھ سے کچھ اور نہ پوچھنا نہ کسی کو یہ بتانا کہ میں نے تمہیں یہاں سے نکالا ہے صرف اتنا بتا دیتی ہوں کے تجھے دیکھ کر مجھے اپنی بہن یاد آگئی ہے تو معصوم لڑکی ہے خدا کرے تو کسی گھر میں آباد ہو جائے
مجھے نکال تو دوگی؟
شمونہ نے پوچھا میں جاؤنگی کہاں؟
رات ابھی زیادہ نہیں گزری عورت نے کہا میں تجھے راستہ بتا دوں گی یہ راستہ تجھے امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر پہنچا دے گا دروازے پر دستک دینا دربان روکے تو کہنا کہ میں مظلوم لڑکی ہوں اور امیر شہر کے آگے فریاد کرنے آئی ہوں تجھے کوئی نہیں روکے گا امیر شہر خدا کا نیک بندہ ہے وہ تجھے فوراً اندر بلا لے گا اسے ہر بات صحیح صحیح بتا دینا اور یہ مت کہنا کہ میں نے تجھے یہاں سے نکالا ہے یہ کہنا کہ تو خود یہاں سے بھاگی ہے
پھر وہ کیا کرے گا؟
وہ جو کچھ بھی کرے گا تیرے لیے اچھا ہی کرے گا عورت نے کہا ہو سکتا ہے وہ تجھے کسی نیک آدمی کے سپرد کردے میں تجھے میلی سی ایک چادر دیتی ہوں اس میں اپنے آپ کو ڈھانپ لینا کوئی آدمی آگے آ جائے تو ڈر نہ جانا پوری دلیری سے چلتی جانا تو ہوشیار لڑکی ہے تجھے تربیت بھی ایسی ہی دی گئی ہے اس کے مطابق اپنی عقل استعمال کرنا سب ٹھیک ہو جائے گا اٹھو
اس عورت کا خاوند دوسرے کمرے میں گہری نیند سو گیا تھا یہ لوگ شراب اور حشیش کے عادی تھے ان میں نشے کی عادت حسن بن صباح نے پیدا کی تھی اس اتنی بڑی حویلی کا مالک اپنی ایک جواں سال بیوی کو ساتھ لیے نشے میں بدمست حقیقی دنیا سے بے خبر سو گیا تھا
اسی حویلی کے ایک کمرے میں اس کی پرانی بیوی شمونہ کو چادر میں لپیٹ کر حویلی کی ڈیوڑھی میں لے گئی تھی شمونہ کو اس نے امیر شہر کے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا اس نے شمونہ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ راستے سے بھٹک جائے تو کسی سے پوچھ لے اس نے شمونہ کو یقین دلایا تھا کہ ابو مسلم رازی سے لوگ اتنے ڈرتے ہیں کہ اکیلی دکیلی عورت پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا
اس نے شمونہ کو حویلی سے نکال دیا شمونہ گلی کا موڑ مڑ گئی تو اس عورت نے حویلی کا دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں جا کر سو گئی وہ مسرور اور مطمئن تھی کہ اس نے ایک نوخیز لڑکی کو گناہوں کی بڑی ہی خطرناک دنیا سے نکال دیا تھا شمونہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر تک پہنچ گئی باہر دو دربان کھڑے تھے انہوں نے اسے روکا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیوں آئی ہے؟
مجھے فوراً امیر شہر تک پہنچا دو شمونہ نے بڑی پختہ آواز میں کہا دیر نہ لگانا ورنہ پچھتاؤ گے
آخر بات کیا ہے ؟
ایک دربان نے پوچھا
انہیں اتنا ہی کہہ دو کہ ایک مظلوم لڑکی کہیں سے بھاگ کر آئی ہے شمونہ نے کہا اور یہ بھی کہنا کہ وہ راز کی ایک بات بتائے گی
تاریخ بتاتی ہے کہ ابو مسلم پکا مرد مومن تھا اسلام کی وہی نظریات اور عقیدے جو رسول اکرمﷺ اپنی امت کو دے گئے تھے ان کی پاسبانی ابومسلم رازی کی زندگی کا بہت بڑا نصب العین تھا جس وقت شہر نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گیا تھا اس وقت رازی دین کی ایک کتاب کھولے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھا
دربان نے اس کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی دربان کو ایسا ڈر نہیں تھا کہ امیر شہر خفا ہو گا اور اسے ڈانٹ دے گا کہ رات کے اس وقت اسے نہیں آنا چاہیے تھا اس نے حکم نامہ جاری کر رکھا تھا کہ کوئی مظلوم شخص رات کے کسی بھی وقت اسے ملنے آئے تو اسے جگا لیا جائے اس رات دربان کی دستک پر اس نے دربان کو اندر بلایا دربان سے اس نے صرف یہ الفاظ سنے کہ ایک لڑکی آئی ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیج دو
چند لمحوں بعد ایک بڑی ہی حسین اور پرکشش جسم والی نوخیز لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی ابو مسلم رازی نے اسے بٹھایا
کیا ظلم ہوا ہے تجھ پر جو تو اس وقت میرے پاس آئی ہے؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
بات ذرا لمبی ہے شمونہ نے کہا کیا امیر شہر کے دل میں اتنا درد ہے کہ اتنی لمبی بات سنے گا؟
ہاں لڑکی! ابومسلم رازی نے کہا ہم دونوں کے درمیان اللہ کی ذات موجود ہے میں اللہ کے ہاتھ میں پابند اور مجبور ہوں کہ اللہ کے ہر اس بندے کی پوری بات سنو جس پر ظلم کیا گیا ہے تم بولو میں سنوں گا امیر شہر نہیں سنے گا تو وہ اللہ کو کیا جواب دے گا
مجھے ڈاکوؤں نے تین چار سال پہلے ایک قافلے کو لوٹتے ہوئے میرے ماں باپ سے چھینا اور مجھے اغوا کرکے لے گئے تھے شمونہ نے کہا مجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوا تشدد نہیں ہوا زیادتی نہیں ہوئی ظلم یہ ہوا کہ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میرے ماں باپ کون تھے میں اغوا کے وقت دودھ پیتی بچی تو نہ تھی مجھے اغوا کرنے والوں نے ایسی خوبصورت فضا دی اور ایسے شہانہ ماحول میں میری تربیت کی کہ میں شہزادی بن گئی لیکن یہ تربیت ویسی نہیں تھی جیسی بچوں کو دی جاتی ہے میری ذات میں ابلیسی اوصاف پیدا کیے گئے ایسا نہیں ہوا کہ میرے آقا میرے جسم کے ساتھ کھیلتے رہتے اور مجھے ہوس کاری کے لیے استعمال کرتے بلکہ انہوں نے تربیت یہ دی کہ اپنے جسم کو مردوں سے کس طرح بچا کر رکھنا ہے
کون ہے وہ؟
ابومسلم رازی نے پوچھا کہاں ہے وہ ؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام نہیں سنا؟
شمونہ نے کہا میں اس کے ساتھ سلطان ملک شاہ کے زیر سایہ رہ چکی ہوں
وہ گیا کہاں؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
یہ میں نہیں بتا سکتی شمونہ نے جواب دیا میں اپنے متعلق سب کچھ بتا سکتی ہوں
شمونہ نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی تھی اور پھر اسے پہلے شاہ در پھر خلجان لے جاکر کس طرح کی تربیت دی گئی تھی یہ بھی بتایا کہ اس جیسی اور لڑکیوں کو بھی اسی قسم کی تربیت دی جاتی ہے پھر اس نے بتایا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ مرو گئی تو وہاں اسے حسن نے کس طرح استعمال کیا تھا
ابو مسلم رازی گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سوچ سے بیدار ہو کر شمونہ سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
سب سے پہلے تو میں پناہ چاہتی ہوں شمونہ نے کہا اگر آپ نے مجھے پناہ نہ دی تو یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے
تم میری پناہ میں ہو لڑکی! ابو مسلم رازی نے کہا
میں اپنی ذات میں بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہی ہوں شمونہ نے کہا میرے اندر میرے دل اور میرے دماغ میں ابلیسیت کے سوا کچھ بھی نہیں میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتی ہوں کہ میں ایک ناگن ہوں اور ڈسنا میری سرشت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آپ کو ہی ڈس لوں میں انسان کے روپ میں آنا چاہتی ہوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری ذات میں کوئی انسانی جذبات ہے ہی نہیں کیا آپ ایسا بندوبست کر سکتے ہیں کہ میری ایسی تربیت ہو جائے جس سے میں انسانوں کے روپ میں آ جاؤں؟
کیوں نہیں ہو سکتا ہے ابو مسلم رازی نے کہا میں فوری طور پر کسی بھلے آدمی کے ساتھ تمہاری شادی کرا دوں گا
نہیں! شمونہ نے تڑپ کر کہا کسی بھلے آدمی پر یہ ظلم نہ کرنا میں ابھی کسی کی بیوی بننے کے قابل نہیں بیوی وفادار ہوتی ہے لیکن میں فریب کاری کے سوا کچھ بھی نہیں جانتی مجھے پہلے انسان بنائیں
تم آج رات آرام کرو ابو مسلم رازی نے کہا میں کل تمہارا کچھ بندوبست کر دوں گا
ابو مسلم رازی نے شمونہ کو زنان خانے میں بھجوا دیا
اس شہر کے مضافات میں ایک آدمی رہتا تھا جو مذہب میں ڈوبا ہوا تھا اور تقریباً تاریک الدنیا تھا اس کی عمر تقریباً چالیس برس ہو گئی تھی اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس نے شادی نہیں کی تھی اور یہ بھی مشہور تھا کہ وہ عورت کے وجود کو پسند ہی نہیں کرتا تھا معلوم نہیں کس عمر میں اس کے دل میں مذہب سے لگاؤ پیدا ہوا تھا وہ زیادہ تر عبادت اور کتابوں میں مگن رہتا تھا
اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ وہ کئی فرقے بدل چکا ہے اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صحیح عقیدے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا اس وقت تک مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور یہ شخص ان بہتر فرقوں میں بٹ رہا تھا اب لوگ کہتے تھے کہ وہ سنی عقیدے کو قبول کر چکا ہے لیکن یقین کے ساتھ کہنا مشکل تھا کہ وہ کس عقیدے کو قبول کئے ہوئے ہے
وہ علم روحانیت میں بھی سر کھپاتا رہتا تھا بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ راتوں کو جاگتا ہے اور جنات کو حاضر کر لیتا ہے بہرحال لوگوں کے لئے وہ پراسرار سی شخصیت بنا ہوا تھا اس کے معتقد اس کے پاس جاتے رہتے اور وہ انہیں درس دیا کرتا تھا وہ زیادہ تر زور اس پر دیتا تھا کہ عورت ایک حسین فریب ہے اور عورت گناہوں کی علامت ہے
ابومسلم رازی اس بزرگ سے بہت متاثر تھا اس کا نام نوراللہ تھا ابو مسلم رازی اکثر اس کے یہاں جاتا تھا شمونہ نے جب ابو مسلم رازی سے یہ کہا کہ وہ بھٹکی ہوئی ایک لڑکی ہے اور جب تک دینی تربیت کے ذریعے اس کی ذات سے ابلیسیت نہیں نکالی جاتی اس وقت تک وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی رازی کو نوراللہ یاد آیا تھا
اگلے روز کا سورج ابھی طلوع ہوا ہی تھا کہ ابو مسلم رازی نے شمونہ کو بلوایا شمونہ آئی تو وہاں ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا اس کی داڑھی ابھی بالکل سیاہ تھی چہرے پر نور سر پر سبز دستار اور اس نے سبز رنگ کا چغہ زیب تن کر رکھا تھا اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی
امیر شہر ابومسلم رازی نے اسے فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد بلوا لیا تھا اور اسے بتایا تھا کہ باطنیہ فرقے کی ایک لڑکی اس کے پاس آئی ہے جو خود محسوس کرتی ہے کہ اس کے وجود میں ابلیس حلول کر آیا ہے ابو مسلم رازی نے نوراللہ کو شمونہ کے متعلق تمام تر باتیں بتائی تھیں جو نوراللہ انہماک سے سنتا رہا تھا لیکن ابو مسلم نے جب یہ کہا کہ اس لڑکی کی تربیت کرنی ہے تو نوراللہ پریشان اور بے چین ہو گیا
کیا میں کچھ دیر کے لئے اس کے پاس آیا کروں گا ؟
نور اللہ نے پوچھا
نہیں! ابومسلم رازی نے کہا یہ لڑکی ایک امانت کے طور پر آپ کے حوالے کر رہا ہوں یہ ہر وقت آپ کے زیر سایہ اور زیر تربیت رہے گی
میرے متعلق شاید آپ ایک بات نہیں جانتے نوراللہ نے کہا میں آج تک عورت کے سائے سے بھی دور رہا ہوں اور میں نے شادی بھی نہیں کی آپ اس لڑکی کو میرے حوالے کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھیں میں ہر روز یہاں آ جایا کروں گا
میں آپ کا احترام کرتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا اس احترام کی وجہ یہ ہے کہ آپ مذہب کے رنگ میں رنگے ہوئے انسان ہیں اور آپ کو اپنے نفس پر پورا پورا قابو حاصل ہوگا میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کس بنا پر عورت کے وجود سے گھبراتے ہیں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک اور باطنی فرقہ بن چکا ہے جو لڑکیوں کو اپنی تبلیغ اور تشہیر کے لیے استعمال کر رہا ہے میں حکومت کی سطح پر اس کے انسداد کا کچھ بندوبست ضرور کروں گا لیکن میں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچا ہے کہ اس لڑکی جیسی گمراہ کی ہوئی لڑکیوں کو آپ جیسے عالموں کے حوالے کر کے اس کی صحیح تربیت کی جائے آپ اس لڑکی سے بسم اللہ کریں اور اسے اپنے ساتھ لے جائیں
یہ حکم حاکم تھا جس کے آگے نوراللہ بول نہ سکا ابومسلم رازی نے شمونہ کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ کچھ دن نوراللہ کے ساتھ رہے گی
تم نے وہاں مہمان بن کے نہیں رہنا ابومسلم رازی نے شمونہ سے کہا کھانا پکانا گھر میں جھاڑو دینا اپنے اور ان کے کپڑے دھونا اور گھر کے دیگر کام تم نے کرنے ہیں تم ان کی بیوی نہیں ہوگی بلکہ نوکرانی ہوگی اور تم ان کی خدمت کرو گی جب تم خود کہوں گی کہ تمہاری ذات سے ابلیسی اثرات دھل گئے ہیں تو کسی کے ساتھ تمہاری شادی کر دی جائے گی ابومسلم رازی نے نوراللہ سے کہا کہ وہ لڑکی کو ساتھ لے جائے نوراللہ اسے ساتھ لے گیا
اپنے ہاں لے جا کر نور اللہ نے شمونہ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کی ذات میں شیطان حلول کر آیا ہے یا یہ کہ اس پر شیطان غالب ہے شمونہ نے اسے اپنی زندگی کی اس وقت تک کی روداد سنا ڈالی
اپنا من مار ڈالو نوراللہ نے کہا
یہ کیسے ہوگا؟
اپنے آپ کو مٹی میں ملا دو نوراللہ نے کہا یہ بھول جاؤ کہ تمہارا رہن سہن شہزادیوں جیسا رہا تھا اس گھر میں جھاڑو د، میں نے یہیں چھوٹی سی مسجد بنا رکھی ہے اسے صاف ستھرا رکھو دھیان ہر وقت اللہ کی ذات پر رکھو اور اپنے دماغ میں اس حقیقت کو بٹھا لو کہ تم نے ایک نہ ایک دن اس مٹی میں مل کر مٹی ہو جانا ہے اپنی نفسانی خواہشات کو اور سفلی جذبات کو کچل ڈالو
اس طرح نوراللہ نے اس کی تعلیم و تربیت شروع کر دی نوراللہ کے یہاں جب اس کے معتقد اور مرید آتے تھے اس وقت شمونہ کمرے میں چلی جاتی تھی رات کو سونے سے پہلے نوراللہ شمونہ کو اپنے سامنے بیٹھاتا تھا اور اسے مذہب کے سبق دیتا تھا اس کے بعد وہ شمونہ کو الگ کمرے میں بھیج کر اسے کہتا کہ اندر سے دروازہ بند کر لے صبح اذان کے وقت وہ شمونہ کے دروازے پر دستک دیتا اور اسے جگا کر نماز پڑھاتا تھا
دن گزرتے چلے گئے نوراللہ نے محسوس کیا کہ اس کے دل میں عورت کی جو نا پسندیدگی یا نفرت تھی وہ کم ہوتی جارہی ہے شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کے استاد کا رویہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے اس رویے میں کچھ ایسا تاثر تھا جیسے نوراللہ نے اسے قبول کر لیا ہو
ایک روز شمونہ گھر کے سارے کاموں سے فارغ ہوکر ایسی تھکان سی محسوس کرنے لگی جیسے اسے نیند آ رہی ہو وہ لیٹ گئی نوراللہ کہیں باہر چلا گیا تھا وہ آیا تو شمونہ کو نہ دیکھ کر اس کے کمرے کے دروازے میں جا کھڑا ہوا شمونہ بڑی گہری نیند سوئی ہوئی تھی وہ پیٹھ کے بل پڑی تھی اس کے سر سے اوڑھنی سرک گئی تھی اس کے چند ایک بال اس کے گورے چٹے گالوں پر آگئے تھے اس کا شباب بے نقاب تھا
نوراللہ کا ایک قدم دہلیز کے اندر چلا گیا اس نے وہ قدم پیچھے کو اٹھایا لیکن اس کی ذات سے ہی ایک قوت بیدار ہوئی جس نے اسے پیچھے ہٹنے سے روک دیا اور اس نے دوسرا پاؤں اٹھا کر دہلیز کے اندر کر دیا نوراللہ کمرے میں داخل ہوگیا لیکن ایک ہی قدم آگے بڑھا کر رک گیا
شمونہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی نہ جانے کیسا خواب تھا کہ اس کے ہونٹوں پر تبسم آگیا نوراللہ کچھ دیر شمونہ کے تبسم کو دیکھتا رہا اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا تو شمونہ کا تبسم ایسی مسکراہٹ کی صورت اختیار کر گیا جس سے اس کی دانت ذرا ذرا سے نظر آنے لگے اس مسکراہٹ میں شمونہ کے حسن میں طلسماتی سا تاثر پیدا کر دیا
نوراللہ ایک دو قدم اور آگے چلا گیا اور پھر رک گیا اس کے آگے بڑھنے اور روکنے میں اس کے اپنے ارادے اور اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں یہ ایک ایسی حرکت تھی جو اس نے اپنے ارادے سے کی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس لڑکی کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا اس کی ذات میں ایک کشمکش شروع ہو گئی تھی جسے وہ سمجھ نہ پایا
آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں نوراللہ کے کانوں سے شمونہ کی مخمور سی آواز ٹکرائی
وہ چونک کر اس کیفیت سے بیدار ہو گیا جو اس پر طاری ہو چکی تھی وہ بوکھلایا اور فوری طور پر یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ آگے بڑھے اور شمونہ کو کوئی جواب دے یا باہر چلا جائے شمونہ بڑی تیزی سے اٹھی اس کے دل میں نور اللہ کا احترام اور تقدس اتنا زیادہ تھا کہ اس پر مرعوبیت طاری رہتی تھی
آپ کس وقت آئے ؟
شمونہ نے لونڈیوں اور غلاموں جیسے لہجے میں پوچھا اور کہنے لگی میں ذرا سو گئی تھی آپ چپ کیوں ہیں کیا آپ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں
نہیں نہیں نوراللہ نے بوکھلائی ہوئی سی آواز میں کہا میں تمہیں دیکھنے اندر آ گیا تھا نہیں میں خفا نہیں ہوں وہ پیچھے مڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا
دو تین دنوں بعد نوراللہ شمونہ کو سامنے بٹھایا کچھ پڑھا رہا تھا شمونہ کا سر جھکا ہوا تھا اس کی اوڑھنی سر سے ذرا سرک گئی اس کے ریشم جیسے ملائم بال بے نقاب ہوگئے شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کا قابل احترام استاد بولتے بولتے چپ ہو گیا ہے اس نے آہستہ سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ استاد کی نظریں اس کے ماتھے پر اس طرح مرکوز تھی جیسے وہ آنکھیں جھپکنا بھول گیا ہو ایک دو لمحوں بعد اس کی نظریں شمونہ کی نظروں سے ٹکرائیں نوراللہ پر بےخودی کی کیفیت طاری تھی وہ زلزلے کے جھٹکے سے تہہ و بالا ہو گئی
شمونہ کوئی سیدھی سادی دیہاتن یا نادان بچی نہیں تھی اسے جو تربیت دی گئی تھی اس میں خاص طور پر بتایا گیا تھا کہ مرد کسی خوبصورت عورت کو کیسی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کے چہرے کا تاثر کیا ہوتا ہے
شمونہ نے وہ تاثر اپنے استاذ کے چہرے پر دیکھا اور اس نے اپنے استاد کی آنکھوں میں بھی ایک تاثر دیکھا جسے وہ اچھی طرح سمجھتی تھی لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ مذہب میں ڈوبا ہوا یہ شخص جس کا دل عورت کو گناہوں کی علامت سمجھتا ہے اسے ہوس کی نظروں سے دیکھ رہا تھا
اٹھو شمونہ! نوراللہ نے کہا آج اتنا ہی کافی ہے اب تم کھانا تیار کرو
شمونہ تو چولہے پر جاکر مصروف ہو گئی لیکن نوراللہ اپنی ذات میں ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس کرتا رہا شمونہ کا ذہن بھی پرسکون نہ تھا وہ اس سوچ میں کھوئی ہوئی تھی کہ اتنے معزز اور مقدس انسان کے چہرے پر اور آنکھوں میں ایسے تاثرات کیوں آئے تھے اس نے اپنے آپ کو یہ دھوکہ دینے کی بھی کوشش کی کہ یہ اس کی اپنی غلط فہمی ہے اور یہ اس کے استاد کا تاثر نہیں تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا استاد ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہو چکا ہے جو اس کی روح کو بھی اذیت پہنچا رہی ہے
جس قدرتی رفتار سے شب و روز گزرتے جا رہے تھے اس سے زیادہ تیز رفتار سے شمونہ اپنی ذات میں ایک پاکیزہ اور پراثر تبدیلی دیکھ رہی تھی وہ ان دنوں کو بھولتی جا رہی تھی جو دن اس نے حسن بن صباح کے گروہ میں گزارے تھے وہ صاف طور پر محسوس کر رہی تھی کہ وہ ابلیس کے جال سے نکلتی آ رہی ہے
چند دن اور گزرے دوپہر کے وقت شمونہ کچھ دیر کے لئے سو گئی یہ اس کا روز کا معمول تھا اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے استاد کو اپنی چارپائی کے قریب کھڑے دیکھا اسے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے استاد نے اس کے سر پر اور شاید گالوں پر بھی ہاتھ پھیرا تھا وہ ہاتھ کے لمس کو ابھی تک محسوس کر رہی تھی لیکن اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ہاتھ اس کے مقدس استاد کا تھا وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی
کیا آپ نے مجھے جگایا ہے ؟
شمونہ نے نوراللہ سے مسکراتے ہوئے پوچھا نوراللہ نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں ایسا جواب دیا جس میں ہاں بھی تھی نہیں بھی شمونہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی نوراللہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتا کمرے سے نکل گیا شمونہ اس روز کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی اس نے دیکھا کہ نوراللہ شام تک چپ چاپ رہا چپ رہنا اس کا معمول نہیں تھا
عصر اور مغرب کی نماز کے درمیان نوراللہ کے پاس ہر روز کی طرح اس کے شاگرد اور معتقد وغیرہ آئے تو اس نے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرکے درس نہ دیا وہ سب چلے گئے نوراللہ وہیں بیٹھا رہا شمونہ نے اسے دیکھا اور چپ رہی عشاء کی نماز کے بعد جب نوراللہ ایک کتاب کھول کر پڑھنے لگا تو شمونہ اس کے سامنے جا بیٹھی
کیوں ؟
نوراللہ نے پوچھا آج سوؤ گی نہیں
نہیں! شمونہ نے بڑی نرم آواز میں کہا میں آج آپ کے پاس بیٹھوں گی
تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے شام کو درس نہیں دیا تھا نوراللہ نے کہا میرے سر میں گرانی ہے اس وقت تمہیں بھی سبق نہیں دے سکوں گا اگر میری بتائی ہوئی کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئی ہو تو وہ پوچھ لو اور جا کے سو جاؤ
ہاں میرے مرشد! شمونہ نے کہا ایک بات ہی پوچھنی ہے یہ بات آپ نے پہلے کبھی نہیں بتائی یہ مسئلہ میرے اپنے ذہن میں آیا ہے
پوچھو! نوراللہ نے شگفتہ لہجے میں کہا اور کتاب بند کرکے الگ رکھ دی میں آپ میں ایک تبدیلی دیکھ رہی ہوں شمونہ نے کہا آپ روز بروز خاموش ہوتے چلے جا رہے ہیں
یہ میری عادت ہے نوراللہ نے کہا کبھی کبھی میں خاموش ہو جایا کرتا ہوں کچھ دن اور میری یہی حالت رہے گی
نہیں میرے مرشد! شمونہ نے کہا میں گستاخی کی جرات نہیں کر سکتی لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ آپ کی زبان نے جو کہا ہے یہ آپ کے دل کی آواز نہیں آپ مجھ سے خفا ہیں آپ کے دل میں میرے لئے ناپسندیدگی ہے
ایک بات کہوں شمونہ! نوراللہ نے کہا میرے لئے مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ میرے دل میں تمہارے لئے ناپسندیدگی نہیں تم جس پیار سے میری خدمت کر رہی ہو اس نے میرے سوچیں بدل ڈالی ہیں
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہوں میرے مرشد! شمونہ نے کہا میری عمر نہ دیکھے میری تربیت دیکھیں میں سلطان ملک شاہ کے یہاں اس تربیت کا عملی تجربہ کر آئی ہوں سلطان کا مشیر خاص احتشام مدنی جو زاہد اور پارسا تھا میرے سامنے موم کی طرح پگھل گیا تھا میں نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ آپ مجھے نادان نہ تجربے کار اور کمسن لڑکی نہ سمجھتے رہیں میں کسی بھی آدمی کے دل کی بات اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے پڑھ لیا کرتی ہوں
شمونہ! نوراللہ نے کہا تم فوراً وہ بات کیوں نہیں کہہ دیتی جو تمہارے دل میں ہے
ڈرتی ہوں میرے آقا!
مت ڈرو نوراللہ نے کہا اللہ سچ بولنے والوں کو پسند کرتا ہے
لیکن اللہ کے بندے سچ سننے کی تاب نہیں رکھتے شمونہ نے کہا اگر آپ اللہ کی خوشنودی کے طلبگار ہیں تو میں بے خوف ہو کر بات کروں گی میں بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ میں آپ کے سامنے بیٹھتی ہوں تو آپ کی آنکھوں میں وہی تاثر ہوتا ہے جو میں عام سے لوگوں کی آنکھوں میں دیکھا کرتی ہوں پھر میں نے تین بار آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ میں دن کے وقت سوئی ہوئی ہوں اور آپ میرے پاس کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں آپ نے میرے سر اور میرے منہ پر ہاتھ بھی پھیرا ہے
کیا تمہیں یہ اچھا نہیں لگا ؟
نوراللہ نے پوچھا
اگر آپ کو یوں ہی اچھا لگا ہے تو میں کچھ نہیں کہوں گی شمونہ نے کہا لیکن میں یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ میں آپ کو کتنی اچھی لگتی ہوں؟
شمونہ! نوراللہ نے لپک کر شمونہ کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے لیا تم نے میری آنکھوں میں جو پڑھا ہے ٹھیک پڑھا ہے اور تم نے غلط نہیں کہا کہ تمہیں سویا ہوا دیکھ کر میں تین چار دن تمہارے پاس جا کھڑا ہوا اور تمہیں دیکھتا رہا تھا
کس نیت سے؟
اس نیت سے کہ تمہیں اپنی زندگی کی رفیقہ بنالوں نوراللہ نے کہا کیا تم مجھے قبول کرو گی؟
نہیں میرے مرشد شمونہ نے جواب دیا
کیا میں چالیس برس کی عمر میں بوڑھا ہو گیا ہوں؟
نہیں اے مقدس ہستی شمونہ نے کہا میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کروں گی یہ بات بھی ہے کہ میں نے آپ کو کبھی اپنی سطح پر لا کر دیکھا ہی نہیں میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:18 }
میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا
مجھے شک ہے تم مجھ سے اپنی قیمت وصول کرنا چاہتی ہو نوراللہ نے غصیلے لہجے میں کہا میں تمہیں شادی کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں ہوس کاری کے لیے نہیں
اپنی محنت پر پانی نہ پھیریں میرے آقا شمونہ نے کہا میں بھٹک گئی تھی آپ نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے میں نے تو سنا تھا کہ آپ تاریک الدنیا ہیں میں بھول گئی تھی میں کون ہوں آپ نے میری آنکھوں کے آگے سے پردے ہٹادئیے میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے میری نگاہ میں آپ فرشتہ ہیں
جاؤ شمونہ نوراللہ نے کہا جاؤ سو جاؤ صرف ایک بات کہوں گا میں نے دنیا کو ترک نہیں کیا تھا دنیا نے مجھے ترک کر دیا تھا
شمونہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہ نوراللہ کی بات سننے کے لیے پھر بیٹھنے لگی تھی لیکن نوراللہ نے اسے کہا جاؤ سو جاؤ تو وہ اپنے کمرے میں چلی گئی
شمونہ کو اس کے کمرے میں بھیج کر وہ خود وہیں بیٹھا رہا اس کا ذہن پیچھے کو چل پڑا اور وہاں جاکر روکا جہاں اس کا شعور بیدار ہوا اور وہ بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچ گیا اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بچوں کے ساتھ پیار بھی کیا جاتا ہے اسے کوئی عورت یاد نہیں آئی جس نے اسے گود میں لیا ہو صرف ایک بات تھی جو اس کے ذہن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی جہاں تک اس کی یاد ماضی کے دوسرے اوفق تک جاتی تھی وہ اپنے آپ کو دجلہ کے کنارے ایک کشتی کو صاف کرتا اس میں سے پانی نکالتا کشتی میں مسافروں کا سامان رکھتا اور ساحل کی ہر قسم کی مشقت کرتا دیکھتا تھا اس وقت اس کی عمر چھ سات سال تھی جب اسے ان کاموں پر لگا دیا گیا تھا اس مشقت کے عوض اسے دو وقت کی روٹی اور اپنے آقاؤں کی پھٹکار اور دھتکار ملتی تھی
دس گیارہ سال کی عمر میں اسے بتایا گیا تھا کہ وہ اس جھوپڑی میں پیدا نہیں ہوا تھا جس جھوپڑی میں وہ رہتا تھا اور جس کے رہنے والوں کو وہ اپنا والدین سمجھتا تھا یہ لوگ ملاح تھے جو مسافروں کو کشتی کے ذریعے دریا پار کراتے تھے ایک روز اس پر یہ انکشاف ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے یہ دریا سیلابی تھا اور ایک کشتی پار والے کنارے سے اس طرف آ رہی تھی اور یہ مسافروں سے اٹی پڑی تھی کشتی اتنے زیادہ مسافروں کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں تھی کشتی دریا کے وسط میں پہنچی تو اچانک سیلاب کا زور بڑھ گیا کشتی الٹ گئی
ملاحوں نے مسافروں کو بچانے کے لیے اپنی اپنی کشتیاں دریا میں ڈال دیں لیکن سیلاب اتنا تیز و تند تھا کہ مسافر تنکوں کی طرح سیلاب میں گم ہوتے چلے جا رہے تھے ایک کشتی کو اس کے ملاح خاصا آگے لے گئے انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جس نے دودھ پیتے ایک بچے کو اپنے ہاتھوں میں لیے اس طرح اوپر اٹھا رکھا تھا کہ بچہ ڈوب نہ جائے ملاح نے کشتی اس کے قریب کرکے بچے کو پکڑ لیا دوسرے ملاح نے ہاتھ لمبا کیا کہ عورت کو بھی سیلاب میں سے نکال لے لیکن عورت میں اتنی تاب نہیں رہی تھی کہ وہ دو گز اور تیر سکتی اس نے دیکھا کہ بچہ بچ گیا ہے تو اس نے اپنے آپ کو سیلاب کے حوالے کردیا اور ملاحوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی
اس بچے کو ملاحوں نے اس طرح پالا کہ اسے کبھی بکری کا دودھ پلایا اور کبھی اونٹنی کا وہ چار پانچ سال کا ہوا تو اسے کشتی رانی کی مشقت پر لگا دیا
ان ملاحوں نے اس بچے کا نام نوراللہ رکھا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھے
نوراللہ کو دس گیارہ سال کی عمر میں پتہ چلا کہ اس کے ماں باپ دریا میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے پالا تھا تو اس کے دماغ میں جو دھماکا ہوا وہ اسے چالیس برس کی عمر میں بھی یاد تھا وہ اسی کو زندگی سمجھتا تھا جس میں ملاحوں نے اسے ڈال دیا تھا لیکن اس انکشاف نے اس پر ایسی کیفیت طاری کر دی جسے وہ بھٹکا ہوا راہی ہوں اور اپنی منزل کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو
ایک روز کشتی سے مسافر اترے تو ایک امیر کبیر آدمی نے اسے کہا کہ اس کا سامان اٹھا کر وہاں تک پہنچا دے جہاں سے اونٹ مل جاتے ہیں نوراللہ نے اس کا سامان وہاں تک پہنچا دیا اور واپس چل پڑا، اس آدمی نے اسے بلایا اور ایک دینار اجرت دی دس گیارہ سال عمر کا نوراللہ دینار کو ہاتھ لگاتے ڈرتا تھا اس آدمی نے اسے کہا کہ یہ اس کا حق ہے
دنیا میں میرا کوئی حق نہیں نوراللہ نے کہا کسی پر میرا حق نہیں میں مشقت کرتا ہوں اور روٹی اور رات کو جھوپڑی کی چھت مل جاتی ہے ذرا سی سستی کرو تو مجھے مارا پیٹا جاتا ہے میں یہ اجرت لے کر جاؤں گا تو وہ لوگ مجھ سے چھین لیں گے تمہارا باپ ہے؟
نہیں اسی دریا میں ڈوب گیا تھا
ماں ہے؟
نہیں وہ بھی ڈوب گئی تھی
کوئی بھائی کوئی چچا ماموں
نوراللہ نے اسے وہ سارا واقعہ سنا دیا جو کچھ دن پہلے اسے سنایا گیا تھا
میرے ساتھ چلو گے؟
اس امیرکبیر آدمی نے پوچھا اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر کہا تنخواہ بھی ملے گی روٹی بھی ملے گی کپڑے بھی ملیں گے اور رہنے کو بہت اچھی جگہ ملے گی
نوراللہ نے یہ پہلا شخص دیکھا جس نے اس کے ساتھ پیار سے بات کی تھی اور اسے اس قابل سمجھا تھا کہ اسے اچھی جگہ رکھا جائے اچھی قسم کا روٹی کپڑا دیا جائے اور اجرت بھی دی جائے وہ وہیں سے اس شخص کے ساتھ چل پڑا
دونوں کرائے کے ایک ہی اونٹ پر سوار ہوئے اور شام کو شتربان نے انہیں ایک بڑے شہر میں پہنچا دیا یہ شہر نیشا پور تھا یہ آدمی وہی کا رہنے والا تھا اس کی حویلی بڑی ہی شاندار تھی وہاں اس شخص کی دو بیویاں رہتی تھیں ایک ادھیڑ عمر اور دوسری نوجوان تھی نوراللہ کو اس گھر میں نوکر رکھ لیا گیا وہاں ایک عورت پہلے سے ملازم تھی
نوراللہ روزمرہ کے کام کاج کرتا رہا اسے اتنی زیادہ سہولت میسر آ گئی تھی کہ وہ یوں سمجھتا تھا جیسے جہنم سے نکل کر جنت میں آگیا ہو کھانے پینے کو اتنا اچھا ملتا تھا کہ گیارہ بارہ سال کی عمر میں وہ سولہ سترہ سال کا نوجوان نظر آنے لگا
ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا
ایک روز اس کا آقا اپنی ادھیڑ عمر بیوی اور بچوں کو ساتھ لے کر کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر چلا گیا پیچھے اس کی نوجوان بیوی رہ گئی اس سے اگلی رات کا واقعہ ہے ملازمہ اپنا کام کاج ختم کر کے جا چکی تھی نوراللہ کو ایسے شک ہوا جیسے کوئی آدمی حویلی کے صحن میں سے گزرا ہے اس نے اٹھ کر دیکھا ایک آدمی اس کی نوجوان مالکن کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا ،نوراللہ دوڑ کر گیا دروازہ بند ہوچکا تھا اس نے دروازے پر دستک دی دروازے کھلا اور مالکن باہر آئی
کیا ہے؟
مالکن نے پوچھا
یہ کون ہے جو اندر آیا ہے؟
نوراللہ نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے پوچھا
تم کون ہو پوچھنے والے ؟
حسین اور نوجوان مالکن نے بڑے رعب سے پوچھا
میں آقا کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں نوراللہ نے کہا آقا کہہ گئے ہیں کہ گھر میں تم ہی ایک مرد ہو گھر کا خیال رکھنا
مالکن نے اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا تھپڑ کی آواز پر وہ آدمی جو کمرے میں گیا تھا باہر نکل آیا
کون ہے یہ؟
اس شخص نے پوچھا
میرا پہرے دار بن کے آیا ہے لڑکی نے کہا میں اس کی زبان ہمیشہ کے لئے بند کر دوں گی
اس شخص نے نوراللہ کو بازو سے پکڑا گھسیٹ کر اندر لے گیا اور اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دیا پھر اس کی شہ رگ پر پاؤں رکھ کر دبا دیا اور خنجر نکال کر اس کے اوپر جھکا
میں اس کا پیٹ چیر دوں گا اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کے پیٹ پر رکھ کر کہا اس کی لاش باہر کتوں کے آگے پھینک دوں گا
آج اسے معاف کر دو نوجوان مالکن نے اپنے آشنا کو پَرے ہٹاتے ہوئے کہا یہ زبان بند رکھے گا اس نے کبھی بھی زبان کھولی تو اس کے دونوں بازو کاٹ کر اسے جنگل میں پھینک دینگے پھر اسے گیدڑ اور بھیڑیے کھائیں گے
نوراللہ اٹھ کھڑا ہوا وہ سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا
وعدہ کر کے تو زبان بند رکھے گا اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کی شہہ رگ پر رکھ دی اور کہا خاموشی سے چلا جا اور خاموش رہنا
نوراللہ ظلم و تشدد سے بہت ڈرتا تھا وہ چپ چاپ خوفزدگی کی حالت میں اپنے کمرے میں چلا گیا
اس کے بعد اس کے آقا کی واپسی تک یہ آدمی دو تین مرتبہ رات کو اس کی مالکن کے پاس آیا اور نوراللہ اپنے کمرے میں دبکا پڑا رہا اس کا آقا واپس آیا تو نوراللہ کی جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنے آقا کو بتاتا کہ اس کی غیر حاضری میں یہاں کیا ہوتا رہا ہے
ایک بار چھوٹی مالکین نے نوراللہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور پیار سے بات کرنے کی بجائے اسے پھر وہی دھمکی دی کہ اس کا پیٹ پھاڑ کر یا بازو کاٹ کر اسے بھیڑیوں کتوں اور گیدڑوں کے آگے پھینک دیا جائے گا
نور اللہ کا کوئی مذہب نہیں تھا نہ اس نے کبھی سوچا تھا کہ مذہب کے لحاظ سے وہ کون اور اس کا آقا کون ہے نہ اس نے خود کبھی عبادت کی تھی نہ اس نے اپنے آقا یا اس کی بیویوں کو عبادت کرتے دیکھا تھا اس میں یہ احساس بیدار ہو گیا تھا کہ مذہب انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے اس سے تین چار آدمی پوچھ چکے تھے کہ وہ مسلمان ہے یا عیسائی وہ کسی کو بتاتا کہ وہ مسلمان ہے اور کسی کو عیسائی بتاتا ایک بار ایک آدمی نے اسے کہا تمہارا آقا تو باطنی معلوم ہوتا ہے اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ باطنی کیا ہوتے ہیں
ایک رات اس کے آقا نے اسے شراب لانے کو شراب خانے بھیجا وہ مسجد کے قریب سے گزرا عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور خطیب درس دے رہا تھا نوراللہ کے کانوں میں خطیب کے یہ الفاظ پڑے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہمیں ان لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام نازل ہوا ہے نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا خطیب سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کر رہا تھا نوراللہ کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے اسے صرف یہ احساس ہوا کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے
نوراللہ جلدی میں تھا اس کا آقا شراب کے انتظار میں تھا وہ دوڑا گیا شراب خریدی اور اپنے آقا کو جا دی اس کے ذہن میں خطیب کے یہ الفاظ اٹک کے رہ گئے تھے جو اس نے مسجد کے دروازے میں کھڑے ہو کر سنے تھے وہ بھی مدد اور سیدھے راستے کی رہنمائی کا طلب گار تھا
اگلی رات نوراللہ روزمرہ کے کام کاج سے فارغ ہو کر مسجد کے دروازے پر جا پہنچا خطیب روزمرہ کی طرح درس دے رہا تھا نوراللہ دروازے میں جا کر کھڑا ہوگیا خطیب نے اسے دیکھا تو اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ ڈرتے جھجکتے خطیب کے پاس چلا گیا
دروازے میں کھڑے کیا کر رہے تھے؟
خطیب نے پوچھا
آپ کی باتیں سن رہا تھا نوراللہ نے جواب دیا کل باہر کھڑا سنتا رہا ہوں
مسلمان ہو؟
معلوم نہیں نوراللہ نے بڑی سادگی سے جواب دیا میں یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں اس وقت ایک شیخ کے گھر ملازم ہوں
خطیب نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور اسے بتایا کہ جس شیخ کا اس نے نام لیا ہے وہ بے دین ہے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کس فرقے کا آدمی ہے اور اس کا عقیدہ کیا ہے ؟
کل سے تم میرے پاس آ جایا کرو خطیب نے اسے بڑے پیار سے کہا اب تم چلے جاؤ
اگلے روز سے نوراللہ خطیب کے پاس جانا شروع کر دیا اس نے خطیب کو بتایا کہ اس کے ماں باپ سیلاب میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے سیلاب سے نکالا تھا اس نے خطیب کو اپنی گزری ہوئی زندگی کا ایک ایک لمحہ سنایا خطیب نے اسے پڑھانا لکھانا شروع کردیا یہ خالصتاً دینی تعلیم تھی نوراللہ نے اس میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا تقریباً ایک سال بعد اس نے خطیب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس شیخ کی نوکری چھوڑ کر خطیب اور مسجد کی خدمت کرنا چاہتا ہے خطیب نے اسے اپنے پاس رکھ لیا
نوراللہ نے پندرہ سال اس خطیب کے ساتھ گزارے اور دین کے امور میں خاصی دسترس حاصل کر لی خاص بات یہ ہوئی کہ اس کے ذہن میں ابلیس اٹک گیا اس کا عقیدہ بن گیا کہ ہر برا کام ابلیس کرواتا ہے
دوسری خاص بات یہ ہوئی کہ خطیب کی ایک ہی بیوی تھی جو صرف تین سال کی رفاقت کے بعد مر گئی اور خطیب نے دوسری شادی نہ کی خطیب نے کسی کو بھی نہ بتایا کہ اس نے دوسری شادی کیوں نہیں کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ اسے اس بیوی سے اتنا زیادہ پیار تھا کہ اس نے کسی اور عورت کو قبول ہی نہ کیا یا یہ بات تھی کہ اس بیوی سے وہ اس قدر نالاں تھا کہ مر گئی تو خطیب نے شادی سے توبہ کرلی وجہ جو کچھ بھی تھی خطیب نے اپنے شاگرد نوراللہ کو عورت سے متنفر کردیا اور اس کے ذہن میں یہ عقیدہ ڈال دیا کہ عورت گناہوں کی علامت ہوتی ہے اور ابلیس عورت کے زیادہ قریب ہوتا ہے
چند برس اور گزرے تو خطیب فوت ہوگیا نوراللہ ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ وہ مسجد کو بھی چھوڑ گیا اور جنگل میں ایک کٹیا سی بنا کر وہاں جا ڈیرہ لگایا اب وہ عالم دین کہلانے کے قابل ہو چکا تھا خطیب کے جو شاگرد تھے وہ نوراللہ کے پاس جنگل میں پہنچنے لگے اور نوراللہ نے انہیں درس دینا شروع کر دیا اس کی شہرت اور اس کا نام ابو مسلم رازی تک پہنچا ابومسلم رازی رے کا امیر شہر تھا دینی علوم سے اسے روحانی لگاؤ تھا وہ اتنی دور جنگل میں جا کر نوراللہ سے ملا اور اس سے متاثر ہوا متاثر بھی اتنا ہوا کہ ایک روز اس کے لئے سواری ساتھ لے کر اسے اس میں بٹھایا اور اپنے شہر میں لے آیا شہر میں اسے بڑا اچھا مکان دیا اور کہا کہ یہاں وہ جو جی چاہے کرے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دے لوگ اس کے پاس آنے لگے بعض لوگ اس سے اتنا زیادہ متاثر ہو گئے تھے کہ اس سے غریب کا حال معلوم کرتے تھے وہ زیادہ تر ابلیس اور عورت پر زور دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ان دو چیزوں سے اپنے جسم اور اپنی روح کی حفاظت کرو
آج نوراللہ اسی مکان میں بیٹھا تھا جو اسے ابومسلم رازی نے دیا تھا لیکن اس پر جو کیفیت طاری تھی وہ کوئی اجنبی دیکھتا تو یہ تسلیم نہ کرتا کہ یہ شخص عالم فاضل ہے وہ اسے ذہنی مریض سمجھتا اسے اپنا ماضی یاد آرہا تھا شمونہ اپنے کمرے میں گہری نیند سو گئی تھی اسے احساس ہی نہیں تھا کہ نوراللہ کے وجود میں اور جذبات میں وہ کیسے زلزلے برپا کر آئی ہے
اسی نوراللہ نے جس نے ہمیشہ یہ سبق دیے تھے کہ عورت سے دور رہو شمونہ سے کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے لیکن شمونہ جو گنہگاروں کی پروردہ تھی گناہوں کی دنیا سے نکل کر پارسائی میں داخل ہو گئی تھی اس شمونہ نے نوراللہ سے کہہ دیا تھا میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کرونگی شمونہ نے یہ بھی کہا تھا میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا
نوراللہ کی آنکھوں کے آگے سے اس کا پورا ماضی تیز رفتار گھوڑا گاڑیوں کی قطار کی مانند گزر گیا وہ اپنے وجود میں پیاس کی تلخی محسوس کر رہا تھا ایک تشنگی تھی کچھ محرومیاں تھیں جو کانٹوں کی طرح اس کے حلق میں چبھ رہی تھی تلخی بڑھتی چلی گئی
دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ذات سے ایک شعلہ اٹھا جس نے اس کے علم و فضل کو جلا ڈالا
وہ اپنے لئے اجنبی بن گیا
وہ بڑی تیزی سے اٹھا اور اس کمرے میں داخل ہو گیا جس میں شمونہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی اس رات شمونہ نے دروازہ بند نہیں کیا تھا کیونکہ اسے توقع تھی کہ نوراللہ اسے بلائے گا وہ لیٹی اور نیند نے اسے دبوچ لیا
نوراللہ اس کے پلنگ پر جا بیٹھا کمرہ تاریک تھا برآمدے میں جلتے ہوئے دیے کی ہلکی ہلکی روشنی دروازے سے اندر آ رہی تھی جس میں سوئی ہوئی شمونہ کا سراپا دھندلا سا نظر آ رہا تھا
شمونہ گہری سانسیں لے رہی تھی نوراللہ کی سانسیں بے قابو سی ہو گئی اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اس نے ہاتھ شمونہ کی طرف بڑھایا یہ ہاتھ کچھ لرزتا ہوا آہستہ آہستہ شمونہ کے پر شباب جسم کی طرف بڑھ رہا تھا ہاتھ جب شمونہ کے جسم کے قریب گیا تو آسمان پر اچانک گھٹاؤں کی گرج سنائی دی نوراللہ نے یکلخت ہاتھ پیچھے کھینچ لیا جیسے چوری کرتے عین موقعے پر پکڑا گیا ہو جب اسے احساس ہوا کہ یہ گھٹاؤں کی گرج تھی تو اس کے دل کو حوصلہ ملا
آپ! شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا یہاں کیوں؟
مت گھبراو شمونہ! نوراللہ نے شمونہ کا ہاتھ چھوڑے بغیر کہا آج وہ پیاس مجھے جلا کر راکھ کر رہی ہے جسے میں نے پہلے کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا میری ایک بات سن لو
شمونہ کچھ ایسی ڈری کے وہ پلنگ پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کو سرکنے لگی نوراللہ نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف بڑے آرام سے کھینچا
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا نوراللہ نے ایسی آواز میں کہا جو اس کی قدرتی آواز لگتی ہی نہیں تھی مجھے بہن کا پیار نہیں ملا میں بیٹی کے پیار سے محروم رہا میں نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ لگا کر بھی نہیں دیکھا لیکن تم میرے قریب آئی تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ جس عورت کو میں نفرت کی علامت سمجھتا رہا ہوں وہ پیار کا سرچشمہ ہے تم ہو وہ سرچشمہ مجھ سے دور نہ ہٹو اس نے شمونہ کو ذرا زور سے اپنی طرف کھینچا
نہیں میرے مرشد! شمونہ نے روندھی ہوئی سی آواز میں کہا میں بدی سے نیکی کی طرف شر سے خیر کی طرف آئی ہوں مجھے اس راستے پر آپ نے ہی ڈالا تھا آپ اس طرف نہ جائیں جدھر سے میں واپس آئی ہوں مجھے اللہ اور ابلیس کے درمیان بھٹکتا نہ چھوڑیں
میری بات سمجھنے کی کوشش کرو شمونہ! نوراللہ نے ایسی ڈگمگائی ہوئی آواز میں کہا جیسے وہ نشے میں ہو تھوڑی سی دیر کے لئے مجھے بھٹک جانے دو مجھے پیاسا نہ لوٹاؤ
آسمان پر بجلی بڑی زور سے کڑکی پھر گھٹا گرجی اور اس کے ساتھ ہی طوفان باد باراں شروع ہو گیا دروازے کے کھلے کواڑ زور زور سے بجنے لگے برآمدے میں دیا بجھ گیا نوراللہ نے شمونہ کو اپنی طرف کھینچا شمونہ کا سینہ بڑی زور سے نوراللہ کے سینے سے ٹکرایا نوراللہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسے اپنے بازوؤں میں لینے لگا تو شمونہ اچھل کر پیچھے ہٹی اور بڑی زور سے ایک تھپڑ نوراللہ کے منہ پر مارا
تم لوگوں کو جس ابلیس سے ڈراتے ہو شمونہ نے بڑے ہی غضب ناک لہجے میں کہا وہ ابلیس تم خود ہو
شمونہ اچھل کر پلنگ سے اٹھی اور فرش پر کھڑی ہو گئی اسے توقع ہوگی کہ نوراللہ اس پر جھپٹے گا لیکن اندھیرے میں نوراللہ کے قدموں کی آہٹ ابھری جو شمونہ کی طرف بڑھنے کی بجائے دروازے کی طرف جا رہی تھی شمونہ وہیں دبکی کھڑی رہی نوراللہ باہر نکل گیا شمونہ کو اب یہ خوف محسوس ہونے لگا کہ نوراللہ رسی لینے گیا ہے اور وہ اسے باندھ لے گا یا چھری چاکو لا کر اسے قتل کر دے گا ڈر کے مارے وہ پلنگ کے نیچے چھپ گئی
نوراللہ صحن میں چلا گیا بارش بہت ہی تیز تھی اور اس کے ساتھ جھکڑ اور زیادہ تیز و تند تھا
مجھے سکون دو نوراللہ نے بڑی بلند آواز میں کہا مجھے انسان کامل بنا دو
شمونہ نے یہ آواز سنی اور پلنگ کے نیچے دبکی رہی
نوراللہ پر دیوانگی طاری ہو چکی تھی وہ اسی حالت میں باہر نکل گیا شہر کے لوگوں نے طوفان باد باراں کی بھیانک شور و غل میں بڑی بلند آوازیں سنیں مجھے سکون دو میں جل رہا ہوں میرے اللہ بادباراں کو اور تیز کردے میری روح کو تلخیوں سے نجات دلادے
شہر کے لوگوں نے یہ آوازیں مسلسل سنیں اور یہ دور ہٹتی گئیں اور پھر طوفان کے شوروغل میں تحلیل ہو گئی اور لوگ یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ کسی کی بھٹکی ہوئی مظلوم بد روح ہے جو فضا میں چیختی چلاتی جا رہی ہے
شمونہ پلنگ کے نیچے چھپی کانپ رہی تھی
نوراللہ شہر سے نکل کر جنگل میں چلا گیا اور وہ بازو پھیلائے چلاتا چلا جا رہا تھا کہ مجھے سکون دو شہر سے کچھ دور چھوٹی سی ایک ندی تھی جس میں بچے بھی گزر جایا کرتے تھے لیکن اوپر اتنی زور کا مینہ برسا تھا کہ ندی میں طغیانی آ گئی تھی ہر طرف پانی ہی پانی تھا ندی پانی میں ہی کہیں چھپ گئی تھی نوراللہ کچھ اور آگے گیا تو ایک ٹہن درخت سے ٹوٹ کر اس طرح گرا کے نوراللہ کے سر پر لگا وہ تو پہلے ہی دیوانگی کے حالت میں تھا اسے یہ احساس بھی نہ تھا کہ جا کہاں رہا ہے سر پر ٹہن گرا تو اس پر غشی طاری ہونے لگی وہ گرا تو چند قدم آگے ندی کے کنارے پر گرا کنارہ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا سیلاب نوراللہ کو اپنے ساتھ ہی بہا لے گیا
اسے اللہ نے سیلاب میں نئی زندگی دی تھی اور یہ زندگی سیلاب نے ہی واپس لے لی شمونہ صبح تک پلنگ کے نیچے چھپی رہی صبح ڈرتے ڈرتے باہر نکلی تو نوراللہ وہاں نہیں تھا طوفان تھم چکا تھا شمونہ گھر سے نکلی اور ابو مسلم رازی کے یہاں چلی گئی اور اسے رات کی ورادات سنائی
ابلیس ہر انسان کی ذات میں موجود ہوتا ہے ابو مسلم رازی نے شمونہ سے کہا ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ابلیس انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تمہارا اب کیا ارادہ ہے؟
میں آپ کی پناہ میں آئی تھی شمونہ نے التجا کی مجھے اپنی پناہ میں رکھیں یہ تو میرا ایک ارادہ ہے میرا ایک ارادہ اور بھی ہے آپ نے کہا ہے کہ ایک خوبصورت عورت کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے یہ آپ نے ٹھیک کہا ہے حسن بن صباح لوگوں کو اور امراء وزراء کو اپنا مرید بنانے کے لیے عورت کی یہی طاقت استعمال کر رہا ہے میں اس کی اس طاقت کو زائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں اس ارادے کی تکمیل کے لئے میں آپ کے زیر سایہ رہنا چاہتی ہوں
اسی روز شہر میں مشہور ہو گیا کہ رات کو ایک بے چین بدروح طوفان باد باراں میں چلاتی گزر گئی تھی مجھے سکون دو مجھے سکون دو یہ باتیں امیر شہر تک پہنچی تو شمونہ نے بھی سنی اس نے بتایا کہ یہ الفاظ نوراللہ نے اپنے گھر کے صحن میں کہے تھے پھر وہ باہر نکل گیا تھا وہی باہر بھی یہی نعرہ لگا کے گیا ہوگا
تیسرے چوتھے دن شہر میں کچھ دور آگے ایک جگہ نوراللہ کی لاش مل گئی
تو کڑیاں ملاتے یہ کہانی سامنے آئی جو داستان گو نے سنائی ہے یہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا یہ آگے چل کر سنایا جائے گا کہ شمونہ نے اس داستان میں کیا رول ادا کیا تھا
حسن بن صباح اپنی گرفتاری کی اطلاع قبل از وقت مل جانے سے رے سے فرار ہوگیا تھا اس نے خلجان پہنچنا تھا وہ اپنے خاص آدمیوں کو کہہ گیا تھا کہ شمونہ کو بھی خلجان پہنچا دینا وہاں وہ اسے سزائے موت دینا چاہتا تھا وہ خود بھی خلجان نہ پہنچ سکا تاریخ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خلجان کی طرف اونٹ پر جا رہا تھا وہ شتر بانوں کے بھیس میں تھا اس کی رفتار معمول کے مطابق تھی تاکہ کسی کو شک نہ ہو اس نے ابھی آدھا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ پیچھے سے ایک تیز رفتار گھوڑسوار گیا اور اسے جالیا وہ حسن بن صباح کے اپنے گروہ کا آدمی تھا
کیا خبر لائے ہو ؟
حسن نے اس سے پوچھا
خلجان نہ جائیں گھوڑ سوار نے کہا ہمارا خیال ہے سلجوقی امیر کو شک ہو گیا ہے کہ آپ خلجان جا رہے ہیں شاید وہ لوگ آپ کے تعاقب میں آئیں گے کسی اور طرف کا رخ کرلیں
حسن رک گیا کچھ دیر سوچا
میں اصفہان چلا جاتا ہوں اس نے کہا تم خلجان چلے جاؤ وہاں کے امیر احمد بن عطاش کو ساری بات سنا کر بتانا کے میں اصفہان جا رہا ہوں وہاں میرا ایک پرانا دوست رہتا ہے نام ابوالفضل ہے ہم امام موافق کے مدرسے میں اکٹھے پڑے تھے اب اس کا شمار شہر کے رئیسوں میں ہوتا ہے وہ مجھے پناہ دے گا اور مدد بھی کرے گا
احمد بن عطاش سے کہنا کہ میں کچھ دنوں بعد خلجان پہنچ جاؤں گا اور یہ بھی کہنا کہ شہر میں کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اس کے پیچھے اپنے جاسوس ڈال دو وہ سلجوقیوں کا جاسوس ہو سکتا ہے اسے زندہ نہیں چھوڑنا
میں آپکی بات سمجھ گیا ہوں گھوڑ سوار نے کہا ہمیں یہاں زیادہ دیر رکنا نہیں چاہیئے
گھوڑسوار خلجان کی طرف اور حسن بن صباح اصفہان کی طرف چلا گیا
تاریخ سے پتہ نہیں چلتا وہ کتنے دنوں بعد اصفہان پہنچا ابوالفضل اصفہانی کے گھر کا راستہ پوچھا اور اس کے گھر جاپہنچا ابوالفضل کو ملازم نے اندر جا کر اسے بتایا کہ ایک شتربان آیا ہے
ابوالفضل نے کہا کہ اس نے کسی شتربان کو نہیں بلایا نہ کسی شتربانوں کی اجرت اس کے ذمے ہے
اس سے پوچھو کیوں آیا ہے؟
ابوالفضل نے ملازم سے کہا
آقا پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟
ملازم نے باہر جاکر حسن سے پوچھا ان کا کسی شتربان سے کوئی کام نہیں ہو سکتا
آقا سے کہو یہ شتربان آپ سے ملے بغیر نہیں جائے گا حسن بن صباح نے کہا
ملازم اندر گیا اور واپس آکر وہ حسن کو اندر لے گیا معمولی سے ایک کمرے میں بٹھایا ایک تو وہ شتر بانوں کے لباس میں تھا دوسرے وہ بڑی مسافت طے کر کے آیا تھا چہرے پر تھکن کے آثار بھی تھے ابوالفضل اصفہانی اس کمرے میں گیا تو وہ حسن کو پہچان نہ سکا حسن نے قہقہہ لگایا تو ابوالفضل نے اسے پہچانا اور اسے اس کمرے میں لے گیا جس میں اعلی رتبہ کے مہمانوں کو بٹھایا جاتا تھا
وہ کچھ دیر مدرسے کے زمانے کی باتیں کرتے رہے پھر ابوالفضل نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے؟
یوں سمجھو آسمان سے گرا ہوں حسن بن صباح نے کہا میں مرو سے آیا ہوں سلطان ملک شاہ نے مجھے اپنا معتمد خاص بنا لیا تھا یہ تو تم جانتے ہو کہ ہمارا پرانا دوست نظام الملک سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم ہے حسن بن صباح نے جھوٹ بولا سلطان مجھے اپنا وزیراعظم بنا رہا تھا لیکن نظام الملک نے خفیہ طریقے سے سلطان کو میرا دشمن بنا دیا اور پھر مجھے عہدے سے معزول کرا کے شہر بدر کروا دیا
دبستان مذاہب کے حوالے سے آئمہ تلبیس میں لکھا ہے کہ ابو الفضل نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
میں سلجوقی سلطنت کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے تم جیسے دو دوست مل جائیں تو میں اس ترک ملک شاہ اور خواجہ حسن طوسی کا جو نظام الملک بنا پھرتا ہے پہلے خاتمہ کر دوں
ابوالفضل چپ رہا اتنے میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا
ابوالفضل نے ایک الماری سے ایک شیشی نکالی اور اس میں جو سفوف پڑا ہوا تھا اس میں ذرا سا سفوف ایک پیالے میں پانی ڈال کر گھولا
لو حسن! اس نے پیالا حسن کو دیتے ہوئے کہا یہ پی لو
یہ کیا ہے ؟
اس نے پوچھا
یہ دماغی تقویت کے لئے ایک دوائی ہے ابوالفضل نے کہا تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے کہ تھکان نے تمہارا دماغ شل کر دیا ہے ورنہ تم ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کرتے کہ تم سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک کا خاتمہ کر دو گے حالانکہ تمہیں پوری طرح احساس ہے کہ سلجوقی نہ آتے تو اسلام کی بنیادیں جو کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی تھیں پوری عمارت کو لے بیٹھتیں مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ان فرقوں کے اندر فرقے بن رہے ہیں اسلام کی توڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے سلجوقیوں نے اسلام کی بنیادیں مضبوط کر دی ہیں اور قرآن کے اس فرمان کے مطابق کے امت ایک جماعت ہے ایک جماعت کی حکومت قائم کردی ہے تم جیسا مسلمان یہ کہے کہ وہ سلطنت سلجوق کا خاتمہ کر دے گا تو یہ ثبوت ہے کہ وہ دماغی توازن کھو بیٹھا ہے یا کسی وجہ سے اس کے دماغ پر عارضی اثر ہوگیا ہے تمہارے دماغ پر سفر کی تھکان کا اثر ہے یہ دوائی پی لو دماغ تروتازہ ہو جائے گا
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے لکھا ہے حسن بن صباح اپنے پرانے دوست ابوالفضل اصفہانی کے ہاں پناہ اور مدد امداد کے لیے گیا تھا لیکن اس کے دوست نے اسے دماغی خرابی کا مریض قرار دے دیا
حسن کو ایک مایوسی تو یہ ہوئی کہ اس کا دوست سلجوقیوں کا حامی ہی نہیں بلکہ پیروکار نکلا اس کے ساتھ ہی اسے خطرہ محسوس ہوا کہ ابو الفضل کو اس کی اصلیت اور گرفتاری سے فرار کا پتہ چل گیا تو وہ اسے گرفتار کرا دے گا
حسن بن صباح نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے اور رسول اللہﷺ کا شیدائی ہے اسماعیلیوں میں جاتا تو اپنے آپ کو اسماعیلی بتاتا تھا حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنا ہی ایک فرقہ بنا رہا تھا اور اس نے نبوت کا دعوی کرنا تھا اس نے ابو الفضل کے ہاتھ سے پیالہ لے کر دوائی پی لی کھانا کھایا اور باتوں میں محتاط ہوگیا ابوالفضل نے اسے جلدی سلا دیا
وہ صبح بہت جلدی جاگ اٹھا اپنے میزبان سے کہا کہ وہ اس سے رخصت چاہتا ہے وہ وہاں سے بھاگنے کی فکر میں تھا ابوالفضل کے گھر سے نکل کر وہ خلجان کی طرف روانہ ہو گیا وہاں گرفتاری کا خطرہ تو تھا لیکن وہ احمد بن عطاش سے مل کر آئندہ پروگرام بنانا چاہتا تھا
دو تین دنوں کی مسافت طے کر کے وہ خلجان پہنچ گیا اس کا بہروپ اتنا کامیاب تھا کہ احمد بن عطاش بھی اسے نہ پہچان سکا اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ گرفتاری کا خطرہ ابھی ہے یا ٹل گیا ہے دوسری بات یہ پوچھی کہ شمونہ آئی ہے یا نہیں؟
شمونہ کے متعلق اسے بتایا گیا کہ نہیں آئی البتہ یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ فرار ہو گئی ہے
اس صورت میں اسے قتل کرنا ضروری ہے حسن بن صباح نے کہا اسے یہاں لاکر قتل کرنا تھا لیکن اب وہ ہمارے لیے زیادہ خطرناک ہوگئی ہے اگر وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی تو ہمارا سارا کھیل بے نقاب ہو جائے گا
تمہیں یہاں سے نکالنے کی ایک بڑی اچھی صورت پیدا ہوگئی ہے احمد بن عطاش نے کہا مصر کے دو عالم آئے ہیں تم جانتے ہو کہ مصر پر اسماعیلیوں کی حکومت ہے وہ میرے مہمان اس طرح ہوئے کے ہمیں وہ اسماعیلی سمجھتے ہیں میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم اسماعیلی فرقے کے لوگ ہیں یہ دونوں تبلیغ کے لیے آئے ہیں ان میں ایک داعی الکبیر کہلاتا ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ اسے ایسے ذہین اور پراثر گفتار والے آدمی دیے جائیں جو اسماعیلی عقائد اور مسلک کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو اس فرقے میں لائیں
میں ان میں شامل ہو جاتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مصر جانے کے ارادے سے یہ تو میں پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ مصر جاؤ اور وہاں کے حکمرانوں کو قائل کروں کہ وہ سلجوقیوں پر حملہ کریں اور ہم انہیں نفری اور دیگر ضروریات کی مدد دیں گے ہمارا پہلا شکار سلجوقی سلطنت ہے اس کا ہم نے خاتمہ کر دیا تو اس پر قابض ہونے والوں کے ہم پاؤں نہیں لگنے دیں گے
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مصر پر عبیدیوں کی حکمرانی تھی جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اسماعیلی ہیں لیکن وہ باطنی تھی یہ جو دو عالم خلجان گئے اور احمد بن عطاش سے ملے اسماعیلی ہی تھے جو اپنے فرقے کے مبلغ تھے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھی معلوم نہیں تھا کہ مصر کے حکمران اسماعیلی نہیں بلکہ باطنی ہے
ایک روایت یہ بھی ہے کہ دونوں عالم دراصل باطنی تھے اور اسماعیلیت کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھرتے تھے داستان گو کے لیے یہ عالم کوئی ایسے اہم نہیں کہ ان کے متعلق حتمی طور پر کہیں کہ وہ کس فرقے کے لوگ تھے اہم بات یہ ہے کہ حسن بن صباح مصر جانا چاہتا تھا اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان عالموں سے ملا اور تبلیغ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں دوسروں پر اپنا طلسم طاری کرنے کا ڈھنگ اسے آتا تھا اس کی زبان میں جادو کا اثر تھا اس نے عالموں کو متاثر کر لیا اور انہوں نے اسے تبلیغ کے لیے رکھ لیا حسن نے انہیں کہا کہ وہ اپنے علاقے میں تبلیغ کرنے کی بجائے مصر چلا جائے تو زیادہ بہتر ہے اس نے ایسے دلائل دیے جن سے یہ عالم متاثر ہو گئے اور اسے مصر جانے کے لیے تمام سہولتیں اور رقم وغیرہ دے دیں حسن مصر کو روانہ ہو گیا اپنے دو آدمیوں کو ساتھ لے گیا
دو مہینوں کے سفر کے بعد حسن بن صباح مصر پہنچ گیا اور سیدھا اس وقت کے حکمران کے پاس گیا اس نے حکمران کو بھی متاثر کر لیا لیکن اسے یہ نہ بتایا کہ وہ اسماعیلی عقائد کی تبلیغ کرنے کے لیے آیا ہے اس نے حکمران پر دھاک بٹھانا شروع کر دی کہ وہ بہت بڑا عالم ہے اور وہ وزارات کے رتبے کا آدمی ہے اس نے اپنے متعلق یہ بھی بتایا کہ وہ غیب دان بھی ہے اور آنے والے وقت کی پیشنگوئی بھی کر سکتا ہے
عبیدی حکمران اتنے کچے نہیں تھے کہ فوراً ہی ایک اجنبی کی باتوں میں آ جاتے انہوں نے ظاہر یہ کیا کہ وہ اس سے متاثر ہوگئے ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنے جاسوس لگا دیے ان میں ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی جس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ پہلی نظر میں ہی حسن کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے
حسن جان نہ سکا کہ وہ خود جو حربہ دوسروں کو ہاتھ میں لینے کے لیے استعمال کیا کرتا ہے وہی حربہ اس پر استعمال ہو رہا ہے
حسن بن صباح کی حکمرانوں نے ایسی پذیرائی کی جیسے وہ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ ہو اس نے وہاں درپردہ اپنا ایک گروہ بنانا شروع کر دیا اور اس لڑکی کو بھی اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کیا
اس کے ساتھ ہی اس نے حکمرانوں کو یہ مشورہ دینے شروع کر دیے کہ وہ سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں انہیں وہ اس قسم کی پیشنگوئیاں سناتا تھا کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے اور وہ خود ایک فرشتہ بن کر مصر میں آیا ہے
عبیدی حکمران یہی تو دیکھ رہے تھے کہ یہ شخص کیا کرنے آیا ہے وہ دو عالم جنہوں نے اسے مصر بھیجا تھا وہ بھی واپس مصر آ گئے وہ اسماعیلی مبلغ تھے جن کا عبیدی حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ وہ اسماعیلی نہیں تھے ایک روز حسن بن صباح ان عالموں کے بلاوے پر ان سے ملنے چلا گیا جاسوسوں نے حکمرانوں کو بتایا اس دوران جاسوسوں نے حکمرانوں کو یہ بھی اطلاع دی تھی کہ اس شخص کی کارروائی صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی معلوم ہوتی ہیں
حسن بن صباح کے متعلق صحیح اطلاعیں تو اس لڑکی نے دی جسے اس کے ساتھ لگایا گیا تھا اور جس نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے
حکمرانوں کے لئے یہی کافی تھا اور وہ یہی معلوم کرنا چاہتے تھے ایک رات حسن اس لڑکی کو پاس بٹھائے شراب پی رہا تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور دو آدمی اندر آئے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں انہوں نے حسن بن صباح کو ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور پھر اسے پیادہ چلاتے قید خانے تک لے گئے تب اسے بتایا گیا کہ سلطان وقت کے حکم سے اسے قید خانے میں ڈالا جا رہا ہے اور یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اسے کب رہائی ملے گی یا رہائی ملے گی بھی یا نہیں
مورخ لکھتے ہیں کہ اس نے قید خانے کے دروازے پر کھڑے ہوکر نعرہ لگایا مجھے قید کرنے والوں تمہاری تباہی اور بربادی کا وقت آ گیا ہے
اسے قید خانے میں تو دھکیل دیا گیا اور پھر ایک کوٹھری میں بند کر دیا گیا لیکن جس طرح اس نے تباہی کا نعرہ لگایا تھا وہ ایسا تھا کہ سننے والوں پر خوف طاری ہو گیا تھا یہ خبر حکمران تک پہنچ گئی
وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ شیطان کو بڑی ڈھیل دیتا ہے وہ حسن بن صباح کے معاملے میں بالکل صحیح ثابت ہوا اسے جس قید خانے میں بند کیا گیا تھا اس کا نام قلعہ دمیاط تھا یہ ایک قدیم قلعہ تھا ہوا یوں کہ جس رات حسن بن صباح کو اس قید خانے میں پھینکا گیا اسی رات اس قلعے کا سب سے بڑا برج گر پڑا یہ تو کسی نے بھی نہ دیکھا کہ برج کے گرنے کی وجہ کیا ہے سب پر یہ خوف طاری ہوگیا کہ یہ حسن بن صباح کی بد دعا کا نتیجہ ہے سلطان مصر کو اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو مصر سے نکال دیا جائے
اتفاق سے ایک بحری جہاز کسی دور کے سفر پر روانہ ہو رہا تھا تاریخ کے مطابق اس کے تمام مسافر عیسائی تھے حسن بن صباح کے ساتھ اس کے دو آدمی بھی تھے جو اس کے ساتھ ہی آئے تھے جہاز ساحل سے بہت دور سمندر کے درمیان پہنچا تو بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا بادبان اڑنے لگے پانی جہاز کے اندر آنے لگا اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ جہاز ڈوب جائے گا
جہاز کے عملے اور مسافروں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی ہر کوئی جہاز میں سے پانی باہر نکالنے میں مصروف تھا کچھ لوگ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے جہاز اور مسافروں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے صرف حسن بن صباح تھا جو ایک جگہ بڑے آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا جہاز کے کپتان نے اسے دیکھ لیا
کون ہو تم ؟
کپتان نے حسن بن صباح کو ڈانٹتے ہوئے کہا سب لوگ مصیبت میں گرفتار ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہنس رہے ہو اٹھو اور کوئی کام کرو
طوفان گزر جائے گا نہ جہاز کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ کوئی مسافر زخمی یا ہلاک ہوگا مجھے خدا نے بتا دیا ہے
کچھ ہی دیر بعد طوفان تھم گیا جہاز کو کوئی نقصان نہ پہنچا تمام مسافر زندہ اور سلامت تھے جہاز کے کپتان کے لیے یہ ایک معجزہ تھا
تم کون ہو؟
کپتان نے حسن بن صباح سے پوچھا
میں طوفان لا بھی سکتا ہوں روک بھی سکتا ہوں حسن بن صباح نے جواب دیا
میں جہاز رانی میں بوڑھا ہو گیا ہوں کپتان نے کہا میں نے ایسے شدید طوفان میں سے کبھی کوئی جہاز ٹھیک ٹھاک نکلتے نہیں دیکھا یہ ایک معجزہ ہے کہ میرا جہاز اس طوفان سے نکل آیا ہے
یہ معجزہ میرا ہے حسن بن صباح نے کہا
میں تمہیں کچھ انعام دینا چاہتا ہوں کپتان نے کہا کہو کیا انعام دوں؟
اگر انعام دینا ہے تو ایک کام کرو حسن بن صباح نے کہا جہاز کا رخ موڑو اور مجھے حلب پہنچا دو ایسا ہو سکتا ہے کہ میں جہاز میں موجود رہا تو ایک بار پھر طوفان آجائے کپتان بہت ہی خوف زدہ تھا اس نے جہاز کا رخ موڑا اور حلب کا رخ کرلیا حلب پہنچ کر حسن بن صباح اور اس کے دو ساتھیوں کو اتار دیا
یہ بتاؤ حسن! اس کے ساتھی نے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ چل گیا تھا کہ جہاز طوفان سے خیریت سے نکل آئے گا؟
بے وقوفوں! عقل سے کام لو حسن بن صباح نے کہا اگر جہاز ڈوب جاتا تو مجھے یہ کہنے کے لئے کوئی بھی زندہ نہ رہتا کہ میری پیشن گوئی غلط نکلی ہے میں نے سوچ لیا تھا کہ طوفان گزر جائے گا تو سب پر میری دھاک بیٹھ جائے گی اور پھر میں کپتان سے اپنی یہ بات منوا لونگا کہ مجھے ملک شام کی بندرگاہ حلب پہنچا دے ایسا ہی ہوا ہمارا کام ہوگیا حسن بن صباح حلب سے بغداد گیا اور ایک بار پھر اصفہان جا پہنچا وہاں سے اس کا جو سفر شروع ہوا وہ ایسے پراسرار واقعات کا تسلسل ہے جس پر تاریخ آج تک محو حیرت ہے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:19 }
داستان گو نے کہا ہے کہ حسن بن صباح جہاذ سے حلب اترا اور وہاں سے بغداد اور بغداد سے اصفہان پہنچا
کوئی غلط فہمی نہ رہے اس لئے داستان گو داستان کو ذرا پیچھے لے جاتا ہے پہلی بات یہ ہے کہ حلب بندرگاہ نہیں بندرگاہ انطاکیہ تھی جہاں جہاز لنگر انداز ہوا اور حسن بن صباح وہاں اترا تھا حلب وہاں سے ساٹھ میل دور ہے حلب سے وہ بغداد گیا یہ چار سو میل کی مسافت ہے بغداد سے وہ اصفہان گیا یہ فاصلہ بھی چار سو میل ہے اس طرح حسن بن صباح انطاکیہ سے اصفہان تک آٹھ میل سفر کیا
گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر عام رفتار سے چلنے سے یہ ایک مہینے کا سفر تھا تیز رفتار سے جلدی بھی طے ہوسکتا تھا لیکن حسن بن صباح اپنی منزل اصفہان تک چھ ماہ بعد پہنچا تھا
اسے اصفہان تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی اسے جلدی صرف یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے زیر اثر لے لے اور ان کی عقل پر اس طرح قابض ہو جائے کہ بلا سوچے سمجھے وہ اس کے اشاروں پر ناچیں آگے چل کر حالات بتائیں گے کہ حسن بن صباح کی ذہن میں اشاروں پر ناچنا مشہور عام مہوارہ ہی نہیں تھا وہ اپنے پیروکاروں کو دیوانگی یا پاگل پن کے اس مقام پر لے جانا چاہتا تھا جہاں وہ کسی سے کہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو تو وہ اپنا خنجر اپنی ہی دل میں اتار لے حسن بن صباح نے اپنے پیروکاروں کو جو فدائین کہلاتے تھے اس مقام پر لے آیا تھا اور اس نے یہ مظاہرے کرکے بھی دکھا دیئے اور اپنے دشمنوں کو حیرت میں ہی نہیں بلکہ خوف میں مبتلا کر دیا تھا حسن بن صباح کی سوانح حیات افسانے سے زیادہ دلچسپ اور طلسم ہوشروبا سے زیادہ حسین اور پراسرار ہے
کوئی بھی انسان صرف اس صورت میں سنسنی خیز پراسرار اور چونکا دینے والی داستان کا ہیرو بنتا ہے جب بنی نوع انسان کی محبت میں وہ دیوانہ ہو جاتا ہے یا وہ انسان ہیرو بنتا ہے جس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کا شائبہ تک نہ رہے اور اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہو اور وہ آسمان میں اور زمین پر سورج چاند اور ستاروں میں صرف اپنی ذات کو دیکھ رہا ہو اور ساری کائنات کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہو
ابتدا میں بیان ہو چکا ہے کہ ایسا انسان عورت ہو یا مرد خیر سگالی اور پیار و محبت کے جذبات سے عاری ہوتا ہے اس کا دل ابلیس کا آشیانہ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے شکار کے لئے پیار و محبت کا جال پھیلاتا خیر و برکت اور جذبہ ایثار کی ایسی اداکاری کرتا ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے یہ ھے ابلیس کا حسن اور شر کی سحر انگیزی
اللہ تبارک و تعالی نے ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ہے
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ
تو انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگیوں میں پڑے اور کھیلتے ہوئے یہاں تک کہ اپنے اس (عذاب کے) دن سے ملیں جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے
(سورہ المعارج:42)
حسن بن صباح اس دن سے پہلے پہلے جس دن کا اللہ نے وعدہ کیا ہے اپنے عزائم پورا کرنے کی کوشش میں تھا وہ جانتا تھا یہ حساب کا اور عذاب کا دن ہوگا
حسن بن صباح کو جس طرح مصر سے عبیدیوں نے نکالا اور جس طرح بحری جہاز طوفان کی لپیٹ میں آ کر نکلا اور جس طرح جہاز کے کپتان نے حسن بن صباح کو انعام کے طور پر شام کے ساحل پر اتارا وہ پیچھے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے وہاں سے تاریخ کی یہ پراسرار اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان یوں آگے چلتی ہے کہ انطاکیہ کی بندرگاہ میں اترنے والا اکیلا حسن بن صباح نہیں تھا اس کے ساتھ دو اس کے اپنے ساتھی تھے جو اس کے رازدار ہمدرد اور بہی خواہ تھے اور سات آٹھ آدمی جن میں ایک جوان عورت بھی تھی حسن بن صباح کے ساتھ انطاکیہ اتر گئے تھے ان سات آٹھ آدمیوں نے اس بندرگاہ پر اترنا تھا جو جہاز کی منزل تھی اور وہاں سے ملک شام جانا تھا ان کی خوش قسمتی کہ حسن بن صباح نے جہاز کا رخ شام کی طرف کروا لیا اور وہ پیدل سفر سے بچ گئے
ان کے ساتھ جو عورت تھی وہ اپنا چہرہ نقاب میں رکھتی تھی اس کی صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں ہوتا تھا اس کی پیشانی سفیدی مائل گلابی تھی جس پر ریشم کی باریک تاروں جیسے چند ایک بے ترتیب بال بہت ہی بھلے لگتے تھے اس کی آنکھیں صحرائی غزل جیسی تھیں جس میں خمار کا تاثر تھا جو ان آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے کو مسحور کرلیتا تھا اس کے کھڑے قد میں اور چال ڈھال میں جاذبیت تھی اور ایسا تاثر کہ یہ کوئی عام عورت نہیں اور اس کا تعلق کسی قبیلے کے سردار خاندان سے یا کسی بڑے ہی امیر کبیر تاجر خاندان سے ہے
یہ سب آدمی مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر رہے تھے انہوں نے اتنے زیادہ طوفان میں حسن بن صباح کو پرسکون بیٹھے اور مسکراتے دیکھا تھا اور وہ اسے پاگل سمجھتے تھے جسے یہ احساس تھا ہی نہیں کہ جہاز ڈوبنے والا ہے اور کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا پھر انہوں نے حسن بن صباح کی یہ پیشن گوئی سنی تھی کہ جہاز اس طوفان سے بخیر و خوبی گزر جائے گا
جہاز بپھرے ہوئے سمندر کی پہاڑوں جیسی طوفانی موجوں پر اوپر کو اٹھتا گرتا ڈولتا طوفان سے نکل گیا حسن بن صباح کے دونوں آدمیوں نے تمام مسافروں کو بتا دیا کہ جہاز کو اس برگزیدہ درویش نے طوفان سے نکالا ہے مسافروں نے حسن بن صباح کے ہاتھ چومے اور اس کے آگے رکوع میں جاکر تعظیم و تکریم پیش کی یہ سات آٹھ آدمی جو حسن بن صباح کے گرویدہ ہو گئے تھے سب سے زیادہ فائدہ تو انہیں پہنچا تھا یہ لوگ پیدل سفر سے بچ گئے تھے
انطاکیہ میں انہیں رکنا پڑا یہ سرائے میں چلے گئے حسن بن صباح اور اس کے دونوں ساتھیو نے الگ کمرہ لے لیا اور باقی آدمی ایک بڑے کمرے میں چلے گئے اس عورت اور اس کے خاوند کا کمرہ الگ تھا حسن بن صباح اور اس کے ساتھ ہی نہا چکے تھے اور اب انھوں نے سرائے کے لنگر سے کھانا لینے جانا تھا دروازے پر دستک ہوئی ایک آدمی نے دروازہ کھولا سرائے کا مالک آیا تھا
کیا میں خوش نصیب نہیں کہ آپ نے مجھے میزبانی کی سعادت عطا کی ہے سرائے کے مالک نے کہا میں سرائے کا مالک ابو مختار ثقفی ہوں ابھی ابھی آپ کے ہمسفروں نے مجھے اپنے بحری سفر کی داستان سنائی ہے خدا کی قسم جہاز میں آپ نہ ہوتے تو یہ لوگ مجھے اس طوفان کی کہانی سنانے یہاں نہ آتے
آؤ ثقفی! حسن بن صباح نے کہا بیٹھ کر بات کرو یہ تو بتاؤ ایک ثقفی اپنے وطن سے اتنی دور کیوں چلا آیا ہے؟
سنا ہے میرے آباء و اجداد حجاج بن یوسف سے عداوت مول لے بیٹھے تھے ابو مختار نے جواب دیا ان میں سے کچھ قتل کردئے گئے کچھ بھاگ کر وطن سے دور چلے گئے اور میرا کوئی بزرگ ادھر آ نکلا یہ سراۓ اس نے تعمیر کی تھی جو ورثے میں مجھ تک پہنچی ہے
کیا اس سرائے میں صرف مسلمان ٹھہرا کرتے ہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا
نہیں پیرومرشد! ابو مختار نے جواب دیا اس سرائے کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں یہ سرائے دنیا کی مانند ہے یہاں ہر مذہب ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ آتے ہیں کچھ دن گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں دنیا کی طرح اس سرائے میں بھی آمدورفت لگی رہتی ہے آپ جیسا ولی اللہ اور غیب کا بھید جاننے والا مدتوں بعد آتا ہے کیا مطلب کی بات نہ کہہ دوں؟
اجازت کی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے کہا
آج رات کا کھانا میری طرف سے قبول فرمائیں ابو مختار نے کہا اور میں نے آپ کے لئے الگ کمرہ تیار کیا ہے آپ اس کمرے میں آجائیں
کچھ دیر بعد حسن بن صباح اس کمرے میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا کھانا بہت ہیں پر تکلف تھا تین چار اور اجنبی بھی مدعو تھے یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جسے رنگا رنگ ریشمی پردوں اور فانوسوں سے سجایا گیا تھا آدھے سے زیادہ کمرہ خالی تھا دیوار سے دیوار تک دلکش رنگوں والا قالین بچھا ہوا تھا دسترخوان کمرے کے وسط میں نہیں بلکہ ایک طرف چوڑائی والی دیوار کے ساتھ بچھایا گیا تھا دیوار کے ساتھ گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے پیچھے دیوار کے ساتھ ایک قالین لٹک رہا تھا جس پر ہرے بھرے جنگل کا منظر بنا ہوا تھا اور اس میں ایک شفاف ندی بہتی دکھائی گئی تھی مختصر یہ کہ یہ شاہانہ انتظام اور یہ عالیشان ضیافت ایک اعزاز تھا جو حسن بن صباح کو دیا گیا تھا
میں آپکے مزاج سے واقف نہیں سرائے کے مالک نے حسن بن صباح سے کہا آپ کے ذوق کا بھی مجھے کچھ پتہ نہیں گستاخی ہی نہ کر بیٹھوں کیا آپ رقص گانا یا صرف سازوں کی موسیقی پسند کریں گے؟
تم نے مجھے کیا سمجھ کر یہ بات پوچھی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ایک برگزیدہ ہستی سرائے کے مالک نے جواب دیا اللہ کے جتنا قریب آپ ہیں وہ ہم جیسے گنہگار تصور میں بھی نہیں لا سکتے
اللہ نے کسی بندے پر کوئی نعمت حرام نہیں کی حسن بن صباح نے کہا رقاصہ کے فن سے لطف اندوز ہونا گناہ نہیں اس کے جسم کو اپنے قبضے میں لے کر اس سے لطف اور لذت حاصل کرنا بہت بڑا گناہ ہے
کیا اسلام نیم برہنہ رقاصہ کا رقص دیکھنے کی اجازت دیتا ہے ؟،
سرائے کے مالک نے پوچھا
ہاں ! حسن بن صباح نے جواب دیا اسلام جہاد میں ہر مسلمان سے جان کی قربانی مانگتاہے اور مسلمان نعرے لگاتے ہوئے جانوں کی قربانی دیتے ہیں اس لئے اسلام ہر مسلمان کو دنیا کی ہر نعمت اور ہر تفریح سے لطف اٹھانے کی اجازت دیتا ہے
ہم نے آج تک جو سنا ہے؟
وہ اسلام کے دشمنوں نے مشہور کیا ہے حسن بن صباح نے اپنے میزبانوں کی بات کاٹتے ہوئے کہا یہودیوں اور نصرانیوں نے دیکھا کہ اسلام تھوڑے سے عرصے میں آدھی دنیا میں مقبول ہوگیا ہے تو انہوں نے امام اور خطیب بن کر یہ بے بنیاد بات پھیلا دی کہ اسلام صرف قربانیاں مانگتا ہے اور دیتا کچھ بھی نہیں اور اسلام میں سوائے پابندیوں کے اور کچھ بھی نہیں
تاریخ میں آیا ہے کہ حسن بن صباح اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار کہلاتا تھا وہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر مشتعل کر کے انہیں اسلام کے خلاف استعمال کرتا تھا یہ ضرورت اسے اس لیے پیش آئی تھی کہ اس نے اپنی سرگرمیوں اور اپنے عزائم کے لئے جو علاقہ منتخب کیا تھا وہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کا علاقہ تھا
سرائے کے مالک نے حسن بن صباح کی یہ باتیں سنیں تو اس نے کھانے پر حاضری دینے والے ایک ملازم کی طرف اشارہ کیا ملازم بڑی تیزی سے باہر چلا گیا، فوراً ہی وہ واپس آگیا اس کے پیچھے چار پانچ سازندے ساز اٹھائے کمرے میں آئے اور قالین پر بیٹھ گئے
سازوں کی آواز ابھری تو نیم برہنہ رقاصہ یوں کمرے میں داخل ہوئی جیسے جل پری شفاف ندی میں تیرتی آ رہی ہو سازوں کی دھیمی دھیمی آواز سحر جگہ رہی تھی اور نوجوان رقاصہ کا مرمریں جسم ناگن کی طرح بل کھا رہا تھا اس کے بازو رقص کی اداؤں میں یوں اوپر نیچے اور دائیں بائیں ہو رہے تھے جیسے فردوس بریں کے ایک بڑے ہیں حسین پودے کی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل رہی ہوں فانوسوں کی رنگا رنگ روشنیوں کا اپنا ہی ایک حسن تھا
دسترخوان پر بیٹھے ہوئے مہمانوں کھانا بھول گئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس نوجوان رقاصہ نے سب کو ہپنا ٹائز کر لیا ہو لیکن حسن بن صباح اس لڑکی کو کسی اور ہی نظر سے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں کسی جوہری کے اس وقت کا تاثر تھا جب وہ ہیرا یا کوئی قیمتی پتھر پَرکھ رہا ہوتا ہے
اس ضیافت اس رقاصہ پھر ایک مغنیہ اور سازندوں نے اس رات کو الف لیلہ کی ایک ہزار راتوں جیسی ایک رات بنا دی تھا
آدھی رات گزر گئی تھی جب حسن بن صباح ضیافت سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں داخل ہوا سرائے کا مالک بھی اس کے پیچھے کمرے میں چلا گیا حسن بن صباح پلنگ پر بیٹھ گیا پیرومرشد! سرائے کے مالک نے نماز کی طرح اپنے دونوں ہاتھ پیٹ پر باندھ کر کہا کیا میں آپ کی خدمت میں کوتاہی تو نہیں کر رہا؟
یہ میرا مطالبہ نہیں تھا حسن بن صباح نے کہا مجھے تم بورئیے پر بٹھا کر اور روٹی پر دال رکھ کر دے دیتے تو بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اس کے ایک بندے نے مجھ پر اتنا بڑا کرم کیا ہے اب یہ بتا دو کہ تمہارے دل میں کوئی خاص مراد ہے یا تم کسی پریشانی میں مبتلا ہو؟
اے طوفانوں کا منہ پھیر دینے والے امام! سرائے کے مالک نے کہا پہلے اس شہر میں صرف میری سرائے تھی اور تمام مسافر میری سرائے میں آتے تھے تھوڑے عرصے سے دو یہودیوں نے ایک سرائے کھولی ہے وہ مسافروں کو شراب بھی پیش کرتے ہیں لڑکیاں بھی اس سے میری آمدنی بہت کم ہو گئی ہے آپ کو اللہ نے ایسی طاقت عطا کی ہے
ان کا بیڑہ غرق کرنا ہے یا اپنا بیڑا پار لگانا ہے؟
حسن بن صباح نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا
یہ فیصلہ آپ ہی کر سکتے ہیں حضور سرائے کے مالک نے کہا میں تو چاہتا ہوں کہ میری آمدنی پہلے جتنی ہو جائے
ہوجائے گی حسن بن صباح نے کہا کل ایک کالا بکرا ذبح کرو خواہ چھوٹا سا ہی ہو اس کے دونوں شانوں کی ہڈیاں میرے پاس لے آنا اور مجھے یہ بتاؤ کہ یہ رقاصہ کس کی ملکیت ہے
ایک بوڑھی رقاصہ کی بیٹی ہے یا ولی سرائے کے مالک نے جواب دیا زیادہ تر میں ہی اسے اپنی سرائے میں خاص مہمانوں کے لیے بلایا کرتا ہوں کیا حضور کے دل کو یہ اچھی لگی ہے؟
ہاں حسن بن صباح نے جواب دیا لیکن اس مقصد کے لیے نہیں جو تم سمجھ رہے ہو اگر تم اس کی ماں کو بلاؤ تو میں اسے اس لڑکی کے متعلق کچھ بتانا بہت ضروری سمجھتا ہوں وہ اس لڑکی کو صرف جسم سمجھتی ہو گی لیکن یہ کمسن لڑکی جسم سے کہیں زیادہ کچھ اور ہے
سرائے کے مالک نے ایک ملازم کو بلا کر کہا کہ رقاصہ اور اس کی ماں کو یہاں لے آئے وہ دونوں ابھی گئی نہیں تھیں اطلاع ملتے ہی آ گئیں سرائے کا مالک انہیں پہلے ہی حسن بن صباح کے متعلق بتا چکا تھا کہ یہ کوئی امام یا ولی ہیں اور اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی روحانی طاقت ہے جو طوفانوں کو روک دیتی ہے رقاصہ اور اس کی ماں نے بے تابی سے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ حسن بن صباح سے ملنا چاہتی ہیں وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہی تھیں کہ امام نے خود ہی انہیں بلا لیا تھا
وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو حسن بن صباح نے دیکھا کہ رقاصہ ابھی رقص کے لباس میں تھی یہ کوئی لباس نہیں تھا کمر سے اس نے ریشم کی رنگا رنگ رسیا لٹکا رکھی تھیں ان رسیوں نے اس کا کمر سے نیچے کا جسم ڈھانپ رکھا تھا لیکن وہ چلتی تھی یا ناچتی تھی تو اس کی ٹانگیں رسیوں سے باہر آ جاتی تھیں اس کے سینے کا کل لباس ایک بالشت تھا ان کے شانوں اور پیٹ کو اس کے نرم و ملائم بالوں نے ڈھانپ رکھا تھا جو اس نے کھلے چھوڑے ہوئے تھے
مستور ہو کر آ لڑکی! حسن بن صباح نے کہا میں تیرے جسم کا طلبگار نہیں میں تیری روح کو برہنہ کر کے دیکھوں گا اور تجھے بھی دکھاؤں گا تو اپنی روح سے ناآشنا ہے اس نے رقاصہ کی ماں سے کہا جا اسے ایسے کپڑے پہنا کے لا کہ اس کے صرف ہاتھ نظر آئیں اور کچھ چہرہ نظر آئے
ماں بیٹی چلی گئیں سرائے کا مالک وہیں بیٹھا رہا
تمہارا کام ہو جائے گا حسن بن صباح نے اسے کہا جب یہ ماں بیٹیاں آ جائیں تو تم چلے جانا اور صبح میرے پاس آنا
سرائے کا مالک بھی چلا گیا
رقاصہ اور اس کی ماں آ گئی رقاصہ نے ویسے ہی لباس پہن رکھا تھا جیسا حسن بن صباح نے اسے کہا تھا اس لیے اس نے اس کے چہرے کے نقش و نگار میں سحر انگیز نکھار پیدا کر دیا تھا وہ نوجوان تھی لیکن اب وہ کمسن لگتی تھی معصوم سی لڑکی
کیا تجھے یہ اس لباس میں اچھی نہیں لگتی؟
حسن بن صباح نے رقاصہ کی ماں سے پوچھا
ہاں مرشد! ماں نے جواب دیا یہ مجھے اسی لباس میں اچھی لگتی ہے
اس لیے یہ اچھی لگتی ہے کہ ایک پاک روح ہے حسن بن صباح نے کہا نا پاک جسم نہیں اس کی قیمت پہچان
میرے مرشد! رقاصہ کی ماں نے کہا میں بھٹکی ہوئی ایک بے آسرا عورت کیا جانوں ہم ماں بیٹی کا کل کیسا ہوگا ہم نے آپ کی کرامات سنی تو سرائے کے مالک سے التجا کی کہ مجھے آپ کے حضور پیش کر دے اور میں آپ سے پوچھوں کہ بیٹی کو اسی پیشے میں رکھوں یا کوئی اور راستہ دیکھوں مجھے آنے والے وقت کی کچھ خبر دیں
حسن بن صباح نے سحر اور علم نجوم میں دسترس حاصل کر لی تھی اس نے نوجوان رقاصہ کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پھیلایا اور اس کی آڑی ترچھی لکیریں پڑھنے لگا
رقاصہ نے اس انتظار میں حسن بن صباح کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں تھیں کہ خدا کا یہ برگزیدہ انسان جو بحری جہاز کو ایک خوفناک طوفان کے جبڑوں سے صحیح سلامت نکال لایا تھا وہ اس کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر کیا پیشن گوئی کرتا ہے
حسن بن صباح کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلیاں نظر آرہی تھیں ایک بار تو اس نے اپنا سر یوں پیچھے کیا جیسے رقاصہ کی ہتھیلی کی کوئی لکیر سانپ بن گئی ہو رقاصہ اور اس کی ماں بھی چونک پڑیں
کیا دیکھا ہے میرے مرشد؟
ماں نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا
پردے اٹھ رہے ہیں حسن بن صباح نے اس عورت کی طرف دیکھے بغیر زیر لب کہا
پھر اس نے رقاصہ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے کر ذرا اوپر اٹھایا
آنکھیں پوری کھلی رکھو اس نے رقاصہ سے کہا
اس کی آنکھوں نے رقاصہ کی آنکھوں کو جکڑ لیا حسن بن صباح نے دونوں انگوٹھوں سے رقاصہ کہ کنپٹیاں آہستہ آہستہ ملنی شروع کردیں وہ زیر لب کچھ کہہ رہا تھا
کچھ دیر بعد رقاصہ نے دھیمی سی آواز میں کہا میں نے سیاہ پردے کے پیچھے دیکھ لیا ہے میں جاؤں گی یہ جسم نہ گیا تو میں اس سے آزاد ہو کر وہاں پہنچ جاؤں گی
یہ جسم تمہارے ساتھ جائے گا حسن بن صباح نے کہا
یہ جسم میرے ساتھ جائے گا رقاصہ نے کہا
کیا کروں گی اس جسم کو ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یہ جسم ناچے گا نہیں رقاصہ نے کہا یہ دوسروں کو ناچائے گا
تمہیں ایک قلعہ نظر آرھا ھے حسن بن صباح نے کہا رقاصہ خاموش رہی حسن بن صباح نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے چھ سات مرتبہ کہا تمہیں ایک قلعہ نظر آرہا ہے
ہاں! رقاصہ نے کہا مجھے ایک قلعہ نظر آ رہا ہے
اس قلعے میں تم اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو؟
حسن بن صباح نے خواب ناک سی آواز میں کہا اور یہ الفاظ چند مرتبہ دہرائے
دیکھو ماں! رقاصہ نے بچوں کی طرح مچلتے ہوئے کہا میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہوں
اپنے آپ کو کس حال میں دیکھ رہی ہو؟
چار لڑکیاں ہیں رقاصہ نے کہا شہزادیاں لگتی ہیں میں انہیں جیسے لباس میں ہوں اور ہم سب ایک خوشنما باغ میں اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی ہیں
حسن بن صباح نے رقاصہ کا چہرہ چھوڑ دیا اور کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا رقاصہ نے اپنی آنکھیں تیزی سے جھپکیں اور سر جھکا لیا اس نے جب سر اٹھایا تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا وہ آنکھیں پھاڑے کبھی حسن بن صباح کو اور کبھی اپنی ماں کو دیکھتی تھی حسن بن صباح مسکرا رہا تھا
میں کہاں چلی گئی تھی؟
رقاصہ نے حیرت سے پوچھا میں ایک تاریکی میں سے گزری تھی اور آگے کوئی اور ہی دنیا آ گئی تھی
تمہاری اصل جگہ اس دنیا میں ہے جو تم نے دیکھی ہے حسن بن صباح نے کہا اب تم جہاں ہو یہ ایک فریب اور حسین دھوکا ہے یہاں تمہارا انجام بہت برا ہوگا میرے خدا نے تمہاری قسمت میں بہت اونچا مقام لکھا ہے میں نے تمہیں وہ مقام دکھا دیا ہے ماں کو بتاؤ تم نے کیا دیکھا ہے ؟
رقاصہ نے اپنی ماں کو بتایا
لیکن پیرومرشد! رقاصہ کی ماں نے پوچھا ہم اس مقام تک پہنچ کس طرح سکتے ہیں کیا آپ ہماری رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں؟
کرسکتا ہوں! حسن بن صباح نے کہا لیکن کرونگا نہیں میں تمہیں اس کی وجہ بھی بتا دیتا ہوں انسان کی فطرت ایسی ہے کہ میں تو انسان ہوں انسان اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتا میں نے دو تین آدمیوں کو اسی طرح ان کے اصل مقام دکھائے اور انہیں وہاں تک پہنچا بھی دیا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے میرے خلاف باتیں شروع کردیں اب تو میں کسی کو اس کے متعلق کچھ بتاتا نہیں تم عورت ہو اور مجبوریوں نے یا درہم و دینار کے لالچ نے تمہیں غلط اور خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے پھر مجھے تمہاری بیٹی کا خیال آتا ہے میں نے اسکا اصل روپ دیکھ لیا ہے تم نے اس پر بہروپ چڑھا دیا ہے میں اسے اس مقام تک پہنچانا چاہتا ہوں تم اس کے ساتھ رہو گی اور تمہیں تمہاری کھوئی ہوئی تعظیم اور تکریم ملے گی
پھر ہم پر کرم کیوں نہیں کرتے یا مرشد! ماں نے التجا کی
صرف ایک صورت میں کرم ہو سکتا ہے حسن بن صباح نے کہا اپنی سوچیں میرے حوالے کر دو اپنے آپ کو بھی میرے حوالے کردو
کر دیا مرشد! ماں نے کہا آپ جو حکم دیں گے ہم ماں بیٹی مانیں گے
پھر سن لو! حسن بن صباح نے کہا میں جب یہاں سے جاؤں گا تو تم دونوں میرے ساتھ چلو گی
چلیں گی یا مرشد! رقاصہ کی ماں نے کہا
آج کا رقص تمہارا آخری رقص تھا حسن بن صباح نے نوجوان رقاصہ سے کہا اب تمہاری نئی اور حقیقی زندگی شروع ہوگئی ہے جاؤ اور سو جاؤ صبح سے بیمار پڑ جانا سر کپڑے سے باندھ لینا اس سرائے والا یا دوسرے سرائے کے یہودی تمہیں رقص کے لیے بلانے آئیں تو ہائے ہائے شروع کر دینا جیسے تم اس بیماری سے مری جا رہی ہو میری کہنا کہ انہیں بلاؤ میرا علاج کریں میں آکر کوئی بیماری بتا کر سب کو ڈرا دوں گا کہ اس لڑکی کے قریب کوئی نہ آئے ورنہ اسے بھی یہ بیماری لگ جائے گی
ماں بیٹی چلی گئیں انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ اس شخص نے انہیں ایک عمل سے مسحور کر لیا تھا یہ تھا عمل تنویم جسے مغربی دنیا نے اپنی زبان میں ھیپناٹائزم کا نام دیا ہے حسن بن صباح نے رقاصہ کو اپنے کام کی چیز سمجھ کر اسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا اور رقاصہ کو وہی کچھ نظر آتا رہا جو حسن بن صباح نے اسے دکھانا چاہتا تھا
عمل تنویم کا تو اپنا اثر تھا حسن بن صباح کے بولنے کا انداز کا اپنا ایک اثر تھا جو سننے والے کو مسحور کرلیتا تھا یوروپی تاریخ نویسوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے جو دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے یہ تھے ابلیسی اوصاف
رقاصہ اور اس کی ماں کے جانے کے بعد حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے کمرے میں آئے
میں نے اپنی ترکش میں ایک اور تیر ڈال لیا ہے حسن بن صباح نے فاتحانہ انداز سے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ رقاصہ ایسا دانہ ہے کہ عقابوں اور شہبازوں کو بھی جال میں لے آئے گا
ہمارے ساتھ جا رہی ہے؟
اس کے ایک ساتھی نے پوچھا
دونوں ہمارے ساتھ جا رہی ہیں حسن بن صباح نے کہا
انہیں کسی طرح چھپا کر ساتھ لے جانا پڑے گا
یہ انتظام ہو جائے گا دوسرے نے کہا
دوسرے دن حسن بن صباح کے کمرے کے باہر اسے ملنے والوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا تھا لیکن کسی کو کمرے میں جانے نہیں دیا جا رہا تھا لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ امام عبادت میں مصروف ہیں
کچھ دیر بعد ایک آدمی اور ایک اور عورت اندر جانے کی اجازت دی گئی یہ میاں بیوی تھے اور یہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر تھے یہ وہی عورت تھی جس کا پہلے ذکر آیا ہے کہ چہرہ نقاب میں رکھتی تھی صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں تھا پیشانی اور آنکھوں سے پتہ چلتا تھا کہ عورت حسین ہے اس کے کھڑے قد میں کشش تھی اس کی چال ڈھال میں ایسا جلال سا تھا جس سے لگتا تھا جیسے یہ کسی سردار خاندان کی خاتون ہو بہرحال وہ کوئی معمولی عورت نہیں لگتی تھی
کمرے میں جا کر اس عورت کے خاوند نے حسن بن صباح کے آگے رکوع میں جاکر مصافحہ کیا وہ پیچھے ہٹا تو عورت نے آگے بڑھ کر حسن بن صباح کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پہلے آنکھوں سے ہونٹوں سے لگایا پھر اس کا ہاتھ احترام سے اس کی گود میں رکھ دیا
بیٹھ جاؤ میرے ہمسفرو! حسن بن صباح نے کہا اور خاوند سے پوچھا تم لوگ کہاں گئے تھے اور کس منزل کے مسافر ہو؟
ہماری منزل رے ہے خاوند نے جواب دیا میں اصلاً اصفہانی ہوں حافظ اصفہانی میرا نام ہے رزق کے پیچھے بہت سفر کیا ہے اور اللہ نے جھولی بھر کے رزق دیا ہے دوسری تلاش علم کی ہے علم کے حصول کے لیے بہت سفر کیا ہے سنا تھا مصر میں دو عالم ہے جن کے پاس علم کا سمندر ہے میں اپنی اس بیوی کو ساتھ لے کر مصر گیا تھا ان علماء سے ملا لیکن انہوں نے علم کو اپنے ہی ایک نظریے میں محدود کر دیا ہے
وہ عبیدی ہیں حسن بن صباح نے کہا اور ظاہر کرتے ہیں کہ اسماعیلی ہیں تم کس فرقے اور کس عقیدے کے آدمی ہوں؟
یاولی! حافظ اصفہانی نے کہا میں ایک اللہ کو مانتا ہوں جو وحدہٗ لاشریک ہے اس کے آخری کلام کو مانتا ہوں جو قرآن ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ کو مانتا ہوں جن کے ذریعہ اللہ کا کلام ہم تک پہنچا اس سے زیادہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میں کون سے فرقے سے تعلق رکھتا ہوں
اور اب رے کیوں جا رہے ہو ؟
ابومسلم رازی سےملونگا حافظ اصفہانی نے جواب دیا وہ وہاں امیر ہے اللہ کو ماننے والا حاکم ہے
اس سے تمہیں کیا حاصل ہوگا؟
میں نے اسے کچھ بتانا ہے حافظ اصفہانی نے جواب دیا میں خلجان گیا تھا وہاں ایک بڑا ہی خطرناک فرقہ سر اٹھا رہا ہے ایک شخص احمد بن عطاش نے خلجان پر قبضہ کر لیا ہے سنا ہے وہ شعبدہ بازی اور سحر کا ماہر ہے سنا تھا کہ قلعہ شاہ در اور خلجان کے درمیانی علاقے میں ایک پہاڑی پر اللہ کا ایلچی اترا تھا اور اس علاقے کے لوگوں نے اسے دیکھا ہیں اللہ کا ایلچی مان لیا ہے اس ایلچی کا نام حسن بن صباح ہے وہ آپ کا ہم نام ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ آپ کے نام کی توہین ہے آپ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو ولی کہوں یا امام کہوں؟
تم نے اس کا نام غلط سنا ہے حسن بن صباح نے کہا اس کا نام احسن ابن سبا ہے لوگوں نے اسے حسن بن صباح بنا دیا ہے
یہ تو بہت ہی اچھا ہے حافظ اصفہانی نے کہا اس کا صحیح نام سن کر مجھے روحانی اطمینان ہو گیا ہے آپ کے نام کی بے ادبی نہیں ہو رہی سنا ہے اس احسن ابن سبا کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں ایسا جادو ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس نے اور احمد بن عطاش نے لوگوں کی ایک فوج تیار کرلی ہے یہ باقاعدہ فوج نہیں لوگ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں انہیں تیغ زنی تیراندازی برچھی بازی اور گھوڑ سواری کی تربیت دی جاتی ہے
کیا تم ان لوگوں کے متعلق ابومسلم رازی کو بتاؤ گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہاں یا ولی! حافظ اصفہانی نے جواب دیا میں تو سلطان ملک شاہ تک بھی پہنچوں گا اور اسے اکساؤں گا کہ وہ اس باطل فرقے کو طاقت سے ختم کرے مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بڑی مدت سے یہ لوگ قافلوں کو لوٹ رہے ہیں وہ زروجواہرات لوٹتے ہیں اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں آٹھ دس سال عمر کی بچیوں کو بھی لے جاتے ہیں انہیں اپنے مذموم مقاصد اورعزائم کے مطابق تربیت دیتے ہیں زروجواہرات کا استعمال بھی یہی ہوتا ہے
میں جانتا ہوں حسن بن صباح نے کہا وہ بہت خطرناک لوگ ہیں
حافظ اصفہانی کو معلوم نہ تھا کہ اس نے جس حسن بن صباح کی بات سنی ہے وہ یہی شخص ہے جسے وہ ولی اور امام کہہ رہا ہے اور احمد بن عطاش اس کا استاد ہے حسن بن صباح حافظ اصفہانی سے یہ باتیں سن کر ذرا سا بھی نہ چونکا نہ اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار کیا بلکہ حافظ اصفہانی کی باتوں کی تائید کرتا اور احمد بن عطاش پر لعنت بھیجتا رہا
اب ایک عرض سن لیں یا ولی! حافظ اصفہانی نے کہا اجازت ہو تو کہوں
اجازت کی کیا ضرورت ہے حسن بن صباح نے کہا کہو وہ جو کہنا ہے
اولاد سے محروم ہوں حافظ اصفہانی نے کہا پہلی بیوی سے بھی اولاد نہیں ہوئی وہ فوت ہو گئی تو کچھ عرصے بعد میں نے اس کے ساتھ شادی کرلی
اس کے ساتھ کب شادی کی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھ
بارہ تیرہ سال ہوگئے ہیں حافظ اصفہانی نے جواب دیا اس کا پہلا خاوند ایک قافلے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا
کیا اس سے اس کا کوئی بچہ تھا؟
ایک بچی تھی حافظ نے جواب دیا نو دس سال کی تھی ڈاکو اسے اٹھا کر لے گئے تھے
بہت خوبصورت بچی تھی حافظ کی بیوی نے کہا مجھے اس سے بہت پیار تھا شاید یہ اس کے غم کا اثر ہے کہ میں کوئی بچہ پیدا نہ کر سکی
اور مجھے اس بیوی سے اتنا پیار ہے کہ میں صرف اولاد کی خاطر دوسری شادی نہیں کروں گا حافظ اصفہانی نے کہا آپ کو اللہ نے کرامت عطا کی ہے
چہرے سے نقاب ہٹا دو حسن بن صباح نے عورت سے کہا
عورت نے چہرہ بے نقاب کیا تو حسن بن صباح کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ بدک گیا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہو گی کہ یہ عورت غیر معمولی طور پر حسین تھی اس کی عمر زیادہ تھی لیکن اس کے چہرے پر معصومیت ایسی کے وہ پچیس چھبیس سال کی نوجوان لڑکی لگتی تھی
حسن بن صباح کے بدکنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے یوں لگا جیسے شمونہ نے اس کے سامنے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا ہو شمونہ وہ لڑکی تھی جسے حسن بن صباح مرو لے گیا تھا اور اسے اپنی بیوہ بہن بتایا اور نام فاطمہ بتایا تھا وہ نظام الملک کی جگہ وزیراعظم بننے کے لیے اس لڑکی کو استعمال کر رہا تھا کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور اسے اس لڑکی کے ساتھ شہر بدر کر دیا گیا تھا
اب اس کے سامنے جو چہرہ بے نقاب ہوا تھا وہ اسی لڑکی کا چہرہ تھا جس کا نام شمونہ تھا
تمہارا نام کیا ہے؟
حسن بن صباح نے اس سے پوچھا
میمونہ عورت نے جواب دیا
حسن بن صباح عام سے دماغ والا انسان نہیں تھا اس نے اپنے دماغ میں ایسی طاقت پیدا کر لی تھی جسے تین مورخوں نے مافوق العقل کہا ہے
میمونہ! حسن بن صباح نے کہا تمہیں واقعی اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی اس لیے تم نے اس کا نام شمونہ رکھا تھا یہ نام تمہارے نام سے ملتا ہے
یہ حسن بن صباح کی قیاس آرائیاں قافیہ شناسی تھی اس عورت کی بیٹی قافلے سے اغوا ہوئی تھی اور اس کی بیٹی کی شکل اس کے ساتھ ملتی تھی اس لیے حسن بن صباح نے بڑی گہری سوچ میں سے ہوا میں تیر چلایا جو ٹھیک نشانے پر جا لگا
یا امام! میمونہ نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا میں نے تو آپ کو اپنی بیٹی کا نام نہیں بتایا تھا
نہیں میمونہ! حسن بن صباح نے کہا اگر تمہارے بتانے سے مجھے تمہاری بیٹی کا نام معلوم ہوتا تو پھر میرا کیا کمال ہوا
یا امام! میمونہ نے کہا میں نے آپ کو امام مان لیا ہے آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو کہاں ہے؟
حسن بن صباح نے اپنے آپ پر مراقبہ کی کیفیت طاری کر لی آنکھیں بند کر لیں ہاتھوں سے عجیب طرح کی حرکتیں کرنے لگا پھر ایک بار اس نے تالی بجائی
کہاں مر گئے تھے اس نے کہا میرے سوالوں کے جواب دو ہوں اچھا وہ ہے کہاں؟
ٹھیک ہے ہاں تم جاسکتے ہو
وہ زندہ ہے حسن بن صباح نے مراقبے سے بیدار ہو کر میمونہ سے کہا اور اسے رے میں دیکھا گیا ہے
کیا یہ پتہ چل سکتا ہے کہ رے میں وہ کہاں مل سکتی ہے؟
میمونہ نے پوچھا
امیر شہر ابومسلم رازی سے اس کا سراغ مل سکتا ہے حسن بن صباح نے جواب دیا شمونہ کے ساتھ مجھے ابومسلم رازی کا چہرہ بھی نظر آیا ہے
کیا حسن بن صباح کو علم غیب سے اشارہ ملا تھا کہ شمونہ زندہ ہے اور رے میں ہے کیا اس نے کسی پر اسرار عمل کے ذریعے معلوم کر لیا تھا؟
نہیں داستان گو پچھلے سلسلے میں اصل حقیقت بیان کر چکا ہے حسن بن صباح نے رے سے مفرور ہوتے وقت حکم دیا تھا کہ شمونہ کو خلجان پہنچا دیا جائے جہاں دوسری لڑکیوں کے سامنے اسے قتل کیا جائے گا لیکن حسن بن صباح کو فرار ہوکر مصر جانا پڑا فرار سے پہلے اسے اطلاع مل گئی تھی کہ شمونہ کہیں بھاگ گئی ہے پھر اسے یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ شمونہ ابومسلم رازی کے پاس چلی گئی ہے
میمونہ یہ سمجھ رہی تھی کہ حسن بن صباح کو مراقبے میں یہ جنات نے بتایا ہے کہ شمونہ اس وقت کہاں ہے؟
کیا میری بیٹی مجھے مل جائے گی؟
میمونہ نے پوچھا
ہاں! حسن بن صباح نے جواب دیا مل جائے گی
یا امام! میمونہ نے کہا اب یہ بتا دیں کہ میرا کوئی اور بچہ ہوگا یا نہیں
حسن بن صباح ایک بار پھر مراقبے میں چلا گیا
نہیں نہیں کچھ دیر بعد آنکھیں بند کیں ہوئے وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے کے انداز سے بولا کچھ کرو کوئی طریقہ کوئی ذریعہ بتاؤ میں انہیں دو بچے دینا چاہتا ہوں اچھا ہاں بتاتا چلو قبر کی نشانی بتاؤ ٹھیک ہے
حسن بن صباح نے خاصی دیر بعد آنکھیں کھولیں
ایک بچے کی امید بندھ گئی ہے حسن بن صباح نے میمونہ کے خاوند سے کہا لیکن میرے جنات نے جو طریقہ بتایا ہے وہ ذرا خطرناک ہے ضروری نہیں کہ اس میں جان چلی جائے میں تمہاری حفاظت کا انتظام کر دوں گا لیکن خطرے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے
آپ طریقہ بتائیں حافظ اصفہانی نے کہا
یہ کام تمہیں ہی کرنا پڑے گا حسن بن صباح نے کہا میں کاغذ پر لکھ کر اور یہ کاغذ تہہ کرکے تمہیں دوں گا دن کے وقت قبرستان میں جاکر کوئی ایسی قبر دیکھ لینا جو بیٹھ گئی ہو ایک کدال ساتھ لے جانا قبر میں اتر جانا اور کدال سے اتنی مٹی نکال کر باہر پھینکنا جو تمہارے اندازے کے مطابق تمہارے جسم کے وزنی جتنا ہو مٹی دو بالشت چوڑی جگہ سے نکالنا تاکہ گڑھا بنتا چلا جائے یہ گڑھا اس طرف سے کھودنا ہے جس طرف مردے کا سر ہوتا ہے ہو سکتا ہے مردے کی کھوپڑی نظر آ جائے خدائی ختم کر دینا اور یہ کاغذ کھوپڑی پر رکھ کر کھودی ہوئی مٹی سے گڑھا بھر دینا اور واپس آ جانا اگر کھوپڑی نظر نہ آئے تو یہ اندازہ کرلینا کہ تمہارے جسم کے وزن جتنی مٹی نکل آئی ہے یہ کاغذ گڑھے میں رکھ کر گڑھا مٹی سے بھر کر آ جانا گیارہ دنوں بعد تمہیں میمونہ خوشخبری سنا دی گی
حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے
تم دونوں کو معلوم ہے کون سی قبر موزوں ہے اس نے ان دونوں ساتھیوں سے کہا صبح اسے ساتھ لے جانا اور قبرستان میں کوئی بہت پرانی اور بیٹھی ہوئی قبر اسے دکھا دینا رات کو یہ اکیلا جائے گا
حسن بن صباح نے کاغذ کے ایک پرزے پر کچھ لکھا منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر کاغذ پر پھونکیں ماریں کاغذ کی کئی تہہ کرکے حافظ اصفہانی کو دیا اور کہا کہ اسے کھول کر نہ دیکھے
حافظ اور اس کی بیوی میمونہ چلے گئے
تم نے اس شخص کی باتیں سنیں ہے حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ کوئی معمولی آدمی نہیں مالدار اور سردار ہے یہ ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے اسے بتائے گا کہ خلجان میں کیا ہو رہا ہے ؟
ہمارے خلاف طوفان کھڑا کرے گا ایک ساتھی نے کہا آپ حکم دیں کیا کرنا ہے؟
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے حسن بن صباح نے کہا کل رات یہ قبرستان سے زندہ واپس نہ آئے میں نے اسے سب کچھ تمہاری موجودگی میں بتایا ہے تمہیں قبرستان میں پہلے سے موجود ہونا چاہیے
اب یہ ہم پر چھوڑ دیں اس کے ساتھی نے کہا اس کی لاش اسی قبر میں پڑی ملے گی جس میں کھدائی کر کے وہ تعویذ رکھنے جائے گا
اس کی اس بیوی کا کیا بنے گا؟
دوسرے ساتھی نے پوچھا
یہ ہمارے ساتھ جائے گی حسن بن صباح نے کہا ہمارے کام کی عورت ہے ہو سکتا ہے اس کے ذریعے اس کی بیٹی شمونہ واپس آجائے
اگلے روز ابھی سورج طلوع ہوا ہی تھا کہ حافظ اصفہانی حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے میں گیا وہ انھیں قبرستان لے جانا چاہتا تھا دونوں تیار تھے اس کے ساتھ چلے گئے
وہ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا جس میں نئی قبریں بھی تھیں اور پرانی بھی اور کچھ اتنی پرانی کے اس کے ذرا ذرا سے نشان باقی رہ گئے تھے ضرورت ایسی قبر کی تھی جو بیٹھ گئی ہو یعنی جو اندر کو دھنس گئی ہو قبرستان کا یہ حصہ ایسا تھا جو بارشوں کے بہتے پانی کے راستے میں آتا تھا وہاں دھنسی ہوئی چند قبریں نظر آ گئیں ایک قبر اتنی زیادہ دھنس گئی تھی کہ اس میں مدفون مردے کی کھوپڑی اور کندھوں کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں
یہ قبر آپ کا کام کرے گی حسن بن صباح کے ایک ساتھی نے کہا آپ کو خدائی نہیں کرنی پڑے گی رات کو اس میں اترے اور امام کا دیا ہوا کاغذ اس کھوپڑی کے منہ میں رکھ دیں اور پھر اس پر کدال سے مٹی ڈال دیں
مٹی بہت ساری ڈالنا بھائی صاحب دوسرے ساتھی نے کہا اپنے وزن کے برابر مٹی ہو میں آپ کو ایک خطرے سے خبردار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں آپ کو ننگی کھوپڑی مل گئی ہے یہ آپ کی مراد پوری کر دی گئی اور بہت جلد کر دے گی لیکن آپ نے ذرا سی بھی بدپرہیزی یا بے احتیاطی کی تو یہ کھوپڑی آپ کی جان لے لے گی
پھر بھی اس موقعے سے ضرور فائدہ اٹھائیں دوسرا ساتھی بولا امام نے آپ کی حفاظت کا انتظام کر دیا ہے اللہ کا نام لے کر رات کو آ جائیں میں ضرور آؤں گا حافظ اصفہانی نے پرعزم لہجے میں کہا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ دن اس کی زندگی کا آخری دن ہے اور اس کی آنکھیں کل کا سورج نہیں دیکھ سکیں گے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:20 }
آدھی رات کے وقت وہ کدال اٹھائے قبرستان میں پہنچ گیا
چاندنی اتنی سی تھی جس میں دن میں دیکھی ہوئی قبر تک پہنچنا مشکل نہ تھا
وہ جب گھر سے چلا تھا تو میمونہ نے اسے روک لیا تھا
معلوم نہیں میرے دل پر بوجھ سا کیوں آپ پڑا ہے میمونہ نے کہا تھا کیا میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتی
نہیں میمونہ! حافظ نے کہا تمہارے سامنے امام نے کہا تھا کہ میں قبرستان میں اکیلے جاؤ یہ شرط ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی تو ہماری جانیں خطرے میں آ سکتی ہے
میری ایک بات مانیں میمونہ نے کہا تھا مجھے بچہ نہیں چاہئے آپ ہیں تو سب کچھ ہے اس وقت قبرستان میں نہ جائیں
تم تو بڑے مضبوط دل والی تھی میمونہ! حافظ نے بڑے پیارے انداز میں کہا تھا میں میدان جنگ میں نہیں جا رہا میں طوفانی سمندر میں نہیں جا رہا مجھے اللہ حافظ کہوں میمونہ میرے جانے کا وقت ہو رہا ہے
اللہ حافظ! میمونہ نے کہا
حافظ اصفہانی جب میمونہ کو اللہ حافظ کہہ کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میمونہ کو ہچکی سی آئی اور اس کا دل ڈوب گیا تھا جیسے اسے غیب سے اشارہ ملا ہو کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے
وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ کھلا رکھا اسے نیند آ جانی چاہیے تھی لیکن اسکے جسم کا روآں روآں ریشہ ریشہ بے کلی بڑھتی جا رہی تھی رات گزرتی جارہی تھی
رات کا آخری پہر شروع ہوگیا میمونہ کو ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تو دوڑ کر دروازے تک جاتی اور مایوس لوٹ آتی
اسے مؤذن کی آواز سنائی دی تو میمونہ کے دل سے ہُوک اٹھی موذن نے اذان کے الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ رات گزر گئی ہے
اتنا وقت نہیں لگنا چاہیے تھا اس کے دل نے کہا
دل کانپ رہا تھا اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا
اس نے وضو کیا اور مصلّے پر کھڑے ہو گئی فجر کی پوری نماز پڑھ کر اس نے نفل پڑھنے شروع کر دیئے ہر چار نفلوں کے بعد ہاتھ پھیلا کر اپنے خاوند کی سلامتی کی دعا مانگتی تھی
آنسو اس کا حسن دھوتے رہے اس کا دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ وہ اس کی آواز سن سکتی تھی
جب صبح کا اجالا سفید ہو گیا تو وہ حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے کی طرف اٹھ دوڑی دونوں ہاتھ زور زور سے دروازے پر مارے اور کواڑ دھماکے سے کھلے دونوں آدمی ناشتہ کر رہے تھے انہوں نے بدک کر دیکھا
حافظ آدھی رات کے وقت قبرستان میں گئے تھے میمونہ نے کہا ابھی تک نہیں آئے انہیں دیکھو
ہم دیکھنے جائیں گے ایک نے کہا ذرا دل مضبوط کریں وہ آ جائیں گے
اس شخص نے دراصل یہ کہنا تھا کہ حافظ اصفہانی کبھی واپس نہیں آئے گا
گزشتہ رات یہ دونوں حافظ اصفہانی سے پہلے قبرستان میں پہنچ گئے اور اس قبر سے کچھ دور ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے تھے چاندنی میں انہوں نے حافظ کو آتا دیکھ لیا وہ قبر میں اترا اور جھک کر کھوپڑی پر حسن بن صباح کا دیا ہوا تعویذ رکھنے لگا دونوں اٹھے اور حافظ کے عقب میں جا پہنچے حافظ نے تعویذ کھوپڑی پر رکھ دیا وہ جونہی سیدھا ہوا پیچھے سے دو ہاتھوں نے اس کی گردن شکنجے میں جکڑ لیا دوسرے آدمی نے اس کے پیٹ میں پوری طاقت سے گھونسا مارنے شروع کر دئیے
تھوڑی سی دیر میں حافظ کا جسم ساکت و جامد ہو گیا دونوں نے اچھی طرح یقین کر لیا کہ وہ مر گیا ہے اسے دھنسی ہوئی قبر میں لیٹا دیا اور واپس آگئے
صبح میمونہ ان کے کمرے میں گئی اور بتایا کہ اس کا خاوند واپس نہیں آیا دونوں نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور قبرستان کی طرف چل دیے میمونہ نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی انہوں نے اسے ساتھ لے لیا
قبرستان میں پہنچے تو دور سے انہیں اس قبر کے ارد گرد چند ایک آدمی کھڑے نظر آئے وہ میمونہ کے ساتھ پہنچے تو میمونہ کو دھنسی ہوئی قبر میں اپنے خاوند کی لاش پڑی دکھائی دی میمونہ کی چیخ نکل گئی لوگوں کی مدد سے لاش اٹھا کر سرائے میں لے آئے حسن بن صباح کو اطلاع ملی تو دوڑتا باہر آیا اسے تو اس کے ساتھیوں نے رات کو آ کر بتا دیا تھا کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل کر آئے ہیں حسن بن صباح نے انہیں خاص شراب پلائی تھی
یاد رکھو دوستوں! حسن بن صباح نے انہیں کہا تھا جس پر ذرا سا بھی شک ہو اسے ختم کر دو یہ شخص ہمارے لئے خطرناک ہو سکتا تھا اس کی بیوی اب ہمارے ساتھ رہے گی اس کے پاس مال و دولت بھی ہے یہ بھی اب ہمارا ہے جاؤ اور صبح کا انتظار کرو
صبح اسے اطلاع ملی کہ قبرستان سے حافظ اصفہانی کی لاش آئی ہے تو وہ کمرے سے دوڑتا نکلا اور لاش تک پہنچا اس نے لاش کو ہر طرف سے دیکھا دونوں ہتھیلیاں دیکھیں اور گھبراہٹ کی ایسی اداکاری کی کے دیکھنے والوں پر خوف و ہراس طاری ہوگیا اس نے میمونہ کو دیکھا جس کی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئی تھیں
میمونہ! حسن بن صباح نے کہا میرے ساتھ آؤ جلدی ایک لمحہ دیر نہ لگانا اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا تم بھی میرے ساتھ آؤ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے
وہ میمونہ اور اپنے ساتھی کو اپنے کمرے میں لے گیا اور دروازہ بند کر لیا
رونا بند کرو میمونہ! اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا فرش پر بیٹھ جاؤ تمہارا خاوند کوئی غلطی کر بیٹھا ہے ایک بڑی ہی خبیث بدروح نے اس کی جان لی ہے یہ بدروح ابھی تک غصے میں ہے میں نے اس کی سرگوشی سنی ہے تمہاری جان بھی خطرے میں ہے چونکہ یہ عمل اس لیے کیا گیا تھا کہ تمہاری کوکھ سے بچہ پیدا ہو اس لیے یہ بد روح تمہیں بھی اسی طرح مارنا چاہتی ہے میں ابھی تمہاری حفاظت کا انتظام کر دیتا ہوں
اس نے میمونہ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور کچھ بڑبڑانا شروع کردیا وقفے وقفے سے وہ میمونہ کی آنکھوں میں پھونک مارتا تھا میمونہ جو بلک بلک کر رو رہی تھی اور ایسی بے چین کے ہاتھ نہیں آتی تھی پرسکون ہونے لگی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے سکون اور اطمینان کی لمبی آہ بھری جیسے اس کا خاوند زندہ ہو گیا ہو حسن بن صباح نے اسے فرش سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیا
میں نے حافظ کو خبردار کر دیا تھا حسن بن صباح نے کہا لیکن اسے ایک بچے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے میری پوری بات توجہ سے نہ سنی میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے تمہیں دیکھ لیا اور اس بے رحم بد روح کو بھی دیکھ لیا وہ ابھی تک حافظ پر منڈلا رہی تھی اور بار بار تمہاری طرف دیکھتی تھی میں نے تمہیں محفوظ کرلیا ہے لیکن تمہیں دو چاند میرے ساتھ رہنا پڑے گا اگر تم اس سے پہلے میرے سائے سے دور ہو گئی تو تمہارا انجام اپنے خاوند سے زیادہ برا ہوگا
یہ آپ کا کرم ہے یا امام! میمونہ نے کہا میں آپ کے سائے میں نہیں رہوں گی تو جاؤں گی کہاں میری منزل اصفہان ہے
وہاں تک میں تمہیں بخیر و خوبی پہنچاؤں گا حسن بن صباح نے کہا میرے محافظ تمہاری منزل تک تمہارے ساتھ جائیں گے لیکن تمہارا خاوند کہہ رہا تھا کہ وہ سلجوقی سلطنت کے حکمران سلطان ملک شاہ سے ملنے مرو جائے گا اس نے آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ مرو کیوں جائے گا میمونہ نے کہا ہم نے خلجان شاہ در اور اس علاقے میں جو دیکھا ہے وہ سلطان ملک شاہ کو بتانا تھا خصوصاً خلجان میں کوئی ایسا فرقہ تیار ہوگیا ہے جس کے عقیدے لوگوں کے دلوں میں اتر گئے ہیں یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کے اعمال نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ فرقہ اسلام کو بالکل ہی مسخ کر دے گا سنا ہے اس فرقے نے جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو اپنی جانوں کی بازی لگا کر اپنے مخالفوں کی جانیں لیتا ہے
تمہارے خاوند نے مجھے یہ ساری باتیں بتائی تھیں حسن بن صباح نے کہا تم یہ بتاؤ کہ تم اس سلسلے میں کیا کرنا چاہتی ہو؟
کچھ بھی نہیں میمونہ نے کہا وہ خاوند ہی نہیں رہا جو اسلام کا شیدائی تھا میں تو چاہتی ہوں اصفہان پہنچ جاؤ اور سوچو کہ مجھے اب اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہیے
کیا تمہارے گھر میں سونا یا درہم و دینار ہے؟
حافظ اصفہانی ایک جاگیر کا مالک تھا میمونہ نے جواب دیا سونا بھی ہے درہم و دینار بھی ہے جو گھر کے ایک دیوار میں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں یہ تو ایک مدفون خزانہ ہے لیکن زندگی کا ساتھی ہی نہ رہا تو میں اس خزانے کو کیا کروں گی کوشش کروں گی کہ اپنی بیٹی شمونہ کی تلاش میں مروں اور رے جاؤ آپ ہی نے بتایا ہے کہ وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس ہوگی
حسن بن صباح کو دھچکا سا لگا وہ ایک رات پہلے اس عورت کو بتا چکا تھا کہ اس کی بیٹی کہاں ہے اب اسے خیال آیا کہ اس عورت کو سلطان ملک شاہ اور ابو مسلم رازی کے پاس نہیں جانا چاہیے ورنہ وہ خلجان پر حملہ کرا دے گی اور اسے گرفتار کرا دے گی
پہلے اپنی منزل پر پہنچو! حسن بن صباح نے کہا مجھ سے پوچھے بغیر کہیں نہ جانا تمہاری بیٹی زندہ ہے اور تمہیں مل جائے گی لیکن اپنے آپ اس کی تلاش میں نہ چل پڑنا
میمونہ جذبات کی ماری ہوئی تنے تنہا عورت تھی خاوند کی موت کے صدمے نے اس پر ڈوبنے کی کیفیت طاری کر دی تھی وہ تینکو کے سہارے ڈھونڈ رہی تھی حسن بن صباح سے بہتر سہارا اور کیا ہو سکتا تھا اسے وہ امام مانتی تھی جو غیب کے پردوں کے پیچھے جا کر بتا سکتا تھا کہ کیا ہو چکا ہے اور کیا ہونے والا ہے
میمونہ نے مان لیا تھا کہ حسن بن صباح نے اس کے خاوند کو ٹھیک عمل بتایا تھا لیکن ایک بدروح نے اس کی جان لے لی اس مجبور عورت کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جسے وہ غیب دان امام مانتی ہے اس نے اسے ہپنا ٹائز کرلیا ہے اور اب وہ اس کے اشاروں پر چلے گی
وہ اس عورت کو ہپنا ٹائز نہ کرتا تو بھی وہ اس کے جال میں سے نکل نہیں سکتی تھی تمام مورخوں نے خصوصاً یورپی تاریخ نویسوں اور شخصیت نگاروں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے کہ اس کے سامنے اس کا کوئی خونی دشمن اسے قتل کرنے کی نیت سے آ جاتا تو وہ بھی اس کا مرید ہو جاتا تھا یہ ابلیسیت کا طلسم تھا
میمونہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ رہے گی
اس کے خاوند کی لاش اس کے کمرے میں پڑی ہوئی تھی حسن بن صباح نے سرائے کے مالک کو بلا کر کہا کہ وہ میت کے غسل اور کفن دفن کا انتظام کرے اس کے اخراجات میمونہ ادا کریے گی
دوپہر کے وقت حافظ اصفہانی کا جنازہ سرائے سے اٹھا قبرستان میں جاکر حسن بن صباح نے نماز جنازہ پڑھائی وہ جس قبرستان میں بچہ لینے گیا تھا اسی قبرستان میں دفن ہو گیا اور اپنے پیچھے یہ کہانی چھوڑ گیا کہ اسے ایک بدروح نے مارا ہے
میمونہ اپنے کمرے میں تنہا ڈرتی تھی اس نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ اس کے کمرے میں رہ سکتی ہے حسن بن صباح نے اسے اجازت دے دی میمونہ اپنا سامان اٹھا کر اس کے کمرے میں چلی گئی
اس سرائے میں مسافر اس مجبوری کے تحت روکے ہوئے تھے کہ کوئی قافلہ تیار نہیں ہورہا تھا لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کیا کرتے تھے اکیلے دکیلے مسافروں کو رہزن لوٹ لیتے تھے
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا چودہ پندرہ دنوں بعد ایک قافلہ تیار ہوگیا یہ بہت بڑا قافلہ تھا کچھ تاجر تھے کچھ پورے پورے کنبے تھے زندگی کے ہر شعبے کے لوگ اس قافلے میں شامل تھے عورتیں بھی تھیں بچے بھی تھے
سرائے میں اطلاع آئی تو سرائے خالی ہو گئی حسن بن صباح اس کے دو ساتھیوں اور میمونہ نے سامان باندھا اور قافلے سے جا ملے انہوں نے ایک گھوڑا اور دو اونٹ کرائے پر لے لیے ایک اونٹ پر بڑی خوبصورت پالکی بندھوائی یہ میمونہ کے لیے تھے قافلے کی روانگی سے پہلے میمونہ کو پالکی میں بٹھا دیا گیا اور حسن بن صباح اپنے ساتھیوں کے ساتھ ذرا پرے جا کھڑا ہوا
اس عورت پر نظر رکھنا حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ اپنے خاوند سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے میں نے اس کا راستہ بند تو کر دیا ہے پھر بھی یہ دوسرے مسافروں سے نہ ہی ملے تو اچھا ہے اس کا گھر اصفہان میں ہے اپنے مکان کی ایک دیوار میں اس کے خاوند نے اچھا خاصا خزانہ چھپا کر رکھا ہوا ہے اس سے یہ خزانہ نکلوانا ہے اور اس کے گھر میں ہی اس عورت کو دفن کر دینا اگر اسے زندہ رہنے دیا گیا تو یہ کسی بھی دن اپنی بیٹی سے ملنے ابومسلم رازی کے شہر کو روانہ ہو جائے گا
قافلہ چل پڑا
بہت دنوں کی مسافت کے بعد قافلہ بغداد پہنچا لوگ دو چار دن آرام کرنا چاہتے تھے بہت مسافروں کی منزل بغداد ہی تھی اتنے ہی مسافر بغداد سے قافلے سے آملے
حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں کو ایک سرائے میں لے گیا جس میں انہیں کمرے مل گئے وہاں چند ایک عورتیں بھی ٹھہری ہوئی تھیں ان کے ساتھ ان کے آدمی بھی تھے
دوسری صبح تھی میمونہ اپنے کمرے سے باہر نکلی اسے اپنا خاوند بہت یاد آ رہا تھا اور وہ بہت ہی اداس ہو گئی تھی حسن بن صباح نے خود ہی اسے کہا تھا کہ وہ باہر گھومے پھیرے سرائے کے باہر نہ جائے اور عورتوں میں جا بیٹھے
وہ باہر نکلی تو اسی کی عمر کی ایک عورت سامنے آگئی وہ بھی حلب کی سرائے سے اپنے کنبے کے ساتھ قافلے میں شامل ہوئی تھی اور وہ اسی سرائے میں ٹھہری تھی اسے معلوم تھا کہ میمونہ کا خاوند قبرستان میں ایک بد روح کے ہاتھوں مارا گیا تھا لیکن یہ عورت میمونہ سے پوچھ نہیں سکتی تھی کہ اس کا خاوند کس طرح مارا گیا تھا بغداد میں میمونہ اس کے سامنے آگئی
ہمسفر ہو کے ہم ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں اس عورت نے میمونہ سے کہا عورت کا درد عورت ہی سمجھ سکتی ہے کچھ دیر کے لئے میرے پاس نہیں آؤں گی میرے ساتھ میرا خاوند اور اس کا ایک بھائی ہے دو بچے ہیں
میمونہ اداس مسکراہٹ سے اس کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی مرد ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے
یہ تو بتاؤ بہن! اس عورت کے خاوند نے میمونہ سے پوچھا تمہارا خاوند رات کے وقت قبرستان میں کیا کرنے گیا تھا
امام نے اسے بھیجا تھا میمونہ نے کہا کہنا تو یہ چاہیے کہ اسے موت لے گئی تھی وہ ایک بچے کا خواہشمند تھا
میمونہ نے ساری بات لفظ با لفظ سنا دی
کیا تمہارے خاوند نے کوئی اور باتیں بھی کی تھیں اس شخص نے پوچھا میں دراصل یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہارا خاوند اس شخص کو جانتا تھا جسے تم امام کہتی ہو
باتیں تو بہت ہوئی تھیں میمونہ نے جواب دیا میرا خاوند امام کو پہلے نہیں جانتا تھا ہم مصر سے جہاز میں آ رہے تھے بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا جہاز کا ڈوب جانا یا یقینی تھا لیکن اس امام نے کہا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا طوفان سے نکل جائے گا جہاز نکل آیا
یہاں سے بات چلی تو بہت سی باتیں ہوئیں اس عورت کا خاوند کرید کرید کر باتیں پوچھ رہا تھا میمونہ کو شک ہوا کہ یہ آدمی کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتا ہے
میرے بھائی! میمونہ نے پوچھا معلوم ہوتا ہے آپ کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے ہیں
ہاں بہن! اس نے کہا میرا خیال ہے کہ میں نے خاص بات معلوم کر لی ہے میں تمہیں اس آدمی سے خبردار کرنا چاہتا ہوں اس شخص کا نام حسن بن صباح ہے اور یہ ایک شیطانی فرقہ کا بانی ہے اسے تم امام کہتی ہو یہ اگر امام ہے تو اس شیطانی فوقے کا امام ہے اس کا استاد احمد بن عطاش ہے اور ان لوگوں نے خلجان کو اپنے فرقے کا مرکز بنایا ہے یہ دونوں شیطان کا نام لیے بغیر لوگوں کو شیطان کا پجاری بنا رہے ہیں اور نام اسلام کا لیتے ہیں
میرے خاوند نے اس کے ساتھ یہ بات کی تھیں میمونہ نے کہا اور کہا تھا کہ وہ سلطان ملک شاہ اور حاکم رے ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے اور انہیں کہے گا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے خلاف جنگی کارروائی کریں اور اسلام کی اصل روح کو بچائیں میرے خاوند نے جب اسے یہ کہا کہ وہ آپ کا ہم نام ہے تو حسن بن صباح نے کہا کہ اس کا نام احسن بن سبا ہے حسن بن صباح نہیں میرے خاوند نے حسن بن صباح اوراسکے فرقے کے خلاف بہت باتیں کی تھیں اور یہ اس نے دو تین بار کہا تھا کہ میں اس فرقے کو نیست و نابود کرا دوں گا
میری عزیز بہن! اس آدمی نے جو خاصا دانشمند لگتا تھا کہا تمہارا خاوند قتل ہوا ہے اتنی اچھی حیثیت اور عقل و ہوش والا آدمی یہ نہ سمجھ سکا کے مردے کسی زندہ انسان کو بچہ نہیں دے سکتے اور حسن بن صباح جیسے شیطان فطرت انسان کی لکھی ہوئی پرچی پر اللہ تبارک و تعالی کسی کی مراد پوری نہیں کیا کرتا حسن بن صباح نے تمہارے خاوند کی دلی مراد سنی تو اس نے فورا سوچ لیا کہ اپنے اس خطرناک مخالف کو وہ کس طرح قتل کر سکتا ہے اس نے تمہارے خاوند کو آدھی رات کو قبرستان میں بھیجا اور پیچھے اپنے آدمی بھیج کر اسے قتل کروا دیا
میں بھی اس کے ساتھ یہی باتیں کر چکی ہوں میمونہ نے کہا اور مجھے اب خیال آتا ہے کہ اس نے مجھ سے یہ بھی اگلوا لیا ہے کہ میرے خاوند نے اصفہان میں اپنے رہائشی مکان کی ایک دیوار میں بہت سا سونا اور اچھی خاصی رقم چھپا کر رکھی ہوئی ہے
اس نے کیا کہا تھا؟
اس نے کہا کہ میں تمہیں اصفہان تک اپنے آدمیوں کی حفاظت میں پہنچاوں گا میمونہ نے کہا
وہ تمہارے ساتھ اپنے آدمی ضرور بھیجے گا اس شخص نے کہا پھر جانتی ہو کیا ہو گا تمہارے خاوند کا خزانہ دیوار سے باہر آ جائے گا اور تم دیوار کے اندر ہو گی کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تم کہاں غائب ہو گئی اس حسن بن صباح کے حکم سے یہ فرقہ کئی سالوں سے قافلوں کو لوٹ رہا ہے قافلوں سے یہ زر و جواہرات اور رقم لوٹتے ہیں اور خوبصورت کمسن اور نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں
میں ایک قافلے میں لُٹ چکی ہوں میمونہ نے کہا میرا پہلا خاوند ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا اور وہ میری ایکلوتی بیٹی کو اٹھا لے گئے ہیں
تمھاری بیٹی انہی کے پاس ہوگی اس آدمی نے کہا
سب باتیں ہو چکیں میمونہ نے کہا میں نے سب باتیں سمجھ لی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ یہ شخص حسن بن صباح جب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لفظ دل میں یوں اترتا جاتا ھے جیسے یہ لفظ آسمان سے اتر رہے ہو میں حیران ہوں کہ سلجوقی سلطان اور اس کے امراء جو اپنے آپ کو صحیح العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں اور اسلام کی پاسبانی کا بھی دعوی کرتے ہیں وہ بے خبر ہیں کہ ان کی سرحد کے ساتھ ساتھ کیا ہو رہا ہے
ان کے بے خبر ہونے کی ایک وجہ ہے اس شخص نے کہا ان کے جاسوس ان باطل پرستوں کے علاقے میں جاتے ہیں لیکن وہاں ان پر ایسا نشہ طاری ہو جاتا ہے کہ وہ وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں ان میں سے بعض ان باطنیوں کے گرویدہ ہو کر ان کے جاسوس بن کے واپس آ جاتے ہیں وہاں کی باتیں غلط بتاتے ہیں اور سلجوقی حکمرانوں کی صحیح خبریں باطنیوں کو دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو غداری نہیں کرتے دیانتداری سے جاسوسی کرتے ہیں وہ وہاں پر اسرار طریقوں سے قتل ہوجاتے ہیں حسن بن صباح نے جاسوسوں اور مشکوک لوگوں کو پکڑنے کا جو نظام بنا رکھا ہے اس میں اتنی گہری نظر رکھتے ہیں کہ باہر کے جاسوس کو فوراً پہچان لیتے ہیں انہیں حکم ملا ہوا ہے کہ ایسا کوئی بھی آدمی نظر آئے اسے قتل کر دو
آپ یہ ساری باتیں جانتی ہیں میمونہ نے پوچھا پھر آپ یہ سلطان ملک شاہ تک کیوں نہیں پہنچاتے
ان بچوں کے خاطر اس نے کہا میں مارا گیا تو ان کا کیا بنے گا
میں مرو یا رے تک کیسے پہنچ سکتی ہوں؟
میمونہ نے پوچھا پتہ چلا ہے میری بیٹی وہاں ہے معلوم نہیں یہ کہاں تک سچ ہے لیکن مجھے اس بیٹی سے اتنی محبت ہے کہ میں اس کی تلاش میں جاؤنگی ضرور مشکل یہ ہے کہ میں اس شخص حسن بن صباح کی قیدی ہوں ہماری منزل کا راستہ دور سے گزرتا ہے اگر میں وہاں تک پہنچ جاؤں تو سلطان تک بھی پہنچ جاؤں گی
تمہیں ویسے بھی یہاں سے نکل جانا چاہیے اس آدمی نے کہا اس شخص نے آخر تمہیں قتل کرنا ہے
میں اس عورت کے لئے ایک قربانی دے سکتا ہوں اس آدمی کے بھائی نے جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا کہا اگر یہ یہاں سے بھاگنے کے لیے تیار ہو تو آج ہی رات بھاگ چلے میں اس کا ساتھ دوں گا میرے پاس گھوڑا ہے اس کے لیے کسی کا گھوڑا چوری کر لیں گے
ہمارے پاس کرائے کا گھوڑا ہے میمونہ نے کہا اور میں پکی سوار ہوں گھوڑا کیسا ہی منہ زور کیوں نہ ہو زمیں کیسی ہی ناہموار کیوں نہ ہو میں سنبھل کر ہر چال اور ہر رفتار پر سواری کر سکتی ہوں
کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں بھائی جان! اس جوان سال آدمی نے اپنے بھائی سے پوچھا
یہ ایک جہاد ہے بڑے بھائی نے کہا میں تجھے کیسے روک سکتا ہوں مزمل!
انہوں نے میمونہ کو فرار کرا کے رے پہنچانے کا بڑا ہی دلیرانہ منصوبہ تیار کرلیا
میمونہ اپنے کمرے میں حسن بن صباح کے پاس چلی گئی
یہ کیسے لوگ ہیں جن کے یہاں تم اتنا وقت گزار آئی ہو حسن بن صباح نے پوچھا
کوئی عام سے لوگ ہیں میمونہ نے کہا اصفہان جا رہے ہیں حافظ اصفہانی کو جانتے تھے اسی کی باتیں کرتے رہے
اب میں باہر جا رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا تم آرام کر لو
حسن بن صباح کے جانے کے بعد میمونہ نے اپنی قیمتی چیزیں اور کپڑے چھوٹی سی ایک گٹھڑی میں باندھ کر پلنگ کے نیچے رکھ دیے رات کو حسن بن صباح گہری نیند سو گیا تو میمونہ نہایت آہستہ نیچے سے گھڑی نکالی اور دبے پاؤں باہر نکل گئی سب کے گھوڑے باہر بندھے ہوئے تھے ان کی زین وغیرہ ان کے پاس ہی تھیں میمونہ کا ہمسفر مزمل آفندی بہت پہلے باہر نکل گیا تھا دن کے وقت اس نے میمونہ کا گھوڑا دیکھ لیا تھا مزمل نے دونوں گھوڑوں پر زین کس دی تھیں
میمونہ پہنچ گئی گٹھڑی اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اور گھوڑے پر سوار ہوگئی مزمل آفندی بھی گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں گھوڑے چل پڑے پہلے وہ آہستہ آہستہ چلے پھر تیز ہو گئے اور جو شہر کے دروازے سے نکلے تو اور تیز ہو گئے کچھ دور جا کر انھوں نے ایڑ لگائی اور گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے
صبح حسن بن صباح کی آنکھ کھلی تو اس نے میمونہ کو غائب پایا اپنے ساتھیوں کے کمرے میں جا کر انہیں کہا کہ اسے ڈھونڈے اس وقت تک میمونہ بغداد سے ساٹھ میل دور پہنچ چکی تھی
وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی ہے حسن بن صباح نے اسوقت کہا جب اسے پتہ چلا کہ گھوڑا غائب ہے ہم قافلے کا انتظار نہیں کریں گے ہمیں فوراً اصفہان پہنچنا چاہئے وہاں سے خلجان کی صورت حال معلوم کرکے وہاں جائیں احمد بن عطاش کو خبردار کرنا ضروری ہے
ان کے پاس دو اونٹ تھے انہوں نے ایک اچھی نسل کا گھوڑا کرائے پر لے لیا اور اسی وقت روانہ ہوگئے دونوں اونٹوں کا مالک اور گھوڑے کا مالک بھی ان کے ساتھ تھے
مزمل آفندی اور میمونہ اتنی تیز گئے تھے اور انہوں نے اتنے کم پڑاؤ کیے تھے کہ تین دنوں بعد رے پہنچ گئے اور سیدھے امیر شہر ابومسلم رازی کے یہاں چلے گئے دربان سے کہا کہ وہ امیر شہر سے ملنا چاہتے ہیں
کیا کام ہے ؟
دربار نے پوچھا کہاں سے آئے ہو تم ہو کون؟
کیا ہمارے گھوڑوں کا پسینہ نہیں بتا رہا کہ ہم بہت دور سے آئے ہیں میمونہ نے کہا ہمارے چہرے دیکھو ہمارے کپڑوں پر گرد دیکھو امیر سے کہو ایک ماں اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہے کچھ ہی دیر بعد وہ اور مزمل ابومسلم رازی کے کمرے میں اس کے سامنے کھڑے تھے
بہت دور سے آئے لگتے ہو ابومسلم راضی نے کہا
بغداد سے مزمل نے جواب دیا
دربان نے بتایا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہو ابومسلم رازی نے کہا کون ہے تمہاری بیٹی؟
یہاں اس کا کیا نام ہے اس کا نام شمونہ ہے میمونہ نے کہا کسی نے بتایا تھا وہ یہاں ہے
ہاں! ابومسلم رازی نے کہا وہ یہیں ہے
اس نے دروازے کے باہر کھڑے خدمتگار کو بلا کر کہا شمونہ کو لے آؤ
جب ماں بیٹی کا آمنا سامنا ہوا تو کچھ دیر دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں
اپنی ماں کو پہچانتی ہو شمونہ؟
ابومسلم رازی نے کہا
ماں بیٹی یوں ملی جیسے ایک دوسرے کے وجود میں سما جانے کی کوشش کر رہی ہوں
ماں اپنی بیٹی کے بازو سے نکل آئی اور ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا میں صرف اس بیٹی کی تلاش میں نہیں آئی تھی امیر شہر! میمونہ نے کہا میرا اصل مقصد کچھ اور ہے کیا آپ حسن بن صباح کو جانتے ہیں ؟
حسن بن صباح! ابومسلم رازی نے کہا کیوں ؟
اسے جانتا ہوں سلطان معظم نے اسے زندہ پکڑ لانے کے لئے ایک سالار امیر ارسلان کو حکم دے دیا ہے…

📜☜ سلسلہ جاری ہے……



www.urducover.com

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles