حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
Hassan bin Sabah and his artificial paradise
قسط نمبر:1 }
اولاد آدم کی داستان حیات اتنی ہی طویل ہے جتنی لمبی لمبی صدیاں گزر گئیں ہیں
انسان اتنے لمبے اور ایسے کٹھن سفر میں اکیلا نہیں تھا ابلیس اس کا ہمسفر رہا آخری منزل تک ہم سفر رہے گا اس کا نتیجہ یہ کہ اولاد آدم کی زندگی کی کہانی سزا و جزا کی داستان بن گئی ہے مگر عجوبہ یہ کہ انسان اپنی ہی آپ بیتی پر نگاہ ڈالتا ہے تو محو حیرت ہو جاتا ہے عبرت حاصل نہیں کرتا شرمسار نہیں ہوتا بلکہ خود فریبی سے اپنا دل پر جا لیتا ہے اور اس ابلیس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے جس نے اللہ کے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا کہ آدم کے آگے سر بسجدہ ہو جا
کہانی کوئی بھی ہو کسی کی بھی ہو اسی صورت میں دلچسپ سنسنی خیز عبرتناک اور خیال افزا بنتی ہے جب اس کہانی کے کردار اللہ والے ہوں سوائے ایک دو کے جو ابلیس کے پجاری ہوں اگر ابلیس اللہ کا حکم مان لیتا اور آدم کے آگے سجدہ میں گر پڑتا تو بات اللہ کی عظمت اور بندوں کی بندگی پر اور عابد و معبود تک ہی رہ جاتی
اللہ نے نیک اور پارسا بندوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے
ابلیس نے بندوں کو بدی کے راستے پر ڈال کر انہیں دنیا میں جنت دکھا دی ہے
اور یہی ہے وہ ابلیس کی جنت جس نے اولاد آدم کی سوانح حیات میں قوس قزح جیسے رنگ بھرے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ابلیس نے اپنے پجاریوں کے لیے جو جنت بنائی اور اسے بڑی ہی دلنشین رنگ دیئے وہ کچھ عرصے بعد صرف ایک رنگ میں روپوش ہوگئی یہ رنگ خون کا تھا
شداد عاد حضرت موسی علیہ السلام کے دور کے لگ بھگ ایک ملک کا حکمران تھا مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ صحیح طور پر وہ کس دور کا بادشاہ تھا جب بھی تھا جہاں بھی تھا اس میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس حقیقت پر سب متفق ہیں کہ شداد کے مزاج شاہی میں فرعونیت تھی اس کا طرز حکومت فرعونوں جیسا تھا رعایا کو وہ اس کے بندے نہیں سمجھتا تھا جس نے انہیں پیدا کیا تھا بلکہ وہ انہیں اپنا غلام اور اپنی ملکیت سمجھتا تھا درندہ صفت بادشاہ تھا
مقہور مجبور رعایا نے جب اس کے آگے سجدے کرنے شروع کر دئے تو اس نے خدائی کا دعوی کر دیا اور بھوکی ننگی رعایا نے اسے خدا مان لیا وہ معبود بن گیا
وہ خدا ہی کیا جس کے پاس جنت نہ ہو شداد نے ایک جنت بنائی جو آج تک باغی ارم کے نام سے مشہور ہے اس میں اس نے جنت کے تمام تر رنگینیاں اور رعنائیاں سمو ڈالیں اس جنت میں اس نے حوروں کو بھی لا بسایا یہ حسین اور نوجوان لڑکیاں تھیں شراب کے مٹکے رکھوا دیے اور ابلیسیت کے تمام تر دلنشین دلفریب اور سحر انگیز اہتمام کیے جنت مکمل ہوچکی تو شداد اپنی جنت دیکھنے کے لئے گیا مگر جنت کے صدر دروازے میں قدم رکھا ہی تھا کہ گر گیا اور مر گیا خدا کو اپنی جنت میں قدم رکھنا بھی نصیب نہ ہوا
روایت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرشتہ اجل سے پوچھا کیا کبھی تجھے کسی جسم سے روح نکالتے وقت افسوس بھی ہوا ہے؟
ہاں ! اے پروردگار عالم فرشتہ اجل نے جواب دیا دو بار ایک بار ایک جہاز سمندر میں ڈوب گیا تھا مسافروں میں سے صرف ایک ماں زندہ بچ نکلی تھی جس کی گود میں دو تین ماہ عمر کا بچہ تھا وہ بچے کو بھی زندہ نکال لائی تھی باری تعالی تو نے حکم دیا کے اس عورت کی روح نکال لاؤ مجھے بہت دکھ ہوا کہ ماں زندہ نہ رہی تو بچے کا کیا بنے گا لیکن خدائے بزرگ و برتر موت و حیات تیرے اختیار میں ہے میں نے تیرے حکم کی تعمیل کی
اور دوسری بار؟
اے پروردگار! عالم فرشتہ اجل نے کہا شداد ایک بادشاہ تھا اس نے بڑی محنت سے جنت بنائی تھی اس پر خزانے لٹا دئیے تھے اس کی تکمیل میں اس کی عمر کا ایک حصہ گزر گیا تھا اس نے اپنی جنت کی تعمیر اس وقت شروع کی تھی جب جوان تھا تکمیل اس وقت ہوئی جب جوانی گزر گئی تھی وہ اپنی جنت کو دیکھنے گیا تو تیرا حکم ہوا کہ یہ شخص اپنی بنائی ہوئی جنت میں داخل ہونے لگے تو اس کی روح نکال لاؤ
میں نے تیرے حکم کی تعمیل کی اپنا فرض ادا کیا لیکن میرا دل رنج و ملال میں مبتلا ہو گیا کہ یہ شخص اپنی بنائی ہوئی جنت میں قدم بھی نہ رکھ سکا کہ اس کا بے روح جسم جنت کے دروازے میں گر پڑا لیکن ائے خالق کائنات میں چوں و چرا نہیں کرسکتا
جانتے ہو یہ شداد کون تھا؟
باری تعالی نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا یہ وہی بچہ تھا جسے ماں سمندر میں سے زندہ نکال لائی تھی اور میں نے تجھے کہا تھا کہ اس کی ماں کی روح نکال لاؤ
یا حی و یا قیوم یا ممیت فرشتہ اجل نے رکوع میں جاکر کہا بے شک تو ہمیشہ زندہ رہنے والا زندگی اور موت دینے والا ہے
پھر تاریخوں میں ایک اور جنت کا ذکر ملتا ہے جو شداد کے باغ ارم جیسی پرانی بات نہیں بلکہ کل کی بات لگتی ہے پانچویں صدی ہجری کو تاریخ پرانی بات نہیں کہتی تاریخ میں سال لمحوں کی حیثیت رکھتے ہیں
یہ ابلیس کے حکم سے بنائی ہوئی دوسری ارضی جنت تھی جس کا خالق حسن بن صباح تھا اس نے خدائی کا دعویٰ تو نہیں کیا لیکن بلا خوف تردید یہ دعویٰ کرتا تھا کہ خداوند تعالی اس پر وحی نازل کرتا ہے اور براہ راست احکام دیتا ہے
اس کے بنائے ہوئے فرقے کے پیروکار آج بھی موجود ہیں حسن بن صباح نے ابلیس کی حکومت قائم کر دی تھی اس نے جو فرقہ بنایا تھا وہ انتہائی خوفناک سازشیں زعماء کے قتل اور بے حد شرمناک اور اور ہولناک گناہوں کی وجہ سے مشہور ہوا اس فرقے کی بنیاد بدی پر رکھی گئی تھی
جتنی بھیانک وارداتیں حسن بن صباح نے کروائیں وہ سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں حسین اور نوجوان لڑکیوں کا جو استعمال حسن بن صباح نے کیا وہ اس سے پہلے یا بعد کے ادوار میں کبھی نہیں ہوا اور اولاد آدم اور ابلیس کی جو پراسرار سنسنی خیز اور فکر انگیز کہانیاں اس دور میں ملتی ہے وہ کسی اور دور میں نہیں ملتی
بھنگ جسے حشیش کہتے ہیں اس فرقے کی روحانی غذا تھی اس فرقے کی کامیابی کا راز بھنگ میں تھا حسن بن صباح کی جنت میں دو ہی تو چیزیں تھیں جو انسان کو ابلیس کا چیلا نہیں بلکہ مکمل ابلیس بنا دیتی تھی
یہ چیزیں تھیں حشیش اور حوریں اس جنت میں حیران کن حد تک خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں رکھی جاتی تھیں مورخ لکھتے ہیں کہ حوریں ان سے زیادہ کیا خوبصورت ہوں گی
نشہ شراب کا ہو خواہ حشیش کا یا چرس کا ہو خواہ ہیروئن کا اللہ تبارک و تعالی نے اسے ام الخبائث کہا ہے اس میں نسوانی حسن اور جنت کا نشہ شامل ہوجائے تو انسان خود خبائث کا چلتا پھرتا مجسمہ بن جاتا ہے
اولاد آدم جب راہ حیات کے اس موڑ پر آئے جہاں حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی تو اسے ابلیس کے قہقہے سنائی دینے لگے یہاں سے ایسے قصوں اور کہانیوں نے جنم لیا جو آج بھی سنو تو دل پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے کبھی شک ہوتا ہے کہ یہ واقعہ صداقت پیمانے پر پورے نہیں اترتے لیکن یہ چھوٹی سے چھوٹی تفصیل تک سچے ہیں
اعمال صالحہ کہانی نہیں بنا کرتے کہانی اعمال بد کی کوکھ سے جنم لیا کرتے ہیں
یہ کوئی کہانی نہیں ہوتی کہ انسان نے ایک پیاسے کو پانی پلایا کہانی اس سے بنتی ہے کہ ایک انسان نے ایک انسان کا خون پی لیا
پانی کا پیاسا کسی کہانی کا کردار نہیں بنا کرتا کہانی اس انسان سے بنتی ہے جو انسان کے خون کا پیاسا ہو
آج داستان گو اپ کے لئے اس دور کی داستانیں لے کر آیا ہے جو سلجوقیوں کا دور حکومت تھا خلافت بغداد کی چولیں ڈھیلی ہو گئی تھیں اسلام کا پرچم یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے شمع بجھنے سے پہلے ٹمٹمایا کرتی ہے
طوائف الملوکی اسلام کے تار او پود بکھیر رہی تھی اہل صلیب پرچم ستارہ و ہلال کو ہمیشہ کے لیے گرا دینے کو طوفان کی طرح بڑھے آرہے تھے
اللہ نے اپنے دین کو ہر دور میں سنبھالا اور سہارا دینے کا سبب پیدا کیا اس پرآشوب دور میں جب خلفاء ہوس اقتدار کے دیوانے ہو کر اپنے فرائض کو بھلا بیٹھے تھے اور مسلمانوں کی عسکری قوت خلفاء کی عدم توجہی اور شاہانہ طرز بودوباش کی وجہ سے کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی اللہ نے سلجوقیوں کو بھیجا ان ترک جنگجوؤں نے آکر اسلام کے گرتے ہوئے پرچم کو تھاما دین کی بنیادیں مستحکم کی طوائف الملوکی کا خاتمہ کیا فوج میں عسکری روح پیدا کی اور اہل صلیب کے لشکروں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑی کر دی
اس دور میں فرقہ باطنیہ نے سر اٹھایا اور حسن بن صباح ابلیس کے روپ میں سامنے آیا اور جسد اسلام کا کینسر بن گیا
حسن بن صباح آیا کہاں سے تھا؟
تھوڑا سا ذکر سلجوقیوں کا بھی ہو جائے تاکہ داستان گو کی بات سمجھنے میں آسان رہے
ان کا دور حکومت اسلام کے عروج اور عظمت و اقبال کا زمانہ تھا سلجوقی ایک غیر مسلم جنگجو سلجوق بن یکاک نسل سے تھے جو ترکستان کے خان اعظم کے یہاں ملازم تھا یہ لوگ فطرتاً جنگجو تھے
اللہ نے اس غیر مسلم خاندان کو اسلام کی بقا سلطنت اسلامیہ کی سلامتی اور توسیع اور دین کی فروغ کی سعادت عطا کرنی تھی اس کا سبب یوں بنا کے سلجوق بن یکاک نے خان ترکستان کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنے خاندان کے ساتھ بخارا چلا گیا اس کا قبیلہ بھی اس کے ساتھ ہی ہجرت کر گیا کیونکہ اس میں کچھ ایسے اوصاف تھے کہ قبیلہ اسے اپنا پیر و مرشد مانتا تھا
سلجوق اپنے اوصاف اور صلاحیتوں کو کسی بہتر اور عظیم مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا وہ یقیناً کسی ایسے عقیدے اور ایسے مذہب کی تلاش میں تھا جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہو بخارا میں وہ اسلام سے متعارف ہوا تو اس نے بلا پس و پیش اسلام قبول کرلیا اور اپنے خاندان اور قبیلے کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کراکے کہا کہ وہ سب مسلمان ہو جائیں وہ تو حکم کے منتظر تھے پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا
یہ ایک معجزہ تھا کن فیکون کا مظاہرہ تھا آل سلجوق تو ترکستان میں وحشی جنگلی اور تہذیب و تمدن سے بے بہرا مشہور تھے جنگجو ایسے کے ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن اللہ نے انھیں سے اپنے دین کا تحفظ کرانا تھا سلجوق صرف مسلمان ہی نہ ہوئے بلکہ اسلام کو سربلند کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی
یہ ایک اور داستان ہے کہ سلجوقیوں نے سلطنت اسلام کے عنان کس طرح اپنے ہاتھ میں لی مختصر یہ کہ غیر مہذب اور آوارہ گرد ترک تہذیب اور شائستگی کے پیکر بن گئے تعلیم سے بے بہرہ سلجوقیوں نے عالموں اور فاضلوں کو دربار میں اکٹھا کرکے ان کی پذیرائی کی ان کی خانہ بدوش ذہنیت مدنیت کے رنگ میں رنگی گئ
یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دین اسلام کا نور توحید اور رسالت کا محافظ و ناصر خود اللہ تبارک وتعالی ہے اس کی ذات باری نے جس طرح عرب کے بُریا نشینوں صحرانوردوں گناہوں اور جاہلیت میں ڈوبے ہوئے بندوں کو رسالت اور اپنے دین سے نوازا تھا اسی طرح پسماندہ ترکوں کو اعزاز بخشا کہ انہیں عسکری قوت اور کردار کی عظمت عطا کی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایران عراق شام الجزیرہ اور ایشیائے کوچک پر چھا گئے ان کے سامنے جو بھی اسلام دشمن طاقت آئی اسے کچل اور مسل کر ختم کر دیا
بنیادی تبدیلی تو یہ آئی کہ خلافت عباسیہ کے کردار کی کمزوریوں نے سلطنت میں جو طوائف الملوکی پیدا کر دی تھی اس کا قلع قمع ہو گیا سلجوقیوں نے اس کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک بادشاہی قائم کردی اور افغانستان سے بحیرہ روم تک کا علاقہ ایک سلطنت بن گیا اور یہ سلطنت اسلامیہ تھی
بادشاہت کا نظام حکومت اسلامی کے منافی ہے لیکن سلجوقیوں نے سلطنت کو ایک مرکز کی تحت لانے کے لئے بادشاہت کا نظام اپنایا تھا اس کے نتیجے میں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ سلطنت میں جو انتشار اور عدم اتحاد پیدا ہو گیا تھا وہ یکجہتی اور قومی اتحاد میں بدل گیا
پھر ان سلجوقیوں نے یورپ کے اہل صلیب کی یلغار کو یوں قہر و غضب سے روکا کے انہیں بار بار حملہ کرنے کے قابل نہ چھوڑا سلجوق بن یکاک کی حکومت اس کے پوتوں طغرل بیگ سلجوقی اور چغرا بیگ سلجوقی تک پہنچی بادشاہوں کے خاندانوں میں یہ روایت لازمی طور پر چلتی رہی کہ سگے بھائی تخت نشین پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے اگر کوئی بہن ہوتی تو وہ الگ سازشیں کرتی تھی محلاتی سازشیں شاہی خاندانوں میں لازمی سمجھی جاتی تھی لیکن سلاطین آل سلجوق آپس میں عناد رکھنے کو گناہ سمجھتے تھے
طغرل بیگ اور چغرا بیگ سگے بھائی تھے تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا آپس میں پیار تھا کہ تخت کا وارث بڑا بھائی تھا لیکن بڑے نے چھوٹے بھائی کو اقتدار میں اپنے ساتھ رکھا اور دو دارالسلطنت بنا دیے چغرابیگ کے لئے ترکستان کا مَرو اور خراسان کا شہر نیشاپور جو طغرل بیگ کا دارالسلطنت تھا اس طرح بھائیوں میں پیار اور اتحاد بھی قائم رہا اور سلطنت چونکہ وسیع تھی اس لئے دو دارالسلطنت بننے سے انتظام پہلے سے بہتر ہو گیا
آل سلجوق نے خلیفہ کو نہ چھوڑا اور اسے کچھ علاقہ دے کر اس کی حیثیت برقرار رکھی تھی
یہاں ایک واقعے کا ذکر بے محل نہ ہوگا اس وقت خلیفہ قائم بامراللہ تھا ہجری 450 کا ذکر ہے کہ بساسیری نام کے ایک غیر مسلم نے خلیفہ قائم کو کمزور اور تہنا سمجھ کر بغداد پر حملہ کردیا اور خلیفہ کو قید میں ڈال دیا
طغرل بیگ کو اطلاع ملی تو اس نے بساسیری پر حملہ کردیا اور اسے بہت بری شکست دے کر اسے گرفتار کر لایا حکم دیا کے اس کا سر کاٹ کر میرے حوالے کیا جائے تھوڑی ہی دیر میں سر اس کے سامنے پڑا تھا، طغرل بیگ نے سر اٹھا لیا اور خلیفہ کے گھر کی طرف چل پڑا ،خلیفہ کو بساسیری کی قید سے رہا کرالیا گیا تھا
طغرل بیگ نے بساسیری کا سر خلیفہ کے قدموں میں رکھ دیا طغرل خلیفہ قائم بامراللہ نے کہا کیا تم چار سال انتظار کر سکتے ہو ؟
کیسا انتظار ؟
طغرل بیگ نے پوچھا میں اس احسان کا تمہیں صلہ دینا چاہتا ہوں جو تم نے مجھ پر کیا ہے خلیفہ قائم نے کہا۔ پہلی بات یہ ہے محترم خلیفہ طغرل بیگ نے کہا کہ میں نے آپ پر احسان نہیں کیا فرض ادا کیا ہے دوسری بات یہ کہ میں چار سال انتظار کا مطلب نہیں سمجھ سکا
میری ایک ہی بیٹی ہے خلیفہ نے کہا ابھی کمسن ہے بارہ تیرہ سال عمر ہے چار سال بعد جوان ہو جائے گی تو اس کی شادی تمہارے ساتھ کر آؤں گا یہ ایسا انعام ہے یا تحفہ ہے جو میں کسی غیر عباسی کو نہیں دے سکتا، ہم اپنی لڑکیاں عباسیوں میں ہی بیہاتے ہیں، تم سلجوقی ہو لیکن تمہارے احسان کا صلہ اس سے کم نہیں دوں گا میں نے اپنی بیٹی تمہیں دے دی چار سال بعد شادی ہو جائے گی چار سال بعد خلیفہ نے اپنی بیٹی کی شادی طغرل بیگ سے کردی
بادشاہوں کے ہاں رواج یہ رہا ہے کہ انھیں وزیروں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن رسمی طور پر وہ ایک وزیراعظم اور برائے نام دو تین وزیر رکھ لیتے تھے حکم تو بادشاہ کا چلتا تھا وزیر تائید اور خوشامد کرتے تھے ان کے مشیر بھی حاشیہ بردار اور جی حضوری ہوتے تھے بادشاہ ان سے رسماً کسی کام یا کسی مسئلے کا مشورہ لیتا تو وہ بادشاہ کی مرضی اور مزاج کے مطابق مشورہ دیا کرتے تھے لیکن سلجوقیوں کے یہاں یہ رواج نہیں تھا
سلاطین آل سلجوق علم و فضل کے قدر دان تھے ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ بادشاہوں جیسے دربار نہیں لگاتے تھے اس لیے وہ خوشامدیوں اور درباریوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے ان کے فیصلے دو ٹوک اور اٹل ہوتے تھے
چغرا بیگ اور طغرل بیگ کا دور حکومت تھا جنہوں نے دو دارالسلطنت بنا لیے تھے چغرا بیگ مَرو میں تھا ایک روز ایک جواں سال آدمی اس کی ملاقات کے لئے آیا اس شخص کا لباس بتا رہا تھا کہ وہ معمولی سا کوئی سوالی نہیں وہ کوئی عالم یا کسی اونچے درجے کے خاندان کا فرد لگتا تھا
سلطان کو کیا بتاؤں آپ کو نہیں؟
دربان نے پوچھا اور غرض ملاقات کیا ہے؟
میرا نام خواجہ حسن طوسی ہے ملاقاتی نے بتایا نیشا پور سے آیا ہوں نیشاپور کے امام موافق کا شاگرد ہوں ان کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہو کر آیا ہوں فقیہ اور محدث ہوں غرض ملاقات سلطان کو بتاؤں گا
دربان کے لئے حکم تھا کہ کوئی عالم ملاقات کے لیے آ جائے تو اسے روکا نہ جائے چنانچہ دربان نے اندر جاکر سلطان چغرا بیگ کو اطلاع دی
کیا وہ فقیہ اور محدث لگتا ہے؟
سلطان نے پوچھا
ہاں سلطان محترم دربان نے جواب دیا زبان شائستہ اور لباس عالمانہ ہے چہرے سے مہذب لگتا ہے
تو اسے اتنی دیر باہر کھڑا رکھنا خلاف تہذیب ہے سلطان نے کہا اسے فوراً اندر بھیج دو
چند لمحوں بعد خواجہ حسن طوسی سلطان چغرا بیگ کے سامنے کھڑا تھا سلطان نے اسے احترام سے بٹھایا
اے نوجوان سلطان نے پوچھا میں کیسے مان لوں کے تو امام موافق کا شاگرد ہے ہم جانتے ہیں امام مؤافق کی شاگردی کتنا بڑا اعزاز ہے
میرے پاس سند ہے خواجہ طوسی نے سند سلطان کے حوالے کرتے ہوئے کہا میں نے فقہ اور حدیث کی اور دیگر دینی امور کی تعلیم پائی ہے
کیا تو فارغ التحصیل ہو گیا ہے؟
سلطان نے پوچھا
نہیں سلطان عالی مقام خواجہ طوسی نے جواب دیا میں مدرسے سے فارغ ہوا ہوں تحصیل علم سے نہیں علم ایک سمندر ہے موتی اسی کے ہاتھ آتا ہے جو اس سمندر میں غوطہ زن ہوکر تہہ سے سیپی اٹھا لانے کا عزم رکھتا ہے
سلطان چغرا بیگ کچھ متاثر ہوا
ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ تو کتنا کچھ دانشمند ہے سلطان نے کہا کتابیں علم دے سکتی ہے عقل نہیں تو اپنے آپ کو کتنا دانشمند سمجھتا ہے؟
سلطان محترم خواجہ حسن طوسی نے کہا انسان اتنا ہی احمق ہے جتنا وہ اپنے آپ کو دانشمند سمجھتا ہے اور انسان اتنا ہی چھوٹا ہے جتنا وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے یہ فیصلے دوسرے کیا کرتے ہیں کہ فلاں احمق اور فلاں دانشمند ہے
ایک بات بتا طوسی سلطان نے پوچھا حکمران میں کیا صفات اور کیسے اوصاف ہونے چاہیے کہ وہ رعایا میں ہر دل عزیز ہو اور مرنے کے بعد بھی لوگ اسے اچھے الفاظ سے یاد کریں
وہ اپنے دین اور سلطنت کے لئے آگ کا طوفان ہو خواجہ حسن طوسی نے جواب دیا رعایا کے لئے پانی ہو زمین کی طرح فیاض اور آسمان کی طرح مرئی ہو عقاب کی مانند تیز نگاہ کوے کی طرح محتاط اور کوئل کی طرح خوش گلو ہو شیر کی طرح بے خوف اور چاند ستاروں کے مانند راست گو ہو یوں نہیں کہ آج ادھر کل ادھر بھٹکتا پھرے
کیا یہ صفات ہم میں ہے؟
سلطان نے پوچھا
اگر میں نے کہا ہے تو یہ خوشامد ہوگی خواجہ طوسی نے کہا خوشامد منافقت ہے میں منافق نہیں بننا چاہتا اگر میں نے کہا سلطان میں کچھ صفات کی کمی ہے تو میں معتوب ہونگا مجھ میں تابِ عتاب نہیں
اے نوجوان سلطان نے کہا تیری صاف گوئی قابل داد ہے لیکن ایک بات بتا اگر ان صفات اور اوصاف میں سے ایک یا دو ہم میں نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟
سلطان عالی مقام خواجہ حسن طوسی نے کہا تسبیح میں ایک سو دانے اور گرہ صرف ایک ہوتی ہے اگر یہ ایک گرہ کھل جائے تو تمام دانے بکھر جاتے ہیں ہو سکتا ہے آپ کی اور وہ وصف کمزور ہو جو گرہ کی حیثیت رکھتا ہے تو گری کسی بھی وقت صفات و اوصاف کے دانے بکھیر دے گی۔
خواجہ حسن طوسی سلطان چغرا بیگ نے پرجوش لہجے میں کہا ہم نے تجھے مشیر مقرر کیا اگر تو نے راست گوئی اور صداقت پسندی کو قائم رکھا تو یہ ہماری پیشن گوئی ہے کہ ایک روز تو اس سلطنت کا وزیراعظم ہوگا
بیس بائیس سال بعد سلطان چغرا بیگ کی پیشن گوئی پوری ہوگئی خواجہ حسن طوسی وزیراعظم بن گیا اس وقت کا سلطان چغرا بیگ کا پوتا سلطان ملک شاہ حکمران تھا مَرو یعنی دوسرے دارالسلطنت میں سلطان الپ ارسلان تھا خواجہ طوسی سلطان الپ ارسلان کا وزیر اعظم تھا
خواجہ حسن طوسی تاریخ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت ہے اسے سلجوقی سلطانوں نے نظام الملک کا خطاب دیا تھا تاریخوں میں اسے خواجہ حسن طوسی کم نظام الملک زیادہ لکھا گیا ہے اس لئے وہ اسی نام سے جانا پہچانا جاتا ہے وہ دینی امور کا اور فقہ و حدیث کا عالم تھا نظام الملک نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ بنایا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کے ساتھ ہی بہاؤالدین شداد کو جو اس وقت کا مشہور اسکالر تھا اسی مدرسے میں اکٹھے پڑھے تھے
ایک روز نظام الملک طوسی اپنے کام کاج میں مصروف تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ نیشا پور سے ایک شخص اسے ملنے آیا ہے اور اپنا نام عمر خیام بتاتا ہے نظام الملک نے ذہن پر زور دیا یہ نام اسے کچھ مانوس لگا اور ایک شک کی بنا پر کہا کہ اسے اندر بھیج دو عمر خیام اندر آیا نظام الملک نے اسے دیکھا تو اچھل کر اٹھا اس نے عمر خیام کو پہچان لیا تھا دونوں اس طرح بغلگیر ہو کر ملے جیسے لمبی مدت کے بچھڑے ہوئے دوست ملا کرتے ہیں
وہ تھے ہی پرانے اور بچھڑے ہوئے دوست امام مؤافق کے مدرسے میں ہم جماعت تھے اس مدرسے کے متعلق تاریخوں میں لکھا ہے کہ طلباء کم ہوا کرتے تھے اور جو بھی طالب علم امام مؤافق کی شاگردی سے فارغ ہوتا تھا وہ حکومت یا معاشرے میں اونچے درجے پر فائز ہوجاتا تھا اس کی ایک مثال خواجہ حسن طوسی کی تھی جو سلطنت سلجوقی کا وزیر اعظم بنا نظام الملک کا خطاب پایا اور تاریخ میں آج تک اس کا نام زندہ ہے اور تاابد زندہ رہے گا
پھر ایک اور مثال عمر خیام کی ہے عمر خیام کی رباعی آج بھی مشہور ہیں اردو میں بھی ان رباعیوں کا ترجمہ ہوا ہے اور انگریزی میں بھی اس طرح عمر خیام اردو اور انگریزی ادب کا ایک مقبول شاعر بن گیا ہے
عمر خیام کوئی عام قسم کا شاعر نہ تھا وہ فلسفی شاعر تھا اس کی رباعیوں میں نسوانی حسن کی رعنائیاں تو بہت ہیں لیکن ان رباعیوں میں زندگی کا فلسفہ اور دانش ہوتی تھیں اس کی رباعیاں خیال کی گہرائیوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں
یہی نہیں عمر خیام حکیم بھی تھا اس نے حکمت کی پریکٹس ہی نہیں کی تھی بلکہ بعض لاعلاج امراض کی دوائیاں بھی ایجاد کی تھیں ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمر خیام نے آب حیات بھی تیار کر لیا تھا جو ہر مرض کی دوا اور لامحدود عمر کا ضامن تھا لیکن یہ محض روایت ہے کسی بھی مورخ نے آب حیات کا ذکر نہیں کیا
یہ تھا عمر خیام جو اپنے پرانے ہم جماعت خواجہ حسن طوسی نظام الملک سے ملنے آیا تھا یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عمر خیام کسی امیر باپ کا بیٹا نہیں تھا اس کا باپ جس کا نام عثمان تھا موٹے کھدر کا کپڑا بنتا تھا یہ اس کا خاندانی پیشہ تھا اس کے بعد اس نے خیموں کی سلائی کا کام شروع کردیا تھا اسی وجہ سے وہ خیام کہلانے لگا عثمان خیام اس کے بیٹے عمر نے جب دیکھا کہ وہ شعر موزوں کرسکتا ہے تو اس نے باپ کے پیشے کی مناسبت سے اپنا تخلص خیام رکھ لیا یہ تخلص اس کے نام کا حصہ بن گیا اور عمر خیام کے نام سے مشہور ہوا
کہو عمر نظام الملک نے پرمسرت لہجے میں کہا اتنا عرصہ کہاں رہے آج تم نے لڑکپن یاد دلا دیا ہے
پہلی بات یہ ہے خواجہ عمر خیام نے کہا میں اب عمر نہیں عمر خیام ہوں شعر و شاعری میں مقام پیدا کر لیا ہے حکمت میں قسمت آزمائی کر رہا ہوں علم و ادب کی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور حکمت کی بھی لیکن ذریعہ معاش کوئی نہیں باپ خیمہ بافی کرتا ہے میں نے اس پیشے کو اپنانے کی کوشش کی تھی لیکن میرے ذہنی روحجان نے اسے قبول نہیں کیا میری صلاحیتیں مجھے کسی اور طرف لے جارہی تھی باپ کو بھی میں نے ناراض کردیا کہ میں روٹی کمانے کے لیے اس کا ساتھ نہیں دیتا
تمہیں کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش تو تلاش کرنا ہی ہوگا نظام الملک نے کہا بغیر کام کے زندگی کوئی زندگی نہیں ہوتی
میں تمہیں ایک عہد نامہ یاد دلانے آیا ہوں خواجہ عمر خیام نے کہا عہد نامہ ہم نے لڑکپن میں کیا تھا
عہد نامہ؟
نظام الملک نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا بائیس تئیس سال گزر گئے ہیں،عمر ذرا سا اشارہ دے دو
نظام الملک اور عمر خیام کا ایک ہم جماعت اور بھی تھا اس نے تو تاریخ میں ایسا نام پایا ہے کہ اسے تاقیامت بھلایا نہیں جا سکے گا یہ تھا جنت ارضی کا خالق حسن بن صباح ان کے ہم جماعت تو اور بھی تھے لیکن نظام الملک عمر خیام اور حسن بن صباح کی آپس میں دوستی اتنی گہری ہوگئی تھی کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہتے اور جدھر ایک نے جانا ہوتا تو اُدھر تینوں جاتے تھے
ایک روز حسن بن صباح نے ایک عہد نامہ پیش کیا اور تینوں دوستوں نے آپس میں یہ عہد کیا یہ ان کا ایک تاریخی عہد نامہ ہے جس کا ذکر تقریباً ہر مؤرخ نے کیا ہے اتنی مدت بعد عمر خیام نظام الملک سے ملا تو نظام الملک عہد نامہ بھول چکا تھا
مدرسہ کی ایک رات یاد کرو خواجہ عمر خیام نے نظام الملک کو عہد نامہ یاد دلانے کے لئے کہا ہم تینوں دوست اس روز کا پڑھا ہوا سبق دہرا کر فارغ ہوئے تو حسن بن صباح نے کہا کہ اس مدرسے کی یہ روایت ہے کہ جو یہاں سے پڑھ کر نکلا اور جسے امام مؤافق نے ذہین اور لائق کہا وہ کسی نہ کسی اونچے رتبے پر پہنچا پھر حسن بن صباح نے کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ ہم تینوں اونچے رتبے پر پہنچیں گے ہو سکتا ہے ہم تینوں میں سے کوئی ایک کسی بلند مرتبے تک جا پہنچے اور باقی دو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کما سکیں پھر حسن بن صباح نے کہا تھا کہ آؤ آپس میں عہد کریں کہ ہم میں سے جو بھی کسی اونچے منصب یا رتبے پر پہنچا تو دونوں دوستوں کی مالی معاونت کرے گا اور انہیں اپنی خوش بختی میں برابر کا شریک بنائے گا یا ان کے ذریعہ معاش کا بندوبست کرے گا اور طوطا چشمی اور خود غرضی سے گریز کرے گا ہم تینوں نے پوری سنجیدگی اور سچے دل سے عہد و پیمان کئے تھے کہ ایسا ہی ہوگا
ہاں عمر نظام الملک نے مسکراتے ہوئے کہا مجھے یاد آ گیا ہے جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے سب سے زیادہ پرجوش طریقے سے عہد کیا تھا کہ مجھے اللہ نے کوئی بڑا رتبہ دے دیا اور میرے دونوں دوستوں کو میری ضرورت محسوس ہوئی تو میں ان کی مالی اور ہر طرح کی معاونت کروں گا
تو پھر خواجہ عمر خیام نے کہا میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ اتنا عرصہ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں بنا
میں اس کا کچھ بندوبست کر دوں گا نظام الملک نے کہا تم صاحب علم و فضل ہو فلسفہ شاعری اور حکمت میں دسترس رکھتے ہو میں سلطان سے کہوں گا کہ تم سلطنت کے لیے معتمد اور سود مند ثابت ہو سکتے ہو اور میں سلطان سے یوں کہوں گا کہ تمہیں میرے ساتھ ملازمت دے دی جائے اور تمہیں میرا معاون بنا دیا جائے،یہ سلاطین مجھے اچھا چاہتے ہیں اور مجھ سے بہت ہی متاثر ہیں میں تمہارے کردار کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں عمر خیام نے کہا لیکن خواجہ تم تو مجھے اعلیٰ منصب پر اپنے ساتھ بٹھانا چاہتے ہو لیکن میں اس منصب کے قابل نہیں میں ساری عمر تمہارا مشکور و ممنون رہوں گا
نہیں عمر نظام الملک نے کہا میرا خیال ہے کہ ذریعہ معاش کے بغیر تم نے جو اتنا عرصہ گزارا ہے اس کے زیراثر تمہیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں رہا میں تمہارا اعتماد بحال کرنا چاہتا ہوں اور مجھے پوری امید ہے کہ سلطان محترم میرے کہنے پر تمہیں اچھے منصب پر قبول کرلیں گے
نہیں خواجہ یہ بات نہیں عمر خیام نے کہا میں کام کرنے سے نہیں گھبراتا اور بے روزگاری نے مجھ پر کوئی نقصان دہ اثر نہیں چھوڑا میری صلاحیتیں جس طرف چل نکلی ہیں میں چاہتا ہوں کہ میں اسی راستے کی منزل تک پہنچ جاؤں میں اپنی تحریریں اشعار اور حکمت کے نسخے جو میں نے دریافت کیے ہیں اپنے ساتھ لایا ہوں میں علم و ادب اور حکمت میں مزید تحقیقات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ایک نظر انہیں دیکھ لو میرے پاس کوئی پیسہ نہیں جس سے میں اپنے اس تحقیقی مسلک کو آگے بڑھاؤں اگر میں نے ملازمت قبول کرلی تو اس سے صرف یہ حاصل ہوگا کہ میں اور میرے اہل و عیال باعزت روٹی کھا لیں گے اور مجھے عزت حاصل ہو جائے گی
میری اس بات پر غور کرو خواجہ میں صرف اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روٹی نہیں چاہتا میں بنی نوع انسان کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں میں نے نایاب اور انتہائی کارآمد جڑی بوٹیاں تلاش کرنی ہے اور کچھ قیمتی سامان بھی درکار ہے اس کے ساتھ ساتھ میرے پاس اتنی رقم ہونی چاہیے جس سے میں گھر والوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرسکوں
نظام الملک نے اس کے کاغذات کا پلندہ دیکھا تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ شخص علم و ادب کے لیے اور حکمت کے لیے کتنا بڑا کام کر رہا ہے اور اگر اسے مالی معاونت مل جائے تو بنی نوع انسان کے لئے اس کی یہ کاوش بہت ہی سود مند ثابت ہو گی چنانچہ اس نے عمر خیام کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور اس کا یہ تحقیقی کام سلطان الپ ارسلان کو دکھایا، اور اسے اس تحقیق کی افادیت اور اہمیت بتائی
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سلاطین سلجوق علم و فضل اور عمر خیام جیسے تحقیقی کام کرنے والوں کی بہت قدر کرتے تھے سلطان نے عمر خیام کے لیے بارہ سو مثقال سونا سالانہ وظیفہ مقرر کردیا آج کی کرنسی کے حساب سے بارہ سو مثقال پینتیس ہزار روپے کے برابر تھے عمر خیام پہلا وظیفہ وصول کرکے نیشاپور چلا گیا
عمر خیام کو اتنی زیادہ مالی سہولت حاصل ہوگئی تو وہ علم و حکمت کے تحقیقی کاموں میں مصروف ہوگیا،اس نے اپنی پہلی جو کتاب لکھی وہ عقیدت مندی اور شکریہ کے طور پر خواجہ نظام الملک کے نام سے منسوب کی پھر اس نے اپنی تحقیق اور تجربات کی ایک اور کتاب مرتب کی جس کا نام
علم المسات والمکعبات تھا اور پھر اس نے اقلیدس کے اصول و مسائل پر ایک کتاب لکھی عمر خیام علم قیافہ میں بھی دسترس رکھتا تھا ان کی کتابوں کی بدولت عمر خیام ایران میں اس قدر مشہور و مقبول ہوگیا کہ اسے بو علی سینا کا ہم پلہ سمجھا جانے لگا
عمر خیام کا مستقل قیام نیشاپور میں تھا نیشاپور خراسان کا دارالسلطنت تھا اور وہاں کا سلطان ملک شاہ تھا ملک شاہ ارباب علم نور اہل نظر کا اتنا قدردان تھا کہ اس نے عمر خیام کی شہرت سنی تو اسے نیشاپور بلایا اور اسے اصلاح تقویم کی ذمہ داری سونپ دی عمر خیام علم الاعداد میں بھی دسترس رکھتا تھا اس علم میں اس نے خاصی اصلاح و ترمیم کی
یہ تھا عمر خیام جیسے خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے بام عروج پر پہنچایا ان کا ایک تیسرا دوست بھی تھا حسن بن صباح ہم ذرا پیچھے چلتے ہیں جہاں عمر خیام نظام الملک کے پاس مَرو گیا تھا عمر خیام نے نظام الملک کو مدرسے کے دور کا عہد نامہ یاد دلایا تو حسن بن صباح کا ذکر آیا کیا جانتے ہو عمر وہ کہاں ہے؟
نظام الملک نے پوچھا میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ وہ رے چلا گیا تھا عمر خیام نے جواب دیا وہ وہیں کا رہنے والا تھا تمہیں یاد ہو گا وہ خاصا ہوشیار اور چالاک ہوا کرتا تھا تمہیں شاید یاد نہ ہو اُس نے مدرسے کے ایک لڑکے کے کچھ پیسے چرا لیے تھے ہم دونوں نے اس کی وکالت کی تھی کہ حسن چور نہیں ہوسکتا لیکن اس نے یہ چوری کی تھی پھر بھی ہم نے اسے دوست بنائے رکھا تھا
ہاں عمر نظام الملک نے کہا مجھے یاد آگیا اس میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جو ہمیں اتنی اچھی لگتی تھی کہ میں اس کے بغیر اپنے آپ کو ادھورا سمجھتا تھا
یہ اس کی زبان کا کمال تھا عمر خیام نے کہا بولتے تو ہم بھی ہیں لیکن جب وہ بولتا تھا تو کچھ اور ہی تاثر پیدا ہوتا تھا ویسے بھی وہ خوبرو تھا اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی تاثیر تھی کہ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا تو سننے والا بلا پس و پیش اس کی بات مان لیتا تھا
دونوں دوست حسن بن صباح کی باتیں کرتے رہے دو تین دنوں بعد عمر خیام چلا گیا
چار پانچ دن گزرے ہوں گے کہ نظام الملک کو اطلاع ملی کہ رے سے ایک آدمی اسے ملنے آیا ہے اپنا نام حسن بن صباح بتاتا ہے
حسن بن صباح نظام الملک نے بڑے اشتیاق سے کہا اور اٹھتے ہوئے بولا اسے فوراً اندر بھیجو حسن بن صباح اندر آیا تو نظام الملک کو اپنے استقبال کے لئے دروازے میں کھڑا پایا دونوں ہم جماعت دوست تادیر بغل گیر رہے
میں نے سنا کہ میرا دوست وزیراعظم ہو گیا ہے تو میں خوشی سے پھٹنے لگا حسن بن صباح نے کہا میں آٹھ دوڑا کے اپنے لڑکپن کے جگری یار کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھا دیکھو وہ تو تم نے دیکھ لیا ہے نظام الملک نے کہا یہ بتا یہ بائیس تئیس سال کہاں رہے اور ذریعہ معاش کیا ہے؟
خاک ہے میرا ذریعہ معاش حسن بن صباح نے کہا بہت قسمت آزمائی کی مصر تک گیا لیکن قسمت نے کہیں بھی ساتھ نہ دیا کچھ دنوں کے لئے روزگار ملا پھر وہی بے روزگاری ایک جگہ گیا تو مجھے بہت اچھا جواب ملا مجھے کہا گیا کہ تم نے تعلیم ایسی اور اتنی زیادہ پائی ہے کہ تم کوئی چھوٹی نوکری نہیں کر سکتے اور اسی وجہ سے تمھارا دماغ تجارت کو بھی قبول نہیں کرتا
ہاں حسن نظام الملک نے کہا اس شخص نے دانش مندی کی بات کی ہے امام مؤافق کا شاگرد کوئی عام سی نوکری نہیں کر سکتا اور وہ دکان داری بھی نہیں کر سکتا ہمارا دوست عمر آیا تھا وہ اب عمر خیام ہے اس نے فلسفہ علم و ادب اور حکمت میں بہت کام کیا ہے لیکن ذریعہ معاش کوئی نہیں
ہاہا عمر حسن بن صباح نے کہا ہمارا پیارا دوست اسے فلسفی اور شاعر ہی بننا تھا
اس نے مجھے عہدنامہ یاد دلایا تھا نظام الملک نے کہا میں تو اس عہد نامے کو بھول گیا تھا جو ہم تینوں دوستوں نے ایک رات مدرسے میں کیا تھا
پھر تم نے اس کے لئے کچھ کیا ہے؟
ہاں حسن نظام الملک نے کہا میں نے اس کے لئے سالانہ وظیفہ منظور کرا لیا ہے
میں بھی تمہیں وہی عہد نامہ یاد دلانے آیا ہوں حسن بن صباح نے کہا لیکن مجھے وظیفہ نہیں چاہیے مجھے اپنی تعلیم اور خاندانی حیثیت کے مطابق ملازمت چاہیے
میں دوستی کا حق ادا کروں گا حسن نظام الملک نے کہا اور میں لڑکپن کے عہد نامے کا پورا پاس کروں گا تم سلطان سے ملنے کے لئے تیار ہو جاؤ میں اس کے ساتھ پہلے ہی بات کر لوں گا
معروف تاریخ نویس ابن اثیر نے چند ایک مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ عہد طفلی کا ایک عہد نامہ تھا جس کی حیثیت ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھی نہ ہی یہ عہد نامہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کیا گیا تھا لیکن نظام الملک صاحب کردار اور دیندار آدمی تھا سلطان چغرا بیگ نے اس میں یہی اوصاف دیکھ کر اسے اعلیٰ منصب پر فائز کیا تھا اور انہیں اوصاف کے بدولت وہ سلطنت کا وزیراعظم بن گیا تھا اس نے لڑکپن کے عہد نامے کا اتنا پاس کیا کہ سلطان کے آگے حسن بن صباح کے کردار تعلیم اور دانشمندی ایسے انداز سے بیان کی کہ سلطان متاثر ہو گیا اس نے حسن بن صباح سے کہا وہ اسے سلطان سے ملوائے گا اور وہ اپنی تعلیم اور دانشمندی کا پراثر مظاہرہ کرے حسن بن صباح فن گفتگو کا تو استاد تھا نظام الملک نے اسے سلطان کے سامنے پیش کیا تو اس نے زبان کا جادو چلا کر سلطان کو متاثر کر لیا اس کا راستہ تو نظام الملک نے پہلے ہی صاف کر دیا تھا
یہ فیصلہ وزیراعظم کو کرنا چاہیے کہ اس دانشمند شخصیت کو کس منصب پر فائز کیا جائے سلطان نے کہا
میں حسن بن صباح کو سلطان عالی مقام کے معتمد خاص کے رتبے سے کم درجے کا کوئی نہیں سمجھتا نظام الملک نے کہا سلطان عالی مقام کو ایک معتمد خاص کی ضرورت بھی ہے
ہمیں منظور ہے سلطان نے کہا آپ انہیں رکھ لے اور انہیں اچھی طرح بتا دیں کہ ان کا کام کیا ہوگا انہیں تمام تر امور سلطنت سمجھا دیں کچھ دن اپنی نگرانی میں رکھیں
اس طرح حسن بن سبا کو وہ رتبہ مل گیا جو اختیارات کے لحاظ سے وزارات سے کم نہ تھا وہ اسی دن اپنا سامان اور بیوی بچوں کو لانے کے لئے روانہ ہو گیا
نظام الملک محسوس نہ کرسکا کہ اس نے ابلیس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا ہے
حسن بن صباح کون تھا ؟
اس کا باپ خراسان کے شہر طوس کا رہنے والا تھا اس کا نام علی بن احمد تھا اور وہ اسماعیلی مذہب کا پیروکار تھا حسن بن صباح طوس میں پیدا ہوا تھا اس کا باپ شہر رے میں جاکر رہائش پذیر ہوگیا تھا رے کا حاکم ابومسلم رازی تھا علی بن احمد نے ابو مسلم رازی تک رسائی حاصل کر لی تھی اس کا کام تھا ابو مسلم رازی کی خوشامد کرنا اور لوگوں کے خلاف مخبری کرنا وہ چاہتا تو کسی شریف آدمی کو ناکردہ گناہ میں گرفتار کرا دیتا اور کسی مجرم کو جھوٹ کے ذریعے بے گناہ ثابت کرا دیتا
رے تجارت کا مرکز تھا جہاں غیر ملکی تاجر آتے رہتے تھے علی بن احمد منڈی میں چلا جاتا اور کسی نہ کسی غیر ملکی تاجر کو جھانسا دے کر اس کا مال اڑا لیتا یا کچھ رقم بٹور لیتا تھا یہ کام وہ ایسی مہارت اور ایسے معزز انداز سے کرتا تھا کہ نقصان اٹھانے والے اس پر ہاتھ ڈالنے سے جھجکتے تھے اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ رے کے حاکم ابومسلم رازی کا خاص آدمی اور اس کا منظور نظر ہے
علی بن احمد کی عیاری کے قصے اتنے کم نہیں کے داستان گو سارے سنا دے وہ بردہ فروشی تک کرتا تھا لیکن یوں نہیں کہ ایک لڑکی کو اغوا کیا اور اسے بیچ ڈالا وہ کسی حسین اور نوجوان لڑکی کو یا کسی جواسال بیوہ کو نہایت باعزت طریقے سے ورغلاتا اور ایسے سبز باغ دکھاتا کہ لڑکی پر سحر طاری ہو جاتا تھا نوخیز لڑکی ہوتی یا جواں سال عورت نتائج سے بے خبر اس کے جال میں آ جاتی تھی وہ چار دن اسے اپنے پاس رکھ کر عیش و عشرت کرتا تھا اس فریب کاری میں لڑکی کو اسے بتائے بغیر کوئی نشہ بھی پلاتا تھا اس دوران وہ گاہک کی تلاش میں رہتا اور ایک دن اسے کسی مالدار گاہک کے حوالے کر دیتا تھا
کسی گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا یا بازار میں دو دکانداروں کے درمیان جھگڑا ہوجاتا یا تاجروں کا آپس میں کوئی تنازع ہوتا تو وہ ثالث یا منصف بن کر اپنے آپ کو ان پر مسلط کرکے تصفیہ کراتا تھا
لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص عیار اور فریب کار ہے پھر بھی اس کی عزت کرتے اور اس سے مشورے اور مدد لیتے تھے لوگوں میں مقبول عام بننے کے لئے وہ ان کے چھوٹے موٹے مسئلے حل کر دیا کرتا تھا اس میں ڈھیٹ پن اتنا زیادہ تھا کہ کہیں سے دھتکار دیا جاتا تو وہاں سے ایک دروازے سے نکل کر دوسرے دروازے سے پھر اندر چلا جاتا اور عیاری کا کوئی اور حربہ استعمال کر کے دھتکارنے والوں کو شیشے میں اتار لیتا تھا
لوگوں میں یہ جو مشہور تھا کہ وہ حاکم ابومسلم رازی کا منظور نظر ہے غلط نہ تھا ابو مسلم جابر اور دانشمند حاکم تھا لیکن علی بن احمد کمال استادی سے اسے دوستانہ سطح پر لے آیا کرتا تھا
ابومسلم رازی اہلسنت وجماعت تھا علی بن احمد بلاشک و شبہ اسماعیلی تھا لیکن ابو مسلم کو اس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اہل سنت ہے ایک بار ابو مسلم کو مصدقہ اطلاع ملی کہ علی بن احمد سنی نہیں اسماعیلی ہے ابو مسلم نے اس سے جواب طلبی کی اس نے قرآن ہاتھوں پر اٹھا کر قسم کھائی اور کہا کہ وہ سنی مسلمان ہے
اس کا بیٹا حسن بن صباح کئی سالوں سے ایک اسماعیلی عالم اور اتالیق عبدالملک بن عطاش کے یہاں تعلیم حاصل کر رہا تھا اس کا علم ابو مسلم کو ہو گیا اس نے ایک روز علی بن احمد کو بلایا
اس کا بچہ کہاں پڑھتا ہے مجھے کیا ابومسلم نے علی سے کہا اپنی اولاد کے متعلق ماں باپ کے فیصلوں کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں لیکن تمہارے بیٹے کے متعلق میں اس لئے بات کر رہا ہوں کہ تم اہل سنت و جماعت ہو لیکن اپنے بیٹے کو تم نے اسماعیلی عالم کی شاگردی میں بٹھا رکھا ہے کیوں؟
کیا یہ تمہارے اسماعیلی ہونے کا ثبوت نہیں
نہیں ابومسلم علی بن احمد نے کہا یہ میری ایک مجبوری کا ثبوت ہے میں اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کی شاگردی میں بھیجنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کرسکوں
پیسے میں دلواتا ہوں ابو مسلم رازی نے کہا میں سرکاری خزانے سے پیسے دلواؤں گا
علی بن احمد نے ایسے انداز سے خوشی کا اظہار کیا جیسے اس کا ایک لا یخل مسئلہ حل ہو گیا ہو اس نے سرکاری خزانے سے رقم وصول کی اور حسن بن صباح کو نیشاپور امام مؤافق کے مکتب میں بھیج دیا امام مؤافق کٹر اہلسنت تھا تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابومسلم رازی علی بن احمد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا لیکن اسے دھتکار بھی نہیں سکتا تھا
حسن بن صباح اپنے باپ کی عیارانہ سرگرمیوں سے بڑی اچھی طرح واقف تھا اس نے باپ سے متاثر ہوکر عیاری کو ہی اپنا اصول بنا لیا تھا اس نے باپ کے خاص کمرے میں بڑی حسین اور نوخیز لڑکیاں بھی دیکھی تھیں اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اس کا باپ کبھی کبھار ایسی ایک لڑکی یا ایک جوان عورت لاتا ہے اور اسے ایک نشہ پلاتا ہے حسن بن صباح نے یہ نشہ دیکھ لیا اور اس کی تھوڑی مقدار شربت میں ملا کر پی تھی تھوڑی ہی دیر بعد اسے یوں نظر آنے لگا تھا جیسے یہ دنیا بہت ہی حسین ہوگئی ہو مورخ لکھتے ہیں کہ اسے بوڑھی عورتیں بھی جوان نظر آنے لگی تھیں
اس نے چرب زبانی باپ سے سیکھی تھی لڑکپن میں ہی وہ زبان کے جادو کا ماہر ہو گیا تھا اپنے باپ کو وہ اپنا بہترین استاد سمجھتا تھا اس کے باپ معلوم ہو گیا تھا کہ اس کے بیٹے میں اسی کی ذہنی رحجانات پیدا ہو گئے ہیں اس نے بیٹے کو کبھی روک کا ٹوکا نہیں تھا بلکہ نیشاپور امام مؤافق کے مکتب میں بھیجتے وقت اس نے بیٹے کو کچھ ہدایات دی تھیں
یہ نہ بھولنا بیٹے اس نے حسن بن صباح سے کہا تھا ہم اسماعیلی ہیں اہلسنت نہیں تم نے اہلسنت کا درس لینا ہے اور رہنا اسماعیلی ہے اس مدرسے سے جو طلباء اچھے درجے میں کامیاب ہو کر نکلتے ہیں وہ اونچے رتبے پر فائز ہو جاتے ہیں تم ایسے ایک دو لائق لڑکوں کے ساتھ دوستی کر لینا آگے چل کر یہ تمہارے کام آئیں گے
باپ کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس کا بیٹا اسی عمر میں اس سے کہیں زیادہ چالاک ہو گیا ہے جتنا وہ سمجھتا ہے بیٹے نے مدرسے میں خواجہ حسن طوسی اور عمر خیام کو دوستی کے لئے منتخب کرلیا اس کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ یہ دونوں پڑھنے میں بہت تیز ہیں اور یہ بڑے ہوکر اونچے رتبے پر پہنچیں گے
ائمہ تلبیس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تینوں دوستوں میں یہ جو معاہدہ ہوا تھا کہ جو دوست کسی اعلی منصب پر فائز ہو گیا وہ دونوں دوستوں کی مدد کرے گا اور اپنے مال و دولت میں بھی انہیں شریک سمجھے گا یہ معاہدہ حسن بن صباح کے عیّار دماغ کی اختراع تھا
اس عہد نامے سے عمر خیام نے بھی فائدہ اٹھایا لیکن وہ جائز فائدہ تھا عمر خیام کے شاہکار آج تک زندہ ہیں لیکن حسن بن صباح نے نظام الملک سے اس عہد نامے کا جو فائدہ اٹھایا وہ ایک ابلیس کا کارنامہ تھا یہ حسن بن صباح کا پہلا قدم تھا وہ جب نظام الملک کے پاس یہ سن کر گیا تھا کہ وہ وزیراعظم ہوگیا ہے تو اس نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ اتنا عرصہ بےروزگار رہا ہے وہ کچھ خفیہ سرگرمیوں میں مصروف رہا تھا وہ اپنا ایک فرقہ بنانے کے لئے زمین ہموار کر رہا تھا
اس مقصد کے لئے وہ مصر تک چلا گیا تھا مصر میں عبیدیوں کی حکومت تھی جو ظاہری طور پر اسماعیلی کہلاتے تھے لیکن وہ درپردہ باطنی تھے وہاں بات چیت کرکے واپس رے آ گیا کچھ دنوں بعد عبیدیوں کا ایک وفد اس کے پاس رے آیا وفد چلا گیا تو ابومسلم رازی کو اطلاع ملی اور اسے حسن بن صباح کے عزائم معلوم ہوئے ابومسلم نے حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دے دیا حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ بھاگ گیا
وہ اس وقت زمین دوز روپوشی سے ابھرا جب وہ نظام الملک کی مروت اور کوششوں سے سلطان ملک شاہ کے معتمد خاص کا منصب حاصل کر چکا تھا اور رے اپنا سامان اور اپنی بیوی بچے لینے آیا تھا ابومسلم خاموش ہو گیا
اس وقت اس کا باپ بستر مرگ پر پڑا تھا حسن بن صباح نے آکر اسے خوش خبری سنائی کہ اسے یہ رتبہ مل گیا ہے
اب میں سکون سے مروں گا باپ نے کہا میں تمہیں اسی منصب پر دیکھنا چاہتا تھا جانتے ہو اب تمہیں کیا کرنا ہے؟
جانتا ہوں حسن بن صباح نے کہا سب سے پہلے نظام الملک کو اس کرسی سے اٹھانا محل سے نکلوانا اور خود وزیراعظم بننا ہے
شاباش باپ نے کہا تم دروازے میں داخل ہو گئے ہو اہم کمروں پر قبضہ کرنا تمہارا کام ہے یاد رکھو بیٹے بدی میں بڑی طاقت ہے اس سے زیادہ طاقت عورت اور نشے میں ہے ان دو چیزوں کے ذریعے تم دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ کو اپنے قدموں میں بٹھا سکتے ہو
باپ کو ہچکی آئی اور اس کے ناپاک جسم سے روح نکل گئی لیکن وہ اپنی ابلیسیت اپنے بیٹے میں منتقل کر گیا یہاں سے عورت اور نشے کی عیاری اور بدی کی ایسی داستان نے جنم لیا جن سے زمین و آسمان کانپ اٹھے آج بھی سنو تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں…
🥀 حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت 🥀
قسط نمبر:2 }
داستان گو اس داستان کو وہاں تک لے گیا ہے جہاں حسن بن صباح خواجہ طوسی نظام الملک کی سفارش سے سلجوقی سلطان ملک شاہ کا معتمد خاص بن جاتا ہے حسن اور خواجہ طوسی امام مؤافق کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہوکر نکلے تو ان کی ملاقات بیس اکیس سال بعد سلطان ملک شاہ کے محل میں ہوئی تھی اگر اس بیس اکیس سال کے عرصے کی روئیداد نہ سنائی جائے تو تاریخ کی یہ ہولناک اور شرمناک داستان ادھوری رہ جائے گی یہی وہ عرصہ ہے جس میں حسن بن صباح حسن بن ابلیس بنا تھا اسی عرصے میں اس نے علم نجوم اور علم سحر میں دسترس حاصل کی تھی
کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ داستان گو آپ کو بیس اکیس سال پیچھے لے جائے جب حسن کے باپ علی بن احمد نے اسے امام مؤافق کے مدرسے میں داخل کرانے سے بہت پہلے ایک اسماعیلی عالم عبدالملک بن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا
کوئی انسان اپنے آپ ہی گناہ گار نہیں بن سکتا اور کوئی انسان اپنے آپ ہی زاہد اور متقی نہیں بن سکتا کچھ حالات اور چند انسان مل کر ایک انسان کو بگاڑتے یا بناتے ہیں
حسن بن صباح کا کردار اسی روز ایک خاص سانچے میں ڈالنا شروع ہو گیا تھا جس روز باپ اسے عبدالملک بن عطاش کے پاس لے گیا تھا عبدالملک حسن کے باپ کو اچھی طرح جانتا تھا جس طرح ایک جسم کے دو ہاتھ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں عبدالملک علی ابن احمد کی عیاریوں سے بھی واقف تھا اور وہ علم جوتش اور نجوم کی بھی سوجھ بوجھ رکھتا تھا
اے ابن عتاش حسن کے باپ نے اسے عبدالملک بن عطاش کے سامنے بٹھا کر کہا یہ میرا ایک ہی بیٹا ہے میں نہیں چاہتا کہ میرے مرنے کے بعد یہ گمنام ہو جائے یہ اس سے زیادہ شہرت حاصل کرے جو میں نے حاصل کی تھی
ایک پہلو اپنی زندگی کا یہ بھی سامنے رکھ علی ابن عطاش نے کہا تو نے شہرت تو اتنی حاصل کی ہے کہ اِس جگہ کے حکم کے ساتھ بھی تیرہ اٹھنا بیٹھنا ہے لیکن یہ کوئی اچھی شہرت نہیں
شہرت تو ہے ابن عطاش علی بن احمد نے کہا میں کہتا ہوں یہ نام پیدا کرے اچھا یا برا
بچے کو اندر لے آ
علی بن احمد اپنے بیٹے حسن بن صباح کو اندر لے گیا اور عبدالملک ابن عطاش کے سامنے بٹھا دیا عبدالملک نے حسن کے سر سے دستار اتار دی اور اس کے سر پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ اس کی انگلیاں حسن کی پیشانی پر تھیں عبدالملک نے انگلیاں اس کی پیشانی پر آہستہ آہستہ پھیری پھر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر ذرا اوپر کیا اور حسن کی آنکھوں میں بڑی غور سے دیکھا پھر اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں پھیلا کر دیکھیں ہتھیلیوں کو غور سے دیکھتے دیکھتے عبدالملک نے اپنا چہرہ یوں تیزی سے پیچھے کر لیا جیسے اس بچے کی ہتھیلیوں سے اچانک سانپ نکل آیا ہو
عبدالملک بن عطاش نے کاغذ قلم لے کر کاغذ پر قلم سے خانے بنائے اور ہر خانے میں کچھ لکھا وہ وقفے وقفے سے حسن کے چہرے کو دیکھتا تھا
ج بچے ابن عطاش نے حسن سے کہا تو باہر جا بیٹھ
حسن بن صباح باہر نکل گیا تو ابن عطاش اس کے باپ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہا
جو کہنا ہے کہہ دے ابن عطاش علی نے کہا میں جانتا ہوں کہ جو تو کہے گا وہ تجھے تیرے علم اور ستاروں نے بتایا ہے
تیری بیوی کی کوکھ سے ایک نبی پیدا ہوا ہے ابن عطاش نے کہا
نبی ! علی بن احمد نے حیران سا ہو کے پوچھا؟
نبوت کا سلسلہ تو ختم ہوچکا ہے
نبوت کا سلسلہ اللہ کی طرف سے ختم ہوا ہے ابن عطاش نے کہا اللہ کے بندوں کی طرف سے یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا نہ کبھی ختم ہوگا اب تک کتنی ہی آدمی نبوت کا دعویٰ کرچکے ہیں کیا تو نے صاف ابن صیاد مدنی کی نبوت کا قصہ نہیں سنا وہ یہودی تھا اس نے حضورﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعوی کردیا تھا اور نبی اکرمﷺ سے اس کی ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں حضورﷺ نے ایک بار اس سے پوچھا کیا تجھ پر وحی نازل ہوتی ہے ؟
صاف ابن صیاد نے جواب دیا میرے پاس ایک صادق اور ایک کاذب آتا ہے
صادق اور کاذب کا کیا مطلب؟
علی بن احمد نے پوچھا مطلب سمجھنے کی کوشش کرو علی ابن عطاش نے جواب دیا مطلب یہ کہ میرے پاس ایک فرشتہ آتاہے اور ایک ابلیس
وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ فرشتہ بھی اور ابلیس بھی اس کے دماغ میں اپنے اپنے اشارے اور اپنے اپنے امور غیب ڈال جاتے ہیں در اصل بات یہ تھی کہ صاف ابن صیاد علم سحر میں مہارت رکھتا تھا ساحر ہمیں بھی ہیں اس علم کے اسرارورموز میرے پاس بھی ہیں لیکن یہ علم یہودیوں کو اتنا مرغوب ہے کہ انہوں نے اسے بہت ہی طاقتور بنا دیا ہے اور اس میں ابلیسیت بھر دی ہے ان کے ساحر بالکل صحیح پیشین گوئی کر سکتے ہیں صاف ابن صیاد بھی پیشن گوئی کرسکتا تھا اسے اس نے یوں بیان کیا کہ ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے جو اسے خدا کا پیغام دیتا ہے اور ابلیس بھی آتا ہے جو اسے آنے والے حالات بتا جاتا ہے
تم میرے بیٹے کی بات کر رہے تھے حسن بن صباح کے باپ نے کہا یہ کس قسم کا نبی بنے گا؟
جیسے کئی اور نبی بنے ابن عطاش نے کہا تم محمدﷺ کو آخری نبی مانو نہ مانو میں اس حدیث کا منکر نہیں ہوسکتا جھوٹے نبی آتے رہیں گے اور تمہارے سامنے ایسی ایسی باتیں کریں گے جو تم نے ہی نہیں تمہارے باپ دادا نے بھی نہ سنی ہو گی ان سے خبردار رہنا اور اپنے ایمان کو ان سے محفوظ رکھنا یہ تم میں گمراہی اور فتنہ پھیلائیں گے طلیحہ اسدی نے نبوت کا دعوی کیا تھا تم نے مسلمہ بن کزاب کا نام سنا ہوگا پھر ایک عورت سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا پھر ہوا کیا؟
صاف ابن صیاد نے اسلام قبول کر لیا تھا طلیحہ مسلمان ہو گیا تھا اس نے نبی بن کر اتنی شہرت حاصل نہیں کی تھی جتنا مسلمان ہو کر میدان جنگ میں اسے ملی
اگر تو آنے والے وقت کے پردے اٹھا سکتا ہے تو بتا علی بن احمد نے کہا میرے بیٹے کا مستقبل کیا ہوگا ؟
یہ کس انجام کو پہنچے گا
انسان کو اپنی فطرت انجام کو پہنچایا کرتی ہے ابن عطاش نے کہا انجام اچھا بھی ہوسکتا ہے برا بھی اس کا انحصار انسان کے اپنے اعمال پر ہے اگر میں تیرے بیٹے کی آنکھوں میں عکس غلط نہیں دیکھ رہا تو یہ اتنی زیادہ طاقت کا مالک ہوگا کہ یہ جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے گا وہ اس کے آگے سجدہ ریز ہو جائے گا اور یہ جس عورت پر نگاہ ڈالے گا وہ عورت اپنے آپ کو اس کی ملکیت میں دے دی گی لیکن یہ طاقت نبیوں والی نہیں ہوگی بلکہ یہ ابلیسی طاقت ہوگی
کیا یہ طاقت میرے بیٹے کے حق میں اچھی ہوں گی؟
علی بن احمد نے پوچھا کیا تیری فطرت تیرے حق میں اچھی نہیں ؟
ابن عطاش نے کہا حاکمِ وقت تک تیری رسائی ہے تیرے جاننے والوں میں کون ایسا ہے جس کا دل تجھے پسند کرتا ہے لیکن کون ہے جو تیرے آگے تعظیم سے جھک نہیں جاتا کون ہے جو سانپ سے پیار کرتا ہے لیکن ہر کوئی سانپ سے ڈرتا ہے
کیا تو اس کا راستہ بدل سکتا ہے؟
علی بن احمد نے پوچھا؟
کیا تو اس کے دل میں خوف خدا پیدا کرسکتا ہے
دنیا کا بادشاہ خدا ہے ابن عطاش نے کہا سب مانتے ہیں کہ یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اور ایک روز خدا اسے تباہ کر دے گا اور یہ قیامت ہوگی لیکن خدا کے بندوں کے دلوں پر ابلیس کی حکمرانی ہے اسے کہتے ہیں ابلیسی قوت
میں کہتا ہوں میرا بیٹا نام پیدا کرے علی بن احمد نے کہا نام پیدا کرے گا ابن عطاش نے کہا نام بھی ایسا پیدا کرے گا کہ رہتی صدیوں تک دنیا اسے یاد کرے گی لیکن اس کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی اس پر گناہوں کی سیاہی کے حاشیئے ہونگے
پارسائی میں کیا رکھا ہے ابن عطاش علی بن احمد نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جو مسرت سے خالی تھی میں بچہ تیری شاگردی میں بیٹھا رہا ہوں اسے ایسے راستے پر ڈال کہ تجھ جیسا علم بن جائے علی بن احمد نے اپنے بیٹے حسن کو عبدالملک بن عطاش کے حوالے کرکے چلا گیا
تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ عبدالمالک علی بن احمد کے گھر گیا، ان دونوں کی ملاقاتیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں لیکن اس رات عبدالملک بن عطاش کسی خاص مقصد سے وہاں گیا تھا
ابن احمد ابن عطاش نے کہا میں نے تیرے بیٹے کو دینی اور معاشرتی علوم میں رواں کرنے کا قصد کیا تھا لیکن لڑکے کو ذہن کسی اور طرف لے جا رہا ہے میں تیرے ساتھ یہ بات کرنے آیا ہوں کہ تیرا بیٹا اپنے فرقے کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے اگر تو اجازت دے دے تو میں اسے اسی راستے پر ڈال دو اور ان علوم اور عملیات کا اسے ماہر بنا دوں جو اس کے لیے ضروری ہے
تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کا باپ جیسا خود تھا ویسا ہی اپنے بیٹے کو بنانا چاہتا تھا عبدالملک ابن عطاش اپنے فرقے کا صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھا بلکہ وہ اپنے عقیدے کی تبلیغ اور فرقے کی سربلندی کے لئے زمین دوز کارروائیوں میں بھی لگا رہتا تھا اس کا اپنا ایک بیٹا احمد جوان ہو رہا تھا اس بیٹے کا نام محمد بن عبدالملک ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو احمد بن عطاش کہلانا زیادہ پسند کیا عبدالملک نے اسے اپنے فرقے کی تبلیغ اور دیگر کارروائیوں کے لئے بھیج دیا تھا اس نے حسن بن صباح کو جو تربیت دینی شروع کی تو اس کے پیش نظر اپنا یہی مشن تھا اس نے اس کمسن لڑکے میں بڑے کام کے جوہر دیکھ لیے تھے
عبدالملک نے حسن کو علم نجوم اور سحر کے سبق دینے شروع کردیے تھے اس نے دیکھا کہ یہ لڑکا بڑی تیزی اور پورے انہماک سے یہ علوم سیکھ رہا تھا یہ اس کی اضافی تعلیم تھی اصل تعلیم تو دینی اور معاشرتی علوم کی تھی
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ اس شہر کے حاکم ابومسلم رازی کو پتہ چل گیا کہ علی بن احمد کا بیٹا عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی میں بیٹھا ہے رازی جانتا تھا کہ عبدالملک اسماعیلی ہے علی بن احمد نے رازی کو حلفیہ طور پر یقین دلا رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے ایک روز ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا کہ وہ اہلسنت ہے تو اس نے اپنے بیٹے کو اسماعیلی اتالیق کی شاگردی میں کیوں بٹھایا ہے؟
علی بن احمد نے جواب دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کی شاگردی میں بٹھانا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ابومسلم رازی نے اسے سرکاری خزانے سے اتنی رقم دلوا دی اس نے اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کے پاس بھیج دیا
حسن بن صباح فارغ التحصیل ہو کر اپنے گھر چلا گیا
پھر وہ بیس اکیس برس بعد اپنے ہم جماعت اور دوست خواجہ حسن طوسی کے پاس مرو گیا تھا اس وقت خواجہ طوسی سلجوقی سلطنت کا وزیراعظم بن کر سلجوقی سلطان سے نظام الملک کا خطاب بھی حاصل کر چکا تھا حسن نے نظام الملک سے کہا تھا کہ اس نے اپنی عمر کا یہ اتنا لمبا اور اتنا قیمتی عرصہ روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے گزارا ہے اور اب اسے پتہ چلا ہے کہ خواجہ طوسی وزیراعظم ہے
حسن بن صباح نے جھوٹ بولا تھا یہی وہ عرصہ تھا جس عرصے میں وہ ایک طاقت اور ایک انتہائی خطرناک انسان بن گیا تھا وہ آگ میں سے گزر کر کندن بن گیا تھا اس نے ہزارہا پیروکار ہی نہیں بنا لیے تھے بلکہ ان پر اپنی عقیدت کا پاگل پن طاری کر دیا تھا اور اس کے یہ جنونی پیروکار کسی ایک شہر یا قصبے میں نہیں بلکہ بڑے وسیع علاقوں میں جنگلوں میں پھیل گئے تھے
اس نے یہ مقبولیت اور یہ طاقت کس طرح حاصل کی تھی؟
نیشا پور سے رے پہنچتے ہی وہ اپنے پہلے اتالیق کے یہاں گیا اتالیق عبدالملک ابن عطاش اسے ایسے تپاک سے ملا کہ اسے گلے سے لگایا اور کچھ دیر گلے سے ہی لگائے رکھا
مجھے پوری امید تھی کہ تم ایسے ہی خوبصورت جوان نکلو گے ابن عطاش نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر کہا اور اس کے بازوؤں پر کندھوں کو ہاتھوں سے دباتے ہوئے بولا پٹھوں میں جوانی کی طاقت آ گئی ہے پھر اس کے سر کے دائیں اور بائیں ہاتھ رکھ کر کہنے لگا میں کیسے جان سکتا ہوں کہ تیرے دماغ میں ابھی کچھ گیا ہے یا نہیں
محترم اتالیق حسن نے کہا دماغ میں تو بہت کچھ بھر لایا ہوں یہ علم ہے یوں کہہ لیں کہ علم کے الفاظ ہیں جو دماغ میں ٹھوس لایا ہوں لیکن ایک تشنگی ہے جو بے قراری بن کر دماغ کو ایک سوچ پر قائم نہیں رہنے دیتی
کیا تو علم کی تشنگی محسوس کرتا ہے؟
عمل کی حسن نے کہا میں کچھ کرنا چاہتا ہوں پیٹ بھرنے کے لئے نہیں میں کیا چاہتا ہوں میں اپنے آپ کو اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا آپ کی شاگردی میں بیٹھا تو آپ نے بتایا کہ مذہب اور فرائض کیا ہیں پھر آپ نے مجھے ستاروں سے روشناس کرایا اور مجھ پر سحر کے بھید کھولے وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا اور اس طرح دائیں بائیں دیکھنے لگا جیسے بے چینی اور اضطراب پر اس کا قابو نہ رہا ہو کچھ دیر بعد بولا آپ بتائیں محترم اتالیق میں کیا چاہتا ہوں میری منزل کیا ہے کہاں ہے میری منزل
تیری منزل تیرے اپنے دماغ میں ہے ابن عطاش نے کہا دماغ کو کھوج
یہ کام آپ کریں حسن نے کہا ہاں دو تین بار خیال آیا جیسے میں فرعون بننا چاہتا ہوں
عبدالملک ابن عطاش نے زور دار قہقہہ لگایا حسن حیرت سے اس کے منہ کو دیکھنے لگا تو نے اپنی منزل کا سراغ پا لیا ہے ابن عطاش نے کہا اب تیری بے قراری کو ختم کرنا میرا کام ہے کچھ وقت لگے گا حسن محنت مشقت اور ریاض کی ضرورت ہے وہ میں کراؤں گا تیرے اندر ایک ایسی طاقت ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی یہی طاقت ہے جو تجھے بے قرار اور بے چین رکھتی ہے تو اس کا تابع ہے لیکن تو اس سے نہ آشنا ہے اگر تو نے اسے نہ ابھارا تو ایک دن تو اپنے ہاتھوں اپنا گلا گھونٹ لے گا یا تو اپنے ماں باپ کو قتل کردے گا اور تیری گردن جلاد کے ہاتھوں کٹے گی
ہاں اتالیق حسن بن صباح نے کہا آپ کے اس انکشاف نے میرے دل میں شمع روشن کر دی ہے میں کچھ ایسا ہی محسوس کیا کرتا ہوں کہ میں قتل کروں گا یا قتل ہو جاؤں گا کیا آپ میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟
صرف میں ہوں ابن عطاش نے کہا میرے سوا اور کوئی نہیں جو تیری رہنمائی کر سکے لیکن حسن تجھے اپنے باپ سے اجازت لینی پڑے گی
مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں میرے بزرگ اتالیق حسن نے دو ٹوک لہجے میں کہا میں یہ جانتا ہوں کے میں وہ سیلابی دریا ہوں کہ میرے سامنے جو رکاوٹ آئی وہ تنکوں کی طرح بہہ جائے گی یہ بھی سوچئے کہ میرا باپ کہاں کا زاہد اور پارسا ہے اس نے عیاری اور مکاری میں شہرت پائی ہے میری فطرت اسی کے سانچے میں ڈھلی ہے مجھے بھروسہ ہے تو صرف آپ کی ذات پر ہے
مورخ لکھتے ہیں کہ عبدالملک ابن عطاش کو حسن بن صباح کے مستقبل کے ساتھ کوئی ایسی دلچسپی نہیں تھی کہ اپنی توجہ اور کاوشیں اسی پر مرکوز کر لیتا اس کی دلچسپی اپنے فرقے کی تبلیغ اور فروغ کے ساتھ تھی اسلام نے اولین مسلمانوں کے حسن اخلاق سے مقبولیت حاصل کی تھی وہ دَور دُور پیچھے رہ گیا تھا پانچویں صدی گزر رہی تھی فرقہ بندی نے اسلام کی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں
اسلام اگر کھانے پینے والی کوئی چیز تھا تو اس میں زہریلی ملاوٹی گھولی لیں گئیں اسلام اگر پیرہن تھا تو اس کا گریبان بھی اس کا دامن بھی تار تار ہوا جا رہا تھا اس کی صرف آستینیں محفوظ تھیں اور ان آستینوں میں سانپ پرورش پا رہے تھے
عبدالملک ابن عطاش انہیں سانپوں میں سے تھا حسن بن صباح کے باپ کی بات تو داستان گو سنا چکا ہے کہ حاکم شہر ابومسلم رازی کی دوستی قائم رکھنے کی خاطر قسم کھا کر کہتا تھا کہ وہ اہل سنت و جماعت ہے لیکن وہ اسماعیلی تھا بلکہ وہ اسماعیلی فرقے کے لیے بھی سراپا توہین تھا اس کا اگر کوئی مذہب تھا تو وہ فریب کاری تھی اس کا عقیدہ اگر تھا تو وہاں عیاری تھی
تاریخ ایک دلچسپ بات بتاتی ہے حسن بن صباح علی بن احمد کا بیٹا تھا اس لئے اس کا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا لیکن حسن نے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے پردادا کا نام صباح تھا اس کے کردار کے متعلق جو روایت سینہ بسینہ حسن تک پہنچی تھی وہ عیاری اور فریب کاری کی ورادتیں تھیں اس وقت کی سوسائٹی میں اس کا کوئی مقام اور کوئی رتبہ نہیں تھا لیکن بادشاہ اور بڑے بڑے حاکموں تک اس کی رسائی تھی اور لوگ اس کی فطرت سے آگاہ ہوتے ہوئے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے
حسن بن صباح کو اپنے پر دادا کی یہ فطرت اور اس کی یہ شہرت اتنی اچھی لگی کہ اس نے اپنا نام حسن بن علی کے بجائے حسن بن صباح رکھ لیا تاریخوں میں اس کا نام حسن بن صباح دمیری لکھا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح کس فطرت کا انسان تھا
اس نے ایک بار پھر عبدالملک ابن عطاش کی شاگردگی کر لی لیکن اب یہ شاگردی درپردہ تھی کیونکہ ابن عطاش اسے بڑے ہی پُر اسرار راستے پر ڈال رہا تھا ابن عطاش اسے کہا کرتا تھا کہ اس کا کام شہروں اور قصبوں میں نہیں ہو گا بلکہ اس کی زیادہ تر زندگی جنگل و بیابانوں اور غاروں میں گزرے گی
اگر حسن بن صباح کے ماں باپ دیکھ لیتے کے عبدالملک ابن عطاش ان کے نوجوان بیٹے کو کس قسم کی تربیت دے رہا ہے تو وہ اسے اس استاد کی شاگردی سے فوراً اٹھا لیتے ابن عطاش اسے کئی کئی گھنٹے مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑا رکھتا تھا وہ گرنے لگتا تو اسے ایک دو کوڑے لگا دیتا تھا
دو دو تین تین دنوں سے بھوکا رکھتا اور اس کے بعد اسے کھانے کو جو کہ کچھ دانے دیتا تھا اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھنے کے لئے ابن عطاش نے اسے اس امتحان میں بھی ڈالا کے ایک کمرے میں ایک انتہائی خوبصورت اور نوخیز لڑکی کو برہنہ کرکے اس کے سامنے بٹھا دیا اس کے سامنے دیوار پر ایک چھوٹا سا سیاہ دائرہ بنا کر کہا کہ وہ اپنی نظریں اس دائرے پر مرکوز رکھے اور ایک لمحے کے لیے بھی لڑکی کی طرف نہ دیکھے
علم سحر کے عامل لکھتے ہیں کہ تربیت کے اس مرحلے سے کامیاب نکلنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے خصوصا نوجوانی کی عمر میں یہ مرحلہ اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان اس مرحلے کو برداشت ہی نہیں کرسکتا استاد اس مشق کو اس طرح اور زیادہ مشکل بنا دیا کرتا تھا کہ حسن دیوار کے دائرے پر نظریں مرکوز رکھتا تو لڑکی کبھی اس کا ایک ہاتھ پکڑ لیتی کبھی اس کے قریب ہو جاتی اور کبھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتی کمرہ بند ہوتا تھا اور کمرے میں ایک حَسن ہوتا اور یہ حسین لڑکی اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی یہ مشق حسن سے بار بار کروائی گئی اور حسن سوئی کے اس ناکے میں سے بھی گزر گیا حسن کو معلوم نہیں تھا کہ اس کمرے کے دروازے کے ایک کیواڑ میں چھوٹا سا ایک سوراخ تھا جس میں سے اس کا استاد اسے دیکھتا رہتا تھا
تو ساری دنیا کو فتح کرنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے ایک روز عبدالملک بن عطاش نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا عورت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ جابر بادشاہ کو تخت سے اٹھا کر اپنے قدموں میں بٹھا سکتی ہے معلوم نہیں امام مؤافق نے تجھے ایسی کوئی کہانی سنائی ہے یا نہیں جولیس سیزر روم کا بڑا ہی زبردست طاقتور اور جنگجو بادشاہ تھا اس زمانے میں روم ایک جنگی طاقت تھی جس کے خوف سے دنیا لرزتی تھی جولیس سیزر نے مصر پر فوج کشی کی اس وقت قلوپطرہ مصر کی ملکہ تھی اسے اطلاع ملی کہ روم کی فوج شہر کے باہر پہنچ گئی ہے قلوپطرہ نے جولیس سیزر کی طرف اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس سے ملنا چاہتی ہے
جولیس سیزر نے سن رکھا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی ایسا جادو ہے جو ہر حملہ آور بادشاہ کو اس کا غلام بنا دیتا ہے جولیس سیزر کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا نہیں وہ اپنی پر شباب نسوانیت کا ایسا جادو چلاتی ہے کہ حملہ آور بادشاہ کتنا ہی پتھر دل کیوں نہ ہو اس کے آگے موم ہوجاتا ہے ان حکایات و روایات کے پیش نظر جولیس سیزر نے قلوپطرہ سے ملنے سے انکار کر دیا اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ ملکہ مصر کو اس وقت دیکھے گا جب رومی فوج شہر میں داخل ہوکر مصری فوج سے ہتھیار ڈلوا چکی ہوگی
جولیس سیزر نے شہر کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا وہ بادشاہ تھا اس کا خیمہ ایک سفری محل تھا محاصرہ مکمل ہونے کے ایک دو روز بعد ایک ادھیڑ عمر آدمی جو مصری تھا اپنے کندھے پر ایک قالین اٹھائے جولیس سیزر کے خیمے کے سامنے آ رکا قالین گولائی میں رول کیا ہوا تھا جو اس مصری نے کندھے پر اٹھا رکھا تھا اس نے جولیس سیزر کے محافظوں سے کہا وہ قالین باف ہے اور یہ قالین جو بہت ہی قیمتی اور بہت ہی خوبصورت ہے بادشاہ کو دکھانا چاہتا ہے ہوسکتا ہے بادشاہ کو قالین پسند آجائے اور وہ اسے خرید لے اس سے غریب آدمی کا بھلا ہو جائے گا
رومی محافظ اسے دھکے دے کر پیچھے ہٹانے لگے کہ بادشاہ کے آرام میں مخل نہ ہو مصری قالین باف نے بڑی اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا وہ کہہ رہا تھا کہ میں یہ قالین تمہارے بادشاہ کو دے کر ہی جاؤں گا یہ شور شرابہ خیمے میں جولیس سیزر کے کانوں میں پڑا تو اس نے وہیں سے حکم دیا کہ جو کوئی بھی ہے اسے اندر بھیج دو محافظوں نے اسے خیمے میں بھیج دیا
خیمے میں جا کر مصری نے جولیس سیزر سے کہا کہ وہ ایک بار قالین دیکھ لے یہ قالین روم کے بادشاہ کے لیے ہی موزوں ہے جولیس سیزر نے کہا کہ قالین کھول کر دکھاؤ اس آدمی نے کندھے سے قالین زمین پر رکھا یہ چوڑائی میں رول کیا ہوا تھا جب اسے کھولا تو اس میں سے قلوپطرہ نکلی جولیس سیزر کا چہرہ عتاب شاہی سے سرخ ہوگیا لیکن قلوپطرہ نے جب اپنی پرکشش نسوانیت کا جادو چلایا تو کچھ ہی دیر بعد روم کا اتنا زبردست اور طاقتور بادشاہ جیسے بھول ہی گیا ہو کہ وہ بحیرہ روم کی لہروں کو چیرتا مصر میں کیوں آیا تھا؟
پھر جانتے ہو حسن کیا ہوا؟
جولیس سیزر جو حملہ آور تھا ایک شاہی مہمان کی حیثیت سے قلوپطرہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوا بہت دنوں بعد جولیس سیزر اپنی فوج کو ساتھ لے کر واپس چلا گیا اس کے جرنیلوں نے روم میں اپنے ساتھی جرنیلوں کو بتایا کہ مصر میں ان کے بادشاہ نے کیا کیا تھا ایک روز جولیس سیزر محل میں بیٹھا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ فلاں جگہ فوراً پہنچے وہ اٹھ کر چل دیا محل کے قریب ہی ایک اور عمارت تھی جس میں اسے جانا تھا وہ جونہی اس عمارت میں داخل ہوا دس بارہ آدمیوں نے اسے گھیر لیا اور خنجروں سے اسے بڑی ہی بے دردی سے قتل کردیا
ہاں محترم اتالیق حسن بن صباح نے کہا میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں اس سبق کو نہیں بھولوں گا
لیکن حسن ابن عطاش نے کہا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تجھے عورت سے دور رہنا پڑے گا عورت انتہائی حسین اور نوجوان لڑکیوں کی صورت میں تیرے ساتھ رہے گی یہ تیرا ایک ہتھیار ہوگا لیکن ابھی نہیں ابھی تو میں نے تجھے کہیں اور بھیجنا ہے اگر تو اس مرحلے سے بھی زندہ و سلامت نکل آیا تو پھر تجھ میں ایسی طاقت آجائے گی کہ آسمان کی طرف دیکھ کر تو جس ستارے کی طرف اشارہ کرے گا وہ تیری جھولی میں آ گرے گا
ابن عطاش نے حسن بن صباح کو تربیت کے اگلے مرحلے میں ڈال دیا جس میں اسے قبروں میں مدفون انسانوں کے مختلف ہڈیوں کا استعمال سکھایا جاتا تھا ابن عطاش نے اسے پہلی بار آدھی رات کے وقت کہا کہ وہ قبرستان میں جائے اور کوئی ایسی قبر تلاش کرے جو بہت ہی پرانی ہو
پرانی قبر کی نشانی کیا ہو گی؟
حسن بن صباح نے پوچھا کوئی ایسی قبر دیکھ جو نیچے کو دھنس گئی ہو ابن عطاش نے کہا تجھے کچھ قبر ایسی بھی نظر آ جائیں گی جو پوری طرح نیچے کو دھنسی ہوئی ہوں گی اور ان میں مُردوں کی ہڈیاں نظر آتی ہونگی ایسی کسی قبر میں سے ایک کھوپڑی اور کندھے سے کہنی تک دائیں اور بائیں بازو کی دو ہڈیاں بھی لانی ہے
حسن بن صباح قبرستان میں چلا گیا وہ جنگ و جدل کا زمانہ تھا لڑائیاں ہوتی ہی رہتی تھیں اس لیے قبرستان بہت ہی وسیع وعریض تھے آدھی رات کے وقت چاند پورا تھا حسن بن صباح قبرستان میں دھنسی ہوئی قبر تلاش کرنے لگا استاد نے اسے تلوار ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی تھی
قبرستان کو شہر خاموشہ کہا جاتا ہے لیکن وہاں یہ عالم تھا کہ زندہ انسانوں کا شہر خاموش تھا اور مرے ہوئے انسانوں کی اس بستی میں کئی ایک آوازیں سنائی دے رہی تھیں علاقہ سرسبز تھا پیڑ پودے بہت زیادہ تھے دو تین الو باری باری بولتے تھے جھینگروں اور مینڈکوں کی آوازیں بھی مسلسل آ رہی تھیں اسے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی اس نے ڈر کے ادھر دیکھا ایک بلی بہت تیز بھاگتی آرہی تھی دو بھیڑیے اس کے تعاقب میں تھے وہ اس کے قریب سے گزر گئے اور آگے جا کر غائب ہو گئے
وہ اپنا دل مضبوط کر کے چل پڑا وہ ہر قبر کو دیکھ رہا تھا اسے دھنسی ہوئی کوئی قبر نظر نہیں آرہی تھی کچھ دور جا کر اسے ایک گڑھا نظر آیا جو قبر کی طرح لمبوترا تھا یہ قبر ہی ہو سکتی تھی اس کے ہر طرف قبریں تھیں یہ قبر اس کے مطلب کی تھی قبر کے کنارے پہنچ کر اس نے نیچے دیکھا تو پہلے اس نے ایسی آوازیں سنیں جیسے کتے غرّایا کرتے ہیں پھر یکلخت قبر میں سے دو کتے اچھل کر اوپر آئے تب اس نے دیکھا کہ یہ بھیڑیے ہیں اس نے فوراً تلوار نکالی اور زور زور سے گھمانے لگا بھیڑیے سمتیں بدل بدل کر اس پر جھپٹنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس کی گھومتی ہوئی تلوار بھیڑیوں کو قریب نہیں آنے دے رہی تھی ایک بار وہ اس دھنسی ہوئی قبر کے کنارے پر اس طرح چلا گیا کہ اس کی پیٹھ قبر کی طرف تھی بھیڑیوں سے بچنے کے لئے وہ ذرا سا پیچھے ہٹا تو قبر میں جا پڑا اس کی ایک ٹانگ گھٹنے تک مٹی میں دھنس گئی اسے مری ہوئی ایک بلی نظر آئی جو قبر میں پڑھی تھی وہ سمجھ گیا کہ یہ وہی بلی ہے جس کے پیچھے بھیڑیے دوڑ رہے تھے بلی شاید اس قبر میں گر پڑی یا چھپنے کے لئے اس میں اتر گئی تھی بھیڑیوں نے اسے وہیں دبوچ لیا بھیڑیے اس وقت بلی کو کھا رہے تھے جب حسن وہاں پہنچا بھیڑیے یہ سمجھے کہ یہ شخص ان سے ان کا شکار چھیننے آیا ہے حسن نے فوراً چیری پھاڑی ہوئی بلی کو ٹانگ سے پکڑا اور اٹھا کر باہر پھینک دیا اگر وہ ایک لمحہ اور بھیڑیوں کا شکار باہر نہ پھینکتا تو وہ اوپر سے اس پر حملہ کر کے اسے چیر پھاڑ دیتے بھیڑیے اپنا شکار اٹھا کر چلے گئے لیکن حسن بن صباح پر ایسا خوف طاری ہوگیا کہ وہ اپنے جسم میں لرزاں محسوس کر رہا تھا اس نے تو یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہاں سے بھاگ آئے لیکن استاد کے ڈر سے اس نے بھاگنے کا ارادہ ملتوی کردیا
اس نے کچھ اس قسم کی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ بعض لوگ اللہ کو اتنا عزیز ہوتے ہیں کہ وہ مر جائیں اور کوئی ان کی قبروں کی توہین کرے تو اللہ اس پر اسی وقت عذاب نازل کرتا ہے اس خیال نے اس کے خوف میں اضافہ کردیا لیکن ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ مطلوبہ ہڈیاں ہر حالت میں لانی ہے اور خوف پر قابو پانا ہے حسن نے اپنی دھنسی ہوئی ٹانگ باہر کھینچی یہ لحد تھی جس میں ہڈیاں ہونی چاہیے تھیں
اس نے دیکھا کہ وہاں سے ایک سل نیچے کو گری ہوئی تھی اس نے ہاتھوں سے مٹی باہر پھینکی پھر سل اٹھا کر الگ رکھ دی چاندنی میں مردے کی ہڈیاں صاف نظر آرہی تھیں یہ مردے کا اوپر والا حصہ تھا اس نے کھوپڑی اٹھائی اور دونوں بازوؤں کی ہڈیاں بھی اٹھا لی عین وقت اس نے دیکھا کہ چاندنی بجھ گئی ہے اور ایک سایہ اس کے اوپر سے گزر رہا ہے اس نے گھبرا کر اوپر دیکھا کالی گھٹا آگے کو بڑھ رہی تھی اور رات تاریک ہوتی چلی جا رہی تھی حسن کھوپڑی اور ہڈیاں اٹھا کر تیزی سے قبر سے نکلا اچانک بجلی بڑی زور سے چمکی دو تین سیکنڈ بعد بجلی کی کڑک سنائی دی جو اتنی خوفناک تھی کہ حسن بن صباح جیسا دلیر نوجوان بھی سُن ہو کے رہ گیا اور اسے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دینے لگی
اس علاقے میں بارش کا اچانک آ جانا کوئی عجیب چیز نہیں تھی لیکن حسن کے دل پر یہ خوف سوار ہوا کہ یہ کسی برگزیدہ بزرگ کی قبر ہے جس کی توہین پر آسمان اپنی بجلیاں گرانے پر اُتر آیا ہے
حسن کو پھر وہی خیال آیا کہ یہ کھوپڑی اور دونوں ہڈیاں لحد میں واپس رکھ دے لیکن اسے اپنے استاد کی یہ بات بھی یاد آ گئی کہ اگر تو ڈر گیا یا ویسے ہی ناکام لوٹا تو پھر یہ علم سیکھنے کے لیے نہ جانے کتنے سال درکار ہوں گے اس نے بڑی مشکل سے اپنا حوصلہ مضبوط کیا اور وہاں سے چل پڑا اچانک موسلادھار بارش شروع ہو گئی بارش کے قطرے کنکریوں کی طرح جسم کو لگتے تھے وہ دوڑ پڑا ایک جگہ اس نے سامنے دیکھا تو اسے تین چار قدم دور ایک آدمی کھڑا نظر آیا جس کے خدوخال صاف نظر نہیں آتے تھے وہ دھندلا سا سایہ تھا جو سیدھا کھڑا تھا اس کا قد اتنا لمبا تھا کہ عام انسان سے زیادہ تھا اس نے دونوں بازو کندھوں کے سیدھ میں دائیں بائیں پھیلا رکھے تھے جیسے حسن کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہو اس کا سر گول نہیں بلکہ لمبوترا تھا وہ بالکل خاموش تھا
حسن رک گیا دل پر خوف کی گرفت ایسی جیسے ایک مضبوط ہاتھ اس کے دل سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کے لئے شکنجے کی طرح دباتا جا رہا ہو اس نے فیصلہ کر لیا کہ کھوپڑی اس خوفناک آدمی کے قدموں میں رکھ دے گا بجلی بار بار چمکتی اور کڑکتی تھی اس چمک سے حسن کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں بارش بڑی ہی تیز تھی یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ غیرمعمولی طور پر لمبا تڑنگا انسان اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت کررہا ہو پھر ایک بار اسے یوں لگا جیسے یہ آدمی آگے بڑھ رہا ہو
اچانک حسن کی مردانگی بیدار ہو گئی یہ شاید موت سے بچنے کی آخری کوشش تھی اس نے تلوار نکالی اور بڑی ہی تیزی سے آگے بڑھ کر تلوار اس آدمی کے پیٹ میں گھوپی اسے امید تھی کہ جس طاقت سے اس نے یہ وار کیا ہے تلوار اس پراسرار آدمی کے پیٹ میں سے گزر کر پیٹھ کی طرف سے نکل جائے گی لیکن تلوار کی نوک بھی پیٹ میں نہ گئی حسن نے بجلی کی سی تیزی سے تلوار پیچھے کھینچی اور اس طرح تلوار پہلو کی طرف چلائی جس طرح تلوار کا وار کیا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے ہاتھ کو بڑی زور سے جھٹکا لگا اور تلوار پیچھے کو آ گئی اس آدمی کے بازو پھیلے رہے حسن اس سے ایک دو قدم ہی دور تھا اب جو بجلی چمکی تو حسن نے آگے بڑھ کر اس کو ہاتھ لگایا تب اسے پتہ چلا کہ یہ ایک ٹنڈ منڈ درخت ہے جو خشک ہو چکا ہے اور اس کے ٹوٹے ہوئے دو ٹہن دائیں اور بائیں پھیلے ہوئے ہیں
حسن کھوپڑی اور بازوؤں کی ہڈیوں کو مضبوطی سے پکڑے دوڑ پڑا قبرستان سے نکلتے نکلتے وہ دو تین بار پھیسل کر گرا اور جب قبرستان سے نکل آیا تو ذرا آرام سے چلنے لگا عبدالملک ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ وہ گھر میں اس کا منتظر ہوگا خواہ ساری رات گزر جائے
حسن اس کے گھر پہنچا تو وہ جاگ رہا تھا حسن کے کپڑوں سے پانی بہ رہا تھا گھٹنوں تک کیچڑ تھا کچھ تو وہ بارش کی وجہ سے کانپ رہا تھا اور کچھ خوف سے اس نے کھوپڑی اور ہڈیاں ابن عطاش کے آگے رکھ دی اس نے اسے شاباش دی پھر اس کے کپڑے تبدیل کرائے اور پوچھا کہ وہ ڈرا تو نہیں میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا زیادہ ڈر گیا تھا حسن بن صباح نے جواب دیا چند لمحے سوچ کر کہنے لگا محترم اتالیق کیا یہ بھی میری تربیت کے لئے ضروری ہے
اتنا ہی ضروری جتنا جسم کیلئے پانی اور ہوا کی ضرورت ہے اب عطاش نے کہا اب بتا یہ ہڈیاں قبر سے تو کیسے نکال لایا ؟
حسن نے تفصیل سے سنایا کہ اس پر کیا گزری ہے
محترم اتالیق حسن نے کہا میں نے آج رات سچ مان لیا ہے کہ کسی برگزیدہ شخصیت کی قبر اور اس کی ہڈیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو جو میں نے کیا ہے تو اسی وقت عذاب نازل ہوتا ہے اس نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا کیا مجھ پر مزید عتاب نازل ہوگا
نہیں ابن عطاش نے جواب دیا جو ہونا تھا ہو چکا ہے راز کی ایک بات ہے اسے دل اور دماغ میں محفوظ کر لے تو مردے کی قبر میں اترا تجھ پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے ہڈیوں کو ہاتھ لگایا تو بجلیاں چمکنے لگیں کیا اس سے تو یہ نہیں سمجھا کہ مرے ہوئے انسان میں بھی طاقت ہوتی ہے؟
کیا تو نے کبھی روح یا بد روح نہیں سنی؟
میں نے تجھے کس علم میں ڈال دیا ہے یہ علم تجھے روحوں اور بدروحوں سے ملاقات کر آئے گا اور یہ علم تجھے یہ بھی سکھائے گا کہ مرے ہوئے انسانوں میں جو طاقت ہوتی ہے وہ تیرے قابو میں آ جائے اور اسے تو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے لیکن ابھی نہیں یہ طاقت تجھے کہیں سے حاصل ہوگی اور تو اپنی ہڈیاں تڑوا کر تو یہ طاقت حاصل کرے گا جہنم کی آگ میں سے گزر کر تو جنت میں داخل ہو گا عبدالملک ابن عطاش نے اسے کھوپڑی اور ہڈیوں کے متعلق ایک سبق دیا اور اسے گھر بھیج دیا…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:3 }
اگلے دن حسن بن صباح شہر کے قریب سے گزرنے والی ندی کے کنارے ٹہل رہا تھا اس کے دماغ میں اپنے استاد کے سبق گھوم رہے تھے گزشتہ رات کی طوفانی بارش سے ندی کی کیفیت میں طغیانی تھی اور ہر طرف کیچڑ تھا حسن نے تنہائی میں شہر کے ہنگاموں سے دور کسی جگہ بیٹھ کر نجوم اور سحر کے سبق دہرانے تھے کیچڑ میں وہ بیٹھنے کے لئے کوئی خشک جگہ ڈھونڈ رہا تھا
کچھ دور جا کر اسے اتنا بڑا پتھر نظر آگیا جس پر وہ آسانی سے بیٹھ سکتا تھا وہ افق سے ابھرتے ہوئے سورج کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا آنکھیں بند کرلیں اور لمبے لمبے سانس لینے لگا
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اس کے سامنے سورج ہونا چاہیے تھا لیکن سورج نہیں تھا اس کی بجائے ایک رنگ دار کپڑا تھا جو اس کے اور سورج کے درمیان آ گیا حسن سُن سا ہو گیا اس نے ڈرتے ڈرتے اور بہت ہی آہستہ آہستہ نظریں اوپر اٹھائیں اسے ایک بڑا ھی حسین نسوانی چہرہ نظر آیا یہ ایک نوخیز لڑکی کا چہرہ تھا ہونٹوں پر ادھ کھلی کلی سی مسکراہٹ تھی لڑکی اس سے صرف ایک قدم دور کھڑی تھی
حسن ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ چہرہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے کہاں دیکھا ہے؟
اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ سحر کا کرشمہ ہوگا
پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟
لڑکی کی آواز میں ترنم تھا
حسن بن صباح نے سر کو ہلایا کہ ہاں وہ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے
اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی تھی لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہ اوہ حسن کو یاد آ گیا تم ہو ایک بات بتاؤ کیا تم حقیقت ہو یا میرے استاد کا تخلیق کیا ہوا تصور ہو جو اس نے حقیقی روپ میں میرے ذہن میں ڈال دیا ہے
لو دیکھ لو لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھ حسن کے آگے کر کے کہا میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر محسوس کرو کہ میں تصور ہوں یا جیتی جاگتی ایک لڑکی ہوں
حسن نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں پر لے کر دبائے ان کی حرارت محسوس کی انکا گداز محسوس کیا
تم کون ہو ؟
حسن نے جھنجھلا کر پوچھا کیا ہو تم اگر تم حقیقت میں لڑکی ہی ہو تو کس کی بیٹی ہو تم آبرو باختہ لڑکی ہو جو برہنہ ایک نوجوان مرد کے سامنے بند کمرے میں بیٹھی رہی ہو
میری آبرو محفوظ ہے لڑکی نے کہا اگر میں ایسی ہوتی جیسی تم کہہ رہے ہو تو عبدالملک ابن عطاش جیسا درویش مجھ سے منہ نہ لگاتا میں کنواری ہوں حسن میری طرف بہت سے ہاتھ بڑھے ہیں مجھ پر دو جاگیرداروں کے بھی ہاتھ لگے میں کسی کے ہاتھ نہیں آئی
تم کس باپ کی بیٹی ہوں؟
حسن نے پوچھا
میرا باپ گڈریا ہے اس نے ایک طرف اشارہ کر کے کہا وہ دیکھو میری بکریاں
حسن نے گردن گھما کر بکریاں دیکھ تو لیں لیکن اس کی دلچسپی لڑکی کے ساتھ تھی
تم میرے سامنے برہنہ کس طرح بیٹھ گئی تھی ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اس برگزیدہ آدمی نے حکم دیا تھا جسے ہم پیر و مرشد مانتے ہیں لڑکی نے جواب دیا میں ان کے حکم کو ٹال نہیں سکتی تھی انہوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ یہ آدمی تجھ پر ہاتھ ڈالے تو مجھے آواز دینا انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کیواڑ کے چھوٹے سے سوراخ سے دیکھتے رہیں گے
کیا اب بھی تم میرا امتحان لینے آئی ہوں؟
حسن نے پوچھا
نہیں! لڑکی نے جواب دیا اب اپنے دل کی کہنے پر آئی ہوں تمہارے لئے آئی ہوں اور میں تمہیں یہ بتا دو کہ میں تمہارے ساتھ جسموں کا لین دین کرنے نہیں آئی اگر تم کو قبول کر لو تو اپنے دل میں جگہ دے دو پھر ہماری ساری عمر کا ساتھ نبھائیں گے تم تو بولتے ہی نہیں کچھ کہو نا
لڑکی کا حُسن ایسا تھا کہ حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان کہہ ہی نہیں کہ وہ اسے دل میں جگہ نہیں دے گا لیکن اس کے دل پر اسکے استاد کا قبضہ تھا وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کا دل اپنے اختیار میں نہیں اس کے ساتھ ہی اسے یہ ڈر تھا کہ یہ بھی امتحان ہے اس نے اس امتحان میں پورا اترنے کا تہیہ کر لیا
وہ پتھر پر بیٹھا تھا لڑکی زمین پر بیٹھ گئی اور ہاتھ اس کے زانو پر رکھ دیے پھر اس نے اپنی تھوڑی بھی اس کے ایک زانو پر رکھ دی لڑکی کے سر پر سیاہ چادر تھی اس میں اسکا گورا چہرہ اور ایک گال پر لہراتے دو تین بال جو ریشم کے تاروں جیسے تھے حسن جیسے نوجوان کو اس لڑکی کے قدموں میں بٹھا سکتے تھے
تمہارا نام؟
حسن نے پوچھا
فرح لڑکی نے جواب دیا نام تو فرحت ہے گھر والے فرح کہتے ہیں سہیلیاں فرحی کہتی ہیں تم بھی فرحی کہو تو مجھے اچھا لگے گا
ایک بات بتاؤ حسن نے پوچھا تمہیں مجھ میں کیا خوبی نظر آئی ہے کہ جاگیرداروں کو ٹھوکرا کر تم میرے پاس چلی آئی ہو ؟
یہ میرے دل کا معاملہ ہے لڑکی نے کہا جاگیرداروں نے تو میرے باپ کو دولت پیش کی تھی میرا باپ ہے تو گدڑیا لیکن عزت اور غیرت والا آدمی ہے ایک بات اور بھی ہے میرے باپ نے امام سے بات کی تھی
امام کون؟
وہ جو تمہارے استاد ہیں لڑکی نے جواب دیا عبدالملک ابن عطاش انہوں نے کہا تھا کہ اس لڑکی کو ضائع نہ کر دینا اور دولت کی چمک سے اندھے ہو کر اس کا ہاتھ کسی امیر کبیر کے ہاتھ میں نہ دے دینا اس لڑکی کی زندگی کا راستہ کوئی اور ھے میں امام کے گھر جاتی رہتی ہوں انہوں نے مجھے کہا ہے اپنی عصمت کو پاک رکھنا اور اپنا جسم صرف اپنے خاوند کو پیش کرنا میں تمہیں اپنا خاوند بنانا چاہتی ہوں
میں نے پوچھا تھا کہ تم نے مجھ میں کیا خوبی دیکھی ہے؟
میں نے کہا تھا کہ یہ میرے دل کا معاملہ ہے لڑکی نے جواب دیا تم میں وہ مردانگی ہے جو مجھے اچھی لگی ہے میں اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی اور تم نے میری طرف دیکھا تک نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بڑے مضبوط مرد ہو اور دلوں کی محبت کا مطلب سمجھتے ہو
فرحی معصوم سی لڑکی تھی اور ایک گڈریے کی بیٹی تھی وہ علم اور فلسفی نہیں تھی کہ تجزیہ کرکے بتا سکتی کہ وہ حسن کی محبت میں کیوں گرفتار ہوئی ہے اس نے ایسے انداز سے حسن کو اپنی محبت اور وفا کا یقین دلایا کہ حسن نے اس کی محبت کو قبول کرلیا
فرحی حسن نے کہا تم میرے دل پر غالب آ گئی ہو لیکن میں اپنے بزرگ استاد سے اجازت لے کر تمہیں جواب دوں گا
کل یہاں آؤ گے فرحی نے پوچھا
آ جاؤں گا حسن نے جواب دیا
فرحی چلی گئی
ابومسلم رازی رے کا حاکم تھا رے ایران کا بہت بڑا شہر تھا تجارتی مرکز تھا اور اتنا زیادہ پھیل گیا تھا کہ اس کی وسعت صوبے جیسی ہو گئی تھی اتنی وسیع و عریض شہر کے لیے بڑے ہی دانشمند اور قابل حاکم کی ضرورت تھی ابومسلم رازی میں یہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں
بعض تاریخوں میں اسے رے کا سلطان لکھا گیا ہے یہ صحیح نہیں البتہ یہ صحیح ہے کہ اسے تقریباً سلطان کے اختیارات حاصل تھے یعنی وہ سلطان سے اجازت لیے بغیر انتہائی اہم فیصلے کر سکتا تھا کٹر اہلسنت والجماعت تھا
داستان گو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ حسن بن صباح کی زندگی بڑی ہی پراسرار تھی جنت بنانے تک اس کی زیادہ تر سرگرمیاں زمین دوز رہی ہیں وہ کس طرح ایسی شخصیت بنا کہ اس کے پیروکاروں کا حلقہ پھیلتا ہی چلا گیا یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب قلمبند کرنا آسان نہیں یہ اس کی پس پردہ جدوجہد تھی جس میں مورخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے مثلا کسی واقعے میں بعض نے لکھا کہ اس وقت حسن کی عمر اتنی تھی لیکن بعض نے کچھ اور ہی عمر لکھی بعض شخصیات اور کرداروں کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے
ہماری تاریخ کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں فرقہ بندی جڑ پکڑ چکی ہے تاریخ ہر فرقہ کے تاریخ نویسوں نے لکھی جس سے تاریخ کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی کہ لکھنے والوں نے اپنے اپنے فرقے کے نظریات مفادات اور تعصبات کو سامنے رکھا اور واقعات کو مسخ کر ڈالا
جب ایک ہی واقعہ مختلف تاریخوں میں مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے تو ہمیں تمام تر پس منظر کو غور سے دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا یہ امر کتنا افسوسناک ہے کہ مسلمانوں نے فرقوں میں تقسیم ہو کر اپنی تاریخ کو بھی فرقوں میں تقسیم کردیا رات کا پہلا پہر تھا حسن بن صباح اپنے استاد عبدالملک ابن عطاش کے یہاں بیٹھا تھا اور اسے سنا رہا تھا کہ فرحی اسے ملی تھی اور اس نے کیا کہا تھا
ایسی ہی ایک لڑکی نے تیری زندگی میں داخل ہونا تھا ابن عطاش نے کہا لیکن ابھی تیری شادی نہیں ہوگی اس نے کہہ دیا ہے کہ وہ تجھے چاہتی ہے تو وہ تجھے ہی چاہتی رہے گی کوئی اس کے آگے دولت کے ڈھیر لگا دے گا تو وہ قبول نہیں کرے گی وہ ہمیشہ تیری رہے گی
لیکن محترم اتالیق حسن نے کہا کوئی شاہی جاگیر دار اسے اغوا نہ کرلے
نہیں ابن عطاش نے کہا اسے کوئ ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا میں نے اس کے گرد حصار کھینچ دیا ہے کوئی شخص کتنا ہی جابر اور کتنا ہی بڑا حاکم کیوں نہ ہو فرحی کو بری نیت سے پھانسنے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا
میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے میرا امتحان لینے کے لئے اسے میرے پاس بھیجا ہے حسن نے کہا
نہیں! ابن عطاش نے کہا یہ کوئی امتحان نہ تھا لیکن یہ بات دماغ میں رکھ لے حسن خوبصورت عورت مرد کے لیے بہت بڑا امتحان ہوتی ہے میں تجھے یہ سبق دے چکا ہوں فرحی جیسی حسین لڑکی تجھ پر اپنا نشہ طاری کرکے تیری کھال بھی اتار سکتی ہے آگے چل کر میں تجھے بتاؤں گا کہ دوسروں کو پھانسنے کے لیے عورت کو جال میں دانے کے طور پر کس طرح استعمال کیا جاتا ہے
تو کیا میں فرحی سے مل سکتا ہوں
ہاں! ابن عطاش نے جواب دیا تو اسے مل سکتا ہے تو اس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرسکتا ہے اور تیرا امتحان ہوگا کہ تو گناہ سے دامن بچا کر رکھنے کے قابل ہوجائے
کیا آپ مجھے پارسہ بنائیں گے ؟
نہیں! ابن عطاش نے کہا ابھی ایسے سوال مت پوچھو میں ابھی تجھے اندر اور باہر سے مضبوط کر رہا ہوں اب تو اپنے گھر چلا جا میں تجھے پھر کہتا ہوں کہ کسی کو نہیں بتانا کہ میں تجھے کیسی تعلیم اور کیسی تربیت دے رہا ہوں میں آج تجھے کوئی اور سبق نہیں دوں گا کچھ لوگ آرہے ہیں
حسن بن صباح اپنے استاد کے گھر سے نکل رہا تھا کہ چار آدمی حویلی میں داخل ہوئے
عبدالملک ابن عطاش ان ہی آدمیوں کے انتظار میں تھا
کیا یہی وہ لڑکا ہے جسے آپ تیار کر رہے ہیں ؟
ایک آدمی نے پوچھا ہم نے اسے باہر نکلتے دیکھا ہے
ہاں ابن عطاش نے جواب دیا یہی ہے
کیا یہ ہمارے محاذ اور مقصد کے لئے تیار ہوجائے گا؟
اسی آدمی نے پوچھا
مجھے پوری امید ہے ابن عطاش نے جواب دیا میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ اس نوجوان میں جس کا نام حسن بن صباح ہے میں نے ایسے جوہر دیکھے ہیں جو شاذ و نادر ہی کسی آدمی میں پائے جاتے ہیں ایسی صلاحیتوں اور ایسے اوصاف والا انسان اللہ کا برگزیدہ اور لوگوں کا مرشد بنتا ہے یا مجسم ابلیس بن جاتا ہے دونوں صورتوں میں وہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتا ہے مقبولیت بھی ایسی کہ اس کے مرید اور معتقد اس کے اشاروں پر ناچتے بلکہ اس کے اشارے پر جان تک قربان کر دیتے ہیں
یہ لڑکا کس طرف جاتا نظر آتا ہے؟
میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا ابن عطاش نے جواب دیا مجھے شک ہے کہ اس میں ابلیسی اوصاف کچھ زیادہ ہیں اگر یہ اس راستے پر چل نکلا تو بھی ہمارے لئے سود مند رہے گا میرے قبضے میں ہی میں اس کو روحانی تقویت دے رہا ہوں
کیا ہمیں تبلیغ کا کام تیز نہیں کر دینا چاہئے؟
تبلیغ تو ہو رہی ہے ابن عطاش نے جواب دیا لیکن ہم یہ کام آزادی سے نہیں کر سکتے کیوں کہ حکومت اہلسنت کی ہے اور آبادی کی اکثریت بھی سنی ہے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہماری تبلیغ دیہات میں زیادہ ہونی چاہیے وہاں پکڑے جانے کا خطرہ کم ہے
ہم نے دیہاتی علاقوں میں اپنے عقیدے کی تبلیغ کے لئے مبلغ بھیجنے شروع کردیئے ہیں ایک آدمی نے کہا
صرف تبلیغ کافی نہیں ابن عطاش نے کہا حکومت اپنے ہاتھ میں آنی چاہیے حکومت ہاتھ آجائے تو ہم سنی مسلک کو آسانی سے ختم کرکے لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ اصل اسلام ہمارے پاس ہے لیکن حکومت آسانی سے ہاتھ نہیں آئے گی ہمیں مصر کے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنی پڑے گی
میں ایک شک میں پڑ گیا ہوں ایک اور بولا مصر کے حکمران تو عبیدی ہی ہیں لیکن سنا ہے وہ باطنی ہیں ہیں
نہیں ابن عطاش نے کہا وہ پکے اسماعیلی ہیں اور وہ ہماری مدد کو ضرور آئیں گے میں انہیں سلجوقی سلطنت پر حملے کے لئے اکساؤں گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ادھر ہمارے لوگ تیار ہوں لیکن یہ تیاری پوشیدہ رہے مصری حملہ آور آئیں اور ہمارے لوگ ہتھیار بند ہوکر ان سے جا ملیں اتنی تیاری کے لیے بہت وقت چاہیے
اسی شہر کے حاکم ابومسلم رازی کے پاس دو سپہ سالار بیٹھے تھے دو آدمی اور بھی تھے جو فوجی نہیں لگتے تھے یہ دونوں جاسوسی اور مخبری کے محکمے کے حاکم تھے
اپنے مخبروں کو اور تیز کرو ابو مسلم رازی نے کہا میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ شہر سعد بن ابی وقاصؓ نے فتح کیا تھا اور آتش پرست ایرانیوں کو اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا سلطنت کسریٰ کے تابوت میں آخری کیل یہیں ٹھونکی گئی تھی ان اولین مجاہدین نے یہاں اسلام کا نور پھیلایا تھا ان کی قبروں کے کہیں نشان نہیں ملتے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ یہیں دفن ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جانیں قربان کیں تھیں ان کی روحیں یہی ہے ہمیں دیکھ رہی ہیں اور یقینا بے چین ہو گی کہ امت رسول اللہﷺ کو کیا ہو گیا ہے کہ فرقوں میں بٹ گئی ہے
میرے رفیقو میں کوئی نئی بات نہیں کر رہا اور یہ بات معمولی سے دماغ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ملت میں اتحاد تھا تو مجاہدین تھوڑی سی تعداد میں دنیا کی اس وقت کی دو سب سے بڑی جنگی طاقتوں کا قیصر روم اور کسریٰ فارس کو ریزہ ریزہ کردیا تھا مگر آج وہی ملت فرقوں میں بٹ کر خانہ جنگی کے خطرے میں آن پڑی ہے اس کا فائدہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے دشمنوں کو پہنچے گا
ہمیں مصر کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے جاسوسی نظام کے ایک حاکم نے کہا وہاں کے حکمران اسماعیلی کہلاتے ہیں لیکن ہماری اطلاع یہ ہے کہ وہ فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسماعیلیوں کو بدنام کر رہے ہیں خطرہ یہ ہے کہ وہ اسماعیلیوں کو دھوکے میں اپنے ساتھ ملا کر ہم پر حملہ کر سکتے ہیں
ابومسلم رازی نے کہا آپ کے جاسوسوں کی تمام اطلاعات میرے سامنے ہیں مصر میں اپنے جاسوسوں کا موجود رہنا بہت ضروری ہے اور یہاں اس شہر کے ہر گھر اور ہر فرد پر نظر رکھیں اسلام کی وحدت کو پیش نظر رکھیں قران کے اس فرمان کو اپنی حکومت کا بنیادی اصول بنائیں کہ امت رسول اللہﷺ ایک جماعت ہے محمد رسول اللہﷺ آخری نبی تھے آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے یہ فرقے بعد میں پیدا ہوئے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں یہ نبیوں نے نہیں عام قسم کے انسانوں نے بنائے ہیں اور یہ اسلام کے منافی ہیں جس کے ہم پیروکار ہیں اصل اسلام وہ ہے جو اللہ کے آخری رسولﷺ چھوڑ گئے تھے یہاں کسی کے متعلق پتہ چلے کہ وہ فرقہ بندی کو ہوا دے رہا ہے تو مجھے اطلاع دو میں اسے ساری عمر کے لیے قید خانے میں ڈال دوں گا
وقت گزرتا چلا گیا عبدالملک ابن عطاش نے حسن بن صباح کی تربیت جاری رکھی حسن بھی بڑا خوبصورت جوان نکلا عیاری اور فریب کارانہ اداکاری میں تو اس نے مہارت حاصل کر لی فرحی کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری رہیں فرحی غیرمعمولی طور پر دلیر لڑکی نکلی جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسے ابن عطاش کی حوصلہ افزائی حاصل تھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ ابن عطاش کی مرید تھی اور اس کی ہر بات کو فرحی آسمان سے اتری ہوئی بات سمجھتی تھی ابن عطاش نے اسے کہہ دیا تھا کہ اس کی زندگی کا ساتھی حسن بن صباح ہے
حسن بن صباح پر پہلے جو خوف سا طاری رہتا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا اسے ابن عطاش نے کئی بار آدھی رات کے وقت قبرستان میں بھیجا تھا ہر بار وہ حسن کو مردے کی کوئی نہ کوئی ہڈی لانے کو کہتا تھا یا قبرستان میں بیٹھ کر کوئی عمل کرنا ہوتا تھا
ایک رات حسن قبرستان میں دو پرانی قبروں کے درمیان بیٹھا کوئی عمل کر رہا تھا اس رات بھی چاند پورا تھا وہ اپنے عمل میں محو تھا کہ اس کے قریب سی سی کی آوازیں اٹھیں اس نے ذہن کو ایک مقام پر کرنے اور دنیا سے لاتعلق ہو جانے کی اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ اسے جیسے یہ آواز سنائی ہی نہ دی ہو اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں
اس نے اپنے عمل کے مطابق آنکھیں کھولیں تو وہ چونک پڑا اس سے صرف دو قدم کے فاصلے پر اس کے سامنے سیاہ کالا ایک ناگ پھن پھیلائے ہوئے سی سی کر رہا تھا استاد نے اسے بتا رکھا تھا کہ قبرستان میں سانپ ہوتے ہیں اگر کبھی سانپ سے آمنا سامنا ہو جائے تو وہ بے حس ہو جائے کوئی حرکت نہ کرے اس سے سانپ کو یہ تاثر ملے گا کہ یہ کوئی بے جان چیز ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہیں پھر سانپ چلا جائے گا
حسن بن صباح نے ناگ کو دیکھا تو پتھر مار کر اسے بھگانے کی بجائے بیٹھا رہا اور انگلی تک نہ ہلائی ناگ اسے دیکھتا رہا اور اس کا پھن دائیں بائیں جھولتا رہا حسن نے ننگی تلوار زمین میں گاڑ رکھی تھی اس نے تلوار کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا اس کے دل میں خوف آنے لگا لیکن اس نے ہوش ٹھکانے رکھے
ناگ ذرا سا آگے آیا حسن کے لیے اپنے آپ پر قابو پانا محال ہو گیا اس کے لئے دو ہی صورتیں تھیں ایک یہ کہ اٹھ کر بھاگ جائے دوسری یہ کہ تیزی سے زمین سے تلوار اکھاڑے اور ناگ کو مارے لیکن ناگ نے اپنا پھن لپیٹا اور پیچھے کو مڑ کر چلا گیا حسن نے اپنا عمل مکمل کیا اور گھر چلا گیا
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلی صبح عبدالملک ابن عطاش کے یہاں گی، پہلے اسے بتایا کہ اس نے عمل مکمل کرلیا ہے پھر بتایا کہ ایک ناگ اس کے سامنے آگیا تھا اس نے تفصیل سے سنایا کہ ناگ کس طرح آیا اور کس طرح گیا
سانپ سانپ کو نہیں ڈسا کرتا ابن عطاش نے کہا میری بات سمجھو میں تجھے اسی مقام پر لانا چاہتا تھا تو اپنی منزل کے آدھے راستے تک پہنچ گیا ہے اب منزل تک تجھے کوئی اور پہنچائے گا میری استادی یہاں پر ختم ہو جاتی ہے
تو کیا مجھے کوئی اور استاد ڈھونڈنا پڑے گا؟
حسن نے پوچھا یا آپ مجھے کسی کے پاس بھیجیں گے
اس سوال کا جواب تجھے خواب میں ملے گا ابن عطاش نے جواب دیا گزشتہ رات کا عمل جو تجھ سے کروایا ہے وہ کوئی معمولی عمل نہیں ناگ کا تمہارے پاس آنا اور تجھے ڈسے بغیر چلے جانا اس عمل کی کامیابی کا ثبوت ہے اگر تو بھاگ آتا یا ناگ تجھے ڈس لیتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تو نے عمل صحیح نہیں کیا یا عمل کسی اور وجہ سے ناکام ہو گیا ہے پانچ سات دنوں کے اندر تو خواب میں کچھ دیکھے گا وہ ایک راستہ ہوگا جو بہت ہی دشوار گزار ہو سکتا ہے اور بالکل آسان بھی
میری دعا ہے کہ تجھے راستہ دشوار نظر آئے سکھ دکھوں میں سے گزر کر ہی ملتا ہے دولت آسانی سے ہاتھ آجائے تو انسان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے خون پسینہ بہا کر اور محنت مشقت سے اپنی ہڈیاں تڑوا کر اکٹھا کیا جائے تو انسان اسکی قدر کرتا ہے اگر گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے نہ ہوں تو اس پھول کی قدروقیمت ختم ہوجائے
گزشتہ رات کے عمل نے تیرے دل و دماغ پر ایسا اثر چھوڑ دیا ہے کہ تو ایک خواب دیکھے گا کہ تو کہیں جا رہا ہوگا اس راستے کو ذہن میں محفوظ کرلینا جونہی ہی آنکھ کھلے کاغذ قلم لے کر یہ راستہ اور اس کے اشارے کاغذ پر اتار لینا ہو سکتا ہے خواب میں تمہیں دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی نظر آئے ایک غار بھی نظر آئے گا اسے ذہن میں محفوظ کر لینا
محترم اتالیق حسن نے پوچھا کیا یہ خدائی اشارہ ہوگا؟
عبدالملک ابن عطاش نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر کچھ بھی نہ بولا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنے شاگرد کے اس سوال کا جواب نہ دینا چاہتا ہو اس نے آخر سر اٹھایا اور نظریں اپنے شاگرد کے چہرے پر مرکوز کردیں
اگر یہ کوئی راز کی بات ہے تو نہ بتائیں محترم اتالیق حسن نے کہا
ہاں حسن نا بتاتا اس نے کہا بات راز کی ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ یہ راز بھی تجھے دے دوں تو اس قابل ہو گیا ہے کہ ہر راز کو اپنے سینے میں محفوظ رکھ سکتا ہے
میں نے آج تک تجھے جو سبق دیا ہے اور جو عمل کروائے ہیں اور گزشتہ رات کا جو عمل تھا یہ خدائی عمل نہیں یہ ابلیسی عمل ہے اس سے تجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے کیا تو آپ نے اپنے روحانی سکون محسوس نہیں کر رہا؟
ہاں محترم اتالیق حسن نے جواب دیا میں آپ کو بتانا یہ چاہتا تھا کہ میں اپنے آپ میں ایسا سکون محسوس کرتا ہوں جیسے میں فضاء میں اڑ رہا ہوں اور اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ میرے وجود میں ایک طاقت آگئی ہے جو چٹانوں کے بھی جگر چاک کر سکتی ہے
میں تجھے بتاتا ہوں ابن عطاش نے کہا تیرے اندر ایسے اوصاف غالب تھے جو ایسے ہی عملیات سے تجھے سکون اور طاقت دے سکتے تھے یہ سب ابلیسی عملیات ہیں جنہیں اسلام نے گناہ قرار دیا ہے یہ علم فرعونوں کے زمانے میں بھی تھا اور پھر اس علم کو یہودیوں نے اپنا لیا اور اس میں شہرت حاصل کی تو نے ایک بار کہا تھا کہ تو فرعون بننا چاہتا ہے میں نے تیرے اندر اتنی طاقت پیدا کر دی ہے کہ تو اس غار تک پہنچے گا جو تجھے خواب میں نظر آئے گا وہاں تیرا یہ علم مکمل ہوجائے گا اب یہ مت سوچ کے یہ علم خدائی ہے یا ابلیسی
یہ سحر کا علم تھا جسے آجکل کالا جادو کہا جاتا ہے ابن عطاش اس علم میں جتنی دسترس رکھتا تھا وہ اس نے حسن کے دماغ میں ڈال دیا تھا اس دوران وہ حسن کو علم نجوم بھی پڑھاتا رہا تھا تیسرے چوتھے دن حسن بن صباح ایک کاغذ اٹھائے اپنے استاد کے یہاں دوڑا گیا اور کاغذ اس کے آگے رکھ کر کہا کہ میں نے خواب میں یہ راستہ دیکھا ہے اس نے یہ بھی کہا کہ یہ راستہ اگر خواب جیسا ہی ہے تو بہت ہی خوفناک ہے وہاں تک زندہ پہنچنا مشکوک نظر آتا ہے
میں جانتا ہوں ابن عطاش نے کہا اگر تو نے یہ سفر بخیر و خوبی کرلیا تو سمجھ لے کے تو نے ساری دنیا فتح کر لی ہے کل اس وقت نکل جا جب تجھے فجر کی اذان سنائی دے
اگلے روز جب سورج افق سے ابھرا تو شہر سے کوسوں دور دو گھوڑے جارہے تھے ایک پر حسن بن صباح سوار تھا اور دوسرے گھوڑے پر فرحی سوار تھی گزشتہ رات جب وہ فرحی سے ملا تو اس نے فرحی کو بتایا کہ وہ کس سفر پر روانہ ہو رہا ہے فرحی نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی حسن نے اسے روکنے کے لیے بہت کچھ کہا لیکن فرحی نہ مانی وہ تو اس کے پیچھے پاگل ہوئی جا رہی تھی
میری زندگی تمہارے ساتھ ہے حسن فرحی نے کہا تھا میں پیچھے رہ گئی تو کسی جاگیردار یا کسی امیر وزیر کے ہاتھ چڑھ جاؤں گی امام عبدالملک کب تک میری حفاظت کریں گے تم جس سفر پر جا رہے ہو یہ بڑا خطرناک ہے معلوم نہیں زندہ لوٹ سکو گے یا نہیں میں تمہارے ساتھ جینا اور تمہارے ساتھ مرنا چاہتی ہوں اگر تم ساتھ نہیں لے چلو گے تو میں تمہارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گی اس شہر میں نہیں رہوں گی
حسن بن صباح اتنا مجبور ہو گیا کہ وہ فرحی کو روک نہ سکا حسن تو اپنے گھر والوں کو بتا کر گھر سے نکلا تھا اسے اس کے باپ نے خود ہی عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا لیکن فرحی گھر والوں کو بتائے بغیر نکلی تھی وہ اس وقت جاگ اٹھی تھی جب گھر والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے گھوڑا اس کے ایک بھائی کا تھا وہ اندھیرے میں ہی گھر سے نکل آئی تھی وہ جس قدر خوبصورت تھی اس سے کہیں زیادہ مضبوط حوصلے والی تھی حسن ابھی شہر سے تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ فرحی اس سے جا ملی
حسن کے ذہن میں خواب کی باریک سے باریک تفصیل بھی محفوظ تھی اور اس کے پاس کاغذ بھی تھا جس پر اس نے اشارے لکھے تھے اگر یہ کوئی سیدھا راستہ ہوتا تو وہ بہت ہی دور نکل گئے ہوتے لیکن یہ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا جنگل تھا کہیں بنجر علاقہ تھا اور پھر پتھریلا علاقہ شروع ہوگیا پہلے ایک ندی آئی جو اتنی گہری نہیں تھی ان کے گھوڑے اس میں سے گزر گئے لیکن آگے جو ندی آئی وہ خاصی گہری تھی اور پانی کا بہاؤ بھی خاصا تیز تھا حسن نے راستے والا کاغذ ایک ہاتھ میں لے کر ہاتھ اونچا کر لیا تھا کہ یہ بھیگ نا جائے اور انہوں نے گھوڑے ندی میں ڈال دیئے چونکہ بہاؤ تیز تھا اس لیے گھوڑے سیدھے جانے کی بجائے بہاؤ کے ساتھ بہتے گئے اور خاصی دور جا کر کنارے پر چڑھے
حسن نے ذہن پر زور دیا اور دیکھنے لگا کے وہ نشانیاں کہاں ہیں جو اسے خواب میں نظر آئی تھیں اس نے کاغذ سے بھی مدد لی اور آگے بڑھنے لگا آگے علاقہ چٹانی تھا اونچی نیچی چٹانیں بے آب و گیاہ تھیں ان میں بعض نوکیلی اور بعض اوپر سے چپٹی تھیں بعض کا رنگ سلیٹی اور بعض کوئلے کی طرح سیاہ تھیں حسن دو چٹانوں کے درمیان چلا گیا تھوڑی ہی دور جا کر یہ راستہ ایک طرف کو جاتا تھا وہ ادھر موڑا تو اسے بائیں کو مڑنا پڑا اس طرح اسے چٹانوں نے کبھی دائیں کبھی بائیں اتنا زیادہ موڑا کہ وہ بھول ہی گیا کہ اسے کس سمت جانا ہے اور وہ ان بھول بھلیوں میں کس طرف سے داخل ہوا تھا
اس نے سورج سے سمت معلوم کرلی لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا ایک ہی جگہ پر گھوم رہا ہے یا پیچھے کو جارہا ہے سورج اپنے روزمرہ سفر پر چلا جا رہا تھا اور افق سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا حسن پریشان ہو گیا اسے شام گہری ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنا تھا اس نے گھوڑے کی رفتار اور تیز کرلی
معلوم ہوتا ہے تم خواب والا راستہ بھول گئے ہو فرحی نے کہا میں خواب میں بھی اسی طرح ان بھول بھلیوں میں گھومتا رہا تھا حسن نے کہا راستہ مل جائے گا
ان چٹانی بھول بھلیوں میں گھومتے پھرتے اسے ایک ایسی چٹان نظر آئی جو اوپر سے آگے کو جھکی ہوئی تھی یہ قدرت کا ایک شاہکار تھا یہ بے غیر ستونوں کے برآمدے جیسی تھی وہاں پہنچ کر حسن نے گھوڑا روک لیا اور فرحی سے کہا کہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے
دونوں گھوڑوں سے اتر آئے اور برآمدے کی چھت جیسی چٹان کے نیچے بیٹھ گئے یہ کوئی غار تو نہیں تھا لیکن چٹان اندر سے ایک وسیع کھوہ جیسی ہو گئی تھی اس کا فرش زمین کی سطح سے ڈیڑھ گز نیچے تھا حسن تو بیٹھ گیا لیکن فرحی کھوہ میں دیکھنے لگی اس نے یہ بھی کہا کہ رات گزارنی پڑی تو یہی گزاریں گے اس کے ساتھ ہی اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی
حسن تیزی سے اٹھا اور فرحی تک پہنچا
نیچے دیکھوں حسن فرحی نے کہا
حسن نے نیچے دیکھا انسانی ہڈیوں کے دو پنجر پڑے تھے ان کے کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے ہڈیاں بالکل خشک ہو چکی تھیں ایک پنجر مرد کا تھا اور دوسرا عورت کا عورت کی نشانی بڑی صاف تھی اس کے لمبے لمبے بال کھوپڑی کے قریب ہی پڑے تھے دونوں اس پوزیشن میں نہیں تھے جس طرح لاش کو قبر میں سیدھا رکھا جاتا ہے
حسن کود کر نیچے چلا گیا اس نے مرد کی پسلیوں میں دیکھا وہاں ایک خنجر پڑا ہوا تھا جن دو پسلیوں کے درمیان یہ خنجر پھنسا ہوا تھا وہاں سے دونوں پسلیاں تھوڑی تھوڑی کٹی ہوئی تھیں ایک تلوار دونوں ڈھانچوں کے قریب پڑی تھی
معلوم نہیں یہ کون تھے فرحی نے کہا
کوئی ہم جیسے ہی ہونگے حسن نے کہا لیکن یہ کچھ اور معاملہ معلوم ہوتا ہے اس آدمی کو سینے میں خنجر مار کر مارا گیا تھا ہو سکتا ہے عورت کو اس تلوار سے مارا گیا ہو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری طرح ان بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہوں اور یہاں رات گزارنے کے لیے رک گئے ہوں میرا ہے کہ یہ بھوک اور پیاس سے مرے تھے ان کے پاس پانی نہیں تھا ہوتا تو یہاں مشکیزہ پڑا ہوتا
حسن فرحی نے کہا میں کبھی ڈری نہیں لیکن میں دل پر خوف کی گرفت محسوس کر رہی ہوں ہم یہاں نہیں رکیں گے پھر ہمیں یہاں سے جلدی چل پڑنا چاہیے حسن نے کہا دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اور دو چٹانوں کے درمیان چلنے لگے یہ تنگ سا راستہ انہیں ایسی جگہ لے گیا جہاں چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں اور ذرا کھلا میدان تھا تین اطراف چٹانیں تھیں چوتھی طرف کی چٹان کے درمیان تھوڑا سا راستہ تھا حسن اس طرف ہو لیا
دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو چلے جا رہے تھے جب دونوں اس تنگ سے راستے کے قریب گئے تو دونوں گھوڑے اپنے آپ ہی رک گئے پہلے وہ کچھ بے چینی سے ادھر ادھر ہونے لگے پھر دونوں گھوڑے کانپنے لگے انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگائی باگیں جھٹکیں لیکن گھوڑے کانپتے رہے اور آگے بڑھنے کی بجائے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے وہ دیکھو فرحی حسن نے کہا گھوڑے آگے نہیں بڑھیں گے…
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت
قسط نمبر:4 }
فرحی نے دیکھا ان سے دس بارہ قدم دور ویسا ہی ایک کالا ناگ پھن پھیلائے ہوئے تھا جیسا حسن نے قبرستان میں دیکھا تھا یہ گھوڑے کی نفسیات ہے کہ اس کی پیٹھ پر سوار موجود ہو اور وہ اپنے راستے میں سانپ دیکھ لے تو روک کر خوف سے کانپنے لگتا ہے اگر سوار نہ ہو تو گھوڑا سرپٹ بھاگ اٹھتا ہے
ناگ تیزی سے گھوڑے کی طرف آیا حسن نے دیکھا کہ اس کے پیچھے پیچھے ایسا ہی ایک ناگ اور ہے گھوڑوں نے جب ناگوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو فوراً پیچھے بھاگ اٹھے حسن اور فرحی نے گھوڑوں کو قابو میں رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن گھوڑے قابو میں نہیں آ رہے تھے حسن کا گھوڑا آگے تھا اور اپنے آپ ہی دائیں بائیں مڑتا جا رہا تھا حسن بار بار پیچھے دیکھتا تھا کہ فرحی کتنی دور ہے
گھوڑے دوڑتے ان بھول بھلیوں میں دائیں بائیں مڑتے رہے اور حسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا گھوڑا اس جگہ جا نکلا جہاں سے وہ ان بھول بھلیوں میں داخل ہوئے تھے وہ میدان تھا چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں
حسن نے بڑی مشکل سے گھوڑے کو قابو میں کیا اور اسے روک لیا اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ فرحی کے گھوڑے کو ڈھونڈ رہا تھا اسے فرحی کا گھوڑا تو نظر آگیا لیکن فرحی اس کی پیٹھ پر نہیں تھی حسن نے اس گھوڑے کی طرف اپنا گھوڑا دوڑا دیا اور اس کی لگام پکڑ لی اس نے فرحی کو آواز دی بہت پکارا لیکن فرحی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا حسن آہستہ آہستہ ان چٹانی بھول بھلیوں کی طرف چل پڑا ،وہ فرحی کو ڈھونڈنے جا رہا تھا
حسن بن صباح کے ہوش اڑ گئے تھے وہ دنیا کو اپنے عزائم اور اپنی منزل کو بھول گیا تھا وہ ایک بار پھر چٹانوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہو گیا اور بڑی ہی بلند آواز سے فرحی کو پکار رہا تھا لیکن چٹانوں سے گزرتی ہوئی تیز ہوا کی سرسراہٹ کے سوا اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا یہیں سے وہ باہر نکلا تھا مگر اب وہ وہیں سے اندر گیا تو اسے وہ جگہ ایسی اجنبی محسوس ہوئی جیسے پہلے کبھی دیکھی ہی نہ ہو ایک چٹان اس کے سامنے تھی اس کے پہلو سے دو راستے جاتے تھے اور ایک راستہ دائیں کو جاتا تھا حسن بن صباح کو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ان تینوں میں سے کون سے راستے سے باہر آیا تھا
سامنے والی چٹان کا یہ ادھر والا سرا تھا اور اس کی ڈھلان بڑی آسان تھی حسن بن صباح گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چٹان پر چڑھ گیا اس نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ لی تھی اوپر جا کے اس نے ہر طرف نظریں گھمائی دور دور تک اونچی نیچی چٹانوں کی چوٹیوں کے سوا کچھ اور نظر نہ آیا کچھ چٹانیں اوپر سے چپٹی تھیں اور کچھ ایسی بھی تھیں جو چٹانیں لگتی ہی نہیں تھیں وہ بہت ہی بڑے بڑے بتوں کی مانند تھیں کوئی بت انسانوں جیسا اور کوئی کسی جانور جیسا تھا ایک چٹان ایسی تھی جو مندر کی طرح اوپر چلی گئی تھی اس کی چوٹی پر ایک بہت بڑا گول پتھر یوں رکھا ہوا تھا جیسے کسی عورت نے سر پر گھڑا رکھا ہوا ہو
یہ سارا منظر اس دنیا کا خطہ لگتا ہی نہیں تھا یہ تو خواب کا منظر تھا یہ خطہ تین میل لمبا چوڑا ہو سکتا تھا اور چار میل بھی
فرحی حسن پھیپھڑوں کا سارا ہی زور لگا کر پکارنے لگا کہاں ہو فرحی فرحی کوئی جواب نہیں خاموشی
وہ دوڑتے گھوڑے سے گر کر بیہوش پڑی ہوگی اس نے اس طرح اونچی آواز میں کہا جیسے اپنے پاس کھڑے کسی آدمی کو بتا رہا ہو
اس کے پاس دو گھوڑوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا اسے فرحی تک جلدی پہنچنا تھا ہوسکتا تھا وہ گر کر مر گئی ہوئی یا مر رہی ہو اور یہ بھی نا ممکن نہ تھا کہ وہ گری تو اسے ناگ نے ڈس لیا ہو گا حسن بن صباح کو اپنے استاد عبدالملک ابن عطاش کا ایک سبق یاد آگیا کہ راستہ یاد نہ رہے ہمسفر کہیں کھو جائے یا کوئی چیز گم ہو جائے تو کیا عمل کیا جائے
وہ گھوڑے سے اترا اور نیچے دیکھا چٹان کی ایک سِل سلیٹ کی طرح ہموار تھی حسن اکڑوں بیٹھ گیا اور چھوٹا سا ایک پتھر اٹھا لیا ابن عطاش نے اسے مراقبے میں جانے کی بہت مشق کرائی تھی اس نے آنکھیں بند کیں اور دو تین بار لمبے سانس لیا پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور انگلیوں میں پکڑے ہوئے کنکری جیسے پتھر سل پر اوٹ پٹانگ سے خانے بنانے لگا ان خانوں کو اس نے غور سے دیکھا اور کسی خانے میں ایک حرف اور کسی میں ایک ہندسہ لکھا اس پر کچھ دیر نظریں جمائے رکھیں اور اٹھ کھڑا ہوا گھوڑے پر سوار ہو کر وہ چٹان سے اترا آیا اور اس چٹان کے ساتھ ساتھ آگے کو چل پڑا
سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی یہ راستہ کچھ آگے جا کر ایک طرف مڑ گیا تھوڑا آگے جا کر اس راستے کو ایک گول چٹان نے روک لیا تھا اور وہاں دو راہا بن گیا تھا حسن روک گیا اور دونوں راستوں کو دیکھا اس نے گھوڑا روک لیا آنکھیں بند کرکے اس نے کچھ سوچا دائیں طرف سے ہلکی سی آہٹ یا آواز سنائی دی اس نے آنکھیں کھولیں اور ادھر دیکھا کچھ دور ایک نیولہ کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا تھا حسن نیولے کو دیکھتا رہا نیولہ ایک طرف دوڑ پڑا حسن گھوڑا اس طرف لے گیا اور وہاں تک چلا گیا جہاں نیولہ کھڑا تھا اس طرف دیکھا جس طرف نیولہ گیا تھا
یہ دو چٹانوں کے درمیان بہت ہی تنگ راستہ تھا جو کچھ دور تک چلا گیا تھا لیکن سیدھا نہیں بلکہ ایک گول گول اور کچھ سختی سے چٹانوں سے گھومتا مڑتا جاتا تھا
حسن بن صباح جو فرحی کے لئے پریشان ہو رہا تھا اسے پکارتا بھی رہا تھا ابھی و اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اسے فرحی مل گئی ہو یا فرحی اس کے دل سے اتر گئی ہو حقیقت یہ تھی کہ اس نے چٹان پر بیٹھ کر سحر (کالے جادو) کا ایک عمل کیا تھا جس میں اسے واضح اشارہ ملا تھا کہ وہ پہنچ جائے گا لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا تھا کہ فرحی جس جگہ ہے وہاں تک راستہ کون سا جاتا ہے البتہ یہ پتہ چل گیا تھا کہ اسے اشارے ملتے رہیں گے جنہیں سمجھنے کے لیے وہ اپنی عقل استعمال کرے
تاریخ کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حسن بن صباح نے پراسرار علوم سیکھ لیے تھے
ابن خلدون تاریخ ابن خلدون حصہ پنجم میں لکھتا ہے علم نجوم و سحر میں حسن بن صباح کو ید طولیٰ حاصل تھا ابن تاثیر اور دیگر مؤرخوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح انتہا درجے کا عیار اور مکار تو تھا ہی اس نے علم سحر میں بھی خصوصی مہارت حاصل کر لی تھی
اس نے ان پراسرار علوم میں اس سفر کے بعد مہارت حاصل کی تھی اس سفر کے دوران اس کے پاس سحر کی اتنی ہی طاقت تھی جو اسے اپنے اتالیق ابن عطاش سے حاصل ہوئی تھی وہ ان علوم کی تکمیل کے لیے ہی جا رہا تھا
وہ جا تو رہا تھا لیکن ایسے چٹانی خطے میں پھنس کے رہ گیا تھا جسے وہ کبھی کبھی خواب سمجھتا تھا اس میں بھی شاید کوئی راز تھا کہ اسے بڑے دشوار گزار راستے پر ڈالا گیا تھا اسے اس راستے کا اشارہ خواب میں ملا تھا
داستان گو سنا رہا تھا کہ حسن بن صباح ایک تنگ راستے پر عجیب و غریب سی شکلوں کی چٹانوں کی دنیا میں جارہا تھا کہ پھر ایک مقام آ گیا جو دو راھا تھا حسن نے رک کر دونوں راستوں کو دیکھا دونوں راستے تھوڑی تھوڑی دور جا کر مڑ جاتے تھے حسن کبھی ادھر کبھی ادھر دیکھتا تھا اسے پوری امید تھی کہ غیب سے اسے کوئی اشارہ ملے گا لیکن کچھ بھی نہ ہوا سوائے اس کے کہ وہ جس گھوڑے پر سوار تھا وہ آہستہ سے ہنہنایا اور کھر مارنے لگا دوسرے گھوڑے نے بھی یہی حرکت کی اس انداز سے گھوڑے کا ہنہنانا اور گھوڑے کا کھر مارنا اس کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے
حسن نے قدرے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا کہ گھوڑوں نے پھر سانپ دیکھ لیا ہے لیکن اسے خیال آگیا کہ گھوڑا ڈر کا اظہار کسی اور انداز سے کرتا ہے
وہ گھوڑوں کا زمانہ تھا لوگ گھوڑوں کی نفسیات سمجھتے تھے
حسن سمجھ گیا کہ گھوڑے بھوکے ہیں شاید پیاسے بھی ہوں
گھوڑا اپنے آپ ہی ایک راستے پر چل پڑا حسن نے لگام کھینچ لیں لیکن گھوڑا رکنے کی بجائے اور تیز ہوگیا اس کی زین کے ساتھ بندھا ہوا گھوڑا اس سے آگے نکلنے کی کوشش کررہا تھا حسن نے کچھ سوچ کر گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی یہ اشاروں پر چلنے والا گھوڑا تھا اور حسن کو اس گھوڑے پر اعتماد تھا گھوڑا سر نیچے کر کے دوڑ پڑا وہ سر سی اور ہی طرح دائیں بائیں جھٹک رہا تھا
گھوڑا اگلا موڑ سوار کے اشارے کے بغیر ہی مڑ گیا حسن دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آگے چٹانوں میں گھری ہوئی کشادہ جگہ تھی جہاں ہری بھری گھاس تھی اور سر سبز درخت تھے یہ جگہ صحرا میں نخلستان جیسی تھی
گھوڑا اور تیز دوڑ اور وہاں تک پہنچ گیا وہاں سبزے میں گھرا ہوا ایک چشمہ تھا پانچ سات گز لمبائی چوڑائی میں بارش سے بھرے ہوئے آسمان جیسے شفاف اور نیلا پانی جمع تھا شفاف بھی اتنا کہ اس کی تہہ میں کنکریاں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کے فالتو پانی کہاں غائب ہو رہا تھا
گھوڑا بے صبری سے پانی پینے لگا حسن نے اتر کر دوسرے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین سے کھول لی اس نے بھی بے تابی سے چشمے سے منہ لگا لیا تب حسن کو خیال آیا کہ گھوڑے پیاسے تھے
جانور خصوصاً گھوڑے اور خچر پانی کی مشک دور سے پا لیتے ہیں گھوڑا بے لگام اور منہ زور ہو کر پانی تک پہنچ جاتا ہے حسن بن صباح نے گھوڑوں کو پانی پیتے دیکھا تو اسے بھی پیاس محسوس ہونے لگی چشمے کے کنارے گھٹنے ٹیک کر وہ پانی پر جھکا اور چلو بھر بھر کر پانی پینے لگا اس کا سر جھکا ہوا اور نظری پانی پر لگی ہوئی تھیں اس کے ہاتھ رک گئے اور اس نے ذہن پر زور دیا
اسے اپنا خواب یاد آ گیا جس میں اس نے اس سفر کا راستہ دیکھا تھا اسے یاد آیا کہ خواب میں اس نے چشمہ دیکھا تھا اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس چشمے سے روشنی سی پھوٹی تھی ذہن پر زور دینے کے باوجود اسے اس سے آگے یاد نہ آیا لیکن اسے اطمینان ہوگیا کہ وہ غلط راستے پر نہیں جا رہا
وہ ایک بار پھر چلو بھرنے کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالنے لگا تو اس کے ہاتھ ایک بار پھر رک گئے اور نظری پانی پر جم گئیں پانی کے سامنے والے کنارے کے نیچے پانی میں ایک آدمی کا عکس جھلملا رہا تھا پانی ساکن نہیں تھا چھوٹی چھوٹی لہریں اس کنارے سے اس کنارے تک جا رہی تھیں اس آدمی کا عکس ان لہروں پر تیر رہا تھا
حسن سُن ہو کے رہ گیا وہ بزدل نوجوان نہیں تھا اس کے پاس تلوار تھی اور ایک خنجر بھی تھا لیکن اسے اپنی ذات سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ یہ آدمی کوئی مسافر نہیں جو پیاس بجھانے صحرا کے اس چشمے پر آ گیا ہو
حسن نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اس سے بیس بائیس قدم دور ایک ٹیکری پر ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑا تھا لباس سے وہ اسی خطے کا آدمی معلوم ہوتا تھا اس کے سر پر اس خطے کی مخصوص بگڑی تھی اور پگڑی پر اتنا بڑا سیاہ رومال پڑا ہوا تھا جس نے اس کے کندھوں اور پیٹھ کے کچھ حصے کو بھی ڈھانپ رکھا تھا سلیقے سے تراشی ہوئی اس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی
حسن نظریں اس پر جمائے ہوئے آہستہ آہستہ اٹھا اس آدمی نے اسی طرح اس پر نظریں جما رکھی تھیں اس کے جسم پر ذرا سی بھی حرکت نہیں تھی یہ شک غلط معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ بت ہے
آخر اس آدمی میں حرکت ہوئی وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا اس کے عقب میں منظر یہ تھا کہ ایک چٹان دائیں سے بائیں گئی ہوئی تھی قدرت نے درمیان سے اس طرح کاٹ دیا تھا کہ ایک گلی بن گئی تھی جس میں سے ایک گھوڑا آسانی سے گزر سکتا تھا گلی کی طرف چٹان کے دونوں حصے دیواروں کی طرح عمودی تھے
وہ آدمی الٹے قدم چلتا اس گلی میں داخل ہوگیا حسن بن صباح نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور گلی میں داخل ہوگیا وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس پر کچھ اثر ہو گیا ہے اور وہ اب اس یاثیر کے قبضے میں ہے
وہ آدمی اس قدرتی گلی کے اگلے سرے پر کھڑا تھا اس کے پیچھے ایک اور چٹان تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں یہ گلی بند ہو گئی ہو اس آدمی نے اپنا بایاں بازو بائیں طرف لمبا کیا اور اس طرف غائب ہو گیا
حسن وہاں تک جا کر اسی طرف مڑ گیا جس طرف اس آدمی نے اشارہ کیا تھا وہ آدمی آگے جا کر ایک اور موڑ مڑ رہا تھا حسن اسی طرح اس کے پیچھے جاتا رہا جیسے اس کا پالتو جانور ہو یا جیسے اس شخص نے اسے ہپنا ٹائز کر لیا ہو وہ جگہ کشادہ تھی بے آب و گیاہ چٹانوں کی بجائے وہاں ہری بھری ٹیکریاں تھیں یہ ہریالی اس چشمے کی بدولت تھی جو قریب ہی تھا
حسن آگے جا کر ایک سرسبز ٹیکری سے مڑا تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا یہ منظر اس کے لیے غیر متوقع تھا اس کے سامنے ایک اونچی ٹیکری تھی جو دائیں بائیں گئی ہوئی تھی یہ سر سبز گھاس اور پھول دار جنگلی پودوں سے ڈھکی ہوئی تھی یوں لگتا تھا جیسے یہ انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی ہو لیکن اس کی چھت اور دیواریں بتا رہی تھیں کہ یہ قدرت کی تعمیر ہے اس کے اوپر سے خودرو بیلیں لٹک رہی تھیں
وہ آدمی جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا اس گُف کے باہر کھڑا تھا
حسن وہاں گیا تو اسے اندر کا منظر نظر آیا کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی خاصی لمبی چوڑی چٹائی بچھی ہوئی تھی سامنے ایک آدمی گاؤ تکیہ سے لگا بیٹھا تھا ،اس کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی اس کے سر پر خرگوش کی کھال کی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر کالے رنگ کا رومال تھا جو اس کے کندھوں سے بھی نیچے آیا ہوا تھا اس نے سبز رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا اس کی وجاہت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مذہبی پیشوا ہے یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا تھا
تین آدمی اس کے ایک طرف اور تین دوسری طرف آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ان سب کے سروں پر ایک مخصوص انداز کی پگڑیاں تھیں اور ان پر سیاہ رنگ کے رومال تھے جو ان کے کندھوں سے نیچے تک آئے ہوئے تھے
اس بزرگ نے جس کے چہرے پر جلال تھا اس آدمی کو ہاتھ سے اشارہ کیا جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا وہ آدمی اندر چلا گیا اس کشادہ گف میں ایک جوڑا ٹیلا سا تھا وہ آدمی اس کے پیچھے چلا گیا وہاں سے باہر آیا تو اس کے ساتھ فعحی تھی جو ذرا لنگڑا کر چل رہی تھی فرحی کو دیکھ کر حسن بن صباح کو یقین و اطمینان ہوا ہوگا کہ وہ زندہ ہے لیکن یہ سوال اسے پریشان کر رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور فرحی ان کے پاس کیسے آ گئی ہے؟
یہ لوگ ڈاکو اور رہزن تو نہیں لگتے تھے لیکن ڈاکو اور رہزنوں کے سروں پر سینگ تو نہیں ہوتے بزرگ کے اشارے پر فرحی کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا سورج اپنا روز کا سفر پورا کرکے افق کے پیچھے جا سویا تھا شام تاریک ہوگئی تھی گُف میں مشعلیں رکھ دی گئی تھیں عجیب عجیب سے سائے گُف کی دیواروں پر ناچ رہے تھے
داستان گو اس بزرگ کو درویش کہے تو زیادہ موزوں ہوگا
اے نوجوان درویش نے حسن بن صباح سے کہا کیا گھوڑے سے اتر کر ہمارے درمیان بیٹھنا تجھے گوارا نہیں؟
ہم سب تیرے انتظار میں بیٹھے ہیں
میں ابھی چہرے پڑھنے کے قابل نہیں ہوا حسن نے کہا میں دل کی نیت کو آنکھوں کے آئینے میں نہیں دیکھ سکتا اگر آپ کے دل میں بھی وہی جلال ہے جو آپ کے چہرے پر دیکھ رہا ہوں تو آپ میرے اس سوال کا جواب ضرور دیں گے کہ میری یہ ہمسفر آپ تک کس طرح پہنچی؟
گھوڑے سے اتر آئے نوجوان درویش نے کہا تجھے ہر سوال کا جواب ملے گا اور تو ہمارے سوالوں کے بھی جواب دے گا یہ لڑکی تیری ہم سفر ہے ہماری نہیں اس کے ساتھ بیٹھ اور اس کے ساتھ روانہ ہو
حسن گھوڑے سے اترا اور جوتے اتار کر چٹائی پر گیا درویش نے اپنا دایاں ہاتھ حسن کی طرف بڑھایا تو حسن نے دونوں ہاتھوں سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا اشارے پر وہ فرحی کے پاس بیٹھ گیا
فرحی نے اس کی طرف اور اس نے فرحی کی طرف دیکھا فرحی کے چہرے پر خوف کی ذرا سی بھی جھلک نہیں ملتی تھی وہ گھبرائی ہوئی بھی نہیں لگتی تھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی حسن کے چہرے پر تذبذب کا جو تاثر تھا وہ اڑ گیا اور اس کے چہرے پر رونق آگئی
تمہارا نام ؟
درویش نے پوچھا حسن بن صباح تیرے اس کٹھن سفر کی منزل کیا ہے؟
درویش نے پوچھا کہاں ہے منزل تیری؟
خوابوں کے سفر کی منزل بیان نہیں کی جاسکتی حسن نے کہا خوابوں کے سفر کی منزل ہوتی ہی نہیں
آئے نوجوان درویش نے کہا کیا تو نیند میں خواب دیکھا کرتا ہے یا بیداری میں؟
نیند میں خواب جو دیکھا کرتا ہوں انہیں بیداری میں حقیقت بنانے کی کوشش کیا کرتا ہوں حسن بن صباح نے کہا تو شاید نہیں جانتا اے نوجوان درویش نے کہا نیند کے خواب خواہشوں اور آرزوؤں کے چلتے پھرتے عکس ہوتے ہیں آنکھ کھلتے ہی بلبلوں کی طرح پھٹ جاتے ہیں اور بیداری کے خواب فرار کا ایک سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی
اے درویش حسن نے کہا میں خواہشوں اور آرزوؤں کا پجاری نہیں نہ میں نے کبھی اپنی روح کو خواہشوں اور آرزوؤں کی غذا دی ہے
پھر تو روح کو کیا غذا دیا کرتا ہے ؟
عزم حسن نے جواب دیا میں اپنی ہر آرزو کو عزم کے سانچے میں ڈھال لیا کرتا ہوں
اپنے سفر کی بھی کچھ بات کر آئے نوجوان درویش نے کہا یہ بھی ایک خواب ہے حسن نے کہا خواب میں جو دیکھا تھا وہ میرے سامنے آتا جا رہا ہے
ہمیں بھی دیکھا تھا کیا؟
درویش نے پوچھا ہم بھی تو تیرے سامنے آئے ہیں دیکھا تھا اے درویش حسن نے جواب دیا شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا تھا اس میں سے ایک عکس نکلا جس نے انسان کا روپ دھار لیا اس نے خاموشی کی زبان میں میری رہنمائی کی میں نے سات غزال دیکھے جو ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے
کہاں ہیں وہ غزال ؟
میرے سامنے بیٹھے ہیں حسن نے جواب دیا ساتواں کھڑا ہے
اس سے تو کیا سمجھا؟
یہ کہ میں سیدھے راستے پر جا رہا ہوں حسن نے جواب دیا حسن بن صباح نے دیکھا کہ صرف یہ درویش بولتا ہے اور باقی سب بالکل چپ بیٹھے ہیں درویش کے ہونٹوں پر تبسم ہے اور باقی سب کے چہرے بے تاثر ہیں درویش بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھتے ہیں اور حسن بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں
قابل احترام درویش حسن نے پوچھا کیا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں؟
ہمارا اس لڑکی پر کوئی حق نہیں آئے نوجوان درویش نے کہا اس لڑکی کا ہم پر کچھ حق تھا جو ہم نے ادا کردیا ہے
حسن کے چہرے پر حیرت کا تاثر آگیا وہ کبھی درویش اور کبھی فرحی کو دیکھتا تھا
ہم نے یہ پھول ان پتھروں سے اٹھایا ہے درویش نے کہا یہ تیری ہمسفر ہے اسے تیرے ساتھ ہی جانا ہے لیکن ہم یہ ضرور دیکھنا چاہیں گے کہ تو اس لڑکی کے قابل ہے یا نہیں حیران مت ہو لڑکے غصے کو بھی اپنے قابو میں رکھ ہم تجھے راز کی یہ بات بتاتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں تو کہا جا رہا ہے اتنے طویل اور کٹھن سفر میں اتنا حسین ہمسفر مل جائے تو مسافت آسان ہوجاتی ہے اور فاصلے سمٹ آتے ہیں لیکن راہ حیات کے جو مسافر عورت کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خوبصورت جسم ہے ان کی آسان مسافتیں بھی کٹھن ہو جایا کرتی ہیں ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ تو عورت کو کیا سمجھتا ہے
اس لڑکی کا آپ پر کیا حق تھا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
تو ہی اسے بتا دے اے لڑکی درویش نے فرحی سے کہا ہمارے گھوڑے ناگوں سے ڈر کر بھاگ اٹھے تھے ناں فرحی نے حسن سے کہا میرا گھوڑا بے قابو ہو کر ایک اور ہی طرف نکل گیا میں سنبھل نہ سکی اور گرپڑی گرنے تک یاد ہے ہوش میں آئی تو یہاں آ پڑی تھی انہوں نے میری دیکھ بھال ایسی کی کہ خوف سے نجات مل گئی صرف تمہارا غم تھا انہوں نے کہا تم آ جاؤ گے اور تم آگئے
کیا تم نے انہیں بتایا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں؟
حسن نے فرحی سے پوچھا؟
نہیں! فرحی نے جواب دیا یہ پوچھتے رہے میں کہتی رہی کہ میرا ہمسفر بتانا چاہے گا تو بتادے میں نہیں بتاؤنگی پھر انہوں نے کہا کہ یہ کہہ دو مجھے معلوم نہیں میں نے کہا مجھے معلوم ہے بتاؤنگی نہیں انہوں نے کہا ہم تمہیں بے آبرو کر کے مار ڈالیں گے میں نے کہا تب بھی نہیں بتاؤں گی انھوں نے کہا ہم تمہاری آبرو کے محافظ ہیں تمہیں گھر چھوڑ آئیں گے میں نے کہا پھر بھی نہیں بتاؤنگی اس بزرگ نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا “آفرین” ہم تمہاری پوجا کریں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ تیرے ہمسفر کو یہاں لانے کے لیے آدمی چلا گیا ہے
سن لیا اے نوجوان ؟
درویش نے حسن سے پوچھا اب ہم نے دیکھنا ہے کہ تو اس لڑکی کے جسم کو چاہتا ہے یا روح کو درویش نے اس آدمی کو جو حسن کو یہاں لایا تھا اشارہ کیا وہ آدمی گف کے اندر ہی کہیں غائب ہو گیا
وہ مشعلوں کی روشنی میں سامنے آیا تو اس کے ہاتھوں میں تین گڑیا تھی یہ مٹی کے بنے ہوئے تین عورتوں کے بت تھے خوبصورتی سے بنائے گئے تھے ہر بت تقریبا ڈیڑھ فٹ اونچا اور ہر بت برہنہ تھا
تینوں بت اور گولی اس کے آگے رکھ دو درویش نے کہا
اس کے حکم کی تعمیل ہوئی
کوئی ایک گڑیا اٹھا درویش نے حسن سے کہا اور اس کے دائیں کان میں گولی ڈال
یہ گولی بت کے منہ سے نکل کر زمین پر گر پڑی
اب دوسری گڑیا اٹھا لے درویش نے کہا اور گولی اس کے کان میں ڈال
حسن بن صباح یہ بت اٹھایا اور گولی بھی اٹھائی یہ گولی ایک گول کنکری تھی یہ کانچ کی ان گولیوں جتنی تھی جن سے آج کل بچے کھیلا کرتے ہیں حسن نے پتھر کی یہ گولی بت کے کان میں ڈال دی کان میں ایک سوراخ تھا گولی اس کان میں گئی اور دوسرے کان سے باہر آ گئی
اب ایک اور گڑیا اٹھا درویش نے کہا اور یہ گولی اس کے دائیں کان میں ڈال
حسن نے دوسرا بت الگ رکھ کر تیسرا بت اٹھ آیا گولی اٹھا کر اس کے کان میں ڈالی یہ گولی اندر ہی کہیں غائب ہو گئی زور زور سے ہلا اسے درویش نے کہا گولی کو باہر آنا چاہیے حسن نے بت کو بہت ہلایا جھنجھوڑا الٹا کیا دائیں اور بائیں پہلو پر کرکے ہلایا مگر گولی باہرنہ آئ
یہ گڑیا بیکار ہے درویش نے کہا اسے الگ رکھ دے اس بدبخت نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے
حسن نے یہ بت رکھ دیا
کیا یہ بت خوبصورت نہیں؟
درویش نے پوچھا کیا یہ تجھے اچھے نہیں لگتے؟
خوبصورت ہیں حسن نے جواب دیا دل کو اچھے لگتے ہیں بنانے والے نے عورت کی رعنائیاں ان بتوں میں سمو دی ہیں ان میں صرف جان ڈالنی باقی رہ گئی ھے
ہم تجھے انعام دینا چاہتے ہیں درویش نے کہا کوئی ایک گڑیا اٹھا لے تینوں ایک جیسی ہیں
حسن بن صباح نے سب سے آخری والا بت اٹھا لیا جس کے کان میں گولی ڈالی تو کسی طرف سے گولی باہر نہیں آئی تھی درویش نے اسے بیکار کہہ کر نہ پسندیدگی کا اظہار کیا تھا
تو نے عقل سے کام نہیں لیا ہے نوجوان درویش نے کہا یا تو نے سنا نہیں کہ میں نے اس گڑیا کے متعلق کہا تھا کہ اس نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے اسے پھینک دو محترم درویش حسن نے کہا میں عقل اور توجہ سے کام نہ لیتا تو آپ کی اس گڑیا کو ہاتھ بھی نہ لگاتا دوسری دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیتا لیکن میری عقل نے مجھے بتایا کہ یہ گڑیا اٹھا لے تیری عقل نے اس میں کیا خوبی دیکھی ہے؟
درویش نے پوچھا
ایک کے کان میں گولی ڈالی تو وہ اس کے دوسرے کان سے نکل گئی حسن نے کہا
اے درویش عالی مقام آپ یقیناً ایسی بیٹی کو پسند نہیں کریں گے جو اپنے باپ کی پند و نصیحت ایک کان سے سنے اور دوسرے کان سے نکال دے ایسی بہن بھی بری ایسی بیوی بھی بری
دوسری کے کان میں گولی ڈالی تو اس نے منہ کے راستے نکال دی ایسی عورت تو اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے وہ گھر کا کوئی راز اپنے دل میں رہ نہیں سکتی بات سنی اور ہر کسی کے آگے اگلنا شروع کر دی ایسی عورت اپنے گھر کا اور اپنے ملک کا بھی بیڑا غرق کرا دیا کرتی ہے
اور جسے آپ نے بیکار کہا ہے یہ بڑی قیمتی عورت ہے جو راز کی بات اپنے دل میں دفن کر دیا کرتی ہے میں نے اس بت کو یا گڑیا کو بہت ہلایا الٹا کیا ہر پہلو پر کر کے زور زور سے جھنجھوڑا لیکن اس نے گولی نہیں اگلی اسے آپ توڑ پھوڑ کر اس کا وجود ختم کر دیں تو ہی آپ اس کے اندر سے گولی نکال سکتے ہیں
یہ وہ خوبی ہے جو آپ نے فرحی میں دیکھی ہے آپ آٹھ ہیں اور یہ اکیلی کیا آٹھ آدمیوں سے ڈر کر اس نے آپ کو بتا دیا تھا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟
میں اسے اپنی عمر کی ہمسفر بناؤنگا
“آفرین” اے نوجوان درویش نے کہا خدا نے تجھے وہ دانش اسی عمر میں دے دی ہے جو اوروں کو عمر بھر کا تجربہ حاصل کرکے بڑھاپے میں بھی نہیں ملتی تو پیدائشی دانشمند ہے
درویش نے اپنے آدمی سے کہا تینوں گڑیوں کو اٹھا کر سنبھال لو ان کے امتحان میں شاید ہی کبھی کوئی کامیاب ہوا ہو
ایک آدمی نے تینوں بت اٹھائے اور مشعلوں کی روشنی سے نکل گیا
کھانا گرم کرو درویش نے حکم کے لہجے میں کہا دسترخوان لگ جائے فوراً یہ دونوں بھوکے ہیں
اس ویرانے میں اتنا پرتکلف کھانا حسن بن صباح کے لیے حیران کن تھا حسن اور فرحی اس قدر بھوکے تھے کہ بے صبری سے کھانا نگلتے چلے گئے
کھانے کے بعد درویش نے حسن بن صباح کو اپنے پاس بٹھا لیا باقی سب وہاں سے چلے گئے
حسن اور فرحی کے سونے کا الگ انتظام کردیا گیا فرحی جا کر سو گئی تھی
حسن درویش نے کہا تیرا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا؟
لیکن تونے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا
میرے آباء و اجداد میں صباح حمیری ایک شخص ہو گزرا ہے حسن نے کہا میرا باپ کچھ کم استاد نہیں لیکن صباح کے متعلق سنا ہے کہ اس نے بہت ہی شہرت اور عزت پائی تھی اور اس کا کمال یہ تھا کہ کسی کو شک تک نہ ہونے دیا کہ وہ عیاروں کا عیار اور فریب کاروں کا استاد ہے بس یہ وجہ ہوئی کہ میں نے بن علی کی بجائے بن صباح حمیری کہلانا زیادہ پسند کیا لیکن آپ کو میرا نام کس نے بتایا ہے؟
صرف نام ہی نہیں حسن درویش نے جواب دیا تمہارے متعلق مجھے بہت کچھ بتایا گیا ہے تم جس جگہ سے آرہے ہو اور جس جگہ جا رہے ہو میں ان کے درمیان ایک رابطہ ہوں ایک رشتہ ہوں پُل سمجھ لو اور روک جائیں حسن اچانک بول پڑا مجھے یاد آگیا میرے استاد عبدالملک ابن عطاش نے مجھے بتایا تھا کہ خواب میں مجھے ایک غار نظر آئے گا اور اس غار میں میرا علم مکمل ہو جائے گا میں آپ کی ذات میں ایسا گم ہو گیا تھا کی یاد ہی نہ رہا کہ میں نے خواب میں ایک غار دیکھا تھا اس غار پر دھند چھائی ہوئی تھی اتنا ہی پتہ چلتا تھا کہ اس دھند میں کچھ ہے میں نے پہلے دن غزالوں کا ذکر کیا ہے کہ خواب میں دیکھے تھے وہ اسی دھند میں غائب ہو گئے تھے محترم درویش کہ یہ میرا خواب والا غار تو نہیں؟
ہاں حسن درویش نے کہا غار وہی ہے لیکن تیرا علم یہاں مکمل نہیں ہو گا یہاں سے تجھے روشنی ملے گی جس میں تجھے اپنی منزل اپنا مستقبل اور اپنی شخصیت بہت ہی بڑی نظر آئے گی اب تو یہ پوچھے گا کہ میں کون ہوں اور میں یہاں کیا کررہا ہوں ؟
یہ تو میں نے پوچھنا ہی ہے حسن نے کہا
اس سے پہلے کچھ ضروری باتیں سن لے حسن درویش نے کہا مجھے معلوم تھا تو آئے گا یہ ہمارا ایک زمین دوز نظام ہے اس نظام کو ہم زمین کے اوپر لانے کی کوشش کر رہے ہیں یہاں سے وہ علاقہ شروع ہوتا ہے جس پر ہم نے قبضہ کرنا ہے آگے بہت سے قلعے ہیں جن میں کچھ چھوٹے اور بعض بہت ہی چھوٹے اور چند ایک ذرا بڑے ہیں ان میں کئی ایک ایسے ہیں جو چند ایک امرء کی ذاتی ملکیت بنے ہوئے ہیں ہم نے ان پر قبضہ کرنا ہے
قلعہ فتح کرنے کے لیے تو فوج کی ضرورت ہوتی ہے؟
حسن نے کہا ہم فوج کہاں سے لائیں گے؟
لوگوں کی فوج بنائیں گے درویش نے کہا
لیکن کس طرح ؟
حسن نے پوچھا درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
یہ ہے وہ سبق جو میں نے تجھے دینا ہے درویش نے کہا تو نے عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی بھی کر لی ہے اب تو ایک اور شخص کی شاگردگی کرے گا وہ ہے احمد بن عطاش آگے ایک قلعہ ہے جس کا نام قلعہ اصفہان ہے احمد بن عطاش اس قلعے کا والی ہے وہ تجھے علم سحر کا ماہر بنا دے گا
اب میں جو بات کہنے لگا ہوں اس کا ایک ایک لفظ غور سے سننا اور ہر لفظ کو سینے میں محفوظ رکھتے جانا بنی نوع انسان دو طاقتوں کے غلبے میں ہے یوں کہ لو کے دنیا پر دو طاقتوں کی حکومت ہے ایک ہے خدا اور دوسرا ہے ابلیس انسان خدا کو کئی روپ دے کر اس کی عبادت کرتا ہے انسان نے سورج کو خدا بنایا آگ کو سانپ کو اور آسمانی بجلی کو بھی انسان نے خدا بنایا آخر اسلام نے آکر انسان کو بتایا کہ خدا کیا ہے یہ بھی بتایا کہ یہ سورج چاند آسمانی بجلیاں آگ سانپ وغیرہ خدا نہیں بلکہ یہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں اس خدا کی وحدانیت کو لوگوں نے مان لیا
ہم بھی خدا کو ماننے والے مسلمان ہیں لیکن ہم نے اپنا الگ فرقہ بنا لیا ہے اور ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحیح اسلام ہمارے پاس ہے لیکن اہل سنت نے لوگوں کے دلوں پر اپنے عقائد ایسے طریقے سے نقش کر دیے ہیں کہ اب ہم ان کے عقائد کو نہیں بدل سکتے ہمیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا
کیا آپ نے کوئی طریقہ سوچا ہے؟
حسن نے پوچھا
ہاں درویش نے کہا یہی بتانے لگا ہوں لیکن یہ طریقہ ایسا نہیں کہ پتھر اٹھاؤ اور کسی کے سر پر مارو یہاں معاملہ نظریات کا ہے اور اس معاملے کو صرف تم سمجھ سکتے ہو
صرف میں کیوں؟
حسن نے کہا میرا علم ابھی خام ہے اور تجربہ کچھ نہیں
تمہارے پاس سب کچھ ہے درویش نے کہا پہلے وہ سن لو جو ہم نے سوچا ہے پھر تم خود محسوس کرو گے کہ یہ تو پہلے ہی تمہارے دل میں تھا بات یہ ہے حسن اہلسنت نے لوگوں کا رشتہ خدا کے ساتھ براہ راست قائم کر دیا ہے عسائیت نے بھی خدا کو ھی اول اور آخر قرار دیا ہے اور وہ عیسی کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں یہودی ہیں آتش پرست ہیں یہ بھی خدا کو مانتے ہیں ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ حکومت اہلسنت کی ہے
شاید آپ کو معلوم ہو گا حسن نے کہا کہ ہمارا امیر ابو مسلم رازی اس قدر کٹر سنی ہے کہ اس نے میرے باپ سے کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اہلسنت ظاہر کرتے ہو تو اپنے بیٹے کو ایک اسماعیلی پیشوا عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی میں کیوں بٹھا رکھا ہے؟
میرے باپ نے ابو مسلم رازی کے عتاب سے بچنے کے لئے مجھے امام مؤافق کے مدرسے میں بھیج دیا تھا مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابومسلم نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں جو گھر گھر کی خبر رکھتے ہیں کہ کہیں سنی عقیدہ کے خلاف کوئی بات تو نہیں ہو رہی
ہاں حسن! درویش نے کہا ابومسلم رازی نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں اسے معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے جاسوسوں کے پیچھے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں ہم جانتے ہیں کہ سلجوقی سلاطین کی حکومت ہماری دشمن ہے لیکن ہم ان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں گے ہمیں مصریوں پر بھروسہ ہے وہ عبیدی ہیں اور ہمارے ہم عقیدہ بھی ہیں
محترم درویش! حسن نے کہا معلوم نہیں کیوں مجھے خیال آتا ہے کہ میں مصر جاؤ اور وہاں سے سلجوقیوں کے خلاف طاقت حاصل کروں
درویش عجیب سی طرح ہنسا اور کچھ دیر حسن بن صباح کے منہ کو دیکھتا رہا
کیوں محترم درویش ؟
حسن نے ذرا کھسیانا سا ہو کر پوچھا کیا میں نے غلط بات کہہ دی ہے
نہیں حسن درویش نے کہا میں تمہاری اس بات سے خوش اور مطمئن ہوا ہوں کہ تمھیں مصر کا خیال آیا ہے میں خوش اس لئے ہوں کہ یہ خیال ویسے ہی نہیں آیا بلکہ تم میں ایک پراسرار طاقت ہے جو تمہیں اشارہ دیتی ہے میں پورے وثوق کے ساتھ پیشن گوئی کرتا ہوں کہ تم میں نبوت کے نمایاں آثار پائے جاتے ہیں تم نبی بنو یا نہ بنو تمہیں اتنی ہی شہرت ملے گی جو صرف نبیوں کو ملا کرتی ہے آنے والی نسلیں اور انکی نسلیں ہمیشہ تمہارا نام لیتی رہیں گی لیکن ضروری نہیں کہ تمہیں اچھے نام سے ہی یاد کیا جائے گا لوگ تمہیں یاد ضرور رکھیں گے
پہلے درویش کی ہنسی نکلی تھی اب حسن ہنس پڑا آپ کو میری بات سے خوشی حاصل ہوئی تھی حسن نے کہا اور مجھے آپ کی بات سے خوشی حاصل ہوئی ہے معلوم نہیں کیوں مجھے برائی سے مسرت حاصل ہوتی ہے
میں تمہیں اسی بات پر لا رہا تھا درویش نے کہا میں خدا کا جو ذکر کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ ایک قوت خدا کی ہے اور دوسری ابلیس کی خدا کا نام لے کر لوگوں کو ان کے عقیدوں سے ہٹانا کوئی آسان کام نہیں اس کام کو ہم اس طرح آسان کریں گے کہ ہم دوسری قوت کو استعمال کریں گے یعنی ابلیس کی قوت
بدی میں بڑی طاقت ہے حسن بدی میں کشش ہے بدی میں لذت ہے اور بدی میں نشہ ہے یہ قوت تمہارے دل و دماغ میں موجود ہے ہم لوگوں پر بدی کا نشہ طاری کریں گے تمہارے ساتھ یہ جو لڑکی ہے یہ تمہارا کام آسان کرے گی اس کے ساتھ ہی ہم علم سحر کو کام میں لائیں گے یہ علم سحر کا ہی کرشمہ ہے کہ تم مجھ تک پہنچے ہو اب ہم نے تمہارے اس علم کی تکمیل کرنی ہے
انسان میں خدا نے یہ کمزوری شروع سے ہی رکھ دی تھی کہ وہ بدی کی طرف جلدی آ جاتا ہے وہ ابلیس ہی تھا جس نے انسان کو بہکا کر جنت سے نکالا تھا ہم لوگوں کو دنیا میں ہی جنت دیں گے اور یہ تم دو گے
محترم درویش حسن نے کہا میرا خیال ہے کہ مزید باتوں کی ضرورت نہیں آپ جو کچھ بھی کہے جارہے ہیں یہ پہلے ہی میرے ذہن میں موجود ہے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ مجھے میری اس منزل تک پہنچا دیں جہاں سے میں اپنا محاذ کھول سکوں
کل صبح تم یہاں سے روانہ ہو جاؤ گے درویش نے کہا اس لڑکی کو بھی تعلیم و تربیت دی جائے گی
حسن بن صباح کا اس درویش کے پاس اس انداز سے پہنچنا جس انداز سے اسے پہنچایا گیا پراسرار افسانہ لگتا ہے لیکن فرقہ باطنیہ اسی طرح زمین دوز اور پراسرار طریقوں سے پھلا پھولا تھا سلجوقی سلاطین اہلسنت والجماعت تھے اس لیے وہ کسی اور فرقے کا وجود برداشت نہیں کرتے تھے تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جاسوسوں اور مخبروں کے ذریعے اپنی سلطنت کے ہر گوشے میں نظر رکھی ہوئی تھی یہی وجہ تھی کہ فرقہ باطنیہ زمین دوز ہو گیا اور اس کے پیشواؤں نے اپنی کاروائیوں کو اتنا خفیہ کردیا کہ جاسوسوں اور مخبروں کو بھی ان کی کارروائیوں کا علم نہیں ہوتا تھا
حسن بن صباح کا استاد عبدالملک ابن عطاش کوئی معمولی شخصیت نہیں تھا وہ فرقہ باطنیہ کا صف اول کا پیشوا تھا بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک قلعے کا مالک بھی تھا
اگلی صبح سورج ابھی افق سے نہیں ابھرا تھا جب چار گھوڑے ان چٹانی بھول بھلیوں سے نکلے ان کا رخ خراسان کی طرف تھا ایک گھوڑے پر حسن بن صباح سوار تھا دوسرے پر فرحی تیسرے پر درویش اور چوتھے پر درویش کا ایک آدمی سوار تھا
جب سورج افق سے اٹھ آیا اس وقت یہ چاروں گھوڑے ایک سرسبز پہاڑی کی ڈھلان پر چڑھتے جارہے تھے یہ باقاعدہ راستہ تھا جس پر بیل گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں بھی چلا کرتی تھیں درویش نے گھوڑا روک لیا باقی تین گھوڑے بھی رک گئے درویش میں اپنے گھوڑے کا منہ اس طرف پھیر دیا جس طرف سے وہ آئے تھے
پیچھے دیکھو حسن درویش نے کہا اور تم بھی فرحی
حسن اور فرحی نے پیچھے دیکھا ان کے چہروں کے تاثر بدل گئے اس بلندی سے انہیں دور دور تک پھیلا ہوا جو منظر نظر آرہا تھا وہ کچھ عجیب سا تھا جس پہاڑی کی بلندی پر وہ کھڑے تھے وہ بڑی خوبصورت گھاس پھول اور پودوں اور خوشنما درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی پہاڑی کے دامن میں کچھ دور تک روح افزا سبزہ زار تھا دور ایک ندی ابھرتے سورج کی کرنوں میں چمک رہی تھی
اس سحر انگیز خطے میں میلوں رقبے میں پھیلا ہوا ایک بے آب و گیاہ چٹانی سلسلہ تھا جو گولائی میں تھا چٹانے نوکیلی بھی تھیں بعض کی چوٹیاں مخروطی تھیں کچھ بہت بڑے بڑے انسانی بوتوں جیسی تھیں اور زیادہ تر اس طرح گول تھی جیسے قدرت کے ہاتھوں نے انہیں بڑی محنت سے بنایا ہو ان کے وسط میں کچھ جگہ ہری بھری نظر آرہی تھی جہاں چند ایک درخت بھی کھڑے تھے یہ وہ جگہ تھی جہاں درویش کا ڈیرہ تھا ان چٹانوں کا رنگ سلیٹی بھی تھا اور سیاہ بھی اور یہ خطہ ڈراؤنا سا لگتا تھا
دیکھ رہے ہو حسن درویش نے کہا تم بھی دیکھو فرحی میں یہاں سے آگے نہیں جاؤں گا یہاں تک تمہارے ساتھ اس لئے آیا ہوں کہ ایک آخری بات کرنی تھی جو یہاں آکر ہی کہی جاسکتی تھی زندگی ہری بھری گھاس اور پھولوں کی سیج ہی نہیں اس میں ایسی ایسی دشواریاں بھی ہیں کہ انسان ہمت ہارنے کے مقام پر پہنچ جاتا ہے کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان دشواریوں میں سے گزر جاتے ہیں
تمہارا استاد عبدالملک ابن عطاش تمہیں سیدھے راستے پر بھی ڈال سکتا تھا لیکن اس نے تمہیں اپنے علم سحر کے ذریعے ایسا خواب دکھایا جس میں تم کو یہ راستہ نظر آیا تم ان چٹانوں کے اندر آگئے تمہیں راستہ نہیں مل رہا تھا دو ناگوں نے تمہیں بھگا کر پھر وہی پہنچا دیا جہاں سے تم اس سلسلہ کوہ میں داخل ہوئے تھے انسان کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ نجات کا راستہ کون سا ھے وہ حالات اور کئی طرح کی دشواریوں میں اس طرح بھٹک جاتا ہے جیسے بھول بھلیوں میں آ گیا ہو ان چٹانوں کے اندر زندگی کا ایک سبق ہے دیکھو قدرت نے کیسی خوفناک جگہ کے اندر کتنا شفاف چشمہ بنا رکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی کتنی اچھی پناہ گاہ ہے ایسے چشموں تک وہی پہنچ سکتے ہیں جو ان چٹانوں سے ڈرتے نہیں بھٹک بھٹک کر راستہ تلاش کر لیتے ہیں اور میٹھے چشمے تک پہنچ جاتے ہیں ہم یہاں موجود تھے ہمیں معلوم تھا کہ تم آرہے ہو، ہمارے آدمی تمہیں دیکھ رہے تھے ہمیں پہلے بتا دیا گیا تھا کہ تم آرہے ہو یہ تو تم جان ہی چکے ہو کہ اس لڑکی کو ہمارے آدمی اٹھا کر لے آئے تھے ہمارا کوئی آدمی ان بھول بھلیوں میں بھٹک نہیں سکتا میں اس وقت تم سے بہت چھوٹا تھا جب میرا استاد مجھے یہاں لایا تھا ،وہ باہر بیٹھ گیا تھا اس نے میری کلائی کے ساتھ ایک دھاگا باندھ دیا تھا یہ بڑا ہی لمبا دھاگا تھا جو گولے کی شکل میں استاد نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ میں باہر بیٹھوں گا تم اندر چلے جاؤ اندر ایک چشمہ ہے ایک کوزہ اس چشمے کے پانی کا بھر کر لاؤ
استاد نے مجھے بتایا کہ یہ دھاگا راستے میں چھوڑ تے جانا اور میں باہر بیٹھا گولے سے دھاگا ڈھیلا کرتا جاؤں گا اگر تم تھک ہار گئے اور چشمے کو نہ پا سکے تو اس دھاگے کو دیکھ دیکھ کر واپس آ جانا خیال رکھنا کہ دھاگہ ٹوٹ نہ جائے ورنہ اندر جا کر باہر نہیں نکل سکو گے میں اندر چلا گیا استاد دھاگا ڈھیلا چھوڑتا گیا یہ ذرا لمبی بات ہے کہ میں چشمے تک کس طرح پہنچا میں اتنا زیادہ بھٹکا تھا کہ ٹانگیں اکڑ گئیں اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور چلتا گیا
پھر میرے ہوش و حواس اندھیرے میں ہی گم ہو گئے معلوم نہیں میں کتنی دیر بعد ہوش میں آیا میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میں چشمے کے کنارے پڑا ہوا تھا میں اچھل کر اٹھا مٹی کا کوزہ جو میرے ہاتھ میں تھا وہ ٹوٹا پڑا تھا ،میں بے ہوش ہوکر گرا تو کوزہ پتھر پر گر کر ٹوٹ گیا تھا
اپنے استاد کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ میں چشمے تک پہنچ گیا تھا میں کپڑوں سمیت چشمے میں اتر گیا اور باہر آ کر چل پڑا میری رہنمائی کے لئے دھاگا موجود تھا جو میں راستے میں پھینکتا آیا تھا سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ میں باہر اپنے استاد کے سامنے کھڑا تھا میں نے اسے بتایا کہ کوزہ ٹوٹ گیا ہے اور میں چشمے میں اتر کر اپنے کپڑے بھیگو لایا ہوں
میں تمہیں وہ سبق دینا چاہتا ہوں جو استاد نے مجھے دیا تھا اس نے کہا تھا کہ زندگی کے چشمے خود چل کر کسی کے پاس نہیں آ جایا کرتے انسان کو چل کر ان کے پاس جانا پڑتا ہے اور پھر زندگی کے چشمے ان کا استقبال کیا کرتے ہیں جو ان کی تلاش میں سنگلاخ وادیوں سوکھی سڑی چٹانوں کی بھول بھلیوں میں اور پرخار راستوں پر چلتے ہی جاتے ہیں اور پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتے
اور استاد نے کہا تھا کہ یہ دھاگا جو میں نے تمہاری کلائی سے باندھا تھا اسے صرف ایک دھاگا ہی نہ سمجھنا یہ دھاگہ انسانی رشتوں کی علامت ہے انسانی رشتے ٹوٹنے نہیں چاہیے تم اکیلے کچھ بھی نہیں تم تنہا رہ گئے تو سمجھو تمھاری ذات ہی ختم ہو گئی ہمیشہ یاد رکھنا کے رشتوں کا یہ دھاگا نہ ٹوٹنے دینا ذرا سوچو اگر یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو میرا اور تمہارا رشتہ ٹوٹ جاتا اور تم ان بھول بھلیوں سے نکل نہ سکتے تو یہ ہے وہ آخری سبق جو میں نے تم تک پہنچانا تھا حسن ثابت قدم رہنا تم نے فوج کے بغیر قلعہ سر کرنے ہیں، انسانی فطرت کی کمزوریوں کو اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے انسانوں پر نشہ طاری کر دو نشہ دولت کا بھی ہوتا ہے عورت بھی آدمی کے لیے نشہ بن جایا کرتی ہے نشوں کی کمی نہیں حسن ابلیسی اوصاف میں بڑی طاقت ہے، میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز اپنا فرض اور خدا کی عبادت سمجھ کر پڑھتے ہیں عام لوگ نماز صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ اگلے جہان جنت میں جائیں گے جہاں حوریں اور شراب ملے گی اور سوائے عیش و عشرت کے کوئی کام نہیں ہوگا
میں ان لوگوں کو دنیا میں جنت دکھا دوں گا حسن نے پرعزم لہجے میں کہا زندہ باد حسن بن صباح درویش نے کہا اب جاؤ میں یہاں سے واپس جا رہا ہوں الوداع…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……
www.urducover.com