حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ دوئم

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ دوئم

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

قسط نمبر:5 }
دو دنوں کی مسافت کے بعد حسن بن صباح فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ ایران کے جس قلعے میں داخل ہوا وہ قلعہ اصفہان تھا عام طور پر اسے قلعہ شاہ در کہا جاتا تھا یہ سلجوقی سلطان ملک شاہ نے تعمیر کروایا اور ذاکر نام کے ایک سرکردہ فرد کو امیر قلعہ یا والی قلعہ مقرر کیا تھا
ذاکر سلجوقیوں کی طرح پکا مسلمان اور اسلام کا شیدائی تھا یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے اندر شہر آباد ہوتا اندر آبادی تو تھی لیکن چند ایک معزز اور اچھی حیثیت اور سرکاری رتبہ اور عہدوں والے لوگ انتظامیہ کے اور لوگوں کے ذاتی ملازم رہتے تھے آبادی قلعے سے باہر اور ذرا دور دور تھی اس آبادی میں فرقہ باطنیہ کے لوگ بھی تھے لیکن وہ اپنی اصلیت ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے
ذاکر کی عمر کم و بیش پچاس سال تھی اور اس کی دو بیویاں تھیں دونوں کی عمریں چالیس سال سے اوپر ہو گئی تھی ذاکر کوئی عیاش آدمی تو نہ تھا پابند صوم و صلات تھا لیکن انسانی فطرت کی کمزوریاں تو ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں ایک روز وہ ہرن کے شکار کو گیا وہ ہرا بھرا سر سبز علاقہ تھا پیڑ پودوں نے جنت کا منظر بنا رکھا تھا شفاف پانی کی دو ندیوں نے کچھ اور ہی بہار بنا رکھی تھی
ذاکر گھوڑے پر سوار ایک ندی کے کنارے کنارے جا رہا تھا اس کے ساتھ چار محافظ اور دو مصاحب تھے ذاکر ان کے آگے آگے جا رہا تھا ندی کا موڑ تھا درخت تو بہت تھے لیکن دو درخت اس کے قریب تھے ایک خودرو بیل دونوں کے تنوں سے اس طرح لپٹی اور پھیلی ہوئی تھی کہ چھت سی بن گئی تھی اور اس کی شکل مٹی کے ٹیلے میں گف جیسی بنی ہوئی تھی نیچے خشنما گھاس تھی
ذاکر نے وہاں جاکر گھوڑا روک لیا پہلے تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر آیا پھر ہونٹوں پر تبسم آیا
پھولدار بیل کی چھت کے نیچے ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جس کی عمر سترہ سال سے ذرا کم یا ذرا ہی زیادہ تھی اس کی گود میں ہرن کا بچہ تھا لڑکی کی آنکھیں ہرن کے بچے جیسی نشیلی سیاہ اور موہنی تھی اور اس کا حسین چہرہ بیل کے پھولوں کی طرح کھلا ہوا تھا اس کے ریشمی بالوں میں سے دوچار بال اس کے سرخی مائل سفید چہرے پر آئے ہوئے تھے
یہ بچّہ کہاں سے لائی ہو لڑکی ذاکر نے پوچھا ؟
جنگل میں اکیلا بھٹکتا پھر رہا تھا لڑکی نے جواب دیا بہت دن ہو گئے ہیں ماں کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا
کھڑی ہو کر بات کر لڑکی ایک محافظ نے لڑکی کو ڈانٹ کر کہا امیر قلعہ کے احترام میں کھڑی ہو جا
ذاکر نے اس محافظ کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا
تم سب آگے چلو ذاک نے محافظوں اور مصاحبوں کو حکم دیا پل پر میرا انتظار کرو
لڑکی کے چہرے پر خوف کا تاثر آ گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگی ذاکر گھوڑے سے اتر آیا اور لڑکی کے قریب جا کر ہرن کے بچے کی طرف ہاتھ بڑھائے لڑکی نے ہرن کا بچہ پیچھے کر لیا اس کے ہونٹوں پر جو لطیف سا تبسم تھا وہ غائب ہو گیا اور خوف کی جھلک اس کی غزالی آنکھوں میں بھی ظاہر ہونے لگا ذاکر نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلئے
ڈر کیوں گئی لڑکی ذاکر نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اس بدبخت نے تمہیں ڈرا دیا ہے میرے دل کو تم اور ہرن کا یہ بچہ ایسا اچھا لگا کہ میں رک گیا میں امیر قلعہ ضرور ہوں لیکن تم پر میں کوئی حکم نہیں چلاؤں گا
میں ہرن کا بچہ نہیں دونگی
میں تم سے یہ بچہ لونگا بھی نہیں ذاکر نے کہا اور اس سے اس کا نام پوچھا
زریں لڑکی نے جواب دیا
کیا اس بچے کے ساتھ تمہیں بہت پیار ہے؟
ذاکر نے پوچھا اور لڑکی کا جواب سنے بغیر بولا یہ بچہ اتنا پیارا ہے کہ ہر کسی کو اس پر پیار آتا ہے
نہیں امیر لڑکی نے خوف سے نکل کر کہا یہ پیارا اور خوبصورت تو ہے لیکن میں اس سے کسی اور وجہ سے پیار کرتی ہوں میں نے آپ کو بتایا ہے کہ یہ ماں کے بغیر جنگل میں بھٹکتا پھر رہا تھا اسے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب میں بھی بھٹک گئی تھی اور میں اپنی ماں کو ڈھونڈتی پھرتی تھی
ذاکر اس لڑکی میں اتنا محو ہو گیا کہ لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بٹھا دیا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا لڑکی نے اس سے پرے ہٹنے کی کوشش نہ کی
پھر تمہیں ماں کہاں ملی تھی؟
ذاکر نے پوچھا
آج تک نہیں ملی زرّیں نے جواب دیا اس وقت میری عمر تین چار سال تھی چھوٹا سا ایک قافلہ تھا جس کے ساتھ ہم جا رہے تھے میرے ماں باپ غریب لوگ تھے ان کی عمر خانہ بدوشی میں گزر رہی تھی میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جنگلوں پہاڑوں اور بیابانوں میں چلتے پھرتے اور نقل مکانی کرتے پایا
تم ان سے بچھڑ کر کس طرح گئی تھی؟

بڑا ہی تیز و تند طوفان باد باراں آگیا تھا زرّیں نے جواب دیا قافلے والے نفسا نفسی کے عالم میں تربتر ہو گئے چند ایک گھوڑے تھے اور دو تین اونٹ تھے سب سامان سمیت ادھر ادھر بھاگ گئے میرے چار اور بہن بھائی بھی تھے کسی کو کسی کی خبر نہیں تھی ہر کوئی جدھر کو منہ آیا ادھر پناہ لینے کو اٹھ دوڑا میں اکیلی رہ گئی طوفان کے تھپیڑے اس قدر تنگ تھے کہ میرے پاؤں اکھڑ گئے میں چھوٹی سی تو تھی طوفان نے مجھے اپنے ساتھ اڑانا شروع کردیا اب میں باد باراں کے رحم و کرم پر تھی
وہ شاید ندی نہیں تھی جسمیں میں گر پڑی تھی وہ ایسے ہی پانی کا ریلا تھا جو مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا میں نے چیخنا چلانا اور ماں کو پکارنا شروع کردیا لیکن طوفان کی چیخیں اتنی بلند تھیں کہ میری چیخ اس میں دب جاتی تھی پھر اس طرح یاد آتا ہے جیسے بڑا ڈراؤنا خواب دیکھا تھا میں پوری طرح بیان نہیں کر سکتی یہ بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ میں ڈوب رہی تھی اور دو ہاتھوں نے مجھے پانی سے نکال لیا میں اس وقت کچھ ہوش میں اور کچھ بیہوش تھی اتنا یاد ہے کہ وہ ایک بزرگ صورت آدمی تھا جس نے مجھے اس طرح اپنے سینے سے لگا لیا تھا جس طرح ماں اس بچے کو گود میں اٹھائے رکھتی ہو بس یہی وجہ ہے کہ میں نے کچھ دن پہلے اس بچے کو جنگل میں بھٹکتے دیکھا تو اسے اٹھا لیا میں اسے اپنے ہاتھ سے دودھ پلاتی ہوں
تو کیا اس شخص نے تمہیں پالا پوسا ہے؟
ذاکر نے پوچھا یا تمہیں ماں باپ مل گئے تھے؟
نہیں امیر! زریں نے جواب دیا وہ کہاں ملتے معلوم نہیں بے چارے خود بھی زندہ ہیں یا نہیں مجھے اس بزرگ ہستی نے اپنی بیٹی سمجھ کر پالا پوسا ہے میں انہیں اپنا باپ اور ان کی بیوی کو اپنی ماں سمجھتی ہوں ان سے مجھے بہت پیار ملا اور ایسی زندگی ملی ہے جیسے میں شہزادی ہوں
کون ہے یہ لوگ؟
احمد بن عطاش زریں نے جواب دیا قلعے کے باہر رہتے ہیں مذہب کے عالم ہیں اور پکے اہل سنت ہیں
زریں کا انداز بیاں ایسا معصوم اور بھولا بھالا تھا کہ ذاکر اس میں جذب ہو کے رہ گیا جیسے اس کی اپنی کوئی حیثیت ہی نہ رہی ہو کچھ تو لڑکی بڑی پیاری تھی اور کچھ یہ وجہ بھی تھی کہ لڑکی نے اپنی زندگی کی ایسی کہانی سنائی تھی جس سے ذاکر کے دل میں اس کی ہمدردی پیدا ہو گئی تھی اس نے لڑکی کے ساتھ ایسے انداز سے اور اس قسم کی باتیں شروع کر دیں جیسے ہم جولی کیا کرتے ہیں ان میں اتنی معصومیت اور سادگی تھی کہ وہ بچوں کی طرح ذاکر میں گھل مل گئی
زریں! ذاکر نے بڑے پیار سے کہا اس پھول میں میرا پیار ہے یہ تم لے لو
زریں نے پھول لے لیا اور چھوٹے سے بچے کی طرح ہنس پڑی اس کی ہنسی ایسی تھی جیسے جل ترنگ سے نغمہ پھوٹا ہو
ایک بات بتاؤں زریں ذاکر نے کہا کیا تم نے میرا یہ پھول دل سے قبول کرلیاہے؟
ہاں تو زریں نے کہا پیار کون قبول نہیں کرتا
تو کیا تم میرے گھر آنا پسند کروں گی؟
ذاکر نے کچھ التجا کے لہجے میں پوچھا
وہ کیوں ؟
میں تمہیں ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا زندگی کا ساتھی بنانا چاہتا ہوں
تو پھر میں کیوں آؤں زریں نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا آپ کیوں نہیں آتے؟
نہیں زریں ذاکر نے کہا تم اتنی معصوم ہو کہ میری بات سمجھ نہیں سکی میں تمہیں اپنے گھر لانا چاہتا ہوں تم مجھے اس پھول جیسی پیاری لگتی ہو
پھول کسی کے پاس چل کر نہیں جایا کرتے امیر محترم زریں نے مسکراتے ہوئے کہا پھولوں کے شیدائی خود چل کر پھولوں کے پاس جایا کرتے ہیں اور وہ کانٹوں میں سے بھی پھول توڑ لیا کرتے ہیں آپ نے یہ پھول جو مجھے دیا ہے ہاتھ لمبا کرکے توڑا ہے آپ کسی پھول کو حکم دیں کہ وہ آپ کے پاس آجائے کیا پھول آپ کے حکم کی تعمیل کرے گا؟
ذاکر نے قہقہ لگایا اور اس کے ساتھ ہی لڑکی کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر اپنے قریب کر لیا زرین نے مزاحمت نہ کی تم جتنی حسین ہوں اتنی ہی دانش مند ہو ذاکر نے کہا اب تو میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا
اور میں اپنی جان کی قیمت دے کر بھی آپ سے بھاگوں گی زریں نے پہلے جیسی شگفتگی سے کہا
وہ کیوں ؟
میں نے بادشاہوں کی بہت کہانیاں سنی ہے زرین نے کہا آپ جیسے امیر بھی بادشاہ ہوتے ہیں مجھ جیسی لڑکی پر فریفتہ ہو کر اسے زروجواہرات میں تول کر اپنے حرم میں ڈال لیتے ہیں اور جب انہیں ایسی ہی ایک اور لڑکی مل جاتی ہے تو وہ پہلی لڑکی کو حرم کے کباڑ خانے میں پھینک دیتے ہیں میں فروخت نہیں ہونا چاہتی ائے امیر قلعہ ہاں اگر آپ کے سپاہی مجھے زبردستی اٹھا کر آپ کے محل میں پہنچا دیں تو میں کچھ نہیں کر سکوں گی میرا بوڑھا باپ احمد بن عطاش بھی سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہیں کرسکے گا وہ بوڑھا بھی ہے عالم دین بھی ہے اور وہ شاید تلوار بھی نہیں چلا سکتا
نہیں زریں ذاکر نے کہا احمد بن عطاش کی طرح میں بھی سنی مسلمان ہوں کیا تم نے کبھی مسلمانوں میں کوئی بادشاہ دیکھا ہے پھر میں کسی ملک کا حکمران نہیں میں سلجوقی سلطان کا ملازم ہوں حکومت سلطان ملک شاہ کی ہے وہ بھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھتے میرے پاس کوئی حرم نہیں دو بیویاں ہیں جو جوانی سے آگے نکل گئی ہیں وہ تمہاری خدمت کیا کریں گی اور وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہونگی
اس دور میں عربوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج تھا اس وقت سوکن کا تصور نہیں تھا بیویاں ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم رہتی تھیں یہاں تک بھی ہوتا تھا کہ خاوند عیاش طبیعت ہو تو کبھی کبھی کوئی بیوی اپنی کسی سہیلی کو ایک ادھ رات کے لئے اپنے خاوند کو تحفے کے طور پر پیش کرتی تھیں داستان گو جس دور اور جس خطے کی کہانی سنا رہا ہے وہاں سلجوقی سلاطین کی حکومت تھی سلجوقی ترک تھے ان کے یہاں بھی یہی رواج تھا اسلام قبول کر کے انھوں نے بھی اپنے آپ کو پابند کر لیا تھا کہ ایک آدمی زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھ سکتا ہے حرم کا تصور عربوں کی طرح ان کے یہاں بھی ناپید تھا بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ سلجوقی بیویوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے تھے
زریں نے جب ذاکر سے یہ سنا کہ اس کی دو بیویاں ہیں اور دونوں جوانی سے آگے نکل گئی ہیں تو اس پر ایسا کوئی اثر نہ ہوا کہ اس کی دو سو کنیں ہوں گی
میں تمہیں زبردستی نہیں اٹھاؤں گا زریں ذاکر نے کہا میں تمہیں زروجواہرات میں تولونگا میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے مطابق تم سے نکاح پڑھواؤنگا فیصلہ تم کرو گی
تو پھر اس پودے کے پاس جائیں جس کا پھول توڑنا ہے زریں نے کہا
ہاں زریں ذاکر نے کہا میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں میں احمد بن عطاش کے ساتھ بات کروں گا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں زریں پہلے تو مجھے تمہارا یہ معصوم حسن اچھا لگا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ تم میں عقل و دانش بھی ہے تو میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا یہ اس لئے کہا تھا کہ میں اس قلعے کا حاکم ہوں تم جیسی دانشمند بیوی میرے لیے سود مند ثابت ہو گی تم مجھے سوچ بچار میں مدد دو گی
میرے باپ سے فیصلہ لے لیں زریں قدر سنجیدگی سے کہا میں نے آپ کو ٹھوکرایا نہیں لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتی ہوں کہ مجھے دولت نہیں محبت چاہیے
ذاکر نے زریں کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ذرا ملا اور کچھ دبایا اور اٹھ کھڑا ہوا
زریں ذاکر نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا میری فطرت بادشاہ ہوں جیسی ہوتی تو میں درہم و دینار کی ایک تھیلی تمہارے قدموں میں رکھ دیتا لیکن نہیں میں محبت کو محبت سے خریدوں گا
ذاکر گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑ لگادی اس محافظ اور مصاحب ندی کے پل پر اسکے منتظر تھے
ایک بات غور سے سن لو ذاکر نے کہا اگر کوئی ہرن سامنے آئے تو مجھے دیکھ کر یہ ضرور بتا دیا کرو کہ یہ نر ہے یا مادہ کبھی کسی ہرنی کو نہیں مارنا ہوسکتا ہے وہ بچے والی ہو
ذاکر شکار سے واپس آ رہا تھا اس نے ایک ہی ہرن مارا تھا لیکن اس روز وہ بہت بڑا شکار کھیل آیا تھا وہ زریں تھی جو ادھ کھلے پھول کی طرح معصوم تھی ذاکر کو ابھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ شکار کرکے آیا ہے یا خود شکار ہو گیا ہے
زریں نے اسے اپنی بستی بتادی تھی جو تھوڑی ہی دور تھی اس بستی کے قریب ذاکر نے گھوڑا روک لیا اور اپنے ایک مصاحب سے کہا کہ یہاں احمد بن عطاش نام کا ایک عالم دین رہتا ہے اسے میرا سلام پہنچایا جائے
ایک مصاحب نے گھوڑا دوڑا دیا اور وہ بستی کی گلیوں میں غائب ہو گیا
جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک آدمی تھا جو سرسے پاؤں تک سفید چغے میں ملبوس تھا اس کے سر پر سلجوقی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر سفید رومال تھا جو کندھوں تک لٹک رہا تھا اس کی داڑھی لمبی تھی اور اس کے لباس کی طرح سفید ذاکر نے اسے بستی سے نکلتے دیکھا تو گھوڑے سے کود کر اترا اور بہت ہی تیز چلتا اس شخص تک پہنچا
جھک کر سلام کیا پھر اس کے گھٹنے چھوکر مصافحہ کیا
احمد بن عطاش؟
ہاں امیر قلعہ! اس شخص نے کہا احمد بن عطاش میں ہی ہوں میرے لیے حکم
کوئی حکم نہیں اے عالم دین ذاکر نے التجا کے لہجے میں کہا ایک درخواست ہے کیا آپ آج کا کھانا میرے ہاں کھانا پسند فرمائیں گے
زہے نصیب احمد بن عطاش نے کہا حاضر ہو جاؤں گا مغرب کی نماز کے بعد
ذاکر نے ایک بار پھر جھک کر اس سے مصافحہ کیا اور واپس آ گیا
مغرب کی نماز کے بعد احمد بن عطاش ذاکر کے محل نما مکان میں اس کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا کھانے کے دوران ہی ذاکر نے درخواست کے لہجے میں احمد بن عطاش سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ زریں اسے کہاں ملی تھی اور یہ بھی کہ زری نے اسے بتایا تھا کہ وہ احمد بن عطاش کی بیٹی کس طرح بنی تھی
اللہ نے میری دعائیں قبول کرلی ہیں احمد بن عطاش نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا میں نے اس بچی کو طوفان میں سے نکالا تھا اور اسے بڑے پیار سے پالا ہے میں دعائیں مانگا کرتا تھا کہ اس بچی کی زندگی خانہ بدوشوں جیسی نہ ہو اور اس کا مستقبل روشن ہو اگر آپ نے اسے اپنی رفاقت کے قابل سمجھا ہے تو بچی کے لئے اور میرے لیے اور خوش نصیبی کیا ہوگی
دو چار ہی دنوں بعد زریں دلہن کے لباس میں ذاکر کی زندگی میں داخل ہو گئی ذاکر کے دونوں بیویوں نے بڑے پیار سے اس کا استقبال کیا ذاکر نے دو خادمائیں زریں کے لئے وقف کردیں
مجھے کسی خادمہ کی ضرورت نہیں زریں نے ذاکر سے کہا میں آپ کی خدمت اپنے ہاتھوں کرنا چاہتی ہوں میں نے دیکھا ہے کہ رات کو آپ دودھ پیتے ہیں تو وہ خادمہ آپ کو دیتی ہے آئندہ یہ دودھ میں خود آپ کے لیے تیار کیا کروں گی میں جانتی ہوں آپ دودھ میں شہد ملا کر پیتے ہیں
ذاکر کی عمر پچاس سال ہو چکی تھی اسے غالبا توقع نہیں تھی کہ سترہ سال عمر کی اتنی حسین لڑکی اس پر فریفتہ ہوجائے گی اس نے زریں کو اجازت دے دی کہ رات کا دودھ وہ خود اسے پلایا کرے گی
کچھ دنوں بعد ذریں نے ذاکر سے کہا کہ جس شخص نے اسے طوفان سے بچایا اور اتنے پیار سے پالا ہے اس کے بغیر وہ اپنی زندگی بے مزہ سی محسوس کرتی ہے ذاکر احمد بن عطاش کو اجازت دے دے کہ وہ ایک دو دنوں بعد کچھ وقت یہاں گزارا کریں
مختصر یہ کہ یہ نوخیز لڑکی ذاکر کے دل و دماغ پر چھا گئی ذاکر نے احمد بن عطاش کو بلا کر بڑے احترام سے کہہ دیا تھا کہ وہ جب چاہے اسکے گھر آ جایا کرے اور جتنے دن چاہے رہا کرے ذاکر کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ احمد بن عطاش چاہتا ہی یہی ہے کہ اسے ذاکر کے گھر میں داخلہ مل جائے اور احمد اپنی سازش کو اگلے مرحلے میں داخل کرے وہ اجازت مل گئی اور احمد ذاکر کے گھر جانے لگا
ذاکر کو یہ شک بھی نہ ہوا کہ احمد بن عطاش کٹر باطنی ہے اور فرقہ باطنیہ کا پیشوا اور اس فرقے کی زمین دوز تنظیم کا بڑا ہی خطرناک لیڈر ہے وہ جس بستی میں رہتا تھا وہاں باقاعدہ خطیب بنا ہوا تھا اور ہر کوئی اسے اہلسنت سمجھتا تھا
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری مرحوم نے مختلف مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک طرف ایک نوجوان لڑکی امیر قلعہ کے اعصاب پر غالب آگئی اور دوسری طرف احمد بن عطاش نے مذہب کے پردے میں اپنی زبان کا جادو چلانا شروع کر دیا ذاکر احمد بن عطاش سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے بعض سرکاری امور میں بھی اس سے مشورے لینے شروع کر دیئے زریں کو خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی جس کے مطابق وہ ذاکر کو ہپناٹائز کیے رکھتی تھی
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس لڑکی نے ذاکر کو جو یہ پیشکش کی تھی کہ اسے وہ خود دودھ پلایا کرے گی اس سازش کی ایک اہم کڑی تھی وہ دودھ میں اسے ہر روز کچھ گھول کر پلاتی تھی جس کی فوری طور پر اثرات ظاہر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تھا یہ اثرات اندر ہی اندر اپنا کام کر رہے تھے اس دوائی میں نشے کا بھی کچھ اثر تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ ذاکر کے مزاج میں بڑی خوشگوار تبدیلی آجاتی تھی اور وہ زریں کے ساتھ ہم عمر ہمجولیوں کی طرح کھیلنے لگتا تھا
صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ذاکر کی ایک بیوی نے ذریں کو یہ دوائی دودھ میں ڈالتے دیکھ لیا اور زریں سے پوچھا بھی کہ اس نے دودھ میں کیا ڈالا ہے؟
زریں نے بڑی خود اعتمادی سے کہا کہ اس نے کچھ بھی نہیں ڈالا اس بیوی نے ذاکر کو بتایا اور کہا کہ اسے شک ہے کہ زریں ذاکر کو دودھ میں کوئی نقصان دہ چیز ملا رہی ہے ذاکر کا ردعمل یہ تھا کہ اس نے اس بیوی کو طلاق تو نہ دی لیکن اسے یہ سزا دی کہ اسے الگ کر دیا اور اس کے ساتھ کچھ عرصے کے لئے میاں بیوی کے تعلقات ختم کر دیئے
کم و بیش تین مہینوں بعد ذاکر صاحب فراش رہنے لگا لیکن وہ یہ بیان نہیں کر سکتا تھا کہ بیماری کیا ہے اور تکلیف کس نوعیت کی ہے طبیبوں نے اس کے علاج میں اپنا پورا علم صرف کر ڈالا لیکن نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اٹھ کر ایک قدم بھی چلنے کے قابل نہ رہا اس کے بستر کے قریب احمد بن عطاش اور زریں ہر وقت موجود رہتے تھے اس کیفیت میں مریض کو وہ انسان فرشتہ لگتا ہے جو اس کی ذمہ داری پوری ہمدردی سے کرے اسے یہ احساس دلاتا رہے کہ وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا
احمد بن عطاش نے اس کے پاس بیٹھ کر بڑی ہی پرسوز آواز میں تلاوت قرآن پاک شروع کردی ذاکر کو اس سے کچھ سکون ملتا تھا
پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ذاکر نے کہا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکے گا اس نے سلطان ملک شاہ کے نام ایک پیغام لکھوایا جس میں اس نے احمد بن عطاش کی دانشمندی اور علم و فضل کا ذکر کیا اور اس کی آخری خواہش ہے کہ اس قلعے کا امیر احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے
ذاکر مرتے دم تک احمد بن عطاش کو سنی سمجھتا رہا دو چار روز بعد وہ اللہ کو پیارا ہو گیا اس کی موت کی اطلاع سلطان ملک شاہ کو ملی تو اس نے پہلا حکم نامہ یہ جاری کیا کہ آج سے قلعہ شاہ در کا امیر احمد بن عطاش ہے
اس وقت تک بہت سے باطنیوں کو قید میں ڈالا جاچکا تھا سلجوقی چونکہ اہل سنت والجماعت ہیں اس لیے انہیں جونہی پتہ چلتا تھا کہ فلاں شخص اسماعیلی یا باطنی ہے اسے قید میں ڈال دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر باطنی اپنے آپ کو سنی کہلاتے تھے لیکن خفیہ طریقوں سے وہ بڑی ہی خوفناک سازشیں تیار کر رہے تھے
احمد بن عطاش نے امیر قلعہ بنتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ان تمام باطنیوں کو جو قلعے کے قید خانے میں بند تھے رہا کر دیا پھر اس نے درپردہ باطنیوں کو قلعے کے اندر آباد کرنا شروع کردیا اور باطنیوں پر جو پابندی عائد تھی وہ منسوخ کردی اس کے فوراً بعد قافلے لوٹنے لگے اور رہزنی کی وراداتیں بڑھنے لگی ان وراداتوں کا مقصد پیسہ اکٹھا کرنا تھا
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ احمد بن عطاش علم نجوم اور علم سحر کا ماہر تھا خطابت میں اس کی مہارت ایسی تھی کہ سننے والے پر طلسماتی سا تاثر طاری ہو جاتا تھا
یہ تھا وہ قلعہ شاہ در جس میں حسن بن صباح فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ داخل ہوا تھا رہبر اسے سیدھا امیر قلعہ احمد بن عطاش کے گھر لے گیا یہ گھر محل جیسا مکان تھا احمد بن عطاش کو اطلاع ملی کہ رے سے حسن بن صباح آیا ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیجا جائے
آ نوجوان احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو اپنے سامنے دیکھ کر کہا میں نے تیری بہت تعریف سنی ہے آج آرام کر لو کل صبح سے تمہیں بتایا جائے گا کہ کیا کرنا ہے اور اب تک کیا ہو چکا ہے
حسن بن صباح نے جھک کر سلام کیا اور باہر نکل آیا اہلسنت سلطان ملک شاہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی سلطنت میں ابلیس اتر آیا ہے…

قسط نمبر:6 }
حسن بن صباح اس جگہ پہنچ گیا جہاں سے اس نے اپنے تاریخی سفر کا آغاز کرنا تھا
ابلیس اس کا ہمسفر اور ابلیس ہی اس کا میر کارواں تھا
حسن بن صباح ایک انسان تھا تن تنہا اکیلا انسان سلاطین سلجوقی سلطنت اسلامیہ کا ایک فرد جس کی حیثیت ایک عام اور گمنام آدمی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھی وہ کسی قبیلے کا سردار نہیں تھا اس کے پاس کوئی لشکر نہیں کوئی فوج نہیں تھی دو چار آدمی بھی اس کے ساتھ نہیں تھے جو تیغ زن اور تیر انداز ہوتے وہ خود بھی تو شمشیر زن اور شہسوار نہیں تھا اس کے پاس صرف ایک طاقت تھی اور وہ تھی ابلیسیت
اس ایک آدمی نے اسلام کی عمارت کو بھونچال کے جھٹکوں کی طرح ہلا ڈالا اور ثابت کردیا تھا کہ ابلیسی طاقتیں خدائی طاقت کو چیلنج کر سکتی ہیں یہ بعد کی بات ہے کہ خدائی طاقت کو چیلنج کرنے والے کیسے کیسے بھیانک انجام کو پہنچے
اسلام آج تک ابلیسی طاقتوں کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اس دور کے دو سپر پاور روم اور فارس کو ریت کے گھروندے کے مانند روند کر ان ملکوں میں اللہ کی حکومت قائم کردی تھی پھر مسلمان جدھر کا رخ کرتے ادھر بغیر لڑے قلعے ان کے حوالے کر دئیے جاتے تھے مسلمانوں نے ملک نہیں لوگوں کے دل فتح کیے تھے انہوں نے اپنی دہشت طاری نہیں کی دستگیری کی تھی مظلوم اور مجبور رعایا کی دستگیری
آج مسلمان ابلیسی طاقتوں کے محاصرے میں آئے ہوئے ہیں اور ان کا قتل عام ہو رہا ہے یہ اسلام کو ختم کرنے کے جتن ہیں لیکن
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
قتل مسلمان ہو رہے ہیں اسلام زندہ ہے اور زندہ رہے گا
پروانے جل رہے ہیں چراغ روشن ہے اور روشن رہے گا
جس چراغ کو غار حرا کی تاریکی نے نور عطا کیا تھا وہ اسلام کے جاں نثاروں کے لہو سے جل رہا ہے
دنیا میں مسلمان کا نام و نشان نہیں رہے گا صرف ایک مسلمان حاملہ عورت زندہ رہے یہ اس کے بطن سے جو بچہ پیدا ہو گا وہ اسلام کو زندہ رکھے گا
داستان گو حسن بن صباح کی داستان سنا رہا ہے لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ مختصر سا قصہ تکذیب کے علمبرداروں کا بھی سنا دیں جنہوں نے رسول کریمﷺ کی رحلت کے ساتھ ہی نبوت کے دعوے کئے اور اپنے اپنے انجام کو پہنچے تھے
حسن بن صباح بھی اپنے ذہن اور دل میں نبوت کے عزائم کی پرورش کر رہا تھا تکذیب اور ارتداد کا مقصد اسلام کی بیخ کنی تھا یہ سلسلہ بڑا ہی دراز ہے داستان گو اس کی جھلک پیش کرے گا تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ دین کے دشمن اسی روز سے اسلام کے درپے ہیں جس روز پہلے آدمی نے اسلام قبول کیا اور اس شہادت کا اقرار کیا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ وحدہٗ لاشریک ہے محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں
اسلام نے یہود و نصاریٰ اور تکذیب و ارتداد کے بڑے تیز و تند طوفان دیکھے ہیں لیکن اللہ کا سچا دین تاقیامت زندہ و پائندہ رہنے کے لئے آیا تھا حسن بن صباح کی جنت اسی اسلام دشمن سلسلے کی ایک کڑی تھی
آئیے ذرا ابلیس کا رقص دیکھ لیجیے پھر حسن بن صباح کو سمجھنا آسان ہو جائے گا ورنہ بے خبر لوگ جو اس کے صرف نام سے واقف ہیں اسے افسانوی کردار ہی سمجھتے رہیں گے
سجاح بنت حارث تمیمہ ہوازن کے قبیلہ بنو تمیم کی سرکردہ عورت تھی عسائیت کی پیروکار تھی اور وہ دریائے دجلہ اور فرات کے اس درمیانی علاقے کی رہنے والی تھی جو الجزیرہ کہلاتا ہے وہ عالم شباب میں تھی اور حسین بھی تھی
اس کے حسن کے متعلق مورخ لکھتے ہیں کہ بنو تمیم میں اس سے زیادہ حسین عورت بھی موجود تھی لیکن سجاح کی شکل و شباہت اور جسم کی ساخت میں کوئی ایسا تاثر تھا جو دیکھنے والوں کو مسحور کرلیتا تھا اس کا زیر لب تبسم اپنا ایک اثر پیدا کرتا تھا لیکن اس کا اصل حسن اس کے انداز دلربائی میں تھا وہ جب بات کرتی تھی تو اس کے ہاتھوں کی حرکت آنکھوں کے بدلتے ہوئے زاویے اور گردن کے خم دوسروں کے دل موہ لیتے تھے
اس نے اپنے آپ میں یہ خوبی بھی پیدا کررکھی تھی کہ اس کے پاس کوئی عبادت گزار اور پارسا آ بیٹھتا تو وہ ایسے انداز سے بات کرتی کہ پارسا اسے اپنے سے زیادہ پارسا سمجھ لیتے اور اس کے عقیدت مند ہوجاتے تھے کوئی عیاش دولت مند اس کے پاس آتا تو وہ اس عورت کو اپنی جیسی سمجھ کر اس پر دولت نچھاور کرنے لگتا مگر اسے اپنے جسم سے دور ہی رکھتی تھی وہ شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا اور اس کے اشاروں پر ناچتا تھا
کوئی امیر ہوتا یا غریب گنہگار ہوتا یا نیکوکار وہ سجاح کو اپنا مونس وغمخوار سمجھتا تھا مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ سجاح کاہنہ تھی اس زمانے میں وہ آدمی جو مذہبی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ علم جوتش و نجوم کا بھی ماہر ہوتا اور آنے والے وقت کے متعلق پیشن گوئی کی اہلیت رکھتا وہ کاہن کہلاتا تھا اور ایسی عورت کو کاہنہ کہتے تھے
وہ توہم پرستی اور پسماندگی کا دور تھا لوگ جوتشوں اور نجومیوں کے آگے سجدے کرتے اور قسمت کا حال پوچھتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ کاہن بگڑی ہوئی قسمت کو سنوار سکتے ہیں
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری ابن اثیر بلاذری اور “دبستان مذاہب” کے حوالوں سے لکھتے ہیں سجاح بنت حارث فصیح اور بلیغ اور بلند حوصلہ عورت تھی اسے تقریر و گویائی میں ید طولٰی حاصل تھا جدۃ فہم ،جودت طبع اور اصابت رائے میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی ایک تو عالم شباب تھا دوسرے انداز دلربائی تھا اور تیسری یہ کہ اس نے شادی نہیں کی تھی دولت والے جاگیروں والے وہ تاجر جن کا مال سینکڑوں اونٹوں پر آتا اور جاتا تھا اس کی رفاقت کے امیدوار تھے وہ اپنا دامن بچائے رکھتی اور کسی کو مایوس بھی نہیں کرتی تھی
انسانی فطرت کے عالم لکھتے ہیں کہ عربی عراق کی یہ عورت کاہنہ تھی یا نہیں ،البتہ اپنے ناز و انداز سے وہ جس طرح پتھروں کو بھی موم کر لیتی تھیں اس سے یہ یقینی تاثر ابھرتا تھا کہ وہ ساحرہ ہے ،وہ اپنے مذہب عیسائیت کی پیشوا بنی ہوئی تھی یہ اس کا ظاہری روپ تھا جو دراصل بہروپ تھا اس نے اندرونی طور پر اپنے کردار میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیے تھے اور وہ اس مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں انسان مکمل ابلیس بن جاتا ہے اور اس میں مسحور کر لینے والے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں
رسول اکرمﷺ رحلت فرما گئے تو نبوت کے متعدد دعوے دار پیدا ہو گئے ان میں جس نے سب سے زیادہ شہرت پائی وہ مسلیمہ تھا اس کا نام مسلیمہ بن کبیر تھا رحمان یمامہ کے نام سے مشہور تھا
آخر وہ مسیلمہ کذاب اور کذاب یمامہ کے نام سے مشہور ہوا کیونکہ جھوٹ بولنے میں وہ یکتا تھا جھوٹ بھی وہ ایسے انداز سے بولتا تھا کہ جو لوگ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے وہ بھی اس کے جھوٹ کو سچ مان لیتے تھے
عجیب بات یہ ہے کہ مسلمہ کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اس کی جسمانی صحت کا یہ عالم تھا کہ جسمانی طاقت کے مظاہروں میں جوان بھی اس کے مقابلے میں بعض اوقات پیچھے رہ جاتے تھے بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ خوراک اچھی ہونے کے علاوہ وہ فطری طور پر متحمل مزاج تھا کوئی اس کے منہ پر اس کے خلاف بری بات کہہ دیتا تو اسے بھی وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی غصہ تو اسے آتا ہی نہیں تھا اپنے دشمن سے بھی انتقام نہیں لیتا تھا بلکہ بردباری اور نرمی سے بات کرتا تھا کہ دشمن بھی اس کے قائل ہو جاتے تھے
ایسے کردار اور عادات کی بدولت ایک تو اسکی صحت ضعیف العمر میں بھی جوانوں جیسی رہی اور دوسرے یہ اثرات دیکھنے میں آئے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگ اس کے گرویدہ ہوگئے
مسلیمہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیا تھا لیکن اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں بلکہ اس نے یہ دعوی کیا کہ وہ رسالت میں برابر کا شریک ہے اور اس پر بھی وحی نازل ہوتی ہے اس نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں خط لکھا تھا کہ وہ نبوت میں آپ کا برابر کا شریک ہے اور عرب کی سرزمین حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اور نصف اس کی ہے
تاریخوں میں آیا ہے کہ جب یہ خط رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے قاصد سے کہا اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا
یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ پہلا دن تھا جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے تھے اس کے بعد آپ کے یہ الفاظ ایک قانونی ضابطے کی صورت اختیار کرگئے کسی کا قاصد یا ایلچی مسلمانوں کے یہاں آتا اور خلیفہ کے سامنے کیسی ہی بدتمیزی کیوں نہ کرتا اسے معاف کردیا جاتا تھا
مسلیمہ کے پیروکاروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچنے لگی اس نے اپنی آیات لکھنے اور انہیں پھیلانا شروع کر دیا اس کا دعویٰ تھا کہ یہ آیات اس پر بذریعہ وحی آئی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو مسلیمہ کھل کر سامنے آگیا اس نے معجزے دکھانے بھی شروع کر دیئے تھے
حیرت ہے کہ لوگ یہ دیکھتے تھے کہ مسلیمہ کوئی معجزہ دکھانے لگتا تو وہ بالکل الٹ ظاہر ہوتا پھر بھی لوگ بیعت کرتے چلے جا رہے تھے
داستان گو نے حسن بن صباح کی داستان شروع کی تھی لیکن بات سے بات نکلی تو بہت دور جا پہنچی چونکہ مسلیمہ کے معجزات دلچسپی سے خالی نہیں اس لئے داستان گو چند ایک معجزات سناتا ہے
ایک روز مسلمہ کے پاس ایک عورت آئی اور بولی کے ان کے نخلستان میں ہریالی ختم ہو رہی ہے اور وہاں جو دو تین چشموں جیسے کنوئیں ہیں وہ خشک ہوتے چلے جا رہے ہیں یارسول اس عورت نے کہا ایک بار ہحزمان کا نخلستان خشک ہو گیا تھا کیونکہ اس کے چشمے نے پانی چھوڑ دیا تھا وہاں کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کی کہ ان کا نخلستان خشک ہو گیا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چلو بھر پانی اپنے منہ میں ڈالا اور چشمے میں اگل دیا دیکھتے ہی دیکھتے چشمہ اس طرح پھوٹ پڑا کے وہاں جھیل بن گئی اور خرما کے درختوں کی جو شاخیں خشک ہوکر لٹک آئی تھیں وہ ہری بھری ہوگئیں
مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلیمہ کذاب نے یہ سنا تو اسی وقت اٹھا اور اونٹ پر سوار ہوکر اس عورت کے ساتھ روانہ ہو گیا جب اس نخلستان میں پہنچا تو دیکھا کہ کنوؤں میں بہت ہی تھوڑا پانی ہے تو اس نے حکم دیا کہ ایک کنوئیں سے تھوڑا سا پانی نکالا جائے پانی نکالا گیا مسلیمہ نے کچھ پانی اپنے منہ میں ڈالا اور کنوؤں میں تھوڑا تھوڑا اگل دیا
تاریخ گواہ ہے کہ کنوؤں میں جو تھوڑا تھوڑا پانی رہ گیا تھا وہ بھی خشک ہو گیا اور خرما کے درختوں کے جو چند ایک ٹہنیاں بھی سبز تھی وہ بھی خشک ہوکر لٹک گئی اس کے بعد یہ نخلستان مکمل طور پر ریگستان بن گیا
اس کے ساتھیوں میں نہار نام کا ایک خاص ساتھی تھا اس نے ایک روز مسلیمہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس کسی کے بچے کو دیکھتے ہیں اس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے ہیں یہ دیکھا گیا تھا کہ جس بچے کے سر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا اس بچے میں ایسی ذہانت پیدا ہوگئی کہ لڑکپن میں پہنچنے تک وہ بچہ نامور مجاہد یا دانشور بنا
مسلیمہ نے یہ بات سنی تو اس نے باہر نکل کر اپنے قبیلے بنو حنیفہ کے چند ایک بچوں کو بلایا اور ان کے سروں پر اور ان کی ٹھوڑیوں پر ہاتھ پھیرا لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا انہوں نے دیکھا کہ ان بچوں کے سروں کے بال گرنے لگے اور سورج غروب ہونے تک یہ تمام بچے گنجے ہوگئے ان کی ٹھوڑیوں پر ہاتھ پھیرنے کا یہ اثر ہوا کہ یہ تمام بچے زبان کی لکنت یعنی ہکلاہٹ میں مبتلا ہوگئے
مسلیمہ نے کسی سے سنا کہ کسی شخص کی آنکھیں خراب ہو جاتی اور وہ آشوب چشم کا مریض ہوجاتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگاتے تو آنکھوں کا جو بھی مرض ہوتا وہ رفع ہوجاتا تھا مسلیمہ نے بھی ایک بار آنکھوں کے ایک مریض کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور وہ شخص بینائی سے ہی محروم ہو گیا
ایک عورت اس کے پاس یہ شکایت لے کر آئی کہ اس کی اچھی بھلی بکری نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے مسلیمہ کے کہنے پر وہ عورت بکری کو لے آئے مسلیمہ نے بکری کی پیٹھ پر اور پھر تھنوں پر ہاتھ پھیرا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بکری جو چند قطرے دور دیتی تھی وہ بھی خشک ہوگئے
تاریخوں میں ایک واقعے نے زیادہ شہرت پائی ہے ایک بیوہ مسلیمہ کے پاس آئی اور کہا کہ وہ بیوہ ہے اور اس کا سہارا بیٹے تھے لیکن زیادہ تر بیٹے مر گئے ہیں صرف دو زندہ ہیں یا رسول دعا کریں کہ یہ دونوں بیٹے زندہ رہیں
مسلمان اپنے اوپر مراقبہ طاری کرکے اس بیوی کو مژدہ سنایا کہ تمہاری یہ دونوں بیٹے بڑی لمبی عمر پائیں گے بیوہ خوشی خوشی وہاں سے گھر کو چلی گھر پہنچتے ہی اسے اطلاع ملی کہ اس کا ایک بیٹا کنویں میں گر کر مر گیا ہے اسی رات دوسرا اور آخری بیٹا تڑپنے لگا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے صبح طلوع ہونے تک وہ بھی مر گیا
یہ چند ایک واقعات ہیں ایسے بہت سے واقعات تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں عجیب بات یہ ہے کہ الٹے اثرات کو بھی لوگ معجزہ ہی کہتے تھے جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلیمہ ایسے انداز اور ایسے الفاظ میں ان کی تاویلیں پیش کرتا تھا کہ لوگ انھیں سچ مان لیتے تھے
پھر یہ کیا تھا یہ غیرت خداوندی تھی اللہ تبارک وتعالی نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار کو اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری میں کھڑا نہیں کرسکتا تھا
بعض اوقات ایک عام انسان بھی کوئی معجزہ کر گزرتا ہے لیکن اس آدمی کے کردار اور اسکی فطرت کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس شخص کی روحانی قوت بیدار ہے اس کے قابو میں ہیں اور قابو میں اس لیے ہے کہ وہ شخص دین دار اور ایماندار ہے مسلیمہ تو تھا ہی کذاب یعنی جھوٹ بولنے والا جھوٹ ایک ایسی لعنت ہے جو بنے بنائے کام بھی بگاڑ دیتا ہے اور وہ انسان اللہ کے حضور جو دعا کرتا ہے اس کا اثر الٹا ہوتا ہے
مسلیمہ کی مقبولیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اتنی بڑھی کے اس نے ایک لشکر تیار کرلیا خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلیمہ کی اس جنگی طاقت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کے خلاف اعلان جہاد کیا مسلیمہ کی لڑائیاں تین سالاروں سے ہوئی تھیں ایک تھے عکرمہ دوسرے سے شرجیل بن حسنہ اور تیسرے خالد بن ولید آخر شکست تو مسلیمہ کو ہوئی تھی لیکن اس کی جنگی طاقت کا یہ عالم تھا کہ اس نے تاریخ اسلام کے ان تین نامور سپہ سالاروں کو حیران و پریشان کر دیا تھا کئی ایسے مواقع آئے جب یو پتہ چلتا تھا کہ فتح مسلیمہ کی ہوگی
یہ لڑائیاں ایک الگ اور بڑی ہی ولولہ انگیز داستان ہے لیکن داستان گو اپنی داستان کی طرف لوٹتا ہے
بات سجاح بنت حارث کی ہورہی تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اس حسین ساحرہ کے دماغ میں آئی کے مسلیمہ اس علاقے میں نبوت کا دعوی کر کے ایک لشکر جرار بھی تیار کرسکتا ہے تو کیوں نہ وہ بھی نبوت کا دعوی کرے اسے اپنے ان اوصاف کا پوری طرح احساس تھا جو لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے اس وقت تک اس عورت میں ابلیسی اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے جا چکے تھے
ایک روز اس نے اپنے قبیلے کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ گزشتہ رات خدا نے اسے نبوت عطا کی ہے اس کے ساتھ ہی اس نے ایک وحی سنادی، وہ عیسائی مذہب کی عورت تھی لیکن نبوت کے اس جھوٹے دعوے کے ساتھ ہی عیسائی مذہب ترک کر دیا کیونکہ وہ حسین عورت تھی اس لیے لوگ اس سے متاثر ہو گئے
اس میں جو اوصاف تھے اور جو کشش تھی وہ پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے قبیلے کے سردار اس کے امیدوار بھی تھے سب سے پہلے ان سرداروں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی سب سے پہلے بنو تغلب نے اس کی نبوت کو تسلیم کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کا ایک سردار جو سب سے زیادہ اثر و رسوخ والا تھا سجاح کا گرویدہ ہو گیا تھا ایسا ہی ایک سردار ابن ہبیرہ بنو تمیم کا تھا وہ بھی سجاح کا مرید ہو گیا
اس وقت کا معاشرہ قبیلوں میں منقسم تھا قبیلوں پر سرداروں کا اثر و رسوخ تھا ایک سردار جس طرف جاتا پورا قبیلہ اس کے پیچھے جاتا تھا سجاح نے سب سے پہلے قبیلوں کے سرداروں کو زیر اثر لیا اور بہت تھوڑے سے عرصے میں کئی ایک قبیلوں نے اس کی نبوت کو تسلیم کر لیا یہاں تک کہ بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اسلام سے منحرف ہو کر سجاح کے پیروکار بن گئے سجاح نے مسلیمہ کی طرح ایک لشکر تیار کرلیا اور اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا
اس کے اپنے ایک مشیر مالک بن نمیرہ نے اسے مدینہ پر حملہ کرنے سے روک دیا اور ان قبیلوں سے نمٹنے کا مشورہ دیا جو اس کی نبوت کو تسلیم نہیں کر رہے تھے اس طرح سجاح نے اچھی خاصی لڑائیاں لڑیں
خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سجاح کی سرکوبی کے لیے خالد بن ولید کو بھیجا شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابی جہل بھی ساتھ تھے خالد بن ولید کو اطلاع ملی کہ ان کا مقابلہ ایک نہیں بلکہ دو لشکروں کے ساتھ ہوگا چنانچہ انہوں نے پیشقدمی اس غرض سے روک لی کہ دشمن کی قوت کا اندازہ جاسوسوں سے کر لیا جائے
ادھر مسلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ شکست کھا جائے گا اس نے سجاح کو پیغام بھیجا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے وہ دراصل سجاح کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا اور اس کا ارادہ یہ بھی تھا کہ سجاع پر حاوی ہوکر اسے اپنے زیر اثر کرلے وہ سجاح کی نبوت کو ختم کرنا چاہتا تھا
سجاح نے مسلیمہ کو ملاقات کے لئے اپنے ہاں بلا لیا
مسلیمہ اپنے ساتھ چالیس ایسے پیروکار لے گیا جو دماغی لحاظ سے بہت ہوشیار اور دانشمند تھے اور تیغ زنی میں بھی مہارت رکھتے تھے مسلیمہ سن چکا تھا کہ سجاح میں کیا کیا خوبیاں ہیں اور اس کا حسن کس قدر سحر انگیز ہے
مسلیمہ اپنے ساتھ بڑا ہی خوشنما اور بڑے سائز کا خیمہ لے گیا تھا شراب و کباب کا انتظام بھی اس کے ساتھ تھا رنگارنگ روشنی دینے والے فانوس بھی تھے مختصر یہ کہ عیش و عشرت اور زیب و زینت کا پورا سامان مسلیمہ کے ساتھ تھا وہ ایسے عطر اپنے ساتھ لے گیا تھا جن کی مہک مخمورکر دیتی تھی
مسلیمہ اور سجاح کی ملاقات ایک نخلستان میں ہوئی مسلیمہ نے یہ تو سن رکھا تھا کہ سجاح میں ایسے اوصاف موجود ہیں جو پتھر دل مرد کو بھی موم کر دیتے ہیں لیکن وہ سجاح کے سامنے گیا تو اس نے محسوس کیا کہ سجاح کی شخصیت اس سے زیادہ سحرانگیز ہے جتنی اس نے سنی تھی تب اس نے محسوس کیا کہ اس حسین ساحرہ کا میدان جنگ میں مقابلہ کرنا آسان نہیں یہ خطرہ وہ پہلے ہی سوچ چکا تھا اسی لئے وہ اپنے ساتھ یہ سارا سازوسامان لے گیا تھا اس نے سجاح سے کہا کہ وہ اس کے خیمے میں چلے کیوں کہ یہ جگہ اس قابل نہیں کہ سجاح جیسی عورت کسی غیر سے بیٹھ کر بات کرے
مسلیمہ معمر اور تجربے کار آدمی تھا اس میں دانشمندی بھی تھی اس نے باتوں باتوں میں سجاح کو اتنا اونچا چڑھا دیا کہ وہ پھولی نہ سمائی اور مسلیمہ کی باتوں میں آ گئی اسی وقت اٹھی اور مسلیمہ کے ساتھ اس کے خیمے میں چلی گئی اس نے جب خیمے کے اندر زیب و زینت اور آرام و آرائش کا سامان دیکھا تو اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی اس نے محسوس کیا کہ اس کے دماغ پر کچھ اور ہی اثرات مرتب ہو رہے ہیں
یہ اثرات جو اس کے دماغ پر مرتب ہو رہے تھے یہ اس عطر کی مہک کے اثرات تھے یوروپی مؤرخوں میں سے دو نے لکھا ہے کہ یہ ایک خاص عطر تھا جس کی مہک ذہن میں رومانی خیالات پیدا کر دیتی تھی
مسلیمہ نے خیمے میں جو بستر لگوایا تھا اس پر ریشمی گدے اور پلنگ پوش تھے اس نے سجاح کو اس بستر پر بٹھایا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا
میں تمہیں یہاں ایک خاص مقصد کے لیے لایا ہوں مسلیمہ نے سجاح سے کہا
اے نبی سجاح نے کہا اس خیمے میں آکر میں کچھ اور ہی محسوس کرنے لگی ہوں یوں لگتا ہے جیسے میں یہاں سے نکلنا ہی نہیں چاہوں گی کیا اب آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟
ایک خواہش ہے مسلیمہ نے ایسے انداز سے کہا جیسے وہ سجاح کا گرویدہ ہو گیا ہو میں تمہاری باتیں سننا چاہتا ہوں میں نے سنا ہے کہ تمہاری زبان میں ایسی شیرینی ہے کہ دشمن بھی تمہارے قدموں میں سر رکھ دیتا ہے
نہیں سجاح نے کہا میں چاہتی ہوں کہ آپ کوئی بات کریں
تمہارے سامنے میں کیا بات کر سکتا ہوں مسلیمہ نے کہا
کوئی تازہ وحی نازل ہوئی ہو تو وہ سنا دیں سجاح نے کہا
مسلیمہ نے اپنی دماغی قوتوں اور ابلیسی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے سجاح کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور اس کے سامنے سے اٹھ کر بستر پر اس طرح بیٹھ گیا کہ اس کا جسم سجاح کے جسم کے ساتھ لگ گیا اس نے ایک وحی سجاح کو سنائی
مشہور مؤرخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ یہ وحی عورتوں کے متعلق تھی اور اس قدر فحش کے اس کا ترجمہ تحریر میں لایا ہی نہیں جاسکتا اس کے ساتھ ہی مسلیمہ نے سجاح کے جسم کے ساتھ آہستہ آہستہ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی
مسلیمہ نے سجاح کے چہرے پر ایک تبدیلی دیکھی اور اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ دیکھی جو پہلے اس کے ہونٹوں پر نہیں تھی مسلیمہ کو معلوم تھا کہ اس عورت کا شباب جوبن کے انتہائی درجے پر پہنچا ہوا ہے اور اس نے ابھی تک شادی نہیں کی پھر اس نے یہ سوچا کہ اس عورت نے نبوت کا دعوی کردیا ہے اس لئے کوئی مرد اس کے جسم کے ساتھ تعلق رکھنے کی جرات نہیں کرتا اس کے تمام پیروکار اس کے جسم کو مقدس اور لائق عبادت سمجھتے ہیں لیکن یہ جوان عورت ہے انسان ہے اور اس میں انسانی جذبات بھی ہیں جن میں حیوانی جذبات بھی شامل ہیں مسلیمہ کی صرف ایک فحش بات سے ہی سجاح کا چہرہ تمتما اٹھا تھا
مسلیمہ نے ایک اور وحی سنا دی جو پہلی وحی سے زیادہ فحش تھی اور حیوانی جذبات کے لیے اشتعال انگیز بھی تھی اس کے بعد مسلیمہ نے ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ اشتعال انگیز اور بڑی ہی بے حیائی کی باتیں شروع کردیں اس کے ساتھ ساتھ وہ سجاح کے حسن کی تعریفیں کرتا جاتا تھا اور یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ سجاح سچی نبی ہے
سجاح کو عطر کی مہک نے اور ریشمی بستر کے گداز نے اور مسلیمہ کی باتوں اور اس کے انداز نے نبوت کے درجے سے ہٹا کر ایک ایسی جوان عورت کے درجے پر گرا دیا تھا جو جذبات کی تشنگی سے مری جا رہی تھی مسلیمہ اس کے خیالوں کی یہ تبدیلی اس کے چہرے اور اس کی سانسوں سے محسوس کر رہا تھا جو اکھڑی جا رہی تھی مسلیمہ معمر آدمی تھا لیکن اس کا انداز جوانوں والا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے اعضاء پر عمر کی طوالت نے ذرا سا بھی اثر نہیں کیا سجاح نے بے قابو ہوکر مسلیمہ کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور اپنے سینے پر رکھ دیا میرا ایک مشورہ مانو سجاح مسلیمہ نے کہا آؤ ہم شادی کر لیتے ہیں
وہ کیوں ؟
سجاح نے پوچھا کیا آپ کو میرا جسم اتنا اچھا لگا ہے
جسم کی بات نہ کرو مسلیمہ نے کہا نبی جسموں کے ساتھ تعلق نہیں رکھا کرتے روح کی بات کرو میں جانتا ہوں تمہارا جسم تشنہ ہے لیکن میرا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں نبی ہیں اگر ہماری فوج الگ الگ مسلمانوں کا مقابلہ کرتی رہیں تو دونوں شکست کھا جائیں گی اگر ہماری فوج مل کر ایک ہو جائیں تو ہم سارے عرب پر قبضہ کرلیں گے صرف مسلمان ہیں جو ہماری نبوت کو قبول نہیں کرتے اور ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں اس کا علاج یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کردیں اور پورے عرب پر قابض ہو کر دوسرے ملکوں پر چڑھائی کریں اور اپنی نبوت کو دور دور تک پھیلا دیں
اس وقت سجاح پر کچھ اور ہی کیفیت طاری تھی اس پر ابلیسیت کا غلبہ تھا اس نے اپنے آپ میں خاص طور پر ابلیسی اوصاف پیدا کیے تھے یہ اوصاف اس پر ایسے غالب آئے کہ اس نے مسلیمہ کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور کہا کہ وہ ابھی اس کی بیوی بننے کو تیار ہے
مسلیمہ کے ساتھ چالیس آدمی آئے تھے وہ خیمے سے کچھ دور چاک و چوبند کھڑے تھے کہ نہ جانے مسلیمہ کا کوئی حکم کس وقت آجائے تقریباً اتنی ہی آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح سجاح کے ساتھ آئے تھے وہ الگ تیار کھڑے تھے
دونوں طرف کے یہ مسلح آدمی یقینا یہ سوچ رہے ہونگے کہ خیمے کے اندر دو نبیوں میں جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان کا نتیجہ نہ جانے کیا ہوگا توقع یہ تھی کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں گے کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں
دونوں طرف یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ خیمے کے اندر کوئی اور ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے بغیر کسی اعلان کے اور بغیر کوئی رسم ادا کیے مسلیمہ اور سجاح میاں بیوی بن چکے تھے اور خیمہ حجلہء عروسی بنا ہوا تھا سجاح ہوش وحواس گم کر بیٹھی تھی اور اس نے اپنی نسائیت اور نبوت مسلیمہ کے حوالے کر دی تھی
مورخ لکھتے ہیں کہ مسلیمہ اور سجاح تین دن اور تین راتیں خیمے سے باہر نہ نکلے خیمے میں صرف کھانا اور شراب جاتی تھی باہر کے لوگ پریشان ہوتے رہے کہ یہ کیا معاملہ ہے آخر چوتھے روز وہ باہر نکلے سجاح کے چہرے پر شرم و ندامت کے تاثرات آ گئے یہ اس وقت آئے جب اس نے اپنے مسلح آدمیوں کو دیکھا وہ سر جھکائے ہوئے اپنے لشکر میں پہنچی
سجاح کے مشیر اور خاص پیروکاروں نے اس سے پوچھا کہ بات چیت کس نتیجے پر پہنچی ہے
میں نے مسلیمہ کی نبوت کو تسلیم کر لیا ہے سجاح نے کہا اس کی نبوت برحق ہے میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا ہے اب نبوت میری ہو یا اس کی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
نکاح تو ہوگیا سجاح سے پوچھا گیا مہر کیا مقرر ہوا ؟
اوہ سجاح نے کہا یہ تو مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ مہر بھی مقرر کرنا تھا
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ جواب دے کر سجاح کی آنکھیں جھک گئیں جیسے وہ نادم اور شرمسار ہو اس کا نبوت والا انداز بالکل ہی بدل گیا تھا
ان مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ جب کوئی عورت کسی مرد کی زوجیت میں جاتی ہے تو وہ نکاح میں اسے قبول کرنے سے پہلے اپنا مہر مقرر کرواتی ہے اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ مسلیمہ کے پاس جائے اور مہر مقرر کروا کر آئے
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر مسلیمہ نے اسے اپنی بیوی بنانا تھا تو اسے اپنے ساتھ لے جاتا لیکن اسے نے اسے عصمت سے محروم کرکے اس کے لشکر میں بھیج دیا یہ معلوم نہیں کہ اس نے سجاح کو کیا کہہ کر اسے اس کے لشکر میں بھیجا تھا
اسکے مشیر سجاح کی اس حرکت پر پریشان سے ہوئے اور اسے بار بار یہی کہا کہ وہ مسلیمہ کے پاس جاکر مہر مقرر کروا لے
مسلیمہ سجاح کو اس کے لشکر میں بھیج کر خود بڑی تیزی سے وہاں سے کوچ کرگیا اور اپنے قلعہ میں جا پہنچا
تم سب کو چوکنا اور محتاط رہنا ہوگا مسلیمہ نے قلعہ میں جاکر اپنے محافظوں اور مصاحبین سے کہا میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ سجاح کے ساتھ میں نے کیا سلوک کیا ہے ہوسکتا ہے اس کی پیروکار اور مصاحبین یہ سن کر بھڑک اٹھیں کہ اس نے میرے ساتھ شادی کرلی ہے اگر ان کا ردعمل یہ ہوا تو وہ ہم پر حملہ کر سکتے ہیں یہ سوچ لو کہ ادھر مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے اگر سجاح کے لشکر نے بھی ہم پر حملہ کردیا تو ہم پیس جائیں گے قلعہ کے دروازے دن کے وقت بھی بند رکھو
یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا مسلیمہ کا اپنا مکان تھا جو قلعے کی طرح تھا، اس نے اندر سے دروازے بند کر لئے تھے، سجاح کو اپنے یہاں رکھنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اگلے روز سجاح مسلیمہ کے قلعہ نما گھر کے دروازے پر پہنچی دروازہ بند پا کر اس نے کہا کہ مسلیمہ کو اطلاع دی جائے کہ اس کی بیوی سجاح آئی ہے مسلیمہ کو اطلاع پہنچی تو دوڑا گیا کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ وہ اگلے ہی روز اس کے پاس پہنچ جائے مسلیمہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ سجاح کے ساتھ اس کا محافظ دستہ بھی ہے
تاریخوں میں آیا ہے کہ مسلیمہ نے یہ نہ کہا کہ اسے اندر لے آؤ اور نہ وہ خود دروازے پر آیا وہ مکان کی چھت پر چلا گیا اور وہاں سے سجاح کو پکارا
دروازہ کھلواؤ سجاح نے کہا میں اندر آنا چاہتی ہوں
اس وقت تمہارا اندر آنا ٹھیک نہیں مسلیمہ نے کہا یہ بتاؤ تم کیوں آئی ہو؟
اپنا مہر مقرر کروانے کے لئے سجاح نے جواب دیا نکاح اتنی عجلت میں ہوا ہے کہ مجھے مہر مقرر کروانے کا خیال ہی نہیں رہا
تو سن لو مسلیمہ نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے پانچ نمازیں فرض کروا کے لائے تھے اب میں خدا کا رسول ہوں میں تمہیں تمہارے پیروکاروں اور تمھارے لشکر کو وہ نماز صبح اور عشاء کی تمہارے مہر میں معاف کرتا ہوں واپس جاکر منادی کرا دو کہ تم نے مہر میں دو نمازیں معاف کروائیں ہیں
سجاح واپس چل پڑی اس کے ساتھ محافظ دستے کے علاوہ اس کا مؤذن شیث بن ربیع بھی تھا تقریبا تمام مسلمان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ سجاح کے یہ مصاحب کچھ شرمسار سے تھے وہ سمجھ گئے کہ مسلیمہ نے ان کے نبی کے ساتھ بڑی ہی شرمناک سلوک کیا ہے وہ خود بھی شرمسار ہو رہے تھے سجاح کا ایک خاص مصاحب عطاء بن حاجب بھی تھا ہماری نبی ایک عورت ہے جسے ہم ساتھ لیے پھرتے ہیں عطاء بن حاجب نے کہا لیکن لوگوں کے نبی مرد ہوتے ہیں اور انہیں شرمسار نہیں ہونا پڑتا
تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسلیمہ نے علاقہ یمامہ کے محصولات سجاح کو ایک سال کے لئے دے دیے تھے لیکن مسلمانوں نے انہیں محصولات وصول کرنے کی مہلت نہ دی خالد بن ولید اپنے لشکر کے ساتھ پہنچ گئے مسلیمہ کے ساتھ نکاح کرنے سے سجاح کی قدرومنزلت اپنے پیروکاروں میں بڑی تیزی سے ختم ہو گئی تھی، بڑے اچھے اور قابل پیروکار اس کا ساتھ چھوڑ گئے
سجاح نے جب دیکھا کہ اس کے پاس لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہی تو وہ بھاگ اٹھی اور بنو تغلب میں جاپہنچیں ابن اثیر اور ابن خلدون نے لکھا ہے کہ سجاح بالکل ہی بجھ کے رہ گئی اور اس نے ایک خاموش اور گمنام زندگی کا آغاز کیا نہ اس میں انداز دلربائی رہا نہ وہ جاہ و جلال رہا یہاں تک کہ امیر معاویہ کا زمانہ آ گیا
اسی سال ایسا خوفناک قحط پڑا کہ لوگ بھوکوں مرنے لگے سجاح کا قبیلہ بنو تغلب فاقہ کشی سے گھبراکر بصرہ جا آباد ہوا سجاح بھی ان کے ساتھ تھی مسلمانوں کے سلوک اور اناج کی مساوی تقسیم سے متاثر ہوکر بنو تغلب کے تمام قبیلے نے اسلام قبول کرلیا سجاح بھی مسلمان ہو گئی اور اس نے سچے دل سے اللہ کی عبادت شروع کردی اس کے کردار میں جو ابلیسی اوصاف پیدا ہو گئے تھے وہ عبادت الہی سے دُھلنے لگے حتیٰ کہ وہ بالکل ہی متقی اور عبادت گزار بن گئی تھوڑے ہی عرصے بعد وہ بیمار پڑی اور مرگی ان دنوں ایک صحابی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بصرہ کے حاکم تھے انہوں نے سجاح کی نماز جنازہ پڑھائی تھی
سجاح پر تو اللہ نے اپنا خاص کرم کیا کہ وہ دینداری کی حالت میں مری اور اس کی عاقبت محفوظ ہوگئی، لیکن مسلیمہ کا انجام کچھ اور ہوا اس نے مسلمانوں کے خلاف بڑی خونریز لڑائیاں لڑی تھی معمر ہونے کے باوجود وہ جوانوں کی طرح لڑا تھا
آخری لڑائی میں جب اس نے دیکھا کہ خالد بن ولید کا لشکر اس کے گھر تک آ پہنچا ہے تو وہ خود ذرہ اور آہنی خود پہن کر گھوڑے پر سوار ہوا اور باہر نکلا
پہلے وہ باغ میں گیا جہاں لڑائی ہو رہی تھی پھر وہ باغ سے نکلا جونہی وہ آگے گیا ایک پرچھی اس کے سینے میں دل کے مقام پر اتر گئی
برچھی مارنے والا عرب کا مشہور برچی باز وحشی تھا اس کا نام ہی وحشی تھا اس کی برچھی بازی کا ایک کمال تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے
ایک رقاصہ کے سر پر ایک کڑا جو عورت اپنے بازو میں ڈالتی ہیں سیدھا کھڑا کر کے بالوں کے ساتھ باندھ دیا گیا اور رقاصہ ناچنے لگی اس کا جسم تھرک رہا تھا اور وہ بار بار گھومتی اور ادھر ادھر ہوتی تھی وحشی ہاتھ میں برچھی لیے رقاصہ کے بارہ چودہ قدم دور اس کی حرکت کے ساتھ حرکت کرتا کڑے کا نشانہ لینے کی کوشش کر رہا تھا کچھ دیر بعد اس نے برچھی کو ہاتھ میں تولا اور تاک کر رقاصہ کے سر پر برچھی پھینکی تھی رقاصہ اس سے بے نیاز رقص کی اداؤں میں محو تھی وحشی کی پھینکی ہوئی برچھی رقاصہ کے سر پر بندھے ہوئے کھڑے میں سے اس طرح گزر گئی کے رقاصہ کو احساس تک نہ ہوا
جنگ احد میں وحشی اہل قریش کے ساتھ تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو اسی وحشی نے پیٹ میں برچھی مارکر شہید کیا تھا اس کے بعد جب خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا تو وحشی نے بھی اسلام قبول کرلیا اور اگلے معرکوں میں تاریخ میں نام پیدا کیا، یہ سعادت اسی کے نصیب میں لکھی تھی کہ مسلیمہ کذاب جیسے بڑے ہی طاقتور جھوٹے نبی کو جہنم واصل کیا
تاریخ میں یوں آیا ہے کہ مسلیمہ کو ہلاک کرنے والے دو مجاہد تھے ایک تو وحشی تھا جس نے اسے برچھی ماری تو وہ گھوڑے سے گرا اس کے ساتھ ہی مدینہ کے ایک انصاری نے اس پر تلوار کا بھرپور وار کیا وحشی نے مسلیمہ کا سرتن سے کاٹا اور برچھی کی انی پر اڑس کر برچھی بلند کی
میں نے اُحد کا گناہ معاف کرا لیا ہے وحشی مسلیمہ کا سر پرچھی پر اٹھائے میدان جنگ میں دوڑتا اور اعلان کرتا پھر رہا تھا
بعد میں اس نے کئی بار کہا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کا افسوس اسے ہمیشہ پریشان کرتا رہا مسلیمہ کو قتل کرکے اسے احد کے افسوس اور پچھتاوے سے نجات ملی ہے
یہ تھا انجام دو جھوٹے نبیوں کا یہ ابلیس کا رقص تھا انسان جب اپنے کردار میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسے نتائج سے بے خبر کردیتا ہے انہیں پکڑنے کے لئے اللہ آسمان سے فرشتے نہیں اتارا کرتا یہ لوگ اپنے قدموں چل کر انجام کو پہنچ جایا کرتے ہیں
کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا
ہمیں مصر کے عبیدیوں سے مدد لینی پڑے گی قلعہ شاہ در میں احمد بن عطاش حسن بن صبا سے کہہ رہا تھا لیکن کسی طرح یہ یقین کرلینا بہت ہی ضروری ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے بھی یا نہیں
کیوں نہیں کریں گے ؟
حسن بن صباح نے پوچھا اور کہا وہ ہمارے ہی فرقے کے لوگ ہیں
کچھ شک والی بات ہے ابن عطاش نے کہا پہلے تو یہ جائزہ لینا ہے کہ وہ اسماعیلی ہیں یا نہیں پتہ چلا ہے کہ ظاہری طور پر وہ اسماعیلی ہیں لیکن درپردہ کوئی اپنا ہی نظریہ رکھتے ہیں
اگر یہ جائزہ لینا ہے تو مجھے مصر جانا پڑے گا حسن بن صباح نے کہا اور میں مصر چلا ہی جاؤں گا
ہاں حسن! ابن عطاش نے کہا میں تمہیں مصر بھیجوں گا ہمارا پہلا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے سلجوقیوں کا خاتمہ لازم ہے
محترم استاد! حسن بن صباح نے پوچھا میں عبیدیوں کو نہیں جانتا ان کی جڑیں کہاں ہیں؟
احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو اپنے رنگ اور اپنے انداز سے تفصیلات سنایا کہ عبیدیوں کی جڑیں کہاں ہیں اور اس فرقے نے کہاں سے جنم لیا تھا مستند مؤرخوں اور اس دور کے علماء دین کی تحریروں سے عبیدیوں کا پس منظر اور پیش منظر واضح طور پر سامنے آجاتا ہے یہ بھی اسلام پر فرقہ پرستوں کی ایک یلغار تھی
داستان گو نے پہلے کہا ہے کہ اسلام نے خصوصا اہلسنت والجماعت نے جو تیز و تند طوفان برداشت کیے ہیں وہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کر دیتے ہیں ایک تو صہیونی اور صلیبی یلغار تھی جس نے اسلام کے تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا تھا آج کے دور میں یہی یلغار ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے
یہ تو بیرونی یلغار ہے اہل اسلام کے اندر سے جو حملہ آور اٹھے ان کا ہدف اہلسنت ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے تھے لیکن ان کے عزائم اور سرگرمیاں نہ صرف غیر اسلامی یا اسلام کے منافی تھیں بلکہ اسلام کی بقا سلامتی اور فروغ کے لئے بے حد خطرناک تھیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے
عبیدیت ایسا ہی ایک فتنہ تھا جو تیسری صدی ہجری میں اٹھا، یہ اسماعیلیوں کی ایک شاخ تھی لیکن اصل میں یہ فرقہ باطنی تھا اور اس کے بانی پیشواؤں میں بھی ابلیسی اوصاف پائے جاتے تھے اللہ تبارک و تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے…
  

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:7 }
اللّٰہ تبارک و تعالٰی کا فرمان ہے
ہَلۡ اُنَبِّئُکُمۡ عَلٰی مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیۡنُ ﴿۲۲۱﴾ؕ
تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۲۲﴾ۙ
یُّلۡقُوۡنَ السَّمۡعَ وَ اَکۡثَرُہُمۡ کٰذِبُوۡنَ ﴿۲۲۳﴾ؕ
کیا میں تمہیں بتا دوں کہ کس پر اترتے ہیں شیطان اترتے ہیں بڑے بہتان والے گناہگار پر (مثل مسلیمہ وغیرہ کاہنوں کے) شیطان اپنی سنی ہوئی (جو انہوں نے ملائکہ سے سنی ہوتی ہے ) ان پر ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں (کیونکہ وہ فرشتوں سے سنی ہوئی باتوں میں اپنی طرف سے بہت جھوٹ ملا دیتے ہیں
حدیث شریف میں ہے کہ ایک بات سنتے ہیں تو سو جھوٹ اس کے ساتھ ملاتے ہیں اور یہ بھی اس وقت تک تھا جب تک کہ وہ آسمان پر پہنچنے سے روکے نہ گئے تھے
عبیدی فرقہ کا بانی عبیداللہ تھا جس کے متعلق پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ کوفہ کا رہنے والا تھا اور کچھ نہیں لکھا ہے کہ وہ حمص کے علاقے کے ایک گاؤں مسلمیہ کا رہنے والا تھا اس کے باپ کا نام محمد حبیب تھا اور وہ اپنے قبیلے کا سرکردہ فرد تھا
محمد حبیب کو ایک خواہش پریشان رکھتی تھی وہ عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکا تھا ،اس کا بیٹا عبیداللہ جوان ہو گیا تھا اور وہ دیکھ رہا تھا کہ عبیداللہ میں ایسے ابلیسی اوصاف پائے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتا ہے اس کی خواہش یہ تھی کہ تھوڑے سے علاقے میں اس کی اپنی سلطنت قائم ہو جائے
محمد حبیب نے اعلان کردیا کہ اس کا بیٹا مہدی آخر الزماں ہے یہ بڑی لمبی داستان ہے کہ عبیداللہ اور اسکے باپ نے کیسے کیسے ڈھنگ کھیل کر اور کیسی کیسی فریب کاریوں سے اپنے پیروکار بنا لیے اور ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی
عبیداللہ نے 270 میں مہدویت کا اعلان کیا تھا اور اس نے اپنے فرقے کو فرقہ مہدویہ کا نام دیا تھا اس نے 278 ہجری میں حج کیا اور وہاں اپنے مہدی موعود ہونے کا پروپیگنڈہ ایسے انداز سے کیا کہ بنو کنانہ کے پورے قبیلے نے اسے امام مہدی تسلیم کر لیا
محمد حبیب نے اپنے بیٹے کو مہدی تسلیم کرانے کے لئے قبیلوں کے سرداروں کو بڑی خوبصورت لڑکیوں اور سونے چاندی کے انعامات کے ذریعے بھی پھانسا تھا جب اس فرقے کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو مہدیوں نے خفیہ اور پراسرار قتل کا سلسلہ شروع کردیا قتل اہلسنت کے علماء کو کیا جاتا تھا اور پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ قاتل کون ہے؟
چونکہ اس فرقے کی مخالفت اہلسنت کی طرف سے ہوتی تھی اس لئے وہی قتل ہوتے تھے جہاں کہیں سے بھی مخالفانہ آواز اٹھتی تھی وہاں کے چیدہ چیدہ آدمی ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہو جاتے تھے
تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ ایک روز ایک سرکردہ فرد ابن طباءالباعلوی عبیداللہ سے ملنے گیا عبیداللہ دربار لگائے بیٹھا تھا وہاں کچھ امراء بھی تھے اور عام حاضرین کی تعداد خاصی تھی
آئے عبیداللہ علوی نے کہا میں تجھے مہدی آخر زماں تسلیم کرلونگا پہلے تو یہ بتا کہ تیرا حسب ونسب کیا ہے اور کونسا قبیلہ تیری پہچان ہے؟
عبیداللہ نے اپنی نصف تلوار نیام سے کھینچی اور بولا یہ ہے میرا نصب پھر وہ ایک تھیلی میں ہاتھ ڈال کر سونے کی بہت سی اشرفیاں نکال کر دربار کے حاضرین کی طرف پھینک کر بولا۔۔۔ اور یہ ہے میرا حسب
درباری اشرفیوں پر ٹوٹ پڑے ابن طباءالبا علوی وہاں سے چپ چاپ باہر نکل گیا
یہ تھی عبیداللہ کی کامیابی کی اصل وجہ اس کے علاوہ اس نے اس قسم کے عقیدے رائج کر دیے کہ ایک آدمی بیک وقت اٹھارہ عورتوں کے ساتھ شادی کرسکتا ہے جبکہ اسلام نے صرف چار بیویوں کی اجازت دی تھی اور وہ بھی مخصوص حالت میں اس کا دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ حکومت کا جو سربرا ہو اور مذہب کا جو امام ہو وہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے اور اس سے اس کے اعمال پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ امام کسی عورت سے یہ کہہ دے کہ تم فلاں کی بیوی ہو تو اس عورت پر یہ فرض ہوجاتا تھا کہ وہ اس کی بیوی بن جائے
اس قسم کے عقائد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبیداللہ نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لئے ان کے دل پسند عقائد تخلیق کیے تھے
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ عبیداللہ کے عروج و زوال کی داستان بہت لمبی ہے اسے اختصار سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ جو اصل داستان ہے اس کی طرف پوری توجہ دی جاسکے عبیداللہ کے باپ محمد حبیب نے سوچا کہ اپنی سلطنت قائم کرنے کے لیے کوئی ایسا آدمی چاہیے جو ذہنی طور پر بہت ہی ہوشیار ہو اور فریب کاریوں میں خصوصی مہارت رکھتا ہو
اسے عبیداللہ کے پیروکار میں سے ایک شخص بہت ہی ذہین ہوشیار اور چالاک نظر آیا اس کا نام ابو عبداللہ تھا محمد حبیب نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا اور اسے اپنے ڈھنگ کی ٹریننگ دینے لگا پھر اسے بتایا کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے
ابوعبداللہ اپنے ایک بھائی ابو عباس کو بھی ساتھ لے آیا اور انہوں نے ایک منصوبہ تیار کر لیا
عبیداللہ نے باقاعدہ فوج تیار شروع کردی ابوعبداللہ حج پر گیا اور وہاں ایسی اداکاری کی کہ لوگوں نے اسے بہت بڑا عالم سمجھ لیا وہاں سے اسے بہت زیادہ حمایت ملی
سلطنت قائم کرنے کے لئے ان لوگوں نے سوچا کہ شمالی افریقہ بڑی اچھی جگہ ہے وہ بربروں کا علاقہ تھا بربر ضعیف الاعتقاد تھے اور جنگجو بھی تھے مختصر یہ کہ ابو عبداللہ اور ابو عباس شمالی افریقہ گیا اور وہاں لوگوں کو سبز باغ دکھا دکھا کر ایک فوج بنالی یہ سب لوگ مال غنیمت کے لالچ میں ان بھائیوں کے ساتھ ہو گئے بہرحال انہوں نے وہاں ایک اپنی سلطنت قائم کر لی
عبیداللہ بھی وہاں چلا گیا یہ شخص مکمل طور پر ابلیس بن چکا تھا اس نے ابو عبداللہ اور ابو عباس کی کوششوں سے بنی ہوئی سلطنت پر قبضہ کرلیا اور وہاں باقاعدہ حاکم بن گیا دونوں بھائی اس کے خلاف ہو گئے ابوعباس تو صاف کہنا شروع کردیا کہ عبیداللہ مہدی نہیں ہے وہاں کے ایک شخص نے جو شیخ المشائخ تھا عبیداللہ سے کہا کہ وہ اگر مہدی ہے تو کوئی معجزہ دکھائے عبیداللہ نے تلوار نکالی اور اس عالم دین کی گردن کاٹ دی
ابو عبداللہ اور ابو عباس نے یہ اسکیم بنائی کے عبیداللہ کو قتل کر دیا جائے اس محفل میں جس میں یہ اسکیم بنی تھی عبیداللہ کے جاسوس بھی موجود تھے یہ فیصلہ ایک بڑے ہی طاقتور ابوزاکی کہ گھر میں ہوا تھا
عبیداللہ نے ابو زاکی کو طرابلس کا گورنر بنا کر بھیج دیا اور اس کے ساتھ ہی وہاں اپنے آدمی درپردہ بھیجے انہیں یہ کام سونپا کہ طرابلس میں ابوزاکی کو اس کے کمرے میں جب وہ سویا ہوا ہو قتل کر دیا جائے
عبیداللہ کے حکم کی تعمیل ہوئی ابوزاکی گورنر تھا وہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ جس عبیداللہ نے اسے یہ رتبہ دیا ہے وہ اسے قتل بھی کرا دے گا وہ سکون اور اطمینان سے سو گیا پھر کبھی بھی نہ جاگا اس کے محافظ دستے میں سے ایک آدمی اس کے کمرے میں گیا اور اس کا سر اس کے جسم الگ کر دیا اور پھر اس کا سر عبیداللہ کے پاس بھیج دیا اس کے بعد عبیداللہ نے اسی طرح ابو عبداللہ اور ابو عباس کو بھی قتل کروا دیا
انہیں بھائیوں نے یہ سلطنت قائم کی تھی
عبیداللہ نے اپنی بیعت کے لئے ہر طرف مبلغ پھیلا دئیے لیکن بہت کم لوگوں نے اس کی طرف دھیان دیا بلکہ مخالفت شروع ہوگئی عبیداللہ نے قتل و غارت کا طریقہ اختیار کرلیا اہل سنت کے علماء کو سب سے پہلے قتل کیا گیا پھر جہاں کہیں اشارہ ملتا کہ یہ گھر اہلسنت کا ہے اس گھر کے تمام افراد کو قتل کر دیا جاتا ان کا مال و اسباب عبیداللہ کے پیروکاروں میں تقسیم کردیا جاتا وہ دراصل اسماعیلیت کی تبلیغ کر رہا تھا جو شخص اس کے زیادہ سے زیادہ مرید بناتا تھا اسے وہ جاگیر عطا کرتا اور بعض کو اس نے زرو جواہرات سے مالامال کردیا
عبیداللہ نے طاقت جمع کرکے مصر پر حملہ کیا ایک ہی معرکے میں سات ہزار عبیدی مارے گئے لیکن عبیداللہ نے ہمت نہ ہاری ایک بار اس کے لشکر میں کوئی ایسی وبا پھوٹ پڑی کے انسان اور گھوڑے مرنے لگے عبیداللہ نے کچھ عرصے کے لئے مصر کی فتح کا ارادہ ترک کردیا آخر 356 ہجری میں اس نے مصر فتح کر لیا ،مصر کے سب سے بڑے شہر قاہرہ کی بنیاد اسی نے رکھی تھی عبیداللہ تو مر گیا اس کا خاندان 567 ہجری تک مصر پر حکومت کرتا رہا حسن بن صباح کے دور میں عبیدی ہی مصر پر حکومت کر رہے تھے تاریخوں میں لکھا ہے کہ تاتاریوں نے بغداد میں مسلمانوں کا اتنا قتل عام نہیں کیا تھا جتنا عبیداللہ نے اہلسنت کا کیا
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرستی کے ایک اور فتنے کا ذکر کردیا جائے اس فرقے کا نام قرامطی تھا اور اس کا بانی ابو طاہر سلیمان قرامطی تھا اس کا باپ ابوسعید جنابی 301 ہجری میں اپنے ایک خادم کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا ابو طاہر قرامطی بھائیوں میں چھوٹا تھا اس میں حسن بن صباح والے اوصاف موجود تھے اس نے اپنے بڑے بھائی سعید پر ایسے ظلم و ستم کئے کہ اسے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مفلوج کردیا اور خود باپ کا جانشین بن گیا
اس خاندان کی اپنی ایک سلطنت تھی جس میں طائف بحرین،اور ہجر جیسے اہم مقامات شامل تھے ابو طاہر نے نبوت کا اعلان کردیا اس شخص کے متعلق بھی مورخوں نے لکھا ہے کہ اسلام اور اہلسنت کے لئے تاتاریوں اور عبیداللہ سے بھی زیادہ خطرناک قاتل ثابت ہوا دس سال تک ابوطاہر اپنی نبوت کی تبلیغ کرتا رہا اور فوج بھی تیار کرتا رہا اس کا ارادہ بصرہ کو فتح کرنے کا تھا آخر ایک رات اس نے ایک ہزار سات سو آدمی اپنے ساتھ لئے اور بصرہ پر حملہ کر دیا وہ اپنے ساتھ بڑی لمبی لمبی سیڑھیاں لے گیا تھا
یہ سیڑھیاں شہر پناہ کے ساتھ لگا کر حملہ آور اوپر گئے اور شہر میں داخل ہو گئے حملہ غیر متوقع اور اچانک تھا ابو طاہر کے آدمیوں نے شہر کی سوئی ہوئی مختصر سی فوج کو قتل کرنا شروع کردیا لوگ باہر کو بھاگنے لگے ابو طاہر کے حکم سے شہر کے دروازے کھول دیے گئے اور لوگ کھلے دروازوں کی طرف بھاگے ہر دروازے کے ساتھ قرامطی کھڑے تھے انہوں نے لوگوں کا قتل عام شروع کردیا عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر الگ ساتھ لے گئے تمام گھروں اور سرکاری خزانے میں لوٹ مار کی اور اس طرح بصرہ شہر کو تباہ وبرباد کر کے اور اس کی گلیوں میں خون کے دریا بہا کر قرامطی اپنے مرکزی شہر ہجر کو چلے گئے
اسی سال ابو طاہر نے حاجیوں کے قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کردیا قرامطی صرف لوٹ مار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ قتل عام بھی کرتے تھے انہوں نے حج سے واپس آنے والے حاجیوں کو لوٹ کر قتل کیا اس طرح ہزارہا حاجی شہید ہو گئے
خلیفہ وقت نے قرامطیوں کی سرکوبی کے لیے لشکر بھیجے قرامطی اتنی طاقتور ہو چکے تھے کہ انہوں نے ہر جگہ خلیفہ کے لشکر کو شکست دی اور شہروں میں داخل ہو کر شہریوں کا قتل عام کیا خلیفہ اپنے لشکر کو کمک بھیجتا رہا لیکن ابو طاہر کا لشکر اتنا تیز اور ہوشیار تھا کہ وہ خلیفہ کے لشکر کے ہاتھ نہیں آتا تھا قرامطیوں میں سرفروشی اور جاں نثاری اس وجہ سے تھی کہ ابو طاہر تمام مال غنیمت ان کے حوالے کر دیتا تھا اور شہروں سے جتنی جوان عورتیں پکڑی جاتی تھیں وہ بھی انہی کو دے دیتا تھا لشکر کو شراب پینے کی کھلی اجازت تھی حادثہ یہ کہ قرامطی اپنے آپ کو اہل اسلام کہتے تھے اور ابو طاہر نبی بنا ہوا تھا
مسلمانوں یعنی اہلسنت کی کمزوری یہ تھی کہ خلافت خلفائے راشدین جیسی مخلص اور دیندار نہیں تھی خلافت اقتدار کی کرسی یا شہنشاہیت کا تخت بن گئی تھی خلافت کے لشکر میں خلفاء راشدین کے دور والا جذبہ اور اللہ کی راہ میں شوق شہادت نہیں رہا تھا ایک وہ وقت تھا کہ مجاہدین کے چالیس ہزار کے لشکر نے آتش پرستوں کے ایک لاکھ 20ہزار کے طاقتور لشکر کو ہر میدان میں شکست دے کر سلطنت فارس کو ختم کر دیا تھا مگر اب خلیفہ کے دس ہزار فوجی ایک ہزار قرامطیوں پر غالب آنے سے معذور تھے
ابلیسی طاقتیں اسلام کا قلعہ قمع کرنے کے لئے تیز و تند طوفان کی طرح اٹھ آئی تھیں
یہاں بھی ابلیس کا رقص دیکھئے
ابو طاہر نے شہر ہجر کو اپنا دارالحکومت بنایا اور وہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کروائی اس کا نام دارالہجرت رکھا گیا جب مسجد مکمل ہوگئی تو ابو طاہر قرامطی اسے دیکھنے کے لئے اندر آیا
میرے قرامطیوں اس نے ممبر پر کھڑے ہو کر اعلان کیا اصل اسلام کے علمبردار تم ہو وہ مسلمان نہیں جو قرامطی نہیں اور جو مجھے نبی نہیں مانتا
خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اب حج مکہ میں نہیں یہاں ہجر میں ہوا کرے گا اس کے لیے ضروری ہے کہ حجر اسود کو مکہ سے اٹھا کر یہاں اس مسجد میں رکھا جائے
ہم تیرے شیدائی ہیں ایک آدمی نے اٹھ کر کہا ہمیں یہ بتا کہ وہ پتھر جسے ہم حجراسود کہتے ہیں یہاں کس طرح لایا جائے گا؟
اہلسنت ہمیں یہ پتھر اٹھانے کی ہمت نہیں کرنے دیں گے پھر ہم کیا کریں گے؟
کیا تمہاری تلواریں کُند ہو گئی ہیں؟
ابو طاہر نے کہا ہم نے کہاں کہاں اہلسنت کا خون نہیں بہایا کیا تم کھانا کعبہ میں ان منکروں کا خون بہانے سے گریز کرو گے ہم اس سال حج کے موقع پر مکہ جائیں گے اور خانہ کعبہ کی وہ حاجت پوری کر دیں گے کہ اہلسنت آئندہ مکہ کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں
319 ہجری میں ابو طاہر قرامطی نے مکہ معظمہ کا رخ کیا حاجی وہاں پہنچ چکے تھے بلکہ وہ بیت اللہ کے طواف میں مصروف تھے بعض نماز پڑھ رہے تھے ابو طاھر سب سے پہلے گھوڑے پر سوار تلوار ہاتھ میں لئے مسجد حرام میں داخل ہوا اس نے شراب منگوائی اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے شراب پی
مورخ لکھتے ہیں کہ جب ابو طاہر گھوڑے پر بیٹھا شراب پی رہا تھا اس کے گھوڑے نے مسجد میں پیشاب کردیا
دیکھا تم سب نے ابو طاہر نے قہقہہ لگا کر کر بڑی بلند آواز سے کہا میرا گھوڑا بھی مجھے اور میرے عقیدے کو سمجھتا ہے
مسجد حرام میں کچھ مسلمان موجود تھے انہوں نے شور شرابہ کیا ادھر سے حجاج دوڑے آئے وہ سب نہتے تھے اور سب نے احرام باندھ رکھے تھے ابو طاہر کے اشارے پر قرامطیوں نے ان کا قتل عام شروع کردیا
وہاں سے ابو طاہر خانہ کعبہ میں گیا اور وہاں بھی حجاج کا قتل عام شروع کر دیا ابو طاہر کے حکم سے خانہ کعبہ کا دروازہ اکھاڑ دیا گیا
میں خدا ہوں ابو طاہر نے جو گھوڑے پر سوار تھا متکبرانہ اعلان کیا اور خدا میری ذات میں ہے تمام خلقت پر میری بندگی فرض ہے پھر اس نے کہا آئے گدھوں تمہارا قرآن کہتا ہے کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے اسے امن مل جاتا ہے کہاں ہے وہ امن؟
میں نے جسے چاہا زندہ رہنے دیا اور جسے چاہا اسے خون میں نہلا دیا
ایک حاجی آگے بڑھا اور اس نے ابو طاہر کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی
اے منکر دین اس شخص نے ابوطاہر سے کہا تو نے قرآن کی یہ آیت غلط پڑی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے اسے امن دو اور اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤ
اس شخص کے عقب سے ایک تلوار حرکت میں آئی اور اس کا سر کٹ کر دور جا پڑا
ابو محلب امیر مکہ تھا اسکے پاس اتنی فوج نہیں تھی کہ وہ قرامطیوں کا مقابلہ کرتا وہ اپنی چند ایک آدمیوں کو لے کر ابو طاہر کے پاس گیا یہ سب لوگ تلواروں سے مسلح تھے ابو محلب نے ابو طاہر سے کہا کہ وہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور مسلمان بھی لیکن وہ خدا کے اس گھر کی اس طرح بے حرمتی کر رہا ہے
حجاج کے قتل سے ہاتھ کھینچ لے ابوطاہر ابو مہلب نے کہا اللہ کے عذاب سے ڈر کہیں ایسا نہ ہو کہ تجھے اسی دنیا میں اسکی سزا مل جائے
اس شخص کو عذاب الہی دکھا دو ابو طاہر نے بلند آواز سے کہا بہت سے قرامطی ابو محلب اور اس کے آدمیوں پر ٹوٹ پڑے ابو محلب اور اس کے آدمیوں نے جو سب کے سب تلواروں سے مسلح تھے جم کر مقابلہ کیا لیکن وہ اتنے تھوڑے تھے کہ اتنی زیادہ آدمیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے
کعبہ معلّٰی کے اوپر میزاب نصب تھا جو سونے سے مرصع تھا ابو طاہر نے حکم دیا کے اوپر چڑھ کر میزاب اتار کر اس کے گھوڑے کے قدموں میں رکھا جائے
ایک قرامطی کعبٰ اللہ پر چڑھا تاریخ میں ایک شخص محمد بن ربیع بن سلیمان کا نام آیا ہے وہ دور کھڑا دیکھ رہا تھا اس نے بعد میں مسلمانوں کو بتایا کہ جب قرامطی کعبہ معلیٰ پر چڑھا تو محمد بن ربیع نے ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا یا اللہ تیری بردباری کی کوئی حد نہیں کیا تیری ذات باری اس شخص کو بھی بخش دے گی؟
محمد بن ربیع نے لوگوں کو بتایا کہ وہ قرامطی جو کعبہ معلٰی پر چڑھ گیا تھا نہ جانے کیسے اوپر سے سر کے بل گرا اور گرتے ہی مر گیا محمد بن ربیع کا ہی بیان ہے کہ ابو طاہر نے بڑے غصے میں ایک اور قرامطی کو کعبہ پر چڑھنے کا حکم دیا، یہ آدمی اوپر پہنچنے والا ہی تھا کہ اس کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ بھی سر کے بل گر پڑا اور مر گیا
ابو طاہر اور زیادہ غصے میں آگیا اس نے ایک اور قرامطی کو حکم دیا کہ وہ اوپر جائے تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ تیسرا شخص ایسا خوف زدہ ہوا کہ اوپر چڑھنے کی بجائے ایک ہی جگہ کھڑا تھر تھر کانپنے لگا اور اچانک باہر کی طرف بھاگ گیا
ابو طاہر پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس پر خاموشی طاری ہو گئی کچھ دیر کعبہ معلٰی کو دیکھتا رہا صاف پتا چلتا تھا کہ اس کے خیالوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے لیکن ابلیس کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ وہ اچانک آگ بگولہ ہو گیا اس نے حکم دیا کہ غلاف کعبہ کو کھینچ کر اس کے چھوٹے تھے ٹکڑے کردیئے جائیں
قرامطی غلاف کعبہ پر ٹوٹ پڑے اور تلواروں سے غلاف کعبہ کو کاٹ کاٹ کر اس کے ٹکڑے سارے لشکر میں تقسیم کردیئے
ابو طاہر نے بیت اللہ کا سارا خزانہ اپنے قبضے میں لے لیا
جو حجاج قتل عام سے بچ گئے تھے انہوں نے بغیر امام کے حج کا فریضہ ادا کیا
ابوطاہر حجر اسود کو اپنے دارالحکومت ہجر لے جانا چاہتا تھا
رات کا وقت تھا بچے کھچے حجاج ابھی وہیں تھے کسی ذریعے سے انہیں پتہ چل گیا کہ ابوطاہر حجر اسود اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے
حجاج کے جذبہ کو دیکھئے انہوں نے رات ہی رات اتنے وزنی پتھر کو وہاں سے اٹھایا اور مکہ کی گھاٹیوں میں لےجاکر چھپا دیا یہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا ایک تو پتھر بہت وزنی تھا اور دوسرے جان کا خطرہ بھی تھا وہاں ہر طرف قرامطی موجود تھے وہ دیکھ لیتے تو ان تمام حجاج کے جسموں کے ٹکڑے اڑا دیتے ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پتھر اٹھا لے جانا اور غائب کر دینا ایک معجزہ تھا
صبح طلوع ہوئی ابو طاہر پھر خانہ کعبہ میں آن دھمکا اور حکم دیا کہ حجر اسود اٹھا لو
پتھر وہاں نہیں ہے کسی قرامطی نے پتھر کی جگہ خالی دیکھ کر ابو طاہر سے کہا
وہ بہت وزنی پتھر تھا ابو طاہر نے کہا مجھے مت بتاؤ کہ کوئی انسان اسے اٹھا کر لے گیا
اس کے کانوں سے پھر یہی آواز ٹکرائی کے پتھر وہاں نہیں ہے تب اس نے خود جا کر دیکھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پتھر وہاں نہیں ہے اس نے قہر و غضب سے حکم دیا کے پتھر کو تلاش کیا جائے حجاج وہاں سے جانے کی تیاریاں کر رہے تھے اور کچھ جا بھی چکے تھے قرامطیوں نے چند ایک حجاج سے پوچھا کہ پتھر کہاں ہے جس کسی نے لاعلمی کا اظہار کیا اسے قتل کر دیا گیا
تلاش کرتے کرتے پتھر مل گیا ابو طاہر نے اسی وقت پتھر ایک اونٹ پر لدوایا اور ہجر کی طرف روانگی کا حکم دیدیا
یہ واقعہ بروز دو شنبہ ذوالحجہ 317 ہجری کا ہے
ابو طاہر نے چشمہ زمزم کی جگہ کو بھی مسمار کروا دیا بعض مورخ لکھتے ہیں کہ وہ چھ دن مکہ معظمہ میں رہا اور بعض نے گیارہ دن لکھے ہیں
یہ وہ دور تھا جب مصر میں عبیداللہ کا طوطی بول رہا تھا اور وہ مہدی موعود بنا ہوا تھا وہ اس کے عروج کا زمانہ تھا عجیب بات ہے کہ ابو طاہر قرامطی بھی اس کے اس دعوے کو تسلیم کرتا تھا کہ وہ مہدی آخرالزّماں ہے ہوسکتا ہے وہ عبیداللہ کی طاقت سے ڈرتا ہو اور اسے خوش رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہو سکتا تھا کہ وہ اسے مہندی آخرالزّماں مان لے
ابو طاہر نے حجر اسود کو مکہ سے لاکر اپنی بنائی ہوئی مسجد دار الہجرۃ کے غربی جانب رکھا اور عبیداللہ کے نام ایک پیغام لکھوا کر بھیجا اس میں اس نے عبیداللہ کو لکھوایا کہ میں نے حکم دیا ہے کہ خطبے میں آپ کا نام لیا جائے میں نے اپنی سلطنت میں آپ کے نام کا خطبہ جاری کردیا ہے
اس نے اس پیغام میں عبیداللہ کی عقیدت کا اظہار بڑے جذباتی انداز میں کیا اور پھر لکھا کہ اس نے مکہ میں کس طرح تباہی مچائی ہے اور خانہ کعبہ کے اندر اور مکہ کی گلیوں میں اہل سنت کے خون کی ندیاں بہا دی ہیں اس نے اس پیغام میں اہلسنت کو اہل فساد اور اہل ذلت لکھا
اسے توقع تھی کہ عبیداللہ اس کے اس پیغام سے بہت خوش ہوگا ،لیکن اس کا قاصد پیغام کا جواب لے کر آیا تو ابو طاہر حیران رہ گیا عبیداللہ نے لکھا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری ان بد اعمالیوں پر تمہیں خراج تحسین پیش کروں تو نے خانے کعبہ کی توہین کی اور اتنی مقدس جگہ میں مسلمانوں کا خون بہایا نہ جانے کہاں کہاں سے جو حجاج آئے تھے انہیں قتل کیا اور پھر حجر اسود کو اکھاڑ کر لے گیا تو نے یہ بھی نہ سوچا کہ حجراسود اللہ کی کتنی بڑی امانت ہے جسے ایک جگہ سنبھال کر رکھا گیا تھا جماعت عبیدیہ تجھ پر کفر اور الحاد کا فتویٰ عائد کرتی ہے ہم تمھیں کوئی انعام نہیں دے سکتے
ابو طاہر نے یہ پیغام پڑھا تو آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ کوئی قرامطی عبیداللہ کو مہدی آخرالزماں نہ مانے
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
پورے دس سال—- 317 ہجری سے 327 ہجری تک—- فریضہ حج ادا نہ کیا جا سکا۔ کوئی بھی حج کعبہ کو نہ گیا ،اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حج کو جانے والے قرامطیوں سے ڈرتے تھے اور دوسری یہ کہ وہاں اب حجراسود نہیں تھا ،ایک شخص ابو علی عمر بن یحییٰ علوی ابو طاہر کا گہرا دوست تھا ایک روز وہ ابو طاہر کے پاس گیا۔
غور کرو ابوطاہر!،،،، ابو علی عمر نے کہا ۔۔۔دس سالوں سے حج بند ہے، اس کی وجہ تم خوب جانتے ہو، صرف تمہارے ظلم و تشدد کی وجہ سے مسلمان فریضہ حج ادا نہیں کرسکتے، اس کے نتیجے میں لوگ تمہاری عقیدت سے منحرف ہوتے چلے جا رہے ہیں، میں نے سوچا ہے کہ حج کرنے والوں کو امن کا یقین دلاؤ اور ان پر محصول مقرر کر دو، پانچ دینار فی اونٹ محصول وصول کرو۔
ابو طاہر کو یہ تجویز اچھی لگی اس سے ایک تو اس کی ساکھ بحال ہوتی تھی، اور دوسرے اسے بےشمار رقم محصول کے ذریعے حاصل ہو رہی تھی ،اس نے ہر طرف قاصد دوڑا دیے کہ وہ اعلان کرتے جائیں کہ آئندہ حج پر کوئی مداخلت نہیں ہوگی، اور حجاج کو امن کی ضمانت دی جاتی ہے، اس نے محصول کا اعلان بھی کروایا۔
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ خلیفہ کے حاجب محمد بن یعقوب نے بھی ابو طاہر کو لکھا تھا کہ حجاج پر ظلم و تشدد چھوڑ دو، اور حجراسود واپس کردو ،اس نے یہ فیصلہ کیا کہ جو علاقہ اس وقت تمہارے قبضے میں ہے وہ تمہارا ہی رہے گا اور اس سلسلے میں تمہیں خلافت اپنا دشمن نہیں سمجھے گی۔
ابو طاہر نے اس کے جواب میں یہ یقین دہانی کرا دی کہ آئندہ قرامطی فریضہ حج کی ادائیگی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے، لیکن ابو طاہر نے حجر اسود واپس دینے سے انکار کر دیا ،ابو طاہر نے جو محصول نافذ کیا تھا یہ دراصل آج کے دور کا جگا ٹیکس تھا، خلافت اتنی کمزور تھی کہ وہ ابو طاہر کا ہاتھ روکنے سے قاصر تھی۔
ابو طاہر کو توقع تھی کہ لوگ حجر اسود کی خاطر ہجر آئیں گے اور پھر آہستہ آہستہ حج ہجر میں ہی ہوا کرے گا ،لیکن کوئی بھی اہل سنت ان دس سالوں میں وہاں نہ گیا ، خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر کو پچاس ہزار درہم پیش کئے کہ اس رقم کے عوض حجر اسود واپس کر دے، لیکن ابو طاہر نے صاف انکار کر دیا۔
اس کے بعد خلیفہ مطیع باللہ کچھ عرصے بعد مسند خلافت پر آیا تو اس نے تیس ہزار دینار ابو طاہر کو پیش کئے کہ وہ حجر اسود واپس کر دے، ابو طاہر نے یہ سودا قبول کرلیا ،صرف ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ابو طاہر نے حجر اسود اللہ کے نام پر واپس کیا تھا اور لیا کچھ بھی نہیں تھا، یہ تحریر اس وجہ سے مشکوک لگتی ہے کہ یہ بیان ایسے شخص کا ہے جو اسماعیلی تھا۔
10محرم 339 ہجری ابو طاہر کا ایک آدمی جس کا نام شبیر بن حسین قرامطی تھا حجراسود لے کر مکہ مکرمہ پہنچا دن شنبہ تھا، اسی روز حجراسود کو اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا جہاں سے اسے اکھاڑا گیا تھا ،خلیفہ نے اس کے اردگرد چاندی کا حلقہ چڑھوادیا اس چاندی کا وزن 14 سیر تھا ،حجر اسود چار روز کم 22 سال ابو طاہر قرامطی کے قبضے میں رہا۔
اللہ کی کرامت ملاحظہ فرمائیں
جب حجر اسود مکہ سے ہجر لے جایا گیا تھا تو اس کے وزن کے نیچے چالیس اونٹ اس سفر کے دوران مر گئے تھے وہ اس طرح کہ پہلے یہ پتھر ایک اونٹ پر لادا گیا وزن خاصا زیادہ تھا جو یہ اونٹ کچھ فاصلے تک ہی برداشت کر سکا آخر یہ اونٹ بیٹھ گیا اور پھر ایک پہلو پر لیٹ گیا اور مر گیا پھر یہ دوسرے اونٹ پر لادا گیا یہ اونٹ بھی کچھ فاصلے طے کرکے گرا اور مر گیا اسی طرح چالیس اونٹ اس پتھر تلے مرے اور پتھر ہجر تک پہنچا لیکن یہی پتھر جب ہجر سے مکہ کو واپس لایا گیا تو صرف ایک اونٹ وہاں سے مکہ تک لے آیا پتھر کا وزن اتنا ہی تھا اور اسے لانے والا اونٹ کوئی غیرمعمولی طور پر طاقتور نہ تھا یہ خدا کا ہی معجزہ تھا اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں اس پتھر کی اہمیت اور تقدس کتنا زیادہ ہے
اللہ نے ابو طاہر کو بڑی لمبی رسی دی تھی حجر اسود کی واپسی کے بعد یہ رسی ختم ہو گئی حجر اسود مکہ معظمہ پہنچا اور ادھر ابو طاہر چیچک کے مرض میں مبتلا ہو گیا ،مورخ لکھتء ہیں کہ وہ اس مرض میں بہت دن زندہ رہا لیکن اس کی حالت جو کوئی بھی دیکھتا تھا وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا اور وہاں سے بھاگاتا بعض عقل والے قرامطی اس کی یہ حالت دیکھ کر تائب ہوگئے اور اہلسنت کے عقیدے میں واپس آگئے
ابوطاہر چیختا اور چلاتا تھا اور ایک روز اس کی چیخیں اور اس کا تڑپنا بند ہو گیا اور وہ اپنے پیچھے اپنے گھر میں اپنے گلے سڑے جسم کی بدبو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا
آج بھی کہیں کہیں قرامطی پائے جاتے ہیں۔ کسی وقت انہوں نے ملتان کو اپنا مرکز بنالیا تھا سلطان محمود غزنوی نے جب اپنے ایک حملے کے دوران ملتان پر چڑھائی کی تھی تو اسے پتہ چلا تھا کہ یہاں اکثریت قرامطیوں کی ہے محمود غزنوی خود ایک سپاہی کی طرح لڑا تھا محمود غزنوی کے عتاب کا یہ عالم تھا کہ سارا دن تلوار چلاتا رہا اور اس کی تلوار کے دستے پر اتنا خون جم گیا تھا کہ اس کا دایاں ہاتھ بڑی مشکل سے تلوار کے دستے سے اکھاڑا گیا تھا ،ملتان کی گلیوں میں بارش کے پانی کی طرح خون بہنا شروع ہو گیا تھا محمود غزنوی نے قرامطیوں کا خاتمہ کردیا تھا، اور قرامطیوں نے اہلسنت کا جو خون بہایا تھا اس کا انتقام لے لیا تھا، اس کے بعد کم از کم ملتان میں قرامطی پھر کبھی نہ اٹھ سکے
حسن بن صباح قلعہ شاہ در میں احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا تھا احمد بن عطاش جس طرح اس قلعے کا والی بنا تھا وہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے وہ حسن بن صباح کو بتا چکا تھا کہ اس نے اس قلعے پر کس طرح قبضہ کیا ہے
لیکن حسن ابن عطاش نے کہا لوگ کہتے ہونگے کہ احمد بہت بڑا فریب کار تھا جو قلعے کا والی بن گیا ہے میں کہتا ہوں کہ جو طاقت تم میں ہے وہ مجھ میں نہیں ہے تم ان چند ایک لوگوں میں سے ہو جنہیں خدا ایک خاص طاقت دے کر دنیا میں بھیجتا ہے میں نے تمہیں عبید اللہ کی بات سنائی ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا صرف اس کا باپ تھا جس نے اس کی پشت پناہی کی تھی دیکھ لو وہ مصر کا حکمران بنا اور آج بھی مصر عبیدیوں کے قبضے میں ہے ابو طاہر قرامطی بیوقوف آدمی تھا وہ اپنی عقل کی حدود سے آگے نکل گیا تھا
استاد محترم حسن بن صباح نے کہا یہ تو میں جانتا ہوں کہ مجھ میں کوئی مافوق الفطرت طاقت ہے لیکن مجھے ایسی رہنمائی کی ضرورت ہے جس سے میں جان سکو کے یہ طاقت کیا ہے اور اسے کس طرح استعمال کروں ؟
وہ طاقت تم اپنے ساتھ لے آئے ہو ۔۔۔احمد ابن عطاش نے کہا
وہ تو میں جانتا ہوں حسن بن صباح نے کہا وہ میرے اندر موجود ہے
نہیں حسن احمد بن عطاش نے کہا میں تمہارے اندر کی طاقت کی بات نہیں کر رہا، میں اس لڑکی کی بات کر رہا ہوں جو تمہارے ساتھ آئی ہے، کیا نام ہے اس کا؟
فرح کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم اس لڑکی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے؟
ہاں استاد محترم حسن بن صباح نے کہا میں اس لڑکی کے بغیر نہیں رہ سکتا
کہتے ہیں عورت مرد کی بہت بڑی کمزوری ہے احمد بن عطاش نے کہا وہ غلط نہیں کہتے حسین عورت بہت بڑی طاقت ہے دلکش عورت ایک نشہ ہے عورت کی دلربائی نے پتھر دل بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں، تم اس طاقت کو استعمال کرو گے
میں نے تمہیں سجاح بن حارث اور مسلیمہ کی کہانی سنائی ہے، سجاح نے اتنا بڑا لشکر کس طرح اکٹھا کر لیا تھا، اس نے کی قبیلوں کے سرداروں کو کس طرح اپنا پیروکار بنا لیا تھا صرف اس لیے کہ وہ حسین عورت تھی وہ نشہ بن کر آدمی پر طاری ہو جاتی تھی
لیکن استاد محترم حسن بن صباح نے مسکرا کر کہا وہ تو ایک مرد سے مار کھا گئی تھی
نہیں حسن احمد بن عطاش میں کہا مسلیمہ نے اسے تین روز اپنے خیمے میں رکھ کر اسے بیوی بنائے رکھا تھا یہ اس کی بہت بڑی کمزوری تھی اور اگر غور کرو تو اس کے بعد ہی مسلیمہ کا زوال شروع ہوا تھا۔ میں تمہیں طریقہ بتاؤں گا کہ جو طاقت تم اپنے ساتھ لائے ہو اس سے تمہیں خود کس طرح بچنا ہے اور اسے کس طرح استعمال کرنا ہے
کیا آپ مجھے علم سحر بھی سکھائیں گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہاں احمد بن عطاش نے جواب دیا وہ تو میں نے تمہیں سکھانا ہی ہے لیکن یہ خیال رکھو حسن سحر کے علاوہ کچھ پراسرار علوم اور بھی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی ایک علم کے بھی ماہر ہو جاؤ تو معجزے کر کے دکھا سکتے ہو، لیکن بھروسہ اسی طاقت پر کرنا ہے جو تمہاری اپنی ہے اپنی روحانی قوتوں کو بیدار کرو تو پھر تم دیکھوگے کہ معجزے کس طرح ہوتے ہیں، لیکن ہمیں کسی اور قوت کی ضرورت ہے
احمد بن عطاش نے اس کے ساتھ تقریباً وہی باتیں کیں جو اس سے پہلے ابن عطاش اور پھر ایک اور درویش اس کے ساتھ کر چکے تھے احمد ابن عطاش نے اسے ایک بات یہ بتائی کہ اس علاقے میں جو چھوٹے بڑے قلعے ہیں ان پر قبضہ کرنا ہے
میں نے تمہیں کچھ تربیت دینی ہے احمد بن عطاش نے کہا اور تمہیں تیار کرنا ہے کہ کسی طرح سلجوقیوں کی حکومت میں داخل ہو جاؤ ،وہاں تمہیں کوئی عہدہ مل جائے پھر وہاں تم نے حاکموں کے حلقے میں اپنے ہم خیال پیدا کرنے ہیں، اور پھر سلجوقیوں کی جڑیں کاٹنی ہے
اسی رات سے احمد بن عطاش نے حسن بن صباح اور فرح کو تربیت دینی شروع کر دیں اور انہیں اس طرح کے سبق دینے لگا کہ اپنے ہم خیال کس طرح پیدا کرنے ہیں اس نے دیکھا کہ فرح کچھ جھینپی ہوئی سی تھی
دیکھ لڑکی احمد بن عطاش نے فرح سے کہا ہم نے تجھے ہر کسی مرد کا کھلونا نہیں بنانا ذرا سوچ پودے کے ساتھ ایک پھول ہے اسے نہ جانے کتنے لوگ سونگھتے ہیں لیکن پھول کی خوشبو اور تازگی ختم نہیں ہوتی ہم نے تجھے ایسا ہی پھول بنانا ہے لیکن ہم تجھے ایسا پھول نہیں بننے دیں گے جسے شاخ سے توڑ لیا جاتا ہے، شاخ سے ٹوٹا ہوا پھول مرجھا جاتا ہے یا پتی پتی ہو کر مسلا جاتا ہے میں تجھے یہ طریقہ بتاؤں گا کہ تو کس طرح شاخ کے ساتھ رہے گی اور تیری خوشبو اور تازگی ہمیشہ زندہ رہے گی…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:8 }
اسلام کا قافلہ ساڑھے چار صدیوں کی مسافت طے کرچکا تھا اس قافلے میں لق و دق صحرا جسموں کا پانی چوس لینے والے ریگزار اور خون کے دریا پار کیے تھے
اس قافلے نے جوش میں آئی ہوئی جوئے کہستاں کی مانند چٹانوں کے جگر چاک کیے تھے
اس قافلے نے دشوار گزار جنگلوں کے سینے چیر دیے تھے
اس قافلے نے تیروں اور برچھیوں کی بوچھاڑوں میں بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے تھے
اور زرتشت کے پجاری اپنی سلطنت مجاہدین کے اس قافلے کے قدموں میں پھینک کر بھاگ گئے تھے
اس قافلے نے تیزوتند طوفانوں کے منہ موڑ دیے تھے
مگر کذب و ارتداد کی ایسی آندھی آئی کہ یہ قافلہ بکھرنے اور بھٹکنے لگا
حسن بن صباح بڑے ہی خوفناک طوفان کا ہراول تھا اس کا خطرہ روزبروز شدید ہوتا جارہا تھا کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ آنے والا وقت کس کے عروج اور کس کے زوال کی داستان سنا ئے گا
داستان گو نے خیر اور شر کی اس داستان کو قلعہ شاہ در تک پہنچایا تھا اس قلعے پر ایک اسماعیلی احمد بن عطاش نے ایک بڑی حسین و جمیل دوشیزہ زرّین کے ذریعے قبضہ کیا تھا
قلعہ فوج فتح کیا کرتی ہے قلعے کا محاصرہ کیا جاتا ہے محاصرہ طول بھی پکڑ لیا کرتا ہے قلعے میں داخل ہونے کے لیے کمند پھینکنے اور دروازے توڑنے کی کوششیں ہوتی ہیں اوپر سے تیروں اور برچھیوں کا مینہ برستا ہے محاصرہ کرنے والے لہولہان ہوتے ہیں تڑپتے ہیں اور مرتے ہیں اور خون کے دریا بہا کر ایک قلعہ سر ہوتا ہے
لیکن قلعہ شاہ در ایک نوخیز لڑکی نے بڑے ہی پیارے انداز سے قلعے کے والی کی چہیتی بیوی بن کر فتح کرلیا اس والی قلعہ کا نام ذاکر تھا جس کی تفصیلی داستانِ رومان پہلے سنائی جاچکی ہے قلعہ احمد بن عطاش کے قبضے میں آگیا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اس قلعے میں کس طرح پہنچا تھا اس کے ساتھ فرح نام کی ایک لڑکی بھی تھی حسن بن صباح اور فرح اس محبت کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے جس کا تعلق دلوں اور روحوں سے ہوتا ہے احمد بن عطاش نے دونوں کی تربیت شروع کر دی تھی یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے ان تمام اسماعیلیوں کو جو قلعہ شاہ در کے قید خانے میں بند تھے رہا کردیا تھا اور پھر قافلے لوٹنے لگے رہزنی کی وراداتوں میں اضافہ ہوگیا
تاریخ بتانے سے قاصر ہے کہ حسن بن صباح اس استاد کی شاگردی میں کتنا عرصہ گزار چکا تھا غالباً دو اڑھائی سال گزر گئے تھے ایک تو حسن بن صباح دنیا میں آیا تو شیطانی اوصاف اپنے ساتھ لایا تھا اس کے بعد اس نے انہیں اوصاف کو ابھارا اور پھر ابن عطان اور احمد بن عطاش نے ان اوصاف کو پختہ تر کرکے اسے پکا ابلیس بنا دیا تھا اسے علم سحر بھی سکھا دیا اور غالباً اسے احمد بن عطاش کچھ ایسی تربیت بھی دے رہا تھا جو زمین دوز تخریبی کاری کے لئے کارآمد ہوتی ہے ان لوگوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ اسلام کو اسلام ہی رہنے دیں لیکن اللہ کے اس دین کو اپنی نظریات اور اپنی نفسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھال لیں۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو ان لوگوں نے زمین کے نیچے جاکر لڑنی تھی
کسی عمارت کو گرانا ہو تو اسے اوپر سے نہیں توڑا جاسکتا وقت لگتا ہے اور توڑنے والے منڈیر کی ایک دو اینٹیں ہی اکھاڑ پھینکے تو پکڑے جائیں گے عمارت کی بنیادوں میں پانی چھوڑ دیا جائے تو عمارت ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے اور لوگ اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ عمارت کی بنیادوں میں پانی چلا گیا تھا
اسلام کی فلک بوس عمارت کو مسمار کرنے کا یہی طریقہ اختیار کیا جارہا تھا اس طریقہ جنگ کے لیے ہتھیاروں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی مال و دولت کی ہوتی ہے اس میں انسان خریدے جاتے ہیں دینداروں کے دین و ایمان کی قیمت دی جاتی ہے احمد بن عطاش نے زرو جواہرات کی فراہمی کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا
سلطنت اسلامیہ میں قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ کبھی کا ختم ہوچکا تھا کوئی لٹیرا رہزنی کی بھی جرات نہیں کرتا تھا قافلے کے ساتھ بے شمار لوگ ہوتے ہیں اکیلا آدمی مال ودولت لیے پا پیادہ دشت و بیابان میں بے دھڑک سفر کرتا تھا
سلجوقی تو اس معاملے میں اور زیادہ سخت تھے لیکن سلجوقی سلطان ملک شاہ کے دور میں آکر قافلے لوٹنے لگے یہ سراغ نہیں ملتا تھا کہ اچانک لٹیروں کے یہ گروہ کہاں سے آگئے ہیں یہ تو تاریخ سے بھی پتا نہیں چلتا کہ سرکاری طور پر اس کا کیا سدباب ہوا تھا البتہ یہ واضح ہے کہ قافلوں کی آمد ورفت تقریباً بند ہو گئی تھی
ایک روز احمد بن عطاش سے ملنے ایک آدمی آیا حسن بن صباح بھی اسکے پاس بیٹھا تھا دربان نے جونہی احمد بن عطاش کو اس آدمی کی اطلاع دی تو احمد بن عطاش نے چونک کر کہا اسے جلدی اندر بھیجو
خوش آمدید میرے بھائی احمد بن عطاش نے اس آدمی کو دیکھتے ہی پرمسرت لہجے میں پوچھا ؟
بیٹھنے سے پہلے یہ سناؤ کہ کوئی خوشخبری لائے ہو؟
بہت بڑی خوشخبری اس آدمی نے بیٹھتے ہوئے کہا ایک بہت بڑا قافلہ آ رہا ہے اور جوں جوں یہ آگے بڑھتا آ رہا ہے اس کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے
اور مال و دولت میں اضافہ ہوتا آرہا ہے حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے کہا
اس شخص نے جو قافلے کی خبر لایا تھا یہ بتانا شروع کردیا کہ قافلہ کہاں ہے اور یہ کس راستے پر جا رہا ہے یہ راستہ شاہ در سے بہت دور سے گزرتا تھا وہ علاقہ پہاڑی بھی تھا اور یہ پہاڑ اور وادیاں درختوں سے اٹی پڑی تھیں اور جو علاقہ میدانی تھا وہ سب جنگلاتی تھا ،چونکہ قافلے جو پہلے لوٹ چکے تھے وہ شاہ در سے بہت دور لوٹے تھے اس لیے کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ قافلے لوٹنے والے احمد بن عطاش کے آدمی ہیں اور یہ ساری دولت احمد بن عطاش کے قبضے میں جا رہی ہے
کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس قافلے میں کیا کچھ ہے؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
کیوں نہیں اس شخص نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا میں نے اس قافلے کے ساتھ دو پڑاؤ سفر کیا ہے، اور پوری تفصیلات اپنی آنکھوں دیکھ کر اور کچھ قافلے والوں سے سن کر آیا ہوں
ہمیں تم جیسے آدمیوں کی ضرورت ہے حسن بن صباح نے کہا اب بتاؤ کیا دیکھ آئے ہو
زیادہ تر تاجر ہیں اس شخص نے جواب دیا ان میں بعض تو بہت ہی امیر کبیر لگتے ہیں بیس بیس تیس تیس اونٹوں پر ان کا مال جا رہا ہے
مال کیا ہے؟
اناج بھی ہے اس شخص نے جواب دیا کپڑا ہے چمڑا ہے اور سونے چاندی کے زیورات بھی ہیں چند ایک کُنبے بھی قافلے کے ساتھ ہیں
نوجوان لڑکیاں بھی ہونگی؟
حسن بن صباح نے پوچھا
زیادہ تو نہیں اس شخص نے جواب دیا سات آٹھ اچھی خاصی خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں ہیں چھوٹی عمر کی بچیاں بھی ہیں
یہ تو اور زیادہ اچھا ہے احمد بن عطاش نے کہا ہمیں پنیری چاہیے جسے ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں گے وہاں لگا دیں گے اور اپنے انداز سے اس کی آبیاری کریں گے
سوچنے والی ایک بات ہے حسن بن صباح نے کہا کئی ایک قافلے لوٹے جا چکے ہیں پھر ان تاجروں وغیرہ نے یہ جرات کیسے کی ہے کہ وہ اتنا مال و دولت اور اتنا بڑا قافلہ لے کر چل پڑے ہیں شاید ان لوگوں نے یہ سوچا ہوگا کہ کچھ عرصے سے قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ بند ہے اس لیے لوٹیرے کسی اور علاقے میں چلے گئے ہونگے
میرا خیال کچھ اور ہے قافلے کی خبر لانے والے آدمی نے کہا قافلے میں جو کوئی بھی شامل ہوتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس تلوار اور برچھی لازمی طور پر ہونی چاہیے اور اس میں حملے کی صورت میں لڑنے کا جذبہ بھی ہونا چاہیے، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جہاں پڑاؤ ہوتا ہے وہاں کئی ایک نوجوان رضاکارانہ طور پر پورے پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرے دیتے ہیں قافلے میں نوجوان آدمیوں کی تعداد ذرا زیادہ ہے
میں یہی بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قافلے کے ساتھ حفاظت کا انتظام بھی موجود ہے اس لئے ہمیں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی ضرورت احتیاط کی ہے
ہاں یہ سوچنے والا معاملہ ہے احمد بن عطاش نے کہا اور گہری سوچ میں گم ہو گیا
ہم اس قافلے کو محافظ دیں گے حسن بن صباح نے کہا اور قافلے کی خبر لانے والے سے مخاطب ہوا تم کچھ دیر میرے پاس بیٹھنا اور استاد محترم یہ کوئی پریشان کرنے والا معاملہ نہیں
اس شخص نے بتایا کہ اس وقت تک قافلہ کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے اور جس بستی اور شہر کے قریب سے یہ قافلہ گزرتا ہے اس میں لوگ شامل ہوتے جا رہے ہیں
میں اس کی وجہ سمجھتا ہوں احمد بن عطاش نے کہا ایک عرصے بعد لوگوں نے ایک قافلہ دیکھا ہے اس لیے لوگ اس قافلے کے ساتھ چل پڑے ہیں
یہ قافلہ منزل پر نہیں پہنچنا چاہیے حسن بن صباح نے کہا اسی لیے تو میں اتنی دور سے آیا ہوں اس شخص نے کہا مجھے فوراً بتائیں کہ میں نے کیا کرنا ہے؟
مجھے جلدی روانہ ہو جانا چاہیے
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اسے ہدایت دینی شروع کر دیں
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
یہ شخص گھوڑے پر سوار قلعے سے اس طرح نکلا کہ کسی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں کہ یہ کون ہے اور کہاں جارہا ہے شہر سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے سرسبز ٹیکریوں اور جنگل میں غائب ہو گیا
اس کے جانے کے فوراً بعد احمد بن عطاش نے اپنے دو خاص مصاحبین کو بلایا اور انہیں کچھ ہدایات دیں دونوں بڑی تیزی سے چلے گئے پہلے تو وہ شاہ در میں کچھ لوگوں سے ملے اور پھر دیہات میں نکل گئے
اسی شام کو سورج غروب ہونے کے بعد شاہ در سے سات آٹھ میل دور کم و بیش پچاس گھوڑسوار اکٹھے ہوگئے انہوں نے احمد بن عطاش کی ہدایات کے مطابق اپنا ایک امیر یا کمانڈر مقرر کر لیا اور اس طرف چل پڑے جس طرف سے قافلہ نے گزرنا تھا انھیں راستہ وغیرہ سمجھا دیا گیا تھا ان کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی
قافلے کا راستہ وہاں سے تقریباً ساٹھ میل دور تھا اس وقت تک قافلے کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی اس میں بوڑھے آدمی بھی تھے بوڑھی عورتیں بھی تھیں جوان اور نوجوان لڑکے زیادہ تھے نوجوان لڑکیاں اور بچے بھی تھے اونٹ بے شمار تھے تجارتی مال اور گھریلو سامان سے لدی ہوئی چار پانچ بیل گاڑیاں اور مال برادر گھوڑا گاڑیاں بھی تھیں قافلے کے زیادہ تر آدمی گھوڑوں پر سوار تھے
ایک پڑاؤ سے علی الصبح قافلہ چلا ابھی چند میل ہی طے کیے ہوں گے کہ قافلے کے آگے آگے جانے والے رک گئے
ڈاکو ڈاکو قافلے کے آگے سے بڑی بلند آواز سے اعلان ہوا ھوشیار ہوجاؤ جوانو ڈاکو آ گئے ہیں تیار ہو جاؤ
قافلے کی لمبائی ایک میل سے کہیں زیادہ تھی اعلان کئی بار دہرایا گیا اس کے جواب میں قافلے میں جتنے بھی نوجوان لڑکے جوان اور ادھیڑ عمر آدمی تھے تلواریں اور برچھیاں تان کر ایسی ترتیب میں ہو گئے کے قافلے کو محاصرے میں لے لیا تب پتہ چلا کہ قافلے میں کئی ایک ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی تیرکشیں ہیں
لڑکیوں اور بچیوں کو درمیان میں کرلو اعلان ہوا کچھ آدمی لڑکیوں کے ساتھ رہیں
ایک طرف سے کم و بیش پچاس گھوڑسوار قافلے کی طرف آ رہے تھے ان کے آنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ حملہ کرنے نہیں آ رہے ان کے پاس تلواریں تھیں لیکن تلواریں نیاموں میں تھیں بعض کے پاس برچھیاں تھیں اور کچھ ایسے تھے جن کے پاس جنگی کلہاڑے تھے گھوڑوں کی رفتار حملے والی یا ہلہ بولنے والی نہیں تھی وہ جب قریب آئے تو ان کے آگے آگے جو دو سوار تھے ان دونوں نے ہاتھ اوپر کر کے لہرائے جو ایک پرامن اشارہ تھا
قافلہ میں جو تیر انداز تھے وہ ایک صف میں کھڑے ہوگئے اور کمانوں میں ایک ایک تیر ڈال لیا
ہم دوست ہیں آنے والے ایک سوار نے کہا ہمیں دشمن نہ سمجھو
پھر وہی رک جاؤ قافلے میں سے ایک آدمی نے کہا صرف ایک آدمی آگے آکر بتاؤ کہ تم کیا چاہتے ہو ہمارے تیر اندازوں کو تیغ زنوں اور برچھی بازوں کو دیکھ لو تم اتنے تھوڑے ہو کہ تھوڑی سی دیر میں تم اپنے خون میں ڈوب جاؤ گے اور تمہارے گھوڑے اور ہتھیار ہمارے پاس ہوں گے
مشکوک گھوڑ سواروں کے آگے آگے آنے والے دونوں سواروں نے پیچھے مڑ کر اپنے ہاتھ اٹھائے جو اشارہ تھا کہ باقی سوار پیچھے ہی رک جائیں تمام سوار رک گئے اور یہ دونوں سوار قافلے کے قریب آ گئے
اب بتاؤ تمہارا ارادہ کیا ہے ؟
قافلے کے اس معزز آدمی نے کہا جس نے اپنے آپ کو خود ہی میر کارواں بنا لیا تھا
ڈرو نہیں دوستو ایک سوار نے کہا ہم پیشہ وار لوگ ہیں ہمارا پیشہ امیر لوگوں کی حفاظت کرنا ہے ہم میں اتنی جرات اور طاقت نہیں کہ اتنے بڑے قافلے پر حملہ کریں ہمیں پتہ چلا کہ ایک قافلہ جا رہا ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ قافلوں کو لوٹنے والے بھی موجود ہیں تو ہم نے اپنے ان دوستوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ چلو اس قافلے کے پیچھے جاتے ہیں اور امیر لوگوں کو حفاظت مہیا کریں گے اور حلال کی روزی کمائنگے، تمہارا سفر ابھی بہت لمبا باقی ہے قافلے پر کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ حملہ ہو سکتا ہے، ہماری التجا ہے کہ ہمیں قافلے کی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ لے چلو ہم راتوں کو پہرہ بھی دیں گے
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے ساتھ کتنے آدمی ہیں ؟
میر کارواں نے کہا کیا تم انہیں اپنی حفاظت خود کرنے کے قابل نہیں سمجھتے؟
نہیں ایک سوار نے جواب دیا ان میں ہمیں ایک بھی ایسا نظر نہیں آرہا جس نے کبھی لڑائی لڑی ہو، کیا آپ نہیں جانتے کہ قافلوں کو لوٹنے والے لڑنے اور مارنے کی مہارت رکھتی ہیں؟
تمہارے ان آدمیوں نے جب اپنے ساتھیوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھے گے تو یہ سب بھاگ جائیں گے ہمیں اپنا محافظ بنا کر اپنے ساتھ لے چلیں ہم اتنی زیادہ اجرت نہیں مانگیں گے جو تم دے ہی نہ سکو تم میں بڑے بڑے امیر تاجر بھی ہیں جوان لڑکیوں کے باپ بھی ہیں اور پھر آپ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں آپ سب مل جل کر ہمیں اتنی سی اجرت تو دے ہی سکتے ہو جس سے کچھ دن ہمارے بچے بھی روٹی کھا لیں گے
ایک بات میں بھی کہوں گا دوسرے سوار نے کہا اگر آپ ہمیں حلال روزی مہیا نہیں کریں گے اور ہمیں کہیں سے بھی روزی نہیں ملے گی تو ایک روز ہم بھی رہزنی شروع کر دیں گے اور قافلوں کو لوٹنے کا گروہ بنا لیں گے
روزی دینے والا خدا ہے ایک بزرگ نے آگے آکر کہا میرے ہم سفرو معلوم ہوتا ہے خدا نے ان کی روزی ہمارے ذمے کردی ہے نہ جانے یہ بیچارے کتنی دور سے ہمارے پیچھے آئے ہیں اور یہ حلال کی روزی کے پیچھے آئے ہیں انہیں مایوس نہ کرو اور ان کے ساتھ اجرت طے کر لو انہیں ساتھ لے لینے سے ہماری حفاظتی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا، ان سے بات کر لو
ان سے اجرت پوچھی گئی جو انہوں نے بتائی اور انکے ساتھ سودا طے کر لیا گیا ان محافظ سواروں نے دو شرطیں پیش کیں ایک یہ کہ انھیں اجرت پیشگی دے دی جائے اور دوسری یہ کہ ان کا کھانا پینا قافلہ کے ذمے ہو گا
ان کی دونوں شرط مان لی گئیں قافلے کے ہر فرد نے اتنی رقم دے دی جو حساب کے مطابق ہر ایک کے ذمے آتی تھی
قافلہ چل پڑا ان پچاس محافظوں نے اپنے آپ کو اس طرح تقسیم کرلیا کہ کچھ قافلے کے آگے ہو گئے کچھ قافلے کے پیچھے اور باقی کچھ دائیں اور کچھ بائیں ہو گئے، ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں اور وہ پیشہ آور چوکیدار اور محافظ ہیں
پہلا پڑاؤ آیا تو ان میں سے بہت سے آدمیوں نے رات بھر دو دو ہوکر پڑاؤ کے چاروں طرف پہرہ دیا اس سے قافلے والے ان سے مطمئن اور متاثر ہو گئے اگلی رات بھی انہوں نے اسی طرح پہرہ دیا
تیسرے پڑاؤ تک پہنچتے قافلے میں ڈیڑھ دو سو مزید افراد کا اضافہ ہو چکا تھا
قافلہ ایک اور پڑاؤ کے لئے رک گیا، سورج غروب ہو چکا تھا لوگ رات بسر کرنے کے لیے اپنے اپنے انتظامات میں مصروف ہوگئے، عورتیں کھانا تیار کرنے لگیں، پانی کی وہاں کوئی قلت نہیں تھی، علاقہ سرسبز اور پہاڑی تھا پہاڑیاں ذرا پیچھے ہٹی ہوئی تھیں اور ان کے درمیان ہر ی بھری گھاس کا میدان تھا قریب ہی سے شفاف پانی کی ندی گذرتی تھی پڑاؤ کے لیے یہی جگہ موزوں تھی
قافلے والے دن بھر کے تھکے ہوئے تھے کھانا کھا کر لیٹے اور لیٹتے ہی سو گئے محافظ سوار پہرے پر کھڑے ہوگئے اور ہر رات کی طرح پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ دینے لگے آدھی رات سے کچھ پہلے تھوڑی دور سے اُلّو کے بولنے کی آواز آئی ایک اُلّو پڑاؤ کے بالکل قریب سے بولا، ایک بار پھر دور کے اُلّو کی آواز آئی
قافلے والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے پچاس ساٹھ گھوڑسوار قافلے کے پڑاؤ کی طرف آرہے تھے جب پہاڑوں میں پہنچے اور پڑاؤ انہیں اپنے سامنے نظر آنے لگا تو وہ وہیں رک گئے گھوڑوں سے اترے اور آہستہ آہستہ چلتے پڑاؤ کی طرف بڑھنے لگے ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں چند ایک کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں وہ جو پچاس محافظ تھے ان میں سے کچھ پہرے پر کھڑے تھے اور باقی سوئے ہوئے تھے ان کے جو ساتھی پہرے پر کھڑے تھے ان میں سے کچھ آہستہ آہستہ آئے اور انہیں جگایا
تمام سوئے ہوئے محافظ آہستہ آہستہ اٹھے انہوں نے تلوار نکالی پھر یہ سب ایک جگہ اکٹھا ہوئے ادھر سے وہ بھی آگئے جنہوں نے گھوڑے پہاڑیوں کے پیچھے کھڑے کیے تھے، یہ سب یعنی محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی ایک جگہ آپس میں ملے ،محافظوں میں سے ایک نے نئے آنے والوں کو بتانا شروع کردیا کہ کون کہاں ہے یعنی فلاں جگہ امیرکبیر تاجر ہیں اور فلاں جگہ نوجوان لڑکیاں ہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی تعداد میں ایک سو سے زیادہ ہو گئے محافظ دراصل لوٹیرے ہی تھے جنھوں نے دھوکہ دے کر قافلے کے ساتھ رہنا تھا اور ان کے پچاس ساٹھ ساتھیوں نے راستے میں آ کر ان سے ملنا تھا، یہ محافظ اس لیے قافلے میں شامل ہوئے تھے کہ انہوں نے پیچھے دیکھ لیا تھا کہ قافلے میں لڑنے والے جوانوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے
جو آدمی احمد بن عطاش کو اس قافلے کی اطلاع دینے گیا تھا اس نے بتایا تھا کہ اس قافلے پر حملہ ناکام بھی ہو سکتا ہے، کیوں کہ اس میں لڑنے والے آدمیوں کی تعداد زیادہ ہے ،احمد بن عطاش یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا تھا لیکن حسن بن صباح کے دماغ نے فوراً یہ ترکیب سوچی تھی کہ لٹیرے گروہ کے آدھے آدمی پیشہ ور محافظ بن کر قافلے میں شامل ہو جائیں گے تاکہ قافلے والے راتوں کو خود پہرا نہ دیں اور وہ اپنی حفاظت سے بے فکر ہو جائیں حسن بن صباح نے اطلاع لانے والے کو یہ ترکیب بڑی اچھی طرح سمجھا دی تھی
یہ شخص بڑی تیزی سے لٹیروں کو اکٹھا کرتا پھرا اور ان کا جو لیڈر تھا اسے اس نے یہ ترکیب سمجھا دی لیڈر نے بڑی خوش اسلوبی سے اس ترکیب پر عمل کیا
قافلے والے سمجھ ہی نہ سکے کہ جنہیں وہ محافظ سمجھ بیٹھے ہیں وہ رہزن ہیں ان رہزنوں نے قافلے کے بچے بچے پر اپنا اعتماد قائم کر لیا تھا
ان ایک سو سے زیادہ رہزنوں نے پڑاؤ کے ایک طرف سے قتل عام شروع کیا انہیں بتایا گیا تھا کہ نوجوان لڑکیوں کمسن بچیوں اور بچوں کو زندہ لانا ہے جب قافلے والوں کا قتل عام شروع ہوا تو دوسروں کی آنکھ کھل گئی لیکن رہزنوں نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی اس کے بعد ایک ہڑبونگ قیامت کا سما تھا ،جو کوئی ہڑبڑا کر اٹھتا تھا اس کے جسم میں برچھی اتر جاتی یا تلوار اس کی گردن صاف کاٹ دیتی، وہاں ان کی چیخ و پکار سننے والا اور سن کر مدد کو پہنچنے والا کوئی نہ تھا لڑکیوں اور بچوں کی دلدوز چیخیں تھیں جو رہزنوں اور قاتلوں کے دلوں کو موم نہیں کر سکتی تھیں
کچھ زیادہ دیر نہ لگی کہ قافلے کا صفایا ہوگیا لٹیروں نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا پھر انہوں نے یہ سامان اونٹوں بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں پر لاد لیا، نوجوان لڑکیوں بچیوں اور بچوں کو ہانک کر ایک طرف لے جانے لگے
قیامت کی اس خون ریزی میں ایک دو اونٹ اور ایک دو گھوڑے کھل کر ادھر ادھر ہو گئے تھے شاید چند انسان بھی زندہ بچ گئے ہو رہزن بڑی جلدی میں تھے انہوں نے لڑکیوں اور بچوں کو ایک گھوڑا گاڑی پر سوار کر لیا اور چار پانچ آدمی ان کے ساتھ سوار ہوگئے اور وہ پہاڑیوں کے پیچھے غائب ہو گئ
صبح کا اجالا سفید ہوا تو آسمان نے اس میدان میں لاشوں پر لاشیں پڑی دیکھیں لاشوں کے سوا وہاں کچھ بھی نہ تھا قریب کی ایک ٹیکری کے اوپر ایک بوڑھا آدمی لیٹا ہوا تھا اس نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اور میدان کی طرف دیکھا اس نے اپنی اتنی لمبی عمر میں ایسے منظر پہلے بھی دیکھے ہونگے وہ کوئی تجربے کار آدمی تھا وہ اسی قافلے کا ایک فرد تھا رات کو جب قتل عام شروع ہوا تو وہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلا اور ٹیکری پر چڑھ کر اونچی گھاس میں چھپ گیا وہ رات بھر اپنے ہم سفروں اور ان کے بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار سنتا رہا وہ آہستہ آہستہ اٹھا اور ٹیکری سے اترا ،اسے ایسا کوئی ڈر نہ تھا کہ ڈاکو پھر آجائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے
وہ آہستہ آہستہ ان لاشوں کو دیکھتا گیا وہ یوں محسوس کررہا تھا جیسے خواب میں چل رہا ہو وہ اپنے کنبے کو ڈھونڈ رہا تھا وہاں تو کوئی کہاں اور کوئی کہاں پڑا تھا ،اسے بہت ہی چھوٹے سے ایک بچے کی لاش پڑی نظر آئی، بچے کی عمر چند مہینے ہی ہوگی وہ کچھ دیر اس غنچے کو دیکھتا رہا جو بن کھلے مرجھا گیا تھا بچے سے نظر ہٹا کر اس نے ہر طرف دیکھا اسے کچھ دور ایک اونٹ نظر آیا جو بڑی بے پرواہی سے اس خونیں منظر سے بے نیاز گھاس چر رہا تھا
بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا کو ڈھونڈ رہا ہو اچانک اسے ایک خیال آیا وہ بڑی تیزی سے اونٹ کی طرف چل پڑا اونٹ کے پاس جا کر اس کی مہار پکڑی اور وہیں بٹھا دیا پھر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اسے ایک کجاوا ایک جگہ پڑا دکھائی دیا وہ گیا اور کجاوا اٹھا کر اونٹ کے پاس لے گیا اونٹ کی پیٹھ پر رکھ کر اس نے کجاوا کس دیا دودھ پیتے بچے کی خون آلود لاش اٹھا کر لے گیا لاش کو کجاوے میں رکھا اور خود بھی اونٹ پر سوار ہو گیا اور اونٹ کو اٹھایا اس نے اونٹ کا رخ مَرو کی طرف کردیا اس وقت مرو سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت تھا سلطان ملک شاہ وہیں ہوتا تھا
ملک شاہ روایتی بادشاہوں جیسا بادشاہ نہیں تھا لیکن جہاں وہ رہتا تھا وہ محل سے کم نہ تھا ایک روز وہ اپنے مصاحبوں وغیرہ میں بیٹھا ہوا تھا
میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ملک شاہ نے کہا اور کچھ دیر سوچ کر بولا قافلوں کے لوٹنے کا خطرناک سلسلہ ختم ہو گیا ہے ہم کسی کو پکڑ تو نہیں سکے لیکن پکڑنے اور سزا دینے والا اللہ ہے یہ اللہ ہی ہے جس نے میری مدد کی اور قافلے محفوظ ہوگئے
سلطان محترم دربان نے اندر آ کر کہا ایک ضعیف العمر شخص سوار آیا ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے
کہاں سے آیا ہے؟
سلطان نے پوچھا کیا چاہتا ہے؟
کچھ پوچھا تم نے؟
نہیں سلطان عالی مقام دربان نے جواب دیا۔۔۔ اس کی حالت اچھی نہیں معلوم ہوتا ہے بڑی لمبی مسافت طے کرکے آیا ہے اس نے بہت چھوٹے سے بچے کی لاش اٹھا رکھی ہے لاش کو جیسے خون سے نہلایا گیا ہے
لاش ملک شاہ نے چونک کر کہا چھوٹے سے بچے کی لاش اسے فوراً اندر بھیجو یہ فریادی معلوم ہوتا ہے
ضعیف العمر ہانپتا کانپتا جھکا جھکا بازوؤں پر چند ماہ عمر کے بچے کی خون آلود لاش اٹھائے ملک شاہ کے سامنے آیا اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اس کی آنکھوں کا نور بجھ چکا تھا
او میرے بزرگ ملک شاہ اٹھ کھڑا ہوا اور پوچھا کیا مشکل تمہیں یہاں لے آئی ہے؟
ایک بچے کی لاش لایا ہوں ائے سلطان بوڑھے نے کہا یہ آپ کا بچہ ہے اس نے آگے بڑھ کر لاش سلطان کے قدموں میں رکھ دی اونٹ کی پیٹھ پر تین دن اور تین رات سفر کیا ہے، نہ اونٹ نے کچھ کھایا ہے نہ میں نے یہ اللہ کی امانت تھی جس میں سلجوقی سلطان نے خیانت کی دیکھ سلطان دیکھ اس بِن کھلی کلی کو دیکھ اس ننھے سے بچے میں ابھی یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ یہ زندہ ہے اور مرتے وقت اسے یہ احساس نہیں ہوا ہوگا کہ موت نے اسے ماں کی آغوش سے اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا ہے
سلطان ملک شاہ نے دربان کو بلوایا اور کہا کہ وہ بچے کی لاش لے جائے اور اسے غسل دے کر کفن پہنایا جائے
اے بزرگ انسان سلطان نے بوڑھے سے کہا کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ شکوہ اور شکایت سے پہلے یہ بتا دو کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟
اور اسے کس نے قتل کیا ہے؟
یہ میرے کسی ہمسفر کا بچہ تھا بوڑھے نے کہا میں اس کے باپ کو نہیں جانتا اس کی ماں کو نہیں جانتا انہیں میں کبھی بھی نہیں جان سکوں گا وہ بھی قتل ہو گئے ہیں وہ کون تھے؟
کہاں سے آئے تھے ؟
کہاں جا رہے تھے؟
میں نہیں جانتا میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہمارے قافلے کے ساتھ تھے، قافلے پر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا
بوڑھے نے تفصیل سے سنایا کہ قافلہ کہاں سے چلا تھا کس طرح اس میں مسافروں کا اضافہ ہوتا گیا اور پھر کس طرح اور کہاں قافلے پر اس وقت حملہ ہوا جب سب گہری نیند سو رہے تھے
سلطان غصےکےعالم میں کمرے میں ٹہلنے لگا وہ بار بار ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے کی ہتھیلی پر مارتا تھا اس کے چہرے پر قہر اور عتاب کے آثار گہرے ہوتے جا رہے تھے
کچھ عرصہ پہلے قافلوں پر حملے شروع ہوئے تھے بوڑھے نے کہا پھر یہ حملے خود ہی ختم ہوگئے ان کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ نے ڈاکوؤں کی سرکوبی کا کوئی بندوبست کر دیا تھا ،بلکہ لوگوں نے سفر کرنا چھوڑ دیا تھا ہم بدقسمت اس خوش فہمی میں نکل کھڑے ہوئے کہ منزل پر پہنچ جائیں گے
اس بچے کی لاش یہاں کیوں لے آئے ہو؟
سلطان ملک شاہ نے پوچھا
سلطان کو یہ دکھانے کے لئے کہ سلطانوں کے گناہوں کی سزا رعایا کو ملا کرتی ہے بوڑھے نے کہا میں عقیدے کا سنی ہوں، آپ مجھے معاف کریں یا نہ کریں مجھے اس کا کوئی ڈر نہیں میں خلفاء راشدین کی بات کروں گا جن کے دور میں ہر طرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کی عزت محفوظ ہو گئی تھی جان محفوظ ہو گئی تھی، اور لوگوں کے مال و اموال محفوظ ہوگئے تھے رعایا کو اور رعایا کے بچوں کو اللہ کی امانت سمجھتے تھے، میں بچے کی لاش اس لیے یہاں لایا ہوں کہ سلطان اس معصوم کی کھلی اور ٹھہری ہوئی آنکھوں میں اپنے گناہوں کا عکس دیکھ لیں
دیکھ لیا ہے میرے بزرگ سلطان نے کہا ہم ان قزاقوں کو پکڑیں گے
ہمارے قافلے سے تمام نوجوان لڑکیوں اور بچوں کو قزاق اپنے ساتھ لے گئے ہیں بوڑھے نے کہا انہیں وہ قتل نہیں کریں گے، انھیں امراء کے گھروں میں فروخت کیا جائے گا انھیں عیش و عشرت کا ذریعہ بنایا جائے گا امت رسول اللہﷺ کی بچیاں رقاصہ بنیں گی عصمت فروش بنیں گی اور ساری عمر اپنے سلطان کے اس گناہ کی سزا بھگتی رہیں گی کہ سلطان نے اپنے فرائض سے نظر پھیر لی تھیں، سلطان کی نیندیں حرام ہو جانی چاہیے میں قافلے والوں کی روحوں کا یہ پیغام لے کر آیا ہوں
تاریخ بتاتی ہے کہ سلجوقی سلطان اسلام کے سچے پیروکار تھے ان میں روایتی بادشاہوں والی خو نہیں تھی اس بوڑھے نے ایسی سخت باتیں بھی کہہ ڈالی تھیں جو کوئی معمولی سا حاکم بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا لیکن سلطان ملک شاہ نے نہ صرف یہ کہ بوڑھے کا غصہ بھی برداشت کیا اور طنز بھی بلکہ حکم دیا کہ اسے مہمان خانے میں رکھا جائے اور جب تک یہاں قیام کرنا چاہے اسے سلطان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے رکھا جائے…

📜☜  سلسلہ جاری ہے……

www.urducover.com

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay in Touch

To follow the best website where you can find the latest trends, technology updates, health tips, inspiring quotes, and much more, all in one place. It’s your go-to source for useful and interesting content in Urdu !

Related Articles