5 pillars islam – https://urducover.com Sun, 14 Jul 2024 12:58:56 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.6.2 https://urducover.com/wp-content/uploads/2024/07/Urdu-cover-logo--150x150.png 5 pillars islam – https://urducover.com 32 32 پانچواں رکن اسلام روزہ https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-6/ https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-6/#respond Sun, 23 Jun 2024 13:48:49 +0000 https://urducover.com/?p=811

پانچواں رکن اسلام روزہ

عمارت اسلام کا پانچواں اور آخری ستون روزہ ہے۔ یہ فرض عبادت ایک مہینے پر محیط ہے

عمارت اسلام کا پانچواں اور آخری ستون روزہ ہے۔یہ فرض عبادت    ایک مہینے   پر محیط ہے اور اس کی فرضیت صرف امت مسلمہ کے ساتھ خاص  نہیں ہے بلکہ یہ سابقہ امتوں پر  بھی فرض تھے ۔ رمضان کے روزوں کا بنیادی فلسفہ   امت مسلمہ کو  ایک ایسے ماحول سے گزارنا ہے جس میں دنیا کی ہر قسم کی خواہشات کی تکمیل کے لئے سب سامان موجود ہو لیکن   امت مسلمہ کی تربیت ، ان میں روحانی بالیدگی ، طہارت ، تقوی ، نفس کی نظافت  اور روحانی وجسمانی پاکیزگی  کےلئے حکم دیا گیا ہے کہ روزے کی حالت میں  ان خواہشات سے بچنا  بچیں جس کی تمنا تمہارانفس کرتا ہےاور اس ایک مہینے  کی ترتیب   کامقصد اہل ایمان  میں  پاکیزگی کا ایک ایسا  روحانی جوہر پیدا کرنا ہے جو اسے گیارہ مہینوں تک  محسوس ہوتارہے یوں تربیت نفس کا ہر سال روزے کی روحانی مشق کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے ۔

روزے کی فرضیت  اور بنیادی مقصد

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(پ  ۲ ، البقرۃ :۱۸۳)

ترجمۂ  کنزالایمان: اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔

خزائن العرفان  میں حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:

اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے روزہ شرع میں اس کا نام ہے کہ مسلمان خواہ مرد ہو یا حیض یا نفاس سے خالی عورت صبح صادق سے غروب آفتاب تک بہ نیت عبادت خورد و نوش و مجامعت ترک کرے(عالمگیری وغیرہ) رمضان کے روزے ۱۰ شعبان ۲ ھ کو فرض کئے گئے(درمختار و خازن) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے عبادت قدیمہ ہیں۔زمانہ آدم علیہ السلام سےتمام شریعتوں میں فرض ہوتے چلے آئے اگرچہ ایام و احکام مختلف تھے مگر اصل روزے سب امتوں پر لازم رہے۔اور تم گناہوں سے بچو کیونکہ یہ کسر نفس کا سبب اور متقین کا شعار ہے۔

آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔

(صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۰)

 

روزے کی روح اور  راز

حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی اِحیاء العلوم جلد اول  میں فرماتے ہیں:’’ روزے کی روح اور راز ان قوتوں کو کمزور کرنا ہے جو برائیوں کی طرف لوٹانے میں شیطان کا ذریعہ ہیں اور یہ چیز کم کھانے سے حاصل ہوتی ہے یوں کہ وہ اتنا کھاناکھائے جتنا روزہ دار نہ ہونے کی صورت میں ہر رات کھاتا ہے۔ اگر اس نے صبح سے شام تک کا کھانا کھایا تو اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ روزے کے آداب میں سے ہے کہ وہ دن کو زیادہ نہ سوئے تاکہ اسے بھوک اور پیاس کا احساس ہو اور اعضاء کی کمزوری محسوس ہو ، دل اسی صورت میں صاف ہوگا پھر ہر رات اسی قدر کمزوری پیدا ہوگی تو اس پر تہجد اوردیگراورادد ووظائف پڑھنا آسان ہو جائے گا۔ پس ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل پر چکر نہ لگائے اور وہ ملکوت کی بادشاہی دیکھ لے اور لیلۃ القدر اسی رات کو کہتے ہیں جس میں ملکوت کی کوئی چیز منکشف (ظاہر) کی جاتی ہے ۔ ‘‘(احیاء العلوم  مترجم ، جلد ۱ ، ص ۷۱۶)

قدیم عبادت

شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ مفتی محمد  قاسم قادر ی صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں فرماتے ہیں:’’اس آیت میں فرمایا گیا ’’جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ ‘‘(صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۰)

چند دن کی ترتیب اور دور رس نتائج

روزےکی فرضیت کے بعد اس روحانی نظام کا جدول بتایا جارہاہےکہ یہ {اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ: گنتی کے چند دن ہیں۔} آیت کے اس حصہ کی تفسیر میں حضرت علامہ مفتی قاسم زید مجدہ فرماتے ہیں :’’ فرض روزے گنتی کے دن ہیں یعنی صرف رمضان کا ایک مہینہ ہے جو انتیس دن کا ہوگا یا تیس دن کا۔ لہٰذا گھبرا نے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ذہن میں رکھو کہ جس رب عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں گیارہ ماہ کھلایا پلایا ، وہ اگر ایک ماہ صرف دن کے وقت کھانے پینے سے منع فرما دے اور اس فاقے میں بھی تمہارے جسم و روح، ظاہر و باطن، دنیا و آخرت کا فائدہ ہو تو ضرور اس کی اطاعت کرو۔ ‘‘ (صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۱)

روزہ فرض ہونے کی وجہ

شیخ الطریقت ، امیر اہلسنت حضرت علامہ مولنا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ اپنے مشہور زمانہ کتاب ’’فیضان رمضان‘‘  میں  روزہ فرض ہونے کی وجہ   کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:’’ اِسلام میں اکثر اَعمال کسی نہ کسی رُوح پرور واقعے کی یاد تازہ کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔ مثلاً صفا و مروَہ کے درمیان حاجیوں کی سعی حضرت سَیِّدَتناہاجرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی یاد گار ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے لخت جگر حضرت سَیِّدُنا اِسماعیل ذَبِیحُ اللّٰہ   عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکیلئے پانی تلاش کرنے کیلئے

اِ ن دونوں پہاڑوں کے درمیان سات بار چلی اور دَوڑی تھیں ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو حضرت سیِّدَتُنا ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی یہ ادا پسند آگئی ، لہٰذا اِسی ادائے ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے باقی رکھتے ہوئے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لئے صفا و مروہ کی سعی واجب فرمادی۔اِسی طرح ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں سے کچھ دن ہمارے پیارے سرکار ، مکے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غارِ حرا میں گزار ے تھے، اِس دَوران آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دن کو کھانے سے پرہیز کرتے اور رات کو ذِکرُاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتے تھے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ   نے اُن دِنوں کی یا د تازہ کرنے کیلئے روزے فرض کئے تاکہ اُس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت قائم رہے ۔ ‘‘ (فیضانِ رمضان ،ص ۵۸ تا۵۹)

انسانی صحت پر روزے کے اثرات

تفسیر صراط  الجنا ن میں روزے کے 6طبی فوائد  ذکر کئے گئے ہیں

   روزہ رکھنے سے معدے کی تکالیف اور اس کی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور نظام ہضم بہتر ہو جاتا ہے۔

(  روزہ شوگر لیول،کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اور اس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ نہیں رہتا۔

   روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے دل کوانتہائی فائدہ مند آرام پہنچتا ہے۔

   روزے سے جسمانی کھچاؤ، ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے ۔

روزہ رکھنے سے موٹاپے میں کمی واقع ہوتی اور اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔

 روزہ رکھنے سے بے اولادخواتین کے ہاں اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

(صرا ط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد۱ ، ص۲۹۳)

جسم کی زکٰوۃ

ہر شے کیلئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صَبْرہے۔   ( ابنِ ماجہ  ج ۲ ص۳۴۷حدیث۱۷۴۵،(فیضانِ رمضان ،ص ۷۰)

روزے کے فضائل سے متعلق چند احادیث مبارکہ 

جنتی دروازہ

{۱}بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَان کہا جاتا ہے ،اس سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہوگا۔کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں ؟پس یہ لوگ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور اِس دروازے سے داخِل نہ ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پس پھر کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔     (بُخاری ج۱ص۶۲۵حدیث۱۸۹۶)

سابقہ گناہوں کا کفارہ

{۲}جس نے رَمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اُس کاکفارہ ہو گیا ۔  (الاحسان بترتیب صحیح ابنِ حَبّان ج۵ ص۱۸۳حدیث۳۴۲۴)

جہنم سے 70سال کی مسافت دُور

{۳}جس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت دور کردے گا۔ ( بُخاری ج۲ص۲۶۵حدیث۲۸۴۰)

ایک روزے کی فضیلت

             }۴}جس نے ایک دن کا روز ہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصِل کرنے کیلئے رکھا ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا کہ ایک کوّا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہوکر مَرجائے۔ ( ابو یعلٰی ج۱ ص۳۸۳حدیث۹۱۷)

سرخ یاقوت کا مکان

{۵}جس نے ماہِ رَمضان کاایک روزہ بھی خاموشی اور سکون سے رکھا اس کے لئے جنت میں ایک گھرسبز زَبرجد یا سرخ یا قوت کا بنایا جائے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج ۱ ص ۳۷۹ حدیث ۱۷۶۸)   (فیضان رمضان ، ص  ۶۹ تا ۷۰)

اسلام کے پانچویں رکن  کو سمجھنے اور فلسفہ صوم کی حقیقت جانے نیز مسائل روزہ کے بارےمیں  مکمل طور پر کتب فقہاء کے ذخیرے  موجود ہیں  اور تحقیق کرنے والوں کو مطالعہ کے لئے دعوت نظارہ دے رہے ہیں ۔رمضان کے روزے انسا ن کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں لاتے ہیں، رمضان کے روزے کس طرح رکھنا ہے ، رمضان کا اہتمام کس طرح کرنا ہے۔

ارکان اسلام کا ایک مختصرا  خاکہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیاہے  ارکان اسلام کےبارے میں بہت طویل  بحثوں پر مشتمل کتابیں عالم اسلام کے عظیم مفکروں ، دانشوروں اور قلمکاروں ،  اور علماء نے لکھی ہیں ۔  مزید مطالعہ کےلئے کتاب  ’’ بہار شریعت‘ ‘   کا مطالعہ  فائدہ مند رہے گا۔

]]>
https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-6/feed/ 0
چوتھا رکن اسلام  حج https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-5/ https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-5/#respond Sun, 23 Jun 2024 13:27:57 +0000 https://urducover.com/?p=807

چوتھا رکن اسلام   :  حج

ارکان اسلام کے حسین امتزاج سے بننے والی خوبصورت عمارت کا چوتھا اور اہم ستون فریضہ حج کی ادائیگی ہے

ارکان  اسلام کے حسین امتزاج سے بننے والی خوبصورت عمارت اسلام کا چوتھا اور اہم   ستون فریضہ حج  کی ادائیگی ہے ہے ۔ اسلام کی نظام عبادت کا تصور دو چیزوں پر منحصر ہے ایک جسمانی عبادت اور دوسرا مالی عبادت ۔اور اس عبادت کے نظام کا محور ومرکز اللہ  جلا وعلا کی ذات والاہوتی ہے جیساکہ خود مالک ارض و سما نے اپنی کتاب ہدایت   میں ارشاد فرمایا:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

(پ  ۲۷، الذٰریٰت : ۵۶) ترجمہ کنز الایمان: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں۔ تو جب تک عبادت میں رضائے الٰہی پیش نظر نہ ہو وہ عبادت  عبادت نہیں ہوتی ہے۔ حج بھی اسلام کا وہ نظام عبادت ہے جس میں فقط بندہ ٔخدا اپنے مالک حقیقی کی رضاکےلئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک مخصوص لباس زیب تن کئے   صدائے لبیک  سے اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہےنیز  اسلامی نظام عبادت میں حج کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہےکیونکہ  حج   کی ادائیگی میں  مالی  اور جسمانی   عبادت  کا عملی پہلو پایاجاتا ہے  کہ اس کی ادائیگی کےلئے   مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اور جانی تگ ودو بھی کرنی پڑتی ہے اور حج کو مرکزی حیثیت اس لحاظ سے  بھی حاصل ہےکہ دنیا بھر کے مسلمانوں  کا ایک بہت بڑا  مرکزی  ایونٹ   ،اجتماع  سال میں ایک بار  موسم حج کے مہینے  شوال، ذو القعدہ اور ذوالحجۃ الحرام میں منعقد ہوتا ہے ۔

حج کیا ہے؟

حج ایک منفرد عبادت ہے ، اس میں بہت سی حکمتیں ہیں اسے ”عاشقوں کی عبادت“ بھی کہا جاسکتا ہےکہ حج کا لباس یعنی احرام او ردیگر معمولات جیسے طوافِ کعبہ ، منٰی کا قیام اور عرفات و  مزدلفہ میں ٹھہرنا سب عشق و محبت کے انداز ہیں جیسے عاشق اپنے محبوب کی محبت میں ڈوب کر  اپنے لباس، رہن سہن سے بے پرواہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ویرانوں میں نکل جاتا ہے ایسے ہی خدا کے عاشق ایام ِ حج میں اپنے معمول کےلباس اور رہن سہن چھوڑ کر محبت ِ الٰہی میں گُم ہو کر عاشقانہ وضع اختیار کرلیتے ہیں ، طواف کی صورت میں محبوبِ حقیقی کے گھر کے چکر لگاتے ہیں اور مِنٰی و عرفات کے ویرانوں میں نکل جاتے ہیں، نیز حج بارگاہِ خداوندی میں پیشی کے تصور کو بھی اُجاگر کرتا ہے کہ جیسے امیر و غریب، چھوٹا بڑا، شاہ و گدا سب بروزِ قیامت اپنی   دنیوی پہچانوں کو چھوڑ کرعاجز انہ بارگاہِ الٰہی میں پیش  ہوں گے ایسے ہی حج کے دن سب اپنے دنیوی تعارف اور شان و شوکت کو چھوڑ کر عاجزانہ حال میں میدانِ عرفات میں بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوجاتے ہیں۔یہاں وہ منظر اپنے عروج پر ہوتا ہے کہ

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

سفر ِ حج سفرِ آخرت کی یاد بھی دلاتا ہے کہ جیسے آدمی موت کے بعد اپنے دنیوی ٹھاٹھ باٹھ چھوڑ کر صرف کفن پہنے آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے ایسےہی حاجی اپنے رنگ برنگے، عمدہ اور مہنگے لباس  اتار کر کفن سے ملتا جلتا دوسادہ سی چادروں پر مشتمل  لباس پہن کربارگاہِ خداوندی میں حاضری کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ 

(ماہنامہ فیضان مدینہ  ذو القعدۃ الحرام ، ۱۴۳۸، اگست۲۰۱۷)

حج کا لغوی و شرعی معنی

حج کا لغوی معنی ہے کسی عظیم چیز کا قصد کرنا اور شرعی معنی یہ ہے کہ 9 ذوالحجہ کو زوالِ آفتاب سے لے کر10 ذوالحجہ کی فجر تک حج کی نیّت سے احرام باندھے ہوئے میدانِ عرفات میں وقوف کرنا اور 10 ذوالحجہ سے آخر عمر تک کسی بھی وقت کعبہ کا طواف زیارت کرنا حج ہے۔(در مختار،مع رد المحتار 515ج3،ص 516ملخصاً، ماہنامہ فیضان مدینہ  ذو القعدۃ الحرام ، ۱۴۳۸، اگست۲۰۱۷)

حج کی فرضیت سے متعلق آیت قرآنی

وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًاؕ      وَ  مَنْ  كَفَرَ  فَاِنَّ  اللّٰهَ  غَنِیٌّ  عَنِ  الْعٰلَمِیْنَ (پ۴، اٰل عمران: ۹۷)

ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔

مفسر شہیر عالم باعمل شیخ الحدیث و التفسیرجناب مفتی محمد قاسم مد ظلہ العالی  تفسیر صراط الجنا ن  میں زیر آیت  {وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔}  اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔  (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اٰل عمران، ۵ / ۶، الحدیث: ۳۰۰۹)

حج فرض ہونے کے لئے زادِ راہ کی مقدار

                                                کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔مزید تفصیل فقہی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔

{وَ  مَنْ  كَفَرَ: اور جو منکر ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ’’حج کی فرضیت بیان کردی گئی، اب جو اس کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے بلکہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر ہے۔

(صراط الجنان فی تفسیر القرآن ،جلد ۲ ،ص ۱۵)

وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ    (پ۲، البقرۃ: ۱۹۶)

ترجمۂ  کنزالعرفان: اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو

حج کی تعریف

حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور  کعبہ معظمہ کے طواف کا ۔اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے جس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ حج 9ہجری میں فرض ہوا،اس کی فرضیت قطعی ہے، اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱ / ۱۰۳۵-۱۰۳۶، صراط الجنان فی تفسیر القرآن ، جلد ۱ ،ص۳۱۱،۳۱۲)

حج کے فرائص

حج کے فرائض یہ ہیں :(۱)   احرام (۲)    وقوف ِ عرفہ (۳)    طواف زیارت۔

حج کی اقسام

حج کی تین قسمیں ہیں : (۱)   اِفرادیعنی صرف حج کا احرام باندھا جائے۔ (۲)   تَمَتُّع یعنی پہلے عمرہ کا احرام باندھا جائے پھر عمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے بعد اسی سفر میں حج کا احرام باندھا جائے۔(۳)   قِران یعنی عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے ، اس میں عمرہ کرنے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہیں۔

حج مبرور  یعنی مقبول حج سے کیا مراد ہے؟:

حج مقبول سے متعلق احادیث مبارکہ    چنانچہ

۔ نبیِ اکرم،نورِ مُجَسّم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:حجِ مقبول کا ثو اب جنت سے کم نہیں ۔ عرض کی گئی:مقبول سے کیا مرا د ہے؟فرمایا:ایسا حج جس میں  کھانا کھلایا جائے اور اچھی گفتگو کی جائے۔(معجم اوسط،من اسمہ موسی ، ۶  /  ۱۷۳،حدیث: ۸۴۰۵)

۔ پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: حج  ِمَقْبول کی جزا جَنّت ہی ہے،صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حج ِمقبول کیا ہے؟ اِرْشاد فرمایا:ایسا حج جس میں  (بھوکے کو) کھانا کِھلانا ہو اور سَلام کو عام کرنا۔(کنزالعمال، کتاب الحج والعمرۃ، الفصل الاول … الخ، الجزء۵، ۳ / ۷، حدیث:۸۳۰ ۱۱)

۔اللہ پاک کے نزدیک سب سے اَفْضَل عمل وہ ایما ن ہے، جس میں  شک نہ ہو،  وہ جنگ ہے جس میں  خیانت نہ ہو اور حجِ مقبول۔(ابن حبا ن،کتا ب السیر،ذکر البیان بان الجہاد … الخ،۷ /  ۵۹،حدیث: ۴۵۷۸)    (سفر حج سے متعلق  ۱۵ بیانات ، ص ۴۰۶)

مقبول حج کی شرائط

صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مولانامُفتی محّمد اَمْجَد علی اعْظَمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :قبولِ حج کے لیے تین (3)شرطیں  ہیں :اللہ پاک فرماتا ہے:

فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ  (پ۲، البقرۃ: ۱۹۷)

ترجَمۂ کنز الایمان :تو نہ عورتوں  کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا۔

تو اِن باتوں  سے نہایت ہی دُور رہنا چاہیے، جب غُصَّہ آئے یا جھگڑا ہو یا کسی گناہ کا خیال آئے،فوراً سَر جُھکا کر دل کی طرف مُتَوَجَّہ ہوکر اِس آ یت کی تلِاوت کرے اور دو ایک بار لَا حَوْل شریف (یعنی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم) پڑھے،یہ بات جاتی رہے گی،یہی نہیں  کہ اُسی کی طرف سے اِبتِدا ہو یا اُس کے ساتھی ہی کے ساتھ جھگڑا بلکہ بعض اوقات امتحاناً راہ چَلْتوں  کو پیش کر دیا جاتا ہے کہ بے سبب اُلجھتے بلکہ گالی گلوچ اورلَعَنت و مَلامَت کرنے کو تیار ہوتے ہیں ، لہٰذا حاجی کو ہر وقت ہوشیار رہنا چاہیے،خدا نہ کرے ایک دو کلمے میں  ساری محنت اور رُوْپْیَہ برباد ہو جائے۔ (بہار شریعت،حصہ ششم،۱ / ۱۰۶۱-۱۰۶۰بتغیر قلیل،سفر حج سے متعلق  ۱۵ بیانات ، ص ۴۰۷،۴۰۸ )

مقبول حج کی نشانیاں

حُجَّۃُ الْاِسْلَام حضرت سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں :منقول ہے، قَبولِیَّت ِ حج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ حاجی جن نافرمانیوں  میں  پہلے مُبْتَلا  تھا ،اُنہیں  چھوڑ دے اور اپنے بُرے دوستوں  کو چھوڑ کر نیکوں  کی صحبت اختیار کرے،کھیل کُود اور غفلت کی مجالس کو چھوڑ کر ذِکْر وفِکْر اور بیداری کی محافل اختیار کرے۔(احیاء العلوم،۱ / ۸۰۳)

اعلیٰ حضرت،امامِ اَہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :حجِ مَبْرُور(حجِ  مقبول)کی نشانی ہی یہ ہے کہ پہلے سے اچھاہوکر پلٹے۔(فتاویٰ رضویہ،۲۴ / ۴۶۷)

صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مولانامُفتِی محّمد اَمْجَد علی اعْظَمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں :(حاجی کو چاہئے کہ وہ)حاجت سے زیادہ زادِ راہ لے کہ ساتھیوں  کی مدد اور فقیروں  پر صدقہ کرتا چلے ،  کہ یہ حجِ مقبول  کی نشانی ہے۔(بہار شریعت،حصہ ششم،۱ / ۱۰۵۱بتغیر قلیل)

حج کے فضائل

(1)حج سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(مسلم،ص 70،حدیث:321)

(2)حج اور عمرہ کرو کیونکہ یہ فقر اور گناہو ں کو اس طرح مٹاتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے زنگ کو مٹاتی ہے اور حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے۔ (ترمذی،ج2،ص218،حدیث:810)

 حج ِ فرض کے ترک پر سخت وعید ہے  جیسا کہ حدیث  پاک میں فرمایا گیا ’’جو شخص زادِراہ اور سواری کامالک ہو جس کے ذریعے وہ بیتُ اللہ تک پہنچ سکے ا س کے باوجود وہ حج نہ کرے  تو اس پر کوئی افسوس نہیں خواہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔(ترمذی،ج2،ص219،حدیث:812)( ماہنامہ فیضان مدینہ  ذو القعدۃ الحرام ، ۱۴۳۸، اگست۲۰۱۷، ص ۴)

]]> https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-5/feed/ 0 تیسرا رکن اسلام زکٰوۃ https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-4/ https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-4/#respond Sun, 23 Jun 2024 13:02:53 +0000 https://urducover.com/?p=799

تیسرا رکن اسلام       :        زکٰوۃ

زکوۃ کی برکت سے نفس انسانی بخل کے میل سے پاک و صاف ہوتاہے، مال میں برکت ہوتی ہے اسیلئے اسے زکوۃ کہتے ہیں

 

تیسرا رکن’’ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ‘‘ یعنی زکاۃ ادا کرنا 

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے دنیا کے تمام ادیان پر اسلام کو غلبہ حاصل ہے اور اسلام کا پیش کردہ نظام ہی دنیا کی سالمیت کا ضامن ہے۔اس دین کی سب سے بڑی خصوصیت ہےکہ یہ اپنے ماننے والوں کو دوسروں کے ساتھ ہمدری،خیر خواہی، باہمی امداد ، دست تعاون اور معاشرے میں موجود معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ وہ اپنے بھائیوں کے دیئے گئے عطیات سے فائدہ اٹھاکر معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کرسکیں۔اسلام  نےاس فلاحی نظام کی بقا کےلئے زکوۃ کا سسٹم متعارف کروایا اور رسول اللہ تعالی علیہ وسلم نے زکاۃ کی ادائیگی کو اسلام کا تیسرا اہم ستون قرار دیا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آقا دوجہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حقو ق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق پوری انسانیت کی فلاح وبہبود کےلئے ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جہاں دیگر احکامات بیان فرمائیں وہیں زکوۃ کی ادائیگی  کے بارے میں بھی حکم ارشاد فرمایا۔

ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابواُمامہ صُدَی ّبن عَجْلان باہِلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حجۃ الوداع کے خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا : اپنے ربّ عزوجل سے ڈرو! اپنی پانچوں نمازیں پڑھو!اپنے رمضان کے روزے رکھو!اپنے اموال کی زکوۃ دو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو!تم اپنے رَبّ عزوجل کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔

نظام ِزکوۃ کا مختصر تعارف:

شارح مشکاۃ المصابیح حضرت مفسرشہیر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  فرماتے ہیں :’’زکوۃ کے لغوی معنی ہیں پاکی اور بڑھنا، رب تعالٰی فرماتا ہے:” قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى”۔چونکہ زکوۃ کی برکت سے نفس انسانی بخل کے میل سے پاک و صاف ہوتاہے،نیز اس کی وجہ سے مال میں برکت ہوتی ہے اس لئے اسے زکوۃ کہتے ہیں۔زکوۃ کا سبب بڑھنے والا مال ہے اور اسکے شرائط: اسلام،آزادی،عقل،بلوغ اور قرض سے مال کا خالی ہوناہے لہذا کافر،غلام،بچے اور دیوانے پر زکوۃ فرض نہیں۔حق یہ ہے کہ زکوۃ کا اجمالی حکم ہجرت سے پہلے آیا اور اس کی تفصیل      ۱۱ھ؁ میں بیان ہوئی لہذا آیات قرآنیہ میں تعارض نہیں۔کُل چار مالوں میں زکوۃ فرض ہے:سونا چاندی،مال تجارت، جنگل میں چرنے والے جانور،زمینی پیداوار۔(از مرقاۃ و اشعہ)تفصیلی احکام کتب فقہ میں دیکھو۔پیداوار کی زکوۃ دسواں یا بیسواں حصّہ ہے،باقی مال تجارت و سونے چاندی کا چالیسواں حصّہ۔‘‘

  يعنی، زکوٰۃ شرع ميں اللہ کے لئے مال کے ايک حصہ کا جو شرع نے مقرر کيا ہے مسلمان فقير کو مالک کردينا ہے اور فقير نہ ہاشمی ہو نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور اپنا نفع اس سے بالکل جُدا کرلے۔(بہارِ شريعت،مسائل فقہیہ،حصہ۵، ص۷، ضیائے صدقات،ص ۳۳)

زکٰوۃ کی فرضیت:

  زکوٰۃ کی فرضیت کتاب وسنّت سے ثابت ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ    قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ (پ ۱ ، البقرۃ:۴۳ )

ترجمۂ کنزالایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو

  صدر الافاضل حضرت مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃاللہ الھادی اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں: ”اس آیت میں نمازو زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے ۔(تفیسر خزائن العرفان،فیضان زکاۃ، ص۲)

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (التوبۃ:۱۰۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ    (پ۳۰، البینة: ۵)

ترجمۂ کنزالایمان: اورنمازقائم کریں اورزکوٰۃ دیں اوریہ سیدھا دین ہے۔

مصارف زکوۃ کا تعارف:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ   (پ۱۰، التوبۃ: ۶۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: زکوٰۃ صرف فقیروں اور بالکل محتاجوں اور زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کئے ہوئے لوگوں اور ان کیلئے ہے جن کے دلوں میں اسلام کی الفت ڈالی جائے اور غلام آزاد کرانے میں اور قرضداروں کیلئے اور اللہ کے راستے میں (جانے والوں کیلئے) اور مسافر کے لئے ہے۔ یہ اللہ کامقرر کیا ہوا حکم ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ مفتی محمد قاسم قادری شیخ الحدیث والتفسیر فرماتے ہیں: ’’ اس آیت میں زکوٰۃ کے مصارف بیان گئے ہیں ،ان سے متعلق چند شرعی مسائل درج ذیل ہیں :

 زکوٰۃ کے مستحق آٹھ قسم کے لوگ قرار دیئے گئے ہیں ان میں سے مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِجماع کی وجہ سے ساقط ہوگئے کیونکہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا تو اب اس کی حاجت نہ رہی اور یہ اجماع حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُکے زمانے میں منعقد ہوا تھا۔ یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقط کرنے میں ایسا نہیں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے قرآنِ کریم کو ہی بدل دیا کیونکہ قرآنِ مجید ایسی کتاب ہے ہی نہیں کہ مخلوق میں سے کوئی اسے تبدیل کرسکے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ا س کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے، بلکہ صحابۂ کرام کا مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقِط کرنے میں اِجماع یقیناً کسی دلیل کی بنا پر تھا ، جیسا کہ علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یقیناً ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو گی جس سے انہیں علم ہو گا کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی وفات سے پہلے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔ یا، اس حکم کے آپ کی (ظاہری) حیاتِ مبارکہ تک ہونے کی قید تھی۔ یا، یہ حکم کسی علت کی وجہ سے تھا اور اب وہ علت باقی نہ رہی تھی۔ (فتح القدیر، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لا یجوز، ۲ / ۲۰۱)

فقیر وہ ہے جس کے پاس شرعی نصاب سے کم ہو اور جب تک اس کے پاس ایک وقت کے لئے کچھ ہو اس کو سوال حلال نہیں۔ ہاں بن مانگے اگر کوئی اسے زکوٰۃ دے تو وہ لے سکتا ہے اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور ایسا شخص سوال بھی کرسکتا ہے۔

 عامِلین وہ لوگ ہیں جن کو حاکمِ اسلام نے صدقے وصول کرنے پر مقرر کیا ہو۔

اگر عامل غنی ہو تو بھی اس کو لینا جائز ہے۔

 عامل سید یا ہاشمی ہو تو وہ زکوٰۃ میں سے نہ لے۔

گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ جن غلاموں کو ان کے مالکوں نے مُکَاتَبْ کردیا ہو اور ایک مقدار مال کی مقرر کردی ہو کہ اس قدر وہ ادا کردیں تو آزاد ہیں ، وہ بھی مستحق ہیں ، ان کو آزاد کرانے کے لئے مالِ زکوٰۃ دیا جائے۔

قرضدار جو بغیر کسی گناہ کے مبتلائے قرض ہوئے ہوں اور اتنا مال نہ رکھتے ہوں جس سے قرض ادا کریں انہیں ادائے قرض میں مالِ زکوٰۃ سے مدد دی جائے۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنے سے بے سامان مجاہدین اور نادار حاجیوں پر صَرف کرنا مراد ہے۔

اِبنِ سبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کے پاس اُس وقت مال نہ ہو۔

 زکوٰۃ دینے والے کو یہ بھی جائز ہے کہ وہ ان تمام اَقسام کے لوگوں کو زکوٰۃ دے اور یہ بھی جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی قسم کو دے۔

 زکوٰۃ انہیں لوگوں کے ساتھ خاص کی گئی لہٰذاان کے علاوہ اور دوسرے مَصرف میں خرچ نہ کی جائے گی، نہ مسجد کی تعمیر میں ،نہ مردے کے کفن میں ،نہ اس کے قرض کی ا دا ئیگی میں۔

 زکوٰۃ بنی ہاشم اور غنی اور ان کے غلاموں کو نہ دی جائے اور نہ آدمی اپنی بیوی اور اولاد اور غلاموں کو دے (تفسیرات احمدیہ، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۶۶-۴۶۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۴۱، ملتقطاً)۔‘‘

(صراط الجنان فی تفسیر القرآن ، جلد ۴ ، ص ۱۵۶،۱۵۷)

زکوۃ کی ادائیگی کی ترغیب:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فارو ق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نہ صرف لوگوں سے زکوۃ کی وصولی فرماتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً انہیں ترغیب بھی دلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ’’يَا اَهْلَ الْمَدِيْنَةِ اِنَّهُ لَا خَيْرَ فِيْ مَالٍ لَا يُزَكّٰى یعنی اے مدینے والو! اس مال میں کوئی خیر نہیں جس کی زکوۃ ادا نہ کی گئی ہو۔‘‘

(…کنز العمال، کتاب الزکاۃ، باب احکام الزکاۃ، الجزء:۶، ج۳، ص۲۳۳، الحدیث: ۱۶۸۹۱، فیضان فاروق اعظم، جلد ۲ ،ص ۷۹۸۔۷۹۹)

)4( …اِتَّقُواالنَّارَوَلَوْبِشِقِّ تَمْرَۃٍیعنی (دوزخ کی) آگ سےبچواگرچہ کھجورکےایک ٹکڑےکےذریعے۔( مسلم، کتاب الزکاة ، باب الحث علی الصدقة  الخ،ص۵۰۷،حدیث: ۱۰۱۶)

اَلْمُسْتَطْرَف فِیْ کُلِّ فَنٍّ مُسْتَظْرَف  ترجمہ دین و نیا کی انوکھی باتیں ، جلد ۱ ، ص ۲۵۔۲۶ )

 زکاۃ وعطیات کے بارےمکمل طور پر آگاہی کےلئےجس طرح قرآن و حدیث میں احکامات آئے ہیں اور ان احکامات کو عملی جہتوں سے بیان کرنے کےلئے فقہائے امت نے اپنی اپنی نگارشات میں بہت تفصیل سے لکھا ہے ایک محقق اور اسلام کے نظام زکاۃ کو سمجھنے والے کےلئے ان فقہائے امت کی کتابوں کا مطالعہ کرنا بہت مفید رہے گا۔

]]> https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-4/feed/ 0 دوسرا رکن اسلام  نماز https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-3/ https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-3/#respond Sun, 23 Jun 2024 12:27:41 +0000 https://urducover.com/?p=794

دوسرا رکن اسلام   :   نماز

نماز اسلام کے نظام ِعبادت میں سب سے اہم فرض ہے

دوسرا رکن      : وَإِقَامِ الصَّلَاةِ  یعنی نماز قائم کرنا

اسلام کا دوسرا رکن نماز قائم کرناہے۔نما ز اسلام کے نظام ِعبادت  میں سب سے اہم عبادت ہے ، یہ خالصا حقوق اللہ  میں سے  ایک حق ہے جو صرف  رب العزت کی بندگی کےلئے ادا کیاجاتا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے سورہ  طہ  آیت نمبر 14 میں ارشاد فرمایا

وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ    (پ۱۶، طٰہٰ: ۱۴)

ترجمۂ کنز الایمان:  اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔

نَماز کس پر فرض ہے؟

ہر مسلمان عاقل بالغ مرد و عورت پر روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے۔ اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ جو جان بوجھ کر ایک نماز ترک کرتا ہے وہ فاسق، سخت گناہ گار، اور عذابِ نار کا حق دار ہے۔ (فیضانِ نماز، ص 6)

نماز اور اس کی فضیلت

                             اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشادفرماتاہے:

حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ   (پ۲، البقرة: ۲۳۸)

ترجمۂ کنز الایمان: نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کےحضور ادب سے۔

                             ایک مقام پرارشادہوتاہے:

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ  (پ۱، البقرة: ۴۳)

 ترجمۂ کنز الایمان:  اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔

نماز کی ادائیگی کےلئے طہارت و پاکیزگی  کااہتمام:

ترجمۂ کنزُالعِرفان:

“اے ایمان والو! جب تم نماز کی طرف کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھولو اور اگر تم بے غسل ہو تو خوب پاک ہوجاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیتُ الخلاء سے آیا ہو، اور تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو، تو پاک ہو جاؤ۔ اور اگر تم پانی نہ پا سکو تو پاک مٹی سے تیمم کرو اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے، لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر ادا کرو۔”

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: “جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اور لوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں، تو اللہ تعالٰی اسے بھی جماعت سے نماز پڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا، اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔” (ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بھا، ۱ / ۲۳۴، الحدیث: ۵۶۴)

ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کو نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اسی طرح آپ بھی اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیں اور خود بھی نماز ادا کرنے پر ثابت قدم رہیں۔ (روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ۵ / ۴۴۸)

حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت حمران رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: “جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔” (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، ۳ / ۹، الحدیث: ۲۷۲۷)

نماز اور مسلمانوں  کا حال

یاد رہے کہ اس خطاب میں  حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت بھی داخل ہے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر امتی کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنے گھروالوں  کو نماز ادا کرنے کا حکم دے اور خود بھی نماز ادا کرنے پر ثابت قدم رہے ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت اُس آگ سے کرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔ اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

افسوس! آج کل مسلمانوں کا نماز کے بارے میں یہ حال ہے کہ گھر والے نماز چھوڑ دیتے ہیں اور انہیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ خود کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں اور انہیں فکر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص نماز چھوڑنے پر انہیں آخرت کے حساب اور عذاب سے ڈرائے تو بھی انہیں احساس نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے اور نہ صرف خود نمازیں ادا کرنے کی توفیق دے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی نمازی بنانے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے، آمین۔

{لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًا: ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے۔} فرمایا کہ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے اور نہ ہی تمہیں اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ ہماری مخلوق کو روزی دو یا اپنے اور اپنے اہل و عیال کی روزی کے ذمہ دار ہو۔ بلکہ ہم تمہیں اور انہیں روزی دیں گے، لہٰذا روزی کے غم میں نہ پڑو، بلکہ اپنے دل کو آخرت کے کاموں کے لئے فارغ رکھو۔ جو اللہ تعالیٰ کے کام میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور آخرت کا اچھا انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ (مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ص۷۰۷-۷۰۸)

(صراط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد ششم، ص ۲۶۲-۲۶۳)

گناہوں کاکفارہ

حضرت سیِّدُنا ابوطفیل رحمۃُ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ اے لوگو! اپنے گناہوں کی آگ سے بچو اور نماز کے ذریعے اسے بجھاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: “ایک نماز، دوسری نماز تک کے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔”

(مسلم،كتاب الطهارة،باب الصلوات الخمس والجمعة…الخ،ص۱۴۴،حدیث:۲۳۳،عن ابی ھریرة، دین ودنیاکی انوکھی باتیں، جلد۱ ، ص ۱۵)

نَماز میں شِفا ہے

حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نماز پڑھ کر سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پیٹ میں درد ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ فرمایا: “اُٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ نماز میں شفا ہے۔”

 (ابن ماجہ ج۴ص۹۸حدیث ۳۴۵۸، فیضانِ نماز، ص  ۲۶)

]]> https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-3/feed/ 0 پہلا رکن :  کلمہ شہادت https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-2/ https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-2/#respond Sun, 23 Jun 2024 11:58:05 +0000 https://urducover.com/?p=785  

پہلا رکن :  کلمہ شہادت

اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَہٗ لَاشَرِيْكَ لَہٗ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُولُہٗ

یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں:

اسلام کے ارکان میں پہلا رکن اللہ کے واحد اور حقیقی معبود ہونے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کی گواہی دینا ہے۔ اس رکن کی تکمیل کے لیے دو گواہیاں ضروری ہیں: ایک اللہ کی وحدانیت کی اور دوسری حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی۔ یہی گواہی کلمہ طیبہ میں دی جاتی ہے، جو دو شہادتوں پر مشتمل ہے۔ دونوں گواہیاں ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی اللہ کی وحدانیت کی گواہی دے لیکن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی سے انکار کرے تو اس کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔

پہلا رکن تب ہی مکمل ہوگا جب اللہ کے سوا ہر کسی کی عبادت کا انکار کیا جائے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کیا جائے، جو تمام نبیوں کی نبوت پر مہر ختم نبوت ہے۔ یہ گواہی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کو بھی تسلیم کرتی ہے۔

یہ پہلا رکن بقیہ تمام ارکانِ اسلام کی سب سے اہم بنیاد ہے۔ شہادت کے بغیر باقی ارکان پر عمل بے سود ہوگا، اور ان کی قبولیت پہلے رکن کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔

کلمہ شہادت کا مفہوم  

کلمہ شہادت کا مطلب یہ ہے کہ دل سے یقین کرتے ہوئے اللہ کے ایک ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دی جائے۔ دل سے مانتے ہوئے زبان سے “اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ” کہنا ضروری ہے۔ اس میں تمام ضروری اسلامی عقائد شامل ہیں کیونکہ جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتا ہے، وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرتا ہے جو آپ خدا کی طرف سے لائے ہیں۔

رکن اول کی اہمیت اور حساسیت کے بارے میں حضرت مفسر شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “اس سے سارے اسلامی عقائد مراد ہیں۔ جو کسی عقیدے کا منکر ہے، وہ حضور کی رسالت کا بھی منکر ہے۔ حضور کو رسول ماننے کا مطلب ہے کہ آپ کی ہر بات کو مانا جائے” (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 1، حدیث: 2)۔

کلمہ شہادت کی فضیلت 

رکن اول یعنی کلمہ اسلام کی فضیلت کے بارے میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: “جو شخص گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا” (مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، الفصل الثالث، الحدیث: 36، ج 1، ص 28)۔

حضرت الحاج مولانا عبدالمصطفیٰ الاعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب ’’بہشت کی کنجیاں‘‘ میں فرماتے ہیں: “یہ اسلام کا وہ بنیادی کلمہ ہے جس پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے۔ یہ کلمہ بلاشبہ جنت میں لے جانے والا عمل ہے، بلکہ جنت میں لے جانے والے تمام اعمال صالحہ کی اصل و بنیاد ہے” (بہشت کی کنجیاں، ص 33، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)۔

کلمہ اسلام کا ثواب 

اس مقدس کلمہ کی بڑی عظمت ہے اور اسے کثرت سے پڑھنے کا بہت بڑا اجر و ثواب ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک شخص کو تمام مخلوق کے سامنے کھڑا کرے گا اور اس کے اعمال کے ننانوے دفتر کھولے گا۔ ہر دفتر اس کی حدِ نگاہ کے برابر ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: “کیا تو ان اعمال سے انکار کرتا ہے؟ کیا اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟” وہ کہے گا: “نہیں، اے میرے پروردگار!” پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: “کیا تجھے کوئی عذر پیش کرنا ہے؟” وہ کہے گا: “نہیں، اے میرے پروردگار!” اللہ تعالیٰ فرمائے گا: “نہیں! تیرے پاس ایک نیکی ہے اور تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔”

پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس میں “اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه” لکھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا: “اے شخص! تو اپنے اعمال تولنے کی جگہ جا۔” وہ شخص عرض کرے گا: “اے میرے پروردگار! ان دفتروں کے سامنے اس چھوٹے پرچہ کی کیا حقیقت ہے؟” اللہ تعالیٰ فرمائے گا: “تولنے کی جگہ جا اور یاد رکھ، تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔”

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت ان تمام دفتروں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا۔ جب وزن کیا جائے گا تو تمام دفتروں کے انبار ہلکے پڑ جائیں گے اور وہ پرچہ بھاری ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے نام کے مقابلے میں کون سی چیز بھاری ہو سکتی ہے؟ (سنن الترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فیمن…الخ، الحدیث: 2648، ج 4، ص 290، بہشت کی کنجیاں، ص 36)۔

]]>
https://urducover.com/5-pillars-of-islam-in-urdu-2/feed/ 0