hassan bin sabah and his artificial paradise – https://urducover.com Sat, 24 Aug 2024 13:55:16 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.6.2 https://urducover.com/wp-content/uploads/2024/07/Urdu-cover-logo--150x150.png hassan bin sabah and his artificial paradise – https://urducover.com 32 32 حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 13(آخری حصہ) https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9/ https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9/#respond Sat, 24 Aug 2024 13:55:16 +0000 https://urducover.com/?p=5894 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ     13(آخری حصہ)

Last Episode

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:49 }
Second Last Episode
سلطنت سلجوقیہ کی فوج میں اور لوگوں میں بھی بدلی سی پائی جاتی تھی جیسے وہ حسن بن صباح کو شکست نہیں دے سکیں گے اس فوج نے باغیوں کے قبضے میں آئے ہوئے جس قلعے کا بھی محاصرہ کیا وہاں سے فوج ناقابل برداشت جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہو آئی تھی
پھر لوگوں کے کانوں میں یہی ایک خبر پڑتی تھی کہ آج حسن بن صباح نے وزیر اعظم کو یا کسی حاکم کو یا کسی عالم دین کو قتل کروا دیا ہے لوگ فدائیوں کو جن بھوت سمجھنے لگے تھے لیکن سالار اوریزی نے وسم کوہ کا قلعہ فتح کرلیا پھر شاہ در پر بھی قبضہ کیا گیا اور پھر حسن بن صباح کے پیروکار استاد عبدالملک بن عطاش کو بھی قتل کر دیا گیا اور اس کے علاوہ لوگوں کو یہ خبر ملنے لگی کہ باطنی فدائی پکڑے جانے لگے ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کو بھی پکڑوا رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ حسن بن صباح کے غدار اور مسلمانوں کے وفادار ہو گئے ہیں تو لوگوں کی نگاہوں میں حسن بن صباح ایک انسان کے روپ میں سامنے آنے لگا
سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد مرو میں الموت پر حملے کے لیے بہت بڑی فوج تیار کر رہا تھا اور زیادہ تر وقت اس کی ٹریننگ پر صرف کرتا تھا وہ وزیراعظم تھا لیکن ہمہ وقت سپہ سالار بن گیا تھا اس نے محسوس کرلیا تھا کہ فوج میں حسن بن صباح کو پراسرار اور ایسی شخصیت سمجھا جارہا ہے جس کے ہاتھ میں کوئی غیبی طاقت ہے فوج کا جذبہ اور لڑنے کا حوصلہ مضبوط کرنے کے لیے ابونصر احمد ساری فوج کو اکٹھا کر کے سناتا رہتا تھا کہ باطنیوں پر کس طرح کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں
وہ فوج کو قرآن کی وہ آیات سناتا رہتا تھا جن کا تعلق جہاد کے ساتھ تھا یہ آیت تو وہ اکثر سنایا کرتا تھا
اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِیَآءَ الشَّیۡطٰنِ ۚ اِنَّ کَیۡدَ الشَّیۡطٰنِ کَانَ ضَعِیۡفًا ﴿٪۷۶﴾
ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے (اعلاء دین اور رضائے الٰہی کیلئے) لڑو بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے
پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ سالاروں اور ان سے کم درجہ کماندروں کو پوری طرح آرام بھی نہیں کرنے دیتا تھا انہیں اکٹھا کرکے الموت کے محاصرے اور تسخیر کے طریقے بتاتا اور ان کے مشورے اور تجاویز غور سے سنتا تھا اس کے جوش و خروش اور سرگرمیوں میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا تھا اسے ابن مسعود نے الموت کے اندر کی معلومات دے دی تھی وہ اب اپنے سالاروں کو الموت کے اندر کے نقشہ بنا بنا کر دکھاتا اور انہیں یقین دلاتا تھا کہ الموت کو فتح کرنا کوئی مشکل کام نہیں
عبید عربی اور ابن مسعود جیسے پتھر دل فدائی جو کسی دوسرے کی اور اپنی جان لینے کو ایک پرلطف کام سمجھتے تھے اپنے ہی امام حسن بن صباح کی جان کے دشمن ہو گئے تھے ان کے ایمان پر ابلیسیت کے جو پردے پڑ گئے تھے وہ انھوں نے اتار پھینکے تھے
یہ تمام واقعات لوگوں کو سنائے جاتے رہے تو ان میں جو بد دلی پیدا ہو گئی تھی وہ نکل گئی لوگ تسلیم کرنے لگے کہ اللہ ان کی مدد کر رہا ہے لوگوں کو مسجدوں میں خطبوں میں بتایا گیا کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں یہ آیت فوج میں شامل ہونے والے لوگوں کو ذہن نشین کرا دی گئی تھی
وقٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۹۳﴾
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں (کفر و باطل پرستی سے) تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر
ان حالات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ حسن بن صباح کا زوال شروع ہو گیا ہے
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ابن مسعود الموت چلا گیا تھا اور اس نے غداری کا سارا الزام حیدر بصری کے سر تھوپ دیا اور خود مظلوم اور مسلمانوں کی قید سے فرار کا ہیرو بن گیا تھا اس وقت اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ حیدر بصری کو امام شیخ الجبل نے شاہ در خزانہ نکالنے کے لئے بھیج دیا ہے ابن مسعود کو جب پتہ چلا تو اس نے کہا کہ اسے خزانہ مل گیا تو وہ واپس ہی نہیں آئے گا
اس نے یہ الفاظ منہ سے نکال تو دیے تھے لیکن وہ شیخ الجبل کے آگے جھوٹ بولنے کی سزا سے بے خبر نہیں تھا سزائے موت اگر حیدر بصری خزانہ لے کر یا خزانے کے بغیر ہی آجاتا تو اس کو گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دیے جاتے لیکن یہ بھی اللہ کی مدد تھی کہ حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو خزانے والی جھیل کے مگر مچھ ہضم کر چکے تھے اور حیدر بصری نے اب کبھی واپس نہیں آنا تھا
نور کے باپ نے بڑا ہی خوفناک انتقام لیا تھا یہ پچھلی قسط میں سنایا جاچکا ہے نور کے باپ نے اپنی انتقامی کاروائی کو یہیں پر ختم نہیں کر دیا تھا حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو مگرمچھوں کے حوالے کر کے وہ اپنے ساتھی اور نور کے ساتھ گھوڑا گاڑی میں سوار ہوا اور واپس چل پڑا اب اس نے کچھ سوچ کر گھوڑوں کو دوڑایا نہیں رفتار آہستہ رکھی اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ وہ دو یا تین رات راستے میں ہی گزارے گا
چوتھے روز وہ شام کے بعد اس وقت شاہ در میں داخل ہوا جب رات تاریک ہو گئی تھی وہ دانستہ ایسے ہی وقت شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا جب اسے وہ باطنی نہ دیکھ سکیں جنہیں معلوم تھا کہ وہ حیدر بصری کے ساتھ خزانے والی جھیل کو گیا تھا ان باطنیوں کے صرف ایک گھر سے وہ واقف تھا وہ لوگ اسے نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ شہر کے ساتھ ہی ایک گاؤں میں رہتے تھے
وہ سیدھا سلطان سنجر کے وزیر کے گھر کے سامنے جا رکا اور وزیر کو پتہ چلا تو اس نے اسے اندر بلا لیا نور کے باپ نے وزیر کو بتایا کہ وہ کیا کر آیا ہے اور اب وہ کیا کرے گا وزیر اس کی بات سن کر خوش تو بہت ہوا لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ وہ جو کچھ بھی کرنا ہے محتاط ہو کر کرے وہ اپنی اور اپنی بیٹی کی حفاظت سے بھی کوتاہی نہ کرے
اس نے گھوڑا گاڑی وہیں چھوڑی اور وزیر سے درخواست کی کہ اس گھوڑا گاڑی کو چھپا کر رکھ دیا جائے اور یہ کسی کے سامنے نہ آئے وزیر نے گھوڑا گاڑی اور گھوڑے کو چھپا کر رکھنے کا حکم دیدیا نور کا باپ نور اور اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر وہاں سے اپنی گھر گیا اور انہیں یہ کہا کہ دو دن وہ باہر نہ نکلیں اور کسی کو پتہ نہ چلے کہ وہ واپس آگئے ہیں
دو روز بعد نور کا باپ شہر سے نکلا اور گاؤں میں اس باطنی کے گھر گیا جہاں باطنی اکٹھے ہوا کرتے تھے وہاں تین چار باطنی موجود تھے جن میں ایک فدائ تھا
آ گئے تم لوگ؟
ایک دو نے بیک زبان کہا گھوڑا گاڑی کی آواز نہیں آئی حیدر اور دوسرے کہاں ہیں؟
نور کا باپ کوئی جواب دیئے بغیر یوں چارپائی پر بیٹھا جیسے نڈھال ہو کر گر پڑا ہو اس نے سر جھکا کر دونوں ہاتھ سر پر رکھ لئے جو کوئی اچھی نشانی نہیں تھی باطنیوں نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا ہوا کیا ہے؟
کیا بتاؤں دوستو! نور کے باپ نے بڑی ہی کمزور اور شکست خوردہ آواز میں کہا شیخ الجبل کے طفیل میری اور میری بیٹی اور میرے ساتھی کی جان بچ گئی ہے اور میری جوان بیٹی کی عزت بھی بچ گئی ہے حیدر بصری اور اس کے ساتھی خزانہ لے کر کہیں اور نکل گئے ہیں وہ آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے میں اتنا ہی سنا کہ وہ اسی گھوڑا گاڑی پر مصر چلے جائیں گے بہرحال وہ الموت نہیں گئے غداری کر گئے ہیں
باطنی اسے پوچھنے لگے کہ یہ سب ہوا کیسے؟
نور کے باپ نے کہا کہ وہ خیریت سے خزانے کے غار تک پہنچ گئے تھے اور بکس اٹھا کر لائے کشتی میں بھی رکھ لئے مگرمچھوں نے حملہ کیا تو ان کے آگے بھیڑے پھینک کر کنارے سے آ لگے اور پھر بکس گاڑی میں ڈال لئے
نور کے باپ نے رنج و الم سے دبی ہوئی آواز میں بتایا کہ وہاں سے چلنے لگے تو وہ آگے بیٹھا اور گھوڑوں کی باگیں ہاتھوں میں لے لیں لیکن حیدر نے اس کے ہاتھوں سے باگیں لے کر اسے پیچھے بٹھا دیا اور گاڑی چلا دی کچھ دیر کے سفر کے بعد ایسی جگہ پہنچے جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں ایک شاہ در کی طرف آتا ہے اور دوسری پگڈنڈی کسی اور طرف چلی جاتی ہے
اس نے المناک آواز میں آہستہ آہستہ بتایا کہ حیدر نے گھوڑا گاڑی دوسری پگڈنڈی کی طرف موڑ دی اور نور کے باپ نے اسے بتایا کہ شاہ در کو وہ دوسرا راستہ جاتا ہے حیدر نے نہ جانے کس زبان میں کچھ کہا تو حیدر کے ساتھیوں نے نور کے باپ کو اور اس کے ساتھی اور نور کو بھی اٹھا کر دوڑتی گھوڑا گاڑی سے باہر پھینک دیا اور گھوڑے دوڑا دیے جتنی دیر میں وہ اٹھتے اور سنبھلتے گھوڑا گاڑی دور آگے جا کر ایک موڑ مڑ چکی تھی اور چٹانوں کے پیچھے چھپ گئی تھی
پھر نور کے باپ نے سنایا کہ وہ بیابان سنسان اور خطرناک جنگل تھا اور نور کا باپ صرف اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی کے متعلق پریشان تھا ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا جو کوئی رہزن یا ڈاکو لوٹ لیتا سب سے زیادہ قیمتی چیز نور تھی اسے چھپائے رکھنا بہت ہی مشکل نظر آرہا تھا وہ شہر کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر ہو گئے اور شیخ الجبل یاد کرتے چل پڑے
ہمیں زندہ واپس آنے کی کوئی امید نہیں تھی نور کے باپ نے سنایا جنگل میں ذرا سی بھی آہٹ ہوتی تھی تو میں ڈر جاتا کہ یہ رہزن ہی ہوں گے ہم خاصی دور نکل آئے تو پیچھے سے سات اونٹ آتے نظر آئے اب تو ہم اور زیادہ ڈرے ہماری تلواریں گھوڑا گاڑی میں چلی گئی تھیں بھاگنا بھی بے کار تھا شتر سواروں نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور وہ اونٹوں پر سوار ہو کر اونٹ ہمارے پیچھے دوڑا دیے وہ ہمیں پکڑ سکتے تھے
ہم نے اپنے آپ کو قسمت اور تقدیر کے حوالے کر دیا اونٹ قریب آگئے تو میں نے دیکھا کہ سات میں سے چار اونٹوں پر سامان لدا ہوا تھا اور تین خالی تھے ان کے ساتھ پانچ آدمی تھے وہ ہمارے قریب آئے تو ان کا انداز ایسا تھا جس سے یہ شک نہیں ہوتا تھا کہ یہ رہزن یا ڈاکو ہیں انہوں نے ہمیں مسکرا کر دیکھا اور ایک نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور کہاں جا رہے ہو میں نے انہیں یہ جھوٹا بیان دیا کہ ہم اونٹوں پر آ رہے تھے اور شاہ در جا رہے ہیں راستے میں دو رہزنوں نے سامان بھی لوٹ لیا ہے اور اونٹ بھی لے گئے ہیں
میری یہ بات سن کر ایک نے کہا کہ وہ اگر ڈاکو تھے تو اتنی خوبصورت لڑکی کو کیوں چھوڑ گئے ہیں میں نے دوسرا جھوٹ بولا کہ اس وقت یہ لڑکی جنگل کے اندر ایک اوٹ میں چلی گئی تھی اس نے وہاں سے دیکھ لیا تھا اور چھپی رہی تھی میں نے اسے بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے پھر میں نے ان شتربانوں کی منت سماجت کی کہ ہمیں اونٹوں پر شاہ در کے پہنچا دیں اور وہ جتنی اجرت مانگیں گے وہاں نہیں دی جائے گی وہ کوئی بھلے لوگ تھے جو ہمیں اونٹوں پر سوار کر کے یہاں لے آئے اور میں نے انہیں کچھ اجرت دے دی لیکن راستے میں انہوں نے تین دن لگا دیے ہم تینوں تو گھر میں نے نڈھال ہو کر پڑے رہے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہمارے ساتھ جو ہوا وہ کن الفاظ میں سنائیں گے کہ وہ سننے والے مان لیں
وہ تو ہم نے مان لیا ہے ایک باطنی نے کہا یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ تم جیسے بوڑھے نے حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ قتل کردیا ہو اور خزانہ ہضم کر لیا ہو اب یہ سوچوں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے
تم سب ان کے تعاقب میں نکل جاؤ تو بھی ان تک نہیں پہنچ سکتے نور کے باپ نے کہا یہ تو دیکھو کہ دن کتنے گزر گئے ہیں اب یہی ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی الموت چلا جائے اور شیخ الجبل کو بتا دے کہ خزانہ حیدر بصری لے اڑا ہے وہ الموت گیا ہوتا تو ہمیں اس کے ساتھی راستے میں پھینک کیوں جاتے
ان میں سے ایک آدمی اسی وقت الموت جانے کے لیے تیار ہوا اور گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا نور کا باپ اٹھا اور دکھ زدہ آدمی کی طرح سر جھکائے ہوئے اس طرح گھر سے نکل آیا
قلعہ الموت میں ابن مسعود باقاعدہ قید میں تو نہیں تھا لیکن اس کی باقاعدہ نگرانی ہو رہی تھی حسن بن صباح نے کہا تھا کہ یہ خیال رکھا جائے کہ یہ شخص کہیں یہاں سے نکل نہ جائے
ابن مسعود ایک کشمکش میں مبتلا رہتا تھا جوں جوں دن گزر رہے تھے اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا اسے ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر بصری خزانہ لے کر آ جائے گا اور اس کا پول کھل جائےگا اس نے سوچ لیا تھا کہ حیدر بصری کو جھٹلانے کی پوری کوشش کرے گا لیکن آنے کی صورت میں خطرہ یہ تھا کہ حسن بن صباح اسی کو سچا اور دیانتدار سمجھتا تھا اس صورت میں حسن بن صباح کے منہ سے یہی الفاظ نکلنے تھے کہ اس شخص ابن مسعود کو لے جاؤ اور عبرتناک موت مار ڈالو
آخر ایک روز بلاوا آگیا ابن مسعود اندر سے کانپتا ہوا امام کے کمرے تک پہنچا اس نے سینے میں خنجر اڑس لیا تھا اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ امام جب اسے سزائے موت سنائے گا تو وہ خنجر نکال کر امام کے دل میں اتار دے گا
آؤ ابن مسعود! حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ تو خوشی ہے کہ تم سچے نکلے اور اب میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ تم سلجوقیوں کی قید سے فرار ہو گئے ہو لیکن اس اطلاع نے مجھے بہت دکھ دیا ہے کہ حیدر بصری اپنے ساتھیوں کے ساتھ سارا خزانہ لے اڑا ہے معلوم ہوا ہے کہ وہ مصر جا رہا ہے دن اتنے گزر گئے ہیں کہ اب اس کا تعاقب محض بیکار ہے
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا کیا مصر میں ہمارا کوئی آدمی نہیں؟
وہ انتظام تو میں کر ہی دوں گا حسن بن صباح نے کہا لیکن یہ تو بہتے دریا کی تہہ میں سے سوئی ڈھونڈنے والی بات ہوگی مصر بہت بڑا ملک ہے جس کے کئی شہر اور قصبے ہیں معلوم نہیں یہ بدبخت کہاں جا آباد ہو گا
یا شیخ الجبل! بن مسعود نے بڑی جاندار اور پُر اعتماد آواز میں کہا اب میں وہ باتیں بھی کر سکتا ہوں جو پہلے آپ تک نہیں پہنچائی تھی حیدر نے سلجوقیوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ دریا کی طرف الموت کا ایک چور دروازہ ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس دروازے تک کس طرح پہنچا جا سکتا ہے الموت کا محاصرہ ضرور ہی ہوگا اور سلجوقیوں کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ دریا والے دروازے سے اندر آئیں گے
اندر سے دروازہ کون کھولے گا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ان کے ایک دو آدمی آپ کے پیروکاروں کے بہروپ میں قلعے میں پہلے ہی آ جائیں گے ابن مسعود نے کہا انہیں اس دروازے تک اندر سے پہنچنے کا راستہ معلوم ہوگا حیدر بصری نے انہیں بڑی اچھی طرح سمجھا دیا تھا
وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے حسن بن صباح نے کہا میں اس کا بندوبست کر لوں گا
ایک عرض ہے یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا آپ کا بندوبست یقیاً بے مثال ہو گا لیکن وہ دروازہ میری ذمہ داری میں دے دیں پھر اس تک کسی کے پہنچنے کا امکان بالکل ہی ختم ہو جائے گا میں وسم کوہ میں بہت عرصے بعد پکڑا گیا اور اس سے پہلے میں وہاں اتنا زیادہ عرصہ رہا ہوں کہ فوج کے بیشمار چیدہ چیدہ آدمیوں کو پہچانتا ہوں وہ کسی بھی بہروپ میں آئیں میں انہیں پہچان لونگا اس سے پہلے مجھے مرو جانے دیں
وہاں جا کر کیا کرو گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا کیا پکڑے نہیں جاؤ گے؟
نہیں یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے جواب دیا وسم کوہ میں مجھے بہت سے لوگ پہچانتے ہیں مرو میں نہیں میں مرو سے واقف ہوں اور کچھ عرصہ وہاں رہا ہوں لیکن لوگوں میں زیادہ اٹھا بیٹھا نہیں سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد الموت پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اسے قتل کیا جا سکتا ہے لیکن میں کہتا ہوں اسے قتل نہیں کریں گے اسے قتل کر دیا تو اس کی جگہ کوئی اور وزیراعظم بن جائے گا اور وہ حملے کی تیاری جاری رکھے گا بلکہ سلطان کو خوش کرنے کے لئے فوراً حملہ کر دے گا میں نے یہ سوچا ہے کہ ابو نصر احمد کو زندہ رہنے دیا جائے اور اسے اپنے اثر میں لے لیا جائے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سلطان محمد پر اس وزیراعظم کا اثر غالب ہے ہم اس وزیراعظم کو اپنے جال میں لاکر سلطان محمد کو اپنے رنگ میں رنگ سکتے ہیں
یہ کام کون کرے گا ؟
میں کروں گا یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے جواب دیا آپ مجھے مرو جانے دیں اور میں زریں کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا
زریں کون ہے؟
وہ میری سگی بہن ہے ابن مسعود نے جواب دیا آپ کو یاد نہیں رہا میرا باپ ہم دونوں کو آپ کی خدمت میں پیش کر گیا تھا زریں جنت میں ہے اور میں اس کے ذریعے ابونصر احمد کو اپنے ہاتھ میں لے لونگا بڑی ہی خوبصورت اور تیز طراز لڑکی ہے وہاں میں اپنے آپ کو چھپا کر رکھوں گا مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ابو نصر احمد جذباتی اور حسن پرست ہے اسے ہم شیشے میں اتار لیں گے
حسن بن صباح گہری سوچ میں کھو گیا
آپ کو یاد ہوگا یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا ہم نے ان کے ایک وزیر اعظم سعید الملک کو اپنے اثر میں لے ہی لیا تھا وہ بہت عرصہ ہمارے زیر اثر رہا تھا پھر نہ جانے کس غدار نے یہ راز فاش کردیا اور سلطان نے اس وزیراعظم کو جلاّد کے حوالے کردیا تھا ابو نصر کو بھی اپنے ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں آپ مجھے مرو جانے دیں اور یہ اجازت بھی دے دیں کہ میں زریں کو اپنے ساتھ لے جاؤں ہاں یہ بھی یاد آیا یا شیخ الجبل! آپ نے سلطان برکیارق کو بھی تو اپنی مٹھی میں لے لیا تھا اگر آپ میرا مشورہ قبول کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابو نصر احمد کو بھی اسی طرح آپ کی مٹھی میں دے دیں گے
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح بوڑھا ہو گیا تھا اس میں پہلے والی بات نہیں رہی تھی وہ مشورے کم ہی سنا کرتا تھا اس پر پے در پے چوٹ ہی ایسی پڑی تھی کہ اس کا دماغ کچھ کمزور ہو گیا تھا سب سے بڑی چوٹ تو یہ تھی کہ اس کا پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش مرا نہیں بلکہ مار دیا گیا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اس نے جو جادو حسن بن صباح کو سکھایا تھا وہ اس کے ساتھ ہی قبر میں چلا گیا تھا
یہ چوٹ بھی کم نہ تھی کہ اس کے اپنے فدائی جن پر اسے مکمل بھروسہ تھا اتنا زیادہ خزانہ لے کر غائب ہو گئے تھے یہ تو اسے ابھی معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا ایک اور قابل اعتماد فدائی جس کا نام ابن مسعود تھا اور جو اس کے سامنے بیٹھا اسے مشورے دے رہا تھا اسے بہت بڑا فریب دے رہا تھا اس فدائی کو یہ فریب کاری حسن بن صباح نے خود ہی سکھائی تھی اور وہ اس کا اور اس کے استادوں کا ہی شاگرد تھا یہ طلسم سامری تھا جو ابن مسعود سامری کے ہی خلاف استعمال کر رہا تھا حسن بن صباح جیسا ابلیس اس کا پورا پورا اثر لے رہا تھا
حسن بن صباح نے اسی وقت اپنے دو تین مشیروں کو بلایا اور ابن مسعود نے جو مشورے دیے تھے وہ ان کے آگے رکھے اور پوچھا کہ ان مشوروں پر عمل کیا جائے یا نہیں
کچھ دیر تک بحث مباحثہ چلا ابن مسعود نے مشیروں کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا اور یہ فیصلہ لے لیا کہ ابن مسعود اپنی بہن زریں کو ساتھ لے کر مرو چلا جائے اور اس کے ساتھ دو آدمی بھیجے جائیں جو راستے میں ان کی حفاظت کریں کیونکہ اتنی حسین اور نوجوان لڑکی اسکے ساتھ جا رہی ہے ابن مسعود نے انہیں بتایا تھا کہ وہ اپنے ان آدمیوں کو جانتا ہے جو مرو میں رہتے ہیں
ابن مسعود یہ فیصلہ لے کر وہاں سے نکلا اور اپنی بہن زریں کی تلاش میں جنت کی طرف چلا گیا بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ جنت کا وہ علاقہ اس قدر حسین سر سبز اور شاداب تھا جو الفاظ کے احاطے میں آ ہی نہیں سکتا وہاں کے پیڑ پودے اور پھول ایسے تھے جو عام طور پر دیکھنے میں نہیں آیا کرتے تھے وہاں کے پرندے بھی کچھ ایسے تھے جن کا تعلق اس علاقے کے ساتھ نہیں تھا وہ دور دور سے لائے گئے تھے یہ رنگا رنگ پرندے تھے وہاں سے ایک ندی گزرتی تھی جو بڑی ہی شفاف تھی عجوبہ یہ تھا کہ الموت بلندی اور بڑی ہی چوڑی چٹان پر آباد تھا لیکن اس بلندی پر بھی یہ مصنوعی ندی بنا لی گئی تھی دریا سے مصنوعی طریقوں سے پانی اوپر چڑھایا جاتا تھا اور یہ ندی جنت کے درمیان سے بل کھاتی گزرتی تھی
اس جنت میں جو حوریں گھومتی پھرتی شوخیاں کرتی اور ہنستی کھیلتی نظر آتی تھیں وہ اس زمین کی لڑکیاں لگتی ہی نہیں تھیں اصل بات جو مورخوں نے لکھی ہے وہ یہ تھی کہ جسے اس جنت میں داخل کیا جاتا تھا اسے پہلے تھوڑی سی حشیش پلا دی جاتی تھی اور بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ اس کے علاوہ ایک خاص قسم کی جڑی بوٹی تھی جو حسن بن صباح کی دریافت تھی اسے کسی کیمیاوی عمل سے گزار کر نشہ آور بنا دیا گیا تھا اس کے علاوہ جنت میں کئی جگہوں پر اس جڑی بوٹی کو کاشت کر دیا گیا تھا جس کا اثر یہ تھا کہ اس کی خوشبو بھی نشہ طاری کر دیتی تھی اس کے علاوہ اس جڑی بوٹی کا نشہ بھی پلا دیا جاتا تھا
اس کا اثر کچھ ایسا تھا کہ انتہائی بھدی اور بدنما چیزیں بھی بڑی ہی دل کش اور خوشنما لگتی تھیں
اپنی جانیں ہنستے کھیلتے ہوئے قربان کرنے والے فدائی اسی جنت کے نکالے ہوئے آدم تھے انہیں جب یہاں سے نکالا جاتا تھا تو وہ تڑپتے بحال ہوتے چیختے اور چلاتے تھے کہ انھیں یہاں سے نہ نکالا جائے لیکن ان کی برین واشنگ اس حد تک ہو چکی ہوتی تھی کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ وہ فلاں جگہ جائیں فلاں کو قتل کرے پھر اسی خنجر سے اپنے آپ کو بھی قتل کردیں اور پھر وہ ہمیشہ اس جنت میں رہیں گے
ابن مسعود بھی اس جنت میں رہتا تھا اور یہاں سے نکل کر حشیش پیتا رہا تھا لیکن اس پر جنت کی حقیقت جس طرح بے نقاب ہوئی وہ بیان ہو چکی ہے اب ایک عرصے بعد اور ایک بدلے ہوئے نارمل انسان کی طرح وہ اس جنت میں اپنی بہن کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا تو اسے اپنے دل میں خلش سی محسوس ہو رہی تھی اور ضمیر میں ایک کانٹا سا اتر گیا جس کی چبھن اسے بے چین کیے ہوئے تھی اسے کئی لڑکیاں نظر آئیں اور وہ سب ایک ایک نوجوان کو ساتھ لیے عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی تھیں اور بعض بے حیائی کے مظاہرے کر رہی تھیں ان کی ہنسی جلترنگ جیسی مترنم تھیں ابن مسعود اپنے خون میں حرارت محسوس کرنے لگا جو وہ پہلے بھی محسوس کیا کرتا تھا لیکن اب اس حرارت میں ایمان کی تپش تھی
عمر اسے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی
اس نے رک کر ادھر دیکھا اسکا نام عمر بن مسعود تھا اسے ابن مسعود کہتے تھے اور صرف اسکی بہن ہی تھی جو عمر کے نام سے پکارا کرتی تھی اس نے ادھر دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی تو اسے اپنی بہن نظر آئی جو اسکی طرف دوڑتی آرہی تھی وہ اس کی طرف چل پڑا
بہن قریب آ کر اس کے گلے لگ گئی اور اس نے بہن کو اپنے بازوؤں میں بھنیج لیا لیکن بہن کا انداز اور ملنے کا طریقہ بہن والا نہیں تھا بہن کو تو یہ احساس تھا کہ یہ اس کا بھائی ہے لیکن اس رشتے کے تقدس کو وہ بھول چکی تھی یہ تو ابن مسعود بھی بھول گیا تھا لیکن اب وہ آیا تو یہ احساس اس پر غالب تھا کہ یہ اس کی چھوٹی بہن ہے اور وہ اس کا بڑا بھائی ہے اور بڑے بھائی اپنی بہنوں کی عزت اور ان کے محافظ ہوا کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو جان بھی قربان کر دیا کرتے ہیں
وہ بہن کو ان حرکتوں سے روک نہیں رہا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ کچھ نہیں سمجھے گی اور یہ ایسے نشے میں ہے جس پر خطبے واعظ اور آیات قرآنی ذرا سا بھی اثر نہیں کر سکتیں بہن اسے گلے شکوے کے انداز سے کہہ رہی تھی کہ وہ اسے بتائے بغیر کہاں چلا گیا تھا اور وہ اسے ڈھونڈتی رہی ہے بہن اسے ندی کے کنارے ایک خاص جگہ چلنے کو کہہ رہی تھی اور اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے کی بھی کوشش کر رہی تھی لیکن ابن مسعود کے قدم اٹھ نہیں رہے تھے جیسے اس کے پاؤں زمین نے جکڑ لیے ہوں وہ جانتا تھا کہ ذریں اسے اس جگہ کیوں لے جا رہی ہے
میری بات سن لو زریں! ابن مسعود نے بڑے پیار سے کہا میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم دونوں کل صبح مرو جا رہے ہیں تم جانتی ہو گی کہ مرو بڑا خوبصورت شہر ہے اور ہم دونوں کچھ عرصہ وہاں رہیں گے
زریں نے اس سے پوچھا کہ ہم مرو کیوں جا رہے ہیں؟
ابن مسعود نے اسے بتایا کہ سلجوقی وزیراعظم کو اپنے قبضے میں لینا ہے اور یہ کام زریں کرے گی اس نے زریں کے ساتھ وہی بات کی جو حسن بن صباح کی ساتھ کر چکا تھا
یہ تمہاری ذہانت اور عقل کا امتحان ہوگا ابن مسعود نے کہا تم اس میں کامیاب ہو جاؤ گی تو شیخ الجبل تمہیں بہت اونچا درجہ دے دے گا بہت سی باتیں تمہیں پہلے بتا دی جائیگی اور کچھ میں تمہیں مرو چل کر بتاتا رہوں گا
ابن مسعود نے بہن کو ذہنی طور پر بھی تیار کرلیا اور بہن خوش ہوگئی کہ وہ اس آدمی کے ساتھ جا رہی ہے جس کی محبت اس کے دل میں مجزن ہے اس جنت میں کوئی لڑکی جو حور کہلاتی تھی کسی آدمی کے ساتھ دلی محبت نہیں کرتی تھی لیکن زریں ابن مسعود کو دلی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر چاہتی تھی
یہ خون کا رشتہ تھا یہ الگ بات ہے کہ زریں اس خون کی کشش کو ہوس کا رنگ دے رہی تھی اور اس کے تقدس کو ذہن سے صاف کر چکی تھی بلکہ اس کے ذہن سے یہ رشتے دھو دیئے گئے تھے
ایک قافلہ مرو کی طرف جا رہا تھا پانچ گھوڑے تھے ایک پر ابن مسعود دوسرے پر اس کی بہن زریں تیسرے اور چوتھے گھوڑے پر دو باطنی سوار تھے اور پانچویں گھوڑے پر کچھ سامان اور زادراہ تھا زریں نقاب میں تھی جو دو آدمی ابن مسعود کے ساتھ جارہے تھے وہ مرو سے بڑی اچھی طرح واقف تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس شہر میں باطنی کہاں کہاں رہتے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں زادِ راہ میں حشیش اور دوسری جڑی بوٹی کا نکالا ہوا پانی خاصی تعداد میں ساتھ تھا
یہ دونوں باطنی بہت خوش تھے کہ ان کے ساتھ ایک حور جا رہی تھی انہوں نے راستے میں ہنستے ہوئے دو تین بار ابن مسعود سے کہا تھا کہ ہم تین ہیں اور حور ایک ہے ایک اور ہونی چاہیے تھی راستے میں دو یا تین رات آئیگی انہیں معلوم نہیں تھا کہ ابن مسعود اب فدائی نہیں بلکہ اس لڑکی کا بڑا بھائی ہے جسے اس کے ساتھی حور کہہ رہے تھے اور اسے راستے میں آنے والی راتوں کی تفریح کا سامان سمجھ رہے تھے ابن مسعود بڑی مشکل سے ان کی یہ باتیں برداشت کر رہا تھا وہ ذرا سا بھی اشارہ نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اب فدائی نہیں کچھ اور ہے اس نے اپنی بہن کو دیکھا وہ ان دونوں کے باتوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی
پہلے دن کا سورج غروب ہوگیا مختصر سا یہ قافلہ کچھ دیر چلتا رہا آخر ایک خوشنما جگہ رات گزارنے کے لئے رک گیا انہوں نے کھانے پینے کا سامان کھولا اور اس کے ساتھ نشہ بھی پیالوں میں ڈالا اور کھانے پینے لگے پھر وہ سونے کی جگہیں دیکھنے لگے
ابن مسعود نے دونوں ساتھیوں کو الگ لے جا کر کہا کہ آج رات اس لڑکی کو آرام کرنے دیں اس نے آج پہلی بار اتنی لمبی اور تھکا دینے والی گھوڑ سواری کی ہے اس لیے اس کی تھکن کو ہم سمجھ سکتے ہیں جو مرد ہو کر بھی اتنی تھک گئے ہیں اس نے کہا کہ یہ لڑکی ہماری اپنی ملکیت ہے کہیں بھاگ تو نہیں جائے گی اس نے اس طرح کی باتیں کرکے اپنے ساتھیوں کو راضی کر لیا کہ وہ آج رات خود بھی آرام کریں گے اور لڑکی کو بھی پورا آرام کرنے دیں گے
ابن مسعود زریں کو ایک ہموار جگہ پر بستر بچھا کر سلا دیا اور اپنا بستر اس کے قریب ہی بچھایا کسی ایک کو تو لڑکی کے قریب ہونا چاہیے تھا دوسرے دونوں آدمیوں نے اپنے بستر خاصی دور بچھائے اور ایک نے ازراہ مذاق کہا کہ اپنی حور سے آج رات دور ہی رہیں تو اچھا ہے انہیں دراصل ابن مسعود نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اس جگہ سوئے جہاں انہوں نے بستر بچھائے تھے
وہ لیٹے اور دن بھر کی تھکن نے انہیں بڑی جلدی گہری نیند میں مدہوش کر دیا لیکن ابن مسعود جاگ رہا تھا نیند نے اس پر نہیں بلکہ اس نے نیند پر غلبہ پا لیا تھا اس رات اسے ایک ضروری کام کرکے سونا تھا اور وہ اس انتظار میں تھا کہ رات ادھی گزر جائے چاند اوپر اٹھتا آرہا تھا اور چاندنی میں اسے اپنی بہن سوئی ہوئی نظر آرہی تھی زریں گناہوں کا ایک بڑا ہی خوبصورت پتلا تھی پھر بھی ابن مسعود کو اس کے خفتہ چہرے پر معصومیت نظر آرہی تھی اس کے آنسو نکل آئے اسے اپنی ماں یاد آئی جو مر گئی تھی پھر اسے اپنا باپ یاد آیا جو ان دونوں بچوں سے بڑا ہی پیار کرتا تھا لیکن بچوں کی قسمت یوں پھوٹی کے باپ حسن بن صباح کو نبی مانتا تھا ابن مسعود کو وہ وقت یاد آیا جب اس کی یہ بہن پیدا ہوئی تھی اور وہ اسے ایک زندہ کھلونا سمجھا کرتا تھا پھر بہن بڑی ہوتی گئی اور دونوں بڑے پیار سے ہنستے کھیلتے جوان ہوئے تھے مگر قسمت انہیں کہاں اور کس روپ میں لے آئی
ماضی کی جھلکیاں ذہن میں آئیں تو ابن مسعود کا خون کھولنے لگا ابن مسعود کا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا جو اس کے بستر پر پڑی تھی وہ وقت ہو گیا تھا جس وقت کے انتظار میں وہ سویا نہیں تھا اس نے تلوار اٹھا لی اور بڑے آرام سے نیام سے نکالی نیام بستر پر رکھی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا
وہ ننگے پاؤں اس طرح اپنے ساتھیوں کی طرف چلا جس طرح بلّی یا شیرنی اپنے شکار کی طرف بڑھتی ہے کہ ذرا سی بھی آواز پیدا نہ ہو
اس طرح دبے پاؤں اور پھونک پھونک کر پاؤں رکھتے ابن مسعود اپنے ساتھیوں کے سر پر جا پہنچا ساتھی بڑی ہی گہری نیند سوئے ہوئے تھے دونوں کے درمیان ڈیڑھ سو گز کا فاصلہ تھا ابن مسعود ایک ساتھی کے قریب صحیح زاویے پر کھڑا ہوگیا
وہ اس ساتھی پر جھکا تلوار کی دھار اس کی شہہ رگ پر رکھی اور اس جوانی میں اس کے جسم میں جتنی طاقت تھی وہ طاقت لگا کر تلوار دبائی اور آگے پیچھے کھینچی اور ایک دو سیکنڈ میں باطنی کی گردن کاٹ دی باطنی تڑپنے لگا
اس نے انتظار نہ کیا اور ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر زور دار وار کر کے دوسرے باطنی کی گردن بھی کاٹ دی اس نے پہلے ساتھی کو اس لئے بکرے کی طرح ذبح کیا تھا کہ تلوار زور سے مارتا تو اس کی آواز سے دوسرا ساتھی جاگ اٹھتا
اس نے تلوار زمین پر رگڑی پھر درختوں کے پتے توڑ کر تلوار پر پھیرے کہ اس پر خون کا داغ دھبہ نہ رہے وہ عجیب سا سکون اور اطمینان محسوس کرنے لگا اور اپنے بستر پر آکر تلوار نیام میں ڈالی اور سو گیا
صبح طوع ہوئی تو ابن مسعود جاگ اٹھا زریں ابھی تک سوئی ہوئی تھی ابن مسعود اسے جگانے لگا آگے کو سفر کرنا تھا لیکن اس نے ہاتھ کھینچ لیا اس نے سوچا یہ اور سو لے اسے کوئی جلدی نہیں تھی وہ اپنی بہن کو گناہوں کی دنیا سے نکالنا چاہتا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا وہ اپنی سوئی ہوئی بہن کو دیکھتا رہا قتل کر دینا اور قتل ہوجانا اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا وہ مطمئن اور مسرور تھا کہ اس نے دو گنہگاروں سے اپنی بہن کی عزت بچالی تھی
آخر زریں جاگ اٹھی اور اٹھ بیٹھی ابن مسعود کھانے پینے کا سامان لے آیا ذریں اٹھ کر ایک طرف چلی تو اس نے اپنے دو ساتھیوں کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہیں کیا وہ ابھی تک جاگے نہیں؟
وہ کبھی نہیں اٹھیں گے ابن مسعود نے اٹھتے ہوئے کہا میرے ساتھ آؤ میں نے انہیں ہمیشہ کی نیند سلا دیا ہے
ابن مسعود زریں کو اپنے ساتھ اس جگہ لے گیا جہاں ان کے دونوں ساتھیوں کی سر کٹی لاش پڑی ہوئی تھیں زریں لاشوں کو دیکھ کر ڈری نہیں گھبرائیں نہیں بلکہ خاموشی سے ابن مسعود کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے زریں نے ایسی کٹی لاشیں دیکھی تھیں الموت میں اس نے کئی بار جلاد کو سب کے سامنے لوگوں کے سر قلم کرتے دیکھا تھا
انہیں میں نے شیخ الجبل کے حکم سے قتل کیا ہے ابن مسعود نے کہا شیخ الجبل نے مجھے کہا تھا کہ تمہارے ساتھ ایک لڑکی جارہی ہے نہ تم نے اسے کسی اور نیت سے ہاتھ لگانا ہے نا یہ دو آدمی لڑکی کو راستے میں تفریح کا ذریعہ بنائیں تمہیں ہم کسی اور مقصد کے لئے لے جا رہے ہیں شیخ الجبل نے کہا تھا کہ راستے میں تم میں سے کوئی بھی اس لڑکی کو تفریح کے لیے استعمال کرے تو اسے دوسرے وہیں قتل کردیں یہ دونوں تمہارے جسم کے ساتھ کھیلنا چاہتے تھے اور دن کو راستے میں تم نے سنا تھا کہ یہ کیسی باتیں کرتے آرہے تھے میں نے انہیں رات سوتے میں قتل کر دیا ہے
ابن مسعود نے زریں سے یہ نہ کہا کہ اس نے انہیں اس لیے قتل کیا ہے کہ تم میری بہن ہو اور کوئی بھائی اپنی بہن کی عزت کے ساتھ کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور کوئی آدمی اس طرح کی باتیں منہ سے نکالے گا تو بھائی اسے زندہ نہیں چھوڑے گا وہ جانتا تھا کہ زریں یہ بات نہیں سمجھ سکے گی کیونکہ وہ نشے کی حالت میں تھی اور اس کا دماغ اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں تھا ابن مسعود کو جھوٹ بولنا پڑا
زریں نے کچھ بھی نہ کہا جیسے یہ کوئی بات ہیں ہی نہیں تھی کہ دو آدمی مارے گئے ہیں وہ ابن مسعود کے ساتھ واپس اپنے بستر پر آئی کچھ کھایا پیا اور دونوں نے بستر سمیٹے اور اپنے مقتول ساتھیوں کی تلوار اور خنجر لیے اور یہ سارا سامان لے کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور وہاں سے چل پڑے لاشیں وہیں پڑے رہنے دیں جنہیں جنگل کے درندوں اور گوشت خور پرندوں نے کھانا تھا
وہ دونوں پانچوں گھوڑے اپنے ساتھ لے جا رہے تھے ابن مسعود نے زریں سے کہا کہ اب رفتار تیز کریں گے تاکہ جلدی منزل پر پہنچ جائیں زریں اتنی لمبی اور تیز رفتار گھوڑے کی سواری کی عادی نہیں تھی لیکن اس نے اپنے بھائی کا کہنا مان لیا اور رفتار تیز کر دی
ایک اور رات آئی اور وہ رات گزارنے کے لیے رکے بستر بچھائے اور کھانا کھایا زریں نے حشیش پی اور اس وقت اس نے ابن مسعود سے پوچھا کہ وہ حشیش کیوں نہیں پی رہا ؟

ابن مسعود نے کوئی بہانہ پیش کردیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ زریں بھی حشیش پئے لیکن ابھی اسے اس نشے سے محروم رکھنا خطرہ مول لینے والی بات تھی وہ جانتا تھا کہ نشے سے ٹوٹے ہوئے انسان کی حالت کیا ہو جاتی ہے لیکن زریں کو حشیش پلائی تو اس نے اس کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا اس کے دل میں ابن مسعود کی محبت موجزن تھی وہ محبت کا اظہار جسمانی طور پر کرنے کی عادی تھی اور یہی ایک طریقہ جانتی اور اسی کو جائز سمجھتی تھی اس نے ابن مسعود کے ساتھ ایسا ہی اظہار کیا ابن مسعود نے بڑی ہی دشواری سے اسے اپنے جسم سے دور رکھا اور آخر یہ کہا کہ وہ شیخ الجبل کے حکم کے خلاف ورزی نہیں کرے گا اور اس خلاف ورزی پر اس نے اپنے دو ساتھی قتل کر دیے ہیں یہ ایک ایسی دلیل تھی جو زریں نے قبول کرلی یہ تو پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس کے دل سے خون کے رشتوں کا تقدس دُھل چکا تھا یہ رات بھی گزر گئی یہ دن ان کے سفر کا آخری دن تھا اس روز تو ابن مسعود نے گھوڑے دوڑا بھی دیے تھے تاکہ سفر میں ایک اور رات نہ آئے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:50 }
Last Episode
سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد مغرب کی نماز مسجد میں پڑھ کر واپس گھر آ رہا تھا جب اس نے اپنے گھر کے احاطے کے باہر والے دروازے کے سامنے ابن مسعود اور زریں کو گھوڑوں سے اترتے دیکھا اور دربان انکی طرف چلا کہ وہ ان سے پوچھے کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں ابونصر احمد تو ابن مسعود کو دیکھ کر دوڑ ھی پڑا اور دوسرے لمحے دونوں ہی جذباتی اور پرتپاک انداز سے بغل گیر ہو گئے
اپنی بہن کو لے آیا ہوں ابن مسعود نے وزیراعظم سے الگ ہوتے ہوئے زریں کی طرف اشارہ کیا اور کہا آپ شاید حیران ہوتے ہونگے کہ میں بہن کو الموت سے نکال کر کس طرح لایا ہوں یہ بیٹھ کر سناؤں گا
ابونصر دونوں کو اندر لے گیا اور دربان سے کہا کہ گھوڑوں کو اصطبل میں رکھا جائے مکان کے اندر جاکر زریں کو ابو نصر احمد نے زنانہ حصہ میں بھیج دیا اور گھر میں کہا کہ یہ اس کے خاص مہمان ہیں
ان مہمانوں کو غسل کرایا گیا اور زریں نے عورتوں کے ساتھ اور ابن مسعود نے ابو نصر احمد کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر الگ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ابونصر تو ابن مسعود کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوا کہ وہ بار بار خوشی کا اظہار کرتا تھا
محترم وزیراعظم! ابن مسعود نے کہا اللہ کے فضل و کرم سے آپ الموت لے لیں گے میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا اس کے عوض آپ مجھے میری بہن دے دیں
بہن دے دیں! ابو نصر احمد نے حیرت زدہ لہجے میں کہا ہاں تم اپنی بہن کو لے تو آئے ہو
ہاں محترم وزیراعظم! ابن مسعود نے کہا میں بہن کو لے تو آیا ہوں لیکن یہ ایسے نشے سے سرشار ہے کہ بہن بھائی کے رشتے کے تقدس کو بھول بیٹھی ہے جس طرح وسم کوہ میں مجھے طبیب نے ابلیسیت سے نکال کر انسانیت کے درجے میں کھڑا کردیا تھا اسی طرح میری بہن کو انسانیت کی عظمت عطا ہوجائے تو میں اسے اپنے اوپر بہت بڑا احسان سمجھوں گا
ابن مسعود نے تفصیلاً بتایا کہ اس کی بہن ابھی کس ذہنی کیفیت میں ہے اور جب یہ دونوں بہن بھائی حسن بن صباح کی جنت میں تھے تو ان کا آپس میں کیا تعلق تھا ابونصر احمد دانشمند وزیر تھا وہ ساری بات سمجھ گیا اور اس نے کہا کہ وہ کل صبح ہی زریں کو طبیب کے حوالے کر دے گا اور کچھ دنوں بعد ابن مسعود اپنی بہن کو اس روپ میں دیکھے گا جس میں وہ اسے دیکھنا چاہتا ہے
ابن مسعود نے ابو نصر احمد کو پوری تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح حسن بن صباح کے پاس پہنچا تھا کیا جھوٹ بولے تھے اور اسے کیا فریب دیئے تھے اور پھر اسے حیدر بصری اور خزانے کا قصہ سنایا ابن مسعود کو خزانے کی حقیقت معلوم نہیں تھی اس نے ابو نصر احمد کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی بہن کو وہاں سے کیا کہہ کر ساتھ لایا ہے راستے میں اس نے اپنے دو ساتھیوں کو جس طرح قتل کیا تھا وہ بھی سنایا
میں اب ایک ہی بات سننا چاہتا ہوں ابونصر احمد نے کہا میں کب الموت پر حملہ کروں حملے اور محاصرے کے وقت تمہیں الموت میں ہونا چاہیے
محترم وزیر اعظم! ابن مسعود نے کہا میں کل صبح وسم کوہ کو روانہ ہو جاؤں گا مزمل آفندی اور بن یونس میرے ساتھ الموت جائیں گے خطرہ صرف مزمل آفندی کے متعلق ہے کہ حسن بن صباح اسے پہچان لے گا لیکن ایسا نہیں ہوگا وہ تو پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مزمل اسکے پاس کچھ دن رہا تھا اس اتنے لمبے عرصے میں سیکڑوں مزمل آفندی اس کی نظروں سے گزر چکے ہیں حسن بن صباح میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی بہرحال میں نے کل صبح روانہ ہو جانا ہ۔ دنوں کا حساب کر لیں وہاں جاتے ہی ان دنوں کو ساتھ لے کر الموت روانہ ہو جاؤں گا اور کچھ دنوں بعد آپ یہاں سے کوچ کریں اور الموت کو محاصرے میں لے لیں ہم دریا والا دروازہ کھولیں گے اور آپ کو مشعل کا اشارہ بھی دے دیں گے اندر ہمیں موقع ملا تو حسن بن صباح کو قتل بھی کر دیں گے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وہ اکیلا باہر نکلتا ہی نہیں
انہوں نے ضروری تفصیلات طے کر لیں اور وہ سو گئے صبح اس وقت ابن مسعود جاگ اٹھا جب صبح ابھی تاریک تھی وہ جانے کے لیے تیار ہوا اور اپنی بہن سے ملے بغیر وسم کوہ کو روانہ ہوگیا
ابن مسعود وسم کوہ پہنچا تو سالار اوریزی مزمل آفندی اور بن یونس نے اس کا ویسا ہی پرتپاک اور پرجوش خیر مقدم کیا جیسا ابو نصر احمد نے کیا تھا وہ سب حیران تھے کہ یہ سابق فدائی زندہ اور سلامت حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نکل آیا ہے اس نے جب سنایا کہ وہ حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نہ صرف نکل آیا ہے بلکہ اسے ایسا دھوکا دیا ہے کہ وہ حسن بن صباح کا قابل اعتماد آدمی بن گیا ہے اور اب وہ واپس جائے گا تو حسن بن صباح دریا والا دروازہ اس کی ذمہ داری میں دے دے گا
وہ جب یہ تفصیلات سنا رہا تھا تو یہ تینوں اسے اس طرح حیران و پریشان ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کوئی انسان اس قدر دانشمند بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی فریب کاریاں کر لے کہ اُس فریب کار کو بھی انگلیوں پر نچا دے جو نبی بھی بن گیا تھا اور امام بھی اور لوگوں نے اس کے آگے سجدے کرنے شروع کر دیے تھے
وہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو بہت بڑی قوت عطا فرمائی ہے اس قوت پر اختیار بھی انسان کو دے دیا ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس قوت سے عرش بریں کا فرشتہ بن جائے یا روئے زمین کا ابلیس ہو جائے
ابن مسعود نے اصل بات چھیڑی اور کہا کہ مزمل آفندی اور بن یونس اس کے ساتھ الموت چلیں وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے اور انہوں نے اسی کو زندگی کا مقصد بنا رکھا تھا کہ الموت کو فتح کرکے وہاں سے ابلیسیت کا نام و نشان مٹانا ہے اور حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے بات اس خطرے کی ہوئی کہ حسن بن صباح مزمل آفندی کو پہچان لے گا لیکن ابن مسعود کہتا تھا کہ حسن بن صباح اتنی لمبی مدت بعد مزمل کو نہیں پہچان سکے گا
ابن مسعود نے یہ بھی کہا کہ وہ کوشش کرے گا کہ مزمل اور بن یونس حسن بن صباح کے سامنے جائیں ہی نہیں اس طرح کچھ ضروری تفصیلات طے کرکے مزمل اور بن یونس اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئے
اگلی صبح تینوں روانہ ہوگئے مزمل آفندی اور بن یونس نے کوئی بھیس نہ بدلا نہ وہ کسی بہروپ میں گئے وہ جیسے تھے ویسے ہی چل پڑے ابن مسعود کو اپنی عقل اور اپنی خداداد صلاحیتوں پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ یقین کے ساتھ کہتا تھا کہ وہ ان دونوں کو محفوظ رکھے گا اور اتنا آزاد کے اندر یہ جو بھی کاروائی ضروری سمجھیں گے کر سکیں گے ابن مسعود کا ایمان بیدار ہوچکا تھا اور اس کی یہ کامیابی ایمان کی قوتوں کی حاصل تھی
بڑی لمبی مسافت طے کرکے وہ الموت پہنچے مزمل اور بن یونس کو ابن مسعود نے حسن بن صباح کے مہمان خانے میں بھیج دیا اور خود حسن بن صباح کے پاس چلا گیا حسن بن صباح نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کر آیا ہے
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا میں بات مختصر کروں گا اور وہی بات کروں گا جو شیخ الجبل کے لئے اہم ہے الموت پر حملہ نہیں روکا جاسکے گا میں وہاں پہنچا تو فوج کو تیاری کا حکم مل چکا تھا حملے کی قیادت وزیر اعظم ابو نصر احمد خود کرے گا
میں اپنی بہن کو ایوان سلطنت میں قابل اعتماد ساتھیوں کے حوالے کر آیا ہوں جہاں وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے گی بلکہ اپنی کاروائی آزادی سے اور آسانی سے کرتی رہے گی میں نے بہن کو جس آدمی کے حوالے کیا ہے وہ اسی انتظار میں تھا کہ اسے زریں جیسی ہی ایک لڑکی مل جائے تو وہ ان سلطانوں کا تختہ الٹ سکتا ہے اس نے کہا کہ ابو نصر احمد کو شیشے میں اتارنا کوئی مشکل نہیں لیکن ابھی اسے حملے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ سلطان محمد کوچ کا حکم دے چکا ہے
سلجوقی فوج کی نفری کتنی ہوگی ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان ہوگی ابن مسعود نے جواب دیا اس فوج کے پاس منجنیقیں بھی ہوگی لیکن انہیں میں نے مرو میں دیکھ کر حساب کیا ہے کہ ان کے پھینکے ہوئے پتھر شہر کے اندر نہیں پہنچ سکیں گے کیونکہ الموت چٹان کے اوپر ہے اور پتھر اتنی بلندی تک نہیں آ سکیں گے میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں یا شیخ الجبل یہ فوج الموت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گی آنے دیں محاصرہ بری طرح ناکام ہوگا
سلطان محمد احمق آدمی ہے حسن بن صباح نے کہا اور اس کا یہ وزیراعظم ابونصر احمد اس سے بھی زیادہ احمق معلوم ہوتا ہے وہ موسم کے تیور کو دیکھ ہی نہیں رہے تم باہر نکل کر دیکھنا پہاڑوں پر برف پڑنی شروع ہوگئی ہے ایک دو چاند اور طلوع اور غروب ہو گے تو برف باری یہاں تک بھی پہنچ جائے گی ہم یہاں اندر آرام سے بیٹھے رہیں گے اور سلجوقیوں کے محاصرے کو برفباری ہی توڑ کر منجمد کردے گی
ابن مسعود نے یہ سنا تو پریشان ہو گیا اسے خیال آیا کہ ابو نصر احمد بڑے ہی جوش وخروش سے حملے کی باتیں کر رہا تھا اور اس نے نہایت اچھی چالیں بھی سوچ رکھی تھیں لیکن اس نے موسم کی طرف دھیان دیا ہی نہیں تھا یہ تو تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ابو نصر احمد جذباتی وزیراعظم تھا بے شک وہ مرد مومن تھا اور الموت پر قبضہ کا مقصد یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اپنی سلطنت کو وسعت دینی ہے بلکہ وہ ابلیسیت کا خاتمہ چاہتا تھا لیکن جذبات سے مغلوب ہو کر سوچنے والوں کے مقاصد اکثر پورے نہیں ہوا کرتے
ابن مسعود کے پاس اب کوئی ذریعہ اور طریقہ نہ تھا کہ وہ مرو پیغام بھیجتا کہ کوچ ملتوی کردو کیوں کہ تین چار مہینوں تک برفباری شروع ہوجائے گی اسے ایسی امید تھی ہی نہیں کہ تین چار مہینوں کے اندر اندر قلعہ سر ہو جائے گا ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مرو سے فوج کب کوچ کرے گی
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے حسن بن صباح کو مزید چکر دینے کے لیے کہا میں نے ایک بڑی خطرناک بات دیکھی ہے ہمارے جو آدمی مرو میں ہیں ان میں کچھ بددلی پیدا ہوگئی ہے اور مجھے شک ہونے لگا ہے کہ ہمارے کچھ آدمی غداری پر اتر آئے ہیں اور ان کی وفاداریاں مشکوک ہوگئی ہیں ایوان سلطنت میں جس کے حوالے میں اپنی بہن کر آیا ہوں وہ بالکل صحیح آدمی ہے وہ بھی کہتا تھا کہ اب اپنے آدمیوں پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا
یہ ابن مسعود کا ایک نفسیاتی وار تھا جو اس نے حسن بن صباح کو کمزور کرنے کے لیے کیا تھا اس کا خیال یہ تھا کہ حسن بن صباح اپنے ان فدائیوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دے جنہیں اس نے سلطنت سلجوقیہ کے بڑے بڑے شہروں میں پھیلا رکھا تھا حسن بن صباح کو اپنی اسی طاقت پر ناز تھا حسن بن صباح نے یہ بات سنی اور کہا کہ وہ حملے اور محاصرے سے نپٹ لے تو باہر کے مسئلوں پر توجہ دے گا
اب ایک بہت ہی ضروری بات کرتا ہوں یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا میں نے مرو میں بھی اڑتی اڑتی یہ بات سنی تھی کہ الموت کے اندر ایک دو آدمی ایسے آگئے ہیں جو محاصرے کے دوران اندر سے دریا والا دروازہ کھول دیں گے اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ دو آدمی کون ہیں اور کہاں چھپے ہوئے ہیں
میں اس کام کو بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سمجھتا ہوں میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ وہ خفیہ دروازہ میری ذمہ داری میں دے دیں اور وہاں جو آدمی موجود ہیں انہیں وہاں سے ہٹا دیں میں مرو سے دو فدائی ساتھ لایا ہوں وہ بڑے ہی دانشمند اور جرات والے ہیں آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان دونوں کو ساتھ لے کر اس دروازے کا ذمہ دار بن جاؤں
ابن مسعود نے ایسی ہی کچھ باتیں گڑھ کر حسن بن صباح کو پریشانی میں ڈال دیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حسن بن صباح اتنا ہی کچا تھا کہ یہ پریشانی اس کے پاؤں اکھاڑ دیتی اس نے یہ حکم تو دے دیا کہ دریا والے خفیہ دروازے پر جو آدمی مقرر ہیں انہیں وہاں سے ہٹا کر ابن مسعود کو مقرر کردیا جائے لیکن ابن مسعود کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں جاسوسوں پر بھی جاسوس لگے ہوئے تھے حسن بن صباح نے ابن مسعود سے فارغ ہوکر جب یہ حکم دیا کہ وہ دروازہ ابن مسعود کے حوالے کر دیا جائے اس نے یہ حکم بھی دیا کہ ابن مسعود اور اس کے ساتھیوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور پھر کڑی نظر رکھنے والوں پر بھی نظر رکھنے کا انتظام موجود تھا یہ تھا وہ طریقہ اور اصول جنہوں نے حسن بن صباح کو نبی بھی بنایا شیخ الجبل اور امام بھی اور اسے ایک دہشت بھی بنا دیا تھا
اب وہ واقعہ رونما ہوا جو تاریخ کے دامن میں آج بھی محفوظ ہے یہ 503 ہجری کا واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے تفصیل سے لکھا
سلطان محمد اور ابو نصر احمد موسم کو خاطر میں لائے ہی نہیں تھے موسم سرما شروع ہوگیا تھا اور الموت اس علاقے میں تھا جہاں پر برف باری ہوا کرتی تھی اس کے ساتھ جو جو پہاڑ تھے وہ برف سے سفید ہو جایا کرتے تھے بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ الموت میں یا اس علاقے میں برفباری تو ہوتی تھی لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ فوجوں کے آگے رکاوٹ بن جاتی بہرحال سلجوقی سالاروں کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہ رکھا
فوج کے کوچ میں بھی انہوں نے خاصی تاخیر کر دی اور اس دوران سردی بڑھ گئی اور الموت برفباری کی زد میں آنے لگا لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ اسے برداشت ہی نہ کیا جا سکتا
آخر ایک روز الموت کے اندر ہڑبونگ مچ گئی کہ سلجوقی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے حسن بن صباح کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی لیکن ہر شہری جو تلوار اٹھا سکتا تھا وہ الموت کا محافظ تھا اور ان میں فدائیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی اس تعداد پر مورخوں کا اختلاف ہے بعض نے بیس پچیس ہزار تعداد لکھی ہے اور ایک دو نے پچاس ہزار لکھی ہے لیکن تعداد جتنی بھی تھی وہ جانباز ہی تھی لیکن یہ فدائی تربیت یافتہ فوج کی طرح نہیں لڑ سکتے تھے وہ تو دن دہاڑے اپنے شکار کو خنجر سے ہلاک کرتے اور اسی خنجر سے اپنے آپ کو مار لیتے تھے
حسن بن صباح شہر کی دیوار پر گیا اور اس نے باہر کی صورتحال دیکھی اس نے اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس فوج پر آسمانی آفت گرے گی اور یہ بھاگ جائے گی وہ اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی اسی طرح بڑ ھانک کر کیا کرتا تھا اس نے دیوار پر تیرانداز کھڑے کردیے
سلجوقی فوج نے ایسے جانباز تیار کر رکھے تھے جو معجزے بھی کر دکھایا کرتے تھے وہ دو دو چار چار اور کچھ اس سے زیادہ ٹولیوں میں اس چٹان پر چڑھے جس پر الموت کا شہر آباد تھا وہ دروازے توڑنے کے لئے اوپر جا رہے تھے لیکن تیر اندازوں کے لیے وہ بڑا ہی آسان شکار ثابت ہوئے تیروں کی بوچھاڑ ان پر پڑی تو وہ تیر کھا کر لڑتے اور قلابازیاں کھاتے نیچے آ پڑے
محاصرہ تین اطراف پر تھا پیچھے دریا تھا اور دریا کا پاٹ وہاں تنگ تھا اس لئے دریا کا جوش بھی زیادہ تھا اور گہرائی بھی زیادہ تھی
ابونصر احمد نے ایسے آدمی تیار کر رکھے تھے جنہیں دور پیچھے جاکر کشتیوں کے ذریعے قلعے کے عقب میں اس خفیہ دروازے تک پہنچنا تھا جو اب ابن مسعود کی تحویل میں تھا ابن مسعود کے ساتھ مزمل آفندی اور بن یونس تھے
دروازے کی چابی ابن مسعود کے پاس تھی وہ جب بھی دروازہ کھولنے کے لیئے آگے بڑھتا کوئی نہ کوئی آدمی آجاتا اور ابن مسعود پیچھے ہٹا آتا اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے اس پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ طور پر کچھ آدمی لگا رکھے ہیں
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے منجنیقوں سے پتھر پھینکے گئے لیکن پتھر دیوار سے ٹکرا کر لڑھکتے ہوئے واپس آ جاتے تھے یہ منجنیقیں چھوٹی تھیں اور بڑی منجنیق تھی ہی نہیں ابونصر احمد نے جانبازوں کی جماعت کو دریا کی طرف بھیج دیا کہ وہ دریا کے ذریعے خفیہ دروازے تک پہنچیں لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ دریا میں اترنے سے پہلے شہر کی دیوار کی طرف دیکھتے رہیں دیوار سے ایک اشارہ ملے گا پھر دریا میں اتریں
دو دشواریاں پیدا ہوگئیں ایک یہ کہ دریا میں جو کشتیاں حسن بن صباح نے رکھوائی ہوئی تھیں وہ خفیہ دروازے کے قریب بندھی ہوئی تھیں ان کے علاوہ اور کوئی کشتی نہیں تھی ابو نصر احمد کے ان آدمیوں کو ان کشتیوں تک پہنچنے کے لئے کچھ دور تک تیر کر جانا تھا وہ جانباز دریا کے کنارے جا کر چھپ گئے اور قلعے کی دیوار کی طرف دیکھنے لگے دیوار سے کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا
محاصرے کو ایک مہینہ گزر گیا اور ایک روز ابن مسعود نے دروازہ کھول دیا دریا کا پانی اندر آ گیا آگے چٹان کی اونچائی تھی اس لئے پانی وہاں تک محدود رہا چٹان کو کاٹ کاٹ کر سیڑھیاں بنائی گئی تھیں اچانک ایک آدمی ادھر آ نکلا اور اس نے دروازہ کھلا دیکھا تو بلند آواز سے پوچھا کہ یہ دروازہ کس نے اور کیوں کھولا ہے اس آدمی کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہاں جو اور آدمی موجود تھے وہ بھی سن کر دوڑے آئے وہ سات آٹھ تھے وہ نیچے آئے تو ابن مسعود نے انہیں کہا اس نے یہ دروازہ آزمائش کے لئے کھولا تھا تاکہ ضرورت کے وقت اٹک نہ جائے
ان آدمیوں کو شک ہوگیا کہ یہ کوئی چال بازی ہے ایک نے کہا کہ امام کو اطلاع دی جائے اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ اس دروازے کا خیال رکھنا کیونکہ کچھ آدمی دریا کے کنارے چھپے ہوئے دیکھے گئے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دریا کے راستے ادھر آ جائیں
صورتحال ایسی پیدا ہوگئی کہ مزمل آفندی اور بن یونس نے جوش میں آکر تلواریں نکال لیں اور ان آدمیوں کو للکارا وہ تو حسن بن صباح کے خاص قسم کے جانباز اور قابل اعتماد آدمی تھے انہوں نے بھی تلوار نکال لی اور اس تنگ جگہ میں خونریز معرکہ ہوا جس میں تین چار فدائی تو مارے گئے لیکن ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس بھی مارے گئے اور انہیں ان آدمیوں نے باہر دریا میں پھینک کر دروازہ بند کیا اور مقفل کرکے حسن بن صباح کو جا بتایا کہ وہاں کیا ہوا ہے
ابونصر احمد پریشان ہو رہا تھا کہ ابھی تک اسے دیوار سے وہ اشارہ نہیں ملا جو اسے ابن مسعود نے بتایا تھا وہ اس طرف چلا گیا جہاں اس کے وہ جانباز انتظار میں بیٹھے تھے جنہیں دریا میں اتر کر اس دروازے تک پہنچنا تھا
ابونصر احمد نے بڑا ہی غلط حکم دیا وہ یہ کہ ایک آدمی کو دریا میں اترنے کو کہا کہ وہ پیچھے چلا جائے اور دیکھے کے دروازہ کھلا ہے یا نہیں اور وہاں سے ایک کشتی میں بیٹھ کر واپس آئے اس نے اپنی طرف سے شاید ٹھیک ہی سوچا تھا کہ ایک یا دو آدمی ایک دو کشتیاں لے آئیں اور یہ پارٹی یہاں بیٹھنے کی بجائے اس دروازے کے قریب جاکر کشتیوں میں بیٹھی رہے لیکن جب وہ آدمی دریا میں اترا تو تھوڑی ہی دور جا کر اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کیونکہ ہلکی ہلکی برفباری شروع ہو گئی تھی اور دریا کا پانی ناقابل برداشت حد تک یخ تھا وہ آدمی اکڑ گیا اور یہ دیکھا کہ وہ ہاتھ پاؤں نہیں مار رہا تھا دریا اسے ساتھ ہی لے گیا
ابو نصر نے ایک آدمی ضائع کرکے محسوس کیا کہ کشتیوں کے بغیر کوئی آدمی اس دروازے تک نہیں پہنچ سکتا اس نے واپس اپنے سالاروں کے پاس آکر کہا کہ کچھ آدمی دور اوپر دریا کے کنارے کنارے بھیجے جائیں اور کہیں سے ایک دو کشتیاں لے کر آئیں آدمی بھیج دیے گئے
محاصرے کی ایک اور رات آئی اور رات کو ایسی شدید برفباری شروع ہو گئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ہلکی برفباری کو تو سلجوقی فوج برداشت کرتی رہی لیکن مسلسل یخ بستہ ٹھنڈ میں وہ رہ کر فوجیوں کے جسم اکڑتے جا رہے تھے
رات بھر برفباری جاری رہی اور بڑھتی ہی گئی صبح ہوئی تو دنیا کا یہ خطہ سفید چادر میں ڈھک گیا تھا گھوڑے بھی کانپ رہے تھے درخت بھی برف کی بوجھ سے جھک رہے تھے
حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع مل گیا وہ دیوار پر چڑھا اور دونوں بازو پھیلا کر بڑی ہی بلند آواز سے کہا اے آسمان تو نے مجھے زمین پر اتارا تھا اب ایسا قہر برسا کے تیرے اترے ہوئے امام کے یہ دشمن اکڑ اکڑ کر ختم ہو جائیں
حسن بن صباح کی یہ پکار اور للکار سلجوقی فوج کے حوصلے پست کرنے لگی اور الموت کے شہریوں کے حوصلے مضبوط ہونے لگے قدرت نے حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع فراہم کردیا تھا برفباری رک ہی نہیں رہی تھی اور زمین پر برف کی تہہ جمتی جارہی تھی جو فٹوں کے حساب سے بلند ہو رہی تھی
ابونصر احمد ایسا مجبور ہوا کہ اس نے محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا تب اسے پتا چلا کہ اس کی فوج کی کچھ نفری اس قدر اکڑ گئی ہے کہ اس کے لئے چلنا یا گھوڑے پر سوار ہونا ممکن نہیں رہا گھوڑوں کی حالت بھی بگڑ گئی تھی بڑی ہی بری حالت میں سلجوقی فوج وہاں سے ناکام نکلی
سلطان محمد کے وزیراعظم ابونصر احمد کے جذباتی فیصلے نے اپنی فوج کو کچھ عرصے کے لیے بے کار کر دیا یہ تو جسموں کا معاملہ تھا کہ برف نے جسم بے کار کر دیے تھے لیکن ذہنی طور پر بھی یہ فوج کچھ عرصے کے لیے لڑنے کے قابل نہ رہی فوج میں جو لوگ تھے وہ عالم فاضل تو نہیں تھے کہ کچھ سمجھ جاتے کہ یہ تو موسم ہی برف باری کا تھا اور اب کے برفباری زیادہ ہی ہوئی وہ یقین کر بیٹھے کہ یہ حسن بن صباح کا معجزہ ہے کہ اس نے آسمان تک اپنی آواز پہنچائی اور آسمان نے برف گرا کر سلجوقی فوج کو بھگا دیا
فوج کی جسمانی حالت تو جلدی ہی ٹھیک ہوگئی لیکن ذہنی اور نفسیاتی طور پر فوج نہ سنبھل سکی اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے بھی فوجیوں نے افواہ پھیلانے شروع کر دی تھی جن کا لب لباب یہ تھا کہ حسن بن صباح نبی یا امام نہ سہی اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی آسمانی طاقت ضرور ہے جس سے وہ بڑی سے بڑی فوج پر بھی مصیبت نازل کرکے اسے شکست دے سکتا ہے فوج کا لڑنے کا جذبہ اور حوصلہ جسے آج کی زبان میں مورال کہتے ہیں ان افواہوں سے بڑی ہی بری طرح مجروح ہو رہا تھا اور ایسی بدلی پھیل گئی تھی کہ وہ لوگ جو رضاکارانہ طور پر فوج میں شامل ہوئے تھے وہ فوج سے نکلنے لگے
سلطان محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ پریشان ہوگیا وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ اللہ کے سپاہی کی تو یہ شان تھی کہ وہ دنیا کے لالچ اور ہوس کو الگ پھینک کر لڑا کرتا تھا اور اس کے پیش نظر اللہ کی خوشنودی ہوا کرتی تھی لیکن اس فوج کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ اس میں اللہ کے خوف کی بجائے حسن بن صباح کا خوف پیدا ہوگیا تھا اس نے ابو نصر احمد کو وزارات سے تو بر طرف نہ کیا لیکن فوج کے ساتھ اس کا تعلق توڑ دیا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اس نے سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ اپنی فوج میں وہی جذبہ پیدا کریں جو مجاہد کا جذبہ ہوتا ہے اور فوج سے حسن بن صباح کا خوف ختم کریں
سالاروں نے اپنی سی کوششیں شروع کردیں سلطان محمد نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ چند دنوں کے وقفے سے پوری فوج کو ایک جگہ اکٹھا کرکے خطاب کیا کرتا تھا علمائے دین کی خدمت بھی حاصل کی گئیں جنہوں نے واعظ خطبوں اور آیات قرآنی سے فوج کے ذہن سے حسن بن صباح کے متعلق وہم اور وسوسے نکالنے شروع کر کردیے یہ بڑا ہی صبر آزما اور وقت طلب عمل تھا جس کے اثرات نہایت ہی آہستہ آہستہ پیدا ہو رہے تھے
سلطان محمد نے ادھر اور سالار اوریزی نے اور شاہ در میں سلطان سنجر نے بھی مشاہدہ کیا کہ حسن بن صباح کے جو اثرات ختم ہونے شروع ہو گئے تھے وہ پھر سامنے آنے لگے ہیں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا تھا کہ الموت پر فوج کشی کرکے حسن بن صباح کو ختم کیا جائے اسلامی نظریات اور دین کے دیگر عقیدے تو اپنی جگہ اہم تھے ہی مگر اس صورتحال نے سلطنت سلجوقیہ کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا تھا
سات آٹھ سال گزر گئے تب جاکر فوج ذہنی بلکہ روحانی طور پر تیار ہوئی فوج میں سے بے شمار لوگوں کو نکال دیا گیا تھا اور بے شمار نئے لوگوں کو بھرتی کیا گیا اس نئی نفری میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی اس نوجوان نفری کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا
سلطان محمد نے بڑے ہی گہرے غوروفکر سے اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر محاصرے کا منصوبہ تیار کیا جس میں سالاروں کے مشورے اور ان کی تجاویز بھی شامل تھیں سلطان محمد نے محاصرے کا بنیادی اصول یہ دیا کہ قلعے پر چڑھائی کرنی ہی نہیں نہ آگے بڑھ کر دروازے توڑنے ہیں بلکہ شہر میں داخل ہونے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرنی بلکہ یہ کرنا ہے کہ شہر کو محاصرے میں لے کر بیٹھ جانا ہے خواہ یہ محاصرہ سالوں تک لمبا ہو جائے
ایک روز مرو سے فوج نکلی اس کا رخ الموت کی طرف تھا کچھ نفری وسم کوہ سے بلوا کر اس میں شامل کی گئی تھی اور کچھ نفری شاہ در سے بھی بلوالی گئی تھی اس فوج کا سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر تھا مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ سپہ سالار جذبات کے جوش میں آنے والا نہیں تھا بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کرنے کا عادی تھا یہ اس کی بنیادی فوجی تربیت تھی اور اس میں دوہری صلاحیت پائی جاتی تھی جو ایک کامیاب سپہ سالار کے لیے ضروری ہوتی ہے
اس فوج نے الموت کو محاصرے میں لے لیا سلطان محمد کو اچھی طرح معلوم تھا کہ محاصرہ صرف تین اطراف ہوسکتا ہے وہ فوج کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے رات کو بھی باہر گھومتا پھرتا اور فوجیوں کے ساتھ باتیں کرتا رہتا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے نمونیہ ہو گیا اور طبیبوں نے بہت کوشش کی اور اسے مرو چلنے کو بھی کہا لیکن اس نے فوج کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا
پانچ چھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ سلطان محمد کی یہ بیماری اچانک اتنی بڑھ گئی کہ طبیب بھی کچھ نہ کرسکے اور سلطان محمد فوت ہوگیا
جب فوج میں یہ خبر پھیلی کے سلطان کا انتقال ہوگیا ہے تو یکلخت فوج میں بدامنی سی پھیل گئی سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے محاصرہ اٹھا لیا فوج اس حالت میں واپس آئی کہ اس کے ساتھ سلطان محمد کا جنازہ بھی تھا
اس طرح اب کے بھی الموت صاف بچ گیا اور حسن بن صباح اس پر قابض رہا
سلطان سنجر کو شاہ در میں سلطان محمد کے انتقال کی خبر پہنچی تو وہ بھاگم بھاگ مرو پہنچا ادھر وسم کوہ سے سالار اوریزی بھی آگیا اور جہاں جہاں امیر مقرر تھے وہ سب آگئے سب حیران اور پریشان تھے کہ یہ کیا ہوا کہ سلطان کا انتقال ہوگیا اور فوج محاصرہ اٹھا کر واپس آگئی
سالار اوریزی اور ابو نصر احمد حیران تھے کہ ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس قلعہ الموت گئے تھے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا اور واپس بھی نہ آئے ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا کہ حسن بن صباح نے تینوں کو اپنا جادو چلا کر فدائی بنا لیا ہو گا
اب تو وہاں صورت حال ایسی بن گئی تھی کہ ایک دو یا چند ایک افراد کا کسی کو خیال ہی نہیں آرہا تھا اب تو سلطنت سلجوقیہ خطرے میں نظر آنے لگی تھی سنجر اب پوری سلطنت کا سلطان ہوگیا تھا اس کا سب سے بڑا بھائی برکیارق پہلے ہی فوت ہوچکا تھا
اس نے حکم جاری کر دیا کہ الموت کو ہر قیمت پر فتح کرنا ہے اور پوری کی پوری فوج کو تیار کرکے الموت لے جایا جائے اور محاصرے کو طول دینے کی بجائے چٹان پر جا کر شہر پر یلغار کی جائے
ایک بار پھر فوج کو تیار کیا جانے لگا ادھر حسن بن صباح ایک بار پھر پہلے والے جوش و کمال میں آ گیا وہ خود اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ اسے خدا نے کوئی مافوق الفطرت طاقت دے رکھی ہے کہ الموت کے محاصرے کے لئے جو بھی آتا ہے اس پر ایسی مصیبت نازل ہوتی ہے کہ وہ اپنی فوج کو واپس بھگا لے جاتا ہے
سنجر کچھ زیادہ جوشیلا سلطان تھا اور اس میں دلیری اور بے خوفی سب سے زیادہ تھی اس پر انتقام کا جذبہ بھی غالب تھا اس نے ساری سلطنت کی فوج مرو اکٹھی کر لی اور اپنی نگرانی میں اس فوج کو تیار کرنے لگا
اس نے زیادہ انتظار نہ کیا ایک سال کے اندر اندر وہ تمام کا تمام لشکر لے کر الموت جا پہنچا قیادت اس نے پاس رکھی اور محاصرے کو مکمل کرنے کے پورے انتظامات کر دیے
اس کا خیمہ فوج سے ذرا دور الگ تھلگ تھا اور اس خیمے میں اس کا بستر زمین پر بچھایا جاتا تھا
محاصرے کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ سلطان سنجر ایک صبح جاگا تو اس نے اپنے بستر کے قریب تکیے کی طرف ایک لمبا خنجر زمین پر گڑا ہوا پایا اس کے دستے کے ساتھ ایک کاغذ بندھا ہوا تھا وہ تو دیکھ کر ہی گھبرا گیا خنجر کے دستے سے کاغذ کھول کر پڑھا اس پر فارسی زبان میں حسن بن صباح کی طرف سے مختصر سا پیغام لکھا ہوا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے اے سلطان سنجر ہمیں یہ اذیت دینے سے باز آجاؤ اگر تمہارا پاس خاطر نہ ہوتا تو یہ خنجر زمین میں گاڑنے کی بجائے تمہارے نرم سینے میں گاڑنا آسان تھا
خنجر اور اس پیغام نے سلطان سنجر کو پسینے میں نہلا دیا وہ کوئی ایسا ڈرپوک آدمی بھی نہ تھا لیکن وہ اس خیال سے ڈرا کہ اس کے اپنے محافظوں میں ایک یا دو فدائی موجود ہیں ورنہ کوئی پرندہ بھی سلطان کے خیمے کے قریب سے نہیں گزر سکتا تھا
اس نے اسی وقت سالاروں کو بلا کر یہ خنجر اور پیغام دکھایا کہ معلوم کیا جائے کہ فوج میں یا محافظ دستے میں کون باطنی فدائی ہے اس نے یہ حکم دے تو دیا لیکن خود ہی بولا کہ ایسے آدمی کو ڈھونڈ نکالنا ممکن نہیں
سالار رخصت ہوئے ہی تھے کہ اسے اطلاع دی گئی کہ حسن بن صباح کا ایک ایلچی ملنے آیا ہے اس نے ایلچی کو اپنے خیمے میں بلالیا ایلچی نے کہا کہ اسے شیخ الجبل نے صلح کی درخواست کے لئے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اپنی شرائط بتائیں
ایک بڑی قدیم کتاب “نامہ خسرواں” کے باب حالات حسن بن صباح میں یہ شرائط تفصیل سے لکھی ہیں یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان سنجر کا حوصلہ اس خنجر اور پیغام کو دیکھ کر ایسا مجروح ہوا کہ اس نے ایلچی کو اپنی شرائط بتائیں
جو مختصر یہ تھی کہ آئندہ حسن بن صباح کہیں بھی کوئی قلعہ تعمیر نہ کرے نہ کسی چھوٹے یا بڑے قلعے کو سر کرنے کی کوشش کرے
دوسری شرط کہ باطنی وہ اسلحہ اپنے پاس نہ رکھیں جو فوج کے استعمال کے لیے ہوتا ہے خصوصاً منجنیق
تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے میں نئے مرید شامل نہ کرے اور اپنی تبلیغ بند کردے
ایلچی چلا گیا اور خاصی دیر بعد واپس آکر اس نے بتایا کہ شیخ الجبل نے تینوں شرائط تسلیم کرلی ہیں اس کتاب میں لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے لئے ان شرائط میں کوئی نقصان نہیں تھا اسے کوئی قلعہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی باطنیوں نے کم و بیش پچاس قلعوں پر قبضہ جما رکھا تھا فوجی اسلحہ اور منجنیقیں باطنیوں کے کسی کام کی نہیں تھی انہیں صرف ایک چھری یا خنجر کی ضرورت ہوتی تھی
تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے کی تبلیغ بند کردے یہ شرط بھی اس نے یہ سوچ کر مان لی کہ وہ تو خفیہ طور پر بیعت کر لیا کرتا تھا کسی کو اس کا پتا نہیں چل سکتا تھا اس کی تبلیغ بھی زیر زمین یعنی خفیہ طور پر ہوتی تھی
سلطان سنجر نے تحریری معاہدے پر اپنی مہر لگائی اور حسن بن صباح نے بھی اپنے دستخط کیے اور محاصرہ اٹھا لیا گیا
فدائیوں نے اپنی قتل و غارت کی کاروائیاں پھر شروع کردیں ایک دو سال ہی گزرے تھے کہ حسن بن صباح انتقال کر گیا وہ 28 ربیع الثانیہ 518 ہجری کے روز فوت ہوا تھا اس وقت اس کی عمر نوّے سال تھی اور اس نے 35 سال قلعہ الموت میں بیٹھ کر لوگوں کے دلوں پر حکومت کی تھی
اس کی موت اس کے فرقے کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہوئی اس کے جانشین مقرر ہوتے رہے لیکن اس کا فرقہ تیس فرقوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا باطنی فدائی کرائے کے قاتل بن گئے جنہیں کسی بھی مذہب کے لوگ اپنے مخالفین کے قتل کے لئے استعمال کرسکتے تھے
ان فدائیوں کو حشیشین کہا جانے لگا کیونکہ یہ حشیش کے بغیر جیسے زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے اور اسی نشے میں قاتلانہ کاروائیاں کرتے تھے
حسن بن صباح نے طویل عمر پائی اس جماعت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا جس نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرلیا اور ہزاروں فدائیوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا آج عالمِ اسلام کو ایک مرتبہ پھر اس قسم کے خطرات ہر جگہ لاحق ہیں اغیار کے کہنے پر فانی دنیا میں نام اور دولت کمانے کے لئے بہت سے لوگ ایمان و ملت فروشی کے مذموم کاروبار میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو سمجھنے اور سازشوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
فقط والسلام
ختم شد
پڑھ کر کیسا لگا اپنی راۓ سے ضرور آگاہ کیجئے
📜☜ سلسلہ ختم شدہ……

www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9/feed/ 0
 حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 12 https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-12/ https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-12/#respond Wed, 21 Aug 2024 13:32:41 +0000 https://urducover.com/?p=5889 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 12

قسط نمبر    “45”   سے قسط    نمبر”48″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:45 }
سلطان محمد نے قلعہ شاہ در فتح کرکے احمد بن عطاش کی یہ شرط مان لی تھی کہ وہ اس کا خاندان اور شہر کے جتنے لوگ شہر سے جانا چاہتے ہیں انہیں قلعہ ناظر و طبس جانے کی اجازت دے دی جائے یہ دراصل شرط نہیں بلکہ ایک درخواست تھی جو ایک ہارے ہوئے حاکم قلعہ نے سلطان محمد کے آگے پیش کی تھی
سلطان محمد نے یہ درخواست قبول کرکے بڑی غلطی کی تھی اگر وہ یہ درخواست قبول نہ کرتا تو تاریخ کا رخ بدل جاتا لیکن سلطان محمد پر فتح کی خوشی اس حد تک طاری ہوگئی تھی کہ اس نے بادشاہوں والی فیاضی کا مظاہرہ کیا اور ان سانپوں اور بچھوؤں کو اجازت دے دی کہ وہ زندہ رہیں اور جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں چلے جائیں
اس درخواست میں یہ بھی تھا کہ شہر سے جانے والے آدھے لوگ ناظر و طبس جائیں گے اور باقی قلعہ الموت جائیں گے
ان دونوں گروہوں کو سلطان محمد مسلح حفاظت دے جو انہیں وہاں تک پہنچا دے
سلطان محمد نے یہ درخواست بھی قبول کرلی
شاہ در سے جو لوگ جارہے تھے انہیں غیر مسلح کر دیا گیا تھا یعنی وہ نہتے تھے انہوں نے اس خطرے کا اظہار کیا تھا کہ راستے میں ان پر قافلے لوٹنے والوں کا حملہ ہو سکتا ہے یا کوئی اور مصیبت ان پر نازل ہو سکتی ہے
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ شاہ در کی فتح کوئی معمولی فتح نہیں تھی بلکہ اس فتح کی اہمیت ایسے تھی جیسے حسن بن صباح کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا گیا ہو قلعہ الموت کے بعد باطنیوں کا دوسرا مضبوط اور پرخطر اڈہ شاہ در تھا اس فتح کی خبر دارالحکومت میں پہنچنے کے لیے تیز رفتار قاصد روانہ کر دیے گئے تھے یہ خبر قلعہ وسم کوہ میں سالار اوریزی تک بھی پہنچ گئی اس وقت مزمل آفندی شدید زخمی حالت میں پڑا تھا پھر یہ خبر حسن بن صباح تک بھی پہنچی اور کچھ دنوں بعد شاہ در کے وہ لوگ جو قلعہ الموت جانا چاہتے تھے وہ بھی اس کے پاس پہنچ گئے
عبدالمالک بن عطاش کو راستے میں اطلاع مل گئی تھی کہ اس کے چھوٹے بھائی احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے اور اس کے 89 باطنی فدائیوں کو مرو میں قتل کر دیا گیا ہے عبدالملک کو یہ اطلاع ان جاسوسوں نے پہنچائی تھی جو مرو میں موجود تھے
عبدالملک کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی تھی یہ صدمہ اس کے لیے کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا ویسے بھی عبدالملک بوڑھا آدمی تھا اور اس میں قوت برداشت کم ہوگئی تھی پھر اسے یہ اطلاع بھی ملی کہ احمد بن عطاش کی بیوی نے اپنے خاوند کی یہ خبر سن کر کے اسے جلاد کے حوالے کر دیا گیا ہے ایک بلندی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی ہے عبدالملک کے لیے یہ دوسرا صدمہ تھا
عبدالملک بن عطاش قلعہ ناظروطبس میں پہنچا یہ قلعہ اصفہان کے قریب ہی تھا عبدالملک نے دو ایلچی اور کچھ اور آدمی اصفہان بھیجے اصفہان میں باطنیوں کے جو جاسوس تھے انہوں نے عبدالملک کو یہ خبر دے دی تھی کہ سلطان محمد اس وقت اصفہان میں ہے اور کچھ دنوں بعد اپنے دارالحکومت مرو چلا جائے گا عبدالملک نے سلطان محمد کی طرف ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیجے تھے کہ اس کے چھوٹے بھائی احمد اور احمد کے بیٹے اور احمد کی بیوی کی لاشیں دے دی جائیں
احمد اور اس کے بیٹے کی لاشیں ایک ہی گڑھے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی گئی تھی دونوں کے سر کاٹ کر بغداد خلیفہ کے پاس بھیج دیے گئے تھے احمد کی بیوی کو ان آدمیوں نے جو اس کے ساتھ تھے باقاعدہ دفن کیا تھا عبدالملک کے ایلچی سلطان محمد کے پاس پہنچے تو سلطان محمد نے انہیں اجازت دے دی کے وہ ان تینوں کی لاشیں نکال کر لے جائیں
ایک روز یہ تین لاشیں قلعہ ناظر و طبس پہنچ گئیں عبدالملک نے جب دیکھا کہ اس کے بھائی اور بھائی کے بیٹے کی لاشیں بغیر سروں کے ہیں تو اس پر غشی طاری ہونے لگی وہ اپنا کالا جادو اور شعبدہ بازی بھول ہی گیا اسکی تو کمر ہی دوہری ہوگئی ان تینوں لاشوں کو احترام کے ساتھ دفن کیا گیا
عبدالملک بن عطاش حسن بن صباح کا استاد اور پیرومرشد تھا مختلف مورخوں نے مختلف رائے دی ہے بعض نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح سرتاپا اندار اور باہر سے ابلیس تھا اس نے اپنے اس پیرومرشد اور استاد کو بھی دھوکے دیے تھے اور کوشش یہ کی تھی کہ اسے اتنی اہمیت اور مقبولیت نہ ملے جتنی اسے حاصل ہو گئی تھی یہاں تک کہ بعض لوگ حسن بن صباح کو امام ہی نہیں نبی بھی کہنے لگے تھے بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے عبدالملک کے ساتھ پوری وفاداری کی تھی ذہنی طور پر حسن بن صباح عبدالملک کو پیر استاد مانتا تھا اور جب اسے یہ اطلاع ملی کہ عبدالملک شاہ در سلجوقیوں کو دے کر آ گیا ہے اور اس کے چھوٹے بھائی کو اور بھائی کے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے تو اس نے ضروری سمجھا کہ قلعہ ناظر و طبس جا کر اپنے استاد کی دلجوئی کرے
حسن بن صباح جب اپنے قلعہ الموت سے ناظروطبس کے سفر کو روانہ ہوا تو یوں لگتا تھا جیسے ساری دنیا کا بادشاہ یہی اکیلا شخص ہو اس کے لیے ایسی پالکی تیار کی گئی تھی جسے بیس آدمی اٹھاتے تھے دس آدمی آگے اور دس پیچھے پالکی کے پردے خالص ریشم کے تھے اور باقی پالکی کمخواب سے تیار کی گئی تھی اس کے اندر بڑے ہی نرم گدے اور گاؤ تکیے رکھے گئے تھے حسن بن صباح کے ساتھ اس پالکی میں اسکی جنت کی دو حوریں بھی تھیں جو اس کی مٹھی چاپی کرتی جا رہی تھیں اس وقت حسن بن صباح بوڑھا ہوچکا تھا تقریبا بیس فدائی تلواروں اور برچھیوں سے مسلح اس کے آگے آگے جا رہے تھے بیس پچیس دائیں طرف اور اتنی ہی بائیں طرف اور اتنی ہی اس کے پیچھے تھے یہ سب گھوڑوں پر سوار تھے اور ان کے لباس بڑے ہی دلکش اور دلفریب تھے اس کے پیچھے اونٹوں پر سامان تھا اور اس سامان میں خوردونوش کی وہ اشیاء تھیں جو جنت میں ہی کسی کو مل سکتی ہوں گی ان اونٹوں کے ساتھ ساتھ اور کچھ پیچھے سو ڈیڑھ سو مریدوں کا گروہ تھا وہ سب کے سب مسلح تھے
حسن بن صباح کا یہ قافلہ جب پہلا پڑاؤ کرنے لگا تو فدائیوں نے اس جگہ کو حصار میں لے لیا اس کے لئے زمین پر نرم و گداز گدے بچھا دیے گئے اور اردگرد ریشم کے پردے تان دیے گئے باہر کا کوئی آدمی اس کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اس شخص نے مسلمان کے خون کے دریا بہا دیے تھے اس نے نہایت اہم اور تاریخ ساز شخصیتوں کو قتل کروا دیا تھا سیکڑوں قافلے اس کے اشارے پر لوٹے گئے تھے قافلوں کے ساتھ جو کمسن اور جوان بچیاں تھیں وہ اغوا کی گئی تھیں اور انہیں جنت کی حوریں بنایا گیا تھا اب اس شخص کو ہر لمحہ اپنی جان کا غم لگا رہتا تھا اسے کوئی ملنے کے لئے جاتا تو اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور اگر کسی کو اجازت مل جاتی تو اس کی جامہ تلاشی بڑی سختی سے کی جاتی تھی
دو پڑاؤ کے بعد جب حسن بن صباح کا قافلہ ناظروطبس کے قریب پہنچا تو قافلے کا ایک سوار گھوڑا دوڑاتا قلعے میں پہنچا اور عبدالملک کو اطلاع دی کہ شیخ الجبل حسن بن صباح کی سواری آرہی ہے یہ خبر قلعے میں فوراً پھیل گئی ان تمام باطنیوں کو جو وہاں موجود تھے خوشیاں منانی چاہیے تھی کہ شیخ الجبل ان کے یہاں آ رہا ہے لیکن سب پر موت کی مرونی چھا گئی اور ان کے سر جھک گئے وہ سب شکست خوردہ تھے شاہ در جیسا قلعہ سلجوقیوں کو دے آئے تھے عبدالملک کے تاثرات کچھ اور تھے غموں نے اور بڑھاپے نے اسے جھکا دیا تھا اس نے حکم دیا کہ قلعے کے تمام لوگ قلعے سے باہر جاکر راستے میں دونوں طرف کھڑے ہو جائیں اور اپنی امام کا استقبال کریں
آخر حسن بن صباح کی سواری قلعے تک پہنچی اور قلعے کے لوگ دونوں طرف کھڑے بازو لہرا لہرا کر نعرے لگا رہے تھے
بند کرو یہ نعرے پالکی میں سے حسن بن صباح کی آواز گرجی ان ہارے ہوئے بزدلوں کو کیا حق ہے کہ وہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگائیں انہیں کہو خاموش رہیں
اس کا یہ حکم لوگوں تک پہنچا دیا گیا اور وہاں موت کا سکوت طاری ہو گیا
عبدالملک بن عطاش اس کے استقبال کے لئے دروازے تک نہ آیا وہ اپنے کمرے میں بیٹھا رہا کچھ دیر بعد حسن بن صباح اس کے کمرے میں داخل ہوا عبدالملک نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن حسن بن صباح نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اٹھنے نہ دیا عبدالملک کے آنسو جاری ہوگئے اور کچھ دیر بعد وہ سسکنے لگا حسن بن صباح اس کے پاس بیٹھ گیا اور اسے تسلیاں دینے لگا
ابن صباح! عبدالملک نے کچھ دیر بعد کہا تم لوگوں کو دھوکے میں قتل کروانا جانتے ہو لیکن قلعوں کے دفاع کا تمہیں کوئی خیال نہیں ہمیں ایک باقاعدہ فوج تیار کرنی چاہیے ورنہ تم دیکھ لینا ایک روز قلعہ الموت بھی ہم سے چھن جائے گا
پیرومرشد! حسن بن صباح نے پراعتماد لہجے میں کہا وہ وقت کبھی نہیں آئے گا البتہ اس وقت کا انتظار کریں جب سلجوقیوں کی سلطنت ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی اور یہ سلطان اور ان کے خاندان ہمارے قیدی ہوں گے میں جانتا ہوں آپ پر احمد اور اس کے بیٹے اور اس کی بیوی کا غم حاوی ہوگیا ہے شاہ در ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اس کا اتنا غم نہ کریں ہمیں قلعوں کی نہیں لوگوں کی ضرورت ہے ہم لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں
ہوش میں آ ابن صباح! عبدالملک نے کہا میں تجھے شیخ الجبل اور امام بنایا ہے معلوم ہوتا ہے تو اپنی طاقت اور مقبولیت کا اندازہ بڑا غلط لگا رہا ہے خوش فہمیوں سے نکل اگر ہمارا یہی حال رہا تو ہمارا فرقہ سکڑ سمٹ کر صرف ہم تک رہ جائے گا سلجوقیوں کو ہم پر یہ پہلی فتح حاصل ہوئی ہے یہ کوئی معمولی فتح نہیں ہم شاہ در کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے لیکن اہلسنت سلجوقیوں کے ہاتھ میں بھی کوئی طاقت آ گئی ہے میں نے اپنا جادو چلایا جو کبھی ناکام نہیں ہوا تھا لیکن میں نے الّو چھوڑا تو سلجوقیوں کے تیر اندازوں نے اسے تیروں سے گرا لیا اس سے مجھے خیال آیا کہ سلطان محمد کو کسی طرح پہلے پتہ چل گیا تھا کہ قلعے کے اندر سے ایک الّو اُڑے گا جو پورے لشکر پر اڑ کر واپس آ جائے گا لیکن الّو اڑا اور تیر اندازوں نے اسے گرا لیا بتاؤ میں کیا سمجھوں
نہیں پیرومرشد! حسن بن صباح نے کہا میں اس شکست کو فتح میں بدل کر دکھا دوں گا آپ اس صدمے کو اپنے اندر جذب کر لیں اور میری رہنمائی اسی طرح کرتے رہیں جس طرح کرتے رہے ہیں یہ بتائیں آپ وہاں کیا چھوڑ آئے ہیں؟
میں وہاں جانباز قسم کے فدائی چھوڑ آیا ہوں عبدالملک نے کہا وہ عقل اور ہوش والے ہیں وہ کسی کو یوں قتل نہیں کریں گے کہ قتل کیا اور خودکشی کرلی میں انہیں پوری ہدایت دے کر آیا ہوں وہ مسجدوں میں امام بنیں گے بچوں کو قرآن اور احادیث کی تعلیم دیں گے اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں معزز افراد کی حیثیت سے رہیں گے میں زیادہ کیا بتاؤں وہ بڑے ہی زہریلے سانپ ہیں جو میں شاہ در میں چھوڑ آیا ہوں وہ ان سلجوقیوں کو ایسے ڈنک مارے گے کہ وہ شاہ در سے بھاگ جائیں گے مجھے گلہ اور شکوہ تم سے ہے کہ ہم اتنا زیادہ عرصہ محاصرے میں رہے کہ نہ جانے کتنے چاند طلوع ہوئے اور ڈوب گئے لیکن تم سے اتنا بھی نہ ہوا کہ کچھ فدائ بھیج دیتے جو سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو اسی طرح قتل کر دیتے جس طرح وہ پہلے قتل کرتے چلے آئے ہیں
مجھے محاصرے کی اطلاع مل گئی تھی حسن بن صباح نے کہا میں نے دس منتخب فدائی بھیجے تھے جنہوں نے سلطان محمد اور اسکے سالار وغیرہ کو قتل کرنا تھا لیکن آپ سن کر حیران ہوں گے کہ ان دس فدائوں کا کچھ پتہ ہی نہ چلا کہاں غائب ہوگئے ہیں آخر کچھ عرصے بعد یہ اطلاع ملی کہ ان دس کی لاشیں جنگل میں پڑی ہیں اور انھیں جنگل کے درندے کھا چکے ہیں
تم نے ابھی نقصان کا اندازہ نہیں کیا ابن صباح! عبدالملک نے کہا ہماری آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوگیا ہے ہمیں جو دولت اور قیمتی اشیاء قافلوں سے ملتی تھی وہ اب نہیں مل سکیں گی شاہ در بڑی موزوں جگہ تھی میں نے جو آخری قافلہ لٹوایا تھا اس سے ہمیں بے شمار دولت ملی تھی میں شاہ در میں بے انداز خزانہ چھوڑ کر آیا ہوں میں سمجھ نہیں سکتا وہ خزانہ وہاں سے کس طرح نکلوا سکتا ہوں
وہ خزانہ کہاں ہے؟
وہ میں نے ایسی جگہ چھپا لیا تھا جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا عبدالملک نے جواب دیا شاہ در میں اپنے جو آدمی چھوڑ آیا ہوں ان میں ایک یا دو اس جگہ سے واقف ہیں میں ذرا سنبھل لوں تو یہاں سے آدمی بھیجوں گا جو وہ خزانہ نکالنے کی کوشش کریں گے یہ بعد کی باتیں ہیں ابن صباح فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ فوج تیار کرو اگر نہیں کروگے تو قلعہ الموت بھی خطرے میں رہے گا مت بھولو کہ سلجوقیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور ان کے لیے یہ معمولی فتح نہیں کہ انہوں نے احمد کو سزائے موت دی ہے
یہ اس دور کا واقعہ ہے جب حسن بن صباح کی ابلیسیت ایک پرکشش اور پراثر عقیدے کی شکل میں دور دور تک پھیل گئی تھی اور اس کے اثرات سلجوقی سلطنت میں داخل ہو چکے تھے یہ ایک ایسا سیلاب تھا جو زمین کے نیچے نیچے آیا تھا اور لوگ شیخ الجبل کو نبی تک ماننے پر اتر آئے تھے سلجوقی سلاطین پکے مومن تھے اور وہ اہل سنت والجماعت تھے وہ دل اور روح کی گہرائیوں سے اس فتنے کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے اور سرگرم عمل بھی تھے لیکن یہ فتنہ بڑھتا ہی جا رہا تھا ایک بڑی پرانی کتاب تاریخ آل سلجوقی اصفہانی میں یہ سراغ ملتا ہے کہ سلجوقی سلاطین میں وہ کونسی کمزوری تھی جس سے باطنیوں کو اپنے باطل عقیدے پھیلانے کا موقع مل گیا اس کتاب میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا جاسوسی کا نظام بڑا ہی کارگر ہوا کرتا تھا مسلمانوں کے جاسوس کفار کے درمیان موجود رہتے تھے اور پل پل کی خبر پیچھے بھیجتے تھے لیکن سلطان ملک شاہ کے باپ الپ ارسلان نے یہ محکمہ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر توڑ دیا تھا پھر یوں ہوا کہ مسلمانوں کے جاسوس واپس آگئے
الپ ارسلان کو جاسوسوں کی ضرورت نہیں رہی تھی اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابھی حسن بن صباح کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا حسن بن صباح سلطان ملک شاہ کے دور میں اٹھا تھا سلطان ملک شاہ نے بھی جاسوسی کی طرف توجہ نہ دی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حسن بن صباح کے جاسوس ہی نہیں بلکہ اس کے تخریب کار بھی مسلمانوں میں آگئے اور انہیں کوئی بھی پہچان نہ سکا انہوں نے نفسیاتی تخریب کاری بھی کی اور نظریاتی بھی اور اس کے بعد انہوں نے اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ شروع کر دیا
یہ تھی مسلمانوں کی وہ کمزوری جس سے باطنی فریقین نے فائدہ اٹھایا سلطان ملک شاہ کے وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی نے شدت سے محسوس کیا کہ جاسوسوں کے بغیر دشمن پر کاری ضرب نہیں لگائی جاسکتی سلطان ملک شاہ نظام الملک کا تو مرید تھا اور وہ اس کی رہنمائی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتا تھا نظام الملک نے جاسوسی کا نظام قائم کرنے کی تجویز پیش کی اور سلطان ملک شاہ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا
ابتدا میں مسلمان جاسوسوں کو بہت ہی دشواریوں اور خطروں کا سامنا کرنا پڑا حسن بن صباح کے جاسوس انہیں فوراً پہچان لیتے تھے مزمل آفندی کی مثال پہلے تفصیل سے سنائی جا چکی ہے مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن واپس یہ ارادہ لے کر آ گیا کہ وہ سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کو قتل کرے گا یہ حسن بن صباح کے ایک ایک خاص نظام کا کمال تھا اس کے بعد مسلمانوں کے جاسوس کامیابیاں حاصل کرنے لگے لیکن ابھی تک ان کا یہ نظام کمزور تھا اب شاہ در کے محاصرے کے دوران نور کے باپ نے تیر کے ذریعے پیغام باہر بھیجا تو سلطان محمد نے سوچا کہ یہ تو اللہ کی خاص نوازش تھی کہ ایک آدمی کے دل میں باغیوں کے خلاف عناد بھرا ہوا تھا اور اس نے سلطان محمد کی مدد کی تو کیوں نہ ان باطنیوں میں اپنے جاسوس چھوڑ دیے جائیں جو ذرا ذرا سی بھی باتیں آکر بتاتے رہیں گے یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو شاہ در بھیجا تھا اور اسے خاص طور پر کہا تھا کہ اس شہر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں وہ بظاہر بے ضرر سے لگتے ہیں لیکن ان میں فدائی اور حسن بن صباح کے خاص جاسوس اور تخریب کار یقیناً ہوں گے سلطان محمد نے سنجر سے کہا تھا کہ وہ باطنیوں کے بہروپ میں اپنے جاسوس شاہ در بھیج دے گا
یہ صحیح ہے کہ سلجوقیوں نے باطنیوں کے ہاتھوں بہت ہی نقصان اٹھایا تھا سلجوقیوں نے حوصلہ ہارنے اور مایوس ہونے کی بجائے اپنا جہاد اس باطل کے خلاف جاری رکھا اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا بدی کے خلاف لڑنے والوں کی مدد اللہ یقینا کیا کرتا ہے یہ ایک معجزہ تھا کہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے دس فدائ جنہوں نے سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو قتل کرنا تھا خود قتل ہوگئے یہ بھی تو ایک معجزہ تھا کہ عبدالملک کے کالے جادو کو اس کے اپنے ہی قابل اعتماد ملازم نے ضائع کر دیا وہ جو پیغام تیر کے ساتھ بندھا ہوا باہر آیا وہ یوں تھا جیسے آسمانوں سے اللہ تبارک وتعالی نے پھینکا ہو
حسن بن صباح اپنے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کو تسلیاں دے کر اور اس کا حوصلہ مصبوط کرکے واپس الموت چلا گیا
سنجر شاہ در پہنچ گیا تھا اس نے پہلا کام یہ کیا کہ شاہ در کی جو آبادی پیچھے رہ گئی تھی اسے ایک میدان میں اکٹھا کر لیا زیادہ تر آبادی یہاں سے چلی گئی تھی پیچھے جو لوگ رہ گئے تھے ان کی تعداد پانچ چھے ہزار تھی جانے والے سب باطنی تھے اور پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی باطنی تھے لیکن کچھ تعداد مسلمانوں کی بھی تھی
سنجر نے اس آبادی کے صرف مردوں ہی کو باہر اکٹھا نہ کیا بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی ان کے ساتھ بلوالیا
باطنیوں کے چہروں پر خوف و ہراس نمایاں تھا عورتوں پر تو خوفزدگی طاری تھی ان کی آنکھیں ٹھہری ٹھہری تھیں اور چہروں پر گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی ان میں جواں سال اور بڑی اچھی شکل و صورت کی عورتیں بھی تھیں ان میں کمسن اور نوجوان لڑکیاں بھی تھیں اصل خطرہ تو انہیں تھا اس زمانے میں فاتح فوج مفتوحہ شہروں کی عورتوں سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا کرتی تھیں ان لوگوں کے چہروں پر بھی یہی خوف نظر آرہا تھا کہ نہ جانے اب انہیں کیا سزا ملے اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک ہو
سلجوقی فوج کی کچھ نفری اس ہجوم کے اردگرد کھڑی کردی گئی تھی اور فوج کی باقی نفری قلعہ مسمار کر رہی تھی
سنجر گھوڑے پر سوار وہاں آیا اور اس نے پہلے سارے مجمعے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا
تم لوگ ڈرے ڈرے سے کیوں لگتے ہو؟
سنجر نے کہا کیا تم مجھے اور اس فوج کو اجنبی اور غیر سمجھتے ہو؟
ہم نے نہ کوئی قلعہ فتح کیا ہے اور نہ ہی تم لوگوں کو قتح کیا ہے میری ایک بات اچھی طرح سن لو نہ میں فاتح ہوں نہ تم مفتوح ہو ہم نے صرف یہ فتح حاصل کی ہے کہ اس شہر سے باطل کو نکالا ہے کیا تم خوش نہیں ہوں گے کہ جن لوگوں نے تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر کفر کی راہ پر ڈالا تھا وہ مارے گئے ہیں یا یہاں سے جا چکے ہیں ؟
تمہارے دوسرے خوف سے بھی میں واقع ہوں تم لڑکیوں کے لئے یقیناً پریشان ہو رہے ہو ہم یہاں ان کی عزت کے ساتھ کھیلنے نہیں بلکہ ان کی عزت کی حفاظت کرنے آئے ہیں اپنی بیٹیوں سے کہو کہ یہ تمہارا اپنا شہر ہے اس کی گلیوں میں بے خوف و خطر گھومو پھیرو اور اگر تمہاری عزت پر فوج کا کوئی آدمی یا کوئی اور ہاتھ ڈالتا ہے تو میرے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں میں فریاد سنوں گا اور اس آدمی کو تمہارے سامنے جلاد کے حوالے کروں گا بڑے لمبے عرصے تک محاصرے میں رہے ہو تم پر پتھر برستے رہے ہیں اور تم پر آگ بھی برستی رہی ہے تم مجھے اور میری فوج کو دل ہی دل میں کوس رہے ہوں گے اور بددعائیں دے رہے ہوں گے کہ ہم نے تم پر پتھر برسائے اور آگ بھی برسائی اور تمہارے گھر جلا دیے ہیں لیکن سمجھنے کی کوشش کرو اس شہر پر یہ پتھر اور آتشی تیر اللہ نے برسائے ہم تو اس کا ایک سبب بنے تھے ایسا کیوں ہوا؟
صرف اس لئے کہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹایا گیا اور تم نے اسی کو دین اور مذہب سمجھ لیا یہاں شیطان کی حکمرانی رہی ہے یہ تمہارا امام جیسے تم نبی مانتے ہو کہاں ہے؟
یہ امام کا پیرومرشد جسے تم یوں مانتے تھے جیسے وہی تمہیں اگلے جہان جنت میں داخل کرے گا وہ شکست کھا کر بھاگ گیا ہے
سنجر نے انہیں سنایا کہ عبدالملک بن عطاش جسے وہ پیرومرشد سمجھتے رہے ہیں کالے جادو میں یقین رکھتا تھا اور اس نے محاصرہ توڑنے کے لیے کالا جادو استعمال کیا تھا اور ایک الو کو اڑایا تھا لیکن وہ الو تیروں سے مار کر گرا لیا گیا اس نے کہا کہ جہاں ایمان میں بجھے ہوئے تیر چلتے ہیں وہاں جادو نہیں چل سکتا سنجر نے حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ سنایا کہ انھوں نے کس طرح فرعون کے جادوگروں کو نیچا دکھایا تھا اور کس طرح ان جادوگروں کے سانپوں کو حضرت موسی علیہ السلام کا عصا نکل گیا تھا اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کو دریا نیل نے راستہ دے دیا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا
یہ لوگ تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے سنجر نے کہا یہ سرتاپا ابلیس ہے اور یہ لوگ ابلیس کی پوجا کرتے ہیں اور انہوں نے تم سب کو بھی ابلیس کا پوجاری بنا دیا ہے تم خوش قسمت ہو کہ یہ شہر ہماری عملداری میں آ گیا ہے اور وہ ابلیس یہاں سے نکل گئے ہیں ہم یہاں تم پر حکومت کرنے نہیں آئے ہم بادشاہ نہیں نہ تمہیں اپنی رعایا سمجھتے ہیں ہم اللہ کا وہ پیغام اور وہ حکم لے کر آئے ہیں جس کے مطابق تمام انسان برابر ہیں نہ کوئی بادشاہ نہ کوئی رعایا اب میں چاہوں گا کہ تم خود زبان سے بولو کیا یہ غلط ہے کہ یہاں قافلوں کے لٹیرے رہتے تھے اور یہاں قافلوں کو لوٹا ہوا مال آتا تھا؟
سنجر نے تمام مجمعے پر اپنی نگاہیں گھمائیں اور خاموش رہا
بولو کچھ دیر بعد اس نے کہا دل میں کوئی بات نہ رکھو کہو میں نے جھوٹ کہا ہے یا سچ
ہاں سلطان! آخر ایک آدمی کی آواز آئی یہاں قافلوں کا لوٹا ہوا مال آتا تھا
اور یہاں اغواء کی ہوئی بچیاں اور نوجوان لڑکیاں لائی جاتی تھیں
ہماری بچیوں کو یہاں سے اٹھایا گیا ہے ایک اور آواز آئی ہماری بچیوں کے ساتھ شادی کر کے انہیں غائب کیا گیا ہے
میں تمہیں بتاتا ہوں لوٹی ہوئی یہ دولت اور یہ بچیاں کہاں جاتی رہی ہیں سنجر نے کہا یہ تمام دولت قلعہ الموت اس حسن بن صباح کے پاس اکٹھی ہوتی رہی ہے جسے تم امام اور نبی اور نا جانے کیا کیا مانتے ہو تمہاری بچیاں اور قافلوں سے اٹھائی ہوئی بچیاں وہاں حوریں بنائی گئی ہیں
ہمیں ایک بات بتاؤ سلطان! ایک ضعیف العمر آدمی نے ہجوم سے آگے ہو کر کہا قافلے ہم نے تو نہیں لوٹے اور بچیوں کو ہم نے تو اغواء نہیں کیا پھر ہمیں کس گناہ کی سزا دی گئی ہے تمہاری فوج کے آتشی تیروں نے میرا گھر جلا دیا ہے شہر میں گھوم پھر کر دیکھو بہت سے گھر جلے ہوئے نظر آئیں گے تمہاری فوج کے برسائے ہوئے پتھروں سے ہمارے بچے ہلاک ہوئے ہیں
میں نے شہر میں گھوم پھیر کر دیکھ لیا ہے سنجر نے کہا جن لوگوں کے گھر جل گئے ہیں یا پتھروں سے تباہ ہوئے ہیں انہیں وہ گھر دیئے جائیں گے جو بالکل ٹھیک کھڑے ہیں اگر وہ پورے نہ ہوئے تو جلے ہوئے گھر سرکاری خزانے سے نئے کر دیے جائیں گے جب تک یہ مکان نہیں بنتے میں تمام لوگوں کا مالیہ لگان اور دیگر محصولات معاف کرتا ہوں
سنجر نے اسلامی فاتحین کی روایات کے عین مطابق شاہ در کے لوگوں کے دلوں سے خوف و ہراس نکال لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ انسان واجب التکریم ہے اور اس شہر کے لوگوں کو پوری تکریم دی جائے گی اور ان کے حقوق پورے کئے جائیں گے سنجر ان لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتا تھا لیکن ان لوگوں میں حسن بن صباح کے تخریب کار موجود تھے جنہیں عبدالملک بن عطاش اور احمد بن عطاش خاص طور پر پیچھے چھوڑ گئے تھے سنجر جب اس مجمعے سے خطاب کر رہا تھا اس وقت دو آدمی ان لوگوں کے پیچھے کھڑے تھے اور سنجر کا ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے
یہ شخص ہمارے لئے مشکل پیدا کر رہا ہے ایک نے دوسرے سے کہا اگر یہاں کے لوگوں نے اس سلطان کی باتوں کو دلوں میں بٹھا لیا اور انہیں دل و جان سے قبول کر لیا تو ہمارے لئے ایک مسئلہ پیدا ہو جائے گا
کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا دوسرے نے کہا یہ لوگ ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتے ہمارا شکار یہ سلطان سنجر ہے لوگ نہیں
اور اب میں ایک نہایت ضروری بات کہنا چاہتا ہوں سنجر نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا مجھے معلوم ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے استاد عبدالملک بن عطاش کے تخریب کار یہاں موجود ہیں وہ مسجدوں میں بھی موجود ہوں گے اور وہ ہر جگہ تمہارے درمیان گھومتے پھرتے رہیں گے انہیں پکڑنا یا ان کی نشاندہی کرکے پکڑوانا تمہارا فرض ہے اگر تم اپنے فرض سے کوتاہی کروگے تو ایک بار پھر تمہیں تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا تم میں سے کوئی آدمی کسی ایسے شیطان کو پکڑ کر لائے گا یا نشاندہی کرے گا اسے بے دریغ انعام دیا جائے گا
سلطان محمد نے جب سنجر سے کہا تھا کہ وہ شاہ در چلا جائے اور وہاں کا انتظام سنبھال لے تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے تربیت یافتہ آدمی شاہ در بھیجے گا جو جاسوسوں اور تخریب کاروں کو زمین کے نیچے سے بھی نکال لائیں گے کچھ آدمی تو سنجر کے ساتھ ہی آ گئے تھے اور کچھ بھیجے جا رہے تھے
ناچیز شفیق الرحمان تبسم اس داستان کو اس مقام پر لے جا رہا ہے جہاں مزمل افندی بن یونس شمونہ اور شافعیہ نے دس باطنی فدائوں کو جنگل میں قتل کیا تھا مزمل شدید زخمی ہوگیا تھا اس کے دائیں کندھے میں ایسا خنجر لگا تھا کہ ہنسلی سے بھی نیچے چلا گیا تھا وہاں سے خون امڈ امڈ کر باہر آ رہا تھا جسے نہ رکنے کی صورت میں موت کا خطرہ تھا انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ آگے جانے کی بجائے پیچھے وسم کوہ چلے جائیں وہ اسی وقت واپس چل پڑے تھے
وسم کوہ ایک دن کی مسافت تھی وہ آدھی رات کو چلے تو ان کا ارادہ تھا کہ بہت تیز چلیں گے تاکہ جلدی منزل پر پہنچ جائیں اور مزمل کا خون روک دیا جائے لیکن مزمل کا گھوڑا تیز دوڑتا یا چلتا تھا تو جھٹکوں سے اس کا خون اور زیادہ نکلنے لگتا تھا اس کے زخم میں کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا اور اوپر بھی کپڑا باندھ دیا گیا تھا لیکن خون پوری طرح روکا نہیں تھا اس کے باوجود مزمل نے گھوڑے کی رفتار تیز رکھی لیکن راستے میں اس پر غشی طاری ہوگئی اور گھوڑوں کی رفتار کم کردی گئی
اگلے روز آدھا دن گزر چکا تھا جب یہ لوگ وسم کوہ پہنچ گئے مزمل کا چہرہ اور جسم پیلا پڑ گیا تھا جو اس امر کی نشانی تھی کہ جسم میں خون ذرا سا ہی باقی رہ گیا ہے اسے فوراً سالار اوریزی کے پاس پہنچایا گیا طبیب اور جراح دوڑے آئے اور انہوں نے مزمل کا خون روکنے کی کوششیں شروع کردیں
سالار اوریزی کو بتایا گیا کہ وہ دس فدائیوں کو قتل کر کے واپس آگئے ہیں اور فدائیوں سے ایسا اشارہ ملا تھا جیسے وہ شاہ در جا رہے تھے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو اسی طرح قتل کردیں جس طرح انہوں نے پہلے اہم شخصیتوں کو قتل کیا تھا
مزمل افندی دو دنوں بعد ہوش میں آیا اور اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ کہاں ہے اور اس کے ساتھی کہاں ہیں اسے بتایا گیا کہ وسم کوہ میں ہے اور اللہ نے اسے نئی زندگی عطا فرمائی ہے اس کے بعد اس نے طبیب اور جراح سے کہا کہ اسے بہت جلدی ٹھیک کر دیں تاکہ وہ قلعہ الموت کے لیے روانہ ہو سکے طبیب اور جراح اسے کہتے تھے کہ وہ جسم کو زیادہ ھلائی نہیں ورنہ زخم کھل جائے گا دراصل مزمل جوشیلا آدمی تھا وہ برداشت نہیں کر رہا تھا کہ چار پائی پر ہی لیٹا رہے
اس کا زخم ملتے ایک مہینہ گزر گیا تھا اس دوران وسم کوہ میں یہ خبر پہنچی کہ شاہ در فتح کر لیا گیا ہے اور اس شہر کی زیادہ تر آبادی وہاں سے نکل گئی ہے پھر یہ خبر بھی وہاں پہنچی کہ عبدالملک ناظروطبس چلا گیا ہے اس قلعے میں پہچے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے
مزمل آفندی آخر بالکل ٹھیک ہو گیا
اسے ایسی غزائیں دی جاتی رہی تھیں کہ اس کے خون کی کمی پوری ہو گئی تھی اسے جب یہ خبر ملی کہ عبدالملک قلعہ ناظروطبس چلا گیا ہے اور اس کے ساتھ شاہ در کی کچھ آبادی بھی وہاں آگئی ہے تو مزمل فوراً سالاراوریزی کے پاس گیا بن یونس کو بھی اپنے ساتھ لیتا گیا
سالار محترم! مزمل نے کہا آپ قلعہ ناظروطبس لے سکتے ہیں
وہ کیسے؟
سالاراوریزی نے پوچھا
عبدالملک چند دن پہلے وہاں پہنچا ہے مزمل نے کہا اس کے ساتھ شاہ در کی کچھ آبادی ہے اور کوئی فوج اس کے پاس نہیں اس قلعے میں پہلے سے کچھ لوگ آباد ہوں گے جو اتنی جلدی اس کی لڑائی نہیں لڑیں گے ہم اس قلعے کو محاصرے میں میں نہیں لیں گے میں نے ایک ترکیب سوچی ہے
اس نے اور بن یونس نے سالار اوریزی کو اپنا پلان بتایا سالار اوریزی پہلے ہی پیچ و تاب کھا رہا تھا کہ وہ ایک عرصے سے وسم کوہ میں بیٹھا ہے اور کچھ کر نہیں رہا وہ تو باطنیوں کا ایسا دشمن تھا کہ کسی پر شک ہوتا کہ یہ حسن بن صباح کا پیروکار ہے تو اسے قتل کروا دیتا تھا اس نے تجویز سنی تو مزمل اور بن یونس کو اجازت دے دی کہ وہ اس پر عمل کریں
ایک پہلو پر غور کر لیں بن یونس نے کہا سلطان محمد نے عبدالملک کو اجازت دی ہے کہ وہ قلعہ ناظروطبس چلا جائے سلطان نے اسے حفاظتی دستہ بھی دیا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطان نے اس شخص کی جان بخشی کر دی تھی اگر آپ اس قلعے پر چڑھائی کرکے یہ قلعہ لیتے ہیں تو سلطان شاید اس کارروائی کو پسند نہ کرے اور وہ اسے حکم عدولی بھی سمجھ سکتا ہے
میں سلطان کے حکم کا نہیں اللہ کے حکم کا پابند ہوں سالار اوریزی نے کہا ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ حسن بن صباح کی ابلیسیت کو کچل اور مسل دیا جائے میں وہ قلعہ اپنی ذات کے لیے نہیں سر کرنا چاہتا تم اپنی تجویز پر عمل کرو میں تمہارے ساتھ ہوں
حسن بن صباح عبدالملک بن عطاش کو تسلی دے کر اور اس کا حوصلہ مضبوط کرکے قلعہ الموت جا چکا تھا عبدالملک نے خود بھی بہت کوشش کی تھی کہ اس کا حوصلہ مضبوط ہو جائے لیکن یہ کام کوئی آسان نہیں تھا وہ اپنے چھوٹے بھائی اس کے بیٹے اور بھائی کی بیوی کے موت کے غم کو اپنی ذات میں جذب کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہا تھا اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو رہا تھا لیکن اسے جو چیز کھائے جا رہی تھی وہ انتقام کا جذبہ تھا یہ جذبہ آگ بن کے جلا رہا تھا اسے حسن بن صباح پر غصہ بھی تھا کہ اس نے قاتل تو ہزارہا پیدا کر لیے تھے لیکن لڑنے والا کوئی ایک آدمی بھی تیار نہیں کیا تھا شاہ در سے اس کے ساتھ جو لوگ گئے تھے ان میں مردوں کی تعداد چھ سات ہزار تھی باقی ان کی عورتیں بوڑھے اور بچے تھے عبدالملک نے سوچا کہ انہیں کو فوج کی صورت میں منظم کر لے
سب سے پہلے ضرورت ہتھیاروں کی تھی شاہ در سے انہیں نہتا کر کے نکالا گیا تھا انہیں گھوڑے اور اونٹ بھی نہیں دیے گئے تھے وہ سب پیدل یہاں تک پہنچے تھے ایک روز اس نے ان تمام آدمیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ یہاں پہلا کام تو یہ ہے کہ از سر نو آباد ہونا ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ باقاعدہ لڑائی کی تیاری شروع کر دی جائے تاکہ سلجوقیوں سے اس شکست کا انتقام لیا جائے
اس نے دیکھا کہ ان لوگوں پر خوف و ہراس طاری تھا جیسے وہ لڑنے کے لیے تیار ہونے سے گھبرا رہے ہوں اگر عبدالملک کوئی سالار ہوتا یا عام سا حاکم ہوتا تو لوگ شاید اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیتے لیکن عبدالمالک ان کا پیرومرشد اور ان کے امام شیخ الجبل کا استاد تھا وہ جانتے تھے کہ امام حسن بن صباح بھی اسے اپنا پیر استاد مانتا ہے یہ ایسی وجہ تھی کہ کوئی بھی اس کے آگے بول نہیں سکتا تھا کسی نے جرات کر کے لوگوں کی نمائندگی یہ کہہ کرکی کہ ابھی تو ہمارے پاس ہتھیار بھی نہیں اور گھوڑے بھی نہیں
سب کچھ آجائے گا عبدالملک نے گرج کر کہا ہتھیار اور گھوڑے الموت سے آ جائیں گے میں آج ہی قاصد کو الموت روانہ کر دوں گا اور پیغام بھیجو گا کہ ہمیں گھوڑے اور ہتھیار فوراً بھیجے جائیں تم لوگ اب ایک فوج کی صورت میں منظم ہو کر لڑو گے
اس نے جوشیلی اور اشتعال انگیز تقریر ہی کر ڈالی جس میں اس نے ان لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ اللہ کی نگاہ میں برتری انہیں حاصل ہے سلجوقیوں کو نہیں اس نے کہا کہ جنت کے حقدار تم ہو سلجوقی نہیں لیکن جنت حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں
اس طرح اس نے اپنے آدمیوں کو بنی نوع انسان سے برتر ثابت کیا اور سلجوقیوں کے خلاف وہ زہر اگلا کہ اس کے یہ آدمی لڑنے کے لیے تیار ہوگئے عبدالملک آخر استاد تھا اور استاد بھی ایسا جس نے حسن بن صباح کو تعلیم و تربیت دے کر امام اور شیخ الجبل بنا ڈالا تھا
اس سے اگلے ہی روز کا ذکر ہے سورج سر پر آ گیا تھا جب دو مرد اور دو عورتیں قلعہ ناظروطبس میں داخل ہوئے چاروں گھوڑوں پر سوار تھے اور پانچویں گھوڑے پر کچھ سامان لدا ہوا تھا ایک گھوڑے پر مزمل آفندی سوار تھا دوسرے پر بن یونس تیسرے پر شمونہ اور چوتھے گھوڑے پر شافعیہ سوار تھی انہوں نے تین دنوں کا سفر دو دنوں میں طے کر لیا تھا وہ جب قلعے میں داخل ہوئے تو لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے ہر کوئی ان سے یہی ایک سوال پوچھ رہا تھا کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں
لوگو تیار ہو جاؤ مزمل نے آواز میں گھبراہٹ کا تاثر پیدا کر کے کہا قلعہ وسم کوہ سے سلجوقیوں کی فوج آرہی ہے یہ وہی فوج ہے جس نے وسم کوہ فتح کیا تھا اس کو سلطان کا حکم ملا ہے کہ قلعہ ناظروطبس میں جاکر کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑو پیر استاد عبدالملک بن عطاش کہاں ہیں؟
ہم بڑی مشکل سے وہاں سے نکل کر آئے ہیں ہمیں پیر استاد تک پہنچا دو ہم انہیں خبر کر دیں
لوگوں میں افراتفری بپا ہوگئی اور وہ اپنے اپنے گھروں کو دوڑ پڑے اگر بات صرف لڑنے کی ہوتی تو وہ لڑنے کے لئے تیار ہوجاتے مگر وہاں تو یہ عالم تھا کہ وہ نہتے تھے اگر ان کے پاس ہتھیار ہوتے تو بھی ان کا خوف و ہراس بجا تھا شاہ در پر جس طرح منجنیقوں کے پتھر اور آتشی تیر گرے تھے اس کا خوف ابھی تک ان پر طاری تھا
مزمل کا یہ چھوٹا سا قافلہ ابھی عبدالملک تک نہیں پہنچا تھا کہ عبدالملک کو پہلے ہی کسی نے اطلاع دے دی کے باہر سے کوئی لوگ آئے ہیں اور انہوں نے لوگوں میں بھگدڑ بپا کردی ہے اور لوگ گھبراہٹ کی حالت میں بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں اور بعض لوگ بھاگ جانے کی تیاری کر رہے ہیں عبدالملک باہر نکل آیا تھا اور اپنی آنکھوں سے لوگوں کی خوفزدگی اور نفسانفسی دیکھ رہا تھا اتنے میں مزمل بن یونس شمونہ اور شافعیہ اس کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے اور گھوڑوں سے اترے
کون ہو تم ؟
عبدالملک نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
مزمل اور بن یونس گھوڑوں کو پیچھے چھوڑ کر عبدالملک کی طرف بڑھے اور جھک کر اس کے گھٹنے چھوئے اور پھر اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر چوما اور آنکھوں سے لگایا عبدالملک نے غصیلی آواز میں پوچھا کہ وہ ہیں کون اور آئے کہاں سے ہیں اور انہوں نے لوگوں سے کیا کہہ دیا ہے کہ یہاں بھگدڑ مچ گئی ہے
ہم آپ کے مرید ہیں یا پیرومرشد! مزمل نے ادب و احترام سے کہا ہم امام حسن بن صباح پر جانیں قربان کرنے والے لوگ ہیں یہ میری بیوی ہے اور یہ لڑکی میری بہن ہے یہ میرا بھائی ہے اس کی بیوی اور دو بچے وسم کوہ میں ہی رہ گئے ہیں سلجوقیوں نے قلعہ وسم کوہ فتح کرلیا تو ہم کوشش کے باوجود وہاں سے نکل نہ سکے اور یہ اتنا لمبا عرصہ وہیں رہے ہم یہ ظاہر کرکے وہاں وقت گزارتے رہے کہ آپ کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں اور ہم اہل سنت والجماعت ہیں وسم کوہ کا حاکم اور سپہ سالار اوریزی ہے میں نے اس کی ملازمت حاصل کر لی تھی اور میں نے اس پر اپنا اعتماد جما لیا تھا
میں نے تم سے کچھ اور پوچھنا ہے عبدالملک نے بے صبر ہو کر کہا یہ تو معلوم ہو گیا ہے کہ تم وسم کوہ سے آئے ہو یہ بتاؤ کہ ان لوگوں کو کیا کہہ دیا ہے کہ یہ بھاگے دوڑے پھر رہے ہیں؟
گستاخی معاف یا پیر استاد! مزمل نے جھک کر کہا یہ لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم نے بروقت اطلاع دے دی ہے کہ ان کی طرف کیا قیامت بڑھتی چلی آ رہی ہے انہوں نے ہم سے پوچھا تو ہم نے انہیں بتایا کہ وسم کوہ سے فوج چل پڑی ہے اور اس فوج کو سلطان کا حکم ملا ہے کہ شاہ در سے عبدالملک بن عطاش اتنے ہزار لوگوں کے ساتھ ناظروطبس کے قلعے میں چلا گیا ہے اپنی فوج بھیجو اور ان سب کو قتل کر کے اس قلعے پر قبضہ کر لو ہم نے لوگوں کو بس یہ بات بتائی ہے
عبدالملک انہیں اپنے گھر لے گیا اجڑے تھے تو لوگ اجڑے تھے عبدالملک کا رہن سہن یہاں بھی شاہانہ تھا اس نے جو مشروب مزمل وغیرہ کو پیش کئے وہ کوئی بادشاہ ہی اپنے یہاں رکھ سکتا تھا گھر لے جاکر عبدالملک نے شمونہ اور شافعیہ کو اپنی عورتوں کے حوالے کردیا اور مزمل اور بن یونس کو اپنے پاس بٹھا لیا
سلطان نے تو ہمیں امان دے دی تھی عبدالملک نے کہا ہم نے اسے جس طرح کہا اس نے اسی طرح کر دیا ہم نے کہا کہ شاہ در سے جانے والے آدھے لوگ ناظروطبس چلے جائیں گے اور آدھے قلعہ الموت جائیں گے ہم نے کہا کہ ہماری حفاظت کے لیے ایک ایک دستہ بھیجا جائے سلطان محمد نے یہ بھی قبول کر لیا اور دو دستے ساتھ کر دیے لیکن اب اس نے ہم پر فوج کشی کا حکم دے دیا ہے
صرف فوج کشی کا نہیں قتل کا بھی حکم دیا ہے بن یونس نے کہا ہم دونوں نے سالار اوریزی کی ملازمت حاصل کر لی تھی میرا بھائی مزمل تو اس کا قابل اعتماد آدمی بن گیا تھا اس کی موجودگی میں سلطان کا حکم آیا تھا کہ قلعہ ناظروطبس میں فوج بھیج کر سب کو قتل کر دیا جائے اور عبدالملک کو بالکل نہ بخشا جائے
کیا یہ ہمارے ساتھ دھوکا نہیں ہوا ؟
عبدالملک نے کہا میں نے اس سلجوقی سلطان پر اعتبار کیا تھا اور میں خوش تھا کہ اس نے کشادہ ظرفی اور فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے کہ مجھے اور وہاں سے نکلنے والے ہر شخص کو اجازت دے دی تھی
آپ اس کی یہ چال سمجھے نہیں یا پیر استاد! مزمل نے اس کی بات کاٹ کر کہا اس نے آپ کے لوگوں کو دو حصوں میں کاٹ کر بکھیر دیا یہ غلطی آپ کی ہے کہ آپ نے خود ہی اس کا کام آسان کر دیا آپ نے اسے کہا کہ آدھے آدمی الموت چلے جائیں گے اور آگے اس قلعے میں آ جائیں گے اس نے آپ کی یہ شرطیں اس لئے مان لی تھیں کہ آپ قلعہ چھوڑ دیں اور وہ قلعے میں داخل ہو جائے
اب زیادہ باتیں کرنے کا وقت نہیں بن یونس نے کہا فوج وسم کوہ سے چل پڑی ہے اس وقت مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کو اور آپ کے خاندان کے ہر فرد کو بچایا جائے
فوج کب تک یہاں پہنچے گی؟
عبدالملک نے پوچھا
دو دنوں بعد! مزمل نے کہا آپ یہاں سے نکلنے کی تیاری کریں ہم آپ کے ساتھ الموت جائیں گے یہاں پہلے جو لوگ آباد تھے ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں اور اونٹ بھی ہم ان میں سے گھوڑے بھی لے لیں گے اور اونٹ بھی لیکن یہاں سے روانگی رات کے وقت ہوگی تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ آپ جا رہے ہیں اگر آپ لوگوں کے سامنے نکلے تو لوگ آپ کے خلاف ہو جائیں گے
وہاں کے لوگوں میں افراتفری بپا رہی اور شام تک کچھ لوگ اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر قلعے سے نکل گئے وہ قلعہ الموت کی طرف جا رہے تھے عبدالملک نے مزمل بن یونس شمونہ اور شافعیہ کو اپنے گھر میں ہی رکھا انہوں نے طے کرلیا تھا کہ آدھی رات کے وقت نکلیں گے اور قلعہ الموت کا رخ کرلیں گے عبدالملک مزمل اور بن یونس کو اس لیے بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا کہ ان کے پاس تلوار اور خنجر تھے شمونہ اور شافعیہ بھی تلواروں سے مسلح تھیں اور ان کے پاس بھی خنجر تھے
عبدالملک کہتا تھا کہ اسے اپنی جان کا کوئی غم نہیں وہ اپنے خاندان کی عورتوں کو محفوظ کرنا چاہتا تھا اور دوسرا اس کا الموت جانے کا مقصد یہ تھا کہ اس نے حسن بن صباح کو مجبور کرنا تھا کہ وہ فوج تیار کرے اور سلجوقیوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ لڑ کر انہیں ختم کرے شہر کے لوگوں سے دو اونٹ اور کچھ گھوڑے لے لیے گئے تھے یہ سارا انتظام خفیہ رکھا گیا تھا رات کو جب قلعے کے اندر خاموشی طاری ہوگئی اور لوگ گہری نیند سو گئے تھے تو دو اونٹ اور گھوڑے عبدالملک کے گھر کے سامنے پہنچ گئے اس کا خاندان تیار تھا جو سامان ساتھ لے جانا چاہتا تھا وہ بھی تیار کر لیا گیا تھا
کچھ دیر بعد ایک قافلہ شہر سے نکلا چونکہ اس شہر میں فوج تھی ہی نہیں اس لیے دروازوں پر کوئی پہرا اور کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی اس شام لوگوں نے خود ہی شہر کے دروازے بند کرلیئے تھے ایک دروازہ کھول لیا گیا اور یہ قافلہ نکل گیا
مزمل اور بن یونس قافلے کے محافظ تھے ناظروطبس سے کوئی ایک میل دور گئے ہونگے کہ مزمل نے گھوڑے کے ساتھ بندھی ہوئی مشعل کو آگ لگائی عبدالملک نے پوچھا کہ مشعل کی کیا ضرورت ہے چاند اوپر آ رہا ہے مزمل نے کوئی جواب نہ دیا اور مشعل بلند کر کے دائیں بائیں تین بار ہلائی اور پھر مشعل بجھا دی
عبدالملک نے پوچھا کہ یہ اس نے کیا کیا ہے مزمل نے اسے ویسے ہی باتوں میں ٹال دیا ذرا ہی دیر بعد دور سے گھوڑوں کے ہلکے ہلکے ٹاپ سنائی دینے لگے جو تیزی سے بڑھتے آ رہے تھے عبدالملک نے چونک کر کہا یہ گھوڑ سوار نہ جانے کون ہیں مزمل نے کہا کہ کوئی ایسا خطرہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی اپنی آدمی ہوں اور وہ مشعل کی روشنی دیکھ کر ادھر آ رہے ہوں
وہ سوار جو آرہے تھے جنگل میں کہیں چھپے ہوئے تھے وہ مزمل اور بن یونس کے ساتھ وسم کوہ سے آئے تھے اور ناظروطبس سے کچھ دور ان سے الگ ہو گئے تھے ان کی تعداد چالیس پچاس تھی انہیں کچھ دور جا کر چھپے رہنا تھا اور مزمل کے اسی اشارے کا انتظار کرنا تھا طے یہی کیا گیا تھا کہ مزمل اور بن یونس عبدالملک کو آدھی رات کے وقت قلعے سے نکالیں گے ان کی یہ اسکیم کامیاب ہو گئی تھی اور مزمل نے انہیں مشعل کا اشارہ دے دیا تھا
گھوڑ سواروں نے قریب آکر اس قافلے کو گھیرے میں لے لیا اور مزمل نے عبدالملک سے کہا کہ وہ گھوڑے سے اتر آئے وہ گھوڑے سے اترا ہی تھا کہ ایک گھوڑ سوار نے تلوار نکالی اور عبدالملک کا سر تن سے جدا کر دیا
اس کے خاندان کی جو عورتیں تھیں انہوں نے چیخ و پکار شروع کردی مزمل نے عورتوں سے کہا کہ ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا اور انہیں واپس قلعے میں بھیج دیا جائے گا اس خاندان کے دو آدمی بھی ساتھ تھے انہیں قتل کردیا گیا اور پھر عبدالملک کی لاش اور اس کا سر اٹھا کر یہ قافلہ ناظرو طبس واپس چلا گیا
ایک گھوڑ سوار نے عبدالملک کا سر اپنی برچھی کی انی سے اڑس لیا اور اس کے خاندان کی عورتوں کو قلعے میں داخل کر کے سب قلعہ وسم کوہ کی طرف چل پڑے مزمل کا خیال تھا کہ عبدالملک کا سر قلعہ الموت کے دروازے پر رکھ آتے ہیں لیکن سواروں کا کماندار نہ مانا اور اس نے کہا کہ اس کا فیصلہ سالار اوریزی کرے گا
تیسری صبح سوار وسم کوہ پہنچ گئے وہ برچھی جس میں عبدالملک کا سر اڑسا ہوا تھا سالار اوریزی کو پیش کی گئی سالار اوریزی نے کہا کہ یہ سر کپڑوں میں لپیٹ کر سلطان محمد کے پاس بھیج دیا جائے شاید یہ سر بھی وہ بغداد بھیجنا چاہتا ہو اس کے بعد تاریخ میں اس کا سراغ نہیں ملتا کہ اس کا سر بغداد میں بھیجا گیا تھا یا نہیں یہ صاف شہادت ملتی ہے کہ سالار اوریزی نے سلطان کے حکم کے بغیر ہی اپنی آدھی فوج قلعہ ناظروطبس اس حکم کے ساتھ بھیج دی کہ اس قلعے پر قبضہ کر لیا جائے فوج کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ کسی کے ساتھ ذرا سی بھی زیادتی نہ کی جائے بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ ان کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی اور کسی عورت پر دست درازی نہیں ہوگی فوج اس حکم کو بڑی اچھی طرح سمجھتی تھی وہ زمانہ چونکہ قتل و غارت کا زمانہ تھا باطنی مسلمانوں کو قتل کرتے تھے اور مسلمانوں کی طرف سے باطنی جوابی قتل ہوتے تھے اور فوج کو یہ حکم تھا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کر دیا جائے ان حالات میں سالار اوریزی نے اپنی فوج کو خاص طور پر کہا کہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے
فوج چلی گئی اور پانچویں چھٹے روز ناظروطبس سے قاصد آیا اور اس نے بتایا کہ وہاں امن و امان ہے اور جو لوگ بھاگ رہے تھے انہیں روک لیا گیا ہے اس پیغام کے ملنے کے بعد سالار اوریزی ناظروطبس چلا گیا مزمل اور بن یونس بھی اسکے ساتھ گئے شمونہ اور شافعیہ وسم کوہ میں ہی رہیں
سالار اوریزی نے اس قلعہ بند آبادی کے تمام لوگوں کو اکٹھا کرکے ویسا ہی لیکچر دیا جیسا سنجر نے شاہ در میں دیا تھا اس نے خاص طور پر زور دے کر کہا کہ اللہ کے راستے پر واپس آ جاؤ تمہیں جنہوں نے پیرومرشد اور امام بن کر گمراہ کیا تھا ان کا انجام دیکھ لو تم نے اپنے شیخ الجبال اور امام حسن بن صباح کے استاد کی لاش دیکھ لی ہوگی اس کی لاش کے ساتھ سر نہیں تھا اگر یہ اللہ کا اتنا ہی برگزیدہ شخص تھا تو وہ اس انجام کو کیوں پہنچا؟
مختصر یہ کہ اوریزی نے ان لوگوں کو باطنی فتنے سے نکالنے کے لیے بہت کچھ کہا وہ لوگ پہلے ہی خوفزدہ تھے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ سلجوقی فوج آئی اور اس نے قلعے پر قبضہ کر لیا یہ موقع ہوتا ہے جب فاتح فوج شہریوں پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور پہلا ہلا وہاں کی عورتوں پر بولتی ہے لیکن اس فوج نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی اس کی بجائے اس فوج کا کماندار شہر سے بھاگنے والوں کو روکتا تھا اور روک روک کر واپس ان کے گھروں میں بھیجتا تھا اور پھر لوگوں کو یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کے محافظ بن کر آئے ہیں لٹیرے بن کر نہیں
جب سالار اوریزی ان لوگوں کے سامنے گیا تو لوگ پہلے ہی مطمئن ہو چکے تھے اوریزی کی ایک ایک بات ان کے دلوں میں اترتی جا رہی تھی وہ تو اب عقیدوں فرقوں اور مذہب کی بات ہی نہیں کرتے تھے انہوں نے شاہ در میں بہت برا وقت دیکھا تھا اب تو وہ اپنے اہل و عیال کی سلامتی اور عزت و آبرو چاہتے تھے وہ انہیں ملتی نظر آ گئی تو وہ سالار اوریزی کی ہر آواز پر لبیک کہنے لگے
سالار اوریزی نے اپنا ایک خاص ایلچی سلطان محمد کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اس نے اس طرح قلعہ ناظروطبس اپنے قبضے میں لے لیا ہے سالار اوریزی کو توقع یہ تھی کہ سلطان ناراض ہو گا کہ اس کے حکم کے بغیر ایسا کیوں کیا گیا لیکن جب ایلچی واپس آیا تو پتہ چلا کہ سلطان اس اقدام پر بہت ہی خوش ہوا ہے اور سالار اوریزی کو خراج تحسین پیش کیا ہے
قلعہ ناظروطبس کے لوگوں نے سالار اوریزی کی اطاعت قبول کر لی تھی لیکن ان میں کچھ کٹر باطنی بھی تھے جن کے دلوں میں ذرا سا بھی اثر نہ ہوا وہ حسن بن صباح کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کا قتل برداشت نہ کر سکتے تھے ان میں سے ایک آدمی الموت جا پہنچا اور حسن بن صباح کو جا اطلاع دی کہ پیرومرشد عبد الملک بن عطاش قتل کر دیے گئے ہیں
حسن بن صباح پر تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا اس کے دل میں اپنے پیر استاد کا احترام تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے اس کے لیے اصل دھچکہ یہ تھا کہ سلجوقیوں نے بھی اس کی طرح اہم شخصیتوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا اس آدمی نے جو حسن بن صباح کو اطلاع دینے گیا تھا تفصیل سے بتایا کہ کس طرح دو آدمی اور دو عورتیں وہاں آئی تھیں اور انہوں نے کیا افواہ پھیلائی اور وہ کس طرح عبدالملک کو لے گئے تھے اور اگلی صبح عبدالملک کی لاش شہر کے ایک دروازے میں پڑی ملی تھی
حسن بن صباح یکلخت چونکا اور واہی تباہی بکنے لگا اس کے مشیر اور دیگر درباری اٹھ کھڑے ہوئے اور تھر تھر کانپنے لگے انہوں نے حسن بن صباح کو اتنے غصہ میں کبھی نہیں دیکھا تھا وہ ہر صورت حال میں خندہ پیشانی سے بات کیا کرتا تھا اور تبسم اس کے ہونٹوں پر رہتا تھا یہ پہلا موقع تھا کہ جن ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی ان ہونٹوں سے جھاگ پھوٹنے لگی اور وہ جب غصے سے بولتا تھا تو یہ جھاگ اڑ کر سننے والوں پر پڑتی تھی وہ اپنے پیر استاد کا انتقام لینا چاہتا تھا یہ ممکن نہ تھا اس لئے اس کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا وہ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ اپنے فدائیوں کو سالار اوریزی سلطان محمد اور سنجر کو قتل کرنے کے لئے کہہ دیتا لیکن اس کے لیے وقت اور موقع درکار تھا
غصے سے وہ پاگل ہوا ہی جارہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے عبدالملک کی دونوں بیویاں اور دو بیٹیاں اور ان کے بیٹوں کے ایک ایک دو دو بچے آئے ہیں حسن بن صباح باہر کو دوڑ پڑا اپنے پیر استاد کے ان پسماندگان کا استقبال وہ آگے جاکر کرنا چاہتا تھا اس نے استقبال یوں کیا کہ عبدالملک کی بوڑھی بیوی کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے قدموں میں سر رکھ دیا اس کی دوسری بیوی ابھی جوانی کی عمر میں تھی حسن بن صباح انہیں اپنے کمرے میں لے آیا
کیا سلجوقیوں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے حسن بن صباح نے پوچھا یا آپ خود کسی طریقے سے وہاں سے نکل آئی ہیں
سلجوقی سالار اوریزی آیا تھا بڑی بیوی نے جواب دیا اس نے ہمیں بڑے اچھے لہجے میں کہا کہ یہاں رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو تمہاری حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہوگی اور اگر الموت جانا چاہتی ہو تو اپنے محافظوں کے ساتھ الموت تک پہنچا دوں گا میں نے کہا ہمیں الموت پہنچا دیا جائے مجھے زیادہ ڈر اس جوان بیٹی کا تھا لیکن یوں لگا تھا جیسے یہ جوان بیٹی کسی کو نظر آئی ہی نہیں ورنہ ایسی جوان لڑکی کو کون معاف کرتا ہے لیکن سالار اوریزی نے جیسا کہا تھا ویسا کر کے دکھا دیا ہمیں محافظ دستہ دے کر رخصت کیا اور وہ دستہ قلعہ الموت کے باہر چھوڑ کر چلا گیا ہے
حسن بن صباح نے حکم دیا کے اسے ایک خاص قسم کے فدائی کی ضرورت ہے اس نے بتایا کہ سالار اوریزی کو قتل کرنا ہے اس کے آدمی اچھی طرح جانتے تھے کہ کون سے آدمی کو قتل کرنے کے لیے کس قسم کے فدائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ حسن بن صباح کا مطلب سمجھ گئے پھر بھی حسن بن صباح نے انہیں مزید سمجھا دیا کہ سالار اوریزی بڑا ہی ہوشیار اور دانش مند آدمی ہے اور اس کی نظریں گہرائی تک چلی جاتی ہیں اس لیے اس کے مطابق کوئی فدائی بھیجا جائے اور اس کا جواں سال ہونا ضروری ہے
تاریخوں میں لکھا ہے کہ حسن بن صباح کو ہر بڑی شخصیت کی نفسیات تک سے بھی واقفیت تھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس کا جاسوسی کا نظام بڑا ہی کارگر تھا اس میں عام قسم کے یا اوسط درجے کے آدمی نہیں تھے بلکہ اونچی حیثیت کے لوگ بھی تھے اور خاص طور پر عقل مند آدمی بھی تھے
یہ پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کی جنت میں فدائی پرورش پاتے تھے ان کے دماغوں پر حشیش اور انتہائی خوبصورت لڑکیوں کا قبضہ ہوتا تھا ان کی اپنی تو کوئی سوچ ہوتی ہی نہیں تھی حسن بن صباح کی ایک جنت اور بھی تھی اس کے متعلق تاریخ میں کم ہی لکھا گیا ہے لیکن دو وقائع نگاروں نے اس کی بھی تفصیلات لکھی ہیں جو مختصراً یوں ہے کہ کچھ نوجوانوں کو ایک خاص قسم کی بوٹی کا نشہ پلایا جاتا تھا اور انہیں ایسی جگہ رکھا جاتا تھا جہاں غالباً اسی بوٹی کا ہلکا ہلجا دھواں پھیلا رہتا تھا اس نشے کا اور اس دھوئیں کا اثر یہ ہوتا تھا کہ وہ آدمی اگر کنکریاں کھا رہا ہوتا تو یوں محسوس کرتا جیسے مرغن کھانے کھا رہا ہے انہیں کھانے تو مرغن ہی دیئے جاتے تھے لیکن ان کے تصورات میں ایک جنت آباد کر دی جاتی تھی جن میں حوریں بھی ہوتی تھیں اور شراب بھی ہوتی تھی لیکن وہ حقیقت میں نہ حوریں ہوتی تھیں نہ شراب وہ آدمی اس تصور کو حقیقت سمجھتے تھے تاریخ سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اس خیالی جنت میں بہت ہی تھوڑے نوجوان کو رکھا جاتا تھا کیونکہ باہر بھیجے جانے کی صورت میں ان کا نشہ اتر بھی سکتا تھا ان میں سے اگر کسی کو الموت سے باہر بھیجا جاتا تو ساتھ حشیش کا نشہ دیا جاتا تھا حشیش ایسی چیز تھی جو دماغ کو حقیقی حالت میں آنے ہی نہیں دیتی تھی
تھوڑی ہی دیر بعد چھبیس ستائس سال عمر کا ایک خوبرو آدمی حسن بن صباح کے سامنے لا کر کھڑا کیا گیا اس آدمی نے حسن بن صباح کے آگے سجدہ کیا حسن بن صباح نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ سجدے سے اٹھا
ہمیشہ کے لیے جنت میں رہنا چاہتے ہو؟
حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہاں یا امام! اس آدمی نے جواب دیا آپ کا حکم ہوگا تو ہمیشہ جنت میں رہنا چاہوں گا اور آپ جہنم میں پھیکنگے تو وہاں بھی میری زبان پر آپ ہی کا نام ہوگا
نہیں جہنم میں نہیں پھیکوں گا حسن بن صباح نے کہا میں تمہیں اس جنت میں بھیج رہا ہوں جس میں تم ہمیشہ رہو گے اور ہمیشہ جوان رہو گے
اگر ہم آج کل اور جدید دور کی زبان میں بات کریں تو یہی کہیں گے کہ اس جوان آدمی اور اس جیسے دوسرے آدمیوں کی برین واشنگ ایسی خوبی سے کر دی گئی تھی کہ وہ حسن بن صباح کے اشارے پر جہنم میں جانے کے لیے بھی تیار ہو جاتے تھے یورپ کے دو تین نفسیات دانوں نے حسن بن صباح کی جنت کا نفسیاتی تجزیہ بھی کیا ہے جو یہاں پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ بڑا ہی خشک اور سائنسی موضوع ہے حسن بن صباح کا اپنا ایک طریقہ اور انداز تھا جو وہ ایسے نوجوان پر استعمال کرتا تھا اس نے اس جوان سال آدمی کو بتایا کہ وہ قلعہ وسم کوہ جائے گا اور وہاں اسے ایک سپہ سالار دکھایا جائے گا جس کا نام اوریزی ہے اسے قتل کرنا ہے اور خود بھی قتل ہو جانا ہے اگر وہ اسکو قتل کرکے زندہ نکل سکتا ہے تو یہ اس کی اپنی قسمت ہے وہ واپس یہاں آئے گا تو جنت میں رہے گا اور اگر اپنے آپ کو مار لے گا یا کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا تو اس سے زیادہ خوبصورت جنت میں جائے گا
حسن بن صباح کے فدائی کوئی اور دلیل تو سمجھتے ہی نہیں تھے ان کے دماغوں پر حشیش اور عورت اور لذت پرستی سوار ہوتی تھی جان لینے اور جان دینے کو تو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے اس جواں سال آدمی کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ وہ یہ کام کس طرح کرے گا اور وہ اکیلا نہیں ہوگا وہاں دو آدمی ایسے ملیں گے جو اسے اپنی پناہ میں رکھیں گے اوریزی کے قتل میں اس کی رہنمائی اور مدد کریں گے
حسن بن صباح نے ایسے انداز سے بات کی تھی جیسے اس نے اس جوان سال شخص پر بہت بڑی نوازش کی ہو کہ اسے اپنے حکم کی تعمیل کا موقع دیا ہو
وسم کوہ ایک قلعہ بند شہر تھا جس کے متعلق پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ یہ کس طرح اور کتنی مدت میں فتح کیا گیا تھا اب اس کے اندر کے حالات بالکل نارمل تھے عام خیال یہی تھا کہ اس قصبے میں اب کوئی باطنی نہیں رہا لیکن یہ سوچنے والے حقیقت سے بے خبر تھے وہاں چند ایک باطنی موجود تھے جو صرف باطنی ہی نہیں تھے بلکہ حسن بن صباح کے جاسوسوں اور تخریب کار بھی تھے وہ اس معاشرے میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ان پر ذرا سا بھی شک نہیں کیا جا سکتا تھا وہ وسم کوہ کی خبریں الموت پہنچاتے رہتے تھے ابھی تک انہوں نے کوئی تخریبی کارروائی نہیں کی تھی شاید انہیں ایسا کوئی مشن دیا ہی نہیں گیا تھا ان کی تعداد بھی کوئی زیادہ نہیں تھی پانچ سات ہی ہوں گے
وسم کوہ میں دو ادھیڑ عمر آدمی رہتے تھے ان کے گھر ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے دونوں بیوی بچوں والے تھے ایک بڑھئی کا کام کرتا تھا اور دوسرا سبزیاں کاشت کر کے لوگوں کو بھیجتا تھا دونوں نے معاشرے میں اپنی عزت کی جگہ بنا رکھی تھی اور لوگ انہیں عزت و احترام سے دیکھتے تھے وہ بھی سب میں گھل مل کر رہتے تھے وہ جو بڑھئی کا کام کرتا تھا اس کے گھر ایک جوان سال آدمی آیا جو اس کا مہمان سمجھا گیا لیکن وہ وہیں رہنے لگا بڑھئی اور اس سبزی فروش نے لوگوں کو بتایا کہ یہ بڑھئی کا بھتیجا ہے رے میں رہتا تھا اور اس کا باپ مر گیا ہے اب یہ اپنے بڑھئی چچا کے ساتھ رہنے کے لیے یہاں آیا ہے اور اپنے چچا کے ساتھ کام کرتا ہے اس کا نام عبید عربی بتایا گیا
عبید عربی خاموش طبع انسان تھا لوگوں سے کم ہی ملتا اور بولتا تو بہت ہی کم تھا اس کے چہرے پر اداسی سی چھائی رہتی تھی کوئی اسے سلام کرتا ملتا تو اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی تھی پھر فوراً مسکراہٹ غائب ہوجاتی اور چہرے پر اداسی عود کر آتی تھی اس کے انداز سے یوں لگتا تھا کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ کسی کی طرف نہ دیکھے اور کوئی اس کے ساتھ سلام دعا نہ کرے یہ وہی خوبرو جوان تھا جسے حسن بن صباح نے ذاتی طور پر وسم کوہ سالار اوریزی کے قتل کے لیے بھیجا تھا
وہ اس بڑھئی کا بھتیجا تھا یا نہیں اس کا باپ مر گیا تھا یا نہیں بہرحال یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ بڑھئی اور سبزیاں اگانے اور بیچنے والا اس کا پڑوسی باطنی تھے وہ صرف باطنی نہیں تھے بلکہ تجربے کار جاسوس اور تخریب کار تھے وسم کوہ سے الموت خبریں پہنچاتے رہتے تھے ان دونوں نے عبید عربی کو اپنی پناہ میں رکھا اور اس جوان سال اور خوبرو آدمی نے ان دونوں کی ہدایات اور رہنمائی سے سالار اوریزی کو قتل کرنا تھا
وسم کوہ میں ایک وسیع و عریض میدان تھا جیسے گھوڑ دوڑ کا میدان کہا کرتے تھے فوجی وہاں لڑائی کی مشک وغیرہ کیا کرتے تھے اور سوار گھوڑے دوڑاتے تھے سالار اوریزی ہر روز کچھ دیر کے لیے وہاں جاتا اور گھوڑے پر سوار اس میدان میں گھوم پھیر کر اور فوجیوں کو ٹریننگ کرتے دیکھا کرتا تھا اور پھر واپس آ جاتا تھا ایک روز عبید عربی ان لوگوں میں کھڑا تھا جو فوج کا یہ تماشا دیکھ رہے تھے سالار اوریزی ان لوگوں کے قریب سے گزرا تو عبید عربی اس کی طرف چل پڑا ایک فوجی نے دوڑ کر اسے وہیں روک لیا اور پوچھا کہ وہ آگے کیوں آیا ہے
میں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں عبید عربی نے کہا میں اسی لئے سپہ سالار کے سامنے جانا چاہتا ہوں
نہیں بھائی! فوجی نے کہا میں تمہیں وہ جگہ دکھا دوں گا جہاں فوج میں آدمی بھرتی کیے جاتے ہیں تم وہاں چلے جانا اور تمہیں بھرتی کر لیا جائے گا
میں صرف بھرتی کے لیے سپہ سالار سے نہیں ملنا چاہتا عبید عربی نے کہا یہ سپہ سالار مجھے بہت اچھا لگتا ہے میں اس کا عقیدت مند ہوں یہ بہادر سالار ہے اور پکا مسلمان ہے میں اس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتا ہوں اور اس کے ہاتھ چومنا بھی چاہتا ہوں
نہیں میرے بھائی! فوجی نے کہا بڑا سخت حکم ہے کہ کوئی باہر کا آدمی سپہ سالار کے قریب نہ جائے تمہیں بھی سپہ سالار سے سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی
وہ کیوں؟
عبید عربی نے پوچھا
یہ تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے فوجی نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسن بن صباح کے فدائی یہاں کتنی حاکموں کو قتل کر چکے ہیں ان کا طریقہ قتل یہی ہے کہ عقیدت مند بن کر یا فریادی بن کر کسی حاکم کے قریب روتے دھوتے چلے جاتے ہیں اور خنجر نکال کر اس حاکم کو قتل کر دیتے ہیں پھر خود کشی کر لیتے ہیں
دراصل عبید عربی دیکھنا چاہتا تھا کہ سالار اوریزی کے قریب جایا جا سکتا ہے یا نہیں اسے پتہ چل گیا کہ وہ یا کوئی اور اس سالار کے قریب نہیں جاسکتا اسے اب کوئی اور طریقہ سوچنا تھا
سورج غروب ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی شافعیہ قلعہ وسم کوہ کی دیوار پر اکیلی ہی ٹہل رہی تھی وہ تو اس دنیا میں رہ ہی اکیلی گئی تھی اسے ماں باپ یاد آ رہے تھے اور پھر اسے اپنا چچا ابو جندل یاد آنے لگا اس کے چچا کے مارے جانے کا اسے کوئی افسوس نہیں تھا لیکن اس کے دل پر بوجھ بڑھتا ہی جا رہا تھا پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے چچا ابو جندل کے ساتھ دور دراز کے ایک پہاڑی علاقے میں خزانے کی تلاش میں گئی تھی شافعیہ کو کسی خزانے کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی لیکن ابوجندل شافعیہ اور اس کی بہن کو بھی ساتھ لے گیا تھا کہ پیچھے ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا
ابو جندل جس طرح خزانے والے غار میں مارا گیا تھا اور جس طرح شافعیہ وہاں سے نکلی اور جن مصائب میں الجھتی اور نکلتی واپس وسم کوہ پہنچی تھی وہ پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے
شافعیہ قلعے کی دیوار پر چلتے چلتے رک گئی اور اس جنگل کی طرف دیکھنے لگی جس میں سے گزر کر وہ واپس آئی تھی اس کے دل پر ہول سا طاری ہونے لگا وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ وہ یقینی موت کے پیٹ میں سے نکل آئی تھی وسم کوہ میں اس کا اپنا کوئی عزیز رشتے دار نہیں رہا تھا لیکن وہ یہیں واپس آگئی…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:46 }
شافعیہ قلعے کی دیوار پر چلتے چلتے رک گئی اور اس جنگل کی طرف دیکھنے لگی جس میں سے گزر کر وہ واپس آئی تھی اس کے دل پر ہول سا طاری ہونے لگا وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ وہ یقینی موت کے پیٹ میں سے نکل آئی تھی وسم کوہ میں اس کا اپنا کوئی عزیز رشتے دار نہیں رہا تھا لیکن وہ یہیں واپس آگئی
وہ خوش قسمت تھی کہ اسے مزمل اور شمونہ کی پناہ مل گئی تھی ان دونوں نے اسے وہی پیار دیا جو اس کے ماں باپ اور پھر اس کا چچا ابو جندل اپنے ساتھ ہی لے کر اس دنیا سے اٹھ گئے تھے پھر وہ اللہ کا شکر اس لیے بھی ادا کرنے لگی کہ ابوجندل نہ صرف باطنی تھا بلکہ حسن بن صباح کا جاسوس اور تخریب کار تھا لیکن شافعیہ اور اس کے راستے سے ہٹ کر اللہ کی راہ پر آ گئی اس راہ پر مزمل اور شمونہ نے اور سالار اوریزی نے بھی اسکا ہاتھ تھام لیا تھا
سورج افق تک پہنچ گیا تھا اور شفق بڑی ہی دلکش ہوتی جا رہی تھی شافعیہ اس شفق کے رنگ دیکھنے لگی اسے اپنے پیچھے قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ سنائی دی یہ چاپ بتا رہی تھی کہ کوئی خراماں خراماں چلا آرہا ہے شافعیہ نے پیچھے دیکھا ایک خوبرو جوان آہستہ آہستہ چلا آ رہا تھا
شافعیہ نے اسے دیکھا اور پھر شفق کی طرف نظریں پھیر لی لیکن اچانک اس نے پھر پیچھے دیکھا اسے اس جواں سال آدمی کا چہرہ کچھ مانوس سا اور کچھ شناسا لگا اس نے اس چہرے کو غور سے دیکھا اور ذہن پر زور دے کر یاد کرنے لگی کہ یہ چہرہ اسے کہاں نظر آیا تھا اسے اتنا یاد آیا کہ یہ چند دنوں چند مہینوں یا چند سالوں پہلے کی بات نہیں بلکہ بڑی ہی پرانی بات ہے کہ یہ چہرہ یا اس سے ملتا جلتا چہرہ دیکھا تھا
اس نے اس شخص سے نظریں ہٹا لی اور وہ جواں سال شخص اسی رفتار سے چلتا آیا اور شافعیہ کے قریب پہنچ گیا شافعیہ نے ایک بار پھر منہ اس کی طرف کرکے دیکھا وہ آدمی بھی اسے دیکھ رہا تھا اس آدمی کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ چونک اٹھا ہے اور وہ شافعیہ کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے اب دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے اور ان کے درمیان بمشکل ایک قدم کا فاصلہ تھا وہ جوان آدمی شافعیہ کی عمر کا تھا اس وقت شافعیہ کی عمر پچیس چھبیس سال ہو گئی تھی
کیا تم مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟
شافعیہ نے بلاجھجک پوچھا اور جواب سنے بغیر کہا کوشش کرو ضرور کوشش کرو مجھے بھی کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پہلے بھی کبھی ملے ہیں اگر ملے نہیں تو ایک دوسرے کو دیکھا ضرور ہے اور کچھ ایسا بھی لگتا ہے جیسے ہم نے صرف ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں بلکہ کسی جگہ ہم اکٹھے رہے ہیں
مجھے خوشی ہے کہ تم نے برا نہیں جانا اس شخص نے کہا جو تم محسوس کر رہی ہو وہ میں بھی محسوس کر رہا ہوں
تم ناصر تو نہیں ہو؟
شافعیہ نے پوچھا خدا کی قسم تم ناصر ہو اب یاد آیا میری یاد مجھے دھوکا نہیں دے سکتی تم میرے بچپن کے ساتھی ہو مجھے وہ کشادہ گلی یاد آگئی ہے جہاں ہم کھیلا کرتے تھے اور تم مجھ سے اور میں صرف تم سے کھیلا کرتی تھی کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟
تم غلط نہیں کہہ رہی اس شخص نے کہا تمہیں میرا نام یاد نہیں رہا شاید بچپن میں میرا نام ناصر ہی ہوگا لیکن بعد میں میرا نام عبید عربی ہو گیا تھا ہاں تم میرے بچپن کی ساتھی ہو اس کے بعد تم وہاں سے چلی گئی تھی اور پھر شاید تمہیں ایک دو مرتبہ دیکھا ہو اور اس کے بعد میں کہاں کہاں پھیرا اور مجھ پر کیا گزری یہ لمبی کہانی ہے اصل بات یہ ہے کہ تمہیں یہاں دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ہے
کیا تم نے شادی کرلی ہے؟
شافعیہ نے پوچھا
نہیں شافعیہ! عبید عربی نے کہا لڑکیاں تو بہت ملیں لیکن پیار والی کوئی نہ ملی میں تمہیں دل کی بات بتاتا ہوں وہ یہ کہ مجھے جسم نہیں چاہیے وہ محبت چاہیے جو روح کے اندر سے پھوٹا کرتی ہے اور وہ روح کے غنچوں کو بھی کھلا دیتی ہے
اس خوبرو جوان آدمی نے شافعیہ کی روح کے مرجھائے ہوئے غنچے کو تروتازہ کر کے کھلا دیا اس کا ذہن ایک ہی اڑان میں ماضی کے اس دور میں پہنچ گیا جب وہ عبید عربی کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اسے گئی گزری باتیں یاد آنے لگیں اس کا ساتھ بچپن تک ہی نہیں بلکہ بچپن سے نکل کر لڑکپن تک پہنچ گیا تھا شافعیہ کے ماں باپ ایک دوسرے کے بعد اسی عمر میں مر گئے تھے اور اسے اور اس کی چھوٹی بہن کو ان کے چچا ابو جندل نے سنبھال لیا اور بڑے پیار سے پالا پوسا تھا جب ماں مر گئی اور دو چار مہینوں بعد اس کا باپ بھی مر گیا تو وہ عبید عربی کے ساتھ پہلے سے زیادہ کھیلنے لگی تھی اور اب وہ کھیلتی کم تھی اور عبید کو اپنے پاس بٹھا کر باتیں زیادہ کرتی تھی عبید اس کچی عمر میں بھی شافعیہ کو تسلیاں اور دلاسے دیا کرتا تھا
نہیں نہیں شافعیہ نے عبید عربی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تمہارا نام ناصر تھا عبید عربی نہیں میں تمہیں ناصر ہی کہوں گی میرے دل میں وہ ناصر زندہ ہوگیا ہے
شافعیہ کے جذبات میں جو ہلچل بپا ہو گئی تھی ویسی ہی عبید عربی کے جذبات میں پیدا ہوگئی اسے یاد آنے لگا کہ اس شافعیہ کے ساتھ اسے کتنا پیار تھا اس کے بغیر وہ خوش رہتا ہی نہیں تھا اپنے ہمجولیوں کے ساتھ تو کھلتا ہی نہیں تھا اسے وہ وقت یاد آنے لگا جب ماں باپ کی موت کے بعد شافعیہ اس کے پاس بیٹھ کر رویا کرتی اور انہیں یاد کیا کرتی تھی تو عبید کس پیار سے اسے بہلایا کرتا تھا
شافعیہ! عبید عربی نے کہا تم اس عمر میں خوبصورت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی آج ہو
عبید عربی نے یہ بات کچھ ایسے جذباتی لہجے میں اور خوشگوار انداز میں کی تھی کہ شافعیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور اس بے ساختہ ہنسی نے اس کی ذات سے وہ سارا غبار اڑا دیا جو اسے کچھ دیر پہلے پریشان کیے ہوئے تھا وہ محسوس کیا کرتی تھی جیسے اس کی ذات سے اور اس کے اندر سے دھواں اٹھتا رہتا ہے جس سے اس کا دم گھٹ جاتا ہے عبید عربی کی شگفتگی نے اس کی یہ ساری گھٹن ختم کردی
سورج غروب ہو گیا تھا اور قلعے میں کئی جگہوں پر مشعلیں جل اٹھی تھیں شام گہری ہو گئی تھی شافعیہ کو یہ خیال آیا ہی نہیں کہ شمونہ اور مزمل اس کے لئے پریشان ہوں گے
تمہاری شادی تو ہو چکی ہوگی؟
عبید عربی نے پوچھا
نہیں شافعیہ نے جواب دیا شادی کی بات سامنے آتی ہے تو یوں لگتا ہے اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ بیچ رہی ہوں شاید گم گزشتہ پیار کی تلاش میں ہوں جو ملنا محال نظر آتا ہے
وہ مل گیا ہے عبید عربی نے کہا ہم دونوں کو مل گیا ہے کس کے پاس رہتی ہو؟
اپنا کوئی بھی نہیں رہا شافعیہ نے جواب دیا اللہ کے دو ایسے بندے مل گئے ہیں جن کے دلوں میں وہی پیار ہے جو میرے ماں باپ کے دلوں میں ہوا کرتا تھا میں تمہیں ان سے ملواؤں گی
تمہیں یہاں زیادہ دیر رکنا نہیں چاہیے عبید عربی نے کہا جن کے پاس رہ رہی ہو وہ تمہارے خون کے رشتے دار نہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تم پر کوئی شک کریں
تم اپنی بتاؤ شافعیہ نے پوچھا تمہارا گھر کہاں ہے پہلے تو تمہیں وسم کوہ میں کبھی نہیں دیکھا
میرے بھی ماں باپ مر گئے تھے عبید عربی نے جواب دیا تم اصفہان سے اپنے چچا کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی تو اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد میرے ماں باپ بھی مر گئے تھے میں کہیں اور رہتا تھا لیکن اب یہاں رہنے کے لئے آ گیا ہوں یہاں ایک بڑھئی ہے وہ میرا چچا ہے میں اب اسی کے ساتھ رہوں گا اور اس نے مجھے اپنا کام سکھانا شروع کر دیا ہے آؤ چلیں کل کہاں اور کس وقت ملوں گی
جہاں کہو گے شافعیہ نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں جواب دیا جس وقت کہو گے آ جاؤ گی
قلعے کے باہر آ سکوں گی عبید عربی نے پوچھا اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر بولا قلعے کے ساتھ ہی سبزیوں کا ایک باغ ہے وہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے وہاں درخت بہت زیادہ ہیں اور ان پر بیلیں چڑھی ہوئی ہیں اور وہاں پھول دار پودے بھی ہیں وہ باغ یہاں ہمارے ایک پڑوسی کا ہے وہ سبزیاں اُگاتا ہے اور قلعے میں بیچتا ہے فوج کو بھی سبزیاں وہی دیتا ہے اگر کل کسی وقت وہاں آ سکو تو میں وہی ملوں گا اس باغ کے مالک سے ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ ہمارا پڑوسی ہے اور میرے چچا کا بھائی بنا ہوا ہے
ہاں وہ باغ شافعیہ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا میں دو تین بار اس باغ میں گئی ہوں بہت ہی خوبصورت جگہ ہے میں وہاں آ جاؤں گی
انہوں نے اگلے روز کی ملاقات کا وقت مقرر کر لیا اور پھر قلعے کی دیوار سے اتر کر اپنے اپنے گھر چلے گئے
شافعیہ تو عبید عربی کی ذات میں گم ہوگئی تھی اسے تو جیسے احساس ہی نہ رہا تھا کہ شام بہت گہری ہوگئی ہے اور اسے اپنے گھر پہنچنا ہے وہ سوچنے لگی کہ مزمل اور شمونہ اسے پوچھیں گے کہ وہ کہاں رہی ہے تو وہ کیا جواب دے گی اس نے کوئی جھوٹ گڑھنا چاہا تو ضمیر نے اس کا ساتھ نہ دیا وہ مزمل اور شمونہ کے آگے جھوٹ بولنا نہیں چاہتی تھی انہوں نے جو پیار اور جو احترام اسے دیا تھا اس کی قدر وہ صرف اس طرح کر سکتی تھی کہ ان کے ساتھ مخلص رہے اور صداقت کا دامن نہ چھوڑے
وہ گھر میں داخل ہوئی تو شمونہ اس کے لئے خاصی پریشان ہو رہی تھی مزمل نے اسے بتایا کہ وہ اس کی تلاش میں نکلنے ہی والا تھا دونوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں چلی گئی تھی وہ کھانے کے لئے اس کا انتظار کر رہے تھے
بچپن کا ایک ساتھ ہی مل گیا تھا شافعیہ نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا اس کے ساتھ قلعے کی دیوار پر کھڑی بچپن کو یاد کرتی رہی ہوں
کون ہے وہ؟
شمونہ نے پوچھا
کچھ دن ہوئے یہاں آیا ہے شافعیہ نے جواب دیا ہم بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے آج اس عمر میں ملاقات ہوئی ہے اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو فوراً پہچان لیا تھا
اگر تم اسے اچھی طرح جانتی ہو تو پھر کوئی بات نہیں مزمل نے کہا اگر اسے اتنا ہی جانتی ہوں کہ بچپن میں تمہارے ساتھ کھیلا کرتا تھا تو پھر محتاط رہنا آج کل کسی کا بھروسہ نہیں
نہ ملو تو بہتر ہے شمونہ نے کہا
یہ بات غلط ہے مزمل نے کہا اسے ضرور ملو اگر وہ شہر میں ابھی ابھی آیا ہے تو اسے ضرور ملو لیکن یوں نہیں کہ تمھیں اس سے بچپن میں پیار تھا بلکہ اس لیے ملو کہ اسے غور سے دیکھو اور یہ جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کرو کہ یہ کوئی غلط آدمی تو نہیں وہ حسن بن صباح کا بھیجا ہوا فدائی بھی ہوسکتا ہے ہم نے جس طرح قلعہ ناظر و طبس لیا ہے اسے حسن بن صباح بخشے گا نہیں ہم نے اس کے پیرومرشد کو قتل کیا ہے حسن بن صباح انتقام لے گا اور ضرور لے گا ہوسکتا ہے وہ سپہ سالار اوریزی کو بھی قتل کروا دے ایسا کوئی اجنبی شہر میں نظر آئے تو اسے ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھو
مزمل آفندی نے یہ جو بات کرنی تھی بالکل ٹھیک کہی تھی سالار اوریزی نے جاسوسوں اور مخبروں کو بلاکر خاص ہدایات دی تھی کہ قلعے میں کوئی اجنبی آئے تو اسے اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھیں شہر میں فدائیوں کی موجودگی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تھا سالار اوریزی نے ایک خاص ہدایت یہ دی تھی کہ تاجروں کا جب مال آتا ہے تو اسے ضرور دیکھیں اگر مال اتارتے وقت اچھی طرح نہ دیکھ سکے تو یہ دیکھیں اس میں سے مختلف اشیاء کہاں کہاں جاتی ہیں وہاں جا کر دیکھیں اوریزی نے بڑی عقلمندی کی بات کی تھی وہ کہتا تھا کہ جہاں فدائی ہوں گے وہاں حشیش ضرور ہوگی حشیش باہر ہی سے آتی ہوگی حشیش کے ذریعے فدائیوں کو پکڑا جا سکتا ہے اس سے پہلے کسی شہر میں اور کسی قلعے میں ایسی جانچ پڑتال اور دیکھ بھال کا کسی کو بھی خیال نہ آیا تھا اوریزی کو احساس تھا کہ عبدالملک بن عطاش کو وہ مروا کر وہ خود بھی زندہ نہیں رہ سکتا اس پر قاتلانہ حملہ ہونا ہی تھا
شافعیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ اس خوبرو جوان سال آدمی کا اصل نام ناصر تھا اور وہ یہاں آکر عبید عربی بن گیا تھا لیکن شافعیہ نے نام کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی نام پر توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا تھی عبید عربی نے کہا تھا کہ کبھی وہ ناصر ہوا کرتا تھا اور پھر اس کا نام عبید عربی رکھ دیا گیا تھا شافعیہ نے اس کی اس بات اور وضاحت کو سچ مان لیا تھا
شافعیہ! شمونہ نے کھانے کے بعد شافعیہ سے کہا اب تم اپنے لیے کسی کو منتخب کر ہی لو
شمونہ نے شافعیہ کو یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ یہ لڑکی عالم شباب میں ہے اور غیر معمولی طور پر حسین بھی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پیار کے دھوکے میں آکر حسن بن صباح کی جنت میں پہنچا دی جائے
میں عبید کو کسی دن گھر لاؤں گی شافعیہ نے کہا آپ دونوں بھی اسے دیکھ لیں اور مجھے بتائیں کہ میرا انتخاب کیسا ہے
تمہارا انتخاب یقینا اچھا ہوگا شافعیہ! مزمل نے کہا لیکن ہم صرف یہ نہیں دیکھیں گے کہ عبید کتنا خوبرو ہے اور تمہیں کتنا چاہتا ہے ہمیں تو اس کی اصلیت اور اس کا باطن دیکھنا ہے ہم تمہیں کسی فریب کار کے چنگل میں نہیں جانے دیں گے
شافعیہ نے وہ رات بیچینی سے کروٹیں بدلتے گزاری آنکھ لگتی تھی تو اسے خواب میں عبید عربی نظر آتا تھا آنکھ کھل جاتی تو اسی کے تصور میں گم ہو جاتی وہ محسوس کرنے لگی جیسے رات بڑی ہی لمبی ہو گئی ہو آخر صبح طلوع ہوئی اور شافعیہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی ملاقات کا وقت ابھی دور تھا وقت گزارنے کے لیے وہ کام کاج میں مصروف ہو گئی اور ملاقات کا وقت قریب آگیا
میں اسے ملنے جا رہی ہوں شافعیہ نے شمونہ سے کہا میری اتنی فکر نہ کرنا میں بچی تو نہیں ہوں
پھر بھی محتاط رہنا شمونہ نے کہا اسے اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھو اور اسے یہاں ضرور لانا
شافعیہ گھر سے نکلی پھر قلعے سے نکل گئی اور سبزیوں والے باغ میں جا پہنچی عبید عربی اس کے انتظار وہاں پہلے سے موجود تھا شافعیہ کو دیکھ کر دوڑا آیا اور اس کا بازو پکڑ کر باغ کے اندر ایک ایسی جگہ لے گیا جہاں درختوں پر چڑھی ہوئی بیلوں نے چھاتہ سا بنا رکھا تھا اس کے نیچے گھاس تھی اور تین اطراف بیلوں اور پودوں کی اوٹ تھی تنہائی میں بیٹھنے کے لئے وہ جگہ موزوں تھی اور رومان پرور بھی تھی دونوں وہاں جا بیٹھے تھوڑی دیر بعد دونوں دنیا سے بے خبر ہو گئے
پہلے ایک فیصلہ کرلو شافعیہ نے عبید عربی سے کہا میں تمہیں ناصر کہا کرو یا عبید؟
عبید بہتر ہے عبید عربی نے جواب دیا نام کو اتنی اہمیت کیوں دیتی ہو اگر محبت ہے تو نام کچھ بھی ہو سکتا ہے محبت نہیں تو بڑے پیارے پیارے نام بھی بھدے اور بےمعنی لگتے ہیں
اس روز انہوں نے بہت باتیں کیں پیار کی باتیں گزرے ہوئے وقت کی باتیں لیکن ایسی نہیں کہ دلوں پر اداسی اور ملال آجاتا شافعیہ نے اسے کہا تھا کہ ایسی کوئی بات یاد نہ کرو یا یاد نہ دلاؤ جس میں تلخیاں ہو وہ کہتی تھی کہ ہم آہیں بھریں گے فریادی کریں گے اور روئیں گے تو بھی ہمیں ماں باپ نہیں ملیں گے نہ ان کا پیار ملے گا پیار تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دینا ہے
وہ ایک دوسرے میں گم ہوگئے محبت کی وارفتگی اور خودسپردگی ایسی جیسے یہ دو جسم ایک ہو جانے کی کوشش کر رہے ہوں شافعیہ کہتی تھی کہ وجود ہو تو محبت کا ہو ہمارے اپنے کوئی وجود نہیں اگر ہیں تو انہیں اس طرح پاک اور صاف رکھنا ہے کہ خیال ہی نہ آئے کہ جسم کو تسکین کی ضرورت ہے
عبید عربی نے اسے یقین دلایا کہ اس کی نظر جسم پر ہے نہیں وہ بار بار ایک تشنگی کا اظہار کرتا تھا یہی وہ تشنگی تھی جس سے شافعیہ مری جا رہی تھی اب وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے پیار و محبت کے چشمے بن گئے وہ یوں محسوس کرنے لگے جیسے یہ چشمے سوکھ گئے تھے اور اچانک پھوٹ پڑے ہوں
دن آدھا گزر چلا تھا جب وہ کسی کی آواز پر اچانک بیدار ہوگئے اور گھروں کو جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے
میں تمہیں کسی دن اپنے گھر لے چلو گی شافعیہ نے کہا میں تمہیں ان لوگوں سے ملواؤں گی جن کے پاس میں رہتی ہوں انہیں تم میرے ماں باپ ہی سمجھو
شافعیہ! عبید عربی نے کہا ان کے پاس لے جانے سے پہلے مجھے خود سمجھ لو میں کچھ نہیں چاہتا میں پیار کا تشنہ ہوں وہ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے
محبت نے ان پر دیوانگی طاری کر دی تھی اسی شام دونوں قلعے کی دیوار پر وہیں کھڑے تھے جہاں گزشتہ شام ان کی ملاقات ہوئی تھی
اگلے روز پھر سبزیوں کے باغ میں اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے شام کے وقت وہ پھر قلعے کی دیوار پر کھڑے تھے
اس طرح وہ آٹھ دس روز ملتے رہے اور ایک روز شافعیہ عبید عربی کو اپنے گھر لے گئی شمونہ کو عبید خاص طور پر پسند آگیا تھا مزمل نے اس کے ساتھ کچھ ایسی ذاتی سوالات کیے جنہیں وہ ضروری سمجھتا تھا عبید عربی نے اسے مایوس نہ کیا
میری ایک خواہش ہے عبید عربی نے مزمل سے کہا میں سپہ سالار اوریزی سے ملنا چاہتا ہوں اس کے ہاتھ چومنے کو جی چاہتا ہے اس نے جو کارنامے کر دکھائے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکتا عبدالملک بن عطاش کو قتل کون کرسکتا تھا یہ قلعہ وسم کوہ کوئی اور فتح نہیں کر سکتا تھا اور پھر جس طرح اس سالار نے قلعہ ناظروطبس لیا ہے یہ اسی کی دانش مندی اور عسکری فہم و فراست کا نتیجہ ہے مجھے اس سے ملا دیں
میں ملوں آؤں گا مزمل نے کہا
میں دراصل فوج میں جانا چاہتا ہوں عبید عربی نے کہا میں سپہ سالار اوریزی کے ماتحت سلطنت کی اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں
شمونہ اور مزمل کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ عبید عربی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا فدائی ہے مزمل دلی طور پر تیار ہو گیا تھا کہ اسے سالار اوریزی سے ملوا دیا جائے گا اس نے عبید عربی سے کہا کہ سالار اوریزی سے ملاقات کرا دی جائے گی لیکن تمہاری جامع تلاشی ہوگی اور تمہارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوگا
میں نے ان سے ملنا ہے عبید عربی نے کہا ان کے سامنے کسی ہتھیار کی نمائش نہیں کرنی
عبید عربی کو وسم کوہ میں آئے دو مہینے ہو گئے تھے اور قلعہ الموت میں حسن بن صباح اس خبر کا انتظار بڑی بے تابی سے کر رہا تھا کہ سالار اوریزی کو عبید عربی نے قتل کر دیا ہے اس دوران بڑھئی نے اپنے ایک جاسوس کو یہ پیغام دے کر قلعہ الموت بھیجا تھا کہ امام سے کہنا سالار اوریزی کو اتنی جلدی قتل نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ کوئی آدمی اس کے قریب نہیں جاسکتا بڑھئی نے حسن بن صباح کو یقین دلایا تھا کہ یہ کام ہو جائے گا اور عبید عربی موقع ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہا ہے بڑھئی نے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ عبید عربی نے اس گھر تک رسائی حاصل کر لی ہے جس گھر کے افراد سالار اورریزی کے قابل اعتماد لوگ ہیں بلکہ یہ اس حلقے کے لوگ ہیں جو سالار اوریزی کی دوستی کا ذاتی حلقہ ہے امید ہے ان لوگوں کے ذریعے سالار اوریزی تک عبید عربی پہنچ جائے گا
ایک روز شافعیہ نے صاف طور پر محسوس کیا کہ عبید کچھ پریشان ہے اور بولتا ہے تو اس کی زبان لڑکھڑاتی ہے شافعیہ نے پوچھا تو اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شافعیہ کو ٹال دیا لیکن باتیں کرتے کرتے عبید کی بے چینی بڑھتی گئی ایک بار اس نے یوں کیا کہ شافعیہ کا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا اور اس نے اپنی انگلیاں شافعیہ کی انگلیوں میں الجھا رکھی تھیں عبید عربی نے اپنے ہاتھ کو اتنی شدت سے مروڑا جیسے اس کے ہاتھ میں لڑکی کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ لکڑی کا ایک ٹکڑا تھا اور اسے وہ توڑنے کی کوشش کر رہا تھا شافعیہ درد سے بلبلا اٹھی اس نے عبید کا چہرہ دیکھا تو چہرہ لال سرخ ہوا جا رہا تھا شافعیہ نے بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے
کچھ نہیں شافعیہ! کچھ نہیں ہوا عبید عربی نے اکھڑی اکھڑی آواز میں کہا کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے میں جلدی ہی اپنے آپ میں آ جاؤں گا یوں محسوس کرتا ہوں جیسے کوئی غیبی طاقت میرے وجود کے اندر آکر مجھ پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہو تم گھبراؤ نہیں چلو گھر چلیں میں شام تک ٹھیک ہو جاؤں گا اور ہر روز کی طرح دیوار پر ملیں گے
عبید عربی کی یہ حالت دیکھ کر شافعیہ کو بھی ویسی ہی بے چینی محسوس ہونے لگی تھی عبید عربی نے اسے بہت تسلی دی اور کہا کہ وہ شام کو اسے بالکل ہشاش بشاس دیکھے گی شافعیہ اپنے گھر چلی گئی اور عبید عربی بڑھئی کے گھر چلا گیا
شافعیہ اس کی یہ کیفیت سمجھ ہی نہیں سکتی تھی عبید کو جسمانی ایٹھن ہو رہی تھی جو صاف علامت کی کہ یہ شخص نشے سے ٹوٹا ہوا ہے
تمہیں امام کی قسم کوئی بندوبست کرو عبید نے بڑھائی سے کہا آج تو میری حالت بہت ہی بگڑ گئی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی کو یا کسی اور کو کچھ شک ہوجائے اگر آج مجھے حشیش نہ ملی تو میں پاگل ہو جاؤں گا اور ہو سکتا ہے اس پاگل پن میں تمہاری گردن مروڑ دوں
آج شام تک امید ہے تمہارا نشہ پورا ہو جائے گا بڑھئی نے کہا میں نے تمہیں بتایا ہے کہ یہاں آنے والے مال کو کھول کر دیکھا جاتا ہے سالار اوریزی نے بڑا سخت حکم جاری کر رکھا ہے کہ حشیش کا ایک ذرہ بھی اس قلعہ بند شہر میں نہ آئے اور اگر کسی کے پاس حشیش یا اس قسم کا کوئی اور نشہ پکڑا جائے اسے فورا قید خانے میں بند کر دیا جائے
سالار اوریزی نے یہ حکم یہ سوچ کر جاری کیا تھا کہ حشیش صرف فدائی یا حسن بن صباح کے جاسوسوں اور تخریب کار پیتے ہیں یہ نشہ ان باطنیوں کا ہی تھا سالار اوریزی نے سوچا تھا کہ ان لوگوں کو یہاں نشہ نہ ملا تو یہاں سے بھاگ جائیں گے پھر بھی کسی نہ کسی طریقے سے حشیش وہاں پہنچ ہی جاتی تھی مگر اتنی زیادہ دن ہوگئے تھے الموت سے حشیش نہیں آئی تھی عبید عربی نشے سے ٹوٹا ہوا تھا
دن کے پچھلے پہر جب سورج مغرب کی طرف اتر رہا تھا شافعیہ قلعے کی دیوار پر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی ہر شام اس کی عبید عربی کے ساتھ ملاقات ہوتی تھی شافعیہ گھر سے نکلنے ہی لگی تھی کہ مزمل آگیا اس نے شافعیہ کو بازو سے پکڑا اور اندر شمونہ کے پاس لے گیا
میں تمہیں بہت بری خبر سنانے لگا ہوں شافعیہ! مزمل نے کہا وقتی طور پر تمہیں یہ خبر بری لگے گی لیکن اچھا ہوا کہ ایک بہت بڑے خطرے کا پہلے ہی علم ہو گیا ہے
شمونہ اور شافعیہ کے رنگ اتنی سی بات سے ہی اڑ گئے دونوں خبر سننے کو بے تاب ہو گئیں
خبر یہ تھی کہ تاجروں کا مال اونٹوں سے قلعے کے باہر اترا تھا مال سے مال کے تبادلے وہی ہوا کرتے تھے جس روز تاجروں کا مال آتا تھا اس روز وہاں بہت ہی رونق اور لوگوں کا جمگھٹا ہوتا تھا ویسے بھی وہاں منڈی لگتی تھی لیکن اتنے زیادہ لوگ ہر روز نہیں ہوتے تھے سالار اوریزی کے حکم کے مطابق وہاں کچھ لوگ گھومتے رہتے اور دیکھتے پھرتے کہ کون کیا لایا ہے اور یہاں کون کیا خرید کر قلعے کے اندر لے جا رہا ہے
ایک مخبر نے ایک آدمی کو دیکھا جو الگ تھلگ کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا تھا یہ تھیلا اتنا سا ہی تھا کہ چغّے کے اندر چھپایا جا سکتا تھا مخبر نے دیکھا کہ بڑھئی اور عبید عربی اس کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے پھر بڑھئی نے وہ تھیلا اس سے لے لیا اور اپنی چغّے کے اندر کر کے اوپر بازو رکھ دیئے اور ایک طرف چل پڑا عبید عربی بھی اس کے پیچھے گیا
مخبر کو کچھ شک ہوا اس نے ان دونوں آدمیوں کو بتایا جو کسی بھی تاجر کا مال کھول کر دیکھ سکتے تھے یہ دونوں آدمی دوڑتے ہوئے بڑھئی اور عبید عربی کے پیچھے گئے انھیں دیکھ کر وہ دونوں بھی دوڑ پڑے اور ایک دروازے میں داخل ہو گئے یہ قلعے کی ایک طرف کا دروازہ تھا
وہ بھاگ کر جا ہی کہاں سکتے تھے انہیں قلعے کے اندر پکڑ لیا گیا انہیں یہ تھیلا جس آدمی نے دیا تھا وہ پہلے ہی کہیں روپوش ہو گیا تھا اس تھیلے کو کھول کر دیکھا تو اس میں خشک حشیش بھری ہوئی تھی یہ خاصی لمبی مدت استعمال کے لئے کافی تھی بڑھئی اور عبید عربی کو پکڑ کر کوتوال کے پاس لے گئے کوتوال نے دونوں کو قید خانہ میں بھیج دیا
شافعیہ نے جب سنا کہ عبید عربی قید خانے میں بند ہوگیا ہے تو اس کے آنسو بہنے لگے اور وہ مزمل کے پیچھے پڑ گئی کہ وہ اسے قید خانے میں لے چلے وہ عبید عربی سے ملنا چاہتی تھی وہ کہتی تھی کہ عبید عربی ایسا آدمی نہیں شمونہ اور مزمل اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ کسی انسان کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ درپردہ کیا ہے لیکن شافعیہ عبید عربی کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں تھی وہ کہتی تھی عبید ایسا آدمی نہیں اور یہ ضرور کہیں غلط فہمی ہوئی ہے
مزمل نے شافعیہ کی یہ جذباتی حالت دیکھی تو وہ پریشان سا ہو گیا اس نے شافعیہ سے کہا کہ وہ جا کر معلوم کرتا ہے کہ عبید عربی حشیش اپنے پاس رکھنے کا مجرم ہے یا نہیں ہو سکتا ہے اسے معلوم ہی نہ ہو اور یہ حشیش اس کے چچا بڑھائی کے لیے آئی ہو
مزمل آفندی اور بن یونس سالار اوریزی کے خاص آدمی تھے اوریزی نے ان دونوں کو جاسوسی کے محکمے میں باقاعدہ طور پر رکھ لیا تھا لیکن اوریزی کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ بھی ہو گئے تھے قید خانے میں کوئی اور آدمی نہیں جا سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس کے لیے کہیں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی مزمل بن یونس کو ساتھ لے کر قید خانے کے مہتمم سے ملا اور کہا کہ وہ ان دو قیدیوں سے ملنا چاہتا ہے جنہیں گزشتہ روز حشیش کے سلسلے میں گرفتار کر کے یہاں بھیجا گیا تھا
مہتمم نے اسی وقت قیدخانے کے دروغہ کو بلا کر کہا کہ ان دونوں کو ان دو قیدیوں کے پاس لے جائیں جن کے قبضے سے حشیش برآمد ہوئی تھی دروغہ نے ان دونوں کو لے گیا اور دروغہ نے ہی انہیں بتایا کہ بڑھئی کو ایذارسانی والے کمرے میں لے جایا گیا ہے اور اسے بہت ہی اذیتیں دی جا رہی ہیں لیکن وہ بتا نہیں رہا کہ یہ حشیش کہاں سے آئی تھی اس پر شک یہ ہے کہ وہ فدائی ہے اور الموت کا جاسوس بھی ہے عبید عربی کے متعلق دروغہ نے بتایا کہ وہ کوٹھری میں بند ہے اور وہ تو یوں سمجھو کہ پاگل ہو چکا ہے دروغہ نے یہ رائے دی کہ وہ نشے سے ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا ہے اور بھول ہی گیا ہے کہ وہ انسان ہے
بڑھئی کو تو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی مزمل اور بن یونس کوٹری تک گئے جس میں عبید عربی بند تھا اس نے جب مزمل کو دیکھا تو دوڑ کر سلاخوں تک آیا اور سلاخوں کو پکڑ کر جھنجھوڑنے لگا
خدا کے لئے مجھے تھوڑی سی حشیش دے دو عبید عربی نے چلا چلا کر کہا میں مرجاؤں گا مجھے اتنی زیادہ اذیت دے کر نہ مارو مجھے حشیش نہیں دیتے تو مار ڈالو
مزمل نے اسے بتایا کہ حشیش تو قلعے میں بھی داخل نہیں ہوسکتی اسے قید خانے میں حشیش کیسے دی جاسکتی ہے عبید عربی نے یہ سنا تو اس نے سلاخوں کو پکڑ کر زور زور سے اپنا سر سلاخوں کے ساتھ مارا اس کی پیشانی سے خون بہنے لگا دروغہ ساتھ تھا اس نے جب اس قیدی کی یہ حالت دیکھی تو دو تین سنتریوں کو پکارا
تین سنتری دوڑے آئے دروغہ نے انہیں کہا کہ وہ رسیاں لے آئیں اور اس قیدی کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دیں اور ٹانگیں بھی باندھ دیں
وہ طریقہ بڑا ہی ظالمانہ تھا جس سے عبید عربی کے ہاتھ اور پاؤں باندھے گئے مزمل اور بن یونس وہاں سے آگئے عبید عربی کی چیخیں دور تک ان کا تعاقب کرتی رہیں
اسے تھوڑی سی حشیش دے دی جائے تو یہ بتا دے گا کہ حسن بن صباح کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے مزمل نے دروغہ سے کہا صاف پتہ چلتا ہے یہ نشے سے ٹوٹا ہوا ہے
پھر بھی نہیں بتائے گا دروغہ نے کہا ہمیں ان لوگوں کا بہت تجربہ ہے اسے تھوڑی سی بھی حشیش مل گئی تو یہ شیر ہوجائے گا پھر تو یہ بولے گا ہی نہیں
مزمل اور بن یونس قید خانے سے مایوسی کے عالم میں نکل آئے ان دونوں کو اگر کچھ دلچسپی تھی تو وہ شافعیہ کے ساتھ تھی ان دونوں کو تو یقین ہو گیا تھا کہ عبید عربی حشیش کے نشے سے ٹوٹا ہوا ہے اور یہ مشکوک آدمی ہے اب یہ معلوم کرنا تھا کہ اس کا تعلق حسن بن صباح کے ساتھ ہے یا نہیں لیکن شافعیہ نہیں مان رہی تھی ان دونوں نے گھر جاکر شافعیہ کو یقین دلانے کی کوشش کی بھی لیکن وہ نہیں مانتی تھی وہ روتی اور بری طرح تڑپتی تھی کہتی تھی مجھے سالار اوریزی تک لے چلو میں عبید کو قید خانے سے نکلوا لوں گی سالار اوریزی قلعے کا امیر بھی تھا وہ عبید عربی کو چھوڑ سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس ایسی شفارش نہیں کرنا چاہتے تھے وہ جانتے تھے کہ سالار اوریزی باطنیوں کے معاملے میں کس قدر حساس ہے اور انتقام سے بھرا ہوا ہے
اگلے روز شافعیہ کی جذباتی حالت بہت ہی بگڑ گئی اور اس نے رو رو کر برا حال کر لیا اس نے مزمل کو مجبور کر دیا کہ وہ آج بھی قید خانے میں جائے اور عبید عربی کو دیکھ کر آئے اور اسے بتائے کہ وہ کس حال میں ہے
مزمل چلا گیا اور عبید کو دیکھ آیا عبید کی حالت اب یہ تھی کہ اس کے ہاتھ پاؤں تو بندھے ہوئے تھے ماتھے سے خون رس رہا تھا اور وہ ایسی بری طرح چیخ اور چلا رہا تھا جیسے کسی کتے کو باندھ کر مارا پیٹا جارہا ہو
مزمل نے شافعیہ اور شمونہ کو عبید عربی کی یہ حالت بالکل ایسی ہی بتائی جیسی وہ دیکھ کر آیا تھا یہ سن کر شافعیہ کی حالت بھی ویسی ہی ہونے لگی شمونہ عورت تھی شافعیہ کی یہ حالت اسے برداشت نہ ہو سکی اور وہ رونے لگی مزمل نے کہا کہ چلو دونوں سالار اوریزی کے پاس چلتے ہیں
کیا سالار اوریزی اسے چھوڑ دے گا؟
شمونہ نے پوچھا
چھوڑے گا تو نہیں مزمل نے جواب دیا میں سالار اوریزی سے صرف یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ طبیب کو قید خانے میں بھیجے کہ وہ عبید عربی کو دیکھے اور کوشش کرے کہ اس کے ذہن سے نشے کا اثر اتر جائے اور وہ صحیح حالت میں آ جائے پھر اس سے پوچھیں گے کہ حشیش اس کے پاس کہاں سے آئی تھی بس یہی ایک صورت ہے کہ ہم عبید عربی کو بچا سکتے ہیں اگر وہ نہیں بتائے گا تو ہم بھی اس کی کوئی مدد نہیں کریں گے پھر تو ہم یہی سمجھیں گے کہ وہ حسن بن صباح کا آدمی ہے اس صورت میں اگر شافعیہ مر بھی گئی تو ہم پرواہ نہیں کریں گے
اس زمانے میں قیدی کے ساتھ کسی کو ذرا سی بھی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہوا کرتی تھی قید خانے میں قیدی مرتے ہی رہتے تھے قید خانے میں ڈالے جانے کا مطلب ہی یہی ہوتا تھا کہ یہ شخص بڑا خطرناک مجرم ہے اور یہ ذرا سے بھی رحم کا حقدار نہیں
مزمل اور شعمونہ سالار اوریزی کے پاس جا پہنچے انہوں نے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ شافعیہ بھی روتی رہی چلاتی وہاں پہنچ گئی دربان اسے اندر جانے سے روکتا تھا لیکن شافعیہ اسے دھکیلتی اور اس کا منہ نوچتی تھی آخر دربان نے اندر جا کر سالار اوریزی کو بتایا کہ ایک لڑکی باہر یوں واویلا بپا کیے ہوئے ہے اور روکے رکتی نہیں سالار اوریزی نے اسے بھی اندر بلا لیا
سالار اوریزی کو بتایا جا چکا تھا کہ ایک بڑھئی اور اس کا جوان سال بھتیجا حشیش کے ساتھ پکڑے گئے ہیں اور انہیں یہ حشیش باہر کا ایک آدمی دے کر غائب ہو گیا تھا سالار اوریزی نے حکم دے دیا تھا کہ یہ مرتے ہیں تو مر جائیں ان سے پوچھے کہ یہ کون لوگ ہیں ان کا تعلق باطنیوں کے ساتھ ضرور ہوگا اب مزمل اور شمونہ سالار اوریزی کو عبید عربی اور شافعیہ کی ملاقاتوں کا قصہ سنا رہے تھے شافعیہ اندر گئی تو اس نے اپنا واویلا بپا کر دیا وہ کہتی تھی عبید ایسا آدمی نہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے
سالار اوریزی شافعیہ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس لڑکی کے متعلق سب کچھ جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ یہ لڑکی کس طرح اس علاقے میں پہنچی تھی اور اس نے اور کیا کچھ کیا ہے لیکن اوریزی کسی مشکوک آدمی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا شافعیہ کی جذباتی حالت یہ تھی کہ اس نے عبید عربی کی رہائی کے خاطر آگے بڑھ کر اور اس کے پاؤں پکڑ لیے وہ کہتی تھی کہ اسے قید خانے میں جانے دیا جائے وہ عبید سے صحیح بات پوچھ لے گی اور وہ اسے بتا بھی دے گا
سالار اوریزی نے حکم دیا کے طبیب کو قید خانے میں بھیجا جائے کہ وہ عبید عربی کی مرہم پٹی کرے اور اگر کوئی دوائی کارگر ہو سکتی ہے تو وہ بھی دے اور شافعیہ کو بھی قید خانے میں جانے دیا جائے کہ یہ عبید کی حالت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے
طبیب اور شافعیہ قید خانے میں گئے مزمل اور شمونہ ان کے ساتھ تھے قید خانے کے دو سپاہی بھی ان کے ساتھ ہو لئے تاکہ عبید عربی کو قابو میں رکھا جائے
عبید کی حالت پہلے سے زیادہ بری اور قابل رحم ہو چکی تھی اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور وہ فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اور اس کے حلق سے بڑی ڈراؤنی آوازیں نکل رہی تھیں ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر سلاخوں والا دروازہ کھول دیا
شافعیہ دوڑ کر اندر چلی گئی کوٹھڑی میں ناقابل برداشت بدبو تھی عبید نے شافعیہ کو دیکھا تو رو رو کر اس کی منتیں کرنے لگا کہ انہیں کہو اسے کھول دیں اس نے چیخنا چلانا بند کر دیا وہ اب شافعیہ شافعیہ ہی کہے جا رہا تھا اس کے ماتھے سے خون بہہ بہہ کر اس کے چہرے پر جم گیا تھا شافعیہ نے فرش پر بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اسے اس طرح تسلی دلاسے دینے لگی جیسے ماں دودھ پیتے بچے کے ساتھ پیار کیا کرتی ہے
شافعیہ شافعیہ عبید عربی ہناپتی آواز میں کہہ رہا تھا مجھے پاگل ہونے سے بچا لو ان لوگوں سے مجھ بچالو اپنی پناہ میں لے لو مجھے شافعیہ! شافعیہ
طبیب عبید کی مرہم پٹی کرنا چاہتا تھا اور اسے کوئی دوائی بھی دے دی تھی لیکن شافعیہ کی وارفتگی اور دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے عبید کو اپنی گود میں اور زیادہ گھسیٹ لیا اور اپنا ایک گال اس کے چہرے پر رکھ دیا شافعیہ تو شاید بھول ہی گئی تھی کہ وہاں اس کے اور عبید کے سوا کوئی اور بھی موجود ہے
تم میری پناہ میں ہوں عبید! شافعیہ نے اس کے ساتھ پیار کرتے ہوئے کہا ہم دونوں اللہ کی پناہ میں ہیں تم پاگل نہیں ہوں گے اور یہ لوگ جو یہاں موجود ہیں تمہارے ہمدرد اور اور غمخوار ہیں زخم کی مرہم پٹی کرا لو پھر میں تمہارے پاس بیٹھو گی
نہیں! عبید عربی نے شافعیہ کا ایک بازو دونوں ہاتھ میں بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور بولا تم چلی جاؤ گی مجھے ان لوگوں کے حوالے کر کے نہ جانا یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے پانی پلاؤ شافعیہ پانی مجھے کچھ چاہئے پتا نہیں کیا چاہیے
شافعیہ نے اسے بٹھا کر اپنے ہاتھوں پانی پلایا پھر اپنے ہاتھوں اس کے چہرے سے خون دھو ڈالا اور پھر طبیب نے اس کی مرہم پٹی کردی اگر شافعیہ اسے مرہم پٹی کروانے کو نہ کہتی تو وہ طبیعت کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیتا عبید عربی کی ذہنی حالت بلکل بگڑ گئی تھی وہ بے معنی سی باتیں بھی کر جاتا تھا اور اس کی بعض باتیں تو تو پلّے ہی نہیں پڑتی تھیں اس کی زبان جیسے اکڑی ہوئی تھی جو صحیح الفاظ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھی
اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا خدا نے آدم کو جنت سے نکال دیا تھا اس نے یہ الفاظ اس طرح کہے تھے جیسے خواب میں بول رہا ہو شافعیہ کے سوا یہ الفاظ کوئی نہ سمجھ اور سن سکا
طبیب نے تھوڑے سے پانی میں ایک دوائی کے چند قطرے ڈال کر شافعیہ کو پیالہ دیا کہ اسے پلا دے شافعیہ کے ہاتھ سے اس نے یہ دوائی پی لی کچھ دیر انتظار کیا گیا تو دیکھا کہ عبید عربی پر خاموشی طاری ہوگئی تھی اور نیند سے اس کا سر ڈولنے لگا تھا یہ دوائی کا اثر تھا
ذرا ہی دیر بعد عبید عربی کی آنکھیں بند ہو گئی اور سر ڈھک گیا اسے فرش پر لیٹا دیا گیا طبیب نے اشارہ کیا کہ سب لوگ یہاں سے نکل چلیں شافعیہ وہاں سے اٹھتی نہیں تھی لیکن طبیب نے اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی سب باہر نکل آئے اور کوٹھڑی کا دروازہ پھر مقفل کر دیا گیا شافعیہ سلاخوں کو پکڑ کر وہیں کھڑے سوئے ہوئے عبید عربی کو دیکھتی رہی شمونہ نے اسے پکڑا اور ساتھ لے آئی یہ سب دروغہ کے ساتھ قید خانے کے دفتر میں جا بیٹھے
میں حیران ہوں محترم طبیب! دروغہ نے کہا کل یہی شخص سلاخوں کے ساتھ اپنا سر پھوڑ رہا تھا اگر ہم اسے باندھ نہ دیتے تو اب تک یہ زندہ نہ ہوتا میں حیران ہوں آج اس لڑکی کو دیکھ کر یہ قیدی آگ سے پانی بن گیا ہے
میں نے اسے بڑی ہی غور سے دیکھا ہے طبیب نے یوں بات کی جیسے قاضی فیصلہ سنا رہا ہو مجھے اس کے کل کے رویے کے متعلق کچھ بتایا دیا گیا تھا میں نے خود دیکھا ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ لگ کر وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا میں نے اسے جو دوائی دی ہے یہ صرف نیند کے لیے ہے میں اسے سلانا چاہتا ہوں تاکہ اس کا تھکا ٹوٹا ہوا ذہن ٹھکانے پر آجائے اسے علاج نہ سمجھا جائے میں نے اس کا علاج دیکھ لیا ہے یہ علاج صرف شافعیہ کے پاس ہے شافعیہ اس کے پاس آتی رہے تو یہ اپنی صحیح ذہنی حالت پر آ جائے گا یہ نشے سے ٹوٹا ہوا ہے اور خطرہ ہے کہ یہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے گا
طبیب نے تشخیص کرکے کچھ ہدایات دی اور زور دے کر کہا کہ اس قیدی کو شافعیہ کے ساتھ کچھ دن رکھا جائے یہ اپنے دل کی ڈھکی چھپی باتیں بھی شافعیہ کے آگے اُگل دے گا
قید خانے سے نکل کر یہ سب لوگ سالار اوریزی کے پاس گئے طبیب نے سالار اوریزی کو عبید عربی کے متعلق رپورٹ دی اور اسے بھی کہا کہ عبید کا علاج شافعیہ ہے
سالار محترم! شافعیہ نے کہا اگر آپ مجھے عبید کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیں تو کیا میں اس کے ساتھ قید خانے کی کوٹھری میں رہوں گی؟
میں اس کے ساتھ وہاں بھی رہنے کو تیار ہوں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے کسی اچھی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں میں اس کے ساتھ دلجمعی کے ساتھ رہ سکوں؟
میں پہلے جو بات نہیں مانتی تھی وہ اب مان لی ہے عبید نشے سے ٹوٹا ہوا ہے مجھے اس سے پہلے کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا کہ یہ کوئی نشہ کرتا ہے اگر آپ اس سے کچھ اور پوچھنا چاہتے ہیں تو وہ میں پوچھ لوں گی مجھے پورا یقین ہے کہ یہ باطنی نہیں
جذبات سے نکلو شافعیہ! سالار اوریزی نے کہا مجھے اب یقین ہونے لگا ہے کہ عبید اور یہ بڑھئی حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہیں مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ عبید تمہیں محبت کا دھوکا دے رہا ہے اور یہ لوگ تمہیں یہاں سے اڑا لے جائیں گے اور قلعہ الموت میں حسن بن صباح کے حوالے کر دیں گے یہ لوگ اتنے پکے ہوتے ہیں کہ بڑھئی نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا حالانکہ اسے ایسی اذیتیں دی گئیں ہیں جو ایک تندرست گھوڑا بھی شاید برداشت نہ کرسکے عبید ابھی کچا معلوم ہوتا ہے
شافعیہ نے سالار اوریزی کو کہا تھا کہ عبید کو کسی اچھی جگہ منتقل کر دیا جائے تو وہ اس سے اگلوا لے گی کہ وہ اصل میں کیا ہے کہاں سے آیا ہے اور کس ارادے سے آیا ہے اور اس بڑھئی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے سالار اوریزی کو تو اصل راز کی ضرورت تھی کسی کو اذیت میں ڈالنا ضروری نہیں تھا اس نے حکم دے دیا کہ عبید عربی کو کسی اچھی جگہ منتقل کردیا جائے یہ جگہ قید خانے کے باہر بھی ہوسکتی ہے اور وہاں پہرا کھڑا کر دیا جائے یعنی عبید کو قیدی قرار دے کر رکھا جائے اور شافعیہ جس وقت چاہے اور جتنی دیر تک چاہے اس کے پاس رہ سکتی ہے
عبید عربی کو اسی دن قلعے میں ایک کمرہ تیار کرکے بھیج دیا گیا اور باہر دو سپاہی پہرے پر کھڑے کر دیے گئے اس کمرے میں بڑا اچھا پلنگ اور نرم بستر تھا اور ضرورت کی دوسری چیزیں بھی وہاں موجود تھیں ایک ملازم بھی وہاں بھیج دیا گیا
اس رات شافعیہ عبید عربی کے کمرے میں آئی اور اس نے دیکھا کہ بہت دیر سوکر وہ کچھ سکون میں آگیا تھا اسے دراصل یہ تھوڑا سا سکون اس لیے ملا تھا کہ اسے قید خانے سے نکال دیا گیا تھا اور شافعیہ اس کے پاس تھی ویسے وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں لگتا تھا
شافعیہ اس کے پاس پلنگ پر اسی طرح بیٹھی جس طرح وہ سبزیوں کے باغ میں بیلوں اور پودوں کی اوٹ میں بیٹھا کرتے تھے اب اس کمرے میں جس کا دروازہ بند تھا اور کسی کے آنے کا خطرہ نہیں تھا شافعیہ نے اور زیادہ جذباتی مظاہرے کیے جن میں بناوٹ نہیں بلکہ اس کی روح شامل تھی عبید اس کے ساتھ اس طرح لگ کر بیٹھ گیا تھا جس طرح ڈرا سہما ہوا بچہ ماں کی آغوش کی پناہ میں جا دبکتا ہے اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ عبید عربی حشیش کے نشے سے ٹوٹا ہوا تھا جن فدائیوں کو باہر قتل یا کسی دوسری واردات کے لیے بھیجا جاتا تھا انہیں حشیش ملتی رہتی تھی اور وہ جیسا نشہ بھی طلب کرتے انہیں مل جاتا تھا لیکن وسم کوہ میں جیسا کہ سنایا جاچکا ہے سالار اوریزی نے حشیش اور دوسری منشی اشیاء کی بھی بندش لگا رکھی تھی
حشیش نہ ملنے کے اثرات تو دماغ پر بہت ہی برے ہوتے تھے لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ ایسا آدمی جو نشے سے ٹوٹا ہوا ہوتا تھا محض نشے کی خاطر راز اگل دیتا تھا عبید کو پاگل ہو جانا چاہیے تھا لیکن شافعیہ ایک ایسا نشہ تھا جس نے عبید کے دماغ سے حشیش نہ ملنے کے اثرات زائل کرنے شروع کر دیے
اس کے ساتھ طبیب کی دوائی کے اثرات بھی تھے طبیب اپنی دوائی کی خوراک کم کرتا جا رہا تھا اس سے عبید کو نیند کم آنے لگی تھی مختصر یہ کے شافعیہ کے والہانہ پیار نے اور طبیب کی دوائی نے عبید کو نشے کی طلب کی اذیت سے نکال لیا ایک روز شافعیہ پیار ہی پیار میں اسے اس بات پر لے آئی کہ وہ اپنا آپ بے نقاب کر دے
عبید عربی تو جیسے اسی انتظار میں تھا کہ شافعیہ اس سے یہ بات پوچھے اس نے بڑی لمبی کہانی شروع کر دی اس نے شافعیہ کو سنایا کہ جب شافعیہ اصفہان سے اپنے چچا ابو جندل کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی تو تھوڑا ہی عرصے بعد عبید اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک قافلے میں کہیں جا رہا تھا اس کا باپ تاجر تھا اور مال بیچنے اور خریدنے کے لئے جا رہا تھا پہلی بار وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا اس وقت عبید کا نام ناصر تھا اور یہی وہ نام تھا جو اس کے ماں باپ نے رکھا تھا
راستے میں قافلے پر لٹیروں نے حملہ کردیا عبید عربی نے سنایا کہ لٹیروں نے جہاں سب کچھ لوٹ لیا وہاں یہ ظلم بھی کیا کہ خوبصورت بچیوں اور جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے گئے اور ایک لٹیرے نے اسے بھی اٹھا لیا اسے ابھی تک یاد تھا کہ اس لٹیرے نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ بڑا ہی خوبصورت بچہ ہے اس وقت اس کی عمر بارہ تیرہ سال تھی عبید نے سنایا کہ اس کی ماں بھی اور اس کا باپ بھی لٹیرے کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے اس نے اپنے ماں باپ کو قتل ہوتے دیکھا تھا وہ تو رو رو کے بے ہوش ہو گیا تھا
لٹیروں نے اسے شاہ در پہنچا دیا شاہ در میں اس کی تربیت ہونے لگی اور وہ بڑا ہونے لگا جب اس کی عمر انیس بیس سال ھو گئی تو اسے قلعہ الموت بھیج دیا گیا وہاں اسے حسن بن صباح کو پیش کیا گیا جس نے اسے جنت میں داخل کر لیا اسے دوسروں کی طرح حشیش پلائی جاتی تھی اور وہاں بڑی خوبصورت لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ وہ رہتا اور عیش و تفریح کرتا تھا
اسے وہاں ہر عیش اور موج حاصل تھی لیکن پیار کہیں بھی نہیں تھا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ شیخ الجبل ایک دن اسے بلائے گا اور کہے گا کہ اپنا خنجر نکالو اور اپنے آپ کو قتل کر لو یہ مظاہرہ اس کے سامنے چند مرتبہ ہوا تھا اور ہر بار ایک فدائی اپنی ہی ہاتھوں ہلاک ہو جاتا تھا
عبید عربی کی شخصیت ہی بدل گئی اور وہ اس ذہنی مقام تک پہنچ گیا جہاں وہ خود چاہنے لگا کے شیخ الجبل اسے حکم دے کہ اپنا پیٹ چاک کر دو تو وہ اسے اپنا پیٹ چاک کرکے دیکھا دے پھر بھی پیار کی تشنگی پوری طرح ختم نہ ہوئی حسن بن صباح کی جنت میں ایک سے ایک حسین اور نوجوان لڑکی تھی لیکن وہ سب خوبصورت اور پرکشش جسم تھے ان کے اندر جیسے دل تھا ہی نہیں اور روح بھی نہیں تھی
آخر ایک روز اسے شیخ الجبل امام حسن بن صباح نے بلایا اور کہا کہ تم وسم کوہ جاؤ گے اور وہاں سپہ سالار اوریزی کو قتل کرنا ہے اور پھر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا بلکہ وہاں اپنے آپ کو اسی خنجر سے ہلاک کر لینا
وہ یہاں آیا یہ بڑھئی اس کا چچا بالکل نہیں لگتا بلکہ یہ اسی کام کے لئے یہاں موجود ہے کہ کوئی فدائی آئے تو اسے پناہ دی جائے اور یہاں کی خبریں الموت بھیجی جائیں اس نے سبزیوں کے باغ کے مالک کا نام بھی لیا اور کہا کہ وہ بھی حسن بن صباح کا آدمی ہے
عبید نے بتایا کہ وہ ابھی دیکھ رہا تھا کہ سالار اوریزی کو کس طرح اور کہاں قتل کیا جا سکتا ہے کہ اتنے میں اسے شافعیہ مل گئی اور شافعیہ سے اسے وہ پیار مل گیا جس کے لیے وہ مرا جا رہا تھا
بڑھئ اور سبزی والے کے پاس حشیش ختم ہوگئی انہوں نے عبید کو دوسرے نشے پلائے لیکن وہ حشیش ہی طلب کرتا تھا حشیش آئی اور پکڑی گئی اس سے جو حالت اس کی ہوئی وہ پہلے سنائی جا چکی ہے اس نے حیرت کا اظہار کیا کہ حشیش کے نشے سے وہ اس حد تک ٹوٹ گیا تھا کہ اس نے اپنا سر پھوڑ لیا تھا لیکن اس نے قید خانے میں شافعیہ کو دیکھا تو اسے ٹوٹنے کے اثرات کم ہو گئے دراصل پیار کی اثرات زیادہ زہریلے تھے شافعیہ نے والہانہ محبت کا مظاہرہ یہ کیا کہ اسے قید خانے سے نکلوا لیا اور اس کمرے میں لے آئی مختصر یہ کہ یہ حشیش پر شافعیہ کی والہانہ محبت غالب آگئی اور عبید نے اپنا یہ راز اگل کر یوں سکون محسوس کیا جیسے اسکے وجود میں زہر بھرا ہوا تھا اور یہ زہر نکل گیا ہو
میں اس گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں شافعیہ! عبید عربی نے کہا سپہ سالار اوریزی کو یہ ساری بات سنا دو اور اسے کہو کہ مجھے جو سزا دینا چاہے وہ میں ہنسی خوشی قبول کر لوں گا
سالار اوریزی نے اسے کوئی سزا نہ دی بڑھئی اور سبزیوں کے باغ کے مالک کو سر عام سزائے موت دی گئی ان کی لاشیں اور سر شہر سے دور جنگل میں پھینک دیئے گئے
حق و باطل کا تصادم اسی روز شروع ہو گیا تھا جس روز غار حرا سے نور حق کی کرنیں پوٹی تھیں حق و باطل کے لشکروں نے میدانوں اور صحراؤں میں خونریز لڑائیاں لڑیں دشت و جبل میں برسرپیکار ہوئے پہاڑوں دریاؤں اور سمندروں میں ان کے معرکے ہوئے اور ہوتے ہی چلے آ رہے تھے دونوں فریقوں کی فوج کے خون سے صحراؤں کے ریت اور سمندروں کا پانی لال ہو گیا مطلب یہ کہ حق و باطل جب بھی باہم متصادم ہوئے دُوبدو معرکہ آرا ہوئے لیکن حسن بن صباح اٹھا تو اس نے حق کے خلاف ایک ایسی جنگ شروع کردی جس کا حق پرستوں کے یہاں کوئی تصور ہی نہ تھا یہ ایک زمین دوز جنگ تھی یہ ساری داستان جو اب تک میں نے سنائی ہے ایسی ہی انوکھی جنگ کی داستان ہے یہاں اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں
اہلسنت حق پرستوں نے پہلے پہل اسی لیے بہت نقصان اٹھایا کہ وہ اس طریقہ جنگ سے واقف نہ تھے وہ تو مردان حُر تھے جو میدان میں اتر کر لڑا کرتے تھے یہ سنایا جاچکا ہے کہ کتنی اہم شخصیات باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے لیکن اب مسلمان اس طریقہ جنگ کو سمجھ گئے اور انھوں نے باطنیوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا شاہ در کی فتح تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل ثابت ہوئی یہ بھی سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کا قتل بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا مورخین لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح کو کہیں سے بھی اپنے فرقے کے نقصان کی کوئی خبر ملتی تھی تو وہ مسکرا دیا کرتا تھا جیسے اسے اس کی کوئی پرواہ نہ ہو اس کے قلعے لے لیے گئے تو بھی اس نے ہنس کر ٹال دیا مگر اب اس پر سنجیدگی طاری ہو گئی تھی
حسن بن صباح کا پیرومرشد تو مار آ ہی گیا تھا اور حسن بن صباح نے یہ انتہائی کڑوا گھونٹ بھی نگل لیا تھا لیکن عبدالملک اس کے سامنے ایک اور مسئلہ رکھ گیا تھا وہ یہ کہ اس نے قلعہ ناظروطبس میں حسن بن صباح سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اس نے شاہ در سے کچھ دور اچھا خاصا خزانہ چھپا کر رکھا ہوا ہے جسے وہ بوقت ضرورت استعمال کرے گا اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے علاوہ صرف دو آدمی ہیں جو جانتے ہیں کہ یہ خزانہ کہاں ہے
عبدالملک نے یہ بات کیوں کی تھی جیسے اسے یقین تھا کہ اس نے تو مرنا ہے ہی نہیں وہ یہ خزانہ پیچھے چھوڑ کر دنیا سے اٹھ گیا یا اٹھا دیا گیا اس نے حسن بن صباح کو یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ خزانہ کہاں ہے یہی بتایا تھا کہ دو آدمی جانتے ہیں لیکن اس نے ان دو آدمیوں کے نام نہیں بتائے تھے نہ یہ بتایا کہ وہ کہاں ہے حسن بن صباح کو تو خزانے کی ضرورت ہر وقت رہتی تھی ضرورت نہ بھی ہوتی تو بھی اس کی فطرت خزانوں کی متلاشی رہتی تھی وہ اب اس سوچ میں گم رہنے لگا کہ اپنے پیر و مرشد کا یہ خزانہ کس طرح ڈھونڈے اور وہ جانتا تھا کہ جب تک ان دو آدمیوں کا اتا پتہ نہ ملے خزانہ نہیں مل سکے گا
عبدالملک حسن بن صباح کے آگے ایک اور مسئلہ رکھ گیا تھا اس نے کہا تھا کہ ہم لوگ چوری چھپے قتل کرانا جانتے ہیں اور ہمارے پاس ایسے فدائی موجود ہیں جو قتل کر کے خودکشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے قاتل فوجوں کی یلغار کو نہیں روک سکتے نہ ہی وہ محاصرے کو توڑتے ہیں اس کے لیے باقاعدہ فوج کی ضرورت ہے اور اس فوج کو محاصرہ توڑنے کی اور محاصرہ کرنے کی اور میدان میں لڑنے کی تربیت دی جائے اس نے حسن بن صباح سے یہ بھی کہا تھا کہ جن سلجوقیوں شاہ در لے لیا ہے وہ اب سیدھے الموت پر آئیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہ الموت کو بھی فتح کر لیں حسن بن صباح نے اس تجویز پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا تھا اس نے اپنے مشیروں کو بتا دیا تھا کہ وہ ایک لشکر تیار کر لیں اور پھر اس کی تربیت کا بندوبست کیا جائے
جس طرح اللہ تبارک و تعالی نے کفار کو شکست دینے کے لیے ابابیلیں بھیجی تھیں جن کی چوچوں میں کنکریاں تھیں اسی طرح حسن بن صباح کے فرقے کے خاتمے کے لئے خداوند تعالی نے کنکریاں والی ابابیلوں کا ہی بندوبست کردیا یہ اللہ کی مدد کی تھی اور اللہ حق پرستوں کو کچھ عرصہ آزمائش میں ڈال کر ان کی مدد کا بندوبست کر ہی دیا کرتا ہے ورنہ شافعیہ جیسی حسین و جمیل اور مصیبت زدہ لڑکی ایسے باطنیوں کی ہلاکت کا باعث نہ بنتی جو سالار اوریزی کو قتل کرنے آئے تھے اور وسم کوہ میں رہ کر نہ جانے اور کتنی اور کیسی تباہی لاتے ایسا دوسرا کردار جو تاریخ کے اس باب میں ابھرا وہ نور تھی اور اس کے ساتھ اس کا باپ تھا
شافعیہ کی طرح نور بھی حسین و جمیل اور جوان سال لڑکی تھی اس کی داستان سنائی جا چکی ہے یہ کہنا غلط نہیں کہ شاہ در کی فتح کا باعث اس کا باپ بنا تھا اور وہ خود بھی اب وہ مرو میں سلطان کے محل میں تھی سلطان محمد نے اسے اور اس کے باپ کو خاصا انعام و اکرام دیا تھا اور دونوں کو محل میں رہنے کے لیے جگہ دے دی تھی
نور اب آزاد تھی حسین بھی تھی جوان بھی تھی اسے اب زندگی سے لطف اٹھانا چاہیے تھا اور یہ اس کا حق بھی تھا اس پر جو گزری تھی وہ بڑا ہی دردناک حادثہ تھا اسے ایک بوڑھے نے زبردستی اپنی بیوی بنا لیا تھا لیکن اس کی حیثیت ایک زرخرید لونڈی جیسی تھی وہ تو جہنم سے نکل کر جنت میں آئی تھی اب اس پر کوئی پابندی نہیں تھی وہ اپنی پسند کا کوئی آدمی دیکھ کر اس کے ساتھ شادی کر سکتی تھی ایک سے بڑھ کر ایک امیر زادہ اس کی راہ میں آنکھیں بچھانے کو بیتاب تھا لیکن اس کی اپنی بے تابیاں کچھ اور ہی نوعیت کی تھی اس کے اندر انتقام کی آگ جل رہی تھی بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ کسی سوچ میں کھو جاتی اور اچانک پھٹ پڑتی اور باپ سے کہتی تھی کہ وہ کچھ کرنا چاہتی ہے وہ اس پر مطمئن نہیں تھی کہ اس کا خاوند سزائے موت پا گیا ہے اور عبدالملک بن عطاش بھی جہنم واصل ہو چکا ہے اور ان کا انتہائی مضبوط اڈہ جسے شاہ در کہتے تھے حق پرستوں کے قبضے میں آگیا ہے انتقام کا جذبہ اسے بحال کئے جا رہا تھا
باپ اسے ٹھنڈا کرانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ اب اس کی شادی کسی موزوں آدمی کے ساتھ ہو جائے اور وہ اپنے اس فرض سے سبکدوش ہوکر باقی عمر اللہ اللہ کرتے گزارے نور کہتی تھی کہ شادی تو اسے کرنی ہی ہے لیکن وہ باطنیوں کے خلاف کچھ کیے بغیر کسی کی بیوی بننا پسند نہیں کرتی
ایسی ہی باتیں کرتے کرتے ایک روز نور نے باپ سے کہا کہ وہ شاہ در جا کر آباد ہو جائیں اور شاید اسے چین آ جائے اس کا یہ خیال اچھا تھا جس شاہ در میں وہ زرخرید بیوی یا لونڈی تھی اس شاہ در میں جاکر وہ آزادی سے گھومنا پھیرنا چاہتی تھی اس کے باپ نے اپنی کوئی رائے ضرور دی ہوگی لیکن نور فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ باپ کو ساتھ لے کر شاہ در چلی جائے گی اور باقی عمر وہیں گزارے گی ایک روز اس نے اپنے باپ کو مجبور کر دیا کہ وہ سلطان کے پاس جائے اور اسے کہے کہ وہ انہیں شاہ در پہنچانے کا بندوبست کر دے اور وہاں ان کا کوئی ذریعہ معاش بھی ہو جائے تو وہ باقی عمر وہیں گزاریں گے
اس کا باپ سلطان محمد کے پاس گیا اور عرض کی کہ وہ اسی طرح سلطان کے محل میں سرکاری ٹکڑوں پر زندہ نہیں رہنا چاہتے کیونکہ یہ ان کے وقار کے خلاف ہے باپ نے کہا کہ وہ کوئی ایسا بوڑھا تو نہیں ہوگیا کہ اپنے ہاتھوں کچھ کما نہ سکے وہ شاہ در کو ہی موزوں سمجھتا ہے جہاں وہ اپنی روزی خود کمائے گا
سلطان محمد نے اسی وقت حکم دے دیا کہ نور اور اس کے باپ کو شاہ در پہنچا دیا جائے اور سنجر کو یہ پیغام دیا جائے کہ اس باپ بیٹی کو اتنی زمین دے دی جائے جو انہیں باعزت روٹی بھی دے اور معاشرے پر وقار مقام بھی بن جائے اس طرح کچھ دنوں بعد نور اور اس کا باپ شاہ در پہنچ گئے انہیں سرکاری انتظامات کے تحت گھوڑا گاڑی میں وہاں تک پہنچایا گیا تھا سنجر کو سلطان کا حکم دیا گیا کہ انہیں زمین اور مکان فوراً دے دیا جائے سنجر تو ان پر بہت ہی خوش تھا نور باپ نے جو کارنامہ کر دکھایا تھا اس کی قیمت تو دی ہی نہیں جا سکتی تھی سنجر نے انہیں ایک تو بڑا ہی اچھا مکان دے دیا اور پھر قلعے کے باہر اچھی خاصی زرخیز زمین بھی دے دی کچھ مالی امداد بھی دی تھی تاکہ یہ اپنی زمین کی کاشت شروع کر سکیں
باپ بیٹی اس مکان میں آباد ہو گئے اور پھر باپ نے ایسے نوکروں کا انتظام کرلیا جن کا پیشہ کاشتکاری تھا
نور اس محل میں گئی جہاں عبدالمالک اور اس کا بھائی احمد شہنشاہوں کی طرح رہتے تھے وہ جب اس محل میں داخل ہوئی تو اس کا دم گھٹنے لگا وہ یوں محسوس کرنے لگی جیسے اس کا خاوند یہیں ہے اور جونہی وہ اندر داخل ہوئی خاوند اسے دبوچ لے گا لیکن جب وہ اس محل میں داخل ہوئی تو سنجر کی دونوں بیویوں نے اس کا استقبال بڑے ہی پیار اور خلوص کے ساتھ کیا وہ جانتی تھیں کہ اس لڑکی اور اس کے باپ نے شاہ در کی فتح میں کیا کردار ادا کیا ہے نور نے وہ کمرہ دیکھا جس میں وہ اپنے بوڑھے خاوند کے ساتھ راتیں بسر کرتی تھی اب اس کمرے میں کوئی پلنگ نہیں تھا نہ اس وقت کی کوئی چیز موجود تھی وہاں سنجر کے تین بچے اتالیق سے دینی تعلیم لے رہے تھے نور کو روحانی تسکین ہوئی اس کی ذات میں انتقام کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ کچھ سرد ہو گئی
اس کا باپ علی الصبح اپنی زمین پر چلا جاتا اور نوکروں سے کام کروایا کرتا تھا انہیں کچھ کھیتیاں تو ایسی مل گئی تھیں جن میں فصل پک رہی تھی نور اپنے لیے اور باپ کے لیے کھانا تیار کرکے وہی کھیتوں میں لے جایا کرتی تھی باپ اسے کہتا تھا کہ کھانا نوکر لے آیا کرے گا لیکن نور آزاد گھومنا پھرنا چاہتی تھی اور اسے یہ کھیت جو قلعے کے باہر تھے بڑے ہی اچھے لگتے تھے یہ اس کی نئی زندگی کا آغاز تھا
ایک روز دوپہر کے وقت باپ کے ساتھ کھانا کھا کر نور کھیتوں کی طرف نکل گئی فصل کی ہریالی سمندر کی لہروں جیسی لگتی تھی ہوا کے جھونکوں سے لہلہاتے کھیت اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری کرنے لگے وہ دو کھیتوں کے درمیان آہستہ آہستہ چلی جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک جوان سال آدمی آتا نظر آیا اس شخص کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر لگتی تھی بڑا ہی خوبرو جوان تھا دور سے ہی نور کو اس کا چہرہ شناس اور مانوس سا لگا وہ آدمی بھی نور کو دیکھ کر کچھ ٹھٹھک سا گیا اور پھر اس نے اپنے قدم تیز کر لئے اسے بھی نور کا چہرہ ایسا لگا جیسے یہ چہرہ اس نے کئی بار دیکھا ہوگا وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے اور پھر دونوں کے قدم تیز ہو گئے اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے رک گئے اللہ کرے وہ خبر غلط ہو جو میں نے سنی ہے اس آدمی نے کہا سنا تھا آپ بیوہ ہو گئی ہیں اور عبدالملک بن عطاش بھی قتل کر دیا گیا ہے اور تم نے جو سنا ہے وہ ٹھیک سنا ہے نور نے مسکرا کر کہا اب یہ نہ کہنا کہ تمہیں یہ خبر سن کر دلی رنج ہوا ہے مجھے ذرا سا بھی رنج اور ملال نہیں ہوا اور میں اب آزاد اور خوش ہوں مجھے تمہارا نام یاد ہے حاذق ہے نا تمہارا نام؟
اب مجھے آپ نہ کہنا میں تم سے تین چار برس چھوٹی ہوں اور مجھے تم کہو تو زیادہ اچھا لگے گا
اس آدمی کا نام حاذق ہی تھا وہ شاہ در کا ہی رہنے والا تھا نور کو تو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ شخص کیا کام کرتا ہے وہ اتنا ہی جانتی تھی کہ شاہ در کے محاصرے سے پہلے اونچی حیثیت کا آدمی تھا تیسرے چوتھے روز عبدالملک سے ملنے آیا کرتا تھا نور کے خاوند سے بھی بڑے پیار اور دوستانہ انداز سے ملا کرتا تھا اور خاصا وقت ان کے پاس اندرونی کمرے میں بیٹھا رہتا تھا اس محل میں حاذق کو خصوصی احترام حاصل تھا کبھی نور سے اس کا آمنا سامنا ہو جاتا تو نور کو وہ مسکرا کر اور بڑے ادب و احترام سے سلام کیا کرتا تھا
نور کو یہ شخص دلی طور پر اچھا لگتا تھا لیکن اس کے ساتھ اس سے بات کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا صرف مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا تھا اونچی حیثیت کا ہونے کے علاوہ یہ شخص خوبرو تھا دراز قد تھا اور قد کاٹھ میں اتنی جاذبیت تھی کہ عورتیں اسے رک کر دیکھتی تھیں تب نور کے دل میں ایک خواہش سر اٹھانے لگی کہ اس شخص کو کسی دن روک لے اور اپنے کمرے میں بٹھائے اور اس کے ساتھ باتیں کرے یہ ضروری نہیں تھا کہ حاذق اسے بہت ہی اچھا لگتا تھا یہ دراصل اس کا نفسیاتی اور جذباتی معاملہ تھا وہ حاذق کو اپنے بوڑھے خاوند کے مقابلے میں دیکھتی تھی باہر کا کوئی اور آدمی تو اس محل میں جا ہی نہیں سکتا تھا یہ واحد آدمی تھا جو وہاں جاتا تھا اور اسے محل میں خصوصی پوزیشن حاصل تھی دوسری بات یہ تھی کہ نور کے دل میں اپنے خاوند کے خلاف انتقامی جذبہ بھی پرورش پا رہا تھا نور حاذق کو دیکھ کر مسکرا اٹھتی تھی اس مسکراہٹ میں صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافر کی پیاس تھی اور اس مسکراہٹ میں پنجرے میں بند پنچھی کی تڑپ تھی اس کو اس بے ساختہ مسکراہٹ میں بیڑیوں میں جکڑی ہوئی لونڈی کی آہیں اور فریادیں تھیں نور پر پابندیاں ایسی لگی ہوئی تھیں کہ وہ حاذق کو روک نہیں سکتی تھی لیکن اس کی مسکراہٹوں کو تو بیڑیاں نہیں ڈالی جاسکتی تھیں حاذق اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا تو اس کا دل ڈوبنے لگتا تھا
اب وہ حاذق اس کے سامنے کھیتوں میں کھڑا تھا نور نے پہلے تو کچھ یوں محسوس کیا جیسے وہ حاذق کو خواب میں دیکھ رہی ہو یا یہ اس کا تصور ہو لیکن جب باتیں ہوئیں تو حاذق اس کے سامنے حقیقی روپ میں آ گیا اب نور آزاد تھی شاید اسی لیے وہ پہلے سے زیادہ حسین لگتی تھی اس کے چہرے پر اداسی اور مظلومیت کے تاثرات نہیں تھے جو اس کے چہرے پر چپکے رہ گئے تھے اس کی بیڑیاں ٹوٹ چکی تھیں شاہ در کی دنیا ہی بدل گئی تھی عبدالملک کا محل تو وہی تھا لیکن اب اس میں وہ نحوست اور ابلیسیت نہیں تھی اب نور کے اور حاذق کے درمیان کچھ بھی کوئی بھی انسان حائل نہیں ہو سکتا تھا
میرا خیال تھا تم یہاں نہیں ہو گے نور نے حاذق سے کہا اور بے اختیار اسکا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا
مجھے جانا ہی کہا تھا حاذق نے نور کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا یہ لوگ حسن بن صباح کے فرقے کے تھے اور میں اہل سنت ہوں اور پکا مومن ہوں میں نے تو اللہ کا شکر ادا کیا ہے کہ ان کا تختہ الٹ گیا ہے اور اسلام ایک بار پھر شاہ در میں داخل ہوگیا ہے
کیا تم شہر میں رہتے ہو؟
نور نے پوچھا
نہیں! حاذق اپنے ایک گاؤں کی طرف اشارہ کر کے کہا میں اس گاؤں میں رہتا ہوں اکیلا ہی رہتا ہوں
اکیلا کیوں؟
نور نے پوچھا
بیوی دھوکا دی گئی ہے حاذق نے جواب دیا الموت بھاگ گئی ہے وہ باطنیوں کے جال میں آ گئی تھی یہ مجھے بعد میں پتہ چلا مجھے اس کا کوئی غم نہیں وہ ایک ابلیس کی مرید تھی اچھا ہوا اسی کے پاس چلی گئی ہے اور میں دھوکے اور فریب سے محفوظ ہو گیا ہوں
نور نے حاذق کو بتایا کہ یہ اتنی زیادہ زمین اور کھیتیاں اسے اور اس کے باپ کو سلطان نے عطا کی ہیں اور شہر میں بڑا ہی اچھا اور کشادہ مکان بھی دیا ہے
حاذق نے اسے بتایا کہ اس کے آگے گاؤں کے ارد گرد تمام کھیتیاں اس کی ہیں اور ان کھیتوں نے اسے اچھی خاصی دولت دی ہے اور شہر میں عزت بھی دی ہے
آؤ میں تمہیں اپنے باپ سے ملواؤں نور نے کہا اور حاذق کا بازو پکڑ کر اس کی طرف چل پڑی جہاں اس کا باپ کام کروا رہا تھا
نور کے باپ نے دیکھا کہ اس کی بیٹی ایک آدمی کو اپنے ساتھ لا رہی ہے تو وہ اس کی طرف چل پڑا ذرا قریب گیا تو اس کے قدم رکنے لگے کیونکہ وہ حاذق کو پہچانتا ہی نہیں بلکہ جانتا بھی تھا نور کا باپ عبدالملک کا قابل اعتماد خادم بنا ہوا تھا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:47 }
نور کے باپ نے دیکھا کہ اس کی بیٹی ایک آدمی کو اپنے ساتھ لا رہی ہے تو وہ اس کی طرف چل پڑا ذرا قریب گیا تو اس کے قدم رکنے لگے کیونکہ وہ حاذق کو پہچانتا ہی نہیں بلکہ جانتا بھی تھا نور کا باپ عبدالملک کا قابل اعتماد خادم بنا ہوا تھا کئی بار حاذق عبدالملک کے پاس نور کے باپ کی موجودگی میں آیا اور ان کی باتیں نور کے باپ نے بھی سنیں اس کی نگاہ میں حاذق باطنی تھا اور عبدالملک کا بڑا ہی پکا اور برخودار مرید تھا اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ حاذق حسن بن صباح کے فرقے کا خاص آدمی تھا
حاذق نے آگے بڑھ کر نور کے باپ سے مصافحہ کیا اور پھر اس کے ساتھ بغلگیر ہو گیا لیکن جس وارفتگی کا مظاہرہ اس نے کیا تھا اتنی ہی سرد مہری کا مظاہرہ نور کے باپ نے کیا میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم باطنی نہیں ہو؟
نور کے باپ نے پوچھا
کیا یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ ہے حاذق نے جاں فضا مسکراہٹ سے جواب دیا میرا یہاں موجود ہونا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ میں پکا مسلمان ہوں اور ان باطنیوں کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں میں نور کو بتا چکا ہوں کہ میری بیوی باطنی تھی اور وہ مجھے دھوکا دے کر بھاگ گئی ہے میں پہلے ہی جان نہ سکا کہ وہ ان شیطانوں کے چنگل میں آئی ہوئی ہے آپ نے مجھ پر بجا طور پر شک کیا ہے عبدالمالک اور اس کے بھائی اور بیٹے کو میں نے اپنا دوست بنا رکھا تھا یہ محض ایک فریب تھا وہ دیکھیں میری کھیتیاں کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں اگر میں ان لوگوں کے ساتھ بگاڑ کر رکھتا تو وہ مجھے قتل کر کے میری اتنی وسیع و عریض جائیداد پر قبضہ کر لیتے میں اپنی اس جائیداد کو اور اپنی حیثیت کو بچانے کی خاطر ان کے سامنے باطنی بنا رہا اور گھر میں باقاعدہ صوم و صلاۃ کی پابندی کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ میں سر اونچا کرکے اور سینہ تان کر اس شہر میں گھومتا پھرتا ہوں اگر میں باطنی ہوتا تو میں پہلی صف کا باطنی ہوتا میری کاروائیاں بڑی ہی تباہ کن ہوتیں لیکن یہاں مجھے جاننے والے جو لوگ ہیں ان سے پوچھو وہ تمہیں بتائیں گے کہ میں نے کوئی ایسی حرکت یا کوئی ایسی بات کی ہو عبدالملک بڑا استاد بنا پھرتا تھا لیکن میں اسے بے وقوف بناتا رہا اور اسے اپنی مٹھی میں بند رکھا اس کے قتل کی خوشی جتنی مجھے ہوئی ہے وہ شاید کسی اور کو نہیں ہوگی اللہ نے اس خاندان پر قہر نازل کیا اور پورا خاندان ہی ختم ہو گیا
حاذق نے اور بھی بہت سی باتیں کہہ سنا کر ثابت کر دیا کہ وہ حسن بن صباح کا پیروکار نہیں بلکہ مرد مومن ہے اور اب اسلام کے فروغ اور اس عظیم دین کی بقاء کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے وہ جب وہاں سے رخصت ہوا تو نور بڑی بے تابی سے کچھ دور تک اس کے ساتھ گئی اور چلتے چلتے اس سے پوچھا کہ وہ اسے کب اور کہاں ملے گا
حاذق نے اسے بتایا کہ کل وہ شہر میں جو باغ ہے اسے وہاں ملے گا اس نے وقت بھی بتا دیا اور باغ کا ایک خاص گوشہ بھی شہر کے اندر یہ بڑا ہی خوبصورت باغ تھا جہاں اچھی حیثیت کے لوگ سیر سپاٹے کے لئے جایا کرتے تھے
حاذق چلا گیا اور نور نے یوں محسوس کیا جیسے اس کا چین اور سکون حاذق کے ساتھ ہی چلا گیا ہو اس نے اپنے آپ پر قابو پا لیا ورنہ اس کے قدم حاذق کے پیچھے ہی اٹھ چلے تھے وہ وہیں کھڑی حاذق کو جاتا دیکھتی رہی اگر باپ اسے آواز نہ دیتا تو وہ حاذق کو دیکھتی ہی رہتی
نور اپنے باپ کے پاس پہنچی تو باپ سے یہ نہ پوچھا کہ اس نے کیوں بلایا ہے بلکہ اس کے ساتھ حاذق کی ہی بات چھیڑ دی وہ باپ سے منوانا چاہتی تھی کہ حاذق باطنی نہیں اور یہ پکا مسلمان ہے نور کے باپ کو مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی وہ پہلے ہی نہ صرف یہ کہ قائل ہو چکا تھا بلکہ وہ حاذق کا گرویدہ بن گیا تھا یہ حاذق کی زبان کا جادو تھا جو باپ بیٹی پر اثر کر گیا تھا اس کے بولنے کا انداز بڑا ہی پیارا اور اثر انگیز تھا
اتنی بڑی حیثیت کا آدمی اکیلا رہتا ہے نور نے کہا اس کی زمینیں دیکھو کتنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں
میں تمہاری بات سمجھتا ہوں نور! نور کے باپ نے کہا میں جانتا ہوں تم نے کیا سوچ کر یہ بات کہی ہے لیکن کسی سے متاثر ہو کر فورا ہی اپنی آئندہ زندگی کے متعلق کوئی فیصلہ کر لینا اچھا نہیں ہوتا میں تمہارے متعلق ہی سوچتا رہتا ہوں یہ اب مجھے سوچنے دو کہ تمہارے لئے حاذق کا انتخاب کروں یا اور انتظار کرلوں
نور تو اپنی زندگی کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن ابھی اس نے باپ کے ساتھ کھل کر بات نہ کی
وسم کوہ میں سالار اوریزی نے یہ جو تجربہ کیا تھا کہ حشیش کا داخلہ شہر میں بند کر دیا جائے اور تاجروں کا سامان کھول کر دیکھا جائے پوری طرح کامیاب رہا تھا اس کی کامیابی کا ایک واقعہ سنایا جاچکا ہے اس نے دوسرا تجربہ یہ کیا تھا کہ کوئی شخص اس کے قریب نہ آئے اگر کسی کا اس کے قریب آنا بہت ہی ضروری ہوتا تو اس شخص کی پوری طرح جامہ تلاشی لی جاتی تھی سالار اوریزی نے سنجر کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ بھی شاہ در میں بھی یہی طریقہ اختیار کرے شاہ در ایک بڑا شہر تھا اور بڑی منڈی بھی تھی اور یہاں سے اناج دوسرے مقامات کو جاتا تھا سالار اوریزی نے سنجر کو تفصیلی پیغام بھیجا کہ وہ تاجروں کا سارا سامان کھول کر دیکھا کرے اور ایسا انتظام کرے کہ شہر کے اندر جو سامان لایا جائے خواہ وہ چھوٹی سی پوٹلی کیوں نہ ہو کھول کر دیکھی جائے
سالار اوریزی نے دوسرا طریقہ یہ پیغام میں شامل کیا کہ سنجر کسی بھی آدمی کو خواہ وہ غریب ہو یا امیر اپنی قریب نہ آنے دے اور کسی کا آنا ضروری ہی ہو تو اس کی جامہ تلاشی لی جائے
جس وقت سالار اوریزی کا قاصد سنجر کے پاس بیٹھا یہ پیغام دے رہا تھا اس وقت نور شہر کے سب سے بڑے اور بڑے ہی خوبصورت باغ میں حاذق کے پاس ایک ایسے گوشے میں بیٹھی تھی جہاں انہیں ٹھنڈی ہواؤں کے سوا کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا نور بالکل اسی طرح حاذق میں جذب ہوگئی تھی جس طرح شافعیہ نے اپنے آپ کو عبید عربی کی ذات میں تحلیل کر لیا تھا یہ صرف محبت نہیں بلکہ عشق کی دیوانگی تھی نور پر تو اس صحرا نورد کی کیفیت طاری تھی جو بھٹک بھٹک کر پیاس سے مرتا کرتا اور اپنے آپ کو گھسیٹتا ایک نخلستان میں پہنچ گیا ہوں اور اس نے فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ باقی عمر اسی نخلستان میں گزار دے گا وہاں ٹھنڈا پانی تھا اور گھنے پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں کی
اس کے بعد نور کی زندگی ایک بڑے ہی حسین خواب کی طرح گزرنے لگی نور نے حاذق کو بتا دیا تھا کہ اس کا باپ علی الصبح نکل جاتا ہے اور وہ گھر میں دوپہر تک اکیلی ہوتی ہے حاذق نے نور کو اپنے ایک دوست کا گھر بتا دیا تھا جو اکیلا رہتا تھا پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا کہ حاذق کبھی نور کے گھر آ جاتا اور کبھی نور حاذق کے دوست کے گھر میں چلی جاتی اور وہ بہت دیر تک اس طرح بیٹھے رہتے تھے جیسے ان کے جسم ایک ہو گئے ہوں حاذق نے نور کو تو جیسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا حقیقت یہ تھی کہ نور ہپنا ٹائز ہونا چاہتی تھی اس پر خود سپردگی کی کیفیت طاری رہتی تھی
اس کے ساتھ ہی حاذق تقریبا ہر روز نور کے باپ سے ملتا تھا اور اس کی زمینوں میں عملی دلچسپی لیتا تھا وہ اس طرح کہ اس نے نور کے باپ کے نوکروں کے ساتھ اپنے مزارعے بھی لگا دیئے نور کا باپ کاشتکاری سے واقف نہیں تھا حاذق نے اس کا یہ کام آسان کردیا نور کے باپ نے دو تین مرتبہ حاذق کو شام کے کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا یہ باپ اپنی بیٹی کی جذباتی حالت بھی دیکھ رہا تھا اور حاذق کی نیت کو اور خلوص کو بھی دیکھ رہا تھا جس میں سے کوئی شک شبہے والی بات نظر نہیں آتی تھی
ایک روز حاذق نے نور کے باپ سے نور کو مانگ ہی لیا نور کا باپ اسی کا منتظر تھا حاذق کے منہ سے بات نکلی ہی تھی کہ نور کے باپ نے بصد خوشی ہاں کر دی
اب شادی کا دن مقرر کرنا تھا یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا کسی دن بھی یہ بات ہو سکتی تھی شام گہری ہوئی ہی تھی کہ حاذق کے گھر ایک گھوڑسوار بڑے لمبے سفر سے آیا حاذق اٹھ کر اور بازو پھیلا کر اس سے بغلگیر ہو کر ملا یہ سوار الموت سے آیا تھا اور حسن بن صباح کا ایک پیغام لایا تھا حاذق نے اپنے نوکر سے کہا کہ وہ ٹھنڈا مشروب لائے لیکن سوار نے کہا کہ پہلے وہ پیغام سن لے کھانا پینا بعد کی بات ہے
حاذق بھائی! سوار نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ شیخ الجبل کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش قتل ہوچکے ہیں یہ جو انقلاب آیا ہے اس سے تو واقف ہو
اس کے متعلق بات کرنا بیکار ہے شیخ الجبل امام حسن بن صباح کو ایک اور غم کھا رہا ہے اس کے پیرو مرشد نے اسے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک خزانہ چھپایا تھا وہ جگہ کسی کو معلوم نہیں امام نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ شاہ در میں وہ آدمی ہیں جو اس خزانے سے واقف ہیں خزانہ ایسی چیز ہے کہ بھائی اپنے بھائی کا گلا کاٹ دیتا ہے خطرہ یہ ہے کہ وہ دو آدمی خزانے پر ہاتھ صاف کر جائیں گے امام نے تمہارے لیے پیغام بھیجا ہے کہ پہلے ان دو آدمیوں کا سراغ لگاؤ یہاں کے معاملات تمہارے ہاتھ میں ہیں اپنے تمام آدمیوں کو تم جانتے ہو شیخ الجبل امام حسن بن صباح کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ جب ہمارے لوگ شاہ در سے بھاگے تھے تو وہ دو آدمی بھی بھاگ گئے ہونگے اگر ایسا ہے تو پھر اس خزانے کو ذہن سے اتار دینا چاہیے
عمار بھائی! حاذق نے حسن بن صباح کے اس قاصد سے کہا تم شاید نہیں جانتے کہ میں امام حسن بن صباح کا کس قدر شیدائی اور گرویدہ ہوں یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں اس کی عظیم ذات کو دھوکا دوں گا خزانے سے جو دو آدمیوں واقف ہیں ان میں ایک تو میں ہوں اور دوسرا شاہ در کے اندر رہتا ہے وہ بھی دھوکا دینے والا آدمی نہیں ہم دونوں یہاں اسی لئے ٹھہرے ہوئے ہیں کہ امام کا حکم آئے اور ہم یہ خزانہ نکال کر اس کے قدموں میں رکھ دیں اگر کچھ دن اور امام کا حکم نہ آتا تو میں خود الموت پہنچ جاتا اور امام کو اس خزانے کے متعلق بتا دیتا
تو اب میں امام کو جا کر کیا جواب دوں؟
عمار نے پوچھا
کہنا کے خزانہ کچھ دنوں تک الموت پہنچ جائے گا حاذق نے جواب دیا تم کل صبح ہی واپسی سفر پر روانہ ہو جانا
شیخ الجبل امام نے مجھے ایک اور بات بھی کہی تھی عمار نے کہا اس نے کہا تھا کہ تمہیں یا کسی اور کو میری ضرورت ہو تو میں یہاں رکا رہوں
نہیں! حاذق نے کہا تم چلے جاؤ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہم دو آدمی کافی ہیں میں امام کے لئے ایک حور بھی لا رہا ہوں
کون ہے وہ ؟
عمار نے پوچھا کہاں سے ملی ہے شاہ در کے امیر احمد بن عطاش کی نوجوان بیوی تھی حاذق نے جواب دیا ہمہارے ہاتھوں سے شاہ در جو نکلا ہے اس کے پیچھے اسی لڑکی اور اس کے باپ کا ہاتھ تھا لیکن عمار بھائی ایک مشورہ دو مجھے پہلی بار کسی لڑکی کے ساتھ دلی بلکہ روحانی محبت ہوئی ہے اپنی جنت کی حوروں کے ساتھ بھی وقت گزارا ہے اور زندگی میں چند اور لڑکیاں بھی آئی ہیں لیکن وہ سب جسمانی معاملہ تھا یہ پہلی لڑکی ہے جو میرے دل میں اتر گئی ہے اور میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن امام کی اجازت کے بغیر میں شادی نہیں کروں گا
حاذق بھائی! عمار نے کہا تم یہ خزانہ امام تک پہنچا دو اور ساتھ یہ کہہ دینا کہ یہ لڑکی تمہیں انعام کے طور پر دے دے تو مجھے یقین ہے امام انکار نہیں کرے گا کیا تم لڑکی کو ساتھ لا رہے ہو ؟
لڑکی کو بھی اور لڑکی کے باپ کو بھی ساتھ لا رہا ہوں حاذق نے جواب دیا اگر میں لڑکی کو ساتھ نہ لایا تو یہ کسی سلجوقی کے قبضے میں چلی جائے گی
میں امام کو پہلے ہی بتادوں گا عمار نے کہا اور تمہاری سفارش بھی کر دوں گا
وہ دوسرا آدمی جو اس خزانے سے واقف تھا حاذق کا وہی دوست تھا جو شاہ در شہر میں اکیلا رہتا تھا اور نور حاذق سے اس کے گھر میں کئی بار ملی تھی اور ہر بار اس نے وہاں خاصا وقت گزارا تھا اگلے ہی روز حاذق علی الصبح شہر کے دروازے کھلتے ہی آگیا اور نور کے گھر پہنچا نور کا باپ ابھی روزمرہ کے کام کاج کے لیے گھر سے نہیں نکلا تھا نور اسے دیکھ کر خوش بھی ہوئی اور اور حیران بھی کہ حاذق اتنی سویرے کیوں آگیا ہے حاذق نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ضروری بات کرنے آیا ہے
تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ عبدالملک کے ساتھ میرے تعلقات کتنے گہرے تھے حاذق نے کہا تمہیں اندازہ نہیں کہ ہم کس حد تک ایک دوسرے کے ہمراز تھے میں تمہیں ایسی بات کرنے لگا ہوں جس کا کسی کے ساتھ ذکر نہ ہو ورنہ ہم تینوں قتل ہو جائیں گے بات یہ ہے کہ عبدالملک نے شاہ در سے کچھ دور ایک جگہ بہت بڑا خزانہ چھپایا تھا میں اس کے ساتھ تھا اور ہمارے ساتھ ایک اور دوست تھا عبدالملک مجھے باطنی سمجھتا تھا اور قابل اعتماد دوست بھی میں اس کی زندگی میں اسے ایسا دھوکا نہیں دینا چاہتا تھا کہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر وہ خزانہ اڑا لے جاتا اور پھر کبھی ادھر کا رخ ہی نہ کرتا اب وہ اس دنیا سے اٹھ گیا ہے اور اس کے گھر کا کوئی مرد زندہ نہیں رہا تو میں نے سوچا کہ میں یہ خزانہ کیوں نہ نکال لوں
یہ تمہارا جائز حق ہے نور نے کہا میرے دل سے پوچھو تو مجھے خزانے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن چونکہ یہ خزانہ ان باطنیوں کا تھا بلکہ باطنیوں کے پیر و مرشد کا تھا اس لئے اسے اٹھا لینا یا نکال لینا ایک نیکی کا کام ہے اور یہ تمہارا جائز حق ہے
مجھ سے پوچھو تو میں بھی یہی کہوں گا نور کا باپ بولا خزانہ نکالو اور اپنی ملکیت میں رکھو
لیکن میں اس خزانے کا اکیلا مالک نہیں بننا چاہتا حاذق نے کہا تم نے اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا ہے خزانے پر میرا اتنا حق نہیں جتنا تم دونوں کا ہے نور پر ان لوگوں نے جو ظلم ڈھائے ہیں میں اس کی یہ قیمت دے سکتا ہوں کہ ان لوگوں کا خزانہ نور کے قدموں میں رکھ دوں میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گا
یہ بھی تو سوچو نور کے باپ نے کہا یہ سارا خزانہ لوٹ مار کا ہے نہ جانے یہ لوگ کب سے قافلوں کو لوٹ رہے ہیں اور یہ خزانہ اکٹھا کرتے رہے ہیں اس خزانے کو نکال ہی لینا چاہیے
تمہیں بھی تو لوٹا گیا تھا حاذق نے کہا اللہ کا کرم دیکھو تم سے جو لوٹا گیا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ تمہیں اللہ نے دے دیا ہے خزانہ تو سمجھو نکل آیا اب میں وہ بات کہنے لگا ہوں جو بہت ہی ضروری ہے ہم جب خزانہ نکالنے جائیں گے تو تم دونوں ہمارے ساتھ ہو گے پھر ہم نے یہاں واپس نہیں آئیں گے ورنہ خزانہ چھپانا مشکل ہو جائے گا ہم وہیں سے اصفہان چلے جائیں گے جہاں ہمیں جاننے اور پہچاننے والا کوئی نہیں ہوگا میں تمہیں خواب نہیں دیکھا رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم تینوں وہاں شاہانہ زندگی بسر کریں گے
حاذق در اصل نور اور اس کے باپ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر رہا تھا وہ تیار ہو گئے تو اس نے انہیں بتانا شروع کیا کہ خزانہ کہاں ہے اور کس قسم کے خطروں میں سے گزر کر خزانے تک پہنچا جائے گا شاہ در سے تقریباً ایک دن کی مسافت پر ایک بہت بڑی جھیل ہوا کرتی تھی یہ جھیل نیم دائرے میں تھی اس کے درمیان خشکی تھی اور اس خشکی پر بڑی اونچی اور کچھ نیچی چٹانیں تھیں ان کے پیچھے خشکی ہی تھی لیکن کچھ آگے جا کر جھیل کا پانی پھر وہاں پھیل گیا تھا اس جھیل کے کناروں پر دلدل تھی یہ جگہ مگرمچھوں کے لیے بڑی موزوں تھی اس جھیل میں مگرمچھ رہتے تھے جن کی تعداد بہت زیادہ تو نہیں تھی لیکن تھوڑی بھی تھی تو یہ تعداد بہت ہی خطرناک تھی مگرمچھ بہت بڑے بڑے تھے اور ان میں مگرمچھوں کی وہ قسم بھی پائی جاتی تھی جن کی لمبائی تھوڑی سی ہوتی ہے
نور نے پوچھا کہ ان مگرمچھوں سے کس طرح بچا جائے گا تو حاذق نے بتایا کہ اس کا انتظام وہ کرے گا اور یہ انتظام انہیں جھیل پر پہنچ کر دکھایا جائے گا لیکن یہ بھی کہا کہ انہیں جان کے خطرے کے لیے تیار رہنا چاہیے
خزانہ ایسی چیز ہے کہ انسان جان کا خطرہ بھی مول لے لیا کرتا ہے باپ بیٹی ان خطروں میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے اور حاذق نے انہیں بتا دیا کہ کس روز روانہ ہونا ہے اس نے انہیں یہ بھی بتایا کہ روانگی کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ شاہ در کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہے جائیں گے
دو دنوں بعد نور اس کا باپ گھر سے نکلے تو ان کے ساتھ گھر کا کچھ ضروری سامان تھا وہ ہمیشہ کے لئے شاہ در سے نکل رہے تھے کسی نے ان کی طرف توجہ نہ دی کے یہ کیا اٹھا کر لے جا رہے ہیں اور کسی کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ یہ آج واپس نہ آنے کے لئے جا رہے ہیں شہر سے نکل کر وہ اپنی کھیتیوں میں گئے اور وہاں رکے نہیں کام کرنے والے نوکروں نے کچھ دیر بعد آنا تھا وہ چلتے چلے گئے اور حاذق کے گھر جا پہنچے ایسے ہی طے کیا گیا تھا حاذق ان کا منتظر تھا
کچھ دیر بعد حاذق کا دوست بھی آ گیا انہوں نے سارا دن وہیں گزارا حاذق اور اس کا دوست باہر چلے گئے تھے کیونکہ انہوں نے بہت سے انتظامات کرنے تھے
شام گہری ہو گئی تو شاہ در کے تمام دروازے بند ہوگئے اور شہر باہر کی دنیا سے کٹ گیا شہر سے تھوڑی ہی دور چھوٹے سے ایک گاؤں سے ایک گھوڑا گاڑی نکلی یہ گھوڑا گاڑی حاذق کے گھر سے نکلی تھی یہ کوئی شاہانہ بگھی نہیں تھی بلکہ بار برادری والی تھی اس پر تازہ کٹی ہوئی ہری فصل کے چند ایک گٹھے لدے ہوئے تھے اور کچھ گھریلو سامان تھا جس میں دو تین چار پائیاں بھی تھیں گھوڑوں کی باگیں حاذق کے ہاتھ میں تھی اور اس کے ساتھ اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا پیچھے سامان پر نور اور اس کا باپ سوار تھے
اس سامان کے ساتھ پانچ بھیڑے بھی تھیں جو ان گاڑی میں جا رہی تھیں حاذق نے نور اور اس کے باپ کو بتایا تھا کہ یہ سامان نئی جگہ لے جانا بالکل ضروری نہیں یہ اس لیے ساتھ لے جایا جا رہا ہے کہ خزانہ کے بکس اس سامان کے نیچے چھپائے جائیں گے خزانے والی جگہ سے اصفہان تک کئی دنوں کی مسافت تھی اور لٹیروں کا خطرہ بھی تھا بھیڑیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ یہ جھیل پر جا کر بتائے گا
جھیل تک کا سفر تقریباً ایک دن کا تھا لیکن حاذق نے کچھ دور جا کر گھوڑے دوڑا دیے اور یہ سفر تیزی سے کم ہونے لگا گھوڑے بڑے ہی تندرست اور اچھی نسل کے تھے راستہ صاف تھا اس لئے ان کی رفتار تیز ہی تیز ہوتی چلی جا رہی تھی آدھے راستے میں حاذق نے گاڑی روک لی تاکہ گھوڑے ذرا دم لے لیں
آدھی رات کے بعد وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئے حاذق نے گاڑی کو جھیل کے کنارے سے کچھ دور دور رکھا تھا کہ مگرمچھ گھوڑوں پر لپک نہ سکیں مگرمچھ پانی میں اپنا شکار پکڑا کرتا ہے خشکی پر آکر وہ شکار نہیں کھیلا کرتا حاذق نے ایسی جگہ گاڑی روکی جہاں چار پانچ کشتیاں کنارے پر رکھی ہوئی تھیں یہ پانی میں نہیں بلکہ خشکی پر تھیں
سب گھوڑا گاڑی میں سے اترے حاذق نے سامان میں سے چار بڑی مشعلیں نکالیں اور چاروں کو جلا لیا ان کے دستے ایک ایک گز سے زیادہ لمبے تھے اور ان کے شعلے تو بہت ہی اوپر جا رہے تھے حاذق نے ایک ایک مشعل سب کو دے دی اب چاروں کے ہاتھوں میں ایک ایک مشعل تھی
وہ جھیل کے کنارے پڑی ہوئی کشتیوں کے قریب گئے دو کشتیاں تو بلکل ٹوٹ گئی تھیں ان سب میں ایک کشتی بڑی بھی تھی اور صحیح سلامت بھی تھی اور اس میں دو چپو لگے ہوئے تھے حاذق اور اس کے دوست نے پانچوں بھیڑیوں کو اٹھا کر کشتی میں ڈال لیا اور پھر حاذق کے کہنے پر سب کشتی میں سوار ہوگئے دونوں دوستوں نے چپو سنبھال لیے
کشتی کنارے سے ذرا ہی دور گئی ہوگی کہ مشعلوں کی روشنی میں دو تین مگرمچھوں کے منہ پانی سے ابھرے ہوئے نظر آئے یہ مگرمچھ بڑی تیزی سے کشتی پر حملہ کرنے کے لیے آرہے تھے حاذق کے دوست نے چپو چھوڑ کر ایک بھیڑ کو اٹھایا اور پانی میں پھینک دیا سارے مگرمچھ اس بھیڑ کی طرف ہوگئے اور اس پر ٹوٹ پڑے بھیڑ نے ایسی خوفزدگی کے عالم میں آوازیں نکالیں کہ دل دہل جاتے تھے
یہ مگرمچھ اس بھیڑ کو چیرنے پھاڑنے لگے یوں لگا جیسے پانی میں طوفان آگیا ہو
کشتی آگے نکل گئی کچھ آگے گئے تو دو اور مگرمچھ کشتی کی طرف آتے نظر آئے حاذق کے دوست نے ایک اور بھیڑ کو اٹھا کر پانی میں پھینک دیا یہ مگرمچھ بھی بھیڑ پر جھپٹ پڑے اور کشتی آگے نکل گئی
حاذق نے نور اور اس کے باپ کو بتایا کہ اب مگرمچھوں کا کوئی خطرہ نہیں رہا کیوں کہ جھیل کے سارے مگرمچھوں کو پتہ چل گیا تھا کہ پانی میں کوئی نیا شکار آیا ہے وہ سب بڑی تیزی سے تیرتے اپنے ان ساتھیوں تک جا پہنچے جو ان بھیڑیوں کو چیر پھاڑ رہے تھے
آخر کشتی اس خشکی تک جا پہنچی جو اس جھیل کے درمیان تھی وہاں بھی ایک بھیڑ پھینکنی پڑی کیونکہ وہاں کنارے پر تین چار مگرمچھ موجود تھے بھیڑ کے گرتے ہی وہ بڑی تیزی سے اس تک پہنچے اور حاذق اور اس کا دوست کشتی کو کنارے تک لے گئے اور دونوں کود کر خشکی پر گئے اور کشتی کا رسّہ کھینچ کر ایک بڑے پتھر کے ساتھ باندھ دیا نور اور اس کے باپ کو بھی اترنے کے لیے کہا گیا دونوں بڑے آرام سے اتر گئے
حاذق آگے آگے جا رہا تھا زمین بڑی ہی ناہموار تھی چھوٹے بڑے پتھروں پر پاؤں پڑتے اور پھسلتے تھے ذرا آگے گئے تو چٹانوں کی گلیاں سی آ گئیں حیرت والی بات یہ تھی کہ یہ خشکی جھیل کے درمیان تھی لیکن وہاں گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی ایسی چٹانیں بھی آئیں جن کے درمیان سے گذرنا ناممکن نظر آتا تھا لیکن یہ لوگ جسم کو سکیڑ سمیٹ کر گزر گئے انہی کئی موڑ کاٹنے پڑے اور چٹانیں اونچی ہی اونچی ہوتی چلی گئیں
قدرت نے ان چٹانوں کی شکل و صورت ایسی بنائی تھی کہ یہ انسان معماروں کی بنی ہوئی لگتی تھیں بعض جگہوں پر گلیاں اتنی تنگ تھی اور چٹان اتنی اونچی کے وہاں دم گھٹتا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے یہ چٹانیں آگے بڑھ کر ان انسانوں کو کچل ڈالیں گی آخر ایک گلی ایک غار کے دہانے پر جا ختم ہوئی
اس دہانے میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے وہ ایک کشادہ کمرے میں آ گئے ہوں ایک جگہ بہت سے پتھر ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئے تھے حاذق نے سب سے کہا کہ یہ پتھر ایک طرف پھینکنے شروع کردو نور کو بھی پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینکنے پڑے کچھ پتھر تو زیادہ ہی وزنی تھے
پتھر آدھے ہی ہٹائے گئے ہوں گے کہ ان کے نیچے پڑے ہوئے چار بکس نظر آنے لگے باقی پتھر بھی ہٹا دیے گئے
حاذق اور اس کے دوست نے چاروں بکسوں کے ڈھکنے اٹھا دئے بکس مقفل نہیں تھے جب ڈھکنے اٹھے تو نور اور اس کے باپ کو تو جیسے غشی آنے لگی ہو ان بکس میں سونے کے سکے اور زیورات تھے اور ہیرے جواہرات تھے اور ایک بکس میں بڑے قیمتی رنگدار اور چمکدار چھوٹے چھوٹے پتھر تھے یہ بادشاہوں کے کام کی چیزیں تھیں یا بڑے ہی امیر لوگ ان کے خریدار تھے مشعلوں کی روشنی میں سونا ہیرے جواہرات اور یہ پتھر چمکتے تھے اور ان میں سے رنگارنگ کرنیں پھوٹتی تھیں
حاذق نے کہا کہ اب زیادہ وقت ضائع نہ کرو اور یہ بکس کشتی تک پہنچاؤ اس وقت حاذق اور اس کے دوست کی جذباتی کیفیت ایسی ہوگئی تھی جیسے انھوں نے کوئی نشہ پی لیا ہو یہ خوشی کی انتہا تھی اور یہ خزانے کا نشہ یا جادو جو ان کے دماغوں کو چڑھ گیا تھا وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے جو خوشی کی انتہا کی علامت تھی
یا شیخ الجبل! حاذق کے دوست نے بازو اوپر کر کے کہا یہ سب تیری دولت ہے ہم یہ خزانہ تیرے قدموں میں رکھیں گے
ہمارے پیر استاد عبدالملک کی روح بھی خوش ہوجائے گی جب ہم الموت حاذق بولتے بولتے چپ ہو گیا اور لہجہ بدل کر بولا بکس جلدی اٹھاؤ ہمیں اصفہان پہنچنا ہے
نور کے باپ نے ان دونوں کی باتیں سن لی تھیں حاذق نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور نور کے باپ نے منہ پھیر لیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو اسے یقین ہو گیا کہ یہ دونوں باطنی ہیں اور یہ خزانہ الموت لے جائیں گے نور کے باپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے اور اس کی بیٹی کے ساتھ یہ کیا سلوک کریں گے اس نے بڑی تیزی سے سوچ لیا کہ کیا کرنا ہے
بکسوں کے دونوں طرف لوہے کے کنڈے لگے ہوئے تھے جنہیں پکڑ کر بکس اٹھائے جاتے تھے ایک بکس حاذق اور اس کے دوست نے اِدھر اُدھر سے پکڑ کر اٹھا لیا اور دوسرا بکس نور اور اس کے باپ نے اٹھایا بکس وزنی تو تھے لیکن وہ اٹھا کر باہر لے آئے اب ان کے لئے چلنا خاصا دشوار ہو گیا تھا لیکن وہ بکسوں کو کہیں اٹھاتے اور کہیں گھسیٹتے دکھیلتے جھیل تک لے آئے
انھوں نے یہ دونوں بکس کشتی میں رکھ دئیے نور کے باپ نے دیکھا کہ کشتی کا اگلا حصہ خشکی پر تھا اور زیادہ تر حصہ پانی میں تھا جب حاذق اور اس کا دوست تو بکس رکھ کر واپس غار کی طرف گئے تو نور کے باپ نے کشتی کو دھکیل کر پانی میں کردیا کشتی رسّے بندھی ہوئی تھی اس لیے اس کے بہہ جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا باپ بیٹی کشتی سے کود کر اترے اور خزانے کی طرف چلے گئے
جس طرح وہ چاروں پہلے دو بس اٹھا کر لے آئے تھے اسی طرح باقی دو بکس بھی اٹھا لائے ایک ایک ہاتھ سے بکس اٹھاتے تھے اور دوسرے ہاتھوں میں ایک ایک مشعل تھی
اب وہ کشتی کی طرف بکس اٹھا کر آ رہے تھے تو پہلے کی طرح نور اور اس کا باپ پیچھے نہیں تھے بلکہ آگے آگے آرہے تھے وہ اتفاقیہ آگے آگے نہیں آئے تھے بلکہ نور کے باپ نے کچھ سوچ کر یہ پھرتی دکھائی تھی کہ غار میں جاکر بکس اٹھایا اور تیزی سے غار سے نکل آیا تھا
نور اور اس کے باپ نے بکس کشتی میں رکھا اور دونوں کشتی میں آگئے حاذق اور اس کا دوست بکس اٹھائے ہوئے کشتی کے قریب آئے تو نور کے باپ نے لپک کر بکس پکڑا اور گھسیٹ کر کشتی میں کر لیا اب اُن دونوں نے کشتی میں سوار ہونا تھا نور کے باپ نے فوراً اپنی مشعل نور کے ہاتھ سے لی اور بڑی ہی تیزی سے مشعل پہلے حاذق کے جسم کے ساتھ لگائی اور پھر فوراً ہی اس کے دوست کے جسم کے ساتھ لگا دی
مشعل کا شعلہ بہت بڑا تھا اس شعلے نے دونوں کے کپڑوں کو آگ لگا دی اور آگ نے یکلخت ان کے پورے لباس کو لپیٹ میں لے لیا اس کے ساتھ ہی نور کے باپ نے نور سے کہا کہ مشعل آگے کرو اور کشتی کا رسّہ جلا ڈالو رسّہ بندھا ہوا تھا جسے کھولنے کے لیے نور یا اس کے باپ کو کشتی سے اترنا تھا لیکن اتنا وقت نہیں تھا نور نے مشعل آگے کر کے رسّے کے درمیان لگا دی فوراً ہی رسّہ جل گیا اور کشتی پانی میں آگئی لیکن آہستہ آہستہ چل پڑی
حاذق اور اس کے دوست کے کپڑوں کو آگ لگی تو دونوں پانی میں کود گئے آگ تو بجھ گئی لیکن ان کے جسم جل گئے تھے جن پر پانی پڑا تو تکلیف بڑھنے لگی آخر وہ دو نوجوان اور دلیر آدمی تھے پانی میں ہی دونوں نے اپنی تلوار نکال لی اور کشتی کی طرف لپکے اتنی سی دیر میں نور اور اس کے باپ نے مل کر تیزی سے چپو مارے تو کشتی کنارے سے دور آ گئی لیکن وہ دونوں بھی کشتی کے قریب آگئے
نور کے باپ نے نور سے کہا کہ دونوں چپّو سنبھالو اور کشتی کو رکنے نہ دینا حاذق اور اس کا دوست بڑی تیزی سے تیرتے کشتی کے قریب آئے اور انہوں نے کشتی کو پکڑنے کی کوشش کی نور کے باپ نے دونوں مشعلیں اٹھا کر ایک حاذق کے چہرے پر اور دوسرا اس کے دوست کے چہرے پر رکھ دیا اور زور سے آگے کو دھکیلا
تصّور میں لایا جا سکتا ہے کہ ان کی آنکھیں تو فوراً ہی بیکار ہو گئی ہونگی اور چہرے تو بری طرح جل گئے ہوں گے دونوں کی اس طرح چیخیں سنائی دینے لگی جیسے بھیڑیے غرّا اور چلا رہے ہوں اب ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ آگے بڑھتے وہ تو ڈوب رہے تھے
نور کے باپ نے ایک چپّو نور کے ہاتھ سے لے لیا اور دونوں تیزی سے چپّو چلانے لگے دونوں دائیں بائیں جھیل میں دیکھ رہے تھے کہ مگرمچھ نہ آ جائیں آ بھی آ جاتے تو ان کے پاس بندوبست موجود تھا دو بھیڑ اب بھی کشتی میں موجود تھی لیکن اب مگرمچھوں کو شکار مل گیا تھا یہ تھا حاذق اور اس کا دوست دور سے ان دونوں کی بڑی ہولناک آوازیں سنائی دیں جو فوراً ہی ختم ہو گئی یوں لگتا تھا جیسے دونوں کو مگر مچھوں نے پکڑ لیا ہو مشعلوں کی روشنی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی کشتی میں مشعلیں کھڑی رکھنے کا انتظام تھا نور کے باپ نے دونوں مشعلیں ان جگہوں میں پھنسا دی تھیں
نور کے باپ نے یہ کوشش نہ کی کہ کشتی کو اس جگہ تک لے جائے جہاں سے انہوں نے کشتی لی تھی اور جہاں گھوڑا گاڑی رکی کھڑی تھی ان دونوں نے کشتی کو قریبی کنارے پر لگا دیا اور اتر آئے دونوں نے پورا زور لگا کر کشتی کو اتنا کھینچا کہ کشتی خشکی پر آگئی
باپ نے نور سے کہا کہ وہ کشتی کے قریب کھڑی رہے اور اگر کشتی پانی میں جانے لگے تو اسے پکڑ کر کھینچ لے وہ خود گھوڑا گاڑی لینے چلا گیا اب وہ ہر خطرے سے نکل آئے تھے
نور کا باپ گھوڑا گاڑی وہیں لے آیا اور کشتی کے قریب روک کر باپ بیٹی کشتی سے بکس اتارنے لگے وہ علاقہ ایسا تھا جہاں سے کسی انسان کا گزر نہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ علاقہ کسی راستے میں نہیں آتا تھا اور خطرناک بھی اتنا تھا کہ ادھر سے کوئی گزرتا ہی نہیں تھا
دونوں نے زور لگا کر چاروں بکس گھوڑا گاڑی میں لاد لیے اور سوار ہوگئے گھوڑوں کی باگیں باپ نے سنبھال لی اور گاڑی شاہ در کی طرف موڑ کر چل پڑے نور ابھی دیکھ رہی تھی کہ باپ یہ خزانہ کہاں لے جاتا ہے نور کی توجہ دراصل خزانے پر تھی ہی نہیں وہ بہت بڑے صدمے سے دوچار تھی اسے جس کے ساتھ روحانی محبت ہو گئی تھی اسے وہ اپنے ہاتھوں جلا کر اور ڈبو کر جا رہی تھی حاذق کے خیال سے اور اس کے انجام سے اسے اتنا شدید صدمہ ہوا کہ اس کے آنسو بہہ نکلے اور وہ سسک سسک کر رونے لگی
روتی کیوں ہو؟
باپ نے نور سے کہا کیا ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ہم بہت بڑے دھوکے سے بچ گئے ہیں؟
یہ باطنی تھے اور یہ سیدھے الموت جا رہے تھے مجھے تو یہ راستے میں ہی ختم کر دیتے اور تمہیں وہاں لے جاکر حسن بن صباح کی حوالے کر دیتے اور وہ ابلیس تمہیں اپنی جنت کی حور بنا دیتا آج تو ایک خاوند کی تلاش میں ہو وہاں ہر روز تمھارا ایک نیا خاوند ہوتا اللہ کا شکر ادا کرو جس نے ہمیں اس ذلت سے بچا لیا ہے خدا کی قسم مجھے اس خزانے کی خوشی نہیں خوشی ہے تو یہ ہے کہ میں آخر تمہیں بچا لایا ہوں
نور کو اصل غم تو یہ تھا کہ اس کی قسمت میں یہی لکھا گیا تھا کہ ایک فریب کار کے چنگل سے نکلے تو ایک اور فریب کار کی جال میں آجائے نور کے لئے یہ صدمہ برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا بہرحال اس نے یہ انتہائی تلخ گھونٹ نگلنے کی کوشش شروع کر دی اور باپ اسے سمجھاتا گیا اور پھر اسے امید بھی دلاتا رہا کہ اس کے لئے ایک مرد حق یقینا منتظر ہے اللہ نے جہاں اتنا کرم کیا ہے وہ یہ کرم بھی ضرور کرے گا کہ نور کی شادی ہو جائے گی
نور کے باپ نے گھوڑے دوڑا دیئے وہ بہت جلدی شاہ در پہنچنا چاہتا تھا راستے میں وہ ایک جگہ روکے،گاڑی میں کھانے پینے کا سامان موجود تھا گھوڑوں کو سستا لیا اور باپ بیٹی نے کھا پی لیا اور پھر گاڑی میں سوار ہوئے اور باپ نے گھوڑے دوڑا دیئے
دن تقریبا آدھا گزر گیا تھا سنجر اپنے دفتر میں بیٹھا روزمرہ کے کام کاج میں مصروف تھا اس کے ذمے بڑا ہی نازک اور پیچیدہ کام تھا اس نے اس شہر کو ازسرنو آباد کرنا تھا اور اس شہر کو باطنیوں سے صاف بھی کرنا تھا دربان نے اسے اطلاع دی کہ باہر ایک آدمی آیا ہے جس کے ساتھ ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی ہے اور وہ گھوڑا گاڑی پر آئے ہیں دربان نے بتایا کہ یہ وہی باپ بیٹی ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک مکان دیا گیا تھا اور زمین بھی دی گئی تھی
سنجر نے کسی حد تک بے دلی سے کہا کہ انہیں اندر بھیج دو اس نے غالباً یہ سوچا ہوگا کہ اپنی کسی ضرورت کی خاطر آئے ہوں گے دربان نے باہر جا کر انہیں کہا کہ وہ اندر چلے جائیں لیکن نور کے باپ نے کہا کہ وہ اندر نہیں جانا چاہتے سلطان خود باہر آئے
اردو تحریر پڑھنے کے لیے گروپ لنک حاصل کریں
03354851151
سنجر کو جب یہ بتایا گیا کہ باپ بیٹی اسے باہر بلا رہے ہیں تو سنجر جھنجھلاہٹ کے عالم میں باہر آگیا نور کے باپ نے اسے کہا کہ وہ گھوڑا گاڑی تک چلے اس وقت سنجر نے قدرے اکتاہٹ سے کہا کہ آخر بات کیا ہے؟
وہ کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ کوئی اسے جدھر لے جانا چاہے وہ اس طرف چل پڑے نور اور اس کا باپ کچھ بھی نہ بولے اور اسے گھوڑا گاڑی تک لے گئے
نور کے باپ نے گاڑی پر جا کر چاروں بکس کھول دیئے اور سلطان کو اشارہ کیا کہ وہ اوپر آجائے سنجر پہلے ہی اُکتایا ہوا تھا وہ غصے کی حالت میں گھوڑا گاڑی پر چڑھا اور جب اس نے کھلے ہوئے بکس دیکھے تو اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی
یہ مال کہاں سے آیا ہے؟
سنجر نے ہکلاتی ہوئی زبان سے پوچھا اور جواب کا انتظار کئے بغیر کہا یہ تو بے انداز اور بے حد قیمتی خزانہ ہے
یہ میں سلطان کو اندر بیٹھ کر بتاؤں گا کہ یہ مال کس طرح آیا ہے نور کے باپ نے کہا یہ سارا مال نہ آپ کا ہے نہ میرا ہے بلکہ یہ سلطنت سلجوقیہ کا مال ہے اور یہ وہ خزانہ ہے جو یہ باطنی بلیس قافلوں سے لوٹتے رہے ہیں
سنجر نے فوراً چاروں بکس اٹھواۓ اور اپنے کمرے میں رکھوا دیے پھر اس نے باپ اور بیٹی کو اپنے پاس بٹھا کر پوچھا کہ یہ خزانہ کہاں سے آیا ہے
نور کے باپ نے اسے ساری داستان سنا ڈالی
میں تمہیں اس میں سے دل کھول کر انعام دونگا سنجر نے کہا میں اس میں سے ایک ذرہ بھی نہیں لونگا نور کے باپ نے کہا یہ سلطنت کی ملکیت ہے اور یہ اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کی جائے میں اپنا انعام لے چکا ہوں مجھے مکان مل گیا ہے اور زمین بھی مل گئی ہے مجھے اور کچھ نہیں چاہئے
ابتداۓ اسلام سے لے کر حسن بن صباح تک تاریخ کے مختصر حالات
مکہ میں جناب سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی پیدائش سے لے کر ان کے دنیا سے پردہ فرمانے تک حالات پر اگر روشنی ڈالیں تو یہ ایک بہت وسیع موضوع بن جائے گا
یہاں پر اختصار کے ساتھ اسلامی انقلاب کے حالات کا تذکرہ ہو گا
حضور اکرمﷺ نے مکہ سے اسلام کی تبلیغ کی ابتداء کی اور ہر قسم کی سختیاں برداشت کیں
اور جب اللہ پاک کا حکم ہوا آپﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مدینہ دارالسلام قرار پایا
مدنیہ اسلامی ریاست بنی اور اسلام اپنے عروج پر پہنچ گیا یہ سب آپﷺ کی محنت اور لگن کا نتیجہ تھا
جناب رسول اکرمﷺ کے دور میں ان کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہو گے جنہوں نے نبوت کے دعوے کیے حق اور باطل ہمیشہ سے ہی ساتھ ساتھ چلتے آۓ ہیں
کبھی حق غالب تو کبھی باطل
نبی رحمتﷺ کی حیات میں حق اپنے عروج پر رہا اور باطل کا منہ کالا رہا
جب نبی کریمﷺ نے دنیا سے پردہ فرما گئے
اور جناب حضرت ابو بکر صدیقؓ خلافت کی مسند کی بیٹھے اور پہلے مسلمانوں کے خلیفہ کہلاے تو اس وقت بھی نبوت کے جھوٹے دعویدار اپنی اپنی کارستانیوں میں مصروف تھے مگر جناب ابو صدیقؓ نے ان جھوٹے دعویداروں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور ان کو کچلا
جناب ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد خلافت حضرت عمرؓ کے سپرد کی گئی اور آپ نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ان سے سب واقف ہیں یہاں کہ یہودونصاری آج بھی کہتے ہیں کہ اگر اسلام کو ایک عمر اور مل جاتا تو پوری دنیا میں صرف ایک ہی مذہب ہوتا اور وہ اسلام ہوتا
حضرت عمرؓ کی خلافت کا دور سنہری دور کہلاتا تھا
آج بھی جو پوری دنیا میں فوجی انتظامات چھاؤنیاں تنخواہ اور زرعی سماجی معاشی امور ہیں یہ سب حضرت عمرؓ کے قائم کردہ ہیں
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنیؓ مسند خلافت پر بیٹھے اور اسلام کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا سلطنت میں مزید بہتری کے کام کیے قرآن پاک کی تجوید کی معاشی اور دیگر امور کو بہتر بنایا آخر کار حضرت عثمانؓ کو بھی شہید کر دیا گیا
اور اس کے بعد حضرت علیؓ نے خلافت سنبھالی تو آپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا سب سے بڑا مسئلہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کا تھا کہ ان کو پکڑا جاے اور سزا دی جاے اس بات پر مسلمان دو گروپوں میں تقسیم ہو گۓ ایک گروپ حضرت علیؓ کا اور دوسرا گروپ حضرت امیر معاویہؓ کا تھا جناب امیر معاویہؓ نے کہا کہ عثمانؓ کے قاتلوں کو پکڑ کر سزا دی جاے
حضرت علیؓ نے جب اس طرف توجہ دی تو خارجی آپ کے دشمن بن گے اور آخر کار حضرت علیؓ کو بھی شہید کروا دیا گیا حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد آپ کے بیٹے حضرت حسنؓ کو خلافت پر بیٹھایا گیا چونکہ عثمانؓ کی شہادت کے بعد فتنوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اس لیے حضرت امام حسنؓ زیادہ عرصہ خلافت پر نہ رہ سکے اور آپؓ نے امت میں مزید انتشار کے ڈر سے جناب امیر معاویہؓ کی خلافت کے حق میں دستبردار ہو گئے اور اس طرح خلافت بنو امیہ میں منتقل ہو گئی اور جناب امیر معاویہؓ بنو امیہ کے پہلے خلیفہ بن گے امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا یزید مسند خلافت پر بیٹھا اور بنو امیہ کا دوسرا خلیفہ کہلایا یزید عیاش طبیعت کا مالک تھا اس وقت بنو امیہ کی حکومت اپنے عروج پر جب یزید نے حضرت امام حسینؓ کو کربلا میں شہید کروا دیا تو اس کے ساتھ ہی بنو امیہ پر زوال شروع ہوگیا بنو امیہ کی بادشاہت دن بدن ڈاون ہونے لگی لوگ یزید کے اس طرز عمل پر کہ جناب امام حسینؓ شہید کروا دیا ہے متنفر ہونے لگے یزید کی موت کے بعد یزید دوم تخت پر بیٹھا مگر اس نے بھی جلد ہی تخت چھوڑ دیا اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو گیا اس کے بعد بنو امیہ کے بادشاہ بدلتے رہے بادشاہت کی خاطر قتل و غارت ہو نے لگی یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک مروان سے عبدالملک اور پھر ولید اور پھر سلیمان تخت پر بیٹھے مگر ریشہ دوانیاں بڑھتی گئ اور اقتدار بدلتے گے آخر کار بنو امیہ ایک عزیم انسان حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خلافت سنبھالی اور موروثی قتل و غارت کو ختم کیا حکومتی انتظامات کو بہتر کیا لوگوں کی بھلائی کے کام کیے اور اسلام بنیادوں پر حکومت کو استوار کیا اور ان کے دور میں بنو امیہ کی حکومت نے وہ دور دیکھا جو اس سے پہلے بنو امیہ میں نہیں آیا تھا
آپ نے اتنے عدلوانصاف سے حکومت کی ایک مثال بن گئ دن رات لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا مدرسے بناے علم کو فروغ دیا
اور پھر جناب عمر بن عبدالعزیز بھی اس دنیا سے رخصت ہو گے اور ان کی وفات کے بعد بنو امیہ ایسا زوال کا شکار ہوئی کہ پھر کبھی بھی سنبھل نہ سکی اور جب بنو امیہ کی عیاشیوں کی وجہ سے بہت ابتر حالت ہو گئی تو پھر اقتدار بنو عباس نے سنبھال لیا اور بنو امیہ کی ڈوبتی کشتی کو پھر سہارا مل گیا مگر بنو امیہ کا نام ختم ہو گیا اور بنو عباس کی حکومت عباسیہ کہلانے لگی
بنو عباسیہ کے شہانہ دور گزرے فتوحات ہوئیں تعلیم کو فروغ ملا اسلام کو تقویت ملی اور ایک بار اسلام کا سورج پوری آب و تاب سے چمکنے لگا
پھر آہستہ آہستہ بنو عباسیہ بھی عیاشیوں میں پڑ گے مناظرے ہونے لگے اور غیر مسلموں نے آنکھیں دکھانی شروع کر دیں
راہزنی شروع ہوگی لوگوں کے اموال غیر محفوظ ہوگے
ایسے میں اللہ پاک نے مسلمانوں کی حالت پر رحم کھایا اور سلجوقیوں کو سہارا بنا کر بیھج دیا
سلجوقی کون تھے یہ ترکستان کے رہنے والے تھے اور بہت جنگجو تھے اور ترکستان کے خاقان کے ملازم تھے
چونکہ اس وقت خاقانی سب قبیلوں میں بھٹے ہوے تھے ان کی باقاعدہ حکومت نہ تھے جو قبیلہ زیادہ طاقتور ہوتا وہ باقی کمزور قباٸل کو اپنا مطیع بنا لیتا چنگیز خاں کا تعلق بھی انہی قبائل سے تھا
سلجوقی غیر مسلم تھے اور سلجوق بن یکاک کی نسل سے تھے اور ترکستان کے خاقان کے ملازم اور جنگجو بھی تھے بہت بہادر قبیلہ تھا سلجوق بن یکاک نے بخارا ہجرت کرنے کا سوچا اور اپنے قبیلہ کو بتایا تو اس کا سارا قبیلہ اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گیا
سلجوقی بخارا پہنچے تو وہاں پر سب مسلمان تھے ان رہائش بودوباش اور اخلاق سے متاثر ہو کر سلجوق نے اسلام قبول کر لیا اور جب اس کے قبیلہ کو پتہ چلا تو انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا یوں سلجوقی اسلام میں داخل ہوے اور بخارا میں رہنے لگے
بخارا میں ان کی جوانمردی سامنے آنے لگی تو شاہ بخارا نے ان کو اپنی فوج میں شامل کر لیا
المختصر وقت گزرتا گیا اور سلجوقی حکومتی سطح پر پہنچ گے اور پھر سلجوقیوں کا پہلا بادشاہ سلجوق بن یکاک بنا جو اسلام کا شیدائی تھا اس نے بادشاہ بنتے ہی اسلام کو فروغ دیا مدرسے بنواے اور رفاع عامہ کے بہت کام کیے
سلجوق بن یکاک کے دو پوتے تھے ایک کا نام طغرل بیگ سلجوقی اور دوسرے کا نام چغرل بیگ سلجوقی تھا سلجوق بن یکاک کی وفات کے بعد حکومت اس کے پوتوں کے ہاتھ میں آئی اس وقت سلجوقیوں کی سلطنت افغانستان سے لے کر ایران شام عراق وغیرہ تک پھیل چکی تھی لہذا دونوں پوتوں نے سلطنت کے انتظام کو دیکھتے ہوئے سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا چغرل بیگ کو ترکستان مرو اور خراسان کے علاقے حصے میں آے
یہ 450 ہجری کا دور تھا جب عباسیہ سلطنت کا خلیفہ بامراللہ تھا جو کہ صرف نام کا خلیفہ تھا
چغرل بیگ کا پوتا سلطان ملک شاہ خراسان کا سلطان تھا جبکہ مرو میں سلطان الپ ارسلان کی بادشاہت تھی
خراسان کے شہر طوسی میں علی بن احمد صباح اسماعیلی کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام حسن رکھا گیا جو کہ بعد میں حسن صباح کے نام سے مشہور ہوا
بعد میں یہ لوگ رے چلے گے جہاں علی بن احمد نے رے کے حاکم ابو مسلم رازی سے جا کر دوستی کی اور اس کا منظور نظر بن گیا حسن جب بڑا ہوا تو اسکی تعلیم کے لیے ایک اسماعیلی شیعہ عبدالملک بن عطاش کو استاد مقرر کیا گیا جو کہ شیعہ تھا جبکہ باپ نے رے کے حاکم کو کہا تھا کہ وہ کٹر سنی ہے جب رے کے حاکم کو پتہ چلا تو اس نے حسن کے باپ سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں ورنہ میں حسن نیشاپور امام موافق کے مدرسہ میں تعلیم دلواتا رے کے حاکم نے اخراجات کا ذمہ لیا اور حسن کو نیشاپور بھیج دیا گیا یوں حسن شیعہ ہونے کے باوجود سنی مسلک کے متعلق مکمل جان گیا اور ایک عالم بن گیا مدرسہ سے فراغت کے بعد حسن پھر عبدالملک بن عطاش کی شاگردی میں آ گیا عطاش ایک ابلیسی طبیعت کا مالک تھا اس نے حسن کو بھی ابلیسیت میں رنگ لیا اور یہی حسن کا باپ چاہتا تھا اور پھر وقت نے دیکھا کہ حسن بن علی بن احمد صباح جس نے علی ہٹا کر اپنے نام کے ساتھ صباح لگا لیا اور حسن بن صباح کہلانے لگا
حسن بن صباح نے 90 سال عمر پائی اور ان 90 سال میں ایک کام بھی اچھا نہیں کیا بلکہ ابلیس کا پیرو کار رہا اور اسی حالت میں 28 ربیع الثانی 518 ہجری کو طبعی موت مر گیا اس نے 35 سال قلعہ الموت میں گزارے
یہ سارا واقعہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو خواہ کسی نے ہی سرانجام دیا تھا یہ سالار اوریزی کے کام آیا اتنی بڑی کامیابی کو وہ اپنے تک ہی محدود نہیں رکھ سکتا تھا اس نے سلطان محمد کو اطلاع دینے کے لئے قاصد مرو بھیج دیا دوسرا قاصد سنجر کی طرف شاہ در بھیجا سنجر بھی سلطان ہی تھا
سالار اوریزی کا قاصد سلطان محمد کے پاس پہنچا اور یہ پیغام سنایا تو سلطان محمد کچھ دیر تک اس کو دیکھتا رہا جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو جیسے وہ قاصد کی بات نہ سمجھ سکا ہو اسے توقع نہیں تھی کہیں سے اس کام کی خبر بھی آئے گی کہ حسن بن صباح کے آدمی بھی پکڑے جائیں گے اور راز فاش کر دیں گے جو پتھر دل تھے سلطان محمد کی حیرت زندگی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک دو روز پہلے اسے سنجر نے پیغام بھیجا تھا کہ بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا ہے اس خزانے کے ساتھ دوسری اچھی خبر یہ تھی کہ حسن بن صباح کے دو بڑے ہی تجربے کار تخریب پکڑے گئے اور انہیں مگر مچھوں نے کھا لیا تھا
اس وقت حسن بن صباح کی سلطنت دور دور تک پھیل گئی تھی اور وہ اس سلطنت کا بے تاج بادشاہ تھا کم و بیش ایک سو چھوٹے اور بڑے قلعے باطنیوں کے قبضے میں تھے یہ کوئی باقاعدہ سلطنت نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے اثرات لوگوں نے اس انداز سے قبول کر رکھے تھے کہ حسن بن صباح دلوں پر راج کرتا تھا تاریخ نویسوں نے بھی اس کے زیر اثر علاقوں کو اس کی سلطنت ہی لکھا ہے اتنی بڑی سلطنت میں حسن بن صباح کے دو چار تخریب کاروں اور فدائیوں کا مار جانا کوئی ایسا نقصان نہیں تھا کہ حسن بن صباح کے بازو اور اس کے اثرات کمزور ہوجاتے اس کے پاس پچاس ہزار سے زائد فدائی تھے لیکن نور کے باپ نے جس طرح خزانہ حاصل کرلیا تھا اور اس کے تخریب کاروں کو مگرمچھوں کے حوالے کردیا تھا اور پھر عبید عربی نے جو پردے اٹھائے اور دو باطنیوں کو سزائے موت دلوائی تھی اور پھر ابن مسعود کا واقعہ تھا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ سلطان محمد سلطان سنجر اور سالار اوریزی اور ان کے دیگر سالاروں کے حوصلوں میں جان آگئی اور ان سب نے ان واقعات کو خدائی اشارہ سمجھا کہ فتح حق پرستوں کی ہوگی
ادھر الموت میں وسم کوہ سے بھاگا ہوا باطنی حسن بن صباح کی پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ وسم کوہ میں کیا انقلاب آگیا ہے اس نے تفصیل سے بتایا کہ عبید عربی جو سالار اوریزی کو قتل کرنے گیا تھا اس نے اپنے دو آدمی سالار اوریزی سے قتل کروا دئیے ہیں اور پھر ایک اور پرانے فدائی ابن مسعود نے وسم کوہ کے تمام باطنیوں کو پکڑوا دیا ہے لیکن وہ پکڑے نہیں گئے بلکہ انہوں نے خودکشی کرلی ہے
مؤرخین لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح اس قسم کی خبروں سے کبھی پریشان نہیں ہوا تھا لیکن اب اسے ایسی خبر ملتی تھی تو وہ گہری سوچ میں کھو جاتا اور اس کے چہرے پر رنج و الم کا تاثر آ جاتا تھا اس کی ایک وجہ تو عمر تھی وہ خاصا بوڑھا ہوچکا تھا دوسری وجہ اس کے پریشان ہونے کی یہ تھی کہ اس نے ابھی تک اپنی فوج نہیں بنائی تھی فوج سے مراد تربیت یافتہ لشکر تھا جسے وہ میدان جنگ میں لڑا سکتا اس کے پاس فدائیوں کی کوئی کمی نہیں تھی اور اس کے فدائی اس کے اشارے پر اپنی جان قربان کر دیا کرتے تھے لیکن وہ صرف چھوری چاقو چلانا جانتے تھے اور لوگوں کو دھوکے میں لا کر قتل کرنے کے فن کے ماہر تھے اس نے تھوڑے عرصے سے اپنے مشیروں اور مصاحبوں سے کہنا شروع کردیا تھا کہ باقاعدہ فوج تیار کی جائے جو باقاعدہ جنگ کی تربیت یافتہ ہو وہ مشیروں سے کہتا تھا کہ سلجوقی ایک نہ ایک دن الموت پر حملہ ضرور کریں گے الموت کا قلعہ ناقابل تسخیر تھا ایک تو وہ وسیع و عریض چٹان پر بنایا گیا تھا اور اس کے تین طرف دریا تھا لیکن وہ بے خبر نہیں تھا کہ مسلمان قربانی دینے پر آگئے تو وہ اس قلعے میں داخل ہوجائیں گے
اس نے اسی وقت اپنے مشیروں وغیرہ کو بلایا اور بتایا کہ وسم کو میں کیا ہوا ہے اور ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی پیروکار اس طرح غداری نہ کرے کچھ دیر مشورے اور بحث مباحثے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ہر شہر اور قصبے میں دو دو فدای بھیج دیئے جائیں جو وہاں اپنے آدمیوں پر نظر رکھیں اور ان سے ملتے ملاتے رہے ہیں اور جہاں کہیں شک ہو کہ فلاں شخص غداری کرے گا کسی ثبوت کے بغیر اس شخص کو قتل کر دیا جائے
جب سے حسن بن صباح کا پیر استاد عبدالملک بن عطاش قتل ہوا تھا حسن بن صباح کچھ مغموم سا رہنے لگا تھا شاید وہ تنہای محسوس کر رہا تھا وسم کوہ سے بھاگ کر آنے والا آدمی حسن بن صباح کو ساری بات سنا چکا تو حسن بن صباح کو اپنا پیر و مرشد بہت یاد آیا اس پر کبھی کوئی مشکل آ پڑتی تو وہ اپنے مرشد کی طرف قاصد بھیج کر مشورہ لے لیتا یا اسے اپنے ہاں بلا لیتا تھا اب وسم کوہ کی یہ خبر سن کر اسے اپنا پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش یاد آیا لیکن اب اسے اپنے مرشد سے زیادہ خزانہ یاد آیا جسے نکلوانے کے لیے اس نے قاصد کو حاذق کے پاس بھیجا تھا اور حاذق نے قاصد کو یقین دلایا تھا کہ وہ کچھ دنوں بعد وہ خزانہ امام حسن بن صباح کے قدموں میں لا رکھے گا بہت دن گزر گئے تھے شاہ در سے حاذق نے کوئی اطلاع نہیں بھیجی تھی کہ اس نے خزانہ نکال لیا ہے یا نہیں اسے یہ خیال آ رہا تھا کہ خزانہ حاذق نکال چکا ہوتا تو اب تک وہ الموت پہنچ گیا ہوتا حاذق نے خزانہ شاہ در تو نہیں لے جانا تھا
حسن بن صباح کو شک ہونے لگا کہ حاذق دھوکا نہ دے گیا ہو وہ جانتا تھا کہ خزانہ ایسی چیز ہے جو باپ بیٹے کو اور سگے بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے وسم کوہ وہاں سے بھاگا ہوا آدمی ابھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا حسن بن صباح کے دو تین مصاحبین بھی وہاں موجود تھے اس نے ان کے ساتھ شاہ در کے خزانے کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ خزانہ مرشد عبدالملک بن عطاش چھپا گیا تھا اور دو آدمی اس خزانے کی اصل جگہ سے واقف تھے اور اس جگہ تک پہنچنے کا راستہ صرف ان دو کو معلوم تھا لیکن ابھی تک وہ دونوں نہیں پہنچے
یا امام! ایک مصاحب نے کہا زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ خزانے کا معاملہ ہے اس آدمی کو ایک بار پھر شاہ در بھیجیں اور وہ حاذق سے مل کر واپس آئے اور بتائے کہ وہ کیا کر رہا ہے ہوسکتا ہے حاذق وہاں موجود ہی نہ ہو اگر وہ شاہ در سے جاچکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خزانہ نکال کر کہیں غائب ہو گیا ہے یا وہ زندہ ہی نہیں
ہمارا آدمی شاہ در تک ہی جا سکتا ہے حسن بن صباح نے کہا یہ تو ہم میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ خزانہ ہے کہاں
مجھے معلوم ہے یا شیخ الجبل! وسم کوہ سے بھاگ کر جانے والے آدمی نے کہا آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میں نے ایک لمبا عرصہ شاہ در میں گزارا ہے اور میں حاذق کے ساتھ رہا ہوں اور ہمارے پیر استاد عبدالملک بن عطاش مجھ پر پورا اعتماد رکھتے تھے کیا یہ بہتر نہیں کہ میں شاہ در چلا جاؤں؟
حسن بن صباح تو خوشی سے اچھل پڑا اسے تو توقع ہی نہیں تھی کہ کوئی اور بھی اس خزانے سے واقف ہو گا جو اس کا پیرومرشد نہ جانے کتنے عرصے سے کہیں رکھ رہا تھا اس نے اس آدمی سے کہا وہ فوراً شاہ در کو روانہ ہو جائے
یا شیخ الجبل! ایک اور مصاحب نے کہا اگر یہ شخص خزانے والی جگہ سے واقف ہے تو اس کے ساتھ دو تین آدمی بھیج دیئے جائیں اگر حاذق شاہ در میں نہ ملے تو یہ شخص خزانے والی جگہ چلا جائے اور دیکھے وہاں کچھ ہے بھی یا نہیں اگر حاذق بھی نہیں اور خزانہ بھی نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ یہ مال و دولت حاذق لے اڑا ہے
حسن بن صباح نے اسی وقت یہ انتظام کرنے کا حکم دے دیا اس نے دوسرا حکم یہ دیا کہ خزانہ اگر حاذق نے نکال لیا ہے تو وہ جہاں کہیں نظر آئے اسے قتل کردیا جائے باطنیوں اور خصوصاً فدائیوں کے لیے اپنے دشمن کو ڈھونڈ نکالنا کوئی مشکل کام نہیں تھا وسم کوہ سے بھاگ کر آنے والا یہ جوانسال آدمی جس کا نام حیدر بصری تھا دو روز بعد دو آدمیوں کو ساتھ لے کر شاہ در کے لئے روانہ ہو گیا
سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت مرو میں فوجی سرگرمیاں عروج کو پہنچی ہوئی تھیں حسن بن صباح کی طاقت کو کچلنے کے لیے ایک فوج تیار ہو رہی تھی لوگ اس فوج میں شامل ہو رہے تھے اور انہیں جنگ کی تربیت دی جا رہی تھی اب اس فوج کا ہدف قلعہ الموت تھا سب جانتے تھے کہ الموت کو فتح کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور ہے فوج کو ذہن نشین کرایا جارہا تھا کہ قلعہ الموت کی ساخت کیسی ہے اور شکل و صورت کیسی ہے اور وہ کس طرح ایک چٹان پر بنایا گیا ہے اور اس کے دروازے تک پہنچنے میں کیسی کیسی دشواریاں اور خطرے حائل ہیں
یہ حکم تو سلطان محمد کا تھا کہ ایسی فوج تیار کی جائے جس کی نفری کم نہ ہو اور اگر کم ہو بھی تو اس میں ایسا جذبہ اور ایسی اہلیت اور صلاحیت ہو کہ اگلی جنگ کو فیصلہ کن بنا سکے اور اس کے بعد باطنی فرقے کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہو لیکن سلطان محمد ضرورت سے زیادہ محتاط تھا وہ ابھی اس فوج کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا سلطان محمد کا وزیر ابونصر احمد تھا ابونصر احمد سلطان محمد کے باپ سلطان ملک شاہ کے وزیر خواجہ حسن طوسی نظام الملک مرحوم کا چھوٹا بیٹا تھا ابو نصر احمد اپنی نگرانی میں یہ فوج تیار کروا رہا تھا اور وہ اس کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن تھا اس معاملے میں وہ سلطان محمد سے اتفاق نہیں کرتا تھا اس کا ارادہ یہ تھا کہ الموت پر فوراً حملہ کردیا جائے تاکہ حسن بن صباح کو مزید تیاری کا موقع نہ ملے
سلطان محمد اسے ابھی حملے کی اجازت نہیں دے رہا تھا لیکن ابو نصر احمد کا باطنیوں کے خلاف جذبہ بڑا ہی شدید تھا اور کبھی کبھی تو وہ جذباتی بھی ہو جایا کرتا تھا ایک تو مسلمان کی حیثیت سے وہ حسن بن صباح کو ابلیس کہتا ہے اور اس سے شدید نفرت کرتا تھا اور اس کے ساتھ ابونصر احمد حسن بن صباح کو اپنا ذاتی دشمن بھی سمجھتا تھا پہلے یہ سنایا جاچکا ہے کہ ابو نصر احمد کے باپ نظام الملک مرحوم کو حسن بن صباح کے ایک فدائی نے قتل کیا تھا پھر ابو نصر احمد کا بڑا بھائی ابو المظفر علی وزیر بنا تو اسے بھی ایک فدائی نے قتل کر دیا تھا ابونصر احمد اپنے باپ اور اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کو بے تاب تھا
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ ابو نصر احمد کی یہ ایک خامی تھی کہ وہ جذبے میں جذبات کو شامل کر لیتا تھا اور پھر بھول جاتا تھا کہ جنگ میں کچھ احتیاط بھی لازمی ہوتی ہے
اب ابونصر احمد کو خبر ملی کہ وسم کوہ میں دو باطنی صراط مستقیم پر آکر حسن بن صباح کے دو فدائی صراط مستقیم پر آکر حسن بن صباح سے متنفر ہو گئے ہیں تو وہ اپنے کسی خیال کے پیش نظر وسم کوہ جانے کے لیے بے تاب ہو گیا اس نے سلطان محمد سے اجازت چاہی اور ساتھ یہ وجہ بتائی کہ وہ ان دونوں فدائیوں سے قلعہ الموت کے اندر کی باتیں معلوم کرے گا جو حملے میں ہمارے کام آئیں گی سلطان محمد نے اسے اجازت دے دی
ایک روز ابو نصر احمد محافظ دستے کے آٹھ گھوڑ سواروں کے ساتھ وسم کوہ روانہ ہوگیا اس کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی اس مسافت کو کم کرنے کے لیے اس نے گھوڑوں کی رفتار تیز رکھی اور اپنے محافظوں سے کہا کہ شام سے پہلے کہیں پڑاؤ نہیں کیا جائے گا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:48 }
ایک روز ابو نصر احمد محافظ دستے کے آٹھ گھوڑ سواروں کے ساتھ وسم کوہ روانہ ہوگیا اس کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی اس مسافت کو کم کرنے کے لیے اس نے گھوڑوں کی رفتار تیز رکھی اور اپنے محافظوں سے کہا کہ شام سے پہلے کہیں پڑاؤ نہیں کیا جائے گا گھوڑے دن بھر چلتے رہے اور شام کو پہلا پڑاؤ کیا گھوڑوں کو کھلایا پلایا گیا اور خود بھی کھا پی کر تھوڑا سا آرام کیا اور آدھی رات سے کچھ بعد ابونصر احمد نے روانگی کا حکم دیدیا اس طرح اگلے روز کے پچھلے پہر یہ قافلہ وسم کوہ پہنچ گیا
سالار اوریزی ابو نصر احمد کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا وہ بھی ابونصر احمد کا ہم خیال تھا اور چاہتا تھا کہ الموت پر فوراً حملہ کیا جائے لیکن دونوں مجبور تھے کیونکہ سلطان اجازت نہیں دے رہا تھا رات کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی ابونصر احمد کے کہنے پر سالار اوریزی نے ابن مسعود کو بلایا اور اس کا تعارف ابو نصر احمد سے کروایا
سالار اوریزی نے ابن مسعود کے جذبات اور باقی ساری باتیں ابونصر احمد کو سنائیں ابو نصر احمد نے بے تحاشا خراج تحسین پیش کیا اور اسے کہا کہ وہ اسے اپنی فوج میں بڑا عہدہ دے گا
مجھے کسی چھوٹے بڑے عہدے کی خواہش نہیں ابن مسعود نے کہا قابل احترام سالار اوریزی نے آپ کو بتا دیا ہے کہ میرا عزم کیا ہے اور میرے سینے میں کیسی آگ بھڑک رہی ہے میں حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کروں گا اور اپنی بہن کو واپس لاؤں گا
کیا تمہاری بہن تمہارے کہنے پر تمہارے ساتھ آ جائے گی؟
ابو نصر احمد نے پوچھا
نہیں! ابن مسعود نے جواب دیا میں تو نشے کی کیفیت سے نکل کر ہوش و حواس میں آگیا ہوں لیکن میری بہن اسی کیفیت میں ہوگی جس میں اسے رکھا جاتا ہے وہ تو مجھے پہچانے گی ہی نہیں اگر پہچان بھی لے گی تو مجھے اپنا بھائی تسلیم نہیں کرے گی اسے اٹھا کر لانا پڑے گا
یہ کام اکیلے نہیں کر سکو گے ابو نصر احمد نے کہا یہ ایک فوج کا کام ہے اور فوج بھی ایسی جو بہت ہی طاقتور ہو میں نے ایسی فوج تیار کرلی ہے میں تمہیں اس فوج کے ساتھ لے جاؤں گا اور تم میری رہنمائی کرو گے مجھے یہ بتاؤ کہ قلعے کا محاصرہ کر کے ہم قلعے میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں اور جب داخل ہو جائیں گے تو اندر ہمارا کیسا مقابلہ ہوگا
اصل مقابلہ تو اندر ہوگا ابن مسعود نے کہا اگر میں یہ کہوں کہ الموت میں داخل ہونا ناممکن ہے تو آپ شاید تسلیم نہ کریں الموت ایک قلعی بند شہر ہے جو ایک چٹان پر کھڑا ہے اگر آپ نے یہ باہر سے دیکھا ہے تو آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ محاصرہ کیسے کریں گے محاصرہ چٹان کے نیچے ہو گا جس سے اندر والوں کو یہ تکلیف پہنچا سکیں گے کہ باہر سے رسد اندر نہیں جا سکے گی اور اندر سے کوئی باہر نہ آ سکے گا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ چٹان کے دامن میں کھڑے ہو کر تیر پھینکیں اور وہ قلعے کی دیواروں تک پہنچ جائیں
دروازے کیسے ہیں؟
ابو نصر احمد نے پوچھا
بہت مضبوط! ابن مسعود نے جواب دیا چٹانوں جیسے مضبوط بڑی موٹی لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور ان پر لوہے کے خول چڑھے ہوئے ہیں قابل صد احترام وزیر! الموت قدرت کا ایک شاہکار ہے یا اسے ایک عجوبہ سمجھیں یقین نہیں آتا کہ یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر ہوا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ چٹان کا ایک حصہ ہے اور اسے قدرت نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے آپ حسن بن صباح کی دانش اور عقل تک نہیں پہنچ سکتے محاصرے میں نقصان آپ کا ہوگا وہ اس طرح کے اوپر سے جو تیر نیچے آئیں گے وہ خطا نہیں جائیں گے
قلعے میں داخل ہونے کی ایک ہی صورت ہے سالار اوریزی نے کہا اندر کچھ آدمی ہوں جو حسن بن صباح کے مخالف اور ہمارے حامی ہوں وہ اندر سے دروازے کھول دیں یا ایک ہی دروازہ کھول دیں
الموت کے اندر آپ کو کوئی ایک بھی انسان حسن بن صباح کا مخالف نہیں ملے گا ابن مسعود نے کہا وہ تو آپ کے مقابلوں میں جانوں کی بازی لگا دیں گے آپ کو کوئی غدار نہیں ملے گا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ابھی سے کچھ آدمی باطنیوں کے بہروپ میں الموت میں داخل کر دیں یہ آدمی یہ ظاہر کرتے رہیں گے کہ وہ حسن بن صباح کے مرید یا پیروکار ہی نہیں بلکہ اس کے شیدائی ہیں لیکن محترم سالار آپ کسی پتھر دل آدمی کو بھی اندر بھیج دیں تو وہ چند دنوں کے اندر ہی اندر آپ کا آدمی نہیں رہے گا الموت میں ایسے آدمی موجود ہیں جو کسی مشکوک کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے انھوں نے اس شخص کا ضمیر اور اس کی روح بھی دیکھ لی ہو اسے وہ قتل نہیں کرتے بلکہ جنت میں داخل کر دیتے ہیں پھر وہ خدا کو بھی بھول جاتا ہے اور جب وہ باہر نکلے گا تو اس عزم کے ساتھ نکلے گا کہ آپ کو قتل کردے
تم نے الموت میں تیس سال گزارے ہیں ابو نصر احمد نے کہا کیا تم کوئی طریقہ نہیں سوچ سکتے ہمارے پاس ایسے جاں باز موجود ہیں جو اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن صرف جان قربان کردینے سے ہی کچھ حاصل نہیں ہوا کرتا اپنا مقصد پورا ہو جائے اور جان چلی جائے تو ہم لوگ کہتے ہیں کہ شہیدوں کا لہو رنگ لایا کرتا ہے
میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ اندر کیا ہے اور یہ قلعہ کس قام کا ہے ابن مسعود نے کہا آپ کی فوج قلعے میں داخل ہو بھی گئی تو اصل لڑائی قلعے کے اندر ہوگی عموماً یوں ہوتا ہے کہ فاتح فوج قلعے میں داخل ہوتی ہے تو قلعے کی فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے یا شہر کی آبادی اپنی فوج کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ فاتح فوج شہر کو تباہ کر دے گی لیکن الموت میں معاملہ الٹ ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی فوج کو اندر کھینچنے کے لیے خود ہی دروازے کھول دیئے جائیں گے اور آپ اس خوش فہمی میں اندر چلے جائیں کہ آپ نے قلعہ سر کرلیا تو یہ ایک بڑا ہی خطرناک پھندہ ہوگا جس میں آپ کی فوج پھنسا کر تباہ و برباد کر دی جائے گی قلعے کے اندر آپ کو بھول بھلیاں ملیں گی ان میں سے وہی گزر سکتا ہے جو ان سے واقف ہو اجنبی ان بھول بھلیوں میں بھٹک جاتے ہیں قلعے اور شہر کے نیچے چٹان کاٹ کاٹ کر وسیع تہہ خانے بنے ہوئے ہیں اور ان میں جو بھی راستے ہیں وہ بھول بھلیوں جیسے ہیں اندر جاکر آپ کی فوج بکھر جائے گی یا فرد فرد بکھر جائیگی پھر فدائی اور دوسرے باطنی آپ کی فوج کو کاٹ دیں گے
ابن مسعود اچھا خاصا تجربے کار اور ہوشمند معلوم ہوتا تھا وہ ہر بات جنگی نقطہ نگاہ سے کر رہا تھا ابو نصر احمد اور سالار اوریزی اس سے جو تفصیلات معلوم کر رہے تھے وہ سب جنگی نوعیت کی تھی وہ سالاروں کی نگاہ سے الموت کے اندرونی ماحول کو دیکھ رہے تھے
مگرمچھ بڑا ہی خوفناک جانور ہوتا ہے ابن مسعود نے کہا جانور نہیں میں تو اسے درندہ کہوں گا اس پر نہ تیر اثر کرتا ہے نہ برچھی نہ تلوار لیکن اسکا بھی ایک نازک حصہ ہوتا ہے اور وہ ہے اس کا پیٹ وہاں ذرا سا چاقو مارو تو مگرمچھ بھی بس ہو جاتا ہے اسی طرح قلعہ الموت ایک پہاڑ نظر آتا ہے جسے زلزلے کے شدید جھٹکے بھی راستے سے نہیں ہٹا سکتے لیکن اس میں بھی ایک دو کمزوریاں ہیں ایک کمزوری اس شہر کی آبادی ہے یہ لوگ آپ کی فوج کے خلاف لڑیں گے لیکن جلدی حوصلہ ہار جائیں گے اصل لڑنے والے فدائی ہیں جن کی تعداد ہزار ہا ہے اور وہ پورا ایک لشکر ہے لیکن یہ لشکر پراسرار قتل اور خودکشی میں مہارت رکھتا ہے یا چھوری چاقو چلا سکتا ہے ان لوگوں کو امام نے حکم دے رکھا ہے کہ ہتھیار ڈالنے یا پکڑے جانے سے بہتر یہ ہے کہ خود کشی کر لو یہ لوگ جانوں کی بازی لگا کر آپ کا مقابلہ کریں گے لیکن جوں ہی دیکھیں گے کہ مقابلہ آسان نہیں تو اپنی تلوار اور خنجر اپنے ہی جسموں میں اتار لیں گے لیکن یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب آپ کی فوج بھی اس طرح جانوں کی بازی لگا کر یا یوں کہیں کی دیوانگی کے عالم میں لڑے گی اور ان لوگوں پر غالب آجائے گی
اب میں آپ کو الموت کا وہ پیٹ دکھاتا ہوں جو مگرمچھ کی طرح بہت ہی نازک ہے وہاں آپ چاقو کی نوک سے کھال چیر کر اسے بے بس بھی کر سکتے ہیں اور اس میں داخل بھی ہو سکتے ہیں یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ الموت کی تین اطراف دریا بہتا ہے اس کے پچھلے حصے میں جو چٹان ہے اس کے نیچے دامن میں ایک دروازہ چٹان کاٹ کاٹ کر بنایا گیا ہے وہاں سے دریا چٹان کے ساتھ ٹکرا کر گزرتا ہے یہ دروازہ جو ایک غار کے دہانے جیسا ہے تقریباً آدھا دریا میں ڈوبا رہتا ہے اندر کی طرف بڑا ہی مضبوط دروازہ لگایا گیا ہے جو اندر سے مقفل رہتا ہے دریا کا پانی اس دروازے تک آ جاتا ہے اور اگر دروازہ کھولا جائے تو پانی اور اندر آ جاتا ہے لیکن آگے راستہ دریا کی سطح سے اونچا بنایا گیا ہے اس لئے پانی آگے تک نہیں آ سکتا اس دروازے تک پہرا بھی ہوتا ہے لیکن بہت اندر کی طرف سنتری گشت کرتا ہے یہ قلعے کا تہہ خانہ ہے جس میں اترو تو آگے بھول بھلیاں آ جاتی ہیں ان میں سے وہی اس دروازے پر پہنچ سکتا ہے جو ان بھول بھلیوں سے واقف ہو
یہ دروازہ کس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے؟
ابو نصر احمد نے کہا
نکل بھاگنے کے لیے ابن مسعود نے کہا میں فدائیوں کے اس درجے تک پہنچ گیا تھا جس درجے کے ہر فدائی کو قلعے کے بہت سے راز بتا دیے جاتے ہیں میں نے یہ ساری بھول بھلیاں اور یہ راستے دیکھے ہوئے ہیں دریا کی طرف یہ چور دروازہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ قلعہ کوئی طاقتور فوج فتح کرلے تو حسن بن صباح اور اس کے قریبی مصاحب مشیروں وغیرہ اس دروازے سے بھاگ نکلیں دروازے سے کچھ دور کشتیاں ہر وقت تیار رہتی ہیں کوئی مان ہی نہیں سکتا کہ دریا میں دروازہ بھی ہوگا اندر سے اس دروازے تک جو راستہ جاتا ہے وہ ایسی بھول بھلیوں میں سے گزر کر جاتا ہے کہ کوئی بھولے بھٹکے بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا میں پہنچ سکتا ہوں
بس اتنا کافی ہے ابو نصر احمد نے کہا میں جو معلوم کرنا چاہتا تھا وہ تم نے زیادہ ہی تفصیل سے بیان کردیا ہے جس کی مجھے توقع نہیں تھی مجھے ایسے ہی ایک آدمی کی ضرورت تھی جو الموت کے اندر چلا جائے اور دروازہ کھولے یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہاں کوئی چور دروازہ بھی ہے وہ تم نے بتا دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ صرف تم اس دروازے تک پہنچ سکتے ہو اب تم بتاؤ کہ الموت کو محاصرے میں لیں تو کیا تم اندر جاکر وہ دروازہ کھول سکتے ہو؟
ایک بات آپ بھول گئے محترم وزیر! سالار اوریزی نے کہا پہلا کام تو یہ ہے کہ یہ یا کوئی اور قلعے میں داخل ہو سوال یہ ہے کہ وہ داخل کس طرح ہوگا؟
وہ میں ہوں گا ابن مسعود نے کہا یہ خبر حسن بن صباح تک پہنچ چکی ہوگی کہ میں نے وسم کوہ میں تمام باطنیوں کی نشاندہی کرکے سب کو مروا دیا ہے ان میں سے ایک بھاگ گیا تھا وہ یقین حیدر بصری تھا میں الموت چلا جاؤں گا اور حسن بن صباح سے کہوں گا کہ ان باطنیوں کو پکڑوانے اورمروانے والا یہی حیدر بصری تھا اور میں تو سلجوقیوں کا قیدی بن گیا تھا اور انہوں نے مجھ پر اتنا تشدد کیا کہ میرے تو ہوش بھی ٹھکانے نہیں رہے اور اب میں فرار ہو کر آیا ہوں
ہم تمہیں ایسے خطرے میں بھی نہیں ڈالنا چاہتے ابونصر احمد نے کہا حسن بن صباح استادوں کا استاد ہے وہ تمہاری بات کو سچ مانے گا ہی نہیں
یہ آپ مجھ پر چھوڑیں ابن مسعود نے کہا جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح فریبکار ہی فریب کار کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا ڈھونگ رچاؤں گا یہ تو ابھی سوچنا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ میں حسن بن صباح کو دھوکا دے سکوں گا
سب دیکھ رہے تھے کہ ابن مسعود حسن بن صباح اور اس کے فرقے کے خلاف اس قدر بھپرا اور بھڑکا ہوا تھا کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس قسم کے خطرے مول لینے کو بھی تیار ہوگیا تھا کہ وہ الموت جاکر حسن بن صباح جیسے ابلیس کو دھوکہ دے گا اور پھر اس کے بعد چور دروازہ بھی کھول دے گا بہرحال سالار اوریزی اور ابو نصر احمد کو یہ کاوش نہ کرنی پڑی کہ وہ ابن مسعود کو دلائل دے کر یا کسی اور طریقے سے الموت جانے کے لیے تیار کرتے وہ خود ہی تیار ہو گیا تھا اب سوال یہ سامنے آیا کہ ابن مسعود کب جائے اور اسے کس طرح بھیجا جائے اور اسے کس طرح اندر اطلاع بھیجی جائے کہ اب وہ دریا والا دروازہ کھول دے
اس سوال پر جب بات شروع ہوئی تو مشکل یہ سامنے آئی کہ سلطان محمد کو کس طرح راضی کیا جائے کہ وہ الموت پر حملے کی اجازت دے دے ابونصر احمد کہتا تھا کہ فوج بالکل تیار ہے سالار اوریزی ابونصر احمد کا ہم خیال تھا آخر طے یہ پایا کہ جب فوج مرو سے کوچ کرے گی تو پانچ سات روز پہلے وسم کوہ ابن مسعود کو اطلاع بھجوا دی جائے گی کہ اب وہ الموت چلا جائے الموت کو محاصرے میں لے لیا جائے گا تو ابن مسعود اگر حسن بن صباح کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا تو وہ کسی رات شہر کی دیوار سے مشعل ہلائے گا جو یہ اشارہ ہوگا کہ اس نے دروازہ کھول دیا ہے اور پھر ابو نصر احمد کچھ جانبازوں کو دریا کی طرف سے قلعے میں داخل کر دے گا اور وہ کام کر لیں گے
نہیں قابل احترام وزیر! ابن مسعود نے کہا مجھے اتنا انتظار نہیں کرنا چاہیے بہتر یہ ہے کہ میں کل صبح روانہ ہو جاؤں گا اور اپنا کھیلوں گا اگر میں کامیاب ہوگیا تو مجھے خاصا وقت چاہیے کہ میں ان راستوں سے اور زیادہ واقف ہو جاؤں اور ان راستوں کے سنتریوں کے ساتھ بھی علیک سلیک ہو جائے اور انہیں یہ تاثر ملے کہ میں اس طرف امام کی اجازت یا حکم سے آتا جاتا رہتا ہوں آپ جب کبھی الموت کو محاصرے میں لے لیں گے تو میں دریائی دروازہ کھول کر مشعل سے آپ کو اشارہ دے دوں گا
وزیر نصراحمد اور سالار اوریزی ابن مسعود کی اس تجویز سے متفق ہوگئے اور اسے کہہ دیا کہ وہ اگلی صبح جس حلئیے اور جس حالت میں جانا چاہتا ہے روانہ ہو جائے
اگلے روز ابونصر احمد مرو کو واپسی سفر پر روانہ ہوا تو سالار اوریزی بھی اس کے ساتھ تھا ابو نصر احمد نے ہی سالار اوریزی سے کہا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے اور دونوں مل کر سلطان محمد کو قائل کریں گے کہ وہ فوری طور پر حملے کی اجازت دے دیں
تقریباً تین دنوں کی مسافت کے بعد دونوں مرو پہنچے اور اگلے روز دونوں سلطان محمد کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے سلطان محمد کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح انہوں نے الموت کے اندرونی ساخت اور دیگر احوال وکوائف کے متعلق کتنی قیمتی معلومات حاصل کرلی ہیں اور جس شخص نے یہ معلومات دی ہے وہ محاصرے سے پہلے الموت میں داخل ہو چکا ہو گا دونوں نے سلطان محمد کو ابن مسعود کی ساری باتیں سنائی اور کہا کہ انہیں حملے کی اجازت دی جائے
بہت دیر بعد تبادلہ خیالات اور بحث مباحثہ ہوتا رہا اور آخر سلطان محمد نے ابو نصر احمد کو الموت پر حملے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ کوچ ایک مہینے بعد ہوگا اور اس ایک مہینے میں فوج کو دن رات تیاری کروائی جائے گی سلطان محمد نے دوسری بات یہ کہی کہ اس حملے میں سالار اوریزی شامل نہیں ہوگا بلکہ وہ واپس وسم کوہ جاکر اپنی فوج تیار کرے گا اور ابو نصر احمد کو جتنی بھی کمک کی ضرورت ہوگی وہ سالار اوریزی وسم کوہ سے بھیجتا رہے گا
اس وقت جب ابو نصر احمد اور سالار اوریزی مرو میں سلطان محمد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے الموت میں حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی کہ وسم کوہ سے ایک فدائی جو اپنا نام ابن مسعود بتاتا ہے بڑی بری حالت میں آیا ہے اور شرف ملاقات کا متمنی ہے حسن بن صباح کسی فدائی کو نہیں ٹالا کرتا تھا اس نے ابن مسعود کو بلایا
ابن مسعود جب حسن بن صباح کے سامنے گیا تو رک گیا اس کی حالت بہت ہی بری تھی کپڑے انتہائی میلے اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے وہ ننگے پاؤں تھا اس کے ایک پاؤں سے تھوڑا تھوڑا خون نکل رہا تھا اس کے سر کے بال مٹی سے اٹے ہوئے تھے اس کے جسم سے بدبو آتی تھی
وہ حسن بن صباح کے کمرے میں داخل ہوا تو صاف نظر آتا تھا کہ اس کی ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہیں وہ پاؤں گھسیٹ رہا تھا وہ رکا اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوئیں پھر اس کا سر ڈولا اور وہ اس طرح گرا کے پہلے اس کے گھٹنے فرش پر لگے پھر پہلو کو لڑھک گیا حسن بن صباح نے کہا اسے طبیب کے پاس لے جایا جائے اور وہ اس کا علاج معالجہ کرے اور اسے کچھ کھلایا پلایا بھی جائے
یہ کون ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا مجھے اس کا نام ابن مسعود بتایا گیا ہے اور یہ وسم کوہ سے آیا ہے کیا یہ وہی ابن مسعود نہیں جس کے متعلق حیدر بصری نے یہاں آکر بتایا تھا کہ ابن مسعود نے وہاں تمام فدائیوں کو پکڑوا دیا تھا اور ان سب نے اپنی جانیں اپنے ہاتھوں لے لی ہیں؟
حسن بن صباح کو بتایا گیا کہ یہ وہی ابن مسعود ہے حسن بن صباح کچھ حیران ہوا کہ اس نے اگر وسم کوہ میں اپنے ساتھیوں کو پکڑوا دیا تھا تو اسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا اور سلجوقی ایسے تو بے مروت نہیں کہ اسے انعام و اکرام نہ دیتے اور اس حالت میں اسے چھوڑ دیتے حسن بن صباح کے مشیروں نے کہا کہ ان سوالوں کے جواب یہی شخص دے سکتا ہے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا چاہیے
حیدر بصری کو حسن بن صباح نے اس کام کے لیے شاہ در کے لئے روانہ کر دیا تھا کہ وہ حاذق سے ملے اور اس سے پوچھے کہ اس نے ابھی تک خزانہ الموت کیوں نہیں پہنچایا حیدر بصری کے ذمے یہ کام بھی تھا کہ حاذق اگر شاہ در سے غیر حاضر ہے تو حیدر بصری اسے ڈھونڈے اور اگر وہ نہ ملے تو حیدر بصری اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اس جگہ چلا جائے جہاں خزانہ رکھا ہے اور وہاں سے اٹھا کر الموت پہنچا دے حیدر بصری نے حسن بن صباح کو بتایا تھا کہ اسے معلوم ہے وہ خزانہ کہاں ہے اور وہاں سے کس طرح نکالا جا سکتا ہے
ابن مسعود کو رات بہت دیر بعد ہوش میں آیا اسےنہلایا گیا صاف ستھرے کپڑے پہنائے گئے اور پھر اسے کچھ کھلایا پلایا گیا طبیب نے اسے سلا دیا تاکہ اس کی کمزوری کم ہو جائے اور پھر یہ غشی میں نہ چلا جائے
اگلی صبح اسے حسن بن صباح کے پاس لے گئے حسن بن صباح اس کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا وہ جانتا تھا کہ وسم کوہ میں یہ انقلاب کس طرح آیا ہے حیدر بصری نے اسے بتایا تو تھا لیکن ابن مسعود کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہونے لگا اور وہ ابن مسعود سے وسم کوہ کی ورادات سننے کو بے تاب تھا
ابن مسعود کو جب حسن بن صباح کے کمرے میں داخل کیا گیا تو اس سے اچھی طرح چلا نہیں جاتا تھا حسن بن صباح نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا کہ وہ اس حالت میں کہاں سے آیا ہے اور اس پر کیا گزری ہے اور وسم کوہ میں کیا ہوا تھا
میں سلجوقیوں کی قید سے فرار ہو کر آیا ہوں یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے لرزتی کانپتی اور قدر نحیف آواز میں کہا وہ ظالم سلجوقی مجھ سے الموت کی باتیں پوچھتے تھے اور یہ بھی پوچھتے تھے کہ یہاں اور کون کون تمہارے فرقے کا آدمی ہے میں انہیں کوئی جواب نہیں دیتا تھا تو وہ مجھے ایسی ایسی اذیتیں دیتے تھے جو شاید ہی کوئی انسان برداشت کر کے زندہ رہ سکتا ہو لیکن میں اپنے شیخ الجبل اور امام کو ذہن میں رکھ لیتا تھا اور میرا جسم ہر اذیت برداشت کر لیتا تھا میں نے انہیں کچھ بھی نہیں بتایا
پھر تمہارے ساتھیوں کی نشاندی کس نے کی تھی؟
حسن بن صباح نے پوچھا تم شاید نہیں جانتے کہ تمہارا ایک ساتھی حیدر بصری یہاں پہنچ گیا ہے اور وہ پوری بات سنا چکا ہے
حیدر بصری! ابن مسعود نے کہا اس نے تو یہاں پہنچ کر اپنے مطلب کی کہانی سنانی ہی تھی میں نہیں جان سکتا نہ جاننا چاہوں گا کہ حیدر بصری نے آپ کو کیا بات سنائی ہے میں یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم سب کو حیدر بصری نے مروایا ہے اس سے پہلے ہمارا ایک فدائی وہاں سالار اوریزی کو قتل کرنے گیا تھا لیکن ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی کے جال میں آ گیا اور اس نے اُن دو آدمیوں کو مروا دیا جنہوں نے اسے آپ کے حکم کے مطابق رکھا تھا سالار اوریزی نے ان دونوں کو گرفتار کرکے سرعام ان کے سر قلم کر دیے ہیں
ابن مسعود نے عبید عربی کا نام اس لیے نہیں لیا تھا کہ وہ اسے کسی مصیبت میں ڈالنا چاہتا تھا بلکہ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ اب یہ باطنی اسے پکڑ کر الموت نہیں لا سکیں گے
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا عبید عربی کی نشاندہی پر حیدر بصری پکڑا گیا ہے حیدر بصری نے یقیناً سلجوقیوں سے منہ مانگا انعام لیا اور ہم سب کو پکڑوا دیا سلجوقیوں نے سب سے پہلے مجھے پکڑا اور پوچھا کہ یہاں باطنی کون کون ہیں میں نے انہیں صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میرے جسم کی بوٹیاں نوچنی شروع کر دو میں اپنے کسی ساتھی کا سراغ نہیں دونگا تب سالار اوریزی نے خود آکر مجھے بتایا کہ تمہارے ایک ساتھی حیدر بصری نے سب کچھ بتا دیا ہے اور اسے اتنا زیادہ انعام دیا گیا ہے جو تم لوگ تصور میں بھی نہیں لا سکتے میں نے کہا کہ تم لوگوں کو ہر باطنی کا پتہ چل گیا ہے تو مجھ سے کیوں پوچھتے ہو یا شیخ الجبل انہوں نے مجھے تو مار ہی ڈالا تھا اور شاید وہ یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ میں اب یہاں سے نکل ہی نہیں سکتا جسمانی طور پر میں بہت ہی کمزور ہو گیا تھا آخر ایک روز مجھے فرار کا موقع مل گیا اور میں وہاں سے نکل آیا امام آپ کے عظیم نام پر میں نے اس جسمانی حالت میں بھوکے پیاسے یہ سفر طے کیا ہے
ابن مسعود کی آواز یوں ڈوبتی چلی جا رہی تھی جیسے وہ ابھی بے ہوش ہوجائے گا وہ ذرا خاموش ہوا اور لمبے لمبے سانس لئے اور پھر کمزور سی آواز میں بولنے لگا
یہاں میں اتنی مسافت پیدل طے کرکے جھوٹ بولنے نہیں آیا یا امام! ابن مسعود نے کہا میں وہیں وسم کوہ میں رہتا تو اپنی جنت کی حوروں جیسی ایک نوجوان لڑکی کا خاوند ہوتا مجھے ایسی دو لڑکیاں یوں دکھائی گئی تھیں کہ انہیں باری باری میرے حوالے کر دیا گیا تھا میرے لیے وہاں شہزادوں جیسی زندگی تھی لیکن میں شیخ الجبل کو جان دے سکتا ہوں دھوکہ نہیں دے سکتا
اگر حیدر بصری کو تمہارے سامنے بٹھا دیا جائے حسن بن صباح نے کہا اور وہ وہی بیان دے جو وہ دے چکا ہے تو تم اسے کس طرح جھٹلاؤ گے؟
یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا اس وقت حیدر بصری کو میرے سامنے بیٹھا ہوا ہونا چاہیے تھا آپ اسے بلاتے کیوں نہیں میں تو اس امید پر آیا تھا کہ حیدر بصری کی موجودگی میں یہ سارا بیان دوں گا
وہ شاہ در چلا گیا ہے حسن بن صباح نے کہا اسے آ لینے دو تمہیں ایک بار پھر حیدر بصری کی موجودگی میں یہ بیان دینا پڑے گا
میری ایک التجا ہے یا شیخ الجبل! ابن مسعود نے کہا آپ اسے یہاں فوراً بلوا لیں میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میرے جسم پر آپ کو کوئی زخم یا کوئی چوٹ نظر آئے گی لیکن آپ کی آنکھ میرے جسم کے اندر دیکھ سکتی ہے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ میں زندہ کس طرح ہوں میرے جسم کے اندر اتنی چوٹیں ہیں کہ میں شاید جانبر نہیں ہو سکوں گا میں مرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ یقین ہوجائے کہ میں سچا اور حیدر بصری جھوٹا اور دھوکے باز ہے
حسن بن صباح کو جیسے یقین ہونے لگا کہ ابن مسعود جھوٹ نہیں بول رہا لیکن حیدر بصری کو اس نے شاہ در بھیج دیا تھا حسن بن صباح نے اپنے دو مشیروں سے بات کی کہ حیدر بصری کب تک واپس آ سکتا ہے مشیروں نے کچھ باتیں کچھ مشورے دیے اور حسن بن صباح کچھ دیر ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ وہ تو خزانہ لانے گیا ہے اسے ابھی واپس نہ بلوایا جائے تو ٹھیک ہے
کیسا خزانہ؟
ابن مسعود نے بیدار ہوتے ہوئے بلکہ چونک کر پوچھا کونسا خزانہ؟
اگر آپ نے اسے کہیں سے خزانہ یا کوئی قیمتی مال لانے کے لئے بھیج دیا ہے تو پھر یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ واپس آ جائے گا آپ ایک بڑے زہریلے سانپ کو اعتماد میں لے رہے ہیں اس کے پیچھے کچھ آدمی بھیجیں جو اسے پکڑ کر لے آئے کوشش کریں کہ وہ خزانے تک نہ پہنچ سکے
ابن مسعود کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ خزانے کا معاملہ کیا ہے شاہ در سے دور جھیل میں سے جو خزانہ حاذق نکالنے گیا تھا اس کے متعلق ابن مسعود کو کچھ بھی معلوم نہ تھا پھر بھی وہ دماغ لڑا لڑا کر بات کر رہا تھا اور اس کی ہر بات اب قیاس آرائیوں سے تعلق رکھتی تھیں وہ اسی حسن بن صباح کا تربیت یافتہ تھا اسی شیخ الجبل اور امام نے اسے بدی اورابلیسیت کے راستے پر ڈالا تھا اس نے بہت حد تک حسن بن صباح کو متاثر کرلیا تھا اس کے بولنے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابن مسعود کو کو سچا سمجھنے لگا ہے اس نے یہ فیصلہ سنایا کہ ابن مسعود کو حیدر بصری کی واپسی تک قید میں نہ ڈالا جائے بلکہ اپنی نگرانی میں رکھا جائے اور یہ پابندی عائد کردی جائے کہ یہ قلعے سے باہر نہ جائے
اس وقت حیدر بصری اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ شاہ در میں اپنے باطنی ساتھیوں کے یہاں بیٹھا ہوا تھا اس نے حسن بن صباح سے یہ تو کہہ دیا تھا کہ وہ عبدالملک بن عطاش کے خزانے والی جگہ سے واقف ہے لیکن شاہ در پہنچ کر اسے خیال آیا کہ اس جگہ تک پہنچنے کا طریقہ اور راستہ تو اسے معلوم ہی نہیں نہ یہ معلوم ہے کہ خزانہ چٹانوں میں کس جگہ رکھا گیا تھا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پریشانی کے عالم میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا
وہ عبدالملک بن عطاش کے عروج کے زمانے میں شاہ در رہ چکا تھا حاذق بھی یہیں تھا حیدر بصری بھی حاذق کے درجے کا فدائ تھا اس لیے وہ عبدالملک بن عطاش کی محفل میں جایا کرتا تھا اور کبھی کوئی راز کی بات ہوتی تو اس میں بھی حیدر بصری کو شامل کیا جاتا تھا لیکن جہاں تک خزانے کا تعلق تھا عبدالملک بن عطاش نے حیدر بصری کو اس سے ناواقف رکھا تھا اسے اس خزانے کا جو پتہ چلا تھا وہ حاذق نے اسے بتایا تھا حاذق کے ساتھ حیدر بصری کی بڑی گہری دوستی تھی جب حاذق نے اسے خزانے کے متعلق بتایا تو اس نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسے شخص کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اب حسن بن صباح نے اس کا براہ راست تعلق پیدا کر دیا اور اسے شاہ در بھیج دیا کہ وہ خزانہ نکال کر لے آئے اور حیدر بصری نے پورے اعتماد کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ لے آئے گا مگر جب تفصیلات جاننے کی ضرورت پڑی تو حیدر بصری کو خیال آیا کہ وہ تو صرف ایک جھیل اور جھیل کے درمیان تھوڑے سے چٹانی علاقے سے آگاہ ہے اور اس سے زیادہ اسے کچھ بھی معلوم نہیں
ایک روز نور کا باپ اکیلا اپنے کھیتوں میں گھوم پھیر رہا تھا نور اپنے گھر میں تھی اچانک دو آدمیوں نے پیچھے سے نور کے باپ کو پکڑ لیا وہ پیچھے مڑا تو دیکھا ان میں ایک حیدر بصری تھا جیسے وہ بڑی اچھی طرح جانتا تھا پہلے سنایا جاچکا ہے کہ نور کا باپ عبدالملک کا خاص معتمد ملازم تھا اس لئے عبدالملک کے پاس جو لوگ آتے جاتے رہتے تھے انہیں نور کا باپ بڑی اچھی طرح جانتا تھا
اوہ حیدر بصری ہو نور کے باپ نے مسرت کے لہجے میں کہا تم پھر آگئے ہو؟
تمہیں مل کر میرا دل خوش ہو گیا ہے لیکن میرے دوست بہت احتیاط سے رہنا سلجوقی سلطان سنجر یہاں موجود ہے اور سلجوقی ذرا سے شک پر بھی باطنیوں کو پکڑ لیتے ہیں
ہمیں دھوکا نہ دے بڈھے! حیدر بصری نے کچھ طنز اور غصے کے لہجے میں کہا مجھے الموت میں معلوم ہو گیا تھا کہ تو نے اور تیری بیٹی نور نے پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش کو دھوکا دیا تھا اور اس کی شکست کا باعث بنے تھے
اور اب یہ سلجوقیوں کا وفادار بن گیا ہوگا حیدر بصری کے ساتھی نے طنزیہ کہا اس کے پاس اتنی خوبصورت لڑکی جو ہے
نور کے باپ نے پراعتماد اور پراثر لہجے میں انہیں بتانا شروع کردیا کہ اس نے کسی کو دھوکا نہیں دیا بلکہ عبدالملک بن عطاش نے یہاں سے جاتے وقت ان کی پروا ہی نہ کی اور باپ بیٹی کو سلجوقی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے گئے اس نے انہیں یہ یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ وہ ابھی تک حسن بن صباح کا پیروکار ہے اور اس نے اپنی بیٹی کسی کے حوالے نہیں کی نہ ہی وہ اسے یہاں کسی سے بیاہے گا
تم نہیں جانتے حیدر بصری! نور کے باپ نے کہا کہ تمہیں دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے میں تم جیسے کسی ساتھی کے انتظار میں تھا کہ وہ مجھے اور میری بیٹی کو الموت پہنچا دے حاذق تھا اسے میں چوری چھپے مل لیا کرتا تھا اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اور میری بیٹی کو الموت لے جائے گا لیکن وہ ایسا گیا کہ وہ واپس ہی نہیں آیا
یہاں نہیں حیدر بصری نے کہا ہمارے ساتھ چلو اور وہاں باتیں ہونگی ہم تمہیں پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ تمہیں ہم نے زندہ چھوڑنا ہی نہیں چونکہ تم ہمارے ساتھی رہے ہو اس لیے تمہیں یہ موقع دیں گے کہ جو کہنا چاہتے ہو کہہ لو
تمہاری جگہ نہیں تم میرے گھر چلو نور کے باپ نے کہا وہاں تمہیں میری بیٹی بھی ملے گی اور پھر میں تمہیں یقین دلاؤں گا کہ میں تمہارا ہی ساتھی ہوں اور یہاں کچھ مجبوری اور زیادہ تر اپنے مقصد کے لئے رکا ہوا ہوں
حیدر بصری اور اس کا ساتھی اس کے ساتھ جانے پر راضی نہیں ہو رہے تھے حیدر بصری نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ وہ انھیں پکڑوا دے گا
تم مجھے یرغمال بنائے رکھو نور کے باپ نے کہا تم دونوں کے پاس خنجر تو ضرور ہوں گے اگر نہیں تو پھر تم فدائی ہو ہی نہیں سکتے تمہیں جہاں تک شک ہو کہ میں نے تمہیں دھوکا دیا ہے اور اب تم پکڑے جاؤں گے تو خنجر میرے سینے میں اتار دینا اور نکل بھاگنا اور نکل نہ سکے تو اپنے آپ کو ختم کرنا تو جانتے ہی ہو میں کہتا ہوں میرے ساتھ چلو
حیدر بصری اور اس کا ساتھی کوئی جاھل اور گنوار تو نہ تھے کہ اس کی باتوں میں آجاتے وہ بھی تجربے کار آدمی تھا اور اتنی زیادہ عمر میں اس نے عملی زندگی کا بہت تجربہ حاصل کر لیا تھا بہت سی بحث اور جھک جھک کے بعد حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو اپنے گھر لے جانے میں کامیاب ہوگیا
نور نے حیدر بصری کو دیکھا تو اسے پہچاننے میں کوئی دشواری محسوس نہ ہوئی نور نے حیدر بصری کو اپنے سابق خاوند عبدالملک بن عطاش کے ساتھ کئی بار دیکھا تھا گھر میں داخل ہوتے ہی نور کے باپ نے نور کو آنکھوں سے ایسا اشارہ دے دیا جو نور سمجھ گئی اور بڑے تپاک سے حیدر بصری سے ملی نور نے بھی ایسی باتیں کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تک باطنی ہے اور حسن بن صباح کو اپنا امام سمجھتی ہے اس نے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کی خوب خاطر تواضع کی
اس دوران حیدر بصری اور اس کا ساتھی نور کے باپ کے ساتھ باتیں کرتے رہے صاف پتہ چلتا تھا کہ انہیں نور کے باپ پر ابھی اعتبار نہیں آیا اور اسے شاہ در کی شکست کا مجرم سمجھ رہے ہیں نور کے باپ نے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کوئی زیادہ باتیں نہ کی اور یہ کہا کہ حاذق یہاں ہوتا تو وہ ثبوت پیش کرتا کہ وہ ابھی تک حسن بن صباح کا مرید ہے یا نہیں یہاں سے حاذق کی بات چلی تو نور کے باپ نے کہا کہ وہ اتنا ہی جانتا ہے کہ حاذق کسی جگہ کی بات کر رہا تھا کہ وہاں پیرومرشد عبدالملک بن عطاش نے خزانہ رکھا تھا
خزانے کی بات شروع ہوئی تو حیدر بصری کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ وہ اسی خزانے کے لیے آیا ہے اور وہ خزانے والی جگہ سے بھی واقف ہے لیکن یہ بھول گیا ہے کہ اس جگہ تک کس طرح پہنچا جا سکتا ہے
نور کے باپ نے حیدر بصری کی یہ بات سنی تو اس کے دماغ میں روشنی چمکی اور اس کے چہرے پر رونق آگئی
اب میں تمہیں یقین دلا سکوں گا کہ میں کس کا وفادار ہوں نور کے باپ نے حیدر بصری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا میں تمہیں وہاں تک لے جاؤں گا اور سیدھا خزانے تک پہنچا دوں گا ظاہر ہے تم لوگ خزانہ نکال کر واپس شاہ در نہیں آؤ گے بلکہ وہیں سے الموت چلے جاؤ گے میں نور کو بھی ساتھ لے جاؤں گا اور تم لوگ خزانے کے ساتھ ہم دونوں کو بھی الموت لے چلنا اس طرح میں اور میری بیٹی سلجوقیوں کی قید سے اور اس پابند زندگی سے آزاد ہو جائیں گے
نور کے باپ نے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو بتایا کہ حاذق کے ساتھ اس کا یارانہ بڑا ہی گہرا اور رازدارانہ تھا حاذق نے اسے خزانے والے راز میں بھی شریک کر رکھا تھا
حیدر بصری نے جب یہ بات سنی تو وہ بھول ہی گیا کہ نور کا باپ مشتبہ اور مشکوک آدمی ہے اس کے ذہن پر تو اس کا شیخ الجبل امام حسن بن صباح سوار تھا اس نے نور کے باپ سے کہا کہ وہ اس خزانے کو نکالنے میں اس کی مدد کرے اور وہ اسے اور اس کی بیٹی کو الموت پہنچا دے گا
ظاہر ہے یہ تفصیلات اور یہ منصوبے کوئی اتنی جلدی طے نہیں ہوئے ہوں گے ہوا یہ کہ نور کے باپ نے کہا کہ وہ ایک اپنے قابل اعتماد آدمی کو بھی ساتھ لے جائے گا اور تمام انتظامات مکمل کر لے گا اس نے یہ بھی کہا کہ اسے باہر نکلنا پڑے گا تاکہ وہ آدمی کو بھی تیار کر لے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو یہ سن کر شک ہوا کہ یہ شخص انہیں پکڑوا دیئے گا حیدر بصری نے یہ شک صاف الفاظ میں ظاہر کر دیا
پھر اس کا مطلب یہ ہو گا نور کے باپ نے کہا کہ تم صرف مجھے اور میری بیٹی کو اپنے ساتھ قیدی بنا کر لے جاؤ گے اور خزانہ تمہارے ساتھ نہیں ہوگا اگر خزانہ چاہتے ہو تو مجھے باہر نکلنے دو یہ ہے میری بیٹی اسے یرغمال بنا کر جہاں جی چاہے لے جاؤ میں دلی طور پر یہ چاہتا ہوں کہ ہم سب الموت اکٹھے جائیں اور خزانہ ہمارے ساتھ ہو اس طرح مجھے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ شیخ الجبل میری نیت پر شک نہیں کرے گا اور اس کے دل سے یہ الزام نکل جائے گا کہ شاہ در کی شکست کا ذمہ دارمیں ہوں
نور کے باپ نے اس مسئلے میں بھی حیدر بصری کو اپنا ہم خیال بنا لیا اور اسے کہا کہ وہ ایک بڑی گھوڑا گاڑی اور تین زندہ بھیڑوں کا انتظام کرلے حیدر بصری نے پوچھا کہ بھیڑوں کو کیا کرنا ہے تو نور کے باپ نے کہا کہ یہ وہاں چل کر بتاؤں گا وہ جب حاذق کے ساتھ خزانے والی جھیل تک جا رہا تھا تو حاذق پانچ بھیڑیں اپنے ساتھ لے گیا تھا نور کے باپ نے اس سے پوچھا تھا کہ بھیڑوں کا کیا استعمال ہوگا تو حاذق نے یہی جواب دیا تھا کہ وہاں چل کر بتاؤں گا
مختصراً یہ واقعہ یوں ہوا کہ حیدر بصری اور اس کا ساتھی گھوڑا گاڑی کا انتظام کرنے چلے گئے اور نور کا باپ یہ بتا کر کہ وہ اپنے آدمی کے پاس جا رہا ہے سلطان سنجر کے وزیر کے پاس چلا گیا اور اسے بتایا کہ دو فدائی اس کے جال میں آگئے ہیں لیکن وہ انہیں پکڑوانا نہیں چاہتا بلکہ بہت برے انجام تک پہنچانا چاہتا ہے اس نے وزیر کو یہ بھی بتایا کہ انہیں حسن بن صباح نے اسی خزانے کے لیے بھیجا ہے جو سلطنت کے سرکاری خزانے میں جمع ہو چکا ہے
وزیر نے اسے اجازت دے دی اور کہا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی بیٹی کو بھی پوری طرح محفوظ رکھے اور کوئی خطرہ مول نہ لے اور اسے جو کچھ بھی چاہیے وہ یہاں سے لے لے
رات کا پہلا پہر گزر گیا تھا شاہ در شہر پر نیند کا غلبہ طاری ہو چکا تھا اس شہر کے مضافات کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک گھوڑا گاڑی نکلی جس کا رخ اس جھیل کی طرف تھا جس کےوسط میں عبدالملک بن عطاش کا خزانہ تھا اور جو اب وہاں نہیں تھا گاڑی کے آگے دو گھوڑے جتے ہوئے تھے اور ان کی بھاگیں نور کے باپ کے ہاتھ میں تھی گاڑی میں نور بھی تھی حیدر بصری اور اس کے دو ساتھی تھے اور ایک آدمی وہ تھا جیسے نور کا باپ اپنے ساتھ لایا تھا گاڑی میں تین بھیڑیں بھی تھیں نور کا باپ راستے سے اچھی طرح واقف تھا اس راستے پر وہ جا بھی چکا تھا اور واپس بھی آ چکا تھا
شہر سے کچھ دور جا کر نور کے باپ نے گھوڑوں کی رفتار تیز کر دی وہ اس کوشش میں تھا کہ صبح طلوع ہونے تک وہ آبادیوں سے دور جنگل بیابان میں جا پہنچے اس نے سب کو بتا دیا تھا کہ پوری رات گاڑی چلتی رہے گی اور صبح کے وقت کہیں رکیں گے
صبح طلوع ہوئی تو وہ ایک ایسے جنگل بیابان میں پہنچ چکے تھے جس کے پیڑ پودوں کے لئے انسان ایسا جانور تھا جو انہوں نے پہلے کبھی دیکھا نہ ہو دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا اور پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے کبھی کسی انسان کا گزر نہیں ہوا نور کا باپ اس بیابان میں سے پہلے حاذق کے ساتھ گزرا تھا انہوں نے کچھ دیر گھوڑوں کو آرام دیا اور خود بھی کچھ کھایا پیا اور پھر چل پڑے
نور اور اس کا باپ حاذق کے ساتھ اس طرف آئے تھے تو حاذق بڑی جلدی میں تھا اس نے گھوڑوں کو اتنا زیادہ دوڑایا تھا کہ گھوڑے پسینے سے نہا گئے اور ہانپ کانپ رہے تھے اب گھوڑوں کی باگیں نور کے باپ کے ہاتھ میں تھی اور اسے کوئی جلدی نہیں تھی اسے معلوم تھا کیا کرنا ہے اور اس نے اپنے ساتھی کو بھی اچھی طرح سمجھا دیا تھا اور نور کو بھی اب وہ بڑے آرام سے گھوڑوں کو چلا رہا تھا اور ایک اور رات آ گئی وہ گھوڑوں کو کھلانے پلانے کے لیے اور خود آرام کرنے کے لیے رک گئے وہ گزشتہ رات جاگتے رہے تھے اس لئے جونہی لیٹے سب سو گئے نور کا باپ اور اس کا ساتھی حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو سوتے میں بڑے آرام سے قتل کر سکتے تھے لیکن نور کا باپ اس قدر جلا بھونا ہوا تھا کہ وہ انھیں بڑے ہی خوفناک انجام تک پہنچانا چاہتا تھا نور کا باپ قافلے کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان باطنی لٹیروں نے اس قافلہ کو لوٹ لیا اور اس کی بیٹی کو اٹھا کر لے آئے تھے اور اس کے باقی بچوں کو انہوں نے قتل کر دیا تھا اور اس کی بیوی کو بھی قتل کر دیا تھا اس کے سینے میں ان باطنیوں کے خلاف انتقام کے شعلے بھڑکتے رہتے تھے
رات گزر گئی اور یہ قافلہ گھوڑا گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑا نور کا باپ حاذق کے ساتھ آیا تھا تو رات کو جھیل پر پہنچے تھے لیکن اب نور کا باپ دن کے وقت وہاں پہنچ رہا تھا فاصلہ بہت ہی تھوڑا رہ گیا تھا نور کے باپ نے دانستہ رات وہاں گزاری تھی
کچھ دیر بعد وہ جھیل پر پہنچ گئے نور کے باپ نے دو چیزیں دور سے ہی دیکھ لیں
ایک تو چار پانچ مگرمچھ تھے جو جھیل سے نکل کر خشکی پر سوئے ہوئے تھے دوسری چیز وہ کشتی تھی جس میں وہ خزانہ نکال کر لایا تھا وہ کشتی اسی جگہ جھیل کے کنارے موجود تھی جہاں اس نے اور نور نے اسے گھسیٹ کر آدھا خشکی پر کر دیا تھا کچھ ٹوٹی پھوٹی کشتیاں بھی پڑی تھیں لیکن اصل کشتی ان سے کچھ دور تھی نور کے باپ نے گھوڑا گاڑی وہاں جا روکی اور سب کو اترنے کے لیے کہا
سب اترے اور بھیڑوں کو بھی اتار لیا گیا پھر بھیڑوں کو کشتی میں پھینک کر سب سوار ہوگئے اور چپّو نور کے باپ نے اور اس کے ساتھی نے سنبھال لیے کشتی جونہی جھیل میں ذرا آگے گئی تو تین چار مگرمچھ بڑی تیزی سے کشتی کی طرف آئے نور کے باپ نے کہا کہ ایک بھیڑ جھیل میں پھینک دو
ایک بھیڑ حیدر بصری نے اٹھائی اور جھیل میں پھینک دی سارے مگرمچھ اس بھیڑ پر ٹوٹ پڑے کچھ اور آگے گئے تو دو اور مگرمچھ آگئے نور کے باپ نے حیدر بصری سے کہا کہ ایک اور بھیڑ جھیل میں پھینک دے جو اس نے پھینک دی نور کا باپ اور اس کا ساتھی بڑی تیزی سے چپو مار رہے تھے جھیل کا پانی پرسکون تھا اس لیے کشتی کی رفتار خاصی تیز تھی
چھوٹے مگرمچھ بھی جھیل میں نظر آ رہے تھے لیکن وہ سب ادھر کو ہی چلے گئے جدھر مگرمچھوں نے دو بھیڑوں کو پکڑ لیا اور اسے اپنی اپنی طرف کھینچ رہے تھے
آخر کشتی اس خشکی پر جا لگی جس پر چٹانیں تھیں اور اس ذرا سے اس چٹانی علاقے کے وسط میں خزانے والے غار تھے نور کے باپ نے حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اتر جائے اور وہ کشتی باندھ کر آتا ہے نور کے باپ کا ساتھی اور نور بھی اس طرح اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کشتی میں سے اتریں گے حیدر بصری اور اس کے دونوں ساتھی کود کر خشکی پر چلے گئے نور کے باپ نے انہیں کہا کہ وہ آگے چلیں
جونہی ان تینوں نے پیٹھ پھیری نور کے باپ نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور دونوں نے چپو مارنے شروع کر دیے اور کشتی خشکی سے ہٹ آئی اور تیزی تیز ہوتی چلی گئی حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں نے گھوم کر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ یہ لوگ کشتی کہاں لے جا رہے ہیں آخر حیدر بصری نے بلند آواز سے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو
ان چٹانوں کے اندر چلے جاؤ نور کے باپ نے کہا تمہیں خزانہ مل جائے گا ہمیں خزانے کی ضرورت نہیں
نور کے باپ اور اس کے ساتھی نے بڑے بلند قہقہے لگائے تب حیدر بصری سمجھا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے تینوں نے جھیل میں چھلانگیں لگا دیں اور کشتی کی طرف تیرنے لگے انہیں غالباً یہ توقع تھی کہ وہ تیر کر اس ساحل پر پہنچ جائیں گے جہاں سے وہ کشتی پر سوار ہوئے تھے لیکن مگرمچھوں نے انہیں دیکھ لیا اور بڑی تیزی سے ان کی طرف بڑھے نور کے باپ نے کشتی کی رفتار اور تیز کردی اور کنارے جا لگے انہوں نے ایک بھیڑ بچا لی تھی جسے اٹھا کر وہ کشتی سے نکل آئے ان تینوں باطنیوں کے انجام کا تماشہ دیکھنے لگے ان تینوں کی آخری چیخیں آسمان کا سینہ چاک کر رہی تھیں لیکن یہ چیخیں الموت تک نہیں پہنچ سکتی تھیں کچھ دیر تک ان کی چیخیں اور آہ و بکا سنائی دیتی رہیں اور وہ تینوں دکھائی دیتے رہے اور پھر مگرمچھ انہیں پانی کے نیچے لے گئے
نور کے باپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے بازو پھیلائے اور لمبی آہ بھری اور پھر نور اور اپنے ساتھی کو سر کا اشارہ کیا کہ آؤ چلیں
یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ہو گئے تھے اور ہوتے چلے جا رہے تھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو حسن بن صباح زوال پذیر ہوجائے گا
کچھ عرصہ پہلے تک یوں نظر آتا تھا جیسے فتح اور ہر ابلیسی کام میں کامیابی حسن بن صباح کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اس کے جانباز فدائی سلطنت سلجوقیہ کی جڑوں میں اتر گئے تھے اس نے مسلمانوں میں خانہ جنگی تک کرا دی تھی اپنوں نے اپنوں کا اس قدر خون بہایا تھا کہ تاریخ کے اوراق اس خون سے لال ہیں حسن بن صباح نے جس سیاسی معاشرتی اور مذہبی شخصیت کو اور جس حاکم کو قتل کرنا چاہا وہ اپنے فدائیوں سے کرا دیا حکمرانی تو سلجوقیوں کی تھی لیکن ان لوگوں کے دلوں پر حسن بن صباح راج کرتا تھا ایک تو وہ لوگ تھے جو اس کے مرید ہو گئے تھے ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو اسے نبی مانتے تھے اور زیادہ تر لوگ آسمان سے اترا ہوا امام سمجھتے تھے دوسرے وہ لوگ تھے جن پر حسن بن صباح اور اس کے فدائی دہشت گرد بن کر اسیب کی طرح سوار ہو گئے تھے
لوگ یقین سے کہتے تھے کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی جادو ہے ورنہ ایسا کبھی بھی نہ ہوتا کہ ایک آدمی ایک طاقتور سلطنت کے لئے اتنا خطرناک اور دہشت گرد مسئلہ بن جاتا مورخوں نے بھی یہی لکھا ہے تاریخ ایسی شہادت پیش کرتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جادو ضرور تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ دن کو رات اور رات کو دن بنا دیتا
سلطنت سلجوقیہ کی فوج میں اور لوگوں میں بھی بدلی سی پائی جاتی تھی جیسے وہ حسن بن صباح کو شکست نہیں دے سکیں گے اس فوج نے باغیوں کے قبضے میں آئے ہوئے جس قلعے کا بھی محاصرہ کیا وہاں سے فوج ناقابل برداشت جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہو آئی تھی…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-12/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 11 https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-11/ https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-11/#respond Fri, 16 Aug 2024 12:41:46 +0000 https://urducover.com/?p=5839 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 11

قسط نمبر    “41”   سے قسط    نمبر”44″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:41 }
حسن بن صباح تو جیسے قلعہ وسم کوہ کو بھول ہی گیا تھا وہ کبھی پوچھ لیتا تھا کہ وسم کوہ کا محاصرہ ٹوٹا کہ نہیں اسے ہر بار اچھی خبر سنائی جاتی تھی کہ محاصرہ ٹوٹا بھی نہیں اور کامیاب بھی نہیں ہوا اور مسلمانوں کے لشکر کا جانی نقصان مسلسل ہوتا چلا جا رہا ہے
یہ محاصرہ کامیاب نہیں ہوگا حسن بن صباح ہر بار یہی کہتا تھا
ایک دن یہ تینوں زخمی قلعہ الموت پہنچ گئے اور انہیں فوراً حسن بن صباح کے کمرے میں بھیج دیا گیا انہوں نے کہا یا امام! ہم دھوکے میں مارے گئے ہیں انہوں نے تفصیل سے سنایا کہ ان کے ساتھ کیا دھوکا ہوا ہے اور وہ سلجوقی فوج کی گھوڑسوار کمک کو اپنی فوج سمجھ بیٹھے تھے اور سلجوقیوں کی باتوں میں آگئے
یا شیخ الجبل! ایک مشیر نے کہا اگر ہم پہلے ہی محاصرے پر حملہ کر دیتے تو آج یہ خبر نہ سننا پڑتی اب بھی کچھ نہیں گیا ہمیں اسی وقت کوچ کر جانا چاہیے اور ہم قلعہ چھوڑا لیں گے
میں اپنی طاقت ضائع نہیں کروں گا حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے کہا ہمارے پاس ایسی فوج ہے ہی نہیں جس سے ہم حملہ کریں نہ میں ایسی فوج بناؤں گا ہمارا ہر آدمی لڑ سکتا ہے لیکن ہم فوج کی طرح نہیں لڑیں گے ہمارے ہر فدائی کے پاس ایک خنجر یا ایک چھری ہونی چاہیے اس سے زیادہ کوئی ضرورت نہیں ہمارے پاس ابھی چودہ قلعے ہیں یہ کافی ہیں سلجوقی سالار نے مجھے بھی دھوکا دیا تھا کہ وہ قلعہ ملاذ خان کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے لیکن میں نے توجہ نہیں دی اور نہ کبھی توجہ دوں گا
تو کیا ہم اس نقصان کو برداشت کر لیں گے یا امام! ایک اور مشیر نے پوچھا
ضروری نہیں کہ ہم ایک قلعے کے بدلے قلعہ ہی لینگے حسن بن صباح نے کہا ہم اس قلعے کی پوری قیمت سلجوقیوں سے وصول کرلیں گے اور وسم کوہ میں ہمارا جو مال ودولت گیا ہے وہ بھی ہم پورا کرلیں گے اب میری بات غور سے سنو اور اسی وقت اس پر عمل شروع ہو جائے اب اپنے گروہ رے اور شاہ در والی شاہراہ پر بھیج دو وسم کوہ کی قیمت مسلمان قافلوں سے وصول کرو اور وہ جس خزانے پر قابض ہوگئے ہیں اس سے دوگنا خزانہ ان سے پورا کرو ان شہروں کے اندر کسی امیر کبیر تاجر یا جاگیردار کے گھر ڈاکہ ڈالنا پڑے تو یہ کام بھی کر گزرو مسلمانوں کی قتل و غارت اور تیز کر دو
حسن بن صباح کے دماغ کو اس کے وہ مشیر اور مصاحب بھی نہیں سمجھ سکتے تھے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے وہ بڑ نہیں ہانکا کرتا تھا اور کوئی بات غصّے کی حالت میں یا بلا سوچے سمجھے زبان پر نہیں لاتا اس کی فطرت میں سوائے ابلیسیت کے اور کچھ بھی نہیں تھا اسے صحیح فیصلے پر پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اس کی فطرت اس کے دماغ کی رہنمائی کرتی تھی
اس نے رے اور شاہ در کے اردگرد کے علاقوں کو رہزنی لوٹ مار اور قتل و غارت کے لئے اس لئے منتخب کیا تھا کہ رے تو مسلمانوں کی اکثریت کا شہر تھا اور اس شہر کا الگ حاکم یا امیر تھا شاہ در کی اہمیت یہ تھی کہ اس شہر میں تقریباً آدھی آبادی مسلمانوں کی تھی اور یہ مسلمان باطنیوں سے باہم متصادم رہتے تھے اس کے علاوہ شاہ در میں اس کا استاد احمد بن عطاش رہتا تھا اور حسن بن صباح نے سفلی عمل اور ابلیسیت کی تربیت یہیں سے حاصل کی تھی اور اس کی امامت کا سفر یہیں سے شروع ہوا تھا اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سلجوقی سلطان کی نظر شاہ در پر لگی رہتی ہے اور کسی بھی روز شاہ در پر سلجوقی حملہ کر دیں گے
ابوجندل پیشہ ور ڈاکو تھا اور اس کا اثر و رسوخ چلتا تھا اس کے گروہ کا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہیں رہا تھا لیکن وہ پھر بھی انتظامات کر لیتا تھا وسم کوہ کی جو صورتحال بنی ہوئی تھی اس میں انتظامات کر لینا کوئی مشکل نہیں تھا وہاں اندر اور باہر لاشیں ہی لاشیں تھیں اور ان لاشوں میں ابھی تک زخمی بے ہوش پڑے تھے جنہیں مرا ہوا سمجھا جا رہا تھا شہر کی عورتیں اور بچے ان لاشوں کو پہچانتے پھر رہے تھے سلجوقی فوج کے آدمی بھی اپنے سالار کے حکم کے مطابق ان لاشوں میں مسلمانوں کی لاشیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے
سورج غروب ہونے ہی والا تھا جب شمشیر ابلک ایک گھوڑے پر سوار ان بکھری ہوئی لاشوں کے اردگرد یوں پھر رہا تھا جیسے نگرانی کر رہا ہوں اس نے گھوڑے کا رخ ایک طرف کیا اور آہستہ آہستہ گھوڑے کو چلاتا کچھ آگے ایک ٹیکری کی اوٹ میں ہو گیا وہاں اس نے گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی اور گھوڑا دوڑا دیا
اس کے چاروں سپاہی ایک ایک کرکے مختلف سمتوں سے نکلے اور اسی طرح دور جا کر گھوڑے دوڑائے اور اس جگہ پہنچ گئے جہاں ابوجندل پہلے موجود تھا اس کی دونوں بھتیجیاں اس کے ساتھ تھیں اور اس کے ساتھ دو کی بجائے تین فالتو گھوڑے تھے وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی لڑائی میں جو گھوڑ سوار مارے گئے تھے ان کے گھوڑے میدان جنگ سے بھاگ کر اردگرد کے جنگل میں چلے گئے تھے سالار اوریزی کے نوجوان گھوڑوں کو پکڑ پکڑ کر لارہے تھے لیکن ابو جندل نے اس سے پہلے ہی تین گھوڑے پکڑ لئے اور اس جگہ لے گیا تھا جو جگہ ان سب نے مقرر کی تھی
ابو جندل نے شمشیر ابلک سے کہا تھا کہ دو کمان اور تیرو کے چار پانچ ترکش بھرے ہوئے ہونے چاہیے یہ چاروں سپاہی تجربے کار تیرانداز تھے وہ دو کمان اور پانچ سات تیرکش ساتھ لے گئے تھے ان کے پاس تلواریں تھیں اور برچھیاں بھی ایک گھوڑے پر کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا جو بہت دنوں کے لیے کافی تھا وہاں پانی کی کمی نہیں تھی
وہ جونہی اکٹھے ہوئے اپنی منزل کو چل پڑے انہوں نے گھوڑوں کی رفتار خاصی تیز رکھی وہ اس کوشش میں تھے کہ صبح ہونے تک اتنی دور نکل جائیں کہ تعاقب کا کوئی خطرہ نہ رہے تعاقب کا خطرہ بہت ہی کم تھا کیوں کہ یہ سب جس طرح ایک ایک کرکے وسم کوہ سے نکلے تھے انہیں کسی نے دیکھا نہیں تھا وہ جب اکٹھے ہوئے تھے تو ان پر شام نے اپنا دھندلا پردہ ڈال دیا تھا جو بڑی تیزی سے رات کی تاریکی جیسا سیاہ ہو گیا تھا ان کے پاس تین چار مشعلیں بھی تھیں جو انہوں نے جلائی نہیں کیوں کہ مشعلوں کے شعلے دور سے ان کی نشاندہی کرسکتے تھے ان مشعلوں کی ضرورت منزل پر پیش آنی تھی
شمشیرابلک! راستے میں ابوجندل نے کہا اگر تمہیں میری نیت پر شک ہے تو میری تلوار اپنے پاس رکھ لو یہ دل میں بٹھا لو کہ ہم ایک ہیں منزل کے مسافر ہیں ہمارا انجام اچھا ہوگا یا برا وہ ہم سے کسی ایک کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہوگا
نہیں میرے ہمسفر! شمسیر ابلک نے کہا ہم مسلمان ہیں اگر ہم ایک دوسرے کے خلاف دل میں ذرا سا بھی شک و شبہ یا کدورت رکھیں گے تو ہم اپنی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے اور اگر پہنچ گئے تو اس مہم میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے
ایک بات اور کہونگا شمشیر! ابو جندل نے کہا جس طرح تم نے دل سے شک و شبہ اور کدورت نکال دی ہے اسی طرح دل سے یہ بھی نکال دو کہ تم مسلمان ہو اور میرا مذہب یا عقیدہ کچھ اور ہے میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں کسی مجبوری کے تحت حسن بن صباح کے پیروکار بنا تھا میں اسے دھوکہ دیتا رہا ہوں تم بھی مذہب کی اس لکیر کو مٹا ڈالو اگر یہ تمہارے لئے مناسب نہیں تو مجھے بھی مسلمان سمجھ لو
ہاں ابوجندل! شمشیر ابلک نے کہا یہ میرے لئے مشکل ہے کہ مذہب کی لکیروں کو مٹا ڈالوں اس سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ میں تمہیں مسلمان سمجھوں اور تم بھی اپنے آپ کو دلی طور پر مسلمان سمجھتے رہو
اپنے آپ کو فریب نہ دو شمشیر! ابوجندل نے کہا تم نے شاید ابھی محسوس نہیں کیا کہ تم اب نام کے مسلمان رہے گئے ہو دل پر جب زروجواہرات کا اور خوبصورت عورت کا قبضہ ہو جاتا ہے تو دل میں مذہب برائے نام پرانے زخم کے نشان کی طرح باقی رہ جاتا ہے اب اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دو کہ تم وہ مسلمان رہے گئے ہو جو وسم کوہ کی روانگی سے پہلے ہوا کرتے تھے میں نے تمہیں اس رات کو بھی کہا تھا جب ہم پہلے ملے تھے کہ حسن بن صباح نے جو جنت بنائی ہے وہ عارضی ہے یہ شخص مرجائے گا تو آہستہ آہستہ اس کی جنت بھی اجڑ جائے گی اور وہ جنت جس کا وعدہ تمہیں خدا نے دیا ہے وہ آسمانوں میں ہے اور معلوم نہیں کہ ہے بھی یا نہیں جنت وہی ہوتی ہے جو انسان اپنے ہاتھوں بناتا ہے میں تمہاری زندگی کو جنت کا نمونہ بنا دونگا
شمشیر ابلک لشکری تھا یا اسے مجاہد کہہ لیں عالم دین نہیں تھا کہ یہ فلسفہ سمجھ سکتا کہ انسان مال اور مذہب میں سے ایک ہی چیز کا پوجاری ہوسکتا ہے مسلمان کے لیے مالدار ہونا گناہ نہیں لیکن دل میں مال و دولت کا لالچ رکھنا ایسی گمراہی ہے کہ انسان صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے وہ اپنے مذہب کو بھی دل میں زندہ رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ حقیقت قبول نہیں کر رہا تھا کہ دل میں جب زروجواہرات کی چمک آجاتی ہے تو اس دل میں دین کی شمع بجھ جایا کرتی ہے شمشیر ابلک مسرور اور مطمئن چلا جا رہا تھا فاصلے کم ہورہے تھے اور رات گزرتی جارہی تھی
صبح طلوع ہوئی تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی ہرا بھرا جنگل اور سرسبز ٹیکریاں دور پیچھے رہ گئی تھیں اور وہ ایسے علاقے میں داخل ہو گئے تھے جہاں دیواروں کی طرح چھوٹی بڑی پہاڑیاں اور چٹانیں کھڑی تھیں ان کا رنگ کہیں سلیٹی کہیں مٹیالا اور کہیں سیاہی مائل تھا ان کی شکلیں بھی عجیب و غریب تھیں ابو جندل اس علاقے سے واقف تھا اور اس میں سے گزرنے کا راستہ بھی جانتا تھا شمشیر ابلک اور اس کے سپاہیوں کے لیے یہ علاقہ اور اس کے خدوخال ڈراونی سے تھے کہیں کہیں ایک آدھ درخت کھڑا نظر آتا تھا ورنہ وہاں گھاس کی پتی بھی نظر نہیں آتی تھی
یہ تو جنات اور بدروحوں کا دیس معلوم ہوتا ہے شمشیرابلک نے ابوجندل سے کہا میں نے ایسا بھدا اور ڈراؤنا علاقہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
ہاں شمشیر! ابو جندل نے کہا لوگوں میں یہی مشہور ہے کہ اس علاقے میں بد روحیں اور چڑیلیں اور جنات رہتے ہیں معلوم نہیں یہ کہاں تک سچ ہے لیکن اس کے اندر زہریلی چیزیں رہتی ہیں اب ہمیں کچھ دیر آرام کر لینا چاہیے تھا تعاقب کا خطرہ ختم ہوگیا ہے
یہ سارا علاقہ پتھریلا تھا اس کے اندر جاکر ابوجندل نے ایک جگہ دیکھی جو ذرا ہموار تھی اور وہاں پتھر بھی کم تھے وہاں دو درخت بھی تھے جن کی صرف شاخیں تھیں پتا ایک بھی نہیں تھا انہوں نے گھوڑے ان دو درختوں کے ساتھ باندھ دیے اور الگ ہٹ کر بیٹھ گئے
رات بھر کے جاگے ہوئے مسافر زمین پر لیٹ گئے اور کچھ ہی دیر بعد گہری نیند سو گئے
اچانک ایک گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا اور فوراً بعد تمام گھوڑے اس طرح ہنہنانے لگے جیسے کوئی بہت بڑا خطرہ آن پڑا ہو انکے سوار جاگ اٹھے اور دیکھا کہ گھوڑے رسیاں چڑانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی اچھل کود سے پتہ چلتا تھا کہ انہوں نے کچھ دیکھ لیا ہے وہ سب دوڑ کر گئے اور دیکھا دس بارہ قدم دور ایک سیاہ کالا ناگ آہستہ آہستہ رینگتا جا رہا تھا
سانپ کو دیکھ کر ہر جانور اسی طرح ڈر جاتا اور بھاگ اٹھتا ہے بعض گھوڑے تو سانپ کو دیکھ کر چلتے چلتے رک جاتے اور اس طرح کانپنے لگتے ہیں کہ ابھی گر پڑیں گے ابو جندل نے ایک کمان اٹھائی اور اس میں تیر ڈالا سانپ پر تیر چلایا لیکن تیر اس کے قریب لگا
سانپ کو بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن وہ رک گیا اور اس نے پھن پھیلا دیا اور پھنکارنے لگا اس سے اس کے غصے کا اظہار ہوتا تھا ایک سپاہی نے ابوجندل کے ہاتھ سے کمان لے لی اور اس میں تیر ڈال کر چلایا تو سانپ کے پھن کے پار ہوگیا سانپ کچھ دیر لوٹ پوٹ ہوتا رہا اور پھر بے حس و حرکت ہو گیا
آسمان پر گہرے بادل تو پہلے ہی منڈلا رہے تھے لیکن ان مسافروں کو معلوم نہ تھا کہ جس بے آب و گیاہ پہاڑی کے دامن میں انھوں نے پڑاؤ کیا ہے اس کے پیچھے سے سیاہ کالی گھٹا اٹھتی آرہی ہے ادھر سانپ مارا ادھر بڑی زور کی گرج سنائی دی اور پھر بجلی اور اس کے ساتھ ہی اس کی ایسی کڑک سنائی دی جیسے چٹان ٹوٹ پھوٹ گئی ہو سب کے دل دہل گئے گھوڑے جو سکون میں آگئے تھے پھر بدکنے لگے
بجلی رہ رہ کر چمکتی اور کڑکتی تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ بجلیوں کو اس کالے ناگ کی موت پر غصہ آگیا ہو آسمان بڑی تیزی سے تاریک ہونے لگا اور گھٹا دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کے خوبصورت بادلوں کے ٹکڑوں کو نگلتی آگے ہی آگے بڑھتی گئی اور جب بارش شروع ہوئی تو لگتا تھا گھٹا کا سینہ پھٹ گیا ہو ایسی موسلادھار بارش کے ایک ہاتھ دور کچھ نظر نہیں آتا تھا اور جل تھل ہوگیا
وہاں بارش سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ابو جندل نے انھیں بتایا کہ یہاں غار ہے لیکن خاصا آگے ہے جہاں تک ہم اتنی جلدی نہیں پہنچ سکیں گے اتنی دیر میں یہ گھٹا آگے نکل جائے گی وہیں کھڑے رہے اور بارش کے قطرے ان پر اس طرح پڑتے رہے جیسے کوئی کنکریاں مار رہا ہو
یہ سانپ کسی کی بدرو معلوم ہوتی ہے ایک سپاہی نے کہا اسے تیر لگا ہی تھا کہ ہم پر یہ طوفان ٹوٹ پڑا
کسی وہم میں نہ پڑو میرے دوستو! ابو جندل نے کہا میں اس علاقے میں سے اتنی بار گزرا ہوں کہ مجھے یاد ہی نہیں رہا اور یوں لگتا ہے جیسے یہ میری زندگی کا راستہ ہے ڈرو نہیں بارش تھم جائے گی
میں نے اتنی تیز بارش پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی شمشیرابلاک نے کہا
شمشیر بھائی! ابو جندل نے اسے بڑی ہی دھیمی آواز میں کہا جیسے وہ کوئی راز کی کوئی بات کہہ رہا ہو میں ڈرانا نہیں چاہتا لیکن یہ سن لو کہ یہ کالا سانپ اور یہ کالی گھٹائوں کڑکتی ہوئی بجلیاں اچھا شگون نہیں خدا کرے ہماری مہم کامیاب ہوجائے لیکن سفر کی ابتدا اچھی نہیں ہوئی
میں دعا کروں گا شمشیر ابلک نے کہا خدا ہمیشہ میری دعا سن لیا کرتا ہے
تم پہلے کی باتیں کرتے ہو ابو جندل نے کہا اب خدا تمہاری نہیں سنے گا اب کوئی مصیبت آپڑے تو مجھے بتاؤ یا خود اس کا مقابلہ کرو تم خدا کے راستے سے ہٹ گئے ہو اب میری طرح زندگی گزارو
ڈیڑھ دو گھنٹوں بعد بارش تھمنے لگی تو گھٹا کچھ تو بکھر گئی اور باقی جو تھی وہ آگے نکل گئی کم ہوتے ہوتے بارش روک گئی اور ان لوگوں نے چلنے کا ارادہ کیا لیکن وہاں پانی ہی پانی جمع ہوگیا تھا یہ جگہ کشادہ تو تھی لیکن دو چٹانوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے دریا بن گئی تھی، سب گھوڑوں پر سوار ہوئے اور چل پڑے
آگے گئے تو جگہ تنگ ہوتی چلی گئی کیونکہ دونوں طرف ہی چٹانیں ایک دوسرے کے قریب آگئی تھیں وہاں پانی اس طرح آ رہا تھا جیسے سیلابی دریا ہو پانی کا بہاؤ بڑا ہی تیز تھا ابوجندل نے کہا کہ یہ پانی گہرا نہیں ہے کہ اس میں کوئی ڈوب جائے لیکن گھوڑوں کے لیے اس میں چلنا خاصا مشکل ہوگا
گھوڑے یوں تو آگے بڑھتے جارہے تھے پانی کا زور زیادہ ہی ہوتا جا رہا تھا اور نظر ایسی ہی آتا تھا کہ گھوڑے آگے نہیں جا سکیں گے لیکن پانی کم ہونے لگا اور آگے جگہ بھی ذرا کھلی سی آ گئی جس سے پانی پھیل گیا اور گھوڑے نکل گئے
یہ پتھریلا اور چٹانیں علاقہ ختم ہونے ہی میں نہیں آرہا تھا چٹانوں کے درمیان چلتےچلتے آدھا دن گزر گیا اور آگے جاکر ان دو چٹانی پہاڑیوں میں جن کے درمیان وہ جا رہے تھے راستہ ہی نہ رہا کیونکہ دونوں پہاڑیاں آگے جاکر مل گئی تھیں ابوجندل اس راستے سے واقف تھا وہ آگے آگے جا رہا تھا اس نے اپنا گھوڑا دائیں طرف کرلیا اور پہاڑی کے دامن میں چلا گیا وہاں کوئی راستہ نہیں تھا لیکن گھوڑے پہاڑی چڑھ سکتے تھے ابو جندل کا گھوڑا پہاڑی چڑھنے لگا لیکن سیدھا اوپر جانے کی بجائے پہلو کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا باقی گھوڑے اس کے پیچھے پیچھے قطار میں جا رہے تھے
شمشیر ابلک اور اس کے سپاہیوں کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا وہ فوج کے آدمی تھے اور فوجی گھوڑسواری کی مہارت رکھتے تھے لیکن ایسی گھوڑسواری انہوں نے کم ہی کبھی کی تھی پہاڑی پتھریلی تھی اور گھوڑوں کے پاؤں پھسلتے تھے اوپر جاتے جاتے وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں گھوڑا بمشکل پاؤں رکھ سکتا تھا یہ اس پہاڑی کا ایک حصہ تھا جو اس کے سامنے تھا یوں لگتا تھا جیسے بہت اونچی دیوار ہے اور گھوڑے اس دیوار پر جا رہے ہوں یا اس طرح جیسے بازیگر رسّے یا تار پر چلا کرتے ہیں کسی گھوڑے کا پاؤں ذرا سا پھسل جاتا تو دائیں یا بائیں سوار سمیت لڑھکتا ہوا دور نیچے جا پہنچتا اور سوار کی ہڈی پسلی ایک ہو جاتی زیادہ مشکل دونوں لڑکیوں کو پیش آ رہی تھی انہوں نے گھوڑ سواری تو کئی بار کی تھی لیکن وہ اتنی ماہر نہیں تھیں
دائیں بائیں مت دیکھو ابوجندل نے آگے چلتے ہوئے بلند آواز سے کہا یہ سمجھو کہ گھوڑے میدان میں چلے جارہے ہیں ورنہ ڈر سے کانپتے کانپتے گھوڑے سے گر پڑو گے
یوں لگتا تھا جیسے سوار نہیں بلکہ گھوڑے ڈر رہے ہوں وہ تو پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے اور ان کے جسموں کی حرکت بتا رہی تھی کہ گرنے سے ڈر رہے ہیں اور شاید آگے جانے سے انکار ہی کر دیں
کسی کا گھوڑا رک جائے تو لگام کو جھٹکا نہ دینا ابو جندل نے ایک اور اعلان کیا ایسا نہ ہو کہ گھوڑا بدک کر پاؤں دائیں یا بائیں رکھ دے
آخر اس پہاڑی کی یہ چوٹی ذرا چوڑی ہونے لگی لیکن اب بھی ہموار نہیں تھی اس لیے گھوڑوں کے پاؤں پھسلتے تھے آگے جاکر یہ چوٹی زیادہ چوڑی ہوگئی اور اب گھوڑے دوسری پہاڑی پر چڑھ رہے تھے خطرناک حصہ ختم ہوگیا تھا اور اب جہاں گھوڑے چل رہے تھے یہ خاصی چوڑی جگہ تھی اور یہ پچھلا پہاڑ تھا جس کے اوپر جاکر آگے نیچے اترنا تھا
یہ قافلہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گیا اور ابو جندل نے گھوڑا روک لیا وہاں اوپر اتنی لمبی اور چوڑی جگہ تھی کہ سبھی گھوڑے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوگئے نیچے دیکھا تو بڑا ہی خوبصورت منظر نظر آیا ہرا بھرا جنگل تھا درختوں کی چوٹیاں نظر آرہی تھیں اور اودے اودے بادل منڈلا رہے تھے مغرب کی طرف سورج کچھ نیچے چلا گیا تھا اور اس کی کرنیں درختوں پر پڑتی تھیں تو بارش کے قطرے چمکتے تھے کسی آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اس خوبصورت منظر کے دائیں بائیں ذرا اونچی پہاڑیاں تھیں لیکن بہت ہی دور دور ان پر بھی سبزہ اور درخت تھے
سبحان اللہ! شمشیر ابلک نے بے ساختہ کہا یہ تو جنت کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے اللہ نے اس خطے کو کیسا حسن بخشا ہے
اللہ کا دیا ہوا یہ حسن بڑا ہی خطرناک ہے شمشیر بھائی! ابوجندل نے کہا یہاں سے دیکھنے سے تو یہ جنت کا ٹکڑا ہی لگتا ہے اور یہ کوسوں دور تک پھیلا ہوا ہے لیکن اس میں وہ شیر پایا جاتا ہے جس پر لمبی لمبی دھاریاں ہوتی ہیں اس میں بھیڑیئے بھی ہوتے ہیں جو اکیلے دکیلے نہیں بلکہ آٹھ آٹھ دس دس کے گروہ میں حملہ کرتے ہیں
یہاں اپنی برچھیاں اور تلواریں تیار رکھنا اس خطے کے اندر کوئی آبادی نہیں آبادیاں بہت دور ہیں یہاں کبھی کوئی شکاری بھی نہیں آیا اس لیے شیروں کی تعداد بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی
پہاڑی سے اترنا چڑھنے سے زیادہ خطرناک لگتا تھا گھوڑے آخر اتر گئے اور اس خوبصورت خطے میں داخل ہوگئے ہر طرف پانی ہی پانی تھا سورج غروب ہونے کے لئے اوپر تک پہنچنے ہی والا تھا اور ان لوگوں نے دن بھر کچھ کھایا پیا نہیں تھا وہاں کوئی خشک جگہ نظر آتی نہیں تھی لیکن ابوجندل ان علاقوں سے واقف تھا اس لیے وہ ذرا سا بھی پریشان نہیں لگتا تھا اس نے اپنے قافلے سے کہا کہ اب دن اور رات کا کھانا ایک ہی بار کھائیں گے اور ایک جگہ مجھے معلوم ہے جہاں ہم رات آرام بھی کریں گے
وہ چلتے چلے گئے جنگل کچھ گھنا ہوتا جا رہا تھا اور اب جو زمین آ گئی تھی اس میں اونچے نیچے ٹیلے تھے اور گھاٹیاں بھی تھیں کئی نشیبی جگہوں پر پانی بھرا ہوا تھا ایک جگہ بائیں طرف ایک دیوار کی طرح اونچا چلا گیا تھا اور اس کی شکل نیم دائرے جیسی تھی اس کے واسطے میں ایک غار صاف نظر آرہا تھا جس کے آگے مٹی کا ڈھیر بن گیا تھا اس کے سامنے پانی جمع تھا جو زیادہ لمبائی چوڑائی میں نہیں تھا
وہ غار دیکھتے ہو ابوجندل نے آگے آگے جاتے پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہا وہاں شیر رہتے ہیں اور اسے کچھار کہتے ہیں ہو سکتا ہے اس وقت شیر اندر موجود ہو وہ ایک بھی ہوسکتا ہے اور ایک سے زیادہ بھی
کیا شیر ہم اتنے آدمیوں پر حملہ کرے گا؟
شمشیر ابلک نے پوچھا
اگر بھوکا ہوا تو ابوجندل نے کہا شیر کا پیٹ بھرا ہوا ہو تو اس کے قریب سے گزر جاؤں تو بھی وہ کچھ نہیں کرے گا
اس وقت یہ سب اس ترتیب میں جارہے تھے کہ ابو جندل سب سے آگے تھا اس کے پیچھے دونوں لڑکیوں کے گھوڑے تھے پھر شمشیر ابلک کا گھوڑا تھا اور اس کے پیچھے سپاہی تھے تین گھوڑوں کی زینوں کے ساتھ تین فالتو گھوڑوں کی رسیاں بندی ہوئی تھیں اور وہ پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے ابوجندل ابھی انہیں بتا ہی رہا تھا کہ شیر بھوکا نہ ہوا تو وہ حملہ نہیں کرتا کہ پیچھے سے زبردست آوازیں سنائی دیں جن میں ایک یہ تھی کہ ایک گھوڑا بہت ہی بری طرح ہنہنایا اور اس کے ساتھ ہی غراہٹ سنائی دی تھی سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بڑا ہی خوفناک منظر نظر آیا ایک دھاری دار شیر نے آخری خالی گھوڑے پر حملہ کردیا تھا اور شیر کی پوزیشن یہ تھی کہ اس نے اوپر سے گھوڑے کی گردن اپنے منہ میں لے رکھی تھی اور اسے جھنجھوڑ رہا تھا یہ گھوڑا ایک سپاہی کے گھوڑے کے پیچھے بندھا ہوا تھا سپاہی کا گھوڑا ڈر کر دوڑ پڑا لیکن شیر نے اس کے ساتھ بندھے ہوئے گھوڑے کو بڑی مضبوطی سے دانتوں میں جکڑ رکھا تھا
شمشیر ابلک نے نہایت پھرتی سے اپنا گھوڑا پیچھے موڑا اور ایڑ لگادی سپاہیوں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں شمشیر ابلک نے سپاہی کے ہاتھ سے برچھی چھین لی اور شیر کے قریب سے گزرتے پرچھی پوری طاقت سے ماری جو شیر کی پیٹھ میں اتر گئی گھوڑے کی گردن سے شیر کے دانت اکھڑ گئے اور شیر پیٹھ کے بل گرا
شمشیرابلک نے آگے جاکر گھوڑا روکا اور پیچھے کو موڑا شیر ایک ہی پرچھی کے وار سے نہیں مارا کرتا زخمی ہوکر وہ آخری وار کیا کرتا ہے شیر پرچھی کا زخم کھا کر پیٹھ کے بل گرا اور تیزی سے اٹھا شمشیرابلک نے برچھی اس کی پیٹھ سے نکال لی تھی شیر زخمی حالت میں بہت ہی خطرناک ہوتا ہے شیر نے شمشیر ابلک کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس پر جھپٹنے کے لئے دوڑا لیکن ایک سپاہی نے اپنے گھوڑے کو موڑ کر اس کے قریب پہنچ چکا تھا اس نے شیر کو برچھی ماری جو اس کی گردن میں اتر گئی ادھر سے شمشیر ابلک نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور شیر کے قریب سے گزرتے اسے برچھی ماری اس وقت شیر پہلو کے بل ہو گیا تھا شمشیر ابلک کی برچھی اس کے پہلو میں داخل ہوگئی شمشیر ابلک نے برچھی کھینچ لی اور آگے جاکر گھوڑا پھر موڑا لیکن اتنے میں دوسرے سپاہیوں نے برچھیوں سے شیر کو بے بس کردیا اور شیر اٹھ نہ سکا
جس گھوڑے پر شیر نے حملہ کیا تھا وہ ٹھیک حالت میں معلوم نہیں ہوتا تھا وہ زخمی بھی ہو گیا تھا اور خوفزدہ اتنا کہ بھاگنے کے لیے رسی چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا ابو جندل نے آکر اس کی رسی کھول دی گھوڑا اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ایک طرف سرپٹ دوڑ پڑا
گھوڑوں کے متعلق تو تم سب کچھ ضرور جانتے ہوں گے ابوجندل نے کہا لیکن تم شاید دیکھ ہی نہیں سکے کہ یہ گھوڑا اب ہمارے کام کا نہیں رہا اس کی گردن کی ہڈی اگر ٹوٹی نہیں تھی تو ہل ضرور گئی تھی تم نے دیکھا نہیں گھوڑا گردن اوپر نہیں اٹھا رہا تھا اور پھر یہ اتنا ڈر گیا تھا کہ ہم اسے ساتھ رکھتے تو ہمارے لئے مصیبت بنا رہتا جانے دو اسے
گھوڑا تھا تو خوفزدہ ہی لیکن خوفزدگی کی سب سے زیادہ شکار وہ لڑکیاں ہوئی تھیں جو تھر تھر کانپ رہی تھیں وہ موت سے ڈرنے والے نہیں تھے اور ابو جندل ایسا مرد تھا جو ان جنگلوں میں سے اکثر گزرا تھا اور وہ ڈاکو تھا جو زندگی اور موت کا کھیل نہ جانے کب سے کھیل رہا تھا ابوجندل انہیں کچھ اور آگے لے گیا اور ایسی جگہ جا کر روکا جہاں ایسا ہی ایک ٹیلا تھا اور ٹیلے کے اندر کسی نے کھدائی کرکے چوکور سا کمرہ بنا رکھا تھا اور یہ مسافروں کے رکنے اور قیام کرنے کے کام آتا تھا ابو جندل نے انہیں بتایا کہ اس علاقے میں سے کبھی کوئی مسافر نہیں گزرا قافلوں کے راستے بہت دور تھے ان علاقوں میں قافلوں کو لوٹنے والے ہی آیا کرتے تھے
وہ اس جگہ رک گئے اور کھانا کھانے لگے سورج غروب ہوگیا اور شام کا دھندلکا رات کے اندھیرے میں تبدیل ہوگیا تب انہوں نے مشعلیں جلا کر اس غار کے سامنے زمین میں گاڑ دی یہ مشعلیں روشنی کے لیے نہیں بلکہ درندوں کو ڈرانے اور انہیں دور رکھنے کے لئے باہر گاڑی گئی تھیں
ایک بات بتاؤ ابوجندل! شمشیر ابلک نے پوچھا تم نے اپنا خزانہ ایسی جگہ کیوں رکھا ہوا ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے موت کے منہ میں داخل ہونا پڑتا ہے
خزانے ایسی ہی جگہوں پر رکھے جاتے ہیں ابوجندل نے جواب دیا اگر اتنے زیادہ زروجواہرات اور اتنی زیادہ رقم گھروں میں رکھی جائے یا آبادیوں کے قریب کہیں زمین کے اندر چھپا دی جائے تو ڈاکو اس سے واقف ہوجاتے ہیں اور پھر خزانے کے مالک کی زندگی دو چار دن ہی رہ جاتی ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کا خزانہ قاتل لے اڑتے ہیں
پرانے زمانے کی کہانیوں میں بادشاہوں اور ڈاکوؤں کے متعلق یہ ضرور پڑھا یا سنا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ یا فلاں ڈاکو نے فلاں جگہ اپنا خزانہ دبا کر رکھ دیا تھا ان کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ خزانے ایسی جگہوں پر لے جاکر چھپائے جاتے تھے جہاں تک پہنچنا بعض اوقات ناممکن ہوجاتا تھا بحری قزاق تو اپنے خزانے اور ہی زیادہ دشوار گزار علاقوں میں لے جا کر کہیں چھپایا کرتے تھے کیونکہ ان کی زندگی سمندر میں گزرتی تھی لوٹ مار کر کے کبھی کبھی خشکی پر آیا کرتے تھے
خزانوں کے مالک اکثر اس جگہ تک راستے کا نقشہ بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے جس جگہ وہ خزانہ دباتے تھے بعض اوقات مالک مر جاتا اور نقشہ کسی اور کے ہاتھ چڑھ جاتا تو وہ اس خزانے تک پہنچنے کی کوشش کرتا تھا ایسے مدفون خزانوں کے متعلق پراسرار کہانیاں بھی سنائی جاتی ہے جو غلط معلوم نہیں ہوتیں عام طور پر کہانیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مالک خود یا اس کے بعد کوئی اور خزانہ نکالنے گئے تو وہاں ان پر ایسی مصیبت نازل ہوئی کہ وہ مارے گئے یا آپس میں لڑ پڑے اور انہوں نے ایک دوسرے کو ختم کردیا
ان کہانیوں کو فرضی اور افسانوی سمجھا جاتا رہا ہے اور ان میں اکثر افسانوی ہی ہوا کرتی ہیں لیکن ابوجندل اور شمشیر ابلک کی کہانی کو تاریخ میں جو مقام ملا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کم ازکم یہ ایک سچی کہانی ہے اسے حسن بن صباح کے دور کی ایک اہم واردات بناکر غالباً اس لئے تاریخ میں شامل کیا ہے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ مال و دولت اور عورت کی چوکا چوند اچھے بھلے مرد مومن کو کن رفعتوں سے گرا کر پستیوں میں غائب کر دیتی ہے
رات وہاں گزار کر صبح وہ چل پڑے اور آدھا دن گزر جانے کے بعد ایک سیلابی ندی نے ان کا راستہ روک لیا ابو جندل نے انہیں بتایا کہ وہ ایسے وقت یہاں پہنچے ہیں جب ندی میں سیلاب آیا ہوا ہے ورنہ یہ ندی تو بڑی خوبصورت اور پیاری ہے اس کا پانی شفاف اور کم گہرا ہوتا ہے جس میں گھوڑے تو کیا آدمی بھی آسانی سے گزر جاتے ہیں یہ کہہ کر ابو جندل نے اپنا گھوڑا ندی میں ڈال دیا یہ فوج کا گھوڑا تھا جو سیلاب سے لڑتا جھگڑتا پار چلا گیا اس کے پیچھے باقی گھوڑوں نے بھی ندی پار کر لی ندی اتنی گہری ہو گئی تھی کہ چند قدم گھوڑوں کو اس میں تیرنا پڑا تھا پار جاکر شمشیر ابلک نے اپنا گھوڑا ابوجندل کے ساتھ کرلیا
شمسیر بھائی! ابو جندل نے کہا مجھے ان جنگلوں میں گھومتے پھرتے اور ان میں سے راستہ بنانے کا اور پھر قافلے لوٹ کر انہی جنگلوں میں غائب ہو جانے کا اتنا زیادہ تجربہ ہے کہ میں ہوا میں خطرے کی بو سونگھ لیا کرتا ہوں میں انہی جنگلوں میں سے نہ جانے کتنی بار گزرا ہوں ان خطروں سے میں ہمیشہ آگاہ رہا ہوں لیکن یوں نہیں ہوا جیسے اب ہو رہا ہے نہ کبھی کسی بدروح نے میرا راستہ روکا تھا نہ کبھی شیر نے حملہ کیا تھا میں یہاں ناگ بھی دیکھتا رہا ہوں اور شیر بھی اور بھیڑیے بھی لیکن میں یہاں سے ہر بار زندہ گزر گیا ہوں یہ پہلا موقع ہے کہ سفر کی ابتدا ہی ایک بہت برے شگون سے ہوئی ہے پھر ایک شیر نے ہم پر حملہ کیا اور پھر معصوم سی ندی نے ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی
تو پھر کیا کرنا چاہیے کیا ہمیں واپس چلے جانا چاہیے یا ان خطروں میں بڑھتے ہی چلے جائیں
میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ میں پیشہ ور قزاق ہوں ابوجندل نے کہا پیشہ ور قزاقوں کے اپنے عقیدے اور اپنے وہم ہوتے ہیں ہم پر جب خطرے منڈلاتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوجاتاہے کہ یہ خطرہ ہمیں دبوچ کر ہمیں ختم کردیں گے تو ہم ایک کنواری لڑکی کی جان کی قربانی دیا کرتی ہیں لیکن یہاں میں ایسی قربانی نہیں دے سکتا اگر یہ دو لڑکیاں میرے مرے بھائی کی بیٹیاں نہ ہوتیں تو میں ان میں سے ایک کی قربانی دے دیتا میں اسے بہتر یہ سمجھتا ہوں کہ منزل تک پہنچ جاؤں اور ضرورت پڑے تو اپنی جان کی قربانی دے دوں میں اس لیے خبردار کر رہا ہوں کے ہر وقت چوکس اور چوکنے رہنا معلوم نہیں کس وقت کیا ہو جائے اس جنگل کے حسن کو ہی نہ دیکھتے رہنا تم نے جس طرح شیر مار لیا تھا اس طرح ہر خطرے پر قابو پا لو گے رات کو بھی اس طرح بیدار رہنا جیسے تمہاری ایک آنکھ کھلی ہوئی ہو رات کو مجھ پر بھروسہ نہ کرنا تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں رات حشیش پی کر سوتا ہوں اور مجھے اس دنیا کی کوئی ہوش نہیں رہتی
اس رات اس قافلے نے ایسی جگہ پڑاؤ کیا کہ ان پر چند ایک درختوں کا سایہ اور اوپر آسمان تھا وہ الگ الگ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سوئے آدھی رات سے کچھ پہلے شمشیر ابلک کو ایک لڑکی نے جگایا وہ ہڑبڑا کر اٹھا جیسے کوئی خطرہ آگیا ہو لڑکی نے کہا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں اور وہ اس کے ساتھ تھوڑی دور تک چلے وہ اٹھا اور اس کے ساتھ چل پڑا چند قدم دور اس لڑکی کی دوسری بہن ایک درخت کے تنے کی کوکھ میں بیٹھی ہوئی تھی یہ دونوں بھی اس کے قریب بیٹھ گئے اس کا ایک ہاتھ ایک لڑکی نے اور دوسرا دوسری لڑکی نے پکڑ لیا دونوں لڑکیوں نے اس کے ہاتھ چومے
ہمارے چچا سے نہ ڈرو ایک لڑکی نے کہا وہ حشیش پی کر سوتا ہے اور صبح ہوش میں آتا ہے ہم دونوں صرف یہ بتانا چاہتی ہیں کہ ہم باقی عمر تمہارے ساتھ گزارے گی ہمیں لونڈیاں بنا کر رکھ لو چاہے شادی کر لو اور اگر تم ہمیں داشتہ بنا کر رکھو گے تو بھی ہمیں منظور ہے ہم اپنے چچا کو اپنی ذمہ داری سے آزاد کرنا چاہتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تم نے ہمارے دل جیت لیے ہیں
تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں تم دونوں کی خاطر تمہارے چچا کے ساتھ آیا ہوں شمشیر ابلک میں کہا ورنہ اس شخص پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا
لیکن ہمیں ایک ڈر ہے دوسری لڑکی نے کہا تمہیں جب خزانہ مل جائے گا تو تم ہمیں بھول جاؤ گے
ایسا نہیں ہوگا شمشیرابلک نے کہا میں ڈرتا ہوں کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے جاؤ
دونوں لڑکیوں نے بڑے ہی والہانہ انداز سے محبت کا اظہار کیا ان کا رویہ ایسا تھا جیسے دونوں نے اپنا آپ اس کے حوالے کردیا ہو شمشیرابلک کی ایک ہی بیوی تھی جس سے اس کے تین بچے تھے اور اس کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی اس پر تو دونوں لڑکیوں نے خود فراموشی کی کیفیت طاری کردی ابوجندل تو حشیش کے نشے میں گہری نیند سویا ہوا تھا شمشیرابلک پر ان لڑکیوں کے حسن کا اور ان کی جوانی کا نشہ طاری ہوگیا
اس نے چاہا کہ باقی رات یہ لڑکیاں اسی طرح اس کے پاس بیٹھی رہیں اور وہ ان کے نشے میں بدمست ہوتا چلا جائے اس کے ذہن میں اگر ابوجندل کے خلاف کچھ تھوڑا سا شک رہ گیا تھا تو وہ ان دونوں لڑکیوں نے صاف کر دیا
لڑکیاں چلی گئی اور شمشیر ابلک کچھ دیر وہیں بیٹھا ان لڑکیوں کے طلسماتی خیال میں کھویا رہا اس سے پہلے سفر کے دوران یہ لڑکیاں اسے دیکھ دیکھ کر اس طرح مسکراتی رہیں تھیں جیسے وہ اسے بہت پسند کرتی ہوں اور اس کے ساتھ الگ تنہائی میں بیٹھنا چاہتی ہوں ان کا یہی انداز شمشیر ابلک کو دیوانہ بنائے ہوئے تھا مگر اب لڑکیاں رات کی تاریک تنہائی میں اس کے پاس آبیٹھیں اور اس کے اتنا قریب ہو گیں کہ وہ ان کے جسموں کی بو سونگھ سکتا تھا تو وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا
کہیں قریب سے ہی اسے بھیڑیوں کی لمبی ہو کی آوازیں سنائ دیں یہ آواز اچانک اٹھی تھی اور تمام بھیڑیے ایک ہی بار بولنے لگے تھے شمشیر ابلک بیداری کے خواب سے یکلخت ہڑبڑا کر بالکل ہی بیدار ہوگیا اور اٹھ کھڑا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا اس جگہ جا پہنچا جہاں وہ سویا ہوا تھا وہاں لیٹا اور اس نے باقی رات جاگتے گزار دی
=÷=÷=÷÷۔=÷=÷=÷=÷
صبح ابھی دھندلکی تھی جب یہ قافلہ جاگا اور بڑی تیزی سے سامان سمیٹ کر اور گھوڑوں پر زین ڈال کر چل پڑا جوں جوں صبح کا اجالا نکلتا آرہا تھا زمین کے خدوخال بدلتے جارہے تھے درخت بہت کم ہوگئے تھے اور گھاس بھی کم ہوتی جا رہی تھی اور تھوڑی ہیں دور آگے زمین ایسی آ گئی جیسے نہ جانے کتنی مدت سے پانی کی بوند کو ترس رہی ہو درخت تو کہیں کہیں نظر آتے تھے اور یہ درخت بلکل خشک تھے جن کی ٹہن تو تھے لیکن ٹہنیاں نہیں تھی جھاڑیاں بالکل خشک اور خاردار تھیں زمین کٹی پھٹی تھی کہیں زمین ابھری ہوئی تھی اور کہیں نشیب میں چلی جاتی تھی اور کہیں ٹیلے یوں کھڑے تھے جیسے زمین پر گڑے ہوئے مخنی اور بھدے اور بدصورت سے ستون ہوں، زمین پر کسی گھوڑے یا اونٹ یا کسی انسان کا تازہ پرانا نقش پا نہ تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے کبھی کوئی نہیں گزرا اور یہ پہلے انسان ہیں جو اس طرف آ نکلے ہیں
یہ ہے صحرا کا اصل خطرہ ابو جندل نے اپنے ساتھیوں کو بتایا نا واقف مسافر ان ڈھیروں میں داخل ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ ان میں سے نکل جائے گا لیکن انکے اندر ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ بعض مسافر ان ڈھیروں میں سے دو تین کے اردگرد ہی گھومتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت فاصلے طے کرلیا ہے لیکن وہ وہیں کے وہیں ہوتے ہیں حتیٰ کہ پیاس اور پھر بھوک انہیں وہیں گرا لیتی ہے اور ریت ان کے جسموں سے زندگی کا رس چوس لیتی میں ان سے واقف ہون اس لئے میں جب بھی ادھر آیا ہوں دور کا چکر لگا کر گیا ہوں
ابوجندل انہیں ایک طرف لے گیا اس طرف زمین اوپر ہی اوپر اٹھتی جا رہی تھی نظر تو یوں آتا تھا جیسے یہ زمین پکی ہے اور پاؤں کے نیچے مٹی ہے لیکن جب پاؤں رکھتے تھے تو ریت میں دھنس جاتا تھا بلندی پر جاکر ریت کی ان ڈھیریوں کو دیکھا تو وہ میل واسعت میں پھیلی ہوئی تھیں ابوجندل اپنے قافلے کو دور دور سے نکال کر آگے لے گیا
سورج سر پر آ گیا تو آگے یوں نظر آتا تھا جیسے زمین جل رہی ہو اور اس سے شعلے اٹھ رہے ہوں ان میں سے آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا کیونکہ یہ شفاف سے شعلے جھلمل کرتے تھے قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا تھا یہ جھلملاتے ہوئے شعلے بھی آگے بڑھتے جارہے تھے
پیاس ایک قدرتی امر ہے ابو جندل نے پچھلے پڑاؤ سے روانگی سے پہلے ہی پانی کا ذخیرہ چھوٹے چھوٹے مشکیزوں میں بھر لیا تھا ہر گھوڑے کے ساتھ ایک مشکیزہ بندھا ہوا تھا سب نے پانی پیا اور چلتے چلے گئے
ابو جندل نے انہیں بتایا کہ یہ ریگستانی خطہ شام سے پہلے ختم ہو جائے گا اور کچھ ہی دور آگے ایک نخلستان آئے گا یہاں رک کر کھانا کھائیں گے اور تھوڑا سا آرام کر کے آگے چلے جائیں گے
سورج جب مغرب کی طرف چلا گیا تو دور سے کھجور کے درخت نظر آنے لگے گھوڑے پیاس سے بے چین ہوئے جارہے تھے اور تھک بھی گئے تھے کیونکہ ان کے قدم ریت میں دھنس رہے تھے آخر نخلستان آہی گیا وہاں پانی کا چھوٹا سا تالاب تھا اور کھجور کے درختوں کی اتنی افراط کے سایہ ہی سایہ تھا حالاں کہ کھجور کے درخت کا سایہ بیکار ہوتا ہے، گھوڑے سواروں کے اترتے ہی پانی کی طرف دوڑ پڑے اور پانی پینے لگے
قافلے نے کھانا کھایا پانی پیا اور تھوڑا سا آرام کر لیا گھوڑے پانی پی چکے ہی یہ لوگ اٹھے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل پڑے گھوڑے تو تھکے ہوئے لگتے ہی تھے لیکن ان کے سواروں کے چہروں سے پتہ چلتا تھا کہ خزانے کا لالچ نہ ہوتا تو وہ وہیں تھکن سے گر پڑتے اور گہری نیند سو جاتے ان کے جسم تو جیسے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے زیادہ بری حالت لڑکیوں کی تھی ابوجندل انہیں اچھی اچھی اور پر امید باتیں سناتا جا رہا تھا تاکہ یہ لوگ ذہنی طور پر بیدار اور مستعد رہیں
آگے پھر ویسا ہی صحرا تھا لیکن کچھ آگے جاکر ریت مٹی میں تبدیل ہونے لگی تھی اور دو اڑھائی میل دور ہرے بھرے درخت نظر آنے لگے تھے ابوجندل آگے آگے جا رہا تھا اس نے اچانک لگام کھیچ کر گھوڑا روک لیا اور ایک ہاتھ بلند کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ سب رک جائیں وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور چند قدم آگے جا کر زمین پر جھک گیا شمشیر ابلک بھی گھوڑے سے اترا اور اس تک پہنچا
دیکھو شمشیر! ابوجندل نے زمین کی طرف اشارہ کرکے کہا کیا تم کہہ رہے ہو کہ یہ گھوڑوں کے نشان نہیں ؟
ہاں ابوجندل! شمشیرابلک نے کہا یہ بلاشبہ گھوڑوں کے نشان ہیں اور یہ نشان پرانے نہیں ایک دو روز پہلے کے لگتے ہیں
ابوجندل اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اس طرف کچھ دور تک چلا گیا جدھر سے یہ گھوڑے آرہے تھے کھروں کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے کہ گھوڑے کدھر سے آئے ہیں اور کدھر گئے ہیں ابوجندل رک گیا شمشیرابلک بھی گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے پیچھے چلا گیا تھا
ادھر سے عام لوگ نہیں گزرا کرتے ابوجندل نے کہا ادھر کسی فوج کے گھوڑسوار نہیں آ سکتے یہ خطہ سلطانوں اور بادشاہوں اور اماموں کی دنیا سے بہت دور ہے میں کہا کرتا ہوں کہ اس خطے پر خدا کا قہر برستا رہتا ہے ادھر سے کوئی مجھ جیسا قزاق اور ڈاکو ہی گزر سکتا ہے ہمیں اب زیادہ ہوشیار ہو کر آگے جانا پڑے گا
وہ قافلے کے باقی افراد کو لے کر آگے چل پڑے اور سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ وہ پھر ہرے بھرے خطے میں داخل ہوگئے ابوجندل اور شمشیرابلاک راستے میں زمین کو دیکھتے آئے تھے کہ قدموں کے اور نشان بھی ملیں گے، نشان ملے تھے لیکن وہ دوسری طرف چلے گئے تھے
انھوں نے اس سرسبز جگہ پر رات کو پڑاؤ کیا زمین خشک تھی اور گھاس بڑی ملائم اور نرم تھی ابو جندل نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ چاروں رات کو اس طرح پہرا دیں کہ ایک آدمی پہرے پر کھڑے رہے اور دوسرے باری باری پہرا دیں اس نے یہ بھی کہا کہ جو بھی پہرے پر کھڑے ہو اس کے پاس کمان اور ترکش ضرور ہونے چاہیے ابوجندل خطرہ محسوس کر رہا تھا جس کی نشاندہی گھوڑوں کے ان قدموں کے نشانوں نے کی تھی جو اس نے دیکھے تھے
کھانے کے بعد وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہیں اور جب سونے لگے تو ایک سپاہی پہرے پر کھڑا ہوگیا اس نے ایک جگہ کھڑا ہی نہیں رہنا تھا انہوں نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں آمنے سامنے دو ہری بھری ٹھیکریاں تھیں اور ایک ٹیکری آگے تھی
پہلے والے سپاہی کو بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے پہرے کے دوران ان ٹیکریوں کے پیچھے بھی جائے اور اوپر جا کر بھی دیکھے اور پوری طرح بیدار رہے
چاروں سپاہیوں نے باری باری رات بھر گھوم پھر کر پہرہ دیا اور صبح کا اجالا آہستہ آہستہ نکلنے لگا آخری سپاہی جو پہرے پر تھا وہ اب ایک ٹیکری کے پیچھے تھا اسے غالبا معلوم تھا کہ اس کے ساتھی دیر سے جاگیں گے اس لیے اس نے پہرے پر ہی رہنا بہتر سمجھا
اسے ٹیکری کے اس طرف جدھر اس کے ساتھی سوئے ہوئے تھے کچھ آوازیں اور آہٹیں سی سنائی دیں وہ سمجھا کہ اس کے ساتھی جاگ اٹھے ہیں وہ آہستہ آہستہ چلتا ٹیکری کے سرے پر آیا جہاں ٹیکری ختم ہوتی تھی وہاں دو چوڑے تنوں والے درخت تھے اس نے جب اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی اور ہی منظر نظر آیا آٹھ آدمی تھے جنہوں نے منہ اور سر سیاہ پگڑیوں میں لپیٹ رکھے تھے انہوں نے لمبے چغے پہن رکھے تھے جو ان کے گھٹنوں تک گئے ہوئے تھے آٹھ گھوڑے کچھ دور کھڑے گھاس کھا رہے تھے
دو آدمیوں نے دونوں لڑکیوں کو پکڑ رکھا تھا اور باقی آدمیوں نے تلواریں ہاتھوں میں لے رکھی تھی اور ہر ایک نے تلوار کی نوک ایک ایک آدمی کی شہ رگ پر رکھی ہوئی تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ کوئی ڈاکو تھے جنہوں نے اس قافلے کو نیند میں دبوچ لیا تھا اور انہیں ہتھیار اٹھانے کی مہلت نہیں دی تھی وہ لڑکیوں کو لے جانا چاہتے تھے جس میں کوئی شک ہی نہیں تھا وہ ابوجندل اور شمشیرابلک سے کچھ پوچھ رہے تھے لڑکیاں ان دونوں آدمیوں کی گرفت میں تڑپ رہی تھیں
پہرے والے سپاہی نے اپنے کمان میں ایک تیر ڈالا فاصلہ بیس بائس گز ہوگا اس نے تیر کھینچ کر جو چھوڑا تو وہ ایک آدمی کی گردن میں اتر گیا اس آدمی نے ایک لڑکی کو پکڑ رکھا تھا اس نے فوراً لڑکی کو چھوڑا اور اپنی گردن پر دونوں ہاتھ رکھے
سپاہی نے بڑی تیزی سے کمان میں دوسرا تیر ڈالا اور جس آدمی نے دوسری لڑکی کو پکڑا ہوا تھا اس کو نشانے میں لے کر تیر چھوڑ دیا اس کا نشانہ بے خطا تھا تیر اپنے شکار کے گال کے ایک طرف لگا اور دوسری طرف باہر ہوگیا اس نے بھی لڑکی کو چھوڑا اور اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لئے
سپاہی نے اسی تیزی سے تیسرا اور چوتھا تیر چلایا اور اسکا ایک تیر بھی خالی نہ گیا یہ ڈاکو حیران ہوگئے انہیں یہ تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ تیر کس طرف سے آرہے ہیں ان کی ہڑبونگ سے قافلے والوں کو ہتھیار اٹھانے کا موقع مل گیا ادھر سے جو تیر اندازی کر رہا تھا اس نے پانچ آدمیوں کو مار لیا
تین ڈاکو بچ گئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ ابوجندل شمشیر ابلک اور باقی تین سپاہیوں نے تلوار اور برچھیاں اٹھا لی ہیں تو وہ تینوں بہت تیزی سے دوڑ پڑے ان کا تعاقب کیا گیا لیکن وہ کود کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور ایڑ لگا دی گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے اس طرح ڈاکو اپنے پانچ ساتھیوں کی لاشیں اور پانچ گھوڑے چھوڑ کر بھاگ گئے
میرے دوستو! ابوجندل نے کہا ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور بھی ہماری منزل کے قریب آ گیا ہے میں بتا نہیں سکتا کہ اب کیا ہوگا لیکن ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں البتہ پوری طرح ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے ہر وقت ہتھیار پاس ہونا چاہیے اور ایک ہاتھ اپنے ہتھیار پر رکھو گے تو خطرے کی صورت میں بچ سکو گے اور تم دونوں لڑکیاں سن لو تم کسی سلطان شہزادے کے حرم کی لڑکیاں نہیں ہو جن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے آقا کو خوش رکھیں تم میری بھتیجیاں ہو اپنے باپ کو یاد کرو وہ بڑا جری اور جابر مرد تھا تم اچھی طرح جانتی ہو اگر کوئی خطرہ آ پڑا تو مردوں کی طرح لڑنا ہے عورتوں کی طرح ڈرنا نہیں
یہ تو ہم نیند میں پکڑی گئی تھیں ایک لڑکی نے کہا میں نیند سے ہڑبڑا کر اٹھی تو ایک آدمی نے میرے بازوں پیٹھ پیچھے جکڑ دیے تھے اگر ہم دونوں بیدار ہوتیں اور ہم پر ڈاکو حملہ کرتے تو پھر تم دیکھتے کہ ہم کیا کر سکتی ہیں
ابو جندل نے انہیں کہا کہ فوراً کوچ کرو تاکہ ہم شام سے پہلے پہلے منزل پر پہنچ جائیں
سورج غروب ہونے میں ابھی دو اڑھائی گھنٹے باقی تھے جب وہ اس خطے میں پہنچ گئے جو ان کی منزل تھی
وہ بھی بے آب و گیاہ خطّہ تھا وہ ویسا ہی تھا جیسا یہ لوگ پہلے ایک جگہ دیکھ آئے تھے سیلوں والی گہری سلیٹی رنگ کی چٹانیں تھیں اور کچھ اونچی پہاڑیاں بھی تھیں اور پتھریلی ٹیکریاں بھی تھیں لیکن وہاں گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی یوں لگتا تھا جیسے ان چٹانوں اور پہاڑیوں سے آگ کی طرح سورج کی تپش خارج ہو رہی ہو ہوا بہت ہی تیز چل رہی تھی جو تیز ہی ہوتی چلی جارہی تھی یہ جب سیلوں والی چٹانوں سے ٹکرا کر گزرتی تھی تو ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دیتی تھیں جو انسانی چیخوں جیسی تھیں کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے عورتیں اور بچّے ان پہاڑیوں کے اندر کہیں کسی مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں اور چیخ چلا رہے ہیں
یہ خطّہ بھی بدروحوں کا مسکن لگتا تھا یہ سارا ماحول دل پر گھبراہٹ اور خوف کا تاثر پیدا کرتا تھا لیکن ابو جندل کا چہرہ پرسکون تھا اور اس کا انداز ایسا جیسے وہ یہاں ذرا سی بھی اجنبیت محسوس نہ کر رہا ہو
اب ذرا ہوشیار رہنا شمشیر ابلک! ابوجندل نے کہا ہمیں ادھر ادھر گھوم پھر کر اور اچھی طرح دیکھ بھال کرکے اندر جانا چاہیے تھا لیکن اتنا وقت نہیں رات آگئی تو مشعلوں کے باوجود ہمارا کام مشکل ہوجائے گا میں تم سب کو سیدھا اندر لے جا رہا ہوں اب جو ہوتا ہے ہوتا رہے مقابلہ کریں گے
بات ذرا صاف کرو ابوجندل! شمشیر ابلک نے کہا وہ خطرہ ہے کیسا جو تم محسوس کر رہے ہو مجھے الفاظ میں بتا دو تاکہ میں اس کے مطابق خود بھی تیار رہوں اور اپنے ان سپاہی ساتھیوں کو بھی تیار رکھوں
آسمان سے کوئی آفت نہیں گرے گی ابوجندل نے کہا یہ خطرہ انسانوں کا ہی ہوگا وہ جو تین آدمی زندہ نکل گئے تھے وہ کہیں دور نہیں چلے گئے یہی کہیں ہونگے اور وہ یہاں آ سکتے ہیں
آنے دو شمشیر ابلک نے کہا آنے دو انہیں اب ہم سوئے ہوئے نہیں ہونگے چلو آگے
ابوجندل آگے آگے تھا وہ چٹانوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہوگیا باقی سب پیچھے ایک قطار میں جارہے تھے اب ان کے پاس فالتو گھوڑے سات تھے وہ ڈاکووں کے گھوڑے بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے
ابوجندل کبھی دائیں مڑتا کبھی بائیں مڑتا اور یہ لوگ بھول ہی گئے کہ وہ کدھر سے آئے ہیں اور کتنے موڑ مڑچکے ہیں صرف ابوجندل راستے سے واقف تھا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ واپس کس طرح آنا ہے وہاں اندر چھوٹی بڑی بے شمار چٹانیں تھیں ان کے ساتھ اونچی پہاڑی تھی ہوا کی چیخیں اور بلند ہو گئی تھیں
آخر جگہ ایسی آگئی کہ دائیں طرف اونچی پہاڑی تھی اور اس کے دامن میں ذرا ہٹ کر لمبی چٹان تھی اور ان کے درمیان گھوڑے گزرنے کے لیے کچھ جگہ تھی پچاس ساٹھ گز آگے یہ چٹان پہاڑی کے دامن سے مل جاتی تھی اور وہاں ایک بڑی بلند چٹان نے راستہ روک لیا تھا ابو جندل آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور وہاں تک پہنچ گیا جہاں راستہ بند ہو جاتا تھا
وہ گھوڑے سے اترا اور سب کو اترنے کے لیے کہا اور یہ بھی کہ گھوڑے یہیں چھوڑ دیں آگے دیکھا کہ یہ راستہ اس طرح نیچے کو چلا گیا تھا جس طرح کسی کی عمارت کے تہہ خانے میں سیڑھیاں اترتی ہیں ابو جندل نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ مشعلیں جلا کر نیچے آ جائیں وہ شمشیر ابلک اور لڑکیاں نیچے اتر گئی اور سپاہیوں نے مشعلیں جلائی اور ان کے پیچھے پیچھے نیچے چلے گئے
وہ آٹھ دس گز نیچے چلے گئے یہ تہہ خانے کی طرح بنا ہوا ایک غار تھا جس کی چھت بیس پچیس گز اونچی تھی اور یہ غار بہت ہی کشادہ تھا
غار کی چھت سے چٹانوں کے لمبوترے اور عجیب و غریب ٹکڑے لٹک رہے تھے جونہی مشعلیں اندر داخل ہوئیں بڑی ہی زور سے ایسی آواز آئی جیسے طوفان آگیا ہو اور اس کے ساتھ چڑچڑ کی آوازیں آئیں جو ایک شوروغل کی طرح بلند ہوتی چلی گئیں یہ چمگادڑ تھے جو غار کے اندر سے اڑ کر باہر نکل گئے تھے یہ چند ایک نہیں بلکہ سیکڑوں تھے ابو جندل نے بلند آواز سے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ چمگادڑ ہیں ان سے ڈرے نہیں
اس غار کے فرش پر بھی چٹانیں تھی جس کی اونچائی دو گز یا تین گز تھی مشعلوں کی روشنی میں ایک طرف ایک اور غار کا دھانہ سا نظر آیا ابوجندل اس میں داخل ہوگیا یہ دہانہ تو اتنا کشادہ نہیں تھا لیکن اندر جاکر دیکھا غار خاصہ کشادہ ہوتا چلا جارہا تھا مشعلوں کی روشنی خاصی زیادہ تھی اور اندر کنکریاں بھی نظر آرہی تھیں
پچیس تیس قدم گئے ہونگے کہ آگے ایک اور دہانہ نظر آیا ابوجندل اس میں داخل ہوگیا اور اب یہ لوگ ایک اور غار میں چلے گئے تھے ابو جندل نے کہا کہ مشعلیں آگے لے آؤ مشعلیں آگے گئے تو سب نے دیکھا کہ وہاں تین بکس رکھے ہوئے تھے جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے اور ان پر لوہے کی مضبوط پتریاں چڑھی ہوئی تھیں
یہ لو شمشیر بھائی! ابو جندل نے کہا یہ ہے میرے باپ کی اور میری کمائی خزانہ اب صرف میرا نہیں ہم سب کا ہے اس نے سپاہیوں سے کہا مشعلیں لڑکیوں کو دے دیں اور یہ بکس اٹھائیں
سپاہی آگے بڑھ کر ایک بکس کو اٹھانے لگے تو شمشیر ابلک نے کان کھڑے کر لیے اور ابوجندل سے کہا کہ اسے باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی ہے ابو جندل نے اسے کہا کہ اس کے کان بج رہے ہیں یہاں اور کوئی نہیں آ سکتا
ابوجندل ابھی یہ بات کہہ ہی رہا تھا کہ غار میں آواز آئی ان صندوقوں سے پیچھے ہٹ جاؤ
سب نے چونک کر ادھر دیکھا ایک آدمی جس نے منہ اور چہرہ کالے رنگ کی پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا تھا سب نے تلواریں نکال لیں دیکھتے ہی دیکھتے غار میں دس بارہ آدمی آگئے ان سب کے سر اور چہرے کالی پگڑیوں میں لپٹے ہوئے تھے سب کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں
سب پیچھے کھڑے رہو دوستوں! ابوجندل نے آگے بڑھ کر ان ڈاکووں سے کہا تم زندہ ان صندوقوں تک نہیں پہنچ سکو گے اور جب تک ہم زندہ ہیں ان صندوقوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکو گے
ابوجندل! کالی پگڑی والے ایک آدمی نے کہا تم بھی ہم میں سے ہو اور ہم تمہیں جانتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ تم ہمارے ہاتھوں مرو یہ صندوق اور دو لڑکیاں یہیں چھوڑ جاؤ اور خود کو اور اپنے ساتھیوں کو زندہ لے جاؤ
او یہ تم ہو ابو جندل نے اس آدمی کو پہچانتے ہوئے کہا میرا خیال تھا کہ تم سب مارے گئے ہو یا کسی اور طرف نکل گئے ہو نہ تم ہمارے ہاتھوں مرو نہ ہم تمہارے ہاتھوں مرنا چاہتے ہیں ان صندوقوں میں جو کچھ ہے آؤ برابر برابر بانٹ لیتے ہیں
یہ مال اس کا ہے جس کے پاس طاقت ہے کالی پگڑی والے نے کہا ہم تمہیں باتوں کا وقت نہیں دیں گے ہم سارا مال لے جانے آئے ہیں
ابو جندل نے شمشیر ابلک کو اشارہ کیا اور اس کے ساتھی ان دونوں نے اور چاروں سپاہیوں نے اور لڑکیوں نے بھی ڈاکوؤں پر حملہ کردیا ڈاکو تیار تھے وہ تو لڑنے اور مرنے کے لیے آئے تھے
پھر اس غار میں تلوار ٹکرانے کی آوازیں آتی رہیں زخمی گرتے رہے خون بہتا رہا مشالیں زمین پر پڑی جل رہی تھیں دو تین زخمی جلتی مشعلوں پر گرے اور ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی وہ اٹھ کر ادھر ادھر دوڑے اور آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن ناکام رہے وہ پہلے ہی زخمی تھے پھر کپڑے جل کر ان کے جسموں کو جلانے لگے تو وہ جلدی ہی بے ہوش ہو کر گر پڑے اتنے میں تین چار اور زخمی مشعلوں پر گرے اور اسی انجام کو پہنچے لڑنے والے لڑتے لڑتے مشعلوں پر آئے تو ان کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی
غار میں اگر کسی کو فتح حاصل ہوئی تو وہ آگ ہوئی اندر آگ کے شعلے تھے اور غار دھوئیں سے بھر گیا تھا کچھ تو تلواروں کے زخموں سے مر گئے اور جو زخموں سے نہ مرے انہیں مشعلوں کی آگ نے مار ڈالا اور تھوڑی دیر بعد غار میں صرف شعلوں کی ہلکی آواز آ رہی تھی
قافلوں سے لوٹا ہوا خزانہ موت کے ہاتھ آیا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:42 }
جب غار میں قتل و غارت ہو رہی تھی مشعلوں کے شعلے لڑنے مرنے اور زخمی ہو کر گرنے والوں کو چاٹ رہے تھے اس وقت سورج اونچی چٹانوں کی اوٹ میں چلا گیا پھر غار کے ہولناک راز کو اپنے جلتے ہوئے سینے میں چھپائے افق میں اتر گیا بھول بھلیوں جیسی بد رنگ اور بدشکل چٹانوں نے شام کے دھندلکوں کو تھوڑی سی دیر میں گہرا کر دیا ان میں بعض چٹان کی طرح اوپر کو اٹھتی ہوئی تھی اور کچھ میناروں کی طرح اوپر سے نوکیلی تھیں شام کی تیزی سے گہرے ہوتے دھندلکے میں یہ چٹان بھوتوں جیسی لگتی تھیں ان میں پراسراریت اور خوف کا نمایاں تاثر تھا
غار کے اندر جو آگ لگی ہوئی تھی اس کی ہلکی سی بڑی ہی مدھم سی روشنی غار کے دہانے تک آتی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے یہ روشنی رات کی بڑھتی ہوئی تاریکی کے ڈر سے باہر نہیں آرہی ایک سایہ سا حرکت کر رہا تھا اس سائے کو غار نے اگل کر باہر پھینک دیا تھا یا جیسے موت نے اسے قبول نہ کیا اور اگل دیا تھا سایہ غار کے دہانے سے نکلا تھا اور غار کے اندر کسی مرنے والے کی بدروح جیسا لگتا تھا
چٹانوں کے درمیان بس اتنی سی ہی جگہ تھی کہ ایک انسان چل سکتا تھا یہ سایہ اس تنگ و تاریک راستے پر سرکتا جا رہا تھا یہ کوئی سیدھا راستہ نہیں تھا یا ایسا بھی نہیں تھا کہ کچھ دور جا کر ادھر یا ادھر مڑتا ہو یہ تو ہر دس پندرہ قدموں پر مڑتا تھا اور کہیں دو اطراف کو مڑتا اور کہیں یہ جو راستہ بن جاتا تھا چلنے والا جان ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ کدھر کو موڑے تو ان بھول بھلیوں سے نکل جائے گا
یہ سایہ سا سرکتے رینگتے دیکھتا کہ آگے سے ایک اور چٹان نے راستہ روک رکھا ہے تو وہ ذرا رکتا دائیں بائیں دیکھتا اور کسی بھی طرف مڑ جاتا ایسے کئی موڑ مڑ کر اس نے اپنے آپ کو چٹانوں کے نرغے میں ہی پایا کچھ آگے جا کر ایک جگہ ایسی آگئی کہ راستے دونوں بلکہ تین اطراف کو جاتے تھے سایہ روک گیا اور اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ایک انسانی آواز بلند ہوئی یا اللہ تو نے زندگی عطا کی ہے تو وہ راستہ بھی دکھادے جو زندہ انسانوں کی دنیا کی طرف جاتا ہے میرا چچا باطنی ابلیس کا پوجاری تھا تو اس کی سزا مجھے نہ دے جس نے آج تک اپنی عصمت کو بے داغ رکھا ہے گنہگار چچا کی یتیم بھتیجی نے اپنے دامن گناہوں سے پاک رکھا ہے یااللہ یااللہ اور اسکی رندھیا کر رات کی تاریکی میں تحلیل ہوگئی
وہ ابو جندل کی بڑی بھتیجی شافعیہ تھی اس کی عمر پچیس چھبیس سال تھی اس کی چھوٹی بہن جس کی عمر بیس اکیس سال تھی غار کے اندر ماری گئی تھی جب غار میں ڈاکو اور لٹیرے آگئے اور کشت وخون شروع ہو گیا تھا اس وقت شافعیہ غار کے اندر ہی ذرا بلند ایک چٹان کے پیچھے چھپ گئی تھی غار خاصا کشادہ تھا اس کے اندر چھوٹی چھوٹی نوکیلی چٹانیں ابھری ہوئی تھیں اور کہیں گڑھے سے بھی بنے ہوئے تھے شافعیہ اتنی الگ ہٹ کر چھپی تھی کہ جب مشعلوں نے لڑنے والوں اور گرنے والوں کے کپڑوں کو آگ لگا دی اور غار روشن ہوگیا تو بھی وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتی تھی وہ یہ خونچکاں منظر دیکھتی رہی تھی لیکن جس چیز کو وہ زیادہ دیکھ رہی تھی وہ نکل بھاگنے کا راستہ تھا راستہ ایک ہی تھا اور وہ غار کا دہانہ تھا وہ دیکھ رہی تھی کہ اس دہانے سے لڑنے والے ذرا ایک طرف ہو تو وہ چھپ کر نکل بھاگے اس نے اپنی چھوٹی بہن کو مرتے دیکھا تھا
شافعیہ چٹان کے پیچھے سے اپنی حسین و جمیل اور نوجوان بہن کو دیکھ رہی تھی کہ وہ نکل بھاگنے کے لیے ادھر ادھر دوڑ رہی ہے اور کہیں چھپنے کی کوشش نہیں کر رہی روشنی اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ غار میں کنکر بھی نظر آ رہے تھے ایک ڈاکو نے شافعیہ کی چھوٹی بہن کا بازو پکڑ لیا ایک اور ڈاکو نے اس کا دوسرا بازو پکڑ لیا اور دونوں اسے اپنی اپنی طرف کھینچنے لگے لڑکی چیخنے چلانے لگی لیکن اسے ان لٹیروں سے بچانے والا کوئی نہ تھا سب ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے اس وقت تک ابوجندل مارا جا چکا تھا شافعہ نے اپنے چچا کو بری طرح زخمی ہو کر گرتے دیکھا تھا
ایک لٹیرے نے دیکھا کہ اس کے دو ساتھی ایک لڑکی کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور آخر ہوگا یہ کہ دونوں اس لڑکی کی ملکیت پر ایک دوسرے کا خون بہا دیں گے اس نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سیدھی لڑکی کے پیٹ میں اتار دی اور اتاری بھی اتنی زور سے کہ اس کی نوک پیٹھ کی طرف سے باہر آگئی
بدبختوں! اس نے لڑکی کے پیٹ سے تلوار نکال کر کہا ایک لڑکی کے پیچھے ایک دوسرے کے دشمن نہ بنو پہلے یہ خزانہ باہر نکالو پھر تمہارے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں رہے گی
تھوڑی ہی دیر بعد یہ تینوں بھی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ کر گر پڑے اور ان کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی شافعیہ کو نہ کوئی دیکھ سکا نہ کوئی اس تک پہنچا تھا اس نے جب دیکھا کہ صرف دو آدمی ایک دوسرے کا خون بہانے کے لئے رہ گئے ہیں تو وہ جھکی جھکی سی اور کچھ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل وہاں سے نکلی اور غار کے دہانے سے باہر آ گئی
شافعیہ چٹانوں کی جن بھلائیوں میں پھنس گئی تھی ان سے اس کا چچا ابوجندل واقف تھا جو سب کو بڑی آسانی سے غار تک لے گیا تھا لیکن وہ چچا غار میں ہی رہ گیا تھا اور وہ زندہ نہیں تھا شافعیہ کو تو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ کدھر سے اندر آئے تھے اگر دن کی روشنی ہوتی یا چاند پوری طرح روشن ہوتا تو شاید اسے یہاں سے نکلنے میں اتنی دشواری نہ ہوتی لیکن رات بڑی ہی تاریک تھی وہ اب سوائے اللہ کے کسی سے بھی مدد نہیں مانگ سکتی تھی اللہ ہی تھا جو اسے راستے پر ڈال سکتا تھا اس کا یہ کہنا صحیح تھا کہ گنہگار چچا کے پاس رہتے ہوئے اس نے اپنا دامن گناہوں سے پاک رکھا تھا پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ابو جندل نے شمشیر ابلک کو بتایا تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں اس کی اپنی بیٹیاں ہوتی تو وہ انہیں حسن بن صباح کی جھولی میں ڈال دیتا لیکن یہ دونوں اس کی مرے ہوئے بھائی کی بیٹیاں تھیں اور انہیں وہ امانت سمجھتا تھا شافعیہ کی چھوٹی بہن کے انداز کچھ اور تھے لیکن گمراہ ہونے سے پہلے ہی وہ تلوار کے ایک ہی وار سے مر گئی تھی شافعیہ نے اپنے ایمان کو اور اپنی عصمت کو اللہ کی امانت سمجھ کر محفوظ رکھا تھا اب وہ اللہ سے ہی رہنمائی اور روشنی مانگ رہی تھی
اسے چلتے سرکتے خاصی دیر گزر گئی تھی اسے اچانک ایک گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی وہ چونک کر رکی اور فورا بعد تین چار گھوڑے اکٹھے ہنہنائے
شافعیہ نے ان آوازوں سے سمت کا اندازہ کیا اور اس سے یہ اندازہ ہوا کہ گھوڑے زیادہ دور نہیں اور ہیں کس طرف ان گھوڑوں میں سے اس کے اپنے گھوڑے بھی تھے جن پر یہ پارٹی یہاں آئی تھی ان میں ان ڈاکوؤں کے گھوڑے بھی تھے جو بعد میں غار تک پہنچے تھے نہ جانے کیا وجہ تھی کہ گھوڑے اندر نہیں لے جائے جاتے تھے
تھوڑے تھوڑے سے وقفے سے ایک دو گھوڑے ہنہناتے تھے اس سے شافعیہ کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ کس سمت کو جارہی ہے اور کس سمت کو جانا چاہیے اس کے مطابق وہ مڑتی اور آگے بڑھتی رہی اور آخر وہ ان بھول بھلیوں سے نکل گئی باہر اگر کچھ روشنی تھی تو وہ ستاروں کی تھی اسے گھوڑے نظر آ گئے تاریکی میں اپنا گھوڑا پہچاننا آسان نہ تھا پہچاننے کی ضرورت بھی نہیں تھی تمام گھوڑے تنومند اور اچھی نسل کے تھے
شافعیہ نے دو گھوڑے پکڑے ایک کی باگ دوسرے گھوڑے کی زین کے پیچھے باندھ لی پھر تین چار گھوڑوں سے کھانے پینے کی اشیاء کے تھیلے اتارے اور پانی کے دو مشکیزے بھی اتار لیے ان تھیلوں اور مشکیزوں کو اس نے پیچھے بندھے ہوئے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا اور اگلے گھوڑے پر سوار ہو گئی اس کے پاس دو ہتھیار تھے ایک تلوار اور دوسرا خنجر گھوڑ سواری کی وہ بڑی اچھی سوچ بوجھ رکھتی تھی اس زمانے میں بچہ جب بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوجاتا تھا تو اسے جو کام سب سے پہلے سکھایا جاتا وہ سواری تھی
شافعیہ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن ایسی نہیں کہ گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑتا وہ یہ خطرہ محسوس کر رہی تھی کہ غار میں سے کوئی ڈاکو زندہ نکل آیا ہوگا وہ اگر دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنتا تو اس کے تعاقب میں آجاتا شافعیہ نے گھوڑے کو عام چال پر رکھا ذہن پر زور دے کر اسے یاد کرنا پڑا کہ وہ اپنے چچا کے ساتھ کس طرف سے ادھر آئی تھی اسے صحیح طور پر سمت تو یاد نہیں رہی تھی اس نے بہت سوچا اور بہت یاد کیا آخر ایک طرف چل پڑی اور اپنے آپ کو یہ یقین دلایا کہ ادھر سے ہی آئی تھی وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی خوف نہ ہوتا اس کے پاس تلوار تھی خنجر تھا
اور اس کے پاس دو گھوڑے بھی تھے وہ خنجر اور تلوار چلانا جانتی تھی لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ وہ بڑی ہی حسین اور اور جوان لڑکی تھی حسین بھی ایسی کے کوئی اچھے کردار کا آدمی بھی اسے دیکھتا تو نظر انداز نہ کر سکتا اسے روک لیتا
وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ ریگستان میں چلی جا رہی ہے کوئی ایک بھی درخت نظر نہیں آتا تھا اس کے دل پر خوف و ہراس تھا جس نے اس کی نیند غائب کر دی تھی یہ بھی اچھا تھا کہ وہ غنودگی میں نہ گئی اور بیدار رہی وہ کان کھڑے کر کے سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے تعاقب میں کوئی آ تو نہیں رہا زمین خاموش تھی آسمان خاموش تھا اور رات پر ایسا سکوت طاری تھا کہ وہ اپنے دل کی دھڑکن بھی سن رہی تھی اس نے گھوڑے کو دوڑایا نہیں تھا کہ گھوڑا تھک نہ جائے
صبح طلوع ہونے لگی اور شافعیہ کو زمین و آسمان نظر آنے لگے وہ صحرا میں جا رہی تھی جہاں اس وقت تک ریت ھی ریت تھی صرف ایک طرف اسے افق پر یوں نظر آیا جیسے عمارتیں کھڑی ہوں وہ اسی طرف جا رہی تھی سورج اوپر آتا چلا گیا اور تپش میں اضافہ ہوتا گیا سورج جب سر پر آ گیا تو اس نے گھوڑا روک لیا اور نیچے اتری دوسرے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے میں سے کھانے کو کچھ نکالا اور مشکیزہ کھول کر پانی پیا اور پھر گھوڑے پر سوار ہو گئی وہ چلتے گھوڑے پر کھاتی رہی وہ زیادہ رکنا نہیں چاہتی تھی اسے صرف یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ گھوڑوں نے نہ جانے کب سے پانی پیا ہوا ہے اور یہ پیاس محسوس کریں گے جو صحرا میں ایک خطرہ بن سکتا ہے اصل خطرہ تو وہ محسوس کرنے ہی لگی تھی وہ یہ تھا کہ وہ جب اپنی پارٹی کے ساتھ ادھر آئی تھی تو ایک صحراء راستے میں آیا تھا لیکن وہ یہ نہیں تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ غلط راستے پر چل نکلی تھی وہ جدھر دیکھتی اسے صحرا نظر آتا اور جب پیچھے دیکھتی تو اسے وہ پہاڑیاں اور چٹان نظر آتی تھیں جن میں وہ غار تھا اور جہاں سے وہ آ رہی تھی وہ رات بھر سوئی نہیں تھی اور اس پر خوف بھی طاری تھا اور پھر اس نے جو کشت و خون دیکھا تھا وہ یاد آتا تو وہ اندر باہر سے کانپنے لگتی تھی ہوا یہ کہ اس کا دماغ سوچنے کے قابل رہا ہی نہیں تھا
وہ اللہ کو یاد کرتی جا رہی تھی اس میں تبدیلی صرف یہ آئی تھی کہ پہلے وہ اللہ سے مدد مانگتی تو رو پڑتی لیکن اب اس نے حوصلہ اتنا مضبوط کر لیا کہ رونا چھوڑ دیا اور اپنے آپ میں دلیری پیدا کر لی اب وہ اللہ سے یہی کہتی تھی کہ صرف اس کی ذات اسے راستہ دکھا سکتی ہے وہ یہ بھی کہتی کہ اللہ مجھے ہمت و استقلال دے کہ میں ہر مصیبت کا کا سامنا کر سکوں
سورج غروب ہو رہا تھا جب وہ اس جگہ پر پہنچ گئی جو اس نے دیکھی اور اسے عمارتیں سی نظر آئی تھیں یہ صحرا کے اندر ٹیلے تھے جن کی ساخت دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتوں جیسی تھیں ان میں سے بعض ٹیلے ایسی شکل کے تھے جیسے کسی اونچی عمارت کا سامنے والا حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو یہ جگہ نشیبی علاقے میں تھی اور وہاں ریت کم اور مٹی زیادہ تھی
کہیں کہیں چھوٹے بڑے پتھر بھی نظر آتے تھے ان بڑے ٹیلوں میں چھوٹے ٹیلے بھی تھے جن کی شکل عجیب و غریب تھی یہ سارا ماحول بڑا ہی ڈراؤنا تھا گھاس کی ایک پتی نظر نہیں آتی تھی جوں جوں شام کا دھندلکا گہرا ہوتا جا رہا تھا ان چھوٹے ٹیلوں کی شکل یوں لگتا تھا تبدیل ہوتی جا رہی ہو ان میں کوئی انسانی شکل کا اور کوئی ہاتھیوں جیسا تھا
شافعیہ کا گھوڑا اپنے آپ ہی تیز ہو گیا تیز ہوتے ہوتے گھوڑا دوڑنے لگا اور آگے جا کر ایک ٹیلے سے بائیں کو گھوم گیا وہاں ٹیلا ختم ہوتا تھا کچھ دور ہی جاکر ایسی جگہ آ گئی جس کے ارد گرد ایسے ہی ٹیلے کھڑے تھے اور درمیان میں کچھ ہرے پودے موجود تھے شافعیہ سمجھ گئی کہ گھوڑے نے پانی کی کی مشک پالی ہے صحراؤں میں چلنے والے گھوڑے پانی کی بو پا لیا کرتے ہیں شافعیہ نے لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور گھوڑا دوڑتا ہوا پانی پر جا کر کھڑا ہوا یہاں تھوڑا سا پانی جمع تھا اور اس کے ارد گرد ہی جھاڑیاں تھیں پانی میں آسمان کا عکس نظر آ رہا تھا شافعیہ گھوڑے سے اتر آئی اور اس گھوڑے کی زین سے اس نے دوسرے گھوڑے کو بھی کھول دیا تاکہ دونوں گھوڑے پانی پی لیں
گھوڑے پانی پی رہے تھے اور شافعیہ سوچ رہی تھی کہ اسے رات یہیں گزارنی چاہیے لیکن پانی کے قریب نہیں کیوں کہ اتنا وہ جانتی تھی کہ صحرائی درندے رات کو پانی پینے آتے ہیں اور وہ اس کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں
شافعیہ نے گھوڑے سے ایک تھیلا کھولا اور پانی کا مشکیزہ بھی اتارا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانے لگی اس نے پانی پیا اور دیکھا کہ گھوڑے بھی پانی پی چکے ہیں اور جھاڑیاں کھا رہے ہیں اس نے گھوڑے کو آزاد ہی رہنے دیا تھا کہ وہ پیٹ بھر لیں
رات پوری طرح تاریک ہوگئی تھی شافعیہ اٹھی اور گھوڑوں کو پکڑ کر ایک طرف چل پڑی وہ پانی سے دور رہنا چاہتی تھی اس نے رات وہیں بسر کرنی تھی اور گھوڑوں کو کہیں باندھنا تھا لیکن وہاں کوئی درخت نہیں تھا نہ کوئی اتنا بڑا پتھر تھا جس کے ساتھ وہ گھوڑے کو باندھ دیتی اس نے سوچا گھوڑوں کو اللہ کے سپرد کر کے سو جائے ایک جگہ جا کر وہ لیٹ گئی اور گھوڑوں کو چھوڑ دیا وہ اس قدر تھکی ہوئی تھی کہ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی
کوئی گھوڑا ذرا سا بھی ہنہناتا تھا تو شافعیہ کی آنکھ کھل جاتی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی اور اندھیرے میں ہر طرف دیکھتی گھوڑے جہاں اس نے چھوڑے تھے وہیں کھڑے تھے اس طرح چار پانچ مرتبہ اس کی آنکھ کھلی اور اس نے بیٹھ کر ہر طرف دیکھا اور جب دیکھا کہ گھوڑے وہیں کھڑے ہیں تو پھر لیٹ گئی
آخری بار اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی پہلی کرنیں ٹیلوں کے اس خطے میں داخل ہوچکی تھیں اور یہ خط اللہ کے نور سے منور ہو گیا تھا شافیعہ ہڑبڑا کر بیٹھی دیکھا دونوں گھوڑے غائب تھے وہ اس طرف دوڑ پڑی جدھر پانی تھا اور گھنی جھاڑیاں بھی تھیں دونوں گھوڑے جھاڑیاں کھا رہے تھے اس کے پاس کھانے کا سامان کافی تھا اس نے گھوڑے کی زین سے ایک تھیلا کھولا اور اس میں سے کھانے کی اشیاء نکال کر ایک طرف بیٹھ گئی اور اطمینان سے کھانے لگی پھر پانی پیا اور ایک گھوڑے کو دوسرے کے پیچھے باندھ کر سوار ہوئی اور چل پڑی وہ اب اللہ کے بھروسے جا رہی تھی اس نے سوچا تھا کہیں نہ کہیں تو جا ہی نکلے گی
زمین کو دیکھا تو اسے کچھ اطمینان ہونے لگا وہ اس لئے کہ زمین اب پہلے کی طرح ریتیلی نہیں رہی تھی بلکہ مٹی بڑھتی جا رہی تھی اور گھوڑے کے سموں سے دھول اڑتی تھی اس نے یہ بھی دیکھا کہ زمین پر کسی انسان کے نقش پا نہیں تھے نہ کسی جانور کے پاؤں کے نشان نظر آتے تھے اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اس راستے سے کبھی کوئی نہیں گزرا یا عرصے سے ادھر سے کسی مسافر کا گزر نہیں ہوا زمین اوپر کو جا رہی تھی اور ٹیلے کم ہوتے جا رہے تھے
کچھ اور آگے گئی تو اسے سورج نظر آیا جو افق سے کچھ اور اوپر اٹھ آیا تھا اس نے گھوڑا روک لیا اور اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اس نے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور آسمان کی طرف دیکھا رات کی سیاھ کالی تاریکیوں سے اتنا روشن سورج طلوع کرنے والے اللہ! اس نے بلند آواز سے اللہ کو پکارا میری زندگی کو اتنا تاریک نہ ہونے دینا اور مجھے جو تاریکیاں نظر آ رہی ہیں ان میں سے اپنے نور کی صرف ایک کرن عطا کر دینا میری آبرو کی حفاظت کرنا جان جاتی ہے تو چلی جائے دعا سے اسے روحانی تسکین سی محسوس ہوئی اور اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کا حوصلہ جو دم توڑتا جا رہا تھا پھر سے مضبوط ہو گیا ہے اور ایک غیبی ہاتھ ہے جو اس کی حفاظت کر رہا ہے اس کے نیچے گھوڑا عام چال سے چلا جا رہا تھا شافعیہ نے یہ نہ سوچا کہ گھوڑے کو دوڑائے اور جہاں کہیں بھی پہنچنا ہے جلدی پہنچ جائے اس نے دماغ حاضر رکھا وہ جانتی تھی کہ گھوڑا دوڑایا تو راستے میں ہی جواب دے جائے گا اس نے دوسرا گھوڑا اس لیے ساتھ لے لیا تھا کہ ایک تھک جائے تو دوسرے پر سوار ہو جائے اب اس جگہ سے چلی تو دوسرے گھوڑے پر سوار ہوئی تھی اب تو اسے امید کی کرن نظر آنے لگی جو یہ کہ زمین ذرا ذرا اوپر جا رہی تھی اور کہیں کہیں ہری ہری گھاس نظر آنے لگی تھی اسی طرح ایکا دکا درخت بھی دکھائی دینے لگا لیکن ان درختوں کی شکل و صورت تو ایسی نہیں تھی جیسے جنگلات کے درختوں کی ہوتی ہے ٹہن تھے اور کچھ ٹہنیاں تھی لیکن پتے بہت ہی تھوڑے
آخر ٹیلوں کا خط ختم ہو گیا اور وہ جب بلندی پر پہنچی تو اس کے سامنے ایسی زمین تھی جس پر درخت بھی تھے اور ہریالی بھی نظر آرہی تھی اس نے روک کر پیچھے دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے جہنم سے نکل آئی ہو اور آگے اس کے لئے جنّت ہی جنّت ہے وہاں اونچی نیچی ٹیکریاں بھی تھیں اور زمین ہموار تو نہیں تھی لیکن اس کی جیسی بھی شکل تھی اچھی لگتی تھی کیونکہ اس میں ہریالی تھی وہ ناک کی سیدھ میں چلتی چلی گئی
سورج اوپر آ کر مغرب کی طرف چل پڑا تھا اور اس وقت شافعیہ ایک جنگل میں داخل ہوچکی تھی ہر طرف ہریالی تھی اب گھوڑوں کے بھوکا اور پیاسا رہنے کا کوئی خطرہ نہیں رہا تھا البتہ یہ خطرہ بڑھ گیا تھا کہ وہ حسین اور نوجوان لڑکی ہے اور اس جنگل میں اسے ضرور کوئی نہ کوئی آدمی ملے گا اس نے اپنے آپ کو ایسے خطرے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیا اس نے یہ بھی سوچا کہ خزانے والی پہاڑیوں تک پہنچنے سے پہلے ایک ایسی پہاڑی آئی تھی جس پر وہ سب چڑھے تھے اور اس کی پل صراط جیسی چوٹی پر کچھ دور تک گئے تھے جہاں ذرا سا پاؤں پھسل جاتا تو گھوڑے اپنے سواروں سمیت نیچے تک لڑھکتا چلا جاتا یہ پہاڑی ایک روز پہلے آ جانی چاہیے تھی لیکن اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا یہ تو شافعیہ نے پہلے ہی قبول کر لیا تھا کہ وہ بھٹک گئی ہے لیکن اس پہاڑی کو نہ دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ وہ راستے سے بہت دور چلی آئی ہے اور اب نہ جانے کہاں جا نکلے یا کس انجام کو پہنچے
اسے آسمان پر برسات کے بادلوں کے ٹکڑے منڈلاتے نظر آنے لگے اس نے دل ہی دل میں دعا کی کہ مینہ نہ برس پڑے خزانے والے غار کی طرف جاتے ہوئے موسلادھار مینہ برسا تھا اور اس کی پارٹی کو بڑی ہی سخت دشواری بھی پیش آئی تھی اب وہ اکیلی تھی اور ڈرتی تھی کہ آگے سیلابی ندی آ گئی تو اس کے لیے ایسی مشکل پیش آئے گی جو اس کے بس سے باہر ہو گی
وہ ایک بڑی اچھی جگہ رک گئی گھوڑے سے کھانا کھول کر کھانے بیٹھ گئی اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ بھی اپنا پیٹ بھر لیں وہاں تو اب گھاس ہی گھاس تھی اور جھاڑیوں کی بھی بہتات تھی اسے غنودگی آنے لگی لیکن دن کے وقت وہ سونے سے گریز کر رہی تھی یہ خطرہ تو اس کے ذہن میں ہر وقت موجود رہا کہ اس کے تعاقب میں کوئی آ رہا ہوگا اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اس کے ذہن سے اٹھا کہ اس غار میں کوئی ڈاکو لٹیرا زندہ بھی رہا تھا یا نہیں اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا وہ ڈرتی اس لئے تھی کہ تعاقب میں اگر کوئی آ رہا ہے تو گھوڑوں کے قدموں کے نشان دیکھتا اس طرف پہنچ جائے گا پھر وہ اپنے آپ کو یوں تسلی دیتی کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا گھنٹہ ڈیڑھ آرام کر کے وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور چل پڑی شام تک اسے دو ندیوں میں سے گزرنا پڑا دونوں کی گہرائی گھوڑوں کے گھٹنوں تک ہی تھی اسے وہ ندی یاد آئی جس میں سے گزر کر وہ گئی تھی وہ سیلابی تھی اور خاصی گہری تھی یہ دونوں ندیا جو اب دیکھ رہی تھی جاتے وقت یہ دو ندیاں راستے میں نہیں آئی تھیں جنگل خوبصورت ہوتا جا رہا تھا
سورج غروب ہوگیا اور جنگل کے حسن پر رات کا سیاہ پردہ پڑتا چلا گیا اب اس کے دل میں یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ رات کو سوئی تو درندے آ جائیں گے وہ جانتی تھی کہ ایسے جنگلوں میں شیر اور بھیڑیے ہوتے ہیں خزانے کی طرف جاتے ہوئے ان کا تصادم ایک شیر کے ساتھ ہوا تھا اور پھر انہوں نے بڑا زہریلا اور بڑا ناگ بھی دیکھا تھا انہوں نے مل جل کر ناگ کو مار لیا تھا اور شیر کو بھی لیکن ایک گھوڑا ضائع ہو گیا تھا اس نے سوچا کوئی ایسا درخت نظر آ جائے جس کا ٹہن خاصہ چوڑا ہو اور وہ اس پر چڑھ کر سو جائے لیکن یہ خیال اس خطرے سے ذہن سے نکال دیا کہ سوتے سوتے اوپر سے گر پڑے گی اور ہو سکتا ہے اتنی چوٹ لگے کہ وہ سفر کے قابل ہی نہ رہے
اللہ توکل وہ ایک ٹیکری کے دامن میں رک گئی اور دونوں گھوڑے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیے وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں ٹیکری تھوڑی سی عمودی تھی اس نے وہیں ٹیکری کے اس حصے کے ساتھ پیٹھ لگا لی اور ارادہ کیا کہ جتنی دیر جاگ سکتی ہے جاگے گی اس نے تلوار نیام سے نکال کر اپنے پاس رکھ لی اس نے جاگنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جوانی کی عمر تھی اور تھکان بھی تھی بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی
گھوڑے بڑے ہی زور سے ہنہنائے اور بدکے شافیعہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھی اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر گیا اور بڑی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی گھوڑے رسیاں توڑا رہے تھے اس کے ساتھ ہی شافعیہ نے دوڑتے قدموں کی آواز اور ایسی آوازیں سنیں جیسے کتے اور بھوک رہے ہوں چاند اوپر آ گیا تھا ان دنوں چاند آدھی رات کے بعد اوپر آتا تھا اس چاندنی میں اسے ایک ہرن نظر آیا جو بھاگا جا رہا تھا اور اس کے پیچھے چار پانچ بھیڑیے لگے ہوئے تھے
ہرن اور بھیڑیے گھوڑوں کے قریب سے گزرے تھے معلوم نہیں کیا وجہ ہوئی کہ ہرن گر پڑا ابھی وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ بھیڑیے اس پر جا پڑے اور پھر اسے بھاگنے نہ دیا شافعیہ مطمئن ہوگئی کہ بھیڑیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے شکار مل گیا ہے درندہ بھوکا ہو تو بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے اس لیے خطرہ ٹل گیا تھا لیکن گھوڑے بری طرح بدکے تھے شافعیہ گھوڑوں تک گئی اور ان کے درمیان کھڑے ہوکر دونوں کی گردنوں کو تھپکانے لگی اور باری باری ان کے منہ کے ساتھ منہ لگایا جس سے گھوڑے کچھ سکون میں آگئے اچانک شافعیہ کو خیال آیا کہ جہاں بھیڑیے ہیں وہاں شیر بھی ہو سکتے ہیں وہ ڈرنے لگی کہ شیر آگیا تو وہ بھیڑیوں سے ان کا شکار چھینے گا اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیر جب دیکھے کہ وہ شکار تو بھیڑیوں نے مار لیا ہے تو وہ گھوڑوں کی طرف آ جائے گا
اس خیال نے اسے خاصا ڈرآیا لیکن اس کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور اس نے گھوڑوں پر پہرا دینا شروع کردیا اس نے دوسرے ہاتھ میں خنجر لے لیا اسے چاند سے اندازہ ہوا کہ رات ادھی سے کچھ زیادہ گزر گئی ہے اس نے اللہ کو یاد کرنا شروع کردیا اور اپنے دل میں سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی جب ٹہلتے ٹہلتے تھک گئی تو بیٹھ گئی اور پیٹھ اسی درخت کے ساتھ لگا لی جس کے ساتھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے اس نے نیند پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی اور بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی
بہت دیر گزر گئی تو گھوڑے ایک بار پھر بدکے اور ہنہنائے شافعیہ بڑی تیزی سے اٹھی اور تلوار اور خنجر آگے کر لیے اس نے دیکھا پندرہ بیس قدم دور بھیڑیے بڑے آرام سے واپس جا رہے تھے انہیں اب کسی اور شکار کی ضرورت نہیں تھی ان کے پیٹ بھر گئے تھے شافعیہ نے چاند کو دیکھا جو خاصا آگے نکل گیا تھا وہ پھر درخت کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی اور ایک بار پھر نیند نے اسے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا
اس کی آنکھ کھلی تو اس دن کا سورج افق سے اٹھ آیا تھا شافعیہ اٹھی اور اس نے گھوڑوں کی رسیاں کھولی تاکہ یہ چر چگ لیں اسے اب آگے جانا تھا معلوم نہیں یہ کون سا خطہ تھا کہ اسے کوئی آبادی کوئی چھوٹی سی بستی اور ایک بھی انسان نظر نہیں آیا تھا نہ کسی انسان کے قدموں کے نشان نظر آتے تھے
گھوڑے گھاس چر رہے تھے اور شافعیہ ایک تھیلا کھول کر اپنا پیٹ بھرنے لگی کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور پہلے کی طرح ایک گھوڑے کو دوسرے کے پیچھے باندھ کر سوار ہو گئی اور اللہ کا نام لے کر چل پڑی
جنگل ویسا ہی تھا جیسا وہ دیکھتی چلی آ رہی تھی اب یہ تبدیلی آئی تھی کہ ٹیکریاں ذرا بڑی ہو گئی تھیں اور ان ٹیکریوں پر بھی گھاس تھیں جھاڑیاں تھیں اور درخت بھی تھے وہ چلتی چلی گئی اور تقریبا آدھا دن گزر گیا وہ کچھ دیر کے لیے رکنے کی سوچ رہی تھی کہ اسے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگے پہلے تو اس نے اپنے آپ کو یہ دھوکا دیا کہ اس کے کان بج رہے ہیں لیکن دوڑتے گھوڑے کے قدموں کی دھمک بلند ہوتی جارہی تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ گھوڑا اسی طرف آ رہا ہے
شافعیہ نے ادھر ادھر دیکھا کہ چھپنے کی کوئی جگہ نظر آ جائے لیکن دو گھوڑوں کوچھپانا ناممکن تھا وہ اکیلی ہوتی تو کسی گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ سکتی تھی شافعیہ کو اس گھوڑسوار کا سامنا کرنا ہی تھا اس نے ارادہ کیا کہ جس ٹیکری کے ساتھ لگ کر وہ بیٹھ گئی تھی اسی کی اوٹ میں یعنی پچھلی طرف چلی جائے وہ یہ ارادہ اس امید پر باندھ رہی تھی کہ گھوڑسوار اس طرف سے آگے نکل جائے گا لیکن اب چھپنے کو وقت گزر گیا تھا ایک ہرن اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہا تھا اور یہ ہرن اس کے قریب سے گزر گیا شافعیہ نے دیکھا کہ ہرن کے دم کے ساتھ پیٹھ پر تیر اترا ہوا تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ جو گھوڑ سوار اس کے تعاقب میں آرہا ہے تیر اسی نے اس پر چلایا ہو گا اور وہ کوئی شکاری ہوگا
وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کھڑی رہے یا وہاں سے ہٹ جائے کہ اتنی میں ایک گھوڑ سوار ایک ٹیکری کے عقب سے سامنے آیا جس کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا تھا وہ بڑی تیزی سے شافعیہ کے قریب آگیا اور شافع کو دیکھ کر اس نے باگ کھینچی گھوڑا دو چار قدم پاؤں جماتے جماتے آگے نکل آیا اور رک گیا تھا گھوڑسوار سیاہ فام تھا اس کے پیچھے دو اور سوار آ گئے وہ بھی سیاہ فام تھے آگے والے گھوڑ سوار کا لباس ظاہر کرتا تھا کہ وہ کسی قبیلے کا سربراہ یا سردار ہے اور جو گھوڑ سوار اس کے پیچھے آرہے تھے وہ اس کے نوکر یا غلام لگتے تھے
شافعیہ کو یاد آیا کہ اسے کسی نے بتایا تھا کہ جنگلوں میں کچھ قبیلے ہیں جو تہذیب و تمدن سے دور رہتے ہیں اور یہ قبیلہ خاصی وحشی ہیں اسے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ان قبیلوں کا اپنا ہی تہذیب و تمدن اور اپنا ہی مذہب ہے کچھ یہ بت پرست ہوا کرتے تھے لیکن انہوں نے اسلام کا اتنا سا ہی اثر قبول کیا کہ بت پرستی چھوڑ دی لیکن اپنے اپنے عقیدوں اور مذہبی رسم و رواج کو نہ چھوڑا
وہ گھوڑ سوار وحشی تھا یا تہذیب یافتہ اس سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا وہ شافعیہ کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جس میں حیرت بھی تھی اور ہوس کاری کا تاثر بھی تھا شافعیہ اسے چپ چاپ دیکھے جا رہی تھی اس نے خوف وہراس جھٹک ڈالا اور چہرے پر ایسا کوئی تاثر نہ آنے دیا جس سے پتہ چلتا کہ وہ اس سیاہ فام سے خوف و ہراس محسوس کر رہی ہے یہ سوار گھوڑے سے اتر آیا اور آہستہ آہستہ شافعیہ کے قریب آ گیا اس کے دونوں نوکر گھوڑوں سے اترے اور اس طرح کھڑے ہو گئے جیسے آقا ابھی انہیں کوئی حکم دے گا آقا نے اپنی زبان میں شافعیہ کے ساتھ بات کی شافعیہ سر ہلایا جس کا مطلب تھا کہ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتی وہ مسکرایا
کیا تم انسان ہو ؟
گھوڑے سوار نے اب اس خطے کی زبان میں پوچھا یقین نہیں آتا
ہاں میں انسان ہوں شافعیہ نے جواب دیا
شافعیہ کے لب و لہجے اور انداز میں ذرا سا بھی خوف و ہراس نہیں تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ ذرا سے بھی خوف کا اظہار کیا یا اس پر اپنی مجبوری اور بے بسی ظاہر کی تو یہ شخص شیر ہو جائے گا
کون ہو تم؟
سوار نے جو یقینا اپنے قبیلے کا سردار تھا پوچھا اور اس جنگل میں اکیلی کیا کر رہی ہو معلوم ہوتا ہے تمہارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں
ہوں تو انسان لیکن روح سمجھ لو شافعیہ نے کہا حسن بن صباح کا نام تو تم نے سنا ہی ہوگا
شیخ الجبل! امام سردار نے کہا میں نے اس کے متعلق بہت کچھ سنا ہے وہ آسمان سے آگ کی آغوش میں زمین پر اترا تھا میں نے یہ بھی سنا ہے اور ٹھیک سنا ہے کہ وہ آسمانی جنت کو زمین پر لے آیا ہے
میں اس جنت کی حور ہوں شافعیہ نے کہا اور اس سے پوچھا کیا تم نے امام کی بیعت نہیں کی؟
نہیں! سردار نے جواب دیا ہمارا اپنا مذہب ہے ہمارا یہ رواج ہے کہ جو بھی قبیلے کا سردار ہوتا ہے وہ مذہبی پیشوا بھی ہوتا ہے میں اپنے قبیلے کا سردار اور مذہبی پیشوا ہوں تم اکیلی کیوں ہو؟
شکار کے لئے آئی تھی شافعیہ نے کہا ایک ہرن کے تعاقب میں یہاں تک آنکلی میں دانستہ چھپ گئی تھی میں چاہتی تھی کہ میرے ساتھ جو آدمی شکار کھیلنے آئے تھے وہ مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو جائیں اور واپس چلے جائیں میں دراصل آزاد گھومنا پھرنا چاہتی تھی اب واپس جا رہی ہوں لیکن راستہ یاد نہیں رہا
شافعیہ نے کچھ اور ایسے ہی جھوٹ بولے اور اپنا دماغ حاضر رکھا
میں نے اس جنگل میں کسی اور آدمی کو نہیں دیکھا سردار نے کہا کیا وہ لوگ تمہیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے ہوں گے؟
چلے گئے ہوں گے شافعیہ نے جواب دیا میں اکیلے جانا چاہتی ہوں لیکن ابھی میں واپس نہیں جاؤں گی کیونکہ میں ایک اور جگہ جانا چاہتی ہوں میں بھٹک نہ جاتی تو اب تک یہاں سے نکل گئی ہوتی مجھے کچھ خیال نہیں رہا ہم کس طرف آئے تھے
کہاں جانا چاہتی ہو؟
سردار نے پوچھا
قلعہ وسم کوہ شافعیہ نے جواب دیا کیا تم مجھے وہاں تک کا راستہ بتا سکتے ہو میں نہیں جانتی میں کس سمت کو جا رہی ہوں
کیا شیخ الجبل میں اتنی روحانی طاقت نہیں؟
سردار نے پوچھا اور کہا اسے تو گھر بیٹھے معلوم ہو جانا چاہیے کہ تم کہاں ہو میں نے تو سنا ہے کہ اس میں ایسی روحانی قوت ہے کہ زمین کی ساتویں تہہ کے راز پالیتا ہے
اسے کوئی بتائے گا تو وہ میرا پتہ چلائے گا شافعیہ نے کہا اسے کوئی بھی نہیں بتائے گا کہ میں جنگل میں اکیلی رہ گئی ہوں کیا تم مجھے راستہ بتا سکتے ہو؟
بتا سکتا ہوں سردار نے جواب دیا لیکن یہاں نہیں بتاؤں گا تم میرے علاقے میں ہو اور میں تمہارا میزبان ہوں میں تمہیں اپنی بستی میں نہیں لے جاؤں گا بہت دور ہے یہاں میں ایک جگہ خیمہ زن ہوں تمہیں وہاں لے جاؤں گا اور وہاں تمہیں راستہ سمجھاؤں گا
اگر میں تمہارے خیمے میں نہ جاؤ تو شافعیہ نے پوچھا
تو پھر اس جنگل میں بھٹکتی رہو سردار نے مسکراتے ہوئے کہا اس جنگل سے نکلنا آسان کام نہیں اور یہاں خطرہ یہ ہے کہ یہاں بھیڑیے بھی ہیں شیر بھی ہیں اور ایک سیاہ رنگ کا شیر بھی دیکھنے میں آیا ہے جو بہت خطرناک درندہ ہے ہوسکتا ہے تمہاری تلاش میں آنے والوں سے پہلے ان دونوں میں سے کوئی تم تک پہنچ جائے تمہیں میں اس لئے لے جا رہا ہوں کہ تم زبانی وسم کوہ تک کا راستہ نہیں سمجھ سکوں گی میں سفید کپڑے پر راستہ بنا کر تمہیں دوں گا اور جو نمایاں نشانیاں راستے میں آئیں گی وہ نشان لگا کر تمہیں بتاؤں گا بہتر ہے میرے ساتھ چلی چلو
شافعیہ نے کچھ دیر سوچا اور بہتر یہی سمجھا کہ یہ خطرہ مول لے لیا جائے اور اس شخص سے راستہ سمجھ لیا جائے اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا اس نے اس سیاہ فام سردار کے ساتھ جانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا
شافعیہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئی اور اس کے ساتھ چل پڑی اس کا سیاہ فام میزبان اپنے شکار کو بھول گیا اور واپس اپنے خیمے کی طرف چل پڑا وہ بولتا کم تھا اور شافعیہ کو اوپر سے نیچے تک بار بار دیکھتا اور حیران بھی ہوتا اور خوش بھی اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس ہرن کے ساتھ اسے کوئی دلچسپی نہیں رہی جس کی پیٹھ میں اسکا تیرا اترا ہوا تھا اسے بڑا ہی خوبصورت شکار مل گیا تھا شافعیہ شاید اس کی نظروں کو سمجھ رہی تھی
میرا نام زر توش ہے راستے میں سردار نے شافعیہ کو بتایا میں ابھی تین چار دن اسی جنگل میں رہوں گا جب واپس جاؤں گا تو میرے ساتھ دو تین ہرن ہوں گے اور شاید ایک شیر بھی ہو
شافعیہ کو اس کے شکار کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ تو اس سے صرف راستہ سمجھنا چاہتی تھی وہ اس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ اس جنگل سے خیریت سے نکل بھی جائے گی یا نہیں
میں اپنے آدمی تمہارے ساتھ بھیج دوں گا پھر وہ تمہیں خطرناک علاقے سے نکال کر واپس آئیں گے
زرتوش کی خیمہ گاہ وہاں سے بہت دور تھی وہاں تک پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ دو گھنٹے گزر گئے تھے وہاں چار پانچ خیمے لگے ہوئے تھے اور ان کے باہر پانچ سات آدمی کوئی نہ کوئی کام کر رہے تھے زرتوش نے شافعیہ کو بتایا کہ وہ سب اس کے نوکر چاکر ہیں اور ان میں باورچی بھی ہے ایک خیمہ جو دوسروں سے بڑا اور شکل و صورت میں مختلف تھا الگ تھلگ نظر آرہا تھا پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی یہ زرتوش کا خیمہ تھا زرتوش اور شافعیہ گھوڑوں سے اترے اور نوکر دوڑے آئے اور گھوڑے انہوں نے پکڑ لئے زر توش شافعیہ اپنے خیمے میں لے گیا
فرش پر ایک بستر بچھا ہوا تھا نیچے روئی کے گدے تھے اور ان پر بڑی خوبصورت اور قیمتی چادر بچھی ہوئی تھی خیمے میں کچھ اور چیزیں بڑے قرینے سے اور سلیقہ سے رکھی ہوئ تھی زرتوش نے شافعیہ کو بستر پر بٹھایا اور ایک خادم کو بلا کر کہا کہ وہ کھانا لے آئے
کھانا آیا تو شافعیہ دے کر حیران رہ گئی یہ بھنے ہوئے مختلف پرندے تھے یہ اتنی زیادہ تھے کہ دس بارہ آدمی کھا سکتے تھے ان کے ساتھ روٹی نہیں تھی
شکار پر آکر میں صرف شکار کھایا کرتا ہوں زر توش نے کہا تم بھی یہ پرندے کھاؤگی روٹی نہیں ملے گی نہ تمہیں روٹی کی ضرورت محسوس ہوگی
خادم پھر آیا اور ایک صراحی اور دو پیالے رکھ کر چلا گیا زرتوش نے صراحی سے دونوں پیالے بھرے اور ایک پیالہ شافعیہ کے آگے کردیا شافعیہ بو سے سمجھ گئی کہ یہ شراب ہے اس نے شراب پینے سے انکار کر دیا
کیوں؟
زرتوش نے حیرت سے کہا شیخ الجبل حسن بن صباح کی حور ہو کر تم شراب پینے سے انکار کرتی ہو؟
کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
ہاں اس کی ایک وجہ ہے شافعیہ نے کہا مجھے ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ شراب چہرے کی رونق ختم کر دیتی ہے میں بڑھاپے میں بھی جوانوں جیسی رہنا چاہتی ہوں
شافعیہ محتاط تھی کہ اس کے منہ سے یہ نہ نکل جائے کہ وہ مسلمان ہے
وہ کھانا کھاتے رہے اور باتیں کرتے رہے زرتوش نے بہت اصرار کیا کہ وہ تھوڑی سی شراب پی لے لیکن اس نے نہ پی کھانے سے فارغ ہوئے اور نوکر برتن اٹھا کر لے گئے تو شافعیہ نے زرتوش سے کہا کہ اب وہ اسے راستہ سمجھا دے
کیا جلدی ہے زرتوش نے کہا تم اسی وقت تو روانہ نہیں ہو سکتیں
میں اسی وقت روانہ ہونا چاہتی ہوں شافعیہ نے کہا صبح تک میں اپنی منزل کے کچھ اور قریب ہو جاؤ گی میں رات ضائع نہیں ہونے دوں گی
میری میزبانی کا تقاضہ کچھ اور ہے زرتوش نے کہا میں اپنے قبیلے کے رسم و رواج کا پابند ہوں میرے خادم سارے قبیلے میں مشہور کر دیں گے کہ میں نے مہمان کو رات کو رخصت کر دیا تھا مجھ پر لعنت ہے کہ میں مہمان کو اور وہ بھی ایک عورت کو رات کو ہی رخصت کردوں
تو پھر مجھے راستہ بنا کر دکھائیں شافعیہ نے کہا
سورج غروب ہو گیا تھا اور خیمے میں مٹی کے دو دئیے جلا کر رکھ دیے گئے تھے زرتوش نے ایک نوکر کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ گز بھر سفید کپڑا لے آئے اور جلی ہوئی لکڑیوں کے دو تین کوئلے بھی لیتا آئے
کپڑا آگیا جو ایک چادر سے پھاڑا گیا تھا نوکر تین چار کوئلے بھی رکھ کر خیمے سے نکل گیا زرتوش نے یہ کپڑا لکڑی کی اس چوکی پر رکھا جس پر کچھ دیر پہلے انہوں نے کھانا کھایا تھا کپڑے کو ہر طرف سے کھینچ کر زرتوش اس پر کوئلے سے لکیریں ڈالنے لگا اس دوران اس نے شافعیہ کو کچھ بھی نہ بتایا سوائے اسکے کے جہاں سے اس کی لکیر شروع ہوئی تھی وہ بتایا کہ تم اس وقت یہاں ہو پھر وہ لکیر ڈالتا ہی چلا گیا یہ سیدھی لکیر نہیں تھی بلکہ ٹیڑھی میڑھی سی تھی اور زر توش اس پر کچھ نشان سے بھی لگاتا جا رہا تھا
بہت دیر بعد کپڑے پر کئی ایک لکیریں اس طرح بن گئی جس طرح نقشے پر دریا دکھائے جاتے ہیں اس نے یہ کپڑا شافعیہ کو دکھایا اور کہا کہ یہ کپڑا وہ اپنے ساتھ لے جائے گی اور اس کے بغیر وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے گی زرتوش نے اسے بتانا شروع کردیا کہ اس راستے پر اس سمت کو جائے گی تو ایک چشمہ ملے گا اس طرح وہ اسے تفصیلات بتا رہا اور پھر یہ بھی بتایا کہ اس مقام پر آ کر کوہستانی علاقہ شروع ہوگا اور اس میں فلاں فلاں نشانیاں دیکھ کر راستہ دیکھنا ہوگا
شافعیہ نے محسوس کیا کہ راستہ زبانی یاد نہیں رکھا جا سکتا تھا کپڑا ساتھ ہونا لازمی تھا اسے امید یہی تھی کہ اس کا میزبان اسے کہے گا کہ یہ کپڑا اپنے پاس رکھنا اور اسے دیکھ دیکھ کر چلنا لیکن میزبان نے کپڑا تہہ کرکے اپنے چغے کے اندر والی جیب میں رکھ لیا
کیا یہ کپڑا مجھے نہیں دو گے؟
شافعیہ نے پوچھا
تمہارے لیے ہی تو یہ ٹیڑھی سیدھی لکیر ڈالی ہے زرتوش نے جواب دیا لیکن ایک شرط ہے جو پوری کر دو گی تو یہ کپڑا تمہارے حوالے کر دوں گا اور اپنے دو آدمی تمہارے ساتھ محافظوں کے طور پر بھیجوں گا کھانے پینے کا ایسا سامان جو تم نے حسن بن صباح کی جنت میں بھی کبھی نہیں کھایا ہوگا
شافعیہ نے صاف طور پر محسوس کیا کہ اس شخص کا لب و لہجہ بدلا ہوا ہے اس کے چہرے پر اور آنکھوں میں بھی کوئی اور ہی تاثر آگیا تھا اس پر شراب کا نشہ بھی طاری تھا
شرط کیا ہے؟
شافع نے پوچھا
آج رات تم میری مہمان ہوگی زرتوش نے بازو لمبا کر کے شافعیہ کو اپنے بازوؤں میں لیتے ہوئے کہا کل رات بھی تم میرے ساتھ گزارو گی اب خود ہی سمجھ لو میری شرط کیا ہے
ہاں میں سمجھ گئی ہوں شافعیہ نے کہا تم میری عصمت اور آبرو کا سودا کر رہے ہو اگر میں یہ سودا قبول نہ کروں تو
تو ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی زرتوش نے کہا میں تمہیں اپنی لونڈی بنا کر رکھوں گا اگر مجھے پریشان کرو گی یا بھاگنے کی کوشش کروں گی تو میں تمہیں بڑی ہی بری موت ماروں گا
کیا تم بھول گئے ہو ہمیں کون ہوں شافعیہ نے کہا میں شیخ الجبل کی بڑی قیمتی ملکیت ہوں تم جانتے ہو حسن بن صباح اللہ کا اتارا ہوا امام ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ اسے پتہ چل جائے گا میں کہاں ہوں تم یہ نہیں جانتے کہ وہ تمہیں کس انجام کو پہنچائے گا آدھا زمین میں گاڑ کر وہ تم پر خونخوار کتے چھوڑ دینے کا حکم دے گا اور تمہارے قبیلے کی تمام لڑکیوں کو یہاں سے اٹھوا کر قلعہ الموت میں اکٹھا کر لے گا
جانتا ہوں زرتوش نے کہا بڑی اچھی طرح جانتا ہوں حسن بن صباح اللہ کا نہیں ابلیس کا بھیجا ہوا امام ہے اور اس کے پاس وہی طاقت ہے جو ابلیس کے پاس ہوتی ہے اور مجھ جیسے سردار ایسی طاقت سے محروم ہوتے ہیں تم جیسی عصمت اور آبرو کا سودا قبول نہیں کر رہے ہیں وہ عصمت اور آبرو تمہارے پاس ہے ہی نہیں میں نے تم جیسی حسین لڑکیاں تو دیکھیں ہیں لیکن کبھی کسی کو ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا زندگی میں پہلی بار تم جیسی شگفتہ کلی میرے ہاتھ آئی ہے میں تمہارے حسن اور جوانی سے پورا پورا لطف اٹھاؤں گا کیا تم میری شرافت کی قدر نہیں کروں گی کہ میں نے تمہیں صرف دو راتیں رکھنے کے لیے کہا ہے اس کے بعد تم آزاد ہو گی اور میرے آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے
میں نے بڑے ہی بدصورت اور شیطان فطرت آدمی دیکھے ہیں شافعیہ نے کہا لیکن کبھی کسی کے ساتھ واسطہ نہیں پڑا تھا تم پہلے بدصورت آدمی ہو جس کے جال میں پھنسی ہوں تم دو راتیں کہتے ہو میں دو لمحے بھی یہاں ٹھہرنا گوارا نہیں کروں گی اپنا انجام سوچ لو
زرتوش طنزیہ ہنسی ہنسی ہنس پڑا اور شافعیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا
میں نے تمہیں پہلی نظر دیکھا تو یقین نہیں آیا تھا کہ تم انسان ہو زرتوش نے کہا پھر یقین ہو گیا کہ تم انسان ہی ہو یہ بتا دو کہ تم اکیلی کس طرح آئی ہو اور کس طرح راستہ بھول گئی ہو یہ سن لو کہ تم میری شرط پوری کئے بغیر یہاں سے جا نہیں سکوں گی اگر جان کی بازی لگاؤ گی تو میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا بولو کہاں سے آئی ہو اور کہاں جا رہی ہو
شافعیہ گہری سوچ میں کھو گئی وہ سوچنے لگی کہ اس شخص کو اپنی اصلیت بتا دے اور یہ بھی کہ وہ اپنے چچا وغیرہ کے ساتھ ایک خزانہ اٹھانے گئی تھی اور وہاں سب قتل ہو گئے ہیں خزانے کے خیال سے شافعیہ کا دماغ روشن ہو گیا اس نے سوچا کہ اس شخص کو خزانے کا لالچ دیا جائے تو یہ بہت خوش ہوگا اور جان بخشی کر دے گا شافعیہ نے اسے خزانے کے متعلق سب کچھ بتا دیا اور یہ بھی کہ کس طرح وہ بھی اپنے چچا کے ساتھ تھا اس غار تک گئی تھی اور کس طرح کچھ ڈاکو اور لٹیرے آگئے جو جانتے تھے کہ یہاں خزانہ ہے شافعیہ نے اسے یہ ساری روداد سنادی لیکن اپنے متعلق یہی بیان رکھا کہ وہ حسن صباح کی جنت کی حور ہے اور خزانے کے لالچ میں آ گئی تھی
میں تمہیں اس جگہ کا راستہ بتا دیتی ہوں شافعیہ نے کہا دو دنوں کی مسافت ہے وہاں اب سوائے کٹی اور جلی ہوئی لاشوں کے کچھ نہیں ہوگا جاؤ اور وہ بکس اٹھا کر لے آؤ
بدقسمت اور بے عقل لڑکی! زرتوش نے کہا میں جانتا ہوں تم جھوٹ نہیں بول رہی تم جانتی ہو میں خزانے کی طرف چل پڑا تو تمہیں ساتھ لے جاؤں گا تم نے مجھے دھوکا نہیں دیا لیکن وہ سب لوگ جو اس غار میں خزانے پر مارے گئے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو دھوکا دیا تھا ہم لوگ اس خزانے کے لالچ میں کبھی نہیں آئے ان خزانوں پر بڑے بڑے جابر بادشاہ کٹ مرے ہیں
تم وہاں جاؤں تو صحیح شافعیہ نے کہا اب وہاں مرنے مارنے والا کوئی نہیں آئے گا وہ جو آئے تھے وہ اس خزانے کے حصے دار تھے اور وہ تمام خزانہ خود لے جانا چاہتے تھے
میں کہہ رہا ہوں یہ لالچ مجھے نہ دو زرتوش نے کہا ہم لوگ تمہاری تہذیب سے تمہارے رہن سہن سے اور تمہاری شاہانہ طور طریقوں سے دور جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہیں تم ہمیں جنگلی کہہ لو وحشی اور درندے کہہ لو لیکن ہم جو کچھ بھی ہیں اپنے آپ میں خوش اور مطمئن ہیں تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ یہ لوگ چھپا ہوا خزانہ اٹھانے گئے تو سب مارے گئے بلکہ جل ہی گئے ہمارے بزرگ ہمیں بتا گئے ہیں کہ کبھی کسی چھوپے ہوئے اور مدفون خزانے کے لالچ میں نہ آنا لوٹا ہوا خزانہ جہاں کہیں بھی چھپا کر رکھا جائے وہاں بدروحوں کا قبضہ ہو جاتا ہے
یہ بدروحیں سانپوں کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہیں یا بڑے زہریلے بچھو بن جاتے ہیں خزانے تک پہنچنے والے جونہی خزانے پر ہاتھ رکھتے ہیں سانپ یا بچھو نکل آتے ہیں اور انہیں ڈس لیتے ہیں وہی ختم کر دیتے ہیں کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ بد روحیں نہ ہوں تو وہاں جنات پہنچ جاتے ہیں جو انسانوں کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور خزانے کی حفاظت کرتے ہیں تمہارے آدمیوں پر جن لوگوں نے حملہ کیا تھا انہیں بدروحیں یا جنات لائے تھے اور وہاں تک پہنچایا تھا چونکہ وہ بھی خزانہ اٹھانے گئے تھے اس لئے آپس میں لڑ مرے اور بدروحوں یا جنات نے مشعلوں سے انہیں جلا ڈالا کیا تم نے کبھی سنا نہیں کہ مدفون خزانوں پر سانپ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں؟
میں تمہیں جانے پر اکسا نہیں رہی شافعیہ نے کہا میں نے ایک خزانے کی نشاندہی کی ہے کبھی دل میں آئے تو وہاں چلے جانا
میں وہاں کبھی نہیں جاؤں گا زرتوش نے کہا تم جس حسن بن صباح کو اللہ کا بھیجا ہوا امام کہتی ہو اس کے بڑے ہی دلکش اثرات میرے قبیلے تک آئے تھے مجھے بڑی ہی حسین لڑکیوں کے اور ایسے ہی خزانوں کے لالچ دیے گئے تھے حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی اس امید پر آئے تھے کہ قبیلے کا سردار جال میں آ گیا تو سمجھو پورا قبیلہ ہاتھ آگیا میرا قبیلہ جنگجو ہے شہسوار ہے حسن بن صباح مجھے اور قبیلے کو اپنی طاقت بنانا چاہتا تھا میں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا ہمارے کچھ اپنے عقیدے ہیں
ہاں اسلام کا کچھ اثر قبول کیا ہے وہ اس لئے کہ اسلام کوئی لالچ نہیں دیتا اسلام کوئی لالچ قبول نہیں کرتا اگر مسلمانوں کے سلطان حکمرانی کو دماغ پر سوار کرلیں اور ان کے امیر عمارت کو اپنا نشہ بنا لیں تو پھر حسن بن صباح جیسے ابلیس کامیاب نہ ہو تو کیوں نہ ہو ان کی نسبت تو ہم جنگلی اچھی ہیں جنہوں نے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو قبول نہیں کیا
ایک بات سنو شافعیہ نے کہا تم باتیں کتنی اچھی اور اخلاقی کرتی ہو لیکن ایک بے بس بھٹکی ہوئی اور کمزور سی لڑکی پر رحم نہیں کرتے
تو نے مجھے حسن بن صباح سے ڈرانے کی کوشش کی ہے زرتوش نے کہا
اگر میں کہوں کہ میں مسلمان ہوں اور حسن بن صباح کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں تو میرے ساتھ تمہارا سلوک کیا ھوگا؟
شافعیہ نے کہا
میں کہوں گا تم مجھے دھوکا دے رہی ہو زرتوش نے کہا مجھے کچھ بھی کہہ لو میں وحشی ہوں درندہ ہوں میں دو راتیں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا کیا یہ رحم نہیں کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنا قیدی نہیں بنا رہا ؟
تم مجھے اس خواہش سے محروم نہیں کر سکوں گی تمہاری نجات اسی میں ہے کہ دو راتوں کے لئے مجھے قبول کر لو
شافعیہ پھر گہری سوچ میں ڈوب گئی اسے اپنے حسن کا اچھی طرح اندازہ تھا وہ جب اس سیاہ فام شخص کو دیکھتی تھی تو اس کا دل ڈوبنے لگتا تھا سوچتے سوچتے اسے ایک روشنی نظر آئی
کیا سوچ رہی ہو زرتوش نے کہا میں تم پر کوئی ظلم نہیں کر رہا اس کے بعد تم آزاد ہو گی اور یہ ایک مرد کا وعدہ ہے
صرف آج کی رات شافعیہ نے کہا میری یہ شرط مان لو صرف آج کی رات صبح مجھے رخصت کر دینا
چلو مان لیا زرتوش نے ہنستے ہوئے کہا
کپڑا مجھے دے دو شافعیہ نے کہا
کپڑا صبح ملے گا زرتوش نے کہا یہ کپڑا صبح تمہارا ہوگا رات کو میرا ہے
اس دوران زرتوش شراب کا ایک ایک گھونٹ پیتا رہا شافعیہ کو رضامند دیکھ کر اس نے کچھ اور شراب چڑھا لیا اس نے بڑے پیار سے شافعیہ کو بستر پر لٹا دیا اس پر ایک تو شراب کا نشہ طاری تھا اور اس کے ساتھ شافعیہ کے حسن و جوانی کا نشہ بھی شامل ہو گیا تھا وہ دیکھ نہ سکا کہ شافعیہ کا دایاں ہاتھ اپنی نیفے کے اندر چلا گیا ہے زرتوش اسکے اوپر جھکا تو شافعیہ نے پوری طاقت سے خنجر اس کے دل کے مقام پر اتار دیا زرتوش پیچھے ہٹا شافعیہ بڑی تیزی سے اٹھی اور خنجر کا ایک اور وار کیا زرتوش پیٹھ کے بل گرا اس نے اپنے دونوں ہاتھ وہاں رکھ لئے جہاں اس کو خنجر لگے تھے اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی خنجر صحیح مقام پر لگے تھے خون کا فوارہ پھوٹ آیا تھا شافعیہ اسے دیکھتی رہی زرتوش کے دونوں ہاتھ جو سینے پر رکھے ہوئے تھے ڈھیلے پڑ گئے اور اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا
شافعیہ نے اسکے چغے کے اندر ہاتھ ڈالا اور وہ کپڑا نکال لیا جس پر زرتوش نے کوئلے سے راستے بنائے تھے یہ کپڑا اس نے اپنے کپڑوں کے اندر نیفے میں اڑس لیا اب اسے یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ زرتوش کے نوکر چاکر جاگ رہے ہوں گے
وہ آہستہ آہستہ باہر نکلی باہر خاموشی تھی کسی اور خیمے میں روشنی نہیں تھی وہ سب شاید سو گئے تھے اور وہ اس خیال سے سو گئے ہوں گے کہ ان کے سردار کو بڑا خوبصورت شکار مل گیا ہے اور وہ اب شراب اور بدکاری میں مگن ہوگا شافعیہ دبے پاؤں گھوڑوں تک پہنچی
زین قریب ہی رکھی تھی اس نے اپنے دونوں گھوڑوں پر زینیں رکھیں اور اچھی طرح کس لی خیمے میں جا کر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور کمر کے ساتھ باندھ لی باہر جاکر اس نے دیکھا کہ ایک گھوڑے پر اس کے کھانے والے تھیلے بندھے ہوئے تھے اور ایک مشکیزے میں پانی اچھا خاصا موجود تھا اب اسے پانی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ جنگل تھا اور جنگل میں پانی کی کمی نہیں ہوتی
اسے ایک خیال آ گیا یہ تو اس نے دیکھا نہیں تھا کہ کس طرف جانا ہے وہ پھر خیمے چلی گئی دو دیے جل رہے تھے شافعیہ نے کپڑا نیفے سے نکال کر اپنے سامنے زمین پر پھیلا دیا اور دیکھا کہ اسے کس طرف جانا ہے یہ راستہ اچھی طرح دیکھ لیا کپڑا لپیٹ کر پھر نیفے میں اڑس لیا اور خیمے سے نکل آئی
وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور گھوڑا چل پڑا لیکن اس نے گھوڑے کو زیادہ تیز نہ چلنے دیا تاکہ اس کے قدموں کی آواز خیموں کے اندر تک نہ پہنچ سکے خاصی دور جا کر اس نے باگوں کو جھٹکا دیا تو گھوڑے کی رفتار تیز ہو گئی
وسم کوہ میں امن قائم ہوچکا تھا باطنیوں کی لاشیں گھسیٹ کر ایک قلعے سے دور چند ایک لمبے چوڑے گڑھے کھود کر ان میں پھینک دی گئیں اور اوپر مٹی ڈال دی گئی تھیں سالار اوریزی کے لشکر کے شہیدوں کو الگ الگ قبروں میں پورے احترام سے دفن کیا گیا تھا
سلطان برکیارق اپنے دونوں بھائیوں محمد اور سنجر کے ساتھ وسم کوہ پہنچ گیا تھا اور تینوں بھائیوں نے سالار اوریزی مزمل آفندی اور بن یونس کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا تھا
لیکن سالار اوریزی! برکیارق نے پہلے روز یہاں پہنچ کر کہا تھا صرف قلعہ سر کرکے ہمارا کام ختم نہیں ہوجاتا ہمارا مقصد یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے اثرات کو اور اس کے پھیلائے ہوئے غلط عقائد کو ختم کیا جائے اس کے لیے قلعہ الموت کو سر کرنا ضروری ہے ورنہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی
آپ پوری سلطنت کا لشکر قلعہ الموت کے محاصرے کے لئے لے جائیں مزمل آفندی نے کہا آپ اس قلعے کو سر نہیں کر سکیں گے اس لئے نہیں کہ باطنی بڑے زبردست جنگجو ہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ قلعہ بلندی پر بنایا گیا ہے اور اس کے تین اطراف سے دریا گزرتا ہے آپ ایک بار اس قلعے کو دیکھ لیں
میں نے یہ قلعہ بڑی اچھی طرح دیکھا ہوا ہے سالار اوریزی نے کہا میں خود کہا کرتا ہوں کہ اس قلعے کو سر کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے لیکن سوچنے والی بات یہی ہے کہ اصل طاقت کہاں ہے وہ حسن بن صباح ہے اگر اس شخص کو سر کرلیا جائے تو صرف قلعہ الموت ہی نہیں بلکہ ان باطنیوں کے تمام قلعے اور ان کے تمام اسرار ہمارے قدموں میں آ گریں گے ہمیں تین چار ایسے جانبازوں کی ضرورت ہے جو قلعہ الموت میں داخل ہوکر حسن بن صباح کو اسی طرح قتل کردیں جس طرح حسن بن صباح کے فدائی ہمارے علماء اور حاکموں کو قتل کر چکے ہیں اور کرتے جا رہے ہیں
میں آج تک کیا کہتا رہا ہوں مزمل آفندی نے کہا دو جانباز تو یہاں بیٹھے ہیں ایک میں ہوں اور دوسرا بن یونس میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم سیدھے جاکر حسن بن صباح کو قتل نہیں کر سکتے ہمیں کچھ جانبازیاں کرنی پڑیں گی آپ اجازت دیں تو میں کچھ اور جانباز تیار کرلوں
اس مسئلے پر بہت دیر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور یہ سب اس نتیجے پر پہنچے کہ جس طرح حسن بن صباح زمین دوز وار کرتا ہے اور سامنے لڑنے کے لیے نہیں آتا اسی طرح اسے ختم کرنے کے لیے بھی کوئی طریقہ کار طے کرنا پڑے گا تاریخ کے دامن میں جو واقعات اب تک محفوظ ہیں ان سے یہ شہادت ملتی ہے کہ مسلمان سالار اور دوسرے حاکم آپس میں اس قسم کی باتیں تو کر لیتے تھے لیکن عملی طور پر وہ ایسے طریقے اختیار نہیں کرتے تھے جو حسن بن صباح کے طریقوں کے توڑ پر ثابت ہو سکتے مسلمان میدان جنگ میں لڑنے کی مہارت اور جذبہ رکھتے تھے لیکن حسن بن صباح لشکروں کی دو بدو لڑائی کا قائل نہیں تھا وہ سانپوں اور بچھوؤں کی طرح ڈنگ مارا کرتا تھا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نے اپنے فدائی تیار کر رکھے تھے اور وہ فدائی زہریلے ناگوں اور بچھوؤں جیسے ہی تھے
سلطان برکیارق نے اپنا ایک مسئلہ پیش کر دیا اس نے کہا کہ اس کی صحت اس قابل نہیں رہی کہ سلطانی کے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکے مسلمان مورخوں میں سے اکثر نے تو سلطان برکیارق کی بیماری کا ذکر ہی نہیں کیا اور جن دو مسلمان مورخوں نے ذکر کیا ہے وہ اتنا ہی کیا ہے کہ سلطان برکیارق علیل ہو گیا تھا البتہ ایک یورپی تاریخ دان ہیمز سٹیفن نے تفصیلی سے ذکر کیا ہے اس نے لکھا ہے کہ سلطان برکیارق ذہنی طور پر ٹھیک نہیں رہا تھا
اس نے لکھا ہے کہ سلطان برکیارق ایک باطنی لڑکی کے زیر اثر آ گیا تھا اور اس نے اس دوران بڑے غلط فیصلے کیے تھے اور اپنی ماں تک کی بے ادبی کی تھی برکیارق نے اس لڑکی کو جو اس کی بیوی بن گئی تھی اپنے ہاتھوں کو قتل کیا تھا اور اس سے برکیارق کے ضمیر سے گناہ کا بوجھ اتر جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا
خانہ جنگی کا بوجھ بھی برکیارق نے اپنے ضمیر پر لے رکھا تھا اس نے اپنی ماں کے قدموں میں جا کر سر رکھا تھا اور معافیاں مانگی تھیں اس نے اللہ تبارک و تعالی کی بہت عبادت کی تھی اور وہ اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا رہتا تھا لیکن خانہ جنگی میں جو لوگ مارے گئے تھے برکیارق اپنے آپ کو ان سب کا قاتل سمجھتا تھا اس نے سلطنت کے امور کے سلسلے میں بڑے اچھے فیصلے کئے تھے اور اس نے اپنی زندگی سلطنت کے استحکام کے لئے اور عوام کی خوشحالی کے لیے اور حسن بن صباح کی تباہی کے لئے وقف کردی تھی اسے علماء نے یقین دلایا تھا کہ اللہ تبارک و تعالی نے اس کے گناہ معاف کر دیے ہیں لیکن وہ جب تنہا ہوتا تو اپنے ضمیر کا سامنا کرنے سے گھبراتا اور پریشان ہو جاتا تھا
یہ ایسا ذہنی مرض تھا جس نے اس کے دماغ پر یعنی سوچنے کی قوت پر اور جسم پر بھی اثر کیا اس کی جسمانی حالت یہ ہوگئی تھی کہ جوانی میں ہی وہ بوڑھا نظر آنے لگا تھا طبیبوں نے اس کے علاج میں دن رات ایک کر دیا تھا اسے ایسی ایسی دوائی تیار کرکے دیں تھیں جن کا کوئی عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن مرض بڑھتا ہی گیا اور برکیارق ایسے مقام پر پہنچا جہاں اس نے محسوس کیا کہ وہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے معذور ہو گیا ہے
ہم تینوں بھائیوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کر لی تھیں برکیارق نے کہا مجھے توقع تو یہ تھی کہ یہ تقسیم سلطنت کے اندرونی مسائل اور دفاعی ضروریات کے لیے اچھی ثابت ہوگی یہ اچھی ہی ثابت ہو رہی تھی کیونکہ ہم تینوں بھائیوں میں اتفاق اور اتحاد اور انہوں نے میرے ہی فیصلوں کو تسلیم کیا لیکن میں اب شدت سے محسوس کر رہا ہوں کہ میں اب سلطنت کا کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں رہا میں تم سب سے مشورہ نہیں لے رہا بلکہ فیصلہ سنا رہا ہوں کہ آج سے میرے دونوں بھائی محمد اور سنجر سلطنت کے سلطان ہونگے اور سلطنت تین کی بجائے دو حصوں میں تقسیم ہو گی لیکن اس کا مرکز مرو میں ہی رہے گا
سب پر سناٹا طاری ہوگیا برکیارق کا یہ فیصلہ اچانک اور غیر متوقع تھا سالار اوریزی نے برکیارق کے اس فیصلے کے خلاف کچھ کہا اور دوسروں نے اس کی تائید کی لیکن برکیارق اپنے فیصلے پر قائم رہا اور اس نے یہ بھی کہا کہ تم لوگ میرے جذبات میں آگئے تو اس کا سلطنت کو نقصان ہو سکتا ہے کچھ دیر بحث مباحثہ جاری رہا لیکن برکیارق نے سختی سے اپنا آخری فیصلہ ایک بار پھر سنایا اور سب کو خاموش کر دیا
میں سلطنت سے لاتعلق نہیں ہو جاؤں گا برکیارق نے کہا جہاں کہیں تمہیں میری ضرورت محسوس ہوئی میں پہنچوں گا اور میری جان اور میرا مال سلطنت کے لیے وقف رہے گا
برکیارق بظاہر خوش وخرم نظر آتا تھا اور وہ ہر بات بڑی خوشگوار انداز میں کرتا تھا اس نے اگر کبھی اپنی بیماری کا ذکر کیا تو اس میں مایوسی اور اداسی کی جھلک نہیں تھی اس نے مزمل کی طرف دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
مزمل! برکیارق نے مسکراتے ہوئے کہا شمونہ میرے ساتھ آئی تھی اور وہ میرے ساتھ واپس نہیں جائے گی میں حیران ہوں کہ راستے میں اس نے میرے ساتھ کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اب تمہارے ساتھ شادی کر ہی لینا چاہتی ہے بلکہ وہ ایک ہی بات کرتی ہے کہ وہ جہاد کرنا چاہتی ہے اس کا اسے موقع نہیں مل رہا کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ وسم کوہ کی فتح کی خوشی میں تمہارا نکاح آج ہی پڑھا دیا جائے؟
سب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے برکیارق کی تائید کی یہ شادی بہت عرصہ پہلے ہو جانی چاہیے تھی اور ہونی ہی تھی لیکن مزمل اور شمونہ پر ایسی کیفیت طاری رہتی تھی کہ شادی کو وہ نظر انداز کرتے چلے آرہے تھے دونوں نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بنا لیا تھا اور وہ تھا حسن بن صباح کا قتل اور باطنیوں کا قلع قمع مزمل اور شمونہ جوانی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے تھے شمونہ کو جب اطلاع ملی تھی کہ وسم کوہ فتح کر لیا گیا ہے اور اس میں مزمل آفندی اور بن یونس کا خاصہ ہاتھ ہے اور ان دونوں نے کامیابی سے باطنیوں کو دھوکا دیا ہے تو وہ اڑ کر مزمل کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی لیکن اکیلے وہاں تک جانا ممکن نہیں تھا اسے پتہ چلا کہ سلطان برکیارق وسم کوہ جا رہا ہے تو وہ فوراً برکیارق کے پاس جا پہنچی اور کہا کہ وہ بھی جانا چاہتی ہے اس طرح برکیارق اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا
اسی شام وسم کوہ میں مزمل اور شمونہ کی شادی ہوگئی
اگلے روز برکیارق نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا اسے محمد اور سنجر کے ساتھ ایک روز بعد مرو کیلئے روانہ ہو جانا تھا یہ لوگ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کوئی سلطان پسند نہیں کرتا کہ وہ جب کھانے پر بیٹھا ہو تو دربان اندر آکر اسے اطلاع دے کہ فلاں شخص آیا ہے یا فلاں واقعہ ہوگیا ہے لیکن برکیارق نے اپنے دربانوں کو کہہ رکھا تھا کہ وہ کھانے پر بیٹھا ہو یا گہری نیند سویا ہوا ہو کوئی خاص واقعہ ہوجائے یا کوئی خاص آدمی اسے ملنے آجائے تو اسے جگا لیا جائے یہ دربانوں کی صوابدید پر تھا کہ وہ ملاقاتیوں کے چھان بین کر کے دیکھیں گے کہ یہ ملاقات فوری طور پر ضروری ہے یا نہیں
قلعہ وسم کوہ میں برکیارق کھانے پر بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ اس کے دونوں بھائی تھے سالار اوریزی تھا مزمل آفندی اور بن یونس تھے اور وسم کوہ کا نیا امیر بھی تھا جسے برکیارق نے مقرر کیا تھا دربان اندر آیا اور کہا کہ ایک خاتون بہت ہی بری حالت میں آئی ہے اور کہتی ہے کہ بہت عرصے سے سفر میں تھی اور مرتے مرتے منزل پر پہنچی ہے برکیارق نے کہا کہ اسے اندر بھیج دو
ایک جواں سال عورت کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی اس کے کپڑوں پر گرد بیٹھی ہوئی تھی اس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا جیسے لاش قبر سے نکل کر آئی ہو اس کی آنکھیں نیم وا تھیں اور اس کا منہ کھلا ہوا تھا اگر دربان اسے سہارا نہ دیتا تو وہ گر پڑتی برکیارق کے کہنے پر اسے بٹھا دیا گیا اور وہ اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے
میرا نام شافیعہ عورت نے بڑی ہی مشکل سے یہ الفاظ باہر کو دھکیلے میں یہی کی رہنے والی ہوں اور ابو جندل کی بھتیجی ہوں اتنا کہہ کر وہ ایک طرف کو جھک گئی وہ بے ہوش ہو چکی تھی…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:43 }
میرا نام شافیعہ عورت نے بڑی ہی مشکل سے یہ الفاظ باہر کو دھکیلے میں یہی کی رہنے والی ہوں اور ابو جندل کی بھتیجی ہوں اتنا کہہ کر وہ ایک طرف کو جھک گئی وہ بےہوش ہو چکی تھی
اسے اٹھا کر فورا طبیب کے پاس لے جاؤ برکیارق نے کہا یہ بیمار تو ہے ہی بھوکی اور پیاسی بھی لگتی ہے یہ ہوش میں آجائے تو اسے کھانے کو کچھ دے دینا اس کے بعد میں اگر یہاں ہوا تو مجھے بتانا میں چلا گیا تو سالار اوریزی کو اطلاع دے دینا
شافعیہ سولہ سترہ دنوں بعد وسم کوہ پہنچی تھی
برکیارق مرو پہنچا تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ ہر طرف اعلان کردیا کہ وہ اب سلطان نہیں اور اب محمد اور سنجر سلطان ہیں برکیارق نے عوام میں مقبولیت حاصل کرلی تھی لوگوں نے یہ فیصلہ سنا تو چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے کہ بھائیوں میں اختلافات پیدا ہو گیا ہے اور چھوٹے دونوں بھائی جیت گئے ہیں اور انہوں نے بڑے بھائی کو سلطانی سے معزول کر دیا ہے
عوام کا یہ ردعمل برکیارق تک پہنچا تو اس نے یہ انتظام کیا کہ سرکاری اہلکار لوگوں کو تمام سلطنت میں بتا دیں کہ یہ فیصلہ اس نے خود بیماری کی وجہ سے کیا ہے اور لوگ محمد اور سنجر کے وفادار ہو جائیں
لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ برکیارق بیمار ہے تو مسجدوں میں اس کی صحت یابی کی دعائیں ہونے لگیں اس کی بیماری کی خبر تمام تر سلطنت میں پھیل گئی اور اصفہان تک بھی پہنچی
اصفہان کی جامع مسجد کے خطیب اس وقت کے ایک بڑا ہی مشہور عالم قاضی ابو الاعلاء بن ابو محمد نیشاپوری تھے عالم ہونے کے علاوہ وہ مرد میدان بھی تھے ان کے خطبوں میں جہاد کی تلقین زیادہ ہوتی تھی وہ جب خطبہ دیتے تو اس میں الفاظ کا ہیر پھیر اور پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ ایسی سادہ زبان میں خطبہ دیا کرتے تھے کہ معمولی سے ذہن کے لوگ بھی اصل بات سمجھ جاتے تھے وہ باطنیوں کے بہت بڑے دشمن تھے انہیں پتہ چلا کے برکیارق بیمار ہوگیا ہے اور بیماری نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ اس نے سلطانی چھوڑ دی ہے تو وہ اسی وقت مرو کے لیے روانہ ہوگئے بڑے ہیں لمبے سفر کے بعد وہ مرو پہنچے اور برکیارق کا مہمان بنے برکیارق انہیں اپنا دینی اور روحانی پیشوا سمجھا کرتا تھا قاضی ابو الاعلاء نے برکیارق سے پوچھا کہ اس کی بیماری کیا ہے وہ دیکھ رہے تھے کہ برکیارق وقت سے پہلے مرجھا گیا ہے لیکن اسے ظاہری طور پر کوئی بیماری نہیں برکیارق نے انہیں بتایا کہ وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے ذہن پر کیا اثر ہو گیا ہے کہ وہ کھویا کھویا سا رہتا ہے اور یوں خوف سا محسوس کرتا ہے جیسے کوئی ناخوشگوار واقعہ یا حادثہ ہونے والا ہو
قاضی ابو الاعلاء نے اسے تمام علامات پوچھیں اور اس کے طبیب کو بلایا طبیب آیا تو قاضی نے طبیب سے پوچھا کہ اس نے برکیارق میں کیا بیماری دیکھی ہے
یہ پتا چل جاتا تو میں اب تک انہیں صحت یاب کر چکا ہوتا طبیب نے کہا میں اپنا تمام تر علم اور تجربہ آزما چکا ہوں لیکن سلطان ٹھیک نہیں ہورہے معلوم ہوتا ہے ان کے ذہن اور دل پر کوئی ایسا بوجھ ہے جسے یہ بیان نہیں کر سکتے یا سمجھ ہی نہیں سکتے
قاضی نے برکیارق سے بہت پوچھا کہ وہ دل پر کیا بوج لیے ہوئے ہے لیکن برکیارق نے بتانا مناسب نہ سمجھا وہ بیان ہی نہ کر سکا کہ اسے اندر ہی اندر کیسی دیمک کھا رہی ہے
مجھے اچھی طرح یاد ہے قاضی ابوالاعلاء صاحب نے کہا آپ کے والد محترم ملک شاہ کو باطنیوں نے دھوکے میں ایسا زہر پلا دیا تھا جو آہستہ آہستہ انہیں کھاتا رہا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے معلوم ہوتا ہے آپ کو بھی باطنیوں نے کوئی چیز کھلا دی ھے جس کا آپ کو پتہ ہی نہیں چلا
میں نے اس شک کے پیش نظر بھی دوائیاں دی ہیں طبیب نے کہا اگر انہیں کسی بھی قسم کا زہر پلا دیا گیا ہوتا تو اس کے اثرات ان دوائیوں سے ختم ہو جاتے یہ کچھ اور ہی ہے
میں آج رات تنہائی میں بیٹھونگا قاضی نے کہا اللہ نے مجھے کشف کی کچھ طاقت عطا فرمائی ہے مجھے کچھ شک ہے کہ یہ سفلی تعویز کا اثر ہے حسن بن صباح سفلی عمل سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ وہ یہ عمل اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال بھی کرتا ہے اگر ایسا ہوا تو مجھے آج رات پتہ چل جائے گا
برکیارق نے قاضی ابوالاعلاء صاحب کے لیے ایک خاص کمرہ تیار کروا دیا جس میں مصلّہ قرآن پاک اور جو کچھ بھی قاضی نے کہا رکھ دیا گیا رات عشاء کی نماز کے بعد قاضی ابو الاعلاء نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور مصلّے پر بیٹھ گئے وہ رات کے آخری پہر تک مراقبے میں رہے اور پھر تہجد ادا کی اذان کے بعد فجر کی نماز پڑھی اور سوگئے طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد وہ کمرے سے نکلے اور برکیارق کے پاس گئے
میرا شک صحیح نکلا ہے اس نے برکیارق سے کہا یہ سفلی تعویز کا اثر ہے لیکن یہ حسن بن صباح نے نہیں کیا بلکہ یہاں کوئی آدمی ہے جس نے اپنے طور پر آپ کو ختم کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے میں اس کا توڑ کر دوں گا لیکن یہاں نہیں میں کل صبح اصفہان کے لئے روانہ ہو جاؤں گا اس تعویذ کے لئے کم از کم تین راتوں کا چلّہ کرنا پڑے گا پھر تعویذ لکھا جائے گا جب یہ تعویذ تیار ہوگیا تو میں آپ کو بھیج دوں گا اسے کس طرح استعمال کرنا ہوگا وہ میں تعویذ لانے والے کو بتا دوں گا
برکیارق کو باطنی معاف نہیں کرسکتے تھے پہلے سنایا جاچکا ہے کہ برکیارق ایک لڑکی کے ساتھ شادی کر کے نہ دانستہ طور پر حسن بن صباح کا اعلی کار بن گیا تھا یہ اس لڑکی کا کمال تھا لیکن وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ برکیارق کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کی عقل سے پردہ اٹھ گیا یہ شمونہ کا کمال تھا برکیارق نے اپنی اس بیوی کو اپنے ہاتھوں قتل کیا اور اس کے بعد اس نے حکم دے دیا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کر دیا جائے گا باطنی اپنے اتنے زیادہ ساتھیوں کا خون کیسے معاف کر دیتے انہوں نے جس طرح دوسری کئی ایک شخصیات کو قتل کیا تھا برکیارق کو بھی قتل کر دیتے لیکن انہیں موقع نہیں مل رہا تھا کیونکہ برکیارق جدھر بھی جاتا تھا اس کے اردگرد محافظوں کا حصار ہوتا تھا اگر قاضی ابو الاعلاء کی تشخیص صحیح تھی تو یہ عمل باطنیوں نے ہی کیا تھا
قاضی ابو الاعلاء اگلے روز فجر کی نماز کے فوراً بعد واپس اصفہان کو چل پڑے ان کے ساتھ دس بارہ آدمی تھے جو ان کے ایسے مرید تھے کہ ان پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے، وہ قاضی کو کہیں اکیلا نہیں جانے دیتے تھے کیونکہ اس وقت تک باطنی کئی ایک علماء دین کو قتل کر چکے تھے
اصفہان میں اہلسنت کی اکثریت تھی وہ اپنے خطیب قاضی ابو الاعلاء کی غیرحاضری بڑی بری طرح محسوس کر رہے تھے وہ پوچھتے تھے خطیب کہاں گئے انہیں بتایا گیا کہ سلطان برکیارق بیمار ہیں اور ان کی عیادت کو گئے ہیں یہ تو لوگوں کو پہلے پتا تھا کہ برکیارق بیمار ہے لیکن جب انہیں یہ پتہ چلا کہ جامع مسجد کے خطیب ان کی عیادت کو گئے ہیں تو لوگ متفکر ہوئے کہ برکیارق کچھ زیادہ ہی بیمار ہو گیا ہے وہاں کے لوگ برکیارق کو اس لیے زیادہ عزیز رکھتے تھے کہ اس نے باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا اصفہان میں باطنیوں نے مسلمانوں کا اچھا خاصا کُشت و خون کیا تھا
آخر ایک روز ان کے لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کے خطیب واپس آگئے ہیں کئی لوگ ان کے گھر جا پہنچے اور برکیارق کی صحت کے متعلق پوچھا قاضی ابوالاعلاء نے کہا کہ اتفاق سے کل جمعہ ہے میں مسجد میں سب کو بتاؤں گا کہ برکیارق کس بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے اور اب اس کی حالت کیا ہے
اگلے روز جمعہ تھا جمعہ کے روز تو جامع مسجد نمازیوں سے بھر جایا کرتی تھی لیکن اس جمعہ کی نماز کے وقت یہ حالت ہو گئی تھی کہ مسجد کے اندر تیل دھرنے کو جگہ نہیں رہی تھی اور بہت سے نمازیوں کو مسجد کے باہر صفیں بچھانی پڑیں سب سلطان برکیارق کی بیماری کے متعلق تازہ اطلاع سننے آئے تھے خطبے سے پہلے قاضی ابوالاعلاء صاحب ممبر پر کھڑے ہوکر بڑی ہی بلند آواز سے برکیارق کی بیماری کے متعلق بتانے لگے
برکیارق بن ملک شاہ کو کوئی جسمانی بیماری نہیں قاضی ابو الاعلاء نے کہا میں نے مراقبے میں بیٹھ کر کشف کے ذریعے معلوم کیا ہے برکیارق پر سفلی تعویز کا اثر ہوگیا ہے اور یہ کارستانی کسی باطنی کی ہے سب لوگ برکیارق کی صحت یابی کے لیے دعا کریں کوئی پتہ نہیں کس کی اللہ سن لے اور برکیارق کی صحت بحال ہوجائے میں اس کے لیے ایک تعویذ تیار کر رہا ہوں جس میں تین چار دن لگ جائیں گے اس تعویز سے ان شاء اللہ اس پر جو سفلی کے اثرات ہیں رفع ہو جائیں گے
نماز کے بعد برکیارق کی صحتیابی کے لئے خصوصی دعا کی گئی قاضی ابوالاعلاء نے یہ اعلان کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی کہ وہ تعویذ تیار کر رہا ہے ان کے ذہن سے شاید یہ حقیقت نکل گئی تھی کہ باطنی نظر نہ آنے والے سائے کی طرح ہر جگہ موجود رہتے ہیں اور ذرا ذرا خبر اوپر پہنچا کر اس کے خلاف جو کارروائی ضروری ہو کرتے ہیں
اگلے روز فجر کی نماز کے وقت جماعت کھڑی ہوئی تو قاضی ابوالاعلاء امامت کے لیے مصلے پر جا کھڑے ہوئے عموماً یوں ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے پہلی صف میں ان کے خاص آدمی کھڑے ہوتے تھے تاکہ قاضی پر کوئی حملہ نہ کر سکے اس روز فجر کی نماز کے وقت جب قاضی مصلے پر کھڑے ہوئے اور تکبیر پڑھی جا رہی تھی تو دوسری صف سے ایک آدمی بڑی تیزی سے آگے بڑھا اور اگلی صف کے دو آدمیوں کو زور سے دھکا دیا دونوں آدمی اس دھکے سے سنبھل نہ سکے اور امام کے ساتھ ٹکرائے اس شخص نے اتنی دیر میں خنجر نکال لیا تھا قاضی ابو الاعلاء چوک کر پیچھے مڑے کہ یہ کیا ہوگیا ہے بیشتر اس کے کہ انہیں پتہ چلتا یہ کیا ہوا ہے خنجر ان کے دل میں اتر چکا تھا خنجر باہر نکلا اور پھر ان کے دل میں اتر گیا
نمازی تو کچھ بھی نہ سمجھ سکے ادھر قاضی مصلے پر گرے ادھر ان کا قاتل ممبر پر چڑھ گیا اور خنجر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر کیا اور بڑی زور سے نعرہ لگایا شیخ الجبل امام حسن بن صباح کے نام پر اور اس نے خنجر نیچے کو کھینچا اور اپنے سینے میں اتار لیا
ایک اور عالم دین باطنیوں کے نذر ہوگئے یہ پانچویں صدی ہجری کا آخری سال تھا
قاضی ابوالاعلاء صاعد بن ابو محمد نیشاپوری کے قتل کی اطلاع مرو پہنچی تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ سلطان کے محل میں کیا ردعمل ظاہر ہوا ہوگا وہ تو ایک دھماکہ تھا جس نے پہلے تو سب کو سن کر دیا اور اس کے بعد سب شعلوں کی طرح بھڑک اٹھے برکیارق کا سب سے چھوٹا بھائی سنجر کچھ زیادہ ہی جوشیلا تھا لیکن وہ ایسا جذباتی نہیں تھا کہ عقل پر جذبات کو غالب کر دیتا پھر اسے فن حرب و ضرب میں بہت ہی دلچسپی تھی اور اس میں قیادت کے جوہر بھی تھے ابھی وہ جوان تھا اور جوانی نے ایسا جوش مارا کہ اس نے اعلان کر دیاکہ وہ باطنیوں کے قلعوں پر حملہ کرے گا اور واپس مرو میں اس وقت آئے گا جب باطنیوں کا نام و نشان مٹ چکا ہوگا
اس وقت سلطنت سلجوقیہ کا وزیراعظم فخرالملک ابوالمظفر علی تھا وہ اس سلطنت کے مشہور وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی مرحوم کا بیٹا تھا پندرہ برس پیشتر ایک باطنی نے نظام الملک خواجہ حسن طوسی کو قتل کردیا تھا اب ان کا بیٹا ابو مظفر علی وزیراعظم تھا اور سلطان نے اسے مخرالملک کا خطاب دیا تھا وہ اپنے باپ جیسا دور اندیش اور دانشمند تھا اسے قاضی ابو الاعلاء کے قتل کی خبر ملی تو وہ اسی وقت سلطان کے محل پہنچا
وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سلطان محمد اور سلطان سنجر کا رد عمل کیا ہے اس نے دیکھا کہ ردعمل بڑا ہی شدید ہے تو اسے خطرہ محسوس ہوا کہ یہ دونوں بھائی اس غم و غصے سے مغلوب ہو کر کوئی غلط فیصلہ یا جلد بازی کر گزریں گے اس نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ منصوبہ اسے بنانے دیں کہ انتقامی کاروائی کیسے کی جائے اور کب کی جائے
اب ہم سوچنے میں مزید وقت ضائع نہیں کریں گے محمد نے کہا اب ہمیں الموت پر یا باطنیوں کے دوسرے بڑے اڈے قلعہ شاہ در پر حملہ کر دینا چاہیے یہی فیصلہ کرتا ہوں اور میں اس فیصلے کی تائید چاہتا ہوں کہ شاہ در میں حسن بن صباح کا استاد رہتا ہے ہم پہلے اس اڈے کو تباہ کریں گے
شاہ در وہ قلعہ بند شہر تھا جہاں سے حسن بن صباح اپنے استاد احمد بن عطاش سے تربیت حاصل کر کے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع و عریض علاقے پر چھا گیا تھا اور اس نے الموت میں جنت بھی بنا لی تھی
وزیر اعظم ابو المظفر علی اپنے مرحوم باپ کی طرح صرف وزیراعظم ہی نہیں تھا بلکہ سپہ سالار بھی تھا یعنی جنگجو تھا اور میدان جنگ میں قیادت کی اہلیت بھی رکھتا تھا اس نے برکیارق محمد اور سنجر سے کہا کہ اسے اجازت دیں کہ وہ قلعہ شاہ در کے محاصرے کا منصوبہ تیار کرے اور اپنے لشکر کو اپنی نگرانی کے تحت تیار کرے
آپ ضرور کریں محمد نے کہا لیکن تین چار دنوں سے زیادہ وقت ضائع نہ ہو اس حملے اور محاصرے کی قیادت میں خود کروں گا آپ منصوبہ تیار کرلیں اور لشکر کو بھی ضروری تربیت دے لیں
اُدھر قلعہ وسم کوہ میں شافعیہ اگلے روز ہوش میں آئی اس نے ہوش میں آتے ہی پہلی بات طبیب کو یہ بتائی کہ وہ چار پانچ دنوں سے بھوکی ہے اور صرف پانی پی رہی ہے طبیعت نے اپنے ایک آدمی سے کہا کہ وہ مریضہ کے منہ میں قطرہ قطرہ شہد اور دودھ ٹپکاتا رہے اسے فوراً اتنی غذا نہیں دینی تھی جس سے پیٹ بھر جاتا کیونکہ اس کا جسم اتنی زیادہ غذا کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا اس وقت برکیارق مرو جانے کے لیے وسم کوہ سے رخصت ہو چکا تھا
طبیب نے سالار اوریزی کو اطلاع دی کہ مریضہ ہوش میں آگئی ہے سالار اوریزی اسی وقت پہنچا اور مریضہ کی حالت دیکھی وہ تو زندہ لاش تھی ابھی کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی وہ شافعیہ کو تسلی دلاسا دے کر وہاں سے آ گیا اس نے بہتر یہ سمجھا کہ مریضہ کے ساتھ کوئی عورت ہونی چاہیے وہاں عورتوں کی کمی نہیں تھی لیکن محسوس یہ کیا گیا کہ اس لڑکی کے ساتھ کوئی عقل والی عورت ہو اوریزی نے اس لیے یہ محسوس کیا تھا کہ شافعیہ نے سرگوشی میں ایک آدھ بات بڑی مشکل سے کہی تھی اور یہ بات ایسی تھی کہ اوریزی سمجھ گیا کہ یہ کوئی عام سی قسم کی لڑکی نہیں اور اس کا کوئی خاص پس منظر ہے اسے شک ہوا تھا کہ یہ باطنیوں کی لڑکی ہو گی
سالار اوریزی نے مزمل کے ساتھ بات کی تو مزمل نے کہا کہ وہ شمونہ کو لڑکی کے پاس بھیج دے گا جس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ عورت عورت کے ساتھ دل کی بات کر دیا کرتی ہے شمونہ تجربے کار تھی جس سے یہ امید رکھی جاسکتی تھی کہ وہ شافعیہ کے سینے سے راز کی کوئی بات اگر ہوئی تو نکال لے گی
دن گزر گیا اور رات گہری ہونے لگی شافعیہ کو اتنا زیادہ شہید دودھ دیا جا چکا تھا کہ اس کے جسم میں جان آگئی اور وہ تھوڑا تھوڑا بولنے لگی رات کو اس نے اپنے ہاتھ سے شہد ملا دودھ پیا اور پھر اسے تھوڑی سی ٹھوس غذا دی گئی شمونہ اس کے ساتھ رہی شافعیہ بے ہوشی کی نیند سو گئی اور اگلے سورج نکل آنے کے خاصا بعد جاگی شمونہ نے دیکھا کہ اب وہ اچھی طرح بول سکتی ہے
شمونہ نے اس سے پوچھا وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے؟
شافعیہ نے کہا کہ وہ یہیں سے گئی تھی اور واپس یہیں آگئی ہے یہاں سے گئی تھی تو میرے ساتھ میری چھوٹی بہن تھی اور چچا بھی تھا شافعیہ نے کہا واپس آئی ہوں تو اکیلی ہوں
شافعیہ نے شمونہ کو اپنی پوری داستان سنا ڈالی کہ وہ کس طرح اور کیوں یہاں سے رخصت ہوئی تھی اور کہاں تک گئی اور کسطرح واپس آئی اس نے کسی بات پر پردہ نہ ڈالا
شمونہ اسی وقت گھر گئی اور مزمل کو شافعیہ کی ساری داستان سنائی مزمل اسی وقت سالار اوریزی کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ لڑکی نے اپنے متعلق کیا سنایا ہے سالار اوریزی نے کہا کہ وہ حیران تھا کہ اس کا یہ عہدے دار شمشیر ابلک کہاں غائب ہو گیا ہے اس کی کہیں لاش نہیں ملی تھی نہ ہی وہ کہیں زخمی حالت میں پڑا تھا اب شافعیہ نے سالار اوریزی کو اس سوال کا جواب دے دیا
شافعیہ زرتوش کو قتل کر کے وہاں سے نکلی تو نقشے نے اس کی صحیح رہنمائی کی وہ تین چار دن گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھی سفر طے کرتی رہی اسے اس جنگل میں کوئی بستی اور کوئی انسان نہ ملا اس نے بہت مشکلات برداشت کیں اسے یہ احساس رہا ہی نہیں تھا کہ کتنے دن اور کتنی راتیں گزر گئیں ہیں وہ جنگل سے نکل کر بنجر ویرانوں میں داخل ہوئی جہاں پانی کا ایک قطرہ بھی نظر نہیں آتا تھا نہ وہاں کوئی سبز پتا دکھائی دیتا تھا وہ وہاں سے بھی نکل آئی سفر کے آخری آٹھ دس دن اس کے لیے قیامت کے دن تھے اس پر ایک آفت یہ پڑی کہ ایک گھوڑے کو رات کے وقت زہریلے سانپ نے ڈس لیا اور گھوڑا تڑپ تڑپ کر مر گیا اب اس کے پاس ایک گھوڑا رہ گیا تھا وہ اس پر سوار ہوئی اور دو دنوں بعد پھر ایک بھرے جنگل میں داخل ہوئی اور طوفان باد باراں میں پھنس گئی بڑا ہی خوفناک طوفان تھا بجلی کڑکتی تھی اور دو مرتبہ بجلی دو درختوں پر گری اور ٹہن ٹوٹ کر نیچے آ پڑی آگے ایک ندی تھی جس میں سیلاب آ گیا تھا شافعیہ نے روکنے کی بجائے گھوڑا ندی میں اتار دیا لیکن سیلاب اس قدر تیز و تند تھا کہ گھوڑے کو اپنے ساتھ بہانے لگا بہت دور جا کر پانی پھیلا تو گھوڑا پانی میں چل کر باہر نکل آیا لیکن شافعیہ یہ معلوم نہ کر سکی کہ وہ اب کہاں ہے اس نے کپڑا نکالا اس کپڑے پر کوئلے کی لکیریں ڈالی گئی تھیں مصیبت یہ آ پڑی کہ وہ سیلاب میں اتری تھی اور تمام کپڑے بھیگ گئے تھے اس لیے اس کپڑے سے کوئلے کی لکیریں مٹ گئی تھیں
وہ اللہ کے بھروسے آگے ہی آگے بڑھتی گئی ایک اور دن کی مسافت کے بعد اس کے راستے میں ایک اور چشمہ آ گیا وہاں وہ گھوڑے کو پانی پلانے کے لئے رک گئی اس نے خود بھی پانی پیا لیکن اس کے پاس کھانے کا سامان ختم ہو چکا تھا وہ جب پانی پی چکی تو اسے یاد آیا جب وہ خزانے والی غار کی طرف جارہی تھی تو یہ چشمہ راستے میں آیا تھا اس چشمے کے قریب ایک اونچی ٹیکری تھی وہ اس ٹیکری پر چڑھ گئی اور ادھر ادھر دیکھا اسے دو اور نشانیاں نظر آ گئیں اور یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ وہ ایک دن زیادہ سے زیادہ دو دن کی مسافت دور رہ گئی ہے اور اب اس کی منزل آئی کہ آئی پھر یوں ہوا کہ وہ ایک جنگل میں جا رہی تھی اب اس کے دل پر ایسا بوجھ نہیں تھا کہ وہ ایک بار پھر راستہ بھول گئی ہے اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ صحیح راستے پر جا رہی ہے پہلے وہ اللہ کی مدد اور رہنمائی مانگتی تھی اب اس نے اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کر دیا وہ جا رہی تھی کہ اچانک سات آٹھ بھیڑیے کہیں سے نکلے اور اس کی طرف دوڑ پڑے گھوڑے کو ایڑ لگانے کی ضرورت نہیں تھی گھوڑا ڈر کر ہی خود بھاگ اٹھا اور بہت ہی تیز بھاگا بھیڑیے بھی رفتار کے بہت تیز تھے اور یقیاً بھوکے تھے اس لئے وہ دوڑے ہی چلے آ رہے تھے اور فاصلہ بہت کم ہوتا جا رہا تھا
شافعیہ نے سوچا کہ بھیڑیوں نے گھوڑے کو پکڑ لیا تو گھوڑا گرے گا اور وہ بھی گھوڑے کے ساتھ گرے گی اور کچھ بھیڑیے گھوڑے کو اور کچھ اسے مار کر کھانا شروع کردیں گے وہ سوچنے لگی کہ گھوڑے سے کس طرح کود کر اترے اور کسی اور طرف دوڑ پڑے لیکن کودنا تو شاید آسان تھا لیکن خطرہ یہ تھا کہ دو چار بھیڑیئے اس کے پیچھے دوڑ کر اسے پکڑ لیں گے
شافعیہ نے سامنے دیکھا ایک پھیلا ہوا بہت بڑا درخت راستے میں آ رہا تھا درخت کا ایک ٹہن زمین سے متوازی تھا
شافعیہ نے سوچ لیا کہ وہ اس ٹہن کو پکڑ لے گی اور گھوڑا اس کے نیچے سے نکل جائے گا گھوڑا پوری رفتار سے جا رہا تھا اور بھیڑیے اس کے اتنے قریب آ گئے تھے کہ آدھے دائیں طرف اور آدھے بائیں طرف ہو گئے تھے درخت قریب آگیا شافعیہ نے رکابوں سے پاؤں باہر نکال لیا اور جب وہ درخت کے نیچے سے گزری تو ہاتھ اوپر کرکے ٹہن پکڑ لیا اس کا خیال تو یہ تھا کہ ٹہن بڑے آرام سے اس کے ہاتھ میں آجائے گا اور گھوڑا نیچے سے نکل جائے گا لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکی کہ وہ کس رفتار سے جا رہی ہے اس نے ٹہن پکڑ لیا اور ٹہن نے جب اسے اتنی زیادہ رفتار سے روکا تو اسے یوں لگا جیسے اس کے بازو ٹہن کے ساتھ رہ گئے ہیں اور باقی جسم گھوڑے کے ساتھ چلا گیا ہے اسے اپنے سے الگ ہوتے ہی وہ گر پڑی کچھ چوٹ گرنے سے آئی اور شدید درد کرنے لگی اسے حاصل صرف یہ ہوا کہ بھیڑیوں سے بچ گئی تھی گھوڑا اور بھیڑیے دور نکل گئے تھے
شافعیہ نے ذرا بلند زمین پر کھڑے ہو کر دیکھا اسے کچھ ایسی امید تھی کہ شاید گھوڑا اتنا تیز دوڑے کے بھیڑیے ہار کر اسے چھوڑ دیں اور گھوڑا واپس آجائے لیکن یہ امید ایک جھوٹی امید تھی گھوڑا ایک طرف موڑا تھا اور بھیڑیے لپک جھپک کر اس کی ٹانگوں پر منہ ڈال رہے تھے آخر شافعیہ نے اپنے گھوڑے کو گرتے دیکھا وہ ایک بار اٹھا لیکن بھیڑیوں نے اسے پھر گرا لیا اور اس کے بعد وہ اٹھ نہ سکا
اب شافعیہ نے منزل تک پیدل پہنچنا تھا وہ گھوڑے کی پیٹھ پر رہتی تو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دن بعد منزل پر پہنچ جاتی لیکن نہ جانے کتنے دن اسے اپنا جسم اپنی ٹانگوں پر گھسیٹنا تھا وہ بھیڑیوں کی طرف سے مطمئن ہو گئی تھی کیونکہ بھیڑیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے اتنا بڑا اور اتنا تندرست گھوڑا مل گیا تھا اب بھیڑیوں کو ضرورت نہیں رہی تھی پھر بھی شافعیہ اس راستے سے ہٹ کر چلنے لگی
وہ چھٹی یا ساتویں دن وسم کو پہنچی لیکن اس حالت میں جیسے وہ اپنی لاش اپنے کندھوں پر اٹھائے وہاں پہنچی ہو
سالار اوریزی نے شافعیہ کی یہ داستان سنی تو اس نے کہا کہ اس لڑکی کو سرکاری حیثیت دے کر خصوصی مہمان بنا کر رکھا جائے
مرو میں روز و شب بڑے ہی سرگرم تھے فوج کو محاصرے کی اور قلعہ توڑنے کی اور پھر دست بدست لڑائی لڑنے کی تربیت دی جارہی تھی یہ راز چھپایا نہ گیا کہ قلعہ شاہ در کو محاصرے میں لے لیا جائے گا اس ٹریننگ کی نگرانی وزیراعظم فخرالملک ابوالمظفر علی کر رہا تھا محمد اور سنجر اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ وہ لشکر کو فوراً کوچ کے لیے تیار کرے لیکن ابو مظفر علی جلد بازی کا قائل نہیں تھا اس نے یہ بھی کہا تھا کہ بے شک قیادت محمد اور سنجر ہی کریں لیکن وہ خود ساتھ ہوگا وہ لوگوں کو بھی ترغیب دے رہا تھا کہ اپنی فوج میں شامل ہوجائیں اور باطنیوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوں
لوگ جوق درجوق فوج میں شامل ہو رہے تھے اور ابو المظفر علی ان سب کو بڑی تیزی سے ٹریننگ دلوا رہا تھا برچھیاں اور تیر الگ بن رہے تھے اور وزیراعظم ان کی بھی نگرانی کرتا تھا مختصر یہ کہ ہر طرف ابوالمظفر علی ہی نظر آتا تھا اپنے عوام میں وہ پہلے ہی مقبول تھا لیکن اب لوگوں نے اسے باطنیوں کے خلاف اتنی تیاریوں میں دیکھا تو اس کے کردار اور زیادہ قائل ہوگئے اور اسے بڑی ہی اونچی اور قابل قدر شخصیت سمجھنے لگے وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ خانہ جنگی میں جو لوگ مر گئے تھے ان کا انتقام لینے کا وقت آ گیا ہے یہ ایک ایسی خلش تھی جو لوگوں کو فوج میں شامل ہونے پر اکسا رہی تھی
مشہور تاریخ دان ابن اثیر نے ایک بڑا ہی دردناک واقعہ لکھا ہے وہ یوں ہے کہ محرم کی دس تاریخ تھی اس روز ابوالمظفر علی نے روزہ رکھا صبح کے وقت وہ روز مرہ معمولات کے لئے باہر نکلا تو اس نے محمد اور سنجر اور اپنے تین چار احباب سے کہا کہ گزشتہ رات اس نے حضرت حسینؓ کو خواب میں دیکھا ہے حضرت حسینؓ اسے کہتے ہیں جلدی آ جاؤ آج کا روزہ تم نے ہمارے پاس آکر افطار کرنا ہے
فخر الملک! ایک بڑے قریبی دوست نے ابوالمظفر علی سے کہا ہونا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے خواب مبارک ہے لیکن میری ایک بات مان لیں آج کا دن اور آنے والی رات آپ گھر سے باہر نہ نکلیں مجھے کچھ خطرہ محسوس ہو رہا ہے
حضرت حسینؓ یاد فرمائیں اور میں گھر میں چھپ کر بیٹھ جاؤ ابو المظفر علی نے مسکراتے ہوئے کہا بلاوا آیا تو میں حاضری ضرور دونگا
اس روز ابوالمظفر علی روزمرہ معمول سے ہٹ کر یوں کیا کہ گھر چلا گیا اور زیادہ وقت نفل پڑھنے اور تلاوت قرآن میں گزارا کچھ صدقہ بھی دیا عصر کے وقت گھر سے باہر نکلا اسے گھر کے سامنے ایک مفلوک الحال شخص ملا جو رونی صورت بنائے اس کے سامنے آن کھڑا ہوا
مسلمان تو جیسے ختم ہی ہو گئے ہیں اس شخص نے مایوسی کے لہجے میں کہا کوئی ایک بھی نہیں رہا جو مجھ مظلوم کی فریاد سنئے
میں سنوں گا میرے بھائی! ابو المظفر نے اس کے اور قریب جا کر پوچھا بتاؤ تو سہی تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟
اس شخص نے اپنی جیب میں سے ایک کاغذ نکالا اور ابوالمظفر علی کی طرف بڑھا کر بولا کہ میں نے اپنی فریاد لکھ لی ہے اور یہ پڑھ لیں ابوالمظفر علی اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر پڑھنے لگا تو اس شخص نے بڑی تیزی سے کپڑوں کے اندر سے چھری نکالی اور ابو المظفر علی کے پیٹ میں گھونپ کر ایسی پھیری کہ ابو المظفر علی کا پیٹ چاک ہو گیا ابوالمظفر علی تو گر پڑا لیکن اتفاق سے کچھ آدمی وہاں سے گزر رہے تھے انہوں نے دیکھ لیا یہ پہلا باطنی تھا جس نے فوراً ہی اپنے آپ کو مار نہ لیا اسے شاید خودکشی کی مہلت نہ ملی کیونکہ ان آدمیوں نے اسے پکڑ لیا تھا اور اس کے ہاتھ سے چُھری بھی لے لی تھی
فخر الملک ابو المظفر علی کے قتل کی خبر فوراً شہر میں پھیل گئی اور لوگ اکٹھے ہونے سے شروع ہوگئے برکیارق محمد اور سنجر بھی پہنچ گئے اس وقت ابو المظفر علی فوت ہو چکا تھا قاتل بھی وہی تھا سلطان سنجر نے کہا کہ اسے اسی چھری سے یہی اس طرح قتل کیا جائے کہ اس کی گردن کاٹ کر اور سر الگ کر کے پھینک دیا جائے
او باطنی کافر! محمد نے اس سے پوچھا تو نے دوسرے باطنی قاتلوں کی طرح خود کشی کیوں نہیں کر لی؟
میں جانتا ہوں مجھے قتل کے بدلے قتل کیا جائے گا قاتل نے کہا میں مرنے سے پہلے تم لوگوں کے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ تمہارے اپنے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں تم اپنا مخلص اور ہمدرد سمجھتے ہو لیکن وہ باطنی ہیں اور وہ ایک ایک آدمی کو قتل کریں گے
باطنی نے سات آٹھ آدمیوں کے نام لئے وہ کوئی اونچے عہدوں والے آدمی نہیں تھے لیکن ان کی کچھ نہ کچھ سرکاری حیثیت تھی اس وقت برکیارق محمد اور سنجر پر ایسی کیفیت طاری تھی کہ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ابن اثیر نے لکھا ہے کہ انہوں نے اسی وقت ان سات آٹھ آدمیوں کو بلوا لیا اور جلاد کو بھی بلا کر حکم دیا کہ اس باطنی سے پہلے ان آدمیوں کی گردنیں اڑا دی جائیں وہ سب آدمی چلاتے چینختے رہے کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن ان کی گردنیں اڑا دی گئیں
جلاد آخری آدمی کو قتل کر چکا تو ابوالمظفر علی کے قاتل نے پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے شروع کر دیئے اس سے پوچھا وہ کیوں ہنسا ہے
ہنسوں نہ تو اور کیا کرو باطنی نے کہا یہ سب بے گناہ تھے میں نے یہ سوچ کر ان کے نام لیے تھے کہ میں تو مر ہی رہا ہوں تو کیوں نہ چند مسلمان کو ساتھ لے کر مروں تم سب جاھل اور گنوار ہو کہ عقل سے ذرا بھی کام نہیں لیتے
سلطان کے حکم سے اسے بھی جلاد کے حوالے کر دیا گیا جلاد نے اس کی گردن اپنی تلوار سے نہ کاٹی بلکہ حکم کے مطابق اسے نیچے گرایا اور اسی کی چھری سے اس کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا گیا
اب ہم قلعہ شاہ در کا محاصرہ کریں گے سنجر نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا کل صبح کوچ ہوگا
ابوالمظفر علی کے قتل نے مرو کی آبادی کو تو جیسے آگ لگا دی تھی لوگ مقتول کے گھر کی طرف دوڑ پڑے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا روکے ہوئے سیلاب کی طرح یہ ہجوم بے قابو ہوتا جا رہا تھا اور انتقام انتقام کے فلک شگاف نعرے زمین و آسمان کو جھنجوڑ رہے تھے ابو المظفر علی کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر سے نکل کر مضافاتی علاقوں میں پہنچ گئیں وہاں کے لوگ بھی شہر کی طرف دوڑ پڑے
برکیارق کے چھوٹے بھائی سنجر نے ابو المظفر کی لاش کے قریب کھڑے ہو کر اعلان کردیا کہ اب قلعہ شاہ در کا محاصرہ ہوگا اور کل کوچ کیا جائے گا لیکن ان کے بزرگ مشیروں نے کہا کہ ایسے فیصلے غصے اور جذبات سے مغلوب ہوکر نہیں کیے جاتے ورنہ جلد بازی میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے ان مشیروں کا مشورہ یہ تھا کہ اطمینان سے بیٹھ کر کوچ کا اور محاصرے کا منصوبہ تیار کر لیا جائے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوچ چند دنوں بعد کیا جائے کیونکہ شہریوں کا جوش وخروش اور جذبہ انتقام ایسا نظر آرہا ہے کہ لشکر میں کچھ اور شہری شامل ہو جائیں گے
محاصرے کا منصوبہ تو بالکل تیار تھا جو ابوالمظفر علی مرحوم نے بنایا تھا اس کے مطابق لشکر کو اسی کی نگرانی میں ٹریننگ دی گئی تھی اب کوچ کا دن ہی مقرر کرنا تھا مقتول وزیر اعظم کی تہجیز و تکفین ہوچکی تو برکیارق محمد سنجر اور جنگی امور کے مشیروں کی کانفرنس ہوئی اس میں سالاروں کو بھی شامل کیا گیا اسی کانفرنس میں ضروری امور طے کر لیے گئے اور کوچ کا دن بھی مقرّر ہو گیا اس روز مرو میں اور اردگرد کے علاقوں میں منادی کرادی گئی کہ جو لوگ لشکر میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ فوراً مرو پہنچ جائیں تین چار دنوں میں اس لشکر کی نفری بے انداز ہوگئی اور کوچ کا دن آگیا کسی بھی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ اس لشکر کی تعداد کتنی تھی اور اس میں سوار کتنے اور پیادہ کتنے تھے صرف یہ لکھا ہے کہ ایک تو باقاعدہ فوج تھی اور اس کے ساتھ ایک لشکر غیر فوجیوں کا تیار کیا گیا تھا یہ لوگ گھوڑے اپنے لائے تھے اور ہتھیار بھی ان کے اپنے ایک فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس لشکر کی قیادت سنجر نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی محمد کرے گا
پھر صبح طلوع ہوئی تمام لشکر جس میں باقاعدہ فوج بھی تھی اور تربیت یافتہ شہری بھی میدان میں ترتیب سے کھڑے ہوگئے محمد گھوڑے پر سوار لشکر کے سامنے آیا اور اس نے لشکر سے خطاب کیا
اسلام کے مجاہدوں! محمد نے بلند آواز میں کہا یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں ہم کوئی ملک فتح کرنے نہیں جا رہے ہم ابلیسیت کو جڑ سے اکھاڑنے جارہے ہیں یہ کسی سلطان کی جنگ نہیں اور یہ کسی سلطنت کی بھی جنگ نہیں یہ ہم سب کی ذاتی جنگ ہے ہم سب کا اللہ ایک رسول اللہﷺ اور ایمان ایک ہے ہم سب ایک ہی جذبے سے سرشار ہوکر ایک ہی ہدف پر جا رہے ہیں ہم نے کوئی ملک کو فتح نہیں کرنا فتح ہوگی تو یہ اسلام کی فتح ہوگی اور اگر خدا ناخواستہ ہم پسپا ہوئے تو ہم پر اللہ کی لعنت پڑے گی میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے حسن بن صباح کی ابلیسی فرقے کو ختم کرنا ہے بے گناہوں کے خون کا انتقام لینا ہے خون خرابہ روکنا ہے اور مت بھولو کہ یہ وہ ابلیسی فرقہ ہے جس نے یہاں بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیا اور بھائی نے بھائی کا خون بہا دیا تھا ان باطنیوں نے ہمارے علمائے دین کو قتل کیا نظام الملک خواجہ حسن طوسی جیسی شخصیت کو قتل کیا اور اب ان کے بیٹے ابو المظفر علی کو قتل کر دیا ہے اور یہ تو تم جانتے ہو کہ اس فرقے نے اصفہان میں شاہ در میں اور کئی دوسری جگہوں پر کس بے رحمی سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے تم نے لڑنا ہے اور کسی اجر کے لالچ کے بغیر لڑنا ہے فتح تبھی حاصل کرو گے جب اللہ کی راہ میں خون کے نذرانے پیش کرو گے یہ تو تم جانتے ہو کہ اللہ کسی کا جذبہ جہاد اور جذبہء ایثار فراموش نہیں کیا کرتا میں ایک آخری بات کہوں گا تم میں سے کسی کے دل میں کوئی شک اور شبہ ہے یا کوئی وہم ہے یا وہ دلی طور پر اس جہاد کے لئے تیار نہیں تو میں اسے اجازت دیتا ہوں کہ وہ ابھی لشکر سے نکل جائے کوچ شروع ہو گیا اور کسی نے پیٹھ دکھانے کی کوشش کی تو اسے وہی قتل کر دیا جائے گا
ایک فلک شگاف نعرہ بلند ہوا اس نعرے میں ان عورتوں اور بچوں کی آوازیں بھی شامل تھیں جو لشکر کو رخصت کرنے کے لئے اور خدا حافظ کہنے کے لیے وہاں اکٹھے ہوگئے تھے مکانوں کی چھتوں پر بھی عورتیں کھڑی تھیں لشکر وہاں سے چلا تو عورتوں نے ہاتھ پھیلا کر اللہ سے لشکر کی سلامتی اور فتح کی دعائیں مانگیں
قلعہ الموت میں حسن بن صباح کو اطلاع دے دی گئی تھی کہ وزیراعظم ابوالمظفر علی کو قتل کر دیا گیا ہے اور قاتل نے خودکشی کرلی ہے کچھ دنوں بعد اسے دوسری اطلاع یہ دی گئی کہ سلطنت سلجوقیہ کا ایک بہت بڑا لشکر شاہ در کی طرف کوچ کر گیا ہے اور اب تک وہ وہاں پہنچ چکا ہوگا یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ حسن بن صباح مسکرایا نہیں بلکہ اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر آگیا اس سے پہلے اسے اطلاع ملتی تھی کہ مسلمانوں نے فلاں قلعے کا محاصرہ کر لیا ہے تو وہ یوں مسکرا اٹھتا تھا جیسے اسے کوئی غم اور کوئی فکر نہ ہو مسلمان کوئی قلعہ فتح کرلیتے تو بھی حسن بن صباح کے چہرے پر پریشانی کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں آتا تھا لیکن اب یہ سن کر کہ سلطنت سلجوقیہ کا لشکر شاہ در پہنچ چکا ہوگا تو وہ خلاؤں میں دیکھنے لگا
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح کے پاس فدائیوں کی کوئی کمی نہیں تھی وہ تو ایک لشکر تھا حسن بن صباح کسی بھی فدائی کو اشارہ کر دیتا تو وہ فدائی اپنی جان اپنے ہاتھ سے لے لیتا تھا لیکن یہ فدائی ایک منظم فوج کی طرح لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے فدائیوں کے خنجر اور ان کی چھُریاں چلتی تھی وہ دھوکے میں قتل کرتے تھے یا زمین کے نیچے سے وار کر جاتے تھے تھے حسن بن صباح نے سلطنت سلجوقیہ میں خانہ جنگی کرا دی تھی اس نے ایسی بہت سی شخصیات کو قتل کروا دیا تھا جنہیں کلیدی حیثیت حاصل تھی اس وقت تک دو وزیراعظم فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے یہ حسن بن صباح کا ہی کمال تھا لیکن اس کے ایک اشارے پر جان قربان کردینے والا فدائیوں کا لشکر میدان میں آکر جنگ نہیں لڑ سکتا تھا
حسن بن صباح کو قلعہ شاہ در کے محاصرے کی اطلاع ملی تو وہ متفکر ہو کر گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور اپنے مشیروں وغیرہ کو بلایا
شاہ در بڑا ہی مضبوط قلعہ بند شہر ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن اب ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ہم نے سلجوقیوں کو جتنی ضرب لگائی ہے وہ ان کی برداشت سے باہر ہو گئی ہے اب وہ زخمی شیر کی طرح انتقام لینے نکلے ہیں یہ مت بھولو کہ شاہ در میرے لیے قلعہ الموت سے زیادہ مقدس ہے وہاں میرا پیر و مرشد عبدالملک بن عطاش رہتا ہے شاہ در کو ہر قیمت پر بچانا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ سلجوقی اس شہر کو فتح کر لیں اگر انہوں نے یہ قلعہ سر کرلیا تو وہ میرے پیرومرشد کو بڑی ہی تزلیل اور توہین کریں گے ہمارے پاس ایسا کوئی منظم لشکر نہیں جو یہاں سے کوچ کر جائے اور محاصرے کو محاصرے میں لے لے ہمیں اپنا طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا یہاں سے دس فدائی بھیج دو وہ اپنے آپ کو اہل سنت کہلائیں گے اور مبلغ بن کر جائیں گے وہ سلطان محمد کو قتل کریں گے اور سپہ سالار کو بھی قتل کریں گے اور اگر دو اور سالاروں کو قتل کر دے تو محاصرہ نہ صرف ٹوٹ جائے گا بلکہ پورے کا پورا لشکر بھاگ جائے گا
اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا ایک معمر مشیر نے کہا صرف سلطان مارا گیا تو محاصرے میں ذرا سی بھی جان نہیں رہے گی میں اپنے منتخب کئے ہوئے فدائی بھیجوں گا
میرا پیر و مرشد عبدالمالک بن عطاش اتنا کچا نہیں کہ وہ شہر سلجوقیوں کو دے دے گا حسن بن صباح نے کہا وہ کوئی نہ کوئی ڈھنگ کھیلے گا اور میرا خیال ہے وہ سلجوقیوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجائے گا پھر بھی میں اسے فرض سمجھتا ہوں کہ باہر سے اس کی مدد کروں میں دس قلعے دے سکتا ہوں شاہ در نہیں دونگا فدائیوں کو بھیج دو
اس زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا سپہ سالار مارا جاتا تو پورے کا پورا لشکر بددل ہو جاتا تھا بادشاہ خود اپنے لشکروں کی قیادت کیا کرتے تھے لیکن بادشاہ مارا جاتا تو سارا لشکر بھاگ جاتا تھا حسن بن صباح کی یہ سوچ بے بنیاد نہیں تھی کہ محمد کو قتل کر دیا جائے محمد سلطان تھا جس کے مارے جانے سے محاصرے ٹوٹ جانا تھا باطنی فدائیوں کے لیے کسی کو قتل کر دینا معمولی سا کرتب تھا فدائیوں کو پکڑے جانے کا اور سزا کا تو کوئی ڈر ہی نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے شکار کو قتل کر کے اپنے آپ کو بھی مار ڈالتے تھے
شاہ در قلعہ بند شہر تھا اور یہ قلعہ الموت کے بعد باطنیوں کا بڑا مضبوط اڈا تھا اس شہر کا جو قلعہ تھا وہاں بہت سے برج اور برجیاں تھیں شہر کے ارد گرد جو شہر پناہ تھی وہ کوئی معمولی سی دیوار نہ تھی بلکہ خاصی چوڑی تھی بلند بھی تھی اور بہت ہی مضبوط یہ شہر ایسی جگہ آباد کیا گیا تھا کہ اس کے پیچھے اور ایک پہلو پر اونچی پہاڑی تھی ان اطراف سے قلعے پر حملہ کرنا خود کشی کے برابر تھا دوسرے دو اطراف میں دیوار پر چھوٹی بڑی برجیاں تھی جن میں ہر وقت تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے تیار رہتے تھے شہر کے چاروں اطراف کی لمبائی تاریخ میں چھ کوس لکھی ہے
اس شہر کا حکمران حسن بن صباح کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش کا ایک بیٹا احمد بن عبدالملک تھا اس کا ایک بھائی احمد بن عطاش بھی وہی تھا دونوں جنگجو تھے اور دھوکہ دہی اور فریب کاری میں خصوصی مہارت رکھتے تھے
سلطان برکیارق نے جب باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا تو حسن بن صباح نے اس کے جواب میں حکم دے دیا تھا کہ مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا جائے میں نے پہلے یہ قتل اور انتقام کا سلسلہ سنا چکا ہوں باطنی قافلوں کو لوٹا کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے پناہ مال ودولت اکٹھا کر لیا تھا سلجوقی سلطانوں نے یہ لوٹ مار کا سلسلہ خاصی حد تک روک دیا تھا دو شہروں مرو اور رے میں سلطان کے حکم سے کسی باطنی کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا تھا اس کے جواب میں شاہ در میں عبدالملک بن عطاش کے حکم سے مسلمانوں کو قتل کیا جانے لگا اور وہاں سے مسلمان بھاگ کر دوسرے شہروں میں چلے گئے تھے اس سے پہلے شاہ در میں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی تھی اور اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی عبدالملک بن عطاش نے قافلے لوٹنے کا حکم بھی دے دیا تھا ان لوگوں نے تین چار قافلے لوٹے تھے جن میں سے ایک قافلہ حجاج کا تھا اس قافلے میں بہت سے ملکوں کے حاجی تھے ہندوستان کے حاجی بھی اس میں شامل تھے یہ خبریں سلجوقی سلطنت کے سلطان تک پہنچتی رہی تھیں اور اس کا ایک ہی حل سوچا گیا تھا کہ شاہ در پر حملہ کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کر دی جائے
اب اس شہر کو محاصرے میں لے لیا گیا تھا
شاہ دیر کو محاصرے میں لینے کی اطلاع وسم کوہ سالار اوریزی کو بھی مل گئی وہ تو قلعہ الموت پر حملے کے منصوبے بناتا رہتا تھا اور اس مقصد کے لئے وہ زمین ہموار کر رہا تھا اور اس نے ایک فوج بھی تیار کرنی شروع کر دی تھی اسے جب شاہ در پر محاصرے کی اطلاع ملی تو اس نے مزمل آفندی اور بن یونس کو بلایا یہ دونوں ابھی تک یہیں تھے ان دونوں نے بھی باطنیوں کو تہس نہس کر دینے کا تہیہ کر رکھا تھا
میں نے تم دونوں کی مدد سے وسم کوہ تو فتح کرلیا ہے سالار اوریزی نے کہا لیکن مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں یہاں ہوں مجھے اس وقت شاہ در ہونا چاہیے تھا میں اس قلعے کو اپنے ہاتھوں تباہ کرتا ان باطنیوں نے وہاں کسی ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑا زندہ وہی رہا جو وہاں سے بھاگ آیا تھا
الموت کو فتح کرنے کی تیاریاں جاری رکھیں مزمل نے کہا اگر آپ نے الموت فتح کرلیا تو آپ کا یہ کارنامہ تاریخ قیامت تک لوگوں کو سناتی رہے گی اور یہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہوگا لیکن میں ایک بات سوچتا ہوں میں نے الموت اچھی طرح دیکھا تھا اب سنا ہے کہ الموت ایک بند شہر بن گیا ہے اور کوئی اجنبی وہاں چلا جائے تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس طرف جا رہا ہے یا وہ کس طرف سے آیا تھا یہ بھی سنا ہے کہ اس کا دفاع زیادہ مضبوط کر دیا گیا ہے لیکن اس شہر کے اب دو حصہ بن گئے ہیں۔ ایک جو شہرہ ہے اوپر نظر آتا ہے اور دوسرا شہر اس کے نیچے ہے جسے آپ زمین دوز کہہ لیں سنا ہے نیچے ایسی بھول بھلیاں ہیں جن میں گیا ہوا آدمی نکل نہیں سکتا میرا خیال ہے الموت پر حملے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس شہر کے اندر کیا ہے اور اسے کس طرح فتح کیا جاسکتا ہے
تم وہاں کس طرح جاکر دیکھ سکتے ہو؟
سالار اوریزی نے پوچھا
اتفاق ایسا ہوا ہے کہ یہ بات آج ہی ہوگئی ہے مزمل نے کہا میں آپ کے ساتھ یہ بات کرنا ہی چاہتا تھا میں اور بن یونس الموت جائیں گے ہمارا جانے کا سب سے بڑا مقصد حسن بن صباح کا قتل ہوگا میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کام تقریبا ناممکن ہے لیکن میں دوسرا کام ضرور کروں گا وہ یہ کہ اس شہر کے نیچے جا کر دیکھوں گا کہ وہاں کیا ہے اور پھر شہر کے ارد گرد گھوم کر دیکھوں گا کہ اس میں کس طرح لشکر کو داخل کیا جاسکتا ہے جب تک یہ پتا نہیں چلے گا ہم کتنا ہی بڑا لشکر لے جائیں کامیاب نہیں ہوسکیں گے
شہر کے اندر جانے کے لیے تمہارا روپ بہروپ کیا ہوگا ؟
سالار اوریزی نے پوچھا
فدائی! مزمل نے جواب دیا ہم دونوں حسن بن صباح کے فدائی یا پیروکار بن کر جائیں گے
یہ بات ہم پر چھوڑیں۔۔۔ بن یونس نے کہا۔۔۔ ہم نے سب کچھ سوچ لیا ہے زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ہم مارے جائیں گے اگر آپ ابلیسیت کے اس طوفان کو روکنا چاہتے ہیں تو کسی نہ کسی کو تو اپنی جان قربان کرنا پڑے گی ان ہزارہا جانوں کو یاد کریں جو حسن بن صباح کے حکم سے باطنیوں کے ہاتھوں سے ہوئی اور پھر مرو کی خانہ جنگی کو یاد کریں جس میں بے حساب خون بہہ گیا تھا ہم نے اس خون کا حساب چکانا ہے ہم جس روز ان جانوں کو اور خون کو بھول گئے اس روز ہمارے عظیم دین اسلام کا زوال شروع ہو جائے گا
مزمل اور بن یونس کا عزم اور منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح باطنی مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب اور سرکاری انتظامیہ میں کسی نہ کسی بھیس اور بہروپ میں مخلص اور بے ضرر افراد کی حیثیت سے داخل ہوکر ڈنک مار جاتے ہیں اسی طرح ایک جماعت تیار کی جائے جو حسن بن صباح کے اندرونی حلقوں تک پہنچ جائے اور پہچانی نہ جاسکے اور اس طرح باطنیوں کے جڑوں میں بیٹھ کر ان کا خاتمہ کیا جائے مزمل کی بیوی شمونہ بھی یہی مشن اپنے دل میں لیے بیچ و تاب کھاتی رہتی تھی اب اسے پتہ چلا کہ مزمل اور بن یونس قلعہ الموت جارہے ہیں تو وہ بھی تیار ہوگئی شافعیہ کے دل میں شمونہ کی ایسی محبت پیدا ہو گئی تھی کہ جب اس نے سنا کہ شمونہ الموت جارہی ہے اور کیوں جارہی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئی اس کے دل میں بھی باطنیوں کے خلاف زہر بھر گیا تھا ویسے بھی وہ اکیلی رہہ گئی تھی وہ تھی تو نوعمر لیکن خزانے والے غار سے تنہا واپسی کے دوران اسے جو تجربات ہوئے تھے ان سے اس کی شخصیّت میں پختگی پیدا ہو گئی تھی اور پھر اس کے اندر ایک عزم بھی پیدا ہو گیا تھا جسے وہ اچھی طرح سمجھ نہیں سکتی تھی لیکن شمونہ کے ساتھ رہنے سے اس کے سامنے ہر ایک چیز واضح ہوگئی اس نے شمونہ سے کہا کہ وہ بھی ان کی مہم میں شامل ہونا چاہتی ہے
شمونا نے مزمل اور بن یونس کے ساتھ بات کی تو انہوں نے اس خیال سے شافعیہ کو اپنے ساتھ لے جانا بہتر سمجھا کہ وہ جس بہروپ میں جائیں گے اس میں ایک نوجوان لڑکی کارآمد ثابت ہوگی ان چاروں نے زیادہ انتظار نہ کیا پانچ گھوڑے لیے چار گھوڑوں پر یہ پارٹی سوار ہوئی اور پانچویں گھوڑے پر کھانے پینے کا اور دیگر سامان لاد لیا گیا ان کی منزل قلعہ الموت تھی دراصل موت کی منزل تھی زیادہ تر امکان یہی تھا کہ وہ زندہ واپس نہیں آسکیں گے مزمل کو پہلے وہاں کا تجربہ ہو چکا تھا وہ تو زندہ ہیں آیا تھا لیکن وہ جس جذبے والا مزمل تھا وہ مرگیا تھا شمونہ نے شافعیہ کو ذہن نشین کرا دیا تھا کہ وہ جہاں جا رہے ہیں وہاں موت زیادہ قریب ہو گی اور اگر وہ زندہ رہی تو ذلت و خواری میں زندہ رہے گی شافعیہ نے یہ سنا تو اس نے کہا کہ وہ جو عزم ساتھ لے کر چلی ہے اس پر وہ اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہے
شاہ در کا محاصرہ مکمل ہوچکا تھا اور شہر میں داخل ہونے کے لیے حملے بھی شروع ہوگئے تھے محمد نے اور اسکے سالاروں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ بہت ہی مضبوط ان کی توقعات سے بھی زیادہ مستحکم قلعہ ہے جسے چند دنوں یا چند مہینوں میں سر نہیں کیا جاسکے گا شہر پناہ پر تیر اندازوں اور برچھیاں پھینکنے والوں کا ایک ہجوم کھڑا تھا ان کے سامنے پتھروں کی بڑی مضبوط آڑیں تھیں
محمد نے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچتے ہی جاسوسوں سے رپورٹیں لی تھی سلجوقیوں کے جاسوسی کا نظام مضبوط اور کارآمد تھا شاہ در میں بھی جاسوس موجود تھے جو محاصرے سے پہلے ہی باہر نکل آئے تھے کیونکہ انہوں نے محمد کو اندر کی ساری صورت حال اور احوال اور کوائف بتانے تھے انہوں نے بتایا کہ شاہ در میں کوئی باقاعدہ فوج نہیں لیکن ہر شہری لڑنے کے لیے تیار ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان شہریوں کو قلعے سے باہر لایا جائے تو یہ باقاعدہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں اور نہ ہی انہیں ایک لڑنے والے لشکر کی تربیت اور تنظیم کا علم ہے البتہ ان میں جذبہ بڑا ہی سخت ہے جاسوس نے یہ بھی بتایا کہ اس شہر میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کو اس شہر سے قتل عام اور لوٹ مار کے ذریعے بھگا دیا گیا یا قتل کر دیا گیا تھا
اندر کی ایک اور بات معلوم ہوئی یہ جاسوسوں نے نہیں بتائی تھی ایک اور ذریعے سے معلوم ہوئی تھی بندہ ناچیز شفیق الرحمان تبسم یہ ذریعہ آپ کو بعد میں بتائے گا شاہ در کے باطنیوں نے چند مہینے پہلے ایک قافلہ لوٹا تھا اس قافلے میں زیادہ تر حجاج تھے جو حج سے واپس آرہے تھے اس میں امیر کبیر تاجر بھی تھے مال ودولت کے علاوہ باطنیوں نے قافلے سے کچھ نوجوان اور خوبصورت لڑکیاں بھی اغوا کرلی تھیں تاریخ میں ایک لڑکی کا ذکر ملتا ہے جس کا نام نور تھا وہ عراق کی رہنے والی تھی اور اپنے باپ کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کرنے گئی تھی باپ کے علاوہ اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی اور ایک بھائی بھی ماں اور بھائی باطنی ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے گئے تھے باپ بچ گیا تھا وہ کسی طرح شاہ در اپنی بیٹی کے پیچھے آ گیا تھا
اس وقت نور کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی اور وہ کچھ زیادہ ہی حسین تھی اس قسم کی لڑکیوں کو قلعہ الموت بھیج دیا جاتا تھا جہاں انہیں حسن بن صباح کی جنت کی حوریں بنایا جاتا اور خاص تربیت دی جاتی تھی ان لڑکیوں میں اگر کوئی اور خصوصی ذہانت ہوتی تو انہیں دوسرے علاقوں میں تخریب کاری کے لیے بھیج دیا جاتا تھا نور کچھ ایسی حسین لڑکی تھی کہ یہ حسن بن صباح کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش کے چھوٹے بھائی احمد بن عطاش کو پسند آگئی اور اس نے نور کے ساتھ شادی کرلی اس وقت احمد بن عطاش کی عمر پچاس سال تھی
لڑکی روز و شب روتے گزارتی تھی اس کی ماں ماری گئی تھی اور اس کا بھائی بھی قتل ہو گیا تھا اس کا باپ اپنی اس بیٹی کے ساتھ اتنی محبت اور پیار کرتا تھا کہ وہ بھی ساتھ آگیا اور احمد بن عطاش کا ملازم بن گیا نور اپنے باپ کو اس روپ میں دیکھتی تو اور زیادہ روتی اور کڑھتی تھی نور کے باپ نے احمد بن عطاش کا اعتماد حاصل کرلیا وہ اکثر سوچتا تھا کہ یہاں سے اپنی بیٹی کو کس طرح نکال کر لے جائے لیکن کوئی ذریعہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا
آخر ایک روز باپ بیٹی کو خبر ملی کہ سلجوقیوں کے لشکر نے شہر کا محاصرہ کرلیا ہے نور نے وضو کیا اور اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے نفل پڑھنے لگی وہ روتی جاتی اور نفل پڑتی جاتی تھی آخر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سسکیاں لے لے کر اللہ کو پکارا اور کہا یا اللہ اپنے اس گھر کی لاج رکھ لے جس کا حج کر کے آئی ہوں شیطان کے چیلوں کو تباہ کر دے اس نے اللہ سے شکوہ بھی کیا کہ اللہ نے اسے حج کا کیا اجر دیا ہے وہ بار بار کہتی تھی کہ شیطان کے ان چیلوں کو تباہ کر دے اس کی آواز بلند ہوتی چلی گئی اور اتنی میں احمد بن عطاش کمرے میں داخل ہوا اس نے نور کی یہ دعا سن لی تھی
اللہ اس گھر کی لاج رکھے گا جہاں تم موجود ہو احمد بن عطاش نے طنزیہ کہا فوراً اٹھو اور یہ دعا ختم کردو تم میری بیوی ہو اور تم آزاد نہیں ہوسکتی
اگر میرا اللہ سچا ہوا تو تم ذلیل ہوکر مرو گے نور نے احمد بن عطاش سے کہا تم نے مجھے اللہ کی عبادت سے روکا ہے تم ذلیل ہو کر مرو گے میں تمہیں ذلت کی موت مرتا دیکھوں گی
نور نے پہلی بار اپنے خاوند کے خلاف زبان کھولی تھی اس کی آواز میں غصہ اور انتقام تھا اور اس کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی احمد بن عطاش نے اس کے منہ پر بڑا ہی زور دار تھپڑ مارا نور چپ ہو گئی اور احمد بن عطاش کمرے سے نکل گیا
یہ شروع کے سلسلے میں سنایا جاچکا ہے کہ عبدالملک بن عطاش کسی سفلی عمل کا یا ایسے ہی کسی اور عمل کا ماہر تھا جس سے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاسکتا تھا یا دوسروں پر اثر انداز ہوا جا سکتا تھا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس نے یہ عمل حسن بن صباح کو بھی سکھایا تھا لیکن بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے یہ عمل کم ہی استعمال کیا تھا اس کی شخصیت اور کردار کا اپنا ہی ایک جادو تھا جس کے زور پر اس نے وہ مقبولیت حاصل کی تھی جس نے تاریخ میں ایک نئے اور انوکھے باب کا اضافہ کردیا تھا
عبدالملک بن عطاش ضعیف العمر تھا اس نے شہر اور دیگر امور اپنے بیٹوں کے حوالے کردیے تھے اور وہ خود اسی سفلی عمل میں لگا رہتا تھا ایک مورخ لکھتا ہے کہ ایک خاص کمرہ تھا جس میں کوئی اجنبی چلا جاتا تو اس پر غشی طاری ہونے لگتی تھی کیونکہ اس کمرے میں ایک تو بدبو ناقابل برداشت تھی اور دوسرے یہ کہ اس میں انسانی کھوپڑیاں اور دوسری ہڈیاں رکھی ہوئی تھیں اس کے علاوہ اس کمرے میں چند ایک پنجرے رکھے ہوئے تھے کسی میں سانپ بند تھا اور کسی میں اُلُّو بند کئے ہوئے تھے تاریخ میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ اس نے کوئی ایسا عمل کیا ہو کہ فلاں شہر یا فلاں سلطان یا فلاں بادشاہ تباہ ہو جائے اور وہ تباہ ہوگیا ہو لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی تھوڑی بہت طاقت ضرور تھی جسے مؤرخین نے سفلی عمل کہا ہے
اسے جب اطلاع ملی کہ سلجوقی لشکر نے شہر کو محاصرے میں لے لیا ہے اور لشکر اتنا زیادہ ہے کہ شہر کو فتح کر ہی لے گا تو وہ اپنے اس خاص کمرے میں پہنچا اور ایک پنجرے میں سے ایک اُلو نکالا اس نے کمرے کا دروازہ بند کرلیا اس کا خاص نوکر ہر وقت کمرے کے دروازے کے باہر موجود رہتا تھا جسے وہ کسی ضرورت کے تحت اندر بلا لیا کرتا تھا یہ خاص نوکر نور کا باپ تھا
عبدالملک بن عطاش دو دن اور دو راتیں کمرے میں بند رہا اس دوران نوکر اسے صرف دودھ پلاتا رہا جس میں شہد ملا ہوتا تھا اس کے بعد اس نے نوکر سے کہا کہ وہ فلاں اور فلاں آدمی سے کہے کہ ایک نابینا آدمی کہیں سے پکڑ کر لایا جائے یہ حکمران خاندان کا تھا جسکا حکم چلتا تھا
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک بھکاری سا نابینا پکڑ کر لایا گیا اور اسے عبدالملک بن عطاش کے حوالے کردیا گیا عبدالملک اسے اپنے کمرے میں لے گیا اور دو دن اور دو راتیں اسے اپنے ساتھ رکھا معلوم ہوا کہ عبدالملک اس نابینا کے جسم پر چھُری کی نوک مارتا تھا اور وہاں سے جو خون نکلتا تھا وہ اس اُلو کو پلاتا تھا
یہ نابینا جب اس کمرے سے نکلا تو اس کے جسم پر بہت سے زخم تھے جو ایسے ہی تھے کہ وہاں چھُری بار بار چبھوئی گئی تھی عبدالملک بن عطاش نے نوکر سے کہا کہ اسے طبیب کے پاس لے جا کر اس کی مرہم پٹی کرادے اور پھر اسے اس کے بیٹے احمد بن عطاش کے پاس لے جائے اور کہے کہ اسے اچھی خاصی رقم انعام کے طور پر دے دی جائے یہ کارروائی مکمل ہوگئی تو نوکر پھر عبدالملک کے پاس آیا عبدالملک نے اسے اندر بلایا اور کہا کہ اس الّو کو پکڑ کر رکھے نوکر نے پکڑا اور عبدالملک کے کہنے پر اس کا منہ کھولا عبدالملک نے اس کھلے ہوئے منہ میں چھوٹا سا ایک کاغذ تہہ در تہہ کرکے ڈال دیا اور نوکر سے کہا کہ اس کا منہ کالے دھاگے سے اچھی طرح باندھ دے پھر عبدالملک بن عطاش نے یہ الو پنجرے میں بند کردیا اور نوکر کے ساتھ کچھ باتیں کیں اس نوکر پر اسے پورا پورا اعتماد تھا اور کچھ راز داری بھی تھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس نوکر نے یہ اعتماد اس مقصد کے لئے پیدا کیا کہ اسے کبھی یہ موقع مل جائے کہ اپنی بیٹی نور کو اس سے آزاد کر کے نکل بھاگے اور سلجوقیوں کے پاس پہنچ جائے
محمد نے اپنے تیر اندازوں کو کئی بار دیوار کے قریب جاکر اوپر کے ہجوم پر تیر چلانے کے لیے بھیجا لیکن اوپر سے بارش کی طرح تیر آتے تھے اور محمد کے تیرانداز پیچھے ہٹاتے تھے محمد نے حکم دیا کہ فوری طور پر بڑی کمانے تیار کی جائیں جن سے نکلے ہوئے تیر دور سے دیوار کے اوپر تک پہنچ جائیں
محمد اپنی ایک سالار کے ساتھ قلع کے ارد گرد گھوم رہا تھا وہ گھوڑے پر سوار تھا اور دیکھ رہا تھا کہ کوئی ایسی جگہ نظر آ جائے جہاں سے دیوار توڑنے کی کوشش کی جائے یا کوئی اور ذریعہ نظر آجائے محمد چونکہ سلطان تھا اور اس لشکر کا کمانڈر بھی تھا اسلئے سلجوقی پرچم بھی اس کے ساتھ تھا اس کے پیچھے دائیں بائیں اور آگے اس کے سوار محافظ تھے جنہوں نے اسے حصار میں لے رکھا تھا
پرچم اور محافظ دو ایسی نشانیاں تھیں کہ دور سے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ بادشاہ سلطان ہے یا اس لشکر کا سپہ سالار ہے پھر دشمن کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسی پر حملہ کیا جائے یا زیادہ تر تیر وہیں پھینکے جائیں اور اسے مارا جائے تاکہ پرچم گر پڑے پرچم گرنے کی صورت میں لشکر کے کماندار یا بادشاہ کے مارے جانے کی صورت میں پورا لشکر بددل ہو کر پسپا ہو جایا کرتا تھا
محمد کے ساتھ بھی ایسی ہی ہوا وہ جدھر جاتا تھا تیر ادھر ہی زیادہ آتے تھے لیکن وہ تیروں کی زد سے باہر تھا چلتے چلتے وہ ایک درخت کے قریب پہنچا تو ایک تیر درخت کے تنے میں آن لگا اور وہیں کُھب گیا وہاں تو تیروں کی بارش آرہی تھی اس لیے ایک ایک تیر کو دیکھنے کا کوئی مطلب نہیں تھا لیکن یہ تیر جو درخت کے تنے میں زمین سے ذرا اوپر لگا تھا محمد کی نظروں میں آگیا اس تیر کے ساتھ کوئی کاغذ یا کپڑا بندھا ہوا تھا محمد رک گیا اور اس نے ایک محافظ سے کہا کہ یہ تیر تنے سے نکال لائے محافظ گھوڑے سے اترا اور وہ تیر تنے سے نکال کر محمد کو دے دیا
محمد نے ٹھیک دیکھا تھا تیر کے درمیان میں تہہ کیا ہوا ایک کاغذ یا چھوٹا سا کپڑا دھاگے سے لپٹا ہوا تھا محمد نے جلدی جلدی سے دھاگا اتارا اور دیکھا یہ کاغذ جیسے باریک چمڑے کا چند انچ چوڑا اور اتنا ہی لمبا ٹکڑا تھا اور اس پر کچھ لکھا ہوا تھا محمد نے تحریر پڑھی اس میں لکھا تھا کہ آج یا کل یا کسی بھی وقت شہر سے ایک الّو اڑے گا جو آپ کے لشکر کی طرف آئے گا اور شاید یہ ان تمام لشکر کے اوپر سے چکر کاٹ کر شہر میں واپس آجائے یا کہیں غائب ہو جائے یہ الّو جونہی نظر آئے اسے تیروں سے مار گرائیں اور جہاں یہ گرے وہیں اس پر خشک گھاس وغیرہ ڈال کر آگ لگا دینا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے
یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ عبدالملک بن عطاش نے کہا تھا کہ اس نے جو عمل کیا ہے اس سے سلجوقیوں کا پورا لشکر نہیں تو لشکر کا کمانڈر اندھا ہو جائے گا اگر آنکھوں سے اندھا نہ ہوا تو عقل سے اندھا تو ضرور ہی ہوجائے گا اور پھر وہ جو بھی فیصلہ یا جو بھی کاروائی کرے گا وہ اس کے خلاف جائے گی
محمد نے اس پیغام کو بے معنی اور فضول سمجھ کر پھینک نہ دیا اسے معلوم تھا کہ باطنی اور خصوصاً عبدالملک بن عطاش کالا جادو جانتے ہیں اور انہوں نے ضرور کچھ عمل کیا ہوگا اور یہ پیغام اپنی ہی کسی جاسوس نے باہر پھینکا ہوگا
محمد نے یہ پیغام اپنے سالاروں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ تمام لشکر میں یہ پیغام پہنچا دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ جونہی انہیں الو اڑتا ہوا اپنی طرف آتا نظر آئے اس پر تیر چلائیں اور اسے گرانے کی کوشش کریں اور وہ جب گر پڑے تو اس کو وہی جلا ڈالیں پیغام فوراً تمام لشکر تک پہنچ گیا اس پیغام کے بعد لشکر کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ شہر کی دیوار پر کھڑے تیراندازوں پر تیر چلاتے تھے اور بار بار اوپر بھی دیکھتے تھے وہ دن گزر گیا اور رات کو بھی سپاہی اوپر دیکھتے رہے پھر اگلا دن طلوع ہوا ایک طرف سے شور اٹھا تھا کہ وہ الو اڑا سب نے دیکھا کہ ایک الّو شہر میں سے اڑا اور ایک طرف سے سلجوقی لشکر کے اوپر گیا لشکر کے مجاہدین نے اس پر تیر چلائے اور اتنے تیر چلائے کہ اس کا بچ کر نکلنا ممکن نہیں تھا الّو گرا اور سب نے دیکھا کہ چار پانچ تیر اس کے جسم میں اتر گئے تھے
محمد کو اطلاع دی گئی تو وہ گھوڑا سرپٹ دوڑاتا وہاں پہنچا اس نے دیکھا کہ الّو کا منہ کالے دھاگے سے بندھا ہوا تھا محمد نے حکم دیا کہ ابھی گھاس وغیرہ لائی جائے اور آگ لگا دی جائے وہاں خشک گھاس کی کمی نہیں تھی مجاہدین گھاس لے آئے اور خشک ٹہنیاں بھی اٹھا لائیں اور الو کے اوپر ڈھیر کرکے آگ لگادی
کیا اللہ نے نور کی دعا سن لی تھی؟
کیا یہ معجزہ تھا؟
آخر یہ کون تھا جس نے دشمن کے گھر سے یہ پیغام پھینکا تھا؟
بہرحال یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ خطرہ ٹل گیا تھا
ادھر مزمل بن یونس شمونہ اور شافعیہ الموت کی طرف جارہے تھے الموت میں خطرہ شمونہ اور مزمل کے لئے تھا حسن بن صباح کے خاص آدمی ان دونوں کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا اور حسن بن صباح نے اس کا دماغ الٹا چلا گیا تھا اور وہ واپس مرو یہ ارادہ لے کر گیا تھا کہ سلطان ملک شاہ کو قتل کرے گا
شمونہ حسن بن صباح کی خاص چیز بنی رہی تھی اب شمونہ جوان نہیں تھی بلکہ جوانی کی آخری حد پر تھی پھر بھی حسن بن صباح اور اسکے آدمی اسے اچھی طرح پہچان سکتے تھے اس طرح مزمل اور شمونہ نے بہت بڑا خطرہ مول لے لیا تھا مزمل نے داڑھی پوری طرح بڑھا لی تھی اور شمونہ نقاب میں تھی شافعیہ کا چہرہ بھی نقاب میں تھا لیکن انہیں الموت پہنچ کر کہیں نا کہیں بے نقاب ہونا ہی تھا انہوں نے اپنے بچاؤ کی کچھ ترکیبیں سوچ لی تھیں لیکن جو خطرہ انہوں نے مول لیا تھا وہ کوئی معمولی خطرہ نہیں تھا پہلے دن کے سفر کے بعد انہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد ایک بڑی خوبصورت جگہ پر قیام کیا یہ ایک ندی تھی جس کے کنارے انہوں نے ڈیرہ ڈال دیا انہیں رات بھر وہی رکنا تھا گھنے درخت تھے خودرو پودے تھے اور سامنے ایک ٹیکری تھی وہ بھی سبزے سے ڈھکی ہوئی تھی انہوں نے گھوڑوں کو کھول دیا گھوڑوں نے پانی پیا اور پھر گھاس کھانے لگے
شام تاریک ہوگئی تو انہوں نے دو مشعلیں جلائیں اور زمین میں گاڑ دیں کھانا کھولا اور دستر خوان بچھا دیا چاروں کی نظریں دسترخوان پر لگی ہوئی تھیں مزمل نے ویسے ہی اوپر دیکھا تو اسے سات آٹھ قدم دور ایک آدمی کھڑا نظر آیا اس آدمی کے قدموں کی آہٹ نہیں سنائی دی تھی یوں معلوم ہوا جیسے زمین میں سے اوپر سے اٹھ آیا ہو یہ شک بھی ہوتا تھا کہ یہ کوئی جن ہے جو انسان کے روپ میں ظاہر ہوا ہے اس نے لمبی سفید عبا پہن رکھی تھی اور اس کے سر پر عمامہ تھا وہ جوان سال تھا اور اس کی داڑھی بڑی اچھی طرح تراشی ہوئی تھی وہ جس لباس میں تھا یہ اس علاقے کے معززین کا لباس تھا
او بھائی! مزمل نے اسے کہا دسترخوان تیار ہے آؤ ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ
میں مہمان نہیں اس آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا میں پہلے سے یہاں موجود ہوں تم لوگ ابھی ابھی پہنچے وہ اس لیے تم مہمان ہوں اور میں میزبان ہوں ہم دس آدمی ہیں جو اس ٹیکری کے دوسری طرف پڑاؤ کی ہوئے ہیں کھانا مجھے پیش کرنا چاہیے تھا
مزمل اور شمونہ اسے بڑی ہی غور سے دیکھ رہے تھے یہ دونوں ہلتی ہوئی جھاڑیوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے تھے
میں ابھی آیا اس سفید پوش نے کہا اور وہاں سے چل پڑا
یہ ٹیکری کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی مٹی کے اونچے ڈھیر کی مانند تھی وہ آدمی اس ٹیکری کے پیچھے چلا گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا اس کے واپس آنے تک مزمل اور اس کی پارٹی حیران و پریشان رہے اور یہ لوگ کچھ بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ شخص آیا کیوں تھا اور یہ چلا کیوں گیا ہے خطرہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ ایک بڑی ہی خوبصورت اور نوجوان لڑکی تھی اس آدمی نے کہا تھا کہ وہ دس آدمی ہیں دس آدمی ان دو آدمیوں پر آسانی سے قابو پا سکتے تھے اور شمونہ اور شافعیہ کو اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے
وہ آدمی آیا تو اس نے ہاتھوں میں کچھ اٹھا رکھا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی وہ ان لوگوں کے پاس آکر دوزانو ہوا اور جو کچھ اس نے ہاتھوں میں لے رکھا تھا وہ ان کے دستر خوان پر رکھ دیا وہ بھنے ہوئے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے وہ چمڑے کا ایک چھوٹا سا مشکیزہ بھی لایا تھا بڑا ہی خوبصورت مشکیزہ تھا اور یہ بھرا ہوا تھا پانی ہی ہوسکتا تھا
یہ مشکیزہ اپنے پاس رکھیں اس نے کہا یہ ایک خاص شربت ہے یہ پی کر دیکھیں تمہاری طبیعت ہشاش بشاس ہوجائے گی اور تھکن کا تو نام و نشان نہیں رہے گا میں تمہارے کھانے میں اور زیادہ مخل نہیں ہونا چاہتا
وہ اٹھا اور چلا گیا وہ ٹیکری کی اوٹ میں ہوا تو مزمل اٹھا اور دبے پاؤں تیز تیز چلتا ٹیکری پر چڑھ گیا اور ٹیکری کے اوپر جا کر لیٹ گیا مزمل نے دیکھا کہ ٹیکری سے بیس پچیس قدم دور تین مشعلیں جل رہی تھیں اسی کے لباس جیسے دس آدمی نیم دائرے میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے مزمل چھپتا چھپاتا پھونک کر قدم رکھتا ٹیکری سے اتر گیا وہ ان لوگوں کی باتیں سننا چاہتا تھا…
 

 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:44 }
مزمل نے دیکھا کہ ٹیکری سے بیس پچیس قدم دور تین مشعلیں جل رہی تھیں، اسی کے لباس جیسے دس آدمی نیم دائرے میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے مزمل چھپتا چھپاتا پھونک کر قدم رکھتا ٹیکری سے اتر گیا وہ ان لوگوں کی باتیں سننا چاہتا تھا
جب وہ نیچے اترا تو وہ کھڑا نہ رہا بلکہ بیٹھ کر آہستہ آہستہ سرک گیا وہ آدمی جو انہیں گوشت دے گیا تھا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا پہنچا تھا وہ ہنس بھی رہا تھا مزمل اٹھا اور جھک جھک کر ایک چوڑے تنے والے درخت تک جا پہنچا اور اس طرح چھپتا چھپاتا ان کے قریب چلا گیا جہاں سے وہ ان کی باتیں سن سکتا تھا
کمال کی چیز ہے بھائیو! اس آدمی نے کہا دوسری بھی بُری نہیں لیکن اس کی عمر شاید تیس برس سے زیادہ اوپر ہوگئی ہے پھر بھی اچھی چیز ہے
شیخ الجبل کی نظر کرم ہے بھائی! ایک نے کہا یہ اسی کا کرم ہے کہ ہمیں سفر میں اتنی خوبصورت چیز مل گئی ہے
اب سوچوں انہیں یہاں لائیں کیسے؟
ایک نے کہا
یہ اپنی چیزیں سمجھو بھائی! ایک اور بولا دو آدمی ہمارا کیا بگاڑ لیں گے،پہلے کھانا کھا لو اور انہیں بھی کھا لینے دو مشکیزہ بھی انہیں ہمارا یار دے آیا ہے تھوڑی دیر بعد انہیں اس دنیا کی ہوش بھی نہیں رہے گی
مزمل نے اور کوئی بات نہ سنی اس کا شک رفع ہو گیا تھا وہ جس طرح چھپتا چھپاتا وہاں تک پہنچا تھا اسی طرح دبے پاؤں جھکا جھکا ایک درخت سے دوسرے درخت تک اوٹ میں چلتا ٹیکری تک پہنچا اور ٹیکری کے اوپر جانے کی بجائے ایک طرف سے ٹیکری سے گھوما اور اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا
اس کی غیر حاضری میں شمونہ نے مشکیزہ کھولا تھا اور پھر اسے سونگھا تھا اس کا تو لڑکپن اور نوجوانی کا زیادہ حصہ ان باطنیوں کے ساتھ اور حسن بن صباح کے ساتھ گزرا تھا اس نے مشکیزہ سونگھا تو اٹھی اور مشکیزہ ندی میں انڈیل دیا
ہوشیار رہنا بھائی! مزمل نے کہا شیخ الجبل کے آدمی ہیں حسن بن صباح کے اب یہ دیکھنا ہے کہ حسن بن صباح کے یہاں ان کی کیا حیثیت ہے اور یہ کہاں جا رہے ہیں ہو سکتا ہے فدائی ہوں لیکن ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا
باطنی ہی معلوم ہوتے ہیں شمونہ نے کہا میں نے مشکیزہ کھول کر سونگھا اس میں حشیش ملا ہوا شربت تھا میں ندی میں انڈیل آئی ہوں اب یہ آدمی آئے تو انہیں ہی بتائیں گے کہ ہم نے مشکیزہ خالی کردیا ہے اور شربت واقعی اچھا تھا
ان کا گوشت بھی نہ کھاؤ بن یونس نے کہا اس میں بھی کچھ ملا ہوا ہوگا میں سمجھتا ہوں ان کی نظر شافعیہ اور شمونہ پر ہے ہم سے انہوں نے کیا لینا ہے
مزمل نے گوشت کے تمام ٹکڑے بیٹھے بیٹھے ندی میں پھینک دیئے اور اپنا کھانا کھا لیا اتنے میں ان دس آدمیوں میں سے تین آدمی آگئے مزمل اور بن یونس نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور وہ تینوں بیٹھ گئے
مشکیزہ والا شربت پی لیا ہے ؟
ایک نے پوچھا
پی لیا ہے مزمل نے جواب دیا اور مسکراتے ہوئے کہا اس شربت نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم اور تم آپس میں بھائی بھائی ہیں ایسے دو مشکیزے اور دے دو ہم وہ بھی پی جائیں گے مزمل نے ان کے ذرا فریب سرک کر رازدارانہ لہجے میں کہا ہم شاہ در سے آرہے ہیں اور شیخ الجبل کے پاس جا رہے ہیں ہم دونوں بھی فدائی ہیں اس لڑکی کو شیخ الجبل کی خدمت میں پیش کرنا ہے
تم لوگ محاصرے سے کس طرح نکل آئے ہو؟
ایک سفید پوش نے پوچھا
ہم محاصرے سے ایک روز پہلے نکل آئے تھے مزمل نے کہا محاصرے کی اطلاع تو ہمیں پہلے ہی مل چکی تھی شیخ الجبل امام حسن بن صباح کے پیرو مرشد عبدالملک بن عطاش نے ہمیں ایک پیغام دے کر امام کی طرف بھیجا
پیغام کیا ہے؟
ایک نے پوچھا
یہ جانتے ہوئے کہ تم ہمارے ہیں بھائی ہو یہ راز تمہیں نہیں بتاؤں گا مزمل نے کہا اور تم مجھ سے پوچھو گے بھی نہیں اپنا آپ تم پر اس لئے ظاہر کردیا کہ تمہارے متعلق یقین ہوگیا ہے کہ تم اپنی ہی آدمی ہو
کیا شاہ درکے فدائی حملہ آوروں کے سالاروں کو ختم نہیں کر سکتے؟
ایک اور سفید پوش بولا
کیوں نہیں کر سکتے تھے مزمل نے کہا لیکن ہمیں حکم ہی کچھ اور دیا گیا ہے اور ہم اس حکم کی تعمیل کے لیے جارہے ہیں اگر ہم دونوں کو حکم ملتا تو ہم برکیارق محمد اور سنجر کو اور انکے ایک دو سالاروں کو ختم کرچکے ہوتے
وہ ہم کرلیں گے ایک سفید پوش نے بے اختیار کہہ دیا دیکھتے ہیں محاصرہ کس طرح قائم رہتا ہے
یہ وہی دس فدائی تھے جو حسن بن صباح کے حکم سے بھیجے جارہے تھے اور ان کا کام یہ تھا کہ انہوں نے محمد اور اسکے سالاروں کو قتل کرنا تھا ان کے قتل کا طریقہ پہلے بتایا جاچکا ہے یہ ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا
یہ تینوں فدائی کچھ دیر باتیں کرکے اور اپنی اصلیت بے نقاب کرکے چلے گئے ان کے جانے کے بعد مزمل نے اپنے ساتھیوں کو بتایا آج رات سونا نہیں بتایا نہیں جا سکتا کہ آج رات کیا ہو جائے
اس رات بہت کچھ ہوگیا انہوں نے مشعلیں جلتی رکھیں انہیں جلائے رکھنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ درندے آگ کے قریب نہیں آتے اس کے علاوہ انہیں روشنی کی ضرورت تھی
آدھی رات سے کچھ پہلے تک سبھی جاگ رہے تھے وہ بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ لیٹے ہوئے تھے انہیں اس طرح محسوس ہوا جیسے کوئی ٹیکری کے قریب آرہا ہے وہ جنگل کا کوئی جانور اور درندہ بھی ہو سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس کو کچھ اور ہی تھا مزمل نے سرگوشی میں سب سے کہا کہ اس طرح آنکھیں بند کر لیں جیسے گہری نیند سوئے ہوئے ہوں
وہ دو آدمی تھے مزمل اور بن یونس نے آنکھیں ذرا سی کھول کر دیکھ رہے تھے انہوں نے لیٹنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ مزمل تھا اس کے قریب شافعیہ تھی پھر یونس تھا اور اس سے ذرا پرے شمونہ تھی دونوں آدمی دبے پاؤں ان کے بالکل قریب آگئے ایک مزمل کے اوپر جھکا اور دوسرا بن یونس کے اوپر دونوں نے آہستہ آہستہ خراٹے لینے شروع کر دیئے
پھر دونوں اکٹھے ہو کر شافعیہ پر جھوکے وہ رکوع کی پوزیشن میں چلے گئے تھے ایک نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی انہیں کوئی ہوش نہیں آرام سے اٹھاؤ اور وہ دونوں اپنے اپنے بازو شافعیہ کے نیچے کرکے اٹھانے لگے
پیشتر اس کے کہ ان دونوں کو پتہ چلتا کہ یہ کیا ہوا ہے ایک ہی پیٹھ میں مزمل کا اور دوسرے کی پیٹھ میں بن یونس کا خنجر اتر چکا تھا ان دونوں نے ان پر ایک ایک اور وار کیا اور پھر دونوں کو گھسیٹ کر ندی میں پھینک دیا ندی تو ایسی گہری نہیں تھی لیکن پہاڑی ندی ہونے کی وجہ سے اس کا بہاؤ بڑا تیز تھا ندی چند قدم ہی دور تھی مزمل اور بن یونس بڑے اطمینان سے آکر پھر اسی طرح لیٹ گئے
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ تین اور سفید پوش آگئے انہوں نے بھی وہی کاروائی کی جو پہلے ان کے دو ساتھی کر چکے تھے ان میں سے بھی ایک نے سرگوشی کی یہ ہوش میں معلوم نہیں ہوتے دوسرے نے سرگوشی میں کہا کہ معلوم نہیں وہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں پھر یہ بھی شافعیہ کو اٹھانے کے لئے جھکے اور پھر مزمل اور بن یونس کے خنجر حرکت میں آگئے وہ تینوں فدائی تھے جو زندگی اور موت کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کے ساتھ جو ہوا وہ ان کے لیے غیر متوقع تھا اگر انہیں معلوم ہوتا یا ذرا سا بھی شک ہوتا تو وہ اپنے ہتھیار ہاتھوں میں تیار رکھتے لیکن ان پر جو حملہ ہوا وہ اچانک تھا
مزمل بھائی! بن یونس نے کہا اب باقی جو پانچ رہ گئے ہیں ان کا انتظار یہاں نہ کرو چلو ان لڑکیوں کو بھی تلوار یا خنجر دو پہلے وہ آئے تھے اب ہم چلتے ہیں
پیشتر اس کے کہ باقی پانچ یا ان میں سے دو تین آتے ان چاروں نے جلدی جلدی سے ایک اسکیم تیار کرلی اور سامنے والی ٹیکری کے اوپر چلے گئے دونوں لڑکیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھی مزمل اور بن یونس خنجروں سے مسلح تھے
مزمل کی قیادت میں اس کے ساتھی چھپتےچھپاتے آگے بڑھتے گئے اور اتنے آگے چلے گئے جہاں سے وہ ان کی باتیں سن سکتے تھے وہ اپنے ساتھیوں کی باتیں کر رہے تھے
ایک نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے ہمارے اپنے بھائی ہمیں ایک لڑکی کے پیچھے دھوکا دے رہے ہیں
سب چلو اور ان کو دیکھتے ہیں ایک نے کہا اگر وہ کوئی گڑبڑ کر رہے ہوئے تو انہیں یہیں ختم کر دیں گے
پانچوں چل پڑے مزمل اور اس کے ساتھی وہیں جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گئے وہ پانچوں ان کے قریب سے گزرے مزمل کے اشارے پر سب نے ان پر خنجروں اور تلواروں سے حملہ کردیا مزمل کی بدقسمتی کی اس کا پاؤں کسی جھاڑی میں یا درخت کی جڑ کے ساتھ اٹک گیا اور وہ منہ کے بل گرا اس کے ساتھیوں نے حملہ بھرپور کیا تھا لیکن ان پانچ سفید پوشوں میں سے ایک الگ ہوگیا اور وہ مزمل کے قریب اس حالت میں آیا کہ مزمل اٹھ رہا تھا اس سفید پوش فدائی نے بڑی تیزی سے اپنا خنجر نکالا اور مزمل پر وار کیا مزمل نے وار تو بچا لیا لیکن خنجر اسکے دائیں کندھے میں اتر گیا اور یوں لگا جیسے ہنسلی کٹ گئی ہو مزمل نے جوابی وار ایسا کیا کہ فدائی پاؤں پر کھڑا نہ رہ سکا مزمل نے بڑی تیزی سے دو تین خنجر مارے اور اسے گرا لیا اس کے ساتھیوں نے باقی چار کو گرا لیا اور ان سب پر اتنے وار کئے گئے کہ ان کا زندہ رہنا ممکن ہی نہ رہا
انہوں نے بہت بڑا اور خطرناک شکار مارا تھا لیکن مزمل ایسا زخمی ہوا کہ اس کا خون امڈ امڈ کر باہر آ رہا تھا وہ اب آگے سفر کرنے کے قابل نہیں رہا تھا بن یونس نے اسکے زخم میں کپڑا ٹھوس کر اوپر ایک اور کپڑا باندھ دیا اور سب نے فیصلہ کیا کہ یہیں سے اور اسی وقت واپسی کا سفر اختیار کیا جائے تاکہ دوپہر تک وسم کوہ پہنچ جائیں مزمل کا اتنا زیادہ خون ضائع نہیں ہونا چاہیے تھا انھوں نے اسی وقت رخت سفر باندھا اور واپسی کے سفر کو روانہ ہو گئے انہوں نے ان دس فدائیوں کا سامان دیکھا ہی نہیں نہ ہی اسے یہ ہاتھ لگانا چاہتے تھے البتہ ان کے گھوڑے اور ہتھیار اپنے ساتھ لے گئے یہ ان کا مال غنیمت تھا انہیں غالبا یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ انہوں نے ان دس فدائیوں کو قتل کرکے شاہ در کے محاصرے میں کیسی جان ڈال دی ہے یہ دس فدائی وہاں پہنچ جاتے تو محمد بھی نہ ہوتا اور وہاں کے سالار بھی مارے جاتے پھر محاصرے نے بری طرح ناکام ہونا تھا
محاصرہ بڑا ہی سرگرم ہوگیا تھا لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی چونکہ مرو کا لشکر انتقام سے پاگل ہوا جارہا تھا اس لیے سالاروں کو یہ مشکل پیش نہیں آئی تھی کہ وہ انہیں آگے کس طرح دھکیلیں بلکہ مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ یہ لشکر بار بار دیوار کے قریب یا دروازوں کی طرف اٹھ دوڑتا تھا اور اسے روکنا پڑتا تھا وہاں شجاعت اور بے خوفی کی تو ضرورت یقیناً تھی لیکن عقل کے بغیر شجاعت بڑی ہی نقصان دہ تھی
یہاں تک دلیرانہ کاروائی کی گئی کہ ایک رات دیوار کے قریب جاکر کمند اوپر پھینکی گئی کمند چھوٹی دو برجوں کے درمیان اٹک گئی اور دو تین مجاہدین رسّہ پکڑ کر اوپر جانے لگے دیوار کے اوپر سے تیر آتے تھے اور ان تیر اندازوں کو دور رکھنے کے لئے سلجوقی تیر اندازوں نے بے پناہ تیر پھینکنے شروع کردیئے مجاہدین رسّہ چڑھتے گئے لیکن کچھ دور سے دیوار والے تیر اندازوں نے رسّہ چڑھتے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کردیے اور برچھیاں بھی پھینکی گئیں اور ان پر جلتی ہوئی مشعلیں بھی پھینکیں مجاہدین زخمی بھی ہوئے اور دو کے کپڑوں کو آگ لگ گئی مگر اس آگ کے باوجود اوپر ہی جاتے رہتے تو رسّے کو بھی آگ لگ سکتی تھی بہرحال اوپر جانا ممکن نہ رہا اور یوں کچھ مجاہدین شدید زخمی ہو کر رسّی سے اتر آئے
شہر کے دو اطراف پہاڑی تھی اس طرف بھی تیر اندازوں کو لے جایا گیا لیکن وہاں مشکل یہ تھی کہ پہاڑی کے دامن اور شہر کی دیوار کے درمیان فاصلہ بہت تھوڑا تھا مجاہدین پہاڑی پر چڑھتے تھے تو شہر پناہ کے تیر انداز ان پر تیروں کی بارش برسا دیتے تھے
دروازے توڑنے کی بھی کوشش کی گئی مجاہدین کلہاڑوں سے توڑنے کے لئے دروازوں تک پہنچ گئے لیکن آدھے ہی زندہ واپس آ سکے دروازہ توڑنے کا ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ درختوں کے بہت وزنی ٹہن کاٹے گئے ان سے شاخیں وغیرہ اتار دی گئیں اور بےشمار مجاہدین نے ایک ٹہن کو کندھوں پر اٹھایا اور دوڑتے ہوئے ایک دروازے تک گئے اور اس ٹہن کا اگلا سرا دروازے پر مارا دروازے اتنے مضبوط تھے کہ نہ ٹوٹ سکے توڑے تو جاسکتے تھے لیکن اوپر سے برچھیاں اور تیر آتے تھے
آخر منجنیقیں استعمال کی گئیں یہ سب چھوٹی منجنیقیں تھیں جن میں زیادہ وزنی پتھر نہیں ڈالے جاسکتے تھے بہرحال ہر منجنیق ایک من وزنی پتھر پھینک سکتی تھی
شہر پناہ کے ارد گرد گھوم پھر کر دیکھا گیا شاید کہیں سے ذرا سی دیوار کمزور ہو ایسی دو تین جگہیں دیکھی گئیں اور منجنیقوں سے وہاں پتھر مارے گئے لیکن دیوار اس قدر چوڑی تھی کہ اس میں شگاف ڈالنا ممکن نہیں تھا
ادھر قلعہ الموت میں حسن بن صاح پیچ و تاب کھا رہا تھا وہ صبح و شام اس خبر کا منتظر رہتا تھا کہ اس کے ان فدائیوں نے جنہیں اس نے خود بھیجا تھا محمد اور اسکے تمام سالاروں کو قتل کردیا ہے اور خودکشی کرلی ہے لیکن ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا اور اسے ایسی کوئی خبر نہیں مل رہی تھی اسے شاہ در کے اندر سے خبر نہیں جا سکتی تھی کیونکہ شہر محاصرے میں تھا اسے باہر کے جاسوس خبریں پہنچاتے تھے وہ یہ جواز تو قبول کرتا ہی نہیں تھا کہ قتل کا موقعہ نہیں ملا
اس نے آخر اپنے جاسوس بھیجے اور کہا کہ ان دس بھائیوں کا سراغ لگاؤ وہ کہاں چلے گئے ہیں انہیں پتا نہ چلے درپردہ وہ یہ معلوم کرو کہ انہوں نے ابھی تک اپنا کام کیوں نہیں کیا
اس کے جاسوس قلعہ الموت سے شاہ در کے مضافات میں پہنچ گئے انہوں نے بہت تلاش کی عمرو بھی گئے اور رے بھی گئے لیکن وہ دس فدائی انہیں کہیں نظر نہ آئے آخر کسی اور نے جنگل میں سے گزرتے بکھری ہوئی ہڈیاں دیکھیں اور سفید عمامے اور پھٹی ہوئی عبائیں دیکھیں کچھ اور نشانیاں بھی وہاں موجود تھیں کھوپڑیاں دیکھیں تو یہ پوری نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے دس فدائین ہی ہو سکتے تھے جن کی لاشیں درندوں اور گدھوں نے کھا لی تھی کچھ اور نشانیاں مل گئی اور حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی کہ فدائی اپنے ہدف تک پہنچ ہی نہیں سکے تھے
تاریخ میں شہادت ملتی ہے کہ ضعیف العمر عبدالملک بن عطاش کسی کسی وقت دیوار پر جا کھڑا ہوتا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بلند آواز سے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالتا رہتا اور سلجوقی لشکر کی طرف پھونک مارتا رہتا تھا معلوم ہوتا ہے اس کا سفلی عمل یا اسکا جو کوئی عمل اس کے ہاتھ میں تھا ناکام ہوچکا تھا وہ یہ فقرہ بار بار کہا کرتا دشمن آنکھوں سے اندھا نہ ہوا تو عقل سے اندھا ہو جائے گا
محاصرے کو تین چار مہینے گزر گئے تو شاہ در والوں نے ایک بڑی دلیرانہ کاروائی شروع کر دی رات کے وقت شہر کا کوئی ایک دروازہ کھلتا اور اس میں سے دو سو یا تین سو آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح بڑی تیزی سے باہر نکلتے اور بالکل سامنے سلجوقی لشکر پر ٹوٹ پڑتے جس قدر نقصان کر سکتے کرکے اسی تیزی سے واپس چلے جاتے تھے ان کا اپنا جانی نقصان تو ہوتا تھا لیکن سلجوقی لشکر کا جانی نقصان کئی گناہ زیادہ ہوتا تھا بے شمار سلجوقی شدید زخمی بھی ہوجاتے تھے تیسری چوتھی رات شاہ در کے دروازے سے ایسا ہی حملہ اچانک ہوتا اور پھر واپس چلا جاتا تھا ان کا انداز بگولے جیسا ہوتا تھا یہ دلیرانہ کاروائی ڈیڑھ دو مہینے چلتی رہی آخر محمد نے دیکھا کہ محاصرہ طول پکڑ رہا ہے اور ذرا سی بھی کامیابی نہیں ہو رہی تو اس نے حکم دیا کی منجنقیں شہر کے اردگرد لگا کر کم وزنی پتھر شہر کے اندر پھینکے جائیں اور اس کے ساتھ ہی فلیتے والے تیر آگ لگا کر مسلسل اندر پھینکے جاتے رہے
دو تین مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ شہر سے جو آدمی حملہ کرنے کے لئے باہر آتے تھے ان میں سے بعض اتنے زخمی ہوتے تھے کہ واپس نہیں جا سکتے تھے ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ شہری محاصرے سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ محاصرہ جلدی ٹوٹ جائے یا شہر محاصرہ کرنے والوں کے حوالے کردیا جائے شہری ضروریات زندگی سے محروم ہوگئے تھے اور زیادہ نقصان تاجروں اور دکانداروں کا ہو رہا تھا جنہیں باہر سے مال مل ہی نہیں رہا تھا مورخوں نے لکھا ہے یہ تھی وجہ کہ محمد نے شہریوں کو اور زیادہ پریشان کرنے کے لیے شہر پر پتھر اور فلیتے والے آتشی تیر برسانے شروع کر دیئے محاصرے کو آٹھ نو مہینے ہو چلے تھے
ایک صبح شہر کا ایک دروازہ کھلا اور ایک آدمی باہر آیا جس کے ہاتھ میں سفید جھنڈا تھا باہر آتے ہی اس کے پیچھے دروازہ پھر بند ہو گیا یہ آدمی سلجوقی لشکر کے قریب آگیا اور اس نے بلند آواز سے کہا کہ وہ سلجوقی سلطان کے لیے ایک پیغام لایا ہے
ایک سالار کو جو وہاں کہیں قریب ہی تھا اطلاع دی گئی سالار آیا اور وہ اس آدمی کو سلطان محمد کے پاس لے گیا یہ پیغام قلعے کے حاکم احمد بن عبدالملک کی طرف سے تھا اس نے لکھا تھا کہ ہم لوگ تمہارے ایک اللہ اور ایک رسول اور ایک قرآن کو مانتے ہیں اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ محمد الرسول اللہﷺ آخری رسول ہیں اس کے بعد ہم شریعت کی پوری پابندی کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں آزادی سے زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جا رہا ہمارا اختلاف صرف امامت پر ہے آپ ہمارے امام کو نہیں مانتے تو یہ اتنی بڑی بات نہیں کیونکہ امام نبی یا رسول نہیں ہوتا پھر ہم اطاعت قبول کرتے ہیں تو کیا شریعت میں جائز ہے کہ ایک ہی مذہب کا ایک فرقہ اطاعت قبول کرلے تو اسے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور اسے جینے کے حق سے محروم رکھا جائے؟
چونکہ اس پیغام میں اطاعت کا ذکر بھی تھا اس لئے محمد نے اپنا رویہ کچھ نرم اور صلح جُو کرلیا لیکن اس میں چونکہ مذہب کا ذکر بھی تھا اس لئے محمد نے بہتر سمجھا کہ علماء سے فتویٰ لے لیا جائے محمد نے پیغام کا جواب دیا کہ وہ اپنے علماء سنت والجماعت سے فتوی لے کر فیصلہ کرے گا
اس موقع پر علمائے دین نے اپنا وہی کردار پیش کیا جو آج تک چلا آرہا ہے ابوالقاسم رفیق دلاوری نے لکھا ہے کہ علماء اس مسئلے پر متحد اور متفق نہ ہوئے بعض علماء نے تو یہ فتوی دے دیا کہ حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے اس لیے اس پر تشدد جائز نہیں بعض علماء نے کوئی بھی فتوی دینے سے معذوری کا اظہار کردیا اس وقت ایک بڑے ہی مشہور عالم دین جن کا نام شیخ ابوالحسن علی بن عبدالرحمن تھا انہوں نے فتوی دیا کہ باطنی اسلام کا فرقہ نہیں بلکہ ان کے عقائد خلاف اسلام ہیں اور ان کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا قتل واجب ہے اور حالات و واقعات گواہ ہیں کہ باطنی قتل و غارت گری میں یقین رکھتے ہیں اور ان میں ابلیسیت کا عنصر غالب ہے انہوں نے فتوے میں یہ بھی لکھا کہ باطنی اپنے امام کا حکم مانتے ہیں اور شریعت کو الگ رکھتے ہے یہ فرقہ ان چیزوں کو بھی حلال قرار دیتا ہے جو شریعت اسلامی کی رو سے حرام قرار دی جا چکی ہے لہذا اس فرقے کو بخشنا اسلام کے حق میں نہیں
محمد نے یہ فتویٰ شاہ در احمد بن عبدالملک کی طرف بھیج دیا شہر کے اندر سے ایک اور پیغام آیا جس میں لکھا تھا کہ حاکم قلعہ درخواست کرتا ہے کہ سلجوقی سلطان اپنے علمائے دین کو شہر کے اندر بھیجے تاکہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ بحث مباحثہ ہو سکے اور پھر یہ معاملہ کسی نتیجے پر پہنچایا جائے
اس وقت اصفہان کے قاضی ایک عالم دین قاضی ابوالاعلاء صاعد بن یحییٰ تھے جو شیخ الحنفیہ تھے محمد نے انہیں شاہ در بلوایا قاضی بن یحییٰ آئے تو محمد نے انھیں بتایا کہ انھیں شادر کے اندر حاکم شہر کے پاس بھیجا جا رہا ہے متعدد مورخوں نے لکھا ہے کہ اصفہان کے اس قاضی کو شاہ در احمد بن عبدالملک کے مطالبے پر بھیجا گیا تھا کہ اس نے جو مسئلہ پیش کیا تھا اس مسئلہ پر شاہ در کے علماء سے بحث کرنی تھی تاکہ کسی نتیجے پر یا کسی فیصلے پر پہنچا جائے
قاضی صاعد بن یحییٰ چار محافظوں کے ساتھ شہر کے اندر چلے گئے توقع تو یہ تھی کہ ان کا سارا دن شہر میں ہی گزر جائے گا کیونکہ مسئلہ بڑا نازک اور پیچیدہ تھا جس پر بحث اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتی تھی لیکن قاضی موصوف جلدی واپس آگئے اور سلطان محمد سے ملے
سلطان محترم! قاضی بن یحییٰ نے کہا اپنا وقت ضائع نہ کریں اور یہ شہر کسی نہ کسی طرح فتح کرنے کی کوشش کریں یہ باطنی انتہائی عیار لوگ ہیں حاکم شہر کے چہرے پر میں نے ابلیسیت اور عیاری کا بڑا نمایاں تاثر دیکھا ہے انہیں کسی بھی شرعی مسئلے پر بات نہیں کرنی تھی اور نہ ہی یہ کوئی وضاحت چاہتے تھے مجھ سے ان کے علماء نے بحث تو کی لیکن صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ کچھ اور چاہتے ہیں میں نے یہ بھی اپنے دماغ اور تجربے سے معلوم کر لیا اس شہر کا حاکم اور حاکم کا بوڑھا باپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی طرح یہاں سے ٹل جائیں یا انہیں اتنا وقت مل جائے کہ یہ شہر کو بچانے کی مزید تیاریاں کرلیں یہ لوگ صرف اوقت اور مہلت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں
محمد کے ساتھ اسکے سالار بھی تھے سالاروں نے قاضی صاعد بن یحییٰ کی تائید کی اور کہا کہ ان باطنیوں کو مزید مہلت نہ دی جائے
قابل احترام قاضی اصفہان! محمد نے کہا میں آپ کے سامنے طفل مکتب ہوں میرے دل میں اسلام اور شریعت کا احترام ہے میں ڈرتا ہوں کہ میرا کوئی قدم اور کوئی کاروائی شریعت کے خلاف نہ ہو جائے آپ یہ بتائیں کہ انہوں نے یہ جو مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ باطنی مسلمان ہیں وغیرہ یہ کہاں تک صحیح ہے اور کیا ہمیں شریعت اجازت دیتی ہے کہ انہیں ختم کیا جائے یا بخش دیا جائے؟
کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا قاضی بن یحییٰ نے دوٹوک لہجے میں کہا یہ باطنی ابلیس کے پجاری ہیں انہیں بخشنا غیر اسلامی فعل ہے ان لوگوں کا دوسرا گناہ یہ ہے کہ یہ شریعت کے قائم کئے ہوئے اصولوں کو توڑ موڑ کر قرآن کی خلاف ورزی اور توہین کر رہے ہیں آپ ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں
ایک اور بات بتائیں محمد نے پوچھا کیا آپ نے یہ دیکھنے کی کوشش کی تھی کہ اندر شہر کا کیا حال ہے اور شہریوں کا ردعمل اور ان کی حالت کیا ہے؟
ہاں سلطان! قاضی موصوف نے کہا یہ تو مجھے صاف طور پر پتہ چل گیا ہے کہ شہر کی حالت بہت بری ہے اور شہری شہر کے حاکم کے پیچھے بری طرح پڑے ہوئے ہیں کہ محاصرے کسی نہ کسی طرح ختم کروایا جائے یہ بات حاکم شہر نے خود بھی کہی ہے اس نے انداز تو اپنا اختیار کیا تھا لیکن میں اصل بات سمجھ گیا اس نے کہا تھا کہ شہر میں گھوم پھر کر دیکھیں آپ لوگوں نے اتنی سنگ باری کی ہے کہ کئی مکان ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اور لوگوں نے گھروں میں بیٹھنا اور سونا چھوڑ دیا ہے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آتشی تیروں نے کئی مکان جلا ڈالے ہیں اس نے یہ بھی کہا کہ امن وامان ختم ہو چکا ہے اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچ رہی ہے میں نے شہر کی یہ حالت اپنی آنکھوں دیکھی ہے حاکم شہر وقت اور مہلت چاہتا ہے کہ اس کے شہری ذرا سانس لے لیں اور ان کا تعاون حاصل کرلیا جائے اس کے ساتھ ہی حاکم شہر آپ کو دھوکہ دے کر باہر سے رسد منگوانا چاہتا ہے آپ محاصرے میں شدت پیدا کردیں فتح ان شاءاللہ آپ کی ہوگی
محمد نے قاضی اصفہان کو پورے احترام سے رخصت کیا اور اپنے کچھ گھوڑسوار محافظ ساتھ بھیجے
محمد نے محاصرے میں یوں شدت پیدا کی کہ منجینیقوں سے سنگ باری اور تیز کردی اور فلیتوں والے تیر اور زیادہ پھینکنے شروع کر دیئے اس کے ساتھ ہی تقریباً ہر رات دروازوں پر حملے شروع کردیئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہریوں کے حوصلے بالکل ہی پست ہوگئے اور دیکھا گیا کہ شہرپناہ پر تیراندازوں کی تعداد آدھی بھی نہیں رہ گئی تھی ان میں تو کچھ مر گئے اور کچھ زخمی ہوئے تھے لیکن بہت سے اچھے بھلے تیرانداز بھی منہ موڑ گئے تھے وہ اب اس ذہنی کیفیت تک پہنچ گئے تھے جہاں جذبے ختم ہوجاتے ہیں اور ہتھیار ڈالنے کا ارادہ پیدا ہوجاتا ہے مختصر بات یہ کہ لڑنے والے شہری اب یہ چاہتے تھے کہ وہ مزاحمت کم کردے اور سلجوقی لشکر شہر لے لیں تاکہ یہ قیامت جو ان پر دن رات گرتی رہتی ہے ختم ہو جائے
چند ہی دنوں بعد شہر کا ایک دروازہ کھلا اور ایک آدمی جو گھوڑے پر سوار تھا ہاتھ میں سفید جھنڈا لیے باہر آیا اور دروازہ پھر بند ہو گیا یہ سوار کوئی پیغام لایا تھا اسے سلطان کے پاس لے گئے
حاکم شہر نے اس پیغام میں استدعا کی تھی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اس شہر سے اپنی آبادی کے ساتھ نکل جائے اور اسے دوسری اجازت یہ دی جائے کہ وہ قلعہ خلجان میں چلا جائے آبادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ شاہ در کی تمام تر آبادی وہاں سے چلی جانا چاہتی تھی بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو لوگ یہاں سے جانا چاہتے ہیں انہیں جانے دیا جائے
خالنجان اصفہان سے تھوڑی ہی دور ایک قلعہ تھا کسی وقت باطنیوں نے اس قلعے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے اپنا ایک اور اڈا بنانے کی کوشش کی تھی لیکن سلطان ملک شاہ مرحوم نے اس قلعے پر اچانک ایسی یلغار کی کے قلعے پر قبضہ کرلیا اور اسی باطنی کو زندہ رہنے ملا جو بھاگ نکلا تھا اب وہ قلعہ کسی کے بھی قبضے میں نہیں تھا
یہاں آیا یقیناً عبدالملک بن عطاش یاد آتا ہے اس نے کہا تھا کہ سلجوقی سلطان اور سالار اگر آنکھوں سے اندھے نہ ہوئے تو عقل سے اندھے ہو جائیں گے وہ مسلسل اپنا عمل کرتا رہا تھا اور شہر پناہ پہ کھڑے ہو کر اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کچھ بڑبڑاتا اور باہر والے لوگوں پر پھونکیں مارتا رہتا تھا کچھ ایسی شہادت ملتی ہے کہ اس کے عمل نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھایا تھا
محمد دیکھ چکا تھا کہ حاکم شہر نے مذہب کے نام پر کس قسم کی عیاری اور مکاری کا مظاہرہ کیا ہے اسے اصفہان کے قاضی نے بھی بتایا تھا کہ یہ باطنی صرف عیاری کر رہے ہیں کہ انہیں کچھ مہلت اور وقت مل جائے پھر بھی محمد کا رویہ یہ تھا کہ شاہ در کے حاکم نے یہ نیا استدعا باہر بھیجی کہ اسے اس کی بجائے دوسرا قلعہ دے دیا جائے تو محمد نے یہ استدعا قبول کرلی اور شہر پر سنگباری اور آتشی تیر اندازی رکوادی تھی اور پھر اس پیغام کا جواب دیا کہ ایک مہینے کی مہلت دی جاتی ہے اس عرصے میں جس کسی نے اس شہر سے نکلنا ہے نکل جائے
شاہ در کے باطنیوں نے اپنی ابلیسی ذہنیت کا ایک اور مظاہرہ کر دیا وہ اس طرح کے سلجوقی لشکر کے کچھ لوگ شہر میں بھیج دیئے گئے اور ان کے ساتھ ایک سالار کو بھی بھیج دیا گیا ان کا کام یہ تھا کہ جو لوگ شاہ در سے نکل رہے ہیں انہیں جلدی نکالا جائے اور کوئی مزید گڑبڑ نہ ہو لیکن سلجوقی لشکر کا ایک عہدیدار کسی گلی میں جا رہا تھا تو تین چار باطنیوں نے اس پر حملہ کر دیا یہ اس کی اپنی شجاعت اور قسمت تھی کہ وہ صرف زخمی ہوا مرا نہیں لیکن باطنیوں نے اپنی نیت ظاہر کردی
سلطان محمد کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اس نے اپنے آدمیوں کو شہر سے باہر نکال کر پھر شہر پر سنگ باری شروع کردی اور آگ والے تیر پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں چھوڑنا شروع کر دیے شہرمیں چیخ وپکار بلند ہونے لگیں اور نفسانفسی کا عالم پیدا ہوگیا
اب حاکم شہر احمد بن عبدالملک خود اپنے چند ایک محافظوں کے ساتھ شہر کے ایک دروازے سے باہر آیا ایک محافظ نے سفید جھنڈا اٹھا رکھا تھا وہ سلطان محمد سے ملنا چاہتا تھا اسے محمد تک پہنچادیا گیا
اس نے محمد سے معافی مانگی اور کہا کہ یہ چند ایک اشخاص تھے جنہوں نے سلجوقی عہدیدار پر حملہ کیا تھا اور اس میں حاکم شہر کی رضا شامل نہیں تھی محمّد نے پہلے تو اس کی معافی قبول نہ کی اور کہا کہ اب وہ بزورشمشیر یہ شہر لے گا اور اس کے بعد شہریوں سے اور حاکم شہر اور اس کے خاندان سے پورا پورا انتقام لے گا لیکن حاکم شہر گڑ گڑا کر معافی مانگ رہا تھا محمد نے صاف کہہ دیا کہ اسے قلعہ خالنجان نہیں دیا جائے گا
احمد بن عبدالملک رو پڑا اور اس نے کہا کہ خالنجان اسے نہ دیا جائے اس کی بجائے ایک اور چھوٹا سا قلعہ جس کا نام ناظر و طبس تھا اسے دے دیا جائے اور اس کے بعد وہ امن و امان سے رہے گا
سلطان محمد کے دل میں رحم کی موج اٹھی اور اس نے باطنیوں کی یہ شرط اور درخواست قبول کرلی اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اس قلعے میں منتقل ہوجائیں اس کے ساتھ ہی سلطان محمد نے حکم دیا کہ شاہ در کی شہر پناہ اسی طرح رہنے دی جائے لیکن قلعہ مسمار کردیا جائے سلجوقی لشکر نے اسی وقت قلعے کو مسمار کرنا شروع کردیا
شاہ در پر سلجوقی سلطان کا قبضہ تو ہوگیا تھا لیکن باطنی سانپ اور بچھو تھے جو ڈسنے سے باز نہیں آسکتے تھے اس شہر کا قلعہ بہت ہی بڑا اور پیچ در پیچ تھا اس میں چھوٹی برجیاں اور اس سے بڑے برج اور اس سے بڑے برج بھی تھے کسی نے دیکھ لیا کہ ایک بڑے برج میں کوئی چھپا بیٹھا ہے ایک سالار کچھ مجاہدین کو ساتھ لے کر دیکھنے گیا دیکھا وہاں عبدالملک بن عطاش کا چھوٹا بھائی احمد بن عطاش چھپا بیٹھا تھا اسے پکڑ لیا گیا
یہ بہت بڑا برج تھا جس کے کئی حصے تھے اس کے کچھ کمرے بالائی منزل میں تھے محمد کو اطلاع ملی تو اس نے کہا کہ صرف اس برج کی ہی نہیں بلکہ ایسے تمام برجوں کی تلاشی لی جائے اس برج کی تلاشی لی گئی تو تاریخ کے مطابق 80 اور باطنی برآمد ہوئے یہ سب خنجروں اور چھوٹی تلواروں سے مسلح تھے اور چند ایک کے پاس کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی تیر کشیں بھی تھیں ان سب کو سلطان کے سامنے لے جایا گیا تب معلوم ہوا کہ احمد بن عطاش کا ایک جوان سال بیٹا بھی اس کے ساتھ تھا
ابن عطاش! محمد نے احمد بن عطاش سے پوچھا تو یہاں چھپا کیا کر رہا تھا؟
اگر سچ بولو گے تو شاید پہلے کی طرح اب بھی میرے دل میں رحم کی لہر اٹھائے گی اگر جھوٹ بولنے کا ارادہ ہے تو میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ تجھے کیسی کیسی اذیتیں دے دے کر ماروں گا
کیا سلطان اتنی سی بھی بات نہیں سمجھ سکتا احمد بن عطاش نے بڑی دلیری سے جواب دیا میں تمہاری پیٹھ میں خنجر اتارنے کے لئے یہاں رک گیا تھا ہم اتنی جلدی شکست تسلیم نہیں کیا کرتے
میں نے تیری ایک پیشنگوئی سنی تھی محمد نے کہا تو نے پیشن گوئی کی تھی کہ اصفہان میں تیری شوکت اور عظمت کے نقارے بجے گے اب بتا کہاں گئی تیری وہ عظمت؟
میری پیشن گوئی غلط نہیں نکلی احمد بن عطاش نے کہا سلطان اب بھی جاکر اصفہان میں دیکھ لے کہ لوگ میرا نام ایک پیرومرشد کی طرح لیتے ہیں میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اصفہان پر میری حکومت ہوگی میری پیشن گوئی کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں پر میری حکومت ہوگی اور میں اصفہان میں جدھر سے بھی گزرونگا لوگ میرے آگے سجدے کریں گے
تاریخ میں لکھا ہے کہ سلطان محمد کی ہنسی نکل گئی
میں تجھے اصفہان کی گلیوں میں ہی پھیرا رہا ہوں محمد نے کہا اور اپنے پاس کھڑے دو سالاروں کو حکم دیا اس شخص کو اور اس کے بیٹے کو پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اور ہاتھ باندھ کر اور ان دونوں کے منہ کالے کرکے اصفہان کی تمام گلیوں میں گھماؤ اور سرعام ان دونوں کے سر کاٹ کر بغداد خلیفہ کے حضور پیش کر آؤ
اصفہان وہاں سے قریب ہی تھا اسی وقت احمد بن عطاش اور اس کے جواں سال بیٹے کے پاؤں میں اور ہاتھوں میں زنجیریں ڈال دی گئیں اور وہاں ان کے منہ کالے کردیئے گئے
سلطان محمد کی یہ کچہری کسی کمرے میں نہیں بلکہ باہر ایک درخت کے نیچے لگی ہوئی تھی ایک تو وہاں وہ 80 باطنی کھڑے تھے جنہیں برجوں میں سے پکڑا گیا تھا اور بہت سے شہری اور سلجوقی لشکر کے کچھ مجاہدین بھی وہاں موجود تھے جب احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے کو زنجیریں ڈال کر ان کے منہ کالے کر دیے گئے تو تماشائیوں کے ہجوم میں سے ایک نوجوان لڑکی نکلی اور دوڑ کر احمد بن عطاش کے سامنے آن کھڑی ہوئی وہ اس کی بیوی نور تھی جس کا پیچھے ذکر آچکا ہے
آئے سیاہ رُو انسان! نور نے بڑی بلند آواز میں کہا تو نے مجھے عبادت سے اٹھایا تھا اور میں نے تجھے کہا تھا کہ تو ذلیل و خوار ہو کر مرے گا اب بتا اللہ تیرا ہے کہ میرا
جس وقت لوگ شاہ در سے نکل رہے تھے اس وقت احمد بن عطاش کا شاہی خاندان بھی شہر سے جا رہا تھا نور کو موقعہ ملا تو وہ تیز دوڑ پڑی اور سلطان محمد تک آن پہنچی اس کے ساتھ اس کا باپ بھی تھا جو عبدالملک بن عطاش کا قابل اعتماد ملازم بن گیا تھا باپ نے محمد سے اپنا تعارف کرایا اور اپنی بیٹی کے متعلق بھی بتایا کہ اسے قافلے سے اغوا کرکے احمد بن عطاش نے اپنی بیوی بنا لیا تھا اس باپ نے ہی عبدالملک بن عطاش کے متعلق ساری باتیں بتائی تھی کہ کس طرح اس نے الّو کے ذریعے کالا جادو کیا تھا اور اس کے بعد اپنا جادو چلاتا ہی رہا تھا نور کے باپ نے محمد کو بتایا کہ چمڑے پر لکھا ہوا پیغام تیر کے ذریعے اسی نے باہر پھینکا تھا اس باپ نے اور بھی بہت سی باتیں بتائیں
محمد نے حکم دیا کے نور اور اس کے باپ کو سلطان کے مہمان سمجھ کر رکھا جائے اور ابھی انہیں مرو بھیج دیا جائے
احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے کو دو اونٹوں پر بیٹھا کر اصفہان بھیج دیا گیا ان کے ساتھ ایک عہدیدار تھا اور پچاس مجاہدین گھوڑوں پر سوار تھے ابن اثیر نے لکھا ہے کہ ان دونوں کو اصفہان کی گلیوں اور بازاروں میں گھمایا پھرایا گیا اور ساتھ ساتھ یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ ان کا جرم کیا ہے اور یہ لوگ کالے جادو کے ذریعے یا کسی سفلی عمل کے ذریعے سلجوقی لشکر کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں پھر انہیں شہر کے وسط میں کھڑا کر کے سارے شہر کو اکٹھا کیا گیا اور ان کے سر تن سے جدا کر دیے گئے سلطان محمد کے حکم کے مطابق دونوں کے سر بغداد لے جائے گئے جو دارالخلافہ تھا اور یہ سر خلیفہ کو پیش کیے گئے خلیفہ نے ان سروں کی نمائش کی اور پھر دونوں سر آوارہ کتوں کے آگے پھینک دیے
اس وقت احمد بن عطاش کی پہلی بیوی قلعہ ناظروطبس میں پہنچ چکی تھی اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے خاوند اور اس کے جوان بیٹے کا سر کاٹ دیا گیا ہے اس سے پہلے دونوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے اصفہان کی گلیوں میں گھمایا گیا تھا یہ عورت بیوی بھی تھی اور جوان بیٹے کی ماں بھی وہ قلعے کی سب سے اونچے برج پر چڑھ گئی اور وہاں سے اس نے چھلانگ لگادی اور یوں اس نے خودکشی کرلی
سلطان محمد شاہ در پر اپنے لشکر کا قبضہ مضبوط کرکے واپس مرو آ گیا اس کا استقبال بڑی ہی شان و شوکت سے کیا گیا کیونکہ وہ باطنیوں کے بہت بڑے اڈے کو تباہ کر کے آیا تھا مرو میں ہر کوئی فکر مند اور پریشان تھا کہ شاہ در کو فتح نہیں کیا جاسکے گا اللہ محمد اور لشکر کو خیریت سے واپس لے آیا محمد لشکر کے ساتھ صرف خیریت سے ہی واپس نہ آیا بلکہ وہ فاتح کی حیثیت سے اپنے دارالحکومت میں داخل ہوا
سلطان محمّد نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو شاہ در بھیج دیا اور اس کے سپرد یہ کام کیا کہ وہاں کے سرکاری انتظامات کو اپنے سانچے میں ڈھال کر رواں کرے اور قلعہ جو مسمار کیا گیا ہے اسے از سر نو تعمیر کرے لیکن اس کی شکل قلعے جیسی نہ ہو
اور میرے بھائی! محمد نے اپنے بھائی سنجر سے کہا اصل کام جو تمہیں وہاں کرنا ہے وہ غور سے سن لو شاہ در کی تقریبا آدھی آبادی وہاں سے نہیں گی ان لوگوں نے وہیں رہنا پسند کیا ہے خیال رکھنا کہ یہ سب باطنی ہیں ضروری نہیں کہ یہ حسن بن صباح کے فدائی ہی ہوں اور یہ محض اس کے پیروکار ہوں لیکن محتاط ہونا پڑے گا کہ ان میں کچھ فدائی ہوسکتے ہیں فدائی نہ ہوئے تو حسن بن صباح کے جاسوس تو ضرور ہونگے یہ انتظام میرا ہوگا کہ یہاں سے بڑے تجربے کار جاسوس اور مخبر مستقل طور پر شاہ در بھیج دوں گا وہ وہاں کے ہر گھر کے اندر بھی نظر رکھیں گے اور کوئی ذرا سا بھی مشکوک شخص نظر آیا تو اسے تمہارے سامنے کھڑا کر دیں گے ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس طرح حسن بن صباح نے اور اس کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش نے شاہ در کو اپنا ایک مضبوط اڈہ بنایا رکھا تھا اسی طرح ہم اس شہر کو اپنا دوسرا مرکز بنا لیں گے جہاں سے تبلیغ بھی ہوگی اور دوسری کاروائیاں بھی کی جایا کریں گی میں یہاں کے پورے پورے خاندان شاہ در بھیج کر وہاں آباد کردوں گا ان خاندانوں کے افراد کو بتایا جائے گا کہ وہ کس طرح وہاں کے باطنیوں کو واپس اسلام میں لے آئیں تم کل صبح روانہ ہو جاؤں
سنجر اگلی صبح روانہ ہوگیا
دو تین دنوں بعد محمد نے دربار عام منعقد کیا اس میں وہ ان مجاہدین کو انعام و اکرام دینا چاہتا تھا جنہوں نے شاہ در کے محاصرے کو کامیاب کرنے کے لیے غیر معمولی شجاعت کے مظاہرے کیے تھے اس نے نور اور اس کے باپ کو خصوصی انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا اس کا کارنامہ پہلے سنایا جاچکا ہے محمد نے نور اور اس کے باپ کو اپنے محل میں ایک کمرہ دے دیا تھا اور انہیں شاہی مہمان کی حیثیت دی تھی
اگلے روز دربار منعقد ہوا اور محمد نے پورے لشکر کو خراج تحسین پیش کیا پھر چند ایک نام پکارا اور انہیں اس طرح انعام دیے گئے ان کے کارنامے بھی بیان کیے آخر میں نور اور اس کے باپ کو آگے بلایا گیا محمد نے نور کے باپ کا کارنامہ سنایا اور کہا کہ وہ جو الو تیروں سے گرایا گیا تھا وہ پورے لشکر کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا لیکن نور کے باپ نے ایک تیر کے ساتھ پیغام باندھ کر باہر بھیج دیا اور اس طرح اس الو کو مار لیا گیا پھر محمد نے اعلان کیا کہ نور اور اس کے باپ کو کیا انعام دیا جا رہا ہے
سلطان محمد کے وزیراعظم کا نام سعد الملک تھا جو اس وقت دربار میں موجود تھا اور سلطان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا انعام و اکرام کی یہ تقریب ختم ہوئی تو دربار برخاست کر دیا گیا نور کا باپ محمد کے پاس جا کھڑا ہوا اور سرگوشی میں کہا کہ وہ اس کے ساتھ ایک خفیہ بات کرنا چاہتا ہے لیکن اس طرح کے کوئی اور موجود نہ ہو اور کسی اور کو پتہ بھی نہ چلے کہ وہ سلطان کو ملا ہے سلطان نے اسے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں چلا جائے اور سلطان خود اس کے پاس آجائے گا
محمد سلطان تھا اسے چاہیے تاکہ اس شخص کو اپنے دربار میں بلاتا لیکن اس نے کہا کہ وہ اس شخص کے کمرے میں جائے گا یہ محمد کے کردار کی بلندی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نور کے باپ نے نا صرف یہ کہ تیر کے ذریعے باہر ایک پیغام پہنچایا تھا پھر خود بھی وہاں سے اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر سلطان کے پاس آگیا تھا بلکہ اس نے سلطان محمد کو شاہ در کے شاہی خاندان کے اندر کی بہت سی باتیں بتائی تھی اور یہ بھی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف کیا کیا کاروائیاں کرتے اور کس طرح کیا کرتے تھے یہ ساری معلومات بڑی قیمتی تھی
محمد نور اور اس کے باپ کے پاس چلا گیا
سلطان عالی مقام! نور کے باپ نے کہا دربار میں آپ کی بائیں طرف ایک معزز انسان بیٹھا ہوا تھا مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ سلطان کا وزیراعظم ہے کیا یہ واقعی آپ کا وزیراعظم ہے؟
ہاں! محمد نے کہا یہ میرا وزیراعظم ہے اور اس کا نام سعد الملک ہے کیوں کیا بات ہے؟
پھر تو مجھے سوچ اور سمجھ کر بات کرنی چاہیے نور کے باپ نے قدر گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ہو سکتا ہے میری نظروں نے دھوکا کھایا ہو لیکن
نظروں نے دھوکا کھایا ہے یا نہیں محمد نے اس کی بات کاٹ کر کہا تمہیں جو بات کرنی ہے کہہ ڈالو مجھے تم پر اعتماد ہے کہوں کیا بات ہے
اگر میں غلطی پر ہوں تو معاف کر دیجیے گا نور کے باپ نے کہا آپ کے اس وزیراعظم کو میں نے تین بار شاہ در میں عبدالملک بن عطاش کے پاس بیٹھے دیکھا ہے وزیراعظم ہر بار رات کو وہاں پہنچا اور پوری رات عبدالملک کے ساتھ رہا تھا
اسے تو میں نے بھی وہاں دیکھا تھا نور جو پاس ہی بیٹھی تھی بول پڑی مہمانوں کو شراب پلانا میرا کام تھا میں نے اس شخص کو عبدالملک بن عطاش کے کمرے میں اس کے ساتھ بیٹھے دیکھا اور شراب پیش کی تھی اور اس نے شراب پی تھی
کیا تم یہ تینوں دن بتا سکتے ہو؟
محمد نے کہا اگر دن یاد نہ ہو تو یہ تو بتا سکو گے کہ یہ کتنے کتنے وقفے کے بعد وہاں گیا تھا
نور کے باپ نے کچھ سوچ کر بتایا کہ اس کی یہ تین ملاقاتیں تین تین چار چار مہینوں کے وقفے سے ہوئی تھیں نور نے بھی اس کی تصدیق کردی سلطان محمد گہری سوچ میں کھو گیا
تمہاری اطلاع غلط نہیں ہوسکتی محمد نے اس طرح کہا جیسے اپنے آپ سے بات کی ہو تینوں بار اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ سلطنت کے دورے پر جارہا ہے تینوں بار اس نے مختلف جگہ بتائی تھی اور ہر بار چند دن مرو سے غیر حاضر رہا تھا
اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ وہ یہی شخص تھا نور کے باپ نے کہا اگر آپ مجھے اور نور کو اس کے سامنے کھڑا کر دیں تو ہم یہی بات اس کے منہ پر کہہ دیں گے
نہیں! محمد نے کچھ دیر سوچ کر کہا تمہارا کہنا کافی نہیں اگر میرے وزیراعظم کا تعلق درپردہ حسن بن صباح کے استاد کے ساتھ ہے تو یقینا یہ اتنا چالاک اور عیار ہوگا کہ ثابت کر دے گا کہ تم غلط کہہ رہے ہو تم کوئی ثبوت تو پیش نہیں کرسکتے میں اسے کسی اور طرح پکڑوں گا تم دونوں کسی کو یہ پتا نہ چلنے دینا کہ تم نے یہ بات مجھے بتائی ہے
محمد اور سنجر کے باپ سلطان ملک شاہ نے خواجہ حسن طوسی کو اپنا وزیراعظم بنایا تھا اور اسے نظام الملک کا خطاب دیا تھا نظام الملک عالم فاضل انسان تھا اور سپہ سالاری کے جوہر بھی جانتا تھا وہ باطنی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو نظام الملک کے بڑے بیٹے ابوالمظفر علی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور اسے فخر الملک کا خطاب دیا گیا وہ بھی اپنے باپ کی طرح بڑا ہی قابل اور عالم انسان تھا وہ بھی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو نظام الملک کا ایک بیٹا رہ گیا تھا جس کا نام ابو نصر احمد تھا قابلیت کے لحاظ سے وہ بھی اپنے باپ اور بڑے بھائی جیسا تھا لیکن محمد کے ہاتھ میں سلطنت آئی تو اس نے سعد الملک کو وزیراعظم بنا دیا اس شخص سے سلطان محمد کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گیا تھا لیکن اب اس کے متعلق یہ رپورٹ ملی کہ وہ حسن بن صباح کے استاد عبدالملک بن عطاش کے یہاں جاتا رہا ہے
سلطان محمّد نے اپنے بڑے بھائی برکیارق اور چھوٹے بھائی سنجر سے بات کی تینوں بھائیوں نے اپنے ایک معتمد خاص کو بلاکر مشورہ کیا اور ان سب نے ایک طریقہ سوچ لیا اسی شام وزیراعظم سعد الملک نور اور اس کے باپ کے کمرے میں گیا دونوں اسے دیکھ کر گھبرا سے گئے یہ شخص اپنا راز چھپائے رکھنے کے لیے ان دونوں کو غائب کرا سکتا تھا لیکن اس نے بات کچھ اور کی
آج کا انعام تمہیں مبارک ہو سعد الملک نے بڑے ہی خوشگوار لہجے میں کہا میں یہ کہہ کر تم پر احسان نہیں کر رہا کہ تمہیں میرے کہنے پر انعام دیا گیا ہے شاہ در کی فتح ویسے ہی حاصل نہیں ہوگئی تم نے مجھے دو تین بار عبدالملک بن عطاش کے پاس دیکھا ہوگا تم مجھے یہ دیکھ کر حیران ہوئے ہوں گے کہ میں تو سلجوقی سلطان کا وزیراعظم ہوں میں تمہیں ایک تو مبارکباد دینے آیا تھا دوسری یہ بات کہنی تھی کہ میں وہاں جاسوس بن کر گیا تھا اور عبدالملک پر یہ ظاہر کیا تھا کہ میں درپردہ باطنی ہوں اور شیخ الجبل کے لیے کام کر رہا ہوں وہ بوڑھا اپنے آپ کو بڑا جادوگر اور استاد سمجھتا تھا لیکن میں اس کے دل میں اتر گیا اور ایسے راز حاصل کرلئے جو اس کی شکست کا باعث بنے
سلطان کو تو معلوم ہوگا کہ آپ وہاں جاسوس بن کر جاتے رہے ہیں نور کے باپ نے کہا آپ کو تو بے انداز انعام ملنا چاہیے
نہیں! سعدالملک نے کہا میں نے جو کیا وہ سلطان کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا مجھے انعام و اکرام کی ضرورت نہیں میں تمہیں یہ کہنے آیا ہوں کہ کبھی سلطان کے ساتھ ذکر نہ کر دینا کہ تم نے مجھے وہاں دیکھا تھا میں جس مقصد کے لیے وہاں جاتا رہا ہوں وہ میں نے پالیا ہے لیکن اب اسے پتہ چلا کہ میں وہاں جاتا رہا ہوں تو میرے خلاف بڑا ہی بے بنیاد اور خطرناک شک پیدا ہو جائے گا
نہیں محترم وزیراعظم! نور کے باپ نے کہا ہم ایسی اونچی حثیت کے بندے تو نہیں ہیں کہ سلطان کے ساتھ اس کے وزیراعظم کی باتیں کریں میں نے اپنی اس بیٹی کو اس بوڑھے کے پنجوں سے آزاد کرانا تھا وہ کرا لایا ہوں اب میرے جینے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس بیٹی کو کسی جوان اور معزز آدمی کے ساتھ بیاہ دوں اور خود اللہ اللہ کرتے زندگی پوری کر جاؤں
میں یہ فرض ادا کروں گا سعد الملک نے کہا تمہاری بیٹی کی شادی ایسے ہی آدمی کے ساتھ کراؤنگا جیسا تم چاہتے ہو یہ میری اپنی بیٹی ہے
نور کے باپ نے ہاتھ جوڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اسے انعام و اکرام اور دولت کی ضرورت نہیں اس کی بیٹی ٹھکانے لگ جائے گی
دو دن گزرگئے رات گہری ہو چکی تھی اور سعد الملک کھانے سے فارغ ہو کر اپنے خاص کمرے میں جا بیٹھا تھا اس کے ایک ملازم نے اسے اطلاع دی کہ ایک گھوڑسوار آیا ہے اور اس سے ملنا چاہتا ہے ملازم نے یہ بھی بتایا کہ گھوڑسوار کی حالت اور حلیہ بتاتا ہے کہ بڑا لمبا سفر کرکے آیا ہے سعد الملک نے اسے فوراً بلوا لیا
بہت دور سے آئے معلوم ہوتے ہو سعد الملک نے اس آدمی سے کہا اور پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟
قلعہ ناظر و طبس سے اس آدمی نے جواب دیا اور ادھر ادھر دیکھا جیسے وہ کوئی راز کی بات کہنا چاہتا ہو امام کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش نے بھیجا ہے کیا میں یہاں کھل کر بات کر سکتا ہوں
ضرور کرو سعد الملک نے کہا اونچی آواز میں نہ بولنا کیا پیرومرشد ابھی ناظر و طبس میں ہی ہیں؟
ایک دو دنوں بعد وہاں سے الموت چلے جائیں گے اس آدمی نے کہا انہوں نے آپ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب آپ آسانی سے اور بے خطرہ شاہ در جا سکتے ہیں کیونکہ اب شاہ در آپ کی سلطنت میں آگیا ہے اور آپ اس سلطنت کے وزیراعظم ہیں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے کچھ آدمی پیچھے چھوڑ آئے ہیں آپ وہاں جائیں گے تو یہ آدمی خود ہی آپکو مل جائیں گے پیرومرشد نے کہا ہے کہ محمد اور سنجر کو جلدی ختم کرنا ہے لیکن یہ آپ نہیں کریں گے بلکہ یہ شاہ در کے آدمی کریں گے
ان آدمیوں کے نام جانتے ہو؟
سعد الملک میں پوچھا
نہیں! اس آدمی نے مسکرا کر کہا کیا آپ جانتے نہیں کہ نام نہیں بتائے جاتے میں یہاں زیادہ نہیں رہوں گا میں اس شہر میں اجنبی ہوں یہاں اپنا کوئی آدمی ہے تو آپ اسے یقینا جانتے ہوں گے مجھے اس کے گھر کا راستہ بتا دیں یا وہاں تک پہنچانے کا کوئی بندوبست کر دیں میں کل صبح واپس چلا جاؤں گا
ایک نہیں یہاں اپنے تین آدمی ہیں سعد الملک نے کہا میں تمہیں ان میں سے ایک کے گھر پہنچا دوں گا
سعد الملک نے ایسی باتیں کیں جن سے صاف پتہ چل گیا کہ یہ شخص باطنی ہے اور باطنیوں کے لیے ہی کام کر رہا ہے اس نے اس آدمی کو ایک گھر کا پتہ اور راستہ سمجھا دیا اور کہا کہ وہ خود اس کے ساتھ جا سکتا ہے نہ کسی ملازم کو بھیج سکتا ہے کیونکہ اس سے اس کے خلاف شک پیدا ہو جائے گا
اب میری بات غور سے سن لو سعد الملک نے کہا دروازے پر تین بار دستک دینا اندر سے آواز آئے گی کون ہے تم نے کہنا ہے ملک الملک پھر دروازہ کھلے گا اور اندر جا کر بتانا کہ تم کہاں سے آئے ہو اور یہاں تک کس طرح پہنچے ہو
سعد الملک حسب معمول اپنے دفتر گیا پہلے سلطان محمد سے ملا اور معمول کے مطابق کچھ باتیں کی اور اپنی روزمرہ کے کام میں لگ گیا اس نے سلطان محمد کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ دیکھی سوائے اس کے کہ سلطان اس صبح پہلے سے کچھ زیادہ ہی مسکرا کر باتیں کرتا تھا
آدھا دن گزر گیا تو محمد نے سعد الملک کو بلوایا سعد الملک سلطان کے دفتر والے کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹک کر رک گیا اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا سلطان اکیلا نہیں تھا اس کے پاس ایک تو نور بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ نور کا باپ بیٹھا ہوا تھا ایک طرف وہ آدمی کھڑا تھا جو رات اس کے پاس گیا تھا اور عبدالملک بن عطاش کا پیغام دیا تھا اس کے ساتھ تین آدمی زنجیروں میں جکڑے کھڑے تھے
آگے آؤ سعد الملک! محمد نے اسے کہا ڈرو مت یہ سب تمہارے اپنے آدمی ہیں اور انہیں تم بڑی اچھی طرح جانتے ہو یہ سب تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں یہ تین آدمی جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں وہ آدمی ہے جو اس مکان میں رہتے تھے جہاں تم نے اس آدمی کو بھیجا تھا ہم نے رات کو ہی انہیں اس مقام پر چھاپا مار کر پکڑ لیا تھا
سعد الملک پر غشی طاری ہونے لگی تھی اس کی زبان بالکل ہی بند ہو گئی تھی
اور ان دونوں کو تم اور زیادہ اچھی طرح جانتے ہو سلطان محمد نے نور اور اس کے باپ کی طرف اشارہ کرکے کہا اس لڑکی کے ہاتھوں تم نے کئی بار شراب بھی پی ہے اسے تو تم کبھی بھی بھول نہیں سکو گے یہ تمہارے پیرومرشد کی بیوی تھی کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟
میں وہاں جاسوسی کے لیے جاتا رہا ہوں سعدالملک نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا اس سے آگے وہ بول نہ سکا
تم نے کبھی مجھے راز کی کوئی بات تو بتائی نہیں تھی محمّد نے کہا تم وہ سانپ ہو جس نے اس سلطنت کی آستین میں پرورش پائی ہے اور اس سلطنت کو ڈنک مارا ہے کیا تم نے دیکھ نہیں لیا کہ فتح حق کی ہوا کرتی ہے باطل کی نہیں میں تمہارا یہ جھوٹ مان بھی لوں کہ تم وہاں جاسوسی کے لیے جاتے رہے ہو تو تمہارے پاس اس کا کیا جواز ہے کہ تم ان تین فدائیوں کو جانتے تھے اور انہیں گرفتار نہیں کیا بلکہ میرے ایک جاسوس کو اپنا آدمی سمجھ کر ان کے پاس رات بسر کرنے کے لیے بھیجا اب سزا کے لئے تیار ہو جاؤ
اگلی صبح گھوڑ دوڑ کے میدان میں سلطنت کے تمام تر لشکر کو ایک ترتیب میں کھڑا کیا گیا شہری بھی تماشہ دیکھنے آ گئے کچھ دیر بعد سعد الملک اور تین فدائیوں کو جنہیں ان کے مکان سے گرفتار کیا گیا تھا میدان میں لایا گیا اور لشکر کے سامنے کھڑا کردیا گیا کچھ دیر بعد سلطان محمد اور اس کا چھوٹا بھائی سنجر اور ان کا بڑا بھائی برکیارق اپنی تین چار بڑے حاکموں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار وہاں آگئے باقی سب نے گھوڑے پیچھے روک لئے محمد آگے چلا گیا اور ان مجرموں کے قریب جاکر گھوڑا روکا
تم سب اپنے وزیراعظم کو بیڑیوں میں بندھا ہوا دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے سلطان محمّد نے اپنے لشکر سے خطاب کیا یہ شخص جسے میں نے وزیراعظم بنایا تھا درپردہ حسن بن صباح کا کام کرتا رہا ہے اور شاہ در کی فتح سے پہلے چوری چھپے وہ حسن بن صباح کے استاد عبدالملک بن عطاش کے پاس جاتا رہا ہے اس سے یہ اگلوانا ممکن نہیں کہ اس کے حکم سے یا اس کے ہاتھوں میرے کتنے آدمی قتل ہو چکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ اس نے ہمارے بہت سے آدمی قتل کروائے ہیں یہ سانپ میری آستین میں پلتا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ باپ اپنے بیٹے پر بیٹا اپنے باپ پر ماں اپنی بیٹی پر اور بیٹی اپنی ماں پر اعتماد نہ کرے لیکن میں یہ صورت پیدا نہیں ہونے دوں گا میں ہر کسی کو صاف لفظوں میں بتا رہا ہوں کہ ہم نے شاہ در فتح کرلیا ہے تو اب ہم قلعہ الموت بھی لے لیں گے اور اس باطل فرقے کا قلع قمع کرکے ہی رہیں گے اپنا جرم اپنے ساتھیوں سے چھپایا جاسکتا ہے لیکن مت بھولو کہ اللہ کی ذات بھی موجود ہے اور اللہ تبارک و تعالی گنہگاروں کو پکڑ لیا کرتا ہے یہ گنہگار سعد الملک اپنے ان تین قاتل فدائیوں کے ساتھ پکڑا گیا ہے اور آج اسے سزائے موت دی جا رہی ہے
سلطان محمد نے جلادوں کو اشارہ کیا جلاد آگے آئے اور ان چاروں کو ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑا کرکے انہیں آگے کو جھکا دیا اور ایک ہی بار چاروں کی تلوار حرکت میں آئی اور چار سر جسموں سے کٹ کر مٹی میں جا پڑے
تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ سعد الملک ایسا ڈھکا چھپا رہا تھا کہ کسی کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا اسے سزائے موت دی گئی اور وہیں سلطان محمد نے اعلان کیا کہ اب سلطنت کا وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی کا چھوٹا بیٹا ابونصر احمد ہوگا
ابونصر احمد اپنے باپ اور بڑے بھائی کی طرح عالم فاضل اور سلطنت کے امور کو بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا اس نے وہیں اعلان کردیا کہ میں اب قلعہ الموت پر فوج کشی کروں گا اور اس کی قیادت بھی میں خود کرونگا جس طرح ہم نے شاہ در فتح کرلیا ہے اسی طرح ہم الموت کا قلعہ بھی لے لیں گے لشکر سے تکبیر کے نعرے بلند ہونے لگے اور ان نعروں سے زمین و آسمان ہل رہے تھے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

 

www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-11/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 10 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-3/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-3/#respond Mon, 12 Aug 2024 16:36:10 +0000 https://urducover.com/?p=5751 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 10

قسط نمبر    “37”   سے قسط    نمبر”40″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:37 }
آپ کی سلطنت میں خانہ جنگی حسن بن صباح نے شروع کرائی تھی رابعہ نے بتایا سلطان کو مٹھی میں لینے اور انہیں کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کے لیے روزینہ کو بھیجا گیا تھا روزینہ سلطان کو صبح شام ایک خاص قسم کی حشیش پلاتی رہی تھی اور پھر اس کیفیت میں وہ اپنے حسن و جوانی کا طلسمی استعمال کرتی تھی سلطان تو جوان ہیں اور ان کے جذبات بھی جوان ہے روزینہ اور اس جیسی لڑکیاں پتھروں کو بھی موم کر لیا کرتی ہیں میں روزینہ اور طبیب کے درمیان ایک رابطہ ہوں اگر روزینہ انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں تو اسے میرے سامنے لائیں میں آپ کو اس محل میں وہ جگہ دکھاؤ گی جہاں اس نے حشیش رکھی ہوئی ہے
کیا روزینہ مجھے قتل کرنا چاہتی تھی؟
سلطان برکیارق نے پوچھا
نہیں! رابعہ نے جواب دیا آپ پوری طرح اس کی مٹھی میں تھے آپ کو قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی قتل صرف اس صورت میں آپ کو کیا جاتا کہ آپ بیدار ہوکر اسکی مٹھی سے نکل آتے ہاں آپ کے دونوں بھائیوں کو آپ کی ماں کو اور آپ کے وزیراعظم کو قتل کرنا تھا لیکن کچھ دیر بعد ایک بات اور بتاتی ہوں لیکن میں شک میں ہوں آپ کی یہ جو کنیز ہے اس نے اپنا نام نگینہ بتایا ہے مجھے کچھ ایسا شک ہوتا ہے کہ اس کا نام نگینہ نہیں کچھ اور ہے میں لڑکپن میں حسن بن صباح کے پاس گئی تھی مجھے دھوکے میں لے جایا گیا تھا مجھے کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ یہ کنیز اس وقت وہیں تھی یہاں میں نے اسے دیکھا تو کچھ یقین بھی آنے لگا کیونکہ یہ روزینہ کے ساتھ پوری طرح بے تکلّف تھی اور اسکی رازدار بھی تھی کبھی کبھی حسن بن صباح کی باتیں بھی کرتی تھی اور روزینہ نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی یہ کنیز فطری طور پر باطنی ہے اور غائبانہ طور پر حسن بن صباح کی مرید ہے
سلطان برکیارق نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کی طرف دیکھا وزیراعظم نے سلطان کو آنکھ کا ہلکا سا اشارہ کیا
کیا تم اپنے بچوں کو یہاں لانا چاہوں گی؟
وزیراعظم سمیری نے رابعہ سے پوچھا
کیا آپ مجھے جانے کی اجازت نہیں دیں گے رابعہ نے پوچھا
نہیں! وزیراعظم سمیری نے کہا تم کہتی ہو کہ اپنے بچوں کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہو اب تم صرف اس صورت میں زندہ رہوں گی کہ یہیں رہو تمھارے بچے یہاں آ جائیں گے ہمیں بتاؤ کہ وہ کہاں ہیں؟
بچے ہیں تو وہیں رابعہ نے کہا میرا اتنا قیمتی سامان بھی وہاں پڑا ہے
سب کچھ آ جائے گا سلطان برکیارق نے کہا تم صرف جگہ بتا دو رابعہ نے اپنا گھر اچھی طرح سمجھا دیا
بچوں کو ابھی لے آئیں رابعہ نے کہا سامان رات کو اس طرح لائیں کہ کسی کو پتہ نہ چلے ورنہ میں ماری جاؤں گی اور میرے بچے بھی محفوظ نہیں رہیں گے لیکن ایک بات تو میں نے سوچی ہی نہیں تھی وہ اب دماغ میں آئی ہے اگر روزینہ یہیں ہے تو میں یہاں کس طرح رہ سکتی ہوں وہ تو کسی وقت بھی مجھے قتل کروا دے گی دھوکے میں زہر پلا دے گی اگر اسنے مجھے قتل نہ کیا تو میرے بچوں کو مروا ڈالے گی یا اغوا کرادے گی اس کے پاس ایک ایسا زہر ہے جس کا کوئی ذائقہ نہیں
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور محافظ دستے کے کماندار نے سلطان برکیارق کی طرف دیکھا اس بات کا جواب سلطان ہی دے سکتا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ سلطان روزینہ کے قتل کو ابھی پردے میں رکھنا چاہتا ہے یا نہ جانے اس کا کیا خیال ہے
تم روزینہ کو یہاں نہیں دیکھ سکوں گی سلطان برکیارق نے کہا وہ دفن ہوچکی ہے اس سارے محل میں گھوم پھر کر دیکھ لو وہ زندہ نہیں
دفن ہو چکی ہے؟
رابعہ نے حیرت سے پوچھا کیوں کیا وہ بیمار ہو کر مر گئی ہے یا ہم پر اس کی اصلیت بے نقاب ہوگئی تھی سلطان برکیارق نے جواب دیا میں نہیں جانتا کہ تمہیں حسن بن صباح سے کیا ملتا تھا اگر یہ بتا دو تو یہاں سے تمہیں دگنا انعام اور معاوضہ ملے گا اب تم وہی کام ہمارے لئے کرو جو تم حسن بن صباح کے لئے کرتی رہی ہو پہلے تم آوارہ پھرتی رہی ہو اب تم اس محل کی ایک قابل عزت فرد بنا دی جاؤ گی سوچ لو اب تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی
پہلے یہ سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے کسی فدائی سے راز لینا ایسا ہی ناممکن تھا جیسے ایک پتھر سے دودھ کی دھاریں نکالی جائیں یہ ایک معجزہ تھا کہ ایک فدائی عورت نے سارے ہی راز دے دیے تھے اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ سلطان برکیارق اس کے بھائی اس کی ماں اور وزیراعظم اسلام کے تحفظ بقا اور فروغ کے لیے لڑ رہے تھے اور ان کا ایمان تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ رابعہ اپنی جوانی حسن بن صباح کے باطل عقیدے کو سینے سے لگائے گزار دی تھی اور وہ سمجھتی تھی کہ حسن بن صباح نے اسکی فطرت ہی بدل ڈالی ہے لیکن ممتا ایسا جذبہ ہے جو ماں کا دین و ایمان بھی ہلا ڈالتا ہے اس کے چھوٹے چھوٹے دو بچوں نے اسے راز اگلنے پر مجبور کر دیا تھا بہرحال یہ ایک معجزہ تھا کہ رابعہ نے تمام راز دے دیے اور بہت سے آدمیوں کی نشاندہی بھی کی
سلطان برکیارق نے رابعہ کی رہائش کا انتظام کرنے کا حکم دیدیا اور یہ بھی کہ اس کے بچوں کو بھی یہاں لے آئیں وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے کہا کہ اس عورت کی رہائش پر پہرہ ضرور ہونا چاہیے اور پہرہ ایسا ہو کہ اسے پتہ نہ چلے دو تین ملازموں کو یہ فرض سونپا جائے کہ وہ ہر وقت اس پر نظر رکھیں سلطان برکیارق نے اس مشورے کے مطابق حکم جاری کردیا
اس کے بعد سلطان برکیارق نے باہر آکر وزیراعظم سے کہا کہ جنگ بند کرانا اس کا کام ہے اور وہ جس قدر جلدی ہو سکے یہ قتل و غارت رکوا دے
سمیری چلاگیا اور سلطان برکیارق نے اپنے دربان سے کہا کہ وہ کنیز نگینہ کو میرے کمرے میں بھیج دیے اس نے جا کر دیکھا اس کے کمرے کے فرش سے روزینہ کا خون دھو دیا گیا تھا اور دروازے کے باہر جو خون گرا تھا وہ بھی صاف کر دیا گیا تھا کمرے میں پھر قالین ویسے ہی بچھ گیا تھا جیسے پہلے ہوا کرتا تھا جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو برکیارق پلنگ پر بیٹھا اور پھر لیٹ گیا زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شمونہ کمرے میں داخل ہوئی اور کنیزوں کی طرح آداب بجا لائی سلطان برکیارق نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ شمونہ قالین پر بیٹھ گئی
نگینہ! سلطان برکیارق نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا اب تم کنیز نہیں ہو میرے دل میں تم نے اپنا درجہ خاصہ بلند کرلیا ہے اوپر بیٹھو یا میرے پاس پلنگ پر بیٹھ جاؤ
شمونہ قالین سے اٹھی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی
تم نے مجھے نئی زندگی دی ہے برکیارق نے کہا تم نے سلجوقی سلطنت کو مزید خون خرابے سے بچا لیا ہے میں تمہیں اس کا انعام دینا چاہتا ہوں بولو کیا چاہیے
سلطان عالی مقام! شمونہ نے کہا میں نے آپ کی والدہ محترمہ سے بھی کہا تھا اور آپ سے بھی کہتی ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے نئی زندگی یا موت دینے والا صرف اللہ ہے اللہ نے اگر مجھے اس کا سبب بنایا ہے تو یہ میرا کمال نہیں میں کوئی انعام نہیں چاہتی
لیکن میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں سلطان برکیارق نے کہا تم نے میری صرف جان ہی نہیں بچائی بلکہ میری ذات اور میری شخصیت کو ایک تباہی سے بچایا ہے میں ایک شیطان کے قبضے میں آگیا تھا اُس نے مجھ سے میری ماں کی توہین کرائی یہ ایک کبیرہ گناہ ہے جو معلوم نہیں اللہ تعالی بھی معاف کرے گا یا نہیں اور اس شیطان نے مجھے میرے بھائیوں کا دشمن بنایا اور یہ جو قتل و غارت میری سلطنت میں شروع ہوگئی ہے یہ بھی میرے حساب میں لکھی جائے گی تم آگئی تو میں راہ راست پر آگیا ہوں یہ کوئی معمولی کارنامہ اور مجھ پر معمولی احسان نہیں
میں نے انعام حاصل کرلیا ہے سلطان محترم! شمونہ نے کہا میں یہ کام کرنا چاہتی تھی مجھے امید نہیں تھی کہ میں کامیاب ہو جاؤں گی لیکن اللہ نے میری دعائیں قبول کی اور میں کامیاب ہوگئی یہ انعام کچھ کم نہیں کہ میں نے جو کرنا چاہا وہ ہوگیا
میں تمہیں ایک انعام دینا چاہتا ہوں سلطان برکیارق نے کہا تم اب روزینہ کی جگہ لوگی آج سے تم کنیز نہیں ہو میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ کر کے حالات کو معمول پر لے آؤں تو تمہارے ساتھ شادی کر لوں گا مجھے ایسی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ تم انکار کرو گی
سلطان محترم! شمونہ نے مسکراتے ہوئے کہا آپ یہی امید رکھیں کہ میں انکار ہی کروں گی اس انکار کا ایک جواز ہے اور اس کا پس منظر بھی ہے آپ پس منظر سنیں پھر شادی کرلیں گے
مطلب یہ کہ تم شادی شدہ ہو سلطان برکیارق نے کہا
میں شادی شدہ نہیں ہوں شمونہ نے کہا لیکن میں مرد کی فطرت کی کمزوریوں سے اور مرد کے وجود سے اور مرد کی عیش پرستی اور لذت پرستی سے ناواقف نہیں ہوں پہلی بات یہ ہے کہ سلطان عالی مقام میرا نام نگینہ نہیں شمونہ ہے میں نے یہاں اپنا صحیح نام اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر نہیں بتایا تھا میں بچپن میں ایک قافلے سے اغوا کی گئی تھی اور میری پرورش حسن بن صباح کی جنت میں ہوئی تھی جوان ہوئی تو میں حسن بن صباح کے زیرسایہ رہی میرے اندر ابلیسیت سمودی گئی تھی اور پھر مجھے اس طرف بھیج دیا گیا میں آپ کو کوئی لمبی داستان نہیں سناؤ گی میں نے بڑے بڑے سرداروں عہدے داروں اور کمانڈروں کو حسن بن صباح کے سانچے میں ڈھالا ہے پھر جس طرح آپ راہ راست پر آگئے ہیں اسی طرح اللہ نے مجھے روشنی دکھائی اور میں بھی اللہ کی راہ پر آگئی اللہ نے مجھے یہ انعام دیا کہ مجھے میری ماں مل گئی جس کی آغوش سے مجھے برسوں پہلے نوچا گیا تھا پھر مجھے ایک اور انسان مل گیا جس نے مجھے ولی اور روحانی محبت سے آشنا ہی نہیں بلکہ سرشار کیا اس آدمی نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے اتنی زیادہ قربانی دی کہ اپنے خاندان سے الگ ہو کر یہیں کا ہو کے رہ گیا ہے وہ اصفہان کا رہنے والا ہے اور اس کا نام مزمل افندی ہے وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے گیا تھا لیکن ان کے جال میں آ گیا انہوں نے اپنے خصوصی طریقوں سے اس کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا اور اسے سلطان ملک شاہ مرحوم کے قتل کے لیے تیار کرکے یہاں بھیج دیا یہ سلطان مرحوم کی خوش نصیبی تھی اور یہ مزمل کی بھی خوش نصیبی تھی کہ اس نے میرے ساتھ اس ارادے کا ذکر کر دیا میں نے سلطان مرحوم کو بتا دیا سلطان مرحوم نے طبیب کو بلایا اور طبیب نے اسے دوائیاں وغیرہ دے کر اس کے دل و دماغ سے باطنیوں کے اثرات نکال لئے اسے واپس اپنی اصلی حالت میں لانے میں میرا عمل دخل بھی ہے ہم دونوں کی محبت ایک دوسرے کی روح میں اتری ہوئی ہے
پھر تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟
سلطان برکیارق نے پوچھا
ہم دونوں کا مقصد اور عہد ایک ہے شمونہ نے کہا ہم نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا ہے یہ عہد پورا کرکے ہم شادی کریں گے لیکن ہمارے سامنے مشکل یہ رہی ہے کہ مجھے بھی اور مزمل کو بھی قلعہ الموت میں بہت سے لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں ہم وہاں گئے تو جاتے ہی پکڑے جائیں گے ہم حسن بن صباح کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی موقع نہیں مل رہا تھا آپ کی شادی روزینہ سے ہوئی تو مجھے بتایا گیا کہ روزینہ حسن بن صباح کی جنت سے آئی ہے پھر میں اور مزمل سنتے رہے کہ اس لڑکی نے آپ کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ خانہ جنگی باطنیوں نے ہی شروع کرائی ہے میں تڑپتی رہی کہ روزینہ کو کس طرح قتل کروں لیکن کوئی راستہ اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا تھا آخر مجھے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سے ملوایا گیا اور انہوں نے مجھے یہاں کنیز رکھوایا
شمونہ نے سلطان برکیارق کو تفصیلا سنایا کہ اس نے روزینہ کے دل میں اپنا اعتماد کس طرح پیدا کیا تھا اس نے بتایا کہ جو تربیت روزینہ کو ملی تھی وہی تربیت اسے دی گئی تھی شمونہ نے بتایا کہ اس نے وہی تربیت اور وہی تجربہ روزینہ پر استعمال کیا اور اس کے دل میں اتر گئی
شمونا نے سلطان برکیارق کو یہ نہ بتایا کہ روزینہ نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا بلکہ زہر شمونہ نے اپنے ہاتھوں سے ملایا اور یہ منصوبہ جو اس نے سوچا تھا کامیاب رہا
شمونہ نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اس نے اگر برکیارق کو بتا دیا کہ روزینہ نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا تو ہو سکتا ہے کہ برکیارق کو افسوس ہو کہ اس نے بلاوجہ روزینہ کو قتل کیا شمونہ نے برکیارق کو یہ بھی بتایا کہ روزینہ شربت میں خاص قسم کی حشیش ملایا کرتی تھی اور شمونہ نظر بچا کر یہ شربت غسل خانے میں انڈیل دیتی اور دوسرا شربت ڈال کر اس میں وہ دوائی ملا دیتی تھی جو طبیب نے مزمل کو دی تھی مختصر یہ کہ شمونہ نے برکیارق کو لمحہ بہ لمحہ اپنے کارنامے کی تفصیلات سنائی برکیارق اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا
سلطان عالی مقام! شمونہ نے کہا اگر آپ نے میرے ساتھ شادی کی یا جذباتی طور پر مجھے مجبور کیا تو یہ انعام نہیں ہوگا بلکہ میرا جو انعام ہے اس سے آپ مجھے محروم کریں گے آپ کی سلطنت میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی موجود ہے مجھے آزاد رہنے دیں میرا عہد ابھی پورا نہیں ہوا میرے سینے میں حسن بن صباح کے خلاف نفرت اور انتقام کا طوفان اٹھتا ہے جسے میں بڑی مشکل سے دباتی ہوں میں اس شیطان تک تو نہیں پہنچ سکتی لیکن جہاں پتہ چلے گا کہ اس کا کوئی فدائی مرد یا عورت فلاں جگہ موجود ہے میں اسے اپنے ہاتھوں سے ذہر پلاؤں گی
میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا سلطان برکیارق نے کہا اور پوچھا مزمل آفندی کہاں ہے؟
وہ سالار اوریزی کے ساتھ ہی شمونہ نے جواب دیا اس کا رابطہ آپکے دونوں بھائیوں محمد اور سنجر کے ساتھ رہتا ہے اسے معلوم ہے کہ باطنی دونوں طرفوں کی فوجوں اور شہر میں بھی موجود ہیں اور وہی جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں مزمل ان باطنیوں کے قتل کے لیے دیوانہ ہوا جاتا ہے میں اسے آپ سے ملواؤں گی
سلطان برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا وہ یکلخت اٹھ بیٹھا اور لپک کر شمونہ کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آنکھوں سے لگایا اور پھر اس ہاتھ کو چوما اور پھر بڑے احترام سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا
اگر ایک عورت اتنا بڑا کام کرسکتی ہے تو میں تو سلطان ہوتے ہوئے اور زیادہ بڑے کام کرسکتا ہوں سلطان برکیارق نے بڑے جوشیلے اور پر عزم لہجے میں کہا زندگی میں صرف شادی ہی تو ایک مسئلہ نہیں ہوتا مجھے بہت کچھ کرنا ہے اور میں کرونگا
اب میرے لیے کیا حکم ہے شمونہ نے برکیارق سے پوچھا اور کہا میں اپنا فرض ادا کر چکی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی ماں کے پاس چلی جاؤں میں اپنے تجربے کی بنا پر کہتی ہوں کہ مجھے یہاں سے چلے ہی جانا چاہئے میں آپ کے سامنے نہ ہی رہوں تو اچھا ہے ورنہ آپ کے ارادے متزلزل رہیں گے اور جب بھی آپ مجھے دیکھیں گے تو آپ کے دل میں یہ خواہش تڑپے گی کہ میں روزینہ کی جگہ لے لوں مجھے آپ جب بھی یاد کریں گے فوراً پہنچوں گی
ہاں شمونہ! سلطان برکیارق نے کہا تم نے مجھے بیدار کردیا ہے اور تم نے میرے اندر ایک عزم پیدا کیا ہے تم نے جو کہا ٹھیک کہا ہے تم اپنی ماں کے پاس چلی جاؤں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر تمہیں بھی مجبور کر دوں کہ میرے ساتھ شادی کر لو اب میں ہمہ وقت سلطنت کے کاموں میں مصروف ہوجاونگا
شمونہ اٹھی اور آداب بجا لا کر برکیارق کے کمرے سے نکل آئی
شمونہ اپنی ماں کے پاس چلی گئی
سلطان برکیارق نے وزیراعظم سمیری کو بلایا تھوڑی دیر بعد سمیری آگیا اس طبیب کے گھر آج رات ہی چھاپہ مارنے کا انتظام کریں سلطان برکیارق نے کہا چھاپہ آدھی رات کے کچھ دیر بعد مارا جائے بہرحال یہ انتظام آپ نے کرنا ہے
انتظام ہو جائے گا وزیراعظم سمیری نے کہا لیکن میں سلطان محترم کو بتا دوں کہ ان لوگوں کو زندہ پکڑنا آسان نہیں ہوگا میں اجازت چاہتا ہوں کہ وہ لوگ مقابلہ کرے تو ہم یہ کوشش نہ کرے کہ انہیں زندہ پکڑا جائے البتہ یہ کوشش ضرور ہوگی کہ ایک دو آدمی زندہ ضرور پکڑے جائیں
یہ سب کچھ سوچنا آپ کا کام ہے سلطان برکیارق نے کہا صبح تک مجھے یہ لوگ زندہ یا مردہ دیکھنے ہیں
اس زمانے میں وزیراعظم سپہ سالاری کا اور فن حرب و ضرب کا پورا پورا تجربہ رکھتے تھے ضرورت کے وقت وزیراعظم فوج کی کمان بھی لے لیا کرتا تھا وزیراعظم نے جاکر چھاپے کیلئے آدمی منتخب کر لیے اس چھاپہ مار جماعت کا جو کماندار تھا اسے بھیجا گیا کہ وہ طبیب کا گھر دیکھ آئے طبیب کا گھر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ پورے شہر میں مشہور ہو گیا تھا بہرحال کماندار چلا گیا اور وہ گھر اس نظر سے دیکھ آیا کہ رات اس گھر پر چھاپہ مارنا ہے
اس رات طبیب کے گھر میں کچھ زیادہ ہی آدمی اکٹھے ہو گئے تھے انہیں پتہ چل گیا تھا کہ خانہ جنگی بند کرنے کا حکم مل گیا ہے پتہ اس طرح چلا کہ سلطان برکیارق نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو حکم دیا تھا کہ سرکاری فوج کو لڑنے سے روک دیا جائے سپہ سالار حجازی نے ہر طرف قاصد دوڑا دیے تھے اور جس طرف زیادہ دستے تھے اس طرف وہ خود چلا گیا تھا اس طرح سلطان کا حکم کوئی راز نہیں رہا تھا یہ فوراً باطنیوں تک پہنچ گیا تھا ان باطنیوں میں جو لیڈر قسم کے افراد تھے وہ طبیب کے یہاں اکٹھے ہوگئے تھے اور وہ اس صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہے تھے انہیں ابھی یہ سوچنا تھا کہ خانہ جنگی کس طرح جاری رکھی جائے اور اس صورتحال میں کس قسم کی تخریب کاری کی جا سکتی ہے
اس حویلی میں کم و بیش بیس آدمی اکٹھے ہوگئے تھے رات گزرتی جارہی تھی اور یہ لوگ اس طرح تبادلہ خیالات اور بحث مباحثہ کر رہے تھے جیسے ان کا سونے کا کوئی ارادہ نہیں طبیب بار بار کہتا تھا کہ خانہ جنگی بند ہوگئی تو وہ شیخ الجبل (حسن بن صباح) کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا
غور اس پر کریں کہ سلطان نے یہ حکم دیا ہی کیوں ہے طبیب کے ایک دست راست نے کہا اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ روزینہ ناکام ہوگئی ہے
میں نے یہی سوچ کر رابعہ کو بلوایا تھا طبیب نے کہا اور اسے روزینہ کے پاس جانے کو کہا تھا لیکن رابعہ ابھی تک واپس نہیں آئی اس کے گھر آدمی بھیجا تو پتہ چلا کہ اس کے بچے بھی گھر میں نہیں ہیں گھر خالی پڑا ہے
پھر وہ پکڑی گئی ہے ایک آدمی نے کہا کہیں ایسا تو نہیں کہ سلطان برکیارق کو بھائیوں نے قتل کردیا ہو خانہ جنگی بند کرنے کا حکم محمد نے ہی دیا ہوگا
اس گروہ کو ابھی پتہ نہیں چلا تھا کہ ہوا کیا ہے وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے اور رات ادھی گزر گئی تھی یہ ایک بڑی حویلی تھی جس کی ساخت ایک قلعے جیسی تھی اس کی چھت ساتھ والے مکانوں کی چھتوں سے ملتی تھی ان آدمیوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ چھت پر کسی کی چلنے کی آہٹ سنائی دے رہی ہے سب خاموش ہو گئے قدموں کی آہٹیں صاف سنائی دے رہی تھیں ان میں سے کچھ آدمی دوڑ کر صحن میں آئے اور اوپر دیکھنے لگے
عبدالرحمان سمیری کی بھیجی ہوئی چھاپہ مار جماعت کسی قریبی مکان میں داخل ہو کر اوپر گئی اور چھتوں کے ذریعے طبیب کی چھت تک پہنچی نیچے سے باطنیوں نے دیکھ لیا اور کوئی زور سے پکارا تیار ہو جاؤ بھائیوں حویلی کے برآمدے میں دو دیے جل رہے تھے ان کی روشنی صحن میں بھی جا رہی تھی
صحن میں جو باطنی نکلے تھے ان میں سے کچھ برآمدے کی طرف دوڑے اور دو دروازے کی طرف گئے اور دروازے کی زنجیر اتارنے لگے منڈیر سے ایک چھاپہ مار نے ان پر برچھی پھینکی جو ایک باطنی کی پیٹھ میں اتر گئی دوسرے نے ایسی دلیری کا مظاہرہ کیا کہ باہر بھاگنے کی بجائے اس نے اپنے ساتھی کی پیٹ میں سے برچھی نکال لی اور چھاپہ ماروں سے مقابلے کے لئے تیار ہوگیا چھاپہ مار دوڑتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف آئے اور بڑی ہی تیزی سے نیچے اترنے لگے
کمرے میں سے تمام باطنی تلواریں اور برچھیاں لے کر نکل آئے چھاپہ ماروں کی تعداد پچیس یا تیس تھی باطنی بیس تھے حویلی کے صحن میں بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا وہ چھاپہ مار دروازے کے قریب کھڑے ہوگئے تھے تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے چھاپہ ماروں کا کماندار بار بار چلا رہا تھا کہ ان میں سے دو تین کو زندہ پکڑو لیکن باطنی زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے انداز سے دلیری سے لڑ رہے تھے
چھاپہ مار تجربہ کار تھے ان کے چند ایک آدمی زخمی ہوچکے تھے اور وہ گر پڑے تھے لیکن زیادہ نقصان باطنیوں کا ہو رہا تھا دیکھا گیا کہ ایک باطنی نے جب دیکھا کہ اس کے ساتھی مارے گئے ہیں اور چھاپہ مار غالب آگئے ہیں تو وہ دوڑ کر ایک طرف ہو گیا دو تین چھاپہ مار اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھے لیکن باطنی نے اپنی تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لی ایک باطنی جو کسی کمرے میں چھپ گیا تھا نکلا اور دروازے کی طرف دوڑا اس وقت کوئی چھاپہ مار دروازے کے قریب نہیں تھا باطنی دروازہ کھول رہا تھا کہ دو چھاپہ ماروں نے اس پر وار کرنے کی بجائے اسے ایسا جکڑا کے وہ لڑنے کے قابل نہ رہا اسے زندہ پکڑ لیا گیا
طبیب بھی مارا گیا اور اس کے گروہ کا کوئی ایک بھی آدمی پاؤں پر کھڑا نہ رہا صرف ایک کو زندہ پکڑا گیا چھاپہ ماروں کا کماندار زخمی باطنیوں کو دیکھ رہا تھا اس کا خیال تھا کہ ان میں کوئی معمولی زخمی ہو گا تو اسے اٹھا کر لے جائیں گے اس نے ایک زخمی کو دیکھا جو پیٹ کے بل پڑا تھا اس نے اپنی تلوار جو اس کے قریب ہی پڑی تھی اٹھائی اور اوپر کرکے اپنے پیٹ میں مار لی پانچ چھاپہ مار مارے جا چکے تھے اور زخمی تقریباً سب ہی ہوئے تھے لیکن وہ چل پھر سکتے تھے چھاپہ ماروں نے اپنے زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا لیا اور زندہ باطنی کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آئے
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری چھاپہ ماروں کی واپسی کے انتظار میں بے تاب ہو رہا تھا آخر چھاپہ مار پہنچ گئے سب کے کپڑے خون سے لال تھے انہوں نے زندہ باطنی وزیراعظم کے حوالے کیا اور اسے بتایا کہ باقی سب مارے گئے ہیں یہ بھی بتایا کہ باطنیوں نے کس بے خوفی سے مقابلہ کیا تھا
اسے اس کمرے میں لے جاؤ وزیراعظم سمیری نے کہا
وہ ایک خاص کمرہ تھا جو محل کے ایک دور کے حصے میں تھا محل کا حسن اور رونق اور کہاں یہ کمرہ کہ اس میں جو داخل ہوتا وہ ناک پر کپڑا رکھ لیتا تھا کیونکہ یہ کمرہ ایسی بدبو سے بھرا رہتا تھا جو ناقابل برداشت تھی یہاں ملزموں اور مشتہبوں سے تفتیش کی جاتی تھی تفتیش کا مطلب پوچھ گچھ نہیں بلکہ ایسی غیرانسانی اذیتیں دی جاتی تھی کہ آدمی مر مر کر جیتا تھا بعض مر جاتے تھے ان کی لاشیں کچھ دن وہیں پڑی رہنے دی جاتی تھی اور وہ دوسرے ملزموں کو دکھا کر کہا جاتا تھا کہ سچ بولو ورنہ تمہاری لاش بھی ان لاشوں کے ساتھ پڑی ہوگی
اس باطنی کو اس کمرے میں لے جایا گیا اور کچھ دیر بعد وزیراعظم سمیری اپنے دو خاص آدمیوں کے ساتھ وہاں گیا باطنی سے کہا کہ وہ اگر سچ بولے گا تو اس کی جان بخشی کردی جائے گی اور انعام بھی دیا جائے گا ورنہ اس کا حشر بہت برا ہوگا
میں شیخ الجبل کو دھوکا نہیں دوں گا اطنی نے کہا میرے جسم کو پاؤں سے کاٹنا شروع کر دو میری زبان سلامت رہنے دو تو بھی میری زبان پر وہ سچ نہیں آئے گا جو تم لوگ سننا چاہتے ہو
اس کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا گیا بہلانے اور ورغلانے کا ہر حربہ آزمایا گیا اور لالچ دیے گئے لیکن وہ شخص مسکراتا رہا اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان تھا وزیراعظم سمیری نے اپنے آدمیوں کو سر سے ہلکا سا اشارہ کیا اور خود باہر نکل آیا ان آدمیوں نے دروازہ بند کر دیا
صبح طلوع ہوئی اور سورج کچھ اوپر اٹھا تو وزیراعظم سمیری اپنے گھر سے نکلا وہ اپنے دفتر میں جانے کی بجائے اسی کمرے میں چلا گیا جس میں باطنی کو رکھا گیا تھا اس نے دیکھا کہ اس باطنی کو اس کے آدمیوں نے الٹا لٹکایا ہوا تھا اور اس کے دونوں ہاتھوں کے ساتھ دس دس سیر وزنی پتھر بندھے ہوئے تھے وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اس نے کچھ بھی نہیں بتایا بلکہ یہ بولتا ہی نہیں وزیراعظم نے انہیں کہا کہ اپنا عمل جاری رکھو اور اگر یہ مر جاتا ہے تو مر جانے دو لیکن کوشش کرو کہ یہ کچھ اگل دے
چار پانچ گھنٹے گزر گئے تو وزیراعظم سمیری ایک بار پھر اس کمرے میں گیا باطنی ابھی تک الٹا لٹکا ہوا تھا سمیری حیران ہو رہا تھا کہ یہ شخص انسان ہے یا پتھر کا مجسمہ ہے اس نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا تھا
کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا وزیراعظم سمیری اور اس کے دونوں آدمیوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا وہ ایک عورت تھی جس کے بال کھلے اور بکھرے ہوئے تھے اس نے غریبانہ سے کپڑے پہن رکھے تھے اور پریشان حال نظر آتی تھی وہ الٹے لٹکے ہوئے باطنی کے ساتھ لپٹ گئی اور رونے اور چیخنے لگی باطنی کو چھوڑ کر وہ وزیراعظم سمیری کے قدموں میں جا گری اور اس کے قدموں میں ماتھا رگڑنے لگی
اللہ تمہیں اس سے بڑا عہدہ دے اس عورت نے روتے ہوئے فریاد کی کہ یہ میرا بھائی ہے ایک ہی ایک بھائی ہے اس پر کوئی شک نہ کرو اسے باطنی نہ سمجھو اس کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اللہ کے نام پر اسے چھوڑ دو ورنہ میرے بچے بھوکے مر جائیں گے
دونوں آدمی اس عورت کو اٹھا کر باہر کو دھکیلنے لگے لیکن وزیراعظم سمیری نے انہیں روک دیا اور اس عورت سے پوچھا کہ وہ اندر کس طرح آ گئی ہے
میں دربانوں کے آگے روئی اور فریادیں کی تھیں عورت نے کہا انہوں نے مجھے روک لیا تھا لیکن ان کے دلوں میں رحم آگیا اور انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ تمہارا بھائی فلاں کمرے میں بند ہے
آرام سے بات کرو وزیراعظم سمیری نے اسے کہا ہم کسی پر بلاوجہ ظلم نہیں کرتے تمہارا یہ بھائی ہم نے اس طبیب کے گھر سے پکڑا ہے جو حسن بن صباح کا بھیجا ہوا خاص آدمی ہے ان لوگوں نے ہمارے چھاپہ ماروں کا مقابلہ کیا تھا اور سب مارے گئے ہیں تمہارا یہ بھائی زندہ پکڑا گیا ہے یہ بتاؤ کہ یہ وہاں کیا کر رہا تھا
میں جانتی ہوں یہ وہاں کیوں گیا تھا عورت نے کہا یہ اس طبیب کے پاس گیا تھا اسے پیٹ کی کوئی بیماری لگی ہوئی ہے طبیب اسے اپنے ساتھ ہی رکھتا تھا اور اس سے اپنے گھر کے اور دوائی خانے کے چھوٹے موٹے کام کرواتا تھا اور اس کی اسے اجرت دیتا تھا
لیکن یہ تو اپنے منہ سے کہتا ہے کہ میں باطنی ہوں وزیراعظم سمیری نے کہا اس نے کہا ہے کہ میں شیخ الجبل کو دھوکا نہیں دوں گا اور سچ نہیں بولوں گا
اس سے پوچھیں کہ یہ جانتا ہے کہ شیخ الجبل کون ہے عورت نے کہا اسے ان شیطانوں نے یہ بتایا ہوگا کہ شیخ الجبل اللہ کا بھیجا ہوا کوئی نبی یا ولی یا امام ہے اس سے پوچھو کہ حسن بن صباح کون ہے تو یہ نفرت سے تھوک دے گا
یہ عورت باربار وزیراعظم کے آگے ہاتھ جوڑتی اور جھک کر اس کے پاؤں پکڑتی اور یہی فریاد کرتی کہ میرے بھائی کو چھوڑ دو یہ بے گناہ ہے اور میرا اور میرے بچوں کا واحد سہارا ہے اس عورت کا تڑپنا رونا اور بے حال ہو ہو جانا کچھ اثر کر گیا وزیراعظم سمیری سوچ میں پڑ گیا آخر اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اسے اتار کر لیٹا دو اور اسے پانی پلاؤ
اب میری ایک بات سنو وزیراعظم سمیری نے اس بدحال عورت سے کہا میں تمہیں اس بھائی کے ساتھ اکیلا چھوڑ دوں گا اگر یہ حسن بن صباح کا چیلا ہے تو بتا دے اگر نہیں تو تم مجھ سے تسلیم کروا لو کہ اس کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں میری تسلی ہوگئی تو میں اسے چھوڑ دوں گا
اس باطنی کو اتارا گیا پانی پلایا گیا اور پھر وزیر اعظم کے کہنے پر اسے کچھ کھلایا گیا اور اس عورت کے ساتھ اسے کمرے میں تنہا چھوڑ دیا گیا وزیراعظم سمیری وہاں سے جاچکا تھا
بےوقوف! اس عورت نے باطنی کے ساتھ لپٹتے ہوئے کہا تم زندہ کس طرح پکڑے گئے تھے بھاگ جاتے مر جاتے
میں تو دروازے سے نکل رہا تھا کہ انہوں نے پکڑ لیا باطنی نے کراہتے ہوئے کہا تم نے تو کمال ہی کر دیا ہے کیا مجھے یہاں سے نکلوا سکو گی؟
میں نے کوئی بھی کام ہاتھ میں لیا ہے تو کرکے ہی چھوڑا ہے عورت نے کہا مجھے امید ہے کہ تمہیں یہاں سے نکال لے جاؤں گی اگر انہوں نے نہ چھوڑا تو مجھے یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ تم یہاں ہو میں تمہیں کسی نہ کسی طرح فرار کرا لونگی مجھے یہ بتاؤ کہ میں کسے اطلاع دوں کہ تم یہاں ہو میں تو اپنے گروہ کو جانتی ہوں لیکن ہر کسی کو نہیں باطنی نے اسے بتانا شروع کردیا
دن کے پچھلے پہر وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سلطان برکیارق کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ خانہ جنگی بند کرانے اور حالات کو معمول پر لانے کا منصوبہ بنا رہے تھے سلطان برکیارق ذہنی طور پر اس قدر ٹھیک ہوگیا تھا کہ وہ اپنے مرحوم باپ سلطان ملک شاہ کی طرح باتیں کرنے لگا تھا اس نے یہاں تک کہا کہ خانہ جنگی رک جائے تو دونوں طرف کے لشکروں کو اکٹھا کرکے میں ایسی طاقتور فوج بناؤں گا جو ایک ہی ہلے میں حسن بن صباح کا صفایا کردے گی
دربان کمرے میں داخل ہوا
سلطان عالی مقام! دربان نے جھک کر کہا ایک عورت آئی ہے ملاقات کی اجازت چاہتی ہے
سلطان برکیارق کے چہرے پر خفگی کے تاثرات آگئے اور اس نے وزیراعظم سمیری کی طرف دیکھا اس وقت سلطان کسی عام آدمی سے ملنے کے موڈ میں نہیں تھا
میں جانتا ہوں وہ کون ہے وزیراعظم سمیری نے کہا اسے آنے دیں سلطان محترم۔
وزیراعظم نے دربان سے کہا کہ اسے اندر بھیج دو
رابعہ کمرے میں داخل ہوئی سلطان برکیارق نے اسے اس حالت میں دیکھا تو کچھ پریشان سا ہو کر بولا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا ہے رابعہ میرے محل میں تم اس حالت کو کس طرح پہنچی ہو ؟
رابعہ ہنس پڑی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑے میلے اور بوسیدہ تھے اور وہ بھیکارن لگتی تھی
یہ میں آپ کو بتاؤں گا سلطان محترم! وزیراعظم سمیری نے کہا پہلے میں اس سے وہ باتیں سن لو جس کے لیے میں نے اسے بلایا تھا
کام کر آئی ہوں رابعہ نے بیٹھتے ہوئے کہا یہ بھی بھلا کوئی کام تھا میں نے اس سے وہ سب کچھ اگلوا لیا ہے جو آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں اس کے جسم کے آپ ٹکڑے کر دیتے وہ نہ بولتا
وہ عورت جو تفتیش والے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور اس باطنی سے لپٹ گئی تھی اور وزیراعظم سمیری کے قدموں میں ماتھا رگڑ رگڑ کر فریادیں کرتی تھی وہ اس باطنی کی بہن نہیں تھی نہ اس کی کچھ لگتی تھی وہ رابعہ تھی رابعہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ تھی پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر سلطان برکیارق کے آگے جھک گئی اور اس نے راز اگل دیئے تھے اور اب عبدالرحمن سمیری نے اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا
اس نے رابعہ کو صبح اپنے پاس بٹھا کر بتایا تھا کہ رات ہم نے طبیب کے گھر چھاپہ مارا ہے اور اسکا صرف ایک آدمی زندہ پکڑا گیا ہے لیکن وہ بولتا نہیں
بولے گا رابعہ نے پراعتماد انداز سے کہا میں وہاں آؤں گی لیکن آپ کا وہاں ہونا لازمی ہے
وزیراعظم سمیری اور رابعہ نے ایک اسکیم بنالی اور رابعہ اٹھ کر چلی گئی جو وقت مقرر کیا گیا تھا اس وقت وزیراعظم اس کمرے میں پہنچ گیا اور رابعہ ایک غریب مفلوق الحال اور پریشان حال عورت کے بہروپ میں اس کمرے میں جا پہنچی اور وہ اداکاری کی جو پہلے سنائی جا چکی ہے وزیراعظم اپنے دونوں آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں سے آگیا اور رابعہ نے اس باطنی کو رام کر لیا یہ باطنی رابعہ کو جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ رابعہ اس قدر عیار اور تجربہ کار ہے کہ جنگل میں نکل جائے تو درندوں کو بھی اپنا مرید بنالیں اس باطنی نے رابعہ کو وہ باتیں بھی بتا دیں جو رابعہ کو بھی معلوم نہیں تھیں یہ باطنیوں کے کچھ اور ٹھکانے تھے اور باطنیوں کی تخریب کاری کی تفصیلات تھیں
یہ کام اور ایک کامیاب اداکاری رابعہ ہی کرسکتی تھی ورنہ یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی غریب سی عورت محل کے احاطے میں داخل بھی ہو سکتی اور پھر وہ اس کمرے تک پہنچ جاتی جہاں کوئی غیر متعلق سرکاری کارندہ بھی نہیں جا سکتا تھا
تم بہت بڑے انعام کی حقدار ہو رابعہ! سلطان برکیارق نے کہا میں تمہارے لئے اس محل میں رہائش کا خصوصی انتظام کروا رہا ہوں تمہارے بچوں کی تعلیم و تربیت ہمارے ذمے ہوگی اب تم جاؤ اپنا حلیہ سہی کرو میں تمہیں پھر بلاؤں گا
رابعہ فاتحانہ چال چلتی وہاں سے چلی گئی وزیراعظم سمیری نے سلطان برکیارق سے کہا کہ اب ہمیں اس باطنی کو زندہ رکھنے کی ضرورت نہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ اسے قید میں ڈالنے کی بجائے ختم ہی کردیا جائے
دربان کو بلایا گیا اور اسے کہا گیا کہ فلاں آدمی کو بلائے وہ آدمی آیا تو سلطان برکیارق نے اسے کہا کہ اس باطنی کو قتل کرکے اس کی لاش کہیں دبا دو لیکن قبرستان میں نہیں
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے سلطان سے ایک ایسا حکم جاری کروایا جس نے تاریخ کا رخ ہی پھیر دیا وزیراعظم نے سلطان کو مشورہ دیا کہ جن باطنیوں کی نشاندہی ہوگئی ہے انہیں پکڑ لیا جائے کسی سے کچھ بھی نہ پوچھا جائے نہ انہیں سزائے قید دی جائے بلکہ قتل کر دیا جائے سلطان برکیارق پہلے ہی شرمشار تھا کہ وہ ایک باطنی لڑکی کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا اور سلطنت کو خانہ جنگی میں جھونک دیا وہ اپنے اندر ایک تلخی محسوس کرتا تھا جو کبھی کم ہوتی اور کبھی اتنی زیادہ کہ اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی اور وہ غصے میں آجاتا تھا اسی کیفیت میں اس نے وزیراعظم کی بات مان لی اور کہا کہ اس کی روحانی تسکین اسی طرح ہوگی کہ اس کے سامنے ان باطنیوں کے سر اڑا دیے جائیں
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری نے مشہور مؤرخ “ابن اثیر” ابن خلدون” اور ابن جوزی” کے حوالوں سے لکھا ہے کہ باطنیوں کے جن ٹھکانوں کی نشاندہی ہوگئی تھی وہاں چھاپے مارے گئے اور یہ چھاپے اس انداز سے مارے گئے کہ زیادہ سے زیادہ باطنی پکڑے گئے جن میں چند ایسے باطنی تھے جو طبیب کی طرح سرداری درجے کے تھے وہ احکام اور ہدایات جاری کرتے تھے اور تخریب کاری کو خوش اسلوبی اور کامیابی سے چلائے رکھنا ان کی ذمہ داری تھی ان تمام سرداروں کو لاکر کچھ بھی نہ کہا گیا صرف یہ کیا گیا کہ تین چار جلاد بلائے گئے جو ان کی گردنیں کاٹتے گئے ان کی لاشیں ایک ہی گھڑے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی جاتی تھی
یہ سلسلہ چار پانچ دن چلتا رہا اور سلطان کو یہ اطلاع ملی کہ خانہ جنگی رک گئی ہے اور تمام سالاروں اور کمانداروں کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے اس اطلاع کے فوراً بعد سپہ سالار ابو جعفر حجازی نائب سپہ سالار اوریزی جو باغی ہوگیا تھا محمد اور سنجر سلطان کے پاس آگئے سلطان یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ابومسلم رازی بھی ان کے ساتھ تھا
سلطان برکیارق دوسروں کے لئے تو نہ اٹھا لیکن ان کے پیچھے ابومسلم رازی کو دیکھا تو وہ اس کے احترام میں اٹھ کھڑا ہوا اور آگے بڑھ کر اور جھک کر اس کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر سب کو بٹھا کر ان کے کھانے پینے کے انتظام کرنے کا حکم دیا
محترم رازی! سلطان برکیارق نے ابومسلم رازی سے کہا آپ کو دیکھ کر مجھے اپنے والد مرحوم یاد آگئے ہیں لیکن آپ یہاں کیسے کیا میری حیرت بے معنی ہے؟
ابومسلم رازی بہت بوڑھا ہو گیا تھا وہ سلطان ملک شاہ مرحوم کا دست راست اور بڑا ہی گہرا دوست تھا ملک شاہ نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ابو مسلم رازی صرف ایک شہر اور اس کے مضافاتی علاقے کا امیر ہے دونوں اسلام کے شیدائی اور حسن بن صباح کے دشمن تھے سلطان برکیارق تو یوں تھا جیسے ابومسلم رازی کے ہاتھوں میں پیدا ہوا ہو
نہیں بیٹے! ابومسلم رازی نے سلطان برکیارق سے کہا تمہاری حیرت بے معنیٰ نہیں تمہیں معلوم نہیں کہ میں اپنے لشکر کے ساتھ تمہارے دارالسلطنت سے تھوڑی ہی دور موجود رہا ہوں میں نے تم سے یہ سلطنت چھینی نہیں تھی بلکہ اس سلطنت کو حسن بن صباح سے محفوظ رکھنا تھا مگر تم ایک باطنی لڑکی کے چنگل میں ایسے آئے کہ تمہیں نیک و بد کی تمیز سے ہی اس نے محروم کردیا اور تم میں سود و زیاں کا احساس ہی نہ رہا اب قاصد نے یہ خبر دی کہ تم نے خانہ جنگی روکنے کا حکم دیا ہے تو یہ لڑکے مان ہی نہیں رہے تھے لیکن میرے عزیز بیٹے میں نے زمانہ دیکھا ہے میں نے انہیں کہا چلو چلتے ہیں شاید بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوجائے
یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے سلطان برکیارق نے کہا اس باطنی لڑکی کو میں نے اپنے ہاتھوں قتل کردیا ہے اور میں سب سے پہلے عظیم ماں کے قدموں میں جا گرا اور اس سے اپنے گناہ بخشوائے پھر میں نے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے آپس میں صلح مشورہ کرکے جو کارروائیاں کی ہیں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں
سلطان برکیارق نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح باطنیوں کے ٹھکانوں کا سراغ لیا گیا ہے اور کس طرح چھاپے مار کر انھیں پکڑا جا رہا ہے اور ان سب کو قتل کیا جارہا ہے ان سب کو پہلے معلوم نہیں تھا کہ دارالسلطنت میں اور سلطان کے محل میں انقلاب آرہا ہے سب حیران بھی ہوئے اور خوش بھی وہ جب یہاں آئے تھے تو ان کے چہروں پر تناؤ تھا اور ان سب کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ سلطان کو شک اور شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں سلطان برکیارق کی باتیں سن کر ان کے چہروں پر رونق آگئی
اب میں چاہتا ہوں سلطان برکیارق نے کہا کہ دونوں طرفوں کے لشکر اکٹھے کرکے ایک لشکر بنا دیا جائے اور پھر اس لشکر کو کچھ دن تربیت دے کر قلعہ الموت پر حملہ کیا جائے چند ایک باطنیوں کو قتل کردینے سے حسن بن صباح کے باطل عقیدے کے طوفان کو ر وکا نہیں جا سکتا مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ اس شیطان نے بڑے ہی وسیع و عریض علاقے کو اپنے زیراثر کرلیا ہے
زیر اثر بھی ایسا کے ہمارا لشکر قلعہ الموت کی طرف پیش قدمی کرے گا تو ان علاقوں کے لوگ ہمارے لشکر کا اگر مقابلہ نہیں کریں گے تو لشکر کے راستے میں رکاوٹ ضرور پیدا کریں گے
ابومسلم رازی کے کہنے پر سلطان برکیارق کی ماں کو وہاں بلا یا گیا ماں آئی تو اپنی تینوں بیٹوں کو اور ان سب کو اکٹھا بیٹھے دیکھ کر رو پڑی اور ہاتھ آسمان کی طرف کر کے ان کے اتحاد اور پیار کی دعائیں مانگنے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج اس کے بیٹے اور بیٹوں کے سالار اور ابو مسلم رازی جیسا عالم اور فاضل یہ سب ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں
اوپر جن مؤرخوں کے حوالے دیے گئے ہیں انہوں نے اور مسیحی مورخوں نے لکھا ہے کہ ابو مسلم رازی عالم اور فاضل تھا دوراندیش اور دانش مند تھا اس نے اس اجتماع میں ایک نئی تجویز رکھی اور زور دیا کہ اس پر فوری طور پر عمل کیا جائے تجویز یہ تھی کہ تینوں بھائی ایک ہی دارالسلطنت میں اکٹھے نہ رہیں کیونکہ انسان بڑی کمزور چیز ہے اور انسان کی سب سے بڑی کمزوری اقتدار پرستی ہے اس سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک حصے کا حکمران سلطان برکیارق ہو اور دوسرے حصے کا محمد اور سنجر لیکن مرکز سلطان برکیارق کے تحت رہے تاکہ سلطنت کی مرکزیت بھی قائم رہے اور اتحاد بھی ابومسلم رازی نے یہ بھی کہا کہ سلطنت کو بانٹا نہ گیا تو امور سلطنت اور دیگر مسائل کا سارا بوجھ صرف ایک سلطان کے سر پر پڑا رہے گا جو اس کے لیے کسی وقت بھی ناقابل برداشت ہو سکتا ہے
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برائے نام وزیراعظم نہیں تھا وہ بھی عمر رسیدہ اور جہاں دیدہ آدمی تھا اس نے ابومسلم رازی کی اس تجویز کی پرزور تائید کی اور کہا کہ یہ تقسیم ابھی ہو جانی چاہیے اسے التوا میں نہ رکھا جائے
سلطان برکیارق کی کی ماں نے بھی اس تجویز کو پسند کیا اور دونوں سالاروں ابوجعفر حجازی اور اوریزی نے بھی کہا کہ یہ قابلِ داد اور قابلِ عمل ہے چنانچہ اسی وقت نقشے سامنے رکھے گئے اور سلطنت کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا لیکن اس پر عمل صرف اس لئے ملتوی کیا گیا کہ سرکاری فوج اور باغی فوج کے دستے شہر میں آجائیں اور اس شہر کو باطنیوں سے صاف کردیا جائے تو پھر اطمینان سے تقسیم پر عمل کیا جائے گا
اس تقسیم پر تینوں بھائی رضامند ہوگئے اور ماں نے بھی اس کی منظوری دے دی
تاریخ کے مطابق جو حصّے محمد اور سنجر کو دیئے گئے ان میں شام عراق موصل آزربائیجان اور ارمنیا قابل ذکر ہیں باقی تمام حصہ برکیارق کو ملا لیکن یہ بھی طے پایا کہ بالادستی اور برتری برکیارق کو حاصل ہوگی
بکھرے ہوئے دستے اکٹھے کیے جارہے تھے اور وہ شہر میں آ رہے تھے سلطان برکیارق نے حکم دے دیا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کردیا جائے اس حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی نے کسی غیر باطنی کو ذاتی رنجش یا دشمنی کی بنا پر قتل کیا اور جواز یہ پیش کیا کہ یہ باطنی تھا اس کے قاتل کو فورا قتل کر دیا جائے گا اور اس کے پسماندگان سے تاوان وصول کرکے مقتول کے پسماندگان کو دیا جائے گا سرکاری طور پر انتظام کیا گیا کہ کوئی مشکوک آدمی شہر میں نظر آئے تو پوری چھان بین کی جائے کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کیا وہ اس شہر کا باشندہ ہے یا نہیں اگر نہیں تو اسے کسی حکم کے بغیر قتل کر دیا جائے
شہر میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو جانتے تھے کہ یہ خانہ جنگی باطنیوں نے زمین دوز تخریب کاری کے ذریعے شروع کرائی ہے وہ یہ جانتے تھے کہ کون باطنی اور کون مسلمان ہیں اور اس شہر کا قدیم باشندہ ہے جب باطنیوں کے قتل کا حکم پہنچا تو انہوں نے باطنیوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیا شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی حکم یہ تھا کہ شہر میں سے کسی ایک کو بھی باہر نہ جانے دیا جائے اور شہر کے اندر صرف ان فوجیوں کو آنے دیا جائے جو شہر سے باہر بکھر کر لڑ رہے تھے اس حکم کا یہ اثر ہوا کہ شہر سے نکلنے کی کوشش کرنے والے باطنی پکڑے گئے اور قتل کردئیے گئے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:38 }
سلطان برکیارق نے باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیدیا اور باطنی ختم ہونے لگے کچھ باطنی تو ایسے تھے کہ جن کے متعلق کوئی شک وشبہ نہیں تھا اور بعض ایسے بھی تھے جن پر شک تھا کہ یہ باطنی ہے شہر کے مسلمانوں نے انہیں بھی قتل کر دیا لیکن سلطان برکیارق اس کے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور ابو مسلم رازی کو اگر یہ یقین تھا کے مرو میں باطنیوں کو قتل کر دینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا تو یہ ان کی بھول تھی اتنا تو وہ جانتے ہی ہونگے کہ باطنیوں کے اس قتل عام کی اطلاع حسن بن صباح تک ضرور ہی پہنچے گی اور وہ جوابی وار ضرور کرے گا انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس ابلیس کا ہر وار زمین دوز ہوتا ہے اور بڑا ہی کاری ہوتا ہے لیکن تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باطنیوں کے متعلق خوش فہمی میں مبتلا تھے انہیں پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ حسن بن صباح کا انتقامی وار کس قدر خطرناک ہوگا اور وہ مسلمانوں کے خون کے دریا بہا دے گا
ابومسلم رازی عبدالرحمن سمیری اور سلطان برکیارق کی ماں نے سلطنت کو بھائیوں میں تقسیم بھی کر دیا لیکن باطنیوں کے قتل عام کا فیصلہ اور سلطنت کی تقسیم کا فیصلہ بڑھتے ہوئے جذبات کے زیراثر کیا گیا تھا حسن بن صباح جس قدر بدترین اور خطرناک دشمن تھا اتنا ہی اس کا فرقہ منظم تھا اس کے تخریبکار فدائی اور جاسوس قلعہ الموت سے جتنی بھی دور ہوتے تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے ہوئے ہوتے تھے مثلاً مرو میں طبیب تھا جو اس علاقے کے فدائین کو ایک بےعیب تنظیم اور بڑے سخت ڈسپلن کے تحت اپنے کنٹرول میں رکھتا تھا اور سوچ سمجھ کر تخریبی کاروائیاں کرواتا تھا خانہ جنگی اسی نے شروع کروائی ہر علاقے میں طبیب جیسے آدمی موجود تھے اور ان سب کا رابطہ قلعہ الموت کے ساتھ جاسوسوں اور قاصدوں کے ذریعے تھا ہر روز ایک قاصد تیز رفتار گھوڑے پر مرو سے قلعہ الموت کو روانہ ہوتا تھا اور وہ جس قدر جلدی ممکن ہو سکتا تھا حسن بن صباح کے پاس پہنچتا اور اسے خبریں دیتا تھا
حسن بن صباح کے جاسوس سلطنت سلجوقیہ کے بڑے شہروں اور قصبوں میں اور دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں اس قدر زیادہ آگئے تھے جیسے ایک پتھر اٹھاؤ تو اس کے نیچے سے ایک باطنی جاسوس یا فدائی برآمد ہوتا تھا اس کے مقابلے میں سلطنت سلجوقی حکمران وزیر اور مشیر لشکر کی زبان میں سوچتے اور ایک دوسرے کو مشورے دیتے تھے حسن بن صباح جیسے دشمن کو فوج اور لشکر سے مارنا آسان نہیں تھا
مرو شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی تاکہ کوئی باطنی شہر سے نکل نہ سکے نہ ہی کوئی باطنی باہر سے آ سکے یہ ناکہ بندی دو تین دنوں میں ختم کردی گئی تھی کیونکہ شہر کے لوگ باہر جاکر اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنا اور شہر میں لانا چاہتے تھے تاکہ ان کے باقاعدہ جنازے پڑھے جائیں اور صحیح طریقے سے تجہیزو تکفین کی جائے ان لوگوں کے لیے شہر کے دروازے کھول دیے گئے تھے
دو دن تو باطنیوں کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا اس کے بعد یہ سلسلہ ذرا تھم گیا اور اکا دکا باطنی قتل ہونے لگے ایسے واقعات بھی تاریخ میں ملتے ہیں کہ کسی نے کسی مسلمان کی طرف اشارہ کرکے کہہ دیا کہ یہ باطنی ہے تو مسلمانوں نے اسے قتل کردیا ہر باطنی کو پہچاننا ممکن نہیں تھا یہ باطنی تھے جو مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو ہی قتل کروا رہے تھے
شہر میں امن بحال ہوتا جا رہا تھا سرکاری فوج اور اس کے خلاف لڑنے والے لشکر کے بکھرے ہوئے دستوں کو شہر میں واپس لایا جا چکا تھا ایک روز سلطان برکیارق نے ان سب کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کیا وہ خود گھوڑے پر سوار تھا اس کے پیچھے گھوڑوں پر عبدالرحمن سمیری ابومسلم رازی محمد اور سنجر اور سپہ سالار ابوجعفر اور سالار اوریزی گھوڑوں پر ایک صف میں کھڑے تھے سلطان برکیارق نے اپنے سامنے اتنے بڑے لشکر کو فوجی ترتیب میں کھڑے دیکھا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھا وہ یقینا اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ یہ لشکر جو اس کے سامنے کھڑا تھا دو مخالف حصوں میں بٹ گیا تھا اور دو چار دن پہلے تک یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے خونی دشمن بن گئے تھے اور اب اللہ کا یہ خاص فضل و کرم تھا کہ دونوں حصے ایک ہوگئے تھے اور ان میں پہلے والا بھائی چارہ پیدا ہو گیا تھا
میرے عزیز ہم وطنو! سلطان برکیارق نے بڑی بلند اور پراعتماد آواز میں لشکر سے مخاطب ہوکر کہا تم اللہ کے سپاہی ہو اور اسلام کا تحفظ تمہارا ایمان ہے مجھے بہت ہی دکھ ہے کہ شیطان ہم پر غالب آگیا تھا ہم میں سے کوئی بھی اس کی چالیں نہ سمجھ سکا اور ہم ایک دوسرے سے ٹکرا گئے بھائیوں نے اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانا شروع کردیا
میں اللہ کے حضور اور تم سب کے آگے شرمسار ہوں کہ یہ خون میری گردن پر ہے اسے میری کوتاہی کہہ لو چشم پوشی کہہ لو کچھ کہہ لو میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ خونریزی میرا گناہ ہے اب میں اس گناہ کا کفارہ دوں گا یہ حسن بن صباح کا پیدا کیا ہوا فتنہ تھا اس کے پیروکار ہماری صفوں میں ہمارے ہمدرد بن کر گھس آئے تھے ہم میں سے کوئی بھی انہیں پہچان نہ سکا
یہود و نصاریٰ اسلام کے ہمیشہ دشمن رہے ہیں اور دشمن ہی رہیں گے لیکن حسن بن صباح اور اس کا فرقہ اسلام کے انتہائی خطرناک دشمن ہے کیونکہ یہ ابلیس جس نے اپنے آپ کو امام اور شیخ الجبل کا نام دے رکھا ہے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اب ہماری آنکھ کھل گئی ہے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کی ذات باری نے ہمیں روشنی دکھائی اور ایسے ذرائع پیدا کیے کہ ہم شیطان کے اثر سے نکل آئے اور صراط مستقیم پر چل پڑے ہیں میں تم سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلطان تو ہوں لیکن تمہیں اپنی رعایا نہیں سمجھتا اللہ کی طرف سے مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہی تم سب کی ذمہ داریاں ہیں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہمارا ایمان ہے
تم نے آپس میں قتل و غارت کی ہے اب ایک دوسرے کے عزیزوں کا خون بخش دو اسلام اتحاد کا سبق دیتا ہے اتحاد میں برکت ہے اور اتحاد ایک ایسی طاقت ہے جسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی دیکھ لو ہم آپس میں الجھ پڑے تو اس کا فائدہ ہمارے دشمن کو پہنچا ہم ایک دشمن کے فریب میں آکر ایک دوسرے کا خون بہانے لگے تو اس دشمن نے ہماری بہت سی زمین پر قبضہ کرلیا اب ہم نے نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے یاد رکھو حسن بن صباح اسلام کا اور تمہاری سلطنت کا سب سے بڑا دشمن ہے ہم نے اس کے مقابلے میں ایک لشکر تیار کرنا ہے
تم میں سے جو شہری سرکاری فوج میں یا دوسرے لشکر میں شامل ہوئے تھے اگر فوج میں رہنا چاہتے ہیں اور باطنیوں کو ختم کرنے میں یقین رکھتے ہیں تو بتا دیں انہیں فوج میں رکھا جائے گا اور جو فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے وہ اپنے گھروں کو چلے جائیں لیکن یہ نہ بھولنا کہ کوئی فوجی ہے یا شہری اسے اسلام کی بقا کی جنگ لڑنی ہے جو صرف فوجیوں کا ہی فرض نہیں اس جنگ کے لیے جو جہاد ہے ہر شہری کو تیار رہنا چاہیے یہ جنگ اللہ کے نام پر لڑی جائے گی اللہ ہر وقت اور ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوگا اب تمہیں اپنے دین اور ایمان کو اور اپنے اس جذبے کو مضبوط رکھنا ہوگا اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو گا
صرف یہ تقریر کر دینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گیا کرنے والے کام ابھی پڑے تھے جن میں ایک یہ تھا کہ سلطنت کے دونوں حصوں کے لیے فوج کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنا تھا لیکن یہ سوچنا بھی ضروری تھا کہ ان حالات میں فوج کو الگ الگ دو حصوں میں تقسیم کیا جائے یا ابھی کچھ انتظار کر لیا جائے اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل تھے
شمونہ اور اس کی ماں میمونہ بہت ہی پریشان تھیں پریشانی یہ تھی کہ جو سرکاری اور باغی دستے لڑنے کے لئے شہر سے باہر چلے گئے تھے وہ سب واپس آگئے تھے لیکن مزمل ابھی واپس نہیں آیا تھا زخمیوں کو بھی اٹھا کر لے آئے تھے اور بہت سے آدمیوں کی لاشیں بھی آ گئی تھیں لیکن مزمل کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں شمونہ اور میمونہ کا خیال تھا کہ وہ واپس آ گیا ہوتا تو سب سے پہلے گھر واپس آتا
شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کے لیے ایک مسئلہ بڑا ہی ٹیڑھا تھا جو یہ تھا کہ وہ کھلے بندوں باہر نہیں نکل سکتی تھیں اس کی وجہ پہلے ہی سنائی جا چکی ہے کہ میمونہ بھی حسن بن صباح کے پاس رہ چکی تھی اور شمونہ تو حسن بن صباح کی منظورنظر اور بڑی ہی قیمتی لڑکی تھی دونوں فرار ہوکر ابومسلم رازی کے پاس پہنچ گئی تھیں ابومسلم رازی نے انہیں الگ ایک مکان دے دیا تھا اور کچھ وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا مزمل آفندی بھی ان کے ساتھ رہتا تھا اور اس نے تجارتی کاروبار شروع کر دیا تھا
شمونہ روزینہ کو سلطان برکیارق کے ہاتھوں قتل کروا کے وآپس اپنی ماں کے پاس آ گئی تھی اور اب وہ مرو میں رہتی تھی مزمل آفندی بھی رے سے مرو آ گیا تھا اب ماں بیٹی دیکھ رہی تھی کہ جنہوں نے واپس آنا تھا وہ سب آگئے ہیں اور فوج کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے تو انہیں بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی ایک روز دونوں سلطان برکیارق ان کے چھوٹے بھائی محمد کے پاس چلی گئیں اور اس سے پوچھا کہ مزمل کے متعلق کیا خبر ہے
تمہیں میں کچھ نہیں بتا سکوں گا محمد نے کہا وہ میرے ساتھ رہا تھا تم تو جانتی ہو کہ باطنیوں کے خلاف کس قدر جوشیلا اور بھڑکا ہوا انسان ہے اس نے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیا تھا جس میں دس یا بارہ اس کے اپنے چنے ہوئے جنگجو اور غیر معمولی طور پر دلیر آدمی تھے اس نے سرکاری فوج کے دستوں پر شب خون اور دن کے وقت چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے وہ سرکاری فوج کے دستوں کے لیے ایک بلائی نگہانی یا آسمان سے گرنے والی بجلی بن گیا تھا اس کے متعلق مجھے جو آخری اطلاع ملی تھی وہ بھی ایک شب خون کی کاروائی تھی میں تمہیں وہ جگہ بتا دیتا ہوں اور راستہ بھی سمجھا دیتا ہوں اگر تم کسی آدمی کو وہاں بھیجو تو شاید وہ محمد خاموش ہوگیا
اس کی خاموشی نے شمونہ کو بنیادوں تک ہلا ڈالا وہ سمجھ گئی کہ محمد یہ کہنا چاہتا ہے کہ شاید تمہیں مزمل کی لاش مل جائے
آپ ہمیں وہ جگہ بتا دیں شمونہ نے کہا میں اور میری ماں خود وہاں جائیں گی
تمہارا جانا ٹھیک نہیں محمد نے کہا اگر اس جنگل بیابان میں تمہیں اور کسی نے پہچان لیا تو پھر ہم تمہیں ڈھونڈتے پھریں گے اپنا انجام سوچ لو
اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ سلطان برکیارق کا دربان آگیا اور اس نے محمد سے کہا کہ اسے سلطان بلاتے ہیں وہ وقت ایسا تھا کہ حکمران بہت ہی مصروف تھے ورنہ محمد ان کے ساتھ ایک دو آدمی بھیج دیتا اس وقت وہ اتنا ہی کر سکتا تھا جو اس نے کیا کہ انہیں وہ جگہ بتائی اور وہاں تک کا راستہ سمجھا دیا اور یہ بھی کہا وہ اگر سالار اوریزی سے ملیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے کوئی اور خبر یا اطلاع مل جائے محمد نے انہیں بتایا کہ مزمل کا رابطہ سالار اوریزی کے ساتھ رہتا تھا
شمونہ اور میمونہ وہاں سے سالار اوریزی کے یہاں چلی گئیں اب سالار اوریزی باغی اور مجرم نہیں تھا اس کی سالاری بحال کردی گئی تھی اتفاق سے وہ شمونہ اور میمونہ کو مل گیا اس سے مزمل کے متعلق پوچھا
مجھے امید نہیں کہ وہ زندہ ہو سالار اوریزی نے کہا مجھے وہ جگہ معلوم ہے جہاں مزمل نے اپنے آٹھ مجاہدوں کے ساتھ سرکاری فوج کے ایک دستے کی خیمہ گاہ پر رات کے وقت شب خون مارا تھا بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا تھا ان آدمیوں میں سے کوئی ایک بھی واپس نہ آیا تھا میں نے اگلے روز وہاں جا کر دیکھنا تھا کہ مزمل اور اس کے ساتھیوں کا کیا بنا لیکن سلطان کا بلاوا آگیا کہ لڑائی بند کر دی جائے اور جو کوئی جہاں بھی ہے وہاں سے واپس شہر میں آجائے میرے لیے یہ حکم تھا کہ میں اپنے دستوں کو فوراً اکٹھا کرکے اسکے حکم کی تعمیل کروں یہ ایسی وجہ تھی کہ میں مجبور ہوگیا اور مزمل اور اس کے جانباز جماعت کو دیکھنے جا ہی نہ سکا اگر مزمل زندہ ہوتا تو خود میرے پاس پہنچ جاتا
سالار اوریزی نے ماں بیٹی کو وہ جگہ بتائی یہی جگہ محمد نے بھی بتائی تھی
شمونہ کی جذباتی کیفیت بگڑنے لگی اور اس نے رونا شروع کردیا لیکن وہ مزمل کی لاش دیکھے بغیر تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی کہ مزمل مارا جا چکا ہے
بیٹی! میمونہ نے کہا اس تلخ حقیقت کو قبول کر لو کہ مزمل اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے اگر تم اکیلی یا ہم دونوں گئی تو پہچانی جاسکتی ہیں سوچ لو کیا ہوگا
جو کچھ بھی ہو گا ہوجائے شمونہ نے پرعزم آواز میں کہا اگر مزمل مرچکا ہے تو میں اس کی لاش لاؤ گی اور اسے باقاعدہ دفن کرو گی اور اگر ماں تم ڈرتی ہو تو نہ جاؤ میں اکیلی چلی جاؤں گی
ماں نے شمونہ کو بہت سمجھایا اور اسے نتائج سے ڈرایا لیکن شمونہ کے دل میں مزمل کی جو محبت تھی اس محبت نے شمونہ پر دیوانگی طاری کر دی تھی اس کے لئے مزمل صرف اس لئے اہم نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے کو عشق کی حد تک چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ مزمل ایک جنگجو مجاہد تھا جس نے اپنے خاندان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے چلا گیا تھا
اس رات شمونہ نے اپنی ماں کو سونے نہ دیا اور نہ خود سوئی رات بھر تڑپتی رہی اور ماں کے ساتھ مزمل کی ہی باتیں کرتی رہی ماں نے سوچا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شمونہ کے ساتھ نہ جائے تو شمونہ اکیلی ہی اسے بتائے بغیر چلی جائے اس نے شمونی سے کہا صبح ہوتے ہی اس جگہ روانہ ہوجائیں گے
اگلی صبح سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ شمونہ اپنی ماں کے ساتھ گھر سے نکلی دونوں گھوڑوں پر سوار تھے وہ گھوڑوں کا اور اونٹوں کی سواری کا زمانہ تھا حسن بن صباح کے ہاں جو لڑکیاں تخریب کاری کے لئے تیار کی جاتی تھیں انہیں شہسوار بنا دیا جاتا تھا اور انھیں خنجر تیراندازی کی خاص طور پر ٹرینیگ دی جاتی تھی اور مشق بھی کرائی جاتی تھی اپنے شکار کو زہر کھلانے یا پیلانے کے طریقے بھی بتائے جاتے تھے لڑکیوں کا دل اور حوصلہ مضبوط کرنے کے لیے ہر لڑکی سے چار چار پانچ پانچ زندہ آدمی خنجروں یا تلواروں سے مروائے جاتے تھے یہ بد قسمت آدمی جنہیں لڑکیوں کو ٹریننگ دینے کے لئے مروایا جاتا تھا وہ قید خانے میں بند قیدی ہوتے تھے یا کسی بھی آدمی کو پکڑ کر ایک لڑکی کے حوالے کردیا جاتا اور اسے کہا جاتا کہ خنجر اس کے دل کے مقام پر مارو دل میں اترا ہوا خنجر شکار کو زندہ نہیں رہنے دیتا اور دوسرے وار کی ضرورت نہیں پڑتی ایسے ہی لڑکی کے ہاتھ میں تلوار دے کر ایک آدمی کو اس کے سامنے جھکا دیا جاتا کہ لڑکی ایک ہی وار میں اس کی گردن صاف کاٹ دے
شمونہ نے بھی یہ ٹریننگ حاصل کی تھی اس کی ماں میمونہ بھی خنجر زنی اور تیغ زنی کی سوجھ بوجھ رکھتی تھی
ان دونوں کے جسم سر سے ٹخنوں تک سیاہ لبادے میں ڈھکے ہوئے تھے اور دونوں کے چہروں پر اس طرح نقاب تھے کہ صرف آنکھیں نظر آتی تھیں انہیں جس جگہ جانا تھا وہ شہر سے کم و بیش دس میل دور تھی وہ علاقہ بڑا خوبصورت سبزہ زار تھا درخت بے شمار تھے اور خودرو پودے اور جھاڑیاں بھی تھیں ہرے بھرے فصل بھی کھڑے تھے کچھ علاقہ ہموار اور میدانی تھا جس میں پگڈنڈی گزرتی تھی آگے علاقہ چٹانیں شروع ہو جاتا تھا جس میں ہری بھری اور اونچی نیچی ٹیکریاں بھی تھیں اور ننگی چٹانیں بھی شفاف پانی کی ایک چھوٹی سی ندی بھی اس علاقے میں سے گزرتی تھی اس علاقے میں تو بیل بوٹوں کی مہک ہوا کرتی تھی لیکن اب وہاں بدبو اور تعفن تھا اس فضا میں جس میں یہ روح افزا مہک ہوتی تھی اب مردارخور گدھ منڈلا رہے تھے یہ گدھ نیچے اترتے اور اڑ جاتے تھے گدھ چند ایک نہیں تھے بلکہ فضا میں جدھر بھی نظر جاتی گدھ ہی اڑتے نظر آتے تھے درختوں پر بھی گدھ بیٹھے ہوئے تھے یہ گدھ ان انسانوں کا گوشت نوچ رہے تھے جو خانہ جنگی میں مارے گئے تھے
شمونہ اور میمونہ اس علاقے میں داخل ہو گئے تھے جو کچھ پہلے تک خونریز لڑائی کا میدان جنگ بنا رہا تھا چلتے چلتے شمونہ کی ہلکی سی چیخ نکل گئی اسے ایک بھیڑیا نظر آیا جس کے منہ میں کسی آدمی کا بازو تھا وہ ایک طرف سے آیا اور بڑی تیزی سے شمونہ اور میمونہ کا راستہ کاٹتا ہوا آگے نکل گیا وہ آدھے سے کچھ زیادہ سفر طے کر چکی تھیں جب وہ چٹانی علاقے میں داخل ہوگئی تو انہیں جگہ جگہ انسانی پنجر نظر آنے لگے کھوپڑیاں ادھر ادھر پڑی نظر آتی تھیں بعض کھوپڑیوں پر تھوڑا سا گوشت تھا اور بعض کو درندوں نے بالکل ننگا کردیا تھا کچھ کھوپڑیاں ایسی بھی تھیں جن کی آنکھیں سلامت تھیں اور کھلی ہوئی بھی تھیں لاشوں کو گیدڑ بھیڑیے اودھ بلا اور گدھ کھا رہے تھے کھانے کے لیے اتنی زیادہ لاشیں تھیں کہ یہ درندے جن میں آوارہ کتے تھے آپس میں ذرا سا بھی لڑ نہیں رہے تھے
ان ہڈیوں میں تھوڑی دور کچھ آدمی ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے اور وہ ہڈیوں کے ہر ڈھانچے کو جھک کر دیکھتے اور کھوپڑیوں کو تو وہ خاص طور پر بیٹھ کر اور پہچاننے کی کوشش کرتے تھے وہ اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے لیکن اب کسی کو پہچاننا ممکن نہیں رہا تھا
ماں بیٹی دو چٹانوں کے درمیان سے نکلیں تو آگے پھر علاقہ کھلا اور ہموار آگیا وہ تو کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا دیس معلوم ہوتا تھا جونہی گھوڑے آگے نکلے دونوں گھوڑے یکلخت رک گئے اور کانپنے لگے گھوڑوں کی یہ بے چینی صاف نظر آرہی تھی دونوں گھوڑے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے شمونہ اور میمونہ نے دیکھا کہ ایک دھاری دار شیر جو بہت بڑا بھی نہیں تھا اور بچہ بھی نہیں تھا منہ میں انسانی جسم کا کچھ حصہ پکڑے آرہا تھا اس انسانی جسم کے حصے کی کھوپڑی تھی اور ایک طرف کا کندھا اور آدھا بازو تھا شیر اسے منہ میں لئے آہستہ آہستہ چلتا آیا اور گھوڑوں سے تھوڑی ہی دور ایک طرف کو مڑا اور جھاڑیوں میں اور پھر ایک ٹیکری کے پیچھے غائب ہوگیا اس شیر کو گھوڑوں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اور ڈر کر کانپنے لگے تھے
نہیں نہیں شمونہ نے تڑپ کر کہا مزمل زندہ ہوگا اس کے جسم کو کوئی درندہ کاٹ نہیں سکتا
شمونہ بچوں کی طرح رو پڑی اور اس کی ہچکی بندھ گئی
شمونہ بیٹی! میمونہ نے شمونہ سے کہا میری مانو اور یہیں سے واپس چلی چلو مزمل اگر تمہیں مل بھی گیا تو اسی حالت میں ملے گا جو حال تم ان انسانوں کی دیکھ رہی ہو جو یہاں لڑے تھے مزمل کی کھوپڑی دیکھ کر اگر تم نے پہچان لی تو تم اپنا دماغی توازن کھو بیٹھوں گی
نہیں! شمونہ نے دبی دبی لیکن پرعزم آواز میں کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ مزمل مجھے زندہ مل جائے گا میں اسے دیکھے بغیر واپس نہیں جاؤں گی اگر اس کی کھوپڑی ہی نظر آگئی تو یہ تسکین تو ہو جائے گی کہ وہ مارا جا چکا ہے اور اب اس سے ملاقات اگلے جہان میں ہوگی
شیر کے غائب ہوجانے کے بعد گھوڑے آگے چل پڑے
ایک ہری بھری ٹیکری سے گھوم کر شمونہ اور میمونہ آگے نکلیں تو انہیں ایک بڑے ہی شفاف پانی کی ندی نظر آئی محمد اور سالار اوریزی نے انہیں بتایا تھا کہ راستے میں ایک ندی آئے گی جس میں سے گزر کر آگے جانا ہے اور ذرا ہی آگے ایک قبرستان ہوگا وہ ندی میں سے گھوڑے نکال کر لے گئیں آگے قبرستان بھی آگیا قبرستان کے قریب ہی ایک گاؤں تھا جو اتنا زیادہ آباد نہیں لگتا تھا ماں بیٹی کو اس قبرستان میں سے گزرنا تھا وہ قبرستان میں داخل ہوگئیں انہیں بہت سی تازہ قبریں نظر آئیں جن کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی
اس قبرستان میں ایک قبر کے قریب ایک ضعیف العمر سفید ریش آدمی کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں لمبی لاٹھی تھی اور وہ اس لاٹھی کے سہارے کچھ جھکا ہوا تھا شمونہ اور میمونہ اس کے قریب جا کر رک گئیں
کیا یہ آپ کے کسی عزیز کی قبر ہے؟
شمونہ نے اس سفید ریش بزرگ سے پوچھا
صرف یہی نہیں بزرگ نے پاؤں پر کھڑے کھڑے ہاتھ پھیلائے اور گھوم کر ساری قبرستان کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ سب میرے عزیز ہیں صرف عزیز ہی نہیں میری تو پوری قوم مر گئی ہے یہ سب نئی قبریں جو تم دیکھ رہی ہو میرے ہی عزیزوں کی ہیں اور تم نے راستے میں دیکھا ہوگا کہ جن لاشوں کو بھیڑیے گیدڑ کتے اور گدھ کھا رہے ہیں وہ بھی میرے عزیز ہیں جس قوم میں پھوٹ اس طرح پڑ جائے کہ وہ قوم اپنا ہی خون بہانے پر اتر آئے اس کی لاش کو کتے اور درندے ہی کھایا کرتے ہیں جن دلوں کے دروازے بند کردیے جائیں تو لوگ کہتے ہیں کہ اب دشمن اندر نہیں آسکتا لیکن دلوں کے دروازے اس طرح کھول دیئے جائیں کہ کفار کا طلسم اس میں داخل ہوتا رہے اور کافر حسینائیں بھی اس میں داخل ہوتی رہیں حکمرانی اور زروجواہرات کی ہوس دل کے دروازوں کو کبھی بند نہ ہونے دے تو قلعے اور اونچی اور چوڑی دیواروں اور لوہے جیسے مضبوط اور بند دروازوں کے باوجود ریت کے گھروندے بن جایا کرتے ہیں عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں پھر اپنا سگا بھائی بھی دشمن نظر آنے لگتا ہے ہماری قوم سے اور ہمارے سلطان سے یہی گناہ سرزد ہوا اور دیکھو اس کی سزا کیسے مل رہی ہے ماؤں کے سجیلے بیٹوں کو کتے اور گدھ نوچ رہے ہیں اور ان کی کھوپڑیاں ہر طرف بکھر گئی ہیں یہ تو خوش قسمت تھے جن کی سالم لاشیں ان کے عزیز اٹھالے لائے اور ان کے جنازے پڑھ کر انہیں دفن کیا گیا انہیں دیکھو جن کے نصیب میں نہ کفن تھا نہ جنازہ نہ قبرمیں دفن ہوئے تم کہاں سےآئی ہو اور کدھر جا رہی ہو؟
یہ میری بیٹی ہے میمونہ نے شمونہ کی طرف اشارہ کرکے کہا ہم اپنے ایک عزیز کی لاش کی تلاش میں نکلی ہیں میں اسے بار بار کہہ رہی ہوں کہ واپس چلی چلو میں جانتی ہوں کہ اس کی لاش مل بھی گئی تو برے حال میں ہوگی لیکن یہ نہیں مانتی
اسے ڈھونڈ لینے دو سفید ریش بزرگ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا ورنہ یہ خلش اسے ساری عمر تڑپاتی رہے گی میرے دو جوان بیٹے اس لڑائی میں ضائع ہوگئے ہیں ان کے ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ وہ مارے گئے تھے لیکن ان کی لاشیں نہیں ملیں میں یہاں قبرستان میں آکر فاتحہ پڑھتا ہوں اور اپنے آپ کو یہ یقین دلا رکھا ہے کہ اب ان سب تازہ قبروں میں جو دفن ہے وہ میرے ہی بیٹے ہیں
ماں بیٹی بوجھل دل سے وہاں سے چل پڑیں اور تازہ قبروں کو دیکھتی ہوئی قبرستان سے نکل گئیں آگے علاقہ پھر غیرہموار سا آگیا لیکن تھا وہ بھی بڑا دلکش اور خوبصورت علاقہ ننگی بے آب و گیاہ چٹانیں بھی تھیں اور درختوں اور گھاس سے لدی ہوئی ٹیکریاں بھی وہ چلتی چلی گئیں اور کچھ دور گئیں تو انہیں ایک چٹان کے دامن میں چشمہ نظر آیا سات آٹھ گز کی گولائی میں پانی جمع تھا اور چشمہ چٹان میں سے نکل رہا تھا پانی اتنا شفاف کے تہہ تک چھوٹی چھوٹی کنکریاں اور ذرا ذرا جتنی مچھلیاں بھی نظر آرہی تھیں
شمونہ نے ماں سے کہا کہ وہ پانی پینا چاہتی ہے ماں بیٹی گھوڑے سے اتریں دونوں نے نقاب ہٹا دیے کیونکہ انہوں نے ہاتھوں سے پانی پینا تھا دونوں چشمے کے کنارے بیٹھ گئیں اور چلّو سے پانی پینے لگیں
شمونہ نے ہاتھ پانی میں ڈبو لیے اور چلو سے پانی پینے لگی تو اسے دائیں طرف گھوڑوں کے قدموں کی آہٹ سنائی دی اس نے اور میمونہ نے دائیں طرف دیکھا دو گھوڑے روکے کھڑے تھے اور ان پر دو آدمی سوار تھے ایک ادھیڑ عمر تھا اور دوسرا اس سے کم عمر شمونہ کے چہرے سے نقاب ہٹا ہوا تھا
ادھیڑ عمر گھوڑسوار کو دیکھ کر شمونہ کے ہاتھ روک گئے اور اس کے ہاتھوں سے پانی نکل گیا شمونہ کے چہرے پر گھبراہٹ کا تاثر آگیا گھوڑسوار کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی وہ گھوڑے سے اتر آیا اس کا ساتھی بھی گھوڑے سے اترا شمونہ نے اپنی ماں سے کہا کہ اٹھو چلیں
کیوں کیا ہوا؟
ماں نے شمونہ کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار دیکھ کر سرگوشی میں پوچھا
اس شخص نے مجھے پہچان لیا ہے شمونہ نے اپنے گھوڑے کی طرف جاتے ہوئے دھیمی آواز میں جواب دیا جلدی آ جاؤ ماں یہ اس ابلیس حسن بن صباح کا خاص آدمی ہے
شمونہ اور میمونہ نے اپنے گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا اس لیے وہ چند قدم دور چلے گئے اور گھاس کھا رہے تھے گھوڑے قریب ہوتے تو وہ دونوں فوراً ان پر سوار ہو جاتیں اور ایڑ لگا دیتیں لیکن شمونہ ابھی اپنے گھوڑے تک نہیں پہنچی تھی کہ وہ ادھیڑ عمر شخص اس تک پہنچ گیا اور اس کے راستے میں آن کھڑا ہوا اب اس کی مسکراہٹ اور زیادہ پھیل گئی تھی
بچھڑے ہوئے راہی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر مل جایا کرتے ہیں اس آدمی نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا امام حسن بن صباح کا کوئی ہیرا گم ہو جائے تو کچھ عرصے بعد ہیرا خود ہی امام کے پاس پہنچ جاتا ہے
کون ہو تم ؟
شمونہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر ذرا غصیلی آواز میں کہا تم ڈاکو یا رھزن معلوم ہوتے ہو اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ ہم عورتیں ہیں اور تم ہم پر قابو پا لو گے
کیا تم بھول گئی ہوں میں کون ہوں اس شخص نے کہا امام آج بھی تمہارے لئے چشم براہ ہے آؤ چلیں
مجھے سوچ سمجھ کر ہاتھ لگانا شمونہ نے کہا بہت برے انجام تک پہنچو گے
کیا چاہتے ہو تم ؟
میمونہ نے اس آدمی کے آگے ہو کر پوچھا میری بیٹی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو
شمونہ! اس شخص نے میمونہ کو نظر انداز کرتے ہوئے شمونہ سے کہا میں اتفاق سے ادھر آ نکلا تھا یہاں امام کا گمشدہ ہیرا نظر آگیا میں اس ہیرے کو کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں تمہیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا
وہ شخص میمونہ کو ہاتھ سے ایک طرف کرکے شمونہ کی طرف بڑھا شمونہ کے لئے پیچھے ہٹنے کو جگہ نہیں تھی کیونکہ پیچھے چشمے کا پانی تھا اور وہ بالکل کنارے پر کھڑی تھی اس شخص نے شمونہ کے قریب جا کر اس کے نقاب پر ہاتھ رکھا وہ اس کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہتا تھا شمونہ نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالا وہ شخص سمجھ نہ سکا کے شمونہ کیا کر رہی ہے شمونہ نے اسی تیزی سے ہاتھ باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں لمبا خنجر تھا وہ گھر سے اپنے نیفے میں اڑس کر لائی تھی اس نے بجلی کی ثرعت سے خنجر اس آدمی کے دل میں اتار دیا خنجر کھینچا اور ایک بار پھر خنجر اسی مقام پر مارا
وہ آدمی سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پیچھے ہٹا اب وہ لڑکھڑا رہا تھا شمونہ جانتی تھی کہ یہ شخص اب چند لمحوں کا مہمان ہے اس شخص نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھا اور تلوار نیام میں سے کھینچی لیکن تلوار ابھی آدھی باہر آئی تھی کہ وہ لڑکھڑایا اور ایک پہلو پر گر پڑا
اس دوران اس کا ساتھی جو اس کی نسبت جوان تھا بڑا تیز دوڑتا ادھر آیا میمونہ بھی تیزی سے دوڑی اور سامنے سے اس آدمی کو اپنے ایک کندھے کی ٹکر اتنی زور سے ماری کہ وہ آدمی سنبھلتے سنبھلتے چشمے میں جاگرا وہ تھا ہی چشمے کے کنارے پر
میمونہ کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا چشمہ اتنا گہرا نہیں تھا کہ وہ آدمی ڈوب جاتا وہ پانی میں گرا اور ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ شمونہ نے جھپٹ کر اس پر جست لگائی اور خنجر اس کی پیٹھ میں اتار دیا وہ چشمے میں گری اور اٹھ کھڑی ہوئی اس آدمی کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی تھی شمونہ اٹھ کر سمبھلی اور ایک بار پھر خنجر اس آدمی کے پہلو میں اتار دیا وہ پانی میں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا پانی بمشکل کمر تک گہرا تھا
وہ چل نہیں سکتا تھا وہ پانی میں ہی گر پڑا اور پھر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا شمونہ نے آگے بڑھ کر اسے اوپر سے دبایا اور اسے ڈبو دیا وہ ذرا سا تڑپا اور ختم ہوگیا
شمونہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر چشمے میں سے نکلی دوسرا آدمی باہر مرا پڑا تھا چشمے کا پانی خون سے لال ہونے لگا یہاں سے پانی ایک نالی کی صورت میں باہر کو بہتا تھا اور آگے جا کر ندی میں مل جاتا تھا
چلو ماں! شمونہ نے کہا کتوں اور گدھوں کو اب تازہ گوشت مل جائے گا
شمونہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئی اس کی ماں نے باہر پڑے آدمی کی لاش سے تلوار کھول لی پھر وہ چشمے میں اتری تو اس آدمی کی تلوار بھی اٹھا لی نیام اس کے کمر سے بندھی ہوئی تھی جو اس نے کھول لی میمونہ نے دونوں کے گھوڑے بھی پکڑ لئے ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ چمڑے کا تھیلا بندھا ہوا تھا میمونہ نے وہ تھیلا کھولا تو اس میں کچھ درہم پڑے ہوئے تھے اور باقی سب سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے تھیلا انہی سے بھرا ہوا تھا ماں نے یہ تھیلا کھول کر شمونہ کو دکھایا
یہ لوگوں کو خریدنے کے لیے ساتھ لایا تھا شمونہ نے کہا اگر یہ شخص شہر میں زندہ پہنچ جاتا تو کوئی نیا ہی طوفان کھڑا کر دیتا اب میرا حوصلہ پوری طرح مضبوط ہوگیا ہے میمونہ نے کہا مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ورنہ ایک لڑکی اتنے تنومند آدمی کو یوں آسانی سے قتل نہ کرتی اور جس طرح اس کا ساتھی تمہارے ہاتھوں مارا گیا ہے یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور اللہ نے ہمارا ہاتھ پکڑ رکھا ہے
انہوں نے ان دونوں آدمیوں کے گھوڑوں کی باگیں اپنے گھوڑوں کے پیچھے باندھ لیں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل پڑیں
اب سنو ماں مزے کی ایک بات سناتی ہوں شمونہ نے کہا میں جب حسن بن صباح کے پاس تھی تو اس شخص نے مجھے خنجر زنی اور تیغ زنی اور گھوڑسواری سکھائی تھی، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ دل کہاں ہوتا ہے اور اس میں خنجر کس طرح مارا جاتا ہے یہ شخص میری سکھلائی اس طرح کرتا تھا کہ عام خنجر جتنا لمبا لکڑی کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ میں دے کر سامنے کھڑا ہو جاتا اور کہتا کہ میرے دل کے مقام پر مارو میں اسکی سکھلائی کے مطابق لکڑی کا یہ ٹکڑا اس کے دل کے مقام پر آہستہ سے مارتی تھی پھر یہ مجھے سکھلاتا تھا کہ خنجر کس طرح تیزی سے نکالا جاتا ہے اور دشمن کسی بھی زاویے پر کھڑا ہو اسے کس طرح مارا جاتا ہے میں نے آج اسی کا سکھلایا ہوا داؤ اسی پر استعمال کیا ہے مرتے وقت اسے یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ میں اسکے سکھلائے ہوئے طریقے بھولی نہیں اس نے مجھے یہ بھی مشق کرائی تھی کہ پیٹھ کی طرف سے دل میں خنجر کس طرح اتارا جاتا ہے میں نے چشمے میں اس کے ساتھی کی پیٹھ میں جو خنجر مارا تھا وہ یقینا اس کے دل میں اتر گیا تھا ورنہ وہ اتنی جلدی نہ گرتا
میں تو اللہ کا ہی شکر ادا کرتی ہوں بیٹی! میمونہ نے کہا اللہ کی مدد کے بغیر کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا
کچھ عرصہ یہ میرا محافظ بھی بنا رہا ہے شمونہ نے کہا حسن بن صباح نے جب مجھے پہلے شکار پر بھیجا تھا تو یہ شخص میرا محافظ بن کر میرے ساتھ آیا تھا میں نے پہلا شکار بڑی کامیابی سے پھانس لیا تھا اور جب اس شخص کو یقین ہوگیا کہ میں اپنے کام میں ماہر ہو گئی ہوں اور قابل اعتماد بھی ہوں تو یہ چلا گیا تھا میں نے اسے صرف اس لئے قتل نہیں کیا کہ یہ مجھے اپنے ساتھ پھر حسن بن صباح کے پاس جانے کی کوشش کر رہا تھا بلکہ اسے دیکھ کر میرے دل میں نفرت کا طوفان اٹھ آیا تھا یہ جب میرے ساتھ میرا محافظ بن کر آیا تھا تو اس نے مجھے اپنی چھوٹی بہن تو نہیں سمجھا تھا یہ شیطان میری عصمت کے ساتھ کھیلتا رہا تھا حالانکہ حسن بن صباح کا حکم یہ تھا کہ مجھ جیسی لڑکیوں کے ساتھ ہوس کاری کا کھیل نہ کھیلا جائے تاکہ یہ خاصی عمر تک تندرست اور فرتیلی رہیں اس وقت تو میں نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا تھا نہ اسے گناہ سمجھا تھا کیونکہ حسن بن صباح کے یہاں عصمت اور آبرو نام کی کوئی چیز نہیں یہ احساس کہ میں آبرو باختہ ہوں اس وقت میرے اندر یہ احساس پیدا ہوا تھا جب میں یہاں آگئی اور مجھے تم ملی اور پھر میرے دل میں مزمل کی محبت پیدا ہوئی آج اس شخص کو دیکھا تو میرے وجود میں آگ لگ گئی اور میں نے عہد کر لیا کہ اپنی عصمت کا انتقام لوں گی وہ میں نے لے لیا ہے اور اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری روح ہلکی پھلکی ہوگئی ہے میری پیاری ماں دعا کرو ہمیں مزمل مل جائے
ایک بات سن لو بیٹی! میمونہ نے کہا دل سے یہ یقین نکال دو کہ مزمل تمہیں زندہ مل جائے گا ورنہ تمہیں بہت زیادہ صدمہ ہوگا اس کی بجائے دل میں یہ رکھو کہ مزمل زندہ نہیں ملے گا میں تو کہتی ہوں کہ ہمیں یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ مزمل زندہ نہیں اگر وہ زندہ مل گیا تو تم دیکھنا تمہیں کتنی خوشی حاصل ہوگی
محمد اور سالار اوریزی نے انہیں جو راستہ بتایا تھا اس کی ایک نمایاں نشانی یہ چشمہ تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اس چشمے سے پانی بہہ کر ایک نالی کی صورت میں آگے جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ چلی جانا اور تھوڑی دور آگے وہ جگہ ہے جہاں مزمل نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرکاری فوج کے ایک دستے کے پڑاؤ پر شب خون مارا تھا وہ چشمہ آ گیا اور اب ماں بیٹی اس کے ساتھ ساتھ جا رہی تھیں
وہ بے آب و گیاہ چٹانوں اور ہری بھری ٹھیکریوں کا علاقہ تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پانی کی یہ نالی مڑتی تھی ماں بیٹی اس کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں مڑتے آگے بڑھتے گئے ایک اور موڑ مڑے تو دیکھا یہ پانی خاصی دور تک بہتا تھا
وہ جگہ تو یہی ہے میمونہ نے کہا وہ دیکھو لمبوتری چٹان کھڑی ہے لیکن شمونہ بیٹی تم کو تو عقل نہیں ذرا سوچو مزمل کوئی بے جان چیز تو نہیں کہ کسی نے ہمیں بتایا ہوکے ایک لمبوتری چٹان آئے گی اور وہ چیز جس کا نام مزمل ہے وہاں پڑی ہوئی مل جائے گی بتانے والوں نے تو ہمیں وہ علاقہ بتایا ہے جہاں مزمل نے شب خون مارا تھا ضروری نہیں کہ وہ اس رات سے اب تک یہیں ہو کسی اور طرف نکل گیا ہوگا
میرے دل کی آواز سنو ماں! شمونہ نے ایسے لہجے میں کہا جو اس کا قدرتی لہجہ نہیں تھا میرے دل کی میرے روح کی آواز سنو اسے میرا وہم ہی سمجھ لو لیکن کوئی جذبہ یا کوئی غیبی طاقت مجھے کہہ رہی ہے کہ چلی چلو تمہیں مزمل مل جائے گا
میمونہ نے شمونہ کا یہ لب و لہجہ دیکھا تو اس کے آنسو نکل آئے صاف پتا چلتا تھا کہ شمونہ کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا میمونہ کچھ دیر شمونہ کو دیکھتی رہی شمونہ کا گھوڑا پانی کی نالی سے بائیں طرف اور میمونہ کا گھوڑا دائیں طرف پہلو بہ پہلو چل رہے تھے شمونہ سامنے دیکھ رہی تھی اور میمونہ کی نظریں شمونہ کے چہرے پر لگی ہوئی تھی میمونہ کو بہت دکھ ہو رہا تھا کہ اس کی بیٹی کی جذباتی کیفیت اس کے قابو سے باہر ہو رہی تھی
وہ دیکھو ماں! شمونہ نے چونک کر سامنے اشارہ کیا اور بےتابی سے کہا وہ دیکھو کوئی آدمی ہے
میمونہ نے سامنے دیکھا اسے کوئی آدمی نظر نہ آیا وہاں درخت زیادہ تھے جھاڑیاں بھی تھیں اور گھاس ذرا اونچی تھیں میمونہ کو کوئی آدمی نظر نہ آیا تو اسے بہت ہی دکھ ہوا کہ اس کی بیٹی کو اب اسی طرح کے واہمیں نظر آنے لگے ہیں جیسے ریگستان میں جاتے ہوئے مسافر کو سراب نظر آنے لگتے ہیں اب تو میمونہ کو یقین ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کا دماغ ماؤف ہو گیا ہے
ہوش میں آ شمونہ! میمونہ نے دکھے ہوئے لہجے میں کہا مجھے تو کوئی آدمی نظر نہیں آرہا
وہ چلتے چلتے بیٹھ گیا ہے شمونہ نے کہا وہ دیکھو
اب میمونہ نے ادھر دیکھا تو اسے ایک آدمی نظر آیا جو ایک درخت کے تنے پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا وہ اس سے تیس پینتیس قدم دور ہوگا اس کے کپڑے سرخ رنگ کے تھے وہ اٹھ کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی
صاف پتا چلتا تھا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا اس نے تنے کو دونوں بازو سے پکڑ رکھا تھا چند لمحوں بعد اس نے تنے کو چھوڑا اور آگے کو قدم اٹھایا وہ بمشکل دو یا تین قدم چلا ہوگا کہ اس کے گھٹنے زمین پر جا لگے اور پھر اس نے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک دیے پانی کی نالی اس سے پانچ چھ قدم دور تھی اب اس آدمی نے اٹھنے کی بجائے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل پانی کی طرف چلنا شروع کر دیا میمونہ اور شمونہ نے اپنے گھوڑے ذرا تیز کر دیئے
گھوڑے اس سے دس بارہ قدم دور رہ گئے تو اس آدمی نے ادھر دیکھا اس وقت میمونہ اور شمونہ نے دیکھا کہ اس شخص کے کپڑے جو دور سے سرخ نظر آتے تھے دراصل خون سے سرخ ہوگئے تھے اس آدمی نے ماں بیٹی کو دیکھا تو اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن گرپڑا اس کے قریب چھوٹا سا ایک درخت تھا اس نے اس طرف ہو کر درخت کا سہارا لیا اور اٹھ کھڑا ہوا پیٹھ درخت کے ساتھ لگا لی اور نیام سے تلوار کھینچ لی ماں بیٹی اس کے بالکل قریب پہنچ گئی اور گھوڑے روک لئے میرے قریب نہ آنا اس آدمی نے کہا تم باطنی ہو میرے قریب آؤ گی تو زندہ نہیں چھوڑوں گا مرتے مرتے تم دونوں کو مار کر مروں گا
ماں بیٹی گھوڑوں سے اتری وہ آدمی بہت ہی زخمی تھا اس کے سر پر کپڑا لپٹا ہوا تھا دونوں اس کے پاس جا رکیں اور اس آدمی نے تلوار تان لی
تم مسلمان لگتے ہو میمونہ نے کہا ہم باطنی نہیں ہم اپنے ایک عزیز کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں تمھیں اس حالت میں یہاں چھوڑ کر نہیں جائیں گی دیکھو ہمارے پاس دو فالتو گھوڑے ہیں جہاں کہو گے تمہیں ایک گھوڑے پر ڈال کر پہنچا دیں گے ہم سے نہ ڈرو میرا خیال ہے کہ شہر میں اردگرد کے علاقے میں کوئی باطنی زندہ نہیں
پھر ڈھونڈ لو اپنے عزیز کو اس زخمی آدمی نے مری مری سی آواز میں کہا یہاں اب تمہیں لاشیں ہی ملیں گیں اگر تمہارے عزیز کا چہرہ سلامت ہوا تو پہچان لینا
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
شمونہ نے پوچھا اور کہا اور بتاؤ کہ ہم تمہیں کہاں لے چلیں
میں پانی پینے آیا ہوں اس آدمی نے کہا یہ دیکھو چھاگل یہ بھر کر اپنے ایک ساتھی کے لیے لے جاؤنگا وہ مجھ سے زیادہ زخمی ہے
وہ آدمی جو جواں سال تھا پاؤں پر زیادہ دیر کھڑا نہ رہ سکا شمونہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے چھاگل لے لی یہ چمڑے کا چھوٹا سا ایک مشکیزہ تھا جو اس دور میں مسافر پانی کے لیے استعمال کیا کرتے تھے شمونہ نے اسکا یہ ذرا جتنا مشکیزہ پانی سے بھر لیا اور اسی سے اسے پانی پلایا اور پھر مشکیزے کا منہ بند کر دیا زخمی آدمی نے پانی پی کر لمبا سانس چھوڑا
یہاں قریب ہی ایک غار ہے اس آدمی نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میرا ایک ساتھی مجھ سے زیادہ زخمی حالت میں وہاں پڑا ہے میں نے اسے جا کر پانی پلانا ہے وہ شاید زندہ نہ رہ سکے وہ نہ رہا تو شاید میں بھی نہ رہوں
ہم تم دونوں کو ساتھ لے جائیں گے میمونہ نے کہا چلو ہم تمہیں سہارا دے کر لے چلتی ہیں
ماں بیٹی نے اسے دائیں بائیں ہو کر اٹھایا اور اسے پہلو سے سہارا دے کر آگے کو چل پڑیں زخمی کو اتنا ہی سہارا چاہیے تھا
صرف ایک دکھ ہے زخمی آدمی نے کہا میرے ہاتھوں میرے بھائی قتل ہوئے ہیں میں سرکاری فوج کے خلاف لڑا تھا اس فوج میں میرے بھائی بھی تھے وہ کوئی غیر تو نہیں تھے دیر بعد پتہ چلا یہ فتنہ باطنیوں نے کھڑا کیا تھا زندہ رہنے کی خواہش صرف اس لیے ہے کہ میں حسن بن صباح کو قتل کروں گا
یہ جواں سال آدمی اس قدر زخمی تھا کہ میمونہ اور شمونہ اسے جہاں بھی ہاتھ رکھتی تھی وہ کہتا تھا کہ ہاتھ ذرا نیچے یا اوپر رکھنا یہاں زخم ہے اس نے بتایا کہ وہ دونوں ساتھی بری طرح زخمی ہیں اور اگر انہوں نے مرنا ہوتا تو دو چار دن پہلے ہی مر چکے ہوتے اس نے پرعزم لہجے میں کہا کہ وہ ابھی تک شاید اس لیے زندہ ہیں کہ اللہ نے ان سے کوئی اور کام کروانا ہے ایسی ہی باتیں کرتے کرتے زخمی ماں بیٹی کے سہارے ایک چٹان کے پہلو کی طرف گیا اور وہاں ایک کشادہ غار دیکھا جو زیادہ لمبا نہیں تھا ایک آدمی جس کے کپڑے خون سے لال سرخ تھے لیٹا ہوا تھا یوں لگتا تھا جیسے اس کا جسم جگہ جگہ سے کٹا ہوا ہو وہ پہلو کے بل لیٹا ہوا تھا اور باہر کی طرف اس کی پیٹھ تھی
مزمل بھائی! زخمی جوان نے اسے پکارا اور کہا یہ لوگ تمہارے لئے پانی لے آئے ہیں اور دیکھو اللہ نے ہمارے لیے گھوڑے بھی بھیج دیے ہیں
میمونہ اور شمونہ نے مزمل کا نام سنا تو چونک اٹھیں ادھر غار میں زمین پر پڑے ہوئے زخمی نے کروٹ بدلی تو اس کا چہرہ سامنے آگیا وہ مزمل افندی تھا اس کے چہرے پر بھی کپڑا لگتا ہوا تھا شمونہ اس پر اس طرح جھپٹی جس طرح شیر شکار پر جھپٹتا ہے وہ اس پر جا پڑی اور پھر مزمل مزمل کہتی ہوئی اسے اٹھانے لگی یہ ایک معجزہ تھا کہ مزمل ہوش میں تھا اور اس نے شمونہ اور میمونہ کو پہچان لیا وہ بیٹھ گیا اور شمونہ نے پانی کی چھاگل کا منہ کھولا اور چھاگل اس کے منہ کے ساتھ لگا دی
مزمل نے پانی پی لیا تو اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہ سکا وہ بہت ہی کمزور ھو گیا تھا اور اس کے جسم میں خون کے چند ہی خطرے رہ گئے تھے شمونہ اسے بازوؤں میں لے کر دیوانوں جیسی حرکتیں کر رہی تھی جیسے ماں کو اپنا وہ گم شدہ بچہ مل گیا ہو جس کے ملنے کی امید دم توڑ گئی تھی
میمونہ اور شمونہ نے ایک گھوڑے پر مزمل کو اور دوسرے پر اس کے ساتھی کو اٹھا کر بٹھایا اور یہ قافلہ شہر کی طرف چل پڑا
مزمل کے ساتھی کا نام رحیم ابن یونس تھا اور وہ بن یونس کے نام سے مشہور تھا میمونہ اور شمونہ نے دیکھ لیا تھا کہ ان دونوں کے جسموں سے کافی خون نکل گیا ہے اور یہ صرف پانی پیتے رہے ہیں اور کھانے کو انہیں کچھ نہیں ملا ان کی حالت بتاتی تھیں کہ مرو تک مشکل سے ہی پہنچیں گے
شمونہ بیٹی! میمونہ نے شمونہ کے قریب ہو کر آہستہ سے کہا ان کا علاج معالجہ شاہی طبیب اور جرح ہی کرسکتے ہیں کوئی عام طبیب ان کے جسموں میں جان نہیں ڈال سکے گا
میں انہیں سلطان کے محل میں لے جاؤں گی شمونہ نے کہا ان کی مرہم پٹی اور علاج سلطان کا طبیب کرے گا
سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی جب چار گھوڑے سلطان کے محل کے باہر والے دروازے میں داخل ہوئے دربان شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کو جانتے تھے اس لیے انہیں روکا نہ گیا نہ روکنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ دو گھوڑوں پر دو زخمی اس حال میں سوار تھے کہ وہ زینوں پر بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ آگے کو پیٹ کے بل ہو گئے تھے اور غالبا وہ ہوش میں بھی نہیں تھے
شمونہ گھوڑے سے کود کر اتری اور محل میں داخل ہوگئی وہ سلطان برکیارق کا پوچھ رہی تھی لیکن اسے بتایا گیا کہ سلطان بھی نہیں وزیراعظم سمیری بھی نہیں اور محمد اور سنجر بھی نہیں ہیں یہ پتا چلا کہ برکیارق کی ماں اپنے کمرے میں ہے شمونہ دوڑتی ہوئی اس کمرے میں پہنچی شمونہ نے روزینہ کو سلطان برکیارق کے ہاتھوں قتل کروا کے محل میں بڑا اونچا مقام حاصل کرلیا تھا برکیارق کی ماں نے شمونہ کو دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بازو پھیلا کر شمونہ کو گلے لگا لیا
مادر محترم! شمونہ نے سلطان کی ماں کے بازو سے نکلتے ہوئے اور روتے ہوئے کہا مزمل آفندی مر رہا ہے اللہ کی راہ میں اسے بچا لیں اس کا ایک ساتھی بھی ہے دونوں اتنے زخمی ہیں کہ ان کے جسم میں خون رہا ہی نہیں اپنے طبیب کو بلائیں
سلطان کی ماں شمونہ کے ساتھ باہر کو دوڑی اس نے دیکھا کہ وہ زخمی گھوڑوں پر بے ہوش پڑے ہیں ماں نے حکم دیا کہ طبیب اور جراح کو فوراً لایا جائے
سلطان کی ماں کے کہنے پر کئی آدمی دوڑے آئے اور وہ دونوں زخمیوں کو گھوڑوں سے اتار کر اور اٹھا کر ایک کمرے میں لے گئے طبیب اور جراح بھی آگئے اور انہوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی شروع کردی سلطان برکیارق کی ماں میمونہ اور شمونہ کو اپنے کمرے میں لے گئی میمونہ نے اسے سنایا کہ شمونہ نے کس طرح دو باطنیوں کو چشمے پر قتل کیا ہے
جس وقت ان زخمیوں کی مرہم پٹی ہو رہی تھی اس وقت قلعہ الموت میں حسن بن صباح اپنے اس خصوصی باغیچے میں ٹہل رہا تھا جو اس نے اپنے لئے تیار کروایا تھا اب حسن بن صباح کوئی جادوگر یا شعبدہ باز نہیں تھا نہ وہ اپنے آپ کو سلجوقیوں سے بھاگا ہوا مجرم سمجھتا تھا نہ اس کے دل میں کسی کا خوف یا ڈر سوار تھا وہ تو اب خدا سے بھی نہیں ڈرتا تھا اپنے پیرومرشد اور استاد احمد بن عطاش سے بھی نظر پھیر لیا کرتا تھا اب وہ ایک طاقت بن گیا تھا وہ سلطانوں اور بادشاہوں جیسی حکمرانی نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ لوگوں کے دلوں کا حکمران تھا سلطان اور بادشاہ لوگوں کے جسموں کو غلام بناتے ہیں لیکن جن علاقوں پر حسن بن صباح قابض ہو گیا تھا ان علاقوں کے لوگ اسے دلی اور روحانی طور پر چاہتے تھے وہ اسے امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو اسے نبی مانتے تھے
وہ جب اپنے اس خاص باغیچے میں ٹہل رہا تھا اس کے ساتھ اس کے دو مصاحب اور مشیر بھی تھے
مرو سے آج بھی کوئی خبر نہیں آئی حسن بن صباح نے اپنے مصاحبوں سے کہا وہاں کی خانہ جنگی اب تک اور زیادہ پھیل جانی چاہیے مرو تو خون میں ڈوب ہی رہا ہے میں چاہتا ہوں کے ابومسلم رازی کے شہر رے کی گلیاں بھی خون کی ندیاں بن جائیں لیکن کیا بات ہے کہ ادھر سے کوئی خبر نہیں آرہی
آجائے گی شیخ الجبل! ایک مصاحب نے کہا سلطنت سلجوقیہ کی بنیادیں ہل رہی ہیں مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے گھوڑے سلجوقیوں کی لاشوں کو روندتے کچلتے اور مسلتے ہوئے مرو میں فاتحانہ چال چلتے ہوئے داخل ہوں گے
سورج غروب ہو رہا تھا جب ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگے ٹاپوں کی آواز قریب آ رہی تھی حسن بن صباح اس طرف دیکھنے لگا ذرا ہی دیر بعد گھوڑا اور اس کا سوار نظر آئے سوار قریب آکر گھوڑے سے کود کر اترا اور تیزی سے چلتا حسن بن صباح کے پاس آیا
مروسے آئے ہو؟
حسن بن صبا نے پوچھا
ہاں شیخ الجبل! سوار نے کہا مرو سے یہاں آیا ہوں
قریب سنگ مرمر کا بنا ہوا ایک تخت سا تھا حسن بن صباح اس پر بیٹھ گیا اور قاصد کو اشارہ کیا کہ وہ اس کے سامنے بیٹھ جائے قاصد اور دونوں مصاحب حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئے
کیا مرو والے ابھی تک ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں؟
حسن بن صباح نے شگفتہ سی آواز میں پوچھا
یا شیخ الجبل! قاصد نے کہا میں کوئی اچھی خبر نہیں لایا خانہ جنگی اچانک رک گئی تھی اور یہ سلطان برکیارق کے حکم سے روکی گئی تھی اس کے فوراً بعد حکم ملا کہ جہاں جہاں کوئی باطنی نظر آتا ہے اسے قتل کر دیا جائے سب سے پہلے ہمارا طبیب اور اس کے ساتھی اپنے گھر میں قتل ہوئے ان کے گھر پر چھاپہ پڑا تھا ہمارے آدمیوں کو بھاگنے کا موقع ہی نہ ملا تھا جس کے متعلق ذرا سا بھی شک ہوا کہ یہ ہمارے فرقے کا آدمی ہے اسے قتل کر دیا گیا
یہ ہوا کیسے؟
حسن بن صباح نے بڑی زور سے اپنا ایک پاؤں زمین پر مار کر پوچھا کیا وہ لڑکی روزینہ دھوکہ دے گئی ہے یا مر گئی ہے؟
اسے سلطان برکیارق نے اپنے ہاتھوں قتل کردیا تھا قاصد نے جواب دیا
اگر تم سب کچھ جانتے ہو تو پوری بات سناؤ حسن بن صباح نے کہا
قاصد نے خانہ جنگی کی تفصیلات سنانی شروع کر دی اور بتایا کہ دونوں طرفوں کے لشکر لڑتے لڑتے شہر سے کتنی دور چلے گئے تھے اس نے یہ بھی بتایا کہ رے کا امیر ابومسلم رازی اپنا لشکر لے کر مرو پہنچ گیا تھا اور وہ سرکاری فوج کے خلاف لڑا تھا پھر اس نے بتایا کہ کس طرح خانہ جنگی اچانک رک گئی اور باطنیوں کا قتل عام شروع ہوگیا
یا شیخ الجبل! قاصد نے کہا میں خانہ جنگی رکھتے ہی وہاں سے چل پڑا لیکن میں نے کچھ راز لینے تھے یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ خانہ جنگی کس طرح روکی اور سلطان برکیارق نے یہ حکم کس کے کہنے پر یا کس کے دباؤ پر دیا تھا بڑی مشکل سے راز حاصل کیے
یہ تو بتا چکا ہوں کہ ہماری لڑکی روزینہ کو سلطان برکیارق نے اپنے ہاتھوں قتل کیا تھا طبیب نے سلطان کے محل کے دو ملازم اپنے ہاتھ میں لے لئے اور انہیں مخبر بنالیا تھا انھوں نے بتایا کہ روزینہ کو ہماری ہی ایک مفرور لڑکی شمونہ نے قتل کروایا ہے شمونہ روزینہ کی کنیز بن کر محل میں داخل ہوئی تھی ان ملازموں کو یہ پتا نہیں چل سکا کے شمونہ نے کس طرح سلطان برکیارق کو اپنے اثر میں لے لیا اور روزینہ کو قتل کروایا تھا البتہ یہ خبر ملی ہے کہ اس کارروائی میں سلطان کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی شامل تھا
یہ لڑکی شمونہ اب کہاں ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
وہ مرو میں ہی ہے قاصد نے جواب دیا اس کی ماں جس کا نام میمونہ ہے وہ بھی اس کے ساتھ ہے
شمونہ ابھی تک وہاں سے اٹھائی کیوں نہیں گئی حسن بن صباح نے غصیلی آواز میں کہا میں کب کا حکم دے چکا ہوں کہ اس لڑکی کو زندہ میرے سامنے لایا جائے کیا میرے فدائی میرا یہ حکم بھول گئے ہیں یا ان میں اتنی ہمت ہی نہیں رہی
صرف شمونہ ہی نہیں یا شیخ الجبل! قاصد نے کہا ہماری ایک اور عورت جس کا نام رابعہ ہے وہ بھی سلطان کے محل میں چلی گئی تھی اس نے ایسے لوگوں کے نام اور پتے بتائیے جو ہمارے خاص آدمی تھے ان سب کو سلطان نے قتل کروا دیا ہے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے کچھ اور آدمیوں کو سلطان کی فوج نے پکڑ لیا تھا اور ان پر اتنا زیادہ تشدد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کی نشاندہی کردی اس طرح ہمارے آدمی مارے گئے
اور یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے فرقے کے قتل عام کا حکم ابومسلم رازی نے دلوایا ہے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی اس کے ساتھ ہے اس وقت صورت یہ ہے کہ سلطان برکیارق ان دونوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے پھر ایک خبر یہ بھی ہے کہ عبدالرحمان سمیری ابومسلم رازی سلطان برکیارق کی ماں نے سلطنت سلجوقی حکومت دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے ایک حصے کا سلطان برکیارق ہوگا اور دوسرا حصہ برکیارق کے چھوٹے بھائیوں محمد اور سنجر کو دے دیا گیا ہے لیکن برتری اور مرکزیت سلطان برکیارق کو حاصل ہوگی تاکہ دونوں حصوں کا اور ان کی فوجوں کا اتحاد قائم رہے
ابومسلم رازی اور عبدالرحمن سمیری کو اب تک زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا حسن بن صباح نے کہا رے میں ایک مشہور عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی ہے مجھے پہلے اطلاع مل چکی ہے کہ یہ عالم ابومسلم رازی کا پیرومرشد بنا ہوا ہے اور رازی اس کے مشوروں اور تجویزوں پر عمل کرتا ہے اس عالم کو بھی ان دونوں کے ساتھ ختم کرنا ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ رے میں گیا تو ابومسلم رازی نے میری گرفتاری کا حکم دے دیا تھا یہ تو مجھے بر وقت پتہ چل گیا اور میں وہاں سے بھاگ کر مصر چلا گیا تھا واپس آیا تو بھی رازی نے میری گرفتاری کا حکم دے دیا اس کا بھی مجھے پہلے ہی پتہ چل گیا اور میں وہاں سے ایک بہروپ دھار کر بھاگ نکلا یہ شخص اسلام کا شیدائی اور سلجوقیوں کی سلطنت کا خیرخواہ بنا ہوا ہے اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں سب سے پہلے میں اس کا پتا کاٹونگا اس کے پیرومرشد ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کو بھی صاف کرا دوں گا
سورج کبھی غروب ہوچکا تھا حسن بن صباح وہی بیٹھنا چاہتا تھا اس لئے فانوس وہی لائے گئے اور رات کو دن بنا دیا گیا حسن بن صباح کے حکم سے شراب کی صراحی اور پیالے وہی آگئے شراب پلانے کے لیے تین چار انتہائی خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں آگئیں ان کے نیم برہنہ جسموں کی خوبصورتی کو صرف جنت کی حوروں سے ہی تشبیہ دی جاسکتی تھی
حسن بن صباح نے چار پانچ آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فوراً بلایا جائے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ یہ سب آدمی دوڑے آئے حسن بن صباح نے انہیں بتایا کہ مرو میں کیا ہوا ہے اور اس کے جواب میں انہیں کیا کرنا ہے یہ آدمی تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے باطنی تخریب کاروں فدائیوں اور جاسوسوں کو سرگرم رکھتے اور ان سے اطلاعیں وصول کیا کرتے تھے
ایک ایک باطنی کے بدلے دس دس مسلمانوں کو قتل کرنا ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن سب سے پہلے ان کے سربراہوں اور قائدین کو ختم کرو تین نام یاد کر لو رے کا حاکم ابو مسلم رازی سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری رے کا ایک عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی سب سے پہلے ان تینوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دو اس کے بعد بتاؤں گا کہ کس کی باری ہے
مشہور تاریخ نویس ابن جوزی اور ابن اثیر نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح صرف مرو یا رے کے مسلمانوں سے باطنیوں کے قتل عام کا انتقام نہیں لینا چاہتا تھا بلکہ اس کی نظریں اصفہان پر لگی ہوئی تھیں دوسرے مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ وہ اصفہان کو اپنا مرکز بنانا چاہتا تھا اس نے اصفہان میں بھی اپنا جال بچھا رکھا تھا مورخوں کے مطابق اس نے اسی محفل میں ایک پلان بناکر اپنے خاص کارندوں کو دے دیا تھا کہ اصفہان میں مسلمانوں کو ایسے خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ انہیں کون قتل کر رہا ہے
تاریخوں سے ایک شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ حسن بن صباح نے یہ حکم دیا تھا کہ اصفہان میں مسلمانوں کو قتل کرکے غائب کر دیا جائے یہ پتہ ہی نہ چلے کہ جو آدمی غائب ہوگئے ہیں وہ زندہ ہیں یا مارے گئے ہیں
اس کی جنت دور دور تک مشہور ہوگئی تھی اور نوجوان اس جنت کو دیکھنے کے لئے بڑی دور کا سفر کرکے قلعہ الموت جاتے تھے وہاں حسن بن صباح کے تجربے کار کارندے ان نوجوانوں پر نظر رکھتے اور ان میں سے اپنے مطلب کے لڑکے منتخب کرلیتے اور انہی اس جنت میں داخل کر دیتے تھے
یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جو کوئی ایک بار اس جنت میں چلا جاتا تھا تو وہ دنیا کو بھول جاتا بلکہ اپنی اصلیت اپنی ذات بھی اسے یاد نہیں رہتی تھی پہلے کسی سلسلے میں بیان ہو چکا ہے کہ اس جنت میں حشیش تھی اور حوریں تھیں قدرت نے اس خطے کو ایسا حسن دیا تھا کہ حشیش اور حسین لڑکیوں کے بغیر بھی وہ خطہ جنت نظیر تھا اب تو اس جنت میں چشمے پھوٹ پڑے تھے جس میں رنگین مچھلیاں چھوڑ دی گئی تھیں اس جنت میں سے جو فدائی تیار ہو کر نکل رہے تھے جو حسن بن صباح کے حکم سے دوسروں کو تو قتل کر دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھی قتل کر دینے میں وہ فخر محسوس کرتے تھے ان فدائیوں کو مسلمانوں کے علاقوں میں پھیلایا جا رہا تھا
حسن بن صباح کے یہاں تبلیغ بہت کم اور زیادہ تر قتل و غارت گری تھی اس کا اصول اور طریقہ کار یہ تھا کہ علماء اور دیگر قائدین کو قتل کر دیا جائے اور عوام کو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بنا کر انہیں ہانک کر اپنے زیر اثر لے لیا جائے
مرو میں امن قائم ہوچکا تھا امن کا مطلب یہ کہ اب وہاں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا لیکن جن گھروں کے جوان بیٹے اس لڑائی میں مارے گئے تھے ان گھروں میں ابھی تک ماتم ہو رہا تھا اگر انہوں نے کفار کی کسی فوج سے لڑائی لڑی ہوتی تو وہ لوگ فخر سے بتاتے کہ ان کا بیٹا حق و باطل کے اس معرکے میں شہید ہوا ہے لیکن وہاں تو بھائیوں نے بھائیوں کا خون بہا دیا تھا البتہ حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اٹھ آیا تھا ہر کسی کو معلوم تھا اور ہر کسی کو بتایا گیا تھا کہ یہ سارا فتنہ باطنیوں نے زمین دوز طریقوں سے شروع کیا تھا
ابومسلم رازی ابھی مرو میں ہی تھا اس نے اپنا لشکر اپنے شہر رے کو بھیج دیا تھا وہ خود اس لئے رک گیا تھا کہ مرو میں تینوں بھائیوں سلطان برکیارق محمد اور سنجر میں سلطنت کی تقسیم کے متعلق امور طے کرنے تھے اس نے دو چار دنوں بعد وہاں سے رے کو روانہ ہونا تھا
مزمل آفندی اور اس کا ساتھی بن یونس موت کے شکنجے سے نکل آئے تھے انہیں دودھ اور شہد پلایا جا رہا تھا اور ایسی غذا دی جارہی تھی کہ ان کا جو خون ضائع ہوگیا تھا وہ پورا ہونا شروع ہوگیا زخم بھی ٹھیک ہو رہے تھے اور اب وہ دونوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے تھے اور بڑی آسانی سے باتیں بھی کرلیتے تھے
سلطان برکیارق اور ابومسلم رازی کو جب پتہ چلا کہ مزمل آفندی زخمی ہوکر آیا ہے تو دونوں بڑی تیزی سے محل میں آئے اور اسے دیکھا تھا انہوں نے طبیب اور جرح سے کہا تھا کہ یہ بہت ہی قیمتی آدمی ہے اسے ہر قیمت پر زندہ رکھنا ہے اور پھر اس میں وہی روحانی اور جسمانی توانائی پیدا کرنی ہے جو زخمی ہونے سے پہلے ہوا کرتی تھی
امیر محترم! مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا میں آج ہی آپ کو بتا دیتا ہوں کہ پوری طرح صحت یاب ہوکر میں اپنے ساتھی بن یونس کے ساتھ قلعہ الموت جاؤنگا اور حسن بن صباح کو قتل کر کے ہی واپس آؤں گا ورنہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی واپس نہیں آئیں گے
پہلے صحتیاب ہو لو ابومسلم رازی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ تو ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہا حسن بن صباح اور اسکے باطل فرقے کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنی جانوں کی قربانیاں دینی پڑے گی ابھی اپنے خون کو اتنا جوش نہ دو پہلے تندرست ہو جاؤ
دو تین دنوں بعد ابومسلم رازی مرو سے رے کو روانہ ہونے لگا سلطان برکیارق اس کے بھائیوں اور اس کی ماں نے ابومسلم رازی کو شاہانہ طریقے سے بڑے تپاک سے رخصت کیا اس کی مزید تعظیم اس طرح کی گئی کہ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اسے الوداع کہنے کے لئے شہر سے باہر تک اس کے ساتھ روانہ ہوگیا وہ دونوں پہلو بہ پہلو گھوڑوں پر سوار چل پڑے ان کے پیچھے آٹھ دس محافظوں کا دستہ تھا اس کے پیچھے اونٹوں اور خچر گاڑی پر سامان وغیرہ جا رہا تھا
سمیری بھائی! چلتےچلتے ابومسلم رازی نے سلطان کے وزیراعظم سے کہا ان لڑکوں پر نظر رکھنا اور انہیں قابو میں رکھنا آپ کا کام ہے بیشک برکیارق راستے پر آ گیا ہے لیکن جوان آدمی ہے کہیں بھٹک نہ جائے اور دوسرے بھائی اس سے چھوٹے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عقل کی بجائے ذاتی جذبات سے سوچنا اور عمل کرنا شروع کردیں حسن بن صباح کا قلع قمع کرنا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں انہیں کھلی جنگ اور حملے سے ختم نہیں کیا جاسکتا میں الموت کی بات کر رہا ہوں ہمیں کچھ اور طریقے سوچنے پڑے گے بہرحال میں آپ سے آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ فرض آپ کا ہے ان لڑکوں پر بھروسہ نہ کرنا
آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میں نے زمین کے نیچے نیچے کیسی کیسی کاروائیاں کی ہیں عبدالرحمن سمیری نے کہا میں آپ کا ہم خیال ہوں آپ کے ساتھ رابطہ رکھوں گا آپ نے بجا فرمایا ہے کہ یہ کام ہم جیسے تجربہ کار اور گہری سوچ وفکر والے آدمیوں کے کرنے کا ہے اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے عبدالرحمن سمیری کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک غریب سا ادھیڑ عمر آدمی ان کے راستے میں سامنے آ کھڑا ہوا اس کی خشخشی داڑھی تھی اور وہ بوسیدہ سا چغہ پہنے ہوئے تھا اس کے چہرے پر اداسیوں کی گہری پرچھائیاں تھی اور تاثر ایسا جیسے وہ مظلوم اور التجا کرنا چاہتا ہو ابومسلم رازی بڑا ہی رحم دل آدمی تھا عبدالرحمن سمیری بھی رحم دلی میں کم نہ تھا دونوں نے گھوڑے روک لیے
یا امیر! اس آدمی نے ہاتھ جوڑ کر ذرا آگے آتے ہوئے کہا ذرا رک جا اور ایک مظلوم باپ کی فریاد سنتا جا
کہو میرے بھائی! ابومسلم رازی نے کہا کہو کیا کہنا چاہتے ہو میں تمہاری مدد کروں گا پھر یہاں سے آگے قدم اٹھاؤ نگا
یا امیر! اس مفلوک الحال آدمی نے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے اور ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا لڑائی تو امیروں اور بادشاہوں کی تھی لیکن میرا ایک ہی ایک جوان بیٹا اس لڑائی میں مارا گیا ہے اگر میرا بیٹا کفار کے مقابلے میں لڑتا ہوا جان دے دیتا تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی بلکہ میں فخر سے اپنا سر اونچا کرکے کہتا کہ میں نے اپنا ایکلوتا بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ہے لیکن یہ کیسی لڑائی تھی جس میں بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا اور تم اپنی فریاد سناؤ میرے بھائی! ابومسلم رازی نے کہا وہ تو میں جانتا ہوں کہ یہ کیا ہوا تھا تم جو چاہتے ہو وہ بتاؤ تاکہ میں تمھاری مدد کروں
اے رحمدل امیر! اس آدمی نے کہا تیرے متعلق جو سنا تھا تو ایسا ہی نکلا اللہ نے تیرے دل میں رحم ڈالا ہے کچھ رحم مجھ پر بھی کردے یہ آدمی جس نے گھٹنے پہلے ہی زمین پر ٹیکے ہوئے تھے سجدے میں چلا گیا اور سجدے میں بولا میں جانتا ہوں کے سجدہ صرف خدا کے آگے کیا جاتا ہے لیکن میں تیرے آگے سجدہ کرتا ہوں
کھڑے ہو کر بات کرو بھائی! ابومسلم رازی نے کہا مجھے گنہگار نہ کرو کہو کیا بات ہے
اس آدمی نے سجدے سے سر اٹھایا اور پھر ہاتھ جوڑ کر بولا مجھے بتائیے امیر میں کہاں جاؤں میری فریاد کون سنے گا تو گھوڑے پر سوار ہے اور میں خاک نشین ہوں میری آواز تیرے کانوں تک نہیں پہنچ پائے گی
ابومسلم رازی کی رحم دلی اور انسان دوستی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھوڑے سے اتر آیا وہ پہلے ہی یہ صدمہ دل پر لئے ہوئے تھا کہ اس آدمی کے بیٹے جیسے نہ جانے کتنے بیٹے خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں اب وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک غریب آدمی جس کا ایکلوتا بیٹا مارا گیا ہے اس کے آگے سجدہ کر رہا ہے
ابومسلم رازی اس کے قریب پہنچا تو وہ آدمی ایک بار پھر سجدے میں چلا گیا رازی نے دیکھ لیا تھا کہ اس آدمی کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے اس نے اس مظلوم آدمی کے اوپر جھک کر اس کے دونوں بغلوں میں ہاتھ رکھے اور اسے اٹھنے کو کہا اور اسے اٹھانے بھی لگا اس وقت ابومسلم رازی رکوع کی حالت میں اس آدمی کے اوپر جھکا ہوا تھا اور وہ آدمی اس کے نیچے تھا
اس آدمی نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھتے اٹھتے اپنے بوسیدہ چغّے کے اندر کیا اور پھر بڑی تیزی سے ہاتھ باہر نکالا پیشتر اس کے کہ ابو مسلم رازی یا کوئی اور دیکھ سکتا کہ اس آدمی کے ہاتھ میں خنجر ہے خنجر ابومسلم رازی کے سینے میں اترچکا تھا اس آدمی نے نیچے سے خنجر کا وار کیا تھا ابومسلم رازی تیزی سے سیدھا ہوا تو اس آدمی نے اٹھ کر دو بار پھر اس کے سینے میں خنجر مارے ابومسلم راضی تیورا کر گرا اور اس کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے
محافظ گھوڑوں سے کود کر اترے اور ابو مسلم رازی کی طرف دوڑے عبدالرحمن سمیری بھی گھوڑے سے اتر آیا اور اس نے ابومسلم رازی کو سہارا دیا لیکن ابومسلم رازی کے گھٹنے زمین سے لگ چکے تھے
باطنی کو وہی پکڑنا تھا لیکن قاتل نے چند قدم پیچھے ہٹ کر اپنے خنجر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اپنے سر کے اوپر کرکے نعرہ لگایا یا شیخ الجبل تیرے نام پر اپنی جان قربان کر رہا ہوں تیرے حکم کی تعمیل کردی ہے اس نے خنجر زور سے نیچے کو کھینچا اور اپنے دل میں اتار لیا ذرا سی دیر وہ پاؤں پر کھڑا رہا پھر گر کر ایک طرف کو لڑھک گیا محافظوں نے اسے اٹھانا چاہا لیکن وہ مر چکا تھا
چونکہ وزیراعظم اور رے کا امیر جا رہے تھے اس لیے لوگ راستے کے دونوں طرف اکٹھے ہوگئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ ایک آدمی نے امیر رے کو قتل کردیا ہے تو وہ قاتل پر ٹوٹ پڑے اسے تلواروں اور خنجروں سے قیمہ کر دیا اور جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا اس نے پتھر اٹھا اٹھا کر اسے مارے اور ذرا سی دیر میں قاتل کے جسم کے چھیتھڑے کر دیے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:39 }
ابومسلم رازی کی لاش گھوڑے پر ڈال کر واپس سلطان برکیارق کے محل میں لے جائی گئی وہاں تو کہرام بپا ہوگیا
ابومسلم رازی کی میت کو مرو میں ہی آخری غسل دے کر کفن پہنا دیا گیا تھا ایک قاصد کو رے کی طرف دوڑا دیا گیا تھا کہ وہ ابومسلم رازی کے خاندان کو اس حادثے کی اطلاع دے دے اور یہ بھی بتائیے کہ اس کی میت لائی جارہی ہے
ابومسلم رازی ایک تاریخ ساز شخصیت تھی حسن بن صباح نے اسے قتل کروا کر ایسا خلا پیدا کر دیا تھا جسے اب کوئی اور پورا نہیں کر سکتا تھا
جب ابو مسلم رازی کی میت رے پہنچی تو سارا شہر ہی ٹوٹ پڑا ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر کوئی جانتا تھا کہ اسے باطنیوں نے قتل کیا ہے لوگ بلند آواز سے حلف اٹھا رہے تھے اور یہ عہد کر رہے تھے کہ وہ اپنے امیر کے خون کا انتقام لیں گے
اس قتل کی اطلاع شہر سے باہر دور دور تک پہنچ گئی تھی اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے جب جنازہ اٹھا تو رے کی فضا میں صرف آہ و بکا اور عورتوں کے بین سنائی دے رہے تھے جنازہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں پڑھا گیا عورتیں چھتوں پر کھڑی رو رہی تھی اور بچے بھی جنازے میں شامل ہوگئے تھے لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم کبھی کم ہی دیکھنے میں آیا تھا
جنازہ ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے پڑھایا جنازہ کے بعد اس نے لوگوں کو بیٹھ جانے کو کہا پھر اس نے بڑی بلند آواز میں لوگوں کو مختصر سا خطاب کیا
اے لوگو! ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے کہا ہوش میں آؤ اور اپنے دین و ایمان کو اور زیادہ مضبوط کرو ابومسلم رازی کو اس ابلیس حسن بن صباح نے قتل کرایا ہے اس سے ہماری قوم کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی صرف ابومسلم رازی ہی کر سکتا ہے لیکن عہد کر لو کہ ہمیں ایک اور ابو مسلم رازی پیدا کرنا ہے پروانے جل جل کر مرتے رہتے ہیں اور شمع جلتی رہتی ہے ہمیں اسلام کی شمع کو جلتا رکھنا ہے اور اس پر اسی طرح جل جل کر مرنا ہے انسان مرتے جاتے ہیں لیکن دین اور ایمان زندہ رہتے ہیں کچھ اور انسان آتے ہیں جو پہلے انسانوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں اب ہر آدمی اس عزم کو اپنے ایمان میں شامل کرلیں کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے اور اس کے فرقے کا نام و نشان مٹا دینا ہے لیکن سوچنا عقل سے جذبات کی شدت اور جوش سے نہیں لوگوں میں اس قدر جوش و خروش اور ایسا غم و غصہ تھا کہ انھوں نے اس عالم کی آگے کوئی بات نہ سنی اور نعرے لگانے شروع کر دیئے اگر انہیں اشارہ بھی دیا جاتا کہ ابھی قلعہ الموت پر حملہ کرنا ہے تو سب اسی حالت میں چل پڑتے اور کچھ بھی نہ سوچتے فاضل اصفہانی نے ہاتھ کھڑے کر کے لوگوں کو خاموش کیا اور دعا پڑھنے لگا لوگوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور ہجوم میں سے راستہ بناتا ہوا مجید فاضل اصفہانی کے پاس جا کھڑا ہوا اور اس نے لوگوں کی طرف منہ کر لیا وہ اس عالم کے پہلو کے ساتھ کھڑا تھا
اے لوگو! اس آدمی نے کہا تم جوش میں آ کر نعرے لگا رہے ہو تم نہیں جانتے کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا کس قدر مشکل کام ہے اس کے لیے صرف دو تین آدمیوں کی ضرورت ہے میں اس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی جان کو پیش کرتا ہوں مجھے دو آدمیوں کی ضرورت ہے
تم ابھی بیٹھ جاؤ میرے عزیز! ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے اس آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ معاملہ ایسا نہیں جو یہاں جذبات کے جوش میں طے کر لیا جائے اس پر بعد میں غور کیا جائے گا
میں نے غور کر لیا ہے اس آدمی نے کہا اور بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا ہوا میں لہرایا اور اس کا یہ خنجر ابو المظفر مجید فاضل اصفہانی کے سینے پر اس جگہ اتر گیا جہاں دل ہوتا ہے اس شخص نے دو وار اور کئے اور بیشتر اسکے کہ لوگ اٹھ کر اسے پکڑ لیتے اس نے اپنا خنجر ہوا میں بلند کرکے نعرہ لگایا شیخ الجبل کے نام پر اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا وہ گرا اور مر گیا یہ ایک اور تاریخی شخصیت تھی جسے حسن بن صباح نے قتل کرایا تھا مجید فاضل اصفہانی صرف عالم ہی نہیں تھا بلکہ وہ عمل کے میدان کا سپاہی تھا حقیقت پسند اور کچھ کر کے دکھا دینے والا ابو مسلم رازی اور مجید فاضل اصفہانی کے قاتل دو تین دن پہلے قلعہ الموت سے آئے تھے
ابومسلم رازی کو دفن کر دیا گیا اور اس کے پیر استاد مجید فاضل اصفہانی کی میت کو اٹھا کر اس کے گھر لے گئے اگلے روز اسی بے پناہ اور بے قابو ہجوم نے اپنے اس عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کا جنازہ پڑھا بے قابو اس لیے کہ ہر کوئی غم و غصے سے پھٹا جا رہا تھا لیکن یہ لوگ اب قیادت سے محروم ہو گئے تھے سلطان برکیارق اور اس کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیر وہیں رکے رہے تھے جنازے کے بعد عبدالرحمن سمیری نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور اپنی عقل پر پردہ نہ پڑنے دیں ان شاءاللہ ان عظیم شخصیتوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا
سلطان برکیارق محمد سنجر ان کی ماں اور ان کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری مرو چلے گئے تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ رے کا شہر اور علاقہ ابومسلم رازی کے بعد کس امیر کو دیا گیا تھا ایک اشارہ ملتا ہے کہ سلطان برکیارق نے اس علاقے کو اپنی عملداری اور نگرانی میں رکھ لیا تھا
ان لوگوں کے دلوں پر بہت ہی بوجھ تھا ایک تو صدمہ تھا اور دوسرے یہ سوچ اور فکر کہ حسن بن صباح کا ہاتھ کس طرح روکا جائے مرو پہنچتے ہی ان لوگوں نے اپنے سالاروں کو بلایا اور باقاعدہ اجلاس میں غور کیا گیا کہ باطنیوں کا قلع قمع کس طرح کیا جاسکتا ہے
اس اجلاس میں کئی ایک طریقے سوچے گئے اور منصوبے بھی بنائے گئے اور اجلاس برخاست ہو گیا ایک فیصلہ یہ ہوا کہ سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن فوج کو ابھی تقسیم نہ کیا جائے ورنہ ہمارا دشمن اتنا شعبدہ باز اور چالاک ہے کہ وہ ان دونوں حصوں کو الگ الگ الجھا کر نقصان پہنچائے گا
جب اجلاس برخاست ہوا تو سلطان برکیارق اور عبدالرحمن سمیری کو دربان نے اطلاع دی کہ تین آدمی بڑی دور سے آئے ہیں اور وہ انہیں ملنا چاہتے ہیں
پہلے ان کی تلاشی لو سلطان برکیارق نے کہا تلاشی بڑی سختی سے لینی ہے ان کے پاس چھوٹا سا چاقو بھی نہیں ہونا چاہیے
کچھ دیر بعد یہ تین آدمی کمرے میں لائے گئے اور بتایا گیا کہ یہ بالکل نہتے ہیں اور بہت دور سے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ ایک شہر ابہر کے رہنے والے ہیں اور تجارت پیشہ ہیں وہ جو مسئلہ لے کر آئے تھے وہ یوں تھا کہ شہر کے قریب ایک قلعہ وسم کوہ پر تھا وسم کوہ ایک پہاڑی تھی جس پر یہ قلعہ بنا ہوا تھا ان آدمیوں نے بتایا کہ اس قلعے پر باطنی فدائی قابض ہوگئے ہیں اور وہاں انہوں نے کسی مسلمان کو زندہ نہیں رہنے دیا انہوں نے بتایا کہ اس قلعے کے قریب سے چھوٹے بڑے قافلے اور ایکّے دکّے آدمی یا پورے پورے خاندان گزرتے رہتے ہیں یہ باطنی فدائی انہیں لوٹ لیتے ہیں اور سارا مال قلعے میں لے آتے ہیں اور یہاں سے یہ مال قلعہ الموت جاتا ہے
یہ آدمی عقلمند معلوم ہوتے تھے اور جنگی امور سے بھی کچھ واقفیت رکھتے تھے انہوں نے بتایا کہ ان فدائیوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں اور وہ باقاعدہ فوجی بھی نہیں ان میں صرف یہ طاقت تھی کہ اپنی جان پر کھیل جاتے تھے لیکن عسکری طریقوں سے بالکل ناواقف تھے
اگر آپ فوج لے کر آئیں تو آپ کو وہاں کے لوگوں کی مدد بھی مل سکتی ہے اس وفد کے ایک آدمی نے کہا وہاں سے قلعہ الموت بہت دور ہے ان قلعہ بند باطنیوں کو کہیں سے مدد یا کمک نہیں مل سکتی اگر اس قلعے پر قبضہ کرلیا جائے تو اتنی زیادہ باطنی ہاتھ آئیں گے جنہیں قتل کیا جائے اور مال و متاع اور جواہرات کا تو کوئی حساب ہی نہیں
کچھ بحث وتمحیص کے بعد سالار اوریزی نے کہا کہ وہ اس قلعے کا محاصرہ کرے گا اور ان شاءاللہ کامیاب بھی ہوگا قلعہ کچھ دور تھا سلطان برکیارق اور عبدالرحمن سمیری نے اسے اجازت دے دی اور محاصرے کا منصوبہ تیار ہونے لگا
دو ہی دنوں بعد سالار اوریزی نے مطلوبہ فوج تیار کرلی اور رخصت ہونے لگا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے اس فوج کو رخصت کرنا تھا جیسے کہ اس زمانے میں رواج تھا سمیری گھر سے نکلا اور اس جگہ کی طرف چل پڑا جہاں فوج تیار کھڑی تھی راستے میں اس نے دیکھا کہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس عورت زمین پر بیٹھی تڑپ رہی ہے اور زمین پر ماتھا مار رہی ہے وہ روتی اور بین کرتی تھی
ایک آدمی اس کے پاس بیٹھ کر اسے بہلانے لگا لیکن عورت ایک ہی رٹ لگائے جا رہی تھی میرا بچہ میرا بچہ مجھے واپس لادو سلطان مر گیا ہے جو میرے بچے کو واپس نہیں لاتا
عبدالرحمن سمیری نے گھوڑا روک لیا اور اس آدمی سے پوچھا کہ عورت کی یہ حالت کیوں ہو رہی ہے
اس بیچاری کا ایک کمسن بچہ باطنی اٹھا کر لے گئے ہیں اس آدمی نے بتایا یہ کہتی ہے کہ ان لوگوں کو جانتی ہے اور وہ ابھی شہر میں ہی ہیں لیکن اس کی فریاد کوئی نہیں سنتا
عبدالرحمن سمیری سے اس عورت کی یہ حالت دیکھی نہ گئی وہ گھوڑے سے اترا وہ اس عورت کو تسلی دلاسا دینا چاہتا تھا کہ اس کے بچے کو برآمد کر لیا جائے گا سمیری اس عورت کے قریب گیا اور اس پر جھکا اس عورت کے پاس جو آدمی بیٹھا ہوا تھا اس نے بڑی تیزی سے خنجر نکالا اور عبدالرحمن سمیری کی پیٹھ میں اتار دیا پھر اسے سیدھا نہ ہونے دیا اور دو تین وار اور کیے وزیراعظم سمیری وہیں گر پڑا
لوگ قاتل کو پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن قاتل نے بھاگنے کی ذرا بھی کوشش نہ کی اس نے دوبار خنجر پوری طاقت سے اس عورت کی پیٹھ میں مارا اور پھر خنجر اپنے دل کے مقام پر اتنی زور سے مارا کہ آدھے سے زیادہ خنجر اس کے سینے میں چلا گیا ظاہر ہے کہ عورت اس قاتل کی ساتھی تھی اور اسے عبدالرحمن سمیری کو جال میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا اگر یہ باطنی اس عورت کو قتل نہ کرتا تو اس سے کچھ راز مل سکتے تھے
یہ ایک اور تاریخی شخصیت تھی جسے حسن بن صباح کے حکم سے ایک فدائی نے قتل کر دیا پانچویں ہجری ختم ہونے میں پانچ سال باقی تھے
سالار اوریزی نے اپنی پیش قدمی ملتوی نہ کی وہ قعلہ وسم کوہ کی طرف کوچ کر گیا یہاں سے قتل و غارت کا ایک اور دور شروع ہوگیا جس نے تاریخ پر لرزہ طاری کر دیا تھا
سالار اوریزی نے یہ فوج اندھادھن تیار نہیں کی تھی اور اس نے کوچ کا جو حکم دیا تھا وہ بھی کوئی رسمی سا حکم نہیں تھا اس نے اس فوج کی تیاری کے دوران دانشمندانہ کارروائیاں کی تھیں
پہلی کاروائی یہ تھی کہ اس نے اس فوج میں منتخب لڑاکے اور جاں باز شامل کیے تھے اس نے اپنے جو نائب کماندار ساتھ لیے تھے وہ بھی چنے ہوئے تھے اور لڑائیوں کا تجربہ بھی رکھتے تھے اور ان میں حسن بن صباح اور ان کے فرقے کی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی سالار اوریزی نے ایک احتیاطی تدبیر اختیار کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح تک یہ خبر نہ پہنچ جائے کہ وہ قلعہ وسم کوہ پر فوج کشی کے لئے جا رہا ہے وہ جانتا تھا کہ گلی گلی کوچہ کوچہ حسن بن صباح کے جاسوس موجود ہیں اور وہ روزبروز قلعہ الموت خبریں پہنچا رہے ہیں
سالار اوریزی نے اپنی اصل مہم پر پردہ ڈالے رکھنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ وہ جب اپنی فوج تیار کر رہا تھا اس نے چند آدمی شہر میں پھیلا دیئے تھے جو یہ خبر مشہور کر رہے تھے کہ سالار اوریزی قلعہ ملاذخان پر حملہ کرنے جارہا ہے قلعہ ملاذخان فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا چند سال پہلے باطنیوں نے یہ قلعہ دھوکے میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا قلعہ وسم کوہ قلعہ ملاذخان سے کم و بیش ایک سو میل دور کسی اور ہی طرف تھا
حسن بن صباح کو یہ اطلاع دی گئی کہ سالار اوریزی اتنی نفری کی فوج سے قلعہ ملاذ خان پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہو رہا ہے یہ سن کر حسن بن صباح نے قہقہہ لگایا
پگلے سلجوقی حسن بن صباح نے کہا اگر وہ قلعہ ملاذ خان لے بھی لیں گے تو کیا کرلیں گے وہ ابھی تک نہیں سمجھے کہ ان کی قسمت اور ان کی جانیں میری مٹھی میں ہے میں یہاں تصور میں جس کا گلا دباؤنگا وہ مرو میں یا رے میں یا وہ جہاں کہیں بھی ہوا مارا جائے گا جب اوریزی مرو سے کوچ کرے اسی وقت ایک آدمی وہاں سے میرے پاس پہنچ جائے اور بتائیے کہ اس کے ساتھ کتنی پیدل اور کتنی سوار نفری ہے اور اس نے کس وقت کوچ کیا ہے
حسن بن صباح نے دو تین آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فورا بلایا جائے وہ آدمی فوراً پہنچے یہ اس کے جنگی مشیر تھے اس نے انہیں قلعہ ملاذ خان کے دفاع کے متعلق ہدایات دینے شروع کردی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ملاذخان تک جگہ جگہ اوریزی کے لشکر پر شب خون مارے جائیں اور گھات لگا کر بھی انہیں نقصان پہنچایا جائے اس نے کہا کہ کہیں بھی جم کر نہیں لڑنا ضرب لگا کر وہاں سے نکل آئیں
وہ راستے سے ہی واپس چلے جائیں گے حسن بن صباح نے کہا اگر وہ واپس نہ آ گئے اور ملاذ خان تک پہنچ بھی گئے تو ان کی نفری آدھی رہ چکی ہوگی اور وہ ایسی حالت میں ہونگے کہ محاصرہ بھی مکمل نہیں کر سکیں گے ملاذ خان میں ہماری نفری تھوڑی ہے وہاں آج ہی جانبازوں کی خصوصی نفری بھیج دو انھیں یہ بتا دینا کہ جونہی وہ سلجوقیوں کے لشکر کو آتا دیکھیں تو قلعے سے نکل کر اور دور کا چکر کاٹ کر پہلو سے اس پر ٹوٹ پڑیں اور سپاہی سے لے کر سالار تک کوئی ایک بھی بندہ زندہ واپس نہ جائے
سالار اوریری رے میں ابومسلم رازی اور ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کے جنازے پڑھ کر آیا تھا اب اس کا لشکر کوچ کے لئے تیار تھا اور وہ عبدالرحمن سمیری کے انتظار میں تھا کہ اس نے آکر انہیں الوداع کہنا تھا لیکن اسے اطلاع ملی کے سمیری کو ایک باطنی نے قتل کرکے خودکشی کرلی ہے اس خبر سے سالار اوریزی کو بھڑک اٹھنا چاہیے تھا اور اس پر جذبات کا غلبہ ہونا ایک قدرتی بات تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو ذہنی اور جذباتی لحاظ سے قابو میں رکھا اور ٹھنڈے دل سے سوچا کہ اسے کیا کرنا چاہیے اگر وہ دوڑا ہوا وہاں جا پہنچتا جہاں عبدالرحمن سمیری کو قتل کیا گیا تھا تو وہ ماتم کرنے لگ جاتا اور اس کی فوج جو کوچ کے لیے تیار تھی انتظار میں کھڑی رہتی یا اسے واپس بلا لیا جاتا
سلطنت اسلامیہ کے پاسبانوں! سالار اوریزی نے اپنی فوج سے یوں خطاب کیا باطنی ایک اور وار کر گئے ہیں ابھی ابھی قاصد اطلاع دے گیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو ایک باطنی نے اسی دھوکے سے قتل کر دیا ہے جس طرح امیر ابومسلم رازی اور ہمارے پیر و مرشد اور عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کو قتل کیا گیا تھا ہم اب کسی کے جنازے کے لیے نہیں رکیں گے اب ہم ان مقتولوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیں گے اب ہمیں پیچھے نہیں دیکھنا بلکہ آگے بڑھنا ہے اب دل میں عہد کرلو کے حسن بن صباح اور اسکے باطل فرقے کو ختم کرنا ہے یا خود ختم ہو جانا ہے لعنت ہے اس زندگی پر جس میں ابلیس ہمارے عمائدین کا خون بہاتے پھرے اللہ اکبر کا نعرہ لگاؤ اور آگے بڑھو اور اس جذبے سے آگے بڑھو کے ہم نے اب واپس اپنے گھروں کو نہیں آنا
لشکر نے جب اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو یوں لگا جیسے آسمان کا سینہ پھٹ گیا ہو اور زمین ہل گئی ہو اس نعرے میں ایمان کی گرج تھی
سالار اوریزی گھوڑے پر سوار تھا وہ لشکر کے آگے آگے نہ چلا بلکہ وہیں کھڑا رہا راستے سے ذرا ہٹ کر زمین کا تھوڑا سا ابھار تھا اوریزی اپنا گھوڑا اس ابھار پر لے گیا اور اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے لشکر کو دیکھنے لگا لشکر کلمہ طیبہ کا بلند ورد کرتا ہوا جارہا تھا تاریخ میں ایسے اعدادوشمار نہیں ملتے کہ اس لشکر کی نفری کتنی تھی اور اس میں پیادے کتنے اور سوار کتنے تھے بہرحال یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اس لشکر میں وہی جوش و خروش تھا جس کی اس صورتحال میں ضرورت تھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سالار اوریزی نے چن چن کر جزبے والے مجاہد اس لشکر میں رکھے تھے وہ صحیح معنوں میں اسلام کے مجاہدین تھے انہیں تنخواہوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور مال غنیمت کا بھی ان کے ذہنوں میں کوئی خیال نہ تھا ان میں انتقام کا جذبہ تھا توڑے سے عرصے کی خانہ جنگی نے کئی گھر اجاڑ دیے تھے اور بھائیوں نے بھائیوں کو قتل کر دیا تھا ان فوجیوں کو جب پتہ چلا تھا کہ اس خانہ جنگی کے پیچھے باطنیوں کا ہاتھ تھا تو وہ نفرت اور انتقام کے جذبے سے اتنے بھر گئے تھے کہ بارود کے چلتے پھرتے پتلے بن گئے تھے وہ اس سے کئی گنا زیادہ باطنیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے جتنے خانہ جنگی میں اپنے آدمی مارے گئے تھے
سالار اوریزی کے پیچھے بارہ چودہ گھوڑسوار محافظ کھڑے تھے اب سالاروں اور دیگر سربراہوں کی حفاظت کے انتظام پہلے سے زیادہ سخت کر دیے گئے تھے لشکر گزرتا جارھا تھا اور سالار اوریزی اسے دیکھ رہا تھا ایک محافظ نے دیکھا کہ ایک درویش آدمی ایک طرف سے چلا آرہا ہے اور اس کا رخ سالار اوریزی کی طرف ہے اس محافظ نے اپنے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا اور ہلکی سے ایڑ لگائی گھوڑا اس درویش کے سامنے جا رکا
اس شخص کا صاف ستھرا لباس پر اثر چہرہ اور انداز بتاتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہے اور درویش بھی اس کے ہاتھ میں قرآن پاک اور دوسرے ہاتھ میں عصا اس کی داڑھی خاصی لمبی تھی اسکے چہرے پر گھبراہٹ نہیں بلکہ خود اعتمادی تھی
میرے راستے میں مت آ اے سوار درویش نے محافظ سے کہا میں اس راستے پر جا رہا ہوں جو اللہ کی اس مقدس کتاب نے مجھے دکھایا ہے اس نے قرآن پاک کو اوپر کرکے کہا یہ قرآن مجید ہے گھوڑے سے اتر اور اس کی توہین نہ کر مجھے سپہ سالار کے پاس جانے دے
آپ کا احترام دل و جان سے کروں گا اے عالم! محافظ نے گھوڑے سے اتر کر کہا لیکن آپ کی جامہ تلاشی لیے بغیر آگے نہیں جانے دوں گا کیا آپ نے نہیں سنا کہ یکے بعد دیگرے تین شخصیتوں کو باطنیوں نے ایسے ہی دھوکے سے قتل کر دیا ہے عالم اور درویش کا بہروپ تو کوئی بھی دھار سکتا ہے
میں تجھے فرائض سے کوتاہی نہیں کرنے دوں گا درویش نے کہا میری جامہ تلاشی لے لے پھر بھی تجھے شک ہے کہ میں سپہ سالار کو قتل کر دوں گا میرے ہاتھ زنجیروں میں میری پیٹھ کے پیچھے باندھ دے میں نے سپہ سالار کو اللہ کا نور دکھانا ہے وہ ابلیس کو تہس نہس کرنے جارہا ہے میں جانتا ہوں کہ اس سپہ سالار کے پاس جسم کی طاقت بھی ہے اور دماغ کی طاقت بھی لیکن میں اس کی روح کو تقویت دینا چاہتا ہوں جا پہلے اس سے پوچھ کے مجھے اپنے پاس آنے دے گا بھی یا نہیں
سالار اوریزی نے اس وقت تک اس درویش کو اور اپنے محافظ کو دیکھ لیا تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ عالم ہے یا درویش جو کوئی بھی ہے اسے ملنا چاہتا ہے
انہیں آنے دو! سالار اوریزی نے اپنے محافظ سے کہا اپنا فرض پورا کر لو
فرض سے مراد یہ تھی کہ اس کی جامہ تلاشی لے لو کہ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو محافظ نے درویش کے کپڑوں کے اندر اچھی طرح دیکھ لیا اور اسے سالار اوریزی کی طرف بھیج دیا لیکن خود اس کے ساتھ رہا دو اور محافظ گھوڑوں سے اتر آئے اور سالار اوریزی کے سامنے جا کھڑے ہوئے محافظ اس طرح کھڑے تھے کہ ایک درویش کے بالکل پیچھے دوسرا اس کے ایک پہلو کی طرف اور تیسرا دوسرے پہلو کی طرف تھا
میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے درویش نے قرآن سالار اوریزی کی طرف بلند کرکے کہا اگر سالار گھوڑے سے اتر آئے تو میں بھی قرآن مجید کی بے ادبی کے گناہ سے بچ جاؤں گا قرآن مجید صرف تمہارے لئے لایا ہوں
سالار اوریزی گھوڑے سے اتر آیا یقیناً اسے اور اس کے محافظوں کو یہی توقع ہوگی کہ یہ درویش یا عالم اچھی نیت سے نہیں آیا باطنیوں نے پہلے تین عمائدین کو اسی طرح قتل کیا تھا اور اب یہ سالار اوریزی کو قتل کرنے آیا ہے جب اوریزی گھوڑے سے اتر کر اس کے سامنے کھڑا ہوا تو تینوں محافظ درویش کے اور زیادہ قریب ہوگئے اور ان کی نظریں اس کے ہاتھوں پر جم گئی
میرے لیے کیا حکم ہے عالم ؟
سالار اوریزی نے پوچھا
حکم دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے درویش نے کہا مجھے کچھ نظر آیا تھا وہ تجھے دکھانے آگیا تیری جسمانی اور تیری دماغی قوت پر مجھے کوئی شک نہیں لیکن تیری روح کو تقویت کے لئے کچھ دینا ہے میں تجھے قتل کرنے نہیں آیا دیکھ لے میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے اور دوسرے ہاتھ میں عصا اگر میں سپاہی ہوتا تو آج تیرے ساتھ جاتا لیکن میری زندگی کا راستہ کوئی اور ہے میں نے تیری فتح کے لیے رات بھر چلّہ کاٹا ہے اللہ نے کرم کیا اور مجھے روشنی کی ایک کرن دکھا دی وہ تیری روح میں ڈالنے آیا ہوں تیرا پورا نام کیا ہے؟
ابن ہاشم اوریزی سالار اوریزی نے جواب دیا
اور تو جا کہاں رہا ہے؟
درویش نے پوچھا قلعہ ملاذخان سالار اوریزی نے جھوٹ بولا
درویش زمین پر بیٹھ گیا وہاں زمین دھول والی تھی اس نے سالار اوریزی کو بھی اشارہ کرکے بٹھا لیا پھر زمین پر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے خاصا بڑا ستارہ بنایا ایک خانے میں اوریزی کا پورا نام لکھا اور اس کے بالمقابل خانے میں ملا ذخان لکھا اس کے بعد اس نے قرآن مجید کھولا اور تھوڑی سی ورق گردانی کرکے ایک آیت پر انگلی رکھی اور وہ آیت بلند آواز سے پڑھی قرآن مجید بند کیا آسمان کی طرف دیکھا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور نیچے ستارے کو دیکھا اس کے تمام خانوں میں کچھ نشان سے لگائے اور پھر سالار اوریزی کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں
تیرے لشکر نے پہلے دو جگہوں پر شکست کا سامنا کیا ہے درویش نے کہا اب تو فتحیاب لوٹے گا درویش نے قرآن اسی جگہ سے کھولا جہاں سے پہلے کھولا تھا اور قرآن مجید اوریزی کے ہاتھوں میں دے کر ایک آیت پر انگلی رکھی اور کہا یہ پڑھ اور اسے زبانی یاد کر لے
سالار اوریزی نے وہ آیت پڑھی اور پھر چند مرتبہ پڑھ کر کہا کہ یہ اسے یاد ہو گئی ہے
اللہ بڑا یا ابلیس؟
درویش نے پوچھا
اللہ! سالار اوریزی نے جواب دیا
جا اللہ تیرے ساتھ ہے درویش نے اٹھتے ہوئے کہا تو نے کہا ہے قلعہ ملاذ خان جا رہا ہے اب یہ خیال رکھنا کہ راستے میں کسی اور طرف کا رخ نہ کر لینا قلعہ ملاذ خان کو ہی محاصرے میں لینا اور اس قلعے کے دروازے تیرے لئے کھل جائیں گے یہ خیال رکھنا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہے
ایسا نہیں ہوگا اے عالم! سالار اوریزی نے کہا میں نے قلعہ ملاذخان کا قصد کیا ہے اور وہی میری منزل ہے
درویش نے قرآن مجید سالار اوریزی کے سر سے ذرا اوپر ایک چکر میں گھمایا
گھوڑا تیرا منتظر ہے درویش نے کہا یہی گھوڑا تجھے فتحیاب واپس لائے گا میں تجھے اللہ کے سپرد کرتا ہوں اسی کی ذات تیری حامی وناصر ہے
سپہ سالار اوریزی گھوڑے پر سوار ہوا گھوڑا لشکر کی طرف موڑا لشکر آگے نکل گیا تھا اب اس کے سامنے سے وہ گھوڑا گاڑیاں بیل گاڑیاں اور اونٹ گزر رہے تھے جن پر لشکر کا سامان وغیرہ لدا ہوا تھا اوریزی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی گھوڑا بڑی اچھی چال دوڑنے لگا اس کے محافظ اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے ان محافظوں کا کماندار اپنے گھوڑے کو سالار اوریزی کے گھوڑے کے پہلو میں لے گیا
سالار محترم! کماندار نے پوچھا کیا ہم واقعی قلعہ ملاذخان جا رہے ہیں آپ نے ہمیں قلعہ وسم کوہ کے متعلق بتایا تھا اور یہی بتاتے رہے ہیں کہ وسم کوہ کے قلعے کی ساخت کیا ہے اور اس کے اردگرد کیا ہے اس کے دروازے کیسے ہیں اور ہم اس قلعے کو کس طرح سر کریں گے قلعہ ملاذخان سے تو ہمارا لشکر واقف ہی نہیں
جہاں تک اس درویش کا تعلق ہے ہم قلعہ ملاذخان ہی جارہے ہیں سالار اوریزی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں قلعہ وسم کوہ جا رہا ہوں
محافظوں کا کماندار کچھ اس طرح اپنا گھوڑا پیچھے لے آیا جیسے وہ اپنے سپہ سالار کی بات سمجھ ہی نہ سکا اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو
درویش سالار اوریزی کو خدا حافظ کہہ کر واپس چلا گیا اور اس نے اپنی چال میں کوئی فرق نہ آنے دیا وہ شہر میں داخل ہوا اور پھر ایک گلی میں گیا اور ایک مکان کے دروازے میں داخل ہوگیا اندر چار پانچ جواں سال آدمی بیٹھے ہوئے تھے
وہ آ گیا ایک آدمی نے کہا پھر درویش سے پوچھا کیا خبر لائے؟
ملاذ خان ہی جارہا ہے درویش نے بیٹھتے ہوئے کہا تصدیق کر آیا ہوں اب ایک آدمی فوراً چل پڑے اور جس قدر جلدی ہو سکے قلعہ المودت پہنچے اور شیخ الجبل کو بتائے کہ سالار اوریزی اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ ملاذخان کو ہی کوچ کر گیا ہے شیخ الجبل نے حکم دیا تھا کہ آخری اطلاع اسے بہت جلدی ملنی چاہیے
میں تیار ہوں ایک جواں سال آدمی نے اٹھ کر کہا گھوڑا بھی تیار ہے میں تمہارے انتظار میں تھا کوئی اور اطلاع ؟
اور کچھ نہیں درویش نے کہا
وہ جواں سال آدمی بڑی تیزی سے وہاں سے چلا گیا اس کا گھوڑا تیار تھا وہ کود کر گھوڑے پر سوار ہوا اور نکل گیا
اس وقت عام خیال یہ تھا کہ اس شہر میں کسی باطنی کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا لیکن حسن بن صباح کا بھیجا ہوا یہ گروہ زندہ وسلامت تھا اور پوری طرح سرگرم تھا انہوں نے اپنے اوپر ایسا دبیز پردہ ڈال رکھا تھا کہ ان پر کسی کو شک ہوتا ہی نہیں تھا یہ سالار اوریزی کی گہری نظر تھی جس نے اس درویش کی اصلیت بھانپ لی تھی ورنہ وہ کون مسلمان ہے جو قرآن سے متاثر نہیں ہوتا سالار اوریزی نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ یہ درویش اس کے پاس آ گیا تھا شکر اس لئے ادا کیا کہ حسن بن صباح کو مصدقہ اطلاع مل جائے گی کہ یہ لشکر قلعہ ملاذ خان کو ہی جا رہا ہے
راستے میں صرف ایک پڑاؤ ہوگا سالار اوریزی نے اپنے نائبین کو حکم دیا یہ پڑاؤ بھی ایک آدھ گھڑی کے لئے ہوگا پوری رات کے لیے نہیں باقی رات کوچ میں گزرے گی اور ہمیں بہت ہی جلدی وسم کوہ پہنچنا ہے
مزمل آفندی اور بن یونس زخمی حالت میں سلطان کے محل کے ایک کمرے میں پڑے ہوئے تھے ان کی جان تو بچ گئی تھی لیکن زخم زیادہ تھے اور خون اتنا بہ گیا تھا کہ ان کا زندہ رہنا ایک معجزہ تھا گو خطرہ ٹل گیا تھا لیکن ابھی تک دونوں بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں ہوئے تھے اچانک شمونہ بڑی تیزی سے دوڑتی ہوئی ان کے کمرے میں داخل ہوئی
مزمل شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی قتل ہوگئے ہیں لاش لائی جا رہی ہے
مزمل اور بن یونس ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھے اور ان کے ساتھ ہی دونوں کی کربناک آہیں نکل گئیں اور وہ پھر لیٹ گئے اس خبر پر تو وہ اٹھ کر باہر نکل جانا چاہتے تھے لیکن زخموں نے انہیں بیٹھنے بھی نہ دیا اور وہ یو لیٹ گئے جیسے گھائل ہو کر گر پڑے ہوں ان دونوں نے شمونہ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ سمیری کہاں قتل ہوا ہے؟
کس طرح قتل ہوا ہے؟
کس نے قتل کیا ہے؟
شمونہ نے انہیں تفصیل سنائی
اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گی شمونہ نے غصے اور جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا میں قلعہ الموت جاونگی اور حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرونگی تم دونوں کو اب گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کی طرح رونا نہیں چاہیے شمونہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اب ہمیں کچھ کرنا پڑے گا سالار اوریزی ایک لشکر لے کر قلعہ وسم کوہ کا محاصرہ کرنے چلے گئے ہیں لیکن میں کہتی ہوں کہ ایک قلعہ سر کرلینے سے کیا حاصل ہو گا ہوسکتا ہے یہ قلعہ سر ہی نہ ہو سکے پہلے ہمارے لشکر شکست کھا کر آ چکے ہیں
ہم سمیری کی شہادت پر آنسو نہیں بہا رہے شمونہ! مزمل نے کہا اپنی اس حالت پر رو رہے ہیں کہ جب ہمیں میدان میں ہونا چاہیے تھا ہم یہاں اس قابل بھی نہیں کہ اپنا وزن بھی سہار سکیں اور تم اتنی زیادہ جذباتی نہ ہو جاؤ کہ عقل سے کام لینا بھی چھوڑ دو کیا میں نے تمہارے ساتھ عہد نہیں کر رکھا تھا کہ ہم نے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے
ہمیں اتنا سا ٹھیک ہونے دو کے چل پھر سکیں بن یونس نے کہا حسن بن صباح ہمارے ہاتھوں مرے گا
شمونہ ان کے پاس بیٹھ گئی اور وہ بہت دیر یہی منصوبے بناتے رہے کہ حسن بن صباح کو کس طرح قتل کیا جا سکتا ہے
تم دونوں نے دیکھ لیا ہے شمونہ نے کہا باطنی اور حسن بن صباح کے فدائی زمین کے اوپر نہیں زمین کے نیچے ملتے ہیں وہ میدان میں لڑنے والے لوگ نہیں بلکہ دوسروں کو میدان میں لا کر ایک دوسرے سے لڑا سکتے ہیں اور انہوں نے یہ کام کر دکھایا میں حسن بن صباح کے پاس رہی ہوں مزمل بھی ان کے یہاں رہ چکا ہے لیکن جو میں جانتی ہوں وہ مزمل تم بھی نہیں جانتے ہمیں زمین کے نیچے نیچے سے حسن بن صباح تک پہنچنا ہے
یہ باتیں ہیں ان باتوں میں ایک عزم تھا عہد تھا اور یہ ان کا ایمان تھا لیکن اس وقت حقیقت یہ تھی کہ حسن بن صباح کا فرقہ آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اسلام کا ہرابھرا شجر سوکھ جائے گا اور اس کی نشوونما رک جائے گی
سلطان کے محل کی سرگوشیاں بھی قلعہ الموت میں حسن بن صباح کو سنائی دیتی تھیں
حسن بن صباح کو جب یہ مصدقہ اطلاع ملی کے سالار اوریزی اپنے لشکر کو قلعہ ملاذ خان کے محاصرے کے لیے لے گیا ہے اس وقت سالار اوریزی وسم کوہ کو محاصرے میں لے چکا تھا حسن بن صباح اس اطلاع پر ذرا سا بھی پریشان نہیں ہوا اس نے قلعہ ملاذ خان کے دفاع کا انتظام پہلے ہی اتنا مضبوط کردیا تھا کہ سالار اوریزی جتنا لشکر اپنے ساتھ لے گیا تھا اس سے دگنا لشکر بھی قلعہ ملاذ خان کو فتح نہیں کر سکتا تھا اس نے وہاں ایک ہزار جانباز بھیج دیے تھے اس کے علاوہ اس نے قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور دور تین جگہوں پر گھات کا بندوبست بھی کر دیا تھا
سالار اوریزی کو توقع تھی کہ وہ قلعہ وسم کوہ کو بڑی آسانی سے لے لے گا لیکن اس نے جب محاصرہ کیا تو قلعے کی دیواروں پر ہزاروں انسانوں کا ہجوم نظر آنے لگا اس ہجوم نے تیروں کا مینہ برسا دیا سالار اوریزی اپنے لشکر کو پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوگیا اور قلعہ توڑنے کے منصوبے سوچنے لگا وہ اتنا جان گیا کہ یہ قلعہ آسانی سے نہیں لیا جا سکے گا اور محاصرہ طول کھینچے گا
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ حسن بن صباح کا انداز ایسا تھا جیسے اسے کوئی غم نہیں کہ کوئی قلعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اس نے اپنے خاص آدمیوں سے کہا کہ اپنے دشمن کے مذہبی اور معاشرتی سربراہوں کو ختم کردو مورخ لکھتے ہیں کہ اسے یہ توقع ذرا کم ہی تھی کہ اس کے فدائی ابومسلم رازی اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری جیسے اہم ترین سربراہوں کو اتنی آسانی سے قتل کر دیں گے فدائیوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا تو حسن بن صباح نے حکم دیا کہ یہی کام جاری رکھو اور دشمن کے کسی بھی حکمران کو اور کسی عالم دین کو زندہ نہ رہنے دو حسن بن صباح اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا لیکن وہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتا تھا تو اس سے اس کی مراد مسلماں ہی ہوتے تھے وہ کسی کے قتل کا حکم دیتا تو اس انداز سے بولتا تھا جیسے اس کی زبان سے خدا بول رہا ہو اس کے پیروکار مان گئے تھے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اسے ہر حکم خدا کی طرف سے ملتا ہے
ابومسلم رازی ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی اور عبدالرحمن سمیری کے قتل کے فوراً بعد جو اہم ترین شخصیت باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں اگر قارئین کو ہر قتل کی تفصیل سنائی جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے ایک ہی واردات ایک ہی جیسے الفاظ میں دہرائی جا رہی ہے باطنیوں کا طریقہ قتل ایک ہی جیسا تھا وہی طریقہ تھا جس سے ابومسلم رازی اور دوسرے سربراہوں کو قتل کیا گیا تھا مشہورومعروف تاریخ نویس ابن جوزی نے لکھا کے چند دنوں میں ہی حسن بن صباح کے فدائیوں نے حاکم دیار بقر اتامک مؤدود کو قتل کیا اور اس کے فورا بعد ابوجعفر شاطبی رازی ابوعبید مستوتی ابوالقاسم کرخی اور ابوالفرح قراتکین کو قتل کیا کچھ دنوں کا وقفہ آیا اور پھر ابلیس کے فدائیوں نے قاضی کرمان امیر بلکابک سرامر اصفہانی اور قاضی عبداللہ اصفہانی کو قتل کیا قتل کی ہر ورادات میں طریقہ قتل ایک ہی استعمال کیا گیا وہ اس طرح کہ فدائی بھیس بدل کر کسی بہانے مقتول تک رسائی حاصل کرتا اور اچانک خنجر نکال کر اسے قتل کر دیتا بیشتر اسکے کہ اسے پکڑا جاتا وہ خودکشی کر لیتا
اس کے بعد باطنی فدائیوں نے ایک طریقہ اور اختیار کیا دو مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے فدائیوں نے سلجوقی فوج کے سالاروں اور نائب سالاروں کو یوں وارننگ دی کہ ان کے گھروں میں رقعے پھینک دیے جن پر تحریر تھا کہ شیخ الجبل امام حسن بن صباح کی اطاعت قبول کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لو ورنہ تمہارا حشر وہی ہوگا جو پہلے کچھ حاکموں امیروں اور علماء دین کا کیا جاچکا ہے ظاہر ہے کہ کسی بھی سالار یا ماتحت کماندار نے حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرنی تھی ان سب نے یہ تحریری جو ان کے گھروں میں پھینکی گئی تھی سلطان برکیارق کو دکھائیں
ان ابلیسوں کی دھمکیوں کو کھوکھلے الفاظ نہ سمجھنا سلطان برکیارق نے سالاروں سے کہا ایک احتیاط یہ کرو کہ کوئی سالار اکیلا کہیں بھی نہ جائے اس کے ساتھ تین چار محافظ ہونے چاہیے رات کو اپنے گھروں کے اردگرد پہرے کھڑے کر دو اپنے آپ کو کسی بھی وقت غیر مسلح نہ رکھو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے قلعوں پر قبضہ کریں گے تم جانتے ہوکہ سالار اوریزی وسم کوہ گیا ہوا ہے اس کے ساتھ ہی ہم نے باطنیوں کا جو قتل عام کروایا ہے وہ کافی نہیں یہ تحریر جو تم سب تک پہنچائی گئی ہے ثبوت ہے کہ باطنی یہاں موجود ہیں اور زمین کے نیچے نیچے پوری طرح سرگرم ہیں میرے مخبر اپنا کام کر رہے ہیں تم اپنے مخبروں کو سرگرم کردو
تاریخوں میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ تمام سالاروں ان کے نائبین اور اہم قسم کے ماتحت کمانداروں نے اپنے آپ کو رات کے وقت بھی مسلح رکھنا شروع کر دیا انہوں نے اپنے گھروں پر پہرے دار مقرر کر دیئے جو رات بھر مکانوں کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے سالاروں نے اپنے مخبر سارے شہر میں پھیلا دیے تھے
پچھلے کسی سلسلے میں ایک سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا تفصیلی ذکر آیا ہے مقتولین کی مندرجہ بالا فہرست میں بھی ایک ابو جعفر کا نام شامل ہے یہ ابوجعفر کوئی عالم دین تھا اور حسن بن صباح کے خلاف عملی طور پر سرگرم رہتا تھا ایک فدائی نے اس کا مرید بن کر اسے قتل کر دیا تھا اب میں آپ کو جس ابوجعفر حجازی کا ذکر سنا رہا ہے ہوں یہ سلطان کی فوج کا یعنی سلطنت سلجوقیہ کے لشکر کا سپہ سالار تھا پہلے بیان کر چکا ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کا خوشامدی تھا اور اس کا ہر غلط حکم بھی بسروچشم مانتا اور اس کی تعمیل کرتا تھا سالار اوریزی کے ساتھ اس کی خاص دشمنی تھی اور اوریزی کو اس نے گرفتار تک کرلیا تھا یہ ساری تفصیل پہلے چند سلسلوں میں سنائی جا چکی ہے
سلطان برکیارق کو اللہ تبارک وتعالی نے روشنی دکھائی اور وہ راہ راست پر آ گیا تو اس نے وہ اہمیت جو کبھی سپہ سالار حجازی کو دیا کرتا تھا سالار اوریزی کو دینی شروع کر دی تھی
سلطان محترم! ایک روز خانہ جنگی کے کچھ دن بعد سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کے یہاں گیا اور کہا گستاخی کی معافی پہلے ہی مانگ لیتا ہوں ایک بات جو دل میں کھٹک رہی ہے وہ ضرور کہوں گا ایک وقت تھا کہ آپ چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر سلطنت کے بڑے سے بڑے مسئلے کے بارے میں میرے ساتھ بات کرتے اور میرے مشورے طلب کیا کرتے تھے مگر میں اب وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے مجھے بالکل ہی نظرانداز کر دیا ہے اور یوں پتہ چلتا ہے کہ سالار اوریزی نہ ہوا تو سلطنت سلجوقیہ کی بنیادیں ہل جائیگی
محترم ابو جعفر! سلطان برکیارق نے کہا آپ میرے والد مرحوم کے وقتوں کے سالار ہیں میرے دل میں آپ کا درجہ روحانی باپ جیسا ہے آپ کا شکوہ بجا ہے کہ میں اب آپ کو وہ قدرومنزلت نہیں دیتا جو کسی وقت دیا کرتا تھا آپ نے دل کی بات کہی ہے اور صاف صاف کہی ہے اور یہ بات مجھے پسند ہے ایسی ہی میں دل کی گہرائیوں سے بات نکالوں گا اور آپ سے کروں گا آپ جس وقت کی بات کرتے ہیں اس وقت میں گمراہ ہوگیا تھا یا گمراہ کر دیا گیا تھا آپ کو تو معلوم ہے کہ ایک حسین و جمیل اور پرکشش لڑکی نے مجھ پر اپنے حسن و جوانی کا جادو اور حشیش کا نشہ طاری کر دیا تھا اس وقت آپ نے مجھے جھنجوڑا نہیں بیدار نہیں کیا بلکہ میری خوشامد کی اور میرا ہر وہ حکم بھی بسروچشم مانا جو سلطنت کے مفاد کے خلاف تھا اللہ نے مجھے اور میری روحانی قوتوں کو بیدار کر دیا تو مجھے پتا چلا کہ یہ سیاہ اور وہ سفید ہے یہ غلط اور وہ صحیح ہے اور اس وقت مجھے پتہ چلا کہ مجھے گمراہ کیے رکھنے میں آپ کا بھی ہاتھ ہے میرے دل میں اگر آپ کا احترام نہ ہوتا تو میں کبھی کا آپ کو جلاد کے حوالے کر چکا ہوتا میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ میرے دل میں آپ اپنا یہ احترام قائم رکھنے کی کوشش کریں گے میں آپ کو صرف ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں جو آپ فوراً سمجھ جائیں گے وہ یہ کہ دل میں خوشنودی اللہ کی رکھیں اپنے حاکم کی یا اپنے سلطان کی نہیں کیا آپ نے یہ حدیث مبارکہ نہیں سنی کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے منہ پر کلمہ حق کہنا ہے مگر آپ نے جابر سلطان کو خوش رکھنے کے جتن کئے اور اللہ کی ذات باری کو نظرانداز کیے رکھا یہ گناہ تھا میرے بزرگوار
کیا آپ میرے بدلے ہوئے کردار کو قبول کریں گے؟
سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا میں آپ کا یہ الزام تسلیم کرتا ہوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ آپ پر کون سا جادو چلایا جارہا تھا لیکن یہ میری لغزش تھی یا گناہ تھا کہ میں نے آنکھیں بند کئے رکھیں اور آپ کی خوشامد میں لگا رہا لیکن سلطان محترم اس خانہ جنگی نے اور اس خون کے دریا نے جو ہم لوگوں نے ایک دوسرے کا بہایا ہے میری روح کو اسی طرح بیدار کردیا ہے جس طرح آپ کی روح بیدار ہوئی ہے مجھے موقع دیں میں اب آپ کو نہیں اللہ کی ذات باری کو راضی کروں گا
اس کے بعد سپہ سالار حجازی نے جیسے عہد کرلیا ہو کہ وہ کسی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑے گا باطنیوں کا جو قتل عام کیا گیا تھا اس میں سپہ سالار حجازی کا خاصہ ہاتھ تھا اس میں قومی جذبہ پیدا ہو گیا تھا
ابوجعفر حجازی سپہ سالار تھا اور وہ جس مکان میں رہتا تھا وہ چھوٹا سا ایک محل تھا وہاں دو تین نوکر تھے ایک ملازمہ تھی اور دو تین سائیس تھے حجازی نے بھی اپنی حفاظت کے انتظامات بڑے سخت کر دیے تھے اور رات کے وقت دو چوکیدار اس کے مکان کے اردگرد گشت کرتے رہتے تھے اس نے فوج کی تربیت یافتہ مخبروں کو سارے شہر میں پھیلا رکھا تھا اور انہیں سختی سے کہا تھا کہ زمین کے نیچے سے بھی باطنیوں کو نکال کر لاؤ اور میرے سامنے کھڑے کر دو اس نے کئی ایک باطنیوں کو اپنے سامنے قتل کروایا تھا لیکن باطنی جو بچ گئے وہ زمین کے نیچے چلے گئے تھے حجازی اب انہیں زمین کے نیچے سے نکالنے کے لیے سرگرم ہوگیا تھا
ایک روز اس کا ایک مخبر اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس کے سائیسوں میں ایک سائیس مشکوک ہے اس مخبر کو تین آدمیوں نے بتایا تھا کہ یہ سائس باطنی معلوم ہوتا ہے ان آدمیوں نے اسکے متعلق کچھ اور باتیں بھی بتائی تھیں وہاں یہ عالم تھا کہ زیادہ گہرائی سے تحقیقات کی ہی نہیں جاتی تھی بہت سے آدمی تو محض شک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے سپہ سالار حجازی نے اپنے اس مخبر سے کہا کہ وہ اس سائیس کے متعلق کچھ اور شہادت حاصل کرنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ہی حجازی نے اپنے ذاتی اصطبل کے دو سائیسوں کو بلا کر کہا کہ وہ اس سائیس پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ وہ جب گھر جاتا ہے تو اس کے گھر کے اندر کیا ہوتا ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ اس کے گھر کا ماحول کیسا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا سارا کنبہ باطنی ہو یہ سائیس حجازی کا ذاتی سائیس تھا اس کے اصطبل میں چھ سات گھوڑے تھے جن میں ایک گھوڑا اسے بہت ہی پسند تھا اور وہ عموما اس پر ہی سواری کیا کرتا تھا وہ سائیس اس گھوڑے پر مقرر تھا اور اس پر حجازی کو پورا پورا بھروسہ تھا وہ تجربےکار سائیس تھا اس سائیس کا باطنی ہونا کوئی عجوبہ نہیں تھا وہاں تو کوئی بھی شخص باطنی ہوسکتا تھا حسن بن صباح کا طلسم دور دور تک اور کونوں کھدروں تک بھی پہنچ گیا تھا
حجازی اصطبل میں اتنا زیادہ نہیں جایا کرتا تھا کبھی کبھی جا نکلتا اور گھوڑوں کو دیکھ کر واپس آجاتا تھا اس نے اپنی حفاظت کا اتنا سخت انتظام کر رکھا تھا کہ وہ اصطبل تک جاتا تو بھی اس کے ساتھ دو محافظ ہوتے تھے باہر نکلتا تو کئی محافظ اس کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں اس کے ساتھ چلتے تھے کوئی اجنبی اس کے قریب نہیں آسکتا تھا اسے قتل کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا تھا ان حالات میں جب اسے یہ اطلاع دی گئی کہ اس کا ذاتی سائیس باطنی ہے اور وہ کسی بھی وقت وار کر سکتا ہے وہ چوکس ہوگیا اس نے اپنی حفاظت کے جو انتظامات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ گھر کا کوئی ملازم اور سائیس اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا بلکہ چھوٹا سا ایک چاقو بھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی
سائیس جب صبح اصطبل میں آتے تھے تو پہنے ہوئے کپڑے اتار کر کام والے کپڑے پہن لیا کرتے تھے ایک روز سپہ سالار حجازی تیار ہو کر باہر نکلا ہی تھا کہ ایک آدمی دوڑا آیا وہ اس کے گھر کا ہی ایک خاص ملازم تھا بلکہ معتمد خاص تھا اس نے حجازی کو بتایا کہ اس کا ذاتی سائیس آج پکڑا گیا ہے بتایا یہ گیا کہ وہ اپنے کپڑے اتار کر الگ رکھ رہا تھا تو ایک سائیس نے اس کے کپڑوں میں خنجر دیکھ لیا
محترم سپہ سالار! اس معتمد ملازم نے کہا اسے ابھی پتہ نہیں چلنے دیا گیا کہ اس کا خنجر دیکھ لیا گیا ہے آپ خود چل کر دیکھیں
سپہ سالار ابوجعفر حجازی اسی وقت ملازم کے ساتھ چل پڑا اصطبل میں جا کر اس نے اپنے سائیس کو بلایا اور اسے کہا کہ اپنا خنجر اس کے حوالے کردے
خنجر ؟
سائنس نے حیرت زدگی کی کیفیت میں پوچھا محترم سپہ سالار کون سا خنجر؟
کیسا خنجر؟
وہ خنجر جو تم نے اپنے کپڑوں میں چھپا رکھا ہے حجازی نے کہا خود ہی وہ خنجر لے آؤ
میں آپ کا بڑا ہی پرانا خادم ہوں سپہ سالار سائیس نے کہا آپ کا حکم ہے کہ کوئی سائیس کیا دوسرا ملازم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا مجھے اپنے پاس خنجر رکھنے کی کیا ضرورت تھی اگر آپ کو شک ہے تو میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ میرے کپڑے کہاں رکھے ہیں خود چل کر دیکھ لیں
سپہ سالار حیجازی اس کے ساتھ چل پڑا سائیس نے اپنے کپڑے اس کمرے میں رکھے ہوئے تھے جہاں باقی سائیس اپنے کپڑے اتار کر رکھتے اور کام والے کپڑے پہنتے تھے سائنس نے اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ اس کے کپڑے پڑے ہیں دیکھ لئے جائیں
حجازی خود گیا اور اس کے کپڑے اٹھائے تو اس میں سے ایک خنجر نکلا حجازی نے خنجر نیام سے نکال کر دیکھا اس نے حسن بن صباح کے فدائین کے خنجر دیکھے تھے غالبا ان پر کوئی نشان ہوتا ہوگا جو حجازی نے دیکھ لیا اس سے اسے یقین ہو گیا کہ اس کا سائیس باطنی ہے اور آج وہ اسے قتل کرنے کے لیے خنجر لایا تھا
سائیس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ یہ خنجر اسکا نہیں نہ وہ اسے اپنے ساتھ لایا تھا اس نے یہ بھی کہا کہ کسی دشمن نے یہ خنجر اس کے کپڑوں میں رکھ دیا ہے
یہاں تمہارا دشمن کون ہو سکتا ہے؟
حجازی کے ایک محافظ نے اس سے پوچھا کیا تم اپنا کوئی دشمن دکھا سکتے ہو؟
سائیس نےاب رونا شروع کردیا اور وہ حجازی کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے پیروں پر ماتھا رگڑنے لگا وہ رو رو کر کہتا تھا کہ یہ خنجر اسکا نہیں لیکن حجازی اسے بخشنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا
حجازی نے خنجر اپنے ایک محافظ کو دیا اور اشارہ کیا محافظ اشارہ سمجھ گیا وہ سائیس کی طرف بڑا سائیس کے چہرے پر خوف و ہراس کے تاثرات نمودار ہوئے اور اس کی آنکھیں اور زیادہ کھل گئی محافظ نے دو تین قدم تیزی سے اٹھائے اور یکے بعد دیگرے سائیس کے سینے میں خنجر کے دو وار کئے سائیس گرا اور ذرا سی دیر بعد اس کی آنکھیں پتھرا گئیں حجازی نے کہا کہ اس کی لاش اس شہر سے دور جنگل میں پھینک دی جائے
دو دن گزرے ہوں گے کہ سپہ سالار حجازی کو اطلاع دی گئی کہ ایک آدمی اسے ملنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ تجربے کار سائیس ہے اور کچھ عرصہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت بھی کر چکا ہے حجازی کو ایک سائیس کی ضرورت تھی اس لئے اس نے اس آدمی کو بلا لیا محافظوں نے اس آدمی کی جامع تلاشی اچھی طرح کی اور حجازی کے پاس لے گئے حجازی نے اس سے پوچھا کہ وہ کتنا کچھ تجربہ رکھتا ہے
اس شخص نے حجازی کو بتایا کہ وہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت کر چکا ہے اور اس نے دو لڑائیاں بھی لڑی تھی اس نے اپنے جسموں پر تلواروں کے زخموں کے دو نشان دکھائے اور کہا کہ ان زخموں کی وجہ سے وہ فوج کے قابل نہیں رہا تھا لیکن سائیس کا کام خوش اسلوبی سے کرسکتا ہے مختصر یہ کہ اس شخص نے حجازی کو قائل اور متاثر کرلیا اور حجازی نے حکم دیا کہ اسے اصطبل میں رکھ لیا جائے
اس نئے سائیس نے اتنا اچھا رویہ اختیار کیا کہ اصطبل کے دوسرے سائیس اس کی تعریفیں کرنے لگے وہ خوش طبع خوش اخلاق اور حلیم قسم کا آدمی تھا ہر کسی کے ساتھ پیار سے بات کرتا تھا اور اپنے کام میں تو وہ بہت ہی ماہر تھا
دو تین دنوں بعد سپہ سالار حجازی اصطبل میں گھوڑے دیکھنے کے لیے گیا اس نے اپنا وہ گھوڑا دیکھا جو اس کا منظور نظر تھا اس نے اس گھوڑے کی دیکھ بھال بڑی محنت سے کی تھی حجازی نے اس گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا نیا سائیس اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور اس گھوڑے کی صفات بیان کرنے لگا اچانک سائیس نے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور پیشتر اس کے کہ حجازی کے دونوں محافظ اس تک پہنچتے اس کا خنجر حجازی کے دل میں اتر چکا تھا
سائیس محافظوں سے بچنے کے لیے دوڑ کر گھوڑے کی دوسری طرف ہوگیا اور خون اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا تب پتہ چلا کہ یہ تو باطنی تھا
مرو شہر کا وہی مکان تھا جس میں وہ درویش داخل ہوا تھا جس نے سالار اوریزی کو قرآن مجید کھول کر ایک آیت پڑھائی اور کہا تھا کہ یہ یاد رکھنا اور اس کا ورد کرتے ہوئے جانا فتح تمہاری ہوگی اس مکان کے اندر وہی درویش اپنے تین چار ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ باہر والا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور ان کا ایک ساتھی دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا
لو بھائیو! اس آدمی نے کہا کام ہو گیا ہے ہمارے فدائی نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو قتل کرکے اپنے آپ کو بھی مار لیا ہے
پہلے سائیس کو مروانے والے باطنی ہی تھے اس سائیس کے کپڑوں میں خنجر باطنیوں نے ہی رکھوآیا تھا اور پھر دوسرا سائیس صرف باطنی ہی نہیں بلکہ فدائ تھا
یہ ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ تاریخوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں مرو کہ معاشرے میں کئی سرکردہ افراد تھے جو باطنیوں کے خلاف سرگرم ہو گئے تھے انہیں قتل کرنا ضروری تھا لیکن ان سب نے اپنی حفاظت کے انتظامات کرلیے تھے اور وہ جہاں بھی جاتے ان کے ساتھ محافظ ہوتے تھے اس صورتحال میں انہیں قتل کرنا آسان نہیں تھا ان کے قتل کا یہی طریقہ اختیار کیا گیا جو حجازی کو قتل کرنے کے لئے آزمایا گیا تھا کوئی فدائی کسی سرکردہ آدمی کے یہاں مظلوم اور غریب بن کر ملازمت حاصل کر لیتا اور موقع پا کر اپنے شکار کو قتل کردیتا تھا دہی علاقوں میں قبیلوں کے سردار تھے جو حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے نہ اپنے قبیلے کے کسی شخص کو ایسی اجازت دیتے تھے کسی پر شک ہو جاتا کہ اس کا ذہن یا رحجان باطنیوں کی طرف ہو رہا ہے تو قبیلے کا سردار اسے قتل کروا دیتا تھا ان سرداروں نے بھی اپنے ساتھ محافظ رکھ لئے تھے انہیں قتل کرنے کا بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اصفہان کو اپنا مرکز بنانا چاہتا تھا تاریخوں کے مطابق اس نے اپنے بے شمار فدائ اور دیگر پیروکار اصفہان بھیج دیے تھے حسن بن صباح نے اصفہان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا ایک اور طریقہ اپنے فدائین کو بتایا مرو میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ ایک مسلمان قتل ہوتا تھا تو اس کے بدلے تین باطنیوں کو قتل کردیا جاتا تھا حسن بن صباح نے اپنے فدائین کو یوں سمجھایا کہ وہ ایک ایک دو دو مسلمانوں کو ایسے قتل کریں کہ ان کی لاشیں نہ ملے اور پتہ ہی نہ چلے کہ وہ قتل ہوگئے ہیں
اصفہان کے ایک حصے میں مکان بہت ہی پرانے تھے جن میں کافی لوگ رہتے تھے گلیاں تنگ تھی اور مکانوں کی دیواریں اور چھتیں بوسیدہ ہو گئی تھیں ایک گلی کے سرے پر ایک اندھا کھڑا نظر آنے لگا وہ اپنے قریب سے گزرتے کسی آدمی کی آہٹ سنتا تو اسے روک لیتا اور کہتا کہ اللہ کے نام پر اسے اس گلی میں ایک جگہ تک پہنچا دے
وہ آدمی اسے اندھا سمجھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور آگے آگے چل پڑتا اندھا اسے کہتا کہ آگے ایک گلی دائیں کو مڑتی ہے اسے اس گلی کے ایک مکان تک پہنچا دیں
یوں وہ شخص اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس گلی کے وسط تک جاتا ایک مکان سے دو تین آدمی نکلتے اور اس آدمی کو پکڑ کر مکان کے اندر لے جاتے اور اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر ڈالتے وہ شخص اندھا نہیں ہوتا تھا گلی میں سے گزرتے ہوئے آدمیوں کو دیکھ سکتا تھا اور پہچان لیتا کہ یہ باطنی نہیں مسلمان ہے اس طرح ایک آدمی کو مروا کر وہ کہیں اور چلا جاتا اور اسی طرح کسی اور آدمی کو اپنا ہاتھ پکڑوا کر اس کے پیچھے چل پڑتا اس کے بعد وہ آدمی کسی کو نظر نہ آتا
ایک مہینے میں بےشمار مسلمان لاپتہ ہو گئے اور شہر بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا ابن اثیر نے لکھا ہے کہ کسی گھر کا کوئی آدمی شام تک گھر واپس نہیں پہنچتا تھا تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی تھی اس کے گھر والے یہ سمجھ لیتے کہ وہ غائب ہوگیا ہے لیکن اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں مل رہا تھا کہ یہ اتنے زیادہ آدمی کہاں لاپتہ ہوگئے ہیں اس زمانے میں بھی روحانی عامل قافیہ شناس اور نجومی موجود تھے لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے معلوم کریں کہ کیا ان لوگوں کو جنات اٹھا کر لے گئے ہیں یا وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں روحانی عاملوں کو کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا صرف ایک عامل نے بتایا کہ جتنے آدمی لاپتہ ہو چکے ہیں ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں لیکن وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ وہ آدمی موت تک کس طرح پہنچیں اور موت کی آغوش میں انہیں کون لے گیا تھا
ایک روز ایک اندھا ایسے ہی ایک آدمی کو روک کر اسے اپنے ساتھ لے گیا یہ آدمی بھی اس دھوکے میں آگیا تھا کہ یہ اندھا بیچارہ مجبور ہے اس لیے اسے اس کے ٹھکانے تک پہنچانا کار ثواب ہے اس کے بعد یہ آدمی کسی کو نظر نہیں آیا لیکن ایک بات یوں ہوئی کہ ایک آدمی نے اسے اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک گلی کے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا اس نے کئی لوگوں کو بتایا کہ گم ہونے والے شخص کو ایک اندھا اپنی رہنمائی کے لیے ایک گلی کے اندر لے گیا تھا
اسی روز یا اگلے روز اس آدمی نے جس نے اس بد قسمت آدمی کو اندھے کے ساتھ دیکھا تھا تین چار آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں ایک جگہ چھپا کر اکیلا آگے گیا اور اندھے کے قریب سے گزرا اندھے نے اسے روک لیا اور کہا کہ وہ اس گلی میں جانا چاہتا ہے لیکن وہ خود راستہ نہیں دیکھ سکتا اللہ کے نام پر اسے اس کے گھر تک پہنچا دیا جائے
اس شخص نے اس کا بازو پکڑ لیا اور گلی میں داخل ہوگیا اس کے جو ساتھی پیچھے چھپے ہوئے تھے وہ دیکھ رہے تھے جب اندھا اس آدمی کے ساتھ گلی کے اندر چلا گیا تو یہ سب آدمی اس گلی تک آگئے اور گلی میں اس وقت داخل ہوئے جب اندھا اس آدمی کو یہ کہہ رہا تھا کہ دائیں طرف والی گلی میں جانا ہے وہ شخص اسے اس گلی میں لے گیا
اس شخص کے ساتھی دبے پاؤں وہاں تک پہنچ گئے جہاں سے گلی دائیں کو مڑتی تھی جب اندھا اس مکان تک پہنچا تو روک گیا اندر سے تین آدمی نکلے اور اس شخص کو پکڑ لیا اس کے چھپے ہوئے ساتھی تلوار نکال کر دوڑتے ہوئے پہنچے اور ان آدمیوں کو تلواروں پر رکھ لیا وہ سب اندر کو بھاگ رہے تھے لیکن وہ تینوں اور اندھا بھی تلواروں سے کٹ مرے مکان کے اندر گئے تو صحن میں ایک جگہ لکڑی کے تختے رکھے ہوئے تھے اور ان پر کچھ سامان پڑا ہوا تھا
وہ بہت ہی پرانے زمانے کا مکان تھا اندر اس قدر بدبو تھی کہ ٹھہرا نہیں جاسکتا تھا لیکن یہ بدبو بتا رہی تھی کہ اس مکان میں مردار گل سڑ رہے ہیں یا انسانوں کی لاشیں پڑی ہیں مکان بالکل خالی تھا کمروں میں دیکھا گیا لیکن کچھ سراغ نہ ملا ایک آدمی کے کہنے پر لکڑی کے تختے ہٹائے گئے تو دیکھا کہ ان کے نیچے ایک گہرا گڑھا کھودا ہوا تھا جس میں بے انداز لاشیں پڑی ہوئی تھیں اوپر والی لاش تازہ لگتی تھی اور بدبو سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے نیچے لاشیں گل سڑ رہی ہیں اور مکان میں ان کی بد بو پھیلی ہوئی تھی
ایک تو یہ طریقہ تھا کہ اس سے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو غائب کر دیا گیا تھا ان میں سے کچھ کی لاشیں اس گڑھے میں سے ملیں اور کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ کتنے مکانوں میں ایسے اور گڑھے ہونگے جن میں لاپتہ ہونے والے مسلمانوں کی لاشیں پڑی ہونگی
مسلمانوں کے غائب ہونے کا سلسلہ روکا نہیں بلکہ چلتا رہا کچھ سراغ نہیں ملتا تھا کہ وہ کہاں غائب کیے جا رہے ہیں مسلمان اتنے بھڑکے ہوئے تھے کہ شہر میں انہیں کوئی نابینا نظر آتا تھا تو اسے قتل کر دیتے تھے پھر بھی مسلمان غائب ہوتے رہے ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا گیا جس کا سراغ مل گیا سراغ یوں ملا کہ ایک آدمی علی الصبح فجر کی اذان سن کر مسجد کو جارہا تھا تو اسے یوں نظر آیا جیسے دو تین آدمی کسی آدمی کو گھسیٹ کر ایک مکان کے اندر لے جارہے ہوں وہ نہتّہ تھا اس لیے اس نے اس آدمی کو چھڑانے کی کوشش نہ کی اس کی بجائے اس نے یہ کارروائی کی کہ مسجد میں جب نمازی اکٹھے ہوئے تو اس نے نمازیوں کو بتایا کہ ایک مکان پر اسے شک ہے اور اس نے جو دیکھا تھا وہ انہیں بتایا نماز کے بعد یہ خبر مسلمانوں کے محلوں میں پھیل گئی اور ایک ہجوم اس مکان کے سامنے اکٹھا ہوگیا
اس ہجوم میں زیادہ تر آدمی تلواروں سے مسلح تھے دروازے پر دستک دی گئی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا آخر یہ لوگ اندر چلے گئے یہ قدیم وقتوں کی حویلی تھی جو غیرآباد نظر آتی تھی اس کے تمام کمروں میں جاکر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہاں بھی بدبو تھی جو صاف پتہ چلتا تھا کہ انسانی لاش یا لاشوں کی ہے ادھر آؤ ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا اس کنوئیں میں دیکھو حویلی کا صحن خاصہ کشادہ تھا اور اس کے ایک کونے میں کنواں تھا کنویں میں جھک کر دیکھا تو آدھا کنواں لاشوں سے بھرا پڑا تھا اوپر سے دو تین لاش نکالی گئی یہ ابھی خراب نہیں ہوئی تھیں ان میں ایک لاش کا خون بالکل تازہ تھا یہ وہی آدمی ہوگا جسے اس شخص نے دیکھا تھا کہ گھسیٹ کر اندر لے جارہے ہیں ان چند ایک لاشوں کے بعد کوئی اور لاشیں نہ نکالی گئیں کیوں کہ دانشمند بزرگوں نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ نیچے لاشوں کی حالت بہت ہی بری معلوم ہوتی ہے نہ ہی نکالی جائیں تو بہتر ہے ورنہ ان کے پسماندگان کے دلوں کو بہت ہی صدمہ پہنچے گا چنانچہ اس کنوئیں کو مٹی سے بھر دیا گیا یہ تو بتایا ہی نہیں جاسکتا کہ اس کنوئیں میں کتنی سو لاشیں پڑی ہوئی ہیں…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:40 }
اس دوران ان باطنیوں نے جن اہم شخصیتوں کو قتل کیا ان کے نام یہ ہیں (امیر اسد ملک شاہی) (امیر بخش) اور (امیر سیاہ پوش) یہ تینوں مختلف علاقوں کے امیر تھے اور انہوں نے حسن بن صباح کے خلاف اپنا اپنا محاذ قائم کر رکھا تھا امیر سیاہ پوش ہمیشہ کالے رنگ کے کپڑے پہنتے اور دن رات کا زیادہ تر وقت عبادت اور تلاوت قرآن میں گزارتے تھے باطنیوں کو قتل تو کیا جارہا تھا لیکن امیر سیاہ پوش پہلے امیر اور عالم دین تھے جس نے باقاعدہ فتوی دیا تھا کہ حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کا قتل گناہ نہیں بلکہ کار ثواب ہے
اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے چند اور شخصیتوں کو قتل کیا گیا ان میں (امیر یوسف) کے معتمد خاص (طغرل بیگ) (امیر ارعش اور ہادی علی گیلانی) خاص طور پر شامل ہیں پھر انہوں نے منقرقہ والی دہستان اور (سکندر صوفی قروینی) کو بھی قتل کیا
مندرجہ بالا مقتولین میں ایک خصوصی اہمیت کا حامل تھا وہ سلطان ملک شاہ مرحوم کا غلام ہوا کرتا تھا ملک شاہ نے جب حسن بن صباح اور اس کے خلاف انسدادی مہم شروع کی تھی تو اس غلام نے کسی کے حکم کے بغیر ہی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بہت سے باطنیوں کو قتل کیا تھا اور ایسے طریقے وضع کیے کہ باطنیوں کے لیے کم ازکم مرو میں ٹھہرنا مشکل ہوگیا تھا سلطان ملک شاہ مرحوم نے دیکھا کہ اس شخص کو اس نے غلام بنا رکھا ہے لیکن اس میں عقل و دانش خصوصی طور پر قابل تعریف ہے ملک شاہ نے اسے چھوٹے سے ایک علاقے کا امیر بنا دیا اس نے اپنے علاقے میں کسی باطنی کو زندہ نہ چھوڑا اور اپنا سارا علاقہ ان ابلیسوں سے پاک کر دیا لیکن حسن بن صباح نے اس کے قتل کا خصوصی حکم دیا اور ایک فدائی نے اسے ایک مسجد میں دھوکے میں قتل کردیا اور خودکشی کرلی
اصفہان میں ایک مشہور ومعروف عالم دین تھے جن کا نام شیخ مسعود بن محمد خجندی فقیر شافعی تھا ان کے پیروکاروں کا حلقہ بہت دور دور تک پھیلا ہوا تھا ان کا واعظ اور خطبہ سننے کے لیے لوگ اکثر دور کا سفر کرکے آیا کرتے تھے اس عالم دین اور فقیر نے جب دیکھا کہ باطنی علماء کو قتل کر رہے ہیں تو اس نے ایک خطبے میں انتقامی وار کا اعلان کر دیا یہ دوسرے عالم دین تھے جس نے خطبے میں یہ فتوی دیا کہ حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کا قتل ہر مسلمان پر فرض ہے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کی ادائیگی میں پس و پیش کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ ابلیس کی جان کا محافظ ہے یہ گناہ کبیرہ ہے اس عالم دین نے یہ انتقامی کاروائی کی کہ شہر کے باہر چار پانچ جگہوں پر کشادہ اور گہرے گڑھے کھودوا دیے ان سب میں لکڑیاں پھینک کر آگ لگادی اور یہ آگ ہر وقت جلتی رہتی تھی لوگوں کے دلوں میں شیخ مسعود خجندی کا احترام بلکہ عقیدت اس قدر زیادہ تھی کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو لوگ برحق سمجھتے اور اس کے کہے ہوئے ہر لفظ کو حکم کا درجہ دیتے تھے لوگوں نے اپنے کام کاج چھوڑ کر یہ گڑھے کھودے اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائے اور ان گڑھوں میں پھینکی اور آگ لگائی
اگلا کام یہ تھا کہ شہر میں مخبر اور جاسوس پھیلا دیئے گئے جو باطنیوں کی نشاندہی کرتے تھے اصفہان میں باطنی کوئی تھوڑی تعداد میں نہیں تھے ایک مورخ نے تو لکھا ہے کہ اصفہان کی تقریبا آدھی آبادی باطنیوں کی تھی مسلمانوں کو جہاں پتہ چلتا کہ یہاں باطنی رہتا ہے وہاں ہلّہ بولتے اور باطنی ایک ہاتھ آجائے دو آجائے یا اس سے زیادہ پکڑے جائیں ان سب کو گھسیٹتے دھکیلتے آگ کے کسی قریبی گڑھے تک لے جاتے اور انہیں زندہ آگ میں پھینک دیتے شیخ مسعود خجندی نے شہر کا قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اس کے حکم سے شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی کیونکہ باطنی بھاگ رہے تھے مسلمانوں نے کسی باطنی کو بھاگنے نہ دیا کوئی بھی بھاگنے کی کوشش کرتا اسے پکڑ کر آگ میں پھینک دیتے تھے اس کا بھاگنا ہی ایک ثبوت ہوتا تھا کہ وہ باطنی ہے
شیخ مسعود خجندی کو کوئی سرکاری حیثیت حاصل نہیں تھی اس لیے اسے سرکاری طور پر محافظ نہیں دیے گئے تھے لیکن مرید از خود ہی ان کے محافظ بن گئے تھے مسجد میں جب وہ واعظ کر رہے ہوتے یا امامت ان کے پیچھے چھ سات آدمی محافظ ہوتے تھے
حسن بن صباح نے جب دیکھا کہ اصفہان میں اس کے فرقے اور فدائیوں کا صفایا ہو رہا ہے تو اس نے حکم دیا کہ عراق کی طرف توجہ دی جائے اور عراق کا دارالخلافہ بغداد کو اپنا مرکز بنانے کی پوری کوشش کی جائے اس حکم میں یہ خاص طور پر شامل تھا کہ وہاں بھی سب سے پہلے علماء دین کو قتل کیا جائے
بغداد میں بھی ایک مشہور عالم دین تھے جسے روحانی پیشوا کا درجہ حاصل تھا ان کا نام امام شیخ الشافیعہ ابوالفرج رازی تھا انہیں صاحب البحر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اپنے نام کے ساتھ صاحب البحر لکھنے کی بجائے اہلسنت لکھا کرتے تھے انہیں شہرت اور مقبولیت میں شیخ مسعود بن محمد خجندی سے زیادہ اونچی حیثیت حاصل تھی ان کی مریدی اور عقیدت مندی کا حلقہ بھی بہت ہی وسیع تھا
اصفہان کی طرح عراق میں بھی مسلمان اس طرح قتل ہونے لگے کہ قاتل کا سراغ نہیں ملتا تھا نہ قتل کی وجہ معلوم ہوتی تھی یہ قتل عام نہیں تھا بلکہ اکا دکا مسلمان قتل ہوجاتا یا لاپتہ ہوجاتا تھا یہ خبریں بغداد تک پہنچی تو فوج کے کچھ دستوں کو مختلف علاقوں میں بھیج دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سرکاری مخبروں اور جاسوسوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قتل کی وارداتوں کا سراغ لگائیں اصفہان میں باطنیوں نے جو خون خرابہ کیا تھا اس کی خبریں بغداد میں بھی پہنچی تھیں آخر وہاں کے حکمران کو یقین کرنا پڑا کے یہ باطنی ہیں جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں یہ خبر بغداد کے مسلمانوں کے گھروں تک پہنچ گئی اور اس طرح لوگ چوکنے ہو گئے
امام شیخ الشافیعہ نے جامع مسجد میں اپنے ایک خطبہ میں لوگوں سے کہا کہ صرف چوکس اور چوکنا ہو جانا کافی نہیں ان باطنیوں کا سراغ لگاؤ اور جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آتا ہے اسے کسی حکم کے بغیر اور قانون سے ڈرے بغیر قتل کر دو لوگوں کے لئے اپنی امام کے یہ الفاظ ایسے تھے جیسے یہ اللہ کا حکم اترا ہو انہوں نے باطنیوں کا سراغ لگا کر انہیں قتل کرنا شروع کر دیا امام شیخ الشافیعہ کے چند ایک معتقد ان کے محافظ بن گئے اور وہ جدھر بھی جاتے یہ محافظ ان کے ساتھ ہوتے تھے مسجد میں جب وہ امامت کے لئے کھڑے ہوتے تو ان کے پیچھے ان کے ساتھ ساتھ آٹھ محافظ کھڑے ہوتے اور پہلی صف کے دوسرے نمازی ان محافظوں کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے تھے کسی اور کو اجازت نہیں تھی کہ وہ پہلی صف میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کر نماز پڑھے
جمعہ کا مبارک دن تھا امام شیخ الشافیعہ نے خطبہ شروع کیا باہر مسجد کے دروازے پر کسی نمازی نے بڑی بلند اور پرجوش آواز میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تمام نمازیوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور امام شیخ الشافیعہ نے اپنا خطبہ روک لیا سب نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں نعرہ لگا کر داخل ہوا ہے اور اس کے کپڑوں پر خون لگا ہوا ہے اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا
میں امام شیخ الشافیعہ کے حکم سے ابھی ابھی تین ابلیسوں کو قتل کر کے آرہا ہوں وہ نمازیوں کے اوپر سے گزرتا اگلی صف کی طرف بڑھا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا یا امام گواہ رہنا میں نے آج بہت بڑا ثواب کمایا ہے
میرے اہلسنت بھائیوں! اس نے خنجر والا ہاتھ بلند کر کے نمازیوں سے مخاطب ہو کر کہا میں نے اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے امام کے حکم کی تعمیل کی ہے میں تم سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور انکی ماں ہے میری زندگی دو چار دن کی رہ گئی ہے کیونکہ باطنی اپنے ساتھیوں کے خون کا بدلہ ضرور لینگے اور مجھے قتل کردیں گے میں اپنی بیوی اور بچوں کو تم سب کے سپرد کرتا ہوں ان کی روزی اور باعزت زندگی کی ذمہ داری تمہیں سونپتا ہوں نمازیوں نے جزاک اللہ جزاک اللہ کا بڑا ہی بلند ورد شروع کردیا اور اس شخص کو خراج تحسین پیش کرنے لگے کئی آوازیں اٹھیں کے تمہارے بچوں کی روزی کے ذمہ دار ہم ہیں امام شیخ الشافیعہ ممبر سے اتر آئے اور اس آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا
ہر ذی روح کی روزی کا ذمہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے امام نے بلند آواز سے کہا یہ ضروری نہیں کہ تم قتل ہو جاؤ گے اگر ایسا ہو بھی گیا تو اللہ تعالی تمہارے بچوں اور تمہاری بیوی کو اس کا پورا پورا اجر دے گا یہ کپڑے تبدیل کرکے اور غسل کر کے آؤ یہ باطنیوں کا خون ہے جو خنزیر کی طرح نجس اور ناپاک ہے
ابھی امام شیخ الشافیعہ یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ اس شخص نے ان کی طرف گھوم کر خنجر امام کے سینے میں اتار دیا اور بڑی تیزی سے دو مرتبہ خنجر امام کے سینے میں مارا امام کے محافظ جو اگلی صف میں بیٹھے تھے بڑی تیزی سے اٹھے امام گرِ پڑے محافظ انہیں سنبھالنے لگے تو قاتل ممبر کے اوپر جا کھڑا ہوا اور اپنا خنجر ہوا میں بلند کرکے زور سے نیچے کھینچا اور اپنے دل میں اتار لیا
یا امام شیخ الجبال! اس نے خنجر اپنے سینے سے نکال کر کہا تیرے حکم کی تعمیل کر کے تیری جنت سے اللہ کی جنت میں جا رہا ہوں اس نے ایک بار پھر خنجر اپنے سینے میں دل کے مقام پر مارا پھر خنجر وہیں رہنے دیا اور ہاتھ آسمان کی طرف کر دیے وہ ممبر سے گرا اور فرش پر آن پڑا
امام شیخ الشافیعہ مر چکے تھے کیونکہ خنجر ان کے دل میں اتر گیا تھا محافظوں نے خنجروں اور تلواروں سے قاتل کے جسم کا قیمہ کر دیا لیکن وہ اپنا کام کر چکا تھا اس کے کپڑوں پر اور خنجر پر کسی انسان کا خون نہیں تھا بلکہ یہ گہرا لال رنگ تھا اس نے ایسا دھوکہ دیا تھا جسے کوئی بھی قبل ازوقت سمجھ نہ سکا
اصفہان کے حاکم اور لوگ مطمئن ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے شہر کو باطنیوں سے پاک کر دیا ہے لیکن ایک روز وہاں کے ایک اور عالم دین قاضی ابو الاعلاء صاعد بن ابو محمد نیشاپوری جامع مسجد میں امامت کرانے کے لیے گئے وہ بھی جمعہ کا مبارک دن تھا اور قاضی ابو العلاء خطبے کے لئے ممبر پر کھڑے ہوئے بالکل ایسے ہی جیسے بغداد میں ہوا تھا ایک آدمی نے مسجد میں داخل ہوکر نعرہ لگایا اور کہا کہ وہ چار باطنیوں کو قتل کرکے آیا ہے اسکے بھی کپڑوں پر خون تھا اور اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا اس نے بالکل ویسا ہی ناٹک کھیلا اور قاضی ابو العلاء تک پہنچ گیا اور نمازیوں سے مخاطب ہوکر ویسے ہی الفاظ کہے جو امام شیخ الشافیعہ کے قاتل نے کہے تھے اور اس کے فوراً بعد قاضی ابوالعلاء کے سینے میں خنجر کے تین وار کئے قاتل ممبر پر چڑھ گیا اور اس نے خنجر سے خودکشی کرلی
ان تاریخی واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ باطنی تعداد میں بہت ہی زیادہ ہوگئے تھے لیکن بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ یوں اہم دینی اور معاشرتی شخصیتوں کو قتل کرتے پھرتے وجہ یہ تھی کہ ان میں حسن بن صباح نے ایسا سفاکانہ جذبہ بھر دیا تھا کہ اس کا ایک فدائی ایک ہجوم میں داخل ہوکر اپنے مطلوبہ شکار کو قتل کردیتا تھا اور پھر اپنے آپ کو بھی مار لیتا تھا
یہ حسن بن صباح کی اس جنت کا کمال تھا جو اس نے قلعہ الموت میں بنائی تھی پہلے اس جنت کی پوری تفصیل بیان ہوچکی ہے اس جنت سے نکال کر کسی کے قتل کے لیے بھیجا تھا اسے یقین دلایا جاتا کہ وہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہے گا اسے یہ بھی بتادیا جاتا کہ وہ قتل کرکے اپنے آپ کو قتل کردے گا لیکن اسے یہ یقین بھی دلایا جاتا کہ وہ اس دنیا کی جنت سے نکل کر اللہ کی جنت میں چلا جائے گا جو اس سے کہیں زیادہ حسین ہوگی اور وہاں اسے جو حوریں ملیں گی وہ اس جنت کی حوروں سے بہت زیادہ خوبصورت ہوں گی آج کے سائنسی دور میں اس عمل کو برین واشنگ کہتے ہیں لیکن آج کی سائنس دل و دماغ پر وہ اثرات پیدا نہیں کرسکتی جو حسن بن صباح نے اس دور میں پیدا کیے تھے یہ ساری کرشمہ سازی حشیش کی تھی
پہلے تو تمام امراء اور علماء نے اپنے ساتھ محافظ رکھنے شروع کیے تھے لیکن جب باطنیوں کی قتل و غارت گری بڑھی تو امراء وزراءاور سالاروں وغیرہ نے کپڑوں کے اندر زرہ پہننی شروع کردیں یہ حفاظتی اقدام ایک ضرورت بن گیا اور پھر اس نے ایک رواج کی صورت اختیار کر لی عام لوگ بھی کپڑوں کے نیچے زرہیں پہننے لگے تاکہ خنجر یا تیر جسم تک نہ پہنچ سکے ہزارہا باطنی قتل کیے جا چکے تھے لیکن مسلمان پہلے کی طرح قتل ہو رہے تھے
رے کا شہر بچا ہوا تھا ایک روز حجاج کا ایک قافلہ رے میں داخل ہوا وہ لوگ حج کا فریضہ ادا کر کے واپس آ رہے تھے اس میں کئی ملکوں کے حجاج تھے اس قافلے میں ہندوستان کے مسلمان بھی تھے ،یہ قافلہ یوں لگتا تھا جیسے ماتمی جلوس ہو اس میں بیشتر لوگ آہ فریاد کررہے تھے اور بہت سے ایسے تھے جن کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے، انہوں نے بتایا کہ رے سے تھوڑی ہی دور ان کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ قافلے پر حملہ کرنے اور لوٹنے والے باطنی تھے
امیر شہر نے اسی وقت اپنی فوج اس طرف روانہ کردی جس طرف سے یہ قافلہ آرہا تھا لیکن سات آٹھ دنوں بعد فوج واپس آگئی اور پتہ چلا کہ ڈاکووں کا کہیں بھی سراغ نہیں ملا اور جس جگہ قافلے کو لوٹا گیا تھا وہاں بے شمار لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور ان لاشوں کو جنگل کے درندے اور گدھ کھا رہے تھے
ڈیڑھ دو مہینے گزرے تو ایک اور قافلہ رے میں داخل ہوا اور پتہ چلا کہ اس قافلے کو بھی باطنیوں نے لوٹ لیا ہے اس قافلے میں تاجروں کی تعداد زیادہ تھی اور چند ایک کنبے بھی اس قافلے کے ساتھ جا رہے تھے جن میں کم عمر اور جوان لڑکیاں بھی تھیں باطنی انہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے مسئلہ یہ پیدا ہوجاتا تھا کہ قافلے کے لٹنے کی اطلاع شہر میں اس وقت پہنچتی تھی جب لوٹیرے اپنا کام کرکے اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے تھے وہ سب گھوڑوں پر سوار ہوتے تھے۔
امیر شہر نے ان رہزنوں کو پکڑنے کا ایک بندوبست کیا تقریبا ایک مہینے بعد رے سے خاصی دور ایک قافلہ جا رہا تھا اس قافلے میں پیدل چلنے والے لوگ بھی تھے اور اونٹوں پر سوار بھی اور گھوڑوں پر بھی کئی لوگ سوار تھے قافلے کے ساتھ گھوڑا گاڑیاں اور بیل گاڑیاں بھی بے شمار تھیں جن پر سامان لدا ہوا تھا اور اس سمان کے اوپر ترپال ڈالے ہوئے تھے یہ گاڑیاں خاصی زیادہ تعداد میں تھیں جنہیں دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ یہ تاجروں کا قافلہ ہے اور بے انداز سامان جا رہا ہے یہ تو ایک خزانہ تھا جو جس منڈی میں لے جایا جاتا وہاں سے سونے اور چاندی کے سکے تھیلیاں بھر بھر کے حاصل کئے جاسکتے تھے اس کے علاوہ اس قافلے میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں جو اونٹوں پر سوار تھیں لٹیروں کے لیے یہ بڑا ہی موٹا شکار تھا
قافلے والوں نے چلنے سے پہلے کوئی احتیاط نہیں کی تھی سب سے بڑی احتیاط یہ کی جاتی تھی کہ پتہ ہی نہیں چلنے دیا جاتا تھا کہ قافلہ اگر کسی شہر میں رکا ہے تو وہاں سے کب چلے گا لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے بتا دیا کہ وہ فلاں دن اور فلاں وقت روانہ ہوں گے قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا کچھ اور تاجر اس میں شامل ہوتے گئے اور ان کی بیل گاڑیاں بھی تھی جو سامان سے لدی ہوئی تھیں
قافلہ رے سے سولہ سترہ میل دور پہنچا وہ اس علاقے میں داخل ہو گیا تھا جو لٹیروں اور رہزنوں کے لئے نہایت ہی موزوں تھا اس علاقے میں چٹانیں اور کچھ کم بلند پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان کشادہ جگہ تھیں اور اس علاقے میں درختوں کی بہتات تھی قافلے عموما پہاڑیوں کے درمیان اس خیال سے پڑاؤ کیا کرتے تھے کہ ایسی جگہ محفوظ ہوتی ہے لیکن یہ ان کی کم فہمی تھی قافلے لوٹنے والے ایسے ہی جگہوں کو پسند کیا کرتے تھے وہ دو پہاڑیوں کے درمیان روکے ہوئے قافلے کو آگے اور پیچھے سے روک لیتے تھے قافلے میں سے کوئی شخص ادھر ادھر بھاگ نہیں سکتا تھا لوٹیرے ہر ایک آدمی کی تلاشی بھی لے سکتے تھے
یہ قافلہ جو تعداد کے لحاظ سے بھی بڑا تھا اور مال و اسباب کے لحاظ سے بھی قیمتی اور پھر اس میں اونٹ اور گھوڑے بھی زیادہ تھے اس لئے بھی یہ قافلہ قیمتی تھا یہ کیوں نا لوٹا جاتا قافلہ جب اس علاقے میں داخل ہوا جو لوٹیروں کے لیے موزوں تھا اس وقت آدھا دن گزر گیا تھا عام خیال یہ تھا کہ قافلے رات کو اس وقت لوٹے جاتے ہیں جب یہ کسی پڑاؤ میں ہوتے ہیں لیکن اس قافلے کے ساتھ یوں ہوا کہ اچانک سامنے سے بھی اور پیچھے سے بھی بے انداز گھوڑ سوار نمودار ہوئے اور انہوں نے قافلے کو گھیر لیا
لوٹیرے جانتے تھے کہ قافلے والے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کرسکتے اگر قافلے کے ہر فرد کے پاس پاس ہتھیار ہوتے تو بھی وہ لوگ لوٹنے سے گھبراتے تھے کیونکہ لڑنے کی صورت میں لٹیرے انہیں قتل کر دیتے تھے، جان بڑی عزیز ہوتی ہے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنا سب کچھ لٹیروں کے حوالے کردے اور اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں اور اپنی عورتوں کی عزتیں بچالے
اگر اپنی جان بچانا چاہتے ہو تو غور سے سن لو لوٹیروں کی طرف سے اعلان ہوا اپنے مال و اسباب کو اور اپنے جانوروں کو چھوڑ کر تمام لوگ ایک طرف ہٹ جاؤ اور تم لوگوں کے پاس جتنی رقم سونا اور چاندی ہے وہ ایک جگہ ڈھیر کر دو اگر ہماری بات نہیں مانو گے تو تمہاری لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہوں گی
قافلے والوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہوکر الگ الگ کھڑے ہوگئے لوٹیروں نے انہیں اور پیچھے ہٹا دیا وہ اتنی پیچھے ہٹ گئے کہ پہاڑیوں کے دامن میں جا پہنچے آدھے ادھر اور ادھر لوٹیرے جو سب کے سب گھوڑ سوار تھے مال واسباب اکٹھا کرنے کے لئے آگے آ گئے ان کی تعداد قافلے کی تعداد کے تقریباً نصف تھی
لوٹیرے گھوڑوں سے اترے اور بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں کے اوپر سے ترپال اتار کر دیکھنے لگے کہ یہ کیا مال ہے ان میں سے چند ایک اس طرف چل پڑے جہاں قافلے کی نوجوان لڑکیاں سکتے کے عالم میں کھڑی تھیں وہ اپنے آدمیوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی تھیں
جوہی لٹیروں نے ترپال اٹھانے شروع کی ترپالوں کے نیچے سے بہت سے آدمی نکلے اور وہ لوٹیروں پر ٹوٹ پڑے لٹیروں نے اپنی تلوار اور خنجر وغیرہ نہیں نکالے تھے وہ تو بہت خوش تھے کہ تلواروں کے بغیر ہی اتنا قیمتی مال انہیں مل گیا تھا لیکن جو آدمی ترپالوں کے نیچے سے نکلے وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے انہوں نے لٹیروں کا قتل عام شروع کردیا اور انہیں ہتھیار نکالنے کی مہلت ہی نہ دی
قافلے کے گرد لوگوں کو کھڑا کردیا گیا تھا انہوں نے بھی تلوار نکال لیں اور لٹیروں پر حملہ کردیا لٹیروں کے لیے فرار کے سوا کوئی راستہ نہ تھا لیکن قافلے والے انہیں اس راستے پر جانے ہی نہیں دے رہے تھے
قافلے لوٹنے والوں کو معلوم نہ تھا کہ یہ کوئی قافلہ نہیں بلکہ یہ رے کی فوج ہے اور اس کے ساتھ کوئی سامان نہیں قافلہ میں لڑکیاں تو لٹیروں کے لیے کشش پیدا کرنے کی خاطر شامل کی گئی تھیں یہ قافلہ جہاں سے چلا تھا وہاں اسی مقصد کے لیے ہر کسی کو بتایا گیا تھا کہ قافلہ فلاں وقت یہاں سے چلے گا اور پڑاؤ فلاں جگہ ہوگا یہ دراصل لٹیروں تک پیغام پہنچانے کا طریقہ تھا
تھوڑی سی دیر میں رے کے ان فوجیوں نے جو مختلف لباسوں میں آئے تھے لٹیروں کو کاٹ کر پھینک دیا ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ نکل سکا فوجیوں نے ان کے گھوڑے پکڑ لیے اور ساتھ لے آئے یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ لٹیرے تمام کے تمام باطنی تھے پتہ اس طرح چلا کہ ان میں جو زخمی تھے ان میں بہت سے ایسے نکلے جو موت سے ڈر گئے تھے وہ منتیں کرتے تھے کہ انہیں جان سے مار دیا جائے یا اٹھا کر اپنے ساتھ لے جائیں اور ان کے زخموں کی مرہم پٹی کریں اور وہ آئندہ اس کام سے توبہ کر لیں گے فوجیوں نے ان زخمیوں سے کہا کہ وہ اتنا بتا دیں کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں انہوں نے بتا دیا کہ وہ باطنی ہیں اور حسن بن صباح کے حکم سے قافلے لوٹتے ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قافلوں سے جو مال اور جو رقم وغیرہ لوٹی جاتی ہے وہ سب قلعہ الموت پہنچا دی جاتی ہے
حاکم رے نے حکم دیا تھا کہ ان لٹیروں میں سے دو تین زخمیوں کو اپنے ساتھ لے آئیں ان سے وہ حسن بن صباح کے کچھ راز معلوم کرنا چاہتا تھا ان فوجیوں نے تین زخمیوں کی عارضی مرہم پٹی کر دی اور ایک گھوڑا گاڑی میں ڈال کر انہیں رے لے آئے انہیں ایک کمرے میں لٹا دیا گیا اور طبیب کو بلایا گیا امیر رے بھی وہاں پہنچ گیا
اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو ہمیں ہر بات سچ سچ بتا دو امیر رے نے ان زخمیوں سے کہا اگر تمہیں اپنی جان عزیز نہیں تو میں تمہیں بہت ہی بری موت ماروں گا تمہارے زخموں پر نمک چھڑکا جائے گا اور تم تڑپ تڑپ کر مروگے
تینوں نے کہا کہ وہ سب کچھ بتا دیں گے ان کے زخموں کا کچھ علاج کیا جائے وہ بہت بری طرح زخمی تھے اور نیم غشی کی حالت میں باتیں کر رہے تھے ان میں دو نوجوان تھے اور ایک ادھیڑ عمر تھا حاکم رے نے طبیب سے کہا کہ ان کی مرہم پٹی اس طرح کی جائے کہ جیسے یہ شاہی خاندان کے افراد ہوں طبیب نے اسی وقت مرہم پٹی شروع کردی
اے امیر شہر! ادھیڑ عمر آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا میں آپکو سارے راز دے دوں گا میں جانتا ہوں ہمیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا لیکن میں پھر بھی ہر بات سہی اور سچ بتاؤں گا ہمیں موت سے نہ ڈرائے امیر! اور زندگی کا لالچ نہ دے میں ہر بات بتاؤں گا اور اس سے پہلے میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جو طوفان قلعہ الموت سے اٹھا ہے اسے آپ کی فوج اور اسے سلطان کی فوج اور اسے سلطنت سلجوقہ کی ساری فوج نہیں روک سکتی
امیر رے نے دیکھا کہ یہ زخمی بے ہوش نہیں اور اتنا زیادہ زخمی ہونے کے باوجود ٹھیک ٹھاک بول رہا ہے تو اس نے سوچا کہ اس سے ابھی پوچھ لیا جائے جو پوچھنا ہے
طبیب نے اپنے دو تین شاگردوں کو بھی بلوا لیا اور وہ جب آئے تو انہیں کہا گیا کہ وہ ان نوجوان زخمیوں کے زخم صاف کر کے مرہم پٹی کر دیں امیر کے اشارے پر ادھیڑ عمر آدمی کو ایک اور کمرے میں لے گئے اور طبیب نے اس کے تمام کپڑے اتروا کر مرہم پٹی شروع کردی امیر رے بھی ان کے ساتھ تھا امیر رے نے اس سے کہا کہ حسن بن صباح کی یہ تنظیم کس طرح چلتی ہے کہ اتنے دور بیٹھا ہوا وہ اتنے بڑے علاقے میں باطنیوں کو اپنی مرضی کے مطابق حرکت میں لا رہا ہے اور فدائی اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں
امیر شہر! ادھیڑ عمر زخمی باطنی نے کہا آپ خدا سے ڈرتے ہیں لیکن حکم ابلیس کا مانتے ہیں میں آپ کی بات نہیں کر رہا میں ہر انسان کی بات کر رہا ہوں آپ زاہد اور پارسا ہو سکتے ہیں لیکن ہر انسان ایسا نہیں ہوسکتا کیا آپ نہیں سمجھ سکتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
صرف اس لئے کہ خدا میں عام لوگ وہ کشش نہیں دیکھتے جو ابلیس میں ہے آپ مجھے ابلیس کا پوجاری کہہ لیں شیخ الجبل حسن بن صباح کہتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کو وعدوں پر ٹالتا ہے وہ جنت کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس کے لیے مرنا ضروری ہے یہ بھی ضروری ہے کہ ساری عمر نیکو اور ثواب کے کاموں میں گزار دو گے تو جنت ملے گی لیکن ہمارا شیخ الجبل حسن بن صباح کہتا ہے کہ وہ ہے جنت جاؤ اس میں داخل ہو جاؤ میں اس جنت میں رہ چکا ہوں شیخ الجبل وعدے نہیں کرتا وہ دیتا ہے اسے آپ ابلیس کہتے ہیں ہم اسے امام کہتے ہیں
اس باطنی نے پراعتماد لہجے میں حسن بن صباح اور اس کی تنظیم اور اس کے طریقہ کار کے متعلق سب کچھ بتا دیا یہ بھی بتا دیا کہ قلعہ الموت کے اندر کیا ہے کتنی فوج ہے اور اس کے حفاظتی انتظامات کیا ہیں یہ بھی بتا دیا کہ قافلوں کو لوٹنے والے باطنی الگ ہیں جن کا صرف یہی کام ہے وہ جو کچھ لوٹتے ہیں قلعہ الموت چلا جاتا ہے اس طرح اس شخص نے ہر ایک بات بتا دی
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں امیر شہر! اس نے کہا میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ آپ شیخ الجبل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے سلطان برکیارق کے ایک سالار اوریزی نے قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لے رکھا ہے چھے مہینے ہو چکے ہیں ابھی تک وہ قلعے کی دیواروں تک نہیں پہنچ سکا اس نے پہنچنے کی کوشش کی تو اپنے بہت سے سپاہیوں کو مروا کر پیچھے ہٹ آیا اس کا محاصرہ کامیاب نہیں ہو سکا اگر ہو بھی گیا تو شیخ الجبل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا
کیا شیخ الجبل نے وسم کوہ کا محاصرہ توڑنے اور پسپا کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا ؟
امیر رے نے پوچھا
میں صحیح جواب نہیں دے سکوں گا باطنی نے کہا اگر چھے مہینے گزر جانے کے باوجود شیخ الجبل نے قلعہ وسم کوہ کو بچانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ سلجوقی سالار یہ قلعہ نہیں لے سکے گا میں اپنے امام شیخ الجبل کے ساتھ رہا ہوں میں اس کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہوں اس نے قلعہ وسم کوہ کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اسے پوری امید ہے کہ سلجوقی سالار اپنا ہر ایک سپاہی مروا کر خود ہی وہاں سے مایوس اور ناکام ہو کر واپس آجائے گا
طبیب اس باطنی کی مرہم پٹی کرتا رہا وہ بولتا رہا اور امیر رے سنتا رہا مرہم پٹی ہو چکی تو امیر رے اور طبیب باہر نکل آئے کچھ دور آ کر امیر رے رک گیا اور طبیب سے پوچھا کہ اس باطنی نے جو باتیں کی ہیں ان کے متعلق اس کا کیا خیال ہے؟
امیرمحترم! بوڑھے طبیب نے جواب دیا عمر گزر گئی ہے مریضوں اور زخمیوں کا علاج کرتے آپ ان کی باتوں کے متعلق میری رائے پوچھ رہے ہیں اور آپ غالبا اس پر بھی حیران ہو رہے ہیں کہ اس نے اس قسم کی باتیں کس قدر پر اعتماد اور بے تکلف لہجے میں کی ہیں لیکن میں حیران ہو رہا ہوں کہ اتنا زیادہ خون نکل چکا ہے کہ اسے زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا لیکن یہ زندہ ہے اور اس کا دماغ اس کے جسم سے زیادہ زندہ ہے اسے کہتے ہیں جذبہ اور عقیدہ یہ الگ بات ہے کہ اس کا جذبہ بھی ابلیسی اور عقیدہ بھی ابلیسی ہے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہے حسن بن صباح کی اصل قوت اس شخص کو موت کا کوئی غم نہیں اور زندہ رہنے کا لالچ بھی نہیں یہ مرے گا تو حسن بن صباح زندہ باد کا نعرہ لگا کر مرے گا اس وقت ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایسا جذبہ پیدا ہو جائے اگر ایسا ہو سکتا ہے تو حسن بن صباح کا یہ فرقہ بھی ختم ہو سکتا ہے دین اسلام کو اسی جذبے اور ایسے ہی عقیدے کی شدت سے زندہ رکھا جا سکتا ہے
امیر شہر نے طبیب کو رخصت کر دیا اور اپنے محافظ دستے کے کماندار کو بلا کر کہا کہ ان تینوں باطنیوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں دور لے جا کر ایک ہی گڑھے میں دفن کر دی جائیں
سالار اوریزی کو قلعہ وسم کوہ کا محاصرہ کیے چھے مہینے گزر گئے تھے قلعے کا دفاع جتنا مضبوط تھا کہ قلعہ سر ہوتا نظر نہیں آرہا تھا سالار اوریزی اپنے ساتھ غیر معمولی طور پر دلیر جانبازوں کا لشکر لے کر گیا تھا ان جانبازوں کا ایک گروہ قلعے کا دروازہ توڑنے کے لئے دروازے تک پہنچ گیا تھا انہوں نے ہتھوڑوں اور کلہاڑیوں سے دروازے پر ضرب لگائیں لیکن اوپر سے باطنیوں نے ان پر جلتی ہوئی لکڑیاں اور انگارے پھینکے چند ایک جانبازوں کے کپڑوں کو آگ لگ گئی وہ پیچھے کو بھاگے اوپر سے باطنیوں نے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیا اور شاید ہی اس گروہ میں سے کوئی جانباز زندہ واپس آیا ہوگا
ایسی قربانی ایک بار نہیں متعدد بار دی گئی جاں باز کسی اور دروازے تک پہنچے لیکن زندہ واپس نہ آ سکے سالار اوریزی نے سرنگ کھودنے کی بھی سوچی لیکن یہ کام آسان نہیں تھا پھر بھی اس نے سرنگ کھدوانی شروع کردی تھی وہ جانتا تھا کہ سرنگ دیوار کے نیچے سے قلعے کے اندر تک چلی بھی گئی تو سارے کا سارا لشکر ایک ہی بار اس سرنگ کے ذریعہ قلعے تک نہیں پہنچایا جاسکے گا تین تین چار چار جانباز اس سرنگ میں سے اندر جائیں گے اور باطنی جس جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں انہیں ختم کرتے چلے جائیں گے لیکن سالار اوریزی کا خیال تھا کہ یہ قربانی تو دینی ہی پڑے گی
سالار اوریزی کو ایک خطرہ اور بھی نظر آرہا تھا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مرو سے کوچ سے پہلے یہ مشہور کر دیا گیا تھا کہ سالار اوریزی اپنے لشکر کو قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرنے کے لئے لے جا رہا ہے اسے توقع یہ تھی کہ حسن بن صباح قلعہ ملاذخان کے دفاع کو مضبوط کرنے میں لگ جائے گا اور اتنی دیر میں وہ قلعہ وسم کوہ کو سر کرلے گا لیکن وہاں تو آدھا سال گزر گیا تھا خطرہ یہ تھا کہ حسن بن صباح کو پتہ چلے گا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے اور اصل میں قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لے لیا گیا ہے تو وہ اپنا ایک لشکر محاصرے پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دے گا اس خطرے کے پیش نظر سالار اوریزی کی نظر پیچھے بھی رہتی تھی اسے ہر روز یہ توقع تھی کہ آج باطنیوں کا لشکر عقب سے ضرور ہی نمودار ہو کر ہلہ بول دے گا لیکن ہر روز کا سورج غروب ہو جاتا تھا اور سالار اوریزی اور زیادہ پریشان ہو جاتا کہ رات کو حملہ آئے گا اسی میں چھے مہینے گزر گئے تھے
حسن بن صباح کو ایک مہینے کے اندر اندر پتہ چل گیا تھا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ اسے پتا ہی نہ چلتا اس کے جاسوس ہر طرف اور ہر جگہ موجود تھے لیکن حسن بن صباح کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ یہ مشہور کر کے کہ قلعہ ملاذ خان کو محاصرے میں لینے کی بجائے سالار اوریزی کا لشکر قلعہ وسم کوہ محاصرے میں لے چکا ہے تو حسن بن صباح کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی تھی
ان سلجوقیوں کی عقل جواب دے گئی ہے حسن بن صباح نے کہا تھا انہوں نے ہمیں یہ دھوکہ اس امید پر دیا ہوگا کہ وہ قلعہ وسم کوہ پر چند دنوں میں قبضہ کرلیں گے قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لیا جا سکتا ہے لیکن سلجوقی لشکر کا کوئی ایک سپاہی اس قلعے کے اندر داخل نہیں ہوسکے گا انہیں زور آزمائی کرنے دو
یا امام! اس کے جنگی مشیر نے کہا تھا کیا ہم یوں نہ کریں گے ان کے محاصرے پر حملہ کردیں؟
ابھی نہیں حسن بن صباح نے کہا انہیں اپنی طاقت وہیں زائل کرنے دو ہم جب دیکھیں گے کہ اب ان کا دم خم ٹوٹ گیا ہے اور ان کا آدھا لشکر وسم کوہ کے تیراندازوں کا نشانہ بن چکا ہے تو ہم حملے کی سوچیں گے اور انہیں اپنا دل خوش کر لینے کیلئے الموت بھیج دیتے ہیں
مزمل آفندی اور بن یونس تقریباً ٹھیک ہو چکے تھے اور یہ دونوں بھی اس لشکر میں شامل ہو چکے تھے
ایک دن سالار اوریزی نے مزمل آفندی سے کہا کہ ظاہری طور پر تو میں ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے آیا ہوں لیکن میرا اپنا ایک منصوبہ ہے وہ یہ ہے کہ یہ قلعہ میرے ہاتھ آ جائے تو میں اسے اپنا ایک مضبوط اڈہ یا ٹھکانہ بنا لوں گا یہاں سے میں باطنیوں کے خلاف مہم شروع کروں گا لیکن اس کے اندر قافلے لوٹنے والے ڈاکو ہیں جو لڑنا اور مرنا جانتے ہیں ان کے پاس تیروں کا ذخیرہ ختم ہی نہیں ہو رہا اور ان کے پاس پھینکنے والی برچھیاں بھی ہیں جو شاید کچھ اور عرصہ ختم نہیں ہونگی میں تقریبا آدھا لشکر مروا چکا ہوں لیکن قلعہ ہاتھ آتا نظر نہیں آتا مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ کسی روز میرے اس محاصرے پر عقب سے حملہ ہوجائے گا میں پورا مقابلہ کروں گا لیکن میرا اور میرے لشکر کا بچ نکلنا ممکن نظر نہیں آتا
پیچھے سے حملہ ہوجائے گا؟
مزمل آفندی نے پوچھا
ہاں مزمل بھائی! سالار اوریزی نے جواب دیا میں حیران ہوں کہ اب تک حسن بن صباح نے یہ کارروائی کیوں نہیں کی اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو فوراً محاصرے کو مزید فوج بھیج کر محاصرے میں لے لیتا محاصرہ کرنے والے لشکر کو محاصرے میں لے لیا جائے تو اس لشکر کا بچ نکلنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے
مزمل آفندی گہری سوچ میں کھو گیا اور اس نے سالار اوریزی کے ساتھ کچھ باتیں کی اور بن یونس کو ساتھ لے کر واپس چل پڑا
ایک برطانوی تاریخ نویس کے مطابق پندرہ سولہ دن گزرے ہوں گے کہ سالار اوریزی نے گھوڑوں کے ٹاپ سنی اس نے پیچھے دیکھا تو ایک گھوڑسوار لشکر سرپٹ چلا آرہا تھا سالار اوریزی جو خطرہ محسوس کر رہا تھا وہ آ گیا تھا اس نے فوری طور پر اپنے لشکر کو جو قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا محاصرے سے ہٹا کر ایک جگہ اکٹھا کر لیا اور پھر اسے ایک جنگی ترتیب دے لی عقب سے یا باہر سے حملے کی صورت میں اپنے لشکر کو اس طرح اکٹھا کرنا ضروری تھا ورنہ محاصرے میں لشکر بندہ بندہ ہوکر بکھرا رہتا ہے
جب گھوڑسوار لشکر کے قریب آیا تو دیکھا کہ آگے آگے دو سواروں کے ہاتھوں میں حسن بن صباح کے پرچم تھے سوار نعرے بھی باطنی فرقے کے لگا رہے تھے سالار اوریزی نے اپنے لشکر کو قلعے سے اور پیچھے ہٹا لیا اور دیکھنے لگا کہ لڑنے کے لئے زمین کون سی موزوں ہے وہ قلعے سے زیادہ دور نہیں ہٹا بڑی پھرتی سے اس نے اپنے بچے کھچے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا دو کو آگے رکھا اور ایک حصے کو ان دونوں کے پیچھے بھیج دیا اب اس کا لشکر مقابلے کے لئے تیار تھا
گھوڑسوار لشکر قلعے کے ایک اور پہلو کی طرف چلا گیا اور رک کر بڑی پھرتی سے جنگی ترتیب میں آ گیا اس لشکر سے اعلان ہونے لگے کہ قلعے کے تمام لوگ باہر آجائیں اور ان مسلمانوں کو گھیرے میں لے کر کاٹ دیں
باہر سے آنے والا سوار لشکر حرکت میں آیا اور سالار اوریزی کے ایک پہلو میں اس طرح سے آ گیا جیسے سالار اوریزی کے لشکر کو گھیرے میں لینا چاہتا ہو گھوڑ سواروں نے برچھیاں بلند کر لی تھی اور پھر انہوں نے برچھیوں کو آنیاں آگے کرلیں اور اب انہوں نے ہلہ بولنا تھا
قلعے کے دروازے کھل گئے اور اندر کا لشکر اس طرح باہر آنے لگا جیسے سیلابی دریا نے بند توڑ ڈالا ہو وہ لشکر سالار اوریزی کے لشکر کے دوسرے پہلو کی طرف چلا گیا اب کوئی شک نہ رہا کہ سالار اوریزی کے لشکر کو باطنیوں نے گھیرے میں لے لیا تھا
سالار اوریزی نے ایک حکم دیا یہ حکم سنتے ہی اس کا لشکر آگے کو دوڑ پڑا اور اس کا ایک حصہ قلعے کے کھلے ہوئے دروازوں کے اندر چلا گیا اور اندر سے دروازے بند کرلئے باقی دو حصے اس لشکر کی طرف آئے جو اندر سے نکلا تھا باہر سے جو گھوڑسوار لشکر آیا تھا اس نے یہ حرکت کی کہ قلعے کے اندر سے آنے والے لشکر پر ہلہ بول دیا دوسرے پہلو سے سالار اوریزی نے ہلہ بولا
اب یہ صورت بن گئی کہ اندر سے نکلنے والا باطنی لشکر گھوڑ سواروں اور سالار اوریزی کے لشکروں کے نرغے میں آ گیا تھا اندر سے آنے والے لشکر حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا بنا وہ تو سمجھ رہے تھے کہ حسن بن صباح نے ان کے لئے مدد بھیجی ہے اور اب محاصرہ کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں رہے گا مگر ہوا یہ کہ وہ خود کٹنے لگے اور گھوڑوں کے قدموں تلے روندے جانے لگے
سالار اوریزی کے لشکر کا جو حصہ قلعے کے اندر چلا گیا تھا اس نے قلعے کے اندر والے لوگوں کا قتل عام شروع کردیا تھا پھر دروازے کھل گئے اور سالار اوریزی کے لشکر کے باقی دونوں حصے اور باہر سے آنے والے گھوڑسوار جنہوں نے حسن بن صباح کے پرچم اٹھا رکھے تھے قلعے کے اندر چلے گئے اور اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے لگے اور سواروں نے اندر جاکر حسن بن صباح کے پرچم پھاڑے اور پھر جلا ڈالے قلعہ وسم کوہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا تھا
یہ کامیابی ایک دھوکے سے حاصل کی گئی تھی دھوکا یہ تھا کہ مزمل آفندی نے سالار اوریزی سے پوچھا تھا کیا پیچھے سے حملہ آسکتا ہے اور اوریزی نے کہا تھا کہ کسی دن بھی پیچھے سے حملہ ہوجائے گا مزمل آفندی کے دماغ میں ایک منصوبہ آ گیا تھا اس نے سالار اوریزی کے ساتھ بات کی اور یہ منصوبہ طے ہوگیا
مزمل آفندی بن یونس کو ساتھ لے کر مرو چلا گیا تھا وہاں اس نے سلطان برکیارق کے ساتھ بات کی اور اسے دو ہزار گھوڑ سوار دے دیے گئے اور ان کا کماندار ایک سالار بھی ساتھ دیا اسی رات اس گھوڑ لشکر نے مرو سے کوچ کیا اور بڑی ہی تیز رفتاری سے جاکر اگلے رات تک قلعہ وسم کوہ کے قریب پہنچ گئے اور وہیں رکے اور رات وہیں گزاری
صبح طلوع ہوئی تو مرو کے ان دو ہزار سواروں نے قلعہ وسم کوہ کا رخ کیا اور اس انداز سے پیش قدمی کی جیسے وہ پیچھے سے محاصرے پر حملہ کریں گے انہوں نے حسن بن صباح کے پرچم خود ہی تیار کر لیے تھے قلعے کے اندر کے لشکر نے جب دیوار کے اوپر سے دیکھا تو انہوں نے حسن بن صباح کے نعرے لگائے قدرتی طور پر وہ سمجھے کہ حسن بن صباح نے یہ گھوڑسوار لشکر بھیجا ہے پھر گھوڑسوار لشکر سے اعلان ہوئے کے اندر کے لوگ باہر آجائیں اور مسلمانوں کو کچل دیں
جوں ہی یہ اعلان ہوا اندر کے تمام لوگ جو لڑنے والے تھے باہر آگئے سالار اوریزی نے اپنے لشکر کا ایک حصہ قلعے کے اندر بھیج دیا اور پھر بیان ہوچکا ہے کہ گھوڑ سواروں نے اور سالار اوریزی کے لشکر نے اندر کے لشکر کو کس طرح گھیرے میں لیا اور اس کے کسی ایک آدمی کو بھی زندہ نہ رہنے دیا
سالار محترم! فتح کی پہلی رات مزمل آفندی نے سالار اوریزی سے کہا اگر حسن بن صباح کو شکست دینی ہے تو دھوکے سے ہی دی جاسکتی ہے وہ شخص سراپا دھوکا اور فریب ہے اس کے لیے ہمیں بھی فریب کار بننا پڑے گا اللہ آپ کو فتح مبارک کرے
سالار اوریزی کو یہ فتح بہت مہنگی پڑی تھی تمام مؤرخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ وسم کوہ کامحاصرہ آٹھ مہینے اور کچھ دن رہا تھا اس عرصے میں سالار اوریزی کا آدھا لشکر کٹ گیا تھا اگر محاصرین کو دھوکے میں نہ مارا جاتا تو محاصرہ ابھی اور طول پکڑ سکتا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قلعے کے اندر خوراک اور دیگر ضروریات کا ذخیرہ اتنا زیادہ تھا کہ قلعے کے اندر کے لوگ محاصرے سے ذرا بھی پریشان نہیں ہوئے تھے
میں آپکو جو یہ داستان سنا رہا ہوں آپکو یہ نہیں بتا رہا کہ فلاں اور فلاں واقعہ کے درمیان کتنا لمبا وقفہ تھا حسن بن صباح کا دور مقبولیت اور اسکی ابلیسیت کی تاریخ کہیں کہیں تاریکی میں چلی جاتی ہے جیسے ریل گاڑی چلتے چلتے کسی تاریک سرنگ میں داخل ہو جاتی ہے اور جب یہ تاریک روشنی میں آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بےشمار سال گزر گئے ہیں وسم کوہ کا قلعہ جس وقت فتح ہوا اس وقت حسن بن صباح بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا اسے جنہوں نے دیکھا تھا اور اس کے متعلق سینہ بسینہ جو باتیں سامنے آئیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حسن بن صباح خاصہ بوڑھا ہو گیا تھا لیکن اس نے اپنی صحت کو ایسا برقرار رکھا تھا کہ لگتا نہیں تھا کہ اس شخص کی جوانی کو گزرے ایک مدت گزر گئی ہے
اوریزی نے اپنے لشکر کو قتل عام کا جو حکم دیا تھا وہ ان شہریوں کے لیے نہیں تھا جو لڑنے میں شامل نہیں تھے قلعے کے اندر سالار اوریزی کے لشکر کا جم کر مقابلہ کرنے والے شہریوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی مسلمان لشکر کو یہ اجازت نہیں تھی کہ اندھادھن قتل کرتے چلے جائیں لوگ گھروں میں دبک گئے تھے اور لڑنے والے شہری بھی گھروں میں جا چکے تھے انہیں پکڑنا ضروری تھا لیکن اس کے لیے یہ طریقہ اختیار نہ کیا گیا کہ ہر کسی کو گھسیٹ کر باہر لے آتے اور اس کی گردن مار دیتے سالار اوریزی وہ روایات برقرار رکھی جو مسلمانوں کا طرہ امتیاز چلا آرہا تھا وہ روایات تھیں مفتوح علاقے کے لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا اور ان کی عزت اور جان و مال کا تحفظ کرنا اور پھر عملاً انہیں یہ یقین دلانا کے انہیں غلام نہیں بنایا جائے گا
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وسم کوہ کے اندر تمام لوگ حسن بن صباح کے پیروکار تھے دوسرے شہروں میں مسلمانوں نے باطنیوں کا قتل عام کیا تھا لیکن اس قلعے میں صورت مختلف تھی وہ یوں کہ ان لوگوں کو بڑے لمبے مقابلے کے بعد شکست دی گئی تھی اور وہ مفتوحین کہلاتے تھے وہ اب فاتح لشکر کے رحم وکرم پر تھے
قلعے کے دروازوں پر اپنے سنتری کھڑے کردیے گئے اور انہیں کہا گیا کہ کسی کو باہر نہ جانے دیں اور جو کوئی اندر آتا ہے اسے آنے دیں سالار اوریزی نے رات گزرنے کا انتظار نہ کیا اور حکم دیا کے گھر گھر کی تلاشی لی جائے اور تمام مردوں کو باہر لایا جائے لیکن کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اس حکم پر سالار اوریزی کے لشکری گھروں میں داخل ہوگئے اور کونوں کھدروں کی تلاشی لے کر مردوں کو باہر لانے لگے چودہ پندرہ سال کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک کو باہر لایا جارہا تھا مشعلیں اتنی زیادہ جلائی گئی تھیں کہ قلعے میں جیسے رات آئی ہی نہیں تھی ان تمام آدمیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا رہا تھا عورتوں کی چیخ وپکار اور آہ و بکاء اور ان کا واویلا اتنا بلند اور اتنا زیادہ تھا کہ آسمان کے پردے چاک ہو رہے تھے لشکری کسی آدمی کو اس کے گھر سے باہر لاتے تو عورتیں اس لشکری کے قدموں میں گر پڑتی یا اسے پکڑ لیتی اور رو رو کر اسے کہتی کہ ان کا آدمی بے قصور ہے اور وہ نہیں لڑا ان عورتوں کو یہ ڈر تھا کہ آدمیوں کو باہر لے جا کر قتل کردیا جائے گا لشکری ان عورتوں کو تسلیاں دیتے تھے کہ ان آدمیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا ان آدمیوں میں ایسے بھی تھے جن کے کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا اور ان کی تلواریں بھی خون آلود تھی یہ ثبوت تھا کہ وہ لڑنے کے بعد گھروں میں چھپ گئے تھے ایسے آدمیوں کو الگ کھڑا کیا جارہا تھا
قلعے کے اندر کا ماحول بڑا ہی بھیانک اور ہولناک تھا لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور خون اتنا کے چلنا محال تھا خون سے پاؤں پھسلتے تھے ان لاشوں میں ایسے زخمی بھی تھے جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے وہ بڑا ہی کربناک واویلا بپا کر رہے تھے اور پانی پانی کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی سالار اوریزی نے اپنے لشکر کے ایک حصے کو اس کام پر لگا دیا کہ اپنے زخمیوں کو اٹھا کر اس جگہ پہنچایا جائے جہاں مرہم پٹی کا انتظام تھا اور اپنے شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ دیں سالار اوریزی نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی باطنی زخمی کو پانی نہیں پلانا قلعے کے اندر سب ہی باطنی تھے اور ان کا قصور صرف یہ نہ تھا کہ انہوں نے سالار اوریزی کے لشکر کا مقابلہ کیا تھا بلکہ ان کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصے سے قافلوں کو لوٹ رہے تھے کوئی قافلے والا مزاحمت کرتا تو اسے یہ لوگ قتل کر دیتے تھے اور ان کی جوان بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے آتے تھے انہیں جینے کا حق نہیں دیا جا سکتا تھا
جب ان لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا رہا تھا تو عورتیں چیختی چلاتی اور بعض سینہ کوبی کرتی وہاں پہنچ گئیں اور سالار اوریزی کو گھیر لیا وہ سب یہی کہہ رہی تھیں کہ ان کے آدمی بے گناہ ہیں سالار اوریزی نے آگے ہو کر ان آدمیوں سے کہا کہ ان میں جو لٹیرے اور ڈاکو ہیں اور جنہوں نے قافلے لوٹے ہیں وہ خود ہی آگے آجائیں ان میں ایسے آدمی تو صاف پہچانے جا رہے تھے جن کی تلوار خون آلود اور جن کے کپڑوں پر بھی خون کے چھینٹے تھے انہیں آگے کر لیا گیا اور چند ایک اور آدمی آگے آگئے سالار اوریزی نے ایک بار پھر کہا کہ خود ہی آگے آجاؤ ورنہ جب انہیں شناخت کرایا جائے گا تو ان کی جان بخشی نہیں کی جائے گی عورتوں نے جب سالار اوریزی کا یہ حکم سنا اور دیکھا کہ کئی ڈاکو اور رہزن آگے نہیں آرہے تو وہ ان لوگوں کے درمیان چلی گئیں اور ایک ایک کو پکڑ کر آگے دھکیلنے لگیں وہ تو جانتی تھی کہ ان میں اصل مجرم کون کون ہے ان کا لشکر اور ان کے دوسرے ساتھی قلعے کے باہر کاٹ دیے گئے تھے ان میں سے اگر کچھ نکل بھاگے ہونگے تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی
بعض باطنیوں کو قلعے کے برجوں میں سے نکال نکال کر لایا جارہا تھا وہ وہاں چھپے ہوئے تھے
مزمل آفندی اور بن یونس بھی سالار اوریزی کے ساتھ تھے وہ دونوں بہت ہی مسرور تھے ان کی چال سو فیصد کامیاب رہی تھی
میرے بھائیوں! سالار اوریزی نے انہیں کہا میں قلعہ الموت سے آنے والی ہواؤں میں یہ خطرہ اب بھی سونگ رہا ہوں کہ حسن بن صباح ہم پر حملہ ضرور کرے گا اسے یہ اطلاع تو مل ہی جائے گی کہ قلعہ وسم کوہ اس کے ہاتھ سے نکل کر ہمارے ہاتھ میں آ گیا ہے
اس کی پیش بندی کر لینی چاہیے مزمل نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں صبح ہی مرو کو روانہ ہو جاؤں گا اور وہاں سے کمک لے آؤں گا
میں مرو سے مزید فوج نہیں منگوانا چاہتا سالار اوریزی نے کہا مرو میں فوج کم ہوئی تو وہ شہر بھی خطرے میں آسکتا ہے ہم یوں کریں گے کہ صبح اپنے سوار لشکر کو قلعے کے باہر مقیم کردیں گے تاکہ اچانک حملہ آجائے تو وہ محاصرے تک نوبت ہی نہ آنے دیں
قلعہ وسم کوہ وسیع و عریض تھا اس میں غیر فوجی آبادی بھی خاصی زیادہ تھی ایک کشادہ میدان تھا جس میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لایا جارہا تھا اور ان کی شناخت ہو رہی تھی سالار اوریزی کی فوج کا ایک عہدیدار تھا جس کا نام شمشیر ابلک تھا تاریخ میں اس کا یہ نام تو آیا ہے لیکن یہ نہیں لکھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا نام سے ظاہر ہے کہ وہ سلجوقی یعنی ترک نسل سے تھا اس کا دادا ان سلجوقیوں میں سے تھا جنہوں نے سلطنت سلجوقیہ کی بنیاد رکھی تھی اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اس کے ساتھ چار سپاہی تھے اور وہ دیوار پر جاکر قلعے کے برجوں کی تلاشی لے رھا تھا اس کے ساتھ دو سپاہیوں کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں وہ دو برجوں میں سے تین چار باطنیوں کو پکڑ کر نیچے بھیج چکا تھا
قلعے کے بڑے دروازے کے اوپر ایک اور کمرہ نما برج بنا ہوا تھا جو اونچا بھی تھا اور لمبا چوڑا بھی شمشیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس برج میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر سیڑھیاں تھیں جو اس برج کی اوپر والی منزل کو جاتی تھی وہ جب سیڑھیاں چڑھنے لگا تو اس کے ایک سپاہی نے سیڑھیوں کے نیچے دیکھا وہاں کچھ سامان اور بستر وغیرہ پڑے ہوئے تھے سپاہی کو یوں شک ہوا تھا جیسے اس نے ان اشیاء کے انبار کے پیچھے دو چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھیں ہوں سپاہی سیڑھیوں پر جانے کی بجائے سیڑھیوں کے نیچے جھک کر دیکھنے لگا وہاں واقعی ایک آدمی تھا جو چھپا ہوا تھا سپاہی کے کہنے پر وہ باہر نکل آیا اس کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے تھے لیکن اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں تھی سپاہی نے اسے کہا کہ اپنی تلوار لے کر آؤ ورنہ اسے زندہ جلا دیا جائے گا وہ سیڑھیوں کے نیچے گیا اور اشیاء کے انبار کے نیچے سے تلوار اٹھا کر لے آیا تلوار خون آلود تھی اس نے تلوار فرش پر پھینک دی
شمشیر ابلک آدھی سیڑھی چڑھ چکا تھا وہ وہیں سے نیچے اتر آیا یہ آدمی شمشیرابلک کی ہی عمر کا تھا اور بڑا صحت مند تھا اس کے چہرے پر کرخت کے تاثرات تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ جلاد ہو
تم بے گناہ نہیں ہوسکتے شمشیر ابلک نے اسے کہا تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم ڈاکو اور رہزن ہو اور نہ جانے کتنے لوگوں کو اب تک قتل کر چکے ہو گے تمہاری تلوار بتا رہی ہے کہ تم آج ہمارے خلاف لڑے تھے چلو نیچے
ہاں میں ڈاکو ہوں اس نے کہا اور میں حسن بن صباح کا پیروکار بھی ہوں میں لڑا بھی ہوں اور تمہارے تین آدمی قتل کئے ہیں انتقام لے لو میں قتل ہونے کے لیے تیار ہوں میں جانتا تھا کہ میرا انجام یہی ہوگا لیکن ایک بات سن لو مجھے قتل کرو گے تو اپنا نقصان کرو گے اور اگر زندہ رہنے دو گے تو تمہیں اتنا خزانہ ملے گا کہ ایک قلعہ خرید سکو گے
زندہ رہنے کی اب کوئی ترکیب کامیاب نہیں ہو گی اے باطنی! شمشیر ابلک نے کہا حسن بن صباح تمہیں چھڑانے نہیں آئے گا تم جس خزانے کی بات کر رہے ہو وہ ہمیں مل گیا ہے اس تہہ خانے کی نشاندہی ہو چکی ہے جس میں اس قلعے کا خزانہ رکھا ہوا ہے
میں جانتا ہوں میرا امام شیخ الجبل مجھے چھڑانے نہیں آئے گا اس نے کہا مجھے یقین ہے کہ میں تمہارے ہاتھوں قتل ہونگا لیکن ایک بات سن لو میں اس خزانے کی بات نہیں کر رہا جو یہاں تہہ خانے میں پڑا ہے وہ خزانہ جو میں بتا رہا ہوں یہاں سے دور پڑا ہے اور میرے سوا کسی کو معلوم نہیں میں چاہتا ہوں کہ وہ تم لے لو کیا تم ان سپاہیوں سے ذرا الگ ہو کر میری بات سننا پسند کروگے؟
اچھی طرح دیکھ لو میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں نہ میں تمہیں کوئی دھوکہ دونگا اور میں دھوکا دے ہی کیا سکتا ہوں تم پانچ مسلح آدمی ہوں اور میں اکیلا اور نہتّہ ہوں
معلوم ہوتا ہے اس شخص کی زبان میں کوئی خاص تاثر تھا یا اس سلجوقی عہدیدار کی شخصیت کمزور تھی کہ اس نے اس ڈاکو کا اثر قبول کرلیا اور اس کی بات سننے پر رضامند ہوگیا اس نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ برج سے نکل کر دروازے کے ساتھ ہی کھڑے رہیں سپاہی نکل گئے تو سلجوقی نے اس ڈاکو کو اپنے پاس بٹھا لیا لیکن بٹھانے سے پہلے اس نے اس ڈاکو کی جامہ تلاشی لے لی تھی وہ جانتا تھا کہ یہ باطنی کس طرح قاتلانہ وار کیا کرتے ہیں
میں شامی ہوں ڈاکو نے کہا میرا نام ابوجندل ہے میں اپنے ساتھ ایک ذمہ داری لیے پھرتا ہوں وہ میری دو یتیم بھتیجیاں ہیں دونوں نوجوان ہیں اور بہت ہی خوبصورت مجھے میرے ساتھیوں نے مشورے دیے تھے اور اب بھی کہتے رہتے ہیں کہ میں ان دونوں کو اپنی امام حسن بن صباح کو پیش کر دوں تو وہ مجھے اپنے یہاں بڑا اونچا رتبہ دے دے گا میرے سلجوقی دوست میں نے دوسروں کی بیٹیاں اغوا کرکے امام کو بھیجی ہیں لیکن جب اپنی ان بھتیجیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا مرا ہوا بھائی یاد آجاتا ہے میں انہیں چھپا چھپا کر رکھتا ہوں
میں مسلمان ہوں شمشیر ابلک نے کہا میں خوبصورت لڑکیوں کے لالچ میں نہیں آؤں گا نہ ہمیں اجازت ہے کہ کسی عورت کو اپنی مرضی سے اپنے پاس رکھ لیں
یہ میں جانتا ہوں ابو جندل نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تم ان لڑکیوں کو اپنے سالار کے حوالے کر دو گے اور وہ چاہے گا تو خود ان کے ساتھ نکاح پڑھا لے گا یا اپنے دو لشکریوں کے ساتھ ان کی شادیاں کر دے گا لیکن کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ان دونوں کو تم اپنے پاس رکھ لوں ایک کو بیوی اور دوسری کو داشتہ بنا لو میں نے جس خزانے کا اشارہ دیا تھا وہ انہیں لڑکیوں کی خاطر ہے مجھے تو قتل ہونا ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ان لڑکیوں کو خالی ہاتھ اس دنیا میں چھوڑ جاؤں
کیا تم میری بات نہیں سمجھے شمشیر ابلک نے کہا میں اپنی مرضی سے کسی عورت کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا اگر تم ان دونوں لڑکیوں کو میرے حوالے کر دو گے تو مجھے یہ لڑکیاں چھوڑنی پڑیں گی یا اپنی فوج چھوڑنی پڑے گی
کیا ملتا ہے تمہیں اس فوج میں ابو جندل نے کہا اور کیا ملا ہے تمہیں مسلمان ہوکر تم سمجھتے ہو کہ تم نے اپنی عاقبت سنوار لی ہے لیکن میں تمہاری دنیا بھی سوار دوں گا پہلے میری پوری بات سن لو پھر انکار یا اقرار کرنا
وہ خزانہ تم خود کیوں نہیں لے لیتے؟
شمشیر ابلک نے پوچھا
یہ میری زندگی کی آخری رات ہے ابو جندل نے جواب دیا صبح تک میں قتل ہو چکا ہونگا اگر تم مجھے قتل ہونے سے بچا لو گے تو بھی میں اکیلا اس خزانے تک نہیں پہنچ سکوں گا میرے تمام ساتھی مارے جا چکے ہیں مجھے کم از کم چار آدمیوں کی ضرورت ہے وہ خزانہ یہاں قلعے کے کہیں قریب نہیں تم میرا ساتھ دو گے اور چار پانچ سپاہی رازداری کے ساتھ لے آؤ گے تو ہم اس خزانے تک پہنچ کر وہاں سے نکال لیں گے
اور وہاں لے جاکر تم مجھے اور میرے سپاہیوں کو بڑی آسانی سے قتل کر سکو گے شمشیر ابلک نے کہا اور اگر میں وہ خزانہ تمہارے ساتھ مل کر نکالوں تو کیا میں واپس اپنی فوج میں آسکوں گا؟
پھر فوج میں واپس آنا ہی نہیں ابو جندل نے پراعتماد لہجے میں کہا ہم دونوں ملک ہندوستان یا دیار حجاز یا مصر کو چلے جائیں گے اور وہاں شاہانہ زندگی بسر کریں گے پہلے میرے گھر چلو اور میری بھتیجیوں کو دیکھ لو مجھ سے ڈرو نہیں میں تمہیں دھوکا نہیں دوں گا مجھے باطنی اور ڈاکو سمجھ کر قتل کر دو قتل سے پہلے میں تمہیں اس جگہ کا راستہ اور نقشہ اچھی طرح سمجھا دوں گا لیکن تم میرے بغیر وہاں تک پہنچ نہیں سکو گے
وہ خزانہ آیا کہاں سے ؟
شمشیر ابلک نے پوچھا اور وہ اس جگہ کیوں رکھا ہے جہاں تم بتا رہے ہو؟
آج میں ہر بات سچی اور کھری کر رہا ہوں ابوجندل نے کہا میں پیشہ ور ڈاکو اور رہزن ہوں یہ میرا آبائی پیشہ ہے میرے باپ کا بھی یہی کام اور دادا کا بھی اور شاید دادے کا دادا بھی یہی کام کرتا ہوگا اس علاقے میں حسن بن صباح کا عقیدہ پھیل گیا اور اس کے اپنے ڈاکو قافلوں کو لوٹنے لگے تو میں مجبور ہوکر اس کے گروہ میں شامل ہوگیا اب ہم لوگ الگ تھلگ قافلوں کو نہیں لوٹ سکتے تھے ہمیں حسن بن صباح کی پشت پناہی اور مدد حاصل ہے میں نے حسن بن صباح کے پاس جا کر اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس کا مرید ہوگیا لیکن آج تک مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ ہم جتنا مال لوٹتے ہیں وہ سارے کا سارا قلعہ الموت بھیجنا ہوتا تھا اس میں سے ہمیں تھوڑا سا حصہ مل جاتا تھا میں نے اپنے پرانے گروہ کے آدمیوں سے کہا کہ لوٹ مار ہم کریں اور خطرے میں ہم اپنے آپ کو ڈالیں اور مال سارا دوسرے لے جائے تو کیوں نہ ہم یہ کام ہی چھوڑ دیں یا اپنے امام کو دھوکہ دے اور آدھے سے زیادہ مال خود رکھا کریں میرا پرانا گروہ بھی امام کے گروہ کے ساتھ مل گیا تھا میں نے اپنے ان پرانے ساتھیوں کے ساتھ یہ بات کی تو انہیں میری بات اچھی لگی ہم نے یوں کرنا شروع کردیا کہ کسی قافلے کو لوٹتے تھے تو لوٹ مار کے دوران میرے گروہ کے دو تین آدمی سونا چاندی اور نقدی اپنے پاس چھپا کر وہاں سے کھسک جاتے اور بہت دور نکل جاتے تھے یہ مال وہ کہیں زمین میں دبا دیتے تھے کچھ دنوں میں اپنے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں جاتا اور مال نکال کر اس جگہ پر پہنچا دیتا تھا جو میں نے تمہیں بتانی ہے ہم لوگ ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دیا کرتے آج تک میرے کسی آدمی نے یوں نہیں کیا کہ یہاں سے غائب ہو جاتا اور اس جگہ سے خزانہ نکال لے جاتا یہ ہے حقیقت اس خزانے کی
یہ تو مان لیا شمشیر ابلک نے کہا لیکن میں تم پر اعتبار کس طرح کروں؟
تم باطنی ہو اور باطنی پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ انسان قتل ہوجاتا ہے
میرے بھائی! ابوجندل نے کہا میرا کوئی مذہب نہیں نہ کوئی عقیدہ ہے میں نے تمہیں بتایا ہے کہ حسن بن صباح ہماری پشت پناہی کرتا تھا اور پناہ بھی دیتا تھا اب ایک کھری سی بات سن لو تم مسلمان ہو اور اس امید پر کوئی برا کام نہیں کرنا چاہتے کہ مر جاؤ گے تو خدا تمہیں جنت میں داخل کر دے گا خدا نے آسمانوں میں جنت بنائی ہے لیکن ساری عمر نیک پاک رہو گے تو تم اس جنت کے حقدار بن سکو گے اس کا کیا اعتبار کہ خدا کی جنت کا وجود ہے کہ نہیں تم یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتے کہ تم نے کبھی گناہ نہیں کیا انسان نادانستہ طور پر بھی گناہ کر گزرتا ہے حسن بن صباح نے زمین پر جنت بنا دی ہے میں نے یہ جنت دیکھی ہے لیکن اس میں جانے کی کبھی خواہش نہیں کی کیوں نہ ہم اپنی جنت خود بنا لیں ہم بنا بھی سکتے ہیں وہ خزانہ ایسا ہے جو ھماری تین نسلیں عیش کرتی رہیں تو بھی ختم نہ ہوگا
شمشیر ابلک کو چپ سی لگ گئی اور اس کے چہرے کے تاثرات سے صاف پتا چلتا تھا کہ وہ قائل ہوگیا ہے اور گہری سوچ میں چلا گیا ہے
میرے سلجوقی دوست! ابوجندل نے کہا میں تمہیں ایک اور بات بھی بتا دیتا ہوں خوش نہ ہونا کہ تم نے قلعہ فتح کرلیا ہے امام شیخ الجبل کا لشکر آ ہی رہا ہوگا اس لشکر میں وہ فدائی ضرور ہونگے جو شیخ الجبل کے نام پر جان قربان کرنے پر فخر کیا کرتے ہیں تمھارے لشکر میں کوئی ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہے گا اس قلعے میں خزانہ بھرا ہوا ہے جو تمہیں معلوم ہو گیا ہے کہ تہہ خانے میں ہے لیکن تمہیں یہاں سوائے موت کے کچھ نہیں ملے گا یہ سارا خزانہ اگر یہاں سے مرو چلا بھی گیا تو تمہیں کیا ملے گا کچھ بھی نہیں یہ سلطان کی ملکیت ہوگا میرے گھر چلو تم دیکھو گے کہ میری دو بھتجیوں کے سوا وہاں کوئی بھی نہیں ویسے بھی ہمیں گھر جانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری بھتیجیوں کو تمہارے دوسرے لشکری لے جائیں اور سالار کے حوالے کردیں تم جب ان لڑکیوں کو اپنے سالار کی ملکیت میں دیکھو گے تو پچھتاؤ گے کہ تم نے پہلے انہیں کیوں نہ دیکھ لیا اور کیوں نہ انہیں غائب کردیا
ہاں! شمشیر ابلک نے کہا ہمیں چلنا چاہیے میرے سپاہی یہ نہ سوچیں کہ معلوم نہیں ہم آپس میں کیا سازباز کر رہے ہیں تم یہیں بیٹھو میں ان کے ساتھ بات کر لوں
شمشیرا بلاک ابوجندل کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر باہر نکلا اور اس نے اپنے چاروں سپاہیوں کے ساتھ یہ ساری بات کیں جو اس کے ساتھ ابو جندل نے کی تھی وہ خود ذمہ دار عہدے دار تھا لیکن قائل ہو گیا تھا یہ تو سپاہی تھے انہوں نے دیکھا کہ ان کا عہدہ دار خزانہ اور دو لڑکیوں کے چکر میں آگیا ہے تو اس کا ساتھ دینا ہی بہتر ہے
کیا آپ نے یقین کرلیا ہے کہ یہ شخص ہمیں دھوکہ نہیں دےگا؟
ایک سپاہی نے پوچھا
یہ اکیلا ہے اور ہم پانچ ہیں شمشیر ابلک نے کہا اور ہم نے اسے نہتّہ کر دیا ہے میرا ساتھ دو اور اس بات کو راز میں رکھنا
شمشیرابلک بُرج میں گیا اور ابو جندل کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا شمشیر ابلک نے اسے کہا کہ وہ ایسے راستے سے اپنے گھر کو چلے کہ انہیں کوئی دیکھ نہ سکے ابوجندل اس قلعے کی بھول بھلیوں سے اچھی طرح واقف تھا وہ انھیں قلعے کی دیوار کے ایسے حصے میں لے گیا جہاں کوئی دیکھنے والا نہ تھا ابوجندل انہیں ادھر سے اتار کر ایک اندھیرے راستے سے اپنے گھر لے گیا
اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہ ملا دروازہ اندر سے بند تھا اس نے بار بار دستک دی تو بھی اندر خاموشی رہی وہ سمجھ گیا لڑکیاں دروازہ نہیں کھول رہی آخر اس نے بلند آواز سے لڑکیوں کو پکارا تب دروازہ کھلا
ابو جندل نے اندر جاتے ہی کہا کہ گھبرائیں نہیں یہ اپنے دوست ہیں شمشیر ابلک نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ صحن میں ہی رہیں اور خود وہ ابوجندل کے ساتھ ایک کمرے میں چلا گیا کمرے میں فانوس جل رہا تھا ابو جندل نے دونوں لڑکیوں کو بلایا شمشیر ابلک نے لڑکیوں کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہ تو بالکل جوان اور بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تھیں
دیکھو لڑکیوں! ابوجندل نے لڑکیوں سے کہا یہ مسلمان فوج کے کماندار ہیں انہوں نے میری جان بخشی کر دی ہے اور تمہاری ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی ہے
دونوں لڑکیاں شمشیر ابلک کی طرف لپکیں اور اپنے بازو اس کے گلے میں ڈال دیئے اور ایک اس کی طرف اور دوسری دوسری طرف بیٹھ گئی اور اپنے گال اس کے گالوں سے ملانے لگیں جیسے وہ ان کے خون کے رشتے کا کوئی عزیز ہوں ان لڑکیوں نے ایسے والہانہ پن کا عملی طور پر اظہار کیا کہ شمشیر ابلک تو جیسے ہپناٹائز ہوگیا ہو
باہر کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور کسی کی آواز آئی کہاں ہے ابو جندل باہر آجاؤ باطنی ڈاکو دو آدمی بڑی تیز تیز چلتے اس کمرے میں آگئے جہاں شمشیر ابلک ابوجندل کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ان آدمیوں کے آنے سے پہلے ہی شمشیر ابلک اٹھ کھڑا ہوا تھا اور لڑکیاں دوڑ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی تھیں ان آدمیوں نے شمشیر ابلک کو دیکھا تو ٹھٹک کر پیچھے ہٹ گئے وہ اس کے اپنے لشکر کے دو لشکری تھے
میں اس گھر کی تلاشی لے چکا ہوں شمشیر ابلک نے کہا میرے ساتھ چار لشکری ہیں یہاں کوئی باطنی نہیں نہ کوئی ڈاکو ہے یہ شخص تاجر ہے اور چند دنوں بعد یہاں سے چلا جائے گا تم لوگ جاؤ میں ذرا اور تسلی کر کے آؤں گا
لشکریوں نے دیکھا کہ ان کا ایک عہدیدار پہلے ہی یہاں موجود ہے تو وہ اس کو سلام کرکے چلے گئے
اب بتاؤ ابوجندل! شمشیر ابلک نے پوچھا وہ جگہ کہاں ہے؟
ابو جندل نے اسے بتانا شروع کردیا کہ وہ جگہ کتنی دور ہے اور وہاں تک ہم کس طرح پہنچیں گے اور وہ علاقہ کیسا ہے وغیرہ وغیرہ
یہ دونوں لڑکیاں ہمارے ساتھ ہونگی ابوجندل نے کہا ہم سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے دو گھوڑے فالتو ساتھ ہونے چاہیے دو بڑے وزنی بکس ہیں ایک ایک گھوڑے پر لاد لے گے اور کچھ سامان ہم اپنے گھوڑوں پر رکھ لیں گے
ہمیں ایک دو دنوں میں ہی نکل جانا چاہیے شمشیر ابلک نے کہا دو تین دن اور باہر سے لاشیں اٹھانے اور انھیں ٹھکانے لگانے کا کام ہوتا رہے گا یہاں سے نکل جانے کے لیے یہ موقع اچھا ہے
ابو جندل نے کہا کہ دو فالتو گھوڑوں کا انتظام وہ کرلے گا اور راستے کی خوراک کا بندوبست بھی وہی کرے گا اس کے پاس گھوڑوں کی کمی نہیں تھی شمشیر اپنے چار سپاہیوں کو ساتھ لے کر وہاں سے چلا گیا اس نے سپاہیوں کو بھی تیار کرلیا تھا انہوں نے تیار تو ہونا ہی تھا کیونکہ انہیں اچھا خاصا حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا
سلطنت سلجوقیہ کے دارالحکومت مرو میں سالار اوریزی کی کامیابی کی دعائیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں لیکن سلطان کے محل میں مایوسی بھی پیدا ہونے لگی تھی محاصرے کو آٹھ مہینے گزر چکے تھے اور وسم کوہ سے اموات کی جو اطلاع آرہی تھی وہ حوصلہ شکن تھیں آخر مزمل اور بن یونس دو ہزار گھوڑ سوار لے کر ایک خاص منصوبے کے تحت گئے تو مایوسی میں کمی آنے لگی لیکن ابھی تک وسم کوہ سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی سلطان برکیارق اور اس کے دونوں بھائی محمد اور سنجر صبح اٹھتے تو سب سے پہلے یہ پوچھتے کہ وسم کوہ سے کوئی قاصد آیا ہے یا نہیں آخر ایک روز قاصد آگیا اور وہ بازو لہرا لہرا کر اعلان کرتا چلا آ رہا تھا کہ وسم کوہ کا قلعہ فتح کرلیا گیا ہے اور باطنیوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے
سلطان تک خبر نہیں پہنچی تھی کہ یہ جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی شہر میں جشن کا سا سماں پیدا ہوگیا اور جب یہ خبر سلطان کے محل میں پہنچی تو وہاں بھی خوشیاں ناچنے لگیں شمونہ اور اس کی ماں میمونہ بھی دوڑی دوڑی سلطان برکیارق تک گئیں سلطان کے محل میں شمونہ کو خصوصی حیثیت حاصل ہو گئی تھی
میں وہاں خود جاؤں گا سلطان برکیارق نے کہا ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میں خود وہاں جاؤں گا یہ فتح کوئی معمولی فتح نہیں
میں بھی ساتھ جاؤں گی سلطان محترم! شمونہ جو پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی بولی میں حسن بن صباح کے پیرو کاروں کی لاشیں اور ان کی ہڈیاں دیکھنا چاہتی ہوں
شمونہ دراصل مزمل آفندی کے لئے پریشان تھی مزمل اور شمونہ نے عہد کر رکھا تھا کہ پہلے حسن بن صباح کا بیڑہ غرق کریں گے اور اس کے بعد شادی کریں گے مزمل نے ایک فتح حاصل کر لی تھی سلطان برکیارق نے شمونہ کو اجازت دے دی کہ وہ اس کے ساتھ جا سکتی ہے
جس وقت سالار اوریزی کا لشکر اور وہ گھوڑسوار لشکر جیسے مزمل آفندی لے کر گیا تھا وسم کوہ کے باہر باطنیوں کو گھیرے میں لے چکے تو ایسے گھمسان کی لڑائی ہوئی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا اس قیامت خیز میں تین باطنی لڑائی سے نکل گئے تینوں زخمی تھے انہوں نے قلعہ الموت کا رخ کرلیا وہ حسن بن صباح کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے
حسن بن صباح تو جیسے قلعہ وسم کوہ کو بھول ہی گیا تھا وہ کبھی پوچھ لیتا تھا کہ وسم کوہ کا محاصرہ ٹوٹا کہ نہیں اسے ہر بار اچھی خبر سنائی جاتی تھی کہ محاصرہ ٹوٹا بھی نہیں اور کامیاب بھی نہیں ہوا اور مسلمانوں کے لشکر کا جانی نقصان مسلسل ہوتا چلا جا رہا ہے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

 www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-3/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 9 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-2/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-2/#respond Thu, 08 Aug 2024 14:15:36 +0000 https://urducover.com/?p=5389 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 9

قسط نمبر    “33”   سے قسط    نمبر”36″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:33 }
ابومسلم رازی نے محمد اور حمیرا کو دوسرے کمرے میں بھیج دیا اور خود گہری سوچ میں کھو گیا محمد محسوس نہ کر سکا کہ اس نے ابومسلم رازی کو مرو کی جو خبر سنائی ہے اس خبر نے اس جہاندیدہ امیر اور حاکم کی ذات میں کیسا تیز و تند طوفان بپا کردیا ہے ابومسلم رازی اس قدر بے چین اور پریشان ہو گیا تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا وہ رکتا اور ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا اور پھر ٹہلنے لگتا وہ سلطان ملک شاہ کا دست راست تھا دونوں کا جذبہ ایک اور ایمان ایک تھا دونوں باطنیوں کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ حسن بن صباح کا نام آجاتا تو دونوں کا خون کھولنے لگتا تھا سلطان ملک شاہ دنیا سے اٹھ گیا تو اس کے بیٹے نے اس کی گدی پر بیٹھ کر اسی حسن بن صباح اور اسکے فرقے کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ کرلیا تھا
ابومسلم رازی نے دروازے پر کھڑے دربان کو بلایا اور اسے کہا کہ مجید فاضل صاحب کو اپنے ساتھ لے آؤ
مجید فاضل ایک بہت بڑا عالم دین شخص تھا جو دین کے علاوہ سیاست اور امور سلطنت کو بھی خوب سمجھتا اور ان سے متعلق مسائل اور مشکلات کا حل اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں نکال لیا کرتا تھا اس کا پورا نام جو تاریخوں میں آیا ہے وہ ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی تھا اس نے علم و دانش اور تجربے کی تلاش میں کئی ملکوں کا سفر کیا تھا اور اب وہ رے میں رہتا تھا ابومسلم رازی خود بھی بڑھاپے کی عمر میں پہنچ گیا تھا اور اپنے علم و فضل سے اس نے بڑا اونچا مقام حاصل کرلیا تھا لیکن مجید فاضل کو اپنا استاد اور بہترین مشیر سمجھتا تھا کوئی مسئلہ پیش آ جاتا تو اسے بلا لیتا یا خود اس کے یہاں چلا جاتا تھا
اس نے دربان سے اتنا ہی کہا تھا کہ مجید فاضل کو اپنے ساتھ لے آؤ دربان جانتا تھا کہ اس شخصیت کے لئے بگھی لے کر جانا ہے اور اسے اس سواری پر لانا ہے
کچھ دیر بعد بگھی مجید فاضل کو لے آئی ابومسلم رازی اس کے استقبال کے لیے باہر نکلا اور اسے بڑے احترام اور تعظیم سے اندر لے آیا
کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آرہے ہوں مجید فاضل نے اندر آکر بیٹھتے ہوئے پوچھا کوئی پیچیدہ مسئلہ آن پڑا ہے ؟
پیچیدہ نہ ہوتا تو میں آپ کو زحمت نہ دیتا ابومسلم رازی نے کہا وہ خطرہ جس کے متعلق ہم کئی بار بات کرچکے ہیں ایک سیاہ کالی گھٹا کی طرح سلطنت سلجوقیہ پر چھا گیا ہے اس گھٹا کے اندر بجلیاں چھپی ہوئی ہیں وہ آپ خود جانتے ہیں کہ اب یہ گھٹا خون کا مینہ برسائے گی
کوئی اور اطلاع آئی ہے مجید فاضل نے پوچھا
ابومسلم رازی نے وہ ساری صورتحال بیان کر دی جو کچھ دیر پہلے محمد نے اسے سنائی تھی
کیا برکیارق کچھ بھی نہیں سمجھ رہا؟
مجید فاضل نے پوچھا
نہیں! ابومسلم رازی نے جواب دیا میں خود اس کے ساتھ بات کر چکا ہوں محترم جس نے اپنی عظیم ماں کی بات نہیں سنی اور اپنی بیوی کو برتر سمجھا ہے اس پر میری باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے یہ تو وہی باتیں ہیں جو ہم کئی بار کرچکے ہیں اب برکیارق فوج کی آدھی نفری نکال رہا ہے کچھ دنوں بعد باقی فوج میں سے آدھی نفری کو بھی گھر بھیج دے گا محمد بتاتا ہے کہ ان لوگوں میں جنہیں فوج سے نکالا جا رہا ہے اور شہریوں میں بھی غم و غصہ پھیلتا چلا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جو قوم کو خانہ جنگی کی طرف گھسیٹنے گے
تم نے کیا سوچا ہے ؟
مجید فاضل نے پوچھا
یہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا آپ کو زحمت دینے سے میرا مطلب یہی تھا کہ میں غلط سوچ رہا ہوں تو مجھے روکیں اور اگر میں صحیح بات تک پہنچ رہا ہوں تو میری حوصلہ افزائی کریں یا مجھے کوئی راستہ دکھائیں
کیا سوچا ہے؟
خانہ جنگی! ابومسلم رازی نے کہا میں نے محمد سے کہا ہے کہ جن افراد کو فوج سے نکالا جارہا ہے اگر انہوں نے کسی شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور انہیں طاقت اور تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی تو میں ان نکالے جانے والوں کو یہاں لے آؤنگا اور ان کی ایک فوج بنا لوں گا پھر میں برکیارق کی فوج کے مقابلے میں جاؤنگا
میں تمہاری سوچ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں مجید فاضل نے کہا لیکن میں تمہیں پہل کرنے سے روکوں گا یہ دیکھیں گے کہ وہ کیا کرتے ہیں اگر وہ تشدد اور فوجی کارروائی پر اتر آتے ہیں تو پھر تم اپنا فرض اس طرح ادا کرنا کہ اس سرکاری فوج کا خاتمہ نہ ہو تمہارا مقصد صرف یہ ہوکہ برکیارق کو معزول کرکے محمد کو باپ کی گدی پر بٹھایا جائے
میرا مقصد یہی ہے محترم! ابومسلم رازی نے کہا میں یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک بیٹے کو معزول کرکے اس گدی پر خود بیٹھ جاؤنگا اور دوسرے بیٹوں کو ان کے حق سے محروم کر دوں گا محمد اور اس کا بھائی سنجر بڑے ہی عظیم باپ کے بیٹے ہیں سلطان ملک شاہ اور میں ایک ہی منزل کے مسافر تھے
ابومسلم رازی کی آواز رک گئی اور اس کے آنسو پھوٹ آئے
خانہ جنگی ہو کر رہے گی مجید فاضل نے کہا مجھے خبریں مل رہی ہیں میرے شاگرد میرے جاسوس ہیں مرو سے مجھے خبریں ملتی رہتی ہے حسن بن صباح کے دہشتگرد باطنی شہروں میں بھرتے چلے جارہے ہیں یہ تو یقینی امر ہے کہ سلطان برکیارق کی بیوی روزینہ حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے اتنی لمبی عمر کا تجربہ مجھے بتاتا ہے کہ دنیا میں جتنی تباہی عورت لائی ہے اتنی تباہی ایک دوسرے کے ملکوں پر حملے کرنے والے بادشاہ بھی نہیں لا سکے میں ہر عورت کی بات نہیں کر رہا عورت وفادار بیوی بھی ہوتی ہے اور عورت عظیم ماں بھی ہوتی ہے اور اپنے دودھ کی دھاروں میں اپنی عظمت اپنے بچوں کی روح میں ڈال دیتی ہے عورت بہن بھی ہوتی ہے اور جو اپنے بھائیوں کو جہاد کیلیے رخصت کر دیتی ہے میں اس عورت کی بات کر رہا ہوں جسے تربیت ہی یہ ملتی ہے کہ جس کے پاس دھن دولت ہے تخت و تاج ہے اسے پھانس لو اور کنگال کر کے باہر پھینک دو حسن بن صباح اپنی تربیت یافتہ لڑکیوں کو اسی طرح استعمال کرتا ہے یہ تو تم خود جانتے ہو کہ حسین و جمیل نوجوان لڑکی بجائے خود جادو کا اثر رکھتی ہے میں نئی بات نہیں کہہ رہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ برکیارق کو اس لڑکی کے جال سے نہیں نکالا جاسکتا
ایک بات اور ذہن میں آتی ہے ابومسلم رازی نے کہا اگر اس لڑکی کو قتل کر دیا جائے تو آپ کیا مشورہ دیں گے؟
برکیارق کا رد عمل وحشیوں اور درندوں جیسا ہوگا مجید فاضل نے کہا وہ پاگل ہو جائے گا اپنی ماں تک کو قتل کروا دے گا اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو قید خانے میں پھینک دے گا اسے معلوم ہے کہ آپ بھی اس لڑکی کے خلاف ہیں وہ آپ کو اس رتبے سے معزول کر کے قتل کروا دے گا یا قید خانے میں ڈال دے گا میرا مشورہ یہ ہے کہ اسکی گمراہی کے نتائج سامنے آنے دیں خون بہے گا بہنے دیں تاکہ وہ دیکھے کے اس نے کیا گل کھلائے ہیں اور یہ جو خون بےگناہوں کا بہہ گیا ہے یہ اس کے کرتوت کا نتیجہ ہے اور وہ اپنے خاندان اور پوری سلطنت کی تباہی کا اکیلا ذمہ دار ہے اس کی بیوی نہیں بیوی تو آئی ہی اسی مقصد کے لئے تھی
میں یہ بھی جانتا ہوں کے یہ لڑکی جو اس سلطنت کی ملکہ بن بیٹھی ہے خزانہ خالی کر رہی ہے ابومسلم رازی نے کہا اور یہ خزانہ قلعہ الموت میں جارہا ہے ہمیں بہت جلدی کوئی کاروائی کرنی پڑے گی
آپ یہ لعنت اپنے سر نہ لیں مجید فاضل نے کہا حسن بن صباح زیادہ جلدی میں ہے وہ جو چال ایک لڑکی کے ذریعے چل رہا ہے وہ بہرحال کامیاب ہوگی اسے کامیاب ہونے دیں اس کے بعد آپ اپنی چال چلے گے یہ ہو گی خانہ جنگی ہی باطنی خانہ جنگی کے لئے زمین ہموار کر چکے ہیں آدھی فوج کو نکلوا دینا ان کی پہلی چال ہے نائب سالار اوریزی جو سوچ رہا ہے اور کر رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے آپ تیار رہیں جونہی کوئی اس قسم کی صورتحال پیدا ہوجائے تو دیکھ لیں کہ آپ یہاں کچھ کر سکتے ہیں یا آپ کو وہاں پہنچنا چاہیے خانہ جنگی سے نہ ڈرو یہ میں بتا چکا ہوں کہ خانہ جنگی ہو کر رہے گی آپ اسے روکنے کی کوشش کریں گے تو اس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کہ آپ اپنی توانائی اور اپنے وسائل ضائع کریں گے اور آپ دشمنوں کی نظر میں آجائیں گے اور ایک روز یہ خبر ملے گی کہ رے کا امیر ابو مسلم رازی قتل ہوگیا ہے محمد یہاں آیا ہے اسے جلدی واپس بھیج دیں اور اسے یہ کہہ دیں کہ مرو میں کسی کو پتہ نہ چلنے دے کہ وہ یہاں آیا تھا
ہم اسلام کی سربلندی اور فروغ میں مصروف تھے ابومسلم رازی نے کہا لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اس سلطنت کو شکست و ریخت سے بچانا ایک مسئلہ بن گیا ہے
یہ سارا فتنہ اسلام کی تباہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے مجید فاضل نے کہا اسلام ایک مکمل دین ہے اور یہ اللہ کا اپنا دین ہے اور یہ ہمیشہ قائم رہے گا اور باطل کی حکومت اسے کمزور کرتی رہے گی یہ نہ سمجھو کہ حسن بن صباح کے پاس جو تربیت یافتہ لڑکیاں ہیں وہ صرف اغوا کی ہوئی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہودونصاریٰ نے اپنی کمسن اور انتہائی خوبصورت بچیاں حسن بن صباح کے حوالے کر رکھیں ہیں وہ اس باطنی ابلیس کی یہ ضرورت پوری کرتے ہیں یہود و نصاریٰ کو تم ہر دور میں اسلام کی بیخ کنی کے لیے سرگرم دیکھو گے خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ خود مسلمان اسلام کی بیخ کنی کر رہے ہیں
ان کے دماغوں میں حکمرانی کا بھوت سوار ہوگیا ہے حکمرانی اور اقتدار اعلی کی ہوس ایسی خطرناک چیز ہے جو دماغ میں داخل ہوجائے تو وہ اس کی خاطر اپنے دشمن کے ساتھ بھی دوستی کرنے سے گریز نہیں کرتا خلافت اسلام کی مرکزیت کی نشانی تھی لیکن کہاں ہے ہمارا خلیفہ؟
برائے نام ایک آدمی خلافت کی گدی پر بیٹھا ہے اور وہ ایسے حالات پیدا کر لیتا ہے کہ وہ مرجائے تو یہ گدی اس کے خاندان میں ہی رہے شریعت ختم ہو چکی ہے یہی ایک پابندی تھی حسن بن صباح نے یہی کمال کیا ہے کہ شرعی پابندیوں کو ختم کرکے یہ کہا ہے کہ یہ ہے اصل اسلام انسان کی فطرت کسی پابندی کو قبول نہیں کرتی یہ ابلیسی طرز فکر ہے جو انسان کو اچھا لگتا ہے کیونکہ اس میں لذت ہے نشہ ہے اور اس میں کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں بہرحال آپ مرو کے حالات پر نظر رکھیں اور تیار رہیں میں آپ کے ساتھ رابطہ رکھونگا اور مجھے ہر حال میں اور ہر وقت اپنے ساتھ سمجھیں
جب ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی ابومسلم رازی کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت اس سلطان ملک شاہ مرحوم کا بیٹا سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد حمیرا کے ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھا باتیں کر بھی رہا تھا اور سن بھی رہا تھا محمد خوبرو جوان اور خوش گفتار تھا اور وہ سلطان کا بیٹا اور موجودہ سلطان کا چھوٹا بھائی تھا حمیرا جب اس کے ساتھ اس کمرے میں آئی تھی تو اس پر مرعوبیت طاری تھی اور وہ جھینپی ہوئی تھی وہ خاص طور پر حسین اور دلکش لڑکی تھی لیکن اسے باطنیوں کی تربیت حاصل نہیں تھی کہ وہ محمد کو مرعوب کرتی
محترم رازی نے تمہارے متعلق بہت ہی مختصر بات کی ہے محمد نے حمیرا سے کہا میں ساری بات تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں
حمیرا پر جو بیتیی تھی وہ اس نے ہر ایک تفصیل کے ساتھ سنا دی اس کے آنسو بھی نکلے اس نے آہ بھری اور انتقام کے جذبے کا غلبہ ہوا تو اس کے چہرے پر سرخی آ گئی اور اس کے دانت پسنے لگے
اسلام کو تم جیسی بیٹیوں کی ضرورت ہے محمد نے کہا اگر انتقام لینا چاہتی ہو تو مردوں کی طرح حوصلہ مضبوط کرو عورتوں کی طرح رو نہیں
لیکن میں اکیلی کیا کر سکتی ہوں؟
حمیرا نے کہا
بہت کچھ کر سکتی ہو محمد نے کہا تم میں مردوں والی ہمت ہے لیکن ہم مرد جب تک زندہ بیدار ہیں ہم کسی عورت کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے تم نے میری باتیں سنی ہے جو میں محترم رازی کو سنانے آیا تھا تم نے محسوس کیا ہوگا کہ میرا اور تمہارا جذبہ ایک ہے اسلام کو اور اس سلطنت کو میرا بڑا بھائی نقصان پہنچا رہا ہے اسی لیے میں اپنے سگے بھائی کو دشمن کہہ رہا ہوں ہم اس سلطنت کو اسلام کا قلعہ بنا چکے تھے میرے والد مرحوم کا مقصد ہی یہی تھا مگر ان کی وفات کے بعد حالات نے کچھ اور پلٹا کھایا میری عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی کہ میں دانشوروں اور عالموں کی طرح بات کر سکوں میں تمہیں صرف یہ کہوں گا کہ جس طرح تم نے خوف کو قبول نہیں کیا اسی طرح اپنے آپ کو ہمیشہ بے خوف اور نڈر رکھنا اگر تم پر خوف کا غلبہ ہوتا تو الموت سے تم کبھی نہ نکل سکتی اس باطنی کو دریا میں پھینک کر ہلاک نہ کرسکتی اور پھر تنہا سفر کا تو تمہارے ذہن میں خیال بھی نہ آتا لیکن تم نے خوف کو قبول نہیں کیا تھا اس لئے تمہارے دماغ نے تمہاری رہنمائی کی اور تم ایک آدمی سے گھوڑا لے کر یہاں تک پہنچ گئی
کیا یہ سلطنت باطنیوں کو ختم کرسکے گی؟
حمیرا نے پوچھا
کرسکتی تھی محمد نے جواب دیا میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میرے والد مرحوم کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا باطنیوں کا خاتمہ مگر میرا بڑا بھائی باپ کی گدی پر بیٹھا تو اس نے باطنیوں کے خاتمے کی بجائے اپنے باپ کے مقصد کا خاتمہ کردیا
وہ کیسے؟
وہ اس طرح محمد نے جواب دیا کہ وہ باطنیوں کی گود میں جا گرا ہے اس نے سب کی مخالفت کے باوجود ایک باطنی لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ہے اس کی بیوی کا نام روزینہ ہے وہ تم سے زیادہ خوبصورت نہیں لیکن اس کے ہاتھ میں جو جادو ہے اس کو اسے چلانے کی تربیت ملی ہے
کیا ہم اس لڑکی کو ختم نہیں کرسکتے؟
حمیرا نے کہا اگر کوئی اور نہ کر سکے تو یہ کام میرے سپرد کریں میں جب تک چند ایک باطنیوں کا خون اپنے ہاتھوں بہا نہ لونگی مجھے چین نہیں آئے گا میں نے اپنے بڑے بھائی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے خون کا انتقام لینا ہے
اور میں نے اپنے باپ کے خون کا انتقام لینا ہے محمد نے کہا میرے باپ کو باطنیوں نے دھوکے میں ذہر پلا کر مار ڈالا ہے میں بھی تمہاری طرح سوچا کرتا ہوں لیکن ایک دو آدمیوں کو قتل کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کسی کو قتل کرنا کوئی مشکل کام نہیں روزینہ کو میں خود قتل کر سکتا ہوں کروا بھی سکتا ہوں مگر ہم نے اس کے نتائج دیکھنے ہیں میرا بھائی برکیارق ہمیں قتل کروا دے گا وہ اپنے آپ میں ہے ہی نہیں
میں سوچ رہی تھی کہ روزینہ کی کنیز بن جاتی ہوں حمیرا نے کہا میں ایک غریب لڑکی بن کر اس کے پاس جاؤں اور اسے کہوں کہ وہ مجھے اپنی کنیز بنا لے تو میرا خیال ہے کہ میری بات مان جائے گی پھر میں اسے آسانی سے زہر دے سکتی ہوں لیکن آپ نے جو بات کہی ہے وہ میں سمجھ گئی ہوں
تم یہی انتظار کرو محمد نے کہا اپنا خون نہ جلاؤ ہمیں جہاں کہیں تمہاری ضرورت محسوس ہوئی تمہیں بلا لیں گے
میں یہاں کب تک پڑی رہونگی؟
حمیرا نے کہا اچھا نہیں لگتا کہ امیر شہر کے یہاں مہمان ہی بنی رہوں آخر ایک دن یہ مجھ سے تنگ آ جائیں گے میرا تو کوئی گھر ہے ہی نہیں نہ کوئی ٹھکانہ نہ کوئی پناہ
ایسا نہ سوچو! محمد نے کہا یہاں عموماً تم جیسی لڑکیاں اور مظلوم آدمی آتے ہی رہتے ہیں تمہیں یہاں سے کوئی نکال نہیں دے گا
جذباتی سہارا تو مجھے کوئی نہیں دے سکتا حمیرا نے کہا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے میرا بھائی شہر کا رئیس تھا میں نے اچھے خاندان میں پرورش پائی اور اچھی زندگی دیکھی تھی
تمہیں اس سے زیادہ اچھی زندگی ملے گی ان شاءاللہ محمد نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اپنی ذات کے متعلق تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے
میری عمر دیکھیں حمیرا نے کہا میں تو کہوں گی کہ اللہ تعالی نے اتنی اچھی شکل و صورت دے کر مجھ پر کوئی کرم نہیں کیا مجھ جیسی بے آسرا لڑکیوں کے لئے خوبصورتی مصیبت بھی بن جایا کرتی ہے آپ یقینا شادی شدہ ہیں
نہیں حمیرا ! محمد نے مسکراتے ہوئے کہا میں نے ابھی شادی کی سوچی بھی نہیں ماں کو میرا فکر لگا رہتا ہے لیکن سلطنت کے بگڑتے ہوئے حالات نے میری توجہ ادھر سے ہٹا رکھی ہے
حمیرا فوراً کچھ بھی نہ بولی اس کی نظریں محمد کے چہرے پر جم کر رہ گئیں اور پھر اس کی نظریں جھک گئیں صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن کہنے کی جرات نہیں رکھتی
ایک بات پوچھوں حمیرا ؟
محمد نے کہا کیا اپنی پسند کا کوئی آدمی تمہاری زندگی میں آیا ہے
یہی تو غلطی کر بیٹھی تھی حمیرا نے کہا آپ کو سنایا ہے کہ ایک آدمی کو دل میں بٹھایا تھا اور اسی آدمی کو اپنے ہاتھوں دریا میں دھکیل کر اور ڈبو کر مار ڈالا ہے اس کا نام جابر بن حاجب تھا اب تو میں محبت کے نام سے بھی ڈرتی ہوں آنکھیں انسان کو باہر سے دیکھتی ہیں اندر سے نہیں دیکھ سکتیں میری آنکھوں نے اور میرے دل نے مجھے دھوکہ دیا
میری آنکھیں مجھے دھوکا نہیں دے رہیں محمد نے بڑے ہی خوشگوار لہجے میں کہا میری آنکھیں تمہارا ضمیر اور تمہاری روح بھی دیکھ رہی ہیں میں نہیں بتا سکتا کہ میں تمہارے اس ظاہری حسن اور پرکشش جسم سے متاثر ہوا ہوں یا کارنامے سے جو تم نے کر دکھایا ہے یا اس جذبے سے جو تمہیں بے چین اور بے قرار کئے ہوئے ہے یا ان ساری چیزوں نے مل ملا کر ایسا اثر کیا ہے کہ میں تمہیں یہاں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا
آپ کی یہ بات سن کر میری روح کو تسکین ہوئی ہے حمیرا نے سر جھکا کر کہا اگر آپ نے مجھے دلی طور پر قبول کرلیا ہے تو میں اپنے آپ کو یقین دلا سکتی ہوں کہ میری زندگی کی خلا کو صرف آپ کی محبت پُر کرسکتی ہے
دونوں کے ہاتھ آگے بڑھے اور ان ہاتھوں نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا اور پھر ان ہاتھوں نے محمد اور حمیرا کو اتنا قریب کر دیا کہ ان کے درمیان سے ہوا کا گزر بھی ممکن نہ رہا
محترم ابومسلم رازی دانشمند اور دوراندیش ہیں محمد نے مسکراتے ہوئے کہا انہوں نے مجھے تمہارے ساتھ اس کمرے میں بلا مقصد نہیں بھیجا تھا میری ماں نے انہیں دو تین مرتبہ کہا تھا کہ میرے اس بیٹے کے لئے ہمارے خاندان کے مطابق موزوں دلہن تلاش کریں لیکن حمیرا محبت اپنی جگہ اس جذبے اور مقصد کو جو ہم دونوں میں مشترک ہے اولیت حاصل ہونی چاہیے
اس مقصد پر تو میں اپنی محبت بھی قربان کر دوں گی حمیرا نے کہا
وہ ایک دوسرے میں گم ہوگئے تھے کہ انہیں دربان کی آواز سنائی دی امیر محترم یاد فرما رہے ہیں
محمد فوراً اور ابو مسلم رازی کے کمرے میں چلا گیا
محمد بیٹا! ابومسلم رازی نے کہا تم کل علی الصبح مرو کے لیئے روانہ ہو جانا مجھے وہاں کی خبریں بھیجتے رہنا خود آنے کی ضرورت نہیں میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا میں پہنچ جاؤں گا اور نائب سالار اوریزی کے ساتھ رابطہ رکھنا اب یہ بتاؤ کہ اس لڑکی حمیرا کے متعلق کیا خیال ہے
انتقام کا جذبہ اسے پریشان کر رہا ہے محمد نے جواب دیا اچھی لڑکی ہے لیکن تنہائی محسوس کرتی ہے
وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے کہ لڑکی بڑے کام کی ہے ابومسلم رازی نے ذرا تبسم سے کہا جہاں تک اس کی تنہائی کا تعلق ہے اس کا علاج تمہارے پاس ہے
تم آ بھی جاؤ اور یہ ذہن میں رکھنا کہ میں اس لڑکی کو ضائع نہیں ہونے دوں گا
جس وقت محمد اور حمیرا کی ملاقات ہوئی تھی اس سے بہت پہلے حسن بن صباح کو یہ اطلاع پہنچا دی گئی تھی کہ ایک فدائین جابر بن حاجب کی قاتل حمیرا رے کے امیر ابومسلم رازی کی پناہ میں پہنچ گئی ہے حسن بن صباح نے بڑا سخت حکم دیا تھا اس نے کہا تھا کہ اس لڑکی کو اغوا کرکے الموت لایا جائے اور پھر اسے گھٹنوں سے اوپر تک زمین میں گاڑ کر اسکے جسم پر اور منہ پر شہد مل دیا جائے یہ بڑی ہی ظالمانہ سزا تھی جو حسن بن صباح نے سنائی تھی شہد مل دینے سے چھوٹی بڑی چونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں نے اور دیگر حشرات الارض نے حمیرا کے جسم کا گوشت آہستہ آہستہ کھا جانا تھا اس نے آخر مرنا ہی تھا لیکن ایسی اذیت میں مرنا تھا جو پانچ چھے دن اسے ملتی رہتی حسن بن صباح نے کہا تھا کہ اس کی جنت کی تمام لڑکیوں کو یہ منظر اور حمیرا کا حشر دکھایا جائے تاکہ کوئی لڑکی فرار کی یا کسی غلط حرکت کی جرات نہ کرے
حسن بن صباح کو روزینہ کی رپورٹ بھی مل گئی تھی کہ اس نے سلطان برکیارق کو پوری طرح مٹی میں لے لیا ہے اور اس سے یہ فیصلہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے روزینہ نے اپنی اس رپورٹ میں کہا تھا کہ آدمی بھیجیں جائیں جو اس نفری میں اشتعال پیدا کریں جسے فوج میں سے نکالا جا رہا ہے حسن بن صباح کو اس قسم کی رپورٹیں اور اطلاع دینے والی ایک روزینہ ہی نہیں تھی یہ تو اس کا ایک مکمل نظام تھا جو سلطنت سلجوقیہ میں پھیلا ہوا تھا اور اس سلطنت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا تھا
مرو میں سپہ سالار ابو جعفر حجازی اپنے سلطان برکیارق کے حکم کے مطابق فوج کی چھانٹی کر رہا تھا یہ وہ فوج تھی جسے سلطان ملک شاہ مرحوم نے باطنیوں کی سرکوبی کے لیے تیار کیا تھا اور اس فوج میں وہ اضافہ کر رہا تھا
سپہ سالار حجازی جس نفری کو فارغ کر رہا تھا اسے بارکوں میں سے نکال کر الگ کرتا جا رہا تھا اس نفری کے لیے خیمے لگا دیے گئے تھے اسے فوری طور پر فارغ نہیں کیا جا رہا تھا کیوں کہ اس کا حساب کتاب بھی کرنا تھا اور آخر میں یہ ساری نفری سلطان برکیارق کو دکھانی تھی تاکہ اس کا آخری حکم لیا جاسکے اس طرح ایک وسیع میدان میں خیموں کا ایک شہر آباد ہو گیا تھا فارغ کی جانے والی نفری کی تعداد پندرہ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی اس نفری سے گھوڑے اور ہتھیار لے لیے گئے تھے
فوج کی ملازمت بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش بن گیا تھا اس وقت کے فوجیوں کو یہ فائدہ بھی نظر آتا تھا کہ مفتوحہ علاقے سے مال غنیمت بھی ملتا تھا اب ان پندرہ سولہ ہزار آدمیوں سے ذریعہ معاش چھن رہا تھا قدرتی طور پر ان میں مایوسی اور بیزاری پیدا ہوگئی تھی اس بیزاری میں غصے کا عنصر بھی موجود تھا وہ جب آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے تو ہر فوجی یہ ضرور کہتا تھا کہ ہمیں کیوں نکالا گیا ہے ہماری جگہ دوسروں کو کیوں نہیں نکالا گیا انہیں اپنے آپ میں کوئی خامی یا کوئی نقص نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان میں کوئی خوبی نظر آتی تھی جنہیں فوج میں ہی رکھا جا رہا تھا ان آدمیوں کی جذباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ ذرا سی بات پر مشتعل ہوجاتے تھے غصے اور احتجاج سے وہ بارود کی مانند ہوتے جا رہے تھے
ہمیں تو کہتے تھے کہ باطنیوں کو ختم کرنا ہے
اب ہمیں ہی ختم کیا جا رہا ہے
نئے سلطان کی بیوی باطنی ہے
نئے سلطان نے حسن بن صباح کا عقیدہ قبول کرلیا ہے
اور ایسی ہی باتیں تھیں جو خیموں کی اس بستی میں سنی اور سنائی جاتی تھیں چونکہ یہ سب فوجی تھے اس لیے کئی باتیں اخلاق سے گری ہوئی بھی کہتے تھے فارغ کیے جانے والے ان پندرہ سولہ ہزار فوجیوں میں سالار بھی تھے اور عہدے داروں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی باقی سب سپاہی تھے جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس کے متعلق زیادہ تر یوروپی مورخوں نے تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ہزاروں فوجی سراپا احتجاج بن گئے تھے ایک وجہ تو سب کو نظر آرہی تھی وہ یہ کہ ان کی چھٹی کی جارہی تھی لیکن ایک وجہ اور بھی تھی کہ وہ آگ بگولہ ہوتے جا رہے تھے ان کے پاس ان کے رشتے دار دوست اور دوسرے شہری بھی ازراہ ہمدردی آتے رہتے تھے ان میں حسن بن صباح کے تخریب کار بھی شامل ہوتے تھے جن کی اصل حقیقت سے کوئی بھی واقف نہیں تھا ان فوجیوں کو خوب بھڑکاتے اور ان میں طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے تھے
انہیں خفیہ تخریب کاروں نے فارغ کیے جانے والے فوجیوں میں یہ افواہ پھیلا دی کہ جن فوجیوں کو فوج میں ہی رکھا جا رہا ہے وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ جنہیں نکالا گیا ہے وہ بزدل اور بد اخلاق ہیں اور ان میں ایسے آدمی بھی ہیں جو چھٹی پر جاتے ہیں تو رہزنی اور ڈکیتی کی وارادتیں کرتے ہیں یہ افواہ فوجیوں کی ساری بستی میں پھیل گئی اور یہ تمام فوجی اتنے مشتعل ہوئے کہ ان کے پاس ہتھیار ہوتے تو فوج پر حملہ کر دیتے
سپہ سالار ابوجعفر حجازی تو بلا شک و شبہ خوشامدی آدمی تھا اور وہ سلطان کا ہر ناجائز حکم بھی ماننے کو تیار رہتا تھا نکالے جانے والے فوجیوں کا کوئی ہمدرد تھا تو وہ نائب سالار اوریزی تھا اس نے سلطان برکیارق کو برملا کہہ دیا تھا کہ وہ فوج کی چھانٹی کے حق میں نہیں ہے اس کا رویہ اب یہ ہوگیا تھا کہ سپہ سالار حجازی کی بات سن لیتا لیکن اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا تھا اوریزی خیموں میں گیا تو وہاں رہنے والے سابق فوجی اس کے گرد اکٹھے ہوگئے غصے اور عتاب سے وہ پھٹے جارہے تھے انہوں نے کہا کہ ایک تو انہیں بے گناہ اور بلاوجہ فوج سے نکالا جا رہا ہے اور دوسرے یہ کہ سارے شہر میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ انہیں اس لیے نکالا جارہا ہے کہ یہ بزدل اور بدمعاش ہیں اوریزی نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگ بہت ہی مشتعل تھے اوریزی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ سپہ سالار حجازی کے ساتھ بات کرے گا اور ابھی وہ ٹھنڈے رہیں
اس نے وہیں سے جاکر سپہ سالار حجازی کو اس صورتحال سے آگاہ کیا
اوریزی بھائی! سپہ سالار حجازی نے اصل بات سمجھنے کی بجائے یوں کہا میں جانتا ہوں کہ تم اس کے حق میں نہیں کہ فوج کم کی جائے تمہاری موجودگی میں سلطان نے حکم دیا تھا کہ فوج کی نفری آدھی کر دو میں حیران ہوں کہ تم مجھ پر اور اس نفری پر جسے ہم فوج میں ہی رکھ رہے ہیں ایسے بے بنیاد الزام کیوں عائد کر رہے ہو؟
محترم سپہ سالار! نائب سپہ سالار اوریزی نے کہا آپ سلطان کو ضرور خوش کریں لیکن اپنی عقل پر ایسا پردہ بھی نہ ڈالیں کہ کسی اچھی بری بات پر آپ غور بھی نہ کرسکیں میں الزام عائد نہیں کر رہا میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں کہ ہمارے دشمن خیموں میں بھیجے جانے والے فوجیوں میں افواہیں پھیلا رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ جنہیں آپ فوج میں رکھ رہے ہیں انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی میں اس فوج کا سالار ہوں اور میرے ذاتی خفیہ ذرائع بھی ہیں ان سے مجھے سب کچھ معلوم ہوتا رہتا ہے میری بات سمجھنے کی کوشش کریں یہ باطنی تخریب کار ہیں جو فوج کے ان دونوں دھڑوں کو آپس میں لڑانے کے لیے وجوہات پیدا کر رہے ہیں
تو پھر یہ کام تم خود کیوں نہیں کرتے سپہ سالار حجازی نے کہا انہیں بتاؤ کہ یہ افواہ ہے اس پر یقین نہ کریں لیکن اوریزی بھائی یہ کوئی افواہ نہیں یہ خود اپنے پاس سے باتیں کر رہے ہیں کیونکہ انہیں فوج سے نکالا جارہا ہے اب میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں مجھے اطلاع ملی ہے کہ یہ لوگ جنہیں میں نے فوج سے الگ کر دیا ہے جوابی کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کو بھی فوج میں رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے جنہیں رکھا جا رہا ہے
نائب سپہ سالار اوریزی نے سپہ سالار حجازی کو سمجھانے کی بہت ہی کوشش کی کہ یہ افواہ بھی دشمن کی اڑائی ہوئی ہے حقیقتاً خیموں میں رہنے والوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار حجازی نے اپنے نائب اوریزی کی بات سمجھنے کی بجائے اس پر طنز کی اور اس پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ یہ ساری باتیں خود گھڑ رہا ہے
حسن بن صباح کے باطنیوں کا پروپیگنڈہ اور افواہ بازی پورا پورا کام کر رہی تھی یہی افواہیں شہریوں میں بھی پھیلائی جارہی تھیں جس کا نتیجہ یا اثرات یوں سامنے آنے لگے کہ شہری بھی دو حصوں میں بٹنے لگے
تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران طوائف الملوکی شروع کر دیتے ہیں تو خوشامد کا بازار گرم ہو جاتا ہے انتظامی امور خوشامد پرستی اور مفاد پرستی کی نظر ہوتے چلے جاتے ہیں اس صورتحال میں دشمن بلا خوف و خطر اپنی تخریبی کارروائیاں کرتا ہے یہ فضا سلطنت سلجوقیہ کے دارالحکومت میں پیدا ہوگئی تھی جو باطنیوں نے پیدا کی تھی
ایک دو دنوں بعد ایک حادثہ ہوگیا ایک رات ایک فوجی عہدیدار اپنے رہائشی کمرے میں قتل ہوگیا وہ اس فوج میں شامل تھا جسے رکھا جا رہا تھا صبح اسے دیکھا گیا اس کی لاش فرش پر پڑی تھی اس کے پیٹ میں اور سینے میں خنجر مارے گئے تھے اس کے بستر پر بھی خون تھا معلوم ہوتا تھا کہ اسے سوتے میں خنجر مارے گئے اور وہ تڑپتے ہوئے فرش پر گرا اور اس کے بعد اس کی موت واقع ہوئی
تمام فوج میں یہ خبر پھیل گئی کہ فلاں عہدے دار کو قتل کردیا گیا ہے اس خبر کے ساتھ یہ افواہ بھی پھیلتی گئی کہ اسے ان فوجیوں میں سے کسی نے قتل کیا ہے جنھیں فوج میں سے نکالا جارہا ہے یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ نکالے جانے والے فوجی کہتے ہیں کہ وہ اب اسی طرح قتل کی واردات کرتے رہیں گے ان افواہوں میں تاثر یہ پیدا کیا گیا تھا کہ نکالے جانے والے فوجیوں کو رکھے جانے والے فوجیوں نے بزدل اور بداخلاق کہا ہے اس لیے نکالے گئے فوجیوں نے اپنی توہین کا انتقام لیا ہے اس طرح فوج میں اچھی خاصی کشیدگی پیدا ہو گئی بعض فوجیوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نکالے جانے والوں کے ساتھ یہی سلوک کریں گے اور ان کی لاشیں ان کے گھروں تک پہنچیں گی
کسی فوجی کا یوں قتل ہو جانا بڑا ہی عجیب واقعہ تھا ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا سپہ سالار ابوجعفر حجازی اپنے نائب سالار اوریزی کو ساتھ لے کر سلطان برکیارق کے یہاں چلا گیا برکیارق اُسی وقت جاگا تھا روزینہ اسے اتنی جلدی بستر سے نہیں نکلنے دیتی تھی جتنا جلدی سلطان ملک شاہ انہیں اٹھا دیا کرتا تھا
برکیارق کو اطلاع دی گئی کہ دونوں سپہ سالار آئے ہیں تو روزینہ باہر آئی اور ان سے پوچھا کہ وہ اتنی جلدی کیوں آئے ہیں
ہم اتنی جلدی آنے کی معافی چاہتے ہیں سپہ سالار حجازی نے غلاموں کے سے لہجے میں کہا ایک عہدیدار قتل ہوگیا ہے اس کی اطلاع سلطان محترم کو دینی ضروری ہے اور ان سے حکم لینا ہے
روزینہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد واپس آئی اور دونوں سپہ سالار کو اندر سونے کے کمرے میں ہی لے گئی سلطان برکیارق ابھی پلنگ پر ہی نیم دراز تھا
کون بدبخت قتل ہوگیا ہے؟
برکیارق نے مخمور سی آواز میں پوچھا
ہمارا ایک عہدے دار تھا سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے جواب دیا اور بیان کیا کہ وہ کس طرح مردہ پایا گیا لاش کس حالت میں تھی اور لاش فرش پر پڑی تھی
تو پھر قاتل کو ڈھونڈو! سلطان برکیارق نے کہا زندہ مل جائے تو اس کا سر اڑا دو
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے کہا قاتل ان خیموں میں ہے جن میں نکالے جانے والے فوجیوں کو رکھا گیا ہے
سلطان محترم! نائب سالار اوریزی بولا یہ باطنیوں کی دہشت گردی ہے اور اگر مجھے اجازت دیں تو میں بیان کروں کہ اس وقت دونوں دھڑوں کے فوجیوں کے درمیان کس قسم کی کشیدگی پیدا کر دی گئی ہے اور اسی طرح شہر کے لوگ بھی دو دھڑوں میں بٹتے جا رہے ہیں
سپہ سالار حجازی نے اوریزی کی مخالفت شروع کردی سلطان برکیارق کےچہرے پر اکتاہٹ کے تاثرات نمایاں ہوتے جارہے تھے وہ تو جیسے کوئی بات بھی سننے کو تیار نہیں تھا نائب سپہ سالار اوریزی نے سپہ سالار حجازی کو ٹوک کر اپنی بات شروع کردی روزینہ پاس بیٹھی سن رہی تھی
اس باطنی حسینہ نے سلطان برکیارق کو ذہنی طور پر اس قدر کمزور کردیا تھا کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے کی اہلیت سے ہی محروم ہوگیا تھا یہ اثرات اس نشے کے تھے جو وہ اسے پلاتی رہتی تھی اور وہ خود بھی اس کے لئے ایک نشہ بن گئی تھی اس کا ذہن مکمل طور پر روزینہ کے قبضے میں چلا گیا تھا سوچتی روزینہ تھی اور بولتا سلطان برکیارق تھا
سلطان! روزینہ نے کہا ان دونوں کی باتیں آپ کو کسی فیصلے تک نہیں پہنچنے دیں گیں دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ یہ قاتل کو پکڑے جو ممکن نظر نہیں آتا دوسرا اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان فوجیوں میں سے جنہیں نکالا جارہا ہے کوئی دو آدمی پکڑ لئے جائیں اور فوج کے دونوں دھڑوں کو آمنے سامنے کھڑا کرکے ان کے درمیان ان دونوں آدمیوں کے سر اڑا دیے جائیں اعلان کیا جائے کہ ان دونوں نے اس عہدے دار کو قتل کیا ہے اس سے یہ ہوگا کہ آئندہ کوئی اتنی سنگین واردات کرنے کی جرات نہیں کرے گا اگر واقعی اس فوج کے ان دھڑوں میں کشیدگی اور دشمنی پیدا ہوگئی ہے تو وہ اسی طرح ختم کی جا سکتی ہے اگر خیموں میں رہنے والا کوئی فوجی قتل ہوجائے تو وہ فوجی ادھر سے پکڑ کر انہیں سب کے سامنے جلاد سے قتل کروا دیا جائے
سن لیا تم دونوں نے سلطان برکیارق نے کہا جاؤ اور اس حکم پر عمل کرو
بہت اچھا فیصلہ ہے سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے کہا میں آج دو آدمی پکڑ کر قید خانے میں بند کردوں گا اور کل صبح دونوں کو قتل کروا دیا جائےگا
نائب سپہ سالار اوریزی نے کچھ بھی نہ کہا وہ جان گیا تھا کہ یہاں کوئی اس کی سننے والا نہیں اور تباہی سلطنت سلجوقیہ کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے
دونوں سپہ سالار وہاں سے آگئے
اگلے روز سپہ سالار ابوجعفر حجازی خیموں کی طرف گیا کچھ سپاہی جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا باہر بیٹھے تھے سپہ سالار حجازی کے ساتھ بارہ چودہ فوجی تھے جو برچھیوں اور تلواروں سے مسلح تھے سپہ سالار حجازی نے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کیا
انہیں پکڑ کر لے چلو اس نے حکم دیا یہی ہیں اس کے قاتل مسلح فوجی ان دو آدمیوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں گھسیٹتے دھکیلتے اپنے ساتھ لے گئے
یہ خبر خیموں کی ساری بستی میں پھیل گئی پندرہ سولہ ہزار سابق فوجیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی سب جانتے تھے کہ جنہیں پکڑ کر لے گئے ہیں وہ بڑے ہی خوش اخلاق اور شریف سپاہی تھے وہ سب اکٹھے ہوگئے اور شور شرابا کرنے لگے لیکن ان کی سننے والا سوائے نائب سالار اوریزی کے اور کوئی نہ تھا
سپہ سالار حجازی کے حکم سے ان دونوں آدمیوں کو قید خانے میں بند کرنے کے لئے بھیج دیا گیا ان پندرہ سولہ ہزار فوجیوں میں دو سالار بھی تھی جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا وہ دو تین عہدے داروں کو ساتھ لے کر نائب سالار اوریزی کے یہاں چلے گئے اسے بتایا کہ سپہ سالار نے دو آدمیوں کو یہ کہہ کر پکڑ لیا ہے کہ مقتول عہدیدار کو انہوں نے قتل کیا ہے اوریزی نے یہ خبر سنی تو وہ بھڑک اٹھا وہ اسی وقت سپہ سالار حجازی کے پاس چلا گیا
میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو سپہ سالار حجازی نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تم کہو گے کہ دو بے گناہوں کو کیوں پکڑ لیا ہے اوریزی بھائی تمہارے سامنے سلطان نے حکم دیا تھا
اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو ایسا ظالمانہ حکم کبھی نہ مانتا نائب سالار اوریزی نے کہا محترم حجازی آپ کس کے غلام بن گئے ہیں؟
آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے سلطان کی طاقت کو ہم احتراماً مانتے ہیں یہ اسلام کا حکم ہے کہ اپنے امیر کی اطاعت کرو اور اسلام کا حکم یہ بھی ہے کہ امیر کوئی غلط حکم خصوصاً اس قسم کا ظالمانہ حکم دیتا ہے تو وہ حکم نہ مانو
خدا کے لئے اوریزی بھائی! سپہ سالار حجازی نے بے تکلف دوستوں جیسے لہجے میں کہا اگر ہم ان دو ادنیٰ سے سپاہیوں کے سر نہیں کاٹیں گے تو ہم دونوں کے سرکٹ جائیں گے
میں ان ادنیٰ سپاہیوں کی خاطر اپنا سر کٹوانے کے لیے تیار ہوں اوریزی نے کہا میرا خیال ہے کہ میں آپ کے پاس آ کر جھک مار رہا ہوں مجھے یہ بتا دیں کہ آپ واقعی ان دو بےگناہ سپاہیوں کے سر کاٹ دیں گے؟
تو اور کس لیے انہیں قید خانے میں بھیجا ہے سپہ سالار حجازی نے جواب دیا کل سب کے سامنے ان کی گردنوں پر تلواریں چل جائینگی
میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں نائب سالار اوریزی نے کہا یہ آخری بات ہوگی جو میں آپ سے کروں گا اس کے بعد میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ حالات کیا کروٹ بدلیں گے آپ یوں کریں کہ کل ان دونوں سپاہیوں کو قید خانے سے نکال کر ادھر سے انہیں گھروں کو بھیج دیں فوج سے تو وہ نکال ہی دیے گئے ہیں پھر میں آپ کے ساتھ سلطان تک چلوں گا اور کہوں گا کہ ہم دونوں کی موجودگی میں قید خانے میں ان کے سر کاٹ دیے گئے ہیں اور انہیں دفن بھی کر دیا گیا ہے
پھر جانتے ہو سلطان کیا کہے گا ؟
سپہ سالار حجازی نے کہا وہ کہے گا کہ میرے حکم کے مطابق ان کی گردنیں سرعام فوج کے دونوں دھڑوں کے سامنے کیوں نہیں کاٹی گئیں
اس کا جواب میں دوں گا نائب سالار اوریزی نے کہا میں کہوں گا کہ سب کے سامنے انہیں قتل کیا جاتا تو فوج کے دونوں دھڑوں میں فساد کا خطرہ تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ یہ دونوں سپاہی بے گناہ ہیں
اوریزی بھائی! سپہ سالار حجازی نے کہا حکم سلطان کا نہیں سلطان کی بیگم کا ہے وہ قید خانے سے معلوم کروا لی گی کہ اس کے حکم کی تعمیل ہوئی ہے یا نہیں تم خاموش ہی رہوں تو ہم دونوں کے لیے بہتر ہے
اوریزی خاموش رہا اور سر جھکا کر کے ہی سوچ میں کھو گیا وہ جان گیا تھا کہ وہ ایک پتھر سے ہم کلام ہے
انہیں کل کس وقت اور کہاں سزائے موت دی جائے گی؟
نائب سالار اوریزی نے بدلے ہوئے سے لہجے میں پوچھا اور ذرا سوچ کر کہا مجھے آپ کا ساتھ دینا پڑے گا ورنہ آپ مارے جائیں گے
زندہ باد اوریزی! سپہ سالار حجازی نے خوش ہوتے ہوئے اوریزی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا مجھے تم سے یہی توقع تھی میں تمہارے اس تعاون کے لئے ساری عمر ممنون رہوں گا میں جانتا ہوں کہ میرے ہاتھوں کیا گناہ کروایا جارہا ہے
اللہ بخشنے والا مہربان ہے اوریزی نے کہا آپ مجبور ہیں اللہ آپ کو معاف کر دے گا انہیں کونسی جگہ یہ سزا دی جائے؟
وقت اور جگہ تم خود مقرر کر لو سپہ سالار حجازی نے اوریزی کو خوش کرنے کے لیے کہا تم جو جگہ مقرر کرو گے میں اسی کو مان لوں گا
اوریزی اٹھا سپہ سالار حجازی سے ہاتھ ملایا اور وہاں سے آگیا اگلے روز سورج کے طلوع ہوتے ہی یہ ظالمانہ منظر دیکھا کہ ایک طرف نکالی جانے فوج کے پندرہ سولہ ہزار آدمی کھڑے تھے ان کے سامنے خاصے فاصلے پر وہ فوج کھڑی تھی جسے رکھا جا رہا تھا ان کے درمیان دو سپاہی کھڑے تھے جن کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے دونوں کے قریب ایک ایک آدمی چوڑے پھل والی تلواریں لیے کھڑے تھے اس جگہ درختوں کی بہتات تھی بالکل قریب بڑ کی قسم کے دو گھنے درخت تھے منظر خاصہ خوبصورت تھا لیکن خوبصورتی میں موت کی سانسیں صاف سنائی دے رہی تھیں ان دو سپاہیوں کو کچھ دیر بعد سزائے موت دینی تھی ایک نوجوان تھا اور دوسرا ادھر عمر یہ بدنصیب اسی شہر کا رہنے والا تھا کچھ دور شہر کے لوگ کھڑے تھے یہ خبر ان تک بھی پہنچ گئی تھی ان لوگوں میں اس ادھیڑ عمر سپاہی کی بیوی اور چھوٹے چھوٹے دو بچے بھی کھڑے تھے بیوی بھی رو رہی تھی اور بچے بھی بیوی نے ایک بار سپہ سالار حجازی تک رحم کے لیے پہنچنے کی کوشش کی تھی لیکن فوجیوں نے اسے دھکے دے کر پیچھے کردیا تھا شہریوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں
سپہ سالار حجازی گھوڑے پر سوار وہاں آیا اور دونوں بے گناہ سپاہیوں کے پاس گھوڑا روک کر اعلان کیا کہ فوج کا جو عہدیدار قتل ہوا ہے اس کے قاتل یہ دونوں ہیں اور مصدقہ شہادت ملی ہے کہ قاتل یہی ہیں
یہ سپہ سالار جھوٹ بول رہا ہے ادھیڑ عمر سپاہی نے چلا کر کہا اس سے پوچھو یہ کون سے قاضی کا فیصلہ ہے
ایک جلاد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش کر دیا
سپہ سالار حجازی نے اپنا اعلان یہ کہہ کر مکمل کیا کہ ان دونوں کو تم سب کے سامنے سزائے موت دی جا رہی ہے
سپہ سالار ایک طرف چلا گیا دونوں جلادوں نے دونوں فوجیوں کو دو زانو بیٹھا دیا اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر سر نیچے کر دئیے پھر دونوں نے اپنی تلوار اوپر اٹھائی دو بے گناہوں کی زندگی اور موت کے درمیان صرف دو یا تین لمحے رہ گئے تھے تلواروں کا ایک ایک وار ہی کافی تھا
تلوار اور اوپر اٹھی تو تماشائیوں کے اتنے بڑے ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا جیسے وہاں کوئی انسان موجود ہی نہ ہو تلوار اور اوپر اٹھی اور انہیں زناٹے سے نیچے آنا تھا زناٹے تو سنائی دیے لیکن وہ تلواروں کے نہیں بلکہ دو تیروں کے تھے ایک تیر ایک جلاد کے سینے میں اور دوسرا دوسرے جلاد کے سینے میں اتر گیا تھا وہ بے گناہوں کی جانیں لینے والے اپنی جانیں گنوا بیٹھے
یہ تیر کس نے چلایا سپہ سالار حجازی نے ایسی آواز میں کہا جس میں گھبراہٹ بھی تھی غصہ بھی فوراً پکڑو انہیں فوج میں کچھ حرکت ہوئی
نائب سپہ سالار اوریزی گھوڑا دوڑاتا آیا اور بے گناہ سپاہیوں اور مرے ہوئے جلادوں کے پاس آ رکا
خبردار اوریزی نے بلند آواز میں کہا کوئی حرکت نہ ہو اللہ نے انصاف کر دیا ہے یہ دونوں بے گنا ہیں سپہ سالار سے پوچھو انہیں کون سے قاضی نے سزائے موت دی ہے اور کس کس کی شہادت پر سزا دی ہے کیا تم مسلمان ہو؟
کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ جسے چاہوں پکڑ کر اس پر قتل کا الزام لگا دو اور اس کی گردن مار دو؟
کیا تم سب کافر ہو کر مرنا چاہتے ہو؟
ہر طرف خاموشی طاری رہی اوریزی نے ان فوجیوں کی طرف دیکھا جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا
کچھ آدمی آگے آؤ اس نے کہا اپنے ساتھیوں کو لے جاؤ
چار آدمی دوڑے آئے اور وہ اپنے بے گناہ ساتھیوں کے ہاتھ کھول کر انہیں ساتھ لے گئے ادھر سے ادھیڑ عمر سپاہی کی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ دوڑتی آئی باپ نے اپنے دونوں بچوں کو اٹھا لیا اور انہیں پیار کرنے لگا
فوج میں کوئی حرکت نہ ہوئی سپہ سالار ابوجعفر حجازی وہاں سے چلا گیا وہ سلطان برکیارق کو بتانے جارہا تھا کہ اس کے حکم کی تعمیل نہیں ہوسکی اور اس کا ذمہ دار اوریزی ہے
سپہ سالار حجازی کو تو معلوم ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ دو تیر کہاں سے آئے تھے یہ اوریزی کا انتظام تھا ان بے گناہ سپاہیوں کو سزا دینے کی جگہ اسی نے انتخاب کیا تھا وہاں قریب ہی بڑ جیسے دو گھنے درخت تھے ان کے چوڑے پتوں میں بیٹھا ہوا آدمی کسی کو نظر نہیں آ سکتا تھا اوریزی نے رات کو دو تجربے کار تیرانداز تیار کر دیے تھے اور انہیں یہاں لا کر اچھی طرح بتا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے دونوں تیرانداز صبح طلوع ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک درخت اور دوسرا دوسرے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے تھے
سپہ سالار حجازی جاچکا تھا فوج حکم کی منتظر کھڑی تھی نائب سالار اوریزی نے فوج کو بارکوں میں چلے جانے کا حکم دیا اور خود اس انتظار میں اپنے ٹھکانے پر چلا گیا کہ ابھی سلطان کا بلاوا آئے گا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:34 }
سالار اوریزی کی کاروائی بڑا ہی سنگین جرم تھا سلطان نے دو سپاہیوں کو سزائے موت دی تھی لیکن سالار اوریزی نے جلادوں کو مروا دیا اور سپاہیوں کو رہا کرا لیا اس نے دوسرا جرم یہ کیا کہ سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے یہ حکم دیا ان تیر اندازوں کو ڈھونڈو اور پکڑو لیکن سالار اوریزی نے اس کے قریب آ کر للکارا اور کہا خبردار کوئی آگے آنے کی جرات نہ کرے یہ حکم عدولی نہیں بلکہ غداری تھی
یہ الگ بات ہے کہ سپہ سالار حجازی کو سالار اوریزی کی یہ باغیانہ کاروائی اچھی لگی تھی یا بری لگی تھی اسے دراصل خوشی اس بات پر ہوئی تھی کہ اسے سلطان برکیارق کے پاس جانے کا ایک بڑا ہی معقول بہانہ مل گیا تھا اور اس کے ساتھ سالار اوریزی کو سالاری سے معزول کرانے کا موقع بھی مل گیا تھا اسے توقع تھی کے سلطان سالار اوریزی کو صرف معزول نہیں کرے گا بلکہ اسے کوئی اور سزا بھی دے گا پہلے یہ گزر چکا ہے کہ سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کا خوشامدی اور وہ سلطان کے آگے زرخرید غلاموں کی طرح حرکتیں کر کر کے بہت خوش ہوتا تھا اس کے مقابلے میں سالار اوریزی خوددار اور باوقار سالار تھا جس کی اپنی ایک آزاد شخصیت تھی وہ سلطان کا ہر حکم صرف اس لیے نہیں مانتا تھا کہ یہ سلطان کا حکم ہے بلکہ وہ دیکھتا تھا فوجی نقطہ نگاہ سے یہ حکم سلطنت کے لیے نقصان دے تو نہیں یہ سالار اوریزی کا ایمان تھا لیکن سپہ سالار حجازی اسے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتا تھا
سپہ سالار حجازی وہاں سے سلطان برکیارق کے ہاں گیا اور اپنے آنے کی اطلاع دی سلطان نے اسے اسی وقت اندر بلا لیا وہ اندر گیا اور رکوع میں جاکر سلطان کو سلام کیا
کام کر آئے حجازی! سلطان برکیارق نے پوچھا دیکھنے والوں پر دہشت تو طاری ہوگئی ہوگی اب کوئی کسی کو قتل نہیں کرے گا
گستاخی معاف سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے سلطان کے اشارے پر بیٹھتے ہوئے کہا آپ کے حکم کی تعمیل نہیں ہوسکی
کیوں؟
سلطان نے بدک کر پوچھا حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوسکی؟
دونوں جلاد تیروں سے مارے گئے ہیں سپہ سالار حجازی نے کہا
کس نے مارے ہیں؟
سلطان برکیارق نے پوچھا کون تھے وہ تیرانداز کیا انہیں آپ نے پکڑ لیا ہے؟
سپہ سالار حجازی نے سلطان کو پورا واقعہ تفصیل سے سنایا اور سالار اوریزی کے خلاف بغاوت کا جرم ثابت کرنے کے لئے اور بھی بہت کچھ کہا
سلطان عالی مقام! حجازی نے کہا وہ تو کب کا میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ میں سلطان کا یہ حکم نہ مانوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے یہ دونوں تیرانداز اسی کے تھے
یہ جرات سلطان برکیارق نے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا یہ مجال؟
اسے قید خانے کے تہہ خانے کی اس کوٹھری میں بند کردو جس میں سب سے زیادہ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں
اس نے سلطان کی توہین کی ہے روزینہ نے کہا اسے عبرت کا نشان بنا دو ہم یہاں بلا کر اسے سزا دلائیں گے اسے زنجیروں میں باندھ کر یہاں سے بھیجیں گے آپ اسے بازار میں سے گزارنا اور کسی چوک میں کھڑا کر کے لوگوں کو اکٹھا کر لینا اور اعلان کرنا کہ یہ سلطان کا باغی اور غدار ہے اسے ابھی بلایا جائے
ہاں! اسے ابھی بلایا جائے سلطان برکیارق نے اپنی بیوی کا حکم دہرایا
جس وقت سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کی طرف چلا تھا اس وقت نائب سالار اوریزی اپنے ٹھکانے کی طرف چلا گیا تھا اس نے فوج کو واپس بارکوں میں بھیج دیا تھا وہ جب وہاں سے چلا تو اس کے ساتھ چار پانچ آدمی اس نفری میں سے تھے جسے فوج میں سے نکل جانے کا حکم ملا تھا وہ ابھی تک خیموں میں رہتے تھے
میرے رفیقو! سالار اوریزی نے ان چار پانچ آدمیوں سے کہا توقع تو یہ ہے کہ مجھے جلاد کے حوالے کیا جائے گا یا عمر بھر کے لئے قید خانے میں پھینک دیا جائے گا دونوں صورتوں میں مجھے پہلے قید خانے میں لے جائیں گے میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ تم نے کیا کرنا ہے میں تمہیں یہ بھی بتاؤں گا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں ہوگا تو تم نے اس ثابق فوجیوں کو اور شہر کے ہم خیال لوگوں کو اپنے ساتھ کس طرح ملانا ہے ہم بہت سا کام تو کرہی چکے ہیں لیکن میں ڈرتا ہوں کہ تم میری قیادت سے محروم ہو جاؤ گے تو حوصلہ ہی نہ ہار بیٹھو
ہم آپ کی قیادت سے محروم نہیں رہیں گے ایک ادھیڑ عمر فوجی نے کہا ہمیں پوری امید ہے کہ ہم آپ کو جلاد تک پہنچنے ہی نہیں دیں گے
اوریزی نے انہیں کچھ ہدایات دینی شروع کردیں
میں راز کی ایک بات تمہیں آج بتا دیتا ہوں سالار اوریزی نے کہا سلطان ملک شاہ مرحوم کا دوسرا بیٹا محمد اور اس سے چھوٹا سنجر ہمارے ساتھ ہیں اب میری گرفتاری کے بعد جو کچھ بھی ہو گا اس کی اطلاع محمد رے تک پہنچائے گا میں نہ ہوا تو ابومسلم رازی تمہارا سالار اور قائد ہوگا
سالار اوریزی اپنی ہدایات مکمل کر چکا تھا کہ اطلاع ملی کہ سلطان کا بلاوا آیا ہے
میں جاتا ہوں سالار اوریزی نے اپنے آدمیوں سے کہا گھوڑے تیار کرو اور دو آدمی میرے محافظ بن کے میرے ساتھ چلو سالار اپنے محافظ ساتھ لے جا سکتا ہے مجھے اب سزا سنائی جائے گی جس کا دونوں محافظوں کو ہی پتہ چل جائے گا وہ وہاں سے کھسک آئیں گے اور یہاں بتائیں گے کہ مجھے کیا سزا سنائی گئی ہے پھر تم لوگوں نے اپنی کارروائی کرنی ہے میں جارہا ہوں اللہ تمہارا مددگار ہے
سالار اوریزی اپنے ان آدمیوں سے ہاتھ ملا کر باہر نکلا دو محافظ تیار ہوچکے تھے سالار اوریزی گھوڑے پر سوار ہوا جب وہ حویلی کے بڑے دروازے کے سامنے سے گزرنے لگا تو اس کی بیوی اور ایک جوان بیٹی اس کے راستے میں آگئی بیٹی نے اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی
نہ جائیں! بیٹی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ آپ کیا کر آئے ہیں سلطان آپ کی جان بخشی نہیں کرے گا یہی سے کسی طرف بھاگ جائیں ہم آپ کے پیچھے پہنچ جائیں گے
میں آپ کو یہاں سے نکلوا دیتی ہوں بیوی نے کہا سلطان کے سامنے نہ جائیں وہ آپ کی وفا کی کوئی قیمت نہیں دے گا وہ آپ کی گردن کٹوا دے گا
بیٹی رو رو کر اسے روک رہی تھی لیکن اوریزی مسکرا رہا تھا
پریشان نہ ہو بیٹی! سالار اوریزی نے بڑے پیار سے کہا میں جو کچھ کر رہا ہوں مجھے کرنے دو وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا میں جانتا ہوں تم بڑے ہیں حوصلے اور جرات والی عورت ہو میں جو کچھ کر رہا ہوں سوچ سمجھ کر اور اللہ پر بھروسہ رکھ کر کر رہا ہوں اندر جاؤ اور میرے لئے دعا کرو
ماں بیٹی روتی رہیں اسے روکتی رہیں لیکن سالار اوریزی انہیں خدا حافظ کہہ کر چلا گیا دو محافظ اس کے پیچھے پیچھے گھوڑوں پر سوار جارہے تھے بیٹی اور اس کی ماں نے ہاتھ پھیلا کر اور آسمان کی طرف دیکھ کر اس کی سلامتی کی دعائیں مانگی ان کی آہوں اور ان کے آنسوؤں میں بھی دعائیں تھی
وہ سلطان کے محل میں جا پہنچا اور اندر اطلاع پہنچائی اسے فوراً بلا لیا گیا
سالار اوریزی جب سلطان برکیارق کے سامنے گیا تو جھکا نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرح السلام علیکم کہا اور پوچھا کہ اس کے لیے کیا حکم ہے؟
سلطان نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا اور اسے بیٹھنے کو بھی نہ کہا
کیا یہ سچ ہے کہ تم نے دونوں جلادوں کو تیر اندازوں سے مروا دیا ہے؟
سلطان نے اس سے پوچھا
ہاں سلطان محترم! سالار اوریزی نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا جلادوں کو میں نے مروایا ہے
کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ ان دو سپاہیوں کو میرے حکم سے سزائے موت دی جا رہی تھی؟
سلطان برکیارق نے غصیلے لہجے میں پوچھا
معلوم تھا سلطان محترم! سالار اوریزی نے جواب دیا
پھر تم نے میرے حکم کی تعمیل میں یہ رکاوٹ کیوں ڈالی؟
سلطان نے گرج کر پوچھا
اس لئے کہ کسی کو سزائے موت دینے کا جو حکم اللہ نے دیا ہے آپ نے اس حکم کے تقاضے پورے نہیں کیے تھے سالار اوریزی نے کہا آپ ان دو معصوم اور بے گناہ سپاہیوں کو نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کو قتل کروا رہے تھے
یہاں میرا حکم چلتا ہے سلطان برکیارق نے اپنی ران پر بڑے زور سے ہاتھ مار کر کہا
اور میں بحیثیت ایک مسلمان صرف اللہ کا حکم مانتا ہوں یہ سلطنت آپ کی نہیں یہ اللہ کی دی ہوئی سلطنت ہے اسلامی سلطنت میں صرف اسلامی قانون چلے گا آپ مجھے حکم دیں کہ اپنے پیٹ میں تلوار گھونپ دوں کہ اس سے سلطنت کو فائدہ پہنچے گا تو میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا
تم زبان دراز ہو روزینہ بولی اس سلطنت میں کوئی زبان دراز نہیں رہ سکتا تم سالاری کے قابل نہیں
محترمہ! سالار اور یزی نے کہا یہ الموت نہیں یہ مرو ہے یہ باطنیوں کی نہیں مسلمانوں کی سلطنت ہے یہاں حسن بن صباح کا حکم نہیں چلے گا
خاموش بدتمیز! سلطان برکیارق اور زور سے گرجا میں تمہیں اس گستاخی کی ایسی سزا دوں گا کہ دیکھنے والے عبرت حاصل کریں گے
کان کھول کر سن لو سلطان! سالار اوریزی نے کہا میں جانتا ہوں کہ آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ہے میں صرف اللہ سے ڈرتا ہوں تمہارے جلاد کے ہاتھوں سر کٹواوں گا اللہ کے حضور سرخرو ہو جاؤنگا میں صرف اللہ کے آگے جوابدہ ہوں
اس گستاخ زبان داز کو سالاری سے معزول کر دیں
روزینہ نے کہا
نہیں روزینہ! سلطان برکیارق نے کہا میں اسے صرف معزول نہیں کروں گا اسے اور بھی سزا دینی ہے
مجھے سالاری تم نے نہیں تمہارے باپ نے دی تھی سالار اوریزی نے کہا تم مجھ سے سالاری چھین لوگے تو بھی میں اپنی قوم کا سالار ہی رہوں گا اور اس سلطنت کی عظمت اور بقا کے لئے اپنے فرائض پورے کرتا رہوں گا میں ان شہیدوں کی روحوں کے آگے جوابدہ ہوں جن کا خون اس سلطنت کی بنیادوں میں ابھی تک تازہ ہے
میں اپنی اس سے زیادہ توہین برداشت نہیں کر سکتا سلطان برکیارق نے قہر آلود آواز میں کہا اور سن لو اوریزی
یہ عورت! سالار اوریزی نے روزینہ کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ عورت سلطان کی سراپا توہین ہے یہ آستین کا سانپ ہے پھر اس نے سپہ سالار حجازی کی طرف اشارہ کرکے کہا اور سلطان کی آستین میں دوسرا سانپ یہ شخص ہے یہ تمہیں آنے والا وقت بتائے گا
سلطان المقام! سپہ سالار حجازی تڑپ کر بولا اسے آپ مزید توہین کی اجازت نہ دیں اور اسے سزا سنادیں
ہاں سلطان! روزینہ نے کہا اسے سزائے موت نہ دیں عمر بھر کے لئے قید خانے میں ڈال دیں جہاں یہ گل سڑ کر مرے گا مرنے سے پہلے اسے وقتاً فوقتاً باہر نکالیں اور بیڑیاں ڈال کر شہر کے لوگوں کے سامنے کھڑا کریں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ ہے سزا باغی اور غدار کی
سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کو یہی سزا سنا دی اور کہا کہ اس کی تلوار اس سے لے لی جائے
سالار اوریزی نے اپنی تلوار اور نیام اتارکر سلطان کی طرف پھینک دی
یہ لو تلوار سلطان! سالار اوریزی نے کہا میں اس وقت جہاد کے میدان میں اترا تھا جب تم ابھی ماں کا دودھ پی رہے تھے اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر کے کہا یہ ہاتھ تلوار سے کبھی خالی نہیں رہیں گے جذبہ اور ایمان زندہ رہنا چاہیے ان ہاتھوں میں اللہ تعالی خود تلوار دے گا
سلطان برکیارق نے قہقہہ لگایا اور روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ بھی ہنس پڑی
اس شخص کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا ہے سلطان برکیارق نے کہا میں اسے اس کال کوٹھری میں بھجوا رہا ہوں جہاں یہ ایک سال بھی زندہ نہیں رہے گا اور یہ کہتا ہے کہ اللہ اس کے ہاتھ میں تلوار دے گا او بدقسمت انسان تلوار اگر کبھی تمہارے پاس آئی بھی تو وہ تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ جلاد کے ہاتھ میں ہوگی اور تمہارا سر جھکا ہوا ہوگا لے جاؤ اسے
ٹھہرجاؤ! روزینہ نے کہا ہمارے سامنے اس کے ہاتھ بیٹھ کے پیچھے باندھو اور باہر لے جا کر اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں بلکہ پیدل لے کر جاؤ اور اتنا آہستہ چلنا کہ لوگوں کا ہجوم تمہارے پیچھے اکٹھا ہو جائے اور پھر اسے چوک میں کھڑا کر کے لوگوں کو بتانا کہ غداری اور بغاوت کی سزا یہ ہے اور پھر اسے چوک سے فوراً آگے نہ لے جانا زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھیں
سپہ سالار حجازی دوڑتا باہر نکلا واپس آیا اور اس کے ساتھ سلطان کے دو محافظ تھے انہوں نے زنجیریں اور بیڑیاں اٹھا رکھی تھیں جو اوریزی کو ڈال دی گئی
لے جاؤ اسے سلطان برکیارق نےکہا
سلطان! سالار اوریزی نے مسکرا کر کہا میں واپس آؤنگا ان شاءاللہ اس وقت تم سلطان نہیں ہو گے
سالار اوریزی کو جب باہر لایا گیا تو اس کے دونوں گھوڑسوار محافظ ذرا دور کھڑے دیکھ رہے تھے اپنے سالار کو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ اسے قید خانے میں لے جایا جارہا ہے وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور وہاں سے چلے گئے
زنجیر کا ایک سرا سپہ سالار حجازی کے ہاتھ میں تھا جو اس نے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا اس نے بارہ گھوڑسوار محافظ اپنے ساتھ لے لیے اور وہاں سے چل پڑا
آگے آگے وہ جا رہا تھا اس کے گھوڑے کے ساتھ بندھا ہوا سالار اوریزی پیدل چلا جا رہا تھا اور پیچھے بارہ محافظ چل رہے تھے سلطان کے محل سے نکل کر سپہ سالار حجازی اس راستے پر ہو گیا جس راستے میں شہر کی آبادی زیادہ تھی شہر کے کئی لوگ سالار اوریزی کو جانتے اور پہچانتے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ اوریزی کو زنجیروں میں بندھا لے جایا جا رہا ہے تو لوگ پہلے تو حیران ہوئے پھر پیچھے پیچھے چل پڑے وہ محافظوں سے پوچھتے تھے کہ سالار اوریزی نے کیا جرم کیا ہے محافظ لوگوں کو صرف یہی ایک جواب دیتے تھے کہ سالار اوریزی نے بغاوت اور غداری کی ہے
قیدخانہ شہر سے باہر اور کچھ دور تھا اس کے اردگرد گھنا جنگل اور راستے میں تھوڑا سا علاقہ چٹانی بھی تھا قید خانے تک باہر سے جایا جا سکتا تھا لیکن سپہ سالار حجازی اوریزی کو شہر میں لے گیا اور ایک ایسے چوک میں جا روکا جہاں چار بازار ملتے تھے کچھ تو راستے میں لوگ پیچھے پیچھے چل پڑے تھے اور زیادہ تر بازار میں آنے والے لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے سپہ سالار حجازی نے لوگوں سے کہا کہ اسے لمبی میز کی ضرورت ہے ذرا سے وقت میں ایک لمبی اور مضبوط میز آگئی یہ میز چوک میں رکھ کر سالار اوریزی کو اس پر کھڑا کر دیا گیا اور حجازی خود گھوڑے سے اتر کر میز پر اوریزی کے پاس جا کھڑا ہوا اوریزی کی زنجیر اس کے ہاتھ میں تھی گھوڑسوار محافظوں نے اپنی ترتیب اس طرح کرلی کہ دائرے میں ذرا دور دور کھڑے ہوگئے تاکہ لوگ آگے نہ جا سکیں
اگر اوریزی چور ڈاکو یا قاتل ہوتا تو لوگ اسے دیکھ کر ہنستے اس پر لعن طعن کرتے لیکن لوگ جانتے تھے کہ یہ سالار اوریزی ہے اس لئے وہ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ اس سالار سے کیا جرم سرزد ہوگیا ہے
اسی صبح جب دو سابق فوجیوں کو سزائے موت دی جانے لگی تھی شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو ایک ہجوم یہ تماشہ دیکھنے پہنچ گیا تھا وہ تو کوئی اور تماشہ دیکھنے آئے تھے لیکن وہاں کوئی اور ہی تماشہ ہو گیا وہاں جلاد ہی مارے گئے اور لوگوں نے سالار اوریزی کو دیکھا کہ وہ گھوڑا دوڑاتا مرے ہوئے جلادوں کے پاس جا پہنچا اور اس نے مارے جانے والے دونوں آدمیوں کو آزاد کردیا تھا لوگ سمجھ نہ سکے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے اب جس وقت وہ سالار اوریزی کو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا دیکھ رہے تھے اس وقت تک بیشتر لوگوں کو پتہ لگ چکا تھا کہ یہ دونوں آدمی بے گناہ تھے جنہیں سالار اوریزی نے رہا کروایا تھا اس سے لوگوں کے دلوں میں سالار اوریزی کا احترام پیدا ہوگیا تھا
سپہ سالار حجازی نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے لوگ خاموش ہوگئے
اس شخص کو اچھی طرح پہچانو یہ کون ہے سپہ سالار حجازی نے سالار اوریزی کی طرف اشارہ کرکے کہا اسے سلطان محترم نے عمر قید کی سزا دی ہے جانتے ہو کیوں؟
یہ سلطان کا باغی اور غدار ہے یہ شخص قاتلوں کا ساتھی ہے اس نے دو قاتلوں کو سزائے موت سے چھڑوانے کے لیے دو جلادوں کو قتل کروایا ہے یہ فوج بغاوت پیدا کر رہا تھا
اور میرے ساتھ اس سپہ سالار کو بھی پہچان لو اوریزی نے ہنستے ہوئے کہا یہ عیاش سلطان برکیارق کا پوجاری ہے مجھے سلطان نے غدار نہیں کہا بلکہ اسکی باطنی بیوی نے کہا ہے یہ سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کی اس باطنی بیوی کے آگے سجدہ کرتا ہے
خاموش رہ غدار! حجازی نے اوریزی کو ڈانٹ کر کہا اپنے گناہوں پر جھوٹ کا پردہ مت ڈال ورنہ یہی زبان کھینچ لوں گا
بولنے دو اسے ہجوم میں سے کچھ آوازیں سنائی دیں اسے بولنے دو ہمیں پتہ چلنے دو ہوا کیا ہے
سپہ سالار حجازی نے دیکھا کہ لوگوں کا رد عمل اور رویہ کچھ اور ہے تو وہ ذرا دب گیا ہجوم اب شور بپا کرنے لگا تھا کہ اور اسی کو بولنے دیا جائے صاف پتہ چلتا تھا کہ لوگوں کی ہمدردیاں اوریزی کے ساتھ ہیں
میں نے آج صبح دو بےگناہوں کو جلادوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا ہے اوریزی نے بلند آواز میں کہا انہیں ایک فوجی عہدیدار کا قاتل نہ ملا تو سلطان نے بلکہ سلطان کی بیوی نے یہ فیصلہ سنایا کہ سابق فوجیوں میں سے کوئی دو فوجی پکڑ لئے جائیں اور ان کی گردنیں کاٹ دی جائیں اور لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ دو آدمی قاتل تھے
اے لوگو! سپہ سالار حجازی نے کہا اس کی مت سنو یہ تو دھتکارا ہوا مجرم ہے
لوگ شور بپا کیے جارہے تھے سپہ سالار حجازی کے لیے حکم تھا کہ اوریزی کو زیادہ سے زیادہ دیر چوک میں کھڑا رکھا جائے مقصد اس کی تذلیل تھی خود حجاجی بھی یہی چاہتا تھا کہ اوریزی کو خوب ذلیل و خوار کیا جائے لیکن اب لوگوں نے کچھ اور ہی انداز سے واویلا بپا کردیا تھا وہ سوچنے لگا کہ اوریزی کو فوراً قید خانے تک پہنچا دیا جائے لیکن وہ روزینہ سے ڈرتا تھا کہ اسے پتہ چل گیا کہ اوریزی کو زیادہ دیر چوک میں کھڑا نہیں رکھا گیا تو وہ ناراض ہو گی
اے اہل اسلام! سالار اوریزی نے بڑی بلند آواز میں کہا اس اسلامی سلطنت کی حفاظت کے لیے بیدار اور چوکس ہوجاؤ حسن بن صباح آرہا ہے اس شہر میں باطنی چلے آرہے ہیں وہ تخریب کاری کے لیے آئے ہیں اور آرہے ہیں سلطنت کی اصل حکمران ایک باطنی عورت ہے اور سلطان برکیارق برائے نام سلطان ہے اس سلطنت سے عدل و انصاف اٹھ گیا ہے
اس وقت جب سالار اوریزی کو چوک میں کھڑا کرکے ذلیل و رسوا کیا جا رہا تھا اس سے کچھ دیر پہلے سلطان برکیارق کی ماں اور اس کے دوسرے دونوں بیٹوں محمد اور سنجر کو پتہ چلا کہ سالار اوریزی کو یہ سزا دی گئی ہے اور اس کا اصل جرم کیا ہے محمد اور سنجر تو خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن ان کی ماں سے نہ رہا گیا وہ غصے سے اٹھی اور باہر نکلی ایک خادم آرہا تھا اس نے برکیارق کی ماں کو دیکھا تو رک گیا
مادر سلطان! اس خادم نے کہا میں بازار سے آرہا ہوں سالار اوریزی کو سپہ سالار حجازی نے چوک میں کھڑا کر رکھا ہے اور وہاں لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں
تو اس بیچارے کو ذلیل بھی کیا جارہا ہے۔ ماں نے حیرت سے کہا وہ اپنے بیٹے سلطان برکیارق کے کمرے کی طرف لمبےلمبے ڈگ بھرتی چل پڑی کہاں ہے میرا بیغیرت بیٹا! ماں کہتی چلی جارہی تھی میں نے تو حلال کا جنا تھا اس کے باپ کو دھوکا نہیں دیا تھا میں نے اپنی اولاد کے خون میں ملاوٹ نہیں کی تھی اس کی رفتار تیز ہوتی جا رہی تھی اور کہہ رہی تھی کیا اس نے اوریزی کو گرفتار کرلیا ہے ؟
یہ اس باطنی چڑیل کا کام ہے
روزینہ اپنے کمرے میں تھی اسے برکیارق کی ماں کی آوازیں سنائی دینے لگیں اس نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھا اسے برکیارق کی ماں آتی نظر آئی روزینہ نے بڑی تیزی سے ایک طرف جا کر دربان کو بلایا
اسے روک لو روزینہ نے دربان سے کہا کہنا سلطان سو رہے ہیں اسے اندر نہ آنے دینا
دربارن برکیارق کی ماں کے راستے میں کھڑا ہوگیا اور اسے روک دیا یہ بھی کہا کہ سلطان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ سو رہے ہیں لیکن ماں نے اسے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا اور آگے کو چل پڑی
روزینہ بہت ہی چالاک لڑکی تھی اس نے دیکھا کہ ماں روک نہیں رہی تو وہ دوڑی آئی باہر نکلی اور برکیارق کی ماں کے آگے جا کھڑی ہوئی اور بڑے پیار سے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اتنے غصے میں ہیں؟
کیا تمہارے دربان مجھے روک لیں گے ماں نے غصے کے عالم میں کہا روزینہ نے دربان کو ڈانٹ کر کہا کہ اس نے انہیں روکا کیوں ہے کیا وہ بھول گیا ہے کہ یہ عظیم خاتون کون ہیں؟
دربان خاموش کھڑا روزینہ کا منہ دیکھتا رہا
کیا برکیارق سویا ہوا ہے؟
ماں نے روزینہ سے پوچھا
اگر وہ سوئے ہوئے ہیں تو بھی آپ کے لیے جاگ اٹھیں گے روزینہ نے احترام کی اداکاری کرتے ہوئے کہا آپ میرے کمرے میں آ کر بیٹھیں میں انہیں اٹھا کر یہی لے آؤں گی ماں روزینہ کی باتوں میں آ گئی اور اس کے ساتھ اس کے کمرے میں جا بیٹھی روزینہ کمرے سے نکل گئی اور سلطان برکیارق کے پاس چلی گئی اسے بتایا کہ اس کی ماں واہی تباہی بکتی آئی ہے اور اس نے ماں کو دوسرے کمرے میں ذرا ٹھنڈا کرکے بیٹھا لیا ہے
تو میں اس کا کیا علاج کروں؟
برکیارق نے پوچھا
وہ ماں ہے روزینہ نے کہا اس کا احترام ہم پر فرض ہے لیکن وہ ایک باغی اور غدار سالار کا ساتھ دے رہی ہے آپ سلطنت کے مفاد کو دیکھیں گے یا ماں کے احترام کو
میں تو سلطنت کے مفاد کو پہلے دیکھوں گا برکیارق نے کہا تم مجھے یہ بتاؤ کہ میں ماں کے سامنے جاؤں یا نہ جاؤں؟
آپ یہاں سے ادھر ادھر ہو جائیں تو اچھا ہے روزینہ نے کہا
ادھر محمد اور سنجر کو پتہ چلا کہ ان کی ماں بڑے غصے میں برکیارق کی طرف گئی ہے تو انہیں فکر ہوا کہ برکیارق اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے گا دونوں ماں کے پیچھے دوڑ پڑے وہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کی ماں فلاں کمرے میں ہے وہ دونوں اس کمرے میں گئے تو ماں کو بڑے غصے میں ٹہلتے دیکھا
چلو ماں! محمد نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا یہاں آپ کیا لینے آئی ہیں آپ کے اس بیٹے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا
میں اس کا دماغ ٹھیک کرنے آئی ہوں ماں نے کہا میں نہیں کروں گی تو اور کون کرے گا
ہم دونوں بھائی کریں گے محمد نے کہا ہم نے انتظام کر دیا ہے آپ یہاں سے چلیں
ماں جانے پر راضی نہیں ہو رہی تھی محمد اور سنجر کی بہت باتوں اور منت سماجت کے بعد وہ اس پر راضی ہوئی کہ وہ اسی کمرے میں بیٹھی رہے گی اور دونوں بھائی برکیارق کے پاس جائیں گے
میں اس کے پاس کیوں نہ جاؤں؟
ماں نے پوچھا
میں بتاتا ہوں آپ کیوں نہ جائیں سنجر بولا اگر ہمارے اس بڑے بھائی برکیارق نے ہمارے سامنے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں اسے یہیں ختم کر دوں گا کیا آپ اپنے ایک بیٹے کو دوسرے بیٹے کے ہاتھوں مروانا پسند کریں گی؟
وہ آخر ماں تھی اس پر سنجر کی اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس کا منہ ذرا کھل گیا اور آنکھیں ٹھہر گئیں وہ آہستہ سے بیٹھ گئی اور اس نے سر سے اشارہ کیا کہ تم جاؤ میں یہیں بیٹھوں گی
محمد اور سنجر برکیارق سے ملنے کمرے سے نکل گئے ماں اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر رونے لگی اس نے آہ لے کر کہا یہ وقت بھی دیکھنا تھا
آؤ بیٹھو! برکیارق نے اپنے بھائیوں سے کہا اور پوچھا؟
ماں کو کیا ہوگیا ہے سنا ہے وہ چیختی چلاتی یہاں آئی ہے وہ پاگل تو نہیں ہوگئی ؟
ابھی ہوئی تو نہیں بھائی جان! محمد نے کہا ہوجائے گی
جلدی پاگل ہوجائے گی سنجر نے کہا
ابھی تو وہ مجھے پاگل سمجھتی ہے برکیارق نے کہا اب وہ کیا کہنے آئیں ہیں؟
وہ سلطنت کی تباہی کو برداشت نہیں کرسکتی محمد نے پراعتماد اور دوٹوک لہجے میں کہا سالار اوریزی کو آپ نے یہ سزا دے کر اچھا نہیں کیا
کیوں روزینہ! برکیارق نے روزینہ کی طرف دیکھ کر کہا انہیں بتاؤ کہ اوریزی نے کیا جرم کیا ہے
ہم آپ کے ساتھ بات کرنے آئے ہیں بھائی جان! سنجر نے کہا تم ابھی بہت چھوٹے ہو سنجر! برکیارق نے کہا سلطنت کے کاموں کو ابھی تم نہیں سمجھ سکتے
لیکن میں ایک بات سمجھ سکتا ہوں سنجر نے کہا جو مرد اپنی بیوی کا غلام ہو کر اپنے گھر کے سارے معاملات اور فیصلے اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اس کے گھر میں تباہی ذلت اور خواری کے سوا کچھ نہیں رہتا لیکن آپ نے گھر کے نہیں بلکہ اتنی بڑی سلطنت کے معاملات اور فیصلے اپنی بیوی کے ہاتھ میں دے دیے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک قابل تجربے کار اور جذبے والا سالار ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے اور اسے عمر قید دے دی گئی ہے
تم دونوں بھائی میری ایک بات غور سے سن لو برکیارق نے کہا روزینہ میرا دماغ ہے میرے کان اور میری آنکھیں بھی روزینہ ہے
سلطان محترم! محمد نے کہا یہ بات آپ فخر سے نہ کہیں یوں کہیں کہ اللہ نے آپ کے دماغ پر مہر لگا دی ہے اور ایک مشکوک لڑکی کے ہاتھوں آپ کی سوچنے کی طاقت ختم کر ڈالی ہے آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھ چکی ہے
کیا بک رہے ہو محمد! برکیارق نے ڈانٹ کر کہا
میں بک نہیں رہا محمد نے کہا میں وہ بات کہہ رہا ہوں جو اللہ نے قرآن میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ ان گناہ گار لوگوں پر جو اپنے گناہوں پر فخر کرتے ہیں اللہ نے یہ لعنت نازل کی ہے کہ ان کے دماغوں کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی ہے آپ نے اپنے اوپر شیطان کو مسلط کر لیا ہے
آپ کی آنکھیں اس وقت کھلیں گیں جب سلطنت سلجوقہ پر باطنیوں کا قبضہ ہوچکا ہوگا سنجر نے کہا
آپ کی جگہ حسن بن صباح بیٹھا ہوا ہوگا محمد نے کہا اور آپ کی لاش بھی نہیں ملے گی اور یہاں آپ کی اس بیگم کی حکمرانی ہوگی اپنی آنکھوں سے پٹی کھولیں بھائی جان
میں یہاں سے چلی جاتی ہوں روزینہ نے منہ بسور کر کہا ان لوگوں کو میرا وجود اچھا نہیں لگتا
روزینہ دروازے کی طرف چل پڑی سلطان برکیارق اس کے پیچھے دوڑا لیکن وہ دروازے سے نکل گئی اور اپنے کمرے میں پلنگ پر اوندھے منہ گر کر رونے لگی
برکیارق بے تاب ہو کر اسے منانے بیٹھ گیا لیکن روزینہ ہچکیاں لے لے کر رورہی تھی آخر برکیارق نے اسے اٹھا لیا
میری وجہ سے آپ کی ماں آپ کے خلاف ہو گئی ہے روزینہ نے کہا آپ کے بھائی آپ کے دشمن ہو گئے ہیں مجھے آپ کی اور اس سلطنت کی سلامتی چاہیے میں تارک الدنیا ہو کر کسی غار میں جا بیٹھوں گی اور آپ کے لئے اور آپ کی سلطنت کے لئے دعا کرتی رہا کرو گی
برکیارق اتنی بڑی سلطنت کا سلطان تو بن گیا تھا لیکن وہ نہ سمجھ سکا کے چالاک اور عیار عورت جب چاہے اپنے آنسو نکال لے سکتی ہے یہ تو قلعہ الموت کی تربیت یافتہ لڑکی تھی
تم بتاؤ میں کیا کروں برکیارق نے کہا جو فیصلہ تم کرو گی میں اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کو سنا دوں گا
میری اپنی کوئی خواہش نہیں روزینہ نے کہا میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ سلطنت کے معاملے میں پوری دلچسپی لیں اور اسی طرح فیصلے کرتے رہیں جس طرح آپ نے اس سالار کو سزا سنائی ہے میں تو آپ کو روحانی سکون دے رہی ہوں مگر آپ کی ماں اور بھائی یہ سکون تباہ کر رہے ہیں یہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا
تو پھر تم چپ رہو برکیارق نے کہا اگر میری ماں کا منہ بند نہ ہوا تو میں اسے نظر بند کردوں گا
روزینہ کے ہونٹوں پر تبسم آگیا اور برکیارق کی جان میں جان آئی
اپنے بھائیوں کو چلتا کریں روزینہ نے کہا انہیں کہیں کہ وہ ایک باغی اور غدار سالار کی حمایت نہ کریں ورنہ تمہیں بھی وہیں پہنچا دیا جائے گا جہاں اسے پہنچا دیا گیا ہے
سلطان برکیارق لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس کمرے میں گیا جہاں وہ اپنے دونوں بھائیوں کو بیٹھا چھوڑ گیا تھا بھائی وہاں نہیں تھے وہ اس کمرے میں گیا جہاں اس کی ماں بیٹھی تھی ماں بھی جا چکی تھی
سالار اوریزی کو ابھی تک چوک میں کھڑا رکھا ہوا تھا سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے اسے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں
سپہ سالار حجازی جھوٹ کہہ رہا ہے ایک آواز اٹھی
سپہ سالار خود غدار ہے ایک اور آواز
ہم انصاف چاہتے ہیں دو تین آوازیں اٹھیں
اور ہجوم میں ایک بار پھر شوروغوغا شروع ہوگیا حجازی کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار آگئے اور وہ ادھر ادھر آگے اور پیچھے دیکھنے لگا اس کے محافظوں نے پرچھیاں تان لی تھیں اور وہ لوگوں کو پیچھے ہٹا رہے تھے
ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آ رہا تھا لوگوں نے ادھر دیکھا گھوڑے پر کوئی عورت سوار تھی اور اس کے ہاتھ میں سلطنت سلجوقیہ کا پرچم تھا جس پر چاند اور ستارے کا نشان تھا گھوڑا اسی رفتار سے چلا آرہا تھا ہجوم نے اسے راستہ دے دیا گھوڑا دونوں سالاروں کے پاس جا روکا سوار عورت بڑی تیزی سے گھوڑے سے اتری اور اس میز پر کھڑی ہوگئی جس پر دونوں سالار کھڑے تھے عورت نے اپنا نقاب اٹھا دیا وہ سلطان برکیارق کی ماں تھی
میرے عزیز لوگوں! برکیارق کی ماں نے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر کہا اس پرچم کو دیکھو یہ پرچم تمہارے ایمان اور دین کی علامت ہے یہ پرچم تمہاری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کا نشان ہے یہ پرچم اس اسلامی سلطنت کی عظمت ہے جسے حسن بن صباح کے باطنی اس پرچم کو پامال کرنے کے لئے تمہارے درمیان آگئے ہیں انھیں پہچانو اچھے اور برے کو پہچانو مجھے پہچانو میں تمہاری ماں ہوں سلطان ملک شاہ کو یاد کرو اس کے ایمان اور جذبے کو یاد کرو بھول جاؤ کہ میرا بیٹا سلطان ہے میں اس ناخلف انسان کو اپنا بیٹا کہنے سے شرماتی ہوں میرے بیٹے تم ہو میرا بیٹا ایک باطنی چڑیل کے قبضے میں آگیا ہے اسلام کو حسن بن صباح کی گدھوں اور چیلوں نے نوچنا شروع کردیا ہے سلطنت سلجوقیہ کی جس فوجی طاقت پر ہم سب کو اور تم سب کو ناز تھا اس فوجی طاقت کو توڑا جا رہا ہے تمہارے سالار اوریزی کو اس جرم میں قید میں ڈالا جا رہا ہے کہ یہ اس فوجی طاقت کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس میں اضافہ کررہا تھا قید میں اس سپہ سالار حجازی کو ڈالنا چاہیے
محترم ماں! سپہ سالار حجازی نے برکیارق کی ماں کو بازو سے پکڑ کر کہا سلطان برکیارق کا حکم بڑا ہی سخت ہے ،آپ خاموش
چھوڑ دے میرا بازو خوشامدی غلام! برکیارق کی ماں نے اپنا بازو چھوڑاتے ہوئے کہا میرے عزیز لوگو! میری بات غور سے سن لو تمہارے درمیان افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ،حسن بن صباح قلعہ الموت میں بیٹھا تمہیں آپس میں لڑا رہا ہے اگر تم نے آنکھیں نہ کھولیں اور اپنی عقل استعمال نہ کی تو یہاں بھائی بھائی کی گردن کاٹےگا بھول جاؤ کے سلطان میرا بیٹا ہے میں کہہ چکی ہوں کہ میں اس سلطنت کی ماں ہوں میں تمہاری ماں ہوں اوریزی ابھی تک سالار ہے یہ مجرم نہیں اس کے بعد برکیارق کی ماں بولتی رہی لیکن اس کی آواز ہجوم کے شوروغل میں دب گئی ہجوم بھڑک اٹھا تھا لوگ ایسے جوش میں آ گئے تھے کہ سپہ سالار حجازی کو اپنا انجام کچھ اور ہی نظر آنے لگا
اس شوروغل میں سپہ سالار حجازی نے اپنے قریب کھڑے محافظ سے کچھ کہا محافظ نے پیچھے سے اوریزی کو کمر سے دبوچا اور اسے اٹھا کر قریب کھڑے ایک گھوڑے پر بٹھا دیا پھر خود اس گھوڑے پر اوریزی کے پیچھے سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی سپہ سالار حجازی میز سے کود کر اترا اور ایک محافظ کے گھوڑے پر سوار ہوگیا اس نے محافظوں کو کوئی حکم دیا
تمام محافظوں نے گھوڑے دوڑا دیے اور برچھیاں آگے کرلیں تمام لوگ گھوڑوں اور برچھیوں سے ڈر گئے اور ایک طرف ہو گئے اور اس طرح سپہ سالار حجازی اور اس کے محافظ سالار اوریزی کو اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے
پہلے تو محافظوں نے ہجوم کو پیچھے روک رکھا تھا جب محافظ وہاں سے نکل بھاگے تو ہجوم برکیارق کی ماں کے قریب آگیا اس خاتون نے ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ ہر کوئی سالار اوریزی کا حامی ہو گیا تھا
محمد اور سنجر کو کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ ان کی ماں باہر کہیں چلی گئی ہے وہ اسے ڈھونڈنے لگے تو اصطبل سے پتہ چلا کہ ان کی ماں ایک گھوڑا نکلوا کر اور پرچم ہاتھ میں لے کر کہیں چلی گئی ہے سب کا خیال یہی تھا کہ وہ اس چوک میں ہی گئی ہوگی جہاں سالار اوریزی کو تذلیل کے لئے کھڑا کیا گیا ہوگا
محمد اور سنجر نے گھوڑے لیے ان پر سوار ہوئے اور چوک کی طرف گھوڑے دوڑا دیے ان کی ماں وہیں تھی اور ہجوم نعرے لگا رہا تھا دونوں بھائی اس میز پر چڑھ گئے جس پر ان کی ماں کھڑی تھی انہوں نے ماں سے کہا کہ وہ واپس چلے
اے ایمان والوں! ماں نے اپنے ایک پہلو میں محمد کو اور دوسرے پہلو میں سنجر کو کھڑا کرکے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بلند آواز سے کہا میں اپنے یہ دونوں بیٹے اس اسلامی سلطنت پر قربان کر دوں گی
محمد نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے اس جوش وخروش کو قابو میں رکھیں اور ٹھنڈے دل سے سوچیں، اس نے کہا کہ ہم حسن بن صباح کو ختم کرنے کی تیاریاں کررہے تھے لیکن صورتحال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ حسن بن صباح ہمیں ختم کرنے کا بندوبست کر چکا ہے
یہ کہہ دینا تو آسان تھا کہ باطنی شہر میں پھیلتے جا رہے ہیں لیکن یہ معلوم کرنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن تھا کہ شہر کے لوگوں میں باطنی کون کون ہیں بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مرو کا شہر حسن بن صباح کی گرفت میں آگیا تھا اور اس شہر میں خون خرابا تقریبا شروع ہوگیا تھا محمد اور سنجر اپنی ماں کو ساتھ لے کر چلے گئے
سپہ سالار ابوجعفر حجازی سالار اوریزی کو اپنے محافظوں کے ساتھ لے کر سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر شہر سے نکل گیا اس نے پیچھے دیکھا تھا تعاقب میں کوئی بھی نہیں آرہا تھا، اسے تعاقب کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا اس کے محافظ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے شہری تعاقب کی جرات نہیں کر سکتے تھے پھر بھی اس کے دل پر یہ اندیشہ سوار ہوگیا تھا کہ شہری بھڑک اٹھے تھے اور اس کے خلاف ہوگئے تھے
اس نے محافظوں کو گھوڑے آہستہ کرنے کا حکم دیا قیدخانہ ابھی دور تھا وہ جنگل میں داخل ہوگئے تھے اوریزی زنجیروں میں بندھا ایک محافظ کے آگے بیٹھا بالکل خاموش تھا اس کے چہرے پر افسوس اور تذبذب کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا آگے علاقہ چٹانی آگیا راستہ ان چٹانوں کے درمیان سے بل کھاتا گزرتا تھا یہ قافلہ اس راستے پر چلتا چٹانوں کے اندر گیا تو اچانک دائیں بائیں سے بہت سے آدمی جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے ان پر ٹوٹ پڑے حملہ آوروں نے دو تین محافظوں کو تو پہلے حملے میں ہی گھائل کر کے گھوڑے سے گرا دیا جن پر حملہ ہوا تھا وہ کوئی اناڑی نہیں تھے وہ تجربے کار محافظ تھے جنہیں جان قربان کرنے کی تربیت دی گئی تھی وہ فوج سے منتخب کیے گئے تھے
وہاں لڑنے کے لیے جگہ تنگ تھی محافظوں کے لئے مشکل یہ تھی کہ وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور پینترا بدلنے کے لیے گھوڑوں کو تیزی سے موڑنا اور آگے پیچھے کرنا مشکل تھا حملہ آور پیادہ تھے محافظوں نے جم کر لڑنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ گھوڑوں سے اتر آئے
سپہ سالار حجازی نے بلند آواز سے حکم دیا کہ اوریزی کو حفاظت میں لئے رکھو اسے بھاگنے نہ دینا وہ تو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا ہوا تھا وہ بھاگ نہیں سکتا تھا لیکن حجازی یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ حملہ اوریزی کو آزاد کرانے کے لئے ہوا ہے چارپانچ محافظوں نے سالار اوریزی کو گھوڑے سے اتار کر ایک جگہ کردیا اور وہ سب اس کے اردگرد کھڑے ہو کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگے حملہ آوروں کی تعداد محافظوں سے خاصی زیادہ تھی لیکن کسی ایک محافظ نے بھی پیٹھ دکھانے کی نہ سوچی
میرے شیروں! سپہ سالار حجازی کی آواز گرجی قیدی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا اسے قید خانے تک پہنچا دو گے تو تمہیں جھولیاں بھر کر انعام دلواؤں گا
محافظوں کے لئے سالار اوریزی بڑی ہی قیمتی چیز بن گیا تھا وہ اسی کے قریب رہنے کی کوشش کرتے اور لڑ رہے تھے اوریزی کو انہوں نے ایک چٹان کے دامن میں بٹھا دیا تھا دو تین حملہ آور اس چٹان پر چڑھ گئے چٹان اونچی نہیں تھی حملہ آوروں نے اوپر سے محافظوں کو برچھیاں ماری لیکن چٹان کے پہلوؤں کی طرف سے محافظوں نے اوپر جا کر حملہ آوروں کو گرا لیا
لڑتے ہوئے مر جاؤ! سپہ سالار حجازی کی آواز ایک بار پھر گرجی اگر قیدی تمہارے ہاتھ سے نکل گیا تو سلطان تم سب کو سزائے موت دے گا
حملہ آور پیچھے ہٹ گئے اور کچھ دیر کے لیے یہ خون ریز لڑائی تھم گئی، پتہ نہیں چلتا تھا حملہ آور بھاگ گئے ہیں یا چٹانوں میں چھپ گئے ہیں،حجازی نے محافظوں کو اکٹھا کر لیا وہ ابھی نکل نہیں سکتا تھا اس نے محافظوں کو گنا تو پانچ محافظ کم ہوگئے تھے وہ شدید زخمی ہوئے یا مارے گئے تھے حملہ آوروں میں سے بھی کچھ کم ہوگئے تھے
حملہ آور چٹانوں کے پیچھے چھپ گئے تھے محافظ اپنے گھوڑوں کو پکڑ کر لے آئے اور چلنے کی تیاری کرنے لگے اچانک ایک طرف سے پانچ حملہ آور آئے محافظوں نے گھوڑے کو چھوڑا اور حملہ آوروں کے مقابلے کو آگے بڑھا حملہ آور لڑتے ہوئے اس طرح پیچھے ہٹنے لگے جیسے وہ محافظوں کی تلواروں اور برچھیوں اور ان کے جوش و خروش کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوں
پیچھے ہٹتے ہٹتے آدھے حملہ آور ایک چٹان سے ایک طرف مڑ گیا اور باقی ذرا پیچھے جا کر دوسری طرف مڑ گئے اور بھاگنے لگے محافظ ان کے پیچھے دوڑے
ادھر جہاں اوریزی کو بٹھایا گیا تھا وہاں ایک سپہ سالار حجازی تھا اور اس کے ساتھ صرف ایک محافظ تھا
اس قیدی کو میں ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا سپہ سالار حجازی نے محافظ سے کہا اگر ان لوگوں نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا تو میں اسے یہی قتل کردوں گا سلطان یقیناً خوش ہوگا
سالار اوریزی حجازی کی یہ بات سن رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر خوف کا نام و نشان نہ تھا بلکہ وہ مسکرا رہا تھا حجاجی نے اس کی طرف دیکھا
ہاں اوریزی! حجازی نے طنزیہ لہجے میں کہا مسکراتے ہوئے جان دے دو تو بڑا ہی اچھا ہے
سالار اوریزی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا اور مسکراتا رہا منہ سے کچھ نہ بولا
اچانک قریب سے ہی چار پانچ حملہ آور نکلے اور انھوں نے ہلہ بول دیا حجازی کے ہاتھ میں تلوار تھی اور وہ کچھ لڑا بھی تھا لیکن اب وہ بھاگا اور قریب کھڑے گھوڑے پر سوار ہوکر اس نے ایڑ لگا دی پیچھے جو محافظ رھے گیا تھا اسے وہی کاٹ دیا گیا
حملہ آوروں نے اوریزی کو اٹھایا اور ایک گھوڑے پر ڈال دیا اس کے پیچھے ایک حملہ آور سوار ہوگیا اور اس نے گھوڑا دوڑا دیا
حملہ آوروں نے بڑی اچھی چال چلی تھی وہ ایک طرف سے آئے اور محافظوں سے لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتے ہٹتے محافظوں کو اپنے ساتھ چٹانوں کے اندر لے گئے، پیچھے میدان صاف تھا حملہ کرنے اور اوریزی کو اڑا لے جانے کے لیے آدمی موجود تھے ان کی یہ چال کامیاب رہی
دو یا تین محافظ بچ کر نکلے ہوں گے وہ پیدل بھاگ گئے تھے باقی شدید زخمی ہوئے اور مارے بھی گئے تھے ان کے گھوڑے پیچھے رہ گئے تھے
سلطان برکیارق کو دربان نے اطلاع دی کہ سپہ سالار حجازی آیا ہے سلطان نے حکم دیا کہ اسے فوراً اندر بھیجا جائے
حجازی جب سلطان برکیارق کے سامنے گیا تو شکست اور شرم ساری اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی اور اس کا سر جھکا ہوا تھا
آپ اتنے بوڑھے تو نہیں ہوگئے برکیارق نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن تھکن آپ کے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے کیا ایک قیدی کو قید خانے تک پہنچانا لڑائی سے زیادہ بڑی مشقت ہے؟
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے تھکی تھکی اور ہاری ہوئی آواز میں کہا میں لڑائی میں سے ہی نکل کر آیا ہوں
کیسی لڑائی؟
برکیارق نے پوچھا کیا قید خانے کے عملے کے ساتھ لڑائی ہوگئی تھی کیا وہ قیدی کو وصول نہیں کر رہے تھے کس سے لڑائی لڑی ہے؟
ہم قید خانے کے قریب پہنچ گئے تھے حجازی نے کہا ہم جب چٹانوں میں سے گزر رہے تھے تو ہم پر آگے سے پیچھے اور دائیں بائیں سے حملہ ہوگیا حملہ آور تعداد میں زیادہ تھے ان کے پاس تلواریں اور برچھیاں تھیں اور
مجھے صرف ایک بات بتاؤ سلطان برکیارق نے پوچھا کیا اوریزی کو اسی کوٹھری میں بند کر آئے ہو یا نہیں؟
حجازی کی زبان ہل نہ سکی اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور سر جھکا لیا
پھر کہاں ہے اوریزی؟
روزینہ جو اس وقت تک خاموش تھی بولی کیا اسے جنگل میں پھینک آئے ہو ؟
نہیں! سپہ سالار حجازی نے کہا اسے حملہ آور لے گئے ہیں
پھر تم زندہ میرے پاس کیوں آئے ہو سلطان برکیارق نے گرج کر کہا اور پوچھا باقی محافظ کہاں ہیں ؟
صرف ایک میرے ساتھ آیا ہے سپہ سالار حجازی نے کہا باقی شاید زندہ نہیں
حملہ آور کون تھے؟
سلطان برکیارق نے پوچھا کیا تم نے کسی کو پہچانا نہیں؟
میں صرف شک میں بات کرسکتا ہوں سلطان محترم! سپہ سالار حجازی نے جواب دیا مجھے شک ہے کہ حملہ آور ان فوجیوں میں سے تھے جنہیں فوج سے نکال کر ابھی خیموں میں رکھا ہوا ہے میرے ساتھ جو محافظ آیا ہے وہ کچھ وثوق کے ساتھ بات کرتا ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے اندر بلا لوں
سلطان برکیارق کے اشارے پر حجازی باہر گیا اور اس محافظ کو ساتھ لے آیا
کیا تم نے حملہ آوروں کو پہچانا تھا؟
سلطان برکیارق نے محافظ سے پوچھا؟
ہاں عالی جاہ! محافظ نے جواب دیا وہ ہمارے ان ساتھیوں میں سے تھے جنہیں فوج میں سے نکالا جارہا ہے میں نے تین کو تو پہچان لیا تھا اسی لیے میں کہتا ہوں کہ باقی بھی وہی ہونگے جو فوج سے نکالے گئے ہیں
سپہ سالار حجازی نے سلطان برکیارق سے اجازت لے کر اس محافظ کو باہر بھیج دیا
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے کہا پیشتر اس کے کہ آپ مجھے سزا دیں یا کوئی اور حکم دیں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں لیکن کہنے سے اس لیے ڈرتا ہوں کہ میری بات کا تعلق آپ کی محترمہ والدہ اور بھائیوں کے ساتھ ہے
جو کہنا ہے صاف صاف کہو سلطان برکیارق نے کہا میں سنوں گا مجھے صرف سلطنت کے مفاد کا خیال ہے میری ماں ہو یا بھائی ان کا درجہ سلطنت کے بعد ہے ان کے متعلق انتہائی بری اور توہین آمیز بات کرو گے تو میں وہ بھی سنوں گا مجھے صحیح صورت حال معلوم ہونی چاہیے
محترم سلطان آپکا اقبال اور زیادہ بلند ہو حجازی نے کہا کسی نے ہم پر حملے کی جرات نہیں کرنی تھی یہ حملہ آپ کی محترمہ والدہ اور آپ کے بھائی محمد نے کروایا ہے وہ اس طرح کہ میں آپ کے حکم کے مطابق اوریزی کو چوک میں کھڑا کر کے اس کا جرم لوگوں کو بتا رہا تھا اوریزی اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ بول رہا تھا ہجوم بڑھتا ہی جارہا تھا کہ اتنے میں آپ کی والدہ محترمہ گھوڑے پر سوار وہاں آپہنچیں ان کے ہاتھ میں سلطنت کا پرچم تھا وہ گھوڑے سے اتر کر ہمارے پاس آ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے لوگوں کو آپ کے خلاف اور میرے خلاف اتنا زیادہ بھڑکایا کہ لوگ ہمارے خلاف اور اوریزی کے حق میں مشتعل ہوگئے پھر آپ کا بھائی محمد چھوٹے بھائی سنجر کے ساتھ آگیا محمد نے اتنی اشتعال انگیز باتیں تو نہ کی لیکن جو کچھ بھی اس نے کہا تھا وہ اوریزی کے حق میں جاتا تھا لوگوں کا ہجوم اتنا زیادہ مشتعل ہوگیا کہ لوگ ہم پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھنے لگے وہ محافظوں کی برچھیوں سے بھی نہ ڈرے یہ تو میرا کمال تھا کہ میں نے اوریزی کو ایک گھوڑے پر پھینکا اور محافظوں سے کہا کہ یہاں سے نکلیں اور انکی برچھیوں اور گھوڑوں کی زد میں کوئی بھی آتا ہے پرواہ نہ کریں سلطان عالی مقام! میں خوش تھا کے قیدی کو مشتعل ہجوم میں سے نکال لایا ہوں لیکن آگے جاکر ہم پر حملہ ہوا تو میں سمجھ گیا کہ سابق فوجی بھی ہجوم میں موجود تھے وہ کسی اور راستے سے ہم سے پہلے آگے جاکر گھات میں بیٹھ گئے یہ ہے ہم پر حملے کی اصل وجہ
سلطان برکیارق کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اس نے روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ دانت پیس رہی تھی یہ اس کے غصے کی انتہا تھی
اگر وہ میری ماں ہوتی روزینہ نے کہا تو معلوم نہیں میں کیا کر گزرتی وہ آپ کی ماں ہے اس لیے میں کچھ کہہ نہیں سکتی ماں کو اتنا بھی خیال نہیں کہ وہ سلطنت کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک رہی ہے اور آپ کا بھائی محمد ایک احمق آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وہ آپ کا تختہ الٹنا چاہتا ہے اور اس کے دل میں سلطانی کے سوا کچھ بھی نہیں
میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا حجازی! سلطان برکیارق نے کہا اس کی بجائے میں تمہیں مہلت اور موقع دیتا ہوں کہ ان حملہ آوروں کو پکڑو پھر دیکھنا کہ میں انہیں کیا سزا دیتا ہوں
گستاخی معاف سلطان عالی مقام! حجازی نے کہا میں تو ان غداروں اور باغیوں کو پکڑنے کے لیے دن رات ایک کر دوں گا لیکن آپ کی والدہ محترمہ اور بھائی میرے لئے بہت بڑی رکاوٹ بن جائیں گے میں ان کے محاذ کو ایک کاری ضرب سے توڑ سکتا ہوں انکے سر آپ کے قدموں میں پیش کر سکتا ہوں لیکن وہ آپ کی ماں اور آپ کے بھائی ہیں جن پر میں ہاتھ نہیں اٹھا سکتا انہیں اگر آپ پابند کر لیں تو
ماں کو نظربند کردیں روزینہ نے برکیارق سے کہا ماں کو قید خانے میں پھینکنا بہت ہی معیوب ہے انہیں ان کے کمرے میں پابند کردیں کہ وہ باہر نہ نکلیں پہرا کھڑا کردیں بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ آپ کے حکم کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں انہیں ذہن نشین کرائیں کہ حسن بن صباح سیاہ گھٹا کی طرح افق سے اٹھتا چلا آرہا ہے اور اگر یہاں بھائیوں میں ہی اختلاف پیدا ہوگیا تو یہ گھٹا سلطنت سلجوقیہ کو تاریک کر ڈالے گی
اس باطنی لڑکی روزینہ کی ایسی باتیں تھیں جو سلطان برکیارق کو متاثر کرتی تھی اسے کوئی کہتا تھا کہ یہ حسن بن صباح کے گھوسلے سے نکلی ہوئی لڑکی ہے تو برکیارق کا خون کھول اٹھتا اور ایسی باتیں کہنے والوں پر وہ برس اٹھتا تھا
اب سنو حجازی! سلطان برکیارق نے دوٹوک لہجے میں کہا دو راتوں بعد جب تیسری رات آدھی گزر جائے تو اپنی پوری فوج کو بیدار کرو اور ان فوجیوں کے خیموں کو محاصرے میں لے لو جنہیں ہم نے فوج سے سبکدوش کرکے خیموں میں عارضی طور پر رکھا ہوا ہے اپنی فوج کو پہلے ہی بتا دینا کہ وہ تیاری کی حالت میں رہیں اور باہر کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ فوج تیاری کی حالت میں ہے آدھی رات کو صرف ایک اشارے پر فوج خاموشی سے اٹھے اور وہیں سے محاصرے کی ترتیب میں ہوکر خیموں کو اپنے نرغے میں لے لے رات کے وقت کوئی کاروائی نہیں کرنی صبح جب وہ لوگ اٹھیں تو انھیں پکڑ پکڑ کر الگ کھڑا کرتے جانا پھر ہر خیمے کے اندر دیکھنا کہ کوئی چھپا ہوا تو نہیں رہ گیا اپنے اس محافظ کو ساتھ لے لینا اور یہ ان میں سے ان تین آدمیوں کو پہچانے گا جو حملے میں شریک تھے حملے میں تمہارے محافظوں نے کچھ حملہ آوروں کو زخمی بھی کیا تھا ان میں جو زخمی نظر آئے اسے بھی الگ کردینا سختی کرنی پڑے تو تمہیں اجازت ہے کہ کسی کو جان سے مار ڈالو تم خود عقل رکھتے ہو میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے مجھے یہ حملہ آور چاہیے ابھی دو دن اور دو راتیں تم یوں دبک کر رہو جیسے کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی اور تم ڈر گئے ہو اپنی ماں اور بھائیوں کا انتظام میں خود کر لوں گا
سلطان برکیارق نے سر سے اشارہ کیا تو سپہ سالار حجازی رکوع میں چلا گیا اور اسی حالت میں پیچھے ہٹتے ہٹتے دروازے سے نکل گیا اس کے جانے کے بعد سلطان برکیارق اٹھا اور کمرے میں بے چینی سے ٹہلنے لگا وہ کبھی رک جاتا اوپر دیکھتا پھر سر جھکا کر چل پڑتا کبھی رک کر اپنے ماتھے کو زور زور سے ملتا روزینہ پہلے تو اسے دیکھتی رہی پھر اس نے برکیارق کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور بٹھا کر اس پر اس طرح جھوکی کہ اس کے ریشمی بالوں نے برکیارق پر سایہ کر دیا
آپ کو یہ لوگ جینے نہیں دے گے روزینہ نے اس کے ساتھ اس طرح پیار کر کے کہا جس طرح ماں اپنے معصوم بچے کے ساتھ کرتی ہے وہ کہنے لگی ذرا سر میرے ساتھ لگا لیں آپ کی ذہنی حالت تو ان لوگوں نے بگاڑ کر رکھ دی ہے کوئی غیر ہوتا تو اور بات تھی اپنی سگی ماں اور سگے بھائی آپ کو جہنم میں پھینک رہے ہیں
سلطان برکیارق پر خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوگئی اس نے اپنے آپ کو روزینہ کے حوالے کردیا اور دو سال کا بچہ بن گیا کچھ دیر بعد روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلایا سلطان برکیارق محسوس نہ کر سکا کہ اس کے آباء اجداد کی سلطنت اس پیالے میں ڈوبی جارہی ہے
سلطان برکیارق کے ذہن اور دل پر اپنا قبضہ مکمل کرکے روزینہ اٹھی
کیا میں ماں کو بلا کر اسے کہو؟
سلطان برکیارق نے کہا لیکن وہ تو میری جان کو آجائے گی
محمد اور سنجر کو بلائیں روزینہ نے کہا انہیں بتائیں کہ ماں کو ان کے کمرے میں نظر بند کیا جارہا ہے اور انہیں اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ وہ کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کریں
اب وہی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جو روزینہ نے یہاں آتے ہی پیدا کر دی تھی یعنی سوچتی وہ تھی اور عمل برکیارق کرتا تھا برکیارق کا اپنا دماغ روزینہ کی حسین گود میں بے ہوشی کی نیند سو گیا تھا
اس کیفیت میں برکیارق نے اپنے دونوں بھائیوں کو بلایا اور بھائی اطلاع ملتے ہی آگئے
میرے عزیز بھائیو! برکیارق نے کہا تصور میں لاؤ کہ میری جگہ تم ہو اور تم کوئی حکم دیتے ہو اور کچھ لوگ تمہارے حکم کی تعمیل کے راستے میں اس طرح رکاوٹ بنتے ہیں جس طرح میرے محافظوں پر حملہ ہوا صاف اور سچے دل سے بتاؤ کہ تم کیا محسوس کرو گے اور کیا کاروائی کرو گے ؟
یہ نہ کہنا کہ میرا حکم غلط تھا اور اسلام کے منافی تھا سلطان انسان ہے اور غلطی بھی انسان کر سکتا ہے لیکن کوئی سلطان بغاوت اور غداری برداشت نہیں کر سکتا تم نے محمد اپنی ماں کے ساتھ مل کر میرے خلاف زہر اگلا اور یہی وجہ تھی کہ جو محافظ دستہ اوریزی کو قید خانے میں لے جا رہا تھا اس پر حملہ ہوا قیدی کو وہ ساتھ لے گئے اور محافظوں کو قتل کر گئے تم بتاؤ کہ میری جگہ تم ہوتے تو کیا کرتے
ہم حملہ آوروں کو گرفتار کرتے محمد نے کہا اور انہیں سزا دیتے
اگر میں یہ کہوں کہ یہ حملہ تم نے اور ہماری ماں نے کروایا ہے تو تم کیا کہو گے؟
سلطان برکیارق نے پوچھا؟
یہ الزام بے بنیاد ہے محمد نے کہا یہ صحیح ہے کہ ماں وہاں چلی گئی تھی اور اس نے لوگوں سے جو باتیں کیں وہ سلطنت سلجوقیہ اور سالار اوریزی کے حق میں جاتی تھی انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے اس سلطنت پر قربان کر دوں گی لیکن اس پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دوں گی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پرچم اس اسلامی سلطنت کی عظمت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ شہر حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے تجربے کار باطنی تخریب کاروں سے بھرتا جا رہا ہے
ماں نے جو کچھ بھی کہا سلطان برکیارق نے کہا وہ ہماری سلطنت اور اوریزی کے حق میں تو جاتا ہے لیکن ماں اور تم یہ نہ دیکھ سکے کہ لوگ مشتعل ہو رہے ہیں اور ان کے جوش و خروش میں انتقام کی آگ سلگتی جارہی ہے وہاں سابق فوجی بھی موجود تھے ان میں چونکہ لڑنے کا جذبہ ہے اس لیے انہوں نے یہ فوجی کاروائی جس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے اب تم بتاؤ کہ میں کیا کروں؟
اس طرح بھائیوں میں بحث مباحثہ چلتا رہا جو تلخ کلامی کی صورت اختیار کرگیا اور روزینہ برکیارق کے حق میں بول پڑی
تم خاموش رہو لڑکی! محمد نے کہا سلطان ہمارا بھائی ہے اور تمہاری حیثیت صرف ایک بیوی کی ہے میرے ساتھ کوئی بات نہ کرنا
اب میرا فیصلہ سنو محمد اور سنجر! سلطان برکیارق نے کہا میں اپنی ماں کو ان کے کمرے میں نظر بند کر رہا ہوں تم دونوں میرا یہ حکم اس تک پہنچا دو وہ کمرے سے باہر نہ نکلیں باہر دو سنتری بیٹھا دیے جائیں گے میں جانتا ہوں کہ میرا یہ فیصلہ نہ تمہیں اچھا لگا ہے نہ ماں اسے پسند کرے گی بلکہ وہ چیخے چلائی گئی لیکن مجھے اپنی سلطنت کو بھی دیکھنا ہے اور یہ بھی کہ ماں یو ماری ماری نہ پھرے اس کا ہر جگہ پہنچ جانا اور جو منہ میں آیا کہتے جانا اس کے اپنے وقار کے منافی ہے مجھے یہ خطرہ بھی نظر آرہا ہے کہ جس طرح وہ خود کہتی ہے کہ اس شہر میں باطنی اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں کوئی بدبخت باطنی اسے قتل ہی نہ کر دے
باطنی ہی ہماری ماں کو نظر بند کروا رہے ہیں محمد نے اٹھتے ہوئے کہا ہم آپ کا حکم ماں تک پہنچا دیں گے وہ چیخے گی نہ چلائے گی کچھ بھی نہیں کہے گی لیکن میں آپ کو آخری بار بتا رہا ہوں کہ جن باطنیوں کے متعلق آپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ہماری ماں کو قتل کر دیں گے وہی باطنی سلطنت پر حکومت کررہے ہیں اپنی ماں کو نظر بند کرنے کا حکم آپ نے نہیں حسن بن صباح نے دیا ہے کسی باطنی میں اتنی جرات نہیں ہو گی کہ وہ ہماری ماں کو قتل کردے ہمارے بڑے بھائی کا دین ایمان اور کردار باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے آپ جو ہمارے سامنے چلتے پھرتے بولتے اور حکم دیتے نظر آتے ہیں یہ آپ کا صرف جسم ہے سوچتا کوئی اور ہے اور اس پر عمل آپ کا جسم کرتا ہے آج کے بعد آپ ہمیں اپنے سامنے نہیں دیکھیں گے
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دو بھائی جان! سنجر نے کہا آئندہ آپ کا کوئی حکم ہم تک نہ پہنچے ورنہ ہم وہاں تک پہنچ جائیں گے جہاں آپ کے فرشتے بھی نہیں پہنچ پائیں گے ہم بھاگ نہیں جائیں گے مر نہیں جائیں گے اپنے آباء اجداد کی اور اپنے عظیم باپ کی اس سلطنت کو زندہ وپائندہ رکھنے کی پوری جدوجہد کریں گے خواہ ہماری جانیں چلی جائیں
دونوں بھائی کمرے سے نکل گئے اور سلطان برکیارق احمقوں کی طرح منہ کھولے اس دروازے کو دیکھتا رہا جس دروازے سے اس کے بھائی نکل گئے تھے وہ اس وقت بیدار ہوا جب روزینہ کا ایک رخسار اس کے گال کے ساتھ لگا
سالار اوریزی کو محافظوں سے چھین کر وہاں سے شہر میں نہیں لائے تھے بلکہ اسے شہر سے دور ایک ویرانے میں لے گئے تھے اپنی رہائی کا یہ انتظام اوریزی نے خود ہی کیا تھا اسے جب سلطان برکیارق کا بلاوا آیا تھا تو اسے معلوم تھا کہ سلطان اسے بخش نہیں دے گا اسے معلوم تھا کہ سپہ سالار حجازی اسے انتہائی سزا دلوائے گا اسی لیے اس نے اپنے ساتھ دو محافظ لے گئے تھے اور انہیں سلطان کے محل سے ذرا دور کھڑا کردیا تھا اور انہیں بتا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے
سالار اوریزی کو جب سلطان برکیارق نے زنجیروں اور بیڑیوں میں باندھ کر باہر بھیجا تھا تو اوریزی کے محافظوں نے دور سے دیکھ لیا انہوں نے وہاں سے گھوڑے دوڑا دئیے اور ان لوگوں کے پاس جا پہنچے جنہوں نے اوریزی کو رہا کرانا تھا وہ اسی اطلاع کے انتظار میں تھے جونہی انہیں اطلاع ملی وہ کسی اور راستے سے چٹانی علاقے میں جا پہنچے اور گھات میں بیٹھ گئے وہ گھوڑے نہیں لے گئے تھے کیونکہ گھات میں گھوڑے ہنہنا کر راز فاش کردیتے ہیں
انہیں بہت انتظار کرنا پڑا کیونکہ اوریزی کو چوک میں نمائش کے لئے کھڑا کردیا گیا تھا آخر انہیں سپہ سالار حجازی اپنے محافظوں کے ساتھ نظر آیا وہ تیار ہو گئے اور جونہی یہ محافظ دستہ ان کی گھات میں آیا انہوں نے حملہ کردیا اوریزی کو اپنے ساتھ لے گئے
اوریزی نے ہی انہیں ایک جگہ بتائی تھی جہاں چھپنے کا محفوظ مقام تھا وہ ویرانے میں ایک پہاڑی سی تھی جس میں ایک غار تھا غار گھنی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا اور اس کے آگے مٹی کا ایک چھوٹا سا ٹیلا بھی تھا اوریزی کو اس غار میں لے گئے وہاں اس کی زنجیریں اور بھیڑیاں کاٹنے کا انتظام تھا
اوریزی کو جب بتایا گیا کہ اپنے کچھ آدمی مارے گئے ہیں تو اس نے کہا کہ فوراً وہاں جاؤ اور لاشوں کو اٹھا کر لے آؤ اور یہاں دفن کردو ہوسکتا ہے وہاں کچھ زخمی بھی پڑے ہوں
اوریزی کے آدمی محافظوں کے گھوڑے بھی پکڑ لائے تھے بچے ہوئے آدمی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور واپس اس جگہ چلے گئے جہاں انہوں نے گھات لگائی تھی وہ بہت جلدی میں تھے کیونکہ خطرہ تھا کہ سرکاری فوج پہنچ جائے گی اتفاق سے سلطان برکیارق نے بھی نہ سوچا نہ سپہ سالار حجازی نے کہ جا کر حملہ آوروں کی لاش دیکھتے اور ایسے زخمیوں کو اٹھا کر لے آتے جو بھاگنے کے قابل نہیں رہے تھے ان سے پتہ چل جاتا کہ حملہ آور کون تھے حملہ آور لاشیں اور زخمی اٹھانے آے تھے اور اٹھا کر لے گئے
سالار اوریزی نے صرف چار آدمی اپنے ساتھ رکھے اور دوسروں سے کہا کہ وہ چلے جائیں اور پوری جاسوسی اور مخبری کرتے رہیں اور ذرا ذرا اطلاع اس تک غار میں پہنچاتے رہیں اس کا خیال یہ تھا کہ چند دن دبکے رہیں
سابق فوجیوں کو بتا دینا کہ اب تیار رہیں اوریزی نے کہا انہیں یہ بھی بتا دینا کہ انہیں ہتھیار جلدی مل جائیں گے اور اب ہمارا تصادم سرکاری فوج کے ساتھ ہوگا اور اب ہمارا مقصد برکارق کو ہٹا کر اس کی جگہ محمد کو سلطان بنانا ہے اور اس کے بعد فوج تیار کرکے حسن بن صباح کے خلاف محاذ کھولنا ہے لیکن میرے دوستو! ہمیں خون کے دریا میں سے گزرنا پڑے گا ہم کوشش کریں گے کہ بھائی بھائی سے نہ لڑے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا خانہ جنگی ہو کر رہے گی باقی جو کچھ کرنا ہے وہ پانچ سات دنوں بعد بتاؤں گا ابھی ہمیں زمین کے نیچے رہنا ہے
چار پانچ مہینے پہلے باہر سے ایک طبیب آیا تھا جس نے مرو میں اپنا مطب کھولا تھا وہ جراح بھی تھا اس کے ہاتھ میں خدا نے ایسی شفا دی تھی کہ مایوس اور بڑے پرانے مریض صحت یاب ہو گئے تھے لوگ اس کی بہت تعظیم کرتے تھے اوریزی کے فرار کے دو تین روز بعد رات کا وقت تھا طبیب مریضوں سے فارغ ہو چکا تھا اس نے مکان کا باہر والا دروازہ بند کر دیا تھا اور چار آدمی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے
یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے حق میں ہو رہا ہے طبیب نے ان آدمیوں سے کہا اوریزی کا فرار بھی ہمارے حق میں جائے گا میں جانتا ہوں کہ اسے فرار کرانے والے سابق فوجی ہیں مجھے روزینہ نے محل سے اطلاع بھیج دی ہے کہ سلطان نے اپنی ماں کو نظربند کردیا ہے اور سپہ سالار حجازی سے کہا ہے کہ وہ حملہ آوروں کو تلاش کرے اور پکڑے میں نے اپنے آدمی اس سارے کھیل میں شامل کر دیے ہیں اوریزی کا فرار ہی سابق اور حاضر فوجیوں کے درمیان لڑائی کا باعث بن جائے گا
الموت سے امام حسن بن صباح کا حکم آیا ہے کہ مرو شہر کو خون میں ڈوبو دو یہ بھی کہ اپنے آدمیوں کو استعمال کرنا لیکن اس طرح کے اپنے زیادہ تر آدمی محفوظ رہیں بھائی کو بھائی سے لڑاؤ سلطان کی فوج کو دو حصوں میں کاٹ دو اور انہیں آپس میں لڑاؤ امام نے یہ حکم بھی بھیجا ہے کہ تین چار آدمی ہر روز اس شہر میں مرنے چاہئیں ہمیں امام کے اس حکم پر فوری عمل کرنا ہے تم لوگ دو یا تین دنوں بعد خیمے میں رہنے والے تین چار سابق فوجیوں کو رات کے وقت قتل کر دو اور افواہ پھیلا دو کہ انہیں سرکاری فوجیوں نے اپنے محافظوں کے خون کے انتقام میں قتل کیا ہے پھر ایک دو دنوں کا وقفہ دے کر فوج کے دو چار آدمی قتل کر دینا تم خود تجربے کار ہو قتل کرنا جانتے ہو اور افواہیں پھیلانا بھی جانتے ہو جاؤ اور یہ بندوبست کرو…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:35 }
وہ گیارہویں صدی عیسوی تھی جب اسلام اپنی تاریخ کی بہت بڑے خطرے میں گھر گیا تھا مورخوں نے اسے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا خطرہ کہا ہے یہ ویسا ہی خطرہ تھا جیسا آج آپ دیکھ رہے ہیں دنیائے کفر اسلام کو گھیرے میں لے کر حملہ آور ہو چکی ہے بالکل ایسے ہی حالات حسن بن صباح نے گیارہویں صدی عیسوی میں پیدا کر دیے تھے یہود و نصاریٰ اس کے ساتھ مل گئے تھے اور اس کی پوری پوری پشت پناہی کر رہے تھے اسے جس قسم کی مدد درکار ہوتی تھی وہ پیش کرتے تھے
سلطنت سلجوقیہ کے نیچے لاوا پک رہا تھا بلکہ پک چکا تھا اور اب اس آتش فشاں کو پھٹنا تھا سلطنت سلجوقیہ دراصل اسلامی سلطنت تھی اور یہ اسلام کا مرکز بن گئی تھی جس طرح آج دوست اور دشمن کا غدار اور وفادار کا کچھ پتہ نہیں چلتا ایسے ہی اس دور میں چہروں پر ایسے پردے پڑ گئے تھے کہ نیک و بد کی تمیز ختم ہوگئی تھی سلطنت کا حکمران اور برکیارق تھا لیکن حکومت اس کی بیوی روزینہ کر رہی تھی
برکیارق نے اپنی ماں کو اس کے گھر میں نظر بند کر دیا تو برکیاق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر ماں کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لے گئے تھوڑی ہی دیر بعد دو پہرےدار تلواروں اور برچھیوں سے مسلح آ گئے اور دروازے کے باہر کھڑے ہو گئے
یہ کیوں آئے ہیں؟
ماں نے پہرے داروں کے متعلق بیٹوں سے پوچھا
آپ کے سلطان بیٹے نے آپ کو اس گھر میں نظر بند کر دیا ہے محمد نے کہا اور ہمیں کہا ہے کہ ہم اس کا یہ حکم آپ تک پہنچا دیں
ماں پر تو جیسے سکتا طاری ہوگیا ہو اس کے ہونٹ کانپے مگر زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا پھر اس کے آنکھوں میں آنسو آئے جو اس کے رخساروں پر بہہ نکلے
آپ اتنی زیادہ پریشان کیوں ہوگئی ہیں ہم بڑے بھائی کے غلام تو نہیں لیکن مقدس ماں ہمیں اپنی آزادی اور غلامی کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہم اس سلطنت کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں یہ سلطنت حسن بن صباح کے قبضے میں آ چکی ہے حکومت روزینہ کررہی ہے ہم دونوں بھائیوں کو سلطنت کی حکمرانی نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اسلام کی حکمرانی کی ضرورت ہے آپ بالکل خاموش رہے اب برکیارق کے پاس نہیں جانا ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہم نے اپنا بڑا بھائی اس سلطنت کی عظمت پر قربان کر دیا ہے اب ہمیں اجازت دے کے کفر کی اس یلغار کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں
اور مادر محترم! سنجر نے کہا آپ ہمارے لئے صرف دعا کریں آپ کی دعا ہمارے لئے ایک بڑا ہی مضبوط ڈھال ہوگی ہمیں لڑنا ہے اور آج کے بعد سلطنت سلجوقیہ کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی
میرے مجاہد بچو! ماں نے کہا میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں تم جیسے میرے بیس بچے ہوتے تو میں اسلام کی اس سلطنت پر قربان کر دیتی لڑنا ہے تو طریقے سے عقل سے لڑنا ابومسلم رازی کو اطلاع دے دو وہ بہت ہی دانشمند آدمی ہے مشورے بھی اچھے دے گا اور ہر طرح کی مدد بھی کرے گا
اب آپ نے برکیارق کے سامنے نہیں جانا محمد نے کہا اپنے آپ پر غصے کو بھی غالب نہیں آنے دینا اب جو بھی کرنا ہوگا وہ ہم کریں گے
مزمل آفندی آئے ہیں پہرے دار نے اندر آ کر کہا وہ یہاں اندر نہیں آ سکتے کیونکہ ہمیں بڑا سخت حکم ملا ہے محترم محمد اور محترم سنجر ان سے مل سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کمرے میں میرے لیے کیا حکم ہے؟
تمہارے لئے حکم یہ ہے کہ فوراً اس کمرے میں سے نکل جاؤ محمد اور سنجر کی ماں بولی اور کتوں کی طرح باہر کھڑے رہو پہرےدار کھسیانا سا ہوکر محمد کی طرف دیکھنے لگا
مزمل آفندی کو دوسرے کمرے میں بٹھاؤ محمد نے کہا ہم آتے ہیں
مادر محترم! پہرے دار نے محمد کی ماں کے آگے جھک کر کہا ہم حکم کے بندے ہیں ہمیں آپ کے خلاف حکم دیا جاتا ہے لیکن ہمارے دلوں سے آپ کا احترام نہیں نکالا جاسکتا
ماں نے سر جھکالیا پہرےدار آداب بجا لا کر باہر نکل گیا محمد اور سنجر اسی مکان کے ایک اور کمرے میں چلے گئے مزمل آفندی اس کمرے میں داخل ہو رہا تھا
برکیارق اور روزینہ کے پاس سلطنت کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بیٹھا ہوا تھا کچھ دیر پہلے برکیارق نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو کچھ حکم دئے تھے، اور پھر اپنی ماں کی نظربندی کا حکم بھی دیا تھا تو روزینہ نے کہا تھا کہ وہ اپنے وزیراعظم کو بلا کر یہ سارے احکام لکھوا دے اور اسے کہے کہ ان کی تعمیل کی نگرانی وہ کرے
آپ ہر مسئلہ اپنے سر لے لیتے ہیں روزینہ نے کہا تھا آپ آخر ایک انسان ہیں ساری سلطنت کا درد اپنے دل میں بھر کر آپ کو سکون اور چین کہاں سے مل سکتا ہے آپ کا روحانی سکون تو آپ کی ماں اور بھائیوں نے مل کر تباہ کردیا ہے میں تو انہیں کہنا چاہتی تھی کہ آؤ تم سلطانی کی گدی پر بیٹھ جاؤ اور ذرا سلطنت کا کاروبار چلا کر دکھاؤ یہ آپ کی ہی دیانت داری ہے اور خلوص ہے کہ آپ ان پہاڑوں سے ٹکرا رہے ہیں اتنا پریشان نہ ہوں میں اپنا خون آپ کی رگوں میں ڈال دوں گی
برکیارق نے ایک بازو لمبا کر کے روزینہ کی کمر میں ڈالا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھوڑی دیر بعد روزینہ نے ہی دربان کو بلا کر کہا تھا کہ وزیراعظم کو فوراً بلا لاؤ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری فوراً پہنچ گیا برکیارق نے اسے بتایا کہ آج کیا ہوا ہے اور اس نے کیا احکام جاری کیے ہیں
ان امور اور مسائل کی نگرانی آپ نے کرنی ہے برکیارق نے کہا ان احکام کی تعمیل میں یہ نہیں دیکھنا کہ یہ خاتون میری ماں ہے یا وہ لڑکے میرے بھائی ہیں کسی کی حیثیت کا خیال نہیں رکھنا
سلطان محترم! وزیراعظم سمیری نے کہا میں صرف آپ کو جانتا ہوں اگر آپ مجھے حکم دیں گے کہ اپنے ایک بیٹے کا سر کاٹ کر پیش کرو تو میں آپ کا یہ حکم بلا حیل وحجت پورا کروں گا
آپ دیکھ رہے ہیں کہ سلطان کس قدر تھکےتھکے لگتے ہیں روزینہ نے کہا ان کا چہرہ کس طرح اتر گیا ہے میں نہیں چاہتی کہ یہ اور بولیں میں آپ کو بتاتی ہوں کہ انہوں نے آج کیا احکام جاری کیے ہیں یہ تو آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ سالار اوریزی کو قید خانے میں بند کرنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں محافظوں پر حملہ ہوگیا اور حملہ آور محافظوں کو قتل کرکے سالار اوریزی کو چھوڑا کر لے گئے ہیں
یہ خبر مجھ تک پہنچ چکی ہے وزیراعظم سمیری نے کہا میں نہیں جانتا کہ سلطان محترم نے کیا فیصلہ صادر فرمایا ہے اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو اوریزی اور اس کے حامیوں کو فوری طور پر سزائے موت دیتا یہ غداری ہے
سلطان نے یہ حکم دیا ہے روزینہ نے کہا آج سے تیسری رات ان خیموں کو محاصرے میں لے لیا جائے جن میں برطرف کیے جانے والے فوجی رہتے ہیں پھر ایک ایک خیمے میں جا کر انہیں بیدار کیا جائے گا اور ایک جگہ اکٹھا کرکے شناخت کی جائے گی کہ حملہ آور کون کون تھے ہمیں یقین ہے کہ اوریزی کو انہی میں سے چند ایک آدمیوں نے رہا کروایا ہے اس کاروائی کا باقاعدہ منصوبہ تیار کر لیں اس میں ناکامی نہیں ہونی چاہیے اس کے ساتھ ہی اوریزی کو ڈھونڈنا ہے آپ کے پاس جاسوس ہیں اور مخبر بھی ہیں آپ جانتے ہیں کہ مفرور اور روپوش مجرم کو کس طرح ڈھونڈا جاتا ہے
یہ آپ مجھ پر چھوڑیں سلطان عالی مقام! وزیراعظم سمیری نے کہا میں اس غدار کو زمین کی ساتویں تہہ میں سے بھی نکال لاؤں گا آپ آگے فرمائیں
میں نے اپنی ماں کو اسکے گھر میں نظر بند کردیا ہے
برکیارق نے کہا دراصل میری ماں نے ہی لوگوں کو بھڑکایا تھا کہ اوریزی کو ناحق قید کیا جارہا ہے وہ میری ماں نہ ہوتی تو میں اسی وقت اسے جلاد کے حوالے کر دیتا آپ نے یہ نگرانی کرنی ہے کہ میری ماں تک میرے دونوں بھائیوں کے سوا کوئی نہ جائے
یہ آپ کے کردار کی بلندی ہے سلطان محترم! وزیر اعظم سمیری نے کہا یہ آپ کے ایمان کی پختگی ہے کہ آپ اس قسم کی ماں کا اتنا احترام کر رہے ہیں گستاخی نہ ہو اور آپ معاف کردے تو کہو کہ آپ کی ماں میں وہ جذبہ اور وہ عظمت نہیں جو آپ کے والد مرحوم سلطان ملک شاہ میں تھی آپ اپنے والد مرحوم کے صحیح جانشین ہیں
آپ دانش مند ہیں برکیارق نے وزیر اعظم سے کہا مجھے معلوم ہے کہ میری ماں آپ کا بہت احترام کرتی ہے آپ اس کے پاس جائیں اور اسے اور دونوں بھائیوں کو کچھ پند و نصیحت کریں کہ وہ میرے لئے مشکلات پیدا نہ کریں اور میرے ساتھ تعاون کریں وہ میری نہیں مانتے
بات کچھ اور ہے روزینہ نے کہا سلطان برکیارق نے مجھے بےسہارا اور یتیم سمجھ کر میرے ساتھ شادی کرلی ہے ان کی ماں کو ان کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا وہ یہ تو سمجھ ہی نہیں رہیں کہ میں سلطان کی بیوی کم لونڈی زیادہ ہوں میں تو ان کی خدمت کے لیے اور ان کو سکون دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر چکی ہوں
میں سب سمجھتا ہوں وزیراعظم سمیری نے کہا آپ سلطان کے لئے بہت ایثار کر رہی ہیں سلطان محترم آپ نے جو احکام آج صادرفرمائیں ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں میں آپ کی والدہ اور بھائیوں کے پاس جا رہا ہوں میں جانتا ہوں اور برملا کہوں گا کہ آپ کی والدہ کا دماغ چل گیا ہے میں سلطنت کی بقا اور سلامتی کا واسطہ دے کر انہیں اور آپ کے بھائیوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا مجھے امید ہے کہ وہ میری بات سن لیں گے
سلطان برکیارق نے وزیراعظم کو جانے کی اجازت دے دی وزیراعظم جانے لگا تو اسنے برکیارق کی نظر بچا کر روزینہ کو آنکھ سے اشارہ کیا وہ باہر نکلا تو روزینہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی گئی کچھ آگے جا کر دونوں ایک کمرے میں چلے گئے
کوئی خاص بات ہے؟
روزینہ نے وزیراعظم سے رازدارانہ لہجے میں پوچھا
سلطان بہت ہی پریشان ہیں وزیراعظم نے کہا میں جانتا ہوں کے آپ ان کا بہت زیادہ اور ہر وقت خیال رکھتی ہیں لیکن انہیں مزید سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے میں آپ کے جذبہ ایثار کی تعریف کر ہی نہیں سکتا پھر بھی میں آپ سے کہتا ہوں کہ سلطان کو اور زیادہ سکون اور سہارے کی ضرورت ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ماں اور بھائیوں نے ان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے میں یہی کچھ کرسکتا ہوں کہ سلطان کی ذمہ داریاں خود سنبھال لوں لیکن گھر میں آپ نے ان کا خیال رکھنا ہے جو آپ رکھ رہی ہیں میں نے بس اتنی سی بات کہنی تھی
مجھے آپ کے ہی تعاون کی ضرورت ہے روزینہ نے کہا اور وزیراعظم سمیری کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے کر چوم لیا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے مشفق باپ کی طرح روزینہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور چلا گیا
جس وقت وزیراعظم سمیری سلطان برکیارق سے اس کے احکام اور روزینہ سے اس کی باتیں سن رہا تھا اس وقت مزمل آفندی محمد اور سنجر کے پاس بیٹھا انہی مسائل پر باتیں کر اور سن رہا تھا اسے خبر ملی تھی کہ سالار اوریزی کو کچھ حملہ آوروں نے رہا کرا لیا ہے تو اسی وقت محمد اور سنجر کے پاس آ گیا تھا محمد نے اسے سنایا کہ برکیارق نے ماں کو نظربند کردیا ہے
برکیارق نہ کہو! مزمل آفندی نے کہا روزینہ کہو سلطان برکیارق کی حیثیت اٹل ہے کہ وہ سلطان ہے فیصلے روزینہ کرتی ہے یہ بات کوئی نئی نہیں میں بات کرنے آیا ہوں کہ سالار اوریزی کے رہائی ہمارے لئے بہت ہی خوشگوار بات ہے اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ہمارا محاذ مضبوط ہے اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے مجھے پتا چل جائے کہ سالار اوریزی کہاں روپوش ہے تو میں اس کے پاس چلا جاؤں گا اور اس سے پوچھوں گا کہ ادھر ہم کیا کریں؟
وہ خاصی باتیں کر چکے تھے اور اب یہ سوچ رہے تھے کہ کیا کیا جائے کہ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کمرے میں داخل ہوا اسے دیکھ کر مزمل محمد اور سنجر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے وزیراعظم نے تینوں سے ہاتھ ملایا اور سب بیٹھ گئے
کہو لڑکوں! وزیراعظم سمیری نے پوچھا کیا باتیں ہو رہی ہیں مزمل تمہیں بڑے عرصے بعد دیکھا ہے
آپ تو جانتے ہیں کہ ہم کیا باتیں کر رہے ہونگے محمد نے کہا سالار اوریزی کی رہائی کی باتیں ہو رہی تھیں مزمل اسی سلسلے میں آیا ہے اچھا ہوا آپ بھی آگئے نہ آتے تو میں آپ کے پاس آ جاتا
سلطان نے طلب فرمایا تھا وزیراعظم نے کہا انہوں نے اپنے احکام اور فیصلے مجھے سنائیں جو انہوں نے آج صادر فرمائے ہیں آپ کی والدہ محترمہ کو نظربند کردیا گیا ہے یہ تو کہنے والی بات ہی نہیں نہ کہنے کی مزید ضرورت ہے کہ روزینہ نے تو سلطان کو بولنے ہی نہیں دیا ایک حکم مجھے اور ملا ہے وہ یہ کہ میں تم دونوں کو اور آپ کی والدہ کو سمجھاؤں کہ آپ سب سلطان سے تعاون کریں اور ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا نہ کریں
آج اپنی ماں کو نظر بند کیا ہے مزمل نے کہا کچھ دنوں بعد دونوں بھائیوں کو سزائے موت دے دے گا
وہاں تک نوبت نہیں پہنچنے دی جائے گی وزیر اعظم نے کہا میں زندہ اور سلامت موجود ہوں میں سلطان اور سلطانہ کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہوں اگر تم لوگ مجھے ان کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی باتیں سنتے دیکھو اور میں وہاں جو غلامانہ حرکتیں کرتا ہوں تم دیکھ لو تو میرے ساتھ بات کرنا بھی گوارا نہ کرو تم کہو گے کہ یہ تو کوئی خاندانی غلام ہے لیکن میں نے دونوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے روزینہ تو میری مرید بن گئی ہے اب یہ سوچنا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے اوریزی کی رہائی ہمارے محاذ کی بہت بڑی کامیابی ہے
میں صرف ایک بات جانتا ہوں مزمل نے کہا اوریزی کہاں روپوش ہے؟
میں اس تک پہنچنا چاہتا ہوں اس سے ہدایت لینی ہے کہ میں کیا کروں
آج رات کو نہیں تو کل تک مجھے یہ پتا چل جائے گا وزیراعظم سمیری نے کہا تم نے اسے کوئی ہدایت نہیں لینی نہ اس کے پاس جانا ہے سلطنت کے سرکاری مخبر اسے ڈھونڈ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے وہاں تک پہنچ جائیں تم لوگوں کو اب جو ہدایات ملیں گی وہ مجھ سے ملیگی
بات یہ ہے محترم! محمد نے کہا مزمل بہت ہی بے تاب ہو رہا ہے کہ باطنیوں کے خلاف کسی جارحانہ کارروائی میں شامل ہو
بے تاب نہیں ہونا مزمل! وزیراعظم نے کہا اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنا ہے اور جذبات کو قابو میں رکھنے کی شدید ضرورت ہے میری ایک بات غور سے سن لو تم ابھی ان جنگوں کو ذہن میں لئے لئے پھرتے ہو جو ہمارے رسولﷺ نے لڑی تھی اور پھر حضرت خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص اور ان جیسے سپہ سالاروں نے لڑی تھی ہمارے دلوں میں وہ عسکری روایات تو زندہ موجود ہیں لیکن اب جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے وہ ان غزوات اور بعد کی لڑائیوں سے بالکل ہی مختلف ہے ہماری روایات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ میدانوں میں کیا ہے ایک ہزار کو تین سو تیرہ نے اور سوا لاکھ کے لشکر کو صرف چالیس ہزار کے لشکر نے شکست دی تھی انہوں نے رومیوں اور فارسیوں کو ہر میدان میں شکست دی وہ آمنے سامنے کی لڑائیاں تھی لیکن اب ہمارا پالا جس دشمن کے ساتھ پڑا ہے وہ میدان میں نہیں آرہا بلکہ زمین کے نیچے سے وار کر رہا ہے مسلمان اس قسم کی جنگ سے واقف نہیں یہی وجہ ہے کہ آج یہ سلطنت ایک بھیانک خطرے میں پڑ گئی ہے شاید تم جانتے ہوں گے کہ اس شہر میں بےشمار باطنی پہنچ چکے ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں حسن بن صباح کے فدائی بھی ہیں جو صرف یہ جانتے ہیں کہ قتل کر کے قتل ہوجانا ہے ہمیں اب زمین کے اوپر بھی لڑنا ہے اور زمین کے نیچے بھی
یہی تو میں سوچ رہا ہوں مزمل نے کہا جس طرح حسن بن صباح نے روزینہ کو بڑی ہی حسین اور زہریلی ناگن بناکر سلطنت کی بالائی سطح پر پہنچا دیا ہے اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ ایسی ہی ایک ناگن وہاں بھیجی جائے جو روزینہ کا زہر مار ڈالے
ایسی ناگن کہاں سے لاؤ گے؟
وزیراعظم نے پوچھا
وہ میرے پاس ہے مزمل نے جواب دیا اس کا نام شمونہ ہے محمد اور سنجر اسے اچھی طرح جانتے ہیں بڑا اچھا اتفاق ہے کہ برکیارق نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ لڑکی ہے اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حسن بن صباح اور باطنیوں کے خلاف دل میں انتقام کی آگ لیے پھرتی ہے
میں اسے جانتا ہوں وزیراعظم نے کہا اسے دیکھا بھی ہے شکل و صورت اور جسم کی کشش کے لحاظ سے وہ موزوں لڑکی ہے لیکن ایسی کاروائیاں کرنے سے پہلے ہمیں بہت کچھ سوچنا پڑے گا
آپ نے اسے صرف دیکھا ہے مزمل نے کہا اسکے انتقامی جذبے کا اندازہ اس سے کریں کہ اس کے دل میں میری محبت معجزن ہے اور وہ فیصلہ کرچکی ہے کہ شادی میرے ساتھ ہی کرے گی اس کی ماں بھی ہمارے ساتھ ہے لیکن شمونہ کہتی ہے کہ میں جب تک حسن بن صباح پر انتقامی وار نہ کر لوں شادی نہیں کروں گی اگر آپ کہیں تو وہ بڑے آرام سے روزینہ کو زہر دے کر یا ویسے کسی ہتھیار سے اسے قتل بھی کر آئے گی
میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اسے استعمال کریں گے لیکن سوچ سمجھ کر وزیراعظم نے کہا ابھی میں نے ایک خفیہ کاروائی کرنی ہے وہ تم تینوں اچھی طرح سن لو آج سے تیسری رات ان خیموں کو فوج محاصرے میں لے گی جن میں برطرف کیے جانے والے فوجی رہتے ہیں سلطان نے مجھے بتایا ہے کہ ان خیموں کی بستی کو محاصرے میں لے کر تمام سابق فوجیوں کو جگایا اور اکٹھا کیا جائے گا اوریزی کو قید خانے لے جانے والے محافظوں میں سے جو ایک بج گیا ہے وہ ان آدمیوں میں سے حملہ آوروں کو شناخت کرے گا بعض کو سپہ سالار حجازی شناخت کرے گا صاف ظاہر ہے جو پکڑے جائیں گے انہیں اگلے ہی روز سزائے موت دے دی جائے گی میں نے یہ بندوبست کرنا ہے کہ کوئی ایسا آدمی نہ پکڑا جائے
اس کاروائی میں ایک خطرہ اور بھی ہے محمد نے کہا سپہ سالار حجازی اتنا بدنیت آدمی ہے کہ وہ ویسے ہی پندرہ بیس آدمیوں کو الگ کر کے کہہ دے گا کہ یہ تھے وہ حملہ آور اور اگلے روز ان کے سر کٹوا دے گا ہمارے پاس ان لوگوں کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں
میں کچھ نہ کچھ بندوبست کر لوں گا وزیراعظم نے کہا اگر میرا انتظام ناکام رہا تو میں ایسی خفیہ کاروائی کروں گا کہ جب ان لوگوں کو سزائے موت کے لئے لے جائیں گے تو انہیں رہا کرا لیا جائے گا اصل بات یہ ہے کہ اب خون خرابہ ہو کر رہے گا میرے آدمی فوج میں بھی موجود ہیں تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ جاسوسی اور مخبری کا میں نے اپنا ایک ذاتی نظام بھی قائم کر رکھا ہے
ان حالات اور واقعات کی پوری اطلاع رے پہنچنی چاہیے محمد نے کہا ابو مسلم رازی نے مجھے خاص طور پر کہا تھا کہ حالات میں کوئی ذرا سی بھی اچھی یا بری تبدیلی آئے انہیں فوراً اطلاع ملنی چاہیے
ہاں یہ بہت ہی ضروری ہے وزیر اعظم نے کہا کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ مزمل ابھی روانہ ہوجائے میں اپنا آدمی اتنی دور نہیں بھیجوں گا میرے خاص اور خفیہ آدمی دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں
میں ابھی روانہ ہو جاتا ہوں مزمل نے کہا حالات اور واقعات مجھے معلوم ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہاں اور کیا بات کرنی ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ فوجی نہتّے ہیں جنہیں فوج سے برطرف کیا جا رہا ہے ان کے لیے ہتھیاروں اور گھوڑوں کا انتظام کرنا ہے ہماری یہ ضرورت ابومسلم رازی ہی پوری کر سکتے ہیں
وہ تو ہر طرح کی مدد دینے کا وعدہ کر چکے ہیں محمد نے کہا انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ اپنی پوری فوج یہاں بھیج دیں گے
پھر میں چلتا ہوں مزمل نے کہا آپ شمونہ پر غور کرنا وہ کسی طرح سلطان اور روزینہ تک پہنچ جائے تو اور کوئی شدید کاروائی کرے نہ کرے جاسوسی اور مخبری تو کرے گی ہی یہ بھی تو ہماری ضرورت ہے
تم واپس آجاؤ تو یہ بات بھی کر لیں گے وزیراعظم سمیری نے کہا یہ کام کرنا ہی پڑے گا تم جاؤ تیار ہو کر روانہ ہو جاؤں خالی ہاتھ نہ چل پڑنا تمہارے پاس دو یا تین ہتھیار ہونے چاہیے اور گھوڑا کمزور نہ ہو
اسی رات کا واقعہ ہے برطرف کیے جانے والے فوجیوں کے خیموں سے ذرا ہی پرے تین آدمی جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے کچھ دیر بعد ایک آدمی اٹھا اور خراماں خراماں کچھ دور تک چلا گیا وہ ایک جگہ رکا پھر واپس ہوا اور اپنے ساتھیوں میں جا بیٹھا اس کیمپ میں خیموں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی بارہ چودہ ہزار آدمی رہتے تھے ہر خیمے میں پانچ چھے آدمیوں کی رہائش تھی
آدھی رات کے کچھ وقت بعد کسی خیمے میں سے ایک آدمی اٹھا اور خیموں کی بستی میں سے باہر نکل گیا وہ پیشاب کرنے گیا تھا وہ ایک جگہ رکا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک آدمی نے جھپٹ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور پیشتر اس کے کہ اسے پتہ چلتا کہ یہ کون ہے ایک خنجر اس کے سینے میں اس جگہ اتر گیا جہاں دل ہوتا ہے یہ خنجر وہاں سے نکلا اور ایک بار پھر اس کے سینے میں داخل ہوگیا اس کے منہ پر ہاتھ رکھا گیا تھا اس لئے اس کی آواز نہیں نکلی تھی وہ گرا اور مر گیا
وہ تینوں آدمی اس کی لاش وہیں چھوڑ کر ایک اور طرف چلے گئے ایک اور جگہ چھپ کر بیٹھ گئے
آج رات کم از کم تین آدمی مارنے ہیں ان تینوں میں سے ایک نے کہا انہیں خاصی دیر انتظار کرنا پڑا پھر ایک اور آدمی خیمے میں سے باہر نکلتا نظر آیا یہ تینوں قاتل دبے پاؤں سرکے ہوئے اور نہایت آہستہ آہستہ چلتے اس آدمی کے عقب میں پہنچ گئے اس آدمی کو بھی انہوں نے اسی طرح قتل کیا اور اس کی لاش وہیں پھینک کر دوسری طرف جھاڑیوں کے پیچھے جا کر بیٹھ گئے کسی اوٹ میں بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ رات تاریک تھی
اس طرح صبح کاذب تک انہوں نے تیسرے آدمی کو بھی قتل کیا اور وہاں سے چلے گئے انہوں نے آبادی میں جاکر ایک دروازے پر دستک دی اندر سے بلی کی میاؤں کی آواز آئی باہر کھڑے تین میں سے ایک آدمی نے اسی طرح بلی کی آواز میاؤں کیا اور دروازہ کھل گیا تینوں اندر گئے اور دروازہ پھر بند ہوگیا دروازہ کھولنے والا انہیں ایک کمرے میں لے گیا اور دیا جلایا
تمہارے کپڑے بتا رہے ہیں کہ تم کام کر آئے ہو اس آدمی نے کہا اور پوچھا کتنے ؟
تین ایک نے جواب دیا آج رات اتنے ہی کافی ہیں
ہاں امام کے نام پر آج کی رات اتنی ہی کافی ہیں اس آدمی نے کہا باقی قتل و غارت وہ خود ہی آپس میں کرلیں گے اب تم سو جاؤ اگلا کام کرنے والے جلدی اٹھ جائیں گے انہیں میں اطلاع دے دوں گا
یہ اس طبیب کا گھر تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے ہاتھ میں شفا ہے اسی نے اپنے آدمیوں کو یہ حکم سنایا تھا کہ الموت سے امام کا حکم آیا ہے کہ مرو کو خون میں ڈبو دو ہر روز تین چار آدمی قتل ہونے چاہیں
اگلی صبح خیموں کی اس بستی میں جب یہ خبر پہنچی کہ ان کے تین ساتھی باہر مرے پڑے ہیں اور انہیں خنجر لگے ہیں تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہزارہا سابق فوجی اکٹھے ہوگئے راہ جاتے لوگ بھی وہیں رک گئے شہر میں خبر پہنچی تو لوگ ادھر ہی کو اٹھ دوڑے
ایک آواز تھی کہ فوجیوں نے یعنی ان فوجیوں نے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا تھا اپنے عہدے دار کے خون کا بدلہ لیا ہے یہ آواز ہوا کے تیز جھونکے کی طرح ہر طرف پھیل گئی اور ذرا سی دیر میں یہی بات ہر کسی کی زبان پر تھی کہ حاضر فوجیوں نے سابق فوجیوں کے تین بندے مار ڈالے ہیں
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ فوج میں رہنے والے ایک عہدے دار کی لاش ملی تھی اور یہ یقین کر لیا گیا تھا کہ فوج میں سے نکالے جانے والے دو آدمیوں نے اسے قتل کیا ہے سپہ سالار حجازی نے ویسے ہی کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر سابق فوجیوں کے دو آدمی پکڑ کر جلادوں کے حوالے کر دیے تھے اس سے ایسا فساد اٹھا جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگیا
سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو اطلاع ملی تو وہ اپنے محافظوں کو ساتھ لئے گھوڑا دوڑاتا پہنچا خیموں میں رہنے والے سابق فوجیوں نے اسے گھیر لیا اس قدر شوروغل اور احتجاج کا ایسا ہنگامہ کے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون کیا کہہ رہا ہے سپہ سالار حجازی نے بڑی مشکل سے سب کو خاموش کروایا اور کہا کہ کوئی ایک ذمہ دار آدمی بات کرے
میں بات کرتا ہوں ایک نائب سالار سب کی نمائندگی میں بولا اسے بھی فوج سے برطرف کیا جارہا تھا اور وہ انہیں خیموں میں رہتا تھا اس نے کہا حاضر فوجی کا ایک عہدیدار قتل ہوگیا تو ہمارے دو آدمیوں کو ویسے ہی پکڑ لیا گیا تھا اب ہمارے تین آدمی قتل ہوگئے ہیں حاضر فوجیوں کے چھ آدمی پکڑ کر ہمارے سامنے جلادوں کے حوالے کئے جائیں
سپہ سالار حجازی نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ وہ سلطان کے پاس جا رہا ہے اور وہاں سے حکم لے کر واپس آئے گا
حجازی سلطان برکیارق کے پاس جانے کی بجائے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے پاس چلا گیا اور اسے بتایا کہ پہلے ادھر سے ایک آدمی قتل ہوا تھا اور اب ادھر سے خیموں میں رہنے والے تین آدمی قتل ہوگئے ہیں وزیراعظم نے سپہ سالار حجازی کو ساتھ لیا اور دونوں سلطان برکیارق کے پاس چلے گئے اسے نئی واردات سنائی
سلطان عالی مقام! سپہ سالار حجازی نے کہا میں تو یہ سمجھا ہوں کہ حاضر اور برطرف فوجیوں میں دشمنی پیدا ہوگئی ہے میرا مشورہ تو یہ ہے کہ برطرف شدہ فوجیوں کو فارغ کر کے گھروں کو بھیج دیا جائے
ایسا ہرگز نہ کرنا وزیراعظم نے کہا یہاں وہ خیمے میں پڑے ہیں انہیں فارغ کیا گیا تو یہ ہتھیار اٹھا لیں گے اور بڑا ہنگامہ ہوگا
وزیراعظم سمیری نے یہ جو مشورہ دیا اس سے اس کا مقصد کچھ اور تھا اس کا جو منصوبہ تھا اس کے مطابق وہ ان فوجیوں کو یہی رکھنا چاہتا تھا یہ اس کی خفیہ فوج تھی جسے اس نے خانہ جنگی کی صورت میں سلطان کی فوج کے خلاف استعمال کرنا تھا اس نے سلطان برکیارق سے منوا لیا کہ انہیں ابھی یہاں سے جانے نہیں دیا جائے گا
ادھر خیموں میں رہنے والے سابق فوجی للکار رہے تھے کہ وہ اپنے مقتولوں کا بدلہ لیں گے شہر میں بھی یہی افواہ گردش کررہی تھی کہ حاضر فوجیوں نے سابق فوجیوں کے تین آدمی قتل کر دیے ہیں کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ غلط ہے بعض جگہوں پر شہری ایک دوسرے سے الجھ بھی پڑے
ابھی کسی کے ذہن میں شک تک نہیں آیا تھا کہ یہ آگ لگانے والے باہر کے لوگ ہیں اور وہ ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ہوچکی ہے یہ افواہ حسن بن صباح کے آدمی پھیلا رہے تھے
سپہ سالار حجازی کے ساتھ وزیراعظم بھی خیموں کی بستی میں گیا اور اس نے بڑی مشکل سے ان لوگوں کو ٹھنڈا کیا اور کہا کہ قاتل بچ کر نہیں جائیں گے
حسن بن صباح کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا تھا اس کی مقبولیت بڑی تیزی سے پھیلتی جارہی تھی اس تبلیغ کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ وہ کسی قبیلے کے سردار کو حوروں جیسی حسین لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے اپنے دامِ کفر میں پھانس لیتا تھا پھر اسے یہ تاثر دیتا کہ اسے اسلام سے خارج نہیں کرایا جارہا بلکہ اسلام کے دائرے میں لایا جارہا ہے حسن بن صباح نے جو دائرہ بنا رکھا تھا اسے وہ اسلام ہی کہتا تھا لیکن اس میں ہر گناہ کی کھلی اجازت تھی قبیلے کے سردار کو وہ ذہنی اور روحانی طور پر اپنی بڑی ہی خوبصورت اور چمکتی ہوئی زنجیروں میں جکڑ لیتا اور پھر اس سے اس قبیلے کو حکم دلواتا کہ وہ سب باطنی عقیدے کے قائل ہو جائیں اور حسن بن صباح کو اپنا امام یا نبی مان لیں
اگر کسی قبیلے کے سردار نے اس کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو اسے حسن بن صباح نے اپنے فدائین کے ہاتھوں قتل کروا ڈالا اس قبیلے کو اپنے شعبدے دکھائے کہ لوگوں نے اس کی امامت کو تسلیم کرلیا اس کے ابلیسی عقائد کے فروغ اور مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا راستہ روکنے والا کوئی نہ تھا اسے صرف سلطنت سلجوقیہ کی طرف سے خطرہ تھا لیکن اسکے ابلیسی دماغ نے ایسی زمین دوز چال چلی کہ اس سلطنت کے حکمران طبقے کو آپس میں ہی ٹکرا دیا اور وہاں خانہ جنگی کا بیج بو ڈالا جو پھوٹ کر باہر نکلا اور ہرا بھرا ہو کر پھیل رہا تھا پھر وہ رات آئی جس رات فوج نے برطرف کئے ہوئے فوجیوں کے خیموں کو محاصرے میں لیتا اور خیموں میں سوئے ہوئے آدمیوں کو جگا کر ایک جگہ کھڑا کرنا تھا آدھی رات کا وقت ہوگا جب وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور سپہ سالار ابوجعفر حجازی فوجیوں کی بارکوں میں پہنچ گئے فوج کو بتا دیا گیا تھا کہ رات کو خیموں کے پورے علاقے کو محاصرے میں لینا ہے فوجیوں کو بڑی سختی سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ باہر کے کسی بھی شخص کو نہ بتائیں کہ آج رات کیا ہونے والا ہے
فوج تیار ہو کر باہر ایک ترتیب میں کھڑی تھی پہلے وزیراعظم سمیری نے ان فوجیوں سے خطاب کیا اس نے کہا کہ عہدیدار کے قاتل اور اوریزی کو محافظوں سے رہائی دلانے والے انہیں آدمیوں میں سے ہیں انہیں شناخت کرنا ہوگا پھر سپہ سالار حجازی نے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے چند ایک باتیں کیں
فوج چل پڑی اس فوج کے پاس تلواریں بھی تھیں اور برچھیاں بھی بعض سپاہیوں کے پاس مشعلیں بھی تھیں جنہیں حکم ملنے پر جلانا تھا ان فوجیوں کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ یہ کوئی حملہ نہیں بلکہ اس محاصرے کا مطلب کچھ اور ہے اس لئے کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے فوجی خود بھی جانتے تھے کہ جنہیں وہ محاصرے میں لینے جا رہے ہیں وہ نہتّے ہیں اور برچھیوں اور تلواروں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں
یہ فوجی پیدل جا رہے تھے ان کی بارکیں شہر کے ایک طرف تھیں اور خیمے شہر کے دوسری طرف اور شہر سے ہٹ کر کے فوجیوں نے مکمل خاموشی اختیار کرکے جانا تھا تاکہ جنہیں محاصرے میں لینا تھا وہ بیدار نہ ہو جائیں سپہ سالار حجازی ان کے ساتھ تھا وزیراعظم پیچھے رک گیا تھا اس نے اس کارروائی کی نگرانی کرنی تھی
فوج خیمہ گاہ سے کچھ دیر دو رہی محاصرے کی ترتیب میں ہوگئی اور پھر اس نے خیمہ گاہ کی طرف پیش قدمی شروع کی خیمہ گاہ کے قریب پہنچ کر جس طرح انہیں پہلے بتا دیا گیا تھا فوج رک گئی
صرف ایک مشعل بردار سپاہی کو کہا گیا کہ وہ مشعل جلا لے یہ سپاہی سپہ سالار حجازی کے ساتھ تھا حجازی نے ہی اسے مشعل جلانے کو کہا تھا یہ ایک اشارہ تھا کہ جس جس سپاہی کے پاس مشعل ہے وہ جلا لیں دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں مشعلیں جل اٹھیں اور رات دن میں تبدیل ہوگئی خیموں میں سابق فوجی اتنی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ کسی ایک کی بھی آنکھ نہ کھلی اگلا اشارہ ملا تو فوجی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے انہیں تلواریں نیاموں میں سے نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی نہ ہی برچھیاں لڑائی کے انداز میں تان کر آگے بڑھنا تھا کیوں کہ یہ حملہ نہیں تھا
پہلے خیمے کے پردے اٹھائے گئے اور مشعل کی روشنی میں اندر دیکھا گیا تو وہاں کوئی ایک بھی آدمی نہیں تھا جس خیمے کو بھی دیکھا گیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا
اچانک عقب سے دوڑتے قدموں کی آوازیں اس طرح سنائی دیں جیسے طوفان آ رہا ہو اور اس کے آگے نہ جانے کیا کیا اڑتا اور بہتا رہا ہو پیشتر اس کے کہ فوجی سمجھ پاتے کہ یہ کیا آ رہا ہے ان پر حملہ ہو گیا حملہ اس نوعیت کا تھا کہ ایک ایک فوجی کو ایک ایک دو دو آدمیوں نے پیچھے سے پکڑ لیا کسی نے کسی فوجی کی تلوار نکال لی اور کسی نے مشعل بردار سپاہی سے مشعل چھین لی یہ بڑی مشعلیں تھی جو ڈنڈوں کے اوپر کپڑے باندھ کر اور اس پر تیل ڈال کر چلائی گئی تھیں فوجی جو ذرا سنبھل گئے یا بروقت چوکنے ہو گئے تھے انہوں نے تلواریں نکال لیں اور جن کی تلواریں چھینی گئی تھیں انہوں نے لڑائی کے انداز میں برچھیاں تان لیں اس کے بعد بڑی ہی خونریز جھڑپ ہوئی بعض فوجیوں کو ان سے چھینی ہوئی مشعلوں سے ہی جلا دیا گیا ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی تو وہ ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے لگے اور جل کر گرتے رہے
سپہ سالار حجازی حیران اور پریشان ہوگیا کہ یہ کیا ہوگیا ہے اس کے لئے اس صورتحال پر قابو پانا ناممکن تھا وہ بارکوں کی طرف بھاگا اس کے دو محافظ اس کے ساتھ تھے دوڑتے دوڑتے وہ بارکوں میں پہنچا اور حکم دیا کے فوج تیار ہو کر فوراً خیمہ گاہ میں پہنچے
یہ حکم دے کر وہ اس جگہ پہنچا جہاں وزیراعظم نے اسے کہا تھا کہ وہ موجود رہے گا اس نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہاں تو کچھ اور ہی ہوگیا ہے خیمہ خالی تھے اور فوج پر پیچھے سے حملہ ہوگیا حجازی نے یہ بھی بتایا کہ وہ مزید فوج بھیج رہا ہے
میں جان گیا ہوں وزیراعظم سمیری نے کہا ہماری یہ کاروائی راز میں نہیں رہ سکی کسی مخبر نے قبل ازوقت خیمہ گاہ میں یہ راز پہنچا دیا ہوگا
وزیراعظم سپہ سالار حجازی کے ساتھ خیمہ گاہ کی طرف چلا گیا خیمہ گاہ سے شعلے اٹھ رہے تھے جن کی روشنی شہر میں آرہی تھی بعض شہری جاگ اٹھے اور چھتوں پر جا کر دیکھنے لگے کہ یہ آگ کہاں لگی ہوئی ہے سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم نے دور سے ہی خیمہ گاہ دیکھ لی وہاں تو باقاعدہ میدان جنگ جیسی لڑائی ہو رہی تھی اور شعلے جو اٹھ رہے تھے یہ جلتے ہوئے خیموں کے تھے مشعلیں بھی لڑائی میں ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہو رہی تھیں بعض سپاہیوں کے ہاتھوں سے مشعلیں خیموں کے اوپر یا اندر گری تو چند ایک خیمے جلنے لگے
ادھر سے مزید فوج برچھیوں اور تلواروں سے مسلح سرپٹ دوڑتی آرہی تھی جب یہ فوج میدان جنگ میں پہنچی تو وہاں لڑائی ختم ہو چکی تھی صرف یہ نظر آیا کہ کچھ آدمی جنگل کی طرف دوڑے جا رہے تھے اور ذرا آگے جا کر غائب ہوگئے کسی فوجی نے ان کا تعاقب نہ کیا
سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم نے خیمہ گاہ میں جا کر دیکھا وہاں فوج کے زخمی تڑپ رہے تھے اور ان کے ساتھ لاشیں بھی پڑی تھیں یہ لاشیں فوجیوں کی بھی تھیں اور ان کی بھی جو فوجی نہیں تھی کچھ دیر بعد یہ راز کھلا کی یہ وہ فوجی تھے جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا اور وہ ان خیموں میں رہتے تھے
تاریخ کے مطابق یہ راز صرف وزیراعظم سمیری کو معلوم تھا کہ یہ ہوا کیا تھا حملہ تو فوج کرنے گئی تھی لیکن حملہ اس پر ہوگیا اس لڑائی کے پیچھے وزیراعظم کا اپنا ہاتھ تھا جن مؤرخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے وہ اس دور کے دستاویزی حوالے دے کر لکھتے ہیں کہ برطرف کیے جانے والے فوجیوں میں اوریزی کے علاوہ ایک اور سالار اور ایک نائب سالار اور چند ایک تجربے کار عہدیدار تھے وزیراعظم سمیری نے انہیں وقت سے خاصہ پہلے اپنے مخبروں کے ذریعے بتا دیا تھا کہ آج رات آدھی رات کے وقت انہیں محاصرے میں لے کر جگایا جائے گا اور ان میں سے ان آدمیوں کو شناخت کیا جائے گا جنہوں نے اوریزی کو رہا کرایا تھا
وزیراعظم سمیری نے انہیں یہ طریقہ بتایا تھا کہ جب سارا شہر سو جائے تو یہ تمام برطرف شدہ فوجی ایک ایک دو دو کر کے خیمہ گاہ سے نکل جائیں اور قریب ہی کہیں جا کر چھپ جائیں ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اتنے تھوڑے سے وقت میں پندرہ سولہ ہزار تلواریں فراہم نہیں کی جاسکتی تھیں انہیں بتایا گیا تھا کہ فوج اپنی تلوار نیاموں میں رکھے گی اور فوج کا ارادہ لڑائی کا نہیں ہوگا سابق فوجیوں کو یہ کہا گیا کہ وہ اس وقت خالی ہاتھ ان فوجیوں پر حملہ کریں جب وہ خیموں میں رہنے والوں کو جگانے جائیں اور ان کی نیاموں سے تلوار کھینچ لیں اور مشعلیں بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور پھر یہ نہ دیکھیں کہ فوج کا ارادہ لڑنے کا تھا یا نہیں انہیں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ وہ لڑائی کے بعد خیمہ گاہ میں نہ آئیں دور پیچھے جنگلوں میں اور پہاڑی علاقوں میں چلے جائیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ انہیں اکٹھا کر لیا جائے گا اور پھر بتایا جائے گا کہ وہ کیا کریں گے
وزیراعظم کا یہ منصوبہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا جب فوج کی کمک پہنچی تو وہاں زخمیوں اور لاشوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا یا جلتے ہوئے خیمے تھے
فوج کی کمک جو لڑنے کے لیے آئی تھی وہ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے میں مصروف ہوگئی سپہ سالار حجازی بار بار وزیراعظم سمیری سے پوچھتا تھا کہ آخر یہ ہوا کیسے؟
وزیراعظم ہر بار گردن کو ذرا سا خم دے کر سر کے اشارے سے یہ تاثر دیتا کہ وہ حیران ہے
صبح سویرے سویرے سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم سمیری سلطان برکیارق کے محل کے باہر اس کے جاگنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے بہت دیر بعد انہیں اندر بلایا گیا وہ جب اندر گئے تو سلطان برکیارق ابھی تک بستر میں تھا
رات کا کام ٹھیک ہوگیا؟
سلطان نے پوچھا کچھ آدمی پہچانے گئے یا نہیں؟
وہاں تو معاملہ ہی کچھ اور بن گیا ہے سلطان محترم! وزیر اعظم سمیری نے کہا فوج گئی تو تمام خیمے خالی تھے فوج خیموں کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ہر طرف سے فوج پر حملہ ہوگیا
سلطان برکیارق جو غنودگی کی کیفیت میں بول رہا تھا بڑی تیزی سے اٹھ بیٹھا اور آنکھیں پھاڑے ہوئے سپہ سالار حجازی اور وزیر اعظم کو دیکھنے لگا
کیا کہہ رہے ہو تم ؟
سلطان برکیارق نے حیرت زدہ سرگوشی سے پوچھا یا شاید میں ابھی تک نیند میں ہوں اور تمہاری بات سمجھا نہیں
نہیں سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا آپ ٹھیک سن رہے ہیں اگر زحمت نہ ہو تو خیمہ گاہ میں چل کر دیکھیں وہاں آپ کو خون اور جلے ہوئے خیموں کی راکھ نظر آئے گی زخمیوں کی مرہم پٹی ابھی تک ہو رہی ہے
لیکن یہ سب ہوا کیسے ؟
سلطان برکیارق نے کہا میرے اس حکم سے آپ دونوں واقف تھے میں یہ سمجھا ہوں کہ خیموں میں رہنے والوں کو قبل از وقت پتہ چل گیا تھا کہ میں نے کیا حکم دیا ہے انہوں نے یہ جوابی وار کیا کہ محاصرے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئے اور فوج پر پیچھے سے حملہ کر دیا مجھے یہ بتائیں کہ انھیں یہ اطلاع کس نے دی تھی؟
سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا ایک انسان اور ہے جسے آپ کے اس حکم کا علم تھا آپ کی بیگم محترمہ لیکن میں ان پر شک کرنے کی جرات نہیں کر سکتا
اور نہ ہی اس پر شک کیا جا سکتا ہے سلطان برکیارق نے کہا
یہ کارستانی اوریزی کی معلوم ہوتی ہے سپہ سالار حجازی نے کہا لیکن اس تک یہ خبر کس طرح قبل از وقت پہنچی؟
سلطان نے غصے سے کہا مجھے اس سوال کا جواب چاہیے
اس سوال کا جواب ملنا ناممکن تھا روزینہ بھی وہاں موجود تھی وہ سلطان برکیارق کی نسبت زیادہ پریشانی کا اظہار کر رہی تھی لیکن دلی طور پر وہ خوش اور مطمئن تھی کہ جو صورت حال حسن بن صباح پیدا کروانا چاہتا تھا وہ پیدا ہوگئی ہے اس نے سلطان سے کہا کہ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے حکم کی بھنک کس طرح خیمہ گاہ میں پہنچ گئی تھی بیکار ہے اور وقت ضائع ہورہا ہے اب کرنے والا کام یہ ہے کہ فوج کو باہر نکال کر ان لوگوں کے تعاقب اور تلاش میں بھیجا جائے وہ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ان پر زوردار حملہ کرکے ان کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے
ہمیں یہی کارروائی کرنی چاہئے سپہ سالار حجازی نے کہا اگر ہم یہاں سوچتے رہے اور باتیں کرتے رہے تو وہ لوگ بکھر کر ادھر ادھر ہو جائیں گے اور اپنے اپنے گھروں کو جا پہنچیں گے پھر ہم انہیں کہاں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے انہیں فوراً پکڑ کر سزا دینی چاہیے
ہاں ہمیں یہی کرنا چاہیے سلطان برکیارق نے کہا حجازی تم فوراً جاؤ اور یہ کاروائی شروع کر دو
شہر میں بھی خبر پھیل گئی تھی کہ رات سابق فوجیوں کی خیمہ گاہ میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی ہے طبیب نے جو حسن بن صباح کے اس مشن کو چلا رہا تھا اپنے آدمیوں کو پہلے ہدایات دے دی تھی ان کے مطابق ان باطنیوں نے شہر میں یہ افواہ پھیلا دی کہ رات فوج نے نہتے لوگوں پر اس وقت حملہ کیا ہے جب وہ سوئے ہوئے تھے اس افواہ نے پورا پورا کام کیا اور لوگوں میں سلطان کی فوج کے خلاف نفرت پیدا ہونے لگی اور ہر کوئی سلطان کو اور فوج کو برا بھلا کہہ رھا تھا
لوگ خیمہ گاہ تک پہنچے تو انہیں وہاں جلے ہوئے خیمے نظر آئے اور ہر طرف خون بکھرا اور جمع ہوا دیکھا زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لے گئے تھے
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ شہر میں جو افواہیں پھیل گئیں ہیں وہ حسن بن صباح کی طرف سے پھیلائی گئی ہیں وزیراعظم نے اپنے خفیہ آدمیوں کے ذریعے بھی شہریوں کو فوج اور سلطان کے خلاف کرنے کے لیے ایسی ہی افواہیں پھیلا دیں ان سے باطنیوں کے محاذ کو تقویت ملی وزیراعظم جو کچھ زیر زمین ہوکر کر رہا تھا وہ اسلام اور سلطان کے مفاد کے لئے ضروری تھا اس کی کوشش یہ تھی کہ سلطان برکیارق سلطانی چھوڑ دے اور اس کی جگہ محمد کو سلطان بنایا جائے تاکہ روزینہ کی صورت میں سلطنت پر جو آسیب طاری ہوگیا ہے وہ اتر جائے وزیراعظم کو اتنا ہی معلوم تھا کہ سلطان برکیارق پر صرف روزینہ غالب ہے یہ حسن بن صباح کی ٹریننگ کا کمال تھا کہ اس کے فدائی اور دیگر پیروکار کسی کو اپنی موجودگی اور تخریبی سرگرمیوں کا پتہ ہی نہیں چلنے دیتے تھے
مزمل رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے پاس پہنچ گیا تھا اور اسے مرو کے حالات بتا دیے تھے
میں پوری طرح تیار ہوں ابومسلم رازی نے کہا یہ تو میرے پاس اپنی کچھ فوج ہے جو کافی تو نہیں لیکن تجربے کار اور جذبے والی ہے اس کے علاوہ میں نے شہریوں کو تیار کر رکھا ہے جونہی ضرورت محسوس ہوئی یہاں سے اچھا خاصا لشکر روانہ کر دوں گا اور اگر میری ضرورت محسوس ہوئی تو میں بھی آ جاؤں گا
انہیں ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ پیچھے مرو میں کیسا خونریز واقعہ ہوگیا ہے مزمل اسی روز وہاں سے چل پڑا ابومسلم رازی نے اسے محمد اور وزیراعظم سمیری کے لیے ایک پیغام اور کچھ ہدایات دی تھیں
مزمل جب واپس آ رہا تھا تو تقریباً نصف راستے میں اسے ایک اور آدمی ملا جس کے ساتھ اس کے دوستانہ مراسم تھے اس نے مزمل کو بتایا کہ وہ ابومسلم رازی کے لیے ایک اور پیغام لے جا رہا ہے اس نے مزمل کو تفصیل سے سنایا کہ فوج نے خیمہ گاہ پر حملہ کیا ہے اور بڑی خونریز لڑائی ہوئی ہے اور اب فوج ان برطرف شدہ فوجیوں کی تلاش میں جا رہی ہے
مزمل اس آدمی کے ساتھ واپس رے کی طرف چل پڑا وہ ابومسلم رازی سے اس نئی صورتحال کے سلسلے میں ہدایات لینا چاہتا تھا
فاصلہ خاصا زیادہ تھا یہ دونوں رات کے وقت ابومسلم رازی کے یہاں پہنچ گئے رازی کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو انہیں فوراً اندر بلا لیا گیا قاصد نے اسے مرو کی نئی صورت حال سنائی اس قاصد کو وزیراعظم سمیری نے بھیجا تھا
یہ ایک بڑا ہی اہم اور تاریخی واقعہ تھا جس نے اسلام اور سلطنت سلجوقیہ کو بڑے خطرناک دو راہے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا مورخوں نے اس واقعہ کی زیادہ تفصیلات نہیں لکھیں البتہ ابن اثیر اور ایک یوروپی مؤرخ نے کچھ حالات بیان کئے ہیں ان سے یہ صورت سامنے آئی ہے کہ ابو مسلم رازی نے اپنی فوج اور شہریوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر اس اجتماع سے خطاب کیا
اسلام کے شیدائیوں شمع رسالت کے پروانوں! ابومسلم رازی نے انتہائی بلند آواز میں کہا تمہاری آزمائش کا اور ایثار کا وقت آ پہنچا ہے مرو میں نہتّے لوگوں پر سلطان کی فوج نے حملہ کرکے قتل عام کیا ہے اس خونریزی کے پیچھے حسن بن صباح کے باطنیوں کا ہاتھ ہے سلطان برکیارق کی بیوی باطنی ہے اور وہ حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے اس نے سلطان کو نشہ پلا پلا کر اور اس پر اپنے حسن کا نشہ طاری کرکے دماغی طور پر بیکار کر دیا ہے سلطان کے ایوان سے جو حکم جاری ہو رہے ہیں وہ سلطان کی بیوی سلطان کی زبان سے جاری کرتی ہے وہاں بھائی کو بھائی سے لڑوایا جارہا ہے اور شہر میں اتنی زیادہ باطنی آچکے ہیں کہ ہمارے اس دارالسلطنت پر باطنی قابض ہوگئے ہیں یہاں سوال صرف سلطنت کا نہیں بلکہ تمہارے دین اور ایمان کا سوال ہے اسلام کے نور کو ہمیشہ کے لئے بجھایا جا رہا ہے اگر تمہیں اپنا دین اور اپنا ایمان عزیز ہے تو اللہ کا نام لے کر اٹھو اور باطل کی اس قوت کو اسی طرح کچل کر رکھ دو جس طرح ہمارے آباء اجداد نے روم اور فارس کی ہیبت ناک قوتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اس سلطنت پر حسن بن صباح کا قبضہ ہوگیا تو تمہاری بیٹیاں اور بہنیں اٹھا لی جائیں گی اور تم جانتے ہو کہ انہیں کس طرح اور کہاں کہاں استعمال کیا جائے گا اگر تم میں غیرت ہے تو مسلح ہو کر باہر آ جاؤ اور اپنے سروں پر کفن باندھ لو اپنے دین کو اور اپنی عزت کو شیطانی فرقے سے بچاؤ تم پر ایک شیطانی قوت قابض ہونا چاہتی ہے میں ایک لشکر مرو روانہ کرنا چاہتا ہوں ایک تو فوج ہے لیکن یہ کافی نہیں جو غیر فوجی اس لشکر کے ساتھ جانا چاہتے ہیں وہ ایک طرف ہو کر کھڑے ہوجائیں انہیں ہتھیار ملیں گے اور ساری سہولتیں ملیں گی البتہ وہ گھوڑے خود لائیں گے جو ان کی اپنی ملکیت میں رہیں گے
ابومسلم رازی کے بولنے کے انداز میں جہاں جوش و خروش اور دین اسلام کی تپش تھی وہاں اس کا انداز بارہا جذباتی ہوتا جاتا تھا اور دو تین مرتبہ اس پر رقت بھی طاری ہوگئی
دیکھتے ہی دیکھتے آدھے شہری ایک طرف ہوگئے وہ حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ہر طرف سے جہاد جہاد کی آواز اٹھ رہی تھی اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر عورتیں کھڑی تھیں انہوں نے بھی ابومسلم رازی کا خطاب سنا تھا انہوں نے بھی نعروں کی زبان میں اپنے مردوں کی حوصلہ افزائی شروع کردی
امیر شہر رازی! ایک چھت سے ایک عورت کی بڑی بلند آواز آئی اگر مقابلہ لڑائی کا ہے تو وہاں عورتوں کی بھی ضرورت ہوگی زخمیوں کو اٹھانا ان کی مرہم پٹی اور پانی پلانا عورتوں کا کام ہے ہمیں بھی اس لشکر کے ساتھ بھیج دیں
اگر نفری کم ہے تو ہم بھی لڑ سکتی ہیں دوسری عورت کی آواز آئی
نہیں ابھی نہیں ابومسلم رازی اپنا گھوڑا اس چھت کے قریب دوڑاتا لے گیا اور روک کر بلند آواز سے کہا جب تک مرد زندہ ہیں عورتوں کو باہر نہیں نکالا جائے گا تم مستورات صرف یہ کام کرو گے کہ اپنے بچوں کو بتاؤ کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کے دشمن کون ہیں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ میری بیٹیوں اور بہنوں میں جہاد کا جذبہ جوش مار رہا ہے تم گھروں میں رہ کر اپنے ان مجاہدوں کے لئے دعا کرتی رہنا
ابومسلم رازی کو شاید معلوم ہی ہوگا کہ جن شہریوں کو اکٹھا کرکے وہ جوش دل آرہا تھا ان میں حسن بن صباح کے فدائین جاسوس اور دیگر پیرو کار بھی موجود تھے ابو مسلم رازی نے اپنے علاقے میں مسجدوں کے اماموں کے ذریعے حسن بن صباح اور اس کے ابلیسی عقیدے کے خلاف نفرت پیدا کر دی تھی اس نے جامع مسجد کے خطیب اور دوسری مسجدوں کے اماموں کو حکم دے رکھا تھا کہ حسن بن صباح کے خلاف بولتے رہا کریں اور لوگوں کے دلوں پر نقش کر دیں کہ حسن بن صباح سراپا ابلیس ہے اور وہ اسلام کا بدترین دشمن ہے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:36 }
دو تین دنوں بعد رے سے اور شہریوں کی کچھ نفری کا ایک لشکر چلا لیکن اسے مرو نہیں پہنچنا تھا بلکہ مرو کے قریب ایک پہاڑی علاقے میں چھپ کر رہنا تھا مزمل اور دوسرا قاصد اس لشکر کے ساتھ تھا یہ لشکر اگلے روز اس مقام تک پہنچا جہاں اسے پہنچنا تھا فوج میں دو تجربے کار سالار تھے جن کا جذبہ ان کے تجربے سے زیادہ تیز تھا
مزمل مرو پہنچا اور سیدھا محمد کے پاس گیا وزیراعظم سمیری کے پاس براہ راست جانا مناسب نہیں تھا اس نے محمد کو بتایا کہ ابو مسلم رازی نے ایک لشکر دیا ہے جو فلاں مقام تک پہنچ گیا ہے اور اسے اگلے حکم کا انتظار ہے
وزیراعظم نے تمام انتظامات اتنی خوبی سے خفیہ طور پر مکمل کر دیے ہیں کہ اس لشکر تک یہ ہدایات پہنچ جائیں گی کہ انہیں کیا کرنا ہے محمد نے کہا میں اسی انتظار میں تھا کہ ابو مسلم رازی کوئی لشکر بھیج دیں معلوم نہیں انہوں نے ہتھیاروں کا الگ ذخیرہ بھیجا ہے یا نہیں
بھیجا ہے مزمل نے جواب دیا بے شمار اونٹوں پر تلواریں پرچھیاں اور کمانیں اور تیر لدے ہوئے آئے ہیں
ہمیں ان ہتھیاروں کی ضرورت تھی محمد نے کہا برطرف کئے ہوئے فوجیوں کو یہ ہتھیار پہنچانے ہیں یہ انتظام موجود ہے کہ ہتھیار ان تک کس طرح پہنچائے جائیں
اتنے دنوں سے سلطان کی فوج شہر سے دور جنگلوں اور پہاڑیوں کے اندر برطرف فوجیوں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی برطرف کیے ہوئے فوجی بھی آخر عسکری تجربہ رکھتے تھے انھوں نے سرکاری فوج کو نقصان پہنچانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب سرکاری فوج کا کوئی دستہ پہاڑیوں کے اندر گشت کرتا آگے نکل جاتا تو اسے پچھلے حصے پر برطرف فوجی حملہ کر دیتے اور چند ایک فوجیوں کو مار کر پہاڑیوں کے اندر ہی ادھر ادھر ہو جاتے ان فوجیوں کی کمان اوریزی کے ہاتھ میں تھی اوریزی کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سرکاری فوج برطرف فوجیوں کی خیمہ گاہ کا محاصرہ کر کے تلاشی لی گی اور کچھ آدمیوں کو گرفتار کیا جائے گا یہ چال اوریزی کے دماغ کی اختراع تھی کہ خیمہ گاہ شام کے بعد خاموشی سے خالی کردی جائے اور فوجیوں پر عقب سے حملہ کیا جائے
اس کی یہ اسکیم کامیاب ہوگئی تو اس نے برطرف فوجیوں کے سالار کو اور دو تین عہدے داروں کو اپنے ساتھ رکھ لیا اور خبر رسانی کا انتظام بھی کر لیا اور سابقہ فوجیوں کو پہاڑیوں کے اندر اور جنگلوں میں بکھیر دیا اوریزی تک ہرخبر بروقت پہنچ رہی تھی یہ طریقہ جنگ اسی نے بتایا تھا کہ سرکاری دستوں کے پچھلے حصے پر چھاپہ مارو اور چند ایک آدمیوں کو گھائل کر کے غائب ہو جاؤ
سپہ سالار حجازی کی جان پر بنی ہوئی تھی سلطان برکیارق اسے ہر روز بلاتا اور پوچھتا تھا کہ برطرف فوجیوں کا کچھ سراغ ملا یا نہیں سپہ سالار حجازی منہ لٹکا کر غلاموں کی طرح یہی ایک جواب دیتا تھا کہ ان کا سراغ تو نہیں ملا لیکن وہ ہر روز ہمارے کسی نہ کسی دستے کے چند ایک آدمی مار کر غائب ہوجاتے ہیں ایک روز تو اس نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ رات ان باغیوں نے فوج پر شب خون مارا ہے اور بہت سا جانی نقصان کرکے غائب ہوگئے ہیں
ایک روز محمد کو ابومسلم رازی کا ایک زبانی پیغام ملا وہ یہ تھا کہ اسے یہ دیکھ کر بہت ہی دکھ ہو رہا ہے کہ ہم لوگ جو سلطنت کو نہیں بلکہ اسلام کو فروغ دے رہے تھے اب اپنا ہی خون بہا رہے ہیں رازی نے محمد سے کہا تھا کے وہ اپنے بڑے بھائی کے پاس جائے لیکن یہ خیال رکھے کہ اس کی باطنی بیگم اس کے ساتھ نہ ہو محمد اسے اسلام اور سلطنت کا واسطہ دے کر کہے کہ وہ ہوش میں آئے اور اگر اسلام کے ساتھ اس کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے تو اپنی سلطنت کو ہی بچا لے
ابومسلم رازی کے قاصد نے محمد سے یہ بھی کہا کہ برکیارق نہ مانے تو اسے بتا دیا جائے کہ وہ سلطانی سے دستبردار ہوجائے یا اپنی باطنی بیوی کو چھوڑ دیے اسی سے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے اور پھر وہی باہمی پیار پیدا ہو جائے گا جو اُس لڑکی کے آنے سے پہلے ہوا کرتا تھا
ابومسلم رازی نے یہ بھی کہا تھا کہ برکیارق نہ مانے تو اسے کہہ دینا کہ وہ نتائج کے لیے تیار رہے اور یہ بھی کہ یہ نتائج اس کے لئے اور اسکی باطنی بیوی کے لیے بڑے ہی بھیانک ہونگے
محمد اسی وقت وزیر آعظم عبدالرحمن سمیری کے پاس گیا اور اسے ابومسلم رازی کا یہ زبانی پیغام سنایا
مجھے توقع تھی کہ وہ ایسا پیغام ضرور بھیجے گا وزیراعظم نے کہا اپنے بھائی تک یہ پیغام تم ہی لے جا سکتے ہو میں تو بظاہر اسی کا اور اس کی بیگم کا آدمی ہوں تم سلطان سے ملو اور اس کے ساتھ یہ بات کرو میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ وہ ذرا سا بھی اثر قبول نہیں کرے گا بلکہ الٹا تمہیں دھمکیاں دے گا بہرحال ہمیں اپنا یہ فرض بھی ادا کر دینا چاہیے کہ ہم نے اسے پہلے خبردار نہیں کردیا تھا
محمد اسی وقت برکیارق کے پاس چلا گیا اتفاق سے وہاں سے اکیلا مل گیا
دیکھا محمد! برکیارق نے کہا یہاں کیا خون خرابہ ہو رہا ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہماری ماں اگر لوگوں کو نہ بھڑکاتی تو وہ اوریزی کو آزاد نہ کراتے یہ سارا خون ریز فساد وہیں سے شروع ہوا ہے
میرے سلطان بھائی! محمد نے کہا میں آپ کے ساتھ آج آخری بات کرنے آیا ہوں ہوش میں آئیں اور دیکھیں یہاں کیا ھو رھا ھے خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے یہ روک سکتی ہے یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ خون خرابہ رکے یا بہتا رہے اور اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے
تم فکر نہ کرو محمد! سلطان برکیارق نے کہا میں نے فوج بھیج دی ہے اور دو تین دنوں تک باغی پکڑے جائیں گے یا فوج انہیں وہیں ختم کر دی گی
سلطان عالی مقام! محمد نے پراعتماد لہجے میں کہا آپ کی فوج کسی ایک باغی کو بھی نہیں پکڑ سکتی میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر روز ہماری فوج کے پندرہ بیس آدمی مارے جا رہے ہیں میں آپکے ساتھ صاف بات کرتا ہوں اگر آپ سچے دل سے چاہتے ہیں کہ آپس کی قتل و غارت بند ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا بلند ہو اور یہ سلطنت قائم رہے تو سلطانی کی گدی سے اٹھ کر الگ ہو جائیں یا اس باطنی لڑکی روزینہ کو چھوڑ دیں کون نہیں جانتا کہ حکم آپکی یہ بیگم دیتی ہے لیکن یہ حکم آپ کی زبان سے نکلتا ہے آپ کے لئے اب کوئی اور راستہ نہیں رہا سلطانی چھوڑ دیں یا اس بیوی کو چھوڑ دیں
ہوش میں آ محمد! سلطان برکیارق نے سلطانوں کے سے لہجے میں کہا پہلے میں نے اپنی ماں کو نظر بند کیا ہے اب ایسا نہ ہو کہ میں اپنے بھائی کو قید خانے میں ڈال دوں میں تمہیں اور سنجر کو چھوڑ دوں گا اپنی اس بیوی کو نہیں چھوڑوں گا اور رہا سوال سلطانی کا تو یہ میں جانتا ہوں کہ ہماری ماں تمہیں اس گدی پر بیٹھانا چاہتی ہے
ٹھیک ہے سلطان محترم! محمد نے کہا آپ کا دماغ آپ کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیا گیا ہے اب میں آپ کو آخری بات کرتا ہوں کہ مجھے آپ قید خانے میں ڈال دیں یا جلاد کے حوالے کردیں لیکن اس سے حالات سدھریں گے نہیں اور زیادہ بگڑے گے اور اسکے جو نتائج ہونگے وہ آپ کے لئے اور آپ کی اس باطنی بیوی کے لیے بڑے ہی بھیانک ہونگے
محمد اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے نکل آیا واپس آکر اس نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو ساتھ لیا اور دونوں اپنی ماں کے پاس گئے ان کی ماں نظر بند تھی لیکن اس کے یہ دونوں بیٹے اسے مل سکتے تھے محمد نے اپنی ماں کو بتایا کہ ابو مسلم رازی کا کیا پیغام آیا ہے پھر اسے بتایا کہ وہ برکیارق کے ساتھ بات کر کے آ رہا ہے لیکن برکیارق نے اسے قید میں ڈالنے کی اور سزائے موت دینے کی دھمکی دی ہے
مقدس ماں! محمد نے کہا میں آپ سے اجازت لینے آیا ہوں اب مجھے جہاد پکار رہا ہے آپ اور سنجر یہیں رہیں گے آپ نے ہماری کامیابی کے لیے دعا کرنی ہے اور اس کے سوا کسی اور کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنی نہ کسی کے ساتھ جھگڑا مول لینا ہے صرف ایک عورت نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا ڈالا ہے اور ایک مجاہد قوم کو دو حصوں میں کاٹ کر انہیں آپس میں ٹکرا دیا ہے ان حالات میں مجھے یہاں نہیں رہنا چاہیے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سے میری بات ہو چکی ہے سالار اوریزی بھی میرا انتظار کر رہا ہے میں آج رات غائب ہو جاؤنگا
تم جہاں بھی جاؤ گے میری دعائیں تمہارے ساتھ ہو گی ماں نے کہا مسلمان مائیں اپنے بیٹوں کو قربان کرتی چلی آئی ہیں میں اس روایت کو زندہ رکھو گی تمہارا باپ تمہاری ہی طرح دیندار اور مجاہد تھا اس نے اپنی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اس نے اپنی جان اس راستے پر دے دی جا بیٹے اللہ تیرے ساتھ ہے
پانچ سات دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک رات شہر کے کسی کونے سے آواز آئی کہ شہر کو ایک لشکر نے محاصرے میں لے لیا ہے یہ آواز ذرا سی دیر میں سارے شہر میں پھیل گئی اور لوگ جاگ اٹھے
ایک زمانہ گزر گیا تھا کہ یہ شہر محاصرے میں نہیں آیا تھا نہ کوئی ایسا خطرہ تھا اس لیے شہر کے تمام دروازے رات کو کھلے رہتے صرف یہ احتیاط کی جاتی تھی کہ ہر دروازے کے ساتھ ایک دو کمرے تھے جن میں فوجی رہتے تھے انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ رات کو کون اندر آیا ہے اور کون نکل گیا اس رات جب شہر محاصرے میں آگیا تو ان فوجیوں نے پہلا کام یہ کیا کہ شہر کے تمام دروازے بند کردیے اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو اطلاع دی حجازی گہری نیند سویا ہوا تھا اس نے محاصرے کا لفظ ہی سنا تو ہڑبڑا کر اٹھا اور شب خوابی کے لباس میں ہی دوڑ پڑا اور شہر پناہ کے ایک برج میں جا کھڑا ہوا
شہر کے دروازے کھول دو باہر سے للکار سنائی دی نہیں کھولو گے تو ہم دروازے توڑ کر اندر آ جائیں گے پھر ہم کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
فوج کے متعدد دستے شہر سے دور سابق فوجیوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے اور کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت کہاں تھے باقی جو فوج تھی اسے اسی وقت جگا کر شہر پناہ پر چڑھا دیا گیا
شہر پناہ برائے نام تھی یہ کوئی مضبوط قلعہ نہیں تھا فوجیوں نے تیر پھینکنے شروع کردیے محاصرہ کرنے والی فوج کی طرف سے ایک بار پھر للکار اٹھی کہ مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ شہریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا لیکن سپہ سالار حجازی نے تیراندازی جاری رکھنے کا حکم دیا حجازی نے للکار کر یہ بھی پوچھا کہ تم کون لوگ ہو اور کس ملک سے آئے ہو اس کا جواب نہ آیا سلطان برکیارق کو اطلاع دی گئی تو وہ اٹھ کر آگیا اور سپہ سالار حجازی کے ساتھ ایک برج میں جا کھڑا ہوا
رات ایسے ہی ایک دوسرے کو للکارتے گزر گئی صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ اپنے ہی لوگ ہیں اور ان میں برطرف کیے ہوئے فوجی بھی شامل ہیں چونکہ شہر کی فوج بہت تھوڑی تھی اس لئے سلطان کے حکم سے شہریوں کو مقابلے کے لیے تیار کیا جانے لگا یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ فوج یا لشکر رے آیا ہے اور یہ وہاں کے امیر شہر ابومسلم رازی کا بھیجا ہوا ہے شہریوں کو یہ خبر ملی تو ان میں بہت سے لوگوں نے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا شہری یہ شور کرنے لگے کہ اپنی فوج نے اپنی ہی شہر کو کیوں محاصرے میں لے لیا ہے اس کی کوئی اور وجہ ہوگی
حسن بن صباح کا ایجنٹ طبیب بہت خوش تھا کہ اس کی زمین دوز کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں اور باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے وہ اس پر تو اور ہی زیادہ خوش تھا کہ شہری بھی مقابلے کے لیے تیار ہوگئے ہیں لیکن اس نے دیکھا کہ شہری مقابلے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ اپنی ہی سلطنت کی فوج ہے طبیب نے دوسری چال چلی وہ یہ کہ اپنے آدمیوں سے کہا کہ شہر میں یہ افواہ پھیلا دی کہ رے کا حاکم ابو مسلم رازی باغی ہو گیا ہے اور اس نے امام حسن بن صباح کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور اس کی مدد سے اس شہر کو فتح کرنے آیا ہے
کچھ ہی دیر بعد یہی افواہ ایک سچی اطلاع اور خبر کی صورت میں سارے شہر میں پھیل گئی شہری ایک بار پھر جوش و خروش سے مقابلے کے لئے تیار ہوگئے شہرپناہ پر ایک انسانی دیوار کھڑی ہوگئی شہر سے تیروں کا مینہ برسنے لگا
محاصرہ کرنے والے نہتّے تو نہیں آئے تھے ان کے پاس بھی کمانیں اور تیروں کا ذخیرہ تھا اور ان کے پاس بڑے ماہر تیر انداز بھی تھے انہوں نے جوابی تیر اندازی شروع کی تو دیوار پر لوگ تیر کھا کھا کر گرنے لگے نقصان دونوں طرف سے ہو رہا تھا
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے دیکھا کہ ایک غلط افواہ پھیلا کر شہریوں کو بھڑکایا گیا ہے تو اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ شہریوں تک یہ خبر پہنچائیں کہ ابو مسلم رازی نے حسن بن صباح کی بیعت نہیں کی بلکہ ہمارا اپنا سلطان اپنی بیوی کے ذریعے حسن بن صباح کا مرید ہو گیا ہے اور اس شہر میں بےشمار باطنی آگئے ہیں
وزیراعظم کے آدمی بھی خاصے تجربہ کار تھے انھوں نے بھی یہ خبر اپنے طریقے سے پہنچانی شروع کردیں اور اس کے اثرات بھی دیکھنے میں آنے لگے وہ اس طرح کے کچھ شہری شہر کے دفاع سے منہ موڑ کر نیچے اتر آئے
ہوا یہ کہ کسی طرح سلطان کی اُس فوج کو پتہ چل گیا کہ شہر محاصرے میں ہے جو فوج برطرف فوجیوں کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھر رہی تھی ان دستوں کا کمانڈر کوئی عقلمند آدمی تھا اس نے اپنے دستے اکٹھے کئے اور انہیں واپس لے آیا اس نے دلیری کا مظاہرہ یہ مظاہرہ کیا کہ عقب سے محاصرہ کرنے والوں پر حملہ کردیا سپہ سالار حجازی نے یہ منظر دیکھا تو اس نے یہ حکم دے دیا کہ شہر کے دروازے کھول دیئے جائیں اور اندر کی فوج اور شہری باہر نکل کر محاصرہ کرنے والوں پر ٹوٹ پڑیں
بڑی خونریز لڑائی لڑی گئی اور سورج غروب ہو گیا اندر سے گئی ہوئی فوج اور شہری واپس آگئے وہ دیکھ نہ سکے کہ ان کے ساتھ ہی حملہ آور فوج یعنی جس لشکر نے شہر کو محاصرے میں لیا تھا وہ بھی شہر میں آگئے انھوں نے شہر کے تمام دروازے پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی اس طرح تمام دروازے جل گئے
رات کو شہر میں لڑائی ہی ہوتی رہی اس کے ساتھ ہی حملہ آور لشکر کی طرف سے یہ اعلان ہوتے رہے کہ ہم تمہارے بھائی ہیں ہمارے خلاف نہ لڑو ہم باطنیوں کو یہاں سے نکالنے آئے ہیں لیکن لڑائی جاری رہی اور شہری دو حصوں میں تقسیم ہوتے گئے بعض طبیب کی افواہ کو سچ مانتے تھے اور دوسرے دوسری قسم کی افواہ کے قائل ہوگئے لیکن شہر کی گلیوں میں خون بہتا رہا
پھر دن اور ہفتے گزرتے چلے گئے اور یہ خون بہتا ہی رہا
ایک خانہ جنگی تھی جس میں حسن بن صباح کے پیروکار اور تخریب کار تیل ڈالتے رہے اور سلطنت سلجوقیہ میں بھائی بھائی کا خون بہاتا رہا تاریخ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سلطان کی گدی کی یعنی اقتدار کی خانہ جنگی تھی لیکن مستند اور حقائق پر نظر رکھنے والے مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ آگ حسن بن صباح نے لگائی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ سلطان برکیارق مسلسل اپنی بیوی روزینہ کے زیراثر چلا آرہا تھا احکام روزینہ کے دماغ کی اختراع ہوتے تھے جس کا خفیہ رابطہ ایک عورت کے ذریعے طبیب کے ساتھ تھا اور اسے حسن بن صباح کے احکام اور ہدایات اسی طبیب کی طرف سے اس عورت کی وساطت سے ملتی تھیں
سلطان برکیارق کے محل کے اردگرد حفاظتی انتظامات بڑی ہی سخت کردیئے گئے تھے یہ تو فورا ہی واضح ہو گیا تھا کہ دو بھائی ایک طرف ہیں اور بڑا بھائی دوسری طرف وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کا کردار ڈھکا چھپا رہا وہ بظاہر برکیارق اور روزینہ کا زر خرید غلام بنا رہا لیکن درپردہ محمد اور ابو مسلم رازی کے ساتھ تھا سلطان کے یہاں جو نیا منصوبہ بنتا یا کوئی حکم ملتا وہ وزیر اعظم ابو مسلم رازی اور محمد تک پہنچا دیا کرتا تھا ان لوگوں کو اور ان کے حامی فوج کو باغی کہا گیا تھا ان باغیوں کا سپہ سالار اوریزی تھا جو بڑا ھی قابل اور قومی جذبے سے سرشار آدمی تھا
ایک روز عبدالرحمن سمیری نے مزمل کے ساتھ درپردہ رابطہ کرکے کہا کہ اب وہ شمونہ کو استعمال کرے کیوں کہ روزینہ کو قتل کرانا یا اس کا اثر برکیارق اسےاتارنا ممکن نظر نہیں آتا شمونہ فریب کاری اور اداکاری کی ماہر تھی اور جب سے خانہ جنگی شروع ہوئی تھی وہ تڑپتی تھی کہ وہ بھی اس میدان میں کچھ کر کے دکھائے اس کے اندر حسن بن صباح کے خلاف جو انتقامی جذبہ پیدا ہو گیا تھا وہ وقت گزرنے کے ساتھ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ اور زیادہ بھڑک اٹھا تھا وہ عقل و دانش والی لڑکی تھی وہ جب دیکھتی تھی کہ باطنیوں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیا ہے اور خون بہتا ہی چلا جارہا ہے تو وہ پنجرے میں بند پنچھی کی طرح پھڑپھڑاتی اور پنجرہ توڑنے کی ناکام کوشش کرتی تھی آخر مزمل نے اسے بتایا کہ اب وزیراعظم سمیری نے اس کے لیے موقع پیدا کرلیا ہے
خانہ جنگی کو چھ سات مہینے گزر گئے تھے یہ بھی واضح ہوگیا تھا کہ ابو مسلم رازی سلطان برکیارق کے خلاف اپنی فوج اور اپنے تمام تر وسائل استعمال کر رہا ہے ایک روز وزیراعظم سمیری روزینہ کے پاس گیا اور اس سے معمول کے مطابق بتایا کہ خانہ جنگی کی صورتحال کیا ہے
آج ایک درخواست لے کر آیا ہوں وزیراعظم نے کہا نیکی کا ایک کام کرنا ہے اور یہ آپ کے اختیار میں ہے
آپ بتائیں کیا کام ہے روزینہ نے پوچھا میں آپ کی خدمت نہیں کروں گی تو اور کس کی کرونگی؟
اس خانہ جنگی نے تو ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے وزیر اعظم نے کہا میں ابو مسلم رازی محمد اور سنجر کو قتل کروانے کا انتظام کر رہا ہوں لیکن اس وقت آپ سے ایک اور عرض کرنا چاہتا ہوں میرا ایک بڑا ہی معزز اور پیارا دوست تھا وہ بیچارہ مارا گیا ہے وہ گھر سے نکلا ہی تھا کہ ایک برچھی جو کسی نے دوسرے کو ماری تھی وہ اسے لگ گئی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا اس کے دو جوان بیٹے تھے دونوں خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں اس کی صرف بیوی اور ایک جوان بیٹی بچ گئی ہے لیکن ان کے گھر میں کھانے کے لئے ایک دانہ بھی نہیں لڑکی جوان ہے اور کچھ زیادہ ہی خوبصورت ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں باغیوں کے ہاتھ چڑھ گئی تو بیچاری کی زندگی برباد ہوجائے گی میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ آپ کے یہاں نوکروں اور نوکرانیوں کی تو کوئی کمی نہیں لیکن ایک سلجھی ہوئی اور سلیقہ شعار اور خوبصورت کنیز آپ کے پاس ضرور ہونی چاہیے اگر آپ میری یہ عرض مان لیں تو میں یہ لڑکی آپ کے حوالے کردوں اس سے ایک تو آپ کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور سب سے بڑی نیکی تو یہ ہوگی کہ ایک پردہ دار یتیم لڑکی کو سہارا اور پردہ مل جائے گا میں اس لڑکی کی ہر طرح ضمانت دینے کو تیار ہوں
آپ کو اتنی لمبی بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی روزینہ نے کہا اس لڑکی کو ساتھ لے آتے اور میں اسے اپنے پاس رکھ لیتی آپ اسے لے آئیں اگر اس کی ماں بھی آنا چاہتی ہے تو آجائے میں اسے رہائش کے لیے جگہ دے دونگی
نہیں بیگم محترمہ! وزیراعظم نے کہا اس کی ماں اپنے گھر میں ہی رہنا چاہتی ہے آپ اس کی بیٹی کو رکھ لیں اور کبھی کبھی اسے اپنے گھر جانے کی اجازت دے دیا کریں
اس طرح شمونہ روزینہ کے پاس پہنچ گئی اس نے روزینہ کو اپنا نام نگینہ بتایا اس کے ساتھ ہی وہ رو پڑی اور اپنے باپ اور بھائیوں کو یاد کر کر کے گھر کی باتیں سنانے لگی شمونہ نے ایسی اداکاری کی جیسے وہ بالکل ہی سیدھی سادی اور پردہ نشین لڑکی ہو اور اسے دنیا کی ہوا ہی نہ لگی ہو
آپ مجھے سمجھاتی رہیں کہ میں نے یہاں کیا کرنا ہے شمونہ نے کہا میں آپ کی پسند اور مرضی پر پوری اترنے کی کوشش کروں گی اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے تو یہ سمجھ کر معاف کر دینا کہ میں غریب اور پسماندہ سے گھرانے کی لڑکی ہوں ایسا شاہانہ گھر تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا
روزینہ کو شمونہ بہت ہی اچھی لگی شمونہ میں اس نے جو سادگی اور بے ساختہ پن دیکھا وہ تو اسے بڑا ہی پیارا لگا شمونہ کی عمر تو جوانی کی تھی لیکن اس نے شادی نہیں کی تھی اور اپنی صحت کو برقرار رکھا تھا اس لیے وہ اپنی عمر سے کم اور نوجوان لگتی تھی شمونہ کو معلوم تھا کہ روزینہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ لڑکی ہے شمونہ اس تربیت سے بہت اچھی طرح واقف تھی اور اس تربیت کو اس نے عملی زندگی میں بھی استعمال کیا تھا
اب وہ ایسی تربیت اور تجربے کو روزینہ کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے لگی
چند دنوں میں ہی شمونہ نے شاہی طور طریقے سیکھ لیے یہ طور طریقے تو وہ پہلے ہی سے جانتی تھی روزینہ کے دل میں اس نے اپنی جگہ پیدا کرلی ابھی سلطان برکیارق نے شمونہ کو نہیں دیکھا تھا روزینہ نے جب دیکھا کہ شمونہ بڑی تیزی سے سارے کام اور انداز وغیرہ سیکھ لیے تو ایک روز اس نے شمونہ کو سلطان برکیارق کے سامنے کیا اور کہا کہ یہ ایک تحفہ ہے جو وہ اسے دے رہی ہے
یہ میری اور آپ کی کنیز ہے روزینہ نے کہا اس کا نام نگینہ ہے اور یہ ہے بھی نگینہ
وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے سلطان برکیارق نے اپنا بازو شمونہ کی طرف پھیلا کر کہا یہاں آؤ ہاں ادھر بیٹھ جاؤ
نہیں! شمونہ نے لجاتے اور شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا میری جگہ آپ کے پلنگ پر نہیں یہ محترمہ بیگم کی جگہ ہے اگر بیگم اجازت دی گی تو میں آپ کے پاس بیٹھ جاؤنگی
میں تمہیں بیگم کی جگہ اپنے پاس نہیں بیٹھا رہا سلطان برکیارق نے ہنستے ہوئے کہا اگر میں تمہیں ایک پھول پیش کروں تو تم اسے ایک بار سونگھوں گی تو ضرور
شمونہ نے روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ نے مسکرا کر اسے سر سے ہلکا سا اشارہ کیا تو شمونہ پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گئی تو سلطان برکیارق نے بازو اس کی کمر میں ڈال کر اپنے قریب کر لیا
آپ نے پھول سونگھ لیا ہے شمونہ نے برکیارق کے بازو سے نکل کر اٹھتے ہوئے کہا اب اسی کے پاس جارہا ہے جس کی ملکیت ہے
روزینہ اور برکیارق نے بے ساختہ قہقہہ لگایا شمونہ کا جادو کام کر گیا تھا
ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ شمونہ کی حیثیت روزینہ کی نگاہوں میں ایسی ہوگئی جیسے وہ اس کی کنیز نہیں بلکہ ہمراز سہیلی ہو ایک روز شمونہ روزینہ سے بڑی سادگی سے پوچھا کہ یہ امام حسن بن صباح کون ہے اور باطنی کسے کہتے ہیں؟
اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے کہ حسن بن صباح امام بھی ہے اور نبی بھی شمونہ نے یہ بھی کہا کہ میں اس کی باتیں سن سن کر دل سے اس کی مرید ہو گئی ہوں
روزینہ نے حسن بن صباح کی باتیں شروع کردیں اور ثابت کر دیا کہ وہ زمین پر امام ہے اور آسمانوں میں نبی ہے اس نے یہ بھی کہا کہ الموت میں خداوند تعالی نے اسے جنت بنادیں ہے اس طرح روزینہ نے حسن بن صباح کی ایسی باتیں سنائیں کہ شمونہ جھوم اٹھی
میری یہ خواہش ہے شمونہ نے کہا ایک بار صرف ایک بار اللہ کے اس مقدس انسان کو دیکھوں میں نے پہلے بھی اس کے متعلق ایسی ہی باتیں سنی ہیں کیا آپ مجھے اس کی زیارت نہیں کرا سکتیں؟
کیوں نہیں نگینہ! روزینہ نے کہا کسی وقت تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر دوں گی
اس روز کے بعد شمونہ اکثر حسن بن صباح کا ذکر چھیڑ دیتی اور اس طرح باتیں کرتی جیسے وہ حسن بن صباح کی عبادت کر رہی ہو اس دوران شمونہ نے وہ عورت دیکھ لی جس کے ذریعے روزینہ طبیب کے ساتھ رابطہ رکھتی اور پیغام دیتی تھی شمونہ وزیراعظم سمیری سے چوری چھپے ملنے کا موقع پیدا کرلیا کرتی تھی
اب وہ وزیراعظم سے ملی تو اسے کہا کہ شاہی طبیب سے کہیں کہ وہ سفوف مجھے دے دیں یہ بھی کہا کہ سفوف تھوڑا نہ ہو اچھی خاصی مقدار میں ہونا چاہیے اور طبیب یہ بھی بتا دے کہ ایک وقت میں یہ کتنا استعمال کیا جائے کہ اس کے ذائقہ اور بو کا پتا نہ چلے
قارئین کو یاد ہو گا کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن وہاں سے یہ ارادہ لے کر واپس آیا کہ وہ سلطان ملک شاہ کو قتل کرے گا یہ حسن بن صباح کے ذاتی طلسم اور حشیش کا اثر تھا کہ اسکا دماغ ہی ان لوگوں نے الٹا کر دیا تھا سلطان کے طبیب نے اسے کچھ دوائیاں پلا پلا کر ٹھیک کیا تھا اور اس کا دماغ واپس اپنی اصلی حالت میں آگیا تھا اب شمونہ اس طبیب سے وہی دوائی منگوا رہی تھی
وزیراعظم نے اگلے ہی روز شمونہ کو وہ دوائی دے دیں جو سفید رنگ کا ایک سفوف تھا وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ ایک صراحی میں اسکی کتنی مقدار ڈالنی ہے
شمونہ دیکھ رہی تھی کہ روزینہ ہر صبح ایک بڑی خوبصورت اور سنہری صراحی میں مشروب ڈالتی تھی اور اس میں کچھ ملاتی تھی شمونہ جانتی تھی کہ یہ صراحی میں کیا ملا رہی ہے روزینہ کو شمونہ پر مکمل طور پر اعتبار آ گیا تھا اس لیے وہ اپنی بیشتر حرکتیں شمونہ سے چھپاتی نہیں تھی اس نے شمونہ سے کہہ رکھا تھا کہ سلطان جب اپنے کام سے واپس آئیں اور وہ موجود نہ ہو تو سلطان کو ایک پیالا اس مشروب کا پلانا ہے
روزینہ اکثر شمونہ کے ساتھ حسن بن صباح اور اسکی جنت کی باتیں کیا کرتی تھی اور شمونہ اس کی یہ باتیں ایسے اشتیاق سے سنا کرتی جیسے اس پر مد ہوشی طاری ہوئی جارہی ہو کبھی شمونہ یہ بھی کہہ دیتی کہ آپ کتنی خوش نصیب ہیں کہ ایسے نبی کی زیارت کر چکی ہیں جسے اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کے لئے اس زمین پر اتارا ہے ایک روز روزینہ نے حسب معمول صراحی میں مشروب ڈالا اور شمونہ سے کہا کہ یہ سلطان کے کمرے میں رکھ دے شمونہ صراحی لے گئی اور سلطان کے کمرے میں بھی چلی گئی لیکن اس نے صراحی وہاں رکھنے کی بجائے غسل خانے میں لے جاکر نالی میں بہا دی
شمونہ نے روزینہ کا روزمرہ کا معمول دیکھ لیا تھا اسے معلوم تھا کہ اس وقت روزینہ کونسے کمرے میں ہوگی اور وہ کتنی دیر وہاں رہے گی شمونہ نے بڑی تیزی سے ویسا ہی مشروب صراحی میں ڈالا اور شاہی طبیب کا دیا ہوا سفوف نکال کر ذرا سا صراحی میں ملا دیا اور اسے اچھی طرح ہلایا
سلطان برکیارق جب اپنے روزمرہ امور سلطنت سے واپس آیا تو روزینہ دوڑی آئی اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اس مشروب کا پیالہ برکیاروق کو پلا دیا
اس روز رات سونے تک سلطان برکیارق کو یہی مشروب پیلایا جاتا رہا شمونہ دو تین مرتبہ سلطان برکیارق کے کمرے میں گئی ایک بار تو برکیارق نے اسے بلایا تھا اور باقی دو مرتبہ وہ کسی نہ کسی بہانے چلی گئی تھی وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ سلطان برکیارق کے رویے میں یا بولنے کے انداز میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں وہ کچھ نہ کچھ تبدیلی دیکھ رہی تھی ایک یہ کہ برکیارق دن کے وقت بھی سویا کرتا تھا اس روز وہ کروٹیں بدلتا رہا اور سو نہ سکا
صبح جب شمونہ اپنے روزمرہ کے کام کاج کے لیے روزینہ کے کمرے میں گئی تو روزینہ نے اسے پہلی بات یہ سنائی کہ سلطان ساری رات بہت بےچین رہے ہیں اور اچھی طرح سو نہیں سکے
بےچین نہ رہے تو اور کیا کریں شمونہ نے کہا جس سلطان کی سلطنت میں آپس کی قتل و غارت ہو رہی ہو اور خانہ جنگی روزبروز خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہو وہ سلطان کیسے سکون سے سو سکتا ہے
شمونہ نے اپنا یہ کام جاری رکھا روزینہ مشروب میں نشہ ملا دیتی اور شمونہ وہ صراحی انڈیل کر اور مشروب ڈال دیتی اور اس میں اپنا سفوف ڈال دیتی وہ سلطان برکیارق میں نمایاں تبدیلی دیکھنے لگی
شمونہ نے موقع پیدا کر کے وزیراعظم سمیری کے ساتھ مختصر سی ملاقات کی اور اسے بتایا کہ وہ اپنا کام کر رہی ہے اور سلطان میں تبدیلی آ رہی ہے تبدیلی یہ کہ وہ اب کسی کسی وقت گہری سوچ میں کھو جاتا اور بات سنجیدگی سے کرتا تھا وزیراعظم نے اسے یہ نئی بات بتائی کے طبیب نے کہا ہے جس مشروب میں کوئی نشہ خواہ اسمیں حشیش ہی ملا ہوا ہو اس میں یہ سفوف معمول کے دگنی مقدار سے ڈال دو تو بھی نشہ اثر نہیں کرتا
طبیب کی یہ ہدایت شمونہ کے لیے بڑی آسان تھی روزانہ مشروب غسل خانے کی نالی میں گرانا خطرناک تھا وہ کسی بھی وقت پکڑی جاسکتی تھی اس نے اب یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزینہ نشے والا سفوف صراحی میں ڈالتی تو شمونہ اس میں اپنا سفوف زیادہ مقدار میں ملا دیتی
خانہ جنگی دور دور تک پھیل گئی تھی سرکاری فوج لڑ تو رہی تھی لیکن اس کی طاقت ختم ہوتی جارہی تھی اس فوج کو باطنیوں نے مسلمانوں کے روپ میں پورا کیا اور اس میں شامل ہوگئے تاکہ یہ آگ جلتی رہے امن و امان تباہ ہوگیا لوگوں کو کھانے کے لیے اناج بھی نہیں ملتا تھا جو لوگ نہ سرکاری فوج کے ساتھ تھے نہ باغیوں کے ساتھ تھے وہ تو ڈر کے مارے باہر ہی نہیں نکلتے تھے باطنی شہر میں بھرتے چلے جارہے تھے اور صاف نظر آنے لگا تھا کہ کسی بھی دن حسن بن صباح یہاں آ دھمکے گا اور سلطان کی گدی پر بیٹھ کر سلطان برکیارق کو قتل کر دے گا
ایک روزا شمونہ وزیراعظم سے ملی اور اسے کہا کہ وہ طبیب سے کوئی ایسا زہر لا دے جو جسم میں جاتے ہی جسم کو بے جان کر دے وزیراعظم نے اسی روز ایک زہر شمونہ کو دے دیا جو شمونہ نے اپنے پاس چھپا کر رکھ لیا
ایک روز سلطان برکیارق نے اپنے آرام والے کمرے میں ہی وزیراعظم سمیری کو بلایا وزیراعظم فوراً پہنچا
کیا آپ نے خانہ جنگی کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں سوچا؟
سلطان برکیارق نے عجیب سی بے بسی کے لہجے میں پوچھا اور آہ بھر کر بولا محترم سمیری آپ میرے باپ ہیں کوئی حل نکالیں یہ خون میرے دماغ کو چڑھ رہا ہے
عبدالرحمن سمیری سلطان برکیارق کی یہ بات سن کر حیران تو ہوا ہی تھا لیکن اسے حیرت اس کے لہجے سے ہوئی وہ تو غنودگی کی حالت میں بولا کرتا تھا یا اس کے لہجے میں رعونت ہوتی تھی پھر وزیراعظم یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ روزینہ کمرے میں داخل ہوئی تو سلطان برکیارق نے اسے کہا کہ تم ذرا باہر ٹھہرو روزینہ نے آنکھیں پھاڑ کر سلطان برکیارق کی طرف دیکھا اور اندر آگئی وہ جب بھی دیکھتی کہ سپہ سالار حجازی یا وزیراعظم آیا ہے تو دوڑ کر سلطان کے پاس آبیٹھتی اور یوں باتیں کرتی تھی جیسے سلطنت کی حکمرانی اس کے ہاتھ میں ہو اور حکم اسی کا چل رہا ہو
باہر کی صورتحال کیا ہے؟
روزینہ نے وزیر اعظم سے پوچھا
روزینہ! سلطان برکیارق نے بڑی جاندار آواز میں کہا میں موجود ہو تو تمہیں بات کرنے کی ضرورت نہیں میں نے تمہیں کہا تھا کہ باہر ٹھہرو
روزینہ آہستہ آہستہ اٹھی اور قدم گھسیٹتی ہوئی باہر نکل گئی
میں آپ سے کچھ کہہ رہا تھا سلطان برکیارق نے وزیر اعظم سے کہا کہ کوئی طریقہ سوچیں کہ یہ خانہ جنگی رک جائے
میں تو سوچتا ہی رہتا ہوں وزیراعظم نے کہا آپ سے بات کرتے ہچکیچا جاتا ہوں بات آپ کے ساتھ کرتا ہوں تو جواب محترمہ بیگم صاحبہ سے ملتا ہے سلطان محترم خون جو بہ رہا ہے یہ میری اور آپ کی گردن پر ہوگا اس کی سزا صاف نظر آرہی ہے نہ یہ سلطنت رہے گی نہ اس کا کوئی سلطان رہے گا نہ کوئی وزیراعظم ہوگا ہم ہونگے لیکن غلامی کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہمارے سر تن سے جدا کر دیے جائیں گے اگر آپ اجازت دیں تو صلح سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے
آپ کسی حل پر پہنچے اور مجھے بتائیں سلطان برکیارق میں نے کہا
شمونہ نے پہلی بار روزینہ کو خفگی یا مایوسی کی حالت میں دیکھا شمونہ نے اس سے پوچھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک ہے یا وہ کوئی گڑبڑ محسوس کررہی ہے روزینہ نے اکھڑی ہوئی سی آواز میں جواب دیا اس وقت روزینہ پیالے میں کوئی مشروب ڈال رہی تھی
میری طبیعت تو ٹھیک ہے روزینہ نے کہا سلطان کی طبیعت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی ان کے لئے یہ خاص شربت تیار کررہی ہوں سلطان کے غم نے ان کے دماغ پر بہت برا اثر کیا ہے کبھی کبھی ان کی یہ حالت ہو جایا کرتی ہے تو میں انہیں یہ شربت پلایا کرتی ہوں وزیراعظم اٹھ کر جائیں گے تو انہیں یہ شربت پلا کر سلا دوں گی پھر وہ ٹھیک ہوجائیں گے
شمونہ سمجھ گئی کہ اس شربت میں یا تو حشیش کی زیادہ مقدار ملائی گئی ہے یا کوئی تیز نشہ ملایا گیا ہے شمونہ کو شک ہوا کہ سلطان برکیارق نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہے جس کی شمونہ کو توقع نہیں تھی شمونہ سلطان برکیارق کو اتنا زیادہ سفوف پلا چکی تھی کہ اب تک سلطان کو صحیح ذہنی حالت میں آ جانا چاہیے تھا
روزینہ نے شربت وہیں پڑا رہنے دیا اور وہاں سے نکل گئی وہ شاید یہ دیکھنے گئی تھی کہ وزیراعظم چلا گیا ہے یا نہیں شمونہ نے طبیب کا دیا ہوا زہر اپنے کپڑوں میں چھپا رکھا تھا اس نے بڑی تیزی سے وہ پڑیا نکالی اور شربت میں ڈال کر حل کر دی
اس کے بعد فوراً روزینہ آ گئی اور کہنے لگی کہ وزیراعظم نے لمبی ہی بات شروع کردی ہے بہتر ہے کہ یہ شربت انھیں ابھی پلا دوں روزینہ نے پیالہ اٹھایا اور سلطان برکیارق کے کمرے کی طرف چلی گئی شمونہ اس کے پیچھے پیچھے گئی
روزینہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوئی شمونہ دروازے کے ساتھ باہر کھڑی رہی اسے روزینہ کی آواز سنائی دی سلطان محترم یہ شربت پی لیں آپ بہت تھکے ہوئے ہیں یہ کہہ کر روزینہ کمرے سے نکلنے لگی شمونہ آگے ہوگئی اس نے دیکھا کہ سلطان برکیارق نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور وہ وزیر اعظم کے ساتھ بات کر رہا تھا بات ختم کرتے ہی اس نے یہ شربت پی لینا تھا جس میں شمونہ نے بڑا ہی تیز زہر ملا دیا تھا
سلطان برکیارق پیالا اپنے منہ کی طرف لے جانے لگا تو شمونہ تیر کی طرح دروازے سے اس تک پہنچی اور بڑی گھبراہٹ میں کہا مت پینا یہ شربت سلطان اس نے لپک کر وہ پیالہ سلطان کے ہاتھ سے لے کر تپائی پر رکھ دیا روزینہ کمرے سے نکل چکی تھی شمونہ کی اس حرکت سے واپس آگئی
یہ کیا بدتمیزی ہے شمونہ! روزینہ نے غصیلی آواز میں کہا سلطان کے ہاتھ سے پیالا کیوں چھین لیا ہے؟
سلطان محترم! شمونہ روزینہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ابھی کسی کو بلا کر کہیں کہ ایک بلی یا کتا یا کوئی اور جانور یہاں لے آئے اور پھر یہ شربت اسے بلا کر دیکھیں اس میں آپ کی بیگم نے زہر ملایا ہوا ہے اگر میں جھوٹی ثابت ہوئی تو اپنا سر پیش کر دوں گی
روزینہ نے تو واہی تباہی بکنی شروع کردی اور سلطان برکیارق حیرت سے کبھی روزینہ کو اور کبھی شمونہ کو دیکھتا تھا وزیراعظم سمیری کو معلوم تھا کہ شمونہ نے اس سے زہر منگوایا تھا وہ دانش مند آدمی تھا وہ سمجھ گیا کہ شمونہ نے کوئی چال چلی ہے سلطان کے حکم کے بغیر وزیراعظم باہر گیا اور ایک خادم سے کہا کہ ایک بلی یا کتا فوراً پکڑ کر لائے
روزینہ وہیں کھڑی رہی اور شمونہ کو دھمکیاں دیتی رہی وہ تو سچی تھی کیونکہ اس نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا اسے صرف یہ ڈر تھا کہ اس شربت میں اس نے ذرا تیز نشہ ملایا تھا بلی یا کتے کو بلانے کی صورت میں یہ ہونا تھا کہ اس جانور نے تھوڑی دیر بعد گر کر سو جانا تھا
سلطان کا حکم تھا اس لئے ایک کتا فوراً حاضر کیا گیا سلطان کتا لانے والے سے کہا کہ اس پیالے میں جو شربت ہے یہ کتے کے منہ میں انڈیل دو خادم نے کتے کا منہ کھولا اور شمونہ نے آدھا پیالہ شربت کتے کے حلق سے نیچے اتار دیا سلطان نے کہا اس کتے کو چھوڑ دو کتے کو چھوڑ دیا گیا
کتا کمرے سے باہر کو چل پڑا دہلیز سے بھی آگے چلا گیا لیکن اس سے آگے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ رک گیا اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلیں اور وہ گر پڑا ذرا سی دیر اس کی ٹانگیں کانپی اور پھر ٹانگیں ساکت ہوگئیں کتا مر گیا تھا
سلطان برکیارق فوراً اٹھا اور اس نے قہر بھری نظروں سے روزینہ کو دیکھا اس نے اس کمرے میں داخل ہوتے ہی روزمرہ کی طرح کمر بند سے لمبا خنجر نکال کر قریب ہی تپائی پر رکھ دیا سلطان نے کچھ بھی نہ کہا لپک کر خنجر اٹھایا اس کی نیام کھیچ کر پرے پھینکی اور روزینہ کی طرف بڑھا روزینہ اس سے دو ہی قدم پر کھڑی حیرت کا مجسمہ بنی ہوئی تھی
نہیں سلطان! وزیراعظم سمیری نے برکیارق کی طرف لپکتے ہوئے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا یہ کام آپ کا نہیں جلاد کا ہے
وزیراعظم کا آخری لفظ اس کی زبان پر ہی تھا کہ سلطان برکیارق کا خنجر روزینہ کے پیٹ میں اتر چکا تھا اس نے خنجر کھینچا اور کہا لوگ سچ کہتے تھے کہ یہ باطنی ہے اور اس ابلیس حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے سلطان روزینہ کے گرنے سے پہلے ایک بار پھر خنجر روزینہ کی پسلیوں میں اتار دیا روزینہ گری سلطان نے خنجر کھینچ لیا اور فرش پر پھینک دیا
سلطان نے کچھ دیر آخری سانس لیتی ہوئی روزینہ کو دیکھا اور اس کے بہتے ہوئے خون کو دیکھا شمونہ اور وزیراعظم بھی روزینہ کو مرتا ہوا دیکھ رہے تھے
محترم سمیری! سلطان برکیارق غم سے بوجھل آواز میں کہا اسے یہاں سے اٹھوا دیں لاش اٹھانے والوں سے کہہ دیں کہ اسے کفن نہیں پہنایا جائے گا نہ ہی اس کا جنازہ پڑھایا جائے گا کتے کو بھی اٹھواں دیں اور کہیں ویرانے میں گڑھا کھود کر کتے کو بھی اس کے ساتھ دفن کردیں
سلطان کا سر ڈولنے لگا جیسے وہ چکرا کر گر پڑے گا وزیراعظم نے لپک کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا
مجھے میری ماں کے پاس لے چلو سلطان برکیارق نے کہا
آپ چل سکیں گے ؟
وزیراعظم سمیری نے پوچھا
ہاں! سلطان برکیارق نے کہا چل کر جاؤں گا
وہ وزیراعظم کے ساتھ کمرے سے نکل گیا ماں جس کمرے میں نظر بند تھی وہ قریب ہی تھا برکیارق اپنے سہارے چلتا ہوا وہاں پہنچا وزیراعظم ساتھ تھا اور شمونہ پیچھے کھڑی دیکھ رہی تھی
برکیارق وزیراعظم کے ساتھ ماں کے کمرے میں داخل ہوا ماں غم کی تصویر بنی بیٹھی تھی برکیارق کو دیکھ کر اس کے چہرے پر غصے کی سرخی آگئی برکیارق اس کو دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور ماں کے قدموں میں گر پڑا پھر سر اس کی گود میں رکھ دیا
مجھے بخش دو ماں! سلطان برکیارق نے روتے ہوئے کہا آپ کا بھٹکا ہوا بیٹا آپ کی آغوش میں واپس آگیا ہے
سلطان نے روزینہ کو قتل کر دیا ہے وزیر اعظم نے کہا اور اب سلطان اپنی خواہش کا اظہار کر کے آپ کے قدموں میں آ گرے ہیں ماں نے برکیارق کو اٹھا کر اپنے بازوؤں میں لے لیا اور اس کا منہ چومنے لگی
باہر خون بہ رہا تھا بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا اور باطنی جلتی پر تیل ڈال رہے تھے
جس وقت ماں برکیارق کو اپنے قدموں سے اٹھا کر اور بازؤں میں لے کر اس کا منہ چوم رہی تھی اس وقت چار پانچ شاہی ملازم روزینہ کی لاش اٹھا رہے تھے
وہ سب حیران تھے کہ یہ ہوا کیا اور یہ کیسے ہوا وہ جانتے تھے کہ سلطنت سلجوقیہ کا سلطان برکیارق نہیں ہے لیکن حکم روزینہ کا چلتا تھا اور اس سلطنت کی وہ ملکہ تھی شمونہ شاہی خاندان کی فرد نہیں تھی وہ تو ایک کنیز تھی ایک خادمہ! ملازم اس سے پوچھ سکتے تھے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے
یہ قتل ہوگئی ہے شمونہ نے بڑے شگفتہ لہجے میں جواب دیا اسے سلطان نے اپنے ہاتھوں قتل کیا ہے
اس سے کیا جرم سرزد ہوگیا تھا؟
کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ باطنی تھی شمونہ نے کہا یہ اُس شیطان حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی تھی
اچھا ہوا سلطان کو پتہ چل گیا عہدےدار نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا اور بولا اللہ تیرا شکر سب تعریفیں تیری ذات کے لیے ہیں سلطان کہاں ہے؟
اپنی والدہ محترمہ کے پاس شمونہ نے کہا اللہ نے اس سلطنت پر بڑا ہی کرم کیا ہے اب آپس کا خون خرابہ بند ہوجائے گا
میرے دو بھائی تھے عہدے دار نے کہا وہ فوج میں عہدے دار تھے دونوں اس خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں میرا گھر ماتم کدہ بنا ہوا ہے
شکر ادا کرو اللہ کا شمونہ نے کہا اللہ تبارک و تعالی نے سلطنت کو بچا لیا ہے یہ باتیں تو ہوتی ہی رہےگی مجھے آپ کے بھائیوں کا بہت افسوس ہے یہ سب اِسی کے ہاتھوں کرایا گیا ہے جس کی لاش آپ دیکھ رہے ہیں سلطان حکم دے گئے ہیں کہ اس کی لاش اور مرا ہوا یہ کتا بوری میں ڈال کر کسی جگہ گڑھا کھود کر دبا دو انہوں نے کہا ہے کہ اسے قبرستان میں دفن نہ کرنا نہ اسے کفن پہنانا ہے نہ اس کا جنازہ پڑھنا ہے اور یہ احتیاط بھی کرنی ہے کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ سلطان نے اپنی بیگم کو قتل کردیا ہے لاش اٹھائیں اور فرش اچھی طرح صاف کروا دیں
ایک بوری لائی گئی جس میں روزینہ کی لاش اور مرے ہوئے کتے کو ڈالا گیا اور بوری کا منہ بند کرکے ملازم اٹھالے گئے، دوسرے ملازم فرش دھونے لگے شمونہ نکل کر برآمدے میں کھڑی ہوگئی روزینہ کی لاش باہر والے دروازے سے بھی بکل گئی تھی شمونہ گہری سوچ میں کھو گئی
کیا کہا شمونہ بی بی! شمونہ کو ایک خادمہ کی آواز سنائی دی جو اس کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی لیکن شمونہ اسے دیکھ نہیں سکی تھی خادمہ سمجھی کہ شمونہ نے اسے کچھ کہا ہے شمونہ نے اس کی طرف دیکھا اور چونکی
میں کہہ رہی تھی کہ انسان اپنی حقیقت اور اصلیت کو بھول جاتا ہے شمونہ نے کہا یہ بدنصیب یوں سمجھ بیٹھی تھی جیسے یہ ہمیشہ اس سلطنت کی ملکہ بنی رہے گی یہ اللہ کو بھول گئی تھی اور شیطان کی پجارن بن گئی تھی حکمرانی کی نشہ اپنا تختہ اپنے ہاتھوں الٹ دیا کرتے ہیں
عبرت تو کوئی حاصل نہیں کرتا خادمہ نے کہا جس کے سر پر سلطانی کا تاج رکھ دیا جاتا ہے وہ سب سے پہلے یہ بھولتا ہے کہ سدا بادشاہی اللہ کی ہے اس ملکہ کا انجام دیکھ لو ایک کتے کے ساتھ دفن ہو رہی ہے
اور اس کی قبر بھی نہیں بنے گی شمونہ نے کہا کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکے گا کہ یہاں وہ عورت دفن ہے جس نے کچھ عرصہ اس سلطنت پر حکومت کی تھی اور سلطان کو بھی اپنا غلام بنا لیا تھا
شمونہ اپنے خیالوں میں کھو گئی تھی روزینہ کی لاش دور نکل گئی تھی محل کے باہر والے دروازے میں ایک عورت آن کھڑی ہوئی دربان نے اسے دیکھا اور سر سے اشارہ کیا عورت اندر آ گئی
شیطان کی دوسری پوجارن آگئی ہے خادمہ نے کہا
غور سے سن لو شمونہ نے خادمہ سے کہا اسے یہ پتا نہ چلے کہ روزینہ ماری جا چکی ہے تم دیکھ رہی ہو کہ باہر والے دربان کو بھی معلوم نہیں کہ یہ جو بوری گھوڑا گاڑی میں محل سے نکالی گئی ہے اس میں روزینہ کی لاش تھی تم یہاں سے چلی جاؤ اور سامنے نہ آنا
یہ تھی وہ عورت جو روزینہ کے پاس آتی اور اسے پیغام لے کر اس طبیب تک پہنچاتی تھی جو حسن بن صباح کا بھیجا ہوا خاص آدمی تھا اور جس نے زمین دوز طریقوں سے خانہ جنگی شروع کرائی تھی یہ عورت پیغام لایا بھی کرتی تھی اس کی عمر پینتیس سال کے لگ بھگ تھی اور وہ خوبصورت عورت تھی ایسا لباس پہنتی تھی کہ کسی شاہی خاندان کی عورت معلوم ہوتی تھی روزینہ نے اسے شمونہ کے متعلق بتا دیا تھا کہ یہ اس کی ہمراز کنیز ہے اور حسن بن صباح کی غائبانہ مرید ہے اس کی وجہ سے یہ عورت شمونہ کے ساتھ بھی کچھ بے تکلف ہو گئی تھی شمونہ کسی کو اپنے ساتھ بے تکلف کرنے کے فن میں مہارت رکھتی تھی اس عورت کے ساتھ شمونہ کی اچھی خاصی دوستی پیدا ہوگئی تھی
یہ عورت ذرا قریب آئی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی شمونہ بھی کھل کر مسکرائی اور اس کے استقبال کو آگے بڑھی
کونسے کمرے میں ہے؟
اس عورت نے روزینہ کے متعلق پوچھا
شمونہ کو کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ اب وہ کسی بھی کمرے میں نہیں بلکہ ایک کتے کے ساتھ بوری میں بند ہے اور شاید اب تک زمین میں بھی دبائی جا چکی ہوگی لیکن شمونہ نے یوں نہ کہا نہ ہی اسے ایسا کہنا چاہیے تھا
آپ آئیں تو سہی شمونہ نے کہا آج آپ کو کچھ انتظار کرنا پڑے گا وہ سلطان کے پاس ہیں اور شاید انہیں معلوم تھا کہ آپ آ رہی ہیں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آپ آئیں گی تو میں آپ کو کمرے میں بیٹھاؤں آ جائیں
شمونہ اسے اس کمرے میں لے گئی جہاں وہ روزینہ کے ساتھ کانا پھوسی کیا کرتی تھی اسے احترام سے بٹھایا اور کہا کہ میں آپ کے لیے کچھ لاتی ہوں روزینہ اس عورت کی بہت خاطر تواضع کیا کرتی تھی شمونہ بھی یہی اشارہ دے کر کمرے سے نکل گئی کہ وہ اس کی خاطر تواضع کرے گی
تھوڑی ہی دیر بعد شمونہ جب اس کمرے میں واپس آئی تو اس کے ساتھ محل کے دو محافظ تھے ایک کے ہاتھ میں بڑی لمبی رسی تھی
اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دو اور اس کے پاؤں بھی باندھو شمونہ نے اسکی طرف اشارہ کرکے کہا
محافظ آگے بڑھے تو وہ عورت حیرت زدگی کے عالم میں شمونہ کی طرف دیکھنے لگی دونوں محافظوں نے اسے گرا کر اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ دیے اور پھر اسی رسی کے ساتھ پاؤں بھی باندھ دیے اس دوران وہ چیختی اور چلاتی رہیں اور شمونہ سے پوچھتی رہی کہ یہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے
اسے فرش پر پھینک دو شمونہ نے محافظوں سے کہا اور دروازہ باہر سے بند کر دو
شمونہ محافظوں کے ساتھ باہر نکل آئی اور دروازہ باہر سے بند کردیا شمونہ وہیں کھڑی کچھ سوچنے لگی
تم دونوں یہیں ٹھہرو شمونہ نے محافظوں سے کہا میں سلطان کو اطلاع دینے جا رہی ہوں
سلطان برکیارق اپنی ماں کے سامنے بیٹھا تھا ماں کے چہرے پر ایک مدت بعد رونق آئی تھی برکیارق کی آنکھیں پرنم تھیں وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اس کی ماں کو سنا چکا تھا کہ روزینہ کو برکیارق نے کیوں اور کس طرح قتل کیا ہے ماں نے جب یہ سنا کے روزینہ اس کے بڑے بیٹے کو زہر پلا رہی تھی تو ماں تڑپ اٹھی اور اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف کیے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کا بیٹا بچ گیا
دربان کمرے میں داخل ہوا سب نے اس کی طرف دیکھا
سلطان محترم کی کنیز آئی ہے دربان نے کہا اندر آنے کی اجازت چاہتی ہے
اسے فوراً اندر بھیج دو برکیارق کی ماں نے کہا یہ تو اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے جس نے میرے بیٹے کی جان بچائی ہے اور سلجوقی سلطنت کو بڑے خطرے سے محفوظ کر دیا ہے
شمونا کمرے میں داخل ہوئی برکیارق کی ماں اٹھی اور لپک کر شمونہ کو گلے لگا لیا وہ شمونہ کو چومتی اور اس کا شکر ادا کرتی تھی
میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے شمونہ نے کہا میں اسی مقصد کے تحت روزینہ کی کنیز بنی تھی یہ باتیں بعد میں کریں گے میں سلطان عالی مقام کو یہ اطلاع دینے آئی ہوں کہ روزینہ کی لاش کتے کے ساتھ بوری میں بند کرکے لے گئے ہیں اور دوسری اطلاع اس سے زیادہ ضروری ہے وہ یہ کہ اتفاق سے ایک عورت آگئی ہے جسے میں اچھی طرح جانتی ہوں وہ روزینہ کو پیغام دینے اور اس کے پیغام لے جانے آیا کرتی تھی یہ پیغام حسن بن صباح کی طرف سے آتے تھے میں نے روزینہ کے ساتھ بے تکلفی پیدا کر لی تھی اور اس عورت کے ساتھ بھی ابھی ابھی تو میں نے اسے یہ کہہ کر کمرے میں بٹھا دیا کہ روزینہ کو اطلاع دیتی ہوں میں محافظ دستے کے دو آدمی ساتھ لے گئی اور ایک رسی بھی میرے کہنے پر انہوں نے اس عورت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہیں اور اسے ایک کمرے میں بند کر دیا ہے یہ ہے وہ عورت جس سے آپ کو بڑے ہی قیمتی اور چونکا دینے والے راز ملیں گے تب آپ کو پتہ چلے گا کہ اس سلطنت پر کتنا بڑا خطرہ منڈلا رہا تھا اور مجھے امید ہے کہ آپ نے بروقت کارروائی کی تو یہ خطرہ ٹل جائے گا اور آپ کو پتہ چلے گا کہ اس شہر میں کتنی زیادہ باطنی اکٹھے ہوگئے ہیں
سلطان برکیارق کو ابھی معلوم نہیں تھا کہ شمونہ کون ہے اور اس نے اس مقصد کو اپنا فرض کیوں بنایا تھا وہ تو اسے ایک کنیز سمجھتا تھا جو کسی مجبوری کے تحت نوکری کی تلاش میں آئی تھی اصل حقیقت تو عبدالرحمن سمیری جانتا تھا
تم یہ ساری باتیں کس طرح جانتی ہو؟
سلطان برکیارق نے شمونہ سے پوچھا
اس سوال کا جواب بعد میں دوں گی شمونہ نے جواب دیا ہو سکتا ہے اس کا جواب سلطان کو کوئی اور دے
تم وہیں چلو برکیارق نے شمونہ سے کہا اس عورت کو کمرے میں بند رہنے دو
سلطان برکیارق اپنے وزیراعظم سمیری سے کہہ چکا تھا کہ خانہ جنگی فوراً بند کر دی جائے لیکن مشکل یہ تھی کہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ لڑائی کہاں کہاں ہو رہی ہے سرکاری فوج تک تو حکم بچایا جاسکتا تھا لیکن باغی فوج تک حکم پہنچانا محال ہو رہا تھا کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے سالار وغیرہ کہاں ہیں سالار اوریزی روپوش تھا اور اس باغی فوج کی کمان برکیارق کے چھوٹے بھائی محمد کے ہاتھ میں تھی اور سلطان تک یہ اطلاع بھی پہنچ گئی تھی کہ رے سے امیر شہر ابومسلم رازی نے بھی اپنی فوج بلکہ ایک بڑا لشکر تیار کر کے محمد اور سالار اوریزی کی مدد کے لئے بھیجا ہے اب یہ پتہ چلانا تھا کہ محمد اور سالار اوریزی کہاں ہیں
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے تین چار قاصد بلوائے ایک کو تو سرکاری فوج کے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ اپنی فوج کو اکٹھا کر کے شہر میں لے آئے اور جنگ بند کر دیں باقی قاصدوں کو یہ کام دیا گیا کہ وہ کسی طرح یہ معلوم کریں کہ سالار اوریزی اور محمد کہاں ہیں اور انہیں یہ پیغام دیں کہ سلطان برکیارق نے اپنی والدہ محترمہ کے حکم سے جنگ بند کرنے کا اعلان کردیا ہے اور وہ دونوں ہمارے پاس پہنچ جائیں
خانہ جنگی بند کرانا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ خانہ جنگی کی صورت یہ نہیں تھی کہ دونوں طرفوں کی فوجی ایک میدان میں لڑ رہی ہوں لڑائی کی صورت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ سرکاری اور باغی فوجی چھوٹے بڑے دستوں میں بٹ گئی تھی اور یہ جنگ شہر سے نکل کر مضافات میں اور اس سے بھی دور دور جنگلوں میں پھیل گئی تھی ایک دوسرے پر شب خون مارے جاتے تھے اور کہیں دستے آپس میں جم کر لڑتے تھے دونوں طرف زخمی اور ہلاک ہورہے تھے بعض کی لاشیں ان کے گھروں تک پہنچ جاتی تھی اور اکثر لاشیں وہیں گھوڑوں تلے روندی کچلی جاتی تھیں
یوں بھی ہوتا تھا کہ سرکاری یا باغی فوج کا کوئی آدمی مارا جاتا اور اس کی لاش گھر آجاتی تو اس کا کوئی بھائی یا باپ یا چاچا وغیرہ اسے ذاتی یا خاندانی قتل سمجھ کر انتقام کے لیے خانہ جنگی میں شامل ہو جاتا باطنیوں نے لوگوں کا یہ ردعمل اور انداز دیکھا تو انہوں نے طبیب کو بتایا طبیب تخریب کاری کا ماہر تھا اس نے اپنے آدمیوں کو ایک خصوصی ہدایت نامہ جاری کیا جس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا کہ کسی آدمی کی لاش شہر میں آتی تو اس کے گھر والوں کو بتایا جاتا کہ اسے فلاں آدمی نے لڑائی میں قتل کیا ہے مقتول کے گھر کے آدمی اس آدمی کے گھر پر ٹوٹ پڑتے اور ان کے ایک دو آدمیوں کو قتل کر دیتے یہ سلسلہ یوں آگے چلایا گیا اور باطنی تخریب کار کسی گھر میں آکر یہ اطلاع دیتے کہ تمہارا جو آدمی لڑنے گیا تھا وہ آدمی مارا گیا ہے اور اس کی لاش کو گھوڑوں تلے کچل اور مسل دیا گیا ہے اور اسے فلاں آدمی نے قتل کیا ہے اس اطلاع کا ردعمل بھی یہی ہوتا کہ مقتول کے وارث اس گھر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتے اس طرح اس خانہ جنگی میں یہ نیا پہلو پیدا ہوگیا جس نے لوگوں کے درمیان ذاتی دشمنی پیدا کردی شہر کے لوگ اپنے گھروں کے دروازے اندر سے مقفل رکھتے تھے
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ خانہ جنگی دو سال جاری رہی تھی لیکن مستند مورخ کچھ حوالے دے کر لکھتے ہیں کہ خانہ جنگی ایک سال اور ایک یا دو مہینے لڑی گئی تھی اور اس نے سلطنت اور لوگوں کو بھی بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا تھا سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا کہ سلطنت کا انتظام تہہ و بالا ہو گیا تھا اور اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوا کہ حسن بن صباح نے بڑے وسیع و عریض علاقے پر قبضہ کرلیا یا یوں کہیے کہ ان علاقوں کو اس نے زیر اثر لے لیا سلطنت سلجوقیہ کو خانہ جنگی میں الجھا کر اس نے اپنا مقصد بڑی آسانی سے پا لیا تھا اسے صرف سلطنت کی فوج روک سکتی تھی لیکن اس سلطنت کو اس نے خاک و خون کے بڑے ہی خوفناک کھیل میں الجھا دیا سرکاری فوج کا سپہ سالار ابوجعفر حجازی چونکہ شہر میں ہی تھا اور یہیں سے لڑائی کو کنٹرول کر رہا تھا اس لئے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے قاصد کے پہنچتے ہی وہ آ گیا اس نے سلطان برکیارق کو اپنی ماں کے پاس بیٹھا دیکھا تو وہ کچھ پریشان بھی ہوا اور حیران بھی
حجازی! سلطان برکیارق نے کہا جنگ فوراً بند کردو اور اپنی فوج کو اس شہر میں بلالو۔
سلطان عالی مقام! حجازی نے کہا سلطان کے حکم کی تعمیل فوراً ہوگی لیکن دستے کچھ ایسے بھی گِھر گئے ہیں کہ انہیں لڑائی سے ہٹانا اور شہر میں لانا بڑا ہی دشوار اور دقت طلب کام ہے
کوشش کرو یہ کام ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر شروع ہو جائے سلطان برکیارق نے کہا اور یہ بھی سن لو کہ ہم نے سالار اوریزی کو معاف کردیا ہے کسی اور کو بھی گرفتار یا ہلاک یا زخمی نہیں کرنا تلواریں نیاموں میں ڈالو
سپہ سالار حجازی فوراً روانہ ہوگیا
سلطان محترم! وزیراعظم سمیری نے کہا خانہ جنگی کو روکنے اور دونوں اطراف فوجوں کو الگ الگ کر کے شہر میں لانے کے لئے کچھ دن تو چاہیے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس عورت سے کچھ پوچھ گچھ کر لیں جسے کنیز نے پکڑا ہے راز کی باتیں تو اس سے معلوم ہو گی لیکن میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ عورتیں یا آدمی اپنی جان دے دیتے ہیں راز نہیں دیا کرتے
ہاں سلطان برکیارق نے کہا یہ خطرہ تو ہے لیکن ہم کوشش کرتے ہیں شاید اس عورت کی زبان سے کچھ اگلوا سکیں ہمیں ناکامی ہوئی تو زندہ یہ بھی نہیں رہے گی میں اپنی اس کنیز نگینہ کا احسان ساری عمر نہیں بھول سکوں گا اگر ماں نے مجھے اجازت دے دی تو میں اس کے ساتھ شادی کر لوں گا
شمونہ نے روزینہ اور سلطان برکیارق کو اپنا نام نگینہ بتایا تھا اس لئے برکیارق اسے نگینہ ہی سمجھ رہا تھا اس کا نام عبدالرحمان سمیری کو معلوم تھا لیکن اس نے سلطان کو ابھی اصل نام نہ بتایا
میرے بیٹے! ماں نے برکیارق سے کہا یہ خون خرابہ رک جائے اور سلطنت پر خطروں کے گھٹائیں منڈلا رہی ہیں یہ اڑ جائیں تو میں تمہیں شادی کی اجازت بھی دے دوں گی اور میرا خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر اچھی لڑکی کوئی اور نہیں ہوگی
وزیراعظم سمیری نے جب یہ سنا کہ سلطان شمونہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے اور سلطان کی ماں بھی اسی لڑکی کو پسند کر رہی ہے تو اسے پریشانی سی ہوئی کیونکہ شمونہ مزمل آفندی کی محبت میں گرفتار تھی اور اس نے مزمل کے ساتھ ہی شادی کرنی تھی سمیری کو پریشانی یہ تھی کہ جب یہ صورت پیدا ہوگئی کہ سلطان شمونہ سے شادی کا فیصلہ کرے گا تو اسے کس طرح قائل کیا جا سکے گا کہ شمونہ سے ہاتھ اٹھا دے اور اسے دل سے نکال دے کیونکہ یہ مزمل کے ساتھ منسوب ہے
دونوں اس کمرے میں گئے جہاں وہ عورت اوندھے منہ فرش پر پڑی تھی اور اس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے سلطان برکیارق نے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلایا اور اسے کہا کہ اس عورت کے ہاتھ پاؤں کھول دے
ذرا سی دیر میں عورت کے ہاتھ پاؤں کھل گئے اور وہ واہی تباہی بکنے لگی کہ سلطان کی ایک ادنیٰ سی کنیز نے اس کے ہاتھ پاؤں بندھوا دیے تھے
تم کون ہو؟
سلطان برکیارق نے پوچھا اور یہاں کیا لینے آئی تھیں
میں سلطان عالی مقام کی بیگم کی سہیلی ہوں! عورت نے جواب دیا میں ان کے پاس آتی رہتی ہوں آج آئی تو آپ کی کنیز نے تمہیں رسیوں سے بندھوا دیا سلطان برکیارق نے اس کی بات کاٹ کر کہا اور تمہیں میری بیگم دیکھنے نہیں آئی تم کس کی بیٹی ہو؟
تم کس کی بیوی ہو؟
تمہارا گھر کہاں ہے ؟
مجھے ٹھیک جواب دو اور میں تمہارے ساتھ تمارے گھر چلوں گا
میرا نام رابعہ ہے عورت نے جواب دیا میں شاہ در کی رہنے والی ہوں اور یہاں اپنے خاوند کے ساتھ رہتی ہوں لیکن میں آپ سے یہ عرض کروں گی کہ میرے گھر نہ آئیں کیونکہ میرا شوہر بڑا ہی ظالم آدمی ہے اور وہ وہمی بھی ہے اگر آپ یا کوئی اور میرے گھر آیا تو میرا خاوند مجھ پر نہ جانے کیسے کیسے الزام تھوپ دے اور میری پٹائی شروع کردے میں شاہ در کے ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی ہوں
تمہارا نام رابعہ نہیں ہے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے کہا تمہارا باپ کسی بھی قبیلے کا سردار نہیں نہ تمہارا کوئی خاوند ہےمیری ایک بات غور سے سن لو اپنی اصلیت فوراً بتا دو اس میں تمہارا فائدہ ہے اگر تمہارا یہ ارادہ ہے کہ تم کوئی راز اگلنے سے پہلے اپنے آپ کو ہلاک کر لو گی تو یہ خیال دل سے نکال دو
سمیری نے محافظ دستے کے کماندار سے کہا اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر پیچھے کرلو
رابعہ فوراً اٹھی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی ناف پر رکھ لئے کماندار طاقتور آدمی تھا اس نے پیچھے ہوکر عورت کے دونوں بازو پکڑے اور بڑی زور سے جھٹکا دے کر بازو اس کی پیٹھ کے پیچھے کرلیے سمیری آگے بڑھا اور اس کی قمیض اوپر کر دی اس نے سلطان برکیارق سے کہا کہ یہ دیکھ لیں عورت نے نیفے میں ایک خنجر اڑسا ہوا تھا سمیری نے یہ خنجر اس کے نیفے سے نکال لیا سلطان محترم! سمیری نے برکیارق سے کہا اس خنجر کی نوک یقیناً زہر میں بجھی ہوئی ہے کسی جانور کو مار کر دیکھ لیں
وزیراعظم سمیری نے اس عورت کے بال مٹھی میں پکڑ کر بڑی زور سے جھٹکا دیا عورت کے دانت بج اٹھے دوسرا جھٹکا دے کر سمیری نے اس کا سر پیچھے کر دیا
ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے سمیری نے کہا ایسی اذیتیں دیں گے کہ مروں گی بھی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہوگی حسن بن صباح تمہیں ہم سے چھوڑا نہیں سکے گا کہو سچ بولتی ہو؟
کیا سچ بولوں رابعہ نے کہا کیا آپ لوگوں میں اتنی بھی تہذیب نہیں کہ میں اتنے بڑے باپ کی بیٹی
وزیراعظم سمیری نے اس کی بات پوری نہ ہونے دی اور بڑی زور سے جھٹکا دیا جس سے وہ پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکرائی محافظوں کا کماندار آگے بڑھا
مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی زبان کھولوں کماندار نے کہا
سلطان برکیارق کے اشارے پر کماندار رابعہ کی طرف بڑھا اور اس کی گردن اور اس کے کندھے کے درمیان میں کوئی رگ اپنی مٹھی میں لے کر دبائی رابعہ تڑپنے لگی اس کا منہ کھل گیا یہ عورت اتنے طاقتور کماندار کی مٹھی میں ایسے ہی تھی جیسے شیر نے ایک خرگوش کو اپنے منہ میں لے رکھا ہو
کہوں میں باطنی ہوں کماندار نے کہا
اس کے ساتھ ہی کماندار نے مٹھی اور زور سے دبائی تو عورت کا چہرہ لال سرخ ہو گیا اور وہ اور زیادہ تڑپنے لگی کماندار نے ایک بار پھر کہا کہ وہ کہے کہ میں باطنی ہوں رابعہ نے اپنا سر زور زور سے ہلایا جیسے وہ اقرار کر رہی ہو کماندار نے اس کی رگ چھوڑ دی وہ فرش پر گری اور ایک ہاتھ سے وہ رگ دبانے لگی اس کا چہرہ بتاتا تھا وہ ابھی تکلیف میں ہے
بولو! کماندار نے اسے پاؤں کی ٹھوکر خاصے زور سے لگا کر کہا
مجھے قتل کردو رابعہ نے روتے ہوئے کہا اگر میں اپنا سینہ کھول کر راز آپ کے آگے انڈیل دیتی ہوں تو بھی مجھے قتل کر دیا جائے گا وہ یہ نہیں کریں گے کہ میری گردن کاٹ دیں گے بلکہ بڑی ہی اذیت ناک موت مارینگے میرے تمام کپڑے اتار کر میرے جسم پر شہد مل دینگے پھر میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر جنگل میں پھینک دیں گے آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے اور مکھیاں کس طرح مجھے کھائیں گی بچھوں اور دوسرے زہریلے کیڑے بھی میری کھال کو کاٹتے رہیں گے میں نے اس طرح ایک عورت کو مرتے دیکھا ہے وہ پورے دس دن تڑپتی رہی تھی اور حشرات الارض آہستہ آہستہ اس کی کھال کو کھاتے رہے تھے میں اس موت سے ڈرتی ہوں
مت ڈرو! سلطان برکیارق نے کہا میں تمہیں ساری عمر یہی اسی محل میں رکھوں گا چاہوں گی تو کسی اچھے آدمی کے ساتھ تمہاری شادی کرا دوں گا یہی آرام سے عمر گزاروں گی اور بڑے ہی عیش و عشرت میں رہوں گی
اگر جھوٹ بولوگی تو سن لو۔ وزیراعظم سمیری نے کہا تمہیں قید خانے میں بڑی ہی بدبودار کوٹھری میں پھینک دیا جائے گا جس میں چوہے اور زہریلے کیڑے رہتے ہیں دن کے وقت تمہیں الٹا لٹکا کر نیچے دہکتے انگارے رکھ دیا کریں گے اور ان پر ایک آدمی مرچیاں پھینکتا رہے گا تصور میں لاؤ کہ مرچوں کا دھواں تمہاری ناک اور منہ کے راستے تمہارے اندر جائے گا تو تمہاری کیا حالت ہوگی رات کو تمہیں اس کوٹھری میں بند کر دیا جائے گا،بہتر ہے کہ تم اپنی اصلیت بتا دو اور تمہارا رابطہ حسن بن صباح کے جن لوگوں کے ساتھ ہے وہ بتا دو کہاں کہاں رہتے ہیں انہیں پتہ ہی نہیں چلنے دیا جائے گا کہ ہمیں یہ راز تم نے دیا ہے
مسلمان مؤرخوں نے اور یوروپی مورخوں نے بھی متفقہ طور پر لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے فدائیوں کو ایسی تربیت دی جاتی تھی کہ ان کی فطرت ہی بدل جاتی تھی ان کے لیے زندگی اور موت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی وہ زندہ رہتے تھے تو صرف حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل کے لئے زندہ رہتے تھے اور جب اپنی جانیں لینے پر آتے تھے تو بڑے فخر اور اطمینان سے اپنی جان دے دیتے تھے ہر فدائی کے پاس وہ عورت ہوتی یا مرد ایک خنجر ہوتا تھا جس کی نوک زہر میں بجھی ہوئی ہوتی تھی ان میں سے کوئی پکڑا جاتا اور وہ دیکھتا کہ فرار کا کوئی راستہ نہیں اور راز اگلنا ہی پڑے گا تو وہ خنجر نکال کر اپنے دل میں اتار لیتا تھا رابعہ نے بھی اپنے پاس ایک خنجر اسی مقصد کے لیے رکھا ہوا تھا لیکن وزیراعظم عبدالرحمن سمیری جانتا تھا کہ ہر فدائی کے پاس خنجر ہوتا ہے اس نے اس عورت کے لباس سے خنجر نکال لیا اس خنجر کی موجودگی ہی یہ پکا ثبوت تھا کہ وہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ عورت ہے سلطان برکیارق کے ذہن میں اگر ابھی تک کوئی شک باقی تھا تو وہ بھی نکل گیا
میں اپنے دو بچوں کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہوں رابعہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا دونوں ابھی چھوٹے ہیں
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا خاوند بھی ہے عبدالرحمن سمیری نے کہا اور وہ بھی یقیناً فدائی ہوگا
میرا کوئی خاوند نہیں رابعہ نے کہا میں کبھی کسی کی بیوی نہیں رہی اس بچے کا باپ کوئی اور ہے اور دوسرے کا کوئی اور میں نے اپنی زندگی شیخ الجبل حسن بن صباح کے نام وقف کر دی تھی میری ساری عمر فریبکاری میں گزری ہے
وہ ہم جانتے ہیں عبدالرحمن سمیری نے کہا ہم جانتے ہیں کہ فدائی عورتیں کیا کچھ کرتی ہیں ہمیں یہ بتاؤ کہ یہاں جو فدائی ہیں وہ کہاں کہاں رہتے ہیں؟
اس شہر کی ایک چوتھائی آبادی باطنیوں کی ہے رابعہ نے کہا کوئی ایک بھی اس شہر کا باشندہ نہیں سب باہر سے آئے ہیں میں اتنے زیادہ لوگوں کے گھر تو بتا نہیں سکتی صرف ایک جگہ بتاتی ہوں وہاں رات کو چھاپہ ماریں تو آپکو فدائوں کا ایک مرکز مل جائے گا وہاں جو آدمی ہونگے ان کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گی کہ ہر آدمی حسن بن صباح کا فدائی ہے اس نے طبیب کے گھر کا پتا بتا دیا پھر اس نے چند اور اہم آدمیوں کے نام اور ٹھکانے بتائے
آپ کی سلطنت میں خانہ جنگی حسن بن صباح نے شروع کرائی تھی رابعہ نے بتایا سلطان کو مٹھی میں لینے اور انہیں کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کے لیے روزینہ کو بھیجا گیا تھا…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-2/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 8 https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/ https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/#respond Sun, 04 Aug 2024 15:03:20 +0000 https://urducover.com/?p=5322 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 8

قسط نمبر    “29”   سے قسط    نمبر”32″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:29 }
اگلے روز سلطان نے صبح اٹھ کر بادام کی آخری گیری بھی کھا لی اور وہ سارا دن تڑپتے گزارا اور سورج غروب ھو گیا سلطان نے کہا کہ درویش کو بلاؤ اور کہو کہ کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزارے تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے
مزمل آفندی بہت دنوں سے سلطان کو نہیں دیکھ سکا تھا اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ طبیب نے اور اب درویش نے سختی سے کہا ہے کہ سلطان کے پاس کوئی ملاقاتی نہ آئے اس شام جب سلطان کی تکلیف بہت ہی بڑھ گئی تھی مزمل بے تاب سا ہو گیا اور سلطان کو دیکھنے چلا گیا برکیارق سے تو اس کی ملاقات ہر روز ہی ہوتی تھی اور برقیارق اسے بتاتا رہتا تھا کہ درویش نے کیا کہا ہے اور سلطان کی حالت کیا ہے لیکن اس شام وہ سلطان کے محل میں چلا گیا اسے برکیارق ملا مزمل نے برکیارق سے کہا کہ وہ سلطان کو دیکھنا چاہتا ہے اس نے ایسی بے تابی کا اظہار کیا کہ برکیارق اسے سلطان کے کمرے میں لے ہی گیا
وہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سلطان پلنگ پر لیٹا ہوا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اس کے چہرے کا رنگ لاش کی طرح سفید تھا مزمل تو سلطان ملک شاہ کا مرید تھا اور سلطان کو بھی مزمل سے بہت پیار تھا مزمل کی نظر درویش کے چہرے پر پڑی جو قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کا چہرہ دیکھتے ہیں مزمل کو دھچکا سا لگا جیسے اس کے پاؤں فرش سے اکھڑ رہے ہوں مزمل نے درویش کی آنکھ کے قریب گال کی ابھری ہوئی ہڈی پر کالا تل دیکھا جو مٹر کے دانے کے برابر تھا
ایسے تل والا آدمی اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا اور مزمل نے اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی اور اسے کہا بھی تھا کہ وہ کہیں مل چکے ہیں مزمل کو یاد آیا کہ اس تل والے آدمی کی داڑھی بڑے سلیقے سے تراشی ہوئی اور چھوٹی چھوٹی تھی اور وہ جوان تھا لیکن اس درویش کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی اور اس کی عمر کا اندازہ چالیس سال کے لگ بھگ تھا اچانک مزمل کو یاد آگیا کہ اس نے اس تل والے آدمی کو خلجان میں دیکھا تھا اور یہ آدمی اس کے ساتھ الموت تک گیا تھا اب اسے خیال آیا کہ یہ حسن بن صباح کا آدمی ہے
مزمل کی کھوپڑی کے اندر جیسے دھماکا ہوا ہو اس نے کچھ سوچے بغیر لپک کر بلکہ جھپٹ کر اپنا ہاتھ درویش کی لمبی داڑھی پر رکھا اور زور سے جھٹکا دیا لمبی داڑھی مزمل کے ہاتھ میں آ گئی اور درویش کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی کالی داڑھی رہ گئی یہ وہ آدمی تھا جو اسے خلجان میں ملا تھا اور الموت تک اس کے ساتھ گیا تھا اور یہ یاد میں اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا مزمل نے اس کی پگڑی اتار دی دیکھا کہ اس کے لمبے بال جو اس کے کندھوں تک پہنچتے تھے مصنوعی تھے سلطان چونک کر اٹھ بیٹھا برکیارق کھڑا ہوگیا
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص نے آپ کو باداموں کی گیری اور چھوہاروں میں زہر کھلا دیا ہے فوراً طبیب کو بلائیں
سلطان کی تلوار دیوار کے ساتھ لٹک رہی تھی مزمل نے لپک کر وہ تلوار نیام سے نکالی اور اس کی نوک درویش کی شہ رگ پر رکھ دی
سچ بتاؤ تم کون ہو ؟
مزمل نے پوچھا اور تمہارے ساتھ جو لڑکی ہے وہ کون ہے وہ تمہاری بہن نہیں اور تم حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہو
میرے دوست! درویش نے مسکرا کر کہا تم مجھے قتل کر سکتے ہو میں نے اپنا کام کر دیا ہے یہ لڑکی جو میرے ساتھ ہے اسے مشکوک یا مجرم نہ سمجھنا یہ میری بہن ہے یہ میری خفیہ زندگی سے لاعلم ہے میں سلطان کا قاتل ہوں اس لئے میں اس حق سے محروم ہو گیا ہوں کہ سلطان سے درخواست کرو کہ میری بہن کو پناہ دی جائے اور میرے جرم کی سزا اسے نہ دی جائے
سلطان ملک شاہ نے سنا کہ اس شخص نے درویشی کے بہروپ میں اسے زہر دے دیا ہے تو اسے موت سر پر کھڑی نظر آنے لگی
او ظالم انسان! سلطان نے اس جعلی درویش سے کہا اگر تو اس زہر کا اثر اتار دے تو میں تیرا یہ جرم معاف کر کے عزت سے رخصت کردوں گا اور تیری بہن کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کر دوں گا اور جو انعام مانگو گے دوں گا
نہیں بدنصیب سلطان! اس شخص نے کہا اس زہر کا کوئی تریاق نہیں جو میں نے باداموں اور چھوہاروں میں ملا کر آپ کو دیا ہے مجھے مرنے کا ذرا سا بھی غم نہیں مجھے انعام نہیں چاہیے میں امام حسن بن صباح کا فدائی ہوں میرے لئے یہی انعام کافی ہے کہ میں نے امام کی خوشنودی حاصل کر لی ہے اور میں سیدھا جنت میں جا رہا ہوں امام نے مجھے جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ میں نے کر دیا ہے
طبیب آ گیا تھا اس نے سلطان کی نبض دیکھی ایک دوائی بھی دی لیکن اس کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر آ گیا تھا اسے وہ چھپا نہ سکا
برکیاروق کی ماں اور روزینہ بھی سلطان کے کمرے میں آ گئی تھیں ماں نے تو رونا اور چلانا شروع کر دیا تھا برکیارق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر بھی وہاں موجود تھے
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص کو میرے حوالے کر دیا جائے اسے میں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا
اسے لے جاؤ! سلطان نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اسے کمر تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دو اور ایک قبر کھود کر اس کی بہن کو زندہ دفن کر دو
روزینہ نے خوفزدہ نظروں سے برکیارق کو دیکھا برکیارق روزینہ کے آگے جا کر کھڑا ہوا
نہیں! اس نے کہا بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی
بے وقوف نہ بن برکیارق! مزمل نے کہا یہ ناگن ہے جسے تم اپنی پناہ میں لے رہے ہو
خبردار برکیارق نے کہا اس لڑکی کے قریب نہ آنا اور سب یہ بھی سوچ لو کہ سلطان زندہ نہ رہے تو میں ان کا جانشین ہوں میں سلطان ہوں اب میرا حکم چلے گا
اس نے حسن بن صباح کے فدائی کی طرف اشارہ کرکے کہا اسے اسی طرح ہلاک کیا جائے جس طرح سلطان معظم نے حکم دیا ہے یہ ہنگامہ جاری ہی تھا کہ سلطان ملک شاہ نے آخری ہچکی لی اور فوت ہوگیا جعلی درویش کو قید خانے میں بھیج دیا گیا اسے اگلے روز کتوں سے مروانا تھا
اب برکیارق سلطنت سلجوقی سلطان تھا
یہ دوسری بڑی شخصیت ہے جسے حسن بن صباح نے نظام الملک کے بعد قتل کروایا
تاریخوں میں آیا ہے کہ برکیارق نے سلطان بنتے ہی تین حکم دیے
ایک یہ کہ سلطان ملک شاہ کو زہر دینے والے باطنی کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح سلطان نے وفات سے پہلے حکم دیا تھا
دوسرا یہ کہ اس باطنی کی بہن روزینہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا
اور اس نے تیسرا حکم یہ دیا کہ یہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ سلطان کو ایک باطنی نے زہر دے کر مارا ہے ہر کسی کو یہ بتایا جائے کہ سلطان طویل علالت کے بعد فوت ہوئے ہیں
اس تیسرے حکم کی تعمیل تو کی گئی لیکن موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا سلطان ملک شاہ کی موت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا نہ وہ کوئی عام آدمی تھا کہ لوگ سنتے اور رسمی سا افسوس کر کے بھول جاتے ملک شاہ کوئی روایتی سلطان یا بادشاہ بھی نہیں تھا کہ رعایا کو افسوس نہ ہوتا لوگ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے کہ آج ایک مرگیا تو کل دوسرا بادشاہ آجائے گا سلطان ملک شاہ کی موت تو یوں تھی جیسے سلطنت اسلامیہ کا سب سے زیادہ مضبوط ستون گر پڑا ہو
باطنی ابلیسیت کے طوفان کو روکنے والا یہی ایک شخص ہی تو تھا یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ اس طوفان کو نہیں روک سکا تھا اور ابلیسیت پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی لیکن سلطان ملک شاہ نے اپنی پوری توجہ اور اپنے پورے ذرائع اور اپنی پوری جنگی طاقت اسی کے خلاف مرکوز کر رکھی تھی وہ اسلام کا پاسبان تھا اسلام کے اصل نظریے اور روح کی آبیاری کرنے والا ملک شاہ ہی تھا وہ صرف اپنے خاندان کو ہی عزیز نہ تھا بلکہ رعایا کا بچہ بچہ اس کا نام احترام اور محبت سے لیتا تھا
وہ جب فوت ہوا تو اس کے گھر میں جو کہرام بپا ہوا وہ جنگل کی آگ کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں پھیل گیا ایک ہجوم تھا جو اس کے گھر پر ٹوٹ پڑا تھا دربان کسی کو اندر جانے سے روک نہ سکے تھے خود دربان دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ان سب کے سامنے اس باطنی جعلی درویش کو پکڑ کر باہر لائے اور اسے زود و کوب کیا جا رہا تھا گھر کی عورتیں چیخ چلا رہی تھیں کہ اس کافر نے سلطان کو زہر دے دیا ہے اس قسم کی صورتحال میں سلطان کی موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا
ایک تو سارے شہر میں برکیارق نے اعلان کروا دیا کہ سلطان ملک شاہ فوت ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف قاصد دوڑا دیے گئے کہ تمام سلطنت میں یہ اطلاع پہنچ جائے اس کے اعلان کے ساتھ دوسرا اعلان یہ بھی کروا دیا کہ کل نماز جنازہ کے بعد تمام لوگ گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھے ہو جائیں ایک باطنی کو سزائے موت دی جائے گی اس اعلان سے قدرتی طور پر ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کے اس باطنی کو سزائے موت کیوں دی جائے گی
سلطان ملک شاہ کا سرکاری عملہ گھر کے ملازمین اور دیگر شاہی خاندان سے کوئی نہ کوئی تعلق رکھنے والے افراد کچھ کم تعداد میں نہ تھے جذبات کی گرما گرمی میں ہر فرد جو اس راز سے واقف تھا یہ سوال پوچھنے والوں کو صحیح جواب دیتا اور غصے کا اظہار یوں کرتا تھا کہ کل اس کافر کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے گا
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلے روز ظہر کی نماز کے بعد جنازہ اٹھا اس وقت تک جہاں جہاں تک اطلاع پہنچ سکتی تھی وہاں وہاں سے لوگ سیلاب کی طرح امنڈ کر مرو میں آگئے تھے نماز جنازہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں پڑھائی گئی اس کے بعد سلطان ملک شاہ کو قبر میں اتارا گیا اور جب قبر میں مٹی ڈال دی گئی تو اس باطنی کو میدان میں لایا گیا جس نے سلطان مرحوم کو زہر دیا تھا اس کی سزا کے لئے گڑھا پہلے سے تیار تھا اسے گڑھے میں کھڑا کر دیا گیا جو اس کے گھٹنوں سے ذرا اوپر تک گہرا تھا
گڑھے میں مٹی ڈال کر مٹی کو اچھی طرح کُوٹ کُوٹ کر دبا دیا گیا اس شخص کے بازو کھول دیے گئے ایک طرف سے چار خونخار شکاری کتے لائے گئے اس شخص کے قریب لا کر کتے کھول دیے گئے اس باطنی کے جسم پر کوئی بو مل دی گئی تھی جس پر کتے ٹوٹ پڑے تماشائیوں کا ہجوم دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا اس باطنی کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلا رہی تھی آخر اس نے بڑی ہی بلند آواز میں نعرہ لگایا امام حسن بن صباح زندہ باد یہ اسکی آخری آواز تھی اس وقت تک کتے اس کی کھال ادھیڑ چکے تھے تھوڑی ہی دیر میں کتوں نے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیا اس کا سر دور جا پڑا اور پھر کتے اس کے جسم کے ٹکڑے اٹھا کر ادھر ادھر ہو گئے
لوگوں کو یہ نہ بتایا گیا کہ اس شخص کو یہ سزا کیوں دی گئی ہے لیکن لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ اس نے سلطان ملک شاہ کو زہر دیا ہے ایسی غصیلی آوازیں اور ایسی للکار بھی سنائی دیں کہ اس شخص کے خاندان کے بچے بچے کو یہاں لاکر کتوں سے پھڑوا دو کوئی کہہ رہا تھا کہ اس کے گھر کو آگ لگادو یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا
اس سوال کا صحیح جواب صرف روزینہ دے سکتی تھی جو اس باطنی کی بہن تھی اس وقت روزینہ سلطان کے محل کے ایک کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوگا
سلطان ملکشاہ سپرد خاک ہو گیا اور اس کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا اور سلطان کے گھر میں روزینہ ایک مسئلہ بن گئی اس خاندان کی کوئی عورت روزینہ کو قبول نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ سلطان کے قاتل کی بہن تھی یہ شک بے جا نہ تھا کہ وہ بھی قاتل کی اس سازش میں شریک تھی سب دیکھ رہے تھے کہ اس نے سلطان کے بڑے بیٹے برکیارق کو دام محبت میں گرفتار کر لیا تھا اور برکیارق نے اعلان کردیا تھا کہ کوئی بھی روزینہ سے باز پرس کی جرات نہ کرے اور وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا
برکیارق نے تو یہ اعلان کر دیا تھا لیکن برکیارق کی ماں کے لیے یہ شادی قابل قبول نہیں تھی وہ شام کے وقت کسی کو بتائے بغیر اس کمرے میں چلی گئی جہاں روزینہ اکیلی بیٹھی تھی تصور میں لایا جا سکتا ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوی کس قدر غمگین اور اداس ہو گی روزینہ نے اسے دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی
بیٹھ جاؤ لڑکی! سلطان مرحوم کی بیوہ نے ایک طرف بیٹھتے ہوئے کہا میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنے آئی ہوں تمہیں صرف میرے بیٹے نے ہی پسند نہیں کیا تھا بلکہ مرحوم سلطان نے اور میں نے بھی تمہیں دل سے پسند کیا اور فیصلہ کردیا تھا کہ برکیارق تمہارے ساتھ شادی کرلے لیکن جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں کہ اس شخص کی بہن کو اپنی بہو بنا کر ایک سلطان کے خاندان کی فرد بنا لو جس نے صرف مجھے ہی بیوہ نہیں کیا بلکہ مرحوم کی دو اور بیویاں بھی وہ ہوئی ہیں اور لوگوں سے پوچھنا کہ وہ یوں کہہ رہے ہیں کہ سلطنت سلجوقیہ بیوہ ہو گئی ہے میں تمہیں کوئی سزا سنانے نہیں آئی میں تمہارے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتی ہوں یہ بتاؤ کہ تمہیں کہاں جانا ہے میں دوچار محافظوں کے ساتھ باعزت طریقے سے تمہیں وہاں تک پہنچانے کا انتظام کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے غم سے بوجھل آواز میں کہا یہ تو بعد کا حادثہ ہے کہ سلطان میرے بھائی کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اس صورت میں یہی ھونا چاہیئے کہ آپ سب مجھے دھتکار دیں میں اس سے پہلے کی بات آپ کو سناتی ہوں برکیارق نے جب مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو میں نے انکار کر دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میں شاہی خاندان کے قابل نہیں ہم آپ کے مقابلے میں بہت چھوٹے لوگ ہیں خاتون محترم! برکیارق نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اسکے ساتھ یہاں آؤں اور سلطان مرحوم اور آپ مجھے دیکھیں میں نہیں آرہی تھی آئی اس لئے کہ میرے بھائی نے یہاں آنا تھا اور وہ مجھے اکیلا سرائے میں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی یعنی میرے بھائی کی نیت کیا تھی میں یہاں آگئی سلطان مرحوم نے مجھے دیکھا
وہ باتیں مجھے کیوں سناتی ہو سلطان مرحوم کی بیوہ نے کہا میں نے تمہیں کوئی سزا نہیں دینی میں کہہ چکی ہوں کہ تمہیں باعزت طریقے سے رخصت کروں گی
میری عرض ہے کہ میں جو کہنا چاہتی ہوں وہ آپ سنیں روزینہ نے کہا میں یہ بتا رہی ہوں کے میں برکیارق کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرچکی تھی برکیارق نہیں مان رہا تھا سلطان مرحوم نے اور آپ نے بھی مجھے قبول کر لیا تو میں خاموش ہوگئی اس کے بعد جو خوفناک اور انتہائی المناک صورت پیدا ہوئی اس کے پیش نظر میں اپنے آپ کو اس احترام اور عزت کی حقدار نہیں سمجھتی جو آپ مجھے دے رہی ہیں میری آپ سے درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے میرے بھائی کو سزائے موت دی ہے اسی طرح مجھے بھی سزائے موت دیں میں سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ہوں میں رحم کی طلب گار نہیں
کیا تمہیں معلوم تھا کہ تمہارا بھائی سلطان کو زہر دینا چاہتا ہے؟
بیوہ نے پوچھا
نہیں روزینہ نے بڑی زور سے سر ہلا کر کہا اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں برکیارق کو یتیم نہ ہونے دیتی اور اسے دھوکہ نہ دیتی میں کوئی بات چھپا نہیں رہی سچ بول رہی ہوں سچ یہ ہے کہ برکیارق پہلا آدمی ہے جسے میں نے دل و جان سے چاہا ہے اور برکیارق مجھے اس سے بھی زیادہ چاہتا ہے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر سکوں میں اب برکیارق کی بیوی نہیں بنوں گی مجھے اپنے بھائی کی نیت کا علم تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ میں سلطان کے قاتل کی بہن ہوں مجھے سزائے موت ملنی چاہیے
تم لوگ آخر آئے کہاں سے تھے ؟
سلطان کی بیوہ نے پوچھا کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تمہارا بھائی باطنی ہے ؟
یہ میں کیسے مان سکتی ہوں میرا خیال ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا
محترم خاتون! روزینہ نے کہا ہمارا کوئی ایک ٹھکانہ ہوتا تو میں آپ کو بتاتی کہ ہم کہاں سے آئے ہیں بھائی نے بتایا تھا کہ ہم اصفہان کے رہنے والے تھے بچپن میں میرے ماں باپ مر گئے تھے اور اس بھائی نے مجھے پالا پوسا تھا میں نے اسے خانہ بدوش ہی دیکھا چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا جس سے ہمیں دو وقت کی روٹی اور سفر کے اخراجات مل جاتے تھے ہم کئی ایک شہروں اور قصبوں میں ایک ایک سال اور دو دو سال بھی رہے ہیں بھائی مجھے ہمیشہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اس لئے میں نہیں بتاسکتی کہ باہر اس کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ ہر سال حج کا ارادہ کرتا تھا جو پورا نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ میرے فرض سے فارغ ہوکر حج کا فریضہ ادا کرنے کا عزم کیے ہوئے تھا
اس گفتگو کے دوران روزینہ روتی رہی آنسو پوچھتی رہی اور کبھی تو وہ سسکنے لگتی تھی
میرے بیٹے نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ہی شادی کرے گا سلطان کی بیوہ نے کہا وہ میری نہیں مانے گا اور وہ کسی کی بھی نہیں مانے گا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر سکتی ہو؟
انکار ہی تو کر رہی ہوں روزینہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا میں یہ جو کہتی ہوں کہ مجھے بھی سزائے موت دے دیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں قاتل کی بہن ہوں اور اس کے ساتھ تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں کوئی گھر اور میرا کوئی وارث نہیں میرے لیے ایک ہی پناہ ہے اور وہ قبر ہے میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ مجھے قبر میں اتار دیں میں آپ کو فیصلہ سناچکی ہوں کہ آپ کے خاندان کی فرد نہیں بنوں گی نہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتی ہوں
برکیارق کی ماں روزینہ کے رونے سے اس کے بولنے کے انداز سے اور اس کے بار بار یہ کہنے سے کہ اسے سزائے موت دی جائے اتنی متاثر ہوئی کہ اس سوچ میں پڑ گئی کہ اس لڑکی کو بھٹکنے کے لئے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ چڑھ جانے کے لیے تنہا نہ چھوڑے یہ تو برکیارق کی ماں کا فیصلہ تھا کہ اس کا بیٹا اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرے گا لیکن وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ لڑکی کو کہاں بھیجے ویسے بھی وہ سلطان مرحوم کی طرح رحمدل عورت تھی
میں تمہیں اپنے گھر سے نکالنا نہیں چاہتی روزینہ! سلطان کی بیوہ نے کہا اگر میں تمہاری شادی کسی اور سے کرا دوں تو تم قبول کروگی؟
میں بلا سوچے کوئی جواب نہیں دے سکتی روزینہ نے کہا خدا کی قسم ابھی تو میرے دل اور دماغ پر اس قدر بوجھ ہے کہ میں یہی ایک فیصلہ کئے ہوئے ہوں کہ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں
میں تمہیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہوں سلطان کی بیوہ نے کہا تم سوچ لو پھر مجھے بتا دینا میں تمہارا کوئی بہتر بندوبست کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے کہا آپ یہ کام کریں کہ برکیارق کے دل سے مجھے نکال دیں میرا مطلب یہ ہے کہ اسے قائل کریں کہ میرا خیال چھوڑ دے بے شک وہ سلطان ہوگیا ہے اور اس نے سلطان کی حیثیت سے حکم دیا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی شادی کرے گا لیکن اس کا یہ حکم مجھے اچھا نہیں لگا بیٹے ماؤں کو حکم دیتے اچھے نہیں لگتے بلکہ یہ گناہ ہے میں اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتی
سلطان کی بیوہ نے سر جھکا لیا جیسے اسے کوئی اور سوچ آ گئی ہو کمرے کا دروازہ کھلا ماں نے اور روزینہ نے دیکھا دروازے میں برکیارق کھڑا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے ماں کا اس کمرے میں آنا اچھا نہیں لگا
آپ کا احترام مجھ پر فرض ہے ماں برکیارق نے اپنی ماں سے کہا لیکن یہ پوچھنا میرا حق ہے کہ آپ یہاں کیوں آئیں ہیں میرا خیال ہے کہ آپ اسے یہ کہنے آئی ہیں کہ یہ قاتل کی بہن ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا برکیارق روزینہ کے بہتے آنسو دیکھ رہا تھا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی ماں اسے کیا کہہ رہی ہوگی
برکیارق! روزینہ نے کہا اور ذرا رک کر بولی معاف رکھنا مجھے برکیارق نہیں بلکہ مجھے سلطان محترم کہنا چاہیے آپ کی والدہ نے جو کچھ کہا اور جو کچھ میں نے انہیں کہا ہے وہ میں لفظ با لفظ سنا دیتی ہوں
روزینہ نے وہ تمام باتیں جو اسکے اور برکیارق کی والدہ کے درمیان ہوئی تھی سنادیں
تمہیں اس فیصلے پر عمل کرنا ہوگا جو میں سنا چکا ہوں برکیارق نے کہا میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں تمہیں حکم دیکر اپنی بیوی بناؤں گا یہ میرے دل کی آواز اور میری روح کا مطالبہ ہے
روح کی آواز روح ہی سن سکتی ہے سلطان محترم! روزینہ نے کہا میری روح مر گئی ہے میرے بھائی نے سلطان کو ہی زہر نہیں دیا بلکہ میری روح کو بھی زہر دے کر مار ڈالا ہے میرے ضمیر پر بڑے ہی گھناؤنے جرم کا بوجھ ہے میں یہاں سے بھاگ جاؤ گی اور میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے بھاگ جانے دیں
میرے عزیز بیٹے! برکیارق کی ماں بول پڑی تم ابھی نوجوان ہو میری عمر دیکھو میں نے دنیا دیکھی ہے اور انسانوں کو پڑھا ہے میں تمہیں اس شادی کی اجازت دے سکتی ہوں لیکن آگے جو کچھ ہو گا وہ میں جانتی ہوں
یہ بتاؤ روزینہ! برکیارق نے پوچھا تم نے میری ماں سے کہا ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہارے بھائی کی باہر سرگرمیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا وہ باطنی کیسے بنا؟
اس نے مرنے سے پہلے امام حسن بن صباح کا نعرہ لگایا تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا وہ فدائی کیسے بنا تھا؟
تم جانتی ہو گی
میں کچھ بھی نہیں جانتی روزینہ نے جواب دیا وہ مجھے الموت لے گیا تھا وہاں ہم سات آٹھ مہینے رہے تھے میں نے آپ کی والدہ محترمہ کو بتایا ہے کہ مجھے وہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اور مجھے کچھ بھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ باہر کیا کرتا ہے اب معلوم ہوا ہے کہ وہ باطنیوں سے جا ملا تھا اور جیسے کہ آپ کہہ رہے ہیں وہ فدائی بن گیا ہوگا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ روزینہ اللہ کرے تمہیں کسی نیک آدمی کے پلے باندھ دوں تو میں حج کا فریضہ ادا کر لوں
ماں! برکیارق نے کہا آج ہی ہم نے اپنے عظیم باپ کو دفن کیا ہے غم اور دکھ ابھی تازہ ہے کچھ دن گزر جانے دیں اس لڑکی کو یہی رہنے دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا کچھ دن انتظار کرلیں
سلطان محترم! روزینہ نے کہا آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو میری یہ خوبی پسند آئی ہے کہ میں وہی بات کرتی ہوں جو میرے دل میں ہوتی ہے میں سچ بولتی اور سچ سنتی ہوں خواہ وہ کتنا ہی تلخ ہو میرے ذہن میں گناہ کا تصور ہی نہیں آیا اس لئے مجھ میں اخلاقی جرات بھی ہے میں آپ کو آپ کا باپ واپس نہیں دے سکتی میں چاہتی ہوں کے اپنی جان دے دوں شاید اس سے آپ کے اور آپ کی والدہ محترمہ اور خاندان کے دوسرے افراد کی تسکین ہو جائے یہ میری روح کی آواز ہے کہ مجھے بھی سزائے موت ملنی چاہئے میں آپ کی والدہ محترمہ کو بتا چکی ہوں کہ میں زندہ رہوں گی بھی تو کس کے لیے؟
میرے لئے برکیارق نے کہا میں جو فیصلہ کر چکا ہوں اس پر قائم رہوں گا لیکن اپنی ماں سے اجازت لینے کے لیے میں کچھ دن انتظار کروں گا
یہ حسین و جمیل لڑکی برکیاروق کے اعصاب پر تو پہلے ہی غالب آ چکی تھی لیکن اب اس نے جو باتیں کی اور جس انداز سے کیں برکیارق اور زیادہ متاثر ہوا اس کی ماں بھی شش و پنج میں پڑ گئی اور ماں بیٹے نے فیصلہ کیا کہ روزینہ کو کچھ دن یہیں رکھا جائے اور پھر کچھ فیصلہ کیا جائے
مرو پر غم و غصے کی جو گھٹا چھا گئی تھی وہ سلطان کی موت کی خبر کے ساتھ ساتھ تمام سلطنت سلجوقیہ پر چھا گئی ساری سلطنت ماتم کدہ بن گئی
الموت میں خوشیوں کا ہنگامہ تھا وہاں سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر پہنچی تو باطنی گھروں سے نکل آئے اور خوشی سے ناچنے کودنے لگے جشن کا سا سماں بندھ گیا مرو چونکہ دارالسلطنت تھا اس لیے اس شہر میں باطنیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی جونہی سلطان مرحوم کے قاتل کو کتوں نے چیر پھاڑ دیا ایک جاسوس الموت کی طرف چل پڑا تھا
یا امام ! اس جاسوس نے حسن بن صباح سے کہا تھا سب سے بڑا دشمن مارا گیا ہے دفن بھی ہو گیا ہے اور اس کی گدی پر اس کا بڑا بیٹا برکیارق بیٹھ گیا ہے
اور قاتل کا کیا بنا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اسے آدھا زمین میں گاڑ کر کتوں سے مروایا گیا ہے جاسوس نے بتایا
اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
حسن بن صباح نے پوچھا تھا کچھ معلوم ہے وہ کہاں ہے؟
سلطان کے گھر میں ہے جاسوس نے جواب دیا تھا اس نے نئے سلطان کو پہلے ہی اپنی جال میں لے لیا تھا
کیا وہ اکیلی کچھ کر سکے گی؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اس سوال کا جواب دو تین دنوں بعد آجائیے گا جاسوس نے کہا تھا میں سلطان ملک شاہ کے دفن ہونے کے بعد اپنے آدمی کی سزائے موت دیکھ کر چل پڑا تھا
حسن بن صباح نے اپنے جاسوس کو فارغ کردیا اور اپنے مصاحبوں اور نائبین کو بلایا وہ فوراً سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر سن کر خوشی اور فتح کا واویلا بپا کرنے لگے
دیکھ لیا تم نے حسن بن صباح نے کہا میں نے کچھ عرصہ پہلے تم لوگوں کو ایک اصول بتایا تھا کہ کسی خاندان کو تباہ کرنا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے ہر فرد کو قتل کردیا جائے بلکہ اتنا ہی کیا جائے کہ اس خاندان کے سربراہ کا دماغ خراب کر دو
اسے عیش و عشرت میں ڈال دو اور اسے یہ یقین دلادوں کہ تم آدھی دنیا کے بادشاہ ہوں اور تم جیسا کوئی نہیں اس پر کوئی نشہ طاری کردو خوبصورت اور چالاک عورت سے بڑھ کر کوئی ایسا نشہ نہیں جو کسی زاہد اور پارسا کی توبہ اور قسمیں نہ توڑ سکے کسی خاندان کو تباہ کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس خاندان پر ایک شیطان عورت آسیب کی طرح غالب کر دو تم نے ایسے خاندان دیکھے ہونگے جو عورت اور دولت پر تباہ ہوئے ہیں
یا امام! ایک مصاحب نے کہا ہم نے دیکھ لیا ہے
کسی سلطنت کو تباہ کرنا ہو تو حسن بن صباح نے کہا اس کے حکمران کو عظمت کے راستے سے ہٹا دو اور اس کے دل سے رعایا کی محبت نکال دو پھر بھی کام نہ بنے تو اسے قتل کردو
یا امام! ایک مصاحب نے پوچھا یہ کام تو ہو گیا اب بتائیں اس سے آگے کیا کرنا ہوگا؟
یہ کام وہ لڑکی کرے گی حسن بن صباح نے کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکی بڑی تیز ہے اور اپنا کام کرنے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتی ہے اس لڑکی کا انتخاب میں نے خود کیا تھا اب یہ کرنا ہے کہ کوئی ایسا عقلمند آدمی مرو جائے جو روزینہ کے ساتھ رابطہ رکھے مجھے کون بتا سکتا ہے کہ یہ لڑکی قابل اعتماد ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ کر لی گی
میں بتا سکتا ہوں یا امام! ایک آدمی بولا اس کی تربیت میری نگرانی میں ہوئی ہے مرو میں اس کے ساتھ ایک تجربے کار آدمی اور دو بڑی خرانٹ عورتیں موجود ہیں
تم جانتے ہو ہم نے مرو میں کیا کرنا ہے حسن بن صباح نے کہا ہمارے اس فدائی نے وہاں زمین ہموار کر دی ہے اس نے سلطنت سلجوقیہ کا سر کاٹ دیا ہے اب اس کا باقی جسم دو حصوں میں کاٹنا ہے
ہاں امام! ایک آدمی نے کہا سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت میں خانہ جنگی کرانی ہے یہ کام روزینہ کرا لے گی
ملک شاہ کا بڑا بیٹا برکیارق جوان آدمی تھا حسن بن صباح نے کہا اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی میں اس کی فطرت اور خصلت کے متعلق تمام معلومات حاصل کر چکا ہوں وہ تو یوں سمجھو جیسے موم ہے اگر روزینہ ثابت قدم رہی تو وہ اس موم کو پگھلا کر اپنے سانچے میں ڈھال لے گی روزینہ بہت ہی حسین لڑکی ہے میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہوں
یا امام! اس کے ایک مصاحب نے کہا آپ یہ بات کیوں دہراتے ہیں ایک بار آپ نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ ملک شاہ کے قتل کے بعد کیا کرنا ہے یہ ہم پر چھوڑیں کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یا نہیں
تم اچھی طرح جانتے ہو حسن بن صباح نے کہا کہ میرے حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو ان سب کا کیا انجام ہوگا جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا
یہ داستان اس دور میں داخل ہو گئی تھی جو بلا شک و شبہ حسن بن صباح کا دور تھا ابلیسیت نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی اس سے مرو اور رے جیسے شہر بھی محفوظ نہیں رہے تھے
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح نے ایک جنت بنائی تھی اس جنت میں جو داخل ہوتا تھا وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا اسے کچھ عرصے کے لیے وہاں سے نکال لیا جاتا تو وہ اسی جنت میں جانے کو تڑپتا تھا اسے کہا جاتا کہ وہ فلاں فلاں بڑی شخصیت کو قتل کر آئے تو وہ ہمیشہ اسی جنت میں رہے گا اس طرح وہ آدمی جا کر دو تین بتاۓ ہوئے آدمیوں کو قتل کر دیتا اور بعد میں اسے بھی قتل کر دیا جاتا تھا اس جنت کی حقیقت اس سے کچھ مختلف تھی جو تاریخ نے بیان کی ہے
بیشتر مؤرخوں نے حسن بن صباح کی جنت کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی تفصیل “ائمہ تلبیبس” میں ان الفاظ میں ملتی ہے حسن بن صباح نے جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی اور اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے انکی لوح دل پر یہ بات ثبت کرادی کہ شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح تمام دنیا کا مالک اور اس دنیا میں بڑا قادر ہے اس تعلیم و تلقین کے علاوہ اس نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی وجہ سے اس جماعت کو جاں سپاری پر آمادہ کرنا بالکل چٹکی بجانے کا کام تھا
اس نے اپنا قلعہ الموت کے اردگرد نظر فریب مرغزاروں اور جاں بخش نزہت گاہوں میں نہایت خوبصورت محل برج اور کوشکیں کی تعمیر کروائیں عالی شان محلات کی دل آویزی اور خوشنمائی باغوں اور مرغزاروں کی نزہت اور تروتازگی دیکھنے والے کے دل پر جادو کا اثر کرتی تھی ان کے بیچوں بیچ جنت کے نام سے ایک نہایت خوشنما باغ بنوایا جس میں وہ تمام سامان مہیا کیے جو انسان کے لیے موجب تفریح ہو سکتی ہیں مثلا اشیاء تعیش ہر قسم کے میوہ دار درخت پھول چینی کے خوبصورت ظرورف بلوری طلائی اور نقرائی سامان بیش قیمت فرش یونان کے اسباب تعیشات پر تکلف سامان خوردنوش نغمہ سرور جنت کی دیواروں پر نقش و نگار کا نہایت نازک کام بنوایا
نالوں کے ذریعے سے محلات میں پانی دودھ شراب اور شہد جاتا تھا ان سب لذائذ کے علاوہ دل بہلانے کے لئے پری تمثال کمسن نازنین موجود تھیں ان کی سادگی وضع اور ان کے حسن و جمال کی دلربائی وہاں دیکھنے والوں کو یہ یقین دلاتی تھی کہ یہ عالم سفلی کے سوا اور ہی عالم کی پیکر ہیں کوشش کی گئی تھی کہ اس جنت میں داخلے کے بعد زائر کے دل پر فرحت کا احساس شیری اثر پیدا کیا جائے کہ وہ اس فرحت اور مسرت کو دنیاوی نہیں بلکہ اخروی یقین کرے
یہاں کے حوروغلمان کا تمام کاروبار بالکل راز داری سے انجام پاتا تھا ہر وہ چیز جس کی باہر سے مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اس حسن اسلوب سے فراہم کی جاتی تھی کہ کسی کو بھی سراغ نہ لگ سکتا تھا
حسن بن صباح علاقہ طالقان اور روزبار وغیرہ کے خوبصورت تندرست اور قوی ہیکل نوجوان جو سادہ لوح ہوتے اور ان میں ہر بیان باور کرنے اور ایمان لانے کی صلاحیت نظر آتی فدائین کی جماعت میں بھرتی کر لیتا یہ وہ لوگ تھے جو حسن بن صباح کے ہر حکم کی بلاعذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے
بھنگ جسے عربی میں حشیش کہتے ہیں شاید ان ایام میں ایک غیر معمولی اور غیر معمولی چیز تھی اور غالبا حسن بن صباح ہی پہلا شخص ہے جس نے اپنی دانشمندی سے وہ کام لیا جو اس سے پہلے شاید کسی نے نہ لیا ہوگا جب فدائی امیدواری کا دور ختم کر لیتا تو حسن بن صباح اسے بھنگ کے اثر سے بے ہوش کرکے جنت میں بھجوا دیتا جہاں وہ جاں پرور حوروں کی گود میں آنکھ کھولتا اور اپنے آپ کو ایسے عالم میں پاتا جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں شاید بڑے بڑے شاہان عالم کو بھی نصیب نہیں تھیں
یہاں وہ انواع و اقسام کی نزہت گاہوں کی سیر کرتا حوروں کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ان کی صحبت انکی جانستانی کرتی اور ان مہوشوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر مئے ارغوانی کے جام اڑاتا اعلی سے اعلی غذائیں اور بہترین قسم کے میوے کھاتا اور ہر طرح کے تعیشات میں محو رہتا ہفتہ عشرہ کے بعد جب ان محبت شعار حوروں کی محبت کا نقش اس کے دل پر اتنا گہرا پڑجاتا کہ پھر مدت العمر مٹ نہ سکے تب وہی حوریں بھنگ کا ایک جام پلا کر اسے شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح کے پاس بھجوا دیتیں جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے شیخ کے قدموں میں پاتا اور جنت کے چند روزہ قیام کی خوشگوار یاد اس کو سخت بے چین کر دیتی
حسن بن صباح اس کو جنت میں بھیجے جانے کی پھر امید دلاتا اور کہتا کہ جنت کے دائمی قیام کی لازمی شرط جاں ستانی اور جاں سپاری ہے وہ شخص جس کے دل پرگذشتہ عیش و عشرت کا اثر اتنا مضبوط پڑ چکا تھا اور حوروں کی ہم نشینی کی تصویر ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی تھی وہ حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل میں کس طرح کوتاہی کر سکتا تھا
چنانچہ جب حسن بن صباح کو کسی دشمن کا قتل کرانا منظور ہوتا تھا تو وہ ایک فدائی نوجوان کو حکم دیتا کہ جا فلاں شخص کو قتل کرکے قتل ہوجا مرنے کے بعد فرشتے تجھے جنت میں پہنچا دیں گے
یہ فدائی اپنے حوصلے سے بڑھ کر مستعدی دکھاتا تاکہ کسی طرح جلد جنت میں پہنچ کر وہاں مسرتوں سے ہمکنار ہو یہی وہ خطرناک لوگ تھے جن سے خون آشامی کا کام لیا جاتا تھا ان لوگوں کو جس کے قتل کا بھی اشارہ دیا جاتا وہ وہاں کوئی روپ بھر کر جاتے رسائی اور آشنائی پیدا کرتے اس کے معتمد بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کر دیتے تھے
تاریخ کی یہ تحریر شہادت مصدقا تسلیم نہیں کی جاسکتی اس دور میں محلات کی تعمیر چند دنوں یا چند مہینوں میں ناممکن تھی جس قسم کے محلات مورخوں نے بیان کئے ہیں ان کی تعمیر کے لئے پچیس تیس سال درکار تھے پھر پھلدار درختوں کا جو ذکر آتا ہے وہ اس لیے مشکوک ہے کہ درخت اتنی جلدی تناور نہیں ہو سکتا کہ وہ پھل اور میوہ جات دینے لگتا مؤرخوں اور ان کے بعد آنے والے تاریخ نویسوں نے ایک دوسرے کی تحریروں میں زیب داستان اور مبالغہ آرائی کے ذریعے اضافے کئے اور ہمارے سامنے اس جنت کا نقشہ آگیا جو اللہ کی بنائی ہوئی جنت سے بھی زیادہ خوشنما اور دلفریب لگتا ہے دودھ شہد اور شراب کے نلوں کو تو شاید تصور میں لایا جا سکے اور لایا بھی جا رہا ہے لیکن ان کا وجود بھی مشکوک ہے
پھر یہ سب کیا تھا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی اس کے قاتل فدائین نے اسی جنت میں جنم لیا تھا ان قاتلوں کی اگلی نسلیں حسن بن صباح کی موت کے بعد بھی قاتل ہی کہلاتی رہیں اور ان نسلوں نے کرائے کے قتل کی وارادتوں میں نام حاصل کیا تھا
قارئین کرام کو قبل از مسیح کے دور میں کچھ دیر کے لیے لے چلتا ہوں ایسی ایک جنت کا ذکر یونان کی دیو مالائی داستانوں میں ملتا ہے یہ اس دور کی بات ہے جب یونان والوں نے پوجا کرنے کے لئے کئی دیوتا اور دیویاں تخلیق کر لی تھیں یہ معبود آسمانوں پر رہتے تھے اور زمین پر بھی ایک داستان میں اس جنت کا ذکر ملتا ہے جس کی خوشنمائی اور دلکشی کی تفصیلات پڑھو یا سنو تو حسن بن صباح کی جنت سامنے آجاتی ہے لیکن وہ یونانی داستان لکھنے والے تھے جنہوں نے اس جنت کی حقیقت بھی بیان کردی تھی اس جنت کا تجزیہ آج کے سائنسی دور میں جب دیگر علوم بھی نقطہ عروج پر ہیں کرو تو یقین آجاتا ہے کہ وہ جنت ہی تھی لیکن اس کی حقیقت کیا تھی؟
حقیقت یہ تھی کہ یونان میں ایک پہاڑ تھا اس پہاڑ میں ایک غار تھا جو دور اندر تک چلا گیا تھا لیکن سیدھا نہیں بلکہ بھول بھلیوں کی صورت میں اس وقت کے بادشاہ نے اس غار کے اندر کوئی ایسی جڑی بوٹیاں رکھ دی تھیں جن کی بو پھیل گئی تھی تھوڑے تھوڑے عرصے بعد یہ جڑی بوٹی تروتازہ پھر وہاں بکھیر آتے تھے
بادشاہ اپنے کسی مخالف کو یا کسی اور وجہ سے کسی آدمی کو کوئی لالچ دے کر اس غار میں بھیج دیتا تھا وہ شخص اس غار میں دور اندر تک جاتا تو اسے اندر حوریں نظر آنے لگتی تھیں اور اسے یوں نظر آتا جیسے وہ اس کے استقبال کے لیے بے تاب ہوں وہ ان کے ساتھ عیش عشرت کرتا اور پھر اسے یہ حوریں ایسے ایسے کھانے پیش کرتیں جو زمین پر رہنے والے انسانوں نے کبھی دیکھے اور کبھی سنے نہیں تھے یہ تحریر بھی کیا گیا کہ اندر جانے والے اور کچھ دن اندر رہنے والے شخص کو باہر لائے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آیا اور دوڑ کر پھر غار میں چلا گیا وہ اس جنت میں سے کسی قیمت پر نکلنا نہیں چاہتا تھا وہ پھر اندر چلا جاتا اور چند دنوں میں ہی مر جاتا اور تھوڑے عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتی حقیقت یہ تھی کہ اس غار کے اندر چھوٹی چھوٹی چٹانیں ستونوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں ان چٹانوں کو وہ حوروغلمان سمجھ لیتا تھا اور یہ چٹانے اسے حوروغلمان ہی کی شکل میں نظر آتی تھیں وہ جو مرغن اور عجیب و غریب خانے کھاتا تھا وہ کنکریاں اور مٹی ہوتی تھیں
یہ اس بو کا اثر تھا جو جڑی بوٹیوں سے اٹھتی اور غاروں کے اندر فضا میں پھیلتی رہتی تھی اس بو میں نشے کا ایسا اثر تھا جو ذہن کو انتہائی خوبصورت اور دلفریب تصور دیتا تھا یہ دیومالائی داستان بہت ہی طویل ہے جس میں تخیلاتی اور انہونی واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں لیکن داستان لکھنے والے نے دانشمندی کا یہ ثبوت دیا ہے کہ اس جنت کی اصل حقیقت پوری طرح بیان کر دی ہے
میں آپکو یہ سنانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یونان کی اس دیومالائی داستان کا ایک باب مختصراً بیان کر دوں اس میں وہ عقل و دانش کا راز نظر آتا ہے جو ہر انسان کے لیے سمجھنا ضروری ہے یہ داستان لکھنے والا لکھتا ہے کہ ایک شہزادے کے دل میں یہ خواہش ابھری کے وہ اس غار میں جائے اور اس جنت میں دو تین دن گزار کر واپس آجائے
اس نے اپنے بوڑھے اتالیق سے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا تو بزرگ اتالیق نے اسے سمجھایا کہ اس جنت کی حقیقت کیا ہے شہزادہ چونکہ شہزادہ تھا اس لیے وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے اتالیق کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کے ساتھ اس غار تک چلے اتالیق نے دھاگے کا ایک گولا اٹھایا اور شہزادے کو ساتھ لے کر اس پراسرار غار تک چلا گیا اس نے دھاگے کا ایک سرا شہزادے کے کلائی سے باندھ کر کہا کہ تم غار کے اندر چلے جاؤ اندر بھول بھلیاں ہیں جن میں تم گم ہو جاؤ گے ان میں سے تم نکل نہیں سکو گے تمہیں یاد ہی نہیں رہے گا کہ تم کس راستے سے اندر آئے تھے یہ دھاگہ ٹوٹنے نہ دینا میں باہر بیٹھ جاؤں گا اور دھاگا کھولتا جاؤں گا جہاں تمہیں حوریں اور ایسی ہی چیزیں نظر آنے لگیں وہیں سے اس دھاگے کو پکڑ کر واپس آ جانا یہ دھاگا تمہاری رہنمائی کرے گا
شہزادہ غار میں داخل ہوگیا اور بزرگ اتالیق دھاگا ڈھیلا کرتا گیا کرتا گیا حتیٰ کہ بڑاہی لمبا دھاگا شہزادے کے ساتھ غار کے اندر چلا گیا دن گزر گیا مگر شہزادہ باہر نہ آیا یہاں کئی اور واقعات بیان کئے گئے ہیں لیکن میں آپ کو صرف ایک حصہ پیش کرکے بتانا چاہتا ہوں
بزرگ اتالیق نے جب دیکھا کہ شہزادہ ابھی تک باہر نہیں آیا وہ دھاگے کا باقی گولا باہر رکھ کر دھاگے کو پکڑ پکڑ کر غار کی بھول بھلیوں میں جاتے شہزادے تک پہنچ گیا خود اس معمر اور دانشمند اتالیق کو حسین و جمیل چیزیں نظر آنے لگیں مگر اس نے اپنی ناک پر کپڑا باندھ لیا اور شہزادے تک جا پہنچا شہزادہ مٹی کھا رہا تھا اور قہقہے لگارہا تھا اور بازو پھیلا کر یوں بازو اپنے سینے پر سمیٹ لیتا تھا جیسے اس نے اپنے بازوؤں میں کوئی چیز دبوچ لی ہو اتالیق شہزادے کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر لایا اگر دھاگہ ٹوٹ جاتا تو دونوں باہر نہ نکل سکتے
باہر آکر شہزادہ اپنے اتالیق سے الجھ پڑا اور پھر غار کی طرف دوڑا اتالیق نے اسے پکڑ لیا لیکن اتالیق بوڑھا اور شہزادہ نوجوان تھا شہزادے کو بے بس کرنے کے لئے اس کے سر کے پچھلے حصے پر پتھر کی ضرب لگائی شہزادہ بے ہوش ہو کر گرپڑا شہزادہ جب ہوش میں آیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر فورا ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے غار کا دہانہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا اس نے اتالیق سے پوچھا اتالیق نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ اپنے منہ میں انگلیاں ڈالو اور انگلیاں دیکھو شہزادے نے اپنے منہ میں ایک انگلی پھیری تو اسے کچھ مٹی نظر آئی جو اس کی انگلی کے ساتھ لگ گئی تھی اس وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کے دانتوں کے درمیان ریتی اور مٹی موجود ہے اس نے تھوک تو مٹیالے رنگ کا تھوک تھا شہزادے نے اپنے دانشمند اتالیق کی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا
میرے عزیز شہزادے! اتالیق نے کہا میں آج تمہیں ایسا سبق دوں گا جو مرتے دم تک تمہیں فریب کاروں اور بے وفا لوگوں کے دھوکوں سے بچائے رکھے گا اس غار کے اندر کوئی جنت نہیں نہ کوئی حور ہے اور نہ حوروں جیسے لڑکے اور نہ ہی وہاں آسمان سے اترے ہوئے کھانے ہیں اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی شراب ہے جسے تم سمجھتے ہو زمین پر نہیں ملتی یہ جنت ہر انسان کے اپنے ذہن میں موجود ہے ہر انسان زندگی کے حقائق سے بھاگ کر اپنے ذہن کی جنت میں چلا جانا چاہتا ہے لیکن اس کے ہوش و حواس اس حد تک بیدار رہتے ہیں کہ وہ تصور کو تصور ہی سمجھتے ہیں اس غار میں ایک خاص بوٹی کی بو چھوڑی گئی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن سے یہ حقیقی زندگی نکل جاتی ہے اور جو حسین تصور انسانی ذہن نے تخلیق کیے ہوتے ہیں وہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتے ہیں یوں سمجھ لو کے انسان کی بیداری والی حس سو جاتی ہے اور تصورات پیدا ہو جاتے ہیں
تمہارے پھیپڑوں میں یہ بو گئی اور تمہارے دماغ پر قابض ہو گئی پھر تم حقیقت سے کٹ گئے اور تمہارے ذہن نے جو خوبصورت تصورات تخلیق کر رکھے تھے وہ باہر تمہارے سامنے حوروں اور جنت نظیر ماحول کی صورت میں سامنے آگئے انسان بڑی کمزور چیز ہے انسان ذہن کا غلام ہوتا ہے تخریبی قوتوں کا حملہ ذہن پر ہوتا ہے انہیں تخریبی اور سفلی قوتوں کو شیطان کہا گیا ہے میں نے تمہاری کلائی کے ساتھ دھاگا باندھ دیا تھا اور اس کا دوسرا سرا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا غور کرو شہزادے میں زندہ حقیقی زندگی میں بیٹھا ہوا تھا اور تم تصورات میں گم ہوگئے تھے لیکن یہ دھاگا حقیقت اور تصور کے درمیان ایک رشتہ تھا یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو تم ہمیشہ کے لئے حقیقی زندگی سے کٹ جاتے یاد رکھو حسین تصورات اور حقیقی زندگی کے درمیان صرف ایک کچا دھاگا حائل ہے جس نے اس دھاگے کو توڑ ڈالا وہ اپنی موت خود مرا اور جس نے اس دھاگے کو ٹوٹنے نہ دیا وہ بھٹک بھٹک کر کبھی تو واپس حقیقت میں آ ہی گیا
یہ ایک نشہ ہے جو کسی جابر بادشاہ پر بھی طاری ہو جائے تو وہ حسین تصورو میں جا پڑتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد گم ہو جاتا ہے بادشاہ اپنے دشمن کو قتل کروا دیتے ہیں دشمن کو مارنے کا بہترین اور بڑا ہی حسین طریقہ یہ ہے جو ہمارے بادشاہ نے اختیار کیا ہے دشمن کو کسی نشے میں مبتلا کرکے اس میں یہ غلط احساس پیدا کر دو کہ تم ساری دنیا کے بادشاہ ہو اور اتنے خوب رو ہو کے کسی بھی دیس کی شہزادیاں تم پر مر مٹے گی اس کی زندہ مثال تم اس غار کے اندر دیکھ آئے ہو تمہارے لیے سبق یہ ہے کہ اپنے ذہن کو اپنے قابو میں رکھو اپنے ہوش و حواس کو اپنے ذہن کے حوالے کبھی نہ کرو اور بچو اس نشے سے جو نیک وبد کا احساس ہی مٹا دے لیکن انسان کی فطرت اتنی کمزور ہے کہ وہ لذت اور تعیش کو فوراً قبول کرلیتی ہے اور انسان کا حلیہ ہی بگاڑ دیتی اور اسے تباہی کی گہری کھائی میں پھینک دیتی ہے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:30 }
آج کی سائنس نے قدیم زمانے کے اسرار کو بے نقاب کردیا ہے کوئی انسان غصے سے باؤلا ہو جائے درندہ بن جائے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تو چھوٹی سے ایک گولی یا ذرا سا ایک انجکشن اس کے ذہن کو سلا دیتا ہے اور وہ کمزور سا ایک انسان بن جاتا ہے اب تو ایسے ملزموں کو جو اپنے جرم کا اقبال نہیں کرتے دھوکے میں کھانے یا پینے کی اشیاء میں ذرا سی دوائی ملا کر دی جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں جیسے وہ بہت بڑی شخصیت ہو اور حسین ترین لڑکیاں اس پر جان نثار کرتی ہوں اور اسے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ اس قدر بہادر دلیر اور دانشمند ہے کہ اس نے وہ جرم کیا ہے جو اور کوئی نہیں کر سکتا اس طرح دو چار مرتبہ اسے یہ دوائی کھانے پینے میں دی جاتی ہے اور وہ بڑے فخر سے اپنے جرم کا اقبال ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ایک تفصیل سنا دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے
حسن بن صباح کی جنت کا زیادہ تر تعلق انسانی ذہن ہی سے تھا تاریخوں میں جو تفصیلات آئی ہیں ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اختلاف ہے لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حسن بن صباح اپنے فدائین کو حشیس پلاتا تھا حشیش کے جو اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ ان تمام منشی اشیاء کے اثرات سے مختلف ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں
حشیش پی کر انسان نے اگر ہنسنا شروع کر دیا تو وہ نشہ اترنے تک ہنستا ہی چلا جائے گا اور اگر وہ رونے پر آیا تو گھنٹوں روتا ہی رہے گا کسی انسان کو آہستہ آہستہ حشیش پلاتے رہیں اور ساتھ ساتھ کوئی بڑا ہی حسین منظر الفاظ میں بیان کرتے رہیں تو وہ شخص ایسے ہی منظر میں چلا جائے گا خواہ اس منظر کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو
تاریخ میں یہ بالکل صحیح لکھا گیا ہے کہ جس دانشمندی سے حسن بن صباح نے حشیش کو استعمال کیا ہے اس طرح اس وقت تک اور کوئی نہیں کر سکا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح غیر معمولی طور پر دانشمند آدمی تھا
یونان کی دیو مالائی داستان کی جنت اور حسن بن صباح کی جنت میں فرق یہ تھا کہ اس یونانی داستان میں ایک غار تھا جس میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں ابھری تھیں اور وہاں کنکریاں اور مٹی تھیں لیکن حسن بن صباح نے جس علاقے میں جنت بنائی تھی وہ بڑا ہی حسین اور روح افزا جنگل تھا اس جنگل میں پھل دار درخت بھی تھے اور پھولدار خودرو پودے بھی تھے ایسے اور بھی بہت سے پودے وہاں اگائے گئے تھے اور اس خطے کو کاٹ کاٹ کر مزید خوبصورت بنا دیا گیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعہ الموت بلندی پر تھا اور اس کا اپنا ایک حسن تھا یہ قلعہ بنانے والوں نے اس کی خوبصورتی کا خاص طور پر خیال رکھا تھا
حسن بن صباح کے یہاں نوجوان اور بڑی ہی حسین لڑکیوں کی کمی نہیں تھی اس کا ایک گروہ ہر ایک دن قافلے لوٹنے میں لگا رہتا تھا یہ گروہ قافلوں سے سونے چاندی کے علاوہ نقد رقم لوٹ لیتا اور اس کے ساتھ ہی کمسن بچیوں کو بھی اٹھا لاتا تھا ان بچیوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی تھی لیکن ان پر ذرا سا بھی ظلم اور تشدد نہیں کیا جاتا تھا انہیں بڑی خوبصورت زندگی مہیا کی جاتی تھی اور اسکے ساتھ انہیں مردوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی لڑکیوں کے ہاتھوں سے فدائین کو تیار کرنے کے لئے حشیش پلائی جاتی تھی حشیش پلا کر یہ لڑکیاں ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتی تھیں جن سے انہیں یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ اتنے بہادر ہیں کہ جسے چاہیں قتل کر دیں اور چاہیں تو ساری دنیا کو فتح کر لیں
مختصر یہ کہ حسین اور نوجوان لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے ان آدمیوں کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا جاتا تھا اس کے ساتھ وہاں کا قدرتی ماحول اپنا ایک اثر رکھتا تھا کچھ دنوں بعد اس شخص کو اس ماحول ان لڑکیوں اور حشیش سے محروم کرکے قلعے کے تہہ خانے میں پہنچا دیا جاتا تھا وہ شخص تڑپتا اور کاٹنے کو دوڑتا تھا اس کیفیت میں اسے حسن بن صباح کے سامنے لے جایا جاتا اور تاثر یہ دیا جاتا کہ حسن بن صباح ساری دنیا کا بادشاہ ہے اور وہ جسے چاہے جنت عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے جہنم میں پھینک دیتا ہے
اس شخص کی اس ذہنی اور جذباتی حالت میں حسن بن صباح اپنا جادو چلاتا تھا وہ اسے قتل کرنے اور قتل ہو جانے پر آمادہ کرلیتا تھا بات وہیں پر آتی ہے کہ یہ ان انسانوں کے ذہن تھے جن پر حسن بن صباح قابض ہونا ہوجاتا اور انہیں اس مقام تک لے جاتا تھا جہاں وہ لوگ اس کے اشارے پر جانیں قربان کر دیتے تھے
انسان کی سب سے بڑی کمزوری تعیش پرستی ہے اللہ کے بندوں کی یہی وہ دکھتی رگ ہے جسے ابلیس اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اسی لئے حسن بن صباح کی جنت کو ابلیسی جنت کہا گیا ہے
پھر حقائق سے فرار انسان کی دوسری بڑی کمزوری ہے کوئی انسان جب عورت کو فرار کا ذریعہ بناتا ہے تو اس کے ذہن میں ابلیس کی جنت کا وجود آ جاتا ہے پھر اس انسان کو دنیا کی کوئی طاقت تباہی سے نہیں بچا سکتی ایسا انسان اللہ کے اس فرمان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے جس میں اللہ نے انسان کو یہ وارننگ دی ہے کہ تم پر جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی اعمال بد کا نتیجہ ہوتی ہے
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ
حسن بن صباح کا باطنی عقیدہ بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا تھا اور بے شمار علاقہ اس کی زد میں آچکا تھا اس عقیدے نے تیزی سے ہی پھیلنا تھا انسان فطری طور پر خود سر اور سرکش واقع ہوا ہے یہ بھی ایک فطری کمزوری ہے اگر کوئی مخلص قائد مل جائے اور وہ کچھ انسانوں کی خود سری اور سرکشی کو منظم طریقے سے کسی نصب العین کے لیے استعمال کرے تو یہ ایک قوت بن جاتی ہے لیکن اسی خودسری اور سرکشی کو انسان جب اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اوصاف اس کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں انسان پابندیاں قبول نہیں کیا کرتا حسن بن صباح نے لوگوں کو جو عقیدہ دیا تھا اس کا نام اسلام ہی رہنے دیا تھا لیکن اس میں ترمیم یہ کی تھی کہ انسان کے باطن میں جو کچھ ہے وہی مذہب ہے اس نے شریعت کو اسلام میں سے نکال دیا تھا
وہ پسماندگی کا دور تھا تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ان علاقوں کے لوگ مسلمان تھے حسن بن صباح نے ان کو مسلمان ہی رہنے دیا اور کمال یہ کر دکھایا کہ انہیں تمام مذہبی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد کردیا
اس کا باطنی عقیدہ تیزی سے پھیل رہا تھا پھر بھی سلطان ملک شاہ اس کے راستے میں ایک رکاوٹ بنا ہوا تھا اسے معلوم تھا کہ یہ سلطان اس کے خلاف بہت بڑی فوج تیار کر رہا ہے حسن بن صباح نے اپنے ایک فدائین کے ہاتھوں سلطان ملک شاہ کا پتہ ہی کاٹ دیا تو یہ رکاوٹ راستے سے ہٹ گئی اسے برکیارق کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا اس نے اپنے مصاحبوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ جوان آدمی ہے جس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اسے ذہنی طور پر بیدار کرنے کے لئے روزینہ کو بھیج دیا تھا جس کے حسن و جمال اور انداز میں طلسماتی اثرات چھپے ہوئے تھے
اس علاقے میں ابھی کچھ اور قلعے ایسے تھے جو حسن بن صباح کے قبضے میں نہیں آئے تھے وہ اس خیال سے ان قلعوں کی طرف نہیں بڑھتا تھا کہ سلطان ملک شاہ فوج لے کر آ جائے گا
ان قلعوں میں ایک اہم قلعہ قلعہ ملاذ خان تھا جو فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا کسی وقت یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے قبضے میں تھا وہ قافلوں کو لوٹتے اور مال اس قلعے میں لاکر جمع کر دیتے تھے قافلوں میں سے انہیں کمسن بچیاں اور نوجوان لڑکیاں ملتی تھیں تو انہیں بھی اس قلعے میں لے آتے تھے
ان ڈاکوؤں کے ڈر سے قافلوں کی آمد و رفت و بند ہوگئی اور اس کا اثر تجارت پر بھی پڑا لوگ سلطان ملک شاہ کے یہاں گئے اور فریاد کی کہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے ان دنوں سلطان ملک شاہ جوان تھا اور نیا نیا سلطان بنا تھا اس نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ وہ اس قلعے پر قبضہ کرے اور ان ڈاکوؤں کا قلع قمع کردے اس سالار کا نام عفد الدولہ بن بویا تھا سلجوقیوں کی تاریخ کا یہ ایک نامور سالار تھا اس نے ایک روز طوفان کی طرح جا کر قلعے کا محاصرہ کرلیا ڈاکو آخر ڈاکو تھے وہ کوئی جنگجو نہیں تھے سالار بویا نے اپنے سپاھیوں کو حکم دیا کہ کمندیں پھینک کر قلعے کی دیواروں پر چڑھیں اور اپنی جانیں قربان کردیں
وہ مجاہدین تھے جنہیں بتایا گیا تھا کہ ان ڈاکوؤں نے کتنے ہی قافلے لوٹے ہیں اور سیکڑوں کمسن لڑکیوں کو اغوا کیا ہے اور سیکڑوں نہیں ہزاروں گھروں میں صف ماتم بچھا دی ہے ان مجاہدین نے جانوں کی بازی لگادی اور قلعے میں دیوار پھاند کر داخل ہوگئے تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں طوفان کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے ان کا جذبہ ایسا تھا کہ انہیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اللہ کے حکم سے اس قلعے پر حملہ آور ہوئے ہوں
ایک بھی ڈاکو قلعے میں سے زندہ نہ نکل سکا سب کو کاٹ دیا گیا صرف عورتوں اور بچوں کو زندہ رہنے دیا گیا جنہیں سلطان ملک شاہ کے حکم سے دارالسلطنت میں بھیج دیا گیا تھا اور ان سب کو لوگوں کے گھروں میں آباد کر دیا گیا تھا
سلطان ملک شاہ نے یہ قلعہ اپنے ایک رئیس میرانز کو بطور جاگیر دے دیا اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد حسن بن صباح نے اپنا ایک وفد میرانز کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ یہ قلعہ خریدنا چاہتا ہے رائیس قلعہ نے صاف انکار کردیا اور یہ پیغام کا جواب دیا کہ آئندہ کوئی باطنی اس قلعے میں داخل ہونے کی جرات نہ کرے
قافلے محفوظ ہوگئے اور اس وسیع علاقے میں لوگ آکر آباد ہونے لگے حتٰی کہ یہ ایک شہر کی صورت اختیار کرگیا حسن بن صباح کی نظر ہمیشہ اس قلعے پر لگی رہی لیکن اس نے ظاہر یہ کیا کہ اسے اس قلعے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں
سلطان ملک شاہ قتل ہوگیا تو حسن بن صباح نے اپنے خاص مصاحبوں سے کہا کہ اب قلعہ ملاذ خان اپنے قبضے میں آ جانا چاہیے
رئیس قلعہ بن بویا شام کے وقت اپنے مصاحبوں میں بیٹھا ہوا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ ایک سفید ریش بزرگ اسے ملنے آئے ہیں بن بویا بااخلاق اور صاحب اقتدار رئیس تھا وہ اس بزرگوں کو اندر بلانے کی بجائے خود اس کے استقبال کے لئے چلا گیا اسے بڑے تپاک اور احترام سے ملا اور اندر لے آیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا کے کان میں سرگوشی کی میں علاحدگی میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں
بن بویا اسے دوسرے کمرے میں لے گیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بات شروع کی میں آپکو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں باطنی ہوں آپ نے اس قلعے میں باطنیوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے
پھر آپ اس قلعے میں کس طرح داخل ہوئے؟
بن بویا نے ذرا تحکمانہ لہجے میں کہا کیا دروازے پر آپ سے کسی نے پوچھا نہیں تھا
پوچھا تھا بزرگ نے جواب دیا میں نے جھوٹ بولا تھا کہ میں اہل سنت ہوں اب آپ پوچھیں گے کہ میں نے جھوٹ کیوں بولا میرا اپنا کچھ ہی کیوں نہ ہو میں تارک الدنیا ہوں اور میرے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے خداوند تعالی نے مجھے کشف کی طاقت دی ہے میں اس قلعے میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا نہ میرا یہاں کوئی کام تھا میں اس قلعے کی دیوار کے ساتھ جاتے ہوئے راستے پر جا رہا تھا کہ مجھے ایک اشارہ سا ملا اور میں نے گھوڑا روک لیا کوئی طاقت جو کشش کی طاقت ہی ہوسکتی ہے مجھے قلعے کی دیوار کے قریب لے آئی مجھے صاف اور واضح اشارہ ملا کہ قلعے کے اندر خزانہ دفن ہے میں نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہونا چاہیے تھا اور یقین ہے کیونکہ یہ قلعہ صدیوں سے ڈاکوؤں کے قبضے میں تھا جہاں ڈاکو ہوتے ہیں وہاں کی زمین میں خزانہ کا مدفون ہونا لازمی ہوتا ہے
کیا آپ مجھے اس خزانے کی خوشخبری سنانے آئے ہیں؟
بن بویا نے کہا اس کے بعد آپ یہ کہیں گے کہ میں آدھا خزانہ آپ کو دینے کا وعدہ کروں تو آپ خزانے کی نشاندہی کریں گے
میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ میں تاریک الدنیا ہوں بزرگ نے کہا میں نے خزانہ حاصل کرکے کیا کرنا ہے میں خزانے کی نشاندہی کر دوں گا لیکن شرط یہ نہیں ہوگی کہ آدھا خزانہ مجھے دیں بلکہ شرط یہ ہوگی کہ اس خزانے میں لوگوں کا لوٹا ہوا مال ہے اس خزانے کے لئے ڈاکوؤں نے نہ جانے کتنے سو یا کتنے ہزار آدمی مار ڈالے ہوں گے یہ خزانہ نہ میرا ہے نہ آپ کا میں اسکی نشاندہی کروں گا لیکن اس شرط پر کہ اس خزانے کا صرف چالیسواں حصہ آپ لینگے باقی سب غریبوں میں تقسیم کر دیں گے
ہاں بزرگوارِ محترم! بن بویا نے کہا میں خزانہ غریبوں میں تقسیم کر دونگا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خزانہ کتنا کچھ ہے؟
نہیں! بزرگ نے جواب دیا یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خزانہ زیادہ ہے ایک بات اور بھی ہے جو ذرا تحمّل سے سنیں آپ ہم باطنیوں کو کافر کہتے ہیں میں کبھی خود بھی شک میں پڑ گیا تھا لیکن جب مجھے کشف ہونے لگا تو یہ خیال آیا کہ میں کافر ہوتا تو اللہ کی ذات مجھے کشف کی طاقت نہ عطا کرتی آج مجھے اس خزانے کا اشارہ ملا تو میں نے پہلے یہ سوچا کہ خزانہ ہے تو پڑا رہے مجھے اس سے کیا خیال آگیا کہ نہیں یہ خزانہ اللہ کے بندوں کے کام آنا چاہیے اس پر مجھے اشارہ ملا کہ یہ غریبوں میں تقسیم ہو میں بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک بار ہمیں موقع دیں کہ ہم آپ کے ساتھ باطنی عقیدے پر بات کر سکیں میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہمارے عقیدے میں آجائیں البتہ میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں
کیا آپ ہم سے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ؟
رئیس قلعہ بن بویا نے پوچھا اگر ایسی بات ہے تو مناظرہ آپ کریں گے یا کوئی اور آئے گا؟
میں مناظرے کی بات نہیں کر رہا بزرگ نے کہا مناظرے کا مطلب ہوگا کہ ہم آپ کو جھٹلانے کی کوشش کریں گے نہیں رئیس قلعہ! میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں نہ میں آپ کی توہین کرنے کا خواہشمند ہوں میں اپنا مطلب پھر واضح کر دیتا ہوں کہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیں تاکہ ہم آپ کا دل صاف کر سکیں
کیا آپ خزانے کی بات اس کے بعد کریں گے؟
بن بویا نے پوچھا یا آپ یہ کوشش کریں گے کہ میں آپ کے عقیدے کو قبول کر لوں؟
نہیں رئیس قلعہ! بزرگ نے جواب دیا خزانے کی بات الگ ہے میں وہ بھی کروں گا میں آپ کے ساتھ رہ کر خزانے کی نشاندہی کروں گا عقیدوں کی میں نے جو بات کی ہے وہ تو میں نے آپ سے اجازت مانگی ہے آپ اس قلعے کے مالک ہیں اجازت نہ دیں گے تو میں آپ کا کیا بگاڑ لوں گا میرے دل میں اللہ کے ہر بندے کی محبت ہے
بن بویا ایک تو اس بزرگ کی باتوں سے متاثر ہوا اور خزانے کی موجودگی نے تو اس کا دماغ ہیں پھیر دیا خزانہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مدفون خزانہ کوئی عجوبہ نہیں ہوتا تھا اس دور میں قدیم بادشاہ بھی اپنے خزانے کا کچھ حصہ کسی خفیہ جگہ دفن کر دیا کرتے تھے چونکہ یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کا تھا اس لئے رئیس قلعہ بن بویا نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہے مدفون خزانوں کے متعلق دو روایات مشہور تھیں جو آج بھی سنی سنائی جاتی ہیں ایک یہ کہ جہاں خزانہ دفن ہوتا ہے وہاں ایک بڑا ہی زہریلا سانپ ہوتا ہے جو خزانہ کے قریب آنے والے کو ڈس لیتا ہے دوسری روایت یہ ہے کہ خزانہ زمین کے اندر چلتا رہتا ہے اور اصل جگہ سے دور پہنچ جاتا ہے ایک عقیدہ ہے کہ خزانے کی سراغرسانی کوئی ایسا شخص کر سکتا ہے جس کے پاس کشف کی طاقت ہوتی ہے
مجھے یہ بتائیں بزرگوار ! رئیس بن بویا نے پوچھا آپ کتنے آدمیوں کو اپنے ساتھ لائیں گے
رائس قلعہ! بزرگ نے کہا میرے ساتھ کوئی عام سے آدمی نہیں ہوں گے وہ چند ایک علماء ہیں اور کچھ ان کے شاگرد ہوں گے ان سب کی دلچسپی صرف مذہبی عقیدوں کے ساتھ ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ساتھ کم وبیش چالیس علماء اور ان کے شاگردوں کو لے آؤں میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ وہ یہاں آکر آپ کے لوگوں میں گھومے پھیرے سلام و دعا کریں اور اس طرح ہم میں بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جائے
میں اجازت دے دوں گا بن بویا نے کہا لیکن میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ کے آدمی یہاں تبلیغ شروع کردیں
نہیں کرینگے بزرگ نے کہا اگر میرے ساتھ آنے والا کوئی بھی اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہوا پکڑا گیا تو میں آپ سے کہوں گا کہ اسے جو بھی سزا دینا چاہتے ہیں دے دیں
اور خزانے کی بات اسی روز ہوگی؟
بن بویا نے پوچھا
نہیں! بزرگ نے کہا میں ان لوگوں کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا اور دو چار دنوں کے بعد آپ کے پاس واپس آ جاؤں گا پھر میں آپ کو ساتھ لے کر خزانے کا سراغ لگاؤں گا اور اپنی موجودگی میں کھدائی کرواؤں گا
رئیس قلعہ بن بویا نے اس بزرگ کے ساتھ ایک دن طے کرلیا کہ وہ اپنے علماء کے ساتھ آ جائے اس کے دماغ پر خزانہ سوار ہوگیا تھا سورج غروب ہوچکا تھا اس لئے بن بویا نے اس بزرگ کو رات بھر کے لیے اپنے یہاں مہمان رکھا اور اگلی صبح رخصت کردیا
اگلی صبح بزرگ کو رخصت کرکے بن بویا نے شہر کی بڑی مسجد کے خطیب کو بلایا اور اسے بتایا کہ فلاں دن باطنیوں کے علماء آئیں گے اور خطیب انہیں جھٹلانے کے لیے تیاری کرلے
مقررہ روز یہ بزرگ دوپہر کے وقت کم و بیش چالیس آدمیوں کو ساتھ لیے پہنچ گئے تھے ان کی پگڑیاں عالموں جیسی تھیں پگڑیوں کے اوپر بڑے سائز کے رومال ڈالے ہوئے تھے جو ان کے کندھوں سے بھی نیچے آئے ہوئے تھے سب کے ہاتھوں میں تسبیح تھی ان کا لباس ان کی چال ڈھال اور ان کے بولنے کا انداز بتاتا تھا کہ ان لوگوں کو مذہب کے سوا کسی اور چیز میں کوئی دلچسپی نہیں رئیس قلعہ نے انکا استقبال بڑے احترام سے کیا اور انکی خاطر تواضع کی
بزرگ تین چار علماء کو ساتھ لے کر رئیس قلعہ کو الگ کمرے میں لے گیا اس نے رئیس قلعہ سے کہا تھا کہ وہ الگ بیٹھ کر بات کریں گے
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا سے کہا ہم آپکے ساتھ باتیں کریں گے اور آپ کی باتیں سنیں گے آپ نے اچھا کیا ہے کہ اپنے خطیب کو بھی یہاں بلا لیا ہے جتنی دیر ہم آپس میں بات چیت کرتے ہیں اتنی دیر میں ہمارے ساتھ آئے ہوئے آدمی شہر میں گھوم پھر لیں گے آپ بالکل مطمئن رہیں یہ بے ضرر آدمی ہیں
بن بویا مسکرا دیا اور اس نے کچھ بھی نہ کہا اسکے اپنے حکم کے مطابق کسی باطنی کا اس قلعہ بند شہر میں داخل ہونا ممنوع تھا لیکن خزانے کی خاطر وہ اس باطنی بزرگ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے رہا تھا وہ ان باطنی علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا اور باقی باطنی شہر میں نکل گئے ان کا انداز یہ تھا کہ ہر آدمی کو جو ان کے قریب سے گزرتا تھا السلام علیکم کہتے اور جو سلام پر رک جاتا اس سے وہ بغلگیر ہو کر ملتے تھے لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ باطنی ہیں اور انہیں رئیس قلعہ نے قلعے میں آنے کی اجازت دی ہے لوگ انہیں مذہبی پیشوا یا کسی دوسرے شہر کے دینی مدرسے کے استاد سمجھ رہے تھے
یہ باطنی کچھ آگے جا کر تین چار ٹولیوں میں بٹ گئے ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھی اور ان کے ہونٹ ہل رہے تھے جیسے کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہوں لوگ انہیں دلچسپی سے دیکھ رہے تھے
ان میں سے آٹھ نو آدمی قلعے کے بڑے دروازے تک چلے گئے دروازے کے ساتھ اندر کی طرف ایک کمرہ تھا جس میں دروازے کے پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے دو محافظ دروازے پر کھڑے تھے یہ باطنی ان دونوں محافظوں کے ساتھ بغلگیر ہو کر ملے اور باتوں باتوں میں انہیں اپنے ساتھ محافظوں کے کمرے میں لے گئے
کمرے میں جو پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے ان باطنیوں کو عالم سمجھ کر بڑے احترام سے ملے ایک باطنی نے کمرے کا دروازہ بند کردیا تمام باطنیوں نے اپنے چغوں کے اندر ہاتھ ڈالے اور جب ان کے ہاتھ باہر آئے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک چھوٹی تلوار تھی محافظ نہتے تھے ان کی تلواریں اور برچھیاں الگ رکھی تھیں انہیں اپنے ہتھیاروں تک پہنچنے کی مہلت ہی نہ ملی باطنیوں نے انہیں دبوچ لیا بعض نے اپنے ہاتھ آئے ہوئے محافظوں کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور دوسروں نے تلواروں سے ان کے پیٹ چاک کر دیئے ان محافظوں میں قلیدبردار بھی تھا یعنی وہ محافظ جو محافظوں کا کمانڈر جس کے پاس قلع کی چابیاں تھیں ان باطنیوں نے اس کی لاش سے چابیاں اپنے قبضے میں لے لیں
باقی باطنی بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر ہو گئے شہر کے وہ لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے جو باطنی تھے اور پہلے ہی اس قلعے میں موجود تھے انہیں معلوم تھا کہ حسن بن صباح چالیس فدائی بھیج رہا ہے جو علماء کے بھیس میں آئینگے اس قلعے میں فوج تو تھی لیکن اس کی تعداد بہت ہی کم تھی قلعے میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قلعے پر حملہ بھی ہوسکتا ہے حملہ ہوا بھی تو ایسا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی رئیس قلعہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا باطنی فدائین نے اس تھوڑی سی فوج کی ساری نفری کو مار ڈالا یا بیکار کر دیا
ایک باطنی اس کمرے میں داخل ہوا جس میں رائس قلعہ بن بویا باطنیوں کے ساتھ محو گفتگو تھا اس باطنی نے السلام علیکم کہا یہ ایک اشارہ تھا کہ باہر کام مکمل ہوگیا ہے ایک باطنی جو دوسروں کی طرح علماء کے بھیس میں تھا اٹھا اور اس نے بن بویا کو دبوچ لیا ایک اور باطنی نے خطیب کو دبوچ لیا اور انہوں نے دونوں کو قتل کر دیا اس طرح یہ قلعہ باطنیوں کے قبضے میں چلا گیا
حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی اس نے ایک آدمی کو امیر قلعہ بنا کر بھیج دیا
قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور ایک اور قلعہ تھا جس کا نام قستان تھا کسی بھی تاریخ میں اس قلعے کے حاکم کا نام نہیں ملتا اس کے نام کے بجائے تقریبا ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ وہ فاسق اور بدکار تھا اسے سلجوقیوں نے یہ قلعہ دیا تھا تمام مستند تاریخوں میں اس قلعے کی کہانی بیان کی گئی ہے
اس قلعے میں بھی ایک شہر آباد تھا اس شہر کا ایک رئیس تھا جس کا نام منور الدولہ تھا اس کے متعلق تاریخوں میں آیا ہے کہ صحیح العقیدہ اور جذبے والا مسلمان تھا اس قلعے پر بھی باطنیوں کی نظر تھی قلعے کے دفاع کے لیے کوئی خاص فوج نہیں تھی چند سو محافظہ قلعے میں موجود رہتے تھے چونکہ امیر قلعہ اپنی عیش و عشرت میں مگن رہتا تھا اس لیے باطنی قلعے میں کھلے بندوں آتے جاتے تھے
رئیس قلعہ منور الدولہ کو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک مکان میں پانچ باطنی رہتے ہیں جو یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ باطنی ہیں وہ اپنے آپ کو پکا مومن ظاہر کرتے ہیں ان کی سرگرمیاں مشکوک سی تھیں
دو چار آدمیوں نے رئیس منور کو بتایا کہ یہ لوگ خطرناک معلوم ہوتے ہیں ان کی موجودگی کی اطلاع امیر قلعہ تک پہنچنی چاہیے تاکہ وہ ان پر جاسوس اور مخبر مقرر کردے امیر قلعہ تک کوئی رئیس ہی سہی پہنچ سکتا تھا ایک روز منورہ چلا گیا اور اسے ان باطنیوں کے متعلق بتایا رئیس منور امیر قلعہ کے یہاں آتا جاتا رہتا تھا
ہمارے لوگ وہمی ہیں منور! امیر قلعہ نے بے نیازی اور بے پرواہی سے کہا کہو تمہاری بہن کا کہیں رشتہ ہوا ہے یا نہیں؟
منور کو اس پر طیش آئی کہ وہ بات کتنی اہم کرنے آیا تھا اور امیر قلعہ اس کی بہن کے رشتےکے متعلق پوچھ رہا تھا منور کی ایک چھوٹی بہن تھی جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئی تھی مورخ لکھتے ہیں کہ وہ بہت ہی حسین اور شوخ لڑکی تھی اس کے حسن کی شہرت سارے شہر میں پھیلی ہوئی تھی امیر قلعہ نے اس لڑکی کے رشتے کے متعلق پوچھا تو منور نے بات کو ٹال دیا اور کہا کہ وہ جس کام کے لیے آیا ہے اس کا ان کی طرف توجہ دینا بہت ہی ضروری ہے
میں دیکھوں گا امیر قلعہ نے کہا میں ان پر اپنے جاسوس مقرر کر دوں گا
چونکہ منور صحیح معنوں میں مسلمان تھا اس لیے وہ باطنیوں کا جانی دشمن بنا ہوا تھا
تین چار دنوں بعد وہ پھر امیر قلعہ کے پاس گیا اور اسے کہا کہ اس نے ابھی تک ان مشکوک باطنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی
تمہیں میرے قلعے کا اتنا فکر کیوں لگا ہوا ہے؟
امیر قلعہ نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا یہ پانچ سات باطنی میرا کیا بگاڑ لیں گے؟
امیر محترم! منور نے کہا کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ یہ باطنی کس طرح چھاتے چلے جارہے ہیں سلطان ملک شاہ کو انہوں نے قتل کیا ہے اس سے پہلے سلطان مرحوم کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی نظام الملک کو بھی انہیں باطنیوں نے قتل کیا تھا اگر آپ بیدار نہ ہوئے تو اس قلعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرلیا ہے
کیا بات کرتے ہو منور! امیر قلعہ نے ہنس کر کہا باطنی میرے قلعے پر قبضہ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے وہ یہاں آ بھی گئے تو یوں سمجھو کہ انہیں موت یہاں لے آئی ہے
یہ قلعہ اتنا اہم تو نہ تھا کہ اسے تاریخ میں اتنا زیادہ بیان کیا جاتا لیکن اس کے ساتھ جو واقعہ وابستہ ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے اسی وجہ سے مورخوں نے یہ واقعہ تاریخ میں شامل کیا ہے
منور الدولہ کے جذبے کا یہ عالم کہ وہ قلعے کی سلامتی کے متعلق پریشان تھا اور وہ ان پانچ آدمیوں کے متعلق بھی فکر مند تھا جن کے متعلق بتایا جارہا تھا کہ مشکوک ہیں اور باطنی معلوم ہوتے ہیں لیکن امیر قلعہ کی ذہنی حالت یہ تھی کہ جس روز رئیس منور اسے ملا اس سے دو روز بعد امیر قلعہ نے اپنے دو خاص آدمیوں کے ہاتھ منور کی طرف بیش قیمت تحفہ بھیجے اور ساتھ یہ پیغام کہ منور اپنی بہن کو اس کی بیوی بنا دے
کیا امیر قلعہ کا دماغ ٹھیک کام کرتا ہے؟
منور نے تحفے دیکھ کر اور اس کا پیغام سن کر کہا یہ تو تحفے واپس لے جاؤ اور اسے کہنا کہ میں اپنی نوجوان بہن کو ایک ایسے بوڑھے کے حوالے نہیں کروں گا جو شرابی بھی ہے بدکار بھی ہے اور جس کی پہلی ہی نہ جانے کتنی بیویاں ھیں
اس کی یہ جرات امیر قلعہ لانے اپنے تحفے واپس آتے دیکھ کر اور رئیس منور کا انکار سن کر کہا میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دوں گا میں اس کے ساتھ دوستی قائم رکھوں گا اور تم دیکھنا کہ بہت جلد اس کی بہن میرے پاس ہوگی
منور اپنے آپ میں یوں تڑپنے لگا جیسے امیر قلعہ نے اسے بڑی شدید ضرب لگائی ہو منور کو قلعے کا غم کھائے جا رہا تھا اور امیر قلعہ کی نظر اس کی بہن پر لگی ہوئی تھی منور کی ایک ہی بیوی اور دو بچے تھے اور اس کے گھر کی ایک فرد اس کی یہ بہن تھی منور نے بڑے غصے کی حالت میں اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ یہ بات تفصیل سے کردی
میں ان پانچ چھے باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں منور نے کہا اگر یہ پکڑے گئے اور یقین ہوگیا کہ یہ باطنی جاسوس اور تخریب کار ہیں تو میں اپنے ہاتھوں انہیں قتل کروں گا
تاریخی واقعات کے ایک انگریزی مجموعے میں یہ واقعہ اس طرح عیاں ہے کہ منور کی بہن کا قومی جذبہ بھی منور جیسا ہی تھا اس نے جب اپنے بھائی کی زبان سے سنا کہ وہ ان باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ بھائی نے اسے آمیر قلعہ سے بیاہنے سے انکار کردیا ہے تو اس لڑکی کے دل میں بھائی کی عظمت اور قومی جذبہ اور زیادہ شدت سے ابھر آیا
میرے عزیز اور عظیم بھائی! بہن نے منور سے کہا میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں مجھے بتائیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں میں آپ کے خلوص آپ کی محبت اور آپ کے جذبے کو دیکھ کر اپنا ایک راز آپ کو دے رہی ہوں یہ جو پانچ چھے جواں سال آدمی ہیں اور جن پر آپ کو شبہ ہے ان میں سے ایک مجھے چاہتا ہے اور میں اسے پسند کرتی ہوں میں بلا جھجک آپ کو بتا رہی ہوں کہ میں اس آدمی سے تین چار مرتبہ تنہائی میں مل چکی ہوں میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ہوا ہے وہ بھی میرے ساتھ بات محبت کرتا ہے اگر آپ کہیں تو میں اس آدمی کو جذبات میں الجھا کر معلوم کر سکتی ہوں کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
آفرین! منور نے کہا کوئی بھائی اپنی نوجوان بہن کو اس طرح استعمال نہیں کیا کرتا لیکن تمہارا ان لوگوں میں سے ایک کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے تو اس تعلق کو استعمال کرو اگر تمہیں کہیں بھی خطرہ محسوس ہو تو فوراً مجھے بتا دینا تم اس کے ساتھ حسن بن صباح کی بات چھیڑ دینا اور اس طرح باتیں کرنا جیسے تم حسن بن صباح کو اچھا سمجھتی ہوں اور اس کے پاس جانا چاہتی ہو
منور کی بہن خوبصورت تو تھی لیکن شوخ اور ذہین بھی تھی اس نے منور سے کہا کہ وہ ان لوگوں کی اصلیت معلوم کرلے گی
امیر قلعہ نے منور کو اپنے یہاں بلایا منور نے جانے سے انکار کردیا اس انکار کے جواب میں امیر قلعہ نے اپنی محفل میں اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ منور کو اڑا دے گا اور اس کی بہن کو اپنے یہاں لے آئے گا اس کی یہ دھمکی منور کے کانوں تک پہنچ گئی اس کا اس پر بہت ہی برا اثر ہوا اور وہ ایک کشمکش میں مبتلا ہوگیا کشمکش یہ تھی کہ وہ اپنے جذبے کو قائم رکھے یا امیر قلعہ کے رویے سے متاثر ہوکر اپنے جذبے سے دستبردار ہو جائے اسے یہ خیال بھی آیا کہ امیر قلعہ کو اپنے قلعے کا کچھ خیال نہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ جاسوسیاں کرتا پھرے جذبے مرا تو نہیں کرتے اس کے خیالوں پر قومی جذبہ غالب آگیا
تین چار دنوں بعد ہی منور کو اس کی بہن نے بتایا کہ یہ لوگ باطنی ہیں اور جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے یہاں آئے ہیں لیکن ابھی اپنے باطنی عقیدے کی درپردہ تبلیغ کر رہے ہیں
تم نے کیسے معلوم کیا ہے؟
منور نے بہن سے پوچھا
مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی بہن نے کہا جس طرح آپ نے کہا تھا میں نے اسی طرح کیا میں نے حسن بن صباح کی باتیں ایسے الفاظ میں کیں جیسے میں اسے نبی سمجھتی ہوں اور اسے دیکھنے کو بے قرار ہوں لیکن میں اسے جذبات میں لے آئی اور اپنی بات پر قائم رہی دوسرے دن وہ میری بات پر آگیا اور اس نے کہا کہ وہ مجھے حسن بن صباح کے پاس لے جائے گا اس نے یہ بھی کہا کہ امام حسن بن صباح تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا
مختصر یہ کہ اس لڑکی نے پانچ آدمیوں کے اس گروہ کی اصلیت معلوم کرلی وہ جس آدمی سے محبت کرتی تھی اس آدمی نے وہ دن بھی مقرر کردیا تھا جب اس آدمی نے اس لڑکی کو اس شہر سے لے جانا تھا دو دن گزرگئے منور کی بہن باہر نکلی اور پھر واپس نہ آئی سورج غروب ہوگیا رات گہری ہوگئی لڑکی واپس نہ آئی تب منور کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے بہن کو خطرناک آدمی کے ساتھ دوستی بنائے رکھنے پر اکسایا تھا اس میں کوئی شک تھا ہی نہیں کہ اس کی بہن اس باطنی کے ساتھ چلی گئی ہے منور کو معلوم تھا کہ حسن بن صباح کے پاس اس قسم کے سیکڑوں حسین اور تیز طرار لڑکیاں ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے یہ سوچ کر منور کا غصہ بڑھتا ہی گیا اور وہ بیچ و تاب کھانے لگا کہ وہ کیا کرے اسے امیر قلعہ کا خیال آیا کہ اسے جا کر بتائے اور وہ ان مشکوک آدمیوں کو پکڑ کر معلوم کرے کہ لڑکی ان کے قبضے میں ہے یا نہیں لیکن اس نے جب سوچا کہ امیر قلعہ نے اسے دشمن سمجھ لیا ہے تو اس نے امیر قلعہٰ کو ذہن سے اتار دیا رات گزرتی جارہی تھی
میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے منور کو اس کی بیوی نے کہا آپ امیر قلعہ کے پاس جائیں اور اسے بتائیں کہ اس کی بہن کو ان مشکوک آدمیوں میں سے ایک آدمی نے محبت کا جھانسہ دے کر غائب کر دیا ہے پھر امیر قلعہ سے کہیں کہ اگر آپ میری بہن کو ان سے آزاد کروا دیں تو میں اپنی بہن کو آپ کے ساتھ بیاہ دوں گا
یہ تو میں کسی قیمت پر نہیں کروں گا منور نے کہا بہن مجھے نظر آ گئی تو میں اسے قتل کر دوں گا اسے اس امیر قلعہ کی جوزیت میں نہیں دوں گا
میں آپ سے یہ تو نہیں کہہ رہی کہ اپنی بہن ضرور ہی اسے دینی ہے منور کی بیوی نے کہا پہلے اپنی بہن کا سراغ تو لگائیں وہ مل گئی تو امیر قلعہ کو صاف کہہ دینا کہ میں تمہیں اپنی بہن نہیں دوں گا آپ ڈرے نہیں میرے تین بھائی ہیں میں ان کے ہاتھ امیر قلعہ کو قتل کروا سکتی ہوں
منور اسی وقت امیر قلعہ کے یہاں چلا گیا امیر قلعہ شراب پی رہا تھا اور اس وقت اس کے ساتھ ایک نوخیز لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اس نے منور کو اندر بلایا اور لڑکی کو وہاں سے اٹھا دیا
کہو رئیس! امیر قلعہ نے طنزیہ سے لہجے میں پوچھا کیسے آنا ہوا ؟
مجھے آپ کی مدد کی ضرورت آ پڑی ہے منور نے کہا میری بہن لاپتہ ہوگئی ہے مجھے انہیں پانچ آدمیوں پر شک ہے جن کے متعلق میں آپ کے ساتھ بات کر چکا ہوں میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک آدمی نے میری بہن کو محبت کا جھانسہ دیا تھا مجھے شک ہے کہ میری بہن کو وہی لے گیا ہے اور میں جس مسئلہ پر پریشان ہو رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میری بہن کو حسن بن صباح تک پہنچا دیا جائے گا
وہ کہیں نہیں گئی امیر قلعہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں شراب کا اثر نمایاں تھا وہ یہی ہے اور میرے پاس ہے پریشان مت ہو رئیس! اگر تم اجازت دے دو تو یہ شادی دھوم دھام سے ہوگی اور اگر تم اجازت نہیں دو گے تو بھی یہ شادی ہو کر رہے گی اور تم منہ دیکھتے رہ جاؤ گے کہو کیا کہتے ہو کیا تم بھول گئے تھے کہ میرے ہاتھ میں کتنی طاقت ہے؟
شراب کی طاقت کوئی طاقت نہیں ہوتی منور نے اٹھتے ہوئے کہا میں تمہیں صرف ایک بار شرافت اور دوستی سے کہوں گا کہ میری بہن ابھی میرے حوالے کر دو دوسری بار نہیں کہوں گا
اس وقت امیر نشے میں بدمست تھا شراب کا نشہ تو کوئی نشہ نہیں تھا اصل نشہ تو یہ تھا کہ وہ قلعے کا اور اس شہر کا حاکم تھا یہ تھا اصل نشہ
رئیس منور! امیر قلعہ نے کہا تم چلے جاؤ سوچ کر کل مجھے جواب دینا اگر اس وقت دھمکیوں کی زبان میں بات کرو گے تو میں اپنے نوکروں کو بلاکر تمہیں دھکے دلوا کر گھر سے نکالوں گا اور شکاری کتے تم پر چھوڑ دوں گا
منور وہاں سے نکل آیا منور اپنے گھر پہنچا تو منور وہ منور نہیں تھا جو قومی جذبے سے سرشار رہتا تھا اس کے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے اور اس کی ذات میں آتش فشاں پھٹ پڑا تھا بیوی نے اس سے پوچھا تو وہ چپ رہا بیوی کو ایک طرف کر دیا اور تلوار لے کر پھر باہر نکل گیا اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑی اور باہر تک آ گئی منور نے رک کر پیچھے دیکھا
تم واپس چلی جاؤ اس نے بیوی سے کہا میں کسی کو قتل کرنے نہیں جا رہا میں ان شاءاللہ زندہ واپس آؤں گا
بیوی واپس اپنے گھر آگئی لیکن وہ بہت ہی پریشان تھی منور نے اس حویلی کے دروازے پر جا دستک دی جس میں پانچ مشکوک آدمی رہتے تھے دروازہ کھلا تو منور نے دیکھا کہ دروازہ کھولنے والا وہی آدمی تھا جسے اس کی بہن چاہتی تھی اور جو اس کی بہن کو چاہتا تھا منور اسے اور وہ منور کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا وہ منور کو اندر لے گیا سارے آدمی منور کے پاس بیٹھ گئے
میرے دوستو! منور نے کہا میں قتل کرنے نہیں آیا نہ قتل ہونے کا ارادہ ہے میری بہن لاپتہ ہے اور مجھے پتا چل گیا ہے کہ وہ امیر قلعہ کے پاس ہے وہ بدبخت کب کا میری بہن کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور میں اسے صاف الفاظ میں کہہ چکا تھا کہ میں اپنی بہن اس کی زوجیت میں نہیں دوں گا
آپ ہمارے پاس کیوں آئے ہیں؟
اس آدمی نے پوچھا جس کے ساتھ منور کی بہن کی محبت تھی ہم آپ کی جو مدد کر سکتے ہیں وہ بتائیں
میرے دوستو ! منور نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم سب باطنی ہو اور حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے یہاں آئے ہو میں تمہیں کسی بھی وقت پکڑواکر قتل کروا سکتا تھا لیکن میری یہ بات اب غور سے سنو میں تمہارا ساتھی ہوں مجھ پر اعتبار کرو صبح ہوتے ہی تم میں سے کوئی ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جائے اور اسے کہے کہ اپنے آدمی بھیجے جس طرح تم نے قلعی ملاذخان میں بھیجے تھے یہ قلعہ بھی لے لو
اس سلسلے میں ان کے درمیان کچھ اور باتیں ہوئیں اور ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جانے کے لئے تیار ہوگیا منور کی حالت ایسی تھی جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو اس کو بہن سے بہت ہی پیار تھا اس بہن کو امیر قلعہ لے اڑا تھا وہ پاگل نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا وہ بھول ہی گیا کہ وہ باطنیوں کا دشمن ہے اور باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے
دو یا تین دن گزرے ہونگے کہ جو آدمی حسن بن صباح کے پاس گیا تھا وہ واپس آ گیا اور اسی روز شہر میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا ان کے ساتھ اونٹ تھے جن پر اناج اور مختلف قسم کا سامان لدا ہوا تھا ان تاجروں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی یہ سرائے میں ٹھہرے
رات کا پہلا پہر تھا امیر قلعہ حسب معمول شراب پی رہا تھا اس نے منور کی بہن کو اپنے پاس بٹھا رکھا تھا اور شراب پینے پر مجبور کر رہا تھا لڑکی رو رو کر انکار کر رہی تھی امیر قلعہ قہقہے لگا رہا تھا عین اس وقت دربان نے اندر جا کر اسے بتایا کہ رئیس شہر منور الدولہ آئے ہیں امیر قلعہ نے قہقہہ لگا کر کہا کہ اسے اندر بھیج دو
جب منور اندر گیا تو وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پیچھے آٹھ نو آدمی تھے امیر قلعی نے حیرت زدہ سا ہو کر ان سب کو دیکھا لیکن اسے یہ پوچھنے کی مہلت نہ ملی کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں انہوں نے امیر قلعہ کو پکڑ لیا اور ان میں سے ایک نے خنجر امیر قلعہ کے دل میں اتار دیا ایک ہی وار کافی تھا
یہ جو تاجر آئے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے وہ ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور جب امیر قلعہ کو قتل کیا گیا اس وقت تک وہ ان چند سو محافظوں پر قابو پا چکے تھے جو مختلف جگہوں پر سوئے ہوئے تھے اگلی صبح اعلان ہوا کہ اب امیر قلعہ کوئی اور ہے اس طرح یہ قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں چلا گیا
منور کو توقع تھی کے باطنی اسے کوئی اعزاز دیں گے تاریخی حوالوں کے مطابق اس کی خواہش یہ تھی کہ اسے اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنی بیوی کو بہن اور بچوں کو ساتھ لے کر مرو یا رے چلا جائے لیکن اس کا انجام بہت برا ہوا منور پراسرار طریقے سے ختم ہوگیا اور اس کی بہن کو حسن بن صباح کی جنت میں بھیج دیا گیا اس کے بیوی بچوں کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:31 }
منور الدولہ قتل ہوگیا اس کے بیوی بچے کا کچھ پتہ ہی نہ چلا وہ کہاں غائب ہوگئے ہیں یا غائب کر دیئے گئے ہیں اور اس کی بہن کو باطنی لے اڑے منور الدولہ نے اسی بہن کے خاطر قلعہ قستان پر باطنیوں کا قبضہ کروا دیا تھا وہ تو پکا مومن تھا لیکن بہن کی عزت اور عصمت پر اس نے اپنا ایمان بھی قربان کر دیا تھا منور الدولہ کے خاندان کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا تھا لیکن یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی
اس کی بہن کا نام حمیرا تھا تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑی ہی حسین لڑکی تھی وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی اپنے دین وایمان کی پکی تھی اس میں اپنے بھائی منور الدولہ جیسا جذبہ تھا اس کے دل میں بھی حسن بن صباح اور اسکے باطنی فرقہ کی نفرت موجزن تھی لیکن اسے محبت ہوئی تو ایک باطنی سے ہوئی وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ خوبرو اور جواں سال آدمی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا تخریب کار اور جاسوس ہے
پہلے گزر چکا ہے کہ اس شہر کے مکان میں پانچ آدمی رہتے تھے جو بظاہر دیندار اور زاہد تھے لیکن یہ انکا بہروپ تھا وہ پانچوں وقت مسجد میں جاکر نماز ادا کرتے اور وہ اتنے ملنسار ہر کسی کے ہمدرد اور اتنے ہنس مکھ تھے کہ ہر کوئی انہیں محبت اور احترام سے ملتا اور ہر محفل میں انہیں تعظیم دی جاتی تھی یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ان کی سرگرمیاں کتنی پراسرار اور مشکوک سی تھی کہ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ لوگ باہر سے کچھ اور اور اندر سے کچھ اور ہیں شہر کے بیشتر لوگ ان پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں کرتے تھے منور الدولہ کو تو آخر میں آکر یقین ہوگیا تھا کہ یہ پانچ مذہبی قسم کے آدمی باطنی ہیں اور کسی بھی وقت کوئی تباہ کاری کر سکتے ہیں لیکن قلعے کا حاکم منور الدولہ کی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا
منور الدولہ اس شہر کا رئیس تھا لیکن اس میں وہ تکبر اور غرور نہیں تھا جو اس وقت کے رئیسوں میں ہوا کرتا تھا وہ صاف ستھرا مسلمان تھا صوم و صلوۃ اور حقوق العباد کا پابند تھا عبادت کے ساتھ ساتھ وہ عسکریت پسند بھی تھا اسے اپنی بہن حمیرا کے ساتھ بہت ہی پیار تھا اسی پیار کا کرشمہ تھا کہ حمیرا بھی خیالات اور کردار کے لحاظ سے اپنے بھائی کے نقشے قدم پر چل رہی تھی اسے گھوڑسواری کا بہت شوق تھا منور نے اسے شہسوار بنا دیا تھا اسے تیغ اور خنجر زنی نیزابازی اور تیر اندازی بھی سکھا دی تھی وہ آخر شہر کے رئیس کی بہن تھی اس لیے اس میں خود اعتمادی اور جرات تھی وہ دوسرے تیسرے دن شام کے وقت گھوڑے پر سوار ہوتی اور شہر سے نکل جاتی تھی گھوڑا دوڑاتی اور جدھر چاہتی ادھر ہو آتی تھی
ایسے ہی ایک شام وہ شہر سے کچھ دور گھوڑا دوڑا رہی تھی ایک بڑا ھی خوبرو گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا حمیرا نے اپنا گھوڑا اس کے قریب سے گزارا تو اس سوار نے اسے غور سے دیکھا اور فوراً ہی گھوڑا اس کے پیچھے دوڑا دیا دونوں گھوڑے جب پہلو بہ پہلو ہوئے تو حمیرا نے اس سوار کو غصیلی نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا کہ وہ کس نیت سے اس کے پاس چلا آیا ہے
گھوڑا فوراً روک لیں اس سوار نے کہا آپ کی زین کسی ہوئی نہیں ڈھیلی ہے اور آپ گر پڑیں گی
حمیرا نے گھوڑا روک لیا اور اتر آئی وہ آدمی بھی گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے گھوڑے کی زین دیکھی واقعی زین کسی ہوئی نہیں تھی اس نے زین اچھی طرح کس دی
اب جائیں اس سوار نے کہا بس مجھے آپ سے اتنی ہی دلچسپی تھی
حمیرا کو یہ شخص شکل و صورت اور جسم کے لحاظ سے بھی اچھا لگا اور بول چال کے انداز سے بھی وہ کوئی چھوٹی سی حیثیت کا آدمی نہیں لگتا تھا
آپ کون ہیں؟
حمیرا نے پوچھا کیا آپ یہیں کے رہنے والے ہیں
میرا نام جابر بن حاجب ہے اس سوار نے جواب دیا پردیسی ہوں بغداد سے یہاں علم کی تلاش میں آیا ہوں اپنے جیسے چار پانچ آدمی مل گئے ہیں ان کے ساتھ رہتا ہوں
لیکن آپ تو شہسوار معلوم ہوتے ہیں حمیرا نے کہا اس زین پر میں سوار تھی اور مجھے پتہ نہ چلا کہ یہ پوری طرح کسی ہوئی نہیں آپ کو اتنا تجربہ ہے کہ آپ نے دور سے دیکھ لیا اور مجھے گرنے سے بچا لیا
کیا علم کی جستجو میں مارے مارے پھرنے والے شہسوار نہیں ہوسکتے؟
جابر بن حاجب نے مسکراتے ہوئے کہا
ہوتا تو یہی ہے حمیرا نے کہا عالم عموماً تارک الدنیا سے ہو جاتے ہیں
میں ان عالموں میں سے نہیں جابر نے کہا دنیا سے تعلق توڑ لینا علم کے خلاف ورزی ہے بلکہ میں اسے علم کی توہین سمجھتا ہوں میں مسلمان ہوں وہ مسلمان ہی کیا جو شہسوار نہ ہو اور جس کا ہاتھ تلوار برچھی اور کمان پر صاف نہ ہو میں ایک زندہ قسم کا عالم بننا چاہتا ہوں اس عالم کو میں نامکمل انسان سمجھتا ہوں جو عمل سے کتراتا ہو
دونوں اپنے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑے آہستہ آہستہ چلنے لگے جابر کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں کوئی ایسا تاثر تھا کہ حمیرا کو جیسے یہ بھی یاد نہ رہا ہوں کہ اسے واپس گھر بھی جانا ہے گھوڑے آگے ہی آگے چلے جارہے تھے آگے دریا تھا جہاں گھوڑے رک گئے
وہ علاقہ بڑا ہی سرسبز تھا جس میں پیڑ پودوں کی افراط تھی اس ماحول کی اپنی ایک رومانیت تھی جو حمیرا پر اثر انداز ہونے لگی جابر نے حمیرا کو یاد دلایا کہ شام گہری ہو گئی ہے اس لیے اسے گھر جانا چاہیئے حمیرا وہاں سے چل تو پڑی لیکن وہ محسوس کرنے لگی کہ اس کا دل وہیں دریا کے کنارے رہ گیا ہے اس نے گھوم گھوم کے پیچھے دیکھا آخر گھوڑے کو ایڑ لگا دی
یہ حمیرا اور جابر کی پہلی ملاقات تھی اس کے بعد حمیرا گھوڑ سواری کے لیے ہر شام باہر آنے لگی اس کی نظریں جابر کو ڈھونڈتی تھیں لیکن جابر ہر روز باہر نہیں جاتا تھا تیسرے چوتھے روز اسے جابر مل جاتا اور دونوں دریا کے کنارے اس جگہ چلے جاتے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا جابر نے کوئی ایسی بات کی تھی نہ حمیرا نے کوئی ایسا اشارہ دیا تھا کہ ان کی محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ ہے یہ دو روحوں کی محبت تھی اور ان کی روحوں کا جسمانی آسودگی اور نفسانی خواہشات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا وہ گھوڑوں سے اتر کر ایک دوسرے میں گم ہو جایا کرتے تھے
انہوں نے شادی کے عہدوپیمان کرلیے حمیرا نے جابر کو بتا دیا تھا کہ اس کا بھائی شہر کا ریس ہے اس لیے وہ اس کی شادی کسی رئیس زادے سے ہی کرے گا
اگر تم بھائی سے کہو کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو کیا وہ انکار کردے گا؟
جابر نے پوچھا
ہاں ! حمیرا نے جواب دیا میں اسے اجازت تو ضرور لوں گی اسے میرے ساتھ اتنا پیار ہے جو اسے اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں لیکن اس نے انکار کر دیا تو میں تمہارے ساتھ جہاں کہو گے چلی چلوں گی میرا دل کسی رئیس زادے یا کسی امیر زادے کو قبول نہیں کرے گا یہ لوگ عیش پرست ہوتے ہیں میں کسی کے حرم کی قیدی نہیں بنوں گی میں ایک انسان کی رفیقہ حیات بنونگی
حمیرا کسی وقت بھی محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص باطنی ہے اور علم و فضل کے ساتھ اسکا دور کا بھی تعلق نہیں اور یہ حسن بن صباح جیسے ابلیس کا پیروکار ہے پھر وہ دن آیا جس دن منور الدولہ نے حمیرا کو بتایا کہ فلاں مکان میں جو پانچ آدمی رہتے ہیں وہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے بڑے ہی خطرناک آدمی ہیں
باطنیوں کو تم جانتی ہو نا حمیرا ! منور نے کہا اسلام کا نام لے کر یہ فرقہ اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہے اور اگر انہیں یہیں پر روکا نہ گیا تو اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا جو ہمیں رسول اللہﷺ نے دیا تھا
حمیرا نے وہ مکان دیکھا تھا جس میں جابر بن حاجب رہتا تھا اور اس نے جابر کے ساتھی بھی دیکھے تھے اپنے بھائی کی یہ بات سن کر اسے افسوس ہوا کہ جابر بھی باطنی ہے اور اس نے جھوٹ بولا ہے کہ وہ بغداد سے علم کی تلاش میں آیا ہے
میرے عظیم بھائی! حمیرا نے پوچھا کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ باطنی ہیں؟
ابھی یقین نہ کہو منور نے جواب دیا شک پکا ہے کچھ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ پانچ چھ آدمی مشکوک ہیں
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ منور امیر شہر کے پاس گیا اور اسے بتایا تھا کہ یہ پانچ آدمی ٹھیک معلوم نہیں ہوتے اور انہیں پکڑنا چاہیے لیکن امیر نے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لی تھی منور مومن اور مجاہد قسم کا مسلمان تھا اس نے حمیرا سے کہا کہ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا قلع قمع کرے لیکن یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ یہ لوگ واقعی باطنی ہیں اور تخریب کاری کی نیت سے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں
حمیرا نے بھائی سے کہا کہ اگر سوال اسلام کی سربلندی اور باطنیوں کی سرکوبی کا ہے تو وہ یہ راز نکال لائے گی پہلے سنایا جاچکا ہے کہ وہ ان پانچ چھ آدمیوں کی اصل حقیقت معلوم کر لائی اس نے یہ راز جابر بن حاجب سے لیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جابر کو حمیرا سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ اس نے حمیرا کو اپنا راز دے دیا حمیرا کے دل میں بھی جابر کی بے پناہ محبت تھی لیکن اسے جو محبت اپنے بھائی سے اور اسلام سے تھی اس پر اس نے اپنی محبت قربان کردی اس راز سے اس قلعہ بند شہر کے زمین وآسمان تہہ و بالا ہو گئے
قلعے میں خونریز ہنگامہ شروع ہوا تو جابر حمیرا کے گھر جا پہنچا اس وقت منور گھر نہیں تھا وہ امیر شہر کے گھر میں تھا جہاں کچھ باطنی اس کے ساتھ تھے اور پھر امیر شہر کو قتل کر دیا گیا تھا جابر نے حمیرا کو ساتھ لیا اور شہر سے نکل گیا
حمیرا اس توقع پر جارہی تھی کہ جابر اسے اپنے گھر بغداد لے جا رہا ہے لیکن شام کے بعد جب وہ ایک جگہ روکے تو حمیرا پر یہ انکشاف ہوا کہ اسے بغداد نہیں بلکہ الموت لے جایا جا رہا ہے
یہ اسے اس طرح پتہ چلا کہ وہ جب اپنے شہر سے نکلی تھی تو جابر اس کے ساتھ اکیلا تھا دونوں گھوڑے پر جا رہے تھے جابر بہت ہی آہستہ رفتار پر جارہا تھا حمیرا نے اسے کہا کہ تیز چلنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس کا بھائی تعاقب میں آجائے جابر نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے انتظار میں ہے وہ بھی شہر سے نکل آئے ہوں گے کچھ دیر بعد جابر کے پانچ ساتھی اس سے آ ملے قلعے پر قبضہ کرنے کے لئے دوسرے باطنی پہنچ گئے تھے جابر اور اس کے ساتھیوں کا کام ختم ہوگیا تھا جابر نے قلعہ سر کرنے کے علاوہ ایک بڑا خوبصورت شکار بھی مار لیا تھا حسن بن صباح جن لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا تھا حمیرا اگر ان سے کچھ درجہ زیادہ حسین نہیں تھی تو کسی سے کم بھی نہیں تھی حمیرا کو الموت پہنچ کر کچھ ٹریننگ دینی تھی اور پھر اسے حسن بن صباح کی جنت میں حور بنا کر داخل کرنا تھا
سورج غروب ہوگیا اور یہ چھوٹا سا قافلہ چلتا گیا اور جب رات زیادہ گہری ہوگئی تو یہ لوگ روک گئے وہ کھانا اپنے ساتھ لے آئے تھے جو انہوں نے خود بھی کھایا اور حمیرا کو بھی کھلایا انہوں نے حمیرا کی موجودگی میں ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کو یقین ہوگیا کہ اسے بغداد لے جایا جا رہا ہے جہاں جابر اس کے ساتھ شادی کرلے گا کھانا کھا چکے تو انہوں نے سونے کا بندوبست اس طرح کیا کہ حمیرا کے لئے الگ چادر بچھا دی اور باقی آدمی اس سے ذرا پرے ہٹ کر لیٹ گئے حمیرا پختہ کردار اور ایمان والی لڑکی تھی لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ گھر سے بھاگ آئی تھی اس کی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ وہ اپنے آپ میں بے چینی محسوس کر رہی تھی کبھی تو اس کو خیال آتا کہ اس نے گھر سے نکل کر کوئی غلط کام نہیں کیا وہ فخر سے کہہ سکتی تھی کہ وہ باعصمت لڑکی ہے اور محبت میں مبتلا ہوکر بھی اس نے اپنی عصمت کو داغدار نہیں ہونے دیا وہ اس خیال سے بھی خوش تھی کہ اس نے اپنے بھائی کو ناراض نہیں کیا اور اس کے آگے جھوٹ نہیں بولا لیکن فوراً ہی اس کا ضمیر لعنت ملامت کرنے لگا کہ ایک طرف تو وہ اسلام کی محبت کو دل میں لئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اس نے ایک شہر باطنیوں کے حوالے کروا دیا ہے بیشک اسکے بھائی نے امیر شہر سے انتقام لے لیا تھا لیکن ایک شہر اور مسلمان شہر کی آبادی باطنیوں کے حوالے کردینا ایک گناہ تھا
حمیرا کی ذات میں ایسی کشمکش پیدا ہوگئی کہ وہ بے چین ہی ہوتی چلی گئی اس کیفیت میں اسے نیند کیسے آتی وہ دل ہی دل میں اللہ سے معافیاں مانگنے لگی اپنے دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ کو سبز باغ بھی دکھائے اس نے تصور میں دیکھا کہ وہ جابر کی بیوی بن گئی ہے اور زندگی بڑی ہی پرسکون ہو گئی ہے جابر نے اسے یہ تو بتا دیا تھا کہ اس کے ساتھی باطنی ہیں لیکن اپنے متعلق یہ بتایا تھا کہ وہ باطنی نہیں اور وہ ان آدمیوں کے ساتھ اس لئے رہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے عقیدے اور نظریے معلوم کرنا چاہتا ہے اور جب اسے یہ سب کچھ معلوم ہو جائے گا تو پھر وہ حسن بن صباح کے عقیدوں کے خلاف تبلیغ کا فریضہ انجام دے گا
جابر حمیرا کے پاس آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ سوئی ہوئی ہے آنکھیں بندکر لیں جابر چلا گیا وہ یہی دیکھنے آیا تھا کہ حمیرا سو گئی ہے یا نہیں وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا بیٹھا وہ حمیرا سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا یہی کوئی آٹھ دس قدموں کا فاصلہ ہوگا
سوگئی ہے یہ جابر کی آواز تھی جو حمیرا کو سنائی دی
حمیرا پہلے ہی بیدار تھی اس نے جابر کی یہ بات سنی تو وہ بالکل ہی بیدار ہوگئی اور اس نے کان ان لوگوں کی طرف لگا دیے اسے شک اس لیے ہوا کہ جابر نے یہ بات کچھ اور ہی انداز سے کی تھی
اسے شک تو نہیں ہوا کہ ہم اسے کہیں اور لے جا رہے ہیں؟
جابر کے ایک ساتھی نے پوچھا
نہیں! جابر نے جواب دیا میں نے اسے شک نہیں ہونے دیا
خدا کی قسم! ایک نے کہا امام اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اگر یہ چل پڑی تو ہو سکتا ہے امام اسے باہر بھیج دیں
میں تمہیں ایک بات بتا دو دوستو! جابر نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ میں اسے کس کام کے لیے لے جا رہا ہوں لیکن میں نے اس کے ساتھ جو محبت کی ہے اس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں میں اسے اپنی روح میں بٹھا چکا ہوں میں جانتا ہوں کہ میں نے اپنے لیے کتنی بڑی دشواری پیدا کر لی ہے
اگر ایسی بات ہے تو شیخ الجبل کو پتہ نہ چلنے دینا ایک اور ساتھی بولا شیخ الجبل کو پتہ چل گیا کہ تم اس لڑکی کے معاملے میں جذباتی ہو تو تم جانتے ہو کہ تمہیں کیا سزا ملے گی ہاں جانتا ہوں جابر نے کہا امام اپنا خنجر دے کر مجھے کہے گا کہ یہ اپنے دل میں اتار لو میں محتاط رہوں گا کہ امام کو اپنی جذباتی حالت نہ بتاؤں
حسن بن صباح کو اس کے پیروکار امام کہا کرتے تھے اور تاریخوں میں اسے شیخ الجبل کہا گیا ہے
اس کے بعد ان لوگوں نے حمیرا کو سویا ہوا سمجھ کر ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کے ذہن میں کوئی شک وشبہ نہ رہا کہ اسے دھوکے میں الموت لے جایا جا رہا ہے وہاں وہ اسی ابلیسیت کا ایک کل پرزہ بن جائے گی جس کے خلاف اس کے دل میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ پہلے ہی بے چینی میں مبتلا تھی اب وہ یوں محسوس کرنے لگیں جیسے اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی ہو اس نے پہلے تو یہ سوچا کہ ان لوگوں کے پاس چلی جائے اور کہے کہ وہ یہاں سے آگے نہیں جائے گی لیکن عقل نے اس کی رہنمائی کی اس نے سوچا کہ یہ چھ آدمی ہیں اور یہ چھے آدمیوں سے آزاد نہیں ہو سکتی اس نے ان کے ہاتھوں مر جانے کا بھی فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے پر قائم نہ رہ سکی اس نے یہ بھی سوچا کہ جب یہ سب سو جائیں تو اٹھے اور دبے پاؤں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ نکلے اس پر اس نے غور کیا اور یہی فیصلہ کرلیا کہ یہ سو جائیں تو وہ بھاگ جائے گی
آدھی رات ہونے کو آئی تھی جب یہ چھ آدمی سونے لگے جابر ایک بار پھر حمیرا کے قریب آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے آنکھیں بند کر لیں جابر یہ یقین کرکے کہ لڑکی سو گئی ہے اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا پھر وہ سب سو گئے
حمیرا تو پوری طرح بیدار اور تیار ہو چکی تھی اب اسے انتظار تھا کہ یہ اور زیادہ گہری نیند میں چلے جائیں تو وہ یہاں سے اٹھے اور نکلے گھوڑے پندرہ بیس قدم دور بندھے ہوئے تھے زین ان آدمیوں نے اپنے قریب رکھی ہوئی تھیں
حمیرا کو ان کے خراٹے سنائی دینے لگے اس نے کچھ دیر اور انتظار کیا آخر وہ اٹھی اور دبے پاؤں زینوں تک پہنچی اس نے ایک زین اٹھا لی لیکن زین وزنی تھی وہ زین اٹھا کر چلی تو زین پر پڑی ہوئیں ایک زین سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا اور وہ گر پڑی لوہے کی رکابیں آپس میں ٹکرائیں تو بڑی زور کی آواز اٹھی رات کے سناٹے میں یہ آواز زیادہ ہی زوردار سنائی دی جابر کی آنکھ کھل گئی باقی ساتھی سوئے ہوئے تھے ادھر حمیرا اٹھی ادھر جابر اٹھا اور حمیرا تک پہنچا
کیا کر رہی ہو؟
جابر نے سرگوشی میں پوچھا تا کہ اس کے ساتھی نہ جاگ پڑیں کیا تم گر پڑی تھی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے ساتھ آؤ
حمیرا نے جابر کا بازو پکڑا اور اسے اس کے ساتھیوں سے دور لے گئی اور دونوں وہاں بیٹھ گئے
مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟
حمیرا نے پوچھا
قلعہ الموت جابر نے بڑے تحمل سے جواب دیا
الموت! حمیرا نے پوچھا کیا ہم بغداد نہیں جا رہے
سنو حمیرا ! جابر نے کہا میں باطنی نہیں ہوں
اور تم مجھے اس ابلیس حسن بن صباح کے حضور پیش کرو گے حمیرا نے کہا اور وہ مجھے اپنی بہشت کی حور بنادے گا جابر میں نے رات تم سب کی باتیں سنی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ باطنیوں کو مجھ جیسی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے
مجھے معلوم ہے تم سب کچھ جانتی ہو جابر نے کہا لیکن تم مجھے پوری طرح نہیں جان سکی میں اپنے امام حسن بن صباح کے اس گروہ کا آدمی ہوں جو کسی لڑکی یا کسی آدمی کو پھانسنے کے لیے ایسی جذباتی اور پراثر باتیں کرتے ہیں کہ ان کا شکار ان کا گرویدہ ہو کر ان کے قدموں میں آ گرتا ہے لیکن ان میں جذبات ہوتے ہی نہیں کسی دوسرے کی جان لے لینا اور اپنی جان دے دینا میرے گروہ کے لئے ایک کھیل ہوتا ہے ان لوگوں میں اپنی بہنوں اور اپنی ماؤں کے لیے بھی کوئی جذبات نہیں ہوتے لیکن حمیرا تم پہلی لڑکی اور شاید آخری بھی ہو جس نے میرے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اب کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ میں تمہیں فریب اور جھانسے دیتا چلا جاؤں اب تم پوری طرح ہمارے قبضے میں ہو یہاں سے بھاگو گی تو کتنی دور تک پہنچ جاؤں گی؟
اور پھر جاؤں گی کہاں؟
اگر تم ہمارے قابو میں آؤں گی تو ہم تمہارے اس حسین جسم سے پورا پورا لطف اٹھا کر تمہیں قتل کر دیں گے
اور میں یہی صورت قبول کرونگی کہ اپنے آپ کو پہلے ہی ختم کر لوں حمیرا نے کہا میں مسلمان کی بیٹی ہوں اپنا آپ کسی کے حوالے نہیں کروں گی
کیا تم میری پوری بات نہیں سنوں گی جابر نے کہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب میں تمہارے ساتھ محبت کی جو بات کر رہا ہوں یہ فریب نہیں محبت میرے لئے ہمیشہ ایک سراب بنی رہی ہے اور میں اس سراب کے پیچھے دوڑتا اور بھٹکتا اور گرتا ہی رہا ہوں میں گر گر کر اٹھا اور اٹھ اٹھ کر محبت کے سراب کے پیچھے دوڑتا رہا ہوں حتیٰ کہ میں الموت پہنچ گیا میں کوئی لمبی چوڑی کوئی میٹھی کڑوی باتیں نہیں کروں گا مجھے محبت تم سے ملی ہے میرے سوئے ہوئے اور فریب خوردہ جذبات کو تم نے جگایا ہے تم اتنا کرو کہ خاموشی سے اور اطمینان سے میرے ساتھ چلی چلو ہمارا طریقہ یہ ہے کہ لڑکی کو پھانس کر لاتے ہیں اور الموت کی جنت میں داخل کر دیتے ہیں ایسی لڑکیوں کو سنبھالنے اور اپنے راستے پر چلانے والے وہاں موجود ہیں وہ دو تین دنوں ہی میں اس کے ذہن پر اور دل پر قبضہ کرلیتے ہیں پھر کوئی لڑکی وہاں سے بھاگنے کے متعلق سوچتی ہی نہیں لیکن حمیرا میں ایسے نہیں کروں گا میں اپنی روحانی محبت کا جو تم سے ہے پورا پورا ثبوت پیش کروں گا دیکھ حمیرا ہر انسان اس عقیدے کو اور اس مذہب کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے جو اسے باپ سے ورثے میں ملا ہے عقیدہ غلط بھی ہو سکتے ہیں انسان جب سے پیدا ہوا ہے عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا چلا آیا ہے میں تمہیں اسلام کے راستے سے نہیں ہٹا رہا ہمارا امام حسن بن صباح اسلام کا شیدائی ہے تم چل کے دیکھو اگر یہ عقیدہ تمہارے دل نے قبول کرلیا تو وہاں رہنا ورنہ مجھے اپنا قائل کر لینا اور میں تمہارے ساتھ بغداد چلا چلوں گا میں تم سے محبت کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کسی کے حوالے نہیں کروں گا اپنے پاس رکھوں گا
خنک اور خاموش رات گزرتی جارہی تھی اور جابر اپنی زبان کا جادو جگا رہا تھا اس کے دل میں حمیرا کی محبت تو تھی ہی لیکن اس دل میں حسن بن صباح بھی موجود تھا حمیرا پر غنودگی اور خاموشی طاری ہوتی چلی جارہی تھی وہ اتنا تو تسلیم کرتی تھی کہ وہ تنہائیوں میں جابر سے ملتی تھی لیکن جابر نے کبھی اشارتاً بھی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کی ساری دلچسپیاں اور چاہت حمیرا کے جسم کے ساتھ ہے اب آبادیوں سے دور جنگل میں جہاں حمیرا کو اس شخص سے بچانے والا کوئی بھی نہ تھا جابر نے نفسانی خواہش کا ذرا جتنا بھی اظہار نہیں کیا تھا حمیرا جابر کو ہی اپنا ہمسفر اور محافظ سمجھ رہی تھی اور اس نے اس شرط پر جابر کی ہمسفر رہنا قبول کرلیا کہ وہ الموت جاکر دیکھیں گی کہ وہاں کیا ہے اور اس کا دل کیا کہتا ہے
اگلی صبح یہ قافلہ اپنی منزل کو روانہ ہوگیا
سلجوقی سلطان ملک شاہ کو دفن ہوئے دو مہینے اور کچھ دن گزر گئے تھے یہی ایک طاقت تھی جو حسن بن صباح کی ابلیس کے سیلاب کو روک سکتی تھی گو اس طاقت کو اب تک ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن یہ طاقت ہاری نہیں تھی اور نئی تیاریوں میں مصروف ہوگئی تھی اس کا مقصد اور نصب العین صرف یہ تھا کہ حسن بن صباح کی جنت کو اس کے لئے اور اس کے فدائین کے لئے جہنم بنا دیا جائے لیکن ملک شاہ ایک فدائی کا شکار ہوگیا اگر اس کا بڑا بیٹا برکیارق جو اس کی جگہ ایک عظیم سلطنت کا سربراہ بنا تھا اپنے باپ جیسا ہوتا تو یہ طاقت ابلیسی جنت پر بجلی بن کر گرتی لیکن برکیارق اسی قاتل کی بہن کی زلفوں کا اسیر ہوگیا تھا جس نے صرف اسے ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کو بھی یتیم کر دیا تھا
یہ لڑکی جس کا نام روزینہ تھا اس قاتل کی بہن نہیں تھی وہ تو حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی لڑکی تھی جس نے مرو میں خانہ جنگی کا بیج بونا تھا قاتل نے اپنا کام کر دیا تھا اور روزینہ مقتول کے جانشین کو اپنے طلسماتی حسن میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی یہ بھی اسکی کامیابی تھی کہ اس نے برکیارق کی ماں اور اس کے خاندان کے دیگر اہم افراد سے منوالیا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے پہلے یہ تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ روزینہ نے ایسی حیران کن مہارت سے پورے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں
وہ لوگ اس خاندان کے خون کے رشتے دار نہیں تھے جو کہتے تھے کہ یہ لڑکی مشکوک ہے اور خطرناک بھی لیکن برکیارق کسی کی سنتا ہی نہیں تھا اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا سلطان ملک شاہ کا چہلم ہو چکا تھا کئی دن گزر گئے تھے اب کسی بھی دن برکیارق نے روزینہ کے ساتھ شادی کر لینی تھی
مزمل آفندی اور شمونہ کی محبت کا پہلے ذکر آچکا ہے ان کی محبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ دو نوجوان تھے اور خوبصورت بھی تھے اور پہلی نظر میں ہی ایک دوسرے کے ہوگئے تھے بلکہ ان کی محبت کی ایک بنیاد تھی اور اس کے پس منظر میں ایک مقصد تھا جو ان دونوں میں مشترک تھا یہ تھی حسن بن صباح کی نفرت اور یہ ارادہ کے اس ابلیس کو قتل کرنا ہے
شمونہ حسن بن صباح کی داشتہ اور اعلی کار رہ چکی تھی اس نے حسن بن صباح کے لیے کچھ کام بڑی کامیابی سے کیے تھے لیکن اللہ نے اسے روشنی دکھائی اور وہ پھر واپس اسلام کی گود میں آگئی ابومسلم رازی نے جو سلطنت سلجوقہ کے دوسرے بڑے شہر کا امیر تھا شمونہ کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا اس حسین و جمیل لڑکی کے دل میں انتقام کے شعلے اٹھ رہے تھے
مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا مگر خواجہ حسن طوسی کو قتل کرنے واپس آ گیا تھا یہ تو شمونہ کی محبت اور شاہی طبیب نجم مدنی کا کمال تھا کہ انہوں نے مزمل آفندی کے ذہن سے حسن بن صباح کے اثرات بد نکال دیے تھے اور وہ اپنی اصلیت میں واپس آگیا تھا مزمل بھی انتقام کی آگ میں جل رہا تھا
مزمل اور شمونہ ملتے اور گھنٹوں اکٹھے بیٹھے رہتے تھے شمونہ اور اس کی ماں کو جس کا نام میمونہ تھا سلطان ملک شاہ نے ایک مکان دے دیا اور ان کا وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا مزمل اپنے کاروبار میں لگ گیا تھا لیکن وہ اور شمونہ اپنے مشترک مشن کی تکمیل کے لیے تڑپتے رہتے تھے ایک روز مزمل شمونہ کے گھر میں آیا بیٹھا تھا شمونہ کی ماں نے انہیں کہا کہ وہ شادی کر لیں اس نے وجہ یہ بتائی کہ وہ دونوں نوجوان ہیں اور اکٹھے بیٹھتے اٹھتے ہیں اور اس سے لوگ شک کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے لوگ انہیں بدنام کر دیں اور سلطان برکیارق کے کان بھرنے شروع کر دیں جسکا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا میمونہ نے دوسری دلیل یہ دی کہ وہ دو نوجوان ہیں اور ایک دوسرے کو روحوں کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جذبات سے مغلوب اور اندھے ہوکر وہ گناہ کر بیٹھیں
مزمل نے کوئی بات نہ کی اس نے شمونہ کی طرف دیکھا اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی ماں کو شمونہ خود ہی کوئی جواب دے
میری ایک بات یقین سے سنو ماں! شمونہ نے کہا اگر میری اور مزمل کی محبت جسمانی ہوتی تو اب تک ہم میاں بیوی بن چکے ہوتے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم وہ گناہ کر چکے ہوتے جس کا تمہیں ڈر ہے ہماری محبت روحوں کا عشق ہے ہمارا نصب العین ایک اور راستہ ایک ہے ہمارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے اور ہم دونوں کا اللہ حامی اور ناصر ہے مجھے جس روز یہ اشارہ ملا کہ مزمل کو میرے حسن اور میرے جسم کے ساتھ محبت ہے تو اسی روز میرے اور اس کے راستے الگ ہوجائیں گے
شمونہ بیٹی! میمونہ نے کہا میں نے دنیا دیکھی ہے حسن اور جوانی میں وہ طاقت ہے
مجھے اپنے حسن اور اپنی جوانی سے نفرت ہے ماں! شمونہ نے جھنجلا کر کہا اس حسن اور جوانی نے مجھے اس ذلیل انسان کے قدموں میں جا پھینکا تھا مجھے اپنے اس جسم سے نفرت ہوتی جارہی ہے جسے لوگ اتنا زیادہ پسند کرتے ہیں میرے پاس روح رہ گئی ہے اس کا مالک مزمل ہے میں جو کچھ بھی ہوں پاک و پلید ہوں مزمل کی ہوں لیکن شادی ہمارا نصب العین نہیں میں لوگوں کے لیے بڑا ہی حسین دھوکا بنی رہی تھی میں نے اللہ کو ناراض کیا اللہ نے مجھے ایمان کی روشنی بخشی اس کے شکرانے کے لیے یہ میرا فرض ہے کہ اللہ کو راضی کروں اور اپنی روح کو پاک کروں پھر میں اپنا آپ ایک بیوی کے طور پر مزمل کو پیش کروں گی کیوں مزمل کیا تمہیں میری اس بات سے اختلاف ہے؟
نہیں شمونہ! مزمل نے جواب دیا میں بولتا تو میں بھی یہی کہتا جو تم نے کہا ہے میں نے سب سے پہلے اپنا مقصد پورا کرنا ہے تم نے ماں کو یہ جواب دے کر میرے ایمان میرے کردار اور میرے عزم کو نئی تازگی دی ہے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں کہیں دیتی ہوں شمونہ نے مزمل سے کہا میں اپنی ذات کو اور اپنے وجود کو مزمل کے بغیر نامکمل سمجھتی ہوں دونوں نے میمونہ کو یقین دلا دیا کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہتے رہیں لیکن وہ اس گناہ کا تصور بھی اپنے ذہن میں نہیں لائیں گے جس کی طرف میمونہ نے اشارہ کیا تھا
ایک بات بتاؤ مزمل! شمونہ نے پوچھا تم نے پھر برکیارق کو نہیں کہا کہ یہ لڑکی مشکوک ہے
ایک ہی بار کہہ کر دیکھ لیا تھا مزمل نے کہا اس نے مجھے ڈانٹ کر چپ کرادیا تھا میں تو ابھی تک اسے دوست سمجھ رہا تھا لیکن وہ جس لہجے میں بولا اس سے مجھے یاد آگیا کہ یہ شخص اب دوست نہیں بلکہ سلطان بن گیا ہے
تم رے کیوں نہیں چلے جاتے شمونہ نے کہا تم ابومسلم رازی سے بات کرکے دیکھو وہ اتنے بڑے شہر اور اتنے وسیع علاقے کا حاکم ہے سلطان ملک شاہ مرحوم کا وہ خاص معتمد اور مشیر تھا ہوسکتا ہے وہ برکیارق کو سمجھا بجھا کر اس لڑکی سے شادی کرنے سے روک دے
ابومسلم رازی سلطان ملک شاہ مرحوم کا معتمد اور مشیر تھا مزمل نے کہا برکیارق اس کی بھی نہیں مانے گا تم شاید نہیں جانتی کہ برکیارق روزینہ کے لیے پاگل ہوا جارہا ہے ابومسلم رازی برکیارق کی شادی پر آرہا ہے اس سے پہلے اسے ملنا بیکار ہے شادی تو ہونی ہی ہے میں ابومسلم رازی سے کہوں گا کہ روزینہ کو کسی طرح غائب کیا جائے ابھی تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ روزینہ کیا کر گزرے گی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ دکھائے گی ضرور پھر برکیارق زندہ رہا تو باقی عمر پچھتاتا رہے گا
شادی ہو جانے دو شمونہ نے کہا میں روزینہ کے ساتھ دوستی لگانے کی کوشش کروں گی اگر میں کامیاب ہوگئی تو اسے زہر پلا دو گی
سلطان ملک شاہ مرحوم تو حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کا دشمن تھا ہی لیکن ابومسلم رازی کی تو زندگی کا جیسے مقصد ہی یہی تھا کہ اس فرقے کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے وہ تو صاف الفاظ میں کہا کرتا تھا کہ یہ کام تبلیغ سے نہیں ہوگا یہ کام صرف تلوار سے ہو سکتا ہے اس سلسلے میں پہلے سنایا جا چکا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اتنی شہرت نہیں ملی تھی اور وہ ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ ابومسلم رازی نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن کسی طرح حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ رے سے غائب ہوگیا تھا
برکیارق اور روزینہ کی شادی کا دن آگیا بارات نے تو کہیں جانا نہیں تھا دلہن سلطان کے محل میں موجود تھی سلطان برکیارق کے حکم سے سارے شہر میں رات کو چراغاں کی گئی اور اس شادی پر جو ضیافت دی گئی اس کے چرچے تاریخ تک پہنچے اور آج تک سنائی دے رہی ہیں ایک دعوت عام تھی امراء اور وزراء اور دیگر رتبوں والے افراد کے لیے الگ انتظام تھا اور شہر کے لیے باہر کھلے میدان میں کھانا رکھا گیا تھا دور دور سے ناچنے گانے والے آئے تھے ناچنے والیوں نے بھی آکر اپنے فن کے مظاہرے کیے اور سب نے سلطان سے انعام وصول کیے
یہ ہنگامہ خیز شادی جس پر خزانے کا منہ کھول دیا گیا تھا یہ انداز اس خاندان کی روایت کے منافی تھے سلطان ملک شاہ مرحوم ہر دلعزیز سلطان تھا اسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے اور کچھ دن گزرے تھے لوگ اس کے غم میں نڈھال ہوئے جارہے تھے لیکن برکیارق کی شادی کے دن لوگ سلطان مرحوم کا غم جیسے بھول ہی گئے تھے برکیارق کا مقصد ہی یہی تھا
جب اندر نکاح وغیرہ ہو رہا تھا اس وقت مزمل آفندی رے کے امیر ابو مسلم رازی کے پاس جا بیٹھا برکیارق کے دونوں چھوٹے بھائی محمد اور سنجر بھی اس کے پاس آ بیٹھے یہ دونوں بھائی خاصے مغموم تھے صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک تو انہیں اپنا باپ یاد آرہا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ اپنے بھائی کی شادی پر خوش نہیں
امیرمحترم! مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا آپ جب سلطان مرحوم کی وفات پر یہاں آئے تھے تو مجھے آپ کے ساتھ بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اب میں نے موقع نکالا ہے کیا آپ کو کسی نے پہلے بتایا ہے کہ ہمارے نئے سلطان کی دلہن باطنی ہے اور یہ اپنے آپ کو سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ظاہر کرتی ہے؟
ہاں مزمل آفندی! ابومسلم رازی نے جواب دیا میری مخبری کے ذرائع ایسے ہیں کہ زمین کے نیچے کی ہوئی بات بھی میرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے مجھے معلوم ہو چکا ہے
سلطان برکیارق کی دلہن سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن نہیں مزمل نے کہا یہ اس کے ساتھ الموت سے آئی تھی کیا آپ اس کے متعلق کچھ سوچ رہے ہیں ؟
میں سب کچھ سوچ چکا ہوں ابومسلم رازی نے کہا اور سوچ بھی رہا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو؟
امیرمحترم! مزمل نے جواب دیا میں یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ لڑکی نہ جانے کیا گل کھلائے گی آپ سے میں نے صرف یہ کہنا ہے کہ جہاں کہیں آپ کو میری ضرورت پڑے مجھے فوراً بلائیں آپ اس لڑکی کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں جس کا نام شمونہ ہے وہ آگ بگولا بنی بیٹھی ہے آپ اسے بھی استعمال کر سکتے ہیں
تم کسی بھی دن رے آ جاؤ ابومسلم رازی نے کہا اطمینان سے بیٹھے گے اور کچھ سوچ لیں گے
کیا یہ لڑکی ہمارے بھائی کو مار ڈالے گی؟
برکیارق کے بھائی محمد نے پوچھا
شاید نہیں ابومسلم رازی نے کہا یہ لڑکی سلطان برکیارق کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور اس کی توجہ حسن بن صباح سے ہٹا دے گی مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ سلطان مرحوم کی وفات کے بعد باطنیوں کی تبلیغ بہت تیز ہوگئی ہے اور ان کے اثرات دور دور تک پھیلنے شروع ہوگئے ہیں میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ سلطان برکیارق کیا کرتے ہیں
ہمارا بھائی برکیارق کچھ بھی نہیں کرے گا محمد نے کہا ہم اسکے ساتھ رہتے ہیں ہم دونوں بھائی دیکھ رہے ہیں کہ برکیارق کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل ہی بدل گیا ہے جیسے ہم اس گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور دو چار دنوں بعد رخصت ہو جائیں گے
ایک خیال کرنا محم ! ابو مسلم رازی نے کہا اور تم بھی سنجر اگر برکیارق یا اس کی بیوی کوئی بدتمیزی یا تمہارے ساتھ برا رویہ اختیار کرے تو خاموش رہنا میں ابھی ایک بات زبان پر نہیں لانا چاہتا تھا مگر تم لوگوں کو ذرا سا اشارہ دے ہی دوں تو بہتر ہے مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس لڑکی کے ذریعے حسن بن صباح ہماری سلطنت میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے خانہ جنگی کیسے ہوگی اس پر ابھی نہ سوچو میں موجود ہوں تم دونوں بھائی چوکنے رہنا اور تم مزمل ادھر ادھر دھیان رکھنا جونہی کوئی بات معلوم ہو میرے پاس آ جانا
اگلے روز دعوت ولیمہ دی گئی جو شادی کی ضیافت جیسی ہی تھی امراء وزراء اور دیگر اعلی سرکاری رتبوں والے افراد فرداً فرداً سلطان برکیارق کو مبارک باد کہنے گئے برکیارق نے ہر ایک سے کہا کہ یہ لوگ تین چار دن یہیں رہیں کیونکہ وہ ان سے خطاب کرے گا
یہ لوگ روکے رہے پانچویں روز برکیارق نے ان سب کو اکٹھا کرکے خطاب کیا یہ ایک تاریخی اہمیت کا خطاب تھا تاریخی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ نئے سلطان نے سلطنت سلجوقیہ کی گاڑی الٹے رخ چلا دی تھی تاریخ میں آیا ہے کہ اس نے خطاب میں جو نئے اعلان کئے وہ کچھ اس طرح تھے
نیا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری ہوگا
انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں گی
حسن بن صباح کا مقابلہ تبلیغ سے کیا جائے گا کیونکہ وہ ایک مذہبی فرقہ ہے جسے فوجی طاقت سے نہیں دبایا جاسکتا سلطان برکیارق نے زور دے کر کہا کہ پہلے بہت زیادہ جانی نقصان کرایا جاچکا ہے جو اب ختم کیا جا رہا ہے
محصولات زیادہ کیے جائیں گے
وہاں جتنے بھی امراء وزراء اور سالار وغیرہ بیٹھے تھے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے سب نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ سلطان نشے کی حالت میں بول رہا ہے یہ نشہ سلطانی کا بھی تھا اور روزینہ کے حسن و جوانی کا بھی
سلطان محترم! ابومسلم رازی بے قابو ہوکر بول پڑا حسن بن صباح ایک خطرناک فتنہ ہے اور اسلام کا بدترین دشمن نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کا قاتل حسن بن صباح ہے
سلطان برکیارق نے ابومسلم جیسے عالم مجاہد اور بزرگ کو آگے بولنے نہ دیا
اب کوئی قتل نہیں ہوگا سلطان برکیارق نے کہا یہ سوچنا میرا کام ہے آپ کا نہیں آپ رے میں امن وامان قائم رکھیں
سلطان برکیارق کی اس نئی حکمت عملی سے سب کو اختلاف تھا لیکن جس طرح اس نے ابومسلم رازی کو ٹوک کر اپنا حکم چلایا اس سے سب خاموش رہے سب نے جان لیا کہ یہاں بولنا بیکار ہے یہ سب چھوٹے بڑے حاکم سلطان برکیارق کے باپ کے وقتوں کے تھے اور سب کی عمریں اس کے باپ جتنی تھیں لیکن برکیارق نے کسی ایک کا بھی احترام نہ کیا اور کسی کو وہ تعظیم بھی نہ دی جو سرکاری طور پر ان کا حق تھا وہ اپنا خطاب ختم کر کے وہاں سے چلا گیا
باہر آ کر آپس میں سب نے کھسر پھسر کی مگر اونچا کوئی بھی نہ بولا بعض پر تو حیرت کی خاموشی چھا گئی تھی ابومسلم رازی برکیارق کی ماں کے پاس چلا گیا اس گھر میں اس کی اتنی قدر و منزلت ہوتی تھی جیسے وہ اسی خاندان کا ایک فرد ہو برکیارق کی ماں اسے دیکھ کر رونے لگی مجھے غم تھا کہ میں بیوہ ہو گئی ہوں ماں نے کہا لیکن ایک اور غم یہ آ پڑا ہے جیسے میرا بیٹا برکیارق بھی مر گیا ہو روزینہ اس پر نشے کی طرح طاری ہوگئی ہے ولیمے کے بعد میرا بیٹا باہر نکلا ہی نہیں کیا دن کیا رات کو دلہن کے ساتھ کمرے میں بند رہا کل شام دونوں بگھی پر باہر نکلے تو میں ان کے خواب گاہ میں چلی گئی خادمہ برتن اٹھا رہی تھی دو چاندی کے پیالے پڑے تھے پاس ایک صراحی رکھی تھی میں نے پیالے سونگھے تو عجیب سی بو آئی یہ اگر شراب نہیں تھی تو کوئی اور مشروب نہیں بلکہ یہ کوئی اور نشہ تھا
آپ اتنے بھی پریشان نہ ہو جائیں ابومسلم رازی نے برکیارق کی ماں کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہا یہ آپ کے بیٹے کا نہیں یہ جوانی کا قصور ہے کچھ دنوں بعد نشہ اتر جائے گا اور مجھے امید ہے کہ لڑکا اپنے خاندان کے راستے پر آ جائے گا میں نے دنیا دیکھی ہے برکیارق کی ماں نے کہا میں اپنے آپ کو یہ دھوکہ کس طرح دوں کہ بیٹا اپنے باپ کے راستے پر واپس آجائے گا ہم نے بھی جوانی دیکھی ہے سلطان مرحوم کے ساتھ میری شادی ہوئی تھی تو میں اس لڑکی جیسی خوبصورت تھی اور کمسن بھی تھی سلطان مرحوم کبھی میرے ساتھ کمرے میں بند نہیں ہوئے تھے انہوں نے مجھے ایک نشہ نہیں بنایا بلکہ ایک خوبصورت بیوی سمجھ کر اس حیثیت میں رکھا جو بیوی کو اسلام نے دی ہے خوبصورت عورت بجائے خود ایک نشہ ہوتی ہے اللہ نے مرد میں کمزوری رکھ دی ہے کہ وہ حسین عورت کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیتا ہے چالاک اور مطلب پرست عورت جس مرد پر بدنیتی سے یا اپنے مطلب کے لئے قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ شخص اس عورت کا زر خرید غلام ہو جاتا ہے ایسی بدفطرت عورت مردوں کو اس مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہوجاتی ہے اس مقام پر جا کر اسے سود و زیاں کا احساس ہی نہیں رہتا وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس کی تباہی کی ذمہ داری یہ عورت ہے اور وہ اس عورت کا پوجاری بن جاتا ہے عورت کے ہاتھوں بادشاہیاں الٹ گئی ہیں
ابومسلم رازی جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوہ جو کہہ رہی ہے ٹھیک کہہ رہی ہے یہ مشاہدے کی باتیں تھیں لیکن اب تو یہ سوچنا تھا کہ برکیارق کو کس طرح اس لڑکی کے نشے سے نکالا جائے ابومسلم نے اس خاتون کو جھوٹی سچی تسلیاں دیں اور کہا کہ وہ نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ سلطنت کا وقار قائم رہے
اس سے کچھ عرصہ پہلے حمیرا جابر کے ساتھ قلعہ الموت پہنچ گئی تھی ان لوگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ کوئی آدمی کسی لڑکی کو ورغلا کر الموت لاتا تو اس لڑکی کو لڑکیوں کے گروہ کے نگراں کے حوالے کردیا جاتا تھا اگر کوئی لڑکی اکھڑ پن پر اتر آتی اور ان لوگوں کی بات پر آنے سے انکار کردیتی تو ان کے پاس اس کا بھی علاج موجود تھا ایک علاج تو تشدد اور زبردستی تھا لیکن یہ علاج کم سے کم استعمال کیا جاتا تھا ان لوگوں کے پاس بڑے ہی پیارے اور دل کو لبھانے والے طریقے تھے جو بڑی اکھڑ لڑکیوں کو بھی موم کر لیتے تھے جابر کو بھی یہی چاہیے تھا کہ وہ حمیرا کو متعلقہ گروہ کے نگراں کے حوالے کر دیتا اس کا کام ہو گیا تھا لیکن جابر نے اس مروّجہ طریقہ کار سے انحراف کیا اور حمیرا کو اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا
اس کا یہ دوست تھا تو باطنی لیکن وہ فدائین میں سے نہیں تھا نہ کبھی اسے ذمہ داری کا کوئی کام سونپا گیا تھا اس دوست نے جابر سے کہا کہ وہ کیوں اس لڑکی کو ساتھ لئے اور چھپائے پھرتا ہے اسے ان کے حوالے کیوں نہیں کر دیتا جو نئی آنے والی لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں
نہیں بھائی! جابر نے اپنے دوست سے کہا اس لڑکی کے ساتھ میرا کچھ جذباتی ساتھ تعلق پیدا ہوگیا ہے اسے آخر اسی جگہ بھیجنا ہے جس جگہ کے لیے میں اسے ساتھ لایا ہوں لیکن اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میں اسے کسی اور کے حوالے کروں میں اسے خود تیار کروں گا
دراصل جابر کو حمیرا سے محبت ہی اتنی زیادہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ اسے باطنیوں کے مقاصد کے لیے تیار بھی کرلے اور یہ لڑکی اس سے متنفر بھی نہ ہو دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ حمیرا کو ایک بار حسن بن صباح کے سامنے لے جائے اور اس سے درخواست کرے کہ وہ اس لڑکی کو خود تیار کرنا چاہتا ہے دوست نے اسے یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ وہ کبھی اس لڑکی کے ساتھ پکڑا گیا یا کسی کو پتہ چل گیا کہ جابر نے ایک لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے تو اسے موت سے کم سزا نہیں ملے گی
جابر نے اس مشورے کو بڑا قیمتی مشورہ جانا اور ایک روز حمیرا کو حسن بن صباح کے پاس لے گیا حمیرہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس نے سوچا کہ اس انسان کو ایک بار دیکھ تو لے جس نے ایک باطل عقیدے کو اتنی جلدی اور اتنی دور دور تک پھیلا دیا ہے حمیرا نے یہ بھی سنا تھا کہ حسن بن صباح اپنے کسی فدائی سے کہتا ہے کہ اپنی جان لے لو تو وہ فدائی اپنے آپ کو مار دینے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتا اور وہ فوراً خنجر اپنے سینے میں اتار لیتا ہے حمیرا نے سوچا دیکھوں تو سہی کہ وہ انسان کیسا ہے
جابر اسے سیدھا حسن بن صباح کے پاس نہ لے گیا بلکہ اسے ایک جگہ چھوڑ کر پہلے خود حسن بن صباح کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ اس لڑکی کو لایا ہے جس کے بھائی نے انہیں قستان جیسا اہم قلعہ دلایا ہے حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ یہ قلعہ بند شہر کس طرح اس کے قبضے میں آیا ہے جابر نے حسن بن صباح کو پوری تفصیل سنائی
تم اب چاہتے کیا ہو ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یا شیخ الجبل! جابر نے کہا میں اس لڑکی کو کچھ انعام دینے کی درخواست کرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میں اسے خود تیار کروں اس پر تشدد نہ ہو یا اسے حشیش نہ پلائی جائے اور اسے دھوکے میں بھی نہ رکھا جائے اگر میں اسے بقائمی ہوش و حواس تیار کرلوں تو یہ لڑکی پہاڑوں کو آپ کے قدموں میں جھکا دے گی
میرا خیال ہے کہ تم خود انعام لینا چاہتے ہو حسن بن صباح نے کہا ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی سے بڑھ کر اور انعام کیا ہوسکتا ہے کیا تم انعام کے طور پر اس لڑکی کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو؟
یا شیخ الجبل! جابر نے سر جھکا کر کہا جس روز میرے دل میں یہ آئی کہ میں اپنے امام کو دھوکہ دوں اس روز میں اپنے خنجر سے اپنے آپ کو ختم کر لوں گا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لایا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ آپ کے پاس تھوڑی سی دیر بیٹھی تو اس کا اکھڑ پن ختم ہو جائے گا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس لڑکی کے دل میں آپ کی اور ہم سب کی نفرت بھری ہوئی ہے میں یہ بھی عرض کر دیتا ہوں کہ اس کے دل میں میری محبت موجزن ہے آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں
حسن بن صباح کے اشارے پر جابر اٹھا اور باہر جاکر حمیرا کو اپنے ساتھ لے آیا حمیرا حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئی حسن بن صباح کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اس شخص کی آنکھیں بھی مسکرا رہی ہوں ان مسکراتی آنکھوں نے حمیرا کو جیسے جکڑ لیا ہو اور حمیرا کی آنکھوں میں پلک جھپکنے کی بھی سکت نہ رہی ہو حمیرا نے محسوس کیا کہ جیسے حسن بن صباح کی آنکھوں سے غیر مرائی اور بڑے پیارے رنگوں والی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں اور شعاعیں حمیرا کی آنکھوں کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہو رہی ہوں حمیرا اپنی ذات میں تبدیلی سی محسوس کرنے لگی اس کے اندر ایسا احساس بیدار ہونے لگا جیسے حسن بن صباح اتنا قابل نفرت نہیں ہے جتنا وہ سمجھتی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے یہ پراسرار طاقت بڑی محنت سے اور استادوں کے قدموں میں سجدے کر کر کے حاصل کی ہے
ایک بات بتاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا تمہارے دل میں کسی کی محبت تو ضرور ہوگی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے دل میں اللہ کی محبت ہے
اس کے بعد کون ؟
اللہ کے آخری رسول حمیرا نے جواب دیا
اس کے بعد ؟
اپنے بھائی منور الدولہ کی محبت میرے دل میں رچی بسی ہوئی ہے حمیرا نے جواب دیا
اور اس کے بعد ؟
حمیرا نے جابر کی طرف دیکھا اور زبان سے کچھ بھی نہ کہا
ایک بات بتا لڑکی! حسن بن صباح نے کہا جس دل میں محبت کا سمندر موجزن ہے اس میں نفرت کہاں سے آگئی؟
حمیرا نے چونک کر حسن بن صباح کی طرف دیکھا لیکن کچھ بھی نہ کہہ سکی
جاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے کہا تم قدرت کے حسن کا شاہکار ہو تم پھول ہو جو خوشبو دیا کرتے ہیں اپنے پھول جیسے حسن میں نفرت کی بدبو نہ بھرو جاؤ جابر کے ساتھ رہو جب تمہارے دل سے نفرت نکل جائے گی اور ضرور نکلے گی پھر تمہارا دل تمہیں کہے گا کہ چلو اسی شخص کے پاس پھر تم خود میرے پاس آؤں گی
حمیرا آنکھیں حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہ کر سکی اسے اٹھنا تھا لیکن نہ اٹھی اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی تھی اور وہ اپنی ذات میں کوئی ایسا تاثر محسوس کر رہی تھی جیسے وہ یہاں سے اٹھنا نہیں چاہتی اگر جابر اس کا بازو پکڑ کر نہ اٹھاتا تو وہ وہیں بیٹھی رہتی جابر حمیرا کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آیا
جابر کے دوست کے گھر پہنچنے تک حمیرا نے کوئی بات نہ کی وہ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی محسوس کر رہی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی وہ انسان اور ابلیس کے اس پہلو سے ناواقف تھی کہ جب کوئی انسان اپنے اپنے ابلیسی اوصاف پیدا کرلیتا ہے تو اس میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ خام کردار والے لوگ اس کی طرف کھینچے ہوئے چلے جاتے ہیں اگر وہ بدصورت ہو تو بھی دیکھنے والوں کو خوبصورت لگتا ہے اس کی زبان میں ایسا طلسماتی تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جب بات کرتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں اس کا ایک ایک لفظ اترتا چلا جاتا ہے یہ تو اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو انسان میرے راستے سے ہٹ کر ابلیس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اس پر میں ایک ابلیس مسلط کر دیتا ہوں
حمیرا اس لیے بھی حسن بن صباح سے اچھا تاثر لے کر آئی تھی کہ وہ تو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا اس کے پیروکار اسے نبی بھی مانتے تھے وہ جسے چاہتا ایک اشارے پر قتل کروا دیا کرتا تھا یہ شخص کہہ سکتا تھا جابر تم جاؤ اور اس لڑکی کو میرے پاس رہنے دو لیکن حسن بن صباح نے جیسے حمیرا کے حسن و جوانی کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی اس لحاظ سے وہ جابر کے کردار کی بھی قائل ہوگئی تھی اتنے دن اور اتنی راتیں جابر کے ساتھ رہ کر اس نے دیکھا کہ جابر نے کبھی اس سے پیار اور محبت کی باتوں کے سوا کوئی بے ہودہ بات یا حرکت نہیں کی تھی
حمیرا کو اپنا بھائی ماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آتے تھے اسے اپنے بھائی کی بیوی اور اس کے بچے بھی یاد آتے تھے لیکن وہ گھر سے کبھی واپس نہ جانے کے لیے نکلی تھی وہ اس کوشش میں لگی رہتی تھی کہ ان سب کو دل سے اتار دے ایک دو دنوں بعد جابر نے حمیرا سے کہا آؤ تمہیں یہاں کا قدرتی حسن دکھاؤں تم کہے اٹھو گی کے اگلے جہان کی جنت اس سے خوبصورت کیا ہوگی وہ دونوں شہر سے باہر نکل گئے قلعہ اور یہ شہر پہاڑی کے اوپر تھے دور جا کر وہ اس پہاڑی سے اترے آگے دریا تھا دریا اور پہاڑی کے درمیان ذرا کشادہ میدان تھا جس میں بڑے خوبصورت اور دلنشین پودے تھے درخت تھے اور گھاس تھی حمیرا کو یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی اس کے دل پر جو بوجھ سا اور گرفت سی رہتی تھی وہ کم ہونے لگی اس نے محسوس کیا جیسے وہ یہاں سے واپس نہیں جاسکے گی جابر اسے دریا کے کنارے لے گیا یہ کنارہ بہت ہی اونچا تھا دریا بہت نیچے بہتا چلا جا رہا تھا وہاں دریا کا پاٹ تنگ تھا سامنے والا کنارہ بھی اونچا تھا وہاں سے دریا مڑتا بھی تھا اس لئے وہاں پانی کا جوش بڑا ہی زیادہ تھا اور بھنور بھی پیدا ہو رہا تھا یہ دراصل پہاڑی تھی جسے کاٹ کر دریا گزر رہا تھا جابر اور حمیرا کنارے پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے
یہاں سے دریا میں کوئی گر پڑے تو کیا وہ بچ کے نکل آئے گا؟
حمیرا نے پوچھا
ناممکن جابر نے جواب دیا کوئی تیراک بھی نہیں نکل سکے گا کیونکہ پاٹ تنگ ہے اور پانی زیادہ اور تیز بھی ہے اور دریا یہاں سے مڑتا بھی ہے یہ دریا یہاں سے کھڑے ہوکر دیکھو تو ہی اچھا لگتا ہے
اپنے امام کے پاس پھر کبھی لے چلو گے؟
حمیرا نے پوچھا
کیا تم اس کے پاس جانا چاہو گی؟
جابر نے مسکراتے ہوئے پوچھا
میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے حمیرا نے کہا اور پھر آہ بھر کر بولی اپنے بھائی کو ماں کو اور بھائی کے بچوں کو دل سے اتارنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں
میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں جابر نے کہا اور کچھ توقف کے بعد بولا تم ان سب کو بھول ہی جاؤں تو بہتر ہے تمہارا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا
کیا کہا حمیرا نے تڑپ کر پوچھا وہ اس دنیا میں نہیں رہا؟ کیا ہوا اسے؟
اسے قتل کر دیا گیا تھا جابر نے کہا اس کے بیوی بچوں کا اور تمہاری ماں اور بہن بھائیوں کا بھی یہی انجام ہوا
میرے بھائی کو کس نے قتل کیا تھا؟
میرے ساتھیوں نے جابر نے جواب دیا تمہارے ساتھیوں نے حمیرا نے چلا کر کہا اور جابر پر جھپٹ پڑی
اس وقت جابر دریا کے کنارے پر کھڑا تھا حمیرا نے اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پوری طاقت سے دھکا دیا پیچھے ہٹنے کو جگہ تھی ہی نہیں پیچھے دریا تھا جابر اتنے اونچے کنارے سے گرا اس کی چیخیں سنائی دیں اور جب وہ دریا میں گرا تو اس کی چیخیں گرنے کی آواز میں دب گئی حمیرا نے اوپر سے دیکھا جابر ہاتھ مار رہا تھا دریا اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا لیکن موڑ پر بھنور تھا جابر اس بھنور میں آگیا اور ایک ہی جگہ لٹو کی طرح گھومنے لگا حمیرا نے دائیں بائیں دیکھا ایک بڑا ہی وزنی پتھر پڑا تھا حمیرا نے پتھر اٹھایا جو اس سے ذرا مشکل سے ہی اٹھا جابر اس کے بالکل نیچے پھنسا ہوا تھا حمیرا نے اوپر سے پتھر پھینکا جو جابر کے سر پر گرا اس کے بعد جابر پانی سے ابھر نہ سکا
جابر ڈوب گیا تو حمیرا نے توجہ اپنی طرف کی اس حقیقت نے اس کے دل کو مٹھی میں لے لیا کہ وہ اکیلی رہ گئی ہے اب وہ واپس جابر کے دوست کے پاس نہیں جا سکتی تھی اسے اب وہاں سے فرار ہونا تھا اس کی خوش نصیبی تھی کہ سورج غروب ہو رہا تھا وہ آگے کو چل پڑی اس نے رو رو کر اللہ کو یاد کیا اور تیز ہی تیز چلتی گئی اور جب سورج غروب ہوگیا تو وہ گھنے جنگل میں پہنچ چکی تھی
وہ اس خیال سے دوڑ پڑی کے رات ہی رات وہ اتنی دور نکل جائے کہ کوئی اس کے تعاقب میں نہ آ سکے رات تاریک ہوتی چلی گئی حمیرا کو راستے کا کچھ اندازہ تھا وہ اس راستے پر ہو لی
الموت کا قلعہ اور شہر اندھیرے میں چھپ گئے تھے حمیرا نے اللہ کا نام لے کر اپنے حوصلے مضبوط کرنے کی کوشش شروع کر دی وہ چلتی چلی گئی رات کی تاریکی اسے دنیا سے چھپائے ہوئے تھی وہ بہت دور نکل گئی اور اسے یوں سنائی دیا جیسے کوئی گھوڑا آ رہا ہو وہ راستے سے ذرا ہٹ کر ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئی اندھیرے میں ذرا ذرا نظر کام کرتی تھی
گھوڑا قریب آ گیا اس پر ایک آدمی سوار تھا حمیرا ڈرپوک لڑکی نہیں تھی اس کے دماغ نے ایک ترکیب سوچ لی جونہی گھوڑا قریب آیا حمیرا تیزی سے گھوڑے کے راستے میں جا کھڑی ہوئی اس نے بازو پھیلا دیے اور بڑی زور سے چیخیں مارنے لگیں یہ چیخیں اس طرح کی نہیں تھی جو خوف یا تکلیف کی حالت میں منہ سے نکلا کرتی ہیں حمیرا نے چڑیلوں کے قصے سنے تھے وہ چڑیلوں کی طرح چیخ رہی تھی اور بڑی بھدی سی آواز میں بولی مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل نہیں تو کلیجہ نکال لوں گی
لوگ چوڑائلوں کے وجود کو مانتے تھے سوار اسے چوڑیل نہ سمجھتا تو اور کیا سمجھتا رات کو اس ویرانے میں کوئی عورت اور وہ بھی اکیلی جا ہی نہیں سکتی تھی حمیرا ایسے خوفناک طریقے سے چیخیں تھیں کہ گھوڑا بھی بدک گیا تھا سوار کود کر گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے آگے گھٹنے زمین پر ٹیک کر ہاتھ جوڑ دیئے وہ بری طرح کانپ رہا تھا وہ چڑیل سے اپنی جان کی بخشش مانگ رہا تھا حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:32 }
حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا
ایسے شدید اور تیزوتند بھنور میں آیا ہوا جابر بن حاجب اس میں سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا وہ اس میں سے نکل نہیں سکتا تھا لیکن حمیرا نے اوپر سے اس کے سر پر بڑا وزنی پتھر گرایا تو وہ پانی کے نیچے چلا گیا اور بے ہوش ہوگیا سر پر اتنا وزنی پتھر گرنے سے وہ بڑی جلدی مر گیا ہوگا حمیرا وہاں سے بھاگ گئی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ پیچھے کیا ہوا ہے
جابر جب دریا کے نیچے سے ابھرا تو بھنور نے اسے دور پھینک دیا یا اگل دیا وہ مر چکا تھا وہاں سے کوئی ایک میل آگے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو جاتا تھا وہاں کنارے پر پکی گھاٹ بنی ہوئی تھی دریا میں تیراک کے شوقین آیا کرتے تھے اور نہایا کرتے تھے سورج غروب ہورہا تھا اس لئے وہاں چار پانچ ہی آدمی تھے جو گھاٹ سے دریا میں کود کود کر ہنس کھیل رہے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے ان میں سے ایک نے ڈبکی لگائی اور جب وہ پانی میں سے ابھرا تو اس کا سر ایک انسانی جسم کے ساتھ ٹکرایا جسے وہ اپنے کسی ساتھی کا جسم سمجھا اس نے پھر ڈبکی لگائی اور ذرا ایک طرف ہو کر پانی سے ابھرا تب اس کے کانوں میں اپنے ساتھیوں کی آواز سنائی دی لاش ہے ڈوب کر مرا ہوگا اسے پکڑو اور باہر گھسیٹ لو اس فدائی نے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا سر اسی لاش کے ساتھ ٹکرایا تھا
یہ تو جابر بن حاجب ہے ایک فدائی نے لاش کو پہچانتے ہوئے کہا یہ کیسے ڈوب گیا ہے؟
ان میں سے دو فدائین جابر کو اچھی طرح جانتے تھے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جابر ایک نئی لڑکی کو ساتھ لایا تھا اور حسن بن صباح نے اس کی درخواست پر اسے اجازت دے دی تھی کہ وہ تھوڑا عرصہ اس لڑکی کو اپنے پاس رکھے اور خود اسے اصل کام کے لئے تیار کرے
یہ فدائین اپنا شغل میلہ بھول گئے اور وہ جابر کی لاش اٹھا کر قلعے میں لے گئے
شیخ الجبل کو اطلاع کر دینی چاہیے ایک نے کہا
لاش وہیں اٹھا لے چلو دوسرے نے کہا
وہ لاش اٹھا کر حسن بن صباح کی رہائش گاہ میں لے گئے اور لاش برآمدے میں رکھ کر اندر اطلاع بھجوائی حسن بن صباح جسے لوگ امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی خود باہر آ گیا اور اس نے جابر کی لاش دیکھی
یہ ایک لڑکی کو ساتھ لایا تھا حسن بن صباح نے کہا یہ جہاں رہتا تھا وہاں جاؤ اور اس لڑکی کو ساتھ لے آؤ
ایک فدائن دوڑا گیا اور کچھ دیر بعد دوڑا ہوا ہی آیا اور اس نے بتایا کہ لڑکی وہاں نہیں ہے
وہ بھی اس کے ساتھ ڈوب گئی ہوگی حسن بن صباح نے کہا اس کی لاش دریا کے تیز بہاؤ میں چلی گئی ہوگی
جابر کی لاش دریا کے کنارے کنارے بہی جارہی تھی جہاں پانی کا بہاؤ تیز نہیں تھا یہ تو کسی کے ذہن میں آئی ہی نہیں اور آسکتی بھی نہیں تھی کہ حمیرا نے جابر کو اونچے کنارے سے دھکا دے کر دریا میں پھینکا تھا رات گہری ہو گئی تھی اس لیے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ حمیرا کہاں غائب ہوگئی ہے یا یہی یقین کر لیا جاتا کہ وہ بھی ڈوب کر مر گئی ہے
اسے لے جاؤ ۔حسن بن صباح نے کہا اس کے کفن دفن کا انتظام کرو اور منادی کرادو کے اس کا جنازہ کل دوپہر کے وقت ہوگا اور جنازہ میں پڑاٶ ہوگا لڑکی کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی جائے
صبح قلعہ الموت میں یہ منادی کرادی گئی کہ جابر بن حاجب دریا میں ڈوب کر مر گیا ہے اور اس کا جنازہ دوپہر کے وقت اٹھے گا
جابر کو جاننے والے اور اس کے دوست دوڑے آئے اور جابر کا آخری دیدار کیا لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور خاصہ ہجوم ہوگیا لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ایک سوال ہر کسی کی زبان پر تھا کہ جابر ڈوبا کیسے؟
میں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ دریا کی طرف جاتے دیکھا تھا ایک فدائین نے کہا میں اس وقت قلعے کی دیوار پر ویسے ہی ٹہل رہا تھا دونوں قلعے کی پہاڑی سے اتر کر خاصی دور چلے گئے تھے پھر میں نے دونوں کو دریا کے اس کنارے کی طرف جاتے دیکھا جو بہت اونچا ہے وہاں ایک ٹیکری ہے جس نے ان دونوں کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا تھا میں ادھر ہی دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد میں نے لڑکی کو وہاں سے واپس آتے دیکھا وہ سامنے آئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی پھر ایک طرف کو دوڑ پڑی اب جابر اس کے ساتھ نہیں تھا میں نے جابر کو وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا تھا لڑکی وہاں سے غائب ہوگئی تھی میں بہت دیر وہاں کھڑا رہا مجھے جابر نظر نہ آیا پھر سورج غروب ہوگیا اور میں نے دوسری طرف دیکھا جدھر گھاٹ ہے لیکن میری نظروں کو ان چٹانوں نے روک لیا تھا جو وہاں سے دور آگے تک دریا کے کنارے کھڑی ہے
پھر لوگوں میں ایک اور خبر پھیل گی جو یوں تھی کہ آج الصبح ایک آدمی سرائے میں آیا اور اس نے بتایا ہے کہ راستے میں گزشتہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اور اسے گھوڑے سے اتار کر اس پر خود سوار ہوئی اور گھوڑا لے کر غائب ہو گئی
یہ خبر حسن بن صباح کے اس گروہ کے ایک دو آدمیوں تک پہنچی جو جاسوسی اور نگرانی میں خصوصی مہارت رکھتے تھے انھوں نے اس آدمی کو ڈھونڈ نکالا اور اس سے پوچھا کہ وہ چڑیل کیسی تھی اور کس روپ میں اس کے سامنے آئی تھی
چاندنی دھوپ جیسی شفاف تھی اس شخص نے کہا چڑیل بڑی ہی حسین اور نوجوان لڑکی کے روپ میں تھی وہ اچانک میرے سامنے میرے راستے میں نمودار ہوئی اور اس قدر زور سے اس نے چیخ ماری کے میرا گھوڑا بدک گیا میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ میرا دل اس کی مٹھی میں آ گیا ہے اس نے کہا اے مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل ،نہیں تو کلیجہ نکال لونگی میں ڈرتا کانپتا گھوڑے سے اترا اور اس کے قریب جا کر گھٹنوں کے بل ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگی اس نے اور کچھ بھی نہ کہا میرے گھوڑے کی طرف گئی اور پلک جھپکتے گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو پیچھے موڑا اور گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑا میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گھوڑا گیا ہے میری جان ہی نہیں چلی گئی میں الموت کی طرف دوڑ پڑا صبح یہاں پہنچا اور سرائے میں ٹھہرا وہاں جو چند آدمی تھے انہیں یہ بات سنائی
اس سے پوچھا گیا کہ لڑکی چڑیل نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے تھے اور اس کے چہرے کے نقش ونگار کیسے تھے اس نے حمیرا کے کپڑوں کا رنگ بناوٹ وغیرہ اور چہرے کا حلیہ بتایا
حسن بن صباح جب جنازے کے لئے آیا تو اس کے جاسوسوں نے اسے بتایا کہ انہیں کیا کیا سراغ ملے ہیں ایک تو اس آدمی کو حسن بن صباح کے سامنے لایا گیا جس نے جابر اور حمیرا کو دریا کے اونچے کنارے کی طرف جاتے دیکھا تھا پھر اس آدمی کو حسن بن صباح کے آگے کھڑا کیا گیا جس نے کہا تھا کہ رات ایک چڑیل اس سے گوڑا چھین کر لے گئی ہے
حسن بن صباح نے دونوں کے بیان سن کر ان پر جرح کی اور اس کا دو رس دماغ اس یقین پر پہنچ گیا کہ لڑکی اس کے فدائین جابر بن حاجب کو دریا میں ڈبو کر بھاگ گئی ہے اگر جابر خود ہی پھسل کر گر پڑا ہوتا تو حمیرا بھاگ نہ جاتی بلکہ وہیں شورشرابہ کرتی کہ کوئی مدد کو پہنچ جائے یا واپس قلعے میں آجاتی
دو آدمی ابھی قستان چلے جائیں حسن بن صباح نے حکم دیا وہ وہیں ہوگی یہ لڑکی مل گئی تو اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی ہمیں ایسی ہی لڑکیوں کی ضرورت ہے اسے ہر جگہ اور ہر طرف تلاش کیا جائے ہوسکتا ہے وہ مرو یا رے چلی گئی ہو
حسن بن صباح کے حکم کے مطابق اسی وقت آدمی روانہ ہوگۓ
جس وقت وہ آدمی قلعہ الموت کی ایک سرائے میں اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا کہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اس وقت حمیرا چند گھروں کی ایک بستی میں جا پہنچی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بستی کے اندر جاؤں یا آگے نکل جاؤں ابھی پو پھٹ رہی تھی صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا رات نے اسے اس طرح چھپائے رکھا تھا جس طرح ماں اپنے بچے کو آغوش میں چھپا لیا کرتی ہے اسے ذرا سا بھی خوف نہیں محسوس ہوا تھا وہ فاتحانہ مسرت سے سرشار تھی کہ شیطانوں کے چنگل سے نکل آئی تھی اسے جب اپنا بھائی منور الدولہ یاد آتا تو اس کا دل بیٹھ جاتا اور آنسو جاری ہوجاتے تھے ایسے میں اس کے وجود میں انتقام کے شعلے بھڑک اٹھے تھے الموت سے بچ کر نکل آنے کی خوشی اس کے غمگین دل کو سہلا دیتی تھی وہ اسی رنگ بدلتی کیفیت میں گھوڑے پر سوار سفر طے کرتی گئی لیکن رات نے اپنے پردے سمیٹے اور رخصت ہو گئی
صبح کی پہلی دھندلی دھندلی کرنیں نمودار ہوئیں تو حمیرا کا دل یکلخت ایک خوف کی گرفت میں آگیا وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی ڈرنے والی یا خطرے والی بات نہیں تھی خطرہ یہ تھا کہ وہ نوجوان تھی اور بہت ہی حسین اور نظروں کو گرفتار کر لینے والی لڑکی تھی کوئی بھی اسے دیکھ لیتا تو کبھی نظرانداز نہ کرتا وہ اس ویران علاقے میں تھی جہاں ابلیس کا قانون چلتا تھا اسے اپنے سامنے چند گھروں کی ایک بستی نظر آرہی تھی
اس نے گھوڑے کی رفتار کم اور سوچنے کی رفتار تیز کر دی اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ روکے یا آگے نکل جائے لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ اس نے یہ بھی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ جائے کہاں اسے جابر نے بتایا تھا کہ اس کا بھائی مارا جاچکا ہے اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں شاید وہ بھی قتل کردیئے گئے تھے یہ تو حمیرا کو معلوم تھا کہ قستان میں اب اس کا کوئی نہیں رہا اور وہاں اب ان باطنیوں کا قبضہ ہے
وہ تذبذب کے عالم میں آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور بستی کے قریب روک گی یہ چند ایک مکان تھے جو معمولی سے لوگوں کے معلوم ہوتے تھے ایک مکان باقی سب سے بہت مختلف تھا وہ کسی امیر آدمی کا مکان معلوم ہوتا تھا اس کا دروازہ بڑا خوبصورت اور اونچا تھا حمیرا اس دروازے سے پندرہ بیس قدم دور گھوڑے روکے کھڑی تھی
دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک سفید ریش بزرگ باہر آیا اس نے لمبا سفید چغہ پہنے رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک چلا گیا تھا اس کے سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی اور ہاتھ میں لوٹے کی شکل کا ایک برتن تھا جس میں سے دھواں نکل رہا تھا اس نے حمیرا کو دیکھا تو آہستہ آہستہ چلتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا اس بزرگ کی داڑھی دودھ جیسی سفید تھی اور اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر نورانی سے رونق تھی وہ حمیرا کے سامنے کھڑا اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا حمیرا نے اپنا چہرہ اس طرح چھپا لیا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں اپنا چہرہ اس نے اس خیال سے ڈھانپ لیا تھا کہ کوئی اس کی عمر کا اندازہ نہ کرسکے اور کوئی یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے
آؤ خاتون! بزرگ نے کہا مسافر ہو تو روکو اور ذرا سستالو راستہ بھول گئی ہو تو اپنی منزل بتاؤ کوئی اور مشکل آن پڑی ہے تو زبان پر لاؤ یہ ہمارا مندر ہے جہاں ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے
آپ اپنے مندر کے راہب ہیں؟
حمیرا نے کہا لیکن میں کیسے یقین کرلوں کہ میں آپ کے مندر میں محفوظ رہوں گی
سفید ریش راہب نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا دھونی دان آگے کیا اور اسے ذرا سا ایک دائرے میں گھومایا اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں حمیرا کے گھوڑے کے منہ کو چھونے لگا پھر یہ دھواں حمیرا تک پہنچا حمیرا نے بڑی پیاری خوشبو سونگھی
تم شاید مسلمان ہو؟
راہب نے کہا آؤ ہمارے مندر میں تم وہیں روحانی سکون پاؤ گی جو تم اپنے خدا کے حضور جھک کر پایا کرتی ہو گھوڑے سے اترو اور مجھے امتحان میں نہ ڈالو
صرف ایک بات بتا دو مقدس راہب! حمیرا نے کہا کیا انسان اندر سے بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا وہ چہرے سے نظر آتا ہے میرا تجربہ کچھ اور ہے
راہب نے کوئی جواب نہ دیا وہ آگے بڑھا اور گھوڑے کے پہلو میں رک کر اپنا ایک ہاتھ حمیرا کی طرف بڑھایا کہ وہ اس کا ہاتھ تھام کر گھوڑے سے اتر آئے حمیرا اس کی خاموشی سے کچھ ایسی متاثر ہوئی کہ وہ راہب کا ہاتھ تھامے بغیر گھوڑے سے اتر آئ راہب نے اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا
میرا گھوڑا ایسی جگہ باندھیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے حمیرا نے کہا وہ میرے تعاقب میں آرہے ہونگے
کون؟
باطنی! حمیرا نے جواب دیا تعاقب سے یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی جرم کرکے بھاگی ہوں میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی متاع لے کر ان ظالموں سے نکلی اور یہاں تک پہنچی ہوں میری متاع میری عصمت ہے اور میرا دینی عقیدہ
اتنے میں ایک اور آدمی مندر سے باہر آیا راہب نے اسے کہا کہ وہ گھوڑے لے جائے اور ایسی جگہ باندھے جہاں کسی کو نظر نہ آ سکے راہب حمیرا کو مندر میں لے گیا اور دائیں کو مڑا ایک دروازہ کھلا یہ ایک کمرہ تھا جو عبادت گاہ نہیں تھی بلکہ رہائشی کمرہ تھا راہب نے حمیرا کو پلنگ پر بٹھا دیا اور پوچھا کہ وہ کچھ کھانا پینا چاہتی ہو گی
میں بھوکی نہیں ہوں حمیرا نے کہا اور میں پیاسی بھی نہیں گھوڑے کے ساتھ پانی بھی تھا اور ایک تھیلی میں کھانے کا سامان بھی تھا تھوڑی ہی دیر پہلے میں نے پیٹ بھر لیا تھا
حمیرا نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا راہب نے اس کا چہرہ دیکھا تو یوں چونک پڑا جیسے حمیرا نے اسے قتل کرنے کے لئے خنجر نکال لیا ہو راہب کچھ دیر حمیرا کے چہرے کو دیکھتا ہی رہا
تم یقین کرنا چاہتی ہوں کہ یہاں محفوظ رہوں گی یا نہیں راہب نے کہا لیکن اب میں شک میں پڑ گیا ہو کہ میری ذات اور یہ مندر تم سے محفوظ رہے گا یا نہیں
کیا میرے چہرے پر بدی کا کوئی تاثر نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
باطنیوں کے امام شیخ الجبل حسن بن صباح کے پاس تم جیسی بے شمار لڑکیاں موجود ہیں راہب نے کہا میں ان میں سے آج پہلی لڑکی دیکھ رہا ہوں میں نے سنا ہے کہ ان باطنیوں کا امام کسی کو اپنے جال میں پھانسنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ تم جیسی لڑکی کو بھیجتا ہے اور وہ لڑکی تمہاری طرح مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی کوئی کہانی سناتی ہے
حمیرا اسے بڑی غور سے دیکھ رہی تھی
مقدس راہب! حمیرا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا مجھے ایسی ہی لڑکی بنانے کے لیے دھوکے سے اپنے قلعہ الموت لے جایا گیا تھا لیکن میں آپ کو سناؤں گی کہ میں وہاں سے کس طرح نکل بھاگی پہلے میں آپ کو یہ بتا دو کہ میں قستان کے رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں امیر قستان کو باطنیوں نے قتل کردیا اور میرے بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا ہے
ہاں میں سن چکا ہوں راہب نے کہا قستان پر باطنی قابض ہو چکے ہیں اور منور الدولہ ان کے ہاتھوں دھوکے سے قتل ہوا ہے وہاں کا امیر شہر بڑا ہیں بدطینت انسان تھا اب تم سناؤ تم پر کیا بیتی ہے
حمیرا نے اسے سارا واقعہ کہہ سنایا یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے شخص سے محبت کر بیٹھی تھی جو درپردہ باطنی تھا ورنہ وہ کبھی الموت تک نہ پہنچتی اس نے یہ بھی سنایا کہ اس شخص کو اس نے کس طرح دریا میں پھینکا اور خود بھاگ آئی اور پھر یہ گھوڑا اسے کس طرح ملا
اس دوران مندر کا ایک آدمی ان کے آگے ناشتہ رکھ گیا تھا
تم اب یقیناً قستان جانے کی نہیں سوچو گی راہب نے کہا قستان کو اب دل سے اتار دو
پھر میں کہاں جاؤں؟
حمیرا نے پوچھا
سلجوقی سلطان کے پاس راہب نے جواب دیا وہی ایک ٹھکانہ ہے جہاں تم جاسکتی ہو اور جہاں تمہیں پناہ مل سکتی ہے مرو یا رے یہ نہیں بتا سکتا کہ نیا سلجوقی سلطان کیسا آدمی ہے وہ جو نیک آدمی تھا اور جس نے باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا عزم کر رکھا تھا وہ مر چکا ہے اس کا نام سلطان ملک شاہ تھا اب اس کا بیٹا برکیارق سلطان ہے بہتر یہ ہوگا کہ تم رے چلی جاؤ وہاں کا حاکم ابومسلم رازی بڑا ہی نیک بزرگ اور عالم دین ہے اس کے پاس چلی جاؤں تو نہ صرف یہ کہ محفوظ رہوں گی بلکہ وہ تمہیں اسی حیثیت سے اپنے پاس رکھے گا جو تمہیں قستان میں حاصل تھی
کیا میں وہاں تک اکیلی جاؤنگی ؟
حمیرا نے پوچھا اور کہا اگر اکیلی جانا ہے تو پھر مجھے رات کو سفر کرنا چاہیے
تم اس وقت میری نگاہ میں اس مندر کی طرح مقدس ہو میں تمہیں اکیلا بھیج کر اپنے دیوتاؤں کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کر سکتا میرے دو آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے اور تمہیں کسی اور بھیس میں بھیجا جائے گا
حمیرا نے ایسا سکون محسوس کیا جیسے اس پر کسی نے پہاڑ جیسا بوجھ ڈال دیا تھا اور یہ بوجھ یکلخت ہٹا دیا گیا ہو
مقدس راہب! حمیرا نے پوچھا میرا مستقبل کیا ہوگا کیا وہ اجنبی لوگ مجھے کسی اور دھوکے میں نہیں ڈال دیں گے
تم کون ہو؟
کچھ بھی نہیں راہب نے کہا میں کیا ہوں؟
کچھ بھی نہیں تم یہ پوچھو کہ اسلام کا مستقبل کیا ہوگا اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے مذہب کا مستقبل کیا ہوگا تمہیں اور مجھے اس اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خدا نے جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے ہم پورا کررہے ہیں یا نہیں وہ مقصد کیا ہے؟
بنی نوع انسان کی محبت
اسلام کا مستقبل آپ کو کیا نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
کچھ اچھا نظر نہیں آتا راہب نے جواب دیا اس وقت سب سے بڑا مذہب اسلام ہے لیکن اسکی جو بڑائی ہے وہ چھوٹی ہوتی جارہی ہے باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئےہیں جھوٹ موٹ کا یہ عقیدہ بڑی ہی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے حسن بن صباح نے ابلیسیت کو جائز قرار دے کر رائج کردیا ہے انسان لذت پرستی کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے عورت اور شراب میں اسے جو لذت ملتی ہے وہ خدا پرستی میں نہیں مل سکتی تم نے مستقبل کی بات کی ہے ایک وقت آئے گا کہ حسن بن صباح دنیا میں نہیں ہوگا اور اس کا عقیدہ آہستہ آہستہ مٹ جائے گا لیکن لوگ عیش و عشرت کو نہیں مٹنے دیں گے حسن بن صباح تو کسی نہ کسی روپ میں زندہ رہے گا لذت پرستی ہر مسلمان کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا اور ایک وقت آئے گا کہ وہ مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے،ان میں وہ طاقت نہیں رہے گی جو ہوا کرتی تھی
مجھے آپ کس وقت یہاں سے روانہ کریں گے؟
حمیرا نے پوچھا
سورج غروب ہونے کے بعد راہب نے جواب دیا
سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برکیارق کی ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا ماں کے آنسو بہہ رہے تھے
کیا اپنے بیٹے برکیارق پر آپ کا کچھ اثر نہیں رہا ؟
عبدالرحمن سمیری نے پوچھا
تم اثر کی بات کرتے ہو برکیارق کی ماں نے جواب دیا وہ تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ میں اس کی ماں ہوں کئی دنوں سے میں نے اس کی صورت بھی نہیں دیکھی البتہ اس کی ملکہ روزینہ کبھی نظر آجاتی ہے تو وہ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتی اگر کوئی بات کرتی بھی ہے تو وہ حکم کے لہجے میں کرتی ہے اپنے بھائیوں کے ساتھ برکیارق کا سلوک اور برتاؤ دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے میں ڈرتی ہوں کہ بھائی کہیں آپس میں نہ ٹکرا جائیں
میں آپ کے ساتھ یہی بات کرنے آیا ہوں عبدالرحمن سمیری نے کہا سلطان برکیارق کاروبار سلطنت میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان ملک شاہ مرحوم کے دور حکومت نے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا فوج برکیارق سے بیزار ہوتی جا رہی ہے ادھر باطنی پھیلتے اور غالب آتے چلے جارہے ہیں اگر ہم نے فوج میں بے زاری اور مایوسی پیدا کردی تو سلجوقی سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے
کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟
ماں نے پوچھا
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے جواب دیا بات کہاں کروں وہ تو باہر نکلتے ہی نہیں
تم یہیں بیٹھو ماں نے اٹھتے ہوئے کہا میں اسے باہر نکالتی ہوں میں آخر ماں ہوں
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے اٹھ کر برکیاروق کی ماں کو روکتے ہوئے کہا آپ اس کے پاس نہ جائیں وہ بدتمیزی پر اتر سکتا ہے اگر اس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا کر گزروں گا
برکیارق کی ماں نے اسکی نہ سنی اور ہاتھ سے اسے ایک طرف کر کے باہر نکل گئی اس نے برکیارق کی خواب گاہ کے بند دروازے پر دستک دی دروازہ کھلا اور روزینہ باہر آئی
کیا بات ہے؟
روزینہ نے پوچھا
ماں نے اسے کوئی جواب دینے کی بجائے کواڑ دھکیل کر اندر چلی گئی برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا
کیا ہوگیا ہے ماں ؟
برکیارق نے غنودگی کے عالم میں پوچھا
کیا باہر نکل کر یہ دیکھنا تمہارا کام نہیں کہ کیا ہورہا ہے ماں نے غصیلے لہجے میں کہا کیا باپ کو تم نے اس وقت کبھی اپنی خوابگاہ میں دیکھا تھا تم خارش کے مارے ہوئے کتے کی طرح اس وقت بھی خواب گاہ میں پڑے ہوئے ہو
ان کی طبیعت ٹھیک نہیں روزینہ نے کہا آپ یہاں سے چلی جائیں اور وزیراعظم سے کہیں کہ وہ اپنا کام کرے
میں تم سے مخاطب ہوں برکیارق! ماں نے اپنا لرزتا کانپتا ہاتھ برکیارق کی طرف بڑھا کر کہا سلطان تم ہو تمہاری یہ چہیتی بیگم نہیں تمہارے باپ نے یہ فوج باطنیوں کو ختم کرنے کے لئے تیار کی تھی اور آج تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس فوج کو اس مہینے کی تنخواہ بھی نہیں دی گئی
تو پھر کیا قیامت آگئی ہے برکیارق نے خفگی اور بے رخی سے کہا میں اتنی زیادہ فوج رکھوں گا ہی نہیں میں سالاروں کو بلا کر کہہ رہا ہوں کہ آدھی فوج کو چھٹی دے دیں
پھر اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر تیار ہو جاؤ ماں نے کہا تم فوج کی چھٹی کراؤ اور کچھ ہی دنوں بعد باطنی آ کرتمہارے چھٹی کرا دیں گے ہوش میں آ برکیارق! ہوش میں آ اپنے باپ کی قبر کی یوں توہین نہ کر یاد کر یہ سلطنت کیسی کیسی قربانیاں دے کر قائم کی گئی تھی اپنے آباء اجداد کی روحوں کو یوں اذیت نہ دے یہ جوانی چند دنوں کا میلہ ہے ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا صرف اللہ ہے
آپ انہیں اتنا پریشان تو نہ کریں ماں! روزینہ نے بیزاری کے لہجے میں کہا
تو خاموش رہ لڑکی! ماں نے روزینہ سے کہا اور مجھے ماں نہ کہہ میں اس کی ماں ہوں اور میں ماں ہوں سلطنت کی جو ہمارے بڑے بزرگوں نے اسلام کا پرچم اونچا رکھنے کے لیے بنائی تھی تجھے اس کے ساتھ روحانی دلچسپی ہوتی تو اسے یوں مدہوش کر کے کمرے میں قید نہ رکھتی
اچھا ماں اچھا برکیارق نے اٹھتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ تھکن سے چور تھا تم جاؤ میں تیار ہو کر باہر نکلتا ہوں
میں تمہیں ابھی باہر نکلتا دیکھنا چاہتی ہوں ماں نے کہا ابھی اٹھ
برکیارق آہستہ آہستہ اٹھنے لگا اور ماں کمرے سے نکل آئی روزینہ نے بڑے غصے سے دروازہ بند کرکے زنجیر چڑھا دی اور برکیارق کے پاس گئی
کچھ دیر اور لیٹے رہیں روزینہ نے برکیارق کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے ذرا سا دھکیلا اور لیٹا کر بولی ماں قابل احترام ہی سہی لیکن ماں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ بیٹا کس حال میں ہے ان لوگوں کو آپ کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں آپ کی ماں کو اور دونوں بھائیوں کو صرف سلطنت کا غم کھا رہا ہے معلوم نہیں انہیں یہ خطرہ کیوں نظر آنے لگا ہے کہ ان سے یہ سلطنت چھن جائے گی یہ لوگ بادشاہی چاہتے ہیں
روزینہ ابھی تک شب خوابی کے لباس میں تھی اس کے ریشم جیسے نرم و ملائم بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے وہ بلاشک و شبہ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی لیکن اسکے جو انداز تھے اس میں طلسماتی سا تاثر تھا اور یہ برکیارق کو مدہوش کر دیا کرتے تھے گھروں میں بند بعض بیویاں روزینہ سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں لیکن ان میں چونکہ روزینہ والے ناز و انداز مکاری اور عیاری نہیں ہوتی اس لئے خاوندوں کو وہ اتنی خوبصورت نظر نہیں آتی جتنی کوئی پیشہ ور عورت دل پر غالب آجاتی ہے روزینہ تربیت یافتہ لڑکی تھی اسے ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ مرد کی کون کون سی رگ کمزور ہوتی ہے ایسی لڑکیاں ان رنگوں کو مٹھی میں لے لیتی ہے
روزینہ نے برکیاروق کو لٹا کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں اور اس پر اس طرح جھکی کے اس کے بکھرے ہوئے نرم و گداز بال اس کے چہرے کو چھونے لگے پھر اس نے برکیارق کے عریاں سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور دو تین بار اپنے گال اسکے سینے سے لگائے پھر اسکی ٹانگیں دبانی شروع کر دیں
برکیارق جو ماں کی آواز سے بیدار ہو گیا تھا پھر مدہوش ہوگیا روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلا دیا اس سارے عمل کے دوران وہ بڑے ہی اداس اور پراثر لہجے میں برکیارق کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ مظلوم اور تنہا ہے اور اس کے خاندان کا ہر فرد اسے انسان سمجھتا ہی نہیں روزینہ کا تو خداداد حسن تھا اور پھر اس حسن کو ایک نشے اور ایک طلسم کی طرح استعمال کرنے کا سلیقہ تھا اور اس کے ساتھ برکیارق کو وہ جو مشروب پلا رہی تھی اس کا اثر الگ تھا برکیارق بھول ہی گیا کہ اس کی ماں اس کے کمرے میں آئی تھی اور کچھ کہہ کر چلی گئی تھی
دن کے پچھلے پہر برکیارق اس کمرے میں بیٹھا تھا جہاں وہ وزیراعظم اور دیگر اہلکاروں سے+923054856932 امور سلطنت کی باتیں سنتا اور حکم جاری کیا کرتا تھا وہاں جاتے ہی اس نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو بلا لیا تھا
آپ میرے بزرگ ہیں اور میں آپ کا احترام کرتا ہوں اس نے وزیر اعظم سے کہا آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بات نہ ہو کہ میرے دل میں آپ کا احترام کم ہوجائے فوج کو تنخواہ میری ماں نے نہیں بلکہ میں نے دینی ہے آپ کو یہ بات میرے ساتھ کرنی چاہیے تھی آپ نے میری ماں کو بلاوجہ پریشان کیا اور انہوں نے غصے میں آکر میری بیوی کے سامنے میری بےعزتی کر دی میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ آئندہ آپ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے
میں معافی کا خواستگار ہوں سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا میں دو مرتبہ آپ سے درخواست کر چکا ہوں کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ فوج کو بروقت تنخواہ نہ ملی ہو میں ادائیگی کی اس تاخیر سے ڈرتا ہوں کہ فوج میں ذرا سی بھی مایوسی اور بیزاری پیدا نہیں ہونی چاہئے آپ کو تو معلوم ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم نے یہ فوج کس مقصد کے لیے تیار کی تھی زندگی نے وفا نہ کی اگر وہ زندہ رہتے تو قلعہ الموت پر حملہ کرکے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتے مجھے جاسوس اور مخبر روزبروز اطلاع دے رہے ہیں کہ باطنی عقیدے بڑی تیزی سے پھیلتے چلے جارہے ہیں اور یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ ہمارے شہر میں اور دوسرے شہروں میں بھی باطنی آ کر آباد ہوتے چلے جا رہے ہیں وہ اپنے عقیدے مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں
آپ میرے وہ احکام غالباً بھول گئے ہیں جو میں پہلے دے چکا ہوں سلطان برکیارق نے کہا مرحوم سلطان نے فوج تو تیار کرلی تھی لیکن یہ نہ سوچا کہ اس فوج کو ہم کب تک پالتے رہیں گے محصولات کا زیادہ تر حصہ یہ فوج کھا رہی ہے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں حسن بن صباح کی طرف ایک وفد بھیجوں گا اور اس کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کروں گا وہ میری یہ شرط مان لے گا کہ وہ اپنے علاقے میں محدود رہے اور ہمیں اپنے علاقے میں محدود رہنے دے اس بار تو آپ فوج کو تنخواہ دے دیں لیکن فوج کی آدھی نفری کو سبکدوش کر دیں جو گھوڑے فالتو ہو جائیں وہ فروخت کرکے رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں میں اپنے سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو حکم دے رہا ہوں کہ وہ فوج کی چھانٹی کرکے نصف فوج کو ختم کر دیں
سلطان عالی مقام! وزیراعظم نے کہا آپ کے والد مرحوم نے وفد بھیجا تھا جس کا حسن بن صباح نے مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ تمہارے پاس وہ طاقت نہیں جو میرے پاس ہے اس نے ہمارے وفد کے سامنے اپنے تین آدمیوں کو باری باری حکم دیا تھا کہ اپنے آپ کو قتل کردیں ان آدمیوں نے فوراً اپنے خنجروں سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا تھا حسن بن صباح نے ہمارے وفد سے کہا تھا کہ تمہاری فوج میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو اس طرح اپنی جان قربان کر دے
مجھے وہ باتیں یاد نہ دلائیں سلطان برکیارق نے کہا وہ میرے والد مرحوم کے دور کی باتیں ہیں میں اپنا راستہ خود بنا رہا ہوں میں حکم دے رہا ہوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے
جس وقت سلطان برکیارق آپ نے وزیراعظم کو یہ احکام دے رہا تھا اس وقت اس کی بیوی روزینہ کے پاس ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہوئی تھی اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا یہ عورت روزینہ کی خاص ملازمہ تھی اس عورت کو روزینہ نے قابل اعتماد کنیز کا درجہ دے رکھا تھا
اور اسے یہ کہنا روزینہ اس کنیز سے کہہ رہی تھی امام تک یہ خبر جلدی پہنچا دیں کہ میں نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں سب سے زیادہ اہم فیصلہ یہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے گی سلطان برکیارق نے اپنے وزیر اعظم کو یہ حکم دے دیا ہے اور سالاروں کو بلا کر کہہ دے گا کہ آدھی فوج کو چھانٹی کر دو پھر امام تک یہ خبر پہنچا دینا کہ سلطان پوری طرح میری مٹھی میں آ گیا ہے اس کی ماں وزیراعظم اور اس کا بھائی محمد اسے مجھ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن میں اسے ان سب سے متنفر کر دوں گی یہاں فوج میں بیزاری اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی تنخواہ میں اس تاخیر کے پیچھے بھی میرا ہی ہاتھ ہے امام سے کہنا کہ اب اپنے آدمی بھیج دیں کیوں کہ فوج میں چھانٹی ہوگی تو جنہیں نکالا جائے گا انہیں بھڑکانا اور سلطان کے خلاف مشتعل کرنا ضروری ہوگا پیغام میں یہ بھی کہنا کہ ابھی میں رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کے فیصلوں کے خلاف ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس سلسلے میں وہ کیا عملی کاروائی کرے گا تم ابھی چلی جاؤ اور یہ پیغام ان لوگوں کو اچھی طرح سنا دینا اور انہیں کہنا کہ آج ہی ایک آدمی الموت روانہ ہو جائے
یہ حسن بن صباح کا زمین دوز انتظام تھا جس کے تحت سلطنت سلجوقیہ کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا تھا تھوڑے ہی دنوں بعد اس بارود میں ذرا سی چنگاری پھینک دینی تھی قوم اور ملک حکمرانوں کے ہاتھوں ہی تباہ ہوتے چلے آئے ہیں حکمران جب اپنی سوچنے کی صلاحیت اور اپنا وقار کسی دوسرے کے حوالے کردے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا روزینہ سلطان برکیارق کی سلطنت میں تاریخ کو دہرا رہی تھی برکیارق کے ذہن میں وہ یہ بات نقش کر رہی تھی کہ اس سلطنت کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سلطنت برکیارق کی ذاتی ملکیت ہے تباہی کے عمل کو تیز کرنے کے لئے روزینہ سلطنت سلجوقیہ کو اس تلوار سے محروم کر رہی تھی جسے فوج کہتے ہیں
سلطان برکیارق نے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو احکام دے کر فارغ کردیا اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی اور اس کے نائب سالار اوریزی کو بلایا وہ فورا پہنچ گئے
فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان برکیارق نے کہا کل خزانے سے رقم نکلوا کر فوج میں تقسیم کردیں اب میرے اس فیصلے پر عمل شروع کر دیں کہ فوج کی آدھی نفری کو فوج سے نکال دیں میں اب اتنی زیادہ فوج کی ضرورت نہیں سمجھتا آپ دونوں نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ کسے فوج میں رکھنا اور کسی نکالنا ہے
ہاں سلطان محترم! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا فوج آدھی ہو جانی چاہیے ہم آپ کے حکم کی تعمیل بہت جلدی کر دینگے
سلطان محترم! سالار اوریزی نے کہا بصد معذرت عرض کرتا ہوں کہ فوج میں کمی نہیں ہونی چاہئے آپ کو معلوم ہی ہے کہ مرحوم سلطان نے یہ فوج کیوں تیار کی تھی
مجھے اور بھی بہت کچھ معلوم ہے سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کی بات کاٹ کر کہا یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ اتنی زیادہ فوج کو تنخواہ کس طرح دی جاتی ہے میں جو کہہ رہا ہوں سوچ اور سمجھ کر کہہ رہا ہوں اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے
سلطان ٹھیک فرما رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا اتنی زیادہ تنخواہ پوری کرنا بہت مشکل ہے اور خزانے پر بلاوجہ بوجھ پڑا ہوا ہے ہمیں سلطان محترم کے حکم پر فوراً عمل کرنا چاہیے
حکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے سالار اوریزی نے کہا لیکن میں یہ نہیں بھول سکتا کہ یہ ملک ہمارا اپنا ہے اور یہ اسلامی سلطنت ہے یہ فوج اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے تیار کی گئی ہے اس سے ہم نے باطل کی قوتوں کو اسی طرح ختم کرنا ہے جس طرح آتش پرستوں اور رومیوں کی جنگی طاقتوں کو ختم کردیا گیا اگر ہم نے حسن بن صباح کو ختم نہ کیا
میں اس نام سے تنگ آگیا ہوں سلطان برکیارق نے کہا حسن بن صباح کا نام سنتے سنتے میرے کان پک گئے ہیں میں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہم باطنیوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کریں گے
یہ بھی سوچ لیں سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا اگر آپ نے فوج میں سے آدھی نفری نکال دی تو فوج میں اور قوم میں بھی آپ کے خلاف بداعتمادی پیدا ہوجائے گی اس کے نتائج کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں میں ابھی کوئی اور بات نہیں کہنا چاہتا سوائے اس کے کہ یہ نتائج بڑے ہیں خطرناک بھی ہو سکتے ہیں
ہم آپ کو نہیں نکال رہے سالار اوریزی! سپہ سالار نے کہا آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے
میں سب سے پہلے فوج سے نکلوں گا سالار اوریزی نے کہا میں مجاہد ہوں اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے فوج میں شامل ہوا تھا سلطان کی خوشامد کے لیے نہیں جیسا آپ کر رہے ہیں
آپ میری توہین کر رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار نے کہا میں بھی مجاہد ہوں خوش آمدی نہیں
دونوں خاموش ہوجاؤ! سلطان برکیارق نے کہا میں نے تمہیں آپس میں لڑنے کے لیے نہیں بلایا
سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا آپ میری صاف گوئی برداشت کریں یا نہ کریں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ آپ کی سلطنت کی سلامتی کے لئے کہہ رہا ہوں یہ سلطنت آپ کی نہیں یہ میری بھی ہے یہ اللہ کی سلطنت ہے اگر آپ فوج کے متعلق غلط فیصلے کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ جو سالار ان فیصلوں کو غلط سمجھے گا وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور ہمارے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا حکم نہیں مانے گا سپہ سالار حجازی آپ کو خوش کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنے اللہ کو خوش کر رہا ہوں اور یہی میرا فرض ہے
تقریباً تمام مستند تاریخوں میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کا خوشامدی تھا اور سلطان ابلیسی اثرات کے تحت فیصلے کر رہا تھا ایک بیدار مغز اور دیانتدار سالار نے ان کی مخالفت کی تو آگے چل کر یہی اختلاف خانہ جنگی کا بنیادی پتھر بن گیا سلطان برکیارق نے جب ان دونوں سالاروں کو فارغ کیا تو باہر آکر سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے سالار اوریزی کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ جانتا ہے کہ سلطان کا یہ حکم سلطنت کے لیے اچھا نہیں لیکن ہمیں کیا ہمیں سلطان کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہے لیکن سالار اوریزی اس قدر بگڑ گیا تھا کہ اس نے سپہ سالار کے ساتھ بحث بے معنی سمجھی
ایک روز رے میں امیر شہر ابومسلم رازی اپنے دفتر میں امور سلطنت میں الجھا ہوا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے دو آدمی آئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکی ہے ابومسلم رازی نے انہیں فوراً اندر بلا لیا
ہم اس لڑکی کو آپ کے حوالے کرنے آئے ہیں دونوں میں سے ایک آدمی نے کہا ہم مسلمان نہیں یہ لڑکی مسلمان ہے
کون ہے یہ لڑکی؟
ابومسلم رازی نے پوچھا اسے کہاں سے لائے ہو میرے حوالے کرنے کا مقصد کیا ہے ؟
میرا نام حمیرا ہے لڑکی بولی میں قستان کے ایک رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں
قستان پر تو باطنی قابض ہوگئے ہیں ابومسلم رازی نے کہا اور پوچھا تم کس طرح بچ نکلی ہو؟
اگر آپ اجازت دیں گے تو میں اپنی داستان سناؤں گی؟
حمیرا نے کہا سب سے پہلے تو میں ان دونوں کی تعریف کروں گی کہ یہ مسلمان نہیں اور یہ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں
ابومسلم رازی کے کہنے پر حمیرا نے وہ سب کہہ سنائی جو اس پر بیتی تھی اس نے اپنی محبت کی بات بھی نہ چھپائی اور سفید ریش راہب کے منزل تک پہنچنے کی ایک ایک تفصیل سنائی
میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم نے جو بات سنائی ہے وہ بالکل سچ ہے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
آپ کا شک بجا ہے حمیرا نے کہا ان کے بزرگ راہب نے بھی یہی شک کیا تھا میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ میں ثابت کر سکوں کہ میں نے جو بات کہی ہے یہ سچ ہے
ہمارے راہب نے اس لڑکی کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا تھا ایک آدمی نے کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں اور یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو آپ ہم دونوں کو قید خانے میں بند کردیں اور جب آپ کو یقین آجائے گا تو ہمیں رہا کردیں
ابو مسلم رازی نے ان دونوں آدمیوں کو کھانا کھلایا اور مشروبات پلائے اور پھر ان کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں
میں تمہیں اپنی پناہ میں رکھوں گا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا تمہارا کوئی اور ٹھکانہ ہوتا تو میں تمہیں وہاں بھیج دیتا
میری ایک بات ذہن میں رکھ لیں محترم! حمیرا نے کہا میں یہاں آپ کی پناہ میں محتاجوں کی طرح بیٹھی نہیں رہونگی میں نے ان باطنیوں سے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کے خون کا انتقام لینا ہے میں جانتی ہوں کہ آپ باطنیوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں آپ مجھے اس جہاد میں جس طرح بھی استعمال کریں گے میں اپنی جان بھی پیش کردوں گی
ابومسلم رازی نے حمیرا کے ساتھ آئے ہوئے دونوں آدمیوں کا شکریہ ادا کیا انہیں کچھ تحفے دیے اور رخصت کردیا
رے سلطنت سلجوقیہ ان کا ایک بڑا شہر تھا اور یہ دونوں آدمی دیہاتی علاقے میں سے آئے تھے دونوں جب بازار سے گزرے تو گھوڑوں سے اتر آئے انہیں اس شہر کی دوکانیں بڑی اچھی لگ رہی تھیں وہ ایک دکان کے سامنے رک گئے دکان میں سجا ہوا سامان انہیں اچھا لگ رہا تھا
تم اجنبی معلوم ہوتے ہو ؟
انہیں ایک آواز سنائی دی انہوں نے دیکھا ایک آدمی جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ان سے مخاطب تھا معلوم ہوتا ہے بڑے لمبے سفر سے آئے ہو اس آدمی نے کہا
ہاں بھائی! ایک نے کہا ہم بہت دور سے آئے ہیں اور اب واپس جا رہے ہیں
اس دکان سے کچھ خریدنا چاہتے ہو ؟
اس آدمی نے پوچھا
ویسے ہی یہ چیزیں اچھی لگ رہی ہیں ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہم جنگلوں میں رہنے والوں نے کیا خریدنا ہے
تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بتاؤ اس شخص نے کہا تم پردیسی ہو میں تمہیں کوئی تحفہ دینا چاہتا ہوں
کیوں ؟
ایک مسافر نے پوچھا تم ہمیں تحفہ کیوں دینا چاہتے ہو؟
میں نے تم سے کیا لینا ہے اس شخص نے کہا یہ میری عادت ہے کہ کسی سیدھے سادے اجنبی کو دیکھتا ہوں تو اسے ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے پوچھنے سے میرا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے اسے کسی چیز کی کھانے پینے کی یا کسی طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہو اور یہ بیچارا کسی سے کہتا نہ ہو
ہمیں کچھ نہیں چاہئے دوست! ایک نے کہا یہی کافی ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ پیار اور محبت سے بات کی ہے
پھر میری خوشی کی خاطر میرے ساتھ آؤ اس شخص نے کہا میں تمہیں اس شہر کا ایک خاص شربت پلا کر رخصت کرنا چاہتا ہوں
اس شخص نے ایسی اپنائیت کا اظہار کیا کہ وہ دونوں اس کے ساتھ چل پڑے ذرا ہی آگے مشروبات کی ایک دکان تھی جس میں بیٹھنے کا بڑا ہی اچھا انتظام تھا یہ شخص دونوں کو اندر لے گیا اور ان کے لیے شربت منگوایا وہ ایسی باتیں کرتا رہا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ دوسروں کی خدمت کرے
تمہارے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
اس شخص نے پوچھا اور تم امیر شہر کے یہاں گئے تھے وہ لڑکی شاید شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی
سفید ریش راہب نے اپنے ان دو آدمیوں کو حمیرا کے ساتھ بھیجا اور صرف یہ کہا تھا کہ اسے رے کے امیر شہر ابومسلم رازی کے حوالے کرکے واپس آ جائیں انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ کوئی اور پوچھ بیٹھے کہ یہ لڑکی کون ہے تو اسے لڑکی کی اصلیت نہ بتائیں یہ دونوں آدمی حمیرا کی پوری داستان سن چکے تھے انہوں نے حمیرا کے ساتھ اتنا لمبا سفر کیا تھا حمیرا نے خود بھی انہیں سنائی تھی کہ اس پر کیا بیتی ہے اور وہ کس طرح الموت سے نکلی ہے
اب رے سے رخصت ہوتے وقت ان دونوں کو یہ اجنبی میزبان مل گیا تو اس کی باتوں میں آگئے اس نے ان سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے جسے وہ امیر شہر کے یہاں چھوڑ چلے ہیں ان دونوں نے بڑے فخر اور خوشی سے حمیرا کی ساری داستان اس آدمی کو سنا ڈالی اس آدمی نے حمیرا کے اس کارنامے پر دل کھول کر واہ واہ کی اور پھر ان دونوں آدمیوں کے خلوص اور دیانت داری اور ان کے کردار کی بےپناہ تعریف کی اس کے بعد دونوں رخصت ہوگئے
ان کے جانے کے بعد یہ شخص بہت ہی تیز چلتا ایک مکان میں چلا گیا وہاں تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے
لو بھائیو! اس نے کہا وہ مل گئی ہے
کون؟
حمیرا! اس نے جواب دیا اس شہر کے حاکم ابو مسلم رازی کے گھر پہنچ گئی ہے ابھی ابھی دو آدمی اسے اپنے ساتھ لائے تھے اور وہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں اس نے اپنے ساتھیوں کو سنایا کہ کس طرح اس نے ان دونوں آدمیوں کو گھیرا اور ان سے یہ راز لیا ہے یہ سب باطنی تھے اور حسن بن صباح کے جاسوس تھے جو کچھ عرصہ سے رے میں ٹھہرے ہوئے تھے،انہیں دو ہی روز پہلے الموت سے اطلاع ملی تھی کہ حمیرا نام کی ایک لڑکی الموت سے لاپتہ ہو گئی ہے اسے تلاش کیا جائے
الموت کون جائے گا ؟
ان میں سے ایک نے پوچھا اور کہا اگر آج ہی کوئی روانہ ہو جائے تو اچھا ہے امام خوش ہوجائے گا
وہ صرف اتنی سی بات پر خوش نہیں ہوگا کہ لڑکی کا سراغ مل گیا ہے ان میں سے ایک نے کہا اب یہ حکم آئے گا کہ لڑکی کو اغوا کرکے الموت پہنچاؤ
ایک آدمی اٹھا اور سفر کی تیاری کرنے لگا
چند دن گزرے تھے کہ ایک روز سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد رے آ گیا اور ابو مسلم رازی کے یہاں پہنچا ابومسلم اسے اس طرح شفقت اور پیار سے ملا جیسے باپ اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملتا ہے محمد بڑا خوبصورت اور قد آور جوان نکلا تھا اس میں اپنے باپ ملک شاہ والا جذبہ تھا
کہو محمد! ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا مرو کے حالات کیسے ہیں اور تم کیسے آئے ہو؟
بہت برے! محمد نے جواب دیا آپ کے پاس مجھے ماں نے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے بھیجا ہے میں بھائی برکیاروق کو بتائے بغیر آگیا ہوں برکیارق تو پوری طرح اپنی بیوی کے قبضے میں آ چکا ہے وہ اس کے دماغ میں جو کچھ بھی ڈالتی ہے وہ سلطنت کے لئے حکم بن جاتا ہے مجھے اور سنجر کو برکیارق نے بھائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے مجھے کہتا ہے کہ میں تمہیں کسی اچھے عہدے پر لگا دوں گا لیکن کسی بھی وقت میرے راستے میں نہ آنا یہ تو ہماری گھریلو باتیں ہیں اس نے ایک بڑا ہی خطرناک حکم دے دیا ہے جس کے تحت فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیجا جا رہا ہے فوج آدھی رہ جائے گی
کیا کہا؟
ابو مسلم نے چونک کر کہا کیا وہ اتنی خطرناک حماقت پر اتر آیا ہے کہ فوج آدھی کرکے سلطنت کو خطرے میں ڈال رہا ہے؟
کیا وزیراعظم اور تمہاری ماں نے اسے روکا نہیں؟
سب نے روکا ہے محمد نے جواب دیا وہ کسی کی سنتا ہی نہیں اصل خطرہ جو سامنے آگیا ہے اس سے وہ بے خبر ہے لیکن میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں اور میرے آنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں کچھ مشورہ دیں
ہاں محمد! ابومسلم نے کہا یہ تو تم نے بڑی تشویش ناک خبر سنائی ہے
وہاں تو خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوتی جارہی ہے محمد نے کہا فوج میں سے ان آدمیوں کو الگ کیا جا رہا ہے جنہیں فوج سے نکالنا ہے ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ بےروزگار ہو جائیں گے بلکہ وہ سلطنت اور باطنیوں کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ بتا کر فوج میں شامل کیا گیا تھا کہ باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے اسلام کے فروغ کے راستے کھولنے ہیں پھر خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نائب سالار اوریزی بگڑ گیا ہے اس نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ سپہ سالار ابوجعفرحجازی کے خلاف باقاعدہ لڑائی لڑے گا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے گا
میں سپہ سالار حجازی کو اچھی طرح جانتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا خوشامدی آدمی ہے معلوم نہیں سلطان ملک شاہ مرحوم نے اسے سپہ سالار کیسے بنا دیا تھا وہ سوائے خوشامد کے کچھ بھی نہیں جانتا
وہ ہمارےبھائی برکیارق کا ہر غلط حکم بسروچشم مانتا ہے اور دوسروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی یہ حکم مانیں اس میں اور سالار اوریزی میں باقاعدہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے
اوریزی صحیح معنوں میں مجاہد آدمی ہے ابومسلم رازی نے کہا اس نے جو کہا ہے وہ کرکے بھی دکھا دے گا لیکن یہ صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے
وہ خطرہ سامنے آگیا ہے محمد نے کہا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے مخبروں نے انہیں بتایا ہے کہ باطنی تخریب کار دونوں طرف کی فوجیوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں نظر یہی آ رہا ہے کہ وہ فوجی جنھیں نکالا جارہا ہے ان فوجیوں سے ٹکرا جائیں گے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا ہے شہری بھی دو مخالف گروہوں میں بٹے جارہے ہیں اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ باطنی شہریوں میں شامل ہوکر انہیں بھڑکا رہے ہیں کسی بھی روز یہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا
مجھے سوچنے دو ابومسلم نے کہا آج یہ صورتحال ایسی نہیں کہ میں فوراً ہی کوئی مشورہ دے دوں اس وقت میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں یقین دلا دوں کہ میں ہر طرح تمہارے ساتھ ہوں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں اس نفری کو جسے نکالا جارہا ہے یہاں بلا لوں گا اور فوج تیار کرکے سلطان برکیارق کا تختہ الٹ دوں گا بہرحال صورتحال بہت ہی خطرناک ہے تم کچھ دن یہیں ٹھہرو میں کچھ نہ کچھ سوچ لوں گا
وہ اس مسئلے اور اس صورتحال پر باتیں کرتے رہے اور حسن بن صباح کا ذکر آگیا اس ذکر کے ساتھ ابومسلم رازی نے حمیرا کا نام لیا اور مختصراً محمد کو سنایا کہ یہ لڑکی کس طرح اس کے پاس پہنچی ہے اور حسن بن صباح سے انتقام لینے کے لیے بے تاب ہے ابومسلم رازی نے حمیرا کو بلا لیا وہ آئی تو اس کا تعارف محمد سے کرایا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا محمد کچھ دن یہاں رہے گا اس میں وہی جذبہ اور وہی خیالات ہیں جو تمہارے ہیں اس کی میزبانی تم نے کرنی ہے اسے کمرے میں لے جاؤ اور اس کا خیال رکھنا محمد اور حمیرا اٹھے اور کمرے سے نکل گئے دونوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیسی سنسنی خیز کہانی کے کردار بننے جارہے ہیں…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……



www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 7 https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-7/ https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-7/#respond Thu, 01 Aug 2024 16:51:16 +0000 https://urducover.com/?p=5233 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 7

قسط نمبر    “25”   سے قسط    “28”     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:25 }
احمد اوزال مزمل آفندی کے متعلق سوچتا پریشانی کے عالم میں ابھی ابھی سویا تھا دروازے پر دستک ہوئی اس کی آنکھ پہلے دستک پر ہی کھل گئی وہ اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اس نے ذرا بلند آواز سے کہا اللہ کرے مزمل ہو اس نے دیا جلایا ہاتھ میں لے کر صحن میں نکلا اور دروازہ کھولا
دو آدمی اسے دھکیلتے ہوئے اندر آگئے ایک شمش تھا اور دوسرا عمر ان کے ہاتھوں میں لمبے خنجر تھے انہیں معلوم تھا کہ احمد اوزال اکیلا رہتا ہے اب اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ شخص سلجوق اور سلطنت سلجوقی جاسوس ہے اور مزمل نے ان لوگوں کے شج کی تصدیق کر دی تھی
احمد اوزال کے دونوں پہلوؤں کے ساتھ خنجروں کی نوکیں لگی ہوئی تھیں جو اسے چبھ رہی تھیں وہ خالی ہاتھ تھا اس کے ہاتھ میں بڑے سائز کا جلتا ہوا دیا تھا دیا آدھے سے زیادہ تیل سے بھرا ہوا تھا
تم چاہتے کیا ہو ؟
احمد اوزال نے پوچھا
خاموشی سے اندر چلے چلو شمش نے کہا اندر چل کے بتائیں گے وہ اسے خنجر کی نوک سے دھکیلتے اندر لے گئے شمش نے دروازہ بند کر دیا
تمہارے پاس سونا ضرور ہوگا شمش نے کہا وہ اور نقدی ہمارے حوالے کردو
یوں کہو کہ تم ڈاکو ہو احمد اوزال نے کہا خنجر ہٹاؤ میرے پاس سونے کے تین ٹکڑے اور کچھ نقدی ہے وہ میں تمہیں دے دیتا ہوں وہ لو اور جاؤ
ہم تمہیں بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے شمش نے کہا ہمیں دراصل ضرورت تو تمہاری ہے
مجھے ساتھ لے جا کر کیا کرو گے؟
احمد اوزال نے پوچھا
کیا فضول باتیں شروع کردیں ہیں شمش!
عمر نے کہا ختم کرو اس سلجوقی جاسوس کو اس کا مال ہمارا ہی ہے اُدھر سے تم خنجر دباؤ اِدھر سے میں دباتا ہوں
اگر یہ بتا دے کہ خلجان میں اس کے کتنے ساتھی ہیں تو اسے زندہ رہنے دیں گے شمس نے کہا یہ بھی بتا دے کہ وہ کہاں کہاں رہتے ہیں
احمد اوذال سمجھ گیا کہ یہ حسن بن صباح کے آدمی ہیں اور انہیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ جاسوس ہے یہ بھی سمجھ گیا کہ مزمل آفندی کسی طرح ان کے ہاتھ چڑھ گیا ہے اور اس نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے اسے یہ تو معلوم تھا کہ حسن بن صباح نے جانبازوں کے گروہ بنا رکھے ہیں جو درندوں سے بڑھ کر ہی کم نہیں اور ان کے اندر انسانی جذبات ہے ہی نہیں وہ ان دو آدمیوں سے رحم اور مفاہمت کی توقع رکھ ہی نہیں سکتا تھا وہ قتل کرنا ہی جانتے تھے لیکن ایسے رحم دل نہیں تھے کہ فوراً مار ڈالتے وہ بڑی ظالمانہ ایذا رسانی سے جان نکالتے تھے
احمد بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا
اس شہر میں تمہارے ساتھی کہاں کہاں رہتے ہیں ؟
عمر نے پوچھا ان کے نام اور گھر فوراً بتا دو
یہ دیا رکھ دو
احمد اوزال نے دیا اوپر کی طرف سے شمس کے منہ پر مارا اور حیران کن پھرتی سے پہلو بدل کر لات اتنی زور سے عمر کے پیٹ میں ناف کے نیچے ماری کے عمر کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا اور وہ ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر آگے کو جھک گیا احمد اوزال نے بڑی تیزی سے خنجر اٹھا لیا اور جھکے ہوئے عمر کی پیٹ میں اتنی زور سے گھونپ دیا کہ خنجر کا صرف دستا باہر رہ گیا احمد نے فوراً خنجر باہر نکالا دوسرا وار کرنے کی ضرورت نہیں تھی عمر گر پڑا تھا
احمد اوزال نے دیا شمس کے منہ پر مارا تھا اس سے کمرے میں اندھیرا ہو جانا چاہیے تھا لیکن کمرہ پہلے سے زیادہ روشن ہو گیا تھا کیونکہ دیا خاصا بڑا تھا اور آدھے سے کچھ زیادہ تیل سے بھرا ہوا تھا اور اس کی بتی خاصی موٹی تھی تیل شمس کی آنکھوں میں چلا گیا اور اس کے چہرے سے تیل اس کے کپڑوں پر گیا تھا اس کی ڈیڑھ دو انچ لمبی داڑھی تھی اتنے بڑے شعلے والی جلتی بتی نے اس کی داڑھی کو آگ لگا دی وہاں سے آگ پلک جھپکتے کپڑوں کو لگی شمس کے ہاتھ سے بھی خنجر گر پڑا اور وہ چیخنے لگا احمد اوذال کے ہاتھ میں عمر کا خنجر تھا اس نے شمس کے ایک پہلو میں خنجر گھونپا اور زور سے دوسرے پہلو کی طرف جھٹکا دیا شمس کا پیٹ چاک ہوگیا اور اتڑیاں باہر آگئیں شمس گرا اس کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی پیٹ چاک ہوا تو اس کی چیخیں بند ہوگئیں وہ بہت تڑپا اور ختم ہو گیا
یہ سارا عمل چند سیکنڈ میں ہو گیا
احمد اوزال بڑی تیزی سے اپنی قیمتی چیزیں ایک گٹھری میں باندھی تلوار کمر سے باندھی اور شمس کی لاش کو جلتا چھوڑ کر صحن میں نکلا دروازہ بند کر دیا اور زین اٹھا کر اپنے گھوڑے پر کسی گٹھری زین کے ساتھ باندھی اور گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے دوست کے گھر پہنچا دستک دی دوست باہر آیا تو احمد اوزال نے اسے سارا واقعہ سنایا
میں مرو جا رہا ہوں اس نے کہا
فوراً نکلو دوست نے کہا صبح تک بہت ہی دور نکل جانا
مزمل آفندی کا کچھ پتہ نہیں چلا احمد اوزال نے کہا وہ باطنیوں کے قبضے میں آگیا ہے میری نشاندہی اسی نے کی ہے جس نے بھی کی ہے دوست نے کہا اور جو کچھ بھی ہوا ہے تم یہاں سے نکلو تم خوش قسمت ہو کہ حسن بن صباح کے دو آدمیوں کو قتل کر کے جا رہے ہو اس کے جانباز قتل کیا کرتے ہیں قتل ہوا نہیں کرتے
احمد اوزال خدا حافظ کہہ کر روانہ ہو گیا شہر سے وہ آہستہ آہستہ نکلا کچھ دور جا کر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی
امیر الموت مہدی علوی حسن بن صباح اور اسکے تمام آدمیوں کو الموت لے گیا حسن بن صباح کو اس نے اپنے محل کے دو کمرے دیے جن میں شاہانہ زندگی کی ہر آسائش موجود تھی کمرے میں سجاوٹ ایسی جو صرف بادشاہوں کے یہاں ہی ہوا کرتی تھی حسن بن صباح نے ان کمروں میں ٹھہرنے سے انکار کر دیا
کسی ایک پیغمبر کا نام لو جس نے ایسی شہانہ رہائش اختیار کی تھی حسن بن صباح نے کہا کیا ہمارے رسولﷺ بوریا نشین نہیں تھے کیا ہمارے خلفائے راشدین کے بھی ایسے محل ہوتے تھے؟
نہیں مہدی علوی! میں نبیوں اور پیغمبروں سے بہتر تو نہیں مجھے کٹیا دے دو
نہیں امام! مہدی علوی نے کہ آپ کو کٹیا میں بٹھا کر میں خدا کے حضور کیا جواب دوں گا
میرے اور خدا کے درمیان جو باتیں ہوتی ہیں وہ آپ نہیں جانتے حسن بن صباح نے کہا میں خدا کے حکم کا پابند ہوں ہاں ایک بات سوچی جاسکتی ہے اگر آپ کو میرا کٹیا میں رہنا پسند نہیں تو سادہ سا کوئی کمرہ دے دیں میری ضرورت یہ ہے کہ سر پر چھت ہو اور روحانی ضرورت یہ ہے کہ چھت آسمان ہو لیکن یہ آپ کو اچھا نہیں لگتا میں نہیں چاہتا کہ کسی کو میری طرف سے ذرا سی بھی پریشانی ہو
مہدی علوی نے محل سے ہٹ کر ایک مکان حسن بن صباح کے لیے خالی کرا دیا تھا یہ سادہ سا مکان تھا جس میں بہت سے کمرے تھے ایک کمرہ حسن بن صباح کے لئے اور دوسرے کمرے اس کے خاص آدمیوں کے لیے تھے باہر محافظ کھڑے رہتے تھے کسی کو مکان کے قریب بھی جانے کی اجازت نہیں تھی مہدی علوی جو امیر شہر تھا اور حسن بن صباح کا میزبان بھی تھا وہ بھی اس مکان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا تھا
اس مکان کے اندر کیا ہوتا تھا کسی کو معلوم نہیں تھا باہر کے لوگ کہتے تھے کہ امام عبادت میں مگن رہتا ہے اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے اس کے عقیدت مندوں کے ہجوم میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا
تاریخ میں آیا ہے کہ احمد بن عطاش اپنے کام اور مطلب کے آدمیوں کو خلجان شاہ در اور دوسرے شہروں اور علاقوں سے قلعہ الموت میں لا لا کر آباد کر رہا تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو پس منظر میں رکھا ہوا تھا مہدی علوی کو کبھی کبھار ملتا تھا لیکن خلجان اور شاہ در کے قلعہ دار اور امیر شہر کی حیثیت سے یا حسن بن صباح کے مرید کی حیثیت سے
مہدی علوی کو تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ جس شہر کا وہ امیر ہے اس میں کیا ہو رہا ہے حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کہ اتنے خوبصورت شہر کے دفاع کا کوئی انتظام نہیں اس کے لیے فوج کی ضرورت ہے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ سلجوقیوں کے پاس بڑی ہی مضبوط فوج ہے وہ کسی بھی وقت حملہ کرکے یہ شہر لے لیں گے
حسن بن صباح نے مہدی علوی کو پہلی ملاقات میں ہی اپنے اوپر کشف اور مراقبے کی کیفیت طاری کرکے پیشن گوئی کی تھی دشمن بڑھ رہا ہے گھٹا گہری ہو رہی ہے اگر آپ نے فوج رکھ لیں تو یہ گھٹا جس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اڑ جائے گی اور آپ محفوظ رہیں گے فوج تجربے کار ہونی چاہیے بغیر فوج کے آپ قلعہ گواں بیٹھے گے
مہدی علوی یہ پیشن گوئی سن کر گھبرا گیا اور اس نے کہا تھا کہ وہ اتنی زیادہ فوج رکھ نہیں سکتا کیونکہ فوج کے اخراجات پورا کرنا اس کے بس کی بات نہیں حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کہ وہ فوج کو صرف دو وقت کی روٹی دے دیا کرے باقی اخراجات حسن بن صباح نے اپنے ذمے لے لیے اور مہدی علوی کے ساتھ تحریری معاہدہ کر لیا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے دو ہزار نفری کی فوج بن گئی یہ تمام فوج حسن بن صباح کے مریدوں کی تھی جو اس پر جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اس فوج کے کمانڈر حسن بن صباح کے اپنے تربیت یافتہ آدمی تھے جو نہ کسی سے رحم مانگتے تھے نہ کسی پر رحم کرتے تھے
ایک روز حسن بن صباح نے مہدی علوی کو بلایا مہدی علوی دوڑا آیا اور اس نے حسن بن صباح کے آگے باقاعدہ سجدہ کیا
کیا آپ نے اپنی فوج دیکھ لی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
دیکھ لی ہے یا امام
کیا آپ اپنے اندر کوئی تبدیلی محسوس کر رہے ہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا
کر رہا ہوں یا امام! مہدی علوی نے جواب دیا یہ فوج دیکھ کر میں اپنے آپ کو محفوظ ہی نہیں بلکہ طاقتور سمجھ رہا ہوں کبھی یوں بھی محسوس کرتا ہوں کہ سلجوقی سلطان کو یا کسی اور قوم کو للکاروں کے میرے مقابلے میں آئیں
نہیں امیر شہر! حسن بن صباح نے کہا یہ رعونت ہے تکبر ہے ایسا نہ سوچیں میں نے آپ کو کچھ اور بتانے کے لئے بلایا ہے گزشتہ رات مجھے اللہ کی طرف سے ایک اشارہ ملا ہے الموت میں جنت بنے گی یہاں حوریں اتریں گی فرشتے اتریں گے اور یہاں ہر لمحہ اللہ کی رحمت برستی رہے گی
مہدی علوی کی باجھیں پھیلتی جا رہی تھیں وہ محسوس نہیں کر رہا تھا کہ حسن بن صباح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بات کرتا ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی ادھر ادھر نہیں کرتا اس کے بولنے کا انداز اتنا پیارا اور اتنا اثر انگیز ہے کہ اس کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سننے والے کی روح میں اترتا جارہا ہے
یہ تھا ایک ابلیسی وصف جو حسن بن صباح نے اپنے آپ میں پیدا کر لیا تھا اس انداز میں ہپنا ٹائز کر لینے کی طاقت تھی مہدی علوی ہپنا ٹائز ہو چکا تھا
میں آپ کو ایک بات اور بتاتا ہوں حسن بن صباح نے کہا ابھی یہ بات بتانی تو نہیں چاہیے تھی لیکن یہ جگہ آپ کی ہے اور یہاں جو کچھ ہے آپ کا ہے یہ جو آپ کو بڑی ہی حسین لڑکیاں نظر آتی ہیں یہ میرے ساتھ آئی ہے یہ دراصل حوریں ہیں آسمان کی مخلوق ہیں جو زمین پر بسنے والی عورتوں کے روپ میں میرےپاس آ گئی ہیں اگر یہ اس دنیا کی لڑکیاں ہوتی تو میں انہیں اپنے پاس نہ رکھتا
یہ خدیجہ اور دوسری لڑکیاں ہاں ہاں حسن بن صباح نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا یہ آسمانی مخلوق ہیں لیکن آپ انہیں زمین کی مخلوق سمجھیں ان سے جو خدمت لینا چاہیں لیں انکی روحیں میرے قبضے میں ہیں انہیں اپنا سمجھیں
حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ اس کی بہت ہی حسین اور فریب کاری کی ماہر جوان سال عورت خدیجہ مہدی علوی پر چھا گئی ہے اور مہدی علوی اسے رات اپنے پاس رکھتا ہے اسے یہ بھی معلوم تھا کہ دو تین نوجوان لڑکیاں بھی مہدی علوی کے ہوش گم کیے رکھتی ھیں خدیجہ مہدی علوی کو خاص قسم کا شربت بھی پلا رہی تھی اور اس پر دیوانگی طاری کرکے اس سے اپنا دامن بھی بچا رہی تھی
یا امام! مہدی علوی نے التجا کے لہجے میں کہا ایک عرض ہے اجازت ہو تو
میرے ساتھ بات کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے کہا اگر کوئی بات میرے خلاف بھی دل میں آئے تو بلا خوف کہو اب بتاؤ کیا بات ہے
میں خدیجہ کی بات کرنا چاہتا ہوں مہدی علوی نے جھجکتے ہوئے کہا
آپ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں حسن بن صباح نے کہا انسان کے دل کی بات اس کے چہرے پر لکھی ہوتی ہے پڑھنے والی آنکھیں چاہیے دلوں کی تحریر روحوں کی آنکھ سے پڑھی جاتی ہے
مہدی علوی جو اچھا خاصا دانشمند اور معزز ہوا کرتا تھا حسن بن صباح کی اس بات پر حیران رہ گیا کہ اس نے اس کے دل کی بات پڑھ لی ہے حالانکہ یہ بات قابل فہم تھی کہ خدیجہ حسن بن صباح کے ساتھ آئی تھی مہدی علوی نے خدیجہ سے کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے اب وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکا کہ خدیجہ نے ہی حسن بن صباح کو یہ بات بتائی ہو گی لیکن مہدی علوی کی اتنی برین واشنگ ہو چکی تھی کہ عام فہم باتیں بھی سمجھنے کے قابل نہیں رہا تھا
ان شاءاللہ بندہ ناچیز (شفیق الرحمان تبسم) آگے آپ کو مہدی علوی کی برین واشنگ کا عمل تفصیل سے سنائے گا
ہاں امام! مہدی علوی نے کہا آپ نے میرے دل کی تحریر پڑھ لی ہے لیکن آپ فرماتے ہیں کہ یہ حوریں ہیں جو زمین کی عورتوں کے روپ میں آئیں ہیں
پھر بھی اس کے ساتھ آپ کی شادی ہو سکتی ہے حسن بن صباح نے کہا شرط یہ ہے کہ آپ کو انسانیت کی سطح سے اوپر اٹھنا پڑے گا اور یہ کوئی مشکل کام نہیں
کیا مجھے کچھ کرنا پڑے گا؟
مہندی علوی نے احمقوں کے انداز سے پوچھا
ہاں حسن بن صباح نے جواب دیا روح کی سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کرنا پڑے گا
وہ کیسے؟
مراقبہ چلّہ کشی حسن بن صباح نے کہ ریاض آپ کو تنہائی میں دنیا سے لاتعلق ہو کر میری طرح اللہ کے حضور بیٹھنا پڑے گا آپ یہ کام کر لیں گے اور میرے والا مقام حاصل کر لیں گے آپ دیکھ رہے ہیں کہ لڑکیاں پروانوں کی طرح میرے ارد گرد منڈلاتی رہتی اور میرے آگے بچھ بچھ جاتی ہیں
کیا آپ میری رہنمائی کریں گے؟
مہدی علوی نے پوچھا
آپ نے جس پیار اور عقیدت سے مجھے اپنے یہاں مہمان رکھا ہے میں اس کا صلہ ضرور دوں گا حسن بن صباح نے کہا میری رہنمائی کے بغیر آپ یہ کام کر ہی نہیں سکتے میں آپ کا ہاتھ تھامو گا
مہدی علوی ذہنی اور روحانی طور پر حسن بن صباح کی نظر نہ آنے والی زنجیروں میں جکڑا گیا اسے ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ الموت جیسا مضبوط ناقابل تسخیر اور خوبصورت قلعہ ہاتھ سے جا رہا ہے اس کی تو اپنی شخصیت پر اپنی ذات اور اپنے کردار پر گرفت نہیں رہی تھی اتنے بڑے قلعے اور اتنے بڑے شہر کو وہ کیسے گرفت میں رکھ سکتا تھا
الموت پر حسن بن صباح نے ابھی باقاعدہ قبضہ تو نہیں کیا تھا امیر شہر اس کے قبضے میں آ گیا تھا
احمد اوزال چوتھے دن مرو پہنچ گیا نظام الملک سے ملا اور اسے سنایا کہ مزمل آفندی لاپتہ ہے
ایسے جذباتی اور اناڑی آدمی کو اتنی خطرناک مہم پر بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا احمد اوزال نے کہا مجھے یقین ہے کہ وہ حسن بن صباح کے خفیہ گروہ کے ہاتھ چڑھ گیا ہے اور میری نشاندہی اسی نے کی تھی یہ تو اللہ نے میری مدد کی اور میں دو آدمیوں کو مار کر نکل آیا ورنہ میں قتل ہوجاتا
مزمل کو انہوں نے قتل کردیا ہوگا نظام الملک نے کہا تم آرام کرو میں کچھ سوچ لوں
محترم! احمد اوزال نے کہا میں آپ کو صاف صاف بتادوں ہم ان باطنیو کو جاسوسی اور تخریب کاری کے میدان میں شکست نہیں دے سکتے آپ کے پاس فوج ہے خلجان اور الموت پر حملہ کرنا پڑے گا مزمل آفندی کو بھول جائیں اسے وہ لوگ قتل کر چکے ہونگے
اُس وقت مزمل بن عابد کے ساتھ قلعہ الموت پہنچ گیا تھا بن عابد اسے اسی مکان میں لے گیا جس کے ایک کمرے میں حسن بن صباح رہتا تھا مزمل کو اس کمرے میں بٹھا کر بن عابد اس کمانڈر سے ملا جسکی اجازت کے بغیر کوئی شخص حسن بن صباح کے کمرے کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتا تھا بن عابد نے کمانڈر کو بتایا کہ وہ سلجوقیوں کے بھیجے ہوئے ایک آدمی کو لایا ہے یہ آدمی حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے
کمانڈر نے بن عابد سے پورا واقعہ سنا اور اسے حسن بن صباح کے پاس لے گیا بن عابد نے ایک بار پھر پوری بات سنائی کے اس نے مزمل کو کس طرح پکڑا اور کیا دھوکہ دے کر ساتھ لایا ہے
حسن بن صباح کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی ان ہونٹوں سے یہی حکم نکلا تھا سر کاٹ دو حسن بن صباح قتل سے کم سزا نہیں دیا کرتا تھا لیکن
اسے بند کردو حسن بن صباح نے کہا دو دن نہ کھانے کے لئے دو نہ پینے کے لئے پھر مجھے اطلاع دیں میں اسی شخص کو نظام الملک کے قتل کے لئے تیار کروں گا یہ شخص نظام الملک کو قتل کر کے خوشی محسوس کرے گا
مزمل آفندی کمرے میں بیٹھا اپنے نئے دوست بن عابد کا انتظار کر رہا تھا وہ بہت خوش تھا کہ اسے اپنا ایک ہم خیال مل گیا تھا بن عابد بھی اسی جذبے سے سرشار تھا جس جذبے نے مزمل آفندی کو دیوانہ بنا رکھا تھا اس کے دماغ پر خون سوار تھا وہ سوچ رہا تھا کہ حسن بن صباح کو وہ کس طرح قتل کرے گا اس نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کا سر کاٹ کر اپنے ساتھ لے جائے گا اور سلطان ملک شاہ کو پیش کرے گا پھر وہ اس سر کو برچھی کی انی میں اڑس کر مرو کے سارے شہر میں اس کی نمائش کرے گا تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا مزمل آفندی نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اسے معلوم تھا کہ بن عابد کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا بن عابد نے اسے یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ یہ اسی شخص کا گھر ہے جسے وہ قتل کرنے آیا ہے اس نے دیکھا کہ کمرے میں داخل ہونے والا بن عابد نہیں تھا بلکہ وہ دو اجنبی تھے جنہیں مزمل نے پہلے دیکھا ہی نہیں تھا
کیا تم بن عابد کے ساتھ آئے ہو؟
ایک آدمی نے مزمل سے پوچھا
ہاں! مزمل نے جواب دیا میں ہی ہوں
ہمارے ساتھ آؤ اس آدمی نے کہا
مزمل اٹھا اور ان کی طرف بڑھا دونوں آدمی اسے اپنے درمیان رکھ کر چل پڑے
بن عابد کہاں ہے ؟
مزمل نے پوچھا
وہ یہی ہیں مزمل کو جواب ملا ہم تمہیں اسی کے پاس لے جا رہے ہیں
وہ چلتے گئے اور شہر کے ایک اور حصے میں جا پہنچے وہ کہیں بھی نہ رکے شہر ختم ہو رہا تھا مزمل آفندی نے سوچا کہ بن عابد اتنی جلدی کہاں چلا گیا ہے
تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟
مزمل نے پوچھا کیا وہ اتنی جلدی اتنی دور نکل آیا ہے
ہم جانتے ہیں میرے دوست ایک آدمی نے کہا تم حسن بن صباح کا کام تمام کرنے آئے ہو نا
ہاں بھائی! مزمل نے کہا
تو پھر ہم سے کچھ بھی نہ پوچھو دوسرے آدمی نے کہا ہم سب تمہارے ساتھ ہیں تم وہ کام اکیلے نہیں کر سکتے جو کرنے آئے ہو خاموشی سے ہمارے ساتھ چلتے چلو
وہ اب ایسے علاقے میں سے گزر رہے تھے جہاں بے آب و گیاہ چٹانیں تھیں یہ خطہ سرسبز اور روح پرور تھا لیکن اس کا یہ تھوڑا سا حصّہ بالکل خشک بنجر اور ویران تھا گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی اگر وہاں کوئی درخت تھا بھی تو وہ بالکل خشک تھا
وہ چٹانوں کے اندر چلے گئے چند ایک موڑ کاٹ کر اور چٹانوں کے اندر ہی گھوم پھر کر وہ اس چٹانی سلسلے سے باہر نکلے تو کچھ اور ہی منظر سامنے تھا قلعے کی طرح ایک عمارت تھی اس کی دیواریں پتھروں کی تھی اور پتھر سیاہ تھے یہ چھوٹا سا قلعہ ہی معلوم ہوتا تھا دیوار بہت اونچی تھی دیواروں کے چاروں کونوں پر لکڑی کے جھونپڑے سے بنے ہوئے تھے یہ برج معلوم ہوتے تھے سامنے والی دیوار کے درمیان ایک بہت بڑا آہنی دروازہ تھا جس میں سالاخیں لگی ہوئی تھیں دو آدمی برچھیاں اٹھائے اس دروازے کے باہر یوں کھڑے تھے جیسے پہرہ دے رہے ہوں اس آہنی دروازے کے بالکل اوپر دیوار پر پتھروں کا ہی ایک کمرہ بنا ہوا تھا پتھروں کا رنگ ایسا ہو گیا تھا جسے دیکھ کر اداسی کا تاثر پیدا ہوتا تھا مزمل آفندی کچھ بھی نہ سمجھ سکا اس نے ان دو آدمیوں سے پوچھا بھی نہیں کہ یہ کیا عمارت ہے اس نے خود ہی سوچ لیا کہ یہ قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا قلعہ ہے یہ شاہی خاندان کے لیے بنایا گیا ہوگا کہ جب کوئی دشمن قلعے کا محاصرہ کرے تو شاہی خاندان اس اندرونی قلعے میں منتقل ہوجاتا ہوگا مزمل آفندی کو بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ جگہ شاہی خاندان کے لیے نہیں بلکہ یہ الموت کا ہیبت ناک قید خانہ ہے جہاں نہ جانے اس وقت تک کتنے ہزار لوگوں کے سر کاٹ چکے تھے اور کتنے ہی ہزار لوگ اس قید خانے کی کال کوٹھریوں میں مر کر گل سڑ گئے تھے
وہ قید خانے کی سیاھ کالے آہنی دروازے پر پہنچ گئے اس دروازے کے ایک کواڑ میں چھوٹا سا ایک اور دروازہ تھا اندر سے ایک آدمی چابیوں کا گچھا اٹھائے ہوئے دوڑا آیا اور اندر سے تالا کھولنے لگا
لے آئے ہو اسے دروازہ کھولنے والے نے کہا ہمیں اطلاع مل چکی ہے
دونوں آدمی مزمل آفندی کو چھوٹے دروازے میں سے اندر لے گئے جب اس دروازے پر بڑا سا تالا لگ گیا اس وقت مزمل ذرا سا چونکا اور اس نے ان دو آدمیوں کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ان دونوں نے اس کا ایک ایک بازو پکڑ لیا اور اسے اندر لے گئے
کون ہے یہ؟
مزمل نے پیچھے دیکھا وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے آ رہا تھا جس نے چھوٹا دروازہ کھولا اور پھر تالا لگا دیا تھا اس کے ہاتھ میں چابیوں کا وہی گچھا تھا جو مزمل نے دروازے میں داخل ہوتے وقت دیکھا تھا اسی نے پوچھا کہ یہ کون ہے
یہ امام کو قتل کرنے آیا ہے مزمل کو اندر لانے والے ایک آدمی نے جواب دیا
تینوں آدمیوں نے بڑی زور سے قہقہ لگایا اور وہ کچھ دیر ہنستے ہیں رہے مزمل رک گیا
بن عابد کہاں ہے؟
مزمل نے پوچھا
ایک آدمی نے اس کی گردن پر پیچھے سے ہاتھ رکھا اور اس قدر زور سے دھکا دیا کہ مزمل تین چار قدم آگے جا کر منہ کے بل گرا وہ اٹھا تو دوسرے آدمی نے اسی طرح اس کی گردن پر ہاتھ رکھا اور ویسا ہی دھکا دیا مزمل ایک بار پھر منہ کے بل گرا تو ایک آدمی نے اسے پکڑ کر آہستہ آہستہ لٹو کی طرح گھمایا
اچھی طرح دیکھ لو تم کہاں ہو اس آدمی نے کہا
مزمل نے دیکھا یہ ایک وسیع و عریض جگہ تھی جو بد رنگ پتھروں کی چار بہت ہی اونچی اونچی دیوارو میں گھری ہوئی تھی ایک طرف پتھروں کی بارکیں سی کھڑی تھیں بہت سا حصہ میدانی تھا وہاں قیدی مختلف کاموں میں لگے ہوئے تھے ہر ایک قیدی کے پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے پہرےدار ہاتھوں میں ہنٹر اٹھائے ان کے درمیان گھوم پھر رہے تھے کوئی قیدی ذرا سی بھی سستی کرتا تو پہرے دار اسے دو تین ہنٹر مار کر اس کی چیخیں نکال دیتا تھا قیدی پورے لباس میں نہیں تھے ناف سے اوپر ان کے جسم ننگے تھے ان کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں ان کے چہرے سوکھ گئے تھے چہروں پر کربناک تاثر تھا ان قیدیوں کے دو ہی کام تھے ایک جانوروں کی طرح مشقت کرنا اور دوسرا مار کھانا مزمل کے قریب جو قیدی تھے ان کی پیٹھوں پر لمبے لمبے لال سرخ نشان تھے یہ ہنٹر اور بیدوں کے نشان تھے
مزمل آفندی پر ہول طاری ہوگیا وہ اگر حسن بن صباح کو قتل کرکے اس قید خانے میں آتا تو اسے ذرا سا بھی افسوس نہ ہوتا وہ تو پہلے ہی پکڑا گیا تھا اس کا خیال تھا کہ اس کا ساتھی بھی پکڑا گیا ہوگا اور اسے بھی اس قید خانے میں لایا گیا ہو گا یا اسے لے آئیں گے اسے تو وہم بھی نہیں ہوا تھا کہ جس پر اس نے اعتماد کیا اور اس کا ہمسفر بن کر الموت آیا تھا اس کا نام بن عابد نہیں تھا اس کا اصل نام کچھ اور تھا بن عابد حسن بن صباح کے خاص گروہ کا آدمی تھا
آگے ایک اور اونچا دروازہ آ گیا یہ لکڑی کا دروازہ تھا جس کے آگے تالا لگا ہوا تھا یہ بھی ایک عمارت تھی جس کی دیواریں پتھروں کی بنی ہوئی تھی چابیوں والے سنتری نے آگے ہو کر دروازہ کھولا مزمل کو دھکیلتے ہوئے اس کے اندر لے گئے آگے سیڑھیاں نیچے اترتی تھیں یہ سیڑھیاں اتر گئے یہ ایک راہداری تھی نیچے جا کر چند قدم آگے گئے تو ایک دیوار آگئی وہ بائیں کو گھومے کچھ اور آگے جا کر دائیں کو مڑے تو پھر پانچ چھ سیڑھیاں آگئیں جو نیچے کو اترتی تھیں اور ایک ذرا فراخ راہداری تھی جس میں یہ لوگ آگے چلے گئے مزمل کو یوں محسوس ہوا جیسے اسے زمین کی آخری تہہ تک لے جایا جا رہا ہو اسے یاد ہی نہ رہا کہ وہ کتنی بار دائیں یا بائیں مڑ چکا ہے آخر وہ جگہ آ گئی جس کے دونوں طرف آمنے سامنے کوٹھریاں تھیں
یہ قید خانے کا تاریک تہہ خانہ تھا جسے مشعلوں سے روشن کیا گیا تھا وہاں ایسا تعفن تھا کہ صاف ستھری زندگی بسر کرنے والے مزمل جیسے آدمی کے لیے ناقابل برداشت تھا ایک تو دیواروں کے ساتھ اڑسی ہوئی مٹی کے تیل کی بدبو تھی اور دھواں تھا اور اس بدبو میں ایک تعفن ایسا تھا جیسے اس زمین دوز دنیا میں انسانی لاشیں یا جانوروں کے مردار پڑے گل سڑ رہے ہوں مزمل کو چکر سا آیا اور اس کے قدم رکنے لگے ایک آدمی نے پیچھے سے اس کی کمر میں اتنی زور سے لات ماری کے وہ چند قدم آگے پتھروں کے فرش پر اوندھے منہ گرا اس سے تو جیسے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا اسے گھسیٹ کر اٹھایا گیا اور دھکیل کر لے گئے
یہ دو آدمی جو مزمل کو لائے تھے قید خانے کے باہر انسانوں کی طرح بولتے اور چلتے تھے لیکن قید خانے میں داخل ہوتے ہی وہ درندے بن گئے مزمل نے دائیں بائیں دیکھا ہر کوٹھری کی سلاخوں کے اندر تین چار قیدیوں کو کھڑے دیکھا تو وہ حیران ہوا کہ لاشوں جیسے یہ انسان اپنے پاؤں پر کھڑے کس طرح ہیں
مزمل کو ایک اور طرف موڑ کر لے جایا گیا چابیوں والے سنتری نے دوڑ کر ایک کوٹھڑی کا دروازہ کھولا مزمل کو اس کے سامنے کھڑا کرکے یہ نہ کہا گیا کہ اندر چلو بلکہ اسے اس کوٹھری میں داخل کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک آدمی نے اس کا ایک بازو پکڑا اور دوسرے نے دوسرا بازو پکڑا اور ذرا آگے ہو کر ان دونوں نے اتنی زور سے مزمل کو اندر کی طرف جھٹکا دیا کہ وہ تنگ سی اس کال کوٹھڑی کی دیوار کے ساتھ جا لگا وہ سر دیوار سے ٹکرانے کی وجہ سے چکر آ گیا اور گر پڑا جب ذرا سنبھل کر اور اپنے آپ میں آ کر اٹھا تو دروازہ بند ہوچکا تھا اور اسے کال کوٹھری میں پھینکنے والے جا چکے تھے
مزمل نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور دیکھا اس کا ہاتھ خون سے لال ہو گیا تھا اس نے کرتے کا دامن ماتھے پر رکھا جب ہٹایا تو دامن خون سے تر ہو گیا تھا اس کی مرہم پٹی کرنے والا کوئی نہ تھا حسن بن صباح نے کہا تھا کہ اسے دو دن بھوکا اور پیاسا رکھا جائے مزمل کو اس حکم کا علم نہیں تھا ہوتا بھی تو وہ کیا کر لیتا اس کے ماتھے سے خون بہہ بہہ کر اس کی آنکھوں کے راستے اس کے گالوں پر آکر اس کے سامنے قطرہ قطرہ گرتا رہا
مزمل آفندی کا دماغ جو ماؤف ہو گیا تھا آہستہ آہستہ بیدار ہوگیا اور مزمل سوچنے لگا کہ وہ اس کال کوٹھری تک کس طرح آ پہنچا ہے اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا احمد اوزال نے اسے کہا بھی تھا کہ سلطان ملک شاہ اور نظام الملک حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتے ہیں اسے قتل کروا نہیں سکتے
احمد اوزال کی اس بات پر مزمل نے توجہ نہیں دی تھی وہ یہ سمجھتا رہا کہ حسن بن صباح کوئی عام سا فریب کار آدمی ہے جو ادھر ادھر گھومتا پھرتا بھی ہوگا اور اسے آسانی سے قتل کیا جا سکے گا مزمل کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ وہ حسن بن صباح کے قتل کے لیے اپنی جان قربان کر دینے کا عہد کرکے آیا تھا مزمل جذبات میں الجھ کر جس طرح خلجان پہنچا تھا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک نے اسے نہیں روکا تھا اور اسے نہیں بتایا تھا کہ حسن بن صباح کوئی معمولی سا آدمی نہیں بلکہ وہ اس کے علاقے کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان اور وزیر اعظم کو خود معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح کیا طاقت حاصل کر چکا ہے مزمل کے لیے اب ہر سوچ محض بیکار تھی اسے بن عابد یاد آیا تو اسے احساس ہوا کہ حسن بن صباح کے یہ لوگ کس قدر عقل مند اور تجربہ کار ہیں کہ بن عابد نے اسے پتہ ہی نہیں چلنے دیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کے ایک خاص گروہ کا آدمی ہے
مزمل آفندی کا خون بہتا رہا اس کا دماغ سوچ سوچ کر تھک گیا اور وہ دروازے کی سلاخیں پکڑ کر کھڑا ہو گیا وہ پیاس سے مرا جا رھا تھا مگر وہ اسے پانی پلانے والا کوئی نہ تھا کوئی ہوتا بھی تو اس نے مزمل کو پانی نہیں دینا تھا
رات کے کھانے کے بعد امیر الموت حسن بن صباح کے پاس گیا اسے اس احترام سے بٹھایا گیا جس احترام کا وہ حقدار تھا اور اسے بتایا گیا کہ امام عبادت میں مصروف ہیں اور کچھ دیر بعد باہر آئیں گے مہدی علوی اس کے انتظار میں بیٹھ گیا
حسن بن صباح جس کی عبادت میں مصروف تھا وہ یہ تھی کہ وہ شراب پی رہا تھا اور اس کے ساتھ اس کی زنانہ گروہ کی دو سب سے زیادہ حسین لڑکیاں تھیں اسے اطلاع دے دی گئی کہ امیر الموت ملنے آیا ہے
خاصا انتظار کروا کر حسن بن صباح اس کمرے میں آیا جہاں مہدی علوی بیٹھا تھا مہدی علوی اسے اٹھ کر اس طرح ملا کہ اس کے آگے رکوع میں چلا گیا اور اس کے گھٹنے چھو لیے
مہدی علوی کی اہمیت صرف یہ تھی کہ وہ الموت کا امیر تھا اس کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں تھا وہ جنگجو بھی نہیں تھا اور اس نے کوئی لڑائی فتح نہیں کی تھی وہ ولی اللہ بھی نہیں تھا اور وہ صوفی بھی نہیں تھا عالم دین بھی نہیں تھا وہ قلعے یا کسی بھی شہر کے امراء جیسا ایک امیر تھا وہ عیش و عشرت کا دلدادہ تھا اور اسی کو وہ زندگی سمجھتا تھا اس میں وہ عیب تھا جو امراء میں ہوتا تھا وہ حسین عورتوں کا شیدائی اور خزانے کا متمنی تھا حسن بن صباح نے اس کی یہ خواہش معلوم کر لی تھی کہ وہ اس کے گروہ کی ایک بڑی ہی خوبصورت اور جوان عورت خدیجہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا
یا امام! مہدی علوی نے حسن بن صباح سے منت سماجت کے لہجے میں کہا آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے چلہ کاٹنے کے سلسلے میں کچھ رہنمائی کریں گے
آپ اچھے وقت آ گئے ہیں حسن بن صباح نے کہا مجھے گزشتہ رات اشارہ ملا ہے کہ آپ کہاں بیٹھ کر چلا کریں گے یہ سوچ لیں کہ چلہ چالیس دن کرنا پڑے گا آپ ایک جگہ بیٹھے رہیں گے اور چالیس دن وہی گزارنے ہوں گے
یا امام! مہدی علوی نے کہا آپ جو بتائیں گے وہ میں کرونگا
گزشتہ رات ہی مجھے صاف ایک تصویر نظر آئی ہے حسن بن صباح نے کہا کسی بھی وقت میں آپ کو بلاؤں گا آپ نے اسی وقت جنگل کی طرف میرے ساتھ چلنا ہوگا وہاں اس جگہ کا اشارہ ملے گا جہاں آپ ایک دائرے میں بیٹھ کر چلہ کریں گے میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ نے پڑھنا کیا ہے یہ ایک ورد ہوگا جو آپ چالیس دن کریں گے دن نہیں بلکہ رات کہیں کیونکہ چلہ رات کو ہو گا دن کے وقت آپ سو سکتے ہیں اور آپ اپنے خیمے کے اندر ہی رہنا ہے
حسن بن صباح نے مہدی علوی میں وہ تمام کمزوریاں بیدار کر کے انہیں اس کی عقل پر غالب کر دیا تھا جن انسانی کمزوریوں نے بادشاہیوں کے تختے الٹے ہیں ان کمزوریوں میں ایک تو خوبصورت عورت ہے دوسری ایسا خزانہ جو کبھی ختم نہ ہو اور تیسری کمزوری یہ کہ شب و روز عیش و عشرت میں گزرے مہدی علوی اپنے گھر چلا گیا
اگلے روز دوپہر کے وقت مہدی علوی کو حسن بن صباح نے یہ پیغام بھیجا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر فوراً آجائے
حسن بن صباح تیار ہو کر باہر نکل آیا تھا اس کا گھوڑا تیار کھڑا تھا اس کے ساتھ اپنے چند ایک آدمی تھے
مہدی علوی تھوڑی سی دیر میں گھوڑے پر سوار ہوا اور وہ جنگل کی طرف روانہ ہوگئے ایک جنگل تو وہ تھا جو بہت ہی خوش نما اور سرسبز تھا لوگ وہاں سیر سپاٹے کے لئے جایا کرتے تھے جنگل کا ایک حصہ ایسا تھا جہاں اونچی نیچی چٹانیں تھیں اور وہاں اتنی ہریالی نہیں تھی کہ اس علاقے کو دیکھنے کے قابل سمجھا جاتا حسن بن صباح شہر سے بہت دور اس علاقے میں جا پہنچا
جگہ یہی ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن یہ اشارہ بھی ملنا باقی ہے کہ آپ کا خیمہ کس جگہ لگایا جائے یہ اشارہ ایک کبوتر دے گا ایک کبوتر اڑتا آئے گا وہ درخت پر نہیں بلکہ زمین پر بیٹھے گا جہاں کبوتر زمین پر اترے گا اس جگہ خیمہ لگانا ہے اور آپ وہاں چلہ پورا کریں گے
حسن بن صباح نے اوپر دیکھنا شروع کیا وہ فضا میں ہر طرف دیکھ رہا تھا مہدی علوی اور دوسرے چند ایک جو آدمی تھے وہ بھی آسمان کی طرف دیکھنے لگے
بتادے اللہ! حسن بن صباح نے آسمان کی طرف منہ کرکے کہا بتا دے اللہ بتا دے
بہت وقت گزر گیا مہدی علوی تو بہت ہی بے چین تھا اسے کوئی بھی پرندہ اڑتا نظر آتا تو وہ کہے اٹھتا وہ رہا کبوتر لیکن وہ کبوتر نہیں ہوتا اور وہ جو پرندہ بھی ہوتا آگے نکل جاتا تھا
وہ دیکھئے ایک آدمی نے بلند آواز میں کہا وہ بلاشک و شبہ کبوتر ہے
سب نے دیکھا وہ کبوتر تھا اور وہ دوسرے پرندوں کی طرح سیدھا نہیں اڑتا جا رہا تھا بلکہ زمین پر اترتا آ رہا تھا آخر وہ ایک جگہ زمین پر اترا اور ایک طرف کو چل پڑا حسن بن صباح گھوڑے سے کود کر اترا مہدی علوی بھی گھوڑے سے اترا حسن بن صباح نے اس جگہ پر جا پاؤں رکھا جہاں پر کبوتر اترا تھا
یہاں خیمہ لگے گا حسن بن صباح نے مہدی علوی سے کہا ابھی اپنے آدمی بھیجو جو یہاں سپاہیوں والا خیمہ گاڑ دیں
دو مؤرخوں نے دو مختلف حکایتیں لکھی ہیں کہ حسن بن صباح نے قلعہ الموت پر کس طرح قبضہ کیا تھا لیکن یہ دونوں حکایتیں قابل اعتماد نہیں لگتی ان مؤرخوں کا بیان میں یہاں موزوں نہیں سمجھتا تین اور مورخوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے جو بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے دھوکہ دہی اور فریب کاری میں حسن بن صباح کو غیر معمولی مہارت حاصل تھی یہ تو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اپنے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو صرف متاثر ہی نہیں بلکہ بولنے کے انداز سے اور الفاظ کے انتخاب سے ہپنا ٹائز کرلیا کرتا تھا یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ مہدی علوی کے اندر نفسانی خواہشات ابھر آئی تھیں جو حسن بن صباح نے خاص طور پر ابھاریں تھیں
قرآن پاک میں واضح الفاظ میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ جو بھی مصیبت میں میرے بندوں پر آتی ہے وہ بندوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے آتی ہیں
مہدی علوی نے اپنے اعمال کو اور اپنی سوچوں کو اپنی نفسانی خواہشات کے تابع کر لیا تھا اب یہ دیکھیں کہ حسن بن صباح نے الموت جیسا قلعہ بند شہر مہدی علوی سے کس طرح خون کا ایک قطرہ بھی بہائے بغیر لے لیا
آہستہ آہستہ یہ خبر شہر میں پھیل گئی کہ امیر الموت طارک الدنیا ہو گیا ہے اور اس نے جنگل کے ویران اور اجاڑ حصے میں جا خیمہ لگایا اور وہاں اللہ اللہ کرتا رہتا ہے اس طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی خیمے سے دور دور دو تین آدمی گھومتے رہتے تھے جو کسی بھی آدمی کو اس طرف جانے نہیں دیتے تھے خیمے کے اندر مہدی علوی کا بستر تھا جو فرش پر بچھایا گیا تھا جہاں کبوتر زمین پر اترا تھا اس جگہ ایک مصلیٰ بچھا دیا گیا تھا مہدی علوی سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد قبلہ رو ہو کر بیٹھ جاتا اور ان الفاظ کا ورد شروع کر دیتا تھا جو اسے حسن بن صباح نے بتائے تھے
تاریخ میں وہ الفاظ یا وہ وظیفہ نہیں ملتا جو حسن بن صباح نے مہدی علوی کو بتایا تھا حسن بن صباح نے اسے سختی سے کہا تھا کہ پہلے دو دن اور دو راتیں وہ صرف پانی پی سکتا ہے لیکن کچھ کھا نہیں سکتا
اس نے مہدی علوی کو کہا تھا کہ وہ اپنی ذات کو اور اپنی ضروریات کو بالکل بھول جائے اور اگر وہ دو دن کچھ کھائے پیے بغیر تکلیف کے گزار گیا تو جنگل کے درخت بھی اس کے آگے سجدہ کریں گے اور جنگل میں جاتے اگر شیر بھی اس کے سامنے آجائے گا تو اسے راستہ دے دے گا
تیسرے روز میں خود یہاں آؤں گا حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کچھ دیر اس مصلے پر بیٹھوں گا اور کشف کے ذریعے مراقبے میں جا کر بتاؤں گا کہ یہ چلہ آپ کو کیا کچھ دے گا
اسے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک آدمی اس کے خیمے کے باہر حاضری میں موجود رہے گا جو اسے پانی پلاتا رہے گا
مہدی علوی کو بتانے والا کوئی نہ تھا کہ وہ کبوتر جو اڑتا آیا اور زمین پر بیٹھ گیا تھا وہ خود نہیں آیا تھا اس جگہ کے قریب ہی ایک چٹان تھی حسن بن صباح کا ایک آدمی کبوتر لے کر بہت پہلے اس چٹان کے پیچھے چلا گیا تھا اس نے کبوتر کے پَر کھینچ لئے اور اسے لمبی اڑان کے قابل چھوڑا ہی نہیں تھا حسن بن صباح مہدی علوی کو ساتھ لے کر وہاں گیا تو ادھر سے اس آدمی کو ایک مخصوص اشارہ ملا اس نے چٹان کے پیچھے سے کبوتر کو زور سے اوپر پھینکا کبوتر زیادہ اڑنے کے قابل نہیں تھا وہ جتنا اڑ سکا اور اور زمین کی طرف آنے لگا حتیٰ کہ وہ اس جگہ زمین پر اتر آیا حسن بن صباح فورا اس جگہ پہنچا اور جہاں کبوتر اترا تھا وہاں پاؤں رکھ دیا مہدی علوی کی توجہ حسن بن صباح کی طرف تھی اس کی عقل پر حسن بن صباح نے پردہ ڈال دیا تھا وہ دیکھ ہی نہ سکا کہ کبوتر کہاں چلا گیا ہے کبوتر اڑنے کی بجائے چل پڑا تھا اور چلتے چلتے دور نکل گیا تھا
مہدی علوی کے خیمے سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک اور خیمہ نصب کیا گیا تھا اس میں ایک آدمی رہتا تھا اس نے پانی کا ذخیرہ اپنے پاس رکھ لیا تھا اور اپنے کھانے پینے کا انتظام بھی اس نے وہی کر لیا تھا اس شخص نے مہدی علوی کی دیکھ بھال اور خدمت کرنی تھی
دن کے وقت جب بھی مہدی علوی اس سے پانی مانگتا وہ اسے پانی پلا دیتا شام کے بعد جب مہدی علوی مصلے پر ورد شروع کرتا تو حسن بن صباح کا یہ آدمی اسے پانی ضرور پیلاتا تھا اس پانی میں تھوڑی سی مقدار میں حشیش ڈال دی جاتی تھی حسن بن صباح نے اپنے اس آدمی سے کہہ رکھا تھا کہ وہ دوسرے تیسرے روز حشیش کی مقدار میں اضافہ کرتا جائے
یہ تو ایک نشہ تھا جو مہدی علوی کو دھوکے میں آہستہ آہستہ بلایا جا رہا تھا دوسرا نشہ حسن بن صباح نے اس پر پہلے ہی طاری کر رکھا تھا اس نشے میں بھی اس نے آہستہ آہستہ اضافہ کرنا تھا دو دن گزرگئے تو حسن بن صباح نے اسے کہا تھا کہ اب وہ اونٹنی کا دودھ پی سکتا ہے لیکن کچھ کھا نہیں سکتا مہدی علوی کو یہ اجازت تھی کہ دن کے وقت وہ قریبی ندی میں جا کر نہا سکتا ہے اور دیگر قدرتی حاجات سے فراغت حاصل کر سکتا ہے
چلے کا ساتواں دن تھا حسن بن صباح نے اسے پیغام بھیجا کہ آج رات تقریباً نصف شب قریب سے اسے الّو کی آواز آئے گی وہ اس آواز پر مصلے سے اٹھے اور مصلے کے نیچے عین درمیان سے زمین کھودے حسن بن صباح نے پیغام میں کہا تھا کہ اسے معلوم نہیں کہ زمین میں سے کیا برآمد ہو گا وہ اللہ کی طرف سے کوئی تحریری پیغام بھی ہو سکتا ہے اور کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے وہ جو کچھ بھی برآمد ہو نکال کر اس جگہ مٹی ڈال دیجیے یہ خیال رکھے کہ ارد گرد زیادہ زمین نہ کھو دے
رات آدھی گزر گئی تھی مہندی علوی مصلے پر بیٹھا چلہ کر رہا تھا اسے الو کی آواز سنائی دی جو قریب ہی سے آئی تھی مہدی علوی فوراً اٹھا اس کے لئے جو خاص خادم چھوڑا گیا تھا وہ بھی الو کی آواز سن کر دوڑا آیا اسے بھی بتا دیا گیا تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے مہدی علوی نے فورا مصلیٰ ہٹایا خادم نے آ کر مصلیٰ کے درمیان کی جگہ سے زمین تھوڑی سی کھودی اور ہاتھ ڈالا تو اسے کوئی چیز محسوس ہوئی اس نے مہدی علوی سے کہا کہ وہ خود یہ چیز نکالے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا یعنی خادم کا ناپاک ہاتھ لگ جائے تو غیب سے آئی ہوئی یہ چیز غیب کو ہی واپس چلی جائے
مہدی علوی نے چھوٹے سے اس گڑھے میں ہاتھ ڈالا تو اس کے ہاتھ ایک چیز آئی جو اس نے باہر نکالی مشعل کی روشنی میں یہ چیز چمکی تو مہدی علوی پر کوئی اور ہی تاثر طاری ہوگیا وہ جانتا تھا کہ یہ کیا ہے یہ سونے کا ایک چوکور ٹکڑا تھا مہدی علوی نے اس ٹکڑے کو ہتھیلی پر رکھ کر اس کے وزن کا اندازہ کیا یہ ایک پاؤں سے کچھ زیادہ وزنی تھا اس نے گاڑھے میں پھر ہاتھ ڈالا تو ایسے ہی دو ٹکڑے اور نکلے حسن بن صباح کی ہدایت کے مطابق گڑھا اس سے گہرا یا چوڑا نہیں کھودنا تھا اس زمانے میں ان ٹکڑوں کو سونے کی اینٹیں کہا جاتا تھا حسن بن صباح کی ہدایات کے مطابق یہ گھڑا بھر دیا گیا اور اس پر پھر مہدی علوی نے مصلہ بچھا لیا اور خادم سے کہا کہ وہ علی الصبح یہ تینوں ٹکڑے امام کی خدمت میں پیش کر دے مہدی علوی کی ذہنی حالت کچھ اور ہی ہو گئی تھی وہ یوں و مسرت و شادمانی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اس حسین اور دلنشین پگڈنڈی پر جارہا ہو جو ذرا ہی آگے جا کر جنت میں جا نکلے گی اور اسے اسی دنیا میں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی
فردوسِ بریں سے نکالے ہوئے آدم کو ابلیس جنت ارضی میں داخل کر رہا تھا اس جنت کی کوئی حقیقت نہیں تھی اگر کچھ حقیقت تھی تو وہ تصوراتی تھی انسان جب نفسانی خواہشات کے چنگل میں آجاتا ہے تو اس کے تصورات اس قدر دلفریب ہو جاتے ہیں کہ وہ حقیقی زندگی سے ناتہ توڑ کر تصوراتی دنیا کو حقیقی سمجھنے لگتا ہے یہ کیفیت مہدی علوی پر طاری ہو چکی تھی اسے یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ رات کو جو آلو بولا تھا وہ الّو نہیں بلکہ اس کا خادم تھا جس نے خیمے سے ذرا پرے جا کر الو کی آواز نکالی تھی اور یوں دوڑا آیا تھا جیسے الو کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی ہو اور وہ مہدی علوی کے پاس پہنچ گیا ہو
اس وقت اس علاقے میں کوئی اُلو نہیں تھا اگر کوئی اُلو تھا تو وہ مہدی علوی تھا مہدی علوی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سونے کے یہ ٹکڑے غیب سے نہیں آئے تھے بلکہ یہ حسن بن صباح کی طرف سے آئے تھے صبح جب مہدی علوی ندی پر گیا تھا اس وقت خادم نے مصلے کے نیچے چھوٹا سا گڑھا کھودا اور سونے کے یہ تین ٹکڑے رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی تھی اور پھر اس پر مصلیٰ بچھا دیا تھا خادم کو معلوم تھا کہ مہدی علوی کو یہ شک نہیں ہوگا کہ یہاں پہلے ہی گڑھا کھودا گیا تھا خادم نے ہی آکر اس گڑھے کو کھودنا تھا دھوکہ دہی کا یہ کام مشکل نہ تھا
اگلی صبح مہدی علوی کا خادم جو حسن بن صباح کا خاص آدمی تھا سونے کے ٹکڑے لے کر شہر آیا اور حسن بن صباح سے ملا لو امام! اس نے کہا یہ کام بھی ہو گیا ہے یہ لیں اپنے سونے کی اینٹیں
حسن بن صباح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
اس شخص کا چلّہ کامیاب رہے گا حسن بن صباح نے ہلکی سی ہنسی سے کہا وہ چلہ کشی ختم کرے گا تو اس کا یہ شہر الموت ہمارا ہوگا تم جاؤ اس کے پاس چلے جاؤ اور کل سے اگلا عمل شروع کر دینا
الموت شہر میں ایک بڑی مسجد تھی شہر کے لوگ جمعہ اور عیدین کی نماز مسجد میں پڑھا کرتے تھے اس مسجد کا خطیب ایک عالم دین امام شامی تھا تاریخ میں اس کا پورا نام نہیں ملتا سوائے اس کے کہ وہ دور دور تک امام شامی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا وہ کئی برسوں سے حج کے لیے گیا تھا پھر خانہ کعبہ کا ہی ہو کے رہ گیا لوگ اسے بھول تو نہیں سکتے تھے لیکن وہ یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ امام شامی جیسے عالم دین سے محروم ہوگئے ہیں مسجد میں ایک اور خطیب موجود تھا لیکن اس میں وہ بات اور وہ عظمت نہیں تھی جو ضعیف العمر شامی میں تھی جس رات مہدی علوی کو سونے کی تین ایٹیں مصلے کے نیچے سے ملیں اس رات اچانک امام شامی آگیا لوگ فجر کی نماز کیلئے مسجد میں گئے تو امام شامی کو دیکھ کر انہیں خوشگوار دھچکا لگا لوھ تو اسے پیرومرشد کی طرح مانتے تھے لوگوں نے اس کے ہاتھ چومے اس کے آگے صرف سجدہ ریز نہ ہویے باقی کسر انہوں نے چھوڑی کوئی نہیں تھی شہر بھر میں خوشی منائی گئی کہ شہر کا محبوب امام اور خطیب واپس آ گیا ہے
لوگ امام شامی کو دیکھ کر تو بہت خوش ہو گئے لیکن امام شامی لوگوں کو دیکھ کر خوش نہ ہوا اس نے پہلی بات یہ دیکھی فجر کی نماز کے وقت اس تعداد کے آدھے نمازی بھی نہیں تھے جو پہلے ہوا کرتے تھے نماز کے بعد جب لوگ اسے مل رہے تھے اس نے شہر کے دو معمر بزرگوں سے پوچھا کہ نمازی کہاں کھو گئے اسے جو جواب ملا اس جواب نے اسے پریشان کر دیا ابھی اسے تفصیلات معلوم نہیں ہوئی تھی صرف یہ پتہ چلا کہ ایک اور امام شہر میں آگیا ہے جو مسجد میں تو کبھی نہیں آیا لیکن اپنے گھر میں سنا ہے ہر وقت عبادت میں مصروف رہتا ہے یہ بھی بتایا گیا کہ لوگ اسے امام ولی اللہ ہی نہیں بلکہ نبی تک تسلیم کرنے پر آگئے ہیں
امام شامی چپ رہا اس نے کسی سے سوال نہ کیا نہ کسی سے کوئی تفتیش کی اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ امیر شہر مہدی علوی کے پاس جائے گا اور اس سے پوچھے گا کہ شہر میں کیا انقلاب آگیا ہے اور یہ کونسا امام ہے جو مسجد کی بجائے اپنے گھر اکیلا ہی عبادت کرتا ہے
مہدی علوی عبادت گزار یا زاہد اور پارسا تھا یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے وہ امام شامی کا مرید تھا اور دل و جان سے اس کی قدر کرتا تھا قدر بھی اس حد تک کے انتظامی امور میں امام شامی سے مشورہ لیا کرتا اور آخری بات امام شامی کی ہی چلتی تھی
نماز سے اور ملاقاتیوں سے فارغ ہوکر امام شامی مہدی علوی کے گھر چلا گیا مہدی علوی کی دو بیویاں تھیں دو بیٹے اور تین چار بیٹیاں تھیں یہ اولاد ابھی لڑکپن میں اور کچھ بچپن میں تھیں ان میں کوئی بھی جوان نہیں تھا اس گھر میں امام شامی کی بڑی قدر و منزلت تھی اسے دیکھ کر مہدی علوی کی دونوں بیویاں دوڑی آئیں اور اس کے آگے جھک کر سلام کیا اس نے پوچھا کہ امیر شہر کہاں ہے جواب میں دونوں بیویاں خاموش رہیں اور ان کے چہروں پر اداسی کا تاثر آگیا
کیوں ؟
امام شافعی نے پوچھا کیا بات ہے
بیویوں نے امام شامی کو اندر بٹھایا اور وہیں بیٹھ گئیں
امیر شہر تاریک الدنیا ہو کر جنگل میں چلہ کشی کر رہے ہیں بڑی بیوی نے کہا سات روز گزر گئے ہیں سنا ہے چالیس روز پورے کرنے پڑیں گے
اس راستے پر اسے کس نے ڈالا ہے؟
امام شامی نے پوچھا
شہر میں ایک امام آیا بیٹھا ہے بڑی بیوی نے کہا لوگ اس کے مرید ہوتے چلے جارہے ہیں اس کے ساتھ چند ایک اتنی حسین اور نوجوان لڑکیاں ہیں جنھیں دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ اس زمین کی پیداوار ہیں وہ جنت کی حوریں لگتی ہیں
اور محترم امام! چھوٹی بیوی نے کہا ہمارے امیر شہر بھی اس کے مرید ہوگئے ہیں یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ان پر ان حوروں جیسی لڑکیوں کا جادو چل گیا ہے گھر میں انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تو خدا کو بھی بھول گئے ہیں اور اس نئے امام کو اپنا امام نہیں بلکہ پیغمبر تسلیم کر لیا ہے جس کا نام حسن بن صباح ہے اسی امام نے امیر شہر کو چلہ کشی کے راستے پر ڈالا ہے
حسن بن صباح امام شامی نے چونک کر کہا وہ یہاں پہنچ گیا ہے اس کی شہرت تو وہاں خانہ خدا تک پہنچ چکی ہے اس شخص کا نام مدینہ میں سنا تھا لیکن سنانے والے نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ شخص کوئی برگزیدہ شخصیت ہے بلکہ اس نے کہا تھا کہ ابلیس ایک بار پھر دنیا میں انسان کے روپ میں آگیا ہے ایک آدمی ایسا بھی ملا تھا جس نے حسن بن صباح کو برگزیدہ شخصیت کہا تھا میں یہ دیکھتا ہوں کہ جس آدمی نے مہدی علوی جیسے دانش مند آدمی کو چلہ کشی پر لگا دیا ہے وہ اللہ کا برگزیدہ بندہ نہیں ہو سکتا اسلام نے عبادت کا حکم دیا ہے چلہ کشی کا نہیں چلہ کشی دنیاوی مقصد اور اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے کی جاتی ہے
امیر شہر عقلمند یا پرہیز گار تھے یا نہیں بڑی بیوی نے کہا حسن بن صباح نے انہیں چلہ کشی جیسی گمراہی میں ڈال دیا ہے
نہیں امام شامی نے کہا انہیں حسن بن صباح نے نہیں بلکہ اپنے نفس نے اس گمراہی میں ڈالا ہے انسان جب اپنی خواہشات کا غلام ہو جاتا ہے تو وہ ایسے ہی جھوٹے سہارے تلاش کرتا ہے بہرحال میں وہاں جاؤں گا اور امیر شہر کو واپس لانے کی کوشش کروں گا
آپ وہاں نہ جائیں بڑی بیوی نے کہا وہاں پہرے لگے ہوئے ہیں امیر شہر نے بھی حکم جاری کیا ہے کہ کوئی بھی اس علاقے کی طرف نہ جائے جہاں وہ چلہ کشی کر رہے ہیں اس حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی آدمی ادھر جاتا دیکھا گیا تو اسے دور سے تیر مار دیا جائے گا
امیر شہر گھر میں ایک دو خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں لانا چاہتی ہیں چھوٹی بیوی نے کہا یہ تو کوئی معیوب بات نہیں وہ دو بیویاں اور لا سکتے ہیں ہم دونوں ان کا استقبال کریں گے لیکن امیر شہر اس نئے امام کے فریب میں آ گئے ہیں کیا امیر شہر کے لیے خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کی کمی ہے؟
اس دور میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا امراء کے گھروں میں دو دو تین تین اور بعض کے یہاں چار بیویاں بھی ہوتی تھیں چونکہ یہ ایک رواج تھا اس لئے بیوی آپس میں لڑتی نہیں تھی نہ ان میں سوکنوں والی رقابت ہوتی تھی یہاں تک بھی ہوتا تھا کہ کوئی بیوی اپنے طور پر اپنے خاوند کے لیے کوئی خوبصورت لڑکی لے آتی اور اسے اپنے خاوند کے ساتھ بیاہ دیتی تھی
محترم امام! بڑی بیوی نے کہا ہمارے شوہر کو واپس لے آئیں ہمیں خزانے نہیں چاہیے ہمیں اپنے شوہر کی ضرورت ہے
میں اس نئے امام حسن بن صباح سے ملونگا امام شامی نے کہا پہلے تو یہ دیکھوں گا کہ یہ شخص ہے کیا اور یہ کرتا کیا ہے میں نے یہ دیکھنا ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی علم ہے بھی یا نہیں
مہدی علوی کے گھر سے اٹھ کر امام شامی حسن بن صباح کے یہاں چلا گیا حسن بن صباح کے ایک آدمی نے اندر اطلاع دی کہ امام شامی آئے ہیں یہ کہنے کی بجائے کہ امام شامی کو اندر بھیج دو وہ اٹھا اور دوڑتا ہوا اس کمرے میں گیا جہاں امام شامی کو بٹھایا گیا تھا وہ امام شامی کے سامنے فرش پر دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اس کے پاؤں چھوئے پھر گھٹنے چھوئے پھر اپنا سر امام شامی کے گھٹنوں پر رکھ دیا امام شامی نے اس کا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اوپر کیا اور اسے کہا کہ وہ اس کے پاس بیٹھ جائے
نہیں امام! حسن بن صباح نے رندھی ہوئی آواز میں کہا میں اس قابل نہیں کہ آپ جیسے عظیم امام اور خطیب کی برابری میں بیٹھوں میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ آج آپ کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے میں نے آپ کی شہرت برسوں پہلے سنی تھی اور سنتا ہی چلا آ رہا ہوں یہاں آ کر پتہ چلا کہ آپ تو کئی برسوں سے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر عبادت کر رہے ہیں میں علم کی تلاش میں بھٹکتا پھر رہا ہوں یہاں آیا تو کچھ لوگوں نے بتایا کہ امام شامی واپس آجائیں تو تم یوں سمجھو کہ علم و فضل کا چشمہ پھوٹ پڑا ہے آپ مجھے اپنے قدموں میں بٹھا لیں اور میری تشنگی کی تسکین کریں
میں نے تو کچھ اور سنا ہے امام شامی نے کہا میں نے سنا ہے کہ تم امام کہلاتے ہو اور کچھ لوگوں نے تمہیں نبی بھی کہنا شروع کر دیا ہے
یہ ان لوگوں کی سادگی ہے بھول ہے حسن بن صباح نے کہا میں تو امامت کا بھی دعویٰ نہیں کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ کچھ لوگ مجھے نبی مانتے ہیں میں ان لوگوں کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میں اگر دن رات کی عبادت میں لگا رہتا ہوں تو یہ میری اپنی ذات کے لئے ہے میں کسی کی قسمت تبدیل نہیں کر سکتا یہ وہی بات ہے جو رسول اللہﷺ نے فرمائی تھی کہ سزا اور جزا کا انحصار تمہارے اپنے اعمال پر ہے ہر انسان دنیا سے ہی اپنی جنت اور اپنا جہنم لے کر جاتا ہے
یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو امام شامی نے کہا لیکن یہ چلہ کشی دین اسلام میں تم کہاں سے لے آئے ہو؟
میں سمجھتا ہوں کے آپ کا اشارہ امیر شہر مہدی علوی کی طرف ہے حسن بن صباح نے کہا انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ وہ چلہ کرنا چاہتے ہیں میں نے انہیں روکا تھا لیکن وہ اسے عبادت کے رنگ میں لیتے ہیں میں نے انہیں بہت کچھ سمجھایا تھا لیکن حقیقت یہ ہے محترم امام! امیر شہر اپنے نفس کے غلام ہو گئے ہیں میں نے سوچا کہ انہیں چلہ کرنے دوں لیکن میرے ذہن میں عبادت تھی میں نے انہیں کہا کہ وہ چالیس روز جنگل میں جا بیٹھیں اور یوں عبادت کریں کہ اس دنیا سے تعلق توڑ دیں اس سے میرا مطلب یہ تھا کہ دنیا سے لاتعلق ہوکر جب یہ عبادت کریں گے تو چالیس دنوں بعد یہ دنیا کو بھولے ہوئے ہوں گے
امام شامی عالم دین تھے اور معمر بھی تھے ان کی عمر کا اندازہ اس سے ہوتا تھا کہ ان کے سر اور داڑھی کا کوئی ایک بھی بال سیاہ نہیں رہا تھا ان کی آنکھوں کا نور بھی ختم ہو چکا تھا پھر بھی ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو علم و دانش اور روح کا نور تھا انہوں نے کتابیں بھی پڑھی تھیں دنیا کے اچھے برے انسانوں کو بھی پڑھا تھا لیکن حسن بن صباح وہ انسان تھا جس کا ذکر کسی کتاب میں نہیں ملتا تھا نہ انہوں نے ایسا انسان پہلے کبھی دیکھا تھا وہ جب باتیں کر رہا تھا تو امام شامی نے صاف طور پر محسوس کیا کہ یہ شخص عام انسانوں کی سطح سے یا تو بالا ہے یا بہت ہی پست بہرحال حسن بن صباح کو انہوں نے سمجھنے میں دشواری محسوس کی
میں امیر شہر کے پاس جاؤنگا امام شامی نے کہا میں اسے واپس حقیقی دنیا میں لے آؤں گا
ہاں امام محترم! حسن بن صباح نے کہا اگر آپ انہیں لے آئیں تو میں سمجھوں گا کہ آپ نے ان پر نہیں بلکہ مجھ پر احسان کیا ہے جو بات میں انہیں سمجھانا چاہتا تھا ہوسکتا ہے وہ آپ کی زبان سے سمجھ جائیں
اگر حسن بن صباح امام شامی کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث میں الجھ جاتا تو امام شامی کا رویہ اور ان کا استدلال کچھ اور ہوتا لیکن حسن بن صباح نے ایسی فریب کاری کا انداز اختیار کر لیا تھا کہ امام شامی نے کچھ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا تھا نہ وہ اس شخص کی اصل نیت کو سمجھ سکے وہ اٹھے اور کچھ کہے بغیر وہاں سے آگئے ان کے باہر نکلتے ہی حسن بن صباح اپنے کمرے میں چلا گیا اور اس نے اپنے تین بڑے ہی خاص آدمیوں کو بلایا اور انہیں کچھ ہدایات دینے لگا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:26 }
اس روز ظہر کی نماز کے وقت مسجد میں نمازیوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی کیونکہ سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ ان کے محبوب امام اور خطیب امام شامی آ گئے ہیں انہوں نے امام شامی کے پیچھے نماز پڑھی لیکن عصر کی نماز کے وقت امام مسجد میں نہ آیا مغرب کی نماز کے وقت بھی امام غیر حاضر رہا اور عشاء کی نماز کے وقت بھی لوگوں کا محبوب امام لاپتہ تھا ان کے گھر سے پتا کیا گیا معلوم ہوا کہ وہ عصر کی نماز کے بعد کہیں چلے گئے تھے ایک معمہ تھا جو حل نہ ہو سکا کوئی بھی نہ تھا جو یہ بتاتا امام شامی کہاں چلا گیا ہے دو یا تین آدمیوں نے بتایا کہ امام کو شہر سے باہر جاتے دیکھا گیا تھا رات کو انہیں کہاں تلاش کیا جاتا لوگ صبح کا انتظار کرنے لگے
فجر کی نماز کے وقت بھی امام شامی نہ آئے لیکن نماز کا وقت گزر گیا تو شہر میں ایک سنسنی خیز خبر پھیل گئی جو یہ تھی کہ ایک آدمی شہر کے باہر سے آ رہا تھا تو اس نے ویرانے میں ایک درخت کے صحن کے ساتھ کسی کا کٹا ہوا سر لٹکتا دیکھا اس نے اچھی طرح دیکھا تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا یہ سر امام شامی کا تھا جو بڑی صفائی سے جسم سے کاٹا گیا تھا لوگ حیران اس پر ہوئے کے امام شامی کے ساتھ کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی تھی کہ انہیں اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے
یہ خبر حسن بن صباح کو پہنچائی گئی وہ دوڑتا باہر نکلا لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا حسن بن صباح نے گھوڑا منگوایا اور اس پر سوار ہو کر اس طرف چل پڑا جدھر بتایا گیا تھا کہ امام شامی کا سر درخت کے ساتھ لٹکا دیکھا گیا ہے شہر کے لوگ ہجوم کرکے اس کے ساتھ دوڑے جا رہے تھے
حسن بن صباح اس درخت تک پہنچا جہاں ابھی تک امام شامی کا سرا لٹک رہا تھا اس نے سر دیکھا یہ درخت کے ایک ٹہن کے ساتھ بالوں سے بندھا ہوا تھا امام شامی کے بال شانوں تک لمبے تھے
یہ دیکھو ایک بازو! کسی آدمی کی بڑی ہی بلند اور گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی
لوگ اس طرف دیکھنے لگے اور پھر سب اس طرف دوڑ پڑے حسن بن صباح بھی اس طرف گیا اور گھوڑے سے اتر کر بازو دیکھا جو کندھے سے کاٹا گیا تھا
سب لوگ ادھر ادھر پھیل جاؤ حسن بن صباح نے اعلان کیا امام کے جسم کے کچھ اور ٹکڑے ملیں گے میں سمجھ گیا ہوں کہ ان کا قاتل کون ہے وہ انسان نہیں کسی اور دنیا کی مخلوق ہے جو یقینا جنات میں سے ہو گی
لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور تلاش کرنے لگے تھوڑی سی تلاش کے بعد آوازیں آنے لگیں یہ ایک ٹانگ پڑی ہے پھر کچھ دور سے آواز آئی یہ ایک بازو پڑا ہے اس طرح آوازیں آتی رہیں اور امام شامی کے کٹے ہوئے اعضاء مل گئے بازو الگ اور ٹانگیں الگ پھینک دی گئی تھیں
مہدی علوی رات بھر چلّے میں بیٹھا رہا تھا اور صبح طلوع ہوتے ہی وہ سو گیا تھا اس کا خیمہ وہاں سے کچھ دور تھا اور چٹانوں کی اوٹ میں تھا اسے پتہ ہی نہ چلا کہ امام شامی قتل ہو چکا ہے اور اس کے جسم کے کٹے ہوئے اعضاء اکٹھے کیے جا چکے ہیں لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہوگیا تھا وہ حسن بن صباح کے ارد گرد اکٹھا ہو گئے اور ان سے پوچھنے لگے کہ یہ حادثہ کس طرح ہوا ہے ؟
حسن بن صباح پہلے بتا چکا تھا کہ امام شامی کے قاتل جنات ہیں اب اس نے دیکھا کہ لوگ اسکے گرد جمع ہوگئے ہیں تو اس نے لوگوں کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا
لوگوں ہوش میں آؤ اور میری بات غور سے سنو حسن بن صباح نے گھوڑے پر سوار ہو کر بڑی ہی بلند آواز میں کہا تم سب جانتے ہو کہ امیر شہر یہاں سے تھوڑی دور آگے چلہ کشی کر رہے ہیں تمام شہر میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ کوئی شخص اس طرف نہ آئے لوگوں کو روکنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ امیر شہر کی چلہ کشی میں خلل نہ پڑے اور اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ایسا چلہ کر رہے ہیں کہ بہت سے جنات اس علاقے میں آ گئے ہیں امیر شہر جو وظیفہ پڑھتے ہیں اس میں ایسا اثر ہے جو جنات کو متاثر کر لیتا ہے اور وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں اگر کوئی آدمی اس خیال سے ادھر آئے کہ امیر شہر کو چلہ کشی کی حالت میں دیکھے تو جنات اسے روکتے ہیں اور اگر وہ نہ روکے تو اس کا وہی حال کر دیتے ہیں جو تم لوگوں نے اپنے امام کا دیکھا ہے اسی لیے میں نے انتظام کردیا تھا کہ یہاں دور دور تک کچھ آدمی بٹھا دیے تھے جو کسی کو ادھر آنے نہیں دیتے تھے میں تم سب کے سامنے ان آدمیوں سے پوچھتا ہوں کہ انہوں نے امام کو اس طرف آتے دیکھا ہوگا
یا امام! ہجوم میں سے ایک آدمی کی آواز سنائی دی میں نے کل شام سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے امام شامی کو اس طرف آتے دیکھا تھا میں ان کی طرف دوڑا اور انہیں روک دیا اور بتایا کہ وہ آگے نہ جائیں انہیں وجہ بھی بتائی لیکن انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور کہا کہ وہ ضرور آگے جائیں گے میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ میں امام حسن بن صباح کا حکم مانو یا امام شامی کا امام شامی کے سامنے میری حیثیت ہی کیا تھی میں نے سوچا کہ یہ اللہ کے برگزیدہ اور عظیم امام ہیں جنات ان کے قریب آنے کی جرات نہیں کریں گے میں ان کے راستے سے ہٹ گیا وہ آگے چلے گئے اور پھر میری نظروں سے اوجھل ہو گئے کیونکہ آگے ٹیلے بھی تھے اور چٹانیں بھی یہ تو صبح میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ امام شامی کا سر ایک درخت کے ٹہن کے ساتھ بالوں سے بندھا ہوا ہے اب تم سب نے دیکھ لیا کہ ان کے جسم کو کاٹ کر جنات نے کس طرح بکھیر دیا ہے
لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا حسن بن صباح نے ہجوم پر نظر گھمائی اس نے ہر کسی کے چہرے پر خوف کا تاثر دیکھا
اتنا زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے لوگوں سے کہا تم لوگ اب احتیاط کرنا کے کوئی بھی اس علاقے میں نہ آئے میں اس پاگل جن کو حاضر کر کے زندہ جلا دوں گا
لوگ آہستہ آہستہ شہر کی طرف چل پڑے حسن بن صباح گھوڑے پر سوار کسی اور طرف چلا گیا
قتل کے ہولناک واردات یوں ہوئی تھی کہ امام شامی جب حسن بن صباح کے گھر سے نکلا تھا تو حسن بن صباح نے اپنے آدمیوں کو بلایا تھا انہیں جو ہدایات دی تھیں وہ یہ تھی کہ امام شامی پر نظر رکھیں اگر وہ اس طرف جاتا ہے جہاں مہدی علوی چلہ کشی کر رہا ہے تو اسے وہیں کہیں ختم کردیں
یا امام! حسن بن صباح کے ایک دست راست نے کہا یہ نہ کہیں کہ اگر وہ ادھر آ جائے تو اسے قتل کیا جائے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ امام شامی کا اس شہر کے لوگوں پر اس قدر اثر اور رسوخ ہے کہ لوگ اسے پیر اور مرشد مانتے ہیں میں نے گھوم پھر کر دیکھا ہے پھر آپ سے یہ بات کر رہا ہوں اگر یہ شخص الموت میں رہا تو کوئی بعید نہیں کہ یہ ہمارے خلاف محاذ بنا لے اور ہم نے اس شہر کے لوگوں میں جس طرح اثر پیدا کیا ہے وہ رائیگاں چلا جائے اس آدمی کا اس شہر میں رہنا بلکہ اس دنیا میں رہنا خطرناک ہوگا
تو اسے ختم کر دو حسن بن صباح نے کہا لیکن قتل اس طرح کرو کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کسی انسان نے قتل کیا ہے یہ مہدی علوی کے پاس ضرور جائے گا اسے اس ویرانے میں قتل کرو اور اس کے بازو ٹانگیں سر کاٹ کر الگ الگ پھینک دو پھر میں آکر لوگوں کو بتاؤں گا کہ اس کا قاتل کون ہے پھر لوگ اسے بھول جائیں گے اور میرے اور زیادہ معتقد ہو جائیں گے
امام شامی کے دن پورے ہو چکے تھے وہ اسی شام موت کی وادی کی طرف چل پڑا اور حسن بن صباح کے آدمیوں نے اسے اسی طرح قتل کر دیا جس طرح حسن بن صباح نے بتایا تھا اور پھر اس ابلیس نے لوگوں سے منوالیا کہ یہ قتل جنات نے کیا ہے
سورج غروب ہونے کو تھا جب امام شامی کو قبر میں اتارا گیا نماز جنازہ حسن بن صباح نے پڑھائی تھی اور اس کے بعد اس نے امام شامی کی وفات پر ایسی نوحہ خوانی کی تھی کہ لوگوں کے آنسو ہی نہیں بلکہ سسکیاں اور ھچکیاں نکل آئی تھیں
اگلی صبح حسن بن صباح مہدی علوی سے ملنے چلا گیا مہدی علوی خیمے میں زمین پر بچھے ہوئے بستر پر گہری نیند سویا ہوا تھا یہ چلے کا اٹھواں یا نواں دن تھا خادم نے اسے جگایا اور بتایا کہ امام حسن آئے ہیں مہدی علوی ہڑبڑا کر اٹھا حسن بن صباح خیمے میں آ کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا
اس نے مہدی علوی کے چہرے کا جائزہ لیا وہ اندازہ کرنا چاہتا تھا کہ مہدی علوی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کی ذہنی حالت کیا ہے
کیا آپ یہ چلہ جاری رکھ سکیں گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہاں امام! مہدی علوی نے جواب دیا میں چلہ جاری رکھوں گا مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی بلکہ ایک عجیب سا سرور محسوس ہوتا ہے جسے میں بیان نہیں کر سکتا تصورات میں ہی حسین ذہن میں آتے ہیں اور یہ اپنے آپ ہی آ جاتے ہیں
آپ کو تو سکون ملتا ہے حسن بن صباح نے کہا لیکن آپ کے اردگرد جو علاقہ ہے یہ بڑا ہی خطرناک ہوگیا ہے میں نے آپ کو جو وظیفہ بتایا ہے اس کے اثرات پوری کائنات پر ہوتے ہیں یہ دراصل سلیمان علیہ السلام کا وظیفہ ہے اسے جنات پڑھا کرتے تھے آپ کے خیمے کے اردگرد جنات کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا ہے یہ اس وظیفے کی کشش اور جنات کی عقیدت مندی ہے
تو کیا یہ جنات مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے؟
مہدی علوی نے ذرا ڈرے ہوئے لہجے میں پوچھا
نہیں امیر الموت! حسن بن صباح نے جواب دیا یہ تو آپ کی خوش نصیبی کی نشانی ہے کہ آپ کا پڑھا ہوا وظیفہ کائنات پر اثر انداز ہو رہا ہے ہو سکتا ہے کہ کچھ جنات انسانوں کے روپ میں آکر آپ کے آگے سجدہ ریز ہو جائیں ،اگر ایسا ہوا تو آپ ڈریں بالکل نہیں، وہ خاموشی سے آپ کا ورد سنتے رہیں گے اور پھر چلے جائیں گے
مجھے یہ بتائیں کہ سونے کی یہ تین ایٹم کس طرح برآمد ہوئی ہیں ؟
مہدی علوی نے پوچھا کیا مصلے کے نیچے سے مزید خزانہ برآمد ہوگا؟
میں گزشتہ رات سو نہیں سکا حسن بن صباح نے کہا سونے کی یہ تین اینٹیں ایک اشارہ ہے میں رات بھر مراقبے میں رہا ہوں معلوم یہ کرنا تھا کہ یہ اشارہ کیسا ہے صبح کاذب کے وقت مجھے یہ راز معلوم ہوا خزانہ برآمد ہو گا لیکن ابھی یہ پتا نہیں چل رہا کہ وہ خزانہ کہاں سے برآمد ہو گا مجھے امید ہے کہ پندرہ سولہ دنوں بعد یہ بھی پتہ چل جائے گا سونے کے یہ تین ٹکڑے ایک بڑا واضح اشارہ ہے کہ آپ کو تین اور شہر ملیں گے پھر الموت کو ملا کر ان چار شہروں کی ایک سلطنت بن جائے گی جس کے سلطان آپ ہونگے اس سلطنت کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ایک ہے کہ آپ اسی طرح صبر و تحمل اور پوری یکسوئی کے ساتھ پورے چالیس دن یہ وظیفہ پورا کردیں
مہدی علوی کو باقاعدہ حشیش پلائی جا رہی تھی خادم حشیش کی مقدار میں اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا اسے اوٹنی کا دودھ پینے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ دودھ ہر روز اس کے خیمے میں پہنچا دیا جاتا تھا اس میں بھی ذرا سی حشیش ڈال دی جاتی تھی کچھ تو اس کی اپنی خواہشات کے تصور تھے جو اس کے ذہن میں نکلتے ہی چلے آرہے تھے کچھ حسن بن صباح کی باتوں کے اثرات تھے کہ مہدی علوی کے ذہن سے اترتا جارہا تھا کہ وہ الموت کا امیر ہے اور اس کی حیثیت ایک بادشاہ جیسی ہے
میں آپ کو ایک بُری خبر سنا رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا آپ کے محبوب امام شامی اچانک حجاز سے واپس آگئے تھے انہیں پتہ چلا کہ آپ یہاں چلہ کشی میں بیٹھے ہیں تو وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ آپ کو چلہ کشی سے روکیں گے میرے دل میں امام شامی کا بے تحاشہ احترام ہے میں نے انہیں کہا کہ وہ آپ کو چلہ کشی میں مداخلت نہ کریں ورنہ اس میں آپ کی جان جانے کا خطرہ ہے اور امیر الموت کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ان کی اور ہم سب کی بدقسمتی کہ وہ نہ مانے اور کل آپ کے پاس آنے کے لئے چل پڑے ہمیں اطلاع ملی کہ ان کے سر ویرانے میں ایک درخت کے ساتھ بالوں سے لٹک رہا تھا مجھے سب پتا چل گیا کہ انہیں جنات نے کاٹ کر پھینک دیا تھا کیونکہ وہ جنات کے پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے وظیفے کی توہین کر رہے تھے یہ توہین ہی تھی کہ وہ آپ کو اس وظیفے سے ہٹانے آ رہے تھے کل میں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ہے اور انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ہے
حسن بن صباح کو توقع تھی کہ مہدی علوی کا ردعمل بڑا ہی شدید ہوگا اور وہ روئے گا کیونکہ وہ امام شامی کا معتقد تھا بلکہ اس کا مرید تھا لیکن اس نے اپنے امام کی موت کی خبر سنی تو اس کا چہرہ بے تاثر رہا جیسے اس پر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا ہو اس کی آنکھیں خشک رہی اس کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا حسن بن صباح نے جب یہ دیکھا کہ مہدی علوی نے کوئی اثر لیا ہیں نہیں تو وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا وہ مہدی علوی کی حِسّیں مردہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا
میں یہ چلہ پورا کروں گا اور امام محترم! مہدی علوی نے کہا یہ دیکھنا آپ کا کام ہے کہ میں اس میں کامیاب ہوجاؤں گا یا نہیں
وہ تو میں دیکھ چکا ہوں حسن بن صباح نے کہا اور میں آپ کو بتا بھی چکا ہوں سونے کی تین اینٹوں کا برآمد ہونا وظیفے کی کامیابی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور امام شامی کا جنات کے ہاتھوں قتل ایک اور ثبوت ہے آپ دلجمعی سے چلہ جاری رکھیں
کیا میں اونٹنی کا دودھ ہی پیتا رہوں؟
مہندی علوی نے پوچھا
ہاں! حسن بن صباح نے کہا آج کا دن ملا کر دو دن اور آپ اونٹنی کے دودھ پر ہی رہیں گے اس کے بعد آپ اس دودھ کے ساتھ دن رات میں صرف ایک بار آدھی روٹی کھا سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں
حسن بن صباح نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اتنے تندرست اور اتنے صحت مند جسم والا امیر شہر غذائیت کی کمی کی وجہ سے کچھ کمزور ہو گیا تھا حسن بن صباح نے اسے اور زیادہ کمزور کرنا تھا
حسن بن صباح مہدی علوی کی اور زیادہ حوصلہ افزائی کرکے وہاں سے آگیا مہدی علوی نے حسن بن صباح کی جو پیشن گوئیاں سنی تھی انہوں نے اسے نہایت حسین اور دل پسند تصوروں میں دھکیل دیا
سات آٹھ دن اور گزر گئے مہدی علوی اب ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا جس میں اس کے ذہن کے تصورات حقیقی زندگی کی صورت میں محسوس ہونے لگے اور حقیقی زندگی اس کے ذہن سے بہت حد تک نکل گئی
پندرہ سولہ دن گزر گئے تو حسن بن صباح ایک بار پھر مہدی علوی کے خیمے میں گیا اس نے مہدی علوی کے چہرے کا اور ذہنی کیفیت کا اندازہ کیا اس نے دیکھا کہ وہ بڑے اچھے نتائج حاصل کر رہا ہے مہدی علوی بڑی جاندار آواز میں بولتا تھا لیکن صاف پتہ چلتا تھا کہ اس کا ذہنی توازن صحیح نہیں رہا یہ شخص اس طرح زندگی کی حقیقتوں سے کٹ گیا ہے جس طرح ہرے بھرے درخت کی ایک شاخ کٹ کر گر پڑتی ہے اس شاخ کو سوکھ کر پتّا پتّا ہو جانا ہوتا ہے یہی کیفیت مہدی علوی کی ہو رہی تھی
کیا آپ کچھ اور بھی دیکھ رہے ہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا کوئی اور چیز آپ کو نظر آئی ہو؟
ہاں محترم امام! مہدی علوی نے مخمور سی آواز میں کہا میں نے گزشتہ رات ایک عجیب چیز دیکھی ہے میں وظیفہ میں مصروف تھا کہ ایک انتہائی خوبصورت لڑکی اس طرح میرے سامنے سے گزر گئی جیسے وہ چل نہیں رہی تھی بلکہ بادلوں پر تیر رہی تھی میں چونکہ وظیفے میں مصروف تھا اس لیے میں نے اس کی طرف زیادہ نہ دیکھا اتنا ہی دیکھا کہ وہ میرے سامنے سے گزری اور غائب ہو گئی میں تو کہوں گا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی حور تھی میں نے اپنی پوری کی پوری توجہ وظیفے پر مرکوز کردی ذرا ہی دیر بعد ایک اور لڑکی جو پہلی جیسی حسین اور دلکش تھی میرے سامنے سے گزر گئی میں کچھ ڈرا بھی اور گھبرایا بھی لیکن اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ آسمان کی مخلوق ہے پھر یہ خیال بھی آیا کہ یہ جنات ہی نہ ہوں چونکہ آپ نے بھی کہا تھا کہ انسان کے روپ میں آ سکتے ہیں
ابھی کچھ اور چیزیں بھی آپ کو نظر آئیں گی حسن بن صباح نے کہا آپ جو کچھ بھی خدا سے مانگ رہے ہیں وہ سب کچھ آپ کو مل جائے گا یہ خدائی اشارہ ہے سونے کی تین ٹکڑوں کا اشارہ آپ کو بتایا ہے اب آپ نے دو لڑکیاں دیکھیں ہیں آپ خود ہی سمجھ لیں کہ آپ کی یہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی جس طرح آپ چاہتے ہیں
مہدی علوی یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ دو لڑکیاں حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہو سکتی ہیں کوئی اسے بتاتا تو بھی وہ یقین نہ کرتا کیونکہ رات کے وقت شہر سے دور اس ویرانے میں کوئی لڑکی نہیں آ سکتی تھی حقیقت یہ تھی جس سے وہ بے خبر تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں شام کو ہی وہاں پہنچا دی گئی تھیں مہدی علوی مصلے پر بیٹھ چکا تھا لڑکیاں خادم کے خیمے میں بیٹھی رہیں انہیں ایسے لباس پہنائے گئے تھے جو عام طور پر لڑکیاں نہیں پہنا کرتی تھیں وہ رنگدار باریک ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں اس کے باوجود وہ عریاں لگتی تھیں کیونکہ کپڑے بہت ہی باریک تھے وہ جب مہدی علوی کے آگے سے گزری تھی تو ان کی چال عام چال نہیں تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ قدم اٹھا نہیں رہی بلکہ زمین پر کھڑے کھڑے تیرتی جا رہی ہوں
آخر چالیسویں رات بھی گزر گئی مہدی علوی کو اچھلتے کودتے نعرے لگاتے خیمے سے باہر آنا چاہیے تھا لیکن وہ اس طرح سر جھکائے ہوئے باہر جا رہا تھا جیسے اس نے منوں بوجھ اٹھا رکھا ہو خیمے سے باہر آکر اس نے دیکھا اسے اس کے خادم کا خیمہ نظر نہ آیا اس نے خادم کو پکارا بہت آواز دی لیکن اسے کوئی جواب نہ ملا وہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف چل پڑا اسے تو جیسے یاد ہی نہ رہا تھا کہ اس نے چالیس راتیں چلہ کیا ہے اور شاید وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس نے چلہ کیوں کیا تھا اس کا دماغ کسی وقت روشن ہو کر سوچنے کے قابل ہوجاتا لیکن فوراًّ ہی بعد دماغ پھر سو جاتا اس کے ذہن میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا اس کا ذہن ذرا سا اپنے آپ میں آتا تو اسے یاد آتا کہ یہاں وہ اکیلا نہیں تھا پھر وہ پریشان ہو جاتا کہ وہ اکیلا کیوں ہے اس کا ذہن خالی ہو جاتا اور اس کیفیت میں وہاں سے قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا گیا وہ لاشعوری طور پر چلتا جا رہا تھا یا جیسے وہ خواب میں چل رہا ہو
سورج بہت اوپر آ گیا تھا جب حسن بن صباح کو اس کی ایک آدمی نے اطلاع دی کہ امیر الموت آ رہا ہے حسن بن صباح اس کے انتظار میں تھا اسے معلوم تھا کہ مہدی علوی کس حالت میں واپس آئے گا حسن بن صباح باہر نکل آیا اور اس نے دیکھا کہ مہندی علوی چلا آ رہا ہے وہ قدم گھسیٹ رہا تھا اس کا حال ہے اس قدر بدل گیا تھا کہ حسن بن صباح کو یہ نہ بتایا جاتا کہ امیر الموت آ رہا ہے تو وہ اسے پہچان ہی نہ سکتا اس کی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی ہوتی تھی لیکن چالیس دنوں میں داڑھی لمبی اور بے ترتیب ہو گئی تھی اس کے سر کے بال بھی کندھوں تک پہنچ رہے تھے حسن بن صباح اسے اپنے مکان کی طرف آتا دیکھتا رہا حتیٰ کہ مہدی علوی حسن بن صباح کے سامنے آ رکا
پانی پلاؤ مہدی علوی نے نحیف سی آواز میں کہا بہت تھک گیا ہوں پانی پلاؤ
حسن بن صباح اسے اندر لے گیا اور اپنے کمرے میں بٹھایا اس نے ایک آدمی سے کہا کہ اسے سادہ پانی پلاؤ مہدی علوی کو سادہ پانی دیا گیا جو اس نے پی لیا
مجھے پانی پلاؤ مہدی نے ذرا جاندار آواز میں کہا
امیرالموت! حسن بن صباح نے کہا پانی تو آپ پی چکے ہیں
یہ پانی نہیں مہدی علوی نے ذرا غصیلی آواز میں کہا جو وہاں مجھے خادم پلایا کرتا تھا
حسن بن صباح سمجھتا تھا کہ یہ کون سے پانی کی طلب محسوس کر رہا ہے پھر بھی اس نے اسے شربت پلایا مہدی علوی نے شربت پی لیا
میں وہ پانی مانگ رہا ہوں مہندی علوی نے اب کے ذرا بلند آواز میں کہا
وہ دراصل اس پانی کا عادی ہو گیا تھا جو اسے چالیس روز خادم پلاتا رہا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس پانی میں حشیش ملی ہوئی ہوتی تھی وہ جو سرور محسوس کرتا تھا اسے وہ روحانی سکون سمجھتا تھا اور اس سکون کو وظیفے کی فضیلت کہتا تھا گزشتہ شام اس نے حشیش والا پانی پیا تھا وہ وظیفے کے دوران بھی رات کو یہ پانی پیا کرتا تھا خادم اچھا خاصا پانی اس کے مصلے کے پاس رکھ دیا کرتا تھا گزشتہ شام سے اگلے دن پہلے پہر تک اسے وہ پانی نہیں ملا تھا وہ نشے سے ٹوٹا ہوا تھا
آپ ہیں کون؟
حسن بن صباح نے پوچھا
میں امیر الموت ہوں! مہدی علوی نے جواب دیا میرا نام مہدی علوی ہے
اس کے بعد یوں ہوا کہ الموت کی گلیوں اور بازاروں میں ایک پاگل بلند آواز سے کہتا پھرتا تھا میں اس شہر کا امیر ہوں میں مہدی علوی ہوں بہت سے بچے اسے پتھر اور ڈھیلے مار رہے تھے اور وہ آگے آگے بھاگتا پھر رہا تھا اس آدمی کا حلیہ یہ تھا کہ سر کے بال لمبے جو کندھوں پر آئے ہوئے تھے اور کچھ بال چہرے پر گرے ہوئے تھے اس کی داڑھی لمبی تھی اور اس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے
شہر میں آسمان سے حوریں اتریں گی یہ پاگل کہہ رہا تھا میں آسمان سے خزانے لاؤں گا مجھ پر آسمان سے خزانے اتریں گے میں اس شہر کا امیر ہوں حوریں آئیگی میں تمہارا امیر ہوں
وہ اپنے گھر کی طرف گیا یہ گھر مہدی علوی کا تھا وہ جب گھر میں داخل ہونے لگا تو وہاں جو دو دربان کھڑے تھے انہوں نے اسے دھکے دے دے کر باہر نکال دیا اس کی اپنی دونوں بیویوں اور اولاد نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیا تین چار فوجی آ گئے انہوں نے اس پاگل کو پکڑ لیا اور اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں لے گئے سارا شہر امڈ کر اس میدان میں اکٹھا ہو گیا فوج کا ایک دستہ وہاں آ گیا سپہ سالار اس کے ساتھ تھا یہ پاگل مہدی علوی ہی تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ وہی اس شہر کا امیر تھا لیکن وہ پاگل ہو چکا تھا اور لوگ مانتے ہی نہیں تھے کہ یہ مہندی علوی ہے سپہ سالار اسے بازو سے پکڑ کر ایک ذرا بلند جگہ پر لے گیا جہاں لوگ اسے اچھی طرح دیکھ سکتے تھے
الموت کے لوگوں سپہ سالار نے اعلان کیا یہ شخص پاگل ہے اور سارے شہر میں بدامنی پھیلا رہا ہے
کیا آپ اسے امیر شہر تسلیم کریں گے؟
لوگوں کے ہجوم نے اسے امیر شہر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اگر یہ واقعی مہدی علوی ہے سپہ سالار نے کہا تو بھی اسے ہم امیر شہر نہیں مانیں گے کیونکہ یہ پاگل ہو چکا ہے
تاریخوں میں آیا ہے کہ لوگ مخالفت کرتے یا حمایت پوری کی پوری فوج نے اس پاگل کو امیر تسلیم کرنے سے انکار کردیا یہ پوری کی پوری فوج حسن بن صباح کی بنائی ہوئی تھی اور اس میں اس نے اپنے مریدوں کو بھرتی کیا تھا اور انھیں ذہن نشین کرایا تھا کہ اس شہر پر قبضہ کرنا ہے
سپہ سالار نے لوگوں سے کہا کہ اس اتنے بڑے شہر کے دفاع کے لیے فوج تھی ہی نہیں ہم نے لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے فوج بنائی ہے اور اس کے اخراجات امام حسن بن صباح پورے کر رہے ہیں سپہ سالار نے اعلان کیا کہ یہ فوج کا فیصلہ ہے کہ امام حسن بن صباح کو امیر شہر بنایا جائے
اس وقت تک بے شمار لوگ حسن بن صباح کے مرید بن چکے تھے انہوں نے بیک زبان کہا کہ امیر شہر حسن بن صباح کو بنایا جائے اس طرح حسن بن صباح الموت کا امیر بن گیا اس نے مہدی علوی کی دونوں بیویوں اور اس کی اولاد کا باقاعدہ وظیفہ مقرر کروادیا
مہدی علوی کو خوش و خرم فتح کے نشے سے سرشار خیمے سے نکلنا چاہیے تھا کہ اس نے چالیس راتوں کا چلّہ کامیابی سے کاٹ لیا تھا شہر میں آ کر وہ حسن بن صباح سے کہتا کہ اب مجھے اس کے نتائج دکھاؤ لیکن وہ خیمے سے پاگل ہو کر نکلا
مزمل آفندی کو قید خانے میں بند کر دیا گیا تھا اسے چالیس دنوں کے بعد قید خانے سے رہا کردیا گیا اسے پاگل ہو کر نکلنا چاہیے تھا لیکن وہ جب قید خانے سے نکلا تو اس کی گردن تنی ہوئی تھی اور اس کی چال ڈھال ایسی تھی جیسے اس شہر کا امیر وہی ہو اور جو کوئی اس کے راستے میں آئے گا اسے وہ قتل کر دے گا وہ قید خانے سے نکل کر سیدھا حسن بن صباح کے پاس پہنچا حسن بن صباح نے اس کا پرتپاک استقبال کیا
آگئے مزمل! حسن بن صباح نے اس سے دوستوں کی طرح پوچھا اب کیا کرو گے
میرے کرنے کا ایک ہی کام ہے مزمل آفندی نے بڑی دلیری اور جرات مندی سے جواب دیا مرو جاؤں گا اور نظام الملک کو قتل کروں گا
کب جاؤ گے ؟
جب آپ حکم دیں گے مزمل نے کہا کہیں تو میں آج ہی روانہ ہو جاتا ہوں چند دنوں میں نظام الملک کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھوں گا
حسن بن صباح نے اسے اپنے پاس بٹھائے رکھا اور اسے اپنے ہاتھوں سے شراب پیش کی اس رات مزمل نے کھانا بھی حسن بن صباح کے ساتھ کھایا
اگلی صبح اسے ایک نہایت اعلی نسل کا گھوڑا دیا گیا وہ گھوڑے پر سوار ہوا حسن بن صباح نے باہر آ کر اسے رخصت کیا مزمل گھوڑے پر یوں تن کے بیٹھا ہوا تھا جیسے یہ سارا علاقہ دور دور تک اس کی سلطنت ہو اور وہ اس کا سلطان ہو اس کی کمر کے ساتھ ایک تلوار لٹک رہی تھی اور اس کے پاس بڑا ہی خوبصورت خنجر بھی تھا وہ سلجوقیوں کے دارالسلطنت مرو جا رہا تھا
اس عرصے میں سلطان ملک شاہ اور نظام الملک اگر مزمل آفندی کو بھول نہیں گئے تھے تو انہوں نے اسے یاد بھی نہیں رکھا تھا انہیں احمد اوزال نے یقین دلا دیا تھا کہ مزمل قتل ہو چکا ہے اور اب اس کی واپسی کی امیدیں دل سے نکال دی جائیں
وہ اگر زندہ تھا تو شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کے دلوں میں زندہ تھا داستان گو پہلے تفصیل سے سنا چکا ہے کہ شمونہ مزمل آفندی پر دل و جان سے قربان ہو رہی تھی یہ محبت جذباتی تو تھی ہی لیکن دونوں کا جذبہ بھی مشترک تھا دونوں حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عزم لیے ہوئے تھے شمونہ اور مزمل کی محبت میں رومان کی چاشنی تو تھی ہی لیکن عزم کی گرمی زیادہ تھی
مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے روانہ ہو گیا اب شمونہ کے کانوں میں ایک ہی آواز گونجتی تھی کہ مزمل باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہے مزمل کو گئے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا تھا جب احمد اوزال خلجان سے بھاگ کر مرو آیا تھا تو اس نے یہ خبر سنائی تھی کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کے جال میں آ گیا ہے اور اب تک وہ قتل ہو چکا ہوگا سلطان ملک شاہ اور نظام الملک نے تو فوراً مان لیا تھا کہ اوزال جو کچھ کہہ رہا ہے وہی ہوا ہوگا لیکن شمونہ نہیں مانتی تھی وہ کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ احمد اوذال کے پیچھے پڑ گئی تھی کہ وہ واپس جائے اور مزمل کو ڈھونڈ کر لائے احمد اوذال جانتا تھا کہ یہ حسین لڑکی جذبات کی رو میں بہی جا رہی ہے اور یہ حقیقت کو قبول نہیں کر رہی احمد اوزال نے اسے یقین دلانے کی بہت کوشش کر ڈالی تھی کہ مزمل اس دنیا سے اٹھ گیا ہے لیکن شمونہ چیخ چیخ کر کہتی تھی کہ مزمل مر نہیں سکتا وہ حسن بن صباح کو مار کر مرے گا یہ الفاظ اس کی زبان پر چڑھ گئے تھے کہ حسن بن صباح زندہ ہے تو میرا مزمل بھی زندہ ہوگا
شمونہ اپنی ماں کو ساتھ لے کر سلطان ملک شاہ کے پاس گئی تھی اور رو رو کر اس نے سلطان کی منتیں کیں تھیں کہ وہ دو تین آدمیوں کو خلجان اور الموت بھیجے جو مزمل کو ڈھونڈ کر واپس لے آئیں سلطان نے اسے بڑے پیار سے اور ہمدردی سے سمجھایا تھا کہ مزمل کے زندہ نکل آنے کی کوئی صورت ہے ہی نہیں پھر وہ نظام الملک کے پاس گئی تھی نظام الملک نے بھی اسے وہی جواب دیا تھا جو سلطان ملک شاہ دے چکا تھا
شمونہ احمد اوزال کے لئے مصیبت بن گئی تھی احمد اوزال نے اسے ہر بار یہی کہا تھا کہ وہ خلجان اور الموت جانے سے نہیں ڈرتا لیکن وہاں اسے حسن بن صباح اور اس کے خفیہ آدمی بڑی اچھی طرح سے پہچانتے ہیں اور وہ اس خفیہ گروہ کے دو آدمی قتل کر کے بھاگا ہے وہ فورا پکڑا جائے گا اور فورا ہی اسے قتل کردیا جائے گا
میں خود وہاں چلی جاؤں شمونہ نے کئی بار کہا تھا لیکن حسن بن صباح کے ساتھ میں رہی ہوں بہت سارے لوگ وہاں مجھے پہچانتے ہیں حسن بن صباح پہلے ہی مجھے قتل کرنے کا حکم دے چکا ہے وہ تو مجھے دیکھتے ہی مار ڈالے گا وہ نہ دیکھ سکا تو اس کا کوئی بھی آدمی مجھے پہچان لے گا اور مجھے پکڑ لے گا اور حسن بن صباح کے حوالے کر دے گا
سلطان ملک شاہ نے شمونہ اور اس کی ماں کو مرو میں ایک بڑا اچھا مقام دے دیا تھا جس میں ماں بیٹی اکیلی رہتی تھیں سلطان نے ان کے لیے وظیفہ بھی مقرر کر دیا تھا سلطان اور نظام الملک کے بعد احمد اوزال سے مایوس ہوکر شمونہ نے ماں کو پریشان کرنا شروع کر دیا تھا ماں نے کئی بار اسے ڈانٹ دیا اور کہا کہ وہ اپنے دماغ کو اپنے قابو میں رکھے ورنہ وہ پاگل ہوجائے گی وہ مزمل کو بھولتی ہی نہیں تھی اور یہ مانتی ہی نہیں تھی کہ مزمل قتل ہوچکا ہے اس کا یہ روز مرہ کا معمول بن گیا تھا کہ صبح چھت پر چلی جاتی اور اس راستے کو دیکھتی رہتی تھی جو خلجان سے مرو کو آتا تھا دن میں کئی بار اس طرف آنے والی پگڈنڈی کو دیکھنا شروع کر دیتی تھی کئی بار ماں چھت پر جا کر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لائی اور اسے ڈانٹا لیکن شمونہ ایک ہی بات کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ واپس آئے گا
وہ گھوڑ سواری کی شوقین تھی کبھی کبھی وہ سلطان کے اصطبل سے گھوڑا منگوا لیتی اور شہر سے باہر نکل جایا کرتی تھی گھوڑے کو کچھ دیر دوڑاتی اور گھر آ جایا کرتی تھی ایک روز اس نے ماں سے کہا کہ اسے گھوڑا منگوادے وہ باہر جانا چاہتی ہے
شمونہ! ماں نے کہا اب میں تمہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی تمہارا دماغ دن بدن بیکار ہوتا چلا جا رہا ہے مجھے ڈر ہے کہ باہر جاکر خلجان کا رخ کر لوں گی
نہیں ماں! شمونہ نے کہا میں پہلے بتا چکی ہوں کہ میں مزمل کی تلاش میں باطنیوں کے علاقے میں نہیں جا سکتی میں پہلے نہیں گئی تو اب بھی نہیں جاؤں گی گھر میرا دم گھٹتا ہے مجھے ذرا کھلی ہوا میں گھومنے پھرنے کے لیے جانے دیں
ماں نے اسے گھوڑا منگوا دیا اور وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور باہر نکل گئی اس کی ماں بھی چاہتی تھی کہ یہ لڑکی اسی طرح گھوم پھر کر دل بہلائے رکھے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تو پاگل ہوئی جا رہی تھی مرو کے اردگرد بہت ہی دلفریب مناظر تھے ندی بھی قریب سے گزرتی تھی اور ایک جگہ سے چشمہ پھوٹتا تھا لوگ سیر و تفریح کے لیے وہاں جایا کرتے تھے لیکن شمونہ کو سیر کے لیے وہی پگڈنڈی اچھی لگتی تھی جو خلجان سے آتی تھی اس روز بھی وہ گھوڑے پر سوار ہوئی شہر سے نکلی اور گھوڑا اسی پگڈنڈی پر ڈال دیا یہ اس کا معمول تھا اس پگڈنڈی پر جاکر وہ گھوڑے کو ایڑ لگاتی گھوڑا سر پٹ دوڑتا اور شمونہ کوئی ڈیڑھ کوس جا کر گھوڑا روک لیتی اور وہاں سے واپس آ جاتی اس روز بھی وہ اسی پگڈنڈی پر چلی گئی اس نے اپنے معمول کے مطابق گھوڑا سرپٹ دوڑایا سامنے سے ایک گھوڑا سوار چلا آ رہا تھا
شمونہ اس کے قریب سے گزری تو اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا
شمونہ! گھوڑے کے قدموں کے بے ہنگم شور اور ہوا کی شائیں شائیں آواز سنائی دی پکارنے والا کوئی آدمی تھا
شمونہ نے گھوڑا روک لیا اور پیچھے کو موڑا وہ گھوڑ سوار جو اس کے قریب سے گزرا تھا اس نے بھی گھوڑا موڑ لیا اور اس کی طرف بڑی تیزی سے آرہا تھا دونوں گھوڑے قریب آئے اور سواروں نے ایک دوسرے کو دیکھا مزمل! شمونہ کے منہ سے تو جیسے چیخ نکل گئی ہو
شمونہ کود کر گھوڑے سے اتری وہ مزمل آفندی ہی تھا بلا شک و شبہ وہ مزمل ہی تھا نظر کا دھوکہ نہیں تھا اور یہ خواب بھی نہیں تھا
شمونہ بازو پھیلا کر مزمل کی طرف دوڑی اور مزمل اسی کی طرح بازو پھیلا کر اس طرف آیا پھر دونوں ایک دوسرے کے بازوؤں میں جکڑے گئے جیسے دو جسم ایک ہوگئے ہوں
میں ہر روز کہتی تھی کہ میرا مزمل زندہ ہے شمونہ یہی الفاظ کہے جا رہی تھی
شمونہ کی جذباتی کیفیت اور بے تابی کا یہ عالم تھا جیسے ماں کو اس کا کھویا ہوا بچہ مل گیا ہو وہ مزمل کو اپنے بازوؤں میں سے نکلنے ہی نہیں دے رہی تھی بچھڑے ہوئے دو دلوں کو اس بے تابی اور دیوانگی سے ملتا ہوا دیکھ کر سورج افق کے پیچھے چھپ گیا اور ان پر شام کا پردہ ڈال دیا رات شمونہ مزمل کو اپنے گھر لے گئی مزمل کو اسی گھر میں آنا تھا
شمونہ کی ماں میمونہ نے بھی مزمل کو دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا
میں ابھی وزیراعظم نظام الملک کو اطلاع دیتی ہوں میمونہ نے کہا وہ سن کر بہت خوش ہوں گے کہ مزمل واپس آ گیا ہے یہاں تو سب یقین کیے بیٹھے تھے کہ تم قتل ہوچکے ہو
نہیں! مزمل نے کہا اسے کوئی اطلاع نہیں دے گا میں خود اس کے پاس جاؤنگا
میمونہ نے مزمل اور شمونہ کو تنہا بیٹھنے کے لئے یوں کیا کہ نیند کا بہانہ کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی شمونہ یہی چاہتی تھی وہ مزمل کو اپنے کمرے میں لے گئی اور دروازہ بند کر لیا وہ مزمل سے سننا چاہتی تھی کہ خلجان میں اس پر کیا بیتی ہے وہ محسوس کر رہی تھی کہ مزمل ذرا رک رک کر اور کچھ سوچ سوچ کر بات کرتا ہے
سلطان اور وزیراعظم نظام الملک کہتے تھے کہ مزمل باطنیو کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے شمونہ نے کہا میں کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ واپس آئے گا یہ لوگ نہیں مانتے تھے احمد اوزال بھی یہی کہتا تھا
نظام الملک چاہتا ہی یہی تھا کہ میں قتل ہو جاؤ مزمل نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا اب دیکھنا کون کس کے ہاتھوں قتل ہو گا
کیا کہہ رہے ہو شمونہ نے کہا میں محسوس کر رہی ہو کہ وہاں تم پر بہت بری گزری ہے جس کا تمہارے دماغ پر بہت برا اثر معلوم ہوتا ہے کس کے قتل کی بات کر رہے ہو؟
بہت بری نہیں شمونہ! مزمل نے کہا مجھ پر بہت اچھی گزری ہے میری تو آنکھیں کھل گئیں ہیں اور میرا دماغ روشن ہوگیا ہے میں حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا وہاں جا کر مجھ پر یہ راز کھلا کہ میں نے حسن بن صباح کو نہیں بلکہ کسی اور کو قتل کرنا ہے میں نے بہت سوچا لیکن یہ راز مجھ پر نہیں کھل رہا تھا کہ وہ کون ہے جس نے میرے ہاتھوں قتل ہونا ہے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ میں نے کسی کو قتل ضرور کرنا ہے کچھ دنوں بعد یہ راز کھل گیا آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا جس کا خون میرے ہاتھوں پر لکھا ہوا ہے
کون ہے وہ ؟
شمونہ نے گھبرا کر پوچھا
نظام الملک! مزمل نے کہا
مزمل! شمونہ نے اسکے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پوچھا کیا کہہ رہے ہو کیا تم نظام الملک کو قتل کرو گے؟
شمونہ! مزمل نے شمونہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اور اسے اپنے قریب کر کے کہا اندازہ کرو کہ تمہاری محبت میرے دل اور روح میں کتنی گہری اتری ہوئی ہے کہ میں تمہیں ایک ایسا راز بتانے لگا ہوں جو مجھے کسی کو بھی نہیں بتا دینا چاہیے تھا میں تمہارے بغیر ایک قدم چل نہیں سکتا میں کسی اور ارادے سے خلجان گیا تھا لیکن اب میں کسی اور ارادے سے یہاں آیا ہوں
کھل کر بات کرو مزمل! شمونہ نے کہا میں نے اپنی جان تمہارے لیے وقف کر رکھی ہے یہ راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھوں گی میں تم سے یہ سننا چاہتی ہوں کہ تم پر وہاں کیا گزری ہے؟
وہاں مجھ پر جو گزری ہے وہ اچھی گذری ہے مزمل نے بڑے سنجیدہ اور کچھ طنزیہ سے لہجے میں کہا بلکہ بہت اچھی گذری ہے وہاں تک تو میں اندھیرے میں پہنچا تھا یہ مجھے وہاں جا کر پتہ چلا کہ میری روح اب تک بھٹکتی رہی ہے وہاں میری روح کو روشنی ملی پھر مجھے پتا چلا اور میں نے صاف دیکھا کہ دوست کون اور دشمن کون ہے میرے خیالات اور میرے عقیدے بدل گئے اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی تو وہ یہ تھی کہ مجھے شمونہ سے محبت ہے اور میرا دل اس تبدیلی کو بھی قبول نہیں کرے گا کہ میرا دل شمونہ کی محبت کو نکال دے
شمونہ مزمل کی باتیں تو غور سے سن رہی تھی مگر وہ زیادہ غور ان تاثرات پر کر رہی تھی جو مزمل کے چہرے پر آ اور جا رہے تھے اس نے ایسے تاثرات مزمل کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھے تھے
راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھوں گی مزمل! شمونہ نے کہا میرے جسم سے جان نکل سکتی ہے یہ راز نہیں نکلے گا لیکن یہ تو بتاؤ گے تم نظام الملک جیسے عظیم آدمی کو کیوں قتل کرو گے؟
عظیم انسان! مزمل نے کہا عظیم نظام الملک نہیں حسن بن صباح عظیم ہے میں اسے قتل کرنے چل پڑا تھا لیکن وہاں جاکر میں نے محسوس کیا کہ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اس عظیم شخصیت کے پاس آنے کا ایک بہانہ مل گیا
شمونہ لرز کر رہ گئی لیکن اس نے اپنے رد عمل کا اظہار نہ کیا نہ مزمل کو پتہ چلنے دیا کہ اس کا رد عمل کس قدر شدید ہے جسے برداشت کرنا اس کے لئے محال ہے
ایک بات بتاؤ مزمل! شمونہ نے پوچھا نظام الملک کو کب قتل کرو گے میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ تم جلد بازی نہ کر بیٹھو تم نے مجھے کہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ دوں اگر تمہیں مجھ پر اعتماد ہے تو یہ کام مجھ پر چھوڑ دو میں موقع پیدا کرو گی اور تم اپنا کام کر گزرنا لیکن میں موقع ایسا پیدا کرو گی کہ تم اسے بھی قتل کر دو اور پکڑے بھی نہ جاؤ
ہاں شمونہ! مزمل نے کہا مجھے تم پر اعتماد ہے اور مجھے تم سے یہی امید تھی کہ تم میرے اس کام میں میری مدد کرو گی تم موقع پیدا کرو
مزمل آفندی بڑے لمبے سفر سے آیا تھا اس لئے تھکا ہوا تھا باتیں کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی شمونہ اٹھی کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور اپنی ماں کے پاس چلی گئی اس نے اپنی ماں کو کچھ بھی نہ بتایا
شمونہ ساری رات سو نہ سکی وہ سمجھ گئی تھی کہ مزمل کو باطنیوں نے پکڑ لیا تھا لیکن قتل کرنے کی بجائے انہوں نے یہ بہتر سمجھا کہ اسے قاتل ہی رہنے دیا جائے لیکن وہ قتل کسی اور کو کرے شمونہ حسن بن صباح کے ساتھ رہ چکی تھی وہ حسن بن صباح کے منظور نظر داشتہ تھی وہ قدرتی طور پر غیر معمولی ذہانت کی تھی اس نے حسن بن صباح سے کئی ایک راز لیے تھے اور حسن بن صباح اسے راز دے بھی دیتا تھا کیونکہ وہ شمونہ کے حسن و جوانی کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا تھا خود شمونہ اپنے حسن کو بڑی خوبی اور کامیابی سے استعمال کرتی تھی وہ جانتی تھی کہ حسن بن صباح کے پاس ایسے حربے اور طریقے ہیں کہ وہ پتھر کو بھی موم کر لیتے ہیں وہ کسی بھی شخص کو ایک خاص عمل میں سے گزار کر اس کی سوچ اس کے ارادے اور اس کے عقیدے یکسر بدل دیتے ہیں اس کے سامنے دو آدمیوں پر یہ عمل کیا گیا تھا یہ کوئی جادو یا روحانی عمل نہیں تھا بلکہ یہ ایک نفسیاتی طریقہ کار تھا شمونہ جان گئی کہ مزمل کا جسم اور اس کا نام نہیں بدل نہ جا سکا اس کے کردار کو اور اس کے عقیدے کو اور اس کے ارادوں کو بالکل الٹ کر دیا گیا ہے مہینہ ڈیڑھ مہینہ اس عمل کے لیے خاصا عرصہ تھا اسے نظام الملک کے قتل کے لیے واپس بھیجا گیا ہے اور یہ شخص عزم لے کر آیا ہے کہ نظام الملک کو قتل کرنا ہے
اگلی صبح مزمل آفندی اٹھا شمونہ خود ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں گئی اور دونوں نے اکٹھے ناشتہ کیا
اب میری بات سنو مزمل! شمونہ نے کہا میں نے اپنی ماں کو یہ بات نہیں بتائی اور تم بھی نہ بتانا نظام الملک سے ملے ہوئے مجھے کچھ دن گزر گئے ہیں میں ابھی اس کے پاس جا رہی ہوں اور کچھ جذباتی سی باتیں کرو گی کہ میں اسے صرف ملنے آئی ہوں میں اسے اسی طرح دو تین مرتبہ ملو گی اور مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے جذبات میں الجھا لوں گی اور پھر میں ایک دن اسے باہر لے جاؤں گی تمہیں پہلے بتا دوں گی تم نے کوئی اوجھی اور الٹی سیدھی حرکت نہیں کرنی میرے آخری اشارے کا انتظار کرنا ہے
مزمل آفندی کے چہرے پر سکون اور اطمینان کا تاثر آگیا
مجھے تم سے یہی امید تھی شمونہ! مزمل نے شمونہ کو اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لے کر کہا تم تصور میں نہیں لا سکتی کہ میں یہ کام کر چکا تو تمہیں کس جنت میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا تم موقع پیدا کرو میں تمہارے آخری اشارے کا انتظار کروں گا
شمونہ کو بہت دکھ ہوا کہ مزمل جیسا پیارا اور جذبے والا آدمی اور دین اسلام پر اپنا آپ بھی قربان کرنے والا یہ خوبرو جوان کس طرح ضائع ہوگیا ہے اس نے مزمل پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ اسے کتنا دکھ پہنچا ہے اس نے اپنے ہونٹوں پر بڑی ہی جاں فضا مسکراہٹ قائم رکھی وہ ناشتے کے بعد کمرے سے نکل آئی ماں سے کہا کہ وہ برتن اٹھا لے اور وہ خود گھر سے نکل گئی وہ نظام الملک سے ملنے جا رہی تھی
نظام الملک گھر ہی مل گیا وہ ابھی ابھی ناشتے سے فارغ ہوا تھا اسے اطلاع ملی کہ شمونہ آئی ہے تو اس نے اسے بلا لیا اور سوچا کہ یہ لڑکی آج پھر ضد کرنے آئی ہے کہ دو تین آدمیوں کو خلجان اور الموت بھیجو جو مزمل کو ڈھونڈ لائیں اس نے شمونہ کو اسی خیال سے بلا لیا تھا کہ اسے بہلائے پھسلائے گا اور اس کے دل سے مزمل کو نکالنے کی کوشش کرے گا
آؤ شمونہ! نظام الملک نے کہا بیٹھو آج شاید تمہیں پھر مزمل یاد آ رہا ہے یا خواب میں آیا ہوگا
نہیں محترم! شمونہ نے کہا وہ خواب میں نہیں آیا بلکہ وہ حقیقت میں آگیا ہے کل شام زندہ وسلامت میرے پاس پہنچ گیا ہے
کیا تمہارا دماغ حاضر ہے شمونہ! نظام الملک نے اس طرح کہا جیسے اسے شک ہوا ہو کہ یہ لڑکی دماغی توازن کھو بیٹھی ہے وہ میرے پاس کیوں نہیں آیا ؟
کیا وہ کچھ بتاتا ہے کہ اس پر کیا بیتی ہے؟
محترم! شمونہ نے کہا میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ وہ میرے پاس آ گیا تھا کہیں وہ سیدھا آپ کے پاس نہ پہنچ گیا ورنہ بات کچھ اور بن جاتی
کیا کہہ رہی ہو! نظام الملک نے پوچھا کیا بات بن جاتی؟
معلوم ہوتا ہے تم ذہنی طور پر بہت پریشان ہو
ہاں محترم! شمونہ نے کہا میں ساری رات سوئی نہیں میں تمہید باندھے بغیر یہ بتانے آئی ہوں کہ آپ نے جس کو حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا وہ آپ کو قتل کرنے کے لئے واپس آیا ہے
مجھے حیران نہیں ہونا چاہیے نظام الملک نے کہا مجھے معلوم ہے کہ حسن بن صباح کے پاس ایسا جادو ہے جو مزمل جیسے جوانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے مزمل پر بھی یہی جادو چل گیا ہوگا
محترم! شمونہ نے کہا آپ نے تو صرف سنا ہے کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی ایسا جادو ہے میں نے اپنی آنکھوں سے یہ جادو چلتا دیکھا ہے یہ میں آپ کو تفصیل سے بتاؤ گی لیکن فوری طور پر یہ سوچیں کہ مزمل کا کیا کیا جائے اسے اس طرح آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا میں اسے محبت کی زنجیروں میں باندھ کر رکھ سکتی ہوں لیکن یہ زنجیریں کسی وقت کچی بھی ثابت ہوسکتی ہیں کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی وقت وہ آپ پر قاتلانہ حملہ کردے؟
میں ڈرتی ہوں ایسا ہو جائے گا آپ دانش مند ہیں میں آپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ایک مشورہ ہے اگر آپ کو اچھا لگے تو مزمل کو قید خانے میں بند کر دیں
نہیں شمونہ! نظام الملک جو عقل و دانش کے لیے مشہور تھا بولا میں اتنا خوبصورت جوان اور اتنا جذبہ والا جوان ضائع نہیں کروں گا اسے کچھ دنوں کے لیے آزاد رکھنا پڑے گا لیکن میں اس کے لیے ایک جواز پیدا کروں گا جس طرح اسے حسن بن صباح نے اپنے مقاصد کے لیے حربہ اور آلہ کار بنایا ہے اسی طرح میں اسے واپس لاؤں گا اور اسے ویسا ہی مرد مومن بناؤں گا جیسا یہ تھا اندازہ کرو شمونہ اس نے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو دل سے اتار دیا تھا اور یہ ایک عزم لیے ہوئے تھا کہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ حسن بن صباح کو ایک انسان سمجھ کر قتل نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ ایک باطل نظریے اور ابلیسیت کا گلا کاٹنا چاہتا تھا میں اسے صراط مستقیم پر لے آؤں گا لیکن اس کے لئے ہمیں ایک کھیل کھیلنا پڑے گا میں اپنے آپ کو خطرے میں ڈالوں گا
اگر اس کھیل میں میں نے کچھ کرنا ہے تو مجھے بتا دیں شمونہ نے کہا
تمہارے ذمے ایک کام ہے نظام الملک نے کہا آج شام اسے میرے پاس بھیج دو اسے کہنا کہ میں فلاں کمرے میں اکیلا ہوں گا اسے یقین دلانا کے نظام الملک کو قتل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے قتل کرنے کا طریقہ یہ بتانا کے نظام الملک پیٹھ پھیرے تو خنجر نظام الملک کی پیٹھ میں اتار دینا باقی میں سنبھال لوں گا
نہیں محترم وزیراعظم! شمونہ نے کہا میں ڈرتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کھیل ہی کھیل میں خنجر آپ کے دل میں اتر جائے تم اسے بھیج دینا نظام الملک نے کہا میں چوکنّا رہوں گا تم جاؤ شمونہ واپس آئی اور اس نے مزمل کو ویسے ہی بتایا جیسے نظام الملک نے اسے بتایا تھا شمونہ نے مزمل سے کہا کہ آج موقع ہے یہ کام آج ہی کر گزرو
نظام الملک نے شمونہ کو وہ کمرہ دکھا دیا تھا وہ کمرہ ایسا تھا جس کا تعلق اتنے بڑے مکان کے دوسرے کمروں کے ساتھ نہیں تھا نظام الملک صرف اس وقت اس کمرے میں بیٹھا کرتا تھا جب اسے کسی پیچیدہ مسئلے پر غور کرنا ہوتا تھا کوئی بھی اس کے کام میں مخل نہیں ہو سکتا تھا
شام کو مزمل آفندی اپنے کپڑوں کے اندر خنجر چھپائے نظام الملک کے یہاں چلا گیا دروازے پر کوئی دربان نہیں تھا یہ بھی اس کھیل کا ایک حصہ تھا کہ دربان ہٹا دیے گئے تھے شمونہ نے مزمل کو وہ خاص کمرہ اچھی طرح سمجھا دیا تھا مزمل اس گھر میں زخمی حالت میں رہ بھی چکا تھا پھر اس گھر میں وہ صحت یاب ہوا تھا اس لیے وہ اتنی بڑی حویلی سے واقف تھا وہ اس کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا اور دستک دی نظام الملک نے خود اٹھ کر دروازہ کھولا باہر مزمل کھڑا تھا نظام الملک نے اسے گلے لگالیا اور خوشی کا اظہار کیا کہ وہ زندہ واپس آ گیا ہے اسے کمرے میں لے جا کر اشارہ کیا کہ یہاں بیٹھ جاؤ
نظام الملک نے اس کی طرف پیٹھ کی اور دو تین قدم آگے کو چلا اسے معلوم تھا کہ اب کیا ہوگا مزمل جو ابھی بیٹھ ہی رہا تھا تیزی سے کھڑا ہو گیا اور اسی تیزی سے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور نظام الملک کی پیٹھ پر مارنے کے لیے اس نے ہاتھ اوپر اٹھایا جب اس کا ہاتھ خنجر مارنے کے لئے آگے ہوا تو اسی تیزی سے نظام الملک پیچھے کو مڑا اور اس نے خنجر والے ہاتھ کی کلائی اپنے ہاتھ پر روک لی اور اس کلائی کو مضبوط سے پکڑ لیا اس کو اس نے زور سے جھٹکا دیا تو مزمل اس کے جسم کے ساتھ لگ گیا نظام الملک نے نیچے سے اپنا گھٹنا اوپر کو مارا جو مزمل کے پیٹ میں لگا مزمل درد کی شدّت سے دوہرا ہو گیا نظام الملک نے اس کی کلائی دونوں ہاتھوں سے مروڑی مزمل اس طرف گھوما نظام الملک نے ایسا داؤ چلا کہ مزمل پیٹھ کے بل فرش پر گرا اور اس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا نظام الملک نے اپنا پاؤں گرے ہوئے مزمل کی شہ رگ پر رکھ کر پورے جسم کا زور ڈالا مزمل تڑپنے لگا
نظام الملک نے ایک آواز کا اشارہ مقرر کر دیا تھا جو اس نے دیا اس کے دونوں دربان دوڑے آئے اور آگے یہ منظر دیکھا خنجر فرش پر پڑا تھا اور مزمل نظام الملک کے پاؤں کے نیچے تھا دربانوں نے مزمل کو پکڑ لیا
لے جاؤ نظام الملک نے کہا قید خانے میں بند کر دو میں اسے کل دیکھوں گا
دربانوں نے مزمل کو پکڑ لیا ہاتھ باندھ دیے اور اسے لے گئے
نظام الملک بوڑھا آدمی تھا اس میں اگر طاقت تھی تو وہ عقل و دانش کی اور ایمان کی طاقت تھی وہ مزمل جیسے گٹھے ہوئے جوان آدمی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھا لیکن اس کی روحانی قوت بیدار تھی پھر وہ صرف عالم دین ہی نہ تھا وہ سالار بھی تھا تیغ زنی اور تیر اندازی میں مہارت رکھتا تھا اس نے اسی روز سلطان ملک شاہ کو یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ وہ مزمل کو واپس اپنی طرف لے آئے گا
سلطان مکرم! نظام الملک نے کہا اب ہمیں الموت پر فوج کشی کرنی پڑے گی اس باطل کو فوجی طاقت سے ہی کچلا جا سکتا ہے حملہ آور فوج کا سپہ سالار میں خود ہوں گا آپ کی اجازت چاہیے ہاں خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا آپکو اجازت ہے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:27 }
مزمل آفندی کو جب گھسیٹتے دھکیلتے ہوئے قید خانے میں لے گئے اور اسے ایک کوٹھری میں بند کر دیا تو اس نے سلاخوں کو پکڑ کر زور زور سے ہلانا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا
تم مجھے قبر میں دفن کر دو تو بھی اس شخص کو قتل کرنے کے لیے نکل آؤں گا مزمل یہی الفاظ دہرائے چلا جا رہا تھا
نظام الملک نے جب حکم دیا تھا کہ مزمل آفندی کو قید خانے میں ڈال دو تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ میں اسے کل دیکھوں گا اگلے روز اس نے قید خانے میں جانے کا ارادہ کیا تو اسے خیال آگیا کہ پہلے معلوم کر لیا جائے مزمل کس حال میں ہے اور اس کا رد عمل اور رویہ کیا ہے نظام الملک نے قید خانے میں ایک آدمی کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ معلوم کرکے آئے کہ مزمل کس حال میں ہے
کچھ وقت بعد اسے بتایا گیا کہ مزمل رات بھر جاگتا چیختا اور چلاتا رہا ہے اور اب بھی وہ اسی کیفیت میں ہے
کیا کہتا ہے؟
نظام الملک نے پوچھا
کہتا ہے میں نظام الملک کو قتل کرکے مرونگا قید خانے سے آنے والے آدمی نے جواب دیا
نظام الملک کو شمونہ نے تفصیل سے بتایا تھا کہ حسن بن صباح کے یہاں کس طرح لوگوں کے دماغوں اور دلوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے سانچے میں ڈھال لیا جاتا ہے اور کس طرح انھیں قاتل بنایا جاتا ہے نظام الملک نے اپنے ایک خاص معتمد کو بلایا اور اسے سرگوشیوں میں کچھ اشارہ دے کر بھیج دیا اس شخص کے جانے کے بعد نظام الملک نے اپنے ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ طبیب نجم کو اپنے ساتھ لے آئے جس طبیب کو نظام الملک نے بلایا تھا اس کا پورا نام نجم بن انجم مدنی تھا وہ ضعیف العمر آدمی تھا مرو میں ہی نہیں اور سلطنت سلجوقی میں ہی نہیں بلکہ دوسری بادشاہیوں اور دور دور کے علاقوں میں بھی اس کی شہرت تھی اسے سلجوقی سلطان کچھ ایسے اچھے لگے کہ وہ یہیں کا ہو کے رہ گیا تھا وہ اسلام کا اور رسول اکرمﷺ کا شیدائی تھا وہ اتنا ضعیف ہو چکا تھا کہ اب کم ہی کبھی باہر نکلتا تھا اور عام قسم کی بیماریوں کے مریضوں کو دیکھنے کا اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا اور نہ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی لیکن وہ آرام بھی نہیں کرتا تھا کیمیاء گری اور تجربات میں لگا رہتا تھا
اسے جونہی نظام الملک کا پیغام ملا وہ سواری پر بیٹھا اور نظام الملک کے پاس پہنچ گیا نظام الملک کو اطلاع ملی کے طبیب نجم مدنی کی سواری آئی ہے تو وہ باہر کو دوڑ پڑا اور طبیب کا استقبال اس طرح کیا جس طرح اس نے سلطان ملک شاہ کا کبھی نہیں کیا تھا
محترم طبیب! نظام الملک نے کہا مجھے خود آپ کے پاس آنا چاہیے تھا میں آپ کو زحمت نہ دیتا
وزیراعظم! طبیب نجم مدنی نے اس کی بات کاٹ کر کہا کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ نے مجھے جس مقصد کے لیے بلایا ہے وہ بیان کر دیں؟
نظام الملک نے طبیب کو مزمل آفندی کے متعلق بتانا شروع کردیا اس نے تفصیل سے بتایا کہ مزمل اس کے پاس کس جذبے سے اور کس طرح یہاں پہنچا تھا اور پھر اس نے ایک جنگ میں کیا کارنامہ سر انجام دیا تھا اور پھر اس نے طبیب کو تفصیل سے بتایا کہ مزمل آفندی نے اپنے جینے کا یہی ایک مقصد بنا لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا پھر اس نے طبیب کو بتایا کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کے قتل کے ارادے سے چلا گیا لیکن چالیس بیالیس روز بعد واپس آیا تو اس کی شکل و صورت اور چال ڈھال تو وہی تھی لیکن وہ بالکل ہی بدل گیا تھا
اس نے آتے ہی مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا نظام الملک نے کہا یہ تو مجھے قبل از وقت معلوم ہو گیا تھا کہ وہ مجھے قتل کرے گا اس لئے میں بچ گیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے یہ موقع میں نے خود فراہم کیا تھا کہ وہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کرے
نظام الملک نے شمونہ کا حوالہ دے کر طبیب کو تفصیل سے بتایا کہ اس لڑکی نے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ مزمل مجھ پر قاتلانہ حملہ کرے گا نظام الملک نے طبیب کو شمونہ کے متعلق بھی سب کچھ بتایا اور اسے قاتلانہ حملے کا اور مزمل کی گرفتاری کا واقعہ سنایا
کیا وہ اس لڑکی شمونہ کو چاہتا ہے ؟
طبیب نے چونک کر پوچھا
چاہتا ہی نہیں محترم طبیب! نظام الملک نے جواب دیا وہ تو اس لڑکی کو عشق کی حد تک چاہتا ہے اور اگر کسی انسان کے آگے سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو مزمل اس لڑکی کے آگے سجدے کرتا رہتا
اس لڑکی کو یہیں بلا لو طبیب نے کہا آپ نے ابھی تک مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ چاہتے کیا ہیں کیا آپ اس شخص مزمل آفندی کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اور مجھ سے مشورہ لے رہے ہیں
اس کی قسمت کا فیصلہ کرنا میرے لیے کوئی مشکل نہیں تھا نظام الملک نے کہا فیصلہ کرنا ہوتا تو مجھے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں تھی میں اسے اسی وقت اپنے محافظوں کو حکم دے کر قتل کروا دیتا اور کہتا کہ اس کی لاش کو دفن نہیں کرنا کہ اسے کتے اور گدھے کھا جائیں لیکن محترم طبیب! میں مزمل آفندی جیسے قیمتی جواں سال اور خوبرو آدمی کو ضائع نہیں کرنا چاہتا میں شاید آپ کو بتا نہیں سکتا کہ اس جوان سال آدمی میں اسلام کی کس قدر شدید اور جذباتی محبت ہے میرا ایک مقصد تو یہ ہے کہ میں اسے واپس اپنی اصلی حالت میں لے آؤں دوسرا مقصد یہ ہے جو صرف آپ پورا کر سکتے ہیں وہ یہ کہ اسے حسن بن صباح کے یہاں کسی ایسے عمل سے گزارا گیا ہے جس نے اس کے دل و دماغ کو الٹا دیا ہے اس کی نگاہ میں دوست و دشمن بن گئے ہیں میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنے تجربے کی روشنی میں دیکھیں کہ وہ باطنی کس طرح اچھے بھلے انسان کو اپنوں کا ہی قاتل بنا دیتے ہیں
عزیز نظام الملک! طبیب نے کہا آپ نے یہ بات آج سوچی ہے میں بڑے لمبے عرصے سے اس مسئلے پر کام کر رہا ہوں ایک مدت گزری مجھے پتہ چلا کہ باطنی لوگوں کی سوچوں پر اور خیالوں پر قابض ہو کر انہیں مکمل ابلیس اور مکمل انسان کُش بلکہ آدم خور بنا رہے ہیں میں نے اپنے آدمی وہاں بھیجے جنہوں نے مجھے کچھ ضروری باتیں بتائیں یہ حشیش کا کمال ہے اور پھر یہ کمال ہے ان لوگوں کا یعنی ان باطنیو کے اپنے دماغ کا کہ انھوں نے انسانی فطرت کی سب سے بڑی کمزوری کو استعمال کیا ہے
محترم طبیب! نظام الملک نے کہا یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کس طرح لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرتے اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کا کوئی توڑ ہے؟
جی ہاں! طبیب نے جواب دیا اس کا توڑ میں نے سال ہا سال کی محنت سے تیار کیا ہے لیکن میرے عزیز نظام الملک! ہم صرف اس شخص کو واپس اس کی اصلیت میں لا سکیں گے جو مزمل جیسا اکا دکا ہمارے پاس پہنچ جائے گا حسن بن صباح اور اسکے ابلیسی گروہ نے اپنے زیر اثر علاقوں میں اجتماعی طور پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اس کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہیں ہاں آپ کے پاس اس کا ایک علاج موجود ہے وہ کریں اور اس ابلیسی فتنے کو ختم کریں یہ ہے فوج کشی حملہ کریں حسن بن صباح احمد بن عطاش اور ان کے خاص گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں اور اس کے بعد اسلام کی تبلیغ کریں
یہ تو ہم کر ہی رہے ہیں نظام الملک نے کہا میں نے سلطان ملک شاہ سے حملے کی اجازت لے لی ہے اور اس حملے کی قیادت میں خود کرونگا
لیکن آپ کو بہت کچھ سوچ کر قدم اٹھانا ہوگا طبیب نجم مدنی نے کہا میں نے کسی زمانے میں قلعہ الموت دیکھا تھا اب تو سنا ہے کہ اس کے دفاعی انتظامات اور زیادہ مضبوط کر دیے گئے ہیں آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ قلعہ بلندی پر ہے
ہاں محترم طبیب! نظام الملک نے کہا یہ فوجی اور جنگی مسئلہ ہے یہ مجھ پر چھوڑیں آپ اتنا کریں کہ مزمل آفندی کے دماغ کو اس کی اصلی حالت میں لے آئیں
قید خانے کی ایک کوٹھری میں مزمل آفندی چیخ چلا کر تھک گیا تھا اور دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے فرش پر بیٹھا تھا اس کا سر جھکا ہوا تھا دروازے کی سلاخوں کے باہر ایک آدمی آ کر رک گیا
مزمل! اس آدمی نے سرگوشی کی
مزمل نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا
مزمل آفندی! اس آدمی نے اب ذرا بلند سرگوشی کی یہاں آؤ
مجھے کیوں بلا رہے ہو؟
مزمل آفندی نے گرج کر کہا یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں
آہستہ بول احمق آدمی! اس آدمی نے ذرا اور بلند سرگوشی میں کہا میں تمہارا دوست ہوں یہاں آؤ
مزمل آفندی سلاخوں کے قریب آ کر اس آدمی کے سامنے بیٹھ گیا
مجھے آج صبح پتہ چلا ہے کہ تمہیں قید کر دیا گیا ہے اس آدمی نے کہا میں تمہیں یہاں سے فرار کرا دوں گا خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو انہیں تنگ نہ کرو ورنہ یہ تمہیں اتنا مارے پیٹیں گے کہ تم جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھو گے میں جانتا ہوں کہ تم الموت سے کیوں یہاں آئے تھے تمہیں جن لوگوں نے بھیجا ہے میں ان کا جاسوس ہوں اور مجھے ہر بات کا علم ہے اس قید خانے میں میرا اثر و رسوخ چلتا ہے میں بھی نظام الملک کو قتل کرنا چاہتا ہوں لیکن الموت سے امام حسن بن صباح کا پیغام ملا ہے کہ یہ کام مزمل آفندی کرے گا مجھے یہ فرض سونپا گیا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں اور تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو میں تمہیں اس میں سے نکالوں تم آرام سے اور مکمل خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو تمہیں یہاں سے نکلوانا اور واپس الموت بھیج دینا میرا کام ہے
کیا میں نظام الملک کو قتل کر سکوں گا؟
مزمل نے پوچھا
پہلا کام تمہیں یہاں سے فرار کرانا ہے اس آدمی نے کہا اس کے بعد دیکھنا کہ نظام الملک کو قتل کرنے کا موقع مل سکتا ہے یا نہیں اگر دو یا تین دن موقع نہ ملا تو تمہیں واپس الموت بھجوا دیں گے اور موقع پیدا کرکے تمہیں واپس لے آئیں گے
ایک کام کر سکتے ہو ؟
مزمل آفندی نے کہا شمونہ نام کی ایک لڑکی یہاں ہے
ہاں مزمل! اس آدمی نے کہا میں اسے جانتا ہوں یہ بھی کیا جاسوسی ہوئی کہ میں شمونہ کو جان نہ سکتا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت وہ نظام الملک کے یہاں گئی ہوئی ہے
میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کے وہ ٹھیک تو ہے مزمل نے کہا کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے بھی پریشان کیا جا رہا ہو
نہیں! اس آدمی نے کہا اسے کوئی پریشانی نہیں اگر تمہارے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اسے بھی مشکوک سمجھا گیا ہوتا تو اسے تمہارے ساتھ ہی قید خانے میں پھینک دیا گیا ہوتا تم چاہو گے تو اسے بھی یہاں سے نکلوا کر تمہارے ساتھ بھیج دیں گے
مزمل آفندی یوں مطمئن ہو گیا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر پانی پھینک دیا گیا ہو
اب تمہارے کھانے پینے کا انتظام میرے ہاتھ میں ہوگا اس آدمی نے کہا میری کوشش یہ ہوگی کہ میں خود تمہیں کھانا دینے آیا کرو اگر میں نہ آ سکوں تو جو کوئی آدمی جو کچھ بھی کھانے پینے کے لئے لائے وہ آرام اور اطمینان سے لے کر کھا لینا یوں ظاہر کرو جیسے تم اندر سے مر گئے ہو اور اب تم کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کروگے، مجھے اب یہاں سے چلے جانا چاہیے
ہاں بھائی میرے! مزمل نے کہا میں تم پر بھروسہ کروں گا تم جاؤ لیکن میرے فرار کا انتظام جلدی کرو میں کوشش یہ کروں گا کہ نظام الملک کو قتل کر کے واپس الموت جاؤں
ایسا ہی ہوگا مزمل! اس شخص نے کہا اور وہ چلا گیا
شمونہ نظام الملک کے خاص کمرے میں بیٹھی طبیب نجم مدنی کو سنا رہی تھی کہ وہ جب حسن بن صباح کے ساتھ تھی تو کیا کیا طریقے استعمال کر کے اپنے مطلب کے لوگوں کو اپنا شکار بنایا جاتا تھا شمونہ نے طبیب کو یہ بھی بتایا کہ اسے اور اس جیسی لڑکیوں کو تربیت دے کر استعمال کیا جاتا تھا
محترم بزرگ! شمونہ نے کہا حسن بن صباح کے پاس جادو بھی ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ جادو اس نے احمد بن عطاش سے سیکھا ہے لیکن یہ جادو کم ہی استعمال کیا جاتا ہے اس کی بجائے ایک اور جادو استعمال کیا جاتا ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا وہ جادو میں ہوں مجھے دیکھ لیں میں نے یہ جادو اپنے ہاتھوں اور اپنی زبان سے چلایا بھی ہے اور چلتا دیکھا بھی ہے
تو اب میری بات سنو شمونہ! طبیب نجم نے کہا اب تمہیں یہی جادو مزمل آفندی پر چلانا ہے میرا خیال ہے کہ تمہارا جادو آسانی سے چل جائے گا کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ تم سے دلی نہیں بلکہ روحانی محبت کرتا ہے
ہاں میرے بزرگ! شمونہ نے کہا مزمل کو واپس اسی مقام پر لانے کے لیے میں تو اپنی جان بھی قربان کر دوں گی آپ مجھے کہیں گے کہ اپنی جان دے دو تو مزمل اپنی اصلی حالت میں آ جائے گا تو میں اس کے لیے تیار ہوں
ایسی ضرورت نہیں پڑے گی طبیب نے کہا میں تمہیں کچھ باتیں اور کچھ طریقہ بتاؤں گا تم نے اس کے مطابق عمل کرنا ہے
اس زمانے میں برین واشنگ کی اصطلاح سے کوئی واقف نہیں تھا لیکن برین واشنگ کا عمل موجود تھا اور حسن بن صباح برین واشنگ کا غیر معمولی طور پر ماہر تھا اور اس نے جو طریقے وضع کیے تھے انہیں آج کے ماہرین نفسیات اور ڈاکٹر بھی مستند مانتے ہیں
میرے عزیز نظام الملک! طبیب نجم مدنی نے کہا اللہ نے ہر جاندار کا جوڑا پیدا کیا ہے نر اور مادہ کیا آپ نے جانوروں کو دیکھا نہیں کہ ایک مادہ کی خاطر وہ ایک دوسرے کا خون بہا دیتے ہیں انسان کو خدا نے عقل دی ہے جذبات دیے ہیں اور کچھ حِسّیں دی ہیں اس لئے انسانی نر اور مادہ ایک دوسرے کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے طریقے سوچ لیتے ہیں کہ انسان خود بھی حیران رہ جاتا ہے مرد کی فطرت میں عورت کی طلب بڑی شدید ہوتی ہے مرد نے جب بھی دھوکا کھایا عورت کے ہاتھوں کھایا اس لڑکی شمونہ جیسی عورت ایک دلکش نشہ بن کر اپنی پسند کے آدمی پر طاری ہوجاتی ہے اگر عورت خود غرض ہے اور وہ اپنی پسند کے مرد سے کوئی دنیاوی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے مثلا اس کے مال و اموال پر قبضہ کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی نسوانیت کے نشے کے ساتھ کوئی اور نشہ بھی شامل کر لیتی ہے جو وہ دھوکے سے اس شخص کو دیتی رہتی ہے اس کے ساتھ وہ پیار و محبت کی ایسی ایسی مصنوعی حرکتیں کرتی ہے کہ اس کے چنگل میں آیا ہوا مرد اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتا رہتا ہے حسن بن صباح یہی نسخہ استعمال کر رہا ہے میں اس کی عقل کی تعریف کرتا ہوں کہ حشیش کو جس طرح اس نے استعمال کیا ہے وہ آج تک اور کسی کے دماغ میں نہیں آیا میں مزمل آفندی کے دماغ پر جو حشیش کے اثرات ہیں وہ اتار دوں گا
کیا آپ اسے کوئی دوائی دے گے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا ہے؟
نظام الملک نے پوچھا
ہاں! طبیب نجم نے جواب دیا اسے دوائی پلائی جائے گی لیکن آپ نے بتایا ہے کہ وہ قید خانے کی کوٹھری میں بہت زیادہ ادھم برپا کررہا ہے آپ اسے دوائی کس طرح پلائیں گے یہ کام آپ کو کرنا ہو گا
ہاں محترم طبیب! نظام الملک نے کہا میں نے ایک انتظام تو کیا ہے کہ اس شخص پر قابو پایا جا سکے ذرا ٹھہریے میں معلوم کرتا ہوں کہ وہ آدمی واپس آیا یا نہیں،
نظام الملک نے دربان کو بلا کر پوچھا کہ وہ آدمی آیا ہے کی نہیں دربان کو معلوم تھا کہ کس شخص کے متعلق پوچھا جا رہا ہے اس نے بتایا کہ وہ ابھی ابھی آیا ہے نظام الملک نے اسے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیج دو دربان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد وہی آدمی جو قید خانے میں حسن بن صباح کا جاسوس بن کر مزمل آفندی کے پاس گیا اور اسے ٹھنڈا کر آیا تھا اندر آیا
کہو بھائی! نظام الملک نے اس سے پوچھا کیا کرکے آئے ہو
سب ٹھیک کر آیا ہوں اس شخص نے جواب دیا وہ بالکل ٹھنڈا ہوگیا ہے میں نے اسے کہا ہے کہ آئندہ اس کے کھانے پینے کا انتظام میں کروں گا اس نے بخوشی یہ صورت قبول کر لی ہے اس نے مجھ پر مکمل اعتماد کیا ہے
آفرین! نظام الملک نے کہا پھر وہ طبیب سے مخاطب ہوا اب اسے وہ دوائی آسانی سے پیلائی جا سکے گی جو آپ اسے دینا چاہیں گے
نظام الملک نے اس آدمی کو باہر بھیج دیا
میں آپ کو خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں طبیب نے کہا دوائی تو میرے پاس تیار ہے یہ میرا پہلا تجربہ ہو گا اس دوائی کا اثر یہ ہو گا کہ مزمل بے ہوش ہو جائے گا یا یوں کہہ لے کے سو جائے گا، ایسا ہونا تو نہیں چاہیے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ دوائی کی مقدار ایک آدھ قطرہ بھی زیادہ ہوگئی تو اس شخص کی موت واقع ہو سکتی ہے
نہیں میرے بزرگ! شمونہ نے تڑپ کر کہا اور طبیب کے دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر التجا کے لہجے میں بولی ایسا نہ کہیں جان لینی ہے تو میری لے لیں موت واقع ہو تو میری ہو مجھے کوئی طریقہ بتائیں اگر کہیں تو میں اس کی کال کوٹھری میں بند ہو جاتی ہوں شب و روز اس کے ساتھ رہوں گی اور مجھے امید ہے کہ اسے واپس اپنی اصلی ذہنی اور جذباتی حالت میں لے آؤں گی
شمونہ بیٹی! نظام الملک نے کہا ہم مزمل جیسے قیمتی آدمی کو زیادہ دیر تک ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتے میں بھی تمہاری طرح مزمل کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں
گھبراؤ نہیں لڑکی! طبیب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا میں نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ ضرور ہی مر جائے گا میں نے صرف اظہار کیا ہے ایک خطرے کا ہمیں یہ خطرہ مول لینے دو زیادہ تر کام تو تم نے کرنا ہے اور یہ میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم نے کیا کرنا ہے
محترم طبیب! نظام الملک نے کہا آپ دوائی دیں صرف یہ خیال رکھیں کہ اس کی مقدار کم رکھیں میں نہیں سمجھتا کہ جڑی بوٹیوں سے بنائی ہوئی دوائی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے
میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کے اس دوائی میں کیا کیا ڈالا گیا ہے طبیب نے کہا یہ نایاب جڑی بوٹیوں سے بنی ہے جو ہمارے علاقے میں شاید ہی کہیں نظر آئے اس میں صحرائی سانپ کے زہر کا کشتہ بھی شامل ہے اس میں کچھوے کی چربی بھی ایک خاص عمل سے گزار کر شامل کی گئی ہے یہ تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ صحرائی سانپ ملنا کتنا دشوار ہے صحرا کہاں ہے اور کون وہاں سانپ کی انتظار میں بیٹھا رہتا ہوگا بہرحال میں نے یہ سانپ حاصل کیا اور اس کا زہر مار کر دوآئی میں شامل کیا
طبیب نے شمونہ اور نظام الملک کو کچھ ہدایات دینی شروع کر دیں
سورج غروب ہو گیا قید خانے کی راہداریوں کی مشعلیں جلا دی گئیں کچھ دیر بعد قیدیوں میں کھانا تقسیم ہونے لگا
ایک سنتری نے مزمل آفندی کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور خود ایک طرف ہو گیا کوٹھری میں وہ شخص داخل ہوا جو مزمل کو ٹھنڈا کر گیا تھا اس نے کھانا اٹھا رکھا تھا سالن اور روٹیوں کے علاوہ ایک پیالہ دودھ کا بھرا ہوا تھا مزمل یہ کھانا دیکھ کر حیران رہ گیا
تمہارے چہرے پر حیرت کیوں؟
آدمی نے کہا میں نے تمہیں کہا تھا کہ آئندہ تمہارے کھانے کا انتظام میں کیا کروں گا تمہیں اب یہی کھانا ملا کرے گا میں نے تمہارے فرار کا انتظام کر لیا ہے تمہیں دو یا تین دن انتظار کرنا پڑے گا آرام سے کھانا کھاؤ اور یہ دودھ پی لو میں جا رہا ہوں
اس شخص نے یہ بات مزمل کے کان میں اتنی دھیمی آواز میں کہی تھی کہ سنتری کو سنائی نہیں دیتی تھی کوٹھڑی کا دروازہ پھر بند ہوکر مقفل ہو گیا سنتری اس راہداری میں جس میں مزمل آفندی کی کوٹھری تھی آہستہ آہستہ ٹہل رہا تھا یہ اس کی اور اس جیسے سنتریوں کی ہر رات کی ڈیوٹی تھی لیکن یہ سنتری جب مزمل کی کوٹھری کے آگے سے گزرتا تھا تو اس کے قدم رک جاتے اور مزمل کو وہ سلاخوں میں سے غور سے جھانکتا تھا مزمل کھانا کھا رہا تھا سنتری دوسرے چکر پر آیا تو دیکھا کہ مزمل نے دودھ کا پیالہ منہ سے لگا رکھا تھا
سنتری آگے نکل گیا اور کہیں رک گیا تھا کچھ وقت گزار کر وہ پھر راہداری میں آیا اور حسب معمول مزمل کی کوٹھری کے سامنے آ کر بہت آہستہ ہو گیا اس نے دیکھا کہ پیالہ فرش پر پڑا تھا مزمل نے سارا دودھ پی لیا تھا اور وہ دیوار کے ساتھ بیٹھ لگائے بیٹھا تھا اس کا سر ڈول رہا تھا اور آنکھیں بند ہو رہی تھیں سنتری دو چار قدم آگے گیا اور رک گیا وہ پھر واپس آیا تو دیکھا کہ مزمل فرش پر پیٹھ کے بل پڑا تھا اور اس کے خراٹے سنائی دے رہے تھے سنتری دوڑ پڑا اور راہداری سے نکل گیا
تھوڑی ہی دیر بعد وہی شخص آیا جو مزمل کا دوست بن کر اسے کھانا اور دودھ دے گیا تھا سنتری اس کے ساتھ تھا اس کے اشارے پر سنتری نے دروازہ کھولا وہ شخص اندر گیا اور مزمل کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا اس نے مزمل کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہلایا
مزمل بیدار نہ ہوا
دوسری بار اس آدمی نے مزمل کے سر کو ذرا زور سے ہلایا پھر بھی مزمل کی آنکھ نہ کھلی وہ آدمی اٹھا اور سنتری کو یہ کہہ کر تیزی سے نکل گیا کہ کوٹھری کو مقفل کر دو
وہ آدمی دوڑتا ہوا راہداری سے نکلا دوڑتا ہوا ہی قید خانے سے نکلا باہر اس کا گھوڑا کھڑا تھا اس پر سوار ہو کر اس نے ایڑ لگا دی قیدخانہ شہر سے ذرا دور ویران اور بنجر سے علاقے میں تھا
اس نے گھوڑا ملک شاہ کے دروازے پر جا روکا اور وہ کود کر گھوڑے سے اترا وہ دوڑتا ہوا اندر چلا گیا دربان اور محافظ کھڑے تھے لیکن انہوں نے اسے نہ روکا وہ جانتے تھے کہ یہ شخص آئے تو اسے روکنا نہیں
وہ ایک کمرے میں چلا گیا جہاں طبیب نجم مدنی نظام الملک اور شمونہ موجود تھے
کیا خبر ہے؟
نظام الملک نے پوچھا
بڑی اچھی خبر ہے اس آدمی نے جواب دیا وہی اثر ہوا جو محترم طبیب نے بتایا تھا وہ اتنی گہری نیند سو گیا ہے کہ میں نے اسے زور زور سے ہلایا اس کے سر کو جھنجوڑا لیکن اس کے پپوٹوں میں ذرا سی بھی حرکت نہیں ہوئی
کیا وہ زندہ ہے؟
شمونہ نے تڑپ کر پوچھا ہاں وہ زندہ ہے اس آدمی نے جواب دیا کیا میں اتنا احمق نظر آتا ہوں کہ مجھے سوئے ہوئے اور مرے ہوئے آدمی میں فرق معلوم نہ ہو
نظام الملک! طبیب نجم نے کہا اسے یہاں لے آؤ
کچھ دیر بعد مزمل آفندی کی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا ایک چارپائی کوٹھری میں داخل ہوئی جس کے ساتھ چار آدمی تھے چارپائی فرش پر رکھ کر ان آدمیوں نے فرش پر پڑے ہوئے مزمل کو اٹھایا اور چارپائی پر ڈال دیا اسمیں بیداری کے کوئی آثار نہیں تھے
ان آدمیوں نے چارپائی اٹھائی اور کوٹھری سے سے نکل گئے پھر وہ قید خانے سے بھی نکل گئے
نظام الملک طبیب اور شمونہ بے تابی سے انتظار کر رہے تھے ان میں شمونہ بہت ہی بے چین اور بے تاب تھی اس کے حسین چہرے پر گھبراہٹ اور دل میں دعائیں تھیں وہ بار بار باہر دیکھتی تھی
آخر وہ لوگ مزمل کو اٹھائے ہوئے آگئے اور چارپائی اسی کمرے میں لا رکھی شمونہ نے لپک کر مزمل کی کلائی پکڑ لی اور اس کی نبض محسوس کی اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان کا تاثر آگیا مزمل آفندی زندہ تھا
مزمل کو اٹھا کر پلنگ پر ڈال دیا گیا اور وہ آدمی چارپائی اٹھا کر کمرے سے نکل گئے شمونہ! طبیب نے مزمل کی نبض پر انگلیاں رکھے ہوئے کہا خطرہ ٹل گیا ہے نبض بالکل ٹھیک چل رہی ہے اگر دوائی کا اثر وہ ہوتا جو میں نے بتایا تھا کہ ہو سکتا ہے تو مزمل کی نبض اس وقت تک خاموش ہو چکی ہوتی ہم چلے جائیں گے تم یہاں رہوں گی اور اگر تمہیں ساری رات جاگنا پڑا تو جاگتی رہنا میں نے تمہیں ساری بات بتا دی ہے اور اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ تم نے کیا کرنا ہے دودھ وہ رکھا ہے یہ جاگ اٹھے تو پہلا کام یہ کرنا کے اسے یہ دودھ پلا دینا اور جو کچھ تم نے کرنا ہے وہ میں تمہیں بتا چکا ہوں یہ پھر سو جائے گا اسے زبردستی بیدار کرنے کی کوشش نہ کرنا تم خود بھی سو جانا یہ بہت دیر بعد کل دن کو کسی وقت جاگے گا آج رات کے پچھلے پہر اسے کچھ بیدار ہونا چاہیے
اور شمونہ! نظام الملک نے کہا دروازے کے باہر چار آدمی ہر وقت موجود رہیں گے کوئی مشکل پیش آ جائے یا مزمل بیدار ہو کر پھر ہنگامہ برپا کرے یا بھاگنے کی کوشش کرے تو یہ آدمی اسے سنبھال لیں گے
اب یہ سوچ لو شمونہ! طبیب نجم نے کہا اب تم پر منحصر ہے کہ اسے سنبھال لیتی ہو یا مزید بگاڑ دیتی ہو تم خود عقل والی ہو اور مردوں کو لگام ڈالنا جانتی ہو یہ تو پہلے ہی تمہاری محبت میں گرفتار ہے
شمونہ نے انہیں تسلی دی کہ وہ مزمل کو سنبھال لے گی وہ دونوں کمرے سے نکل گئے اور شمونہ اسی پلنگ پر بیٹھ گئی جس پر مزمل پیٹھ کے بل پڑا دھیمے دھیمے خراٹے لے رہا تھا
یہ کمرہ خاص طور پر مزمل آفندی کے لیے تیار کیا گیا تھا نظام الملک کے گھر کا کوئی کمرہ اسی طرح تیار کیا جا سکتا تھا لیکن طبیب نے وہ مناسب نہ سمجھا کیونکہ مزمل نظام الملک کی دشمنی لے کر آیا تھا خطرہ تھا کہ بیداری کے بعد اسے پتہ چلتا کہ وہ نظام الملک کے گھر میں ہے تو وہ پھر بے قابو ہو سکتا تھا نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کو اس سارے واقعے سے باخبر رکھا ہوا تھا طبیب نے سلطان سے کہا تھا کہ وہ اس کے محل کا ایک کمرہ استعمال کرنا چاہتا ہے سلطان نے بخوشی اجازت دے دی تھی
اس کمرے کی زیب و زینت کا اہتمام طبیب نے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کیا تھا بستر نہایت نرم ملائم اور آرام دہ تھا کمرے کے دروازوں اور کھڑکیوں پر خاص رنگ کے پردے لٹکائے گئے تھے قالین بیش قیمت اور دلفریب تھا کمرے میں خاص قسم کے پھولوں والے پودے جو گملوں میں لگے ہوئے تھے رکھوائے گئے تھے طبیب نے ایک خاص قسم کا عطر تیار کر رکھا تھا جو اس نے تھوڑا تھوڑا بستر پر اور پردوں پر مل دیا تھا
شمونہ کے لیے طبیب نے کچھ سوچ کر انتخاب کیا تھا کہ یہ کون سا لباس پہنے اس نے کہا تھا کہ وہ بالوں کو باندھ کر نہ رکھے بلکہ بال کھلے چھوڑ دے اسے قمیض ایسی پہنائی گئی تھی کہ اس کے کندھے اور بازو ننگے رکھے گئے تھے طبیب نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح استعمال کرے گی طبیب نے زور دے کر کہا تھا کہ اپنے جسم کو بچا کر رکھے اور اپنی روح کو پیار اور محبت کے ذریعے مزمل کی روح پر غالب کر دے شمونہ نے طبیب سے کہا تھا کہ وہ اس کھیل کی مہارت اور تجربہ رکھتی ہے مزمل کے معاملے میں سہولت یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے تھے
شمونہ سوئے ہوئے مزمل کو دیکھتی رہی وہ اس کے بیدار ہونے کا انتظار کر رہی تھی کبھی وہ اٹھ کھڑی ہوتی اور کمرے میں ٹہلنے لگتی کبھی وہ مزمل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگتی اس کا انداز ایک ماں جیسا تھا جس کا بڑا ہی پیارا بچہ سویا ہوا ہو
رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی شمونہ کو غنودگی آنے لگی تھی وہ سو ہی جانے کو تھی کہ مزمل کے جسم کو حرکت ہوئی شمونہ بیدار ہوگئی اور مزمل کے پلنگ پر جا بیٹھی مزمل نے کروٹ بدلی شمونہ کو معلوم تھا کہ اب اس نے کیا کرنا ہے
مزمل نے کروٹ اس طرح بدلی تھی کہ اس کا منہ شمونہ کی طرف تھا شمونہ اس کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی تھی مزمل کا ایک ہاتھ شمونہ کی گود میں آ گیا شمونہ وہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے آہستہ آہستہ مسلنے لگی پھر اس نے مزمل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں
مزمل کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھلنے لگیں
مزمل! شمونہ نے اس پر جھک کر اپنے ہونٹ مزمل کے کان کے قریب کرکے کہا تم میرے پاس آ گئے ہو اب کوئی ہمیں جدا نہیں کر سکتا
مزمل کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں اور وہ پیٹھ کے بل ہو گیا شمونہ اس پر اس طرح جھک گئی کے اس کے ریشم جیسے کھلے بال مزمل کے گالوں اور گردن پر رینگنے لگے
میں کہاں ہوں ؟
مزمل نے خوف ناک آواز میں پوچھا تم کون ہو ؟
تم میرے پاس ہو شمونہ نے پیار بھری آواز میں کہا تم اس پیار کی جنت میں آگئے ہو جہاں کوئی کسی کا خون نہیں بہا سکتا میں ہوں تمہاری روح
میں قید خانے میں ہوں ؟
مزمل نے پوچھا جیسے نیند میں بول رہا ہو
ہاں تم میرے دل کے قید خانے میں بند ہو شمونہ نے پہلے سے زیادہ پیاری آواز میں کہا تم میری محبت کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہو
مزمل آفندی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں اس کے اور مزمل آفندی کے چہرے کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا اس کا ایک ہاتھ اپنے آپ ہی شمونہ کے بالوں میں الجھ گیا شمونہ کے ہونٹوں پر تبسم تھا اس نے آنکھیں مزمل کی آنکھوں میں ڈال دیں طبیب نے ہدایات دی تھی ان کے مطابق اس نے مزمل کے ساتھ باتیں کیں اس کا اثر یہ ہوا کہ مزمل ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا وہ کمرے کو دیکھنے لگا اس کی نظریں سارے کمرے میں گھوم گئیں
شمونہ! مزمل نے دھیمی سی اور حیرت زدہ سی آواز میں پوچھا تم کب آئی؟
تم جھوٹ تو نہیں بولوں گی میں کہاں سویا تھا؟
میں نے میں نے شمونہ! میں نے شاید خواب دیکھا ہے اس کے ماتھے پہ شکن ظاہر ہوئی جیسے وہ ذہن کے ویرانے میں کچھ ڈھونڈ رہا ہو لیکن اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا
شمونہ نہیں چاہتی تھی کہ مزمل ایک بار پھر سو جائے وہ اسے بیدار رکھنا چاہتی تھی اور اسے واپس اسی ذہنی کیفیت میں لانا چاہ رہی تھی جس کیفیت میں وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا تھا لیکن طبیب مدنی نے اسے کہا تھا کہ یہ جاگ اٹھے تو اس کے ساتھ ایک دو باتیں کرنا اور یہ تمہیں پہچان لے کہ تم شمونہ ہو اور اس کے بعد اسے پھر دودھ کا پیالہ دے دینا شمونہ کو معلوم تھا کہ اس دودھ میں وہی دوائی شامل کی گئی ہے لیکن اس کی مقدار اب کم رکھی گئی ہے
مزمل! شمونہ نے اسکے گالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا تم بڑے لمبے اور بڑے کٹھن سفر سے واپس آئے ہو میں تمہیں دودھ پلاؤ گی پھر سوجاؤ تھکن دور ہو جائے گی نا تو میں تمہارے پاس بیٹھو گی اور پھر ہم پھر وہی پیار کی باتیں کریں گے
شمونہ اٹھی اور دودھ کا پیالہ اٹھا لائی مزمل اسے حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا شمونہ نے پیالہ اپنے ہاتھوں میں ہی رکھا اور اس کے ہونٹوں سے لگا دیا مزمل نے دو تین سانسوں میں دودھ پی لیا دودھ میں اتنا میٹھا ڈالا گیا تھا جس سے دوائی کا ذائقہ دب گیا تھا
مزمل پھر غنودگی میں چلا گیا شمونہ کو طبیب نے بتایا تھا کہ یہ پھر غنودگی میں جائے گا تو اس کے ساتھ کیا باتیں کرنی ہے اور اس وقت تک یہ باتیں کرنی ہے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ یہ سو گیا ہے
شمونہ نے اب جو پیار کی باتیں شروع کیں تو اس کے اپنے آنسو نکل آئے پیار کی ان باتوں میں ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت کی بات نہیں تھیں بلکہ بنی نوع انسان کی محبت ان باتوں میں رچی بسی ہوئی تھیں طبیب کا در اصل مطلب یہ تھا کہ غنودگی کے عالم میں مزمل کے ذہن سے تخریب کاری اور قتل کے خیالات نکال کر اس میں پیار و محبت اور روحانیت کا نور بھرا جائے شمونہ نے ایسے پر اثر طریقے سے یہ باتیں آہستہ آہستہ کیں کہ مزمل نے شمونہ کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہونٹوں سے لگایا اور اس کے ساتھ ہی وہ گہری نیند سو گیا شمونہ کو ایسی بری نیند آئی تھی کہ وہ بھی وہیں لڑھک گئی اور سو گئی
صبح طلوع ہوئی تو طبیب اور نظام الملک یہ دیکھنے آئے کہ رات کس طرح گزری ہے نظام الملک نے دروازے پر دستک دی اور انتظار کرنے لگا خاصی دیر گزر جانے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب نہ آیا نہ شمونہ باہر نکلی تو اس نے ایک بار پھر دستک دی پھر بھی کوئی جواب نہ آیا تو نظام الملک نے دروازہ کھولا اور طبیب کو ساتھ لے کر وہ اندر چلا گیا دیکھا کہ شمونہ اس طرح گہری نیند سوئی ہوئی تھی کہ اس کا سر مزمل کے سینے پر تھا اور اس کی ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹک رہی تھیں مزمل ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا طبیب نے وہ پیالہ دیکھا جس میں رات کو پلانے والا دودھ کا پیالہ خالی تھا
آئے نظام الملک! طبیب نے کہا شمونہ نے اسے رات کو دودھ پلا دیا تھا پیالہ خالی پڑا ہے یہ دوپہر کے بعد جاگے گا شمونہ شاید جلدی جاگ اٹھے اس کی نیند بتاتی ہے کہ یہ رات بھر سو نہیں سکی
دونوں کمرے سے نکل گئے
تین دن اور رات مسلسل مزمل کو یہ دوائی دودھ میں ملا کر پلائیں جاتی رہی ہر بار دوائی کی مقدار کم کرتے چلے گئے وہ جب بیدار ہوتا تھا تو شمونہ اس کے ساتھ اس طرح کی باتیں کرتی تھیں جس طرح اسے طبیب نجم مدنی نے بتائی تھی اس وقت مزمل کا ذہن نیم بیدار ہوتا تھا اور شمونہ جس پیارے انداز میں بات کرتی تھی وہ اس کے ذہن میں اترتی چلی جاتی تھی
یہ عمل طبیب کی نگرانی میں جاری رکھا گیا اور چوتھے دن اسے کوئی دوا نہ دیں گی جب وہ بیدار ہوا تو طبیب نے اس کے پاس بیٹھ کر اس کی کنپٹییاں اپنے دونوں انگوٹھوں سے آہستہ آہستہ ملنی شروع کردیں اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ باتیں کیں یہ ایک قسم کا وہ عمل تھا جسے آج ہپناٹائزم کہتے ہیں یہ برین واشنگ جیسا ہی ایک عمل تھا جو سات آٹھ روز چلتا رہا اور کامیاب رہا مزمل خاصی تیزی سے اپنے آپ میں آ گیا طبیب کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اصلی ذہنی کیفیت میں آجائے گا طبیب کی دوائی کا اپنا اثر تو تھا ہی خود طبیب نے کہا کہ اس دوائی کے اثر کو تیز اور کئی گناہ زیادہ کرنے میں شمونہ کا ہاتھ تھا ایک روز نظام الملک مزمل کے سامنے آیا کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ مزمل کا رد عمل اور رویہ کیا ہوگا طبیب نجم بھی وہاں موجود تھا اور شمونہ بھی تھی کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی باہر نظام الملک کے محافظ تیار کھڑے تھے
مزمل آفندی نے نظام الملک کو دیکھا اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا نہایت آہستہ آہستہ اٹھا نظام الملک بازو پھیلا کر اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے ہوئے اس کی طرف تیزی سے بڑھا
مزمل نے بھی بازو پھیلا دیے اور دوسرے لمحے وہ ایک دوسرے کے بازوؤں میں تھے
کیوں مزمل! نظام الملک نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بڑے پیار سے پوچھا کہاں چلے گئے تھے؟
میں تو سمجھا تھا کہ تم چلے ہی گئے ہو
یہ تو میں بتا نہیں سکتا مزمل نے کہا آپ کو دیکھ کر کچھ یاد آتا ہے یہ بھی یاد آتا ہے کہ آپ نے مجھے جانے سے روکا تھا اور میں پھر بھی چلا گیا تھا
اور اب نظام الملک نے بڑے پیارے لہجے میں پوچھا اب تو نہیں جاؤ گے
نہیں مزمل نے مسکرا کر جواب دیا نہیں جاؤں گا اب کہیں نہیں جاؤں گا
دو تین دن اور گزرے تو مزمل کو سب کچھ یاد آنے لگا اب ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس کی حالت پھر بگڑ جائے گی اس پر ایک اور ہی قسم کی کیفیت طاری ہوگئی یہ پچھتاوے شرمندگی اور حسن بن صباح سے انتقام لینے والی کیفیت تھی نظام الملک اور شمونہ نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور ایک دو دن صرف کرکے اسے اس کیفیت سے نکال لیا
مزمل آفندی! ایک روز نظام الملک نے اسے کہا جو ہو گیا سو ہو گیا اب مجھے یہ بتاؤ کہ وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ باطنی کس طرح تم جیسے جذبے والے آدمی پر بھی غالب آجاتے ہیں اور اسے اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں
میں بتا سکتا ہوں مزمل آفندی نے کہا مجھے وہاں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آگیا ہے میں خود چاہتا ہوں کے آپ کو وہ ساری روداد سناؤں آپ کسی اور خیال سے مجھ سے وہ باتیں سننا چاہتے ہیں لیکن میں اس خیال سے آپ کو سنانا چاہتا ہوں کہ آپ کو پتہ چلے کہ میں کتنا مجبور ہوگیا تھا میرا دماغ میرے قابو سے نکل گیا تھا
وہ بھول جاؤ نظام الملک نے کہا تم نے کوئی گناہ نہیں کیا مجھے بتاؤ کہ تمہارے ذہن پر قبضہ کس طرح کیا گیا تھا
انہوں نے مجھے کال کوٹھری میں بند کر دیا مزمل آفندی نے کہا اس کوٹھری میں ایسی بدبو تھی جیسے وہاں مردار یا انسانی لاشیں گل سڑ رہی ہوں مجھے تین دن نہ کچھ کھانے کے لیے دیا گیا اور نہ پینے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ دیا گیا ایک طرف میرا خون کھولتا تھا ابلتا تھا کہ میں دھوکے میں آگیا ہوں اگر میں حسن بن صباح کو قتل کر چکا ہوتا تو پھر وہ مجھے کیسی ہی اذیتیں کیوں نہ دیتے میں برداشت کر لیتا اور اس موت کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیتا جو آہستہ آہستہ اور مجھے اذیتیں دے دے کر مارتی دوسری طرف جسم جواب دے رہا تھا میں سات آٹھ دن بھوکا رہ سکتا تھا لیکن پانی کے بغیر ایک دن بھی گزرنا محال تھا
اس کمرے میں جو بدبو تھی وہ میں بیان ہی نہیں کر سکتا کہ یہ کیسی تھی اس بدبو نے میرا دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا پھر میں خود اپنا خون پی رہا تھا کیونکہ میں جس مقصد کے لئے آیا تھا وہ پورا نہیں ہوا تھا ایک طرف بھوک اور پیاس اور دوسری طرف یہ جلنا اور کڑھنا تیسرے چوتھے دن مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میں بہت جلدی پاگل ہو جاؤں گا بلکہ پاگل پن شروع ہو چکا تھا پھر ایک روز مجھے آدھی روٹی اس طرح دی گئی کہ دروازہ کھلا اور وہیں سے ایک آدمی نے میری طرف آدھی روٹی اس طرح پھینکیں جیسے کتے کی طرف کوئی چیز پھینکی جاتی ہے اس نے مٹی کا ایک غلیظ پیالہ دروازے کے قریب رکھ دیا اور چلا گیا میں اپنی خودداری اور اپنے وقار کو بھول گیا تھا میں کتوں کی طرح ہی روٹی کے ٹکڑے پر جھپٹ پڑا اور گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل اس چھوٹے سے پیالے تک گیا جو وہ آدمی دروازے کے اندر رکھ گیا تھا وہ تھوڑا سا سالن تھا میں نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ یہ کس چیز کا شوربہ تھا یا گدلا نمکین پانی تھا میں لقمے اس میں ڈبو ڈبو کر حلق میں اتارتا گیا یہ روٹی ذرا سی دیر میں ختم ہوگئی اور اس سے میری بھوک اور تیز ہو گئی میں اٹھا اور دروازے کی سلاخیں پکڑ کر چلانے لگا کے مجھے اور روٹی دو خدا کے لئے مجھے اور روٹی دو
ایک سنتری آیا میں دروازے کی سلاخیں پکڑے کھڑا تھا اس نے سلاخوں کے درمیان سے میرے منہ پر اتنی زور سے گھونسا مارا کے میں پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا سر کا پچھلا حصہ دیوار سے بڑی زور سے ٹکرایا تھا جس سے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا معلوم نہیں میں کتنی دیر غشی میں پڑا رہا
جب میں ہوش میں آیا تو میں کوٹھری میں نہیں تھا وہ ذرا بہتر اور صاف ستھرا کمرہ تھا میں فرش پر لیٹا ہوا تھا ایک آدمی ہاتھ میں برچھی لئے میرے پاس کھڑا تھا اس نے جب دیکھا کہ میری آنکھیں کھل گئیں ہیں تو اس آدمی نے میرے پہلو میں پاؤں سے ٹھوکر لگا کر کہا ہوش آ گئی ہے میں تو بول بھی نہیں سکتا تھا میں اٹھ کر بیٹھ گیا وہ آدمی باہر نکل گیا پھر وہ فوراً ہی واپس آگیا اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جس کی چال ڈھال ڈیل ڈول اور لباس ایسا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ یہ شخص کوئی بڑا عہدہ دار ہے
مزمل آفندی نے آگے اپنی جو داستان سنائی وہ کچھ اس طرح تھی
یہ معزز آدمی اس کے پاس آکر کھڑا ہوگیا
مزمل آفندی! اس آدمی نے کہا تم یہاں کیوں آئے تھے ؟
پانی! مزمل کے منہ سے جیسے سسکی نکلی ہو پانی پانی
تم یہاں کیوں آئے تھے ؟
اس عہدے دار نے کہا میرے سوال کا جواب دو گے تو پانی مل جائے گا تم یہاں کیوں آئے تھے؟
قتل ہونے کے لئے مزمل نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ اپنے منہ سے باہر دھکیلے
یہ میرے سوال کا جواب نہیں عہدے دار نے کہا
مزمل آفندی کا منہ پیاس کی شدت سے کھل گیا تھا وہ تو اب سرگوشی بھی نہیں کر سکتا تھا اس نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بولنے کے قابل نہیں اس کے ہونٹ ہلے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے دو مرتبہ پانی پانی کہا ہے
نہیں! عہدے دار نے کہا پانی نہیں ملے گا
مزمل کی آنکھیں بند ہونے لگی اور وہ ایک طرف لڑھک گیا پیاس کی شدت نے اس پر غشی طاری کر دی تھی
مزمل آفندی ہوش میں آیا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اب وہ فرش پر نہیں ایک نرم سے بستر پر پڑا ہے اس کے پاس ایک نوخیز دوشیزہ بیٹھی ہوئی تھی مزمل نے آنکھیں کھولیں تو اسے سب سے پہلے جو چیز نظر آئی وہ اس لڑکی کی دلفریب مسکراہٹ تھی مزمل نے نظام الملک کو سنایا کہ وہ اسے خواب سمجھا
اٹھو مزمل! لڑکی نے بڑے پیار سے کہا کھانا کھا لو
پانی! مزمل کے ہونٹوں سے سرگوشی پھسلی پانی مزمل کا منہ کھلا رہا اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے اور اس کی زبان بگڑ گئی تھی
خالی پیٹ پانی نہیں دونگی لڑکی نے کہا پہلے کھانا کھا لو تھوڑا سا کھا لو پھر پانی پینا
مزمل اتنا کمزور ہوچکا تھا کہ اس لڑکی نے اسے سہارا دے کر اٹھایا مزمل نے دیکھا کہ یہ نہایت اچھا سجا سجایا کمرہ تھا کمرے کے وسط میں ایک گول میز رکھی ہوئی تھی اور اس میز پر کھانا پڑا ہوا تھا تب مزمل کو پکے ہوئے گوشت اور روٹیوں کی بو محسوس ہوئی وہ فوراً اٹھا اور میز کے قریب پڑے ہوئے اسٹول پر بیٹھ گیا
وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سالن ایک قسم کا نہیں بلکہ تین چار قسم کے سالن تھے یہ کسی شہزادے یا بہت بڑے حاکم کا کھانا تھا مزمل آفندی ذرا جھینپ گیا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کھانا اس کے لیے رکھا گیا ہے لیکن وہ اس قدر بھوکا تھا کہ اس نے نتائج سے بےپرواہ کھانا شروع کر دیا وہ شائستہ اور معزز خاندان کا تہذیب یافتہ بیٹا تھا لیکن بھوک اور پیاس نے اس کا دماغ ایسا ناکارہ کر دیا تھا کہ وہ جانوروں کی طرح کھانا کھا رہا تھا اسے یہ بھی خیال نہیں رہا تھا کہ سالن میز پر گر رہا ہے وہ دسترخوان کے آداب بھول چکا تھا
بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے چند ایک نوالہ حلق سے اتار کر وہ صراحی پر لپکا جو میز پر پڑی ہوئی تھی لڑکی بڑی تیزی سے آئی اور اس نے مزمل کے ہاتھ سے صراحی لے لی
پانی میں پلاؤں گی لڑکی نے کہا بہت تھوڑا تھوڑا ایک ایک گھونٹ بلاؤں گی ایک ہی بار پانی نہیں پینا
لڑکی نے ایک خوشنما پیالے میں تھوڑا سا پانی ڈال کر مزمل کو دیا مزمل ایک ہی بار یہ پانی پی گیا اور پھر کھانے پر ٹوٹ پڑا تھوڑا سا کھانا کھا کر وہ پھر صراحی پر جھپٹا لیکن لڑکی نے پہلے کی طرح اس کے ہاتھ سے صراحی لے لی اور اب ذرا زیادہ پانی پیالے میں ڈال دیا مزمل نے وہ پانی بھی ایک ہی سانس میں پی ڈالا
دیکھتے ہی دیکھتے مزمل تمام روٹیاں اور اتنے زیادہ سالن صاف کر گیا یوں پتہ چلتا تھا جیسے سالن والے برتن دھلے ہوئے ہیں مزمل نے صاف کر دیا تھا اب کے اس نے لڑکی سے پانی مانگا
اب پانی نہیں لڑکی نے بڑی دلفریب مسکراہٹ سے کہا اب شربت پلاؤں گی
لڑکی نے ایک اور صراحی اٹھائی اور اس میں سے شربت گلاس میں انڈیل دیا جو مزمل نے اٹھا کر ایک ہی بار خالی کردیا
مزمل آفندی لڑکی سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے اتنی غلیظ کوٹھری سے نکال کر یہاں کیوں لایا گیا ہے اور ایسا امیرانہ کھانا اسے کیوں دیا گیا ہے لیکن وہ کچھ بھی نہ پوچھ سکا کیوں کہ اس پر غنودگی طاری ہو گئی تھی اور وہ بستر کی طرف دیکھنے لگا تھا لڑکی نے اسے کہا کہ وہ سو جائے وہ اٹھ کر بستر پر بیٹھا تو حیرت زدہ نظروں سے لڑکی کو دیکھنے لگا اس کی آنکھوں میں ایک سوال تھا لیکن یہ سوال زبان پر آنے سے پہلے اس کی آنکھیں بند ہو گئی اور لڑکی نے اسے سہارا دے کر پلنگ پر لٹا دیا
صبح جب مزمل اس کمرے سے نکلا تو اس نے یوں محسوس کیا جیسے یہ دنیا بالکل ہی بدل گئی ہو اس کے سامنے ایک وسیع باغ تھا جس میں ایسے ایسے پھول تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے گھاس بہت ہیں سر سبز تھیں اور یہ گھاس اوپر سے اس طرح تراشی ہوئی تھیں جیسے زمین پر سبز رنگ کا قالین بچھا ہوا ہو مزمل آگے بڑھا تو کمرے سے لڑکی نکل آئی وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑی
کیا تم مجھے کچھ بتا سکتی ہو ؟
مزمل نے لڑکی سے پوچھا مجھے اس غلیظ کوٹھری میں سے نکال کر اس امیرانہ کمرے میں کیوں لایا گیا ہے اور ایسا مرغن اور پرلطف اور لذیذ کھانا کیوں دیا گیا ہے؟
تمہیں امام کے حکم سے قید خانے سے نکالا گیا لڑکی نے جواب دیا اور یہ کھانا اسی کے حکم سے تمہیں کھلایا گیا ہے اور مجھے امام نے ہی تمہاری خدمت کے لیے بھیجا ہے
کون امام؟
مزمل نے حیرت سا ہو کے پوچھا
امام حسن بن صباح! لڑکی نے جواب دیا مزمل چلتے چلتے رک گیا اور اس نے حیرت زدگی کے عالم میں لڑکی کو دیکھا، لڑکی مسکرا رہی تھی
کیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ؟
مزمل نے کہا جیسے اپنے آپ سے بات کر رہا ہوں
میں سمجھتی ہوں تم کیا سوچ رہے ہو لڑکی نے کہا امام کو کل بتایا گیا ہے کہ تم اسے قتل کرنے کے لیے آئے تھے اسے یہ بھی بتایا گیا کہ تمہیں قید خانے کی انتہائی غلیظ کوٹھری میں بند کر دیا گیا ہے امام نے تمہیں قید خانے میں ڈالنے والوں کو بلایا اور حکم دیا کہ انہیں بیس بیس کوڑے لگائے جائیں کیونکہ انہوں نے اس کے حکم کے بغیر ایک مہمان کو قید خانے میں ڈال دیا تھا اس طرح تمہاری رہائی کا حکم دیا گیا اور تم یہاں پہنچ گئے کیا تم واقعی حسن بن صباح کو قتل کرنے آئے تھے
ہاں! مزمل نے یوں کہا جیسے اسے شرمندگی تھی کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے آیا ہے
امام کس وقت یہاں آئے گا لڑکی نے کہا یا وہ تمہیں اپنے پاس بلائے گا
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں نہ آئے؟
مزمل نے پوچھا اور کیا یہ ممکن ہے کہ وہ مجھے اپنے پاس نہ بلائے؟
تم یہ کیوں سوچ رہے ہو؟
میں نے اگر اسے کہہ دیا کہ میں اسے قتل کرنے آیا تھا تو وہ پھر مجھے اپنے قید خانے میں پھینک دے گا مزمل نے کہا میں اس کے آگے جھوٹ نہیں بول سکو گا
تم نہیں جانتے مزمل! لڑکی نے کہا امام حسن بن صباح ایک برگزیدہ اور اللہ کی بڑی پیاری شخصیت ہیں وہ صرف سچ سنتا ہے اور سچ بولتا ہے تم صاف کہہ دینا کہ میں آپ کے دشمنوں سے متاثر ہوکر آپ کو قتل کرنے چلا آیا تھا
لڑکی مزمل کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے حسن بن صباح کی ایسی تصویر پیش کرتی رہی جو کسی فرشتے کی یا کسی پیغمبر کی ہی ہو سکتی تھی باتیں کرتے کرتے وہ مزمل کو واپس کمرے میں لے آئی مزمل نے کمرے میں پہنچتے ہی اس سے شربت کی فرمائش کی جو لڑکی نے گزشتہ رات اسے پلایا تھا صراحی کمرے میں ہی رکھی تھی لڑکی نے اسے پیالہ بھر دیا جو مزمل نے پی لیا
مزمل کا جی چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے ساتھ باتیں کرتی رہے اور وہ خود بھی بولے اور بولتا ہی چلا جائے اس غلیظ اور بدبودار کوٹری کی قید نے بھوک اور پیاس نے اس کے دماغ پر ایسا اثر کیا تھا جیسے اس کی سوچنے کی صلاحیت سو گئی ہو یا آدھی سے زیادہ صلاحیت مر ہی گئی ہو پھر اس کے دماغ پر یہ لڑکی اور اس کی باتیں غالب آ گئیں بات وہی ہوئی کہ ایک تو یہ لڑکی نشہ بن کر اس پر طاری ہوئی اور دوسری یہ بات کے اس لڑکی نے اسے حشیش پلانی شروع کر دی تھی
مزمل کے ذہن پر اور ضمیر پر بھی اب کوئی بوجھ نہیں تھا وہ ایسے احساس سے سرشار اور مخمور ہوا جا رہا تھا جیسے وہ باطنیوں میں سے ہی ہو اور یہ احساس بھی کہ وہ مکمل طور پر ہوش میں ہے
دروازے پر دستک ہوئی مزمل نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا لڑکی نے جا کر دروازہ کھولا
امام تشریف لا رہے ہیں مزمل کو باہر سے آواز سنائی دی
لڑکی نے دروازے کے دونوں کواڑ کھول دیے
حسن بن صباح کمرے میں داخل ہوا
مزمل اسے دیکھ کر اٹھا اور حیرت سے اسے دیکھتا ہی رہا
لڑکی دروازہ بند کرکے باہر ہی کھڑی ہو گئی
کمرے میں حسن بن صباح اور مزمل رہ گئے حسن بن صباح کے چہرے پر سنجیدگی سی تھی مزمل اسے خاموشی سے دیکھتا رہا اور حسن بن صباح آہستہ آہستہ کمرے میں ٹہلنے لگا کمرے میں سناٹا طاری تھا یہی وہ حسن بن صباح تھا جسے قتل کرنے کو مزمل اس قدر بے تاب تھا کہ منع کرنے کے باوجود وہ اسے قتل کرنے یہاں پہنچ گیا تھا لیکن اب اس کی حالت یہ تھی کہ اس کے دماغ میں یہ بھی سوچ نہیں آرہی تھی کہ وہ حسن بن صباح کا سامنا کس طرح کرے اور کیا کہے اس کا دل اس جذبے سے خالی ہوچکا تھا جو جذبہ اسے یہاں لایا تھا
دہکتے ہوئے انگارے برف کے ٹکڑے بن گئے تھے
مزمل آفندی! حسن بن صباح نے مزمل کے سامنے کھڑے ہو کر کہا مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ تم میرے قلعے میں مہمان بن کر آئے اور تمہیں ان بدبختوں نے قید خانے میں بند کر دیا تم مجھے قتل کرنے آئے ہو؟
حسن بن صباح مزمل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا تھا اور مزمل یوں محسوس کر رہا تھا جیسے یہ شخص اس کی روح میں اتر گیا ہو اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا اس نے اتنا ہی محسوس کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن نہ دماغ اس کا ساتھ دے رہا ہے نہ زبان میں حرکت ہو رہی ہے
حسن بن صباح نے چغّہ پہن رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک لمبا تھا اس نے چغّے کے اندر ہاتھ ڈالا اور جب ہاتھ باہر نکالا تو اس ہاتھ میں تلوار تھی مزمل نے جب حسن بن صباح کے ہاتھ میں تلوار دیکھی تو اسے موت نظر آنے لگی وہ خالی ہاتھ تھا
یہ لو! حسن بن صباح نے تلوار اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مزمل کو پیش کی اور بولا تلوار لو اور مجھے قتل کرو
مزمل تلوار کی طرف تو دیکھ ہی نہیں رہا تھا اس کی نظریں حسن بن صباح کے چہرے پر جمی ہوئی تھی حسن بن صباح نے تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ میں دے دیا مزمل نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی حسن بن صباح نے اس کی طرف پیٹھ کر لی
مزمل خاص طور پر محسوس کر رہا تھا کہ اس میں اتنی ہمت ہے ہی نہیں کہ وہ تلوار سے حسن بن صباح کی گردن اڑا دے اسے تو جیسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ حسن بن صباح کو وہ اپنا نہیں بلکہ اسلام کا بدترین دشمن سمجھتا تھا
حسن بن صباح کچھ دیر مزمل کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا رہا پھر وہ آہستہ آہستہ مڑا اور اس نے مزمل کا سامنا کیا
اگر میں جھوٹا ہوتا تو اب تک میرا سر تمہارے ہاتھوں میں میرے جسم سے الگ ہو چکا ہوتا حسن بن صباح نے کہا تم ایسے لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کر یہاں آ گئے ہو جو میری صداقت سے واقف نہیں سلطنت سلجوقی سلطان نہیں چاہتے کہ کوئی ایسی طاقت ابھرے جو بنی نوع انسان کو ان سلطانوں اور بادشاہوں سے آزاد کرا دے بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں تم تلوار چلاؤ تلوار میرے جسم کے قریب آکر رک جائے گی کیونکہ اللہ نے ابھی میرے خلاف فیصلہ نہیں دیا
مزمل کی برین واشنگ پہلے ہی ہوچکی تھی اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو وہ حسن بن صباح نے پوری کردی مزمل نے تلوار اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھائی اور حسن بن صباح کے آگے دو زانو ہو کر اس نے ہاتھ آگے کیے اور تلوار حسن بن صباح کو پیش کی حسن بن صباح نے تلوار لے لی اور چغّے کے اندر نیام میں ڈال لی
مزمل آفندی! حسن بن صباح نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے کہا تم میرے مہمان ہو میرے ساتھ آؤ
مزمل آفندی حسن بن صباح کے ساتھ چلا گیا حسن بن صباح نے غالباً دیکھ لیا تھا کہ مزمل دلیر اور خطرہ مول لینے والا جوان ہے اور یہ بڑا ہی آسان شکار ہے اس لیے حسن بن صباح نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا تھا
محترم وزیراعظم! مزمل نے نظام الملک کو اپنی یہ پراسرار داستان سناتے ہوئے کہا حسن بن صباح مجھے جب اپنے ساتھ لے گیا تو میں ایک ایسی دنیا میں داخل ہوگیا جسے میں آج ایک بڑا ھی حسین اور طلسماتی خواب سمجھتا ہوں اگر جنت کا وجود ہے تو میں نے وہ حسن بن صباح کی دنیا میں دیکھی ہے آج جب میں اپنے ہوش و حواس میں آگیا ہوں اس جنت کو خواب ہی سمجھتا ہوں حسن بن صباح میرے ساتھ خاص طور پر شفقت کرتا تھا میں اسے یوں مقدس اور متبرک شخصیت سمجھنے لگا تھا کہ آسمان پر خدا ہے تو زمین پر حسن بن صباح ہے اس نے چند دنوں میں ہی مجھے اپنے راز دینے شروع کر دیے تھے اس نے نہایت پرکشش طریقے سے مجھے آپ کے خلاف کیا اور میرے دل میں آپ کی دشمنی بھر دی میں تو بہت جلدی آپ کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا حسن بن صباح کو مجھ پر ایسا اعتبار آیا کہ اس نے اپنے کچھ راز بھی مجھے دے دیے
اب دوسری باتوں کو چھوڑو نظام الملک نے کہا میں راز کی باتیں سننا چاہتا ہوں
مزمل آفندی نے راز کی جو باتیں سنائیں وہ ابوالقاسم رفیق دلاوری نے متعدد مورخوں کے حوالوں سے “آئمہ تلبیس” میں تفصیل سے بیان کی ہیں وہ یوں ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے خاص مریدوں کو تین گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا
ایک گروہ دوسرے ملکوں میں تبلیغ کا کام کرتا تھا لیکن اس گروہ کے آدمی عام لوگوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ حاکموں اور سرداروں کی سطح کے لوگوں سے ملتے اور انہیں اپنے نظریات بتاتے اور ایسے طریقے اختیار کرتے تھے کہ یہ سرکردہ لوگ ان کے ہمنوا ہو جاتے تھے
دوسرے گروہ کے آدمیوں کو رفیق کہا جاتا تھا یہ حسن بن صباح کا ذاتی حلقہ تھا اور تمام رفیق اس کے اس حلقے میں شامل تھے
تیسرا گروہ فدائیوں کا تھا یہ جاں باز لوگ تھے جن میں سے وہ کسی کو حکم دیتا کہ اپنے آپ کو قتل کر دو تو وہ شخص تلوار اپنے دل میں اتار لیتا تھا مزمل نے بتایا کہ اس تیسرے گروہ میں جو لوگ شامل تھے اور جنہیں شامل کیا جا رہا تھا وہ تھے تو انسان ہی لیکن ان کی فطرت میں خونخواری اور مردم کُشی بھر دی گئی تھی انہیں بلّی کا گوشت کھلایا جاتا تھا وہ اس لئے کہ بلّی جب حملہ کرتی ہے تو بڑی غضب ناک ہو کر حملہ کرتی ہے اور اپنے شکار کو مار کر ہی دم لیتی ہے
فدائیوں کو تو بلّی کا گوشت کھلایا جاتا تھا لیکن رفیقوں کو یعنی دوسرے گروہ کے آدمیوں کو بادام شہد اور کلونجی کھلائی جاتی تھی یہ خوراک ان کے جسموں میں گرمی پیدا کرتی تھی اور جب یہ گرمی دماغ کو چڑھتی تھی تو انہیں جو بھی حکم دیا جاتا ہے اسی وقت پورا کرتے تھے رفیق آمنے سامنے کی لڑائی لڑتے تھے لیکن فدائی اپنے شکار کو دھوکے میں لاکر زمین دوز طریقوں سے ختم کرتے تھے حسن بن صباح نے جتنی تاریخی شخصیتوں کو قتل کروایا ہے وہ انہیں فدائیوں کے ہاتھوں کروایا ہے
ان شاء اللہ آگے کے سلسلے میں آپ کو حسن بن صباح کی جنت اور اس کی دنیا کے خفیہ گوشے تفصیل سے ملیں گے
یہاں بات صرف مزمل آفندی اور نظام الملک کی ہوگی نظام الملک نے قلعہ الموت پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کی فوج کو ٹریننگ دی جا رہی تھی
اب بتاؤ مزمل! نظام الملک نے پوچھا کیا اب بھی تم چاہتے ہو کہ اکیلے جاکر حسن بن صباح کو قتل کر دو گے؟
نہیں وزیراعظم! مزمل نے جواب دیا مجھے الموت جانے سے روکنے والے سچ کہتے تھے کہ انسان حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتا ہے اسے دھوکے میں لاکر قتل نہیں کیا جاسکتا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حسن بن صباح کو زندہ رہنے کا حق دے رکھیں اگر آپ میرے مشورے کو قبول کریں تو میں یہی کہوں گا کہ فوج کشی کے بغیر آپ باطنیوں کے پھیلتے ہوئے طوفان کو نہیں روک سکتے میں کچھ دن اس دنیا میں گزار آیا ہوں میں نے وہاں دیکھا ہے اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ نے حسن بن صباح کا راستہ نہ روکا تو وہ دن جلدی آجائے گا جب سلطنت سلجوق پر بھی حسن بن صباح کی بادشاہی ہو گی
نظام الملک نے اپنی فوج کو قلعہ الموت پر حملے کے لیے تیار کر لیا تھا اس نے بہتر یہ سمجھا کہ خونریزی نہ ہی ہو تو اچھا ہے اس نے سلطان ملک شاہ سے کہا کہ وہ حسن بن صباح کی طرف اپنا ایک ایلچی بھیجنا چاہتا ہے سلطان نے اسے اجازت دے دی اور اسی روز ایک ایلچی اس پیغام کے ساتھ الموت بھیج دیا گیا کہ حسن بن صباح اپنی یہ سرگرمیاں جو اسلام کے سراسر خلاف ہیں ختم کر دے اور سلطان ملک شاہ کی اطاعت قبول کرلے
ایلچی چلا گیا اور الموت پہنچ کر وہ حسن بن صباح سے ملا اور اسے سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کا پیغام دیا
اپنے سلطان کو اور نظام الملک کو میرا پیغام دینا حسن بن صباح نے کہا میں نے کبھی کسی کی اطاعت قبول نہیں کی اے نظام الملک! ہم دونوں اکٹھے پڑھے ہیں اور ایک ہی استاد سے پڑھے ہیں مجھے تم اس زمانے سے جانتے ہو میں تمہیں ایک مخلص دوست کی حیثیت سے مشورہ دیتا ہوں کہ الموت کا کبھی رخ نہ کرنا اور اے سلطنت سلجوق کے سلطان ملک شاہ اپنی سلطنت کی حدود میں رہو یہی تمہارے لیے بہتر ہے اور تمہارے لیے یہ بھی بہتر ہے کہ مجھے میری دنیا میں آزاد رہنے دو اگر تمہیں میرا یہ مشورہ اچھا نہ لگے تو میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تمہارا اور تمہاری فوج کا انجام بہت برا ہوگا
ایلچی وہاں سے رخصت ہونے لگا تو حسن بن صباح نے اسے روک لیا
ٹھہر جاؤ! حسن بن صباح نے اسے کہا تم شاید سمجھے نہیں کہ میں نے کیا کہا ہے یا شاید تم یہ سمجھے ہو گے کہ میں نے ویسے ہی بڑ ماری ہے میں تمہیں اپنے الفاظ کو عملی شکل میں دکھاتا ہوں
حسن بن صباح کے حکم سے سو ڈیڑھ سو آدمی جو دراصل اس کے فدائین تھے وہاں ایک صف میں آکر کھڑے ہوگئے
میرے دوستو! حسن بن صباح ان سے مخاطب ہوا میں تم سے کسی ایک کو اللہ کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں جو اللہ کے پاس جانا چاہتا ہے وہ آگے آ جائے تمام آدمی ایک ہی بار آگے آ گئے اور ہر ایک نے بلند آواز سے کہا کہ میں اللہ کے پاس جانا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے ایک آدمی کو اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ آدمی دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا
اپنے آپ کو قتل کردو حسن بن صباح نے اسے کہا
جواں سال آدمی نے اپنے کمربند میں اڑسا ہوا خنجر نکالا خنجر کی نیام الگ کر کے پرے پھینکی اور خنجر پوری طاقت سے اپنے دل میں اتار دیا وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر اس کے منہ سے بڑی زور کا نعرہ نکلا امام حسن بن صباح زندہ باد اور اس کے بعد وہ آدمی گر پڑا اور مر گیا
حسن بن صباح نے ایک اور ویسے ہی جوانسال آدمی کو بلایا وہ سب آدمی جوان تھے یا نوجوان تھے وہ آدمی دوڑتا ہوا حسن بن صباح کے سامنے جا رکا
دوڑ کر قلعے کی دیوار پر چڑھ جاؤ حسن بن صباح نے اسے کہا اور اپنے آپ کو سر کے بل نیچے گرا دو وہ نوجوان فوراً دوڑ پڑا اور تھوڑی دیر بعد وہ قلعے کی اتنی اونچی دیوار پر کھڑا نظر آیا اس نے اپنے آپ کو اس طرح سر کے بل دیوار سے گرایا جس طرح تیراک بلندی سے پانی میں ڈائیو کیا کرتے ہیں
زیادہ تر مؤرخوں نے ان دو آدمیوں کا ہی ذکر کیا ہے بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے ایک اور فدائی کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ ڈوب کر مر جائے وہ فدائی اسی وقت چلا گیا اور ڈوب کر مر گیا اس تیسرے فدائی کی موت کے ساتھ یہ نہیں لکھا گیا کہ وہ دریا میں کودا تھا یا کوئی جھیل تھی یا کوئی گہرا حوض تھا بہرحال یہ لکھا گیا ہے کہ وہ ڈوب کر مر گیا
اپنے سلطان ملک شاہ کو یہ سب کچھ سنانا جو تم نے دیکھا ہے حسن بن صباح نے ایلچی سے کہا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس اس قسم کے بیس ہزار فدائین ہیں سلطان سے پوچھنا کے تمہارے اتنے بڑے لشکر میں کوئی ایک بھی سپاہی ہے جو اس طرح تمہاری اشارے پر اپنی جان دے دے؟
اور میرے دوست نظام الملک سے کہنا کہ میں آج بھی تمہارا احترام کرتا ہوں لڑکپن کی دوستی کو قائم رکھو اور مجھ پر فوج کشی کا خیال دل سے نکال دو اگر تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی تو بے شک آ جاؤ اور جتنا بڑا لشکر اکٹھا کر سکتے ہو لے آؤ
ایلچی کے چہرے پر حیرت زدگی بلکہ کسی حد تک خوف زدگی کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے وہ چپ چاپ وہاں سے چل پڑا
ایلچی واپس مرو پہنچا تو سلطان ملک شاہ اور نظام الملک نے بے تابی سے اس سے پوچھا کہ حسن بن صباح نے کیا جواب دیا ہے ایلچی نے جو سرفروشی اور جانثاری کے مظاہرے وہاں دیکھے تھے وہ انہیں سنا دیئے اور حسن بن صباح نے جو جواب دیا تھا وہ بھی سنا دیا
سلطان ملک شاہ پر خاموشی طاری ہوگئی لیکن نظام الملک کو جیسے غصہ آگیا ہو وہ اٹھ کر کمرے میں تیز تیز چلنے لگا اور بار بار وہ اپنے ایک ہاتھ کا مکا اپنے دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا
کیا سوچ رہے ہو خواجہ ؟
سلطان ملک شاہ نے پوچھا اس کا لب و لہجہ کچھ ٹھنڈا سا تھا
میں اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں سوچ سکتا کہ فوراً کوچ کیا جائے نظام الملک نے کہا کیا یہ ابلیس یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کے گیدڑ بھبکیوں سے ڈر جائیں گے سلطان محترم میں کل صبح فجر کی نماز کے بعد کوچ کر جاؤں گا امید ہے آپ مجھے روکے گے نہیں
ہاں خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا تم کل صبح لشکر لے کر نکل جاؤ میری دعائیں تمہارے ساتھ جائیں گی
اگلی صبح فجر کی نماز سے فارغ ہوکر خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے اپنے لشکر سے خطاب کیا اس نے گزشتہ روز تمام لشکر کو تیاری کا حکم دے دیا تھا صبح لشکر کوچ کے لئے تیار تھا نظام الملک نے مختصر الفاظ میں اپنے لشکر سے کہا کہ وہ کسی کا ملک فتح کرنے نہیں جا رہے اس نے حسن بن صباح اور باطنیوں کے متعلق کچھ باتیں کی اور کہا کہ ہم سلطنت سلجوق کی توسیع کے لیے نہیں جا رہے بلکہ ایک ابلیسی قوت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے جا رہے ہیں اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم نے وقت ضائع کیا یا وہاں جا کر ہم نے جانیں قربان کرنے سے منہ پھیر لیا تو سمجھ لو کہ تمہارا دین اسلام چند دنوں کا مہمان ہے پھر یہاں نہ کوئی اللہ کا اور نہ اللہ کے رسولﷺ کا نام لینے والا زندہ رہے گا
لشکر روانہ ہوگیا عورتوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر لشکر کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا کچھ لوگ لشکر کے ساتھ دور تک گئے اور لشکر کو خدا حافظ کہہ کر واپس آگئے
لشکر ابھی راستے میں ہی تھا کہ حسن بن صباح کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ سلجوقیوں کا لشکر آ رہا ہے انہوں نے لشکر کی صحیح تعداد بھی بتا دی حسن بن صباح کے جاسوس ہر جگہ موجود تھے مورخ لکھتے ہیں کہ کوئی بات ابھی سلطان تک نہیں پہنچتی تھی لیکن حسن بن صباح تک پہلے پہنچ جاتی تھی
مسلمان مورخوں کے علاوہ دو یوروپی مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اطلاع ملی کے نظام الملک لشکر لا رہا ہے تو حسن بن صباح کا ردے عمل صرف اتنا سا تھا کہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اس نے ایسا نہیں کیا کہ اٹھ کر دوڑ پڑتا اور اپنے لشکر کو تیاری کا حکم دیتا یا لشکر کو اکٹھا کرکے کوئی اشتعال انگیز تقریر کرتا وہ اطمینان اور آرام سے بیٹھا رہا اس کے پاس تین چار خاص معتمد اور مشیر بیٹھے ہوئے تھے
تم نے سن لیا ہے حسن بن صباح نے انہیں کہا نظام الملک کو راستے میں ہی قتل کر دو
بس اتنی سی بات تھی جو حسن بن صباح کے منہ سے نکلی اس کے پاس بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے ایک اٹھا اور باہر نکل گیا
یہاں تاریخ نویسوں میں تھوڑا سا اختلاف پایا جاتا ہے جو کوئی اتنا اہم نہیں لیکن اس کا ذکر ضروری ہے کچھ نے لکھا ہے کہ نظام الملک کو سلطان ملک شاہ نے مرد سے ہی رخصت کر دیا تھا لیکن زیادہ تعداد تاریخ نویسوں کی ایسی ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ بغداد جا رہا تھا وہ لشکر کے ساتھ چل پڑا اس کا ارادہ یہ تھا کہ راستے سے بغداد کی طرف چلا جائے گا چونکہ مورخوں کی زیادہ تعداد نے یہی لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ لشکر کے ساتھ گیا تھا اور اس سے آگے کے جو حالات تاریخ میں نظر آتی ہیں وہ بھی گواہی دیتی ہیں کہ سلطان ملک شاہ لشکر کے ساتھ گیا تھا اس لئے داستان گو یہی صحیح سمجھتا ہے
راستے میں جاکر سلطان ملک شاہ نے خواہش ظاہر کی کہ نہاوند کے مقام پر پڑاؤ کیا جائے نہاوند بڑا مشہور قصبہ تھا جس کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت تھی بیسویں ہجری میں یہ مقام حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فتح ہوا تھا اس لڑائی میں صحابہ کرامؓ کی اچھی خاصی تعداد شہید ہوئی تھی
وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا ان لوگوں نے نہاوند پہنچ کر روزہ افطار کیا رات تراویح کی نماز سب نے پڑھی نماز تراویح کے بعد نظام الملک اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑا تاریخ کے مطابق لشکر نے تو اپنے لیے خیمے گاڑ لیے تھے لیکن سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کی رہائش کا انتظام قصبے میں ایک بڑے اچھے مکان میں کیا گیا تھا اس وقت سلطان ملک شاہ نظام الملک کے ساتھ نہیں تھا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:28 }
وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا ان لوگوں نے نہاوند پہنچ کر روزہ افطار کیا رات تراویح کی نماز سب نے پڑھی نماز تراویح کے بعد نظام الملک اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑا تاریخ کے مطابق لشکر نے تو اپنے لیے خیمے گاڑ لیے تھے لیکن سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کی رہائش کا انتظام قصبے میں ایک بڑے اچھے مکان میں کیا گیا تھا اس وقت سلطان ملک شاہ نظام الملک کے ساتھ نہیں تھا
نظام الملک جب اپنی قیام گاہ کے قریب پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ اکٹھے دیکھے جو نظام الملک کو دیکھنے یا اسے ملنے آئے تھے نظام الملک ان کے درمیان جا پہنچا اور جو کوئی بھی آگے آیا اس کے ساتھ اس نے ہاتھ ملایا
کیا سلجوقیوں کا وزیراعظم ایک مظلوم کی فریاد سنے گا؟
ایک آواز سنائی دی میں درخواست لے کر آیا ہوں
نظام الملک عدل و انصاف کا پابند تھا اور ہر کسی سے انصاف کرنا وہ اپنا دینی فریضہ سمجھتا تھا اس نے جب یہ فریاد سنی تو بلند آواز سے کہا کہ یہ شخص آگے آکر اپنی عرضی مجھے دے دے
ایک جواں سال آدمی آگے آیا اور اس نے احتجاج یا غصے کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ اس کے ہاتھ میں جو کاغذ تھا وہ نظام الملک کے ہاتھ میں دینے کی بجائے اس کے قدموں میں پھینک دیا اور غصے سے بولا یہ لو میری فریاد اور مجھے انصاف دو
نظام الملک کاغذ اٹھانے کے لیے جھکا کاغذ پھینکنے والے شخص نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور جھکے ہوئے نظام الملک کی پیٹھ میں اس قدر زور سے مارا کہ خنجر دل کو چیرتا ہوا دوسری طرف نکل گیا
لوگوں نے قاتل کو وہیں پکڑ لیا نظام الملک پیٹھ میں خنجر لئے ہوئے سیدھا ہوا اس کے آخری الفاظ یہ تھے اسے میرے قصاص میں قتل نہ کرنا لیکن لوگوں نے اس کی نہ سنی کچھ نے نظام الملک کو اٹھایا اور زیادہ تر نے قاتل کے جسم کو قیمہ بنا ڈالا
اس قاتل کا نام ابو طاہر تھا وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا
نظام الملک کو 1092 عیسوی میں قتل کیا گیا تھا
انا للہ و انا الیہ راجعون
سلطان ملکشاہ کو اطلاع ملی تو وہ دوڑا آیا نظام الملک فوت ہو چکا تھا اور قاتل کی لاش اس حالت میں باہر پڑی تھی کہ لوگوں نے اس کے اعضاء بھی کاٹ کر اِدھر اُدھر پھینک دیے تھے سلطان نے الموت پر فوج کشی کا ارادہ ترک کر دیا اور وہیں سے واپس آ گیا
خواجہ حسن طوسی نظام الملک کوئی معمولی آدمی نہیں تھا وہ درباری قسم کا یا رسمی سا وزیراعظم بھی نہیں تھا اس نے اپنی زندگی میں ہی ایک مدرسہ کھولا تھا جو آج بھی بغداد میں موجود ہے نظام الملک نے اس مدرسے کا نام مدرسہ نظامیہ رکھا تھا، اس مدرسے نے بڑی نامور اور تاریخی شخصیتیں پیدا کی ہیں امام غزالیؒ اس مدرسے سے پڑھے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی اور بہاءالدین شداد جو ایک مشہور اسکالر اور عالم تھا صلاح الدین ایوبی کے ساتھ اس مدرسے میں پڑھا تھا بہاءالدین شداد تمام صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ایوبی کے ساتھ پرسنل سیکریٹری کی حیثیت سے ایلچی اور مشیر کی حیثیت سے رہا تھا
سلطان ملک شاہ کی فوج جب واپس آتے ہوئے مرو سے کچھ دور تھی تو لوگ گھروں سے نکل آئے اور جو کوئی جس کام میں مصروف تھا وہ چھوڑ کر اس راستے پر آ کھڑا ہوا جس پر فوج آ رہی تھی عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہ سمجھے جو فوج اتنی جلدی واپس آ رہی ہے وہ یقیناً فتحیاب واپس آ رہی ہے
لوگ دوڑ کر آگے چلے گئے تاکہ اپنی فاتح فوج کا استقبال جوش و خروش اور فتح کے نعروں سے کریں انہوں نے دیکھا کہ فوج کے آگے آگے مجاہدین نے کسی کی لاش اٹھا رکھی تھی پوچھا تو جواب ملا کہ وزیراعظم نظام الملک قتل ہوگئے ہیں یہ بھی لوگوں کو بتا دیا گیا کہ قاتل باطنیوں کا فدائ تھا لوگ واپس شہر کی طرف دوڑے اور نظام الملک کے قتل کی خبر سارے شہر میں پھیلا دی
پورا شہر ماتم کدہ بن گیا نظام الملک لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا تھا وہ ہر کس و ناکس کا ہمدرد تھا شہر میں کہرام بپا ہوگیا عورتیں باہر آ کر بین کرنے لگیں
لوگوں نے حسن بن صباح اور باغیوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگانے شروع کر دیئے
ایک بھی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
حسن بن صباح کو یہاں لاکر درخت کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دیں گے
انتقام خون کا بدلہ خون انتقام
فوج کو پھر واپس لے جاؤ
اور ایسی بے شمار آوازیں تھیں جو بگولے بن کر اٹھ رہی تھیں مائیں بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ہم اپنے جوان بیٹے قربان کر دے گی لڑکے اور نوجوان بے قابو ہوئے جارہے تھے وہ کہتے تھے کہ وہ الگ لشکر بناکر الموت پر حملہ کریں گے
نظام الملک کی میت اس کے گھر لائی گئی جہاں میت کو غسل دے کر اسے کفن پہنا دیا گیا پھر میت کو ایک خوشنما پلنگ پر رکھ کر سر سبز لان میں رکھ دیا گیا شہر کے تمام لوگ ایک قطار میں میت کے قریب سے گزرنے اور اپنے محبوب وزیراعظم کا آخری دیدار کرنے لگے وہاں صرف یہ نہیں تھا کہ تمام آنکھیں اشکبار تھیں بلکہ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے بعض جوشیلے آدمی میت کے قریب ہو کر انتقام اور خون کا بدلہ خون کے نعرے لگا کر آگے جاتے تھے لوگ اس قدر مشتعل تھے کہ ماتم ایک بے قابو ہنگامے کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا کئی عورتیں سینہ کوبی کر رہی تھیں
سلطان ملک شاہ کی جذباتی حالت عام شہریوں جیسی ہی تھی وہ تو ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا نظام الملک اس کا دست راست تھا اس کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی تھی نظام الملک صرف انتظامی امور کا ہی ماہر نہ تھا بلکہ جنگی امور اور سپہ سالاری میں بھی مہارت رکھتا تھا سلطان ملک شاہ نے دیکھا کہ لوگ انتقام کی آگ میں جلنے لگے ہیں اور ان پر قابو پانا ضروری ہے تو وہ نظام الملک کے گھر کے اندر چلا گیا وہ بالائی منزل کی ایک کوٹھری میں جا کھڑا ہوا جو باہر کی طرف کھلتی تھی
مرو کے لوگوں! سلطان ملک شاہ نے بلند آواز سے کہا تھوڑی سی دیر کے لیے خاموش ہو جاؤ
کئی آوازیں سنائی دیں خاموش خاموش سلطان کی بات سنو خاموش
اپنے جذبات پر قابو پاؤ سلطان ملک شاہ نے کہا مت سوچو کہ میں نظام الملک کے خون کو بھول جاؤں گا باطنیوں نے نظام الملک کی پیٹھ میں خنجر نہیں مارا بلکہ انہوں نے سلطنت سلجوقیہ کے دل میں خنجر اتار دیا ہے لیکن یہ سلطنت خداداد اس طرح نہیں گرے گی جس طرح حسن بن صباح اور اس کے باطنی سمجھتے ہیں میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ نظام الملک کے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے بیس بیس باطنیوں کا خون بہایا جائے گا یہ باطنی اسلام کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں ہم نے لشکر کشی سے کوئی ملک کو فتح نہیں کرنا ہم نے اس باطل کو خاک و خون میں گم کر دینا ہے میں اپنی فوج کو نہاوند سے ہی اس لئے واپس لے آیا ہوں کہ تمام فوج پر رنج و غم کے بادل چھا گئے تھے اور ہر مجاہد پر ماتم اور انتقام کی کیفیت طاری ہوگئی تھی اس جذباتی کیفیت میں لڑائیاں لڑیں تو جا سکتی ہیں لیکن جیتی نہیں جاسکتی میں اپنے لشکر کی نفری میں اضافہ کروں گا اور ہم المُوت پر ایسا حملہ کریں گے کہ باطنیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا اور الموت کو ہم کھنڈر بنا کر واپس آئیں گے
ہم سب اس لشکر میں شامل ہوں گے پہلے ایک آواز آئی اور پھر بہت سی آوازیں گوجنے اور گرجنے لگیں لشکر فوراً بناؤ ہم سب تیار ہیں ہم کسی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
عورتوں کا جوش و خروش الگ تھا عورتوں کی طرف سے بار بار یہی للکار سنائی دے رہی تھی ہمارے بیٹوں کو لے جاؤ انہیں اسلام کے نام پر قربان کر دو نظام الملک کے خون کا انتقام لو
ادھر الموت میں حسن بن صباح کو خبر مل چکی تھی کہ نظام الملک کو نہاوند میں ابو طاہر نام کے ایک فدائی نے قتل کر دیا ہے حسن بن صباح نے یہ خبر ملتے ہی اپنے خصوصی نائبین کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا تھا
ابو طاہر نے ایک آدمی کو ہی ختم نہیں کیا حسن بن صباح کہہ رہا تھا اس نے ایک فوج کو قتل کر دیا ہے کہاں ہے سلجوقیوں کی وہ فوج جو الموت کو محاصرے میں لینے آ رہی تھی؟
وہ فوج واپس چلی گئی ہے میں نے تمہیں کچھ عرصہ پہلے یہ بات کہی تھی کہ فوج کا آمنے سامنے آ کر لڑنا نقصان دہ ہوتا ہے اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ حملہ آور فوج کو مارنے کی بجائے اس حاکم کو مار ڈالوں جس کے حکم سے فوج لڑتی ہے اب تم نے عملی طور پر اس اصول کا مظاہرہ اور نتیجہ دیکھ لیا ہے تم کسی دشمن بادشاہ کے لشکر کو کیوں مارنے یا شکست دینے کی کوشش کرتے ہو؟
خود اس بادشاہ کو ہی مار ڈالو اس کا لشکر خود ہی بھاگ جائے گا کیا مرو تک ہمارا کو آدمی پہنچا ہے یا نہیں؟
ہاں امام! ایک آدمی نے جواب دیا وہ تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جس وقت یہ اطلاع پہنچی تھی کہ نظام الملک کو ہمارے ایک فدائی نے قتل کردیا ہے
مجھے بہت جلدی معلوم ہونا چاہیے کہ مرو کے لوگوں کا کیا ردعمل ہے حسن بن صباح نے کہا سب سے زیادہ ضروری بات تو یہ معلوم کرنی ہے کہ سلطان ملک شاہ اب کیا جوابی کارروائی کرے گا وہ ڈر کر تو نہیں بیٹھ جائے گا اس نے انتقامی کاروائی ہر حال میں کرنی ہے لیکن میں وہاں کے لوگوں کے تاثرات معلوم کرنا چاہتا ہوں
ہاں امام! وہی آدمی بولا ہم نے یہ بندوبست بھی کر لیا ہے
مجھے ایک ایک لمحے کی اطلاع ملنی چاہیے کہ مرو میں کیا ہو رہا ہے حسن بن صباح نے کہا اگر سلطان ملک شاہ الموت پر حملے کی تیاری کر رہا ہو تو ہم اسے بھی نظام الملک کی طرح خدا کے پاس بھیج دیں گے
سلطان ملک شاہ کے تین بیٹے تھے بڑے کا نام برکیارق تھا اس سے چھوٹا محمد تھا اور اس کے بعد سنجر تھا چھوٹے دونوں بھائی نوجوان تھے اور برکیارق ایک اچھا خاصہ بارعب جوان بن چکا تھا اور وہ عقلی طور پر اتنا بالغ ہو گیا تھا کہ وہ باپ کو بڑے کارآمد مشورے دینے لگا تھا
ان کا ردے عمل تو بہت ہی شدید تھا مزمل آفندی بھی مرو میں ہی رہتا تھا اس کی سلطان ملک شاہ کے تینوں بیٹوں کے ساتھ گہری دوستی تھی مزمل آفندی پر تو دیوانگی طاری ہو چکی تھی وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن وہاں اس کی ایسی برین واشنگ ہوئی کہ وہ نظام الملک کو قتل کرنے کے ارادے سے واپس آ گیا تھا یہ تو شاہی طبیب اور شمونہ کا کمال تھا کہ ان دونوں نے مزمل آفندی پر قابو پا لیا اور اسے بیدار کر لیا تھا اس کے سینے میں تو حسن بن صباح کی نفرت ایسی شدید صورت اختیار کر گئی تھی جیسے اس کے وجود میں آگ لگی ہوئی ہو اس کے ذہن میں ایک ہی سوچ تڑپتی رہتی تھی کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا لیکن ہوا یہ کہ اس کا پیرومرشد نظام الملک حسن بن صباح کے ایک فدائی کے ہاتھوں قتل ہوگیا
نظام الملک کو دفن ہوئے بہت دن گزر گئے تھے سلطان ملک شاہ نے حکم دے دیا تھا کہ لشکر کی نفری بڑھائی جائے اور لشکر کو تیار کیا جائے شہر کے جوان دھڑا دھڑ لشکر میں شامل ہو رہے تھے اور ان کی ٹریننگ شروع کردی گئی تھی انہی دنوں مزمل آفندی سلطان ملک شاہ کے تینوں بیٹوں کے پاس گیا ملک شاہ کے بیٹوں پر بھی جوش و خروش اور انتقام کا جذبہ غالب تھا
میرے دوستو مزمل آفندی نے کہا بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے میں تمہیں آج ہی بتا دیتا ہوں کہ بڑے سے بڑا لشکر بھی الموت جاکر ناکام ہو جائے گا اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ایک تو الموت کا قلعہ ایسا ہے کہ اسے محاصرے میں لیا ہی نہیں جا سکتا یہ بھی حقیقت ہے کہ حسن بن صباح کے پاس جو جانباز ہیں ان جیسے جانباز ہمارے لشکر میں نہیں حسن بن صباح کوئی ایسی چال چلے گا جس سے ہمارا لشکر بیکار ہو کر رہ جائے گا
پھر کیا کرنا چاہیے؟
سلطان ملک شاہ کے بڑے بیٹے برکیارق نے پوچھا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم خاموش ہو کر بیٹھ جائیں
یہی بات تو میں تم تینوں سے کرنے آیا ہوں مزمل آفندی نے کہا باطنیوں کو شکست دینے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے پیر و مرشد احمد بن عطاش کو قتل کر دیا جائے لیکن کام یہ بھی آسان نہیں تم تینوں اچھی طرح جانتے ہو کہ میں حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا پھر مجھ پر جو بیتی وہ بھی تم جانتے ہو میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس قسم کے چند ایک جانباز تیار کرو جیسے حسن بن صباح نے تیار کر رکھے ہیں میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کی رہنمائی کروں گا لڑنا ہوا تو لڑوں گا اور قتل کرنے کا موقع ملا تو جس جس کو قتل کرنا ہے کروں گا
میں آج ہی سالاروں کو بلا کر کہہ دوں گا برکیارق نے کہا مجھے امید ہے کہ اپنی جانوں پر کھیلنے والے چند ایک آدمی ضرور ہی مل جائیں گے
لیکن برکیارق! مزمل آفندی نے کہا اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم کسی کو سونے چاندی کا لالچ دے کر تیار کرلو گے کہ وہ اپنی جان پر کھیل جائے گا تو تم بہت بڑی اور بڑی ہی خطرناک خوش فہمی میں اپنے آپ کو مبتلا کروگے حسن بن صباح نے اپنے جانبازوں پر مذہب اور عقیدے کا جنون طاری کر رکھا ہے اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے جانبازوں کو بلا کر ان کے دماغوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہاں تو یہ عالم ہے کہ سوچتا حسن بن صباح ہے اور عمل اس کے فدائی کرتے ہیں کیا ہم اس طرح اور اس طریقے سے جانباز پیدا نہیں کر سکتے ؟
کر سکتے ہیں برکیارق کے چھوٹے بھائی محمد نے کہا لیکن پہلے سالاروں کے ساتھ بات کر لی جائے
یہاں جانبازوں کی بات تو ہو رہی تھی اور ان لوگوں کو امید تھی کہ وہ اسی قسم کی جانباز تیار کر سکیں گے جیسے حسن بن صباح نے تیار کر رکھے تھے لیکن مورخ لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح نے جس طرح فدائی تیار کیے تھے اس طرح بعد میں کوئی نہیں کر سکا پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے جانبازوں کو خوراک کیا کھلائی جاتی تھی پلایا کیا جاتا تھا اور انھیں عیش و عشرت کے لئے کیسے کیسے سامان مہیا کیے جاتے تھے باطنی جانبازوں کو تو حسن بن صباح نے درندے بنا ڈالا تھا جن کا کام چیرنے پھاڑنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا ان کے ذہنوں میں یہ ڈالا گیا تھا کہ جان دے کر ایک اور زندگی شروع ہوتی ہے جس میں صرف عیش و عشرت ہے اس کے سوا اور کوئی ذمہ داری اور کوئی کام نہیں
مرو میں شمونہ بھی تھی اسے چھوٹی سی عمر میں حسن بن صباح کے ڈاکوؤں نے قافلے سے اغواء کیا تھا اور اس طرح اسے ماں باپ سے جدا کر دیا تھا پھر ان لوگوں نے اس کے باپ کو قتل کر دیا تھا وہ مرو میں جس طرح آئی اور جس طرح نظام الملک کے سائے میں پہنچی وہ پہلے سنایا جاچکا ہے وہ تو نظام الملک کو اپنا روحانی باپ سمجھتی تھی اس باپ کو بھی حسن بن صباح کے ایک فدائی نے قتل کر دیا وہ اس قدر روئی کہ اس کی ماں کو یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ یہ لڑکی روتے روتے مر جائے گی یا دماغی توازن کھو بیٹھے گی
ایک روز اچانک اس کا رونا بند ہوگیا اور اس کی آنکھیں خشک ہو گئی وہ ماں کے پاس جا بیٹھی
رات خواب میں نظام الملک سے ملاقات ہوئی ہے شمونہ نے ماں سے کہا انہوں نے گلہ کیا ہے کہ تم نے ابھی تک میرے قتل کا انتقام نہیں لیا
اس کی ماں نے یہ بات سنی اور جس انداز سے شمونہ نے یہ بات کی تھی اس سے ماں کو یقین ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے
انہیں تم سے بہت پیار تھا ماں نے کہا بس یہی وجہ ہے کہ وہ تمہیں خواب میں نظر آئے ہیں
نہیں ماں! شمونہ نے کہا وہ مجھے کہنے آئے تھے کہ میرے خون کا انتقام صرف تم لے سکتی ہو اور تم انتقام لو میں اب انتقام لے کے ہی رہوں گی نظام الملک میرے روحانی باپ تھے
انتقام لو گی کیسے؟
ماں نے پوچھا کیا تم الموت جاکر حسن بن صباح کو قتل کر سکتی ہو؟
ماں نے پوچھا اور کہا تم اس کے پاس رہ چکی ہو وہ جونہی تمھیں دیکھے گا حکم دے دے گا کہ اس لڑکی کو قتل کر دیا جائے اس کے کئی آدمی تمہیں پہچانتے ہوں گے
میری بات غور سے سنو ماں شمونہ نے کہا میں نے زبان کے داؤ پیچ اور ہیر پھیر حسن بن صباح سے سیکھے ہیں یہ اسی پر آزماؤں گی میرے پاس خنجر ہو گا میں اس کے پاس چلی جاؤں گی اور کہوں گی کہ تمہاری محبت مجھے تمہارے پاس کھینچ لائی ہے اس سے پہلے کے وہ مجھے جلاد کے حوالے کرے میں خنجر اس کے دل میں اتار چکی ہونگی
ماں نے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے بہت دلیل دی اپنی محبت کا واسطہ بھی دیا اور یہ بھی کہا کہ تم نہ رہی تو میرا اس دنیا میں اور کون ہوگا میں اپنی جان خود ہی لے لوں گی لیکن شمونہ پر کسی بات کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا شمونہ اپنے ارادے پر ڈٹی رہی وہ ماں کی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہوتی تھی
ماں نے جاکر مزمل آفندی کو بتایا مزمل آفندی اس کے گھر چلا گیا اس نے شمونہ کو ایسی جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں دیکھا جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ حسین و جمیل لڑکی اپنے آپ میں ہے ہی نہیں اور اس کا دماغی توازن مشکوک ہے مزمل نے اس پر اپنی محبت کا طلسم طاری کرنے کے لئے کچھ جذباتی باتیں کیں
مجھے کچھ نہ کہو مزمل! شمونہ نے کہا محبت بعد کی بات ہے اس وقت میری عقل اور میری روح پر نظام الملک کا خون سوار ہے جب تک میں اس خون کا قرض چکا نہیں لیتی میں اس محبت کو ذہن میں لا ہی نہیں سکتی
یہ بھی سن لو شمونہ! مزمل نے کہا جب تک میں زندہ ہوں تم گھر سے باہر قدم نہیں رکھوں گی کیا تم یہ سمجھتی ہوں کہ ہم مرد مرگئے ہیں یا ہم اتنے بے حس اور بے غیرت ہو گئے ہیں کہ نظام الملک جیسے انسان کا خون ذہن سے اتار دیں گے؟
میں جاؤنگا ہم جانبازوں کا ایک گروہ تیار کر رہے ہیں مجھے پوری امید ہے کہ وہ دن جلدی طلوع ہوگا جس دن میں احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی لاشیں تمہارے قدموں میں لا رکھوں گا
تم پہلے بھی وہاں گئے تھے شمونہ نے کہا
وہ تجربہ اب مجھے کام دے گا مزمل نے کہا
اب میں اکیلا نہیں جاؤں گا جانبازوں کا ایک گروہ لے کر جاؤں گا کیا تم دیکھ نہیں رہی ہوں کہ الموت پر حملے کے لئے اتنا بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے؟
میں کچھ دن انتظار کر لونگی شمونہ نے کہا اگر تم لوگ ناکام ہو گئے تو پھر یہ کام میں کرکے دکھا دوں گی
وہاں اگر کوئی سب سے زیادہ اذیت میں مبتلا تھا تو وہ سلطان ملک شاہ تھا اس سلطان کے آباؤ اجداد نے اسلام کے گرتے ہوئے پرچم کو سنبھالا اور سلطنت سلجوقیہ قائم کی تھی
تمام مؤرخ اس حقیقت پر متفق ہیں کہ سلطان ملک شاہ اس دور میں اسلام کا محافظ اور پاسبان تھا اس وقت کا خلیفہ تو برائے نام تھا سلطان ملک شاہ حالات کے ایسے بھنور میں آ گیا تھا جس میں سے اسکے لئے اکیلے نکلنا محال تھا اس کے انتظامی اور دیگر امور اور مسائل میں نظام الملک کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے جسم میں دماغ ہوتا ہے نظام الملک سلطان ملک شاہ کا بازو ہی نہیں بلکہ زور بازو بھی تھا اسے اپنے تین بیٹوں میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں تھا ان میں قومی اور دینی جذبہ تو تھا اور ان میں جوش وخروش بھی تھا لیکن ان میں وہ عقل اور فہم و فراست نہیں تھی جس کی ان حالات میں ضرورت تھی
جو مشکلات اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھیں ان میں ایک یہ تھی کہ قلعہ الموت عام قلعوں جیسا نہیں تھا پہلے اس قلعے کی ساخت اور محل وقوع بیان ہو چکا ہے یہاں مختصراً ذکر ہوگا کہ یہ قلعہ کیسا تھا یہ قلعہ پہاڑی کے اوپر تھا اس کے ایک طرف دریا اور دوسری طرف دلدل اور جھیل تھی یہ قلعہ تو بہت ہی خوبصورت اور خوش نما تھا وہاں گھنے درخت تھے رنگا رنگ پھولوں والے خود رو پودے تھے رنگارنگ پتوں والی خوشنما جھاڑیاں تھیں اور گھاس مخمل کے فرش کی طرح پھیلی ہوئی تھی جس پہاڑی پر یہ قلعہ اور شہر تھا وہ تو ہریالی اور خودرو پھول دار پودوں اور بڑے ہی خوشنما درختوں کی وجہ سے اس قدر خوبصورت تھی کہ یہ اس زمین کا حصہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا اس سارے خطے کو دیکھ کر بڑے ہیں حسین خواب کا گمان ہوتا تھا لیکن قدرت کے اس حسن میں بڑے ہی خوفناک خطرے پوشیدہ تھے
یہ ایک قدیم قلعہ تھا جو سلطان ملک شاہ نے دو تین مرتبہ دیکھا تھا اس قلعے میں خطرہ یہ تھا کہ جتنا اوپر نظر آتا تھا اس سے تین گناہ زیادہ نیچے پہاڑی کے اندر یعنی زمین دوز تھا نیچے بڑی مضبوط چٹان تھی جو خاصی لمبی اور چوڑی تھی کاریگروں نے اس چٹان کو نیچے سے کاٹ کاٹ کر رہداریوں کمروں اور راستوں کی بھول بھلیاں بنا ڈالی تھیں کوئی اجنبی وہاں جا نکلتا تو پھر اس کا وہاں سے نکل آنا ممکن نہیں ہوتا تھا وہاں گھوڑے اور اونٹ غائب ہو جاتے تھے سلطان ملک شاہ کو جو مسئلہ پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ اس قلعے کو محاصرے میں لینے کے لئے اور پھر اس پر حملہ کرنے کے لئے بہت ہی بڑے لشکر کی ضرورت تھی اور پھر اصل ضرورت یہ تھی کہ اس لشکر کو خاص قسم کی ٹریننگ دی جائے
سلطان ملک شاہ نے وہاں اور ارد گرد کے علاقے میں اپنے جاسوس پھیلا رکھے تھے الموت کے اندر بھی جاسوس موجود تھے وہ وقتاً فوقتاں مرو آ کر سلطان ملک شاہ کو وہاں کی خبریں اور اطلاع دیتے رہتے تھے لیکن اب وہاں سے جو اطلاعات آ رہی تھیں وہ مشکلات میں اضافہ کر رہی تھیں مثلا نظام الملک کے قتل کے ایک مہینے بعد دو جاسوسوں نے الموت سے آکر سلطان ملک شاہ کو اکر بتایا کہ باغیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور انہوں نے تبلیغ کا کام تیز کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اردگرد کے بلکہ دور دور تک کے قلعوں پر لڑے بغیر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے سب سے زیادہ خطرناک خبر یہ تھی کہ ان تمام علاقوں پر باطنی اس طرح غالب آ گئے تھے جیسے وہاں کے لوگ حسن بن صباح کو امام ہی نہیں بلکہ نبی تک ماننے لگے تھے عام سی قسم کے لوگوں میں بھی حسن بن صباح کے حکم پر جان قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا
ایک روز سلطان ملک شاہ نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا
میرے عزیز بیٹوں! سلطان ملک شاہ نے کہا اسلام پر اتنا خطرناک وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا جتنا خطرناک اور خوفناک وقت اب آیا ہے ہم نے اپنی سلطنت کا ہی دفاع نہیں کرنا بلکہ ہماری ذمہ داری اسلام کا تحفظ اور فروغ ہے جس روز سلطنت سلجوقیہ ختم ہوگئی اسی روز اسلام کا پرچم بھی گر پڑے گا بادشاہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوا کرتے لیکن میں اللہ کے حضور جوابدہ ہوں یہ سلطنت میری نہیں تمہاری نہیں اور تمہارے آبا واجداد کی بھی نہیں یہ اللہ کی سلطنت ہے جس کا دفاع ہماری ذمہ داری ہے میں نے تمہیں بتایا نہیں تھا کہ میں کئی رات سویا بھی نہیں ہوں میں ہمہ وقت پریشان رہتا ہوں میں اپنے سر میں گرانی محسوس کرنے لگا ہوں میں اکیلا رہ گیا ہوں
پیدر محترم ! بڑے بیٹے برکیارق نے کہا ہم تین بھائیوں کی موجودگی میں آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ آپ اکیلے رہ گئے ہیں میں ایک بات کہوں گا نظام الملک شہید کو ہم اپنا روحانی باپ سمجھتے تھے اللہ نے جو عقل و دانش انہیں عطا کی تھی وہ کسی کو عطا نہیں ہوا کرتی یہ میں بھی محسوس کیا کرتا ہوں کہ نظام الملک کے اٹھ جانے سے ہم کمزور ہوگئے ہیں لیکن ہم نے یہ کمزوری اپنے آپ میں ان کی زندگی میں ہی پیدا کر لی تھی آپ کے سامنے کوئی مسئلہ آیا تو آپ نے خود سوچنے اور فیصلہ کرنے کی بجائے وہ مسئلہ نظام الملک کے سپرد کر دیا یہ وجہ ہے کہ آج آپ اپنے آپ کو تنہا اور کمزور سمجھ رہے ہیں بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے اور اس لشکر میں آگ جیسا جذبہ موجود ہے یہ لشکر جب حملہ کرے گا تو باطنیو کے لیے یہ خاک و خون کا طوفان ثابت ہوگا
نہیں بیٹے! سلطان ملک شاہ نے کہا یہی تو اس مسئلہ کا وہ پہلو ہے جسے تم سمجھ نہیں رہے الموت کو لشکر کے زور پر فتح نہیں کیا جا سکتا میں تو سوچ سوچ کر پریشان ہو گیا ہوں تم مجھے سوچنے میں مدد دو ہمیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا
ہمیں موقع دے پیدر محترم! اس کے بیٹے محمد نے کہا آپ اتنے زیادہ بھی پریشان نہ ہو جائیں ہم نے خود بھی ایک اور طریقہ اختیار کر رہے ہیں ہم جانبازوں کا ایک گروہ تیار کر رہے ہیں
سلطان ملک شاہ نے اپنے بیٹوں کو اپنی جو ذہنی اور جذباتی حالت بتائی تھی وہ بہت ہی کم بتائی تھی مورخ لکھتے ہیں کہ اس وقت سلطان ملک شاہ اعصابی تکلیف میں مبتلا ہو چکا تھا مسائل تو الگ تھے صرف نظام الملک کے غم نے ہی اسے نڈھال کر دیا تھا وہ عیش و عشرت کا دلادہ نہیں تھا بنی نوع انسان کی محبت دل میں رکھنے والا سادہ طبیعت انسان تھا اس کی عمر بھی کچھ زیادہ ہوگئی تھی جس سے جسم میں قوت مدافعت کم ہو گئی تھی غم اور مسائل نے اس کے اعصاب پر اتنا زیادہ بوجھ ڈال دیا تھا جو اس کے اعصاب برداشت نہ کر سکے ایک روایت یہ بھی ہے کہ تنہائی میں اسے روتے بھی دیکھا گیا تھا اس کی چال ڈھال میں پہلے والی شان وشوکت نہیں رہی تھی اس نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت شروع کردی تھی شب بیداریوں کا اثر الگ تھا
جس طرح الموت کی خبریں اور اطلاعات سلطان ملک شاہ کے جاسوس مرو تک پہنچا رہے تھے اسی طرح حسن بن صباح کے جاسوس مرو کی خبریں حسن بن صباح تک لے جا رہے تھے
دونوں اطراف میں فرق یہ تھا کہ سلطان ملک شاہ کو جب الموت کے بارے میں راز کی کوئی بات معلوم ہوتی تھی تو وہ پریشان ہو جاتا تھا لیکن جب حسن بن صباح کو اس کا کوئی جاسوس مرو سے جا کر یہ بتاتا تھا کہ مرو میں بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے اور اس لشکر کو جنگی تربیت دی جا رہی ہے اور اس لشکر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو حسن بن صباح کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہونے کی بجائے اس کے ہونٹوں پر لطیف سا تبسم آ جاتا تھا اسے یہاں تک معلوم ہو گیا تھا کہ سلطان ملک شاہ پہلے والا تندرست و توانا اور چاک و چوبند سلطان نہیں رہا جاسوسوں نے حسن بن صباح کو یہ بھی بتایا تھا کہ سلطان ملک شاہ کی چال ڈھال اور بولنے کے انداز میں بھی نقاہت آ گئی ہے
ایک روز مزمل آفندی گھڑ دوڑ کے میدان کے باہر تماشائیوں میں کھڑا سواروں کی ٹریننگ دیکھ رہا تھا اسے کوئی جواں سال آدمی ملتا تو وہ اسے سب سے پہلے یہ بات کہتا تھا کہ وہ لشکر میں کیوں شامل نہیں ہوا اس روز وہ گھوڑ سواروں کی ٹریننگ اتنی دل چسپی سے نہیں دیکھ رہا تھا جتنی توجہ سے وہ تماشائیوں کو دیکھتا پھرتا تھا وہ تین چار نوجوانوں سے کہہ چکا تھا کہ وہ تماشا دیکھنے کی بجائے لشکر میں شامل ہوجائیں تو انہیں شہسوار بنا دیا جائے گا وہ اس کوشش میں تھا کہ لشکر میں اضافہ ہوتا چلا جائے اور زیادہ نوجوان لشکر میں بھرتی ہوں
وہ تماشائیوں میں گھوم پھر رہا تھا کہ اسے اپنی عمر کا یعنی جواں سال ایک آدمی نظر آیا یہ چہرہ اسے کچھ مانوس معلوم ہوا وہ سوچنے لگا کہ اسے اس نے پہلے کہا دیکھا ہے اتنا تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس شہر کی آبادی بھی کچھ کم نہیں چلتے پھرتے کہیں نہ کہیں یہ شخص سامنے آگیا ہوگا لیکن مزمل یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کہیں اور دیکھا تھا اور کسی خاص موقع پر اور کس خاص صورت حال میں دیکھا تھا اس نے اس آدمی کے چہرے کو اور زیادہ غور سے دیکھا
مزمل کو دراصل اس آدمی کی دائیں آنکھ کے ذرا نیچے گال کی ہڈی پر ایک تل نظر آرہا تھا جو مٹر کے دانے جتنا تھا اور یہ کالا تل بھرا ہوا تھا مزمل اس دن یا موقع کو نظر انداز نہ کر سکا اس آدمی نے مزمل کی طرف دیکھا تو اس شخص کے چہرے کا تاثر بدل گیا اور وہاں سے کھسکنے لگا اس سے مزمل کو کچھ شک ہوا
ذرا رکنا بھائی! مزمل نے اس کے پیچھے جاتے ہوئے کہا
وہ آدمی یوں چلتا گیا جیسے اس نے مزمل کی آواز سنی نہ ہو مزمل تیز تیز چلتا اس کے پاس جا پہنچا
ہم اس سے پہلے کہاں ملے تھے ؟
مزمل نے پوچھا اور اس کا چہرہ اور زیادہ غور سے دیکھتے ہوئے بولا آپ کو میں نے یہاں اس شہر میں نہیں دیکھا ہم کہیں اور ملے تھے
ضرور ملے ہوں گے بھائی! اس آدمی نے کہا میں تمہارے اخلاق کی تعریف کروں گا کہ تم نے مجھے یاد رکھا اور اتنی محبت سے مجھے بلایا مجھے بلکل یاد نہیں کہ ہم کہیں ملے بھی تھے یا نہیں ہو سکتا ہے ہم کسی قافلے میں ہم سفر رہے ہوں یا کسی سرائے میں تم نے مجھے دیکھا ہو میں تجارت پیشہ آدمی ہوں شہر شہر قصبہ قصبہ گھومتا رہتا ہوں میں یہاں کا رہنے والا نہیں
مجھے تمہارا یہ موٹا تل یاد ہے مزمل نے کہا
اس آدمی نے زور دار قہقہ لگایا اور مزمل کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے کر زور سے دبایا
اس تل کی وجہ سے ہی جو مجھے ایک بار دیکھ لیتا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے اس آدمی نے بڑے ہی شگفتہ لہجے میں کہا اور پوچھا کیا تم یہیں کے رہنے والے ہو
ہاں بھائی! مزمل آفندی نے جواب دیا میں یہی کا رہنے والا ہوں
اچھا دوست! اس آدمی نے مزمل سے ہاتھ ملایا اور کہا میں تمہاری محبت کو یاد رکھوں گا
وہ آدمی چلا گیا اور مزمل کھڑا سوچتا رہا اسے اتنا ہی یاد آرہا تھا کہ یہ شخص اسے کہیں خاص صورت حال اور کسی خاص جگہ ملا تھا اور اس کے ساتھ اس کی اچھی خاصی باتیں بھی ہوئی تھیں
کچھ دن اور گزر گئے مزمل سلطان ملک شاہ کے بیٹوں سے ملتا ملاتا ہی رہتا تھا ان میں بڑا بیٹا برکیارق چونکہ عمر میں ذرا بڑا تھا اس لئے فہم و فراست رکھتا تھا اس لیے بات بھی کر لیتا تھا اور سمجھتا بھی تھا
مزمل آفندی زیادہ تر اسی کے ساتھ رابطہ رکھتا تھا دوستی کے علاوہ ان کا ایک تعلق یہ بھی تھا کہ دونوں ایک جانباز گروہ تیار کر رہے تھے ایک صبح مزمل برکیارق کے یہاں گیا دونوں اکٹھے وہاں جایا کرتے تھے جہاں فوجیوں کو تیغ زنی تیر اندازی اور برچھی بازی سکھائی جاتی تھی مزمل نے اس روز برکیارق کو پریشان سا دیکھا مزمل نے اس سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہوگئی ہے کہ وہ اتنا پریشان نظر آ رہا ہے
ہاں بھائی! برکیارق نے بتایا سلطان تو صاحب فراش ہی ہو گئے ہیں
کوئی خاص تکلیف ہو گئی ہے؟
مزمل نے پوچھا
کسی خاص مرض کا نام نہیں لیا جاسکتا برکیارق نے جواب دیا کہتے ہیں کہ سر میں گرانی ہے اور کسی وقت سارے جسم میں ایسی بے چینی شروع ہوجاتی ہے جو ان کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے کمزوری اتنی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی ٹانگیں جسم کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں رہیں
طبیب نے دیکھا ہو گا ؟
طبیب تو تین چار دنوں سے باقاعدہ آرہا ہے برکیارق نے جواب دیا طبیب نے کہا ہے کہ سلطان کو ذہنی سکون کی شدید ضرورت ہے وہ مسکّن اور مقوی دوائیاں دے رہا ہے لیکن کوئی افقہ نظر نہیں آتا بلکہ حالت کبھی تو زیادہ ہی بگڑ جاتی ہے
انہیں نظام الملک کا غم لے بیٹھا ہے مزمل نے کہا پھر ان کے ذہن اور دل پر یہ بوجھ آ پڑا ہے کہ وہ باطنیوں کو شکست نہیں دے سکیں گے یہ ہمارا کام ہے کہ انھیں یقین دلائیں کہ ہم باطنیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیں گے کیا یہ مناسب ہوگا کہ مجھے سلطان کے پاس لے چلو مجھے امید ہے کہ میں انہیں اٹھا لوں گا میرے ساتھ ان کا اچھا خاصا پیار ہے
نہیں مزمل بھائی! برکیارق نے کہا طبیب نے سختی کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ باہر کا کوئی آدمی سلطان کے پاس نہ آئے جب تک سلطان خود کسی کو نہ بلائیں گھر کا بھی کوئی فرد ان کے پاس نہ جائے
اس کے بعد مزمل اپنے کام میں مصروف ہوگیا اس کا اب یہی ایک عزم تھا کہ جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرنا ہے اور انہیں اسی طرح بنانا ہے جس طرح سلطان کا ایک ایلچی الموت جاکر حسن بن صباح کے فدائیوں کو دیکھ آیا تھا مزمل چاہتا تھا کہ خواہ بیس ہی جانباز تیار ہو جائیں لیکن وہ اس طرح تیار ہوں کہ اگر کسی سے کہا جائے کہ وہ اپنے پیٹ میں تلوار اتار لے تو وہ بلاحیل و حجت اپنے پیٹ میں تلوار اتار لے مزمل کا یہ عزم تو تھا لیکن اسے ایسا کوئی تجربہ حاصل نہیں تھا کہ اس طرح کے جاں باز کیسے تیار کیے جاتے ہیں بہرحال اسے دس بارہ نوجوان مل گئے تھے جنہیں ایک سالار ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دے رہا تھا اس کے بعد انہیں حسن بن صباح کے فدائیوں کی طرح جانبازی کے لیے تیار کرنا تھا مزمل زیادہ تر وقت ان کے ساتھ صرف کر رہا تھا اور ان کے دلوں میں وہ باطنیوں کی نفرت کی آگ جلانے کی کوشش کر رہا تھا
ایک روز برکیارق اپنے گھر سے نکلا تو اسے باہر والے دروازے پر ایک درویش صورت آدمی کھڑا نظر آیا دربان اس آدمی کو اندر جانے سے روک رہے تھے اس درویش نے برکیارق کو دیکھا تو اسے دور سے ہی ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا اور برکیارق اس تک جا پہنچا دربان نے اسے بتایا کہ یہ درویش اندر جانے اور سلطان کو دیکھنے کی اجازت مانگ رہا تھا
درویش کے ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں عصا تھا اس نے سر پر سفید پگڑی لپیٹ رکھی تھی اور اس پر ایک چوڑا سبز رنگ کا کپڑا ڈال رکھا تھا جو اس کے کندھوں تک آیا ہوا تھا اس نے سبز رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک لمبا تھا اس نے گلے میں موٹے موتیوں کی ایک مالا ڈال رکھی تھی اس کی داڑھی خشخشی تھی اور اس داڑھی اور چہرے سے وہ چالیس سال کے لگ بھگ عمر کا لگتا تھا بہرحال وہ ہر پہلو سے درویش معلوم ہوتا
آپ سلطان سے کیوں ملنا چاہتے ہیں ؟
برکیارق نے پوچھا اور اسے بتایا آپ کو شاید معلوم نہیں کہ سلطان بیمار پڑے ہیں اور طبیب نے ان کی ملاقاتیں بند کر دی ہیں آپ مجھے بتائیں میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں یہاں جو بھی آتا ہے وہ مایوس واپس نہیں جایا کرتا میں نے آپ کو مجبوری بتا دی ہے ورنہ سلطان فوراً آپ کو ملاقات کے لیے بلا لیتے
میں جانتا ہوں درویش نے کہا میں یہی سن کر آیا ہوں کہ سلطان بیمار پڑے ہیں میں نے یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ سلطان کو کیا مرض لاحق ہوگیا ہے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سلطان کو طبیب نے ایسی دوائیاں دی ہیں جن کے زیر اثر سلطان سوئے رہتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ طبیب کا علاج روک دیا جائے وہ علاج جاری رکھا جائے میں روحانی عامل ہوں مجھے شک ہے کہ سلطان پر کوئی سفلی عمل کیا گیا ہے اور میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفلی عمل باطنیوں نے کروایا ہے مجھے صرف ایک بار سلطان سے ملنے دیں میں صرف انہیں دیکھوں گا
میں سلطان سے پوچھ کر آپ کو کچھ بتا سکونگا برکیارق نے کہا اس وقت تو وہ سوئے ہوئے ہیں
انہیں بے آرام نہیں کرنا درویش نے کہا میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں آپ کو مجھ پر اتنی جلدی اعتماد نہیں کرنا چاہئے میں آپ کے لئے اجنبی ہوں اپنے متعلق یہ بتا دو کہ میں آگے جا رہا ہوں یہاں کچھ دنوں کے لیے روکا ھوں اور سرائے میں ٹھہرا ہوں اگر آپ چاہیں تو سرائے میں آجائیں اور میری کچھ باتیں سنیں اور کچھ باتیں میں آپ سے پوچھوں گا پھر آپ مجھ پر اعتماد کر لیں مجھے کوئی لالچ نہیں آپ میرے پاس آئیں
میں ابھی نہ چلا چلو؟
برکیارق نے پوچھا
یہ تو اور زیادہ اچھا رہے گا درویش نے کہا آئیے
راستے میں درویش باتیں کرتا گیا برکیارق کو بولنے کا موقع نہ ملا لیکن درویش کی باتوں سے وہ متاثر ہو گیا تھا
چلتے چلتے وہ سرائے میں جا پہنچے درویش برکیارق کو بلائی منزل پر لے گیا اس کا کمرہ اوپر تھا
وہ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ایک نوجوان لڑکی نے اس کا استقبال کیا
یہ سلطان مکرم کے بڑے فرزند برکیارق ہیں درویش نے لڑکی سے کہا سلطان سوئے ہوئے تھے ان سے ملاقات ہو گئی اور یہ میرے ساتھ ہی آگئے
خوش آمدید! لڑکی نے ذرا جھجک کر کہا سلطان کی بیماری نے ہمارے دلوں پر بہت اثر کیا ہے میں ان کے لئے دعا کرتی رہتی ہوں اگر یہ ممکن ہو تو میں اپنی زندگی سلطان کو دے دوں سلطان ملک شاہ ہی ہیں جو اسلام کے ایک بڑے ہی مضبوط ستون ہیں اللہ انہیں سلامت رکھے
یہ میری چھوٹی بہن روزینہ ہے درویش نے کہا فرزند سلطان یہ میرے کندھوں پر بہت بڑی اور بڑی ہی نازک ذمہ داری ہے میں اس ذمہ داری سے فارغ ہونا چاہتا ہوں لیکن کوئی موزوں آدمی نظر نہیں آتا اگر کوئی آدمی ٹھیک ملتا بھی ہے تو اس کا خاندانی پس منظر ٹھیک نہیں ہوتا نظریات اور عقیدوں کا فرق بھی ہوتا ہے میں اس بہن کو پھینکنا یا ضائع نہیں کرنا چاہتا
برکیارق سلطان زادہ تھا حکمران خاندان کا چشم و چراغ تھا اور وہ جوان بھی تھا وہ تھا تو پکا مسلمان لیکن اپنی باپ کی طرح مومن نہ تھا وہ عیش پرست اور مے نوش تو نہ تھا لیکن اتنی نو جوان اور حسین لڑکی کو دیکھ کر متاثر نہ ہونا اس کی فطرت میں نہیں تھا کچھ دیر کے لئے تو وہ یہ بھول ہی گیا کہ لڑکی کا بڑا بھائی درویش کمرے میں موجود ہے برکیارق کی نظریں اس لڑکی کی زلفوں میں الجھ کے رہ گئیں برکیارق کی نظروں سے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی گزری تھی بعض کو تو وہ کچھ دیر بعد بھول جاتا تھا کچھ اسے ایک دو دن یاد رہتی تھیں اور کبھی کوئی لڑکی اسے اپنے حسن و جوانی کی وجہ سے کئی کئی دن یاد رہتی تھیں وہ شہزادوں کی طرح لڑکیوں میں دلچسپی رکھنے والا آدمی نہیں تھا اس پر اپنے باپ کا کم از کم یہ یہ اثر ضرور تھا کہ وہ لڑکیوں کا شیدائی نہیں تھا لیکن آخر وہ جواں سال آدمی تھا اس لڑکی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا روزینہ حسین تو تھی ہی لیکن برکیارق نے اس میں کوئی ایسی کشش و جاذبیت یا کوئی ایسا طلسم اثر دیکھا کہ اس کی جی میں یہی آتی تھی کہ کچھ وقت اس کمرے میں اس لڑکی کے ساتھ گزارے لڑکی کے چہرے کے نقش و نگار کوئی غیر معمولی طور پر پرکشش نہیں تھے لڑکی کا انداز کچھ ایسا تھا جس کے اثر سے برکیارق اپنے آپ کو بچا نہ سکا برکیارق لڑکی کی طرف دیکھتا تو وہ نظریں جھکا لیتی تھی جب برکیارق درویش کی طرف متوجہ ہوتا تو لڑکی برکیارق کے چہرے پر نظریں گاڑ دیتی تھی
میں حج کے لئے جا رہا ہوں درویش نے کہا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس سال بھی میں حج نہیں کر سکوں گا میں حج پر اس وقت جاؤں گا جب روزینہ کا ہاتھ کسی معزز انسان کے ہاتھ میں دے دوں گا یہ میرے مرحوم ماں باپ کی امانت ہے اسے بچا بچا کر اور سینے سے لگا کر رکھا ہوں
برکیارق نے ابھی شادی نہیں کی تھی وہ یہ تو بھول ہی گیا کہ وہ اس درویش کے ساتھ کیوں آیا تھا وہ اس سوچ میں گم ہو گیا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو کیا سلطان ملک شاہ اسے اس کی اجازت دے دے گا اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ شادی کرے گا تو اس لڑکی کے ساتھ کرے گا مشکل یہ تھی کہ سلطان ملک شاہ اعصاب زدگی میں پڑا تھا اس حالت میں برکیارق اس سے یہ نہیں پوچھ سکتا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے کیا اسے اجازت مل سکتی ہے یا نہیں؟
میں سلطان ملک شاہ کا مرید اور معتقد ہوں درویش نے کہا یہاں آ کر پتہ چلا کہ وہ تو بیمار پڑے ہیں میں نے ان کے مرض کی علامات ادھر ادھر سے معلوم کی میرا باپ علم روحانیت میں مہارت رکھتا تھا اس نے دو تین کرامات مجھے ورثے میں دی تھی مجھے جب سلطان کی علامات معلوم ہوئی تو میرا دھیان حسن بن صباح اور اس کے باطنی فتنے کی طرف چلا گیا مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کے پیدر محترم نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کیا کیا جتن کیے ہیں مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حسن بن صباح اور اسکا استاد سفلی علم کے ماہر ہیں نظام الملک تو قتل ہو گئے ہیں لیکن سلطان کو یہ باطل پرست سفلی علم سے مفلوج کر دینا چاہتے ہیں یا انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں میں گزشتہ رات نفل پڑھ کر مراقبے میں گیا مجھے جو صورت حال نظر آئی اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے سلطان پر کوئی دوائی اثر نہیں کرے گی لیکن دوائیں روکنی بھی نہیں کیونکہ یہ دوا انہیں سلا دیتی ہے اور ان کے لیے سوئے رہنا ہی اچھا ہے میں ان کا روحانی علاج کرنا چاہتا ہوں اور اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں جو انہیں سفلی اثرات سے نجات دلادے
اس کے بعد درویش نے ایسی طلسماتی اور پراسرار سی باتیں کیں کہ برکیارق نے شدت سے محسوس کیا کہ ابھی اس درویش کو اپنے باپ کے پاس لے جائے اور انہیں کہیں کہ وہ اس درویش کا علاج فوراً شروع کردیں
ایک بات بتائیں؟
برکیارق نے درویش سے پوچھا کیا سفلی عمل سے کوئی ہماری پوری سلطنت کو تباہ کر سکتا ہے؟
نہیں! درویش نے جواب دیا ایسا نہیں ہوسکتا ذرا تصور میں لائیں کہ ایک گھر کے ذمہ دار افراد کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا جائے یا ان پر اعصابی مرض طاری کر دیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟
وہ گھر تباہ حال ہو جائے گا یہی مثال ایک سلطنت کی ہوتی ہے سلطان ملک شاہ کو دماغی اور جسمانی لحاظ سے معذور کردیا گیا ہے اگر آپ ان کے جانشین ہوں گے تو آپ کا بھی یہی انجام ہوگا پھر سلطنت تو تباہ ہونا ہی ہے
آپ کا طریقہ علاج کیا ہوگا؟
برکیارق نے پوچھا کیا آپ ان کے لیے دعا کریں گے یا کوئی اور طریقہ اختیار کریں گے؟
میں دعا بھی کروں گا درویش نے کہا اور میں کلام اللہ کے تعویز لکھ کر بھی دونگا لیکن میرا طریقہ علاج اس وقت کامیاب ہوگا جب میں سلطان کو دیکھ لوں گا آپ مجھے ان سے جلدی ملوا دیں میں اپنے پیرومرشد کو اس روحانی اذیت میں پڑا ہوا نہیں دیکھ سکتا
میں خود بھی تو انہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا برکیارق نے کہا وہ آپ کے پیرومرشد ہیں اور میرے باپ ہیں میں جاتا ہوں وہ جونہی جاگے میں یہاں آجاؤ گا اور آپ کو ساتھ لے جاؤں گا کیا آپ سارا دن یہی رہیں گے؟
ہاں! درویش نے جواب دیا میں جب تک سلطان کو دیکھنا لو یہیں رہوں گا
بھائی جان! روزینہ نے درویش سے کہا آپ وہ کام کرائے لیکن ذرا جلدی آ جانا
ہاں! درویش نے کہا تم نے یاد دلایا ہے میں وہ کام کر آتا ہوں اتنی دیر فرزند سلطان تمہارے ساتھ رہیں گے
درویش نے برکیاروق سے کہا یہ اکیلے ڈرتی ہے میرا چھوٹا سا ایک کام ہے آپ اس کے پاس بیٹھیں میں ابھی آتا ہوں
درویش باہر نکل گیا
آپ تو شادی شدہ ہوں گے؟
روزینہ نے برکیارق سے کہا
نہیں روزینہ! برکیارق نے کہا ہمارے خاندان کا یہ دستور ہے کہ اولاد کی شادی اس وقت کرتے ہیں جب وہ ذہنی طور پر پوری طرح بالغ ہو جاتی ہے میں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ میں کس کے ساتھ شادی کروں گا
کیا آپ کسی لڑکی کو چاہتے ہیں؟
روزینہ نے شرماتے ہوئے پوچھا
لڑکیاں بہت دیکھی ہیں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی دیکھی ہے لیکن میرے دل نے کسی ایک کو بھی پسند نہیں کیا
کیا آپ لڑکی میں کوئی خاص وصف دیکھنا چاہتی ہیں؟
روزینہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہاں! برکیارق نے جواب دیا میں خاص وصف ہی ڈھونڈ رہا ہوں
کیا وہ کسی ایک بھی لڑکی میں نظر نہیں آئی؟
روزینہ نے پوچھا
آج نظر آگیا ہے برکیارق نے کہا وہ وصف تم میں نظر آیا ہے
لیکن میں شاہی خاندان کے قابل تو نہیں روزینہ نے کہا میں اپنی حیثیت کو اچھی طرح پہچانتی ہوں
دیکھو روزینہ! برکیارق نے کہا تھوڑی سی دیر کے لیے بھول جاؤ کہ میں سلطان زادہ ہوں مجھے اپنے ساتھ کا ایک آدمی سمجھو اور دیانتداری سے بتاؤ کہ میں تمہیں اچھا لگتا ہوں یا نہیں؟
آپ نے بڑا ہی مشکل سوال کیا ہے روزینہ نے کہا اگر میں نے کہا کہ آپ مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں تو آپ کہیں گے کہ آپ شاہی خاندان کے فرد ہیں اس لئے مجھے اچھے لگتے ہیں اگر میں نے کہا کہ میں نے آپ میں اچھا لگنے والا کوئی وصف نہیں دیکھا تو آپ ناراض ہو جائیں گے دانش مند کہتے ہیں کہ بادشاہوں سے دور رہو خوش ہوتے ہیں تو اشرفیوں سے جھولی بھر دیتے ہیں ناراض ہو جائیں تو سولی پر کھڑا کر دیتے ہیں
میں تم میں ایک اور وصف دیکھنا چاہتا ہوں برکیارق نے کہا میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں جرات بھی ہے نہیں میں ایسی لڑکی کی تلاش میں ہوں جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے
یہ وصف مجھ میں ہے روزینہ نے کہا میں سچی بات کہہ چکی ہوں وہ ایک بار پھر کہہ دیتی ہوں اگر میں نے کہا کہ آپ میرے دل کو بہت ہی اچھے لگتے ہیں تو آپ کے دماغ میں سلطانی بیدار ہو جائے گی اور آپ شک کریں گے کہ مجھے آپ کے ساتھ نہیں آپ کے رتبے کے ساتھ محبت ہے آپ نے بہت سی لڑکیاں دیکھی ہیں اور کسی ایک کو بھی اپنے قابل نہیں پایا میں نے بھی بہت لڑکے دیکھے ہیں نوجوان بھی اور پکی عمر کے جوان بھی آپ کی طرح مجھے بھی کسی میں وہ وصف نظر نہیں آیا جو آپ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں
کیا وہ وصف مجھ میں نہیں؟
برکیارق نے پوچھا اب میں توقع رکھوں گا کہ تم جرات سے بولوں گی
ہاں آپ میں مجھے وہ خوبی نظر آ گئی
کیا ہے وہ خوبی؟
برکیارق نے پوچھا
آپ سلطان کے بیٹے ہیں روزینہ نے جواب دیا لیکن میں نے آپ کے انداز میں سلطانی نہیں دیکھی آپ نے میرے درویش بھائی سے کہا تھا کہ آپ نے لڑکیوں میں کبھی دلچسپی نہیں رکھی اگر آپ نے سچ بولا تھا تو آپ وہ آدمی ہیں جسے میں اپنے خاوند کی حیثیت سے پسند کروں گی لیکن میں اتنی کم تر ہوں کہ آپ سے یہ درخواست کروں گی ہی نہیں کہ آپ مجھے قبول کر لیں اور میرا بھائی میرے قرض سے فارغ ہوکر حج کے لئے چلا جائے
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ برکیارق لڑکیوں کا شیدائی نہیں تھا جس طرح کے شہزادے ہوا کرتے ہیں یہ پہلی لڑکی تھی جو اس کے دل میں اتر گئی تھی تھوڑی ہی دیر میں روزینہ اس کے دل پر ہی نہیں بلکہ دماغ پر بھی غالب آ گئی اس نے روزینہ کو اپنا فیصلہ سنا دیا لیکن روزینہ نے پھر بھی یہ کہا کہ وہ ڈرتی ہے کہ برکیارق کے دماغ میں سلطانی بیدار ہوگئی تو وہ روزینہ کو اٹھا کر باہر پھینک دے گا
نہیں نہیں روزینہ نے کہا یہ شادی نہیں ہو سکے گی سلطان ملک شاہ آپ کو اجازت نہیں دیں گے کہ آپ ایک ایسی لڑکی سے شادی کرلیں جس کا نہ کوئی گھر گھاٹ ہے اور نہ اس کا کوئی ٹھکانہ ہے
برکیارق نے اسے قسمیں کھا کھا کر یقین دلانا شروع کر دیا کہ اسے اگر سلطان نے شادی کی اجازت نہ دی تو وہ روزینہ کو ساتھ لے کر یہاں سے چلا ہی جائے گا
میں تمہاری محبت پر سلطنت کی جانشینی اور وراثت قربان کر دوں گا برکیارق نے کہا اللہ گواہ ہے کہ تم پہلی لڑکی ہو جسے میں یہ الفاظ کہہ رہا ہوں
آپ میری محبت پر سلطنت کی وراثت قربان کر رہے ہیں روزینہ نے کہا اور میں آپ کی سلطانی پر اپنی محبت قربان کرتی ہوں آپ سلطان کے بڑے بیٹے ہیں ان کے بعد آپ سلطان بنیں گے میں آپ کو سلطان کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں آپ مجھے زیادہ مجبور نہ کریں
تمہارے بھائی جان آ رہے ہوں گے برکیارق نے کہا اور اس سے پوچھا اگر میں تمہیں تنہائی میں ملنا چاہو تو کیسے مل سکتا ہوں؟
میں آپ کو تنہائی میں بھی مل سکتی ہوں روزینہ نے کہا لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتی ہوں کے آپ سلطان کے بیٹے کی حیثیت سے مجھے ملنے آئے تو وہ ہماری آخری ملاقات ہوگی میرے پاس کوئی دولت نہیں میرا بھائی درویش ہے اس کے پاس اتنی سی پونجی ہوتی ہے کہ ہم دو وقت عزت کی روٹی کھا لیتے ہیں اور سفر کے اخراجات ادا کر سکتے ہیں لیکن میرے پاس جو دولت ہے وہ میری آبرو میری عصمت ہے میں جان دے دوں گی اس دولت سے دستبردار نہیں ہونگی آپ میرے قدموں میں اشرفیوں کا انبار لگا دیں آپ مجھے خرید نہیں سکیں گے
کیا تم میری محبت کو بھی قبول نہیں کروں گی؟
برکیارق نے پوچھا کیا تم اس روحانی محبت کو نھیں پہچان سکوں گی جس کا تعلق جسموں کے ساتھ نہیں ہوتا
میں اسی محبت کی جستجو میں ہوں روزینہ نے کہا لیکن سنا ہے شاہی خاندانوں میں ایسی محبت ملا کرتی جس کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے جسموں کے ساتھ نہیں
میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں برکیارق نے کہا تم یہ بتاؤ کہ تنہائی میں کہاں اور کس وقت مل سکوں گی؟
رات کو میرا بھائی بڑی ہی گہری نیند سویا کرتا ہے روزینہ نے کہا اس کے سر پر ڈھول بچتے رہیں اس کی آنکھ نہیں کھلتی سرائے کے پچھواڑے بڑا خوبصورت باغ ہے آپ نے دیکھا ہو گا درخت بے شمار ہیں آپ آدھی رات کے وقت یہاں آ جائیں میں آپ کے ساتھ باغ تک چلی چلوں گی
میں آج رات باغ میں آ جاؤں گا برکیارق نے کہا آدھی رات کے وقت آؤنگا اور تمہارا انتظار کروں گا
برکیارق تو جیسے بھول ہی گیا تھا کہ وہ اتنی بڑی سلطنت کے سلطان کا بیٹا ہے اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ روزینہ صرف خوبصورت ہی نہیں اس میں خود اعتمادی اور جرات بھی ہے ان اوصاف نے روزینہ کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا کچھ دیر پہلے برکیارق اس سے محبت کی بھیک مانگ رہا تھا یہ لڑکی اس پر طلیسم ہوش روبا بن کر غالب آگئی تھی اور برکیارق یوں محسوس کر رہا تھا جیسے اس پر کوئی نشہ طاری ہوگیا ہو
درویش آ گیا وہ خاصا وقت لگا کر آیا تھا لیکن برکیارق نے یوں محسوس کیا جیسے وہ صرف ایک لمحہ باہر رہا ہو اس نے برکیارق کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی غیر حاضری میں وہ اس کی بہن کے پاس بیٹھا رہا تھا
برکیارق وہاں سے اٹھنا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن اسے اٹھنا پڑا وہ اٹھا اور قدم گھسیٹنے کے انداز سے چلتا کمرے سے باہر نکل آیا
اس روز برکیارق دن بھر کے کام کاج بھول گیا تھا وہ سرائے سے سیدھا اپنے گھر گیا اس نے باپ کو جاکر دیکھا باپ جاگ اٹھا تھا وہ باپ کے پاس بیٹھ گیا
برکیارق بیٹا! سلطان ملک شاہ نے بڑی ہی نحیف آواز میں کہا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس حقیقت کو قبول کر لو کہ میں دو چار دنوں کا ہی مہمان ہوں سلطان کی ساری ذمہ داریاں تمہارے کندھوں پر آ رہی ہیں تم نے صرف اتنی بڑی اسلامی سلطنت کو ہی نہیں سنبھالنا بلکہ اسلام کی پاسبانی بھی کرنا ہے اور اولیت دین اسلام کو دینا
اتنی مایوسی! برکیارق نے سلطان ملک شاہ سے کہا ابھی تو اللہ نے آپ سے بہت کام لینے ہیں خدا کے لئے اس مایوسی کو اپنے ذہن سے جھٹک ڈالیں میں نے طبیب سے پوچھا ہے وہ کہتا ہے سلطان کو کوئی جسمانی مرض لاحق نہیں انہوں نے اپنے ذہن اور دل پر خود ہی بوجھ ڈال لیا ہے اب آپ میری ایک بات غور سے سنیں میں آپ کا روحانی علاج کرانا چاہتا ہوں
میں خود روحانیت کا قائل ہوں سلطان ملک شاہ نے کہا لیکن مجھے کوئی علم روحانیت کا عالم نظر نہیں آتا
مجھے ایک عالم اور روحانی علاج کا ماہر نظر آگیا ہے برق یاری نے کہا اس نے یہی بتایا ہے کہ آپ کو کوئی جسمانی عارضہ لاحق نہیں آپ پر سفلی عمل کیا گیا ہے یہ تو آپ جانتے ہیں کہ یہ عمل کس نے کیا ہوگا ؟
حسن بن صباح کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا اس عالم نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی ہے
برکیارق نے سلطان ملک شاہ کو وہ ساری باتیں سنائیں جو درویش نے اس کے ساتھ کی تھی جوں جوں وہ درویش کی باتیں سناتا جا رہا تھا اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق ود کرتی آ رہی تھی طبیب نے اسے کئی بار بتایا تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیدار ھو جائے اور یقین کر لے کے وہ کسی جسمانی مرض میں مبتلا نہیں طبیب نے اسے الگ الگ کر کے بتایا تھا کہ اس کے ذہن پر کون کون سی باتیں نظر انداز ہو رہی ہیں اور اس کا علاج یہ نہیں کہ انسان ہتھیار ڈال کر لیٹ ہی جائے اور اپنے آپ کو مردہ سمجھ لے لیکن سلطان ملک شاہ طبیب کی کسی بات کو قبول نہیں کرتا تھا وہ اس کی صرف دوائیاں قبول کر رہا تھا اس کے اپنے بڑے بیٹے برکیارق نے اس درویش کا تفصیلی ذکر کیا تو وہ فوراً مان گیا اور اس نے بیٹے سے کہا کہ وہ اس درویش کو ساتھ لے آئے
برکیارق اٹھ دوڑا اسے اپنے باپ کی صحت کے ساتھ تو دلچسپی تھی ہی لیکن اس سے زیادہ دلچسپی روزینہ کے ساتھ تھی وہ یہ سوچ کر سرائے کی طرف جا رہا تھا کہ درویشے کہے گا کہ روزینہ کو کمرے میں اکیلی نہ چھوڑے اور اسے اپنے ساتھ لے چلے
ایسے ہی ہوا جیسا اس نے سوچا تھا وہ درویش کو شاہی بگھی میں بٹھا کر لے آیا روزینہ بھی اس کے ساتھ تھی اپنے محل جیسے گھر میں آکر برکیارق نے روزینہ کو اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھیج دیا اور درویش کو اپنے باپ کے پاس لے گیا
درویش نے سلطان ملک شاہ کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں اور مراقبے میں چلا گیا اس دوران تسبیح جو اس کے ہاتھ میں تھی اس کے دانے دونوں انگلیوں سے آگے چلاتا رہا ،mتھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور تسبیح کے دانے کو دیکھنے لگا پھر اس نے تسبیح الگ رکھ دیں اور سلطان ملک شاہ کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا
قابل صد احترام سلطان! درویش نے کہا بات وہی نکلی جو میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا دشمن نے گھر بیٹھے وار کیا ہے اس محل کے احاطے کے اندر کہیں نہ کہیں کالی بلی کا سر دفن ہو گا میں ابھی یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ سر کہاں دفن کیا گیا ہے یہ بعد کی بات ہے میں وہ سر نکال کر آپ کو دکھا دوں گا فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ آپ پر اس سفلی عمل کے جو اثرات ہیں وہ اتر جائیں اور آپ کا دماغ پہلے کی طرح کام کرنے لگے
آپ یہ علاج کس طرح کریں گے؟
سلطان ملک شاہ نے پوچھا کیا مجھے بھی کچھ کرنا پڑے گا؟
میں آپ سے نماز پڑھواؤں گا درویش نے کہا ایک وظیفہ بتاؤں گا جو آپ نے ہر نماز کے بعد کرنا ہو گا باقی سارا کام میں خود کرونگا میں نے دیکھ لیا ہے کہ مجھے کیا عمل کرنا ہے آپ سات دنوں بعد پہلے کی طرح تروتازہ ہو جائیں گے
ایک اور بات بتائیں سلطان ملک شاہ نے پوچھا کیا آپ کے پاس کوئی ایسا عمل یا وظیفہ ہے جو کیا جائے تو طاقتور دشمن بھی زیر ہو جائے؟
بہت کچھ ہو سکتا ہے درویش نے کہا لیکن ایک سے زیادہ کام ایک ہی بار شروع نہیں ہوں گے سب سے پہلے تو آپ کو زندگی کے راستے پر رواں کرنا ہے جیسا کہ آپ پہلے ہوا کرتے تھے اس کے بعد اگلا کام ہوگا
یہ جس دور کی داستان سنائی جا رہی ہے اس دور میں انسانی فطرت کی کی کمزوریاں عروج پر پہنچی ہوئی تھیں یوں کہیں تو زیادہ صحیح ہو گا کہ انسان کی فطرت میں کمزوریاں تو ہر وقت رہی ہیں لیکن حسن بن صباح کی ابلیسی فطرت نے ان کمزوریوں کو اس طرح ابھارا اور لوگوں کو یقین دلایا کہ یہی کمزوریاں ان کی خوبیاں ہیں جنہیں اللہ زیادہ پسند کرتا ہے ادھر حسن بن صباح تھا اور ادھر سلطان ملک شاہ کو ایک روحانی عامل مل گیا اس سلطان کی اپنی فطری کمزوریاں تھیں یہی وہ شخص تھا جو جنگی قوت سے یا کسی بھی طریقے سے ابلیسیت کے اس طوفان کو اور اس سیلاب کو روک سکتا تھا اور روکنے کی پوری پوری کوشش کر بھی رہا تھا اس کی فطرت کی کمزوریاں ابھری تو اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جو یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ پردوں کے پیچھے کی باتیں بتا سکتا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ سلطان پہلے یہ دیکھتا کہ یہ شخص ہے کون اور کیا اس میں اتنی بڑی طاقت ہے بھی یا نہیں کہ یہ غیب کی باتیں بتا سکے
ادھر اس کے بڑے بیٹے برکیارق میں ایک فطری کمزوری ایک حسین اور نوجوان لڑکی نے ابھار دی وہ جو کہتا تھا کہ اس نے لڑکیوں میں کبھی دلچسپی نہیں لی اس نے اس لڑکی کو اپنے اعصاب بلکہ اپنی عقل پر غالب کر لیا یہ ذمہ داری برکیارق کی تھی کہ وہ پہلے دیکھ لیتا کہ اس درویش کے پاس کوئی علم یا کسی عمل کی طاقت ہے بھی یا نہیں یا یہ سلطان کو خوش کر کے انعام و اکرام حاصل کرنے کے چکر میں ہے
اس وقت ضرورت یہ تھی کہ سلطان ملک شاہ کو بیدار کیا جاتا اور اس کی جو ذمہ داریاں تھیں وہ اس کے آگے رکھی جاتیں اور اسے کہا جاتا کہ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے تیار ہو جاؤ اور میدان عمل میں کود پڑو
یہاں تک تو بات بلکل ٹھیک تھی کہ اس درویش نے اسے کہا تھا کہ وہ نماز باقاعدگی سے پڑھے اور ایک وظیفہ بھی کرے سلطان ملکشاہ ویسے بھی عبادت کا قائل تھا اور صوم و صلوۃ کا پابند بھی تھا لیکن درویش نے اسے یہ جو کہا تھا کہ باقی عمل وہ خود کرے گا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ سلطان کے ہاتھ میں روحانیت کی لاٹھی دے دی گئی تھی کہ وہ اس کے سہارے چلے گا یہ درویش بھی مخلص ہوتا تھا اور اس کی بہن روزینہ بھی سچے دل سے بر کیارق کے ساتھ محبت کر سکتی تھی لیکن اس وقت کی صورتحال ایسی تھی کہ سلطان کو خود بھی اور اس کے بیٹوں کو بھی بیدار اور ذہنی طور پر چوکس رہنا تھا اور ہر وقت اللہ سے مدد مانگی تھی
سلطان عالی مقام! درویش نے کہا میں نے غیب کے پردے اٹھا کر دیکھ لیا ہے حسن بن صباح نے جو سفلی عمل آپ پر کروایا ہے وہ الٹا ہو کر اسی پر جا پڑے گا اس کی وہی حالت ہوجائے گی جو آپ کی ہو رہی تھی میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ جب کسی کا کیا ہوا عمل الٹا ہو کر اس پر جاتا ہے تو بہت ہی زیادہ نقصان کرتا ہے میں ابھی تو نہیں کہہ سکتا لیکن دھاندلی سے ایک بات ہے جو میں آپ کو بتا دیتا ہوں امکان موجود ہے کہ حسن بن صباح اس اثر کو برداشت بھی نہ کرسکے اور مر جائے وہ مرگیا تو اس نے جو فتنہ کھڑا کیا اور اسے پھیلایا ہے وہ خود ہی ختم ہو جائے گا میں آپ کو باداموں کیساتھ گریاں اور ساتھ ہی چھوہارے دوں گا آپ نے یوں کرنا ہے کہ بادام کی ایک گیری ہر صبح نہار منہ کھا لینی ہے اور رات سونے سے پہلے ایک چھوہارا کھانا ہے یہ خیال رکھیں کہ بادام کی گیری اور چھوہارا بہت دیر چپ آتے رہنا ہے اور جب یہ لعاب کی صورت اختیار کر لے تو نگل لینا ہے ہو سکتا ہے کہ ان سات دنوں میں آپ یوں محسوس کریں جیسے آپ کی تکلیف بڑھ گئی ہے تو پریشان نہیں ہونا آٹھویں روز آپ اچھل کر پلنگ سے اٹھیں گے اور زندگی کے اس راستے پر چل پڑیں گے جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے
درویش نے اپنے تھیلے میں سے باداموں کی سات گیریاں اور سات چھوہارے نکالے اور سلطان ملکشاہ کے ہاتھ میں دے دیے
یہ الگ رکھ دیں درویش نے کہا میں نے ان پر اپنا عمل کر دیا ہے اس عمل کے لیے میں گزشتہ رات سویا بھی نہیں یہ رات بھر کا عمل تھا
درویش نے اپنے مخصوص انداز سے باتیں شروع کردیں ان باتوں میں امید کی چمکتی ہوئی کرن تھی اور یہ کرنیں دلفریب رنگوں والی تھیں جن میں سلطان ملکشاہ کو مستقبل درخشاں نظر آرہا تھا درویش کی باتیں جو تھیں وہ اپنی جگہ پر اثر تھیں لیکن درویش کے بولنے کا انداز جو تھا اصل اثر تو اس کا تھا یہ اثر ایسا تھا جیسے کسی کو ہپنا ٹائز کیا جا رہا ہو یہ اثرات سلطان ملکشاہ کے چہرے پر صاف نظر آنے لگے تھے اس کی آنکھوں میں چمک آتی جا رہی تھی اور اس کا چہرہ جو زردی مائل ہو گیا تھا اپنے قدرتی رنگ میں نظر آنے لگا تھا
سلطان مکمل طور پر بلکہ کچھ غیر قدرتی طور پر بیدار ہو گیا اور اس نے درویش سے اس کے متعلق کچھ ذاتی سوالات پوچھنے شروع کر دیے درویش نے سلطان کو وہی باتیں بتائیں جو وہ برکیارق کو بتا چکا تھا
سلطان عالی مقام! درویش نے کہا میرے سر پر صرف ایک ذمہ داری ہے جس سے میں فارغ ہوگیا تو باقی عمر خانہ کعبہ میں اللہ اللہ کرتے گزار دوں گا میرے ساتھ میری چھوٹی بہن ہے میں اس کی شادی کسی ایسے آدمی کے ساتھ کرانا چاہتا ہوں جو مخلص اور درد مند ہو اور صحیح معنوں میں مسلمان ہی نہ ہو بلکہ مرد و مومن ہو
تمہاری بہن کہاں ہے؟
سلطان نے پوچھا
میرے ساتھ ہے درویش نے جواب دیا اسے اپنے ساتھ لایا ہوں میں اسے اکیلی نہیں چھوڑتا
پیدر محترم! برکیارق بولا میں نے ان کی بہن کو دیکھا ہے اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے اس کے پاس کچھ دیر بیٹھنا پڑا میں نے اس کے ساتھ باتیں کیں تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی بہن صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ ان میں عقل بھی ہے اور فہم و فراست بھی ہے اگر آپ اجازت دیں گے تو میں ان کی بہن کے ساتھ شادی کر لوں گا
لڑکی کو یہاں لاؤ سلطان ملک شاہ نے کہا
لڑکی آ گئی اس کے ساتھ برکیارق کی ماں بھی تھی سلطان ملکشاہ پر درویش نے ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ اس نے کچھ زیادہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی اس نے لڑکی کو سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا
برکیارق! سلطان ملک شاہ نے ایسے لہجے میں کہا جیسے کوئی فرمان جاری کر رہا ہوں تم اس لڑکی کے ساتھ شادی کرو گے
برکیارق کی ماں بھی اس لڑکی سے متاثر ہو گئی تھی اس نے خندہ پیشانی سے اپنے خاوند کے فرمان کی تائید کی
نہیں سلطان عالی مقام! درویش نے ہاتھ جوڑ کر کہا میں اس قابل نہیں ہوں کہ اتنی اونچی پرواز کی توقع رکھوں فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس محل میں میری بہن کو یہ طعنے ملنے شروع ہوجائیں کہ تو ایک بے گھر اور بے ٹھکانہ درویش کی بہن ہے
میں نے فیصلہ دے دیا ہے سلطان نے کہا یہ اسلام کے شیدائیوں اور رسول اللہﷺ کے عاشقوں کا خاندان ہے یہاں لڑکی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا جو خدشہ تم نے ظاہر کیا ہے وہ ان دیواروں کے اندر ایک گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے
سلطان! برکیارق کی ماں نے کہا آپ پہلے صحت یاب ہو جائیں آپ اٹھ کر باہر نکلیں گے برکیارق کی شادی اس لڑکی کے ساتھ کر دی جائے گی برکیارق کی ماں تو بہت ہی خوش تھی کیونکہ وہ سلطان کے چہرے پر تندرستی اور بشاشت کے آثار دیکھ رہی تھی وہ بھی درویش سے متاثر ہوئی اور اس نے انعام و اکرام کا اشارہ کیا لیکن درویش نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ کسی انعام کے لالچ میں سلطان کو زندگی کی گہما گہمی میں واپس نہیں لا رہا بلکہ ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر رہا ہے
کچھ دیر بعد درویش روزینہ کو ساتھ لے کر رخصت ہوگیا
سلطان ملکشاہ کا معمول بن گیا کہ صبح جاگتا توں پہلا کام یہ کرتا کہ درویش کی دی ہوئی بادام کی ایک گیری منہ میں ڈال کر چبانے لگتا اس کے بعد وہ نہا کر نماز پڑھتا اور پھر درویش کا بتایا ہوا وظیفہ کرنے لگتا عشاء کی نماز کے بعد بھی وہ وظیفہ کرتا اور اس کے بعد ایک چھوہارا منہ میں ڈال کر چبانے لگتا
برکیارق ہر روز روزینہ سے ملنے چلا جاتا تھا روزینہ نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے سرائے کے پچھواڑے والے باغ میں آدھی رات کے وقت ملا کرے گا لیکن اب اس احتیاط اور خفیہ ملاقات کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ چند دنوں بعد برکیارق اور روزینہ نے میاں بیوی بن جانا تھا برکیارق سرائے میں درویش کے کمرے میں چلا جاتا اور درویش کسی نہ کسی بہانے باہر نکل جاتا روزینہ اس پر ایک بڑے ہی حسین تلچھٹ کی طرح طاری ہوجاتی اور برکیارق خود فراموشی کی کیفیت میں گم ہو جاتا
درویش ہر روز کچھ دیر کے لئے سلطان کے پاس جا بیٹھتا اس کی آنکھوں میں جھانکتا اور پھر آنکھوں میں پھونک مار کر کچھ باتیں کرتا اور وہاں سے چلا آتا
پانچواں یا چھٹا روز تھا کہ سلطان نے اپنے سینے میں بے چینی سی محسوس کرنی شروع کر دی اس نے کہا کہ درویش کو فوراً بلایا جائے کچھ دیر بعد درویش آ گیا اس کے آنے تک سلطان ملک شاہ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ سینے کی بے چینی بڑھ گئی اور ایسی ہی بے چینی کھوپڑی کے اندر دماغ میں بھی شروع ہو گئی تھی
ایسا ہونا تھا درویش نے کہا یہ تکلیف برداشت کریں کل اس وقت تک یہ تکلیف کم ہونے لگے گی اور اس کے بعد آپ بالکل قدرتی حالت میں آجائیں گے
وہ دن اور وہ رات سلطان ملکشاہ سو بھی نہ سکا اگلی صبح اس نے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس کی اس نے ایک بار پھر درویش کو بلایا درویش نے آکر پھر کل جیسی تسلیاں دیں اور مسرت کا اظہار کیا کہ جو عمل سلطان پر کیا گیا تھا وہ نکل رہا ہے اور یہ اس کے اثرات ہیں
اگلے روز سلطان نے صبح اٹھ کر بادام کی آخری گیری بھی کھا لی اور وہ سارا دن تڑپتے گزارا اور سورج غروب ھو گیا سلطان نے کہا کہ درویش کو بلاؤ اور کہو کہ کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزارے تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے…

📜☜ سلسلہ جاری ہے..

www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-7/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 6 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/#respond Sun, 28 Jul 2024 16:19:02 +0000 https://urducover.com/?p=5020 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 6

قسط نمبر:21 }
سلطان ملک شاہ نے سالار امیر ارسلان کو حکم تو دے دیا تھا کہ حسن بن صباح کو زندہ پکڑ لائے، لیکن حسن بن صباح کا سراغ نہیں مل رہا تھا کہ وہ ہے کہاں؟
سلطان نے امیر ارسلان سے یہ کہا تھا کہ حسن بن صباح کا سراغ لگاؤ اور اسے پکڑو
کیا آپ کو معلوم ہے وہ ہے کہاں؟
مزمل آفندی نے جو میمونہ اور شمونہ کے ساتھ تھا ابو مسلم راضی سے پوچھا
نہیں ابومسلم رازی نے جواب دیا یہی ایک سوال ہے جس کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں ایک خبر ملی تھی کہ وہ مصر چلا گیا ہے اور یہ خبر بھی ملی ہے کہ مصر سے واپس آ گیا ہے
ہم اسے بغداد چھوڑ آئے ہیں مزمل آفندی نے کہا
اور یہ میں آپ کو بتا دیتی ہوں میمونہ نے کہا کہ وہ مصر سے واپس آ گیا ہے اور اصفہان جا رہا ہے میں اسکندریہ سے اپنے خاوند کے ساتھ اس کی ہمسفر تھی یہ میرا دوسرا خاوند تھا اسے حلب میں حسن بن صباح نے قتل کروا دیا تھا
قتل کروا دیا تھا؟
ابو مسلم رازی نے چونک کر پوچھا وہ کیسے؟
میمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا
اور پھر اس نے مجھے اپنے اثر میں لے لیا میمونہ نے کہا اس نے ایسے انداز اور ایسے طریقے سے میرے ساتھ باتیں کیں کہ میں اسے خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہوا فرشتہ سمجھنے لگی میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ میرے خاوند کی جان ایک بدروح نے لی ہے اور یہ بد روح میری بھی جان لے گی اور اس بزرگ و برتر شخصیت حسن بن صباح نے مجھے اس روح سے محفوظ کرلیا ہے
کیا اس نے تمہیں اپنے ساتھ رکھ لیا تھا؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
سرائے میں وہ الگ کمرے میں رہتا تھا میمونہ نے جواب دیا میں اس کے ساتھ اس کمرے میں رہنے لگی تھی
میں حیران ہوں کہ تم اس کے چنگل سے نکل کس طرح آئی؟
ابومسلم رازی نے کہا
مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی کی رہنمائی اور مدد سے وہاں سے نکلی ہوں میمونہ نے کہا
میمونہ نے تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی سے اتفاقیہ ملی تھی اور بڑے بھائی نے اسے حسن بن صباح کی اصلیت بتائی تھی
امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا ہم اصفہان کے رہنے والے ہیں تجارت ہمارا پیشہ ہے ہم شہر شہر قصبہ قصبہ جاتے ہیں لوگوں سے ملتے ملاتے ہیں اور ہم اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے والے مسلمان ہیں اس لیے ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہاں غور سے دیکھتے ہیں کہ کہیں اسلام کی روح کو مسخ تو نہیں کیا جا رہا
ان قلعوں کے علاقوں میں تم نے کیا دیکھا ہے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
ان علاقوں میں لوگ حسن بن صباح کو خدا کا ایلچی سمجھتے ہیں مزمل آفندی نے کہا اور ان کا عقیدہ ہے کہ حسن بن صباح آسمان سے زمین پر اترا تھا اور پھر آسمان پر چلا گیا ہے اور ایک بار پھر اس کا ظہور ہوگا
ہمیں معلوم ہوچکا ہے ابو مسلم رازی نے کہا لیکن ہم لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے لوگ تو کھیتی کی مانند ہیں کھیتی ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے حشیش کا پودا بھی کھیتی اگاتی ہے اور حنا بھی کھیتی ہی دیتی ہے ہم اسے پکڑیں گے جو حنا پیدا کرنے والی زمین میں حشیش کا بیج بوتا ہے
مجھے ایک شک ہے امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا ایسے لوگوں کو آپ فوج کہیں یا احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے جانباز پیروکار کہہ لیں انہیں حشیش پلائی جاتی ہے اور نشے کی حالت میں ان کے دماغوں میں وہ لوگ اپنے بے بنیاد عقیدے ڈالتے ہیں دوسرے لوگوں کی تو انہوں نے کایا پلٹ دی ہے محصولات اور مالیہ اس قدر کم کر دیا گیا ہے جو انتہائی غریب کسان نہایت آسانی اور خوشی سے دیتا ہے
وہ محصولات اور مال یہ بالکل معاف کر سکتے ہیں ابومسلم رازی نے کہا قافلے لوٹ لوٹ کر انہوں نے قارون کے خزانے اکٹھے کر لئے ہیں اور ابھی تک ان کی لوٹ مار جاری ہے قتل و غارت گری ان لوگوں کا دستور ہے اس عورت کو دیکھو اس کی اس بیٹی شمونہ کو حسن بن صباح کے ڈاکوؤں نے چھوٹی سی عمر میں اغوا کر لیا تھا ،اس کی ماں کو دیکھو اس کے دو خاوند ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔
امیر محترم! مزمل آفندی نے پوچھا آپ کے سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے کب روانہ ہو رہے ہیں؟
میں ضروری نہیں سمجھتا کہ تمہیں اس سوال کا جواب دو ابومسلم رازی نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بغداد سے اس قافلے نے کب روانہ ہونا تھا ؟
ابھی اس کی روانگی کی کوئی آثار نہیں تھے مزمل آفندی نے جواب دیا اگر روانہ ہو بھی چکا ہو تو ابھی راستے میں ہی ہوگا
تم یقیناً اپنے بھائی کے پاس جانا چاہو گے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
یقیناً! مزمل آفندی نے کہا وہ میرے لئے پریشان بھی ہوں گے، مگر میں ایک خطرہ محسوس کر رہا ہوں میں اس خاتون کو وہاں سے لایا ہوں یہ دراصل حسن بن صباح کے قبضے میں تھی اسے میں اس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لایا ہوں ہوسکتا ہے حسن بن صباح پر یہ راز کھل جائے تو کیا وہ مجھے قتل نہیں کرا دے گا؟
تم اکیلے نہیں جاؤ گے ابومسلم رازی نے کہا میں مرو جا رہا ہوں سلطان سے کہوں گا کہ سالار امیر ارسلان کو فوراً بغداد بھیج دیں اگر قافلہ اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا ہو تو اس کا تعاقب کرے اور حسن بن صباح کو پکڑ کر لے آئے تمہیں اس کے ساتھ جانا پڑے گا میرا خیال ہے امیر ارسلان اس کو نہیں پہچانتا یہ تم اسے بتاؤ گے وہ تمہیں اپنی پناہ میں رکھے گا تمہیں یہاں تین یا چار دن رکنا پڑے گا امیر ارسلان یہاں آ کر روانہ ہوگا

ابومسلم رازی اسی روز مرو کو روانہ ہوگیا اس کے حکم سے مزمل آفندی کی رہائش کا انتظام کردیا گیا تھا شمونہ کو ابومسلم رازی نے اپنے مکان میں ٹھہرایا ہوا تھا میمونہ اس کے ساتھ چلی گئی
مزمل آفندی نے جس وقت شمونہ کو دیکھا تھا اس کی نظریں شمونہ سے ہٹ نہیں رہی تھی شمونہ بہت ہی حسین لڑکی تھی لیکن اس کے چہرے پر ایک تاثر اور بھی تھا مزمل آفندی محسوس کر رہا تھا کہ اس لڑکی کا حسن صرف جسمانی نہیں اس لڑکی میں اسے کوئی اور ہی پَر تو نظر آ رہا تھا
مزمل آفندی اپنے کمرے میں گیا تو وہ اپنے آپ میں ایسی ہلچل محسوس کر رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی وہ بے قرار سا ہوتا گیا اور سوچنے لگا کے کس بہانے وہ ماں بیٹی کے کمرے میں جائے وہ تین چار بار اس توقع پر نکلا شاید ماں یا بیٹی باہر نکلے تو اس کے پاس آ جائے یا اسے بلا لے اس نے میمونہ پر بہت بڑا احسان کیا تھا
شام گہری ہونے کے بعد مزمل آفندی کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آگئی مزمل آفندی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آئی ہے
میں تمہارے چہرے پر حیرت کا تاثر دیکھ رہی ہوں شمونہ نے کہا کیا تمہیں عجیب لگا ہے کہ میں رات کے وقت تمہارے کمرے میں آئی ہوں؟
ہاں شمونہ! مزمل آفندی نے کہا مجھے تمہارا یہاں آنا عجیب لگا تھا لیکن جس بے باکی سے تم نے پوچھا ہے اسے میری حیرت ختم ہوگئی ہے میں تمہیں حرم کی ایک عام سی لڑکی سمجھا جو بچپن میں اغوا ہوکر یہاں تک پہنچی ہے
میں اغوا ہوئی تھی شمونہ نے کہا لیکن میں کسی کے حرم میں قید نہیں ہوئی نہ مجھے جسمانی تفریح کا ذریعہ بنایا گیا تھا بلکہ مجھے ایسی تربیت دی گئی کہ میں پتھر دل آدمی کو موم کی طرح پگھلا کر اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکتی ہوں
تمہیں یہ تربیت کس نے دی تھی؟
مزمل آفندی نے پوچھا
حسن بن صباح کے ٹولے نے شمونہ نے جواب دیا لیکن مزمل میں تمہیں یہ داستان سنانے نہیں آئی کہ میں کیا تھی اور اب کیا ہوں
ساری داستان نہ سہی مزمل آفندی نے کہا میں کچھ نہ کچھ تو ضرور معلوم کرنا چاہوں گا جس طرح تم نے میرے ساتھ بے باکی سے بات کی ہے اسی طرح میں بھی تھوڑی سی بے باکی کا حق رکھتا ہوں اگر تمہیں اچھا نہ لگے تو مجھے روک دینا
آفندی! شمونہ نے کہا مجھے وہ انسان اچھا لگتا ہے جس کی زبان پر وہی ہو جو اس کے دل میں ہے
شمونہ! مزمل آفندی نے کہا میری زبان پر تمہارا نام ہے اور میرے دل میں بھی تم ھی ہو میں نے تمہیں آج ہی دیکھا ہے اور میرے دل نے کہا ہے کہ اس لڑکی کا حسن جسمانی نہیں روحانی ہے اور خدا کی قسم میں نے یقین کی حد تک محسوس کیا کہ میں تمہیں بچپن سے جانتا ہوں اور بچپن سے تم میرے دل میں موجود ہو اگر تمہیں میری نیت پر شک ہو تو یہ سوچ لینا کہ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تمہاری ماں کو یہاں لایا ہوں اور اسے میں اس لیے نہیں لایا کہ تم خوش ہو جاؤ گی تمہیں تو میں جانتا تک نہ تھا میں ایک مظلوم اور فریب خوردہ عورت کو ایک ابلیس کے جال سے نکال کر لایا ہوں یہ کہتی تھی کہ میری بیٹی سلجوقی سلطان یا کسی امیر کے پاس ہے میں اسے محض خواب اور خیال سمجھتا تھا میں تو یہ سوچ کر اسے لے آیا تھا کہ اسے ابومسلم رازی کی پناہ میں چھوڑ کر لوٹ جاؤنگا
میں تمہاری بات سمجھ گئی ہوں آفندی! شمونہ نے کہا مجھے یقین ہے کہ تم میری خاطر نہیں آئے
یہ تو اتفاق ہے مزمل آفندی نے کہا اسے معجزہ کہو تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ تم یہاں مل گئی
یہ اللہ کا انعام ہے شمونہ نے کہا اللہ نے میری توبہ قبول کر لی ہے میرے دماغ میں ابلیسیت ڈالی گئی تھی اور میرے خیالات اور میرے کردار کو ابلیسیت کے سانچے میں ڈھال دیا گیا تھا لیکن ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ میں ہوش میں آ گئی مجھے امید نہیں تھی کہ اپنے آپ کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرکے انسانیت کے دائرے میں داخل ہو سکوں گی لیکن مجھ پر یہ راز کھلا ہے کہ انسان آخر انسان ہے اور وہ اول آخر انسان رہتا ہے کبھی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ انسان ابلیسیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے یا ایسے انسانوں کے نرغے اور اثر میں آجاتا ہے کہ اسے ابلیسیت میں لذت حاصل ہوتی ہے اور وہ ابلیس کا پوجاری بن جاتا ہے لیکن وہ رہتا انسان ہی ہے وہ ابلیس نہیں بن جاتا یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ ارادہ کرلے اور یہ سمجھ لے کے اللہ نے اپنی نگاہ میں انسان کو کتنا اونچا مقام دیا ہے تو وہ ایک جھٹکے سے ابلیس کے چنگل سے نکل کر اللہ کے قریب ہو سکتا ہے یہ میں نے کیا اور اللہ نے یہ انعام دیا کہ مجھے میری بچھڑی ہوئی ماں دے دی
یہ عمر اور یہ حُسن مزمل آفندی نے کہا اور یہ سنجیدگی کیا تمہیں یہ سنجیدگی اچھی نہیں لگی؟
شمونہ نے پوچھا
یہی تو مجھے اچھی لگی ہے مزمل آفندی نے کہا تم چاہتی ہو کہ جو دل میں ہو وہی زبان پر آئے میرے دل کی آواز سن لو شمونہ! میرے دل میں تمہاری وہ محبت پیدا ہو گئی ہے جس کا تعلق روح کے ساتھ ہے اور تم نے ایسی محبت کے قصے سنے ہونگے
شمونہ چونک پڑی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا جیسے وہ خوفزدہ ہوگئی ہو وہ آنکھیں پھاڑے مزمل آفندی کو دیکھنے لگی جیسے اس جواں سال اور خوبرو آدمی نے اسے کہہ دیا ہو کہ میں تمہیں قتل کر دوں گا
کیوں شعمونہ ؟
مزمل آفندی نے کہا کیا میں نے تمہارے دل کو تکلیف پہنچائی ہے
نہیں آفندی! شمونہ نے کہا مجھے شک ہے کہ میری محبت اور موت میں کوئی زیادہ فرق نہیں
مزمل آفندی سراپا سوال بن گیا؟
آج میں کچھ اور کہنے آئی تھی شمونہ نے کہا میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم میری ماں کو لے آئے ہو اور اس سے زیادہ اللہ کی شکر گزار ہوں کہ ماں نے مجھے انسان کے روپ میں دیکھا ہے اس سے پہلے دیکھتی تو کہتی نہیں یہ میری بیٹی نہیں
وہ اٹھ کھڑی ہوئی
تم جا رہی ہوں؟
مزمل آفندی نے کہا میں کیا سمجھوں ناراض ہو کر جا رہی ہو؟
کل آؤنگی آفندی! شمونہ نہ قدر خوشگوار لہجے میں جواب دیا میں ناراض نہیں ہوں تمہاری نیت سمجھ گئی ہوں میں چہرے سے نیت معلوم کر لیا کرتی ہوں میں نے تمہارے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنی ہے
شمونہ چلی گئی
اگلے روز کا سورج طلوع ہوا مزمل آفندی ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا شمونہ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ اس کے کمرے میں آگئی
مزمل! میمونہ نے کہا میری بیٹی نے بتایا ہے کہ تم نے اسے اپنے لیے پسند کیا ہے
نہیں! مزمل نے کہا اپنے لیے پسند کرنے کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے شمونہ بازار کی کوئی چیز نہیں کہ یہ مجھے پسند آگئی ہے اور میں یہ چیز خرید لوں گا صاف بات یہ ہے کہ میں اس کی محبت کا اسیر ہو گیا ہوں اور یہ محبت میری روح میں اتر گئی ہے اگر شمونہ مجھے قبول نہیں کرے گی تو میری روح سے اس کی محبت نکل نہیں سکے گی
تمہیں قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ شمونہ کرے گی میمونہ نے کہا اور پوچھا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہو؟
شادی صرف اس صورت میں کروں گا کہ یہ میری محبت کو قبول کرلے مزمل آفندی نے کہا لیکن قابل احترام خاتون! میں ابھی شادی کی بات ہی نہیں کروں گا پہلے وہ مہم سر کروں گا جس کے لیے میں یہاں روکا ہوں حسن بن صباح کی گرفتاری سلطان نے حکم دیا ہے کہ حسن بن صباح کو زندہ اس کے سامنے لایا جائے لیکن وہ میرے سامنے آگیا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا میری تلوار اس کے خون کی پیاسی ہے
اس لئے کہ اس نے میرے پہلے خاوند کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کروایا تھا ؟
میمونہ نے پوچھا اور اس لیے کہ اس نے میرے دوسرے خاوند کو بھی قتل کروایا ہے کیا تم ہم ماں بیٹی کو خوش کرنا چاہتے ہو؟
نہیں! مزمل آفندی نے جواب دیا میں اللہ کو اور اللہ کے رسولﷺ کو خوش کرنا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے بے شمار عورتوں کو بیوہ اور بے شمار بچوں کو یتیم کیا ہے اور وہ اسلام کی روح کو قتل کر رہا ہے
آفندی! شمونہ بے اختیار بولی اگر تم اس ابلیس کو قتل کر دو تو خدا کی قسم اپنا جسم اور اپنی روح تمہارے قدموں میں ڈال دوں گی
میں نے اسے اپنے دو خاوندوں کے قتل کا انتقام لینا ہے میمونہ نے کہا اور اس نے میری بیٹی کو جو تربیت دی ہے اور اس سے جو قابل نفرت کام کروائے ہیں میں نے اس کا بھی انتقام لینا ہے
لیکن ماں شمونہ نے کہا کیا آپ محسوس نہیں کر رہی ہیں کہ آپ بھی اور آفندی بھی جذباتی باتیں کر رہے ہیں کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنی آسانی سے آپ قتل کے ارادے کی باتیں کر رہی ہیں میں اس کے ساتھ رہی ہوں کوئی شخص اس کے پاس اسے قتل کرنے کے ارادے سے جائے گا تو وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ اس شخص کو قتل کروں یا نہ کروں
میں اس کی یہ طاقت دیکھ چکی ہوں میمونہ نے کہا میں اسے طاقت نہیں جادو کہوں تو غلط نہیں ہوگا
طاقت کہوں یا جادو شمونہ نے کہا اسے جتنا میں جانتی ہوں اتنا آپ دونوں نہیں جانتے میں کہہ رہی ہوں کہ اسے قتل کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچنا پڑے گا اسے پکڑنے کے لیے فوج بھیجی جا رہی ہے میں آپ کو بتاتی ہوں وہ نہیں پکڑا جائے گا اگر پکڑا گیا تو بڑا ہی خوبصورت دھوکہ دے کر نکل جائے گا اسے قتل کرانے کے لیے قرامطیوں کو استعمال کیا جائے تو کامیابی کی امید رکھی جاسکتی ہے
یہ تم کیسے کہہ سکتی ہوں ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
یہ میں اس لیے کہہ سکتی ہوں کہ میں حسن بن صباح کے ساتھ رہی ہوں شمونہ نے جواب دیا اس نے تین چار بار یہ الفاظ کہے تھے کہ صرف قرامطی ہیں جن سے میں خطرہ محسوس کرتا ہوں میں نے اسے وجہ پوچھی تو اس نے کہا تھا کہ قرامطی خونخوار لوگ ہیں اور اس کی تاریخ قتل و غارت گری سے بھری پڑی ہے حسن بن صباح نے مجھے بتایا تھا کہ قرامطیوں نے خانہ کعبہ میں بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا
لیکن اب قرامطیوں میں وہ بات نہیں رہی میمونہ نے کہا
میں حسن بن صباح کی بات کر رہی ہوں شمونہ نے کہا وہ کسی سے نہیں ڈرتا خدا سے بھی نہیں ڈرتا لیکن اس کے دل میں قرامطیوں کا خطرہ موجود رہتا ہے ایک بار اس نے مجھے ایک ماں بیٹے کا قصہ سنایا اور کہا تھا کہ یہ سچا واقعہ ہے اس کا راوی بغداد کا ایک مشہور طبیب ابولحسین ہے جو عرصہ ہوا فوت ہوگیا ہے اس کا سنایا ہوا یہ واقعہ کاتبوں نے تحریر کر لیا تھا
اس طبیب کے پاس ایک عورت گئی اس کے شانے پر تلوار کا گہرہ اور لمبا زخم تھا وہ زخم کی مرہم پٹی کرنے گئی تھی طبیب نے پوچھا کہ یہ زخم کیسے آیا ہے عورت نے زارو قطار روتے ہوئے کہا کہ اس کا ایکلوتا اور نوجوان بیٹا کچھ عرصے سے لاپتہ ہے وہ شہروں اور قصبوں کی خاک چھانتی پھری مگر بیٹے کا کھوج نہ ملا
وہ شہر رَقّہ میں تھی بیٹا وہاں بھی نہیں تھا کسی نے اسے کہا کہ وہ بغداد جائے شاید بیٹا وہاں مل جائے ماں بغداد کو روانہ ہوگئی تھکی ہاری بغداد کے قریب پہنچی تو اسے اپنا بیٹا نظر آیا وہ قرامطیوں کے ایک لشکر کے ساتھ جا رہا تھا اسے دیکھ کر ماں کی تھکان ختم ہوگئی اس نے بیٹے کو پکارا بیٹا اسے دیکھتے ہی لشکر سے نکل آیا ماں نے اسے گلے لگا لیا پھر اس سے خیر خیریت پوچھی اور گلے شکوے کرنے لگی کہ وہ ماں کو بھول گیا ہے
بیٹا بولا فضول باتیں بند کرو ماں! یہ بتاؤ تمہارا دین کیا ہے ؟
ماں نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا کیا باہر گھوم گھوم کر دین سے پردیسی ہو کر تیرا دماغ صحیح نہیں رہا میں اسی دین کو مانتی ہوں جسے پہلے مانتی تھی میرا دین اسلام ہے سب مذہبوں میں سچا مذہب اسلام ہے بیٹا پھٹ کر بولا غلط بات مت کہوں ماں! وہ باطل ہے جس کو ہم سچا دین مانتے رہے ہیں سچا دین یہ ہے جس کا اب میں پجاری ہوں یہ ہے قرامطی دین اگر تم اسلام کو مانتی ہوں تو قرامطی اسلام کو مانو
ماں کے تو جیسے ہوش ہیں اڑ گئے بیٹے نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے خلاف ایک بے ہودہ بات کہہ دی ماں نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کانوں کو ہاتھ لگا توبہ کر اور اللہ سے معافی مانگ بیٹے نے ماں کو غصے سے گھورا اور اپنے لشکر سے جاملا ماں کو جس بیٹے کی جدائی نے پاگل کر رکھا تھا اور جو بستی بستی قریہ قریہ بیٹے کو ڈھونڈتی پھرتی تھی بیٹے کو لشکر کے ساتھ جاتا دیکھتی رہ گئی
شہر بغداد قریب تھا ماں بغداد چلی گئی وہ روتی اور فریاد کرتی تھی اسے اپنے جیسی ایک عورت مل گئی اس نے اس مجبور ماں سے پوچھا کہ وہ کونسا دکھ ہے جو اسے اتنا رولا رہا ہے ماں نے حال دل کہہ سنایا عورت نے اسے بتایا کہ وہ ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور قرامطیوں کی قید میں بھی رہ چکی ہے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ دین اسلام سے منحرف نہیں ہوئی
ہاشمی خاندان کی یہ خاتون اس غمزدہ ماں کو اپنے گھر لے جا رہی تھی کہ قرامطی بیٹا پھر سامنے آگیا اس نے ماں سے پوچھا تو نے دین اسلام کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟
ماں نے کہا میں نے اپنے گمراہ بیٹے کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے بیٹے نے بڑی تیزی سے تلوار نیام سے نکالی اور للکار کر کہا میں اپنی ماں کو قرامطی دین پر قربان کرتا ہوں یہ کہہ کر اس نے ماں پر تلوار کا زوردار وار کیا ماں وار بچا تو گئی لیکن تلوار اس کے شانے پر پڑی اور زخم گہرا آیا کچھ لوگوں نے دوڑ کر بیٹے کو پکڑ لیا ماں قتل ہونے سے بچ گئی اور طبیب ابوالحسین کے یہاں جا پہنچی
یہ واقعہ ابن اثیر نے “تاریخ کامل” کی ساتویں جلد کے صفحہ 173 پر لکھا ہے اس کی تحریر کے مطابق اس واقعے کا اختتام یوں ہوا تھا کہ قرامطی تعداد میں تو بہت زیادہ ہوگئے تھے لیکن بغداد میں ابھی ان کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی اپنی ماں پر قاتلانہ حملہ کرنے والا بیٹا پکڑا گیا ایک روز ماں طبیب سے مرہم پٹی کرا کے آ رہی تھی اس نے قیدیوں کی ایک ٹولی دیکھی ہر قیدی کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں ان میں زخمی ماں کا بیٹا بھی تھا ماں نے بیٹے کو دیکھا اور چلا کر بولی اللہ تجھ سے بھلائی نہ کرے جس نے اپنے سچے دین کو باطل کہا اور رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کی توہین کی اس قید سے تو کبھی آزاد نہ ہو
حسن بن صباح نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا شمونہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا وہ کہتا تھا کہ میں اس قسم کے پیروکار چاہتا ہوں جو اپنے عقیدے پر خواہ یہ عقیدہ باطل ہی ہو اپنی ماں کو اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بھی ذبح کردے
ہم قرامطیوں کو کہاں سے لائیں؟
مزمل آفندی نے کہا
مل جائیں گے شمونہ نے کہا میں امیر شہر سے بات کروں گی لیکن ابھی نہیں ابھی وہ فوج بھیج رہے ہیں خدا کرے وہ پکڑا جائے اگر نہ پکڑا گیا تو میں قرامطیوں کا انتظام کرو گی
شمونہ! مزمل آفندی نے کہا اگر میں وہی کام کر دوں جو تم سمجھتی ہو کہ قرامطیوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا تو
تو جو انعام مانگو گے امیر شہر سے دلواؤنگی شمونہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا
نہیں شمونہ! مزمل آفندی نے جذباتی سے لہجے میں کہا میں نے کسی امیر کسی وزیر اور کسی سلطان سے انعام نہیں لینا
اس نے شمونہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا میمونہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ماں بیٹی کمرے سے نکل گئی
امیر شہر کے محل نما مکان کے عقب میں کچھ دور بڑا ہی خوشنما باغ تھا جس میں شہر کے لوگ داخل نہیں ہو سکتے تھے اس میں گھنے پھول دار پودے تھے گھنی بیلیں اور سارے باغ پر سائے کی ہوئے درخت بھی تھے اور یہ درخت تعداد میں بہت زیادہ تھے بعض بیلیں اس طرح درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں کہ سبزے کے غار سے بنے ہوئے تھے
اسی دن کا پچھلا پہر تھا شمونہ مزمل آفندی کے کمرے میں آئی اور یہ کہہ کر چلی گئی میں باغ میں جا رہی ہوں وہاں آ جاؤ
تھوڑی ہی دیر بعد وہ دونوں باغ کے ایک بہت ہی دل نشین اور ڈھکے چھپے گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے
کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے میری محبت کو قبول کرلیا ہے شمونہ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
میں نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا تو نہیں شمونہ نے کہا لیکن مزمل میں تمہیں خبردار کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ میری محبت تمہیں راس نہیں آئے گی حسن بن صباح کے یہاں مجھے ایک بڑی ہی خوبصورت دھوکہ بنایا گیا تھا اور مجھے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی کو جال میں لینا ہو اس پر نشہ بن کر طاری ہو جاؤ اور اسے ہوش ہی نہ آنے دوں کہ وہ ایک بڑے ہی خطرناک دھوکے میں آ گیا ہے میں نے یہ کمال حاصل کیا اور مرو میں اپنے اس کمال کو آزمایا اور ایک ایسے آدمی کی عقل کو اپنی مٹھی میں لے لیا جو بلا شک و شبہ زاہد پارسا اور دانشمند تھا میرا راز فاش ہونے کی وجہ کچھ اور تھی میں نے حسن بن صباح کا راز بھی فاش کر دیا
یہاں آگئی اور امیر شہر ابومسلم رازی سے پناہ مانگ انہوں نے مجھے پناہ میں لے لیا میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے اندر انسانیت زندہ ہے میں نے اپنی فطرت کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرنے کا عزم کرلیا ابو مسلم نے مجھے ایک ایسے عالم دین کے حوالے کر دیا جو واقعی عالم دین تھا میں نے اسے اپنا پیر و مرشد مان لیا وہ تو تاریک الدنیا تھا میں نے اس کی بہت خدمت کی لیکن ہوا یہ کہ میری روح کی پیاس بجھتی گئی اور میرے پیرومرشد کی روح میں تشنگی پیدا ہوتی گئی شمونہ نے مزمل آفندی کو نوراللہ کا سارا واقعہ سنایا
میں جانتی ہوں اس نے اپنے آپ کو سزائے موت دی تھی شمونہ نے کہا وہ تو مر گیا لیکن میری ذات میں یا میری روح میں عجیب سی بے چینی اور تلخی پیدا ہوگئی مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوگئی میرے دماغ پر یہ خیال غالب آگیا کہ ہر عورت یا ہر خوبصورت عورت کے ساتھ شیطان کا تعلق ضرور ہوتا ہے ابومسلم رازی نے کہا تھا کہ ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کے ایمان کو سلا کر اس میں ابلیسیت کو پیدا کر سکتی ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ان کا ابلیس کچھ نہیں بگاڑ سکتا
تم نے مجھے یہ واقعہ کیوں سنایا ہے ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
اس لئے کہ میرے دل نے تمہاری محبت کو قبول کرلیا ہے شمونہ نے کہا تم عام سے امیر زادے ہوتے تو اور بات تھی لیکن میں تم میں کوئی ایسا جذبہ دیکھ رہی ہوں جو ہر کسی میں نہیں ہوتا میں ڈرتی ہوں کہ تم نے مجھے خوبصورت لڑکی سمجھ کر میری محبت کا نشہ اپنے دل پر طاری کر لیا ہے تو میں اپنے آپ کو اس گناہ کی گنہگار سمجھو گی کبھی تو خدا سے گلہ شکوہ بھی کرتی ہوں کہ مجھے عورت کیوں بنایا تھا؟
اگر میں یہ تفصیل سے سناؤں کہ میں بچپن میں اغوا ہوئی تھی تو اس عمر سے لے کر جوان ہونے تک مجھے کیسی تربیت ملی اور میں نے کیسی زندگی گزاری ہے تو تم آج بھی مجھ پر اعتبار نہ کرو تم آج بھی مجھے ایک دلکش دھوکا کہو گے لیکن میں تمہیں بتاتی ہوں کہ میری ذات میں جو انقلاب آیا ہے اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں یہ ایک معجزہ ہے میں نے یہ راز پا لیا ہے کہ خدا مجھ سے اپنے عظیم اور سچے دین کے لیے کوئی کام کروانا چاہتا ہے
معلوم نہیں تم نے یہ راز بھی پایا ہے یا نہیں؟
مزمل آفندی نے کہا اللہ کی ذات باری نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں اور میں تمہیں یہ بھی بتا دو کہ میری تمہارے ساتھ یہ ملاقات جو غیر متوقع طور پر اور انہونے طریقے سے ہوئی ہے اس کا کوئی خاص مقصد ہے اور یہ مقصد اللہ کی ذات باری نے متعین کیا ہے تم نے ٹھیک کہا ہے کہ میں اپنے دل پر تمہیں صرف خوبصورت لڑکی سمجھ کر محبت کا نشہ طاری نہ کرو نہیں شمونہ! میں ایسا نہیں کروں گا میں نے تمہیں پہلے کہا تھا کہ میں نے تم میں کوئی خاص بات دیکھی ہے
میں تمہیں وہ خاص بات بتا دیتی ہوں شمونہ نے کہا میں حسن بن صباح کو قتل کرنا چاہتی ہوں اس نے میرے دو باپ قتل کروائے ہیں ایک سگا دوسرے سوتیلا اس نے میری ماں کو دوبارہ بیوہ کیا ہے یہ تو میرا ذاتی معاملہ ہے دوسرا معاملہ اسلام کا ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان اور اسلام کا شیدائی ظاہر کر رہا ہے لیکن وہ اسلام کی جڑیں کاٹ رہا ہے ایک بات اور بھی ہے اس نے میرے قتل کا حکم دے رکھا ہے اس نے مجھے ایک شخص کے گھر میں قیدی کی حیثیت سے رکھا تھا اس شخص کی بیوی کو پتہ چل گیا کہ مجھے قتل کیا جائے گا اس نے مجھے رات کو فرار کرا دیا اور میں امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس آ گئی
یہی عزم میرا ہے مزمل آفندی نے کہا یہ کام میں نے کرنا ہے اگر میں اس مہم میں ناکام رہا اور مارا گیا تو یہ کام کرنے کی کوشش کرنا میں اپنی زندگی میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا میں فوج کے ساتھ جا رہا ہوں سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کو سلطان کے حکم کے مطابق زندہ پکڑنے کی کوشش کرے گا اور پکڑ بھی لے گا لیکن میں اسے وہی قتل کر دوں گا
حسن بن صباح کے قتل کی باتیں کرتے ہوئے یہ ایک دوسرے میں گھل مل گئے اور جذباتی باتوں پر آگئے شمونہ جب وہاں سے نکلی تو وہ مزمل آفندی کی محبت سے سرشار تھی
تین چار دنوں بعد ابو مسلم رازی نے مزمل آفندی کو بلایا سالار امیر ارسلان آ گیا تھا
پانچ سو سواروں کا دستہ آگیا ہے ابومسلم رازی نے مزمل آفندی کو بتایا آج ہی جتنی جلدی ہو سکے روانہ ہونا ہے اگر قافلہ بغداد سے نکل گیا ہو تو اس کے تعاقب میں جانا ہے تم حسن بن صباح کو پہچانتے ہو امیر ارسلان نے اسے کبھی نہیں دیکھا تم ہمارے مہمان ہو اور ہمارے لشکری یا ملازم نہیں ہوں اس لئے یہ فرض تم پر عائد نہیں ہوتا کہ وہاں اگر لڑائی ہو جائے تو تم بھی لڑو
کیا آپ کو توقع ہے کہ وہاں لڑائی ہوگئی؟
مزمل آفندی نے پوچھا
ہاں! ابومسلم رازی نے جواب دیا تم شاید نہیں سمجھتے جسے تم قافلہ کہہ رہے ہو اس میں حسن بن صباح کے باقاعدہ لڑنے والے آدمی بھی ہونگے
میں ایک بات کہوں گا امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا اگر بات لڑائی تک آ گئی تو پھر میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ لڑنا میرا فرض ہے یا نہیں مجھے بتایا گیا ہے کہ سلطان معظم نے حسن بن صباح کو زندہ پکڑنے کا حکم دیا ہے لیکن امیر شہر! حسن بن صباح میرے سامنے آگیا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اسے زندہ ہی پکڑوں گا
چاہتا تو میں بھی یہی ہوں ابومسلم رازی نے کہا اس شخص کو میں بھی زندہ نہیں دیکھنا چاہتا بہرحال میری طرف سے تمہارے لیے کوئی حکم اور کوئی پابندی نہیں
دن کا پچھلا پہر تھا جب سالار امیر ارسلان کی قیادت میں پانچ سو سواروں کا دستہ رے سے کوچ کر گیا
انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ حسن بن صباح بغداد سے اس قافلے کو چھوڑ کر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اسی روز اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا تھا جس روز مزمل آفندی میمونہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکلا تھا
یہ بتانا مشکل ہے کہ پانچ سو سواروں کا یہ دستہ کتنے پڑاؤ کر کے اور کتنے دنوں بعد بغداد پہنچا اس دستے کی رفتار بہت ہی تیز تھی دستہ جب بغداد پہنچا تو پتہ چلا کہ قافلے کو یہاں سے روانہ ہوئے تین دن گزر گئے ہیں امیر ارسلان نے دستے کو کچھ دیر آرام دیا اور کچھ کھایا پیا اور وہاں سے قافلے کے تعاقب میں کوچ کر گئے
جو قافلہ تین دن پہلے روانہ ہوا تھا اس تک سوار دستے کو پہنچنے کے لیے کم از کم دو دن تو ضرور ہی لگنے تھے امیر ارسلان نے اپنے دستے کو صرف ایک پڑاؤ کرایا اور بڑی تیز رفتار سے قافلے کے تعاقب میں گیا
اس روز جس روز سواروں کا دستہ قافلے تک پہنچا سورج سر پر آ گیا تھا اور قافلہ ایک ہرے بھرے سرسبز علاقے میں سے گزر رہا تھا دو اونچی پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان کشادہ وادی تھی
امیر ارسلان اور مزمل آفندی دستے کے آگے آگے جا رہے تھے ان کا راستہ ایک پہاڑی کی ڈھلان پر تھا وہ ایک موڑ مڑے تو نیچے انہیں قافلہ جاتا نظر آیا قافلے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ تھے چند ایک گھوڑے اور کچھ اونٹ بھی تھے بعض اونٹوں پر کجاوے تھے ان میں بھی مسافر سوار تھے یہ مسافر یقیناً مالدار خاندانوں کی عورتیں تھیں سالار امیر ارسلان نے اپنے دستے کو روک لیا
تم بھی سوچو آفندی! امیر ارسلان نے مزمل آفندی سے کہا اگر ہم قافلے کے عقب سے گئے تو قافلے والے ہمیں ڈاکو سمجھ کر آگے کو بھاگ اٹھیں گے مجھے بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے ساتھی اتنے ہوشیار اور چالاک ہیں کہ وہ پہاڑیوں میں بکھر کر غائب ہو جائیں گے
یہ تو میں بھی جانتا ہوں مزمل آفندی نے کہا حسن بن صباح لومڑی کی خصلت کا انسان ہے مجھے تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتا ہے
قافلے کو گھیرے میں لیا جائے
سالار امیر ارسلان تجربے کا سالار تھا اس نے اپنے دستے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصے کے کمانڈر کو قافلہ دکھایا اور اسے کہا کہ وہ دور کا چکر کاٹ کر اس وادی کے اگلے حصے میں پہنچے اور قافلے کو اس طرح روک لے کہ کسی کو ادھر ادھر بھاگنے یا چھپنے کا موقع نہ ملے
امیر ارسلان خود دوسرے حصے کے ساتھ رہا اس نے ان سواروں کو اس وقت آگے لے جانا تھا جب دوسرے حصے نے قافلے کا راستہ روک لینا تھا دوسرے حصے کے کمانڈر نے بلندی پر کھڑے ہوکر قافلے کے ارد گرد کے علاقے کو دیکھا وہ اپنے لئے راستہ دیکھ رہا تھا
قافلے کو دیکھنے والے سوار پیچھے مڑے اور جس پہاڑی کی ڈھلانی راستے پر وہ آ رہے تھے اس پہاڑی سے اترے پہاڑیوں کے اندر اندر وہ دور تک چلے گئے امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو اس پہاڑی سے اتارا وہ بلند راستے پر اس خیال سے نہ چلے کہ قافلے میں سے کسی نے گھوم کے دیکھ لیا تو وہ سارے قافلے کو خبردار کر دے گا اور حسن بن صباح کو نکل بھاگنے کا موقع مل جائے گا قافلہ اپنی رفتار سے جا رہا تھا
اس پہاڑی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے قافلے کے چار پانچ آدمیوں نے قافلے کو روک لیا تھا اور کہا تھا کہ اب ہم بڑی خطرناک جگہ پر آگئے ہیں یہاں تین قافلے لُٹ چکے ہیں ڈاکو مال و دولت کے ساتھ جوان عورتوں کو بھی لے گئے تھے
تمام جوان آدمی چوکس ہو جاؤ ایک آدمی نے اعلان کیا جس کے پاس جو بھی ہتھیار ہے وہ ہاتھ میں رکھے اور اگر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا تو لڑنے والے تمام آدمی قافلے کے باہر باہر رہیں اور عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیں اور لوگ انہیں اپنے نرغے میں لے لیں اپنے آپ پر ڈاکوؤں کا خوف طاری نہ کر لینا دیکھا گیا ہے کہ لوگوں پر ڈاکوؤں اور رہزنوں کی دہشت طاری ہوجاتی ہے اور یہ دہشت اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ دہشت زدہ لوگ ڈاکووں کے آگے بھاگ نکلتے ہیں یا ہتھیار ڈال دیتے ہیں
دیکھتے ہی دیکھتے چار سو سے کچھ زیادہ نوجوان جواں سال اور ادھیڑ عمر آدمی قافلے سے الگ ہوگئے یہ سب لڑنے والے تھے اس دور میں لوگ تلواریں اس طرح اپنے ساتھ رکھتے تھے جیسے عورتیں زیور پہنتی ہیں ان میں زیادہ آدمیوں کے پاس تلواریں تھیں اور باقی جو تھے ان میں سے کچھ برچھیوں سے مسلح تھے اور بعض کے پاس خنجر تھے یہ سب آدمی قافلے کے پہلوؤں کے ساتھ کچھ قافلے کے آگے اور باقی قافلے کے پیچھے ہو گئے اس طرح قافلے کو اپنے حفاظتی حصار میں لے کر انہوں نے کہا کہ اب چلو
دو پہاڑیوں کے درمیان کشادہ وادی سے گزرتے قافلے کی تربیت یہی تھی قافلہ لڑنے والوں کے حصار میں تھا
عصر کا وقت تھا جب اچانک قافلے کے سامنے سے چند ایک سوار نمودار ہوئے قافلہ بہت ہی لمبا تھا
ھوشیار ہوجاؤ یہ بڑا ہی بلند اعلان تھا جو قافلے میں سے ایک آدمی نے کیا ڈاکو آگئے ہیں ڈرنا نہیں ہم لڑیں گے
ہم ڈاکو نہیں! سواروں کے کمانڈر نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا بےخوف ہو کر رک جاؤ
بزدلو ڈاکوؤ! قافلے میں سے للکار سنائی دی آگے بڑھو ہم تیار ہیں
سواروں کے کمانڈر نے تمام سواروں کو سامنے لانے کی بجائے یہ عقلمندی کی کہ سواروں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں پہاڑوں کی ڈھلانوں پر چڑھا دیا اور ساتھ ساتھ اعلان کیا کہ کوئی لڑنے کی حماقت نہ کرے ہم سلطان کی فوج کے سپاہی ہیں تمہیں حفاظت میں رکھنا ہماری ذمہ داری ہے
اتنے میں امیر ارسلان اپنے سواروں کو لے کر قافلے کے عقب میں پہنچ گیا اس نے جب اپنے دوسرے کمانڈر کی یہ عقلمندی دیکھی کہ اس نے گھوڑے ڈھلانوں پر چڑھا دیے تھے تو امیر ارسلان نے بھی اپنے سواروں کو قافلے کے پہلوؤں پر لے جانے کی بجائے ڈھلانوں کی بلندی پر رکھا قافلے میں قیامت برپا ہوگی عورتوں اور بچوں کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلانے لگی سواروں کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ وہ ڈاکو نہیں لیکن قافلے میں جو لڑنے والے جوان تھے وہ سواروں کو للکار رہے تھے سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی بلندی پر چلے گئے
میں سالار امیر ارسلان ہوں! اس نے اعلان کیا حسن بن صباح اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ میرے سامنے آجائے حسن بن صباح تم خود میرے سامنے آ جاؤ گے تو زندہ رہو گے اور اگر ہم نے تمہیں خود ڈھونڈ کر پکڑا تو پھر میں تمہیں زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا
اس اعلان کے جواب میں بھی دو تین جوشیلے جوانوں نے للکار کر کہا کہ وہ دھوکے میں نہیں آئیں گے اور پورا مقابلہ کریں گے
قافلے والوں! مزمل آفندی نے بلندی سے اعلان کیا مجھے دیکھو اور پہچانو میں نے تمہارے ساتھ بغداد تک سفر کیا ہے میرا بڑا بھائی اس کی بیوی اور بچے اس قافلے میں شامل ہیں کیا تم مجھے بھی ڈاکو سمجھتے ہو؟
مزمل آفندی کا بڑا بھائی ان میں سے نکلا اور دوڑتا ہوا ڈھلان پر چڑھ گیا مزمل آفندی گھوڑے سے کود کر اترا اور اپنے بڑے بھائی سے بغلگیر ہو کر ملا اس نے بھائی کو بتایا کہ یہ سلطان ملک شاہ کے فوجی ہیں اور حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے آئے ہیں
وہ اس قافلے میں نہیں ہے مزمل کے بڑے بھائی نے کہا سالار محترم! میرا یہ بھائی ایک خاتون کو حسن بن صباح کے جال سے نکال کر بغداد سے نکلا تھا تو اس کے فوراً بعد حسن بن صباح بغداد سے نکل گیا تھا
کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرف گیا تھا ؟
امیر ارسلان نے پوچھا
اس قافلے کے بہت سے لوگ اس کے معتقد اور مرید ہو گئے تھے مزمل کے بھائی نے جواب دیا یہ مشہور ہو گیا تھا کہ وہ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہے اور غیب کی خبریں دینے کی طاقت رکھتا ہے اس نے جہاز کو بڑے ہی تیز و تند سمندری طوفان سے نکال لیا تھا وہ جب بغداد سے روانہ ہونے لگا تو اس کے مریدوں نے اسے گھیر لیا اور پوچھا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے کچھ لوگ تو اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئے تھے لیکن اس نے سب کو روک دیا اور کہا تھا کہ اسے آسمان سے اشارہ ملا ہے کہ وہ فوراً اصفہان پہنچے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اصفہان جا کر اسے اللہ کی طرف سے ایک اور اشارہ ملے گا پھر وہ چلا گیا تھا
سالار امیر ارسلان نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اور نیچے اتر آیا وہ قافلے کے سامنے گیا مزمل آفندی اور اس کا بڑا بھائی اس کے ساتھ تھے اس نے قافلے کے ہر ایک آدمی کو دیکھا اور قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا گیا قافلہ تقریباً ایک میل لمبا تھا
حسن بن صباح کو پہچاننے کے لئے مزمل اور اس کا بھائی ساتھ تھے امیر ارسلان نے اونٹوں کے کجاوؤں اور پالکیوں کے پردے ہٹا کر دیکھا اور اس طرح دیکھتے دیکھتے قافلے کے دوسرے سرے تک چلا گیا چند اور آدمیوں سے حسن بن صباح کے متعلق پوچھا ان سب نے بتایا کہ حسن بن صباح اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کیرائے کے گھوڑوں اور ایک اونٹ کے ساتھ ان جانوروں کے مالکوں سمیت بغداد سے چلا گیا تھا اور اس کی منزل اصفہان تھی
سواروں نے قافلے کو ایسے گھیرے میں لے لیا تھا کہ کسی کو نکل بھاگنے کا موقع مل ہی نہیں سکتا تھا
سالار امیر ارسلان نے اعلان کروایا کہ قافلہ جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کروایا کہ قافلے پر ڈاکوؤں کا کوئی گروہ حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ یہ پانچ سو سوار اسی علاقے میں اصفہان تک موجود رہیں گے
امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو بلا کر کوچ کی ترتیب میں کرلیا اور اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا ان کے پیچھے پیچھے قافلہ بھی چل پڑا
سواروں کو اصفہان جلدی پہنچنا تھا اس لیے وہ قافلے سے دور آگے نکل گئے اور کچھ دیر بعد بڑی پہاڑیوں کے درمیان سے بھی نکل گئے علاقہ تو آگے بھی پہاڑی ہی تھا لیکن پہاڑیاں زیادہ اونچی نہیں تھیں بعض تو ٹیکریوں جیسی تھیں اور بکھری ہوئی تھیں
ان ٹیکریوں میں سے ایک گھوڑے کے سر پر دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں جو گھوڑے کی رفتار سے دور ہٹتی جا رہی تھیں اس کے ساتھ ہی ایک گھوڑا قافلے کے طرف سے سوار دستے کی طرف دوڑتا آیا اور سالار امیر ارسلان کے پہلو میں جا رکا
محترم سالار! سوار نے کہا قافلے میں سے ایک سوار نکلا اور اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی مجھے شک ہے کہ وہ حسن بن صباح کے آدمیوں میں سے تھا اور وہ اصفہان جا کر یا جہاں کہیں بھی وہ ہے اطلاع دینے گیا ہے کہ اس کی گرفتاری کے لیے ایک سالار آ رہا ہے
اس سوار کو پکڑنا ممکن نہیں تھا اس کے گھوڑے کے ٹاپ بھی اب سنائی نہیں دیتے تھے امیر ارسلان اپنے سوار دستے کو سرپٹ تو نہیں دوڑا سکتا تھا کہ وہ اس سوار کے ساتھ ساتھ اصفہان پہنچ جاتا اس نے سوار دستے کو ذرا تیز چلنے کا حکم دیا
اصفہان میں ایک بہت بڑا مکان تھا جس کی شکل و صورت ایک قلعے جیسی تھی حسن بن صباح کچھ دن پہلے وہاں پہنچا تھا اور اس نے احمد بن عطاش کو اپنی آمد کی اطلاع دی تھی احمد بن عطاش خلجان میں تھا اطلاع ملتے ہی وہ بڑی لمبی مسافت تھوڑے سے وقت میں طے کرکے اصفہان پہنچ گیا حسن بن صباح نے اسے سنایا کہ مصر میں اس کے ساتھ کیا بیتی تھی اور اسے قید میں ڈال دیا گیا تھا اور کس طرح وہ قید سے رہا ہوا اور جس طرح وہ مصر سے حلب پہنچا تھا وہ ساری روداد سنائی پھر پوچھا کہ اب وہ خلجان آئے یا نہیں؟
تمہیں آخر آنا ہی ہے حسن! احمد بن عطاش نے کہا لیکن ہمارے جاسوسوں نے جو اطلاع دی ہیں وہ یہ ہیں کہ سلطان ملک شاہ تمہیں گرفتار کرنے کی کوشش میں ہے تم ابھی یہیں رہو
میرے پیر استاد! حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ بتائیں کہ لوگ مجھے بھول تو نہیں گئے کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی اور کام کیا ہے؟
تم بھول جانے کی بات کرتے ہو حسن! احمد بن عطاش نے کہا لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں میں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ تم وہاں آکر دیکھو گے ہم لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ خدا کا ایلچی اب پہلے کی طرح اسی علاقے میں کہیں آسمان سے اترے گا اور جو بھی اس کا پیروکار بنے گا اسے اس دنیا میں جنت مل جائے گی لوگ تمہارے نام پر جانیں دینے کے لیے تیار رہتے ہیں میں نے جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو ایک اشارے کا منتظر رہتا ہے ہم بہت جلدی سلجوقیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے اس علاقے کی تقریباً تمام مسجدوں میں جو امام یا خطیب ہیں وہ سب ہمارے آدمی ہیں وہ لوگوں کو قرآن اور احادیث کی جو تفسیر سنا رہے ہیں ان میں ہمارے عقیدے اور خدا کے ایلچی کے نزول کی پیشن گوئیاں ہوتی ہیں لوگ اسی کو صحیح اسلام سمجھ رہے ہیں
لڑکیوں کا گروہ تیار ہوا ہے یا نہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا اور کیا جانبازوں کو حشیش دی جا رہی ہے یا نہیں
حشیش نے ہی تو ہمارا کام آسان کیا ہے احمد بن عطاش نے کہا لوگوں کو خصوصاً لڑنے والے لشکریوں کو معلوم ہی نہیں کہ ہم انہیں کھانے پینے کی اشیاء میں حشیش دے رہے ہیں ہمارے لڑکیوں نے جو کام کیے ہیں وہ تم وہاں آکر دیکھو گے بعض قبیلوں کے سردار جو ہماری باتوں کا اثر قبول نہیں کر رہے تھے بلکہ ہمارے خلاف ہو گئے تھے انہیں ہماری لڑکیوں نے رام کیا ہے کہ اب وہی سردار ہماری طاقت بن گئے ہیں
تمام مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ ان لوگوں نے انسانی فطرت کی کمزوریوں اور فطری مطالبات کے عین مطابق لوگوں کے ذہنوں میں اپنا باطل عقیدہ ڈالا تھا داستان گو پہلے بیان کرچکا ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے آگ میں ایسی جڑی بوٹی ڈال دی جاتی تھی جس کا دھواں اور جس کی بو انسانی ذہن پر نشہ طاری کردیتی تھی لیکن لوگ محسوس نہیں کرتے تھے کہ ان کے دماغوں پر کس طرح قبضہ کیا جا رہا ہے وہ بظاہر ذہنی طور پر نارمل رہتے تھے لیکن ان جڑی بوٹیوں کی وجہ سے حسن بن صباح کے ٹولے کے قبضے میں چلے جاتے تھے پھر اس ٹولے کے بڑے لوگ جب باطل کی بھی کوئی بات کرتے تھے تو ان کے دماغ باطل کو بھی قبول کر لیتے تھے
دراصل وہ پسماندگی کا دور تھا لوگ جو مسلمان تھے وہ اس لئے مسلمان تھے کہ دین اسلام ان کے ورثے میں چلا آ رہا تھا جو اگر کسی باتوں میں نہیں آتے تھے تو وہ عیسائی یا یہودی تھے اسلام کے دائرے میں رہ کر مسلمانوں کو کوئی نئی چیز بتائیں جاتی تو وہ غور سے سنتے اور اسے اسلامی سمجھ کر قبول کرلیتے تھے اگر آج کی زبان میں بات کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی خاص جڑی بوٹی کے دوائی اور قرآن کی نئی تفسیروں کے ذریعے سیدھے سادے لوگوں کو ہپنا ٹائز کر لیا گیا تھا لوگوں کو کچھ شعبدے بھی دکھائے گئے تھے لوگ نہ سمجھ سکے کہ ان کے ذہنوں میں شیطانی نظریات ٹھونسے جا رہے ہیں لوگوں کو انہیں بتائے بغیر جس جڑی بوٹی کا دھواں دیا جاتا تھا وہ مورخوں کے کہنے کے مطابق حشیش کا پودا تھا سیکڑوں جانبازوں کا جو گروہ تیار کیا گیا اسے انہیں بتائے بغیر حشیش پلائی جاتی تھی
احمد بن عطاش ابھی وہی تھا کہ اطلاع دی گئی ایک سوار آیا ہے جس کی حالت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی اسے فوراً اندر بلا لیا گیا اس کی حالت بہت ہی بری تھی اصفہان تک جلدی پہنچنے کے ارادے سے اس نے اتنے لمبے سفر میں پڑاؤ کیا ہی نہیں تھا گھوڑے کو چند جگہوں پر روک کر پانی پلایا اور سفر جاری رکھا اس سے بولا بھی نہیں جاتا تھا
سلطان کے پانچ چھ سو سوار آرہے ہیں اس نے بڑی مشکل سے کہا آپ کو گرفتار کریں گے اچھا ہوا آپ پہلے نکل آئے تھے کسی نے بتا دیا ہے کہ آپ اصفہان چلے گئے ہیں وہ ادھر آ رہے ہیں اور وہ بے ہوش ہو گیا
مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے حسن بن صباح نے کہا لیکن جاؤں کہاں؟
خلجان شاہ در
نہیں! احمد بن عطاش نے کہا کسی بھی بڑے شہر میں جانا خطرناک ہو گا قلعہ تبریز گمنام سا قلعہ ہے دور بھی نہیں وہاں اپنے آدمی ہیں سب قابل اعتماد ہیں اور ضرورت پڑی تو جانیں قربان کر دیں گے
تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کو رات کے سیاہ پردے میں قلعہ تبریز پہنچا دیا گیا
صرف ایک دن اور گزرا تو سالار امیر ارسلان پانچ سو سواروں کے ساتھ پہنچ گیا یہ دستہ طوفان کی طرح اصفہان کی گلیوں میں بکھر گیا سوار اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ حسن بن صباح باہر آ جائے ہم ہر گھر کی تلاشی لیں گے جس گھر سے حسن بن صباح برآمد ہوگا اس گھر کے ہر مرد اور عورت کو ساری عمر کے لئے قید میں ڈال دیا جائے گا
اس وقت اصفہان سلجوقیوں کے زیر نگیں تھا کوئی خاندان کسی مشکوک آدمی کو پناہ نہیں دے سکتا تھا اس قلعہ نما مکان پر کوئی شک نہیں کر سکتا تھا جہاں حسن بن صباح ٹہرا اور احمد بن عطاش اسے آ کر ملا تھا اس مکان میں مذہب پرست لوگ رہتے تھے اور وہ تجارت پیشہ تھے وہ مسلمان تھے احمد بن عطاش اب بھی وہاں موجود تھا لیکن اس نے اپنا حلیہ بدل لیا تھا وہ اس مکان کے اصطبل کا سائس بن گیا تھا سر اور داڑھی کے بال بکھیر لیے تھے کپڑے بوسیدہ سے پہن لئے اور ان پر گھوڑوں کی لید کے داغ دھبے لگا لیے تھے وہ ذرا کبڑا بن گیا تھا
بہت دیر بعد جب کسی نے بھی نہ کہا کہ حسن بن صباح اُس کے گھر میں ہے ایک ضعیف بڑھیا امیر ارسلان کے پاس آئی
میں گزشتہ رات قلعہ تبریز سے آئی ہوں بڑھیا نے کہا میرا ایک نوجوان پوتا وہاں رہتا ہے اس سے مجھے بہت پیار ہے کبھی کبھی اپنی گھوڑی پر اسے دیکھنے جاتی ہوں وہاں وہ کوئی کام نہیں کرتا لیکن رہتا بڑی شان سے ہے میں اسے ملنے گئی تھی رات سے پہلے واپسی کے سفر کو روانہ ہوئی دروازہ کھلا ہوا تھا میں دروازے سے نکلنے لگی تو چھ گھوڑسوار دروازے میں داخل ہوئے انہوں نے مجھے روک لیا اور پوچھا کون ہو؟
میں نے کہا خود ہی دیکھ لو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہوں پوتے سے ملنے آئی تھی واپس اصفہان جا رہی ہوں ان میں سے ایک نے کہا جانے دو اسے اسے تو اپنی ہوش نہیں اندر سے سات آٹھ آدمی دوڑے آئے میں دروازے سے باہر آ گئی ان میں سے ایک آدمی نے کہا خوش آمدید حسن بن صباح آج ہماری قسمت جاگ اٹھی ہے ایک اور آدمی کی آواز سنائی دی نام مت لو احمق تمہاری آواز اصفہان تک پہنچ سکتی ہے معلوم نہیں یہ وہی حسن بن صباح ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو یا یہ کوئی اور ہے امیر ارسلان نے اس بڑھیا کے بیٹوں کو بلایا اور پوچھا کہ ان میں سے کس کا بیٹا قلعہ تبریز میں ہے
وہ میرا بیٹا ہے ایک آدمی نے کہا
وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟
گمراہ ہوگیا ہے اس نے جواب دیا باطنیوں کے جال میں آ گیا ہے اور خدا کے ایلچی کا جاں باز بن گیا ہے ہم صحیح العقیدہ مسلمان ہیں معلوم نہیں ہمارے بیٹے کو کیا سبز باغ دکھائے گئے ہیں کہ وہ حسن بن صباح کے نام کا ہی ورد کرتا رہتا ہے
اس طرح کڑی سے کڑی ملاتے یہ یقین ہو گیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں ہے سالار امیر ارسلان نے اسی وقت کوچ اور قلعہ تبریز کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا
یہاں ایک دو وضاحت ضروری ہے یہ قلعہ تبریز ایران کا آج والا شہر تبریز نہیں یہ ایک گمنام سی بستی تھی جس کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے
دوسری وضاحت یہ کہ بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح قلعہ المُوت میں جا چکا تھا اور امیر ارسلان نے وہاں حملہ کیا تھا یہ صحیح نہیں اس وقت حسن بن صباح کے فرقے نے قلعہ المُوت پر قبضہ ہی نہیں کیا تھا قلعہ الموت پر اس فرقے کا قبضہ سال دو سال بعد ہوا تھا اور وہاں خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے حملہ کیا تھا
بعد کے اکثر تاریخ نویسوں نے قلعوں کے نام لکھنے میں غلطیاں کی ہیں وہاں بہت سے چھوٹے بڑے قلعے تھے ان میں سے بیشتر پر حسن بن صباح کے فرقے کا قبضہ ہوگیا تھا
تو یہ تھا قلعہ تبریز جیسے سالار امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں نے محاصرے میں لے لیا انہوں نے دیواروں پر کمند پھینکنے کے لئے رسّے اور دیوار توڑنے کے لئے سامان کمانیں اور تیروں کا ذخیرہ اصفہان سے لے لیا تھا
“ائمہ تلبیس” کے مطابق حسن بن صباح کے پاس لڑنے والے صرف ستر آدمی تھے اور یہ سب جانباز تھے چھوٹے سے اس قلعے کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے جو اس وقت بند ہونے لگے جب امیر ارسلان کا سوار دستہ بالکل قریب پہنچ گیا تھا چند ایک سواروں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی کہ وہ دونوں دروازوں سے اندر چلے جائیں
دروازے بند ہو رہے تھے اندر کے جانبازوں نے ایسی بے خوفی اور بے جگری سے مقابلہ کیا کہ سوار دروازوں میں داخل نہ ہوسکے اور دروازے بند ہوگئے یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے دروازے لوہے اور شاہ بلوط کی لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے اور ٹوٹ ہی نہ سکتے عام سی لکڑی کے دروازے تھے سواروں نے گھوڑوں سے اتر کر دروازے توڑنے شروع کر دیے
ادھر سواروں نے دیوار پر کمندیں پھینکیں کوئی کمند دیوار سے اٹک جاتی تو حسن بن صباح کے جاں باز رسّہ کاٹ دیتے اور اوپر سے تیر بھی برساتے تھے تیروں کے جواب میں سواروں نے بھی تیر اندازی شروع کر دی تیروں کے سائے میں چند ایک سپاہی اوپر چلے گئے دیوار اتنی چوڑی نہیں تھی کہ اس پر لڑا جا سکتا وہ اندر کود گئے جانبازوں نے انہیں نرغے میں لے لیا لیکن ایک آواز نے ان کا نرغہ توڑ دیا
دروازے ٹوٹ گئے ہیں دونوں دروازے سے للکار اٹھ رہی تھی دروازوں پر آجاؤ دشمن اندر نہ آ جائے
حسن بن صباح کے جاں باز دروازوں کی طرف اٹھ دوڑے امیر ارسلان کے آدمیوں نے جو اب سوار نہیں پیادے بن گئے تھے ان جانبازوں پر تابڑ توڑ حملے کیے حالانکہ وہ قلعے کے اندر تھے اور ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی
باطنی جانبازوں نے باہر کے سواروں کو اندر تو نہ آنے دیا انہوں نے جانوں کی بازی لگادی تھی لیکن یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ وہ زیادہ دیر اسی طرح جم کر نہیں لڑ سکیں گے مورخ لکھتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی لڑائی تھی جو چھوٹی سی ایک بستی میں لڑی گئی تھی لیکن اس کی اہمیت اس وجہ سے ایک بڑی لڑائی جتنی تاریخی ہے کہ یہ حسن بن صباح کے باطنی فرقے اور سلجوقی مسلمانوں کا پہلا مسلح تصادم تھا اور اسی تصادم میں اندازہ ہو گیا تھا کہ حسن بن صباح کے پاس کتنی طاقت ہے اور یہ طاقت کس قسم کی ہے
حسن بن صباح دیکھ رہا تھا کہ اس کے ستر جاں باز اتنے بڑے سوار دستے کو روک نہیں سکیں گے ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی حسن بن صباح ایک بلند چبوترے پر چڑھ گیا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بلند آواز سے کہہ رہا تھا تیرا ایلچی مشکل میں آگیا ہے اللہ فرشتوں کو بھیج اللہ اپنے نام پر جانیں قربان کرنے والوں کو اتنے سخت امتحان میں نہ ڈال اللہ فرشتے اتار اللہ کفار کے طوفان سے بچا اللہ
وہ چپ ہو گیا اور آسمان کی طرف دیکھتا رہا اس کے بہت سے جانبازوں نے اسے دیکھا
یاحسن! اس کے ایک آدمی نے قریب آکر گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اپنے فدائین دل چھوڑ بیٹھے ہیں وہ باہر کو بھاگنے کا راستہ دیکھ رہے ہیں حسن بن صباح نے اس شخص کو دیکھا اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے حسن بن صباح نے آنکھیں بند کرکے آسمان کی طرف دیکھا
وحی نازل ہو گئی ہے اس نے بلند آواز سے کہا اللہ کا حکم آیا ہے کوئی شخص باہر نہ نکلے جو نکلے گا وہ دنیا میں جلے گا اور جو ہمارے ساتھ رہے گا وہ دنیا میں فردوس بریں دیکھے گا حوریں اتر رہی ہیں فرشتے اتر رہے ہیں ہمارا ساتھ چھوڑنے والوں کے لئے آگ اتر رہی ہے مدد آ رہی ہے
یہ “وحی” تمام جانبازوں تک پہنچا دی گئی وہ فوراً ثابت قدم ہوگئے اور جم کر لڑنے لگے
ہم حسن بن صباح کے ساتھ رہیں گے باطنیوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے
لڑائی میں نیا ہی جوش اور قہر پیدا ہوگیا امیر ارسلان کے جو آدمی کمندوں کے ذریعے اندر گئے تھے انہیں باطنیوں نے کاٹ ڈالا
اور آسمان سے فرشتے بھی اتر آئے
یہ تین سو سوار اچانک کہیں سے نکلے ان کے سرپٹ ٹاپوں کی آوازیں دور سے سنائی دی تھیں امیر ارسلان کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ یہ ان کے دشمن سوار ہیں اسے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ اس کے لیے کہیں سے کمک آئے گی اسے کمک کی ضرورت بھی نہیں تھی پھر یہ بھی تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ امیر ارسلان کہاں ہے؟
بہرحال اس کے ذہن میں یہ خدشہ آیا ہی نہیں کہ یہ سوار جو چلے آرہے ہیں یہ اس کے لئے ایسی مصیبت چلی آرہی ہے جس کا وہ سامنا نہیں کر سکے گا ان تین سو سواروں کی رفتار اتنی تیز تھی کہ امیر ارسلان کو کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا گھنے جنگل کی ہری بھری جھاڑیوں درختوں اور اونچی گھاس سے یہ سوار بے ترتیب سے گروہوں کی صورت میں سیلاب کی طرح چلے آرہے تھے وہ جوں جوں قریب آتے گئے پھیلتے گئے بعض کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں اور باقیوں کے پاس تلواریں تھیں انہوں نے یہ ہتھیار آگے کو کر رکھے تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حملہ کرنے آرہے ہیں
اس وقت بھی امیر ارسلان نے کوئی دفاعی اقدام نہ کیا حتیٰ کہ وہ سوار ان کے سر پر آگئے اور انہوں نے نعرہ لگایا حسن بن صباح زندہ باد اس وقت امیر ارسلان اور اس کے سواروں کے ہوش آئی لیکن سمجھنے اور سنبھل کر مقابلے میں آنے کا وقت گزر چکا تھا ان سواروں نے امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں کو بے بس کردیا سلجوقیوں نے مقابلے میں جمنے کی بہت کوشش کی لیکن حملہ آوروں کے انداز میں اتنا قہر اور غضب تھا کہ انہوں نے سلجوقی سواروں کو بالکل ہی بے بس کر کے کاٹ ڈالا انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کا سالار امیر ارسلان مارا جا چکا ہے امیر ارسلان کے سواروں میں سے چند ایک سوار نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے یہ سب زخمی حالت میں تھے ان میں مزمل آفندی بھی تھا وہ بھی زخمی تھا باقی زخمی تو ادھر ادھر چھپ گئے ان میں بھاگنے کی بھی ہمت نہیں تھی لیکن مزمل آفندی نے گھوڑے کا رخ مرو کی طرف کر دیا اور ایڑ لگا دی
ذہن میں قدرتی طور پر سوال اٹھتا ہے کیا یہ تین سو سوار واقعی فرشتے تھے جو اللہ نے حسن بن صباح کی مدد کے لیے بھیجے تھے؟
اور کیا واقعی اس پر وحی نازل ہوئی تھی؟
نہیں یہ پہلے سے کیا ہوا ایک انتظام تھا اور یہ انتظام احمد بن عطاش نے کیا تھا داستان گو سارا قصہ سنا چکا ہے قافلے سے نکلے ہوئے ایک سوار نے اصفہان پہنچ کر حسن بن صباح کو خبردار کر دیا تھا کہ سلجوقی سلطان نے اس کی گرفتاری کے لیے پانچ چھے سو گھوڑ سواروں کا دستہ بھیجا ہے اور یہ دستہ اصفہان کی طرف آ رہا ہے
احمد بن عطاش بھی حسن بن صباح کے ساتھ تھا انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا جائے وہ چلا گیا ان لوگوں کو خداوند تعالی نے بڑے ہی تیز اور بہت دور تک سوچنے والے دماغ اور بہت دور تک دیکھنے والی نگاہیں دی تھیں انہوں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ آگے کیا ہوگا خطرہ یہی تھا کہ امیر ارسلان اصفہان میں آکر حسن بن صباح کو ڈھونڈے گا اور کسی نہ کسی طرح اسے پتہ چل جائے گا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا گیا ہے
یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے اسی مکان میں جہاں وہ اور حسن بن صباح ٹھہرے تھے سائس کا بہروپ دھار لیا تھا یہ ایک قبیلے کے سردار کا مکان تھا اور یہ سردار حسن بن صباح کا پیروکار باطنی تھا
احمد بن عطاش نے اس سردار سے کہا تھا کہ حسن بن صباح کو بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ایسے سواروں کی ضرورت ہے جو شہسوار ہوں تیغ زن اور برچھی بازی کی مہارت رکھتے ہوں اور لڑائی میں جان کی بازی لگا دینے والے ہوں
یہ سردار اسی وقت ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس کے پیچھے ایک اور گھوڑا تھا جس کی باگ سائس کے ہاتھ میں تھی اور سائس پیدل چل رھا تھا لوگ جو راستے میں آتے تھے اس سردار کو جھک کر سلام کرتے تھے اور وہ سائنس کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے کیونکہ وہ اس سردار کا سائیس تھا کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ یہ سائیس ابلیس کا چیلا نہیں بلکہ سر تاپا اور اندر سے بھی وہی ابلیس ہے جسے خداوند تعالیٰ نے آدم کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا اور اس پر لعنت بھیجی تھی اب وہ ابلیس آدم کی اولاد کے لیے بڑا ہی دلکش اور اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک دھوکہ بنا ہوا تھا اور اولاد آدم اس کی تخلیق کیے ہوئے ابلیس حسن بن صباح کی ایسی مرید اور معتقد بنتی جا رہی تھی کہ اس پر جان قربان کر رہی تھی
شہر سے کچھ دور جا کر یہ سائیس جو دراصل احمد بن عطاش تھا گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور پھر سردار نے اور احمد بن عطاش نے گھوڑے دوڑا دیے اصفہان سے تھوڑی ہی دور قزوین نام ایک قصبہ تھا آج کے نقشوں میں اس نام کا کوئی مقام نہیں ملتا اس لیے یہ بتانا ناممکن ہے کہ یہ اصفہان سے کتنی دور تھا تاریخ میں اس کا نام موجود ہے یہ مقام ان دونوں کی منزل تھی
قزوین کا رئیس شہر ابوعلی تھا جس کا اس سارے علاقے میں اثر اور رسوخ تھا کچھ عرصہ پہلے اس شخص نے حسن بن صباح کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی یہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ ایک لڑکی کا اور حشیش کا کارنامہ تھا جو یہ لڑکی اسے دھوکے میں پلاتی رہی تھی احمد بن عطاش اور اس کا ساتھی سردار ابو علی کے گھر گئے اور اسے اس صورت حال سے آگاہ کیا کہ سلجوقی سلطان حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے سیکڑوں سواروں کا ایک دستہ بھیجا ہے اسے بتایا کہ صورتحال کیا بن سکتی ہے اور اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے
ان تینوں نے فوراً فیصلہ لیا ابو علی نے کہا کہ وہ جس قدر سوار مل سکے تیار کرلے گا
تاریخ میں نام ابو علی کا ہی آیا ہے کہ اس نے بہت ہی تھوڑے سے وقت میں تین سو سوار تیار کرلیے اور پھر کمال یہ کیا کہ انہیں ایسی جگہ اکٹھا کر لیا جو قلعہ تبریز سے کچھ دور تھی ان سواروں کو بتایا گیا کہ وہ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہیں اور اشارہ ملنے پر قلعہ تبریز پہنچ جائیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ باطنیوں کی جڑیں کتنی مضبوط ہو کر کتنی دور تک پہنچ گئی تھیں
ان کا جاسوسی کا نظام بھی بڑا تیز اور قابل اعتماد تھا سالار امیر ارسلان کا دستہ اصفہان سے قلعہ تبریز پہنچا تو کسانوں اور تھکے ماندے مسافروں کے بہروپ میں باطنی جاسوس اسے دور دور سے دیکھ رہے تھے انہوں نے لڑائی بھی دیکھی تھی انہیں میں سے کسی نے دیکھا کہ سلجوقی سوار قلعے میں داخل ہو جائیں گے اور اندر تمام باطنی مارے جائیں گے اور حسن بن صباح گرفتار ہو جائے گا اس جاسوس نے ابو علی کو جا اطلاع دی تین سو سوار تیار تھے انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے ان کے دلوں میں سلجوقیوں کی اتنی نفرت پیدا کی گئی تھی کہ وہ اس انتظار میں تھے کہ سلجوقی سامنے آئے تو ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیں
اب انہیں موقع مل گیا اشارہ ملتے ہی وہ قلعہ تبریز پہنچے اور سلجوقیوں کو بے خبری میں جا لیا سلجوقی بے خبری اور غلط فہمی میں مارے گئے ورنہ سلجوقیوں نے تو جنگجوی میں دور دور تک دھاک بٹھائی ہوئی تھی مگر دھاک حسن بن صباح کی بیٹھ گئی اس کے جانبازوں اور بستی تبریز کے باشندوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آسمان سے اترنے والے تین سو گھوڑسوار فرشتوں کا انتظام پہلے سے کر لیا گیا تھا انہیں یقین ہوگیا تھا کہ حسن بن صباح پر وحی نازل ہوئی تھی اور یہ مدد بھی حسن بن صباح کے کہنے پر خدا نے بھیجی تھی
مزمل آفندی گھوڑا دوڑاتا مرو جا رہا تھا اس نے اپنے زخموں پر کپڑے کس کر باندھ لیے تھے پھر بھی زخموں سے خون رس رہا تھا وہ اس کوشش میں تھا کہ زندہ سلطان ملک شاہ تک پہنچ جائے اور ہوش میں رہے تاکہ اسے قلعہ تبریز کی لڑائی کی خبر دے سکے اور اسے کہے کہ وہ فوراً جوابی حملے کے لیے فوج بھیجے
یہ ایک دن اور ایک رات کی مسافت تھی جو مزمل آفندی نے کم از کم وقت میں طے کی اور رات کو مرو پہنچا سلطان ملک شاہ سو گیا تھا سلطان کو جگانے کی جرات کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن مزمل خون میں نہایا ہوا اور نیم جان تھا اور وہ سالار امیر ارسلان اور اس کے سوار دستے کی خبر لایا تھا سلطان کو جگا کر بتایا گیا تو وہ بستر سے کود کر اٹھا اور ملاقات والے کمرے میں گیا
مزمل دروازے میں داخل ہوا تو اس کا وجود گرنے والے درخت کی طرح ڈول رہا تھا اور سر کبھی دائیں کبھی بائیں ڈھلک جاتا تھا اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے اور زخموں سے تازہ خون رس رہا تھا سلطان دوڑ کر اس تک پہنچا اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا
اسے دیوان پر لٹاؤ سلطان ملک شاہ نے دربان سے کہا اور خود ہی مزمل کو اٹھا لیا
دربان نے بھی مدد کی اور مزمل کو دیوان پر لیٹا دیا گیا سلطان کے کپڑے بھی سامنے سے لال ہو گئے اسے وہ شربت پلاؤ سلطان نے دربان سے کہا طبیب کو اور جراح کو بھی فوراً ساتھ لے آؤ
سلطان ملک شاہ نے شربت کا گلاس دربان کے ہاتھ سے لیا اور اسے دوڑا دیا پھر مزمل کو سہارا دے کر اٹھایا اور اسے اپنے ہاتھ سے شربت پلایا
اب لیٹ جاؤ سلطان نے مزمل آفندی کو لٹا کر پوچھا تم بہت زخمی ہو
میں ان شاءاللہ زندہ رہوں گا مزمل آفندی نے بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی آواز میں کہا میں نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا ہے میرا نام مزمل آفندی ہے آپ کی فوج کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں پہلے اپنے سوار دستے اور سالار امیر ارسلان کی خبر سن لیں امیر ارسلان مارا گیا ہے اور اپنے دستے کے شاید سارے ہی سوار بھی مارے گئے ہیں
کیا کہا ؟
سلطان نے حیرت زدہ ہو کر کہا ارسلان مارا گیا ہے؟
یہ ہوا کیسے ؟
یہ لڑائی کہاں لڑی گئی ہے؟
قلعہ تبریز میں مزمل آفندی نے جواب دیا طبیب اور جراح دوڑے آئے سلطان کے کہنے پر انہوں نے مزمل کے زخموں کو دھونا شروع کر دیا سلطان نے مزمل کے لئے پھل اور میوے منگوائے پھر زخموں کی مرہم پٹی ہوتی رہی مزمل پھل اور میوے کھاتا رہا اور سلطان کو سناتا رہا کہ وہ کس طرح میمونہ کو حسن بن صباح کی قید سے فرار کرا کے لایا تھا اور اسے رے میں ابومسلم رازی کے یہاں میمونہ کو اپنی بیٹی شمونہ مل گئی تھی پھر اس نے حسن بن صباح کے تعاقب کا اور قلعہ تبریز کی لڑائی کا مکمل احوال سنایا
سلطان ملک شاہ آگ بگولا ہوگیا اس نے اسی وقت اپنے ایک سالار قزل ساروق کو بلایا یہ سالار ترک تھا ابن اثیر نے لکھا ہے کہ قزل ساروق نامور سالار اور مشہور سلجوق جنگجو تھا سلطان نے اسے کہا کہ وہ کم از کم ایک ہزار سواروں کا دستہ لے کر ابھی قلعہ تبریز کو روانہ ہو جائے
قزل ساروق سمجھ گیا کہ بہت جلدی تبریز پہنچنا ہے
وہ ایک ہزار منتخب سواروں کے ساتھ حیران کن کم وقت میں قلعہ تبریز پہنچ گیا لیکن وہاں سالار امیر ارسلان اور اس کے سواروں کی لاشوں کے سوا کچھ بھی نہ ملا کسی بھی لاش کے ساتھ ہتھیار نہیں تھا ایک بھی گھوڑا نہیں تھا ہتھیار بھی اور گھوڑے بھی باطنی لے گئے تھے قزل ساروق قلعے کے اندر گیا کوئی ایک بھی انسان نظر نہ آیا مکان خالی پڑے تھے
آگ لگا دو قزل ساروق نے کہا
کچھ ہی دیر بعد مکانوں سے شعلے اٹھنے لگے اور دھواں آسمان تک پہنچنے لگا
قبر کھودو اور اپنے ساتھیوں کو دفن کردو قزل ساروق نے اپنے سواروں سے کہا ہم یہاں شاید اسی لیے آئے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو دفن کریں اور اس بستی کو آگ لگا دیں اور واپس چلے چلیں ہم یہاں کچھ دن ٹھہریں گے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:22 }
داستان  گو جس دور کی داستان سنا رہا ہے وہ ابلیس کا دور تھا قرآن حکیم کی وہ پیشن گوئی جو سورہ الاعراف کی آیت 11 سے 23تک واضح الفاظ میں آئی ہے حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہی تھی ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ابلیس کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا اور اسے کہا تو ذلیل و خوار ہوتا رہے گا تو ابلیس نے کہا کہ مجھے روز قیامت تک مہلت دے اللہ نے اسے مہلت دی ابلیس نے کہا اب دیکھنا میں تیرے ان انسانوں کو کس طرح گمراہی میں ڈالتا ہوں میں تیرے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور تیرے انسانوں کو آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اور ہر طرف سے گھیرونگا ،پھر تو دیکھے گا کہ ان میں سے بہت سے تیرے شکر گزار نہیں رہیں گے

اللہ تعالی نے آدم اور حوا سے کہا کہ جنت میں رہو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ گنہگاروں میں لکھے جاؤ گے شیطان نے آدم سے کہا کہ اللہ نے اس درخت کو تمہارے لئے اس لیے شجر ممنوعہ قرار دیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ اور تمہیں وہ زندگی نہ مل جائے جس کی موت ہوتی ہی نہیں یعنی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ابلیس نے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں
ابلیس نے زبان کا ایسا جادو چلایا اور الفاظ کا ایسا طلسم پیدا کیا کہ آدم اور حوا کو شیشے میں اتار لیا انہوں نے شجر ممنوعہ کا پھل چکھا اور اس حکم عدولی کے نتیجے میں آدم اور حوا کے ستر بے نقاب ہوگئے اور وہ درختوں کے پتوں سے ستر ڈھانپنے لگے
بات یہ سامنے آئی کی یہ ابلیس تھا جس نے آدم اور حوا کو ایک دوسرے کی شرمگاہوں سے روشناس کیا انسان میں تجسس کی بے تابی پیدا کی اور یہ جذبہ بھی کہ اللہ جس کام سے منع کرے وہ ضرور کر کے دیکھو اور شجر ممنوعہ کا پھل ضرور چکھو
حسن بن صباح نے یہی ابلیسی حربے استعمال کئے اور انسان کی ستر پوشی کو برہنگی میں بدل دیا مرد پر عورت کی برہنگی کا طلسم طاری کیا اور یہ تاثر پیدا کیا کہ شجر ممنوعہ کا پھل ضرور کھاؤ
ابلیس اپنا یہ عہد پورا کر رہا تھا کہ اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چل آؤں گا پانچویں صدی ہجری میں حسن بن صباح اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چلا رہا تھا
قلعہ تبریز کی لڑائی میں سلجوقی سالار امیر ارسلان مارا گیا اس کے پانچ سو مجاہدین ہلاک یا زخمی ہوگئے تو مزمل آفندی نے شدید زخمی حالت میں مرو پہنچ کر سلطان ملک شاہ کو لڑائی کے اس انجام کی اطلاع دی اس کا زندہ رہنا معجزہ تھا
جب سے مزمل آفندی سالار امیر ارسلان اور اس کے پانچ سو سواروں کے ساتھ چلا گیا تھا رے میں شمونہ روزمرہ کا معمول بنا لیا تھا کہ بار بار چھت پر چلی جاتی اور اس راستے کو دیکھنے لگتی جس راستے پر مزمل آفندی چلا گیا تھا شمونہ کو معلوم تھا کہ وہ دو چار دنوں میں ادھر سے کوئی اطلاع نہیں آئے گی بغداد سے اتنی جلدی اطلاع آ ہی نہیں سکتی تھی لیکن شمونہ مزمل آفندی کی محبت میں پاگل ہوۓ جا رہی تھی وہ حقائق کو تو قبول ہی نہیں کر رہی تھی وہ چھت پر جا کر کبھی بالائی منزل کا اس طرف والا دریچہ کھول کر اس راستے کو دیکھنے لگتی تھی اسے قاصد کا انتظار تھا
اور اسے انتظار تھا کہ مزمل آفندی اسی راستے سے واپس آئے گا اس کے چہرے پر فاتحانہ تاثر ہوگا سینہ پھیلا ہوا اور گردن تنی ہوئی ہوگی اور حسن بن صباح اس کے ساتھ ہوگا زندہ یا مردہ
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے نہ جانے کتنی راتیں بیت گئیں مزمل آفندی نہ آیا مرو سے کوئی قاصد نہ آیا
شمونہ! دو تین بار اس کی ماں میمونہ نے اسے کہا ایک آدمی کی محبت میں گرفتار ہو کر تم دنیا کو بھول گئی ہو تمہیں دن اور رات کا ہوش نہیں رہا یوں تو زندگی اجیران ہو جاتی ہے
میں صرف اس کا انتظار نہیں کر رہی جسے میں چاہتی ہوں شمونہ نے ماں سے کہا تھا میں حسن بن صباح کے انتظار میں ہوں اگر وہ زندہ آیا تو میں اسے زنجیروں میں بندھے دیکھنا چاہوں گی اور اگر اس کی لاش آئی تو میں سمجھوں گی کہ میرا زندگی کا مقصد پورا ہوگیا ہے مزمل اسے زندہ یا مردہ لے ہی آئے گا
شمونہ کو کوئی قاصد یا مزمل آفندی آتا نظر نہیں آتا تھا راستہ ہر روز کی طرح شہر سے نکل کر درختوں اور کھیتوں میں بل کھاتا دور ایک پہاڑی میں گم ہوجاتا تھا اسے ہر روز ویسے ہی اونٹ گھوڑے بوجھ اٹھائے ہوئے ٹٹو اور پیدل چلتے ہوئے لوگ نظر آتے تھے شمونہ کی بے چینی اور بے تابی بڑھتی جا رہی تھی اور وہ اکتانے بھی لگی تھی اس کی مزاجی کیفیت بھی کچھ بکھر سی گئی تھی آخر ایک روز دن کے پچھلے پہر دور سے اسے ایک گھوڑسوار آتا نظر آیا گھوڑے کی رفتار اور انداز بتاتا تھا کہ وہ کوئی عام سا مسافر نہیں شمونہ کی نظریں اس پر جم گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ شہر کی طرف آنے لگیں
گھوڑ سوار شہر میں داخل ہوا تو شمونہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا وہ شہر کی گلیوں میں گم ہو گیا تھا کچھ دیر بعد وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر کے قریب ایک گلی سے نکلا شمونہ دوڑتی نیچے آئی گھوڑسوار اس شاہانہ حویلی کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا
تم قاصد تو نہیں ہو شمونہ نے اس سے پوچھا
ہاں بی بی! سوار نے گھوڑے سے اترتے ہوئے کہا میں قاصد ہوں امیر شہر سے فوراً ملنا ہے
کہاں سے آئے ہو؟
مرو سے آیا ہوں
سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی کی کوئی خبر لائے ہو ؟
شمونہ نے بچوں کی سی بے تابانہ اشتیاق سے پوچھا
انہی کی خبر لایا ہوں
کیا خبر ہے ؟
شمونہ نے تڑپ کر پوچھا
امیر شہر کے سوا کسی اور کو بتانے والی خبر نہیں قاصد نے جواب دیا
شمونہ دوڑتی اندر گئی دربان کے روکنے پر بھی نہ روکی ابومسلم رازی اپنے کسی کام میں مصروف تھا شمونہ نے زور سے دروازہ کھولا کہ ابو مسلم رازی چوک اٹھا
مرو سے قاصد آیا ہے شمونہ نے بڑی تیزی سے کہا اسے فوراً بلا لیں
ابومسلم رازی نے ابھی کچھ جواب نہیں دیا تھا کہ شمونہ باہر کو دوڑ پڑیں اور قاصد کو ابومسلم رازی کے پاس لے گئی
کیا خبر لائے ہو؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
قاصد نے شمونہ کی طرف دیکھا اور پھر ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا بات بالکل صاف تھی کہ قاصد شمونہ کے سامنے پیغام نہیں دینا چاہتا تھا
تم ذرا باہر چلی جاؤ شمونہ! ابومسلم رازی نے کہا
شمونہ وہاں سے ہلی بھی نہیں اور کچھ بولی بھی نہیں اس کی نظریں ابومسلم رازی کے چہرے پر جم گئی تھیں اور اس کے اپنے چہرے کا تاثر یک لخت بدل گیا تھا رازی کی دانشمندی نے راز پا لیا وہ شمونہ کی اس بات کو سمجھتا تھا اس لڑکی نے ابومسلم رازی کے دل میں اپنی قدر و منزلت پیدا کر لی تھی
ہاں! ابومسلم رازی نے قاصد سے پوچھا کیا خبر لائے ہو؟
خبر اچھی نہیں امیر شہر! قاصد نے کہا سالار امیر ارسلان مارے گئے ہیں اور ان کے پانچ سو سواروں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو
مزمل آفندی کی کیا خبر ہے؟
شمونہ نے تیزی سے اٹھ کر پوچھا
خاموش رہو شمونہ! ابومسلم رازی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا میں تمہیں باہر بھیج دوں گا تم ایک آدمی کا غم لیے بیٹھی ہو اور ہم اس سلطنت اور دین اسلام کے لئے پریشان ہو رہے ہیں اس نے قاصد سے کہا آگے بولو
مزمل آفندی زندہ ہیں قاصد نے کہا لیکن بہت بری طرح زخمی ہے وہ مرو میں سلطان عالی مقام کے پاس ہے وہی آگے کی خبر لائے تھے
قاصد نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے وہ خبر سنائی جو مزمل آفندی نے سلطان ملک شاہ کو سنائی تھی پھر اس نے یہ بتایا کہ اب سلطان مکرم نے سالار قزل ساروق کو ایک ہزار سوار دے کر حسن بن صباح کی گرفتاری اور اس کے پیروکاروں کی تباہی کے لئے بھیج دیا ہے
قاصد پیغام دے چکا تو ابومسلم رازی نے اسے جانے کی اجازت دے دی
میں مرو جانا چاہتی ہوں شمونہ نے کہا آپ مجھے اسی قاصد کے ساتھ بھیج دیں
تم وہاں جا کر کیا کروگی؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
میں مزمل آفندی کی تیماداری کروں گی شمونہ نے جواب دیا اس شخص نے مجھ پر جو احسان کیا ہے کیا میں بھول سکتی ہوں؟
اس نے مجھے بچھڑی ہوئی ماں سے ملایا ہے اور امیر شہر میں نے اور مزمل آفندی نے عہد کیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ حسن بن صباح کو ہم دونوں قتل کریں گے اس مقصد کے لیے میں مزمل کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
ایسے کام جذبات کے جوش سے نہیں ہوا کرتے شمونہ! ابومسلم رازی نے کہا اس کے لیے تجربے کی اور دور اندیشی سے ہر پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے تم میرے ساتھ رہو تمہاری ماں یہی ہے میرا بھی یہی مقصد ہے حسن بن صباح جب یہاں آیا تھا تو میں نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن اس سے قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ فرار ہوگیا
میں نے بھی حسن بن صباح کے قتل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے پھر اس لیے بھی میں تمہیں وہاں نہیں بھیج سکتا کہ مزمل آفندی سلطان کے پاس ہے میری بات اور ہے سلطان کے یہاں فضا اور ماحول کچھ اور ہے انہوں نے مزمل آفندی کو اپنی نگرانی میں رکھا ہوگا اور وہ پریشان بھی ہوں گے کہ امیر ارسلان جیسا سالار اپنے تمام سواروں کے ساتھ مارا گیا ہے یہ پریشانی بھی لاحق ہو گئی ہے کہ حسن بن صباح کے پاس اتنی فوجی طاقت اکٹھی ہوگئی ہے کہ اس نے پانچ سو سلجوقی سواروں کو ختم کر دیا ہے کسی کو سلجوقی کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جان کی بازی لگا دینے والا جنگجو ہے اور ناقابل تسخیر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حسن بن صباح کے پیروکار سلجوقیوں سے زیادہ سرفروش ہیں تم یہیں رہو ہو سکتا ہے سلطان تمہارا وہاں جانا پسند نہ کریں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمہیں اس بنا پر شک کی نظروں سے دیکھیں کہ تم نے حسن بن صباح کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے
ابومسلم رازی نے شمونہ کی ماں کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے جذبات کو اپنے قابو میں لے لیں ورنہ یہ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھے گی
سالار قزل ساروق نے تبریز کی قلعہ نماء بستی کو نذرآتش تو کردیا لیکن وہ اس بستی کو نذر آتش کرنے کے لیے نہیں گیا تھا یہ تو غصے کا اظہار تھا جو اس نے کیا اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ حسن بن صباح اور اس کے جنگجو پیروکار کہاں گئے اس نے جو لاشیں دیکھی تھیں ان میں سالار امیر ارسلان کے سواروں کی لاشیں زیادہ تھی اور حسن بن صباح کے آدمیوں کی لاشیں بہت ہی تھوڑی تھیں
سالار قزل ساروق کے ساتھ جاسوسی کرنے والے آدمی بھی تھے بھیس اور حلیہ بدلنے کا بھی ان کے پاس انتظام تھا قزل ساروق نے اپنے چار آدمیوں کو جاسوسی کے لیے تیار کیا اور انہیں ضروری ہدایات دے کر ادھر ادھر بھیج دیا اس نے خود ذرا سا بھی آرام نہ کیا اپنے دو تین ماتحت کماندروں کو ساتھ لے کر تبریز سے کچھ دور زمین کو کھوجنے کے لئے چلا گیا اس نے ہر طرف زمین دیکھی حسن بن صباح اکیلا ہی تو نہیں تھا کہ اس کا پورا کھوج نہ ملتا اس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے جن میں گھوڑ سوار بھی تھے
ایک جگہ مل ہی گئی زمین گواہی دے رہی تھی کہ یہاں سے ایک قافلہ یا لشکر گزرا ہے قزل ساروق زمین کے یہ نشان دیکھتا ہوا آگے ہی آگے چلتا گیا یہ کوئی عام سا راستہ نہیں تھا یہ لوگ اونچی نیچی زمین پر چلتے گئے آگے ایک ندی تھی وہ اس ندی میں سے بھی گزرے تھے اگر یہ کوئی پرامن لوگوں کا قافلہ ہوتا تو کسی باقاعدہ پگڈنڈی پر جارہا ہوتا یا ہموار زمین پر چلتا یہ قافلے لوٹنے والے ڈاکو کا گروہ بھی ہو سکتا تھا اور یہ حسن بن صباح کا گروہ بھی ہو سکتا تھا
زمین کے ان نشانات سے تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کس سمت کو جا رہے ہیں لیکن اصل بات تو یہ معلوم کرنی تھی کہ وہ گئے کہاں؟
آگے ایسا پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جس کے اندر کسی آبادی کا گمان نہیں کیا جاسکتا تھا
سالار قزل ساروق ایک جگہ رک گیا اس کا آگے جانا ٹھیک نہیں تھا کیونکہ وہ دور سے پہچانا جاتا تھا کہ یہ کسی شہر کا امیر یا فوج کا سالار ہے اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا کہ اس طرف اپنا کوئی آدمی بھیس بدل کر جائے تو کچھ سراغ مل سکتا ہے ایک ماتحت نے اسے کہا کہ چل کر ایک اور آدمی کو اس سمت میں روانہ کر دیتے ہیں
اور وہ واپس آگئے
بہت دیر بعد ایک شتر سوار آتا نظر آیا وہ بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا قریب آیا تو وہ اپنا ایک جاسوس نکلا جسے علی الصبح بھیجا گیا تھا وہ اونٹ سے اترا اور اپنے سالار کے پاس گیا
سراغ مل گیا ہے جاسوس نے کہا میں نے گھوڑوں اونٹوں اور آدمیوں کے پاؤں کے نشان دیکھے اور ان پر چلتا گیا یہ نشان مجھے ایک جگہ لے گئے جہاں تین مکان تھے جن کے مکینوں کے بچے مکانوں سے کچھ دور کھیل رہے تھے میں اونٹ سے اترا اور ان بچوں سے پوچھا کہ ادھر ایک قافلہ گیا ہے میں اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ قافلہ کدھر گیا ہے بچوں نے مجھے صرف سمت بتائی
اس جاسوس نے اپنے سالار کو جو تفصیل بتائیں وہ یوں تھی کہ جب یہ شخص بچوں سے پوچھ رہا تھا اس وقت ان مکانوں کے رہنے والے کسی آدمی نے دیکھ لیا اور اس کے پاس آکر پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟
اس نے وہی بات کہی جو وہ بچوں سے کہہ چکا تھا کہ وہ اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا
وہ ایک عجیب قافلہ تھا اس آدمی نے کہا اس میں بہت سے آدمی تھے جو زخمی تھے ان کے کپڑے خون سے لال تھے ان میں کچھ گھوڑوں پر سوار تھے اور کچھ اونٹوں پر اور چند ایک پیدل بھی چلے جا رہے تھے ہمیں تو وہ قافلوں کو لوٹنے والے ڈاکوں لگتے تھے ان کے ساتھ جو اونٹ تھے ان میں سے دو اونٹوں پر پالکیاں تھیں دونوں میں ایک ایک یا شاید دو دو عورتیں تھیں ہمیں شک ہے کہ وہ ڈاکو تھے انہوں نے کسی قافلے کو لوٹنے کی کوشش کی ہوگی اور قافلے والوں نے مقابلہ کرکے انہیں مار بھگایا ہوگا
تم ٹھیک کہہ رہے ہو میرے دوست! جاسوس نے کہا وہ ڈاکو کا ہی گروہ ہے انہوں نے ایک قافلے پر حملہ کیا تھا لیکن ناکام رہے کیونکہ قافلے میں لڑنے والے بہت سے آدمی تھے انہوں نے ان ڈاکوؤں کے کئی ایک آدمی مار ڈالے اور باقی بھاگ آئے میں سلجوقی فوج کا آدمی ہوں اور اس قافلے کا سراغ لیتا پھر رہا ہوں اگر تم بتا سکوں کہ یہ لوگ آگے کہاں گئے ہیں تو تمہیں سلطان کی طرف سے جھولی بھر کر انعام ملے گا
میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں گئے ہیں میں صرف یہ بتا سکتا ہوں کے اس پہاڑی علاقے کے اندر پرانے زمانے کا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو دراصل قلعے کے کھنڈرات ہیں ہوسکتا ہے وہ اس قلعے میں گئے ہوں ان پہاڑیوں کے اندر کوئی اور آبادی نہیں بڑے بڑے غار ہیں جہاں صرف ڈاکو ہی جا سکتے ہیں کسی اور نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے
قزل ساروق کا جاسوس وہیں سے واپس آگیا اور اپنے سالار کو بتایا
اس جاسوس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جب وہاں سے قافلے کا سراغ لے کر آ گیا تھا تو پیچھے کیا ہوا تھا ہوا یہ تھا کہ جب جاسوس وہاں سے چلا تو ایک بوڑھا آدمی مکان سے نکلا اور اس نے اپنے اس آدمی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ شتر سوار کون تھا اور کیا کہتا تھا
اس نے اس بوڑھے کو بتا دیا کہ وہ کیا پوچھ رہا تھا اور اس نے کیا بتایا تھا
بے وقوف آدمی! بوڑھے نے کہا تم جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے
یہ سلطان کی فوج کا آدمی تھا اس آدمی نے کہا وہ ڈاکوؤں کے اسی گروہ کے تلاش میں تھا میں تو جانتا تھا اور اسے بتا دیا ہے اگر سلطان کی فوج نے ان ڈاکوؤں کو پکڑ لیا تو مجھے انعام ملے گا
تمہیں انعام بعد میں ملے گا بوڑھے نے کہا لیکن انعام لینے کے لیے نہ تم زندہ رہو گے نہ ہم میں سے کوئی زندہ رہے گا تم نے ہم سے پوچھ کر بات کرنی تھی تم نے جس کی نشاندہی کی ہے وہ حسن بن صباح تھا کیا تم نہیں جانتے حسن بن صباح کون ہے ؟
ہاں! اس نے کہا وہ آسمان سے اترا ہے اور خدا نے اسے اپنا ایلچی بنا کر بھیجا ہے
وہ خدا کے بندوں کو سیدھا راستہ دکھانے آیا ہے بوڑھے نے کہا اس کے مقابلے میں کتنا ہی بڑا لشکر آ جائے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے آسمان سے معلوم نہیں جنات اترتے ہیں یا قہر برسانے والے فرشتے آ جاتے ہیں جو لشکر کو کاٹ کر پھینک جاتے ہیں کیا تم نے تبریز کی لڑائی نہیں سنی ابھی چند ہی دن گزرے ہیں سلطان کا پورے کا پورا لشکر اپنے ہی خون میں ڈوب گیا ہے
ہاں سنا تھا اس نے کہا
پھر مکانوں سے ایک اور آدمی نکل آیا بوڑھے نے اسے بتایا کہ اس نے سلطان کے ایک جاسوس کو بتا دیا ہے کہ حسن بن صباح ادھر چلا گیا ہے
یہ تو نیم پاگل ہے دوسرے آدمی نے کہا
یہ تو میں جانتا ہوں بوڑھے نے کہا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ سلطان نے حسن بن صباح کے پیچھے فوج بھیج دیں تو کیا ہم نہ مارے جائیں گے سوچو ہم کیا کریں
وہ حسن بن صباح ہی تھا جو تبریز سے اپنے تمام پیروکاروں کو اور ابو علی کے قزوین سے بھیجے ہوئے تین سو سواروں کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے گزرا تھا ان مکانوں کے قریب آیا تو تمام مکین باہر آکر راستے میں کھڑے ہوگئے تھے حسن بن صباح نے انہیں دیکھا تو اپنے دو مصاحبوں سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ ہم ادھر سے گزرے ہیں اگر انہوں نے کسی کو بتایا تو ان کے بچے سے بوڑھے تک کو قتل کر دیا جائے گا اور ان کے مکانوں کو آگ لگا دی جائے گی
اب ان کے لیے یہ صورت پیدا ہو گئی تھی کہ ان کے ایک آدمی نے جسے وہ نیم پاگل کہہ رہے تھے ایک جاسوس کو بتا دیا تھا کہ وہ لوگ آگے گئے ہیں اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان پہاڑیوں کے اندر ایک قدیم قلعے کے کھنڈرات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسی قلعے میں گئے ہوں
دوسرے جاسوس کسی اور طرف چلے گئے تھے ان کی واپسی کے انتظار میں پوری رات گزر گئی وہ اگلے روز یکے بعد دیگرے آئے تو آدھا دن گزر چکا تھا ان سب نے یہی خبر دی کہ حسن بن صباح ان پہاڑیوں کے اندر گیا ہے اس طرح تصدیق ہوگئی کہ اس وقت ان کا شکار کہاں ہے تبریز سے اس جگہ کا فاصلہ کم وبیش چالیس میل بتایا گیا تھا
آدھا دن گزر چکا تھا جب قزل ساروق نے اپنے ایک ہزار کے لشکر کو کوچ کا حکم دیا
لشکر انہیں مکانوں کے قریب سے گزرا ایک جاسوس نے راستہ معلوم کر لیا تھا لشکر پہاڑی علاقے میں داخل ہوگیا آگے راستہ بہت ہی دشوار تھا اس لئے لشکر کی رفتار بہت ہی سست رہی ابھی پندہ سولہ میل بھی طے نہیں ہوئے تھے کہ سورج غروب ہو گیا چونکہ علاقہ پہاڑی اور جنگلاتی تھا اس لئے شام بہت جلدی گہری ہوگئی پھر بھی قزل ساروق نے سفر جاری رکھا آگے راستہ دشوار ہوتا چلا گیا یہ راستہ پہاڑی کے ساتھ ساتھ بل کھاتا جا رہا تھا رات بلکل تاریک تھی پھر بھی سالار نے لشکر کو نہ روکا
تھوڑا ہی اور آگے گئے ہونگے لشکر میں شور سا سنائی دیا ایک گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا دو تین آوازیں سنائی دیں کہ ایک سوار کا گھوڑا پھسل کر نیچے چلا گیا ہے اس جگہ راستہ تنگ تھا ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف وادی کی گہرائی تھی اس طرف پہاڑی کی ڈھلان عمودی تھی پہاڑ پر درخت تھے لیکن اتنے زیادہ نہیں تھے جو گھوڑے یا سوار کو روک لیتے کچھ دیر تک گھوڑے کے گرنے اور لڑتے ہوئے نیچے جانے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں
قزل ساروق نے لشکر کو روک لیا اس کے کہنے پر اس سوار کو آواز دی گئی جو گر پڑا تھا اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا وہ بے ہوش ہوگیا یا مر گیا تھا
سالار قزل ساروق نے یہ کہہ کر کوچ کا حکم دے دیا کہ ایک سوار کے لیے پورے لشکر کی پیش قدمی نہیں روکی جا سکتی
سوار اور زیادہ محتاط ہو کر چلنے لگے دو چار اور موڑ مڑے تو راستہ نیچے کو جانے لگا آخر وہ اس پہاڑی سے اترے تو آگے خاصی چوڑی وادی تھی جہاں قزل ساروق نے سواروں کو صبح تک کے لئے روک لیا سواروں نے گھوڑوں کی زینی اتاری اور باقی رات آرام کے لئے ادھر ادھر لیٹ گئے
صبح طلوع ہوئی تو کوچ کی تیاری کا حکم ملا سوار گھوڑوں پر زین کس رہے تھے کہ ایک طرف سے ایک ادھیڑ عمر آدمی ایک عورت کے ساتھ آتا نظر آیا اس کے ساتھ دو لڑکے تھے جن میں ایک چودہ پندرہ سال کا اور دوسرا گیارہ بارہ سال کا تھا آدمی نے ایک ٹٹو کی باگ پکڑ رکھی تھی اور ٹٹوں پر کچھ سامان لدا ہوا تھا انہوں نے وہیں سے گزرنا تھا جہاں لشکر کوچ کے لئے تیار ہو رہا تھا وہ ایک طرف سے گزرتے گئے سالار قزل ساروق لشکر سے تھوڑا پرے تھا وہ خود تیار ہو چکا تھا اس کا سائیس اس کے گھوڑے کو تیار کر رہا تھا
کچھ دیر بعد اس کے تین چار ماتحت کماندار اس کے پاس آ گئے وہ بالکل تیار ہو کر آئے تھے
یہ کون ہے؟
قزل ساروق نے ادھیڑ عمر آدمی اور عورت کو دیکھ کر پوچھا
ہم نے پوچھا نہیں ایک کماندار نے جواب دیا ان سے پوچھو قزل ساروق نے کہا ان کے ادھر سے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ آگے یا اس علاقے میں کہیں کوئی آبادی ہے اگر یہ یہاں کے رہنے والے ہیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ وہ قدیم قلعہ کہاں ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم غلط راستے پر جا رہے ہوں
وہ لوگ قریب آئے تو انہیں روک لیا گیا
السلام علیکم! ادھیڑ عمر آدمی نے کہا آپ اس لشکر کے سالار معلوم ہوتے ہیں آپ نہ روکتے تو بھی میں نے رکنا تھا
آپ کہیں سے آ رہے ہیں یا کہیں جا رہے ہیں؟
قزل ساروق نے پوچھا ہم آرہے ہیں سالار محترم! اس نے جواب دیا ہم تقریباً ایک سال بعد واپس اپنے گھر آ رہے ہیں الحمدللہ ہم فریضہ حج ادا کرنے گئے تھے
کیا آپ پیدل ہی گئے تھے ؟
پیدل بھی سمجھیں اور سوار بھی سمجھیں اس نے جواب دیا یہ ایک ٹٹو ساتھ تھا باری باری اسی پر سوار ہوتے گئے کہیں سب کو کرائے کی سواری مل گئی اور یوں ارض حجاز تک پہنچے مقامات مقدسہ کی زیارت کی فریضہ حج ادا کیا اور پھر جنگوں کے وہ میدان دیکھے جہاں رسول اکرمﷺ کفار سے لڑے تھے بدر کا میدان دیکھا احد کا میدان دیکھا اور پھر اس جگہ کو سجدے میں جاکر چوما جہاں ہمارے رسول اکرمﷺ زخمی ہو گئے تھے خدا کی قسم وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن پیچھے بوڑھے ماں باپ کو نوکروں کے سپرد کر گئے تھے ان کی خاطر واپس آگئے ہیں
اللہ آپ کا حج قبول فرمائے قزل ساروق نے کہا آپ خوش نصیب ہیں جو اللہ کے گھر میں رکوع و سجود کرکے آئے ہیں کیا آپ کی بستی یہاں کہیں قریب ہے؟
ایسی قریب بھی نہیں حج سے آنے والے نے جواب دیا تقریباً پورے دن کی مسافت ہے
کیا اس علاقے میں کوئی بہت پرانا قلعہ بھی ہے ؟
قزل ساروق نے پوچھا اور خود ہی کہا سنا ہے اس کے کھنڈرات باقی ہیں
ہاں محترم سالار! حاجی نے جواب دیا کہنے کو تو اس پہاڑی کے دوسری طرف ہے لیکن وہاں تک پہنچتے آج کا دن گزر چکا ہو گا کیا آپ اس قلعے تک جانا چاہتے ہیں؟
ہاں! قزل ساروق نے کہا قصد تو وہیں کا ہے راستہ معلوم نہیں
راستہ مجھ سے پوچھیں حاجی نے کہا میرے ساتھ بیوی بچے نہ ہوتے تو میں آپ کے ساتھ چلتا تھا کہ کہیں آپ بھٹک نہ جائیں آپ جو فرض ادا کر رہے ہیں اسے میں تو فریضہ حج کے برابر سمجھتا ہوں آپ یقیناً سلجوقی ہیں
ہاں! حجاج کے مسافر قزل ساروق نے کہا میں سب سے پہلے مسلمان ہوں اس کے بعد سلجوق ہو
اس اجنبی نے قزل ساروق کو اس قدیم قلعے کا راستہ سمجھ آنا شروع کردیا راستہ کوئی پیچیدہ تو نہیں تھا البتہ دشوار تھا قزل ساروق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ اس وادی سے الٹے رخ چلنے والا تھا
آپ تو فرشتہ معلوم ہوتے ہیں قزل ساروق نے کہا ہم تو کسی اور ہی طرف چلنے والے تھے اللہ نے آپ کو ہماری رہنمائی کے لیے بھیجا ہے
اللہ مسبب الاسباب ہے حاجی نے کہا اللہ نے یہ سعادت بھی میری قسمت میں لکھی تھی کہ مجاہدین کی رہنمائی کروں مجھے آپ کے کام میں دخل تو نہیں دینا چاہیے لیکن پوچھنا چاہوں گا کہ آپ اس قدیم قلعے میں کیوں جا رہے ہیں؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام سنا ہے؟
قزل ساروق نے پوچھا
اس ابلیس کا نام کس نے نہیں سنا ہوگا حاجی نے کہا میں بغداد پہنچا تو وہاں سے یہاں تک اسی کا نام سنتا رہا ہوں افسوس یہ ہو رہا ہے کہ لوگ اسے نبی اور اللہ کا ایلچی مان رہے ہیں یہاں سے دور پیچھے مجھے پتہ چلا کہ وہ اسی قدیم قلعے میں ہے اور اس کے ساتھ بڑے خونخوار قسم کے جاں باز ہیں اگر آپ اس ابلیس کو ختم کر دیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو حج اکبر کا ثواب ملے گا
ہماری کامیابی کی دعا کریں سالار قزل ساروق نے عقیدت مندی کے لہجے میں کہا انہیں مکہ کی ایک ایک کھجور کھلا دیں حاجی کی بیوی بولی اور زم زم کے پانی کا ایک ایک گھونٹ پلا دیں
اس شخص نے ٹٹو کی پیٹھ پر لدے ہوئے سامان میں سے چھوٹا سا ایک تھیلا نکالا اس میں سے کچھ کھجوریں نکالیں ایک ایک کھجوروں سالار قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں کو دی
ان کی گھٹلیاں نکلی ہوئی ہیں حاجی نے کہا وہاں ایسی ہی ملتی ہیں
بڑی خاص قسم کی کھجوریں ہیں اگر آپ کے لشکر کے پاس بہت بڑا ڈول یا مٹکا ہو تو وہ پانی سے بھر لیا جائے تو میں اس میں زمزم کا پانی ملا دوں گا پورے لشکر کو دو دو گھونٹ پلائیں
یہ ایک ہزار کا لشکر تھا جس کے کھانے پینے کا انتظام اور برتن وغیرہ ساتھ تھے پانی سے بھرے ہوئے بڑے مشکیزے اونٹوں پر لدے ہوئے تھے اس کے حکم سے دو تین مشکیزے سے لائے گئے حاجی نے خشک چمڑے کی بنی ہوئی ایک صراحی نکالی جس کا منہ بڑی مضبوطی سے بند تھا حاجی نے یہ صراحی تینوں مشکیزوں میں خالی کر دی اور کہا کہ کوچ سے پہلے ہر آدمی یہ پانی پی لے
پھر آپ دیکھنا سالار محترم! حاجی نے کہا آپ کو راستے کی دشواریوں کا احساس تک نہیں ہوگا اور آپ اور آپ کا ہر سوار یہ محسوس کرے گا کہ وہ اڑ کر اس قلعے تک پہنچ گیا ہے قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں نے ایک ایک کھجور کھا لیں پھر انہوں نے مشکیزہ سارے لشکر میں اس حکم کے ساتھ گھمائے کہ ہر سوار پانی پیے لشکر کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آب زمزم ہے
حاجی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رخصت ہوگیا سالار قزل ساروق نے صرف اس خیال سے اپنے آپ میں ایک توانائی محسوس کی کہ اس نے مکے کی کھجور کھائی ہے اور آب زم زم پیا ہے لشکر کے ہر سوار نے عقیدت مندی سے آب زم زم پیا اور پھر لشکر اس راستے پر چل پڑا جو حاجی نے بتایا تھا حاجی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا
لشکر کو ایک بار پھر پہاڑی راستے پر اوپر جانا پڑا گزشتہ رات ان کا ایک گھوڑا اور اس کا سوار ضائع ہو چکے تھے یہ راستہ اس سے زیادہ تنگ اور خطرناک تھا گھوڑے ایک دوسرے کے پیچھے جارہے تھے ان کی رفتار بہت ہی سست تھی وہ جوں جوں آگے بڑھتے جارہے تھے راستہ تنگ ہی ہوتا جا رہا تھا اور آگے جاکر راستہ ختم ہوگیا آگے پہاڑی دیوار کی طرح کھڑی تھی
کیا اس حاجی نہیں یہی راستہ بتایا تھا سالار قزل ساروق نے اپنے ماتحتوں سے پوچھا جو اس کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے
اس نے کہا تھا کہ یہ راستہ اوپر جا کر نیچے اترے گا ایک ماتحت نے کہا یہاں اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں
قزل ساروق نے اس پہاڑی کی ڈھلان کو دیکھا اس سے آدمی سنبھل سنبھل کر اتر سکتا تھا اور گھوڑے بھی اتر سکتے تھے لیکن سواروں کے بغیر
کسی ایک سوار کو نیچے اتارو قزل ساروق نے اپنے ماتحت کماندروں سے کہا گھوڑے سے اتر کر گھوڑے کو ساتھ رکھیں
ایک جگہ ایسی مل گئی جہاں ڈھلان کا زاویہ زیادہ خطرناک نہیں تھا ایک سوار گھوڑے سے اترا اور باگ پکڑ کر ڈھلان سے اترنے لگا وہ کبھی دایاں کبھی بایاں جہاں پاؤں جمانے کو جگہ ملتی پاؤں جما کر اتر گیا گھوڑے خچر اور گدھے کو پہاڑی پر چڑھنے اور اترنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی قدرت نے ان کے پاؤں ایسے بنائے ہیں کہ پہاڑی سے پھسلتے نہیں
بلندی خاصی زیادہ تھی وہ سوار آخر اتر گیا قزل ساروق نے حکم دیا کے تمام سوار اسی طرح نیچے اتریں یوں لگا جیسے پہاڑی کا بالائی حصہ ٹوٹ کر بہت بڑے بڑے تودوں کی طرح نیچے کو سرک رہا ہو چند ایک گھوڑے گرے لڑکے اور سنبھل کر کھڑے ہوگئے آدمی گرتے سنبھلتے اترتے گئے اور جب سب اتر گئے تو سورج اپنا بہت سا سفر طے کر گیا تھا
سواروں کو اکٹھا کرکے کوچ شروع ہوا حاجی کی بتائی ہوئی نشانیوں کو دیکھتے وہ چلتے گئے بہت دور جا کر ایک پہاڑی کے درمیان سے انہیں راستہ مل گیا قدرت نے یہاں سے پہاڑی کو کاٹ دیا تھا اس سے نکل کر آگے گئے تو ایک پر شور ندی نے راستہ روک لیا چونکہ یہ علاقہ پہاڑی تھا اس لئے ندی کا بہاؤ بہت ہی تیز تھا پانی اتنا شفاف کے اس کی تہہ میں کنکریاں بھی دکھائی دے رہی تھیں ندی کم و بیش بیس گز چوڑی تھی درمیان میں اس کا بہاؤ بہت ہی تیز تھا گہرائی اتنی نہیں تھی کہ گھوڑے ڈوب جاتے گھوڑے ندی میں ڈال دیئے گئے درمیان میں گہرائی اتنی ہی تھی کہ پانی رکابوں تک آتا تھا لیکن بہاؤ اتنا تیز کے گھوڑے کے پاؤں اکھڑنے اور گھوڑے پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے بعض گھوڑے بہاؤ کے ساتھ ہی چلے گئے اور دور جا کر کنارے لگے آگے گھنا جنگل تھا ایسا گھنا بھی نہیں کہ اس میں سے گزرا ہی نہیں جاسکتا لیکن زمین ہموار نہیں تھی نشیب فراز تھی گھاٹیاں اور ٹیکریاں تھیں اور جگہ جگہ پانی جمع تھا اس کے اردگرد پھلن اور دلدل تھی گھوڑوں کو اسی میں سے گزارا گیا
وہ بہت ہی پرانا قلعہ تھا اور یہ کوئی بڑا قلعہ نہ تھا ایک جگہ سے دیوار کے پتھر گر پڑے تھے اور دیوار کی بلندی آدھی بھی نہیں رہ گئی تھی آدمی گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر قلعے کے اندر دیکھ سکتا تھا دروازوں کی لکڑی کو دیمک نے چاٹ لیا تھا ان کے لوہے کے فریم سلامت تھے ان فریموں نے ادھ کھائی لکڑی کو تھام رکھا تھا
قلعے کے اندر بہت ہی وسیع کھلی زمین تھی اس پر مکانوں کا ملبہ بکھرا ہوا تھا یہ ان لوگوں کے کچے پکے مکان تھے جو کبھی یہاں آباد تھے اس ملبے کے اردگرد قلعے کے کمرے تھے زیادہ تر کمروں کی چھتیں بیٹھ گئی تھیں کئی ایک کمرے ابھی سلامت تھے ان کی چھتوں میں چمگادڑوں نے بسیرا کر رکھا تھا
بڑے دروازے کے پیچھے ڈیوڑھی تھی اس کے پہلو میں بڑے کمرے تھے دیواروں کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا فرش اور دیواروں پر کائی اُگ کر خشک ہو گئی تھی معلوم نہیں وہ کون تھے جنہوں نے یہ قلعہ بنایا تھا اس سوال کا جواب بھی نہیں ملتا کہ اس دشوار گزار علاقے میں آکر یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا تھا علاقہ سرسبز اور خوبصورت تھا شاید صدیوں پہلے یہ علاقہ آباد ہوگا اب تو یہ چمگادڑوں اور بدروحوں کا مسکن تھا کوئی زندہ انسان تو اس میں جھانکنے کی بھی جرات نہیں کرتا تھا نہ جھانکنے کی ضرورت محسوس کرتا تھا
یہ قلعہ گزرگاہوں سے بہت دور تھا شاید ڈاکو اور رہزن کبھی یہاں چھپنے کے لیے آتے ہوں گے لیکن کچھ دنوں سے یہ قلعہ پھر سے آباد ہو گیا تھا آباد ہونے والوں کی تعداد کم و بیش تین سو تھی ان میں سات آٹھ عورتیں بھی تھیں آدمی جو تھے ان میں کئی ایک زخمی تھے شدید زخمی بھی تھے ان کے گھوڑے بھی تھے اور اونٹ بھی وہ عارضی طور پر یہاں آئے تھے یہاں سے انہیں اپنی منزل کو روانہ ہونا تھا لیکن ابھی انہوں نے منزل کے راستے کا تعین نہیں کیا تھا
سلجوقی سالار قزل ساروق کی یہی منزل تھی اور یہی اس کا ہدف تھا اس کا شکار اسی قلعے میں موجود تھا وہ حسن بن صباح تھا
حسن بن صباح تبریز خالی کر آیا تھا اسے معلوم تھا کہ پانچ سو سلجوقی سواروں اور ان کے سالار کو مار کر اس کا راستہ صاف نہیں ہوگیا بلکہ راستے کی دشواریاں پیدا ہوئی ہیں سلجوقیوں کے ساتھ اس کا یہ پہلا تصادم تھا اس نے سلجوقیوں کو اپنا خونی دشمن بنا لیا تھا پہلے تو ان کے ساتھ اس کا نظریاتی اختلاف تھا حسن بن صباح باطل عقیدے کا بانی اور علمبردار تھا سلجوقی صحیح العقیدہ مسلمان تھے وہ ایک اسلامی سلطنت میں حسن بن صباح کا وجود برداشت نہیں کر سکتے تھے اب نظریاتی اختلاف مرنے مارنے والی عداوت کی شکل اختیار کر گیا تھا
تبریز کے خونریز تصادم کے بعد حسن بن صباح خلجان شاہ در اور اپنے پیرومرشد احمد بن عطاش کی تحویل میں کسی بھی قلعے میں جا سکتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ اور خصوصاً ابو مسلم رازی جوابی کارروائی کریں گے اور فوراً کریں گے اور اسے زمین کی ساتویں تہہ میں سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے
یہ سوچ کر تبریز میں اس کے جتنے پیروکار فدائین اور وہاں تھوڑے سے جو لوگ آباد تھے ان سب کو ساتھ لے کر اس قدیم قلعے میں آگیا تھا یہ بتانا مشکل ہے کہ اسے کس نے مشورہ دیا تھا یا اسے کس نے اس قلعے کی نشاندہی کر کے کہا تھا کہ وہاں جا کر روپوش ہو جائے
تاریخوں میں آیا ہے کہ اس نے احمد بن عطاش کو اطلاع دے دی تھی کہ تبریز میں کیسی خون ریزی ہوئی ہے اور اب وہ ایک ایسے قلعے کے کھنڈروں میں روپوش ہے جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت وقت رہتا تھا حسن بن صباح ایک کمرے میں فرش پر بیٹھا تھا یہ کمرہ اس کے لیے خاص طور پر صاف کیا گیا تھا اس کے ساتھ جو لوگ آئے تھے انھوں نے فرش پر کمبل رکھیے اور ان پر صاف ستھری چادریں بچھا دیں تھیں تکیئے بھی رکھ دیے تھے اور یہ ان لوگوں کا سردار یا سالار نہیں بلکہ ان کا روحانی پیشوا تھا بعض نے اسے پیغمبری کا درجہ دے دیا تھا تبریز والوں نے دیکھا تھا کہ وہ بھاگنے کا راستہ دیکھ رہے تھے تو حسن بن صباح نے اللہ کو پکارا تھا پھر اس نے اعلان کیا تھا کہ وحی آ گئی ہے اللہ کی مدد آ رہی ہے پھر تین سو سوار آگئے تھے جنہوں نے سلجوقی سواروں کو بے خبری میں آ لیا اور انہیں ان کے سالار سمیت کاٹ کر پھینک ڈالا تھا
اور تم جانتے ہو حسن بن صباح کمرے میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چند ایک آدمیوں سے کہہ رہا تھا کہ ہر پیغمبر کو بھاگنا پڑا روپوش ہونا پڑا مصائب برداشت کرنے پڑے اور انہیں کہیں پناہ لینی پڑی حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون نے قتل کرنے کی کوشش کی رسول اللہﷺ کو مکہ سےنکل کر مدینہ میں پناہ لینی پڑی اگر میں آج ان کھنڈروں میں آ بیٹھا ہوں تو یہ نہ سمجھنا کہ مجھے اللہ نے فراموش کر دیا ہے یہ اللہ کا اشارہ تھا کہ میں یہاں آگیا ہوں پیغمبروں کے ساتھیوں کو اللہ نے عام لوگوں سے زیادہ اونچا رتبہ دیا ہے تم سب اللہ کی نگاہوں میں اونچے رتبے کے افراد ہو تم پر جب بھی مشکل وقت آئے گا اللہ تمہاری مدد کو پہنچے گا
وہ یہیں تک کہہ پایا تھا کہ باہر سے ایک آدمی کی بڑی بلند آواز سنائی دی حملہ آرہا ہے ھوشیار ہوجاؤ
حسن بن صباح چپ ہو گیا اور اس کے کان کھڑے ہوگئے
سلجوقیوں کا لشکر آ رہا ہے
بہت بڑا لشکر ہے
ولی کو اطلاع دے دو
ان آوازوں کے ساتھ جب دوڑتے قدموں کی آہٹیں سنائی دینے لگی تو حسن بن صباح اٹھا اور باہر نکل گیا اس نے اپنے آدمیوں میں ہڑبونگ مچی دیکھی کچھ آدمی قلعے کی ٹوٹی ہوئی خستہ حال سیڑھیوں سے اوپر جا رہے تھے اور کچھ دوسری طرف کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے انہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں شور و غل برپا کر رکھا تھا
زخمیوں کا کیا بنے گا
ہم اتنے بڑے لشکر سے نہیں لڑ سکتے
روک جاؤ! حسن بن صباح نے اپنی مخصوص گرجدار آواز میں کہا جو جہاں ہے وہیں رہے
حسن بن صباح بڑے تحمل اور اطمینان سے سیڑھیاں چڑھ گیا اور اس طرف دیکھا جس طرف اس کے آدمی دیکھ رہے تھے کم و بیش ڈیڑھ میل دور ایک ہزار سوار سمندر کی لہر کی طرح چلے آ رہے تھے ایک ہزار سوار بہت بڑی طاقت تھی قلعہ تو محض ایک کھنڈر تھا جس کے دروازے دیمک نے کھا لئے تھے حسن بن صباح کے ساتھ تین سو سے کچھ ہی زیادہ آدمی تھے جن میں آدھے تبریز کی لڑائی کے زخمی تھے ابو علی نے قزوین سے تین سو آدمی بھیجے تھے ان میں سے زیادہ تر واپس چلے گئے تھے
زخمیوں میں چند ایک ہی تھے جو لڑنے کے قابل تھے ان سب کا یہ واویلا بجا تھا کہ وہ اتنے بڑے لشکر سے نہیں لڑ سکیں گے لیکن وہ اپنے پیرومرشد یا امام حسن بن صباح کے چہرے پر سکون اور اطمینان دیکھ رہے تھے سالار قزل ساروق کے ایک ہزار سوار قریب آتے گئے ان کی رفتار اتنی سست تھی جیسے وہ آرام آرام سے سفر پر جا رہے ہوں
کیا خیال ہے ؟
حسن بن صباح نے ایک آدمی سے پوچھا جو اس کے ساتھ کھڑا تھا
اور قریب آنے دیں ساتھ والے آدمی نے کہا ان کی رفتار بتاتی ہے کہ وار خالی نہیں گیا
یہ تو میں دیکھ رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا یہاں سے انہیں گھوڑے دوڑا دینے چاہیئے تھے میں کچھ اثر دیکھ رہا ہوں
قلعے کی دیوار پر اور نیچے حسن بن صباح کے آدمیوں نے ایسا غل غپاڑہ بپا کر رکھا تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی
ہر آدمی اپنا ہتھیار لے کر لڑنے کے لیے تیار ہو جائے حسن بن صباح نے دیوار سے اندر کی طرف منہ کرکے اپنے آدمیوں کو حکم دیا تیر انداز اوپر آ جائیں
چونکہ یہ حسن بن صباح کا حکم تھا اور سب اسے ولی بھی مانتے تھے امام بھی اور بعض نے تو اسے پیغمبر بھی بنا دیا تھا انہوں نے حکم کی تعمیل کی لیکن بددلی اور بزدلی ان کے چہروں پر صاف نظر آرہی تھی زخمیوں نے الگ ہنگامہ مچا رکھا تھا وہ جانتے تھے کہ وہ تو معذوری اور بے بسی کی حالت میں ہیں مارے جائیں گے
دوسری طرف سے نکل بھاگو قلعے سے ایک آواز اٹھی
ہمیں ساتھ لے چلو بھائیو! یہ زخمیوں کی آہ و بکا تھی
حسن بن صباح نے دیوار پر کھڑے تیر اندازوں کو دیکھا پھر اندر کی طرف اپنے آدمیوں کو دیکھا اور ان کی باتیں سنیں باہر دیکھا تو ایک ہزار سواروں کا لشکر قلعے کے قریب آ گیا تھا اور گھوڑے قلعے کے دائیں بائیں پھیلتے جارہے تھے سالار قزل ساروق اور اس کے سواروں کے چہروں پر وہ غیظ وغضب نہیں تھا جو حملہ آوروں کے چہروں پر ہوا کرتا ہے
قزل ساروق کو تو آگ بگولا ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان باطنیوں نے اس کے ساتھی سالار امیر ارسلان کو قتل کیا تھا اور انہوں نے پانچ سو سلجوقی سوار مار ڈالے تھے لیکن قزل ساروق کے چہرے پر اطمینان سا تھا
حسن بن صباح نے اپنے آدمیوں کا جائزہ لے لیا تھا اس نے دیکھ لیا تھا کہ ان میں لڑنے کا دم نہیں اور نہ ہی ان میں جذبہ ہے اس حقیقت سے تو وہ آگاہ تھا کہ اتنے تھوڑے سے آدمی ایک ہزار سواروں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے وہ اچانک دیوار سے ہٹ کر پیچھے کو موڑا اور وہیں سے اندر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا
اللہ مجھے زمین پر اتارنے والے اللہ حسن بن صباح نے دونوں ہاتھ اور منہ آسمان کی طرف کرکے بڑی ہی بلند آواز میں کہا تیرا ایلچی جسے تو نے امامت بخشی ہے بہت بڑی مشکل میں آگیا ہے اپنی راہ میں لڑ کر زخمی ہونے والے بندوں پر رحم فرما اور اپنی خدائی کی لاج رکھ لے
حسن بن صباح پلٹ کر دیوار کی بیرونی طرف چلا گیا سالار قزل ساروق اس کے سامنے تھا اس سلجوقی سالار نے اپنے سواروں کو کوئی حکم نہیں دیا تھا وہ حسن بن صباح کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو
تم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہو؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہیں قزل ساروق نے اپنے ایک ماتحت سے پوچھا جو اس کے پاس موجود تھا
ماتحت نے اس کے منہ کی طرف دیکھا اور پھر منہ اوپر کرکے دیوار پر کھڑے حسن بن صباح کو دیکھنے لگا
حسن بن صباح ایک بار پھر پیچھے کو مڑا اس نے بازو اوپر کئے اور بڑی ہی گرجدار آواز میں اعلان کیا فرشتے اتر آئے ہیں حوصلوں کو مضبوط رکھو دشمن بھاگ رہا ہے
وہ پھر دیوار کے باہر کی طرف موڑا دو تیر اندازوں کو بلایا انہیں کچھ کہا انہوں نے ایک ایک تیر چلایا ایک تیر ایک سوار کے سینے میں اور دوسرا تیر ایک اور سوار کی شہ رگ میں اتر گیا دونوں سوار گھوڑوں سے گر پڑے
تم نے میرے سواروں کو کیوں مروایا ہے؟
سالار قزل ساروق نے حسن بن صباح سے پوچھا
اپنے سواروں کو یہاں سے لے جاؤ حسن بن صباح نے کہا ورنہ تمہارا ہر سوار اسی طرح مارا جائے گا پھر تمہیں گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑے کو بھگا دیا جائے گا
سالار قزل ساروق نے کچھ بھی نہ کہا اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کو موڑا اور چل دیا تمام سوار اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے
امام نے دشمن کو بھگا دیا ہے قلعے کی دیوار سے بڑی ہی بلند آواز اٹھی اوپر آ کر دیکھو
اپنے پیر و مرشد کا معجزا دیکھو ایک اور آواز اٹھی
پیرومرشد نہیں کسی نے گلا پھاڑ کر کہا نبی کہو خدا کا بھیجا ہوا امام کہو
نیچے والے تمام آدمی جن میں چند ایک عورتیں بھی تھیں دوڑتے ہوئے اوپر گئے اور حیرت زدگی کے عالم میں جاتے ہوئے سواروں کو دیکھنے لگے سلجوقی سوار جاتے جاتے جنگل کی ہریالی میں تحلیل ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی سورج مغرب والی بلند و بالا پہاڑیوں کے پیچھے چلا گیا
حسن بن صباح دیوار پر ہی کھڑا رہا اور اس کی نظریں ادھر ہی لگی رہیں جدھر سالار قزل ساروق اور اس کے سوار نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے
امام کو سجدہ کرو کسی کی آواز اٹھی
سب لوگ جیسے اسی آواز کے منتظر تھے جو دیوار پر تھے وہ دوڑتے آئے اور حسن بن صباح کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے نیچے والے آدمی جہاں تھے وہیں سے انہوں نے منہ حسن بن صباح کی طرف کر لئے اور سجدے میں چلے گئے
حسن بن صباح کا سینہ تن گیا شروع سے اس کے ساتھ جو ادھیڑ عمر آدمی موجود رہا تھا جسے اس نے کہا تھا کہ میں کچھ اثر دیکھ رہا ہوں وہ بھی سجدے میں تھا حسن بن صباح نے اسے آہستہ سے پاؤں کی ٹھوکر ماری اس آدمی نے سر اٹھا کر دیکھا حسن بن صباح نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا وہ آدمی اٹھا تو حسن بن صباح نے اس کے کان میں کوئی بات کہی
کیا ہم اپنے فرشتوں کو واپس بلا لیں ؟
اس آدمی نے اپنی آواز کو بھاری کرکے جلالی لہجے میں کہا بولو میرے امام!
ہاں خداوند دو عالم! حسن بن صباح نے کہا میں اپنے بندوں کی طرف سے تیری ذات باری کا شکر ادا کرتا ہوں تیرے فرشتوں نے ہمارے دشمن کو بھگا دیا ہے
سب لوگ ابھی تک سجدے میں تھے وہ حسن بن صباح کے ساتھی کی آواز کو خدا کی آواز سمجھے تھے
اٹھو! حسن بن صباح نے کہا تم نے اللہ کی آواز سن لی ہے
سب سجدے سے اٹھے اب ان کے چہروں پر کچھ اور ہی تاثر تھا بعض کے منہ سے حیرت یا جوش عقیدت سے کھل گئے تھے اور وہ حسن بن صباح کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ بھی اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ تھا اور وہ ابھی غائب ہو جائے گا اور آسمان پر جا پہنچے گا
عورتیں جو نیچے تھیں دوڑتی اوپر آئیں ہر ایک نے باری باری آگے بڑھ کر حسن بن صباح کا دایاں ہاتھ پکڑا آنکھوں سے لگایا اور چوما
شام کا دھندلکا گہرہ ہو رہا تھا قلعے کے اندر مشعلیں جل اٹھی تھیں حسن بن صباح آہستہ آہستہ چلتا سیڑھیوں سے اترا اس کی چال میں اور اس کے چہرے پر جلالی تاثر تھا اس کے ہر آدمی کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس کے قریب ہو کر اسے ہاتھ لگائے اور دیکھے کہ یہ شخص انسان ہے یا اللہ کی پسندیدہ کوئی آسمانی مخلوق ہے تبریز میں بھی اس نے اللہ سے مدد مانگی تھی تو اللہ نے ایسی مدد بھیجی تھی کہ سلجوقیوں کے تمام کے تمام سوار مارے گئے تھے
شام کھانے کے بعد قلعے میں جشن کا سماں بندھ گیا عورتوں نے گیت گائے آدمی پاگلوں کی طرح ناچے انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر لیا تھا اور تھوڑے سے وقت میں پکا بھی لیا تھا وہاں کوئی چیز نہیں تھی تو شراب نہیں تھی شراب حسن بن صباح نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی اس کے پیروکار اور مرید شراب کو اللہ کے حضور پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے
فتح کا یہ جشن بہت دیر بعد ختم ہوا سب سے زیادہ خوش تو وہ زخمی تھے جو لڑنا تو دور کی بات ہے چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے وہ بال بال بچ گئے تھے
وقت آدھی رات کا تھا حسن بن صباح اپنے کمرے میں بیٹھا تھا فانوس جل رہا تھا شراب کی صراحی اور پیالے سامنے رکھے تھے وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پاس ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا اور ایک جواں سال عورت بھی تھی وہ ایک حسین عورت تھی جس کی آنکھیں مسکراتی تھیں اس کے ہونٹوں کے تبسم میں ایسا تاثر تھا کہ دیکھنے والا اس سے نظریں ہٹا نہیں سکتا تھا
یہ ادھیڑ عمر آدمی وہی تھا جو قزل ساروق کو صبح سویرے وادی میں ملا تھا اور اس نے اپنا تعارف کرایا تھا کہ وہ اپنی بیوی اور اپنے دو بیٹوں کے ساتھ حج کر کے آیا ہے اس کے ساتھ جو بیوی تھی وہ یہی عورت تھی جو حسن بن صباح کے پاس بیٹھی شراب پی رہی تھی یہ اس شخص کی بیوی نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے خصوصی اور خفیہ گروہ کی عورت تھی اور ان کے ساتھ وادی میں جو دو لڑکے تھے وہ ان کے کچھ نہیں لگتے تھے وہ تبریز سے آئے ہوئے ایک آدمی کے دو بیٹے تھے
یہ صرف تمہارا کمال ہے اسماعیل! حسن بن صباح نے اس آدمی سے کہا مجھے توقع نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی یہ کام کر سکو گے نہ کر سکتے تو میں تمہیں بے قصور اور مجبور سمجھتا
وہاں نہ سہی عورت نے کہا یہ سلجوقی وہاں نہ ملتے تو کہیں اور مل جاتے خوش نصیبی یہ ہوئی کے یہ ہمیں جلدی مل گئے
میں نے انہیں غلط راستے پر ڈال دیا تھا اسماعیل نے کہا وہ ٹھیک راستے پر آ رہے تھے اس راستے سے وہ جلدی یہاں تک پہنچ جاتے میں نے یہ سوچ کر انہیں غلط راستے پر ڈال دیا تھا کہ کھجوروں اور پانی کو اپنا اثر پورا کرنے کا وقت مل جائے آپ نے بتایا تھا کہ ان میں جو چیز ملائی گئی ہے اس کا اثر دیر سے شروع ہوتا ہے
میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے ایک خوشی یہ بھی ہے کہ اس دوائی کا یہ پہلا تجربہ کیا گیا ہے مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ اس حد تک کامیاب ہوگا کہ ایک ہزار کے لشکر کو ذہنی طور پر مفلوج کر دے گا اور مفلوج بھی اس طرح کرے گا کہ متاثرہ آدمی ہر کام ٹھیک ٹھاک کرے گا لیکن جذباتی لحاظ سے اتنا سرد ہوجائے گا کہ کسی کو لڑنے جھگڑنے کے لیے نہیں للکارے گا اور اگر اسے کوئی للکارے گا تو وہ بزدلوں کی طرح منہ موڑ جائے گا
تو کیا یہ لشکر صحیح وسلامت اپنی منزل پر پہنچ جائے گا؟
اسماعیل نے پوچھا
کیا وہ یہاں تک صحیح سلامت نہیں پہنچ گئے تھے حسن بن صباح نے کہا وہ جو تمہارے بتائے ہوئے اتنے دشوار راستے سے یہاں تک پہنچ گئے تھے واپس بھی چلے جائیں گے
یہ اثر کب تک رہے گا؟
اسماعیل نے پوچھا
شاید دو دن تک حسن بن صباح نے جواب دیا
ایک اور بات امام! اس جواں سال عورت نے پوچھا جو اس کام میں شامل تھی ایسا کیوں نہ کیا گیا کہ اسی دوائی کی زیادہ مقدار کھجوروں اور پانی میں ملا دی جاتی تاکہ یہ لشکر جہاں تھا وہیں سے واپس چلا جاتا
اس میں ایک راز ہے حسن بن صباح نے ہنستے ہوئے کہا اس لشکر کو وہیں سے واپس بھیجا جا سکتا تھا اور جس عقیدے سے انہوں نے تمہاری دی ہوئی کھجوریں اور ندی کے پانی کو آب زمزم سمجھ کر منہ میں ڈال لیا تھا انہیں انہی کھجوروں اور پانی میں زہر بھی دیا جاسکتا تھا جس کا نہ کوئی ذائقہ ہوتا ہے نہ بو لیکن انہیں تک زندہ آنے اور زندہ واپس جانے دیا گیا ولی اور پیغمبر ہر کوئی نہیں بن سکتا بنتا وہ ہے جس کی سوچ آسمانوں تک چلی جاتی ہے میں نے ان لوگوں کو یہ معجزہ دکھانا تھا جو ہمارے ساتھ ہیں انہوں نے یہ دیکھا کہ میرے کہنے پر آسمان سے مدد آئی جو نظر نہیں آتی تھی پھر ان آدمیوں نے دیکھا کہ اتنا طاقتور گھوڑسوار لشکر میری ہلکی سی للکار پر واپس چلا گیا اب یہ لوگ جہاں جائیں گے میرا یہ معجزہ سنائیں گے انسانی فطرت میں زیب داستان بھی موجود ہے اس لیے یہ لوگ میرا معجزہ بیان کرتے زیب داستان کے لئے مبالغہ آرائی بھی کریں گے کہ تین سو انسان تین ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ تعداد کو میرے پاس کھینچ لایئں گے
بلکہ یہ تعداد کھینچی ہوئی آئے گی اسماعیل نے کہا مسلمان کی عقیدت مندی کی بھی کوئی حد نہیں اسے کہیں کی ذرا سی مٹی پڑیا میں باندھ کر دے دو اور کہو کہ یہ مکہ اور مدینہ کی سوغات ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے یہ مٹی کھا لے گا ایسے ہی اس سلجوقی سالار اور اس کے ساتھیوں نے میری دی ہوئی کھجور حجاج کی کھجوریں سمجھ کر بڑے احترام سے کھالی اور جب میں نے ندی میں سے بھری ہوئی صراحی دکھا کر کہا کہ یہ زم زم کا پانی ہے تو سالار نے فوراً ایسا انتظام کر لیا کہ سارے لشکر کو پانی پلا دیا
تم بڑے کام کی چیز ہو خدیجہ! حسن بن صباح نے اس جواں سال اور دلنشین عورت کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ابھی تو میں نے تم سے بہت کام لینا ہے حسن بن صباح نے خدیجہ کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے لیا اور اسماعیل کی طرف دیکھا
اسماعیل اشارہ سمجھ گیا وہ کمرے سے نکل گیا
بیشتر مؤرخوں نے تبریز کی لڑائی کا ذکر کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ سالار امیر ارسلان اور اس کے سوار مارے گئے انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک باطنی سردار ابو علی نے قزوین سے تین سو باطنی سواروں کی کمک بھیجی تھی پھر انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ نے غصے کے عالم میں سالار قزل ساروق کو ایک ہزار سوار دے کر بھیجا تھا اور اس کے ساتھ حکم یہ دیا تھا کہ واپس آؤ تو حسن بن صباح تمہارے ساتھ ہو زندہ یا مردہ
یہ سب باتیں تو ان مؤرخوں نے لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کوئی گمنام سا قلعہ تھا یہاں سے بھی حسن بن صباح کے پیروکار بھاگ نکلنے پر اتر آئے تھے اور حسن بن صباح نے تبریز والا مظاہرہ کیا تھا کہ وحی نازل ہو گئی ہے اور خدائی مدد آ رہی ہے یہ سن کر سب کے حوصلے قائم ہوگئے تھے اس کے بعد کیا ہوا؟
ان مؤرخوں میں سے کسی نے بھی نہیں لکھا کہ اس لڑائی کا انجام کیا ہوا یہاں آ کر ان کی لکھی ہوئی تاریخ ایسے اندھیرے میں چلی جاتی ہے جہاں کچھ نظر نہیں آتا البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح قلعہ المُوت میں پہنچ گیا
داستان گو نے قزل ساروق اور اس کے سواروں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کا جو واقعہ سنایا ہے یہ تین غیر معروف سے مؤرخوں نے کچھ ایسے حوالوں اور دلائل سے لکھا ہے کہ یہ قابل قبول اور مستند سمجھا جاتا ہے ان میں اٹلی کا ایک تاریخ نویس بانسولینی خاص طور پر قابل ذکر ہے اس کی تحریری اطالوی زبان میں ملتی ہیں جن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا گیا ہے
بظاہر یہ واقعہ افسانوی سا لگتا ہے لیکن حسن بن صباح کو خدا نے ایسا دماغ دیا تھا جسے اگر مافوق الفطرت یا بالائی سطح انسانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس کی تاریخ کا مطالعہ گہرائی میں جا کر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنے ابلیسی فرقے کی بنیاد انسان کی فطری کمزوریوں پر رکھی تھی ان میں ایک تو عورت اور دوسری تھی نشہ یہ دونوں چیزیں جب انسان کے دماغ پر غالب آجاتی ہیں تو پھر وہ انسان اگر ضرورت پڑے تو اپنے بچوں تک کو قتل کر دیتا ہے لیکن پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح کی کامیابی کا راز حشیش اور حسین عورتیں تھیں
حسن بن صباح جہاں بھی جاتا تھا اس کا جاسوسی کا نظام اس کے ساتھ ہوتا تھا وہ تبریز سے نکلا تو اس نے اپنے دو تین آدمی اس علاقے میں چھوڑ دیے تھے سالار قزل ساروق تبریز پہنچا تو اتنی دور بیٹھے ہوئے حسن بن صباح کو اطلاع مل گئی اگر نیم پاگل سا شخص قزل ساروق کے جاسوس کو نہ بتاتا کہ حسن بن صباح کا قافلہ فلاں طرف گیا ہے تو وہاں تک کوئی بھی نہ پہنچ سکتا لیکن انہیں دو تین مکانوں میں سے ایک آدمی نے حسن بن صباح تک اطلاع پہنچا دیں کہ اس کی نشاندہی ہوگئی ہے اور ایک ہزار سواروں کا لشکر آ رہا ہے
حسن بن صباح کو اطلاع ملی تو اس نے وہاں سے کہیں اور بھاگ جانے کی بجائے یہ طریقہ سوچ لیا جو بیان کیا گیا ہے اس نے اپنا خفیہ گروہ ساتھ رکھا ہوا تھا جس میں اسماعیل بھی تھا اور خدیجہ بھی فوراً یہ طریقہ سوچ لیا گیا پھر جس طرح اسماعیل اور خدیجہ میاں بیوی کے روپ میں دو لڑکوں اور ایک ٹٹوں کے ساتھ روانہ ہو گئے یہ حسن بن صباح کے دماغ کا بے مثال کمال تھا اسماعیل اور خدیجہ رات بھر ان سواروں کے انتظار میں ایک جگہ بیٹھے رہے تھے صبح انہیں یہ لشکر مل گیا
سالار قزل ساروق اپنے سواروں کے آگے آگے گھوڑے پر سوار چلتا گیا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے ذہن سے یہ اتر ہی گیا ہوں کہ وہ کس مقصد کے لیے ادھر آیا تھا اس کا انداز ایسا تھا جیسے لوگ سیر سپاٹے کے لئے آئے ہوں ان کے دماغ صحیح کام کر رہے تھے وہ راستہ بھولے نہیں تھے ان کے دماغ اس وقت بھی حاضر تھے جب وہ بڑی خطرناک حد تک پہاڑی راستوں پر جا رہے تھے البتہ انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ کہیں رات بھر کے لیے پڑاؤ بھی کرنا ہے
انہوں نے دن کے وقت پڑاؤ کیا کھانا تیار کیا کھایا بھی اور سو گئے چونکہ ان کے احساس زندہ نہیں تھا اور یہ احساس سویا ہوا تھا وہ ایسے سوئے کہ اگلی صبح جاگے اور چل پڑے تاریخوں میں یہ کھوج نہیں ملتا کہ وہ کتنے پڑاؤ کر کے مرو پہنچے یہ سراغ ملتا ہے کہ وہ مرو سے ابھی کچھ دور ہی تھے تو سالار قزل ساروق نے اپنے سر کو زور سے ہلایا اور لشکر کو روک لیا اس نے اپنے ماتحتوں کو بلایا وہی ماتحت جو خوش وخرم چلے آرہے تھے اب کسی اور ہی ذہنی کیفیت میں تھے ان کے چہروں پر حیرت اور تذبذب کے تاثرات تھے
تم کیا محسوس کر رہے ہو؟
سالار قزل ساروق نے ان سے پوچھا اور اپنی کیفیت یوں بیان کی لگتا ہے ہم خواب میں کہیں گھومتے پھرتے رہے ہیں اور شاید حسن بن صباح کو دیکھا تھا
میں بھی یہی محسوس کر رہا ہوں ایک ادھیڑ عمر ماتحت نے کہا کچھ کچھ یاد آرہا ہے کہ ہم وہاں تک پہنچے تھے
مجھے یاد ہے کہ ایک حاجی اس کی بیوی اور دو بیٹے ملے تھے ایک اور ماتحت کمانڈر نے کہا پھر مجھے ندی تک یاد ہے
سالار قزل ساروق یوں چونک کر سیدھا ہوگیا جیسے سب کچھ یاد آگیا ہو
ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے اس نے کہا ہم سلطان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے لیکن میرے رفیقو! سلطان کے آگے جھوٹ نہیں بولنا جو ہوا ہے وہ من و عن بیان کرنا ہے اگر سلطان کو رحم آگیا تو وہ ہمیں معاف کر دے گا ورنہ وہ جو بھی سزا دے گا وہ ہم دل و جان سے قبول کریں گے
پھر یوں کرو دوستو! ایک ماتحت کماندار نے کہا اگر سلطان نے ہمیں سبکدوش کر دیا تو آؤ حلفیہ یہ عہد کریں کہ ہم اپنے طور پر سب مل کر حسن بن صباح کو زندہ یا مردہ سلطان کے سامنے پیش کریں گے اور اس کے گروہ کے ایک بھی آدمی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
اگر سلطان نے ہمیں قید میں ڈال دیا ایک اور کماندار نے کہا تو ہم اسے کہیں گے کہ ہمیں اپنی اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے آزاد کرے
یہ بھی سوچ لو دوستو! سالار قزل ساروق نے کہا حسن بن صباح کی جگہ کوئی اور دشمن ہوتا تو سلطان ہماری اس غلطی کو جو ہم سے دھوکے میں ہوئی معاف کر دیتا لیکن یہاں معاملہ حسن بن صباح اور اسلام کے تحفظ کا ہے سلطان مجھے اور تم سب کمانداروں کو سزائے موت بھی دے سکتا ہے اور مجھے توقع سزائے موت کی ہی ہے لیکن ہماری وفاداری یہ ہے کہ ہم اس کے سامنے جائیں گے اور مرنے کے لیے تیار ہو کر جائیں گے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:23 }
سلطان ملک شاہ کو سالار قزل ساروق پر اتنا زیادہ اعتماد تھا کہ اس نے ایک بار بھی ایسے شک کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کا یہ سالار ناکام لوٹے گا اس کا دانشمند وزیر خواجہ حسن طوسی نظام الملک دو تین بار کہہ چکا تھا کہ قزل ساروق کا کوئی پیغام نہیں آیا کم از کم ایک پیغام تو آنا چاہیے تھا
لومڑی کا شکار آسان نہیں ہوتا خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا کیا آپ نہیں جانتے کہ حسن بن صباح جنگجو دشمن نہیں وہ لومڑی ہے وہ دکھاتا تلوار ہے اور مارتا برچھی ہے ہمارا سالار امیر ارسلان اس کے دھوکے میں مارا گیا ہے وہ ان باطنیوں سے دو بدُو لڑائی لڑا ہے لیکن اس پر وار پیٹھ پیچھے سے ہوا تھا قزل ساروق دھوکے میں نہیں آئے گا وہ وثوق سے کہہ گیا تھا کہ وہ واپس آئے گا تو حسن بن صباح زندہ یا مردہ اس کے ساتھ ہوگا نہ ہوا تو وہ خود بھی واپس نہیں آئے گا
نظام الملک خاموش رہا جیسے سلطان ملک شاہ کی اس بات کو وہ خوش فہمی سمجھا ہو اور اسے قزل ساروق کی کامیابی مشکوک نظر آرہی ہے تاریخ شاہد ہے کہ خواجہ حسن طوسی دانشمند اور دوراندیش تھا اس کی نگاہیں اس حد سے آگے نکل جایا کرتی تھی جس حد تک ملک شاہ کی نگاہی دیکھ سکتی تھیں ملک شاہ اس کی دور اندیشی کا قائل تھا،, یہ الفاظ سلطان ملک شاہ کے ہی ہیں کہ خواجہ حسن طوسی روح کی آنکھ سے دیکھتا اور روحانی طاقت سے مشکلات پر قابو پا لیتا ہے
پھر ایک روز جب سورج ڈھل رہا تھا سلطان ملک شاہ کے محل کے قریب ایک بڑی ہی بلند آواز اٹھی لشکر واپس آ رہا ہے
پھر دوڑتے قدموں کے ساتھ آوازوں کا طوفان آگیا
سالار قزل ساروق آ رہا ہے
لشکر پورا معلوم ہوتا ہے
فاتح آ رہے ہیں
سلطان عالی مقام! دربان نے سلطان ملک شاہ کو اطلاع دی سالار قزل ساروق کا لشکر واپس آ رہا ہے شہر سے ابھی کچھ دور ہے
ہمارا اور نظام الملک کا گھوڑا فوراً تیار کرو ملک شاہ نے کہا
نظام الملک باہر کی آوازیں سن کر ملک شاہ کے پاس پہنچ گیا ہم قزل ساروق کا استقبال شہر سے باہر کریں گے سلطان ملک شاہ نے کہا
سلطان اور نظام الملک گھوڑوں پر سوار شہر سے نکل گئے محافظ دستے کے چار سوار ان کے آگے اور بارہ پیچھے جارہے تھے سالار قزل ساروق اور اس کے ایک ہزار سوار شہر سے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے
قزل ساروق نے ہمیں دیکھ کر بھی اپنے گھوڑے کو ایڑ نہیں لگائی ملک شاہ نے نظام الملک سے کہا کیا یہ فتح کے نشے کا اظہار ہے؟
اس کا چہرہ اور اس کا اندازہ فتح والا نہیں لگتا نظام الملک نے کہا اگر یہ فتح کے نشے سے سرشار ہوتا تو ہمیں دیکھتے ہی گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہم تک پہنچ چکا ہوتا یہ تو لگتا ہے بڑی مشکل سے گھوڑے پر بیٹھا ہوا ہے
اور لشکر بھی خاموشی سے آرہا ہے سلطان ملک شاہ نے کہا اور گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی
قریب آکر قزل ساروق نے اپنا گھوڑا لشکر کے آگے سے ایک طرف کر لیا اور ملک شاہ کے سامنے رک گیا
خوش آمدید ساروق! سلطان ملک شاہ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اگر تم حسن بن صباح کو زندہ یا مردہ اپنے ساتھ نہیں لا سکے تو یہ شرم شاری کی معقول وجہ نہیں سلطان ملک شاہ نے دیکھا کہ اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور قزل ساروق نے اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا
سالار قزل ساروق! نظام الملک نے کہا سلطان مکرم نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے کر رکھا ہے میرا خیال ہے سالار کا رتبہ اتنا اونچا نہیں کہ وہ سلطان کے ہاتھ کو یوں نظر انداز کردے
ٹھیک فرمایا محترم وزیراعظم! قزل ساروق نے کہا لیکن آپ کا یہ سالار اس قابل نہیں رہا کہ سلطان عالی مقام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے
کیوں ؟
سلطان ملک شاہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے پوچھا کیا ہم غلط سمجھ رہے ہیں کہ تم فاتح لوٹے ہو سلجوق سالار شکست سے نہ آشنا ہوتا ہے
سلطان مکرم! سالار قزل ساروق نے کہا میری فتح یہی ہے کہ میں پورے دستے کو زندہ لے آیا ہوں صرف دو سوار ضائع ہوئے ہیں لیکن یہ فتح حسن بن صباح کی ہے کہ ہم لڑیں بغیر واپس آگئے ہیں اگر وہ ہم پر حملہ کر دیتا تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آتا کیا سلطان مکرم اجازت دیں گے کہ آرام سے بیٹھ کر پورا واقعہ سناؤں
ایک ہزار سواروں کا لشکر جس میں سے صرف دو آدمی کم ہوئے تھے ان کے قریب سے گزرتا جا رہا تھا سلطان ملک شاہ سواروں کے چہرے دیکھ رہا تھا ہر چہرہ سپاٹ تھا یہ ماتمی جلوس لگتا تھا
ہمارے ساتھ آؤ سلطان ملک شاہ نے کہا
سلطان کے یہاں جاکر سالار قزل ساروق نے سلطان اور نظام الملک کو تمام واقعہ سنادیا کچھ بھی نہ چھپایا
اس قدیم قلعے کی دیوار سے دو تیر آئے سالار قزل ساروق نے کہا اور میرے دو سوار مارے گئے میں بہت حیران ہوا کہ ان تیر اندازوں نے ان سواروں کو کیوں مار ڈالا ہے دیوار پر ایک اور آدمی کھڑا تھا وہ حسن بن صباح تھا لیکن اس وقت وہ کوئی اور لگ رہا تھا اس نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ہم یہاں کیوں آئے ہیں حسن بن صباح نے کہا یہاں سے چلے جاؤ
اور تم واپس چلے آئے سلطان ملک شاہ نے کہا
ہاں سلطان مکرم! قزل ساروق نے کہا میں کچھ نہیں سمجھ سکا اس کے آنسو بہہ نکلے
کیا آپ کو یاد ہے وہاں اور کیا کچھ ہوا تھا؟
نظام الملک نے پوچھا
یاد ہے قزل ساروق نے رندھی ہوئی آواز میں کہا سب کچھ یاد ہے لیکن خواب کی طرح
حوصلہ مت ہارو ساروق! سلطان ملک شاہ نے کہا ہم جانتے ہیں یہ کیا ہوا تھا ،؟یہ بتاؤ کہ واپسی سفر کے دوران تم اپنے آپ میں آئے تو تم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ واپس جا کر قلعے پر حملہ کر دو؟
سوچا تھا سلطان عالی مقام! قزل ساروق نے جواب دیا اپنے ساتھی کمانڈروں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا تو سب نے کہا کہ واپس جانا بیکار ہے جس طرح باطنی تبریز میں سالار امیر ارسلان اور اس کے پانچ سو سواروں کو قتل کر کے آگے نکل گئے تھے اسی طرح ان کھنڈروں سے نکل کر کہیں اور چلے گئے ہونگے حقیقت یہ ہے سلطان محترم مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ میں کچھ بھی فیصلہ نہ کر سکا میں نے جو لڑائیاں لڑی ہیں وہ آپ کو یاد ہونگی میں خود بھی نہیں گن سکتا کہ میرے جسم پر کتنے زخموں کے نشان ہیں سلطنت سلجوقی کی بنیادوں میں میرا اتنا زیادہ خون رچا بسا ہوا ہے کہ آج آپ بھی اس کی بو سونگھ سکتے ہیں کیا کوئی مان سکتا ہے کہ میں ڈر کر بغیر لڑے واپس آ گیا ہوں
تم پر کوئی الزام نہیں ساروق! نظام الملک نے کہا تمہارے اور تمہارے لشکر کے ہوش و حواس ان کھجوروں نے گم کیے تھے جو تم مکہ معظمہ کی سوغات سمجھ کر کھا گئے تھے اور تم سب کی سوچنے کی صلاحیت اس پانی نے سلب کی تھی جسے تم آب زمزم سمجھے تھے
خواجہ طوسی! سلطان ملک شاہ نے کہا فوج کے لئے آج حکم جاری کر دو کہ باہر جاکر کوئی فوجی وہ سالار ہے یا سپاہی کسی اجنبی کے ہاتھ سے کوئی چیز نہیں کھائے گا نہ کسی بھی قسم کا مشروب پئے گا نہ پانی قزل ساروق! تم دھوکے میں آ گئے تھے جاؤ آرام کرو اپنے تمام لشکر سے کہہ دینا کہ تم پر کوئی الزام نہیں اور تمام سواروں کو بتا دینا کہ تمہیں کھجور اور پانی میں کوئی ایسا نشہ ملایا گیا تھا جس نے تمہاری عقل اور جذبے کو سلا دیا تھا انہیں یہ بتانا اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس وہم میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جس سے وہ دشمن کی پوری فوج کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے
لشکر کے متعلق تو میں نے بتایا ہی نہیں قزل ساروق نے کہا میں نے اور میرے ماتحت کماندروں نے سواروں کو یہ بتایا تھا لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ کئی ایک سوار اس وہم کو قبول کر چکے ہیں کہ حسن بن صباح کو خدا نے ایسی روحانی طاقت دی ہے کہ وہ اپنے جس دشمن کی طرف دیکھتا ہے وہ دشمن ہلاک ہو جاتا ہے یا ہماری طرح حسن بن صباح کی طرف پیٹھ کرکے وہاں سے غائب ہو جاتا ہے یہ سب سوار میرے ساتھ آ گئے ہیں لیکن ان کے دلوں میں وہم موجود ہے
ہم اس کا انتظام بھی کر لیں گے سلطان ملک شاہ نے کہا تم جاؤ
میں آپ کا ممنون ہوں سلطان عالی مقام! قزل ساروق نے کہا آپ نے میری خطا معاف کی لیکن میں اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتا میں اس دھوکے کا انتقام لونگا ،یں گناہ کا کفارہ ادا کروں گا
میں تمہارے جذبات کو سمجھتا ہوں ساروق! سلطان ملک شاہ نے کہا لیکن تم نے وہ دشمن دیکھ لیا ہے جس سے تم انتقام لینا چاہتے ہو یہ آمنے سامنے آ کر لڑنے والا دشمن نہیں اس کے لیے ہمیں کوئی اور طریقہ سوچنا پڑے گا اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم جو تجربے کار سالار ہو اپنے منتخب سواروں کے ساتھ زندہ واپس آگئے ہو امیر ارسلان کی طرح تمام سواروں کے ساتھ مارے نہیں گئے اس دشمن کی سرکوبی میرا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی جہاد ہے حسن بن صباح اور احمد بن عطاش نے اسلام کے نام پر ایک اور فرقہ بنا لیا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اس فرقے میں شامل ہو رہے ہیں
سالار قزل ساروق وہاں سے چلا گیا لیکن اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک کی باتوں سے مطمئن نہ ہوا ہو اس کا سوار دستہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر گھوڑے کھول چکا تھا ہر سوار کو آٹھ دس فوجیوں نے گھیر لیا اور ان سے سن رہے تھے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں
آپ نے کیا سوچا ہے خواجہ! سلطان ملک شاہ نے نظام الملک سے پوچھا
ہمارے پاس فوج ہے نظام الملک نے کہا باطنیوں کی کوئی فوج نہیں لیکن ہم نے ان پر دوبارہ حملہ کرکے کیا حاصل کیا ہے ہمارے ایک سالار اور پانچ سو سواروں کو کس نے قتل کیا ہے؟
ان لوگوں نے جن پر حسن بن صباح نے اپنی عقیدت مندی کا جنون طاری کر رکھا ہے انہوں نے اپنی جانیں اس شخص کے لیے وقف کر رکھی ہیں دوسرے حملے کا انجام دیکھ لیں اس سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ یہ شخص جس کا نام حسن بن صباح ہے اپنے مریدوں اور اندھی عقیدت رکھنے والے پیروکاروں سے ہماری فوج کو خون میں نہلا سکتا ہے جس طرح اس نے سالار اور اس کے دستے کو بےکار کیا ہے
لیکن خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا میں آپ کا یہ مشورہ نہیں مانوں گا کہ حسن بن صباح کو ہم بھول جائیں
میں ایسا مشورہ دوں گا بھی نہیں اعلی مقام! نظام الملک نے کہا میں نے عہد کر رکھا ہے کہ حسن بن صباح کو گرفتار کرکے اسے جلاد کے حوالے کردوں گا
گرفتار کیسے کریں گے؟
ابھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکوں گا نظام الملک نے جواب دیا ابھی یہی کہوں گا کہ ضروری نہیں حسن بن صباح کی سرکوبی کے لیے فوج ہی استعمال کی جائے میں ادھر سے غافل نہیں عالی جاہ میں نے جاسوس بھیج رکھیں ہیں اب تک مجھے جو اطلاعیں ملی ہیں ان سے بڑی بھدی اور خطرناک تصویر سامنے آتی ہے یہ آپ کو پہلے ہی معلوم ہے کہ حسن بن صباح ان علاقوں کا بے تاج بادشاہ بن چکا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے اور اس کی مقبولیت بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے
خواجہ حسن طوسی! سلطان ملک شاہ نے یوں کہا جیسے اچانک بیدار ہو گیا ہو ہم نے کوئی علاقہ اور کوئی ملک فتح نہیں کرنا آپ کہتے ہیں کہ حسن بن صباح لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے ہم نے لوگوں کے دلوں کو باطل اور ابلیسیت سے آزاد کرانا ہے اور یہ مہم تبلیغ سے نہیں ہوگی یہ مبلغوں کا نہیں یہ مجاہدین کا کام ہے آپ کو ہماری سلطنت کی تاریخ تو معلوم ہی ہے خواجہ! اہل سلجوق اسلام قبول کرکے یہ سلطنت قائم نہ کرتے تو اسلام کی بنیادیں ہل چکی ہوتیں اور اللہ کا یہ دین بڑا پرانا قصہ بن چکا ہوتا پہلا دفاع اپنے دین کا پھر اپنی سلطنت کا دین قائم و دائم ہے تو ہم سب قائم ہیں جس کا دین اور ایمان ہی نہ رہے اس کی نگاہوں میں آزادی اور غلامی میں کوئی فرق نہیں رہتا اسلام کو سامنے رکھو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسلام کی بیخ کنی کے لئے ہو رہا ہے
سلطان عالی مقام! نظام الملک نے کہا رسول اللہﷺ کی پیشن گوئی پوری ہو رہی ہے آپ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری امت فرقوں میں بٹ جائے گی اسلام کی بیخ کنی تو یہ فرقہ بندی کر رہی ہے
باتوں کا وقت نہیں رہا خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا اب ہمیں کچھ کرنا ہوگا
سلطان معظم! نظام الملک نے کہا صرف دو آدمیوں کو روئے زمین سے اٹھا دیا جائے تو یہ فتنہ اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا
حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کو! ملک شاہ نے کہا یہ میں سو چکا ہوں کرنا یہی پڑے گا
لیکن یہ کام آسان نہیں نظام الملک نے کہا پھر بھی میں اس کا انتظام کرو گا یہ انتظام کرنا پڑے گا
سلجوق سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی کا جذبہ قابل قدر تھا ملک شاہ تو انتقام کی آگ میں جلنے لگا تھا اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سلطانی یا بادشاہی کے نشے میں لاؤ لشکر لے کر چڑھ دوڑتا اور نقصان اٹھاتا سلطان ملکشاہ دانش مند تھا اور ہر طرح کی صورتحال میں ہوش و حواس قائم رکھتا تھا نظام الملک اس سے زیادہ دانش مند اور دوراندیش تھا
نظام الملک نے کچھ عرصے سے ان علاقوں میں جاسوس بھیج رکھے تھے جن علاقوں میں لوگ حسن بن صباح کے مرید اور پیروکار ہو گئے تھے بلکہ بعض لوگوں نے اسے امام کی بجائے پیغمبر سمجھنا شروع کر دیا تھا ان جاسوسوں میں سے کوئی نہ کوئی آتا اور اپنے مشاہدات بیان کر جاتا تھا ان کا لب لباب یہی ہوتا تھا کہ مبلغوں کا ایک گروہ سارے علاقوں میں پھیلا ہوا حسن بن صباح کے معجزے اور کرامات بیان کرتا ہے
یہ رپورٹ تو ہر جاسوس دیتا تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حوالے سے بات کرتے ہیں اپنے آپ کو صحیح العقیدہ مسلمان کہتے ہیں
“تلبیس ابلیس” اور “آئمہ تلبیس” میں بھی یہی آیا ہے کہ حسن بن صباح کے پیروکاروں کو شک تک نہ ہوتا تھا کہ جسے وہ امام اور نبی مانتے ہیں وہ باطنی ہے اس کے مبلغ بڑے ہی دردناک انداز میں لوگوں کو اس قسم کی حکایتیں سناتے تھے کہ کفار نے رسول اکرمﷺ پر کیا کیا ظلم کیا اور کیسے کیسے ستم ڈھائے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اور رسالت کے دوسرے شیدائیوں نے کس طرح ناموس رسالت پر جان قربان کی تھیں
مورخوں نے لکھا ہے کہ ان علاقوں میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی اور یہ لوگ علم اور تعلیم سے بے بہرہ تھے اور اسلام کے معاملے میں بہت ہی جذباتی انہیں رسول اکرمﷺ پر یہود و نصاریٰ کے ظلم و ستم اشتعال انگیز الفاظ اور دردناک لہجے میں سنائے جاتے تھے کہ لوگ بھڑک اٹھتے تھے ظلم و ستم کی ان حکایتوں میں زیادہ تر من گھڑت ہوتی تھیں
یوں لوگوں کو مشتعل کر کے انہیں بتایا جاتا کہ حسن بن صباح وہ اسلام لے کر آسمان سے اترا ہے جو رسول اللہﷺ لے کر آئے تھے اور کفار نے سازش کے تحت اس کی روح بدل ڈالی اور چہرہ بگاڑ دیا ہے اور اب حسن بن صباح پر کفار ہی نہیں بلکہ بگڑے ہوئے نظریات اور غلط عقیدوں کو صحیح ماننے والے مسلمان بھی حسن بن صباح اور اس کے معاون ساتھیوں پر ظلم و تشدد کر رہے ہیں
نظام الملک کے جاسوس اسی قسم کی خبریں دے کر پھر چلے جاتے تھے تین چار جاسوس تو وہیں جا کر آباد ہو گئے تھے وہ معلومات اور خبریں اکٹھی کرتے رہتے اپنے ساتھی جاسوسوں کو بتاتے اور یہ جاسوس باری باری خبریں مرو پہنچاتے رہتے تھے
میرے دوستو! ایک بار نظام الملک نے ادھر سے آئے ہوئے دو جاسوسوں سے کہا تھا آج تک تم جتنی خبریں لائے ہو ان میں کوئی نئی بات نہیں تھی میں جانتا ہوں کہ وہاں در پردہ کیا ہوتا ہے میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ کسی نشے اور بڑی ہی خوبصورت اور چنچل لڑکیوں کے ذریعے بعض اہم افراد کو وہ اپنا غلام بنا لیتے ہیں ہماری ضرورت یہ ہے کہ وہاں پردوں کے پیچھے بند کمروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ معلوم ہو جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ حسن بن صباح اور اسکے استاد احمد بن عطاش کو قتل کس طرح کیا جا سکتا ہے
ابھی تک کوئی جاسوس حسن بن صباح کے اندرونی حلقے میں داخل نہیں ہوسکا تھا اس لیے یہ بتانا ممکن نہیں تھا کہ پردوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے
اب نظام الملک نے ایسے جاسوسوں کی تلاش شروع کر دی جو حسن بن صباح کے اتنے قریب پہنچ جائیں کے اس کے خاص مصاحبوں میں شامل ہو جائیں اور اندر کی خبریں لائیں داستان گو موزوں سمجھتا ہے کہ اس داستان کو واپس قدیم قلعے کے ان کھنڈرات میں لے جائے جہاں سے حسن بن صباح نے سلجوقی سالار قزل ساروق اور اس کے سواروں کے لشکر کو کچھ پلا کر واپس بھیج دیا تھا
پھر کیا حسن بن صباح انہیں کھنڈرات میں بیٹھا رہا تھا؟
نہیں رات اس کے پیروکاروں نے فتح کا جشن منایا اور اگلی صبح وہاں سے اس سمت کوچ کر گیا تھا جس طرف مشہور تاریخی قلعہ المُوت تھا اس کی اور اس کے پیرومرشد کی نظریں اس قلعے پر لگی ہوئی تھیں حسن بن صباح کی منزل یہی قلعہ تھا اسے اس نے اپنا مستقبل اڈہ بنانا تھا اور اسی قلعے کے اندر اور اس کے ارد گرد اس نے اپنی جنت بنانی تھی وہ جنت جس نے تاریخ کو انگشت بدنداں کر دیا تھا یہ جنت ایسی حیران کن حقیقت تھی کہ آج کے دور کے کچھ لوگ اسے محض ایک افسانہ اور مبالغہ کہتے ہیں
قلعہ المُوت کے کھنڈرات آج بھی ایک وسیع و عریض ٹیکری کی بلندی پر موجود ہیں ایران کے اس علاقے کو طالقان کہتے ہیں یہ بلند ٹیکری شہر قزوین اور دریائے خزز کے درمیان ہے یہ قلعی یوں تعمیر ہوا تھا کہ کسی زمانے میں اس خوبصورت خطے میں دلیمی سلاطین کی حکمرانی تھی ایک روز ایک سلطان اپنا عقاب ساتھ لے کر شکار کو گیا اس نے اڑتے ہوئے ایک پرندے کے پیچھے عقاب چھوڑا عقاب نے پرندے کو کچھ دور جا کر پکڑ لیا لیکن پرندہ اس کے پنجوں سے نکل گیا یہ اتنا زخمی تھا کہ زیادہ دور تک اڑ نہیں سکتا تھا گرتے گرتے ٹیکری کی چوٹی پر جا گرا یہ کوئی چھوٹا سا پرندہ نہیں ایک بڑا اور کمیاب نسل کا پرندہ تھا
عقاب نے اس پر ایک بار پھر جھپٹا مارا اور اسے وہیں دبوچ لیا سلطان جو گھوڑے پر سوار تھا گھوڑا دوڑاتا ٹیکری پر چڑھ گیا اس کے ساتھ اس کے محافظ اور کچھ مصاحب تھے سلطان نے پرندہ عقاب سے لے لیا اور جب اس بلندی سے چارسو نظر دوڑائی تو اس کی تو جیسے روح بھی مخمور ہو گئی ہو یہ خطہ ہریالی کی بدولت بہت ہی خوبصورت تھا ایک طرف دریا تھا جس کا اپنا ہی حسن تھا
ٹیکری دامن سے اوپر تک گھنے درختوں اور مخمل جیسی گھاس سے ڈھکی ہوئی تھی بعض درخت پھول دار تھے جن کی بھینی بھینی خوشبو خمار سا طاری کرتی تھی ٹیکری کے چاروں طرف دور دور تک ایسا سبزہ زار تھا کہ اسے جنت نظیر ہی کہا جا سکتا تھا دو جگہوں سے چشمے پھوٹتے دونوں جگہوں پر پچیس تیس گز چوڑی جھیلیں بنی ہوئی تھی ان کا شفاف پانی چھوٹی چھوٹی ندیوں کی شکل میں بہتا پتھروں اور کنکریوں پر جلترنگ بجاتا دریا میں جا گرتا تھا بعض جگہوں پر قریب قریب کھڑے تین تین چار چار درختوں کے تنوں کو پھولوں کے بیلوں نے کچھ اس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا کہ گوفے سے بنی گئی تھی دائیں بائیں اور پیچھے ہرے پتوں اور پھولوں کی دیواریں اور اوپر چھتیں بنی ہوئی تھیں یوں لگتا تھا جیسے یہ گفیں انسانوں نے بیلوں کو تراش کر بنائی ہو لیکن یہ قدرت کی صناعی کا شاہکار تھا ایک یوروپی مؤرخ نے لکھا ہے کہ کوئی کہے کہ یہ خطہ بہشت کا حصہ تھا اور کسی وجہ سے زمین پر آن گرا تھا یا یہ کہے کہ آدم اور حوا کو خدا نے بہشت کے اس حصے میں رکھا تھا تو میں اسے سچ مان لوں گا
سلطان کو اس خطے کا حسن مسحور تو کرہی لیا تھا اس نے دیکھا کہ دفاعی لحاظ سے بھی یہ جگہ موزوں ہے یہ ٹیکری اوپر سے نوکیلی یا گول نہیں بلکہ چپٹی تھی اور اس کی طول ایک میل سے ذرا ہی کم اور عرض بھی کچھ اتنا ہی تھا
بلاشبہ میں نے اتنی دلفریب زمین آج ہی دیکھی ہے سلطان نے کہا کیا تم میں کوئی ہے جو مجھے یہ مشورہ نہ دینا چاہے کہ میں یہاں ایک ایسا قلعہ تعمیر کروں جو اس خطے جیسا دلنشین اور چٹانوں جیسا مضبوط ہو
کوئی نہیں عالی جاہ! مصاحبوں کی ملی جلی آواز اٹھی اس سے زیادہ دلفریب جگہ اور کہیں نہیں قلعہ جو یہاں بنے گا اس کی دیواروں اور اس کے دروازوں تک کوئی دشمن نہیں پہنچ سکے گا دشمن کا لشکر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ٹیکری پر چڑھتے ہمارے تیروں کی بوچھاڑوں سے لڑکتا نیچے جائے گا
سلطان نے شکار سے واپس آ کر پہلا کام یہ کیا کہ اس ٹیکری پر قلعے کی تعمیر کا حکم دیا دور دور سے ماہر معمار بلوائے گئے ان سے نقشے بنوائے گئے ان میں ردوبدل کیا گیا نقشے کو بڑی محنت سے آخری شکل دی اس دلیمی سلطان نے نقشے میں جو نئی چیزیں شامل کیں انہوں نے تعمیرات کے ماہرین کو حیران کر دیا قلعے کی تعمیر کوئی پیچیدہ کام نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اس سلطان نے (جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا) جو نقشہ معماروں کو دیا وہ قلعہ بھی تھا محل بھی اور باقی جو کچھ تھا وہ پراسرار تھا اس میں تہہ خانہ بھی تھا جس میں بے شمار کمرے تھے ان کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں گلیاں تھیں جو بھول بھلیاں تھیں ان میں چھوٹے کمرے تھے بڑے بڑے بھی اور بہت بڑے بھی اور تہہ خانے سے ایک سرنگ بھی نکالنی تھی اسے اتنا کھلا اور اونچا رکھنا تھا کہ تین آدمی پہلو بہ پہلو اس میں سے گزر سکیں سرنگ بھی بھول بھلیوں جیسی بنانی تھی
قلعے کی تعمیر شروع ہوگئی ملک کے بے شمار معماروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ملک کی آدھی آبادی مزدوری کے لیے پہنچ گئی اتنی زیادہ مخلوق چوٹیوں کی طرح کام کرنے لگی
اس قلعے کا نام آلہ مُوت رکھا گیا دیلمی زبان میں موت عقاب کو کہتے ہیں اور آلہ کے معنے تربیت گاہ ہوتے تھے سلطان عقاب کے پیچھے اس جگہ گیا تھا اگر اس کے عقاب کا شکار اس ٹیکری پر نہ گرتا تو سلطان کبھی اس حسین ٹیکری کو نہ دیکھ سکتا نہ اسے ایسا بنانے کا خیال آتا جو اس دور کا ایک اور عجوبہ تھا اور جو بعد میں حسن بن صباح کی جنت بنا اس قلعے کا نام آلہ مُوت رکھا گیا تھا جو بگڑتے بگڑتے المُوت بن گیا
حسن بن صباح کے زمانے میں یہ قلعہ اپنی اصل حالت میں تھا اس علاقے کا حکمران امیر جعفری تھا کسی بھی مورخ نے اس کا پورا نام نہیں لکھا امیر جعفری نے اپنی حیثیت کے ایک سرکردہ فرد مہدی علوی کو قلعہ المُوت کا حاکم مقرر کر رکھا تھا حسن بن صباح الموت سے تھوڑی ہی دور رک گیا اس کے ساتھ قدیم قلعے میں تین سو کے لگ بھگ آدمی تھے ان سب نے اس کے ساتھ جانا تھا لیکن ان میں سے بہت سے آدمیوں کو پہلے ہی روانہ کر دیا گیا تھا انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ المُوت کے راستے میں آنے والی آبادیوں میں جا کر لوگوں کو حسن بن صباح کے یہ معجزہ سناتے جائیں کہ تبریز میں صرف ستر آدمی تھے جن پر سلجوقیوں کے پانچ سو سے زائد سواروں نے حملہ کردیا حسن بن صباح نے خدا سے مدد مانگی تو غیب سے سیکڑوں سوار آگئے اور تمام کے تمام سلجوقی سواروں کو قتل کر دیا پھر قدیم قلعے میں تین سو آدمیوں پر ایک ہزار سے زائد سواروں نے حملہ کر دیا حسن بن صباح نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہوکر اس گھوڑسوار لشکر کے سالار کی طرف دیکھا پھر کہا واپس چلے جاؤ لشکر نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلا گیا
ان تین سو آدمیوں میں صرف تین آدمی تھے جو حقیقت سے آگاہ تھے اور ایک عورت تھی جو حسن بن صباح کی راز دار تھی ان تین آدمیوں میں ایک اسماعیل تھا اور یہ عورت خدیجہ تھی ان دونوں نے حج سے آئے ہوئے میاں بیوی بن کر سالار قزل ساروق اور اسکے لشکر کو آب زمزم پلایا اور ذہنی طور پر مفلوج کردیا تھا
صرف یہ تین آدمی اور ایک عورت تھی جنہیں حسن بن صباح کے ان معجزوں کی حقیقت معلوم تھی باقی سب نے ان معجزوں کو حقیقت تسلیم کر لیا تھا انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ ان معجزوں کی تشہیر کریں وہ تو انہوں نے کہے بغیر بھی کرنی تھی یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ کوئی عجوبہ دیکھتا ہے یا کوئی پراسرار واقعہ اس کے سامنے رونما ہوتا ہے تو وہ اس کی تہہ تک نہیں پہنچتا اس کا تجزیہ نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پر ہیجانی کیفیت طاری کرکے یہ واقعہ ہر کسی کو سنسنی خیز لہجے میں سناتا ہے اور اس وہم میں مبتلا ہو کر کہ اس کی بات کو کچھ لوگ سچ نہیں مانیں گے سنانے والا زیب داستان کا سہارا لیتا اور مبالغہ آرائی کرتا ہے
حسن بن صباح کو خدا نے ایسا دماغ دیا تھا کہ وہ انسان کی کمزوریوں کو سمجھتا اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا جانتا تھا اس نے اپنے تین سو میں سے دو سو سے زائد آدمیوں کو خود اپنی زبان سے نہیں بلکہ اپنے خاص مصاحبوں کی زبان سے کہلوایا کہ وہ آبادیوں میں امام کے معجزے سناتے جائیں
یہ حکم امام کا نہیں مصاحبوں نے ان تین سو افراد سے کہا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہر کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ امام جسے خدا نے ملت رسولﷺ کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے آسمان سے اتارا ہے اس نے کیا معجزے دکھائے ہیں لوگوں سے کہو کہ وہ امام کو خدا کا بھیجا ہوا امام مان لے حسن بن صباح جب الموت سے تھوڑی دور رکا اس وقت اس کے ساتھ تین سو کے بجائے تین ہزار سے زائد لوگ تھے تاریخ میں یہ پتا نہیں ملتا کہ پہاڑیوں کے اندر قدیم قلعے سے المُوت تک کتنا فاصلہ تھا البتہ یہ بات صاف ہے کہ حسن بن صباح کے آدمیوں نے اس علاقے کی آبادیوں میں خدا کے بھیجے ہوئے امام کے معجزے ایسے انداز سے سنائے کے لوگ حسن بن صباح کے پیچھے پیچھے چل پڑے حسن بن صباح نے ایک جگہ رک کر ڈیرے ڈال دیئے اس کے لیے بڑے سائز کا شاہانہ خیمہ لگا دیا گیا تھا تشہیر اور پروپیگنڈے کا کام صرف حسن بن صباح نے ہی نہیں کیا تھا احمد بن عطاش اس کام میں ہمہ تن مصروف رہتا تھا اس نے مبلغوں کی جماعتیں بنا دی تھیں جس کے ارکان اسلام کے حوالے سے باطنی نظریے کی تبلیغ کرتے تھے بڑے مؤرخوں خصوصاً ابن خلدون”ابوالقاسم رفیق دلاوری”ابن اثیر” نے تو یوں لکھا ہے کہ وہ باطنی نظریے کی تبلیغ کرتے تھے تفصیلات لکھنے والے وقائع نگاروں اور مبصروں نے لکھا ہے کہ یہ تبلیغ دراصل تشہیر تھی حسن بن صباح کی اور لوگ جوق در جوق حسن بن صباح کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوتے جا رہے تھے لیکن حسن بن صباح کی جھلک انہیں نظر نہیں آرہی تھی
حسن بن صباح کا خیمہ کپڑے کا ایک کمرہ تھا چوکور اور خاصہ کشادہ چاروں طرف قناتیں تھیں اور ان پر مخروطی شامیانہ تھا لوگوں کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ امام خیمے میں نہیں اور اس کے قریبی مصاحبوں کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں غائب ہو گیا ہے
امام کو خدا کبھی کبھی اپنے پاس بلا لیتا ہے ایک مصاحب نے شوشہ چھوڑا وہ کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے
جس جگہ حسن بن صباح کا خیمہ تھا وہاں تک کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی اس سے ذرا پرے ہٹ کر ان کے اپنے آدمیوں کے خیمے تھے لوگوں کو حسن بن صباح کے خیمے سے دور روک لیا جاتا تھا
حسن بن صباح یہاں پہنچا تو تیسری رات خلجان سے اس کا پیرومرشد احمد بن عطاش اس کے پاس آ گیا تھا ان کی ملاقات دو اڑھائی سال بعد ہو رہی تھی احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو مصر بھیجا تھا اس کے بعد یہ دونوں پہلی بار مل رہے تھے حسن بن صباح نے اپنے استاد کو اپنی کارگزاری سنائی اور استاد نے جب حسن بن صباح کو بتایا کہ اس نے اپنے قلعہ خلجان میں کیسے کیسے خفیہ انتظام کیے ہیں تو حسن بن صباح حیران رہ گیا
اب قلعہ المُوت پر قبضہ کرنا ہے احمد بن عطاش نے کہا جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے امیر مہدی علوی کے پاس تین سو سواروں کا صرف ایک دستہ ہے یہ اس کا محافظ دستہ ہے اس کی فوج ہے ہی نہیں
پھر تو اس قلعے پر قبضہ کر لینا کوئی مشکل نہیں حسن بن صباح نے کہا میرے پاس تین سو سے کچھ زائد تجربے کار لڑنے والے آدمی ہیں اور یہ جو میری زیارت کے لئے ہجوم آگیا ہے کئی سو اس میں لڑنے والے مل جائیں گے
نہیں حسن! احمد بن عطاش نے کہا میں حیران ہوں کہ یہ بات تم کہہ رہے ہو کیا ہم نے پہلے جو قلعے لیے ہیں وہ لڑ کر لیے ہیں؟
خون کا ایک قطرہ نہیں بہے گا اور المُوت ہمارا ہوگا سنو ہم کیا کریں گے
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی باتیں سرگوشیوں میں بدل گئی سرگوشیاں بھی ایسی جو خیمے کے کپڑے کی دیواریں بھی نہ سن سکیں احمد بن عطاش سحری کے وقت خیمے سے نکلا اور خلجان کو چلا گیا
تین چار راتیں گزر گئیں اللہ کے امام اور اس کے معجزوں کے چرچے اتنی زیادہ اور ایسے انداز سے کیے جا رہے تھے کہ تجسس اور پسماندگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ حسن بن صباح کی زیارت کے لیے چلے آرہے تھے داستان گو سنا چکا ہے کہ پہلے بھی لوگوں نے سنا تھا کہ خدا کا ایلچی آسمان سے اترنے والا ہے تو لوگ اسی طرح اکٹھے ہوگئے تھے اور انہوں نے وہیں ڈیرے ڈال دیے تھے لوگوں کی فطرت میں کوئی انقلاب تو نہیں آ گیا تھا ان میں فطری کمزوریاں جوں کی توں موجود تھیں اب وہ اس جگہ ہجوم کر کے آ گئے تھے
داستان گو کہ رہا تھا کہ لوگوں نے حسن بن صباح کی زیارت کے لئے وہیں ڈیرے ڈال دیے تھے احمد بن عطاش حسن بن صباح سے مل کر اور کوئی نیا منصوبہ تیار کر کے چلا گیا تاریخ میں ایک شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ احمد بن عطاش گیا نہیں تھا وہیں روپوش رہا تھا اس منصوبے میں اسے پس منظر میں رکھنا تھا
ایک رات آدھی گزر گئی تھی رات کے سناٹے کو تین چار دھماکہ نما آوازوں نے تہہ و بالا کر ڈالا
وہ دیکھو لوگوں ادھر دیکھو
زمین سے بادل اٹھ رہے ہیں
لوگوں جاگو بادلوں کے رنگ دیکھو
یہ ضرور امام کا ظہور ہو رہا ہے
پھر ایک ہڑبونگ تھی ایک شور تھا بھاگ دوڑ تھی نفسا نفسی جیسی حالت تھی لوگ دھکے دے رہے تھے دھکے کھا رہے تھے اور اس طرف دوڑے جا رہے تھے جدھر زمین سے بادل اٹھ رہا تھا
وہ ہری سرسبز گھاس اور جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ایک ٹیکری تھی جو زیادہ اونچی نہیں تھی پندرہ نہیں تو سترہ ہاتھ اونچی ہوگی اس کی لمبائی اڑھائی تین فرلانگ تھی اس کی ڈھلان پر اوپر بھی ایک دوسرے سے کچھ دور دور چھاتوں کی طرف پھیلے ہوئے اور لمبوترے بھی درخت تھے
اس ٹیکری کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی جو اگلی ٹیکری سے زیادہ بلند تھی ان کے دامن آپس میں ملے ہوئے تھے
لوگوں نے زمین سے اٹھتا ہوا جو بادل دیکھا تھا بلکہ دیکھ رہے تھے وہ آگے والی کم بلند ٹیکری کے عقب سے اٹھ رہا تھا یہ آگ کے دھوئیں کا بادل نہیں تھا یہ بادل بادلوں کے ان ٹکڑوں جیسا تھا جو برسات کے بعد سرسبز پہاڑیوں سے نیچے آجاتے اور وادیوں میں منڈلاتے رہتے ہیں
وہ رات تھی اور رات تاریک تھی لیکن بادل کا یہ دودھ جیسا سفید اور بہت بڑا ٹکڑا روشن تھا اور صاف نظر آرہا تھا یہی نہیں بلکہ اس میں سرخ سبز نیلی اور پیلی روشنیاں تیر رہی تھیں یوں لگتا تھا جیسے قوس و قزح کے رنگ بکھر کر اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے ہوں
بادل ٹیکری پر آ گیا اور آہستہ آہستہ فضا میں تحلیل ہونے لگا اور اس میں ایک آدمی کا ہیولہ نظر آنے لگا اس کے بازو دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے
لوگو! بڑی ہی بلند آواز میں کسی نے اعلان کیا بسم اللہ پڑھو کلمہ طیبہ پڑھو اور سجدے میں چلے جاؤ اللہ تبارک و تعالی نے امام حسن بن صباح کو زمین پر اتار دیا ہے
جسے دشمن کے لشکر دیکھتے ہی واپس چلے جاتے ہیں اس کا ظہور ہو گیا ہے کسی اور نے اعلان کیا
لوگ سجدے میں چلے گئے
حسن بن صباح کے تین سو آدمیوں کے جہاں خیمے لگے ہوئے تھے وہاں سے جلتی ہوئی دس بارہ مشعلیں نکلیں جو ٹیکری پر چڑھ گئیں ہوا ذرا تیز چل رہی تھی اس لئے بادل کا یہ ٹکڑا ایک طرف ہٹ گیا اور فضا میں تحلیل ہوتے ہوتے غائب ہو گیا اور اس جگہ ٹیکری پر حسن بن صباح رہ گیا جو بازو پھیلائے کھڑا تھا وہ سبز رنگ کے چمکدار چغے میں ملبوس تھا سر پر پگڑی اور اس پر اتنا بڑا سبز رومال پڑا ہوا تھا جس نے کندھے بھی ڈھانپ رکھے تھے
سجدے سے اٹھو لوگو! ایک اعلان ہوا اور ٹیکری کے قریب آ جاؤ لوگ اٹھ دوڑے انہیں تلواروں اور برچھیوں سے مسلح کچھ آدمیوں نے ٹیکری کے قریب روک کر بیٹھ جانے کو کہا دس بارہ مشعلوں کی روشنی میں لوگوں کو حسن بن صباح کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا
میں آگیا ہوں حسن بن صباح نے بلند آواز سے کہا اللہ سے یہ وعدہ لے کر آیا ہوں کہ ان مسلمانوں کو جو میرے دائرے میں آ جائیں گے دنیا میں ہی جنت دکھا دی جائے گی میں تم سب کے گناہ بخشوا آیا ہوں
اے اللہ کی طرف سے آنے والے لوگوں میں سے ایک نے پوچھا ہم تجھے امام کہیں نبی کہیں میں تم میں سے ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے جو کہنا چاہتے ہو کہہ لو یہ سوچ لو کہ میرے راستے پر چلو گے تو رنج و آلام سے مشکلات اور مصائب سے تنگدستی اور بیماری سے محفوظ رہو گے شیطان سے اور جنات سے محفوظ رہو گے
ہم نے تجھے مان لیا ہے ایک آدمی بولا امام بھی نبی بھی کوئی معجزہ دکھا
لوگوں کے ہجوم پر ایسا سناٹا طاری تھا جیسے وہاں کوئی ایک بھی انسان نہ ہو یہ تقدس اور عقیدت مندی کی انتہا تھی کہ لوگ جیسے اپنی سانسوں کو بھی روکنے کی کوشش کر رہے ہو کہ امام ناراض ہو جائے گا ان کے کانوں میں جب کسی کی آواز پڑی کے کوئی معجزہ دکھا تو سناٹا اور گہرا ہو گیا
کیا یہ معجزہ نہیں جو تم نے دیکھا ہے؟
حسن بن صباح نے کہا اللہ نے مجھے جنت کے بادلوں کے ایک ٹکڑے پر سوار کر کے زمین پر اتارا ہے کیا تم نے دیکھا نہیں کہ یہ بادل قوس و قزح کے رنگوں سے سجا ہوا تھا مجھے زمین پر اتار کر جنت کا بادل واپس چلا گیا ہے
ہم نے دیکھا ہے بہت سی آوازیں اٹھیں
بے شک ہم نے دیکھا ہے یا امام اور بھی آواز اٹھیں
حسن بن صباح کو مشعل بردار ٹیکری سے اتار کر اس خیمے میں لے گئے جو کپڑے کی دیواروں اور کپڑے کی چھت کا خوش نما کمرہ تھا اسی خیمے میں احمد بن عطاش سے اس کی ملاقات ہوئی تھی اور شاید احمد بن عطاش ابھی وہیں تھا زیارت کے لئے آئے ہوئے ہجوم میں مختلف قبیلوں کے سردار اور دیگر سرکردہ افراد بھی تھے اگلی صبح ان لوگوں نے حسن بن صباح کی بیعت کا سلسلہ شروع کر دیا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:24 }
کیا حسن بن صباح واقعی بادل کے ٹکڑے پر سوار ہو کر آسمان سے زمین پر آیا تھا؟
اس سوال کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے حسن بن صباح کا پہلے بھی ایک پہاڑی پر ظہور ہوا تھا
پہاڑی کے پیچھے ایک غار میں آگ جلا کر اس کی چمک آئینوں پر ڈالی جاتی تھی ان میں آئینے بھی تھے اور چمکتی ہوئی دھات کی چادریں اور ایسی چادریں بھی تھیں جن پر ابرق چپکایا گیا تھا ،ایک آئینہ شاہ بلوط کے درخت میں رکھا گیا تھا آئینہ چمکدار دھات کی پلیٹ سے آگ کی چمک شاہ بلوط والے پر منعقد کی جاتی تو رات کو یوں لگتا تھا جیسے شاہ بلوط میں آسمان کا ستارہ چمک رہا ہو سیدھے سادے پسماندہ لوگ اسے آسمان کے ستارے کی چمک سمجھتے رہے اور ایک روز شاہ بلوط کے ستارے کی چمک میں سے حسن بن صباح کا ظہور ہوا
اب ایک ٹیکری سے بادل اٹھا اور ٹیکری پر آیا اس میں رنگ تیر رے تھے اور اس میں سے حسن بن صباح نکلا یہ بھی آگ چمکدار دھات یا ابرق کی چادروں اور آئینوں کا کرشمہ تھا ٹیکری کے پیچھے دامن میں پندرہ بیس گز لمبائی میں دہکتے انگارے پھیلائے گئے تھے اور ان پر دھوئیں پیدا کرنے والا بارود یا کوئی اور کیمیائی مادہ پھینکا گیا تھا جو سفید بادل کی شکل کا دھواں بن کر اوپر اٹھا تاریخ میں یہ سراغ نہیں ملتا کہ یہ بارود تھا یا سفوف یا سیال مادہ یہ تحریر ملتی ہے کہ اس وقت تک مسلمانوں نے بارود سازی اور کیمیاگری میں یورپ والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی کر لی تھی
چونکہ وہ علاقہ جنگلاتی تھا سبزہ زار تھا اور رات تھی اس لیے فضا میں نمی زیادہ تھی نمی کی وجہ سے دھواں فوراً اور نہ جلدی بکھرا اسمیں جو رنگ تیر رہے تھے آئینوں یا دھات کی چمکدار چادروں سے اس طرح دھوئیں میں شامل کیے گئے تھے کہ ٹیکری کے پیچھے آگ جلا کر اس کی چمک منعکس کی گئی اور آئینوں وغیرہ کے آگے باریک رنگ دار کپڑے رکھے گئے تھے تاریخ میں اس سے زیادہ تشریح اور وضاحت نہیں ملتی ٹیکری کے پیچھے کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی
قلعہ المُوت وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا اس بلندی پر جہاں قلعہ تھا ایک شہر آباد ہو گیا تھا امیر قلعہ الموت مہدی علوی کو اطلاع مل رہی تھی کہ فلاں جگہ ایک قافلہ پڑاؤ کیے ہوئے ہے جس کا امیر کارواں ایک برگزیدہ شخصیت ہے مہدی علوی کو اس بزرگ کے معجزے بھی سنائے گئے لیکن اس نے دھیان سے نہ سنے اور کوئی اہمیت نہ دی
مہدی علوی کو یہ تو پتہ ہی نہ چل سکا کہ حسن بن صباح کی تشہیر اور تبلیغ کی تیز و تند ہوا چلی ہے جس کا گزر المُوت سے بھی ہوا ہے اور اس سے اس کا محافظ دستہ بھی متاثر ہوا ہے یہ انتظام احمد بن عطاش کا تھا مہدی علوی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ حسن بن صباح نے بادل کے ٹکڑے میں سے اپنے ظہور کا جو ڈھونگ رچایا ہے یہ المُوت کے کچھ لوگوں نے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے اسے برحق مانا ہے
امیر اعلی مقام! مہدی علوی کو اس کے ایک مشیر نے پریشانی کے عالم میں کہا ہم نے تو ادھر توجہ ہی نہیں دی تھی لیکن اپنے تمام لوگوں میں اور آپ کے محافظ دستے میں یہ عجیب و غریب خبر پھیل گئی ہے کہ امام حسن بن صباح بادل کے ٹکڑے میں آسمان سے اترا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اس کی بیعت کر رہے ہیں
ہم یہی کر سکتے ہیں کہ اسے اپنے علاقے سے نکال دیں مہدی علوی نے کہا کسی مسلمان کو یقین نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی امام یا کوئی نبی یا کوئی بزرگ آسمان سے اترا ہے ہم نبوت پر یقین رکھنے والے مسلمان ہیں اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے
آپ نہ مانیں مشیر نے کہا میں بھی نہیں مانتا لیکن یہ صورتحال بڑی ہی خطرناک ہے کہ لوگوں نے بھی اسے سچ مان لیا ہے اور ہمارے سپاہیوں اور سواروں نے بھی امیر محترم! میں نے جو معلومات فراہم کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی نیا فرقہ بن رہا ہے اسے یہیں پر ختم کر دیا جائے تو اچھا ہے
ان دونوں میں کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوا کچھ بحث و مباحثہ ہوا آخر مہدی علوی نے اپنا حکم سنایا
پچاس سواروں کا ایک دستہ لے جاؤ اس نے کہا وہاں حسن بن صباح کے مرید اور معتقد بھی ہوں گے تم ساتھ جاؤں حسن بن صباح سے کہنا کہ وہ تمہارے ساتھ آ جائے نہ آئے تو اسے میرا حکم سنانا کہ تم زیر حراست ہو ہو سکتا ہے اس کے مرید اور معتقد مزاحمت کریں کوشش کرنا کے خون خرابہ نہ ہو ہونے کو وہاں بہت کچھ ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کچھ بھی نہ ہو اگر معاملہ بگڑتا نظر آئے تو ایک سوار کو دوڑا دینا میں اپنا تمام دستہ بھیج دوں گا میں حسن بن صباح کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہوں
مہدی علوی کے حکم کی تعمیل فوری طور پر ہوئی مشیر پچاس سواروں کو ساتھ لے کر چلا گیا فاصلہ زیادہ نہیں تھا یہ دستہ دن کے پچھلے پہر چلا تھا رات کو حسن بن صباح کی خیمہ گاہ میں پہنچ گیا وہاں اب لوگوں کا اتنا ہجوم نہیں تھا انہوں نے حسن بن صباح کی زیارت کر لی تھی اور وہ چلے گئے تھے پیچھے حسن بن صباح کے اپنے آدمی رہ گئے تھے
سواروں نے خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا حسن بن صباح اپنے مصاحبوں میں بیٹھا تھا اس نے گھوڑوں کے ٹاپ سنے اور چونکا اس کے مصاحبوں کے چہروں پر گھبراہٹ آگئی پیشتر اس کے کہ حسن بن صباح کوئی حرکت کرتا یا کوئی حکم دیتا مہدی علوی کا مشیر خیمے میں داخل ہوا اور جھک کر سلام کیا
یا امام! مشیر عابد حبیبی نے حسن بن صباح سے مصافحہ کرکے اور اس کے سامنے دوزانو بیٹھ کر کہا امیر قلعہ المُوت مہدی علوی نے امام کے حضور سلام بھیجا ہے اور یہ عرض بھی کی امام جنگل میں پڑے اچھے نہیں لگتے اگر امام قلعے میں آ جائیں اور کچھ دن یہاں رہ کر دیکھیں اگر یہ جگہ پسند آجائے تو قلعے میں ہی رہیں
کیا دعوت نامہ رات کے اس وقت دیا جاتا ہے حسن بن صباح نے عابد حبیبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہوئے کہا اور کیا تمہارے یہاں مہمان کو محاصرے میں لے کر اسے دعوت دی جاتی ہے؟
امیر شہر نے حکم دیا کہ ابھی روانہ ہو جاؤ عابد حبیبی نے کہا ہم ایسے وقت روانہ ہوئے کہ یہاں بے وقت پہنچے اگر آپ کے خیمے میں روشنی نہ ہوتی تو میں کل صبح آپ کے حضور حاضر ہوتا اور یہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ مہمان کے لیے ہم گھوڑسوار بھیجا کرتے ہیں آپ کے لیے پچاس گھوڑسوار لایا ہوں
امیر شہر کو میرا سلام کہنا حسن بن صباح نے کہا اور ان کا شکریہ ادا کرنا پھر کہنا کہ میں آؤں گا لیکن میں اپنے رواج کے مطابق آؤنگا رواج یہ ہے کہ پہلے امیر شہر کم از کم ایک رات کے لیے مجھے میزبانی کا شرف عطا کریں گے پھر میں ان کے ساتھ ہیں الموت چل پڑوں گا
عابد حبیبی کو مہدی علوی نے حکم دیا تھا کہ حسن بن صباح کو اپنے ساتھ لے آئے اگر وہ نہ آئے تو اسے میرا حکم سنانا کہ تم حراست میں ہو اگر اس کے آدمی مزاحمت کریں تو جنگی کارروائی کرنا اور مدد کی ضرورت ہو تو مجھے اطلاع دینا دراصل مہدی علوی کا حکم یہ تھا کہ حسن بن صباح کو گرفتار کرکے لے آنا
عابد حبیبی نے پہلے دوستانہ انداز اختیار کیا تھا اس نے حسن بن صباح کو ایسے انداز سے امام کہا تھا جیسے اس نے دل کی گہرائیوں سے اسے امام تسلیم کرلیا ہو لیکن حسن بن صباح نے اس کے ساتھ جانے کی بجائے یہ کہہ دیا کہ پہلے امیر شہر اس کے پاس آئے تو عابد حبیبی نے یوں محسوس کیا جیسے امام نے اس کی اور اس کے امیر شہر کی عزت افزائی کی ہو
عابد حبیبی کا ارادہ تو یہ تھا کہ حسن بن صباح نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کیا تو وہ اسے گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن وہ جان نہیں سکا تھا کہ حسن بن صباح نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں اور اسی میں سارا راز تھا عابد حبیبی اپنی آنکھوں کو حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہیں کرا سکا تھا حسن بن صباح نے اسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا اس کا ذہن اب حسن بن صباح کے زیر اثر تھا یوں تو ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے بولنے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والے پر سحر کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور اس کا استدلال خالصتاً فریب کاری پر مبنی ہوتا تھا لیکن اچھے خاصے دانشور بھی اس کے فریب میں آ جاتے تھے عابد حبیبی سدھائے ہوئے جانور کی طرح اٹھا اور رخصت ہوگیا
دو روز بعد الموت سے ایک گھوڑسوار آیا اس نے حسن بن صباح کو پیغام دیا کہ امیر قلعہ الموت مہدی علوی تیسرے دن آ رہا ہے سوار یہ پیغام دے کر چلا گیا تو حسن بن صباح نے اس کے استقبال کی اور اس کے لیے رہائش کی تیاریاں شروع کردیں اپنا شاہانہ خیمہ مہدی علوی کے لیے چھوڑ دیا اپنے آدمیوں سے کہا کہ مہدی علوی آئے تو شام کو خوشبودار پھولوں کے گلدستے خیمے میں سجا دیں
اس کے پاس مہمان کے ہوش گم کرنے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا ایک تو خدیجہ تھی جس نے اسماعیل کے ساتھ مل کر سالار قزل ساروق کو کامیاب دھوکہ دیا تھا خدیجہ نوجوان لڑکی نہیں جوان عورت تھی خوبصورت تو تھی ہی اس کی ٹریننگ ایسی ہوئی تھی کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتی اور فرعونوں کو بھی اپنے قدموں میں جھکا لیتی تھی
احمد بن عطاش اس کے پاس دو اور لڑکیاں لے آیا تھا انہیں قلعہ الموت پر قبضے کے لیے استعمال کرنا تھا یہ بھی تربیت یافتہ اور آزمائی ہوئی لڑکیاں تھیں انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ کس طرح صورتحال میں کیا کرنا ہے
تیسرے دن مہدی علوی آگیا حسن بن صباح نے اس کا استقبال اس طرح کیا کہ اپنے آدمیوں کو مہدی علوی کے راستے میں دو زاویہ کھڑا کیا ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں جو اوپر کرکے ان کی نوکیں آمنے سامنے کے آدمیوں نے ملا رکھی تھیں مہدی علوی ان تلواروں کے سائے میں گزر کر خیمے تک پہنچا وہاں حسن بن صباح نے اس کا استقبال کیا اور جب مہمان خیمے میں داخل ہوا تو خدیجہ اور دوسری دو لڑکیوں نے اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں مہدی علوی بڑی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا
کیا وہ آپ ہی ہیں جو آسمان سے اترے ہیں؟
کھانے کے بعد مہدی علوی نے حسن بن صباح سے پوچھا
کیا آپ کو یقین نہیں آرہا ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
نہیں مہدی علوی نے کہا کوئی مسلمان یقین نہیں کر سکتا کہ کوئی امام یا نبی آسمان سے اترا ہو
اور کوئی مسلمان آپکی کوئی بات یقین سے نہیں سنے گا جب تک اسے یہ یقین نہ دلائیں کہ آپ آسمان سے اترے ہیں حسن بن صباح نے کہا کیا آپ نہیں جانتے کہ نبیوں اور پیغمبروں کے ساتھ لوگوں نے کیا سلوک کیا تھا ؟
آپ کیا جانتے ہیں؟
مہدی علوی نے پوچھا نبوت؟
امامت عبادت! حسن بن صباح نے جواب دیا میں اللہ کی عبادت اور اس کے رسولﷺ کا عشق چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں سکون ہو اطمینان ہو اور میں عبادت میں ڈوب جاؤں میرے پیرومرشد نے مجھے بتایا ہے کہ عبادت میں مجھے ایک اشارہ ملے گا جو ویسا ہی ہوگا جس طرح رسول اللہﷺ پر وحی کا نزول ہوا کرتا تھا اس اشارے میں میری راہ اور میری منزل کا تعین ہوگا
لیکن آپ کا یہ شاہانہ خیمہ؟
مہدی علوی نے کہا اور یہ حسین و جمیل لڑکیاں اور یہ انداز عبادت کرنے والوں کے تو نہیں ہوتے؟
اور یہ میرے لئے ہیں بھی نہیں حسن بن صباح نے کہا میرے مریدوں اور معتقدوں میں آپ سے زیادہ اونچی حیثیت کے لوگ بھی ہیں میرے لیے یہ شان و شوکت انہوں نے ہی بنائی ہے میں تو چھوٹے سے ایک خیمے میں زمین پر بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتا ہوں آپ نے پوچھا ہے میں کیا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں اور اپنا وقار بحال کریں
مہدی علوی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک انسان سے نہیں بلکہ ایک پراسرار طاقت سے محو گفتگو ہے اور اسے محسوس نہیں ہو رہا کہ مکڑی کے جالے کے تار اس کے گرد لپیٹتے جا رہے ہیں
آپ کے معجزوں کی حقیقت کیا ہے ؟
مہندی علوی نے پوچھا تبریز میں کیا ہوا تھا اور سلجوقیوں کے ایک ہزار سواروں کے لشکر کو آپ نے کس طرح پسپا کیا تھا؟
یہ آپ مجھ سے نہ سنیں حسن بن صباح نے کہا ہو سکتا ہے مجھ پر آپ مبالغہ آرائی کا شک کریں یہ ان سلجوقیوں سے پوچھیں جو میرے اتنا کہنے پر کہ واپس چلے جاؤ وہ واپس چلے گئے تھے
حسن بن صباح نے اسے اپنے یہ معجزہ سنانے شروع کر دیئے ایک ایک لفظ دروغ اور مبالغہ تھا لیکن سنانے کا انداز ایسا کہ مہدی علوی مسحور ہوتا چلا گیا انسان کی خطرناک کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے لئے انسان ہاتھ پاؤں مارتا ہے کہ اس کا آنے والا وقت کیسا ہوگا اور اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے اور اسے بڑا رتبہ اور خزانہ کیسے مل سکتا ہے؟
کچھ ایسی ہی بات مہدی علوی حسن بن صباح سے کر بیٹھا حسن بن صباح قلعہ الموت سے واقف تھا اور یہ علاقہ تو اسے بہت ہی پسند تھا اس قلعے پر اس نے قبضہ کرنا تھا مہدی علوی کی بات سن کر حسن بن صباح نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے اوپر مراقبے کی کیفیت طاری کرلی
اوہ حسن بن صباح نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور گھبرائےہوئے سے لہجے میں بولا بڑی ہی کالی گھٹا ہے جو المُوت پر پھیلتی چلی جارہی ہے اس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اس نے جھوٹ بولا میں نے آپ کا قلعہ کبھی نہیں دیکھا مجھے جو نظر آرہا ہے وہ تو بہت ہی مضبوط ہے اس میں راہداریاں تہہ خانے راستے اور چور راستے ایسے ہیں کہ کوئی اجنبی ان میں چلا جائے تو انہیں میں بھٹک بھٹک کر مر جائے لیکن اتنے قیمتی قلعے اور اتنے خوبصورت شہر کے تحفظ کے لیے مجھے کوئی فوج نظر نہیں آرہی کیا میں صحیح کہہ رہا ہوں یا مجھے غلط نظر آرہا؟
مہدی علوی نے حسن بن صباح کی زبان سے اپنے قلعے کی تفصیلات سنیں تو اس پر رقت طاری ہو گئی اس نے حسن بن صباح کو بتایا کہ اس نے اپنے قلعے میں فوج رکھی ہی نہیں صرف ایک محافظ دستہ ہے جس میں پانچ سو سوار ہیں
فوج رکھیں حسن بن صباح نے کہا دشمن بڑھ رہا ہے گھٹا گہری ہو رہی ہے اگر آپ نے فوج رکھ لی تو یہ گھٹا جس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اڑ جائے گی اور آپ محفوظ رہیں گے فوج تجربے کار ہونی چاہیے بغیر فوج کے آپ قلعہ گوا بیٹھے گے
مہدی علوی حسن بن صباح کے جال میں آ گیا اس نے حسن بن صباح کے ساتھ اس مسئلہ پر بات شروع کر دی کہ وہ اتنی زیادہ فوج نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ فوج کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں حسن بن صباح اسے ڈراتا رہا کہ اس نے فوج نہ رکھی تو کوئی نہ کوئی دشمن اپنی فوج لے آئے گا اور قلعے پر قبضہ کر لے گا
حملہ آور سلجوقی بھی ہو سکتے ہیں حسن بن صباح نے کہا یہ گھٹا جو میں نے دیکھی ہے یہ بڑا ہی خطرناک اشارہ ہے میں آپ کی یہ مدد کر سکتا ہوں کہ میرے ساتھ جو آدمی ہیں میں ان کی ایک فوج بنا سکتا ہوں آپ انہیں دو وقت روٹی دے دیا کریں ان کی تنخواہ اور دیگر اخراجات میں اپنے ذمے لے لوں گا یہ میں جہاں سے بھی پورے کروں یہ میری ذمہ داری ہوگی آپ مجھے اپنے قلعے میں تھوڑی سی جگہ دے دیں جہاں میں عبادت کر سکوں اور جو لوگ میری زیارت کے لئے آئیں انہیں بٹھا کر ان کی رہنمائی کر سکوں مجھے امید ہے کہ میں اپنے پیروکاروں کو مریدوں کو جو بھی حکم دونگا وہ مانیں گے
مہدی علوی حسن بن صباح کی باتوں میں آ گیا اور اس کے ساتھ معاہدہ کر لیا تاریخ میں اس معاہدے کی تفصیلات نہیں ملتی البتہ یہ واضح ہے کہ وہ امیر قلعہ الموت مہدی علوی جس نے حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دیا تھا خود اس کے فریب میں گرفتار ہو گیا اور اس کی عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ یہ بھی نہ سوچ سکا کہ وہ کتنا خطرناک معاہدہ کر بیٹھا ہے
ادھر مرو میں سلطان ملک شاہ اور نظام الملک پیچ و تاب کھا رہے تھے سلطان ملک شاہ تو زیادہ فوج بھیج کر بہت بڑا حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن نظام الملک نے اسے روک دیا اور کہا تھا کہ ایسے عقلمند اور غیر معمولی طور پر دلیر جاسوس بھیجے جائیں جو حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کے خفیہ حلقے تک پہنچ کر اندر کی خبریں لائیں تاکہ ان کے مطابق کوئی کاروائی کی جائے
اصل بیچ و تاب تو سالار قزل ساروق کھا رہا تھا وہ اپنی بےعزتی کا انتقام لینے کو تڑپ رہا تھا اس نے سلطان ملک شاہ اور وزیر اعظم سے کئی بار کہا تھا کہ اسے جاسوسی کے لئے بھیجا جائے
یہ کام سالار کا نہیں ساروق! آخر ایک دن سلطان نے اسے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا حملے کی صورت میں ہم تمہیں ہی بھیجیں گے لیکن دو تجربوں کے بعد ہم تیسرا ناکام تجربہ نہیں کریں گے
میں حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا چاہتا ہوں قزل ساروق نے کہا تھا صرف یہ شخص قتل ہوجائے تو باطنیوں کا کھیل ختم ہو جائے گا
اس کی بجائے وہاں تم قتل ہو سکتے ہو نظام الملک نے کہا تھا اس صورت میں ہم سب کی بےعزتی ہوگی اور باطنی اور زیادہ شیر اور دلیر ہو جائیں گے
مزمل آفندی صحت یاب ہو چکا تھا سالار قزل ساروق جس طرح اپنے ایک ہزار سواروں کے ساتھ واپس آیا تھا اس سے مزمل آفندی بھی واقف تھا اسے وہ ملا بھی تھا اور اس کی قہر آلود باتیں بھی سنی تھیں قزل ساروق نے اسے بھی بتایا تھا کہ وہ اکیلا حسن بن صباح کے قتل کے لیے جائے گا مزمل نے اسے کہا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گا۔دونوں نے پلان تیار کرلیا تھا لیکن سلطان ملک شاہ نے قزل ساروق کو روک دیا
مزمل اکیلا نظام الملک سے ملا
جس مقصد کے لئے آپ جاسوس بھیج رہے ہیں وہ مقصد صرف میں پورا کر سکتا ہوں مزمل آفندی نے کہا میں آپ سے صرف ایک گھوڑا یا ایک اونٹ مانگوں گا
نہیں مزمل! نظام الملک نے کہا تھا ہم تمہیں کسی خطرناک مہم پر نہیں بھیج سکتے کیونکہ تم ہمارے ملازم نہیں
عالی جاہ! مزمل نے کہا تھا اس خطرناک مہم میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو ملازم نہیں ہوگا یہ کام وہ شخص کرے گا جس میں جذبہ ہوگا ملازم تو اپنے اہل و عیال کو روٹی کھلانے کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کرے گا میں حسن بن صباح کو اپنے دین اور اپنے عقیدے کے نام پر قتل کروں گا اگر قتل نہ کر سکا تو ان کی پردوں کے پیچھے کی خبریں اور ان کے دلوں کے بھید لے کر آؤں گا یہ ایک قومی مسئلہ ہے ہمارے دین کا مسئلہ ہے جتنا آپ کا ہے اتنا ہی میرا ہے میں آپ سے کوئی معاوضہ نہیں مانگ رہا مجھے جہاد اور شہادت کے راستے سے نہ ہٹائیں
نظام الملک کو ایسے ہی ایک آدمی کی تلاش تھی وہ مزمل آفندی کے دو کارنامے دیکھ چکا تھا شمونہ کی ماں میمونہ کو حسن بن صباح کے قبضے سے آزاد کرایا تھا یہ سنایا چکا ہے کہ حسن بن صباح نے میمونہ کے خاوند کو ایسے طریقے سے قتل کروایا تھا کہ میمونہ کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا یہ مزمل آفندی کا جذبہ ایثار تھا کہ وہ جان کی بازی لگا کر میمونہ کو حسن بن صباح کے بڑے ہی خطرناک اور ابلیسی فریب سے نکال لایا اور رے لا کر ابومسلم رازی کے گھر پہنچا دیا تھا معجزے جیسا اتفاق یہ ہوا کہ وہاں میمونہ کی بیٹی شمونہ مل گئی جو بچپن میں اغوا ہوئی تھی
مزمل آفندی کا دوسرا کارنامہ بھی کم قابل قدر نہ تھا اس نے سلطان ملک شاہ کو بتایا تھا کہ حسن بن صباح ایک قافلے کے ساتھ اصفہان جا رہا ہے سلطان ملک شاہ نے پانچ سو سوار بھیجے جن کی رہنمائی مزمل آفندی نے کی تھی پھر تبریز کی لڑائی میں مزمل اس لڑائی میں اتنا زیادہ زخمی ہوا تھا کہ اس کا زندہ رہنا مشکوک تھا لیکن وہ اتنی دور سے اس حالت میں مرو سلطان ملک شاہ کے پاس پہنچا تھا کہ طبیب اور جراح دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ یہ زندہ کیسے رہا
اب یہ مزمل آفندی ایک بار پھر اپنی جان کی بازی لگا رہا تھا نظام الملک اسے سلطان ملک شاہ کے پاس لے گیا سلطان نے اسے اجازت دے دی
مزمل آفندی اس علاقے میں جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک شمونہ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ رے سے آ گئی یہ دونوں رے میں ابومسلم رازی کے ساتھ رہتی تھیں وہاں جس روز اطلاع پہنچی تھی کہ مزمل شدید زخمی حالت میں مرو آیا ہے اس دن سے شمونہ اس کے پاس پہنچنے کو تڑپ رہی تھی لیکن کسی مصلحت کی بنا پر اسے مزمل کے پاس نہیں جانے دیا جا رہا تھا اب مزمل کی صحت یابی کی اطلاع ملی تو ابومسلم رازی نے اونٹ پر پالکی بندھوا کر ماں بیٹی کو مرو بھیج دیا محافظ دستے کے چند ایک سوار ساتھ بھیجے تھے
شمونہ پر مزمل کی محبت کا پاگل پن سوار تھا وہ مزمل کو اتنی لمبی جدائی کے بعد دیکھ رہی تھی اس کی جذباتی حالت اس ماں جیسی تھی جسے اپنا گمشدہ بچہ خلاف توقع مل گیا ہو وہ تو اس کے زخموں کے نشان چوم رہی تھی
میں پھر جا رہا ہوں شمونہ! مزمل نے کہا
کہاں؟
تمہاری اور تمہاری ماں کی عصمت کا انتقام لینے مزمل آفندی نے کہا اور اسے بتایا کہ اس کا مشن کیا ہے
میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی شمونہ نے بے تابی سے کہا
میرے لئے مشکل پیدا نہ کرو شمونہ! مزمل نے کہا تم حسن بن صباح کی دنیا سے بھاگی ہوئی ہو وہاں فوراً پہچانی جاؤں گی
تم حسن بن صباح کی دنیا سے واقف نہیں مزمل ؟
شمونہ نے کہا میں کوئی بھیس بدل لوں گی تمہاری رہنمائی کروں گی اس نے اتنی ضد کی کہ نظام الملک کو اطلاع دی گئی اس نے شمونہ سے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان اپنی بیٹیوں کو نہ میدان میں اتارا کرتے ہیں نہ انہیں جاسوسی کے لیے استعمال کیا کرتے ہیں
پھر ایک دو باتیں سن لو مزمل! شمونہ نے کہا کسی خوش فہمی میں نہ رہنا باطنیوں کی نظریں انسان کے جسم کے اندر بھی چلی جایا کرتی ہیں کسی پر اعتبار نہ کرنا وہاں تمہیں مجھ جیسی کوئی لڑکی مل جائے اور تمہارے آگے روئے اور فریاد کرے کہ میں مظلوم ہوں میری مدد کرو تو پتھر بن جانا یہ بھی یاد رکھنا کے وہاں پتھر بھی موم ہو جایا کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ قتل کرنے سے پہلے خود قتل ہو جاؤ میں نے پارساؤں کو پانی بنایا ہے وہ ابلیس کی ولایت ہے وہاں اللہ والے راہ سے بے راہ ہو جاتے ہیں
شمونہ نے اسے اور بھی بہت سی ہدایات دیں خطروں کی نشاندہی کی اور اسے بتایا کہ وہ راتوں کو سوئے تو ایک آنکھ کھول کر سوئے
مزمل آفندی نصف شب کے بعد مرو سے روانہ ہوا تھا اس نے داڑھی پہلے ہی بڑھا لی تھی اس سے پہلے اس کی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی ہوتی تھی جو اس کے سفیدی مائل گندمی چہرے میں دلکشی پیدا کرتی تھی اس نے سر کے بال بڑھائے اور کچھ دن پہلے ہی انہیں دھونا چھوڑ دیا تھا سلطان کے تجربے کار جاسوسوں نے اس کا بہروپ تیار کیا اور اسے شتربان بنا دیا جو اپنے اونٹ باربرداری اور سواری کے لیے کرائے پر دیتا تھا
وہ بڑی لمبی مسافت طے کرکے خلجان میں داخل ہوا اسے بتایا گیا تھا کہ وہ خلجان میں کہاں جائے اور کس سے ملے خلجان میں ایک آدمی تھا جو سلجوقیوں کے جاسوسوں کو اپنے پاس رکھتا تھا وہ خود جاسوس نہیں تھا جاسوسوں کی رہنمائی کرتا تھا سلجوقی جاسوس اپنے دائیں ہاتھ کی درمیانی اور چھوٹی انگلی کے درمیان والی انگلی میں ایک خاص ساخت کی انگوٹھی ڈال کر رکھتے تھے کسی جاسوس کو جب خفیہ طور پر پناہ دینے والا آدمی مل جاتا اور وہ جاسوس کو پہچان تو جاسوس انگوٹھی اتار کر چھپا لیتا تھا مزمل آفندی خلجان میں داخل ہوا حسن بن صباح مہدی علوی کے ساتھ قلعہ المُوت میں داخل ہوا
مہدی علوی کو حسن بن صباح نے رات اپنے یہاں مہمان رکھا تھا خود اپنی سادگی اور درویشی کے دکھاوے کے لیے معمولی سے ایک خیمے میں چلا گیا تھا اور مہدی علوی کو اپنے شاہانہ خیمے میں ٹھہرایا اور اس پر یہ ظاہر کیا تھا کہ یہ خیمہ اس کے لیے تیار کیا گیا تھا خیمے میں پھول ہی پھول نظر آتے تھے ان کی مہک خمار طاری کر رہی تھی
رنگا رنگ پھولوں میں ایک پھول اور بھی تھا جو چلتا پھرتا تھا مسکراتا تھا اس کی عطر بیز بو اور اس کے رنگ پھولوں سے جدا تھے یہ تھی خدیجہ جسے حسن بن صباح نے خاص ہدایات دے کر مہدی علوی کے ساتھ لگا دیا تھا بظاہر خدیجہ کا کام یہ تھا کہ مہمان کی دیکھ بھال کرے اس کا بستر ٹھیک کردے اور اس کے پاس پانی رکھ دے اور اس کے خیمے کی شمع بجھا کر باہر آ جائے پھر صبح اسے ناشتہ دے لیکن خدیجہ کو کوئی اور ہی مقصد دیا گیا تھا
رات کھانے کے بعد حسن بن صباح مہدی علوی کو خیمے میں اکیلا چھوڑ کر اپنے خیمے میں چلا گیا تو خدیجہ مہدی علوی کے پاس آ گئی اس نے لباس ایسا پہن رکھا تھا جس میں اس کا جسم پوری طرح مستور نہیں تھا لیکن اس کی باتوں اور حرکات میں بے حیائی نہیں بلکہ شرم وحجاب تھا مہدی علوی ادھیڑ عمر آدمی تھا بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا اس عمر میں آدمی بڑھاپے کو فریب دیا کرتا ہے کہ وہ ابھی جوان ہے مہدی علوی تو ایک شہر کا امیر یعنی حاکم تھا دولت میں کھیلتا تھا اس کی دو بیویاں تھیں لیکن حاکم شہر دو بیویوں سے مطمئن نہیں ہوا کرتے تھے نت نئے غنچوں کے متلاشی رہتے ہیں داشتہ ان کی زندگی کا لازمی جزو ہوتا تھا
خدیجہ کو دیکھ کر مہدی علوی نے اپنی جذباتی دنیا میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے خدیجہ کو معلوم تھا کہ مرد کو کوئی بات کئے بغیر کس طرح جال میں لایا جاتا ہے وہ خیمے میں گلدستے اور دیگر اشیاء قرینے سے رکھ رہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ مہدی علوی کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں وہ کوئی چیز اٹھا کر کہیں اور رکھنے کے لیے جھکتی تھی تو اس کے جسم کا کوئی ذرا سا حصہ عریاں ہو جاتا تھا
تم کون ہو ؟
مہدی علوی نے پوچھا
خدیجہ! خدیجہ نے جھوٹ بولا بیوہ ہوں خاوند تبریز کی لڑائی میں مارا گیا ہے میں امام کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ رہتی ہوں
بیوی بن کر ؟
مہدی علوی نے پوچھا یا شادی کے بغیر ہی
نہیں معزز مہمان! خدیجہ نے جواب دیا امام کسی عورت کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھتا نہ بیوی نا داشتہ امام تو آسمان کی مخلوق ہے خوبصورت لڑکیوں کو ساتھ رکھتا ہے لیکن بالکل اس طرح جس طرح گلدانوں میں پھول رکھے ہوئے ہیں
تم بیوہ ھو خدیجہ! مہدی علوی نے کہا جوان ہو اور اتنی حسین ہو کہ میں نے تم جیسی خوب صورت لڑکی کم ہی کبھی دیکھی ہے کیا تم مرد کے ساتھ کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تشنگی سی اور میں کیا کہوں
خدیجہ نے شرمانے کی ایسی اداکاری کی جیسے زمین میں اتر جانا چاہتی ہو مہدی علوی نے اپنا سوال دہرایا تو خدیجہ نے سر کے ہلکے سے اشارے سے بتایا کہ مرد کے ساتھ کی ضرورت محسوس کرتی ہے
کیا میرا ساتھ پسند کروں گی مہدی علوی نے کہا تمہارے امام سے اجازت لے لوں گا تمہیں بیوی نہیں ملکہ بناؤں گا میرے قریب آؤ میرے پاس بیٹھو
میں آپ کو ایک خاص شربت بلاتی ہوں خدیجہ نے کہا یہ ہم اپنے بہت ہی خاص مہمانوں کو پلایا کرتے ہیں
اس نے ایک صراحی میں سے ایک پیالا بھرا اور مہدی علوی کو پیش کیا یہ شربت خاص طور پر خیمے میں رکھا گیا تھا مہدی علوی نے شربت پی لیا اور خدیجہ کو اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لے لیا پھر جب شربت نے اپنا اثر دکھایا تو خدیجہ ایک طلسم یا ایک بڑا ھی حسین آسیب بن کر مہدی علوی پر غالب آگئی
خدیجہ جب آدھی رات سے کچھ پہلے خیمے سے نکلی تو اس کا جسم ویسا ہی پاک نہ تھا جیسا اس وقت تھا جس وقت وہ اس خیمے میں داخل ہوئی تھی
مہدی علوی کی آنکھ کھلی تو اس نے سب سے پہلے خدیجہ کو پکارا اور اسی روز وہ حسن بن صباح اور اسکے تمام آدمیوں کو اپنے ساتھ قلعہ الموت میں لے گیا خدیجہ اور دوسری لڑکیاں بھی ساتھ تھیں
ادھر مزمل آفندی خلجان میں داخل ہوا اسے بتا دیا گیا تھا کہ اس آدمی کا گھر کہاں ہے جس کے یہاں اس نے قیام کرنا ہے اس کا نام احمد اوزال تھا وہ سلجوق تھا مزمل نے تین چار آدمیوں سے اس کا گھر پوچھا آخر اس نے دو آدمیوں کو روکا اور ان سے احمد اوزال کا گھر معلوم کیا انہوں نے اسے صحیح راستے پر ڈال دیا وہ چلا گیا تو ان دونوں میں سے ایک آدمی نے اسے جاتے دیکھتا رہا
شاید میں اس شخص کو جانتا ہوں ایک نے کہا
جانتے ہوں گے دوسرے نے کہا شتربان ہے کبھی تم نے اس کا اونٹ استعمال کیا ہوگا
نہیں یہ شتربان نہیں پہلے آدمی نے کہا اور اس نے جس کا گھر پوچھا ہے وہ بھی مشکوک آدمی ہے
مزمل آفندی پہچانا گیا تھا اور وہ بے خبر تھا
رات کھانے کے بعد مزمل آفندی اور احمد اوزال الگ بیٹھ گئے اب بتاؤ مزمل! احمد اوزال نے پوچھا کیا تم کسی خاص مقصد کے لئے آئے ہو یا میری طرح جاسوسی کے لیے یہی رہوگے
میں بہت بڑا مقصد لے کر آیا ہوں احمد بھائی! مزمل نے کہا حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے یا اسے زندہ پکڑ کر سلطان ملک شاہ کے حوالے کرنا ہے
کیا تمہیں سلطان نے کہا ہے کہ یہ کام کرنا ہے؟
احمد اوزال نے پوچھا
ہاں احمد بھائی! مزمل نے جواب دیا سلطان نے کہا ہے اور وزیر نظام الملک نے بھی
نظام الملک نے بھی؟
احمد اوزال نے حیرت سے کہا وہ دونوں اسے کوئی عام سا فریب کار اور شیطان فطرت انسان سمجھ رہے ہیں جسے وہ بڑی آسانی سے قتل کرا دیں گے؟
اسی لیے انہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے مزمل نے کہا مجھے بتاؤ کہ میں اسے کہاں اور کس طرح قتل کر سکتا ہوں اگر تم اسے ناممکن سمجھتے ہو تو یہ بھی بتا دوں میں ناممکن کو ممکن کر کے دکھا دوں گا
تم جذبات کے غلبے میں بات کر رہے ہو مزمل! احمد اوزال نے کہا تم ناممکن کو ممکن نہیں بلکہ ممکن کو ناممکن بنا دو گے سلطان اور نظام الملک حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتے ہیں اسے قتل نہیں کروا سکتے تم کچھ دن یہاں رہو میں تمہیں قلعہ المُوت میں لے جاؤں گا خود ہی دیکھ لینا کہ اسے تم کس طرح قتل کر سکتے ہو ہم تین چار آدمی یہاں سے چھوٹی بڑی خبر سلطان تک پہنچا رہے ہیں
ایک بات کہوں احمد! مزمل نے کہا بری لگے تو معاف کر دینا میرا خیال ہے تم سلطان کے تنخواہ دار ملازم ہو تم اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے میں جذبہ لے کر آیا ہوں اس میں بری لگنے والی کوئی بات نہیں مزمل! احمد اوزال نے کہا بے شک ہم اس علاقے میں جو چند ایک آدمی جاسوسی کے لیے آئے ہیں سب تنخواہ دار ملازم ہیں لیکن ہم رضاکارانہ طور پر آئے ہیں اور وہی جذبہ لے کر آئے ہیں جس نے تمہیں یہاں آنے پر مجبور کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں تجربہ کار استادوں نے جاسوسی کی تربیت دی تھی پھر ہمیں آزمائشوں میں ڈال کر پرکھا اور اس وقت یہاں بھیجا جب انہوں نے اطمینان کر لیا کہ ہم اس کام کے لیے تیار ہوگئے ہیں صرف ایک جذبہ کچھ نہیں کر سکتا اور میں تمہیں یہ بھی بتادوں مزمل جس میں جذبہ نہیں وہ بھی کچھ نہیں کر سکتا
تم میری رہنمائی کرو احمد
کیوں نہیں کروں گا احمد اوزال نے کہا میں تمہیں الموت لے جاؤں گا خود دیکھنا کے حسن بن صباح تک قتل کے ارادے سے پہنچنا کس قدر دشوار اور خطرناک ہے اس نے نبوت کا دعوی نہیں کیا لیکن لوگوں نے اسے نبی ماننا شروع کر دیا ہے اس نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں جنت دکھا دے گا
یہ میں جانتا ہوں مزمل آفندی نے کہا اس نے اپنی شخصیت میں ابلیسی اوصاف پیدا کرلیے ہیں
ہاں! احمد اوزال نے کہا تم یہ بھی جانتے ہوں گے کہ انسانی فطرت کی کمزوریوں اور کبھی پوری نہ ہونے والی خواہشات کو اگر تسکین ملتی ہے تو وہ ابلیسی اوصاف سے ملتی ہے یا اس انسان سے ملتی ہے جس نے اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرلیے ہوں ابلیس کا بنیادی وصف ہے بندگان خدا کو خدا اور رسول اللہﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹانا اور نفسانی لذت پرستی کا عادی بنا دینا
باتیں بہت ہو چکی ہیں احمد بھائی! مزمل آفندی نے کہا اب کچھ کرنا ہے اس ابلیس کا راستہ روکنا ہے یہ صرف سلطان ملک شاہ کا مسئلہ نہیں یہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے یہ میرا اور تمہارا مسئلہ ہے یہ دین اسلام کا مسئلہ ہے میں حسن بن صباح پر دو وار کر چکا ہوں اس کے قبضے سے ایک عورت کو آزاد کرایا تھا
مزمل نے احمد اوزال کو سنایا کہ اس نے میمونہ کو کس طرح حسن بن صباح سے آزاد کرایا تھا یہ بھی سنایا کہ اس نے کس طرح اس قافلے پر پانچ سو سواروں کا چھاپا مروایا تھا جس قافلے کے ساتھ حسن بن صباح اصفہان جا رہا تھا
میں اپنی جان کی قربانی دینے آیا ہوں احمد بھائی! مزمل نے کہا مجھے تمھارے پاس بھیجا گیا ہے تم نے میری رہنمائی کرنا ہے میں عہد کر کے آیا ہوں کہ زندہ اسی صورت میں واپس جاؤنگا کے حسن بن صباح زندہ نہیں ہوگا میں کامیاب لوٹنا چاہتا ہوں
میں تمہارے ساتھ ہوں مزمل! احمد اوزال نے کہا میں تمہارا حوصلہ توڑ نہیں رہا صرف خطروں سے آگاہ کر رہا ہوں میں تمہیں چند دن اپنے پاس رکھ کر تمہاری تربیت کروں گا جاسوسی اور تباہ کاری کے معاملے میں تم بالکل کورے ہو تمہیں کچھ تو معلوم ہونا چاہیے یہاں تمہیں اپنے دوستوں سے بھی ملوانا ہے کل صبح باہر نکل جانا اور سارے شہر میں گھوم پھر کر یہاں کی گلیاں اور بازار بھی دیکھنا اور یہاں کے لوگوں کو بھی دیکھنا یہ خیال رکھنا کہ کوئی تمہارے ساتھ علیک سلیک کرے تو اسے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملنا یہ بتاؤ کہ تم سے کوئی پوچھ لے کہاں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو تو کیا جواب دو گے؟
کہہ دوں گا بغداد سے آیا ہوں مزمل نے جواب دیا اصفہان کہہ دوں گا میں نے بہت سفر کیا ہے اور بڑے شہروں سے واقف ہوں یہاں آنے کی وجہ سیرو سیاحت بتاؤں گا
یہ ٹھیک ہے احمد اوزال نے کہا تم عقل والے ہو میں سوچتا تھا کہ تم مرو رے نیشاپور کہو گے یہاں کسی کو پتہ نہ چلے کہ تمہارا سلطنت سلجوق کے ساتھ کوئی تعلق ہے میرے متعلق دل میں کوئی غلط فہمی نہ رکھنا مزمل! میں مسلمان تو ہوں لیکن میں سلجوق ہوں ترک ہوں اس سلطنت کی بنیادوں میں میرے آباء اجداد کا خون رچا بسا ہوا ہے میں اس سلطنت کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا میں پہلے مسلمان ہوں پھر سلجوق ہوں اس طرح اس سلطنت کے ساتھ میرے دو رشتے بنتے ہیں مجھے تنخواہ دار ملازم نہ سمجھنا میں تمہارے ساتھ نہیں ہوگا تو بھی مجھے اپنے ساتھ سمجھنا اور بہت ہی ضروری بات یہ ذہن میں رکھنا کہ اس شہر میں باطنیوں کے جاسوس بھی موجود ہیں کہیں پکڑے نہ جانا
اگلی صبح مزمل آفندی احمد اوزال کے گھر سے اس خیال سے نکلا کے سارے شہر میں گھوم پھر کر شہر سے واقفیت حاصل کرے گا گلی میں اسی کی عمر کا ایک آدمی ٹہل رہا تھا مزمل نے اس کی طرف توجہ نہ دی اسے صرف دیکھا اور ایک طرف نکل گیا وہ اس شہر میں اجنبی تھا گلیوں کے موڑ مڑتا گیا ایک گلی سے مڑ کر ایک اور گلی میں داخل ہوا ایک اور گلی اس گلی کے ساتھ ملتی تھی مزمل نے اس آدمی کو جسے اس نے احمد اوزال کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا اسے دوسری گلی میں آہستہ آہستہ چلتے دیکھا اب کے مزمل نے اسے ذرا توجہ سے دیکھا اسے یاد آیا کہ کل اس نے اسی آدمی سے احمد اوزال کا گھر پوچھا تھا
مزمل بازار میں چلا گیا اور ایک دکان پر رک گیا یہ خنجروں اور چھوٹی بڑی تلواروں کی دکان تھی مزمل خنجر اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگا اس نے دائیں طرف دیکھا اگلی دکان پر وہی آدمی کھڑا مزمل کی طرف دیکھ رہا تھا مزمل نے اسے دیکھا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا
اس کے بعد مزمل جدھر بھی گیا اس نے کچھ فاصلے پر اس آدمی کو دیکھا
دوپہر کے کھانے کے وقت مزمل واپس احمد اوزال کے گھر آیا اور اسے بتایا کہ ایک آدمی اس کا پیچھا کرتا رہا ہے
میں نے اسی آدمی سے تمہارے گھر کا پتہ پوچھا تھا مزمل نے کہا یہ حسن بن صباح کا جاسوس ہے احمد اوزال نے کہا تم نے تین چار دن ابھی یہیں رہنا ہے اس آدمی سے بچ کے رہنا یہ تمہیں قتل نہیں کرے گا نہ تمہیں گرفتار کرے گا یہ کسی وقت تمہیں ملے گا اور تمہیں دوست بنائے گا اسے اچھی طرح ملنا لیکن ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اسے شک ہو جائے یہی بتانا کہ تم سفر پر ہو میرے متعلق بتانا کہ میری تمہاری ملاقات حلب میں ہوئی تھی تم گھومو پھرو شہر سے باہر جنگل بھی دیکھنا بہت خوبصورت علاقہ ہے ایک ندی گذرتی ہے
ضرور جاؤں گا مزمل نے کہا قدرت کے حسن کا تو میں دلدادہ ہوں
نہیں مزمل! احمد اوزال نے کہا تم نے قدرت کے حسن میں کھو نہیں جانا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ تمہیں اگر یہاں سے بھاگنا پڑے تو جنگل میں کہاں کہاں چھپتے ہوئے بھاگو گے یاد رکھو مزمل جاسوس اور تباہ کار کو کیڑے مکوڑوں کی طرح رہنا ہوتا ہے
احمد اوزال نے اسے اور بھی بہت سی ہدایات دیں وہ مزمل کو باقاعدہ ٹریننگ دے رہا تھا
کھانے کے بعد مزمل پھر نکل گیا اس نے ادھر ادھر دیکھا اسے توقع تھی کہ وہ آدمی پھر اسے نظر آئے گا لیکن وہ نظر نہ آیا مزمل شہر سے نکل کر جنگل کی طرف ہو لیا آگے اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں جو سبز گھاس خوبصورت جھاڑیوں اور درختوں سے ڈھکی ہوئی تھیں واقعی بہت خوبصورت علاقہ تھا
مزمل آفندی جوان آدمی تھا ایسے روح افزا علاقے اسے بہت ہی اچھے لگتے تھے وہ دو تین ٹیکریوں کے درمیان سے گزر کر آگے چلا گیا اسے ندی نظر آئی اس کے کناروں پر گھنے درخت تھے اس کے پس منظر میں پہاڑی تھی وہ بھی سبز پوش تھی اس پر بادلوں کے سفید ٹکڑے منڈلا رہے تھے
مزمل ندی کی طرف جا رہا تھا
اسے اپنے پیچھے ایسی سرسراہٹ سنائی دی جیسے کوئی خشک گھاس پر چل رہا ہو اس نے گھوم کر پیچھے دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا اسے یوں شک ہوا جیسے اس نے کسی جنگلی جانور یا کتے یا بلّی کو ٹیکری کی اوٹ میں ہوتے دیکھا ہے اسے وہم سمجھ کر وہ ندی تک پہنچ گیا اور کنارے پر ٹہلنے لگا ندی کا جلترنگ بجاتا ہوا شفاف پانی دلوں پر وجد طاری کر رہا تھا
مزمل کو یاد آیا کہ احمد اوزال نے اسے کہا تھا کہ قدرت کے حسن میں ہی نہ کھو جانا بلکہ وہاں چھپنے کی جگہیں دیکھنا اس نے ہر سو دیکھا اسے جھاڑیوں کے اور اونچے اور گھنے پودوں کے جھرمٹ نظر آئے بعض ٹیکریاں دیواروں جیسی تھیں ان کے دامن میں ہاتھی گھاس بھی تھی اور ہرے سرکنڈے بھی بعض گھنے درخت ایسے بھی تھے جن کے نیچے والے ٹہن زمین کے قریب آگئے تھے مزمل کو خیال آیا کہ وہ ایسے کسی ٹہن پر چڑھ جائے گا اور چوڑے پتوں والی گھنی شاخیں اسے چھپا لیں گیں
اسے ندی کے کنارے کے قریب تین چار درختوں کا جھنڈ دکھائی دیا ان پر چوڑے پتوں والی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں یہ درختوں کے درمیان سے اٹھ رہی تھیں ان بیلوں نے درختوں کے نیچے غار یا گف کی طرح کا کمرہ سا بنا رکھا تھا
مزمل ندی کے ساتھ ساتھ وہاں تک جانے کی بجائے چکر کاٹ کر عقب سے آگے گیا اسے سامنے سے دیکھنے کو آگے ہوا تو وہ ٹھٹک کر ایک قدم پیچھے ہو گیا وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا مزمل کو کسی آدمی سے کوئی ڈر اور خطرہ نہیں ہو سکتا تھا لیکن یہ وہی آدمی تھا جو گلیوں اور بازاروں میں اس کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا تھا کچھ دیر پہلے مزمل نے اپنے پیچھے جو آہٹ اور سرسراہٹ سنی تھی وہ اسی آدمی کی تھی
اسے وہاں دیکھ کر مزمل فوراً سمجھ گیا کہ یہ شخص جنگل میں بھی اس کے پیچھے آ گیا ہے وہ غصے سے آگ بگولا ہوگیا اس نے اپنے کپڑوں کے اندر خنجر اڑس رکھا تھا وہ آدمی اٹھ رہا تھا مزمل نے بڑی تیزی سے خنجر نکالا اس کے ذہن میں احمد اوزال کے الفاظ گونجے یہ حسن بن صباح کا جاسوس ہے مزمل کو یوں سنائی دیا جیسے اسے کسی نے کہا ہو یہ حسن بن صباح ہے
یہ آدمی اٹھا ہی تھا کہ مزمل کا بایاں ہاتھ تیر کی طرح آگے ہوا اور اس ہاتھ نے اس آدمی کی گردن دبوچ لی مزمل کے دوسرے ہاتھ میں خنجر تھا اس کے خنجر کی نوک اس شخص کے دل کے مقام پر رکھ دی بائیں ہاتھ کا پنجہ اتنی زور سے دبایا کہ اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مزمل کی بائیں کلائی پکڑ لی اور تڑپنے لگا اس میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ مزمل کے پنچے سے اپنی گردن چھڑوا سکتا اس کے ساتھ ہی مزمل کے خنجر کی نوک اس کے دل کے مقام پر چبھ رہی تھی
مزمل اسے جان سے مار سکتا تھا لیکن اسے خیال آگیا کہ اس سے یہ تو پوچھ لے کے وہ کون ہے اور چاہتا کیا ہے اور اگر وہ حسن بن صباح کے باطنی فرقہ کا جاسوس ہے تو اس سے راز کی کچھ باتیں پوچھ لے یہ خیال آتے ہی اس نے اس شخص کی ٹانگوں کے پیچھے اپنی ایک ٹانگ کر کے بائیں ہاتھ سے ایسا دھکا دیا کہ وہ آدمی پیٹھ کے بل گرا مزمل کود کر اس کے پیٹ پر بیٹھ گیا اور خنجر کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی
کیا چاہتے ہو؟
مزمل نے پوچھا میرے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہو
میں بتا نہیں سکتا اس نے کہا بتایا تو تم مجھے قتل کر دو گے قتل تو میں تمہیں کر ہی دوں گا مزمل نے کہا سچ بول دو گے تو شاید میں تمہیں چھوڑ دوں
اس وقت میری جان تمہارے ہاتھ میں ہے اس نے کہا اس لئے میں تمہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وعدہ کرو تم کسی کو بتاؤ گے نہیں سچ بولو گے تو جو وعدہ چاہو گے پورا کروں گا مزمل نے کہا میں نے تمہیں قتل کرنا تھا اس شخص نے کہا لیکن ایک بات کا یقین کرنا تھا
میرا قصور؟
تم باطنیوں کے جاسوس ہو اس آدمی نے کہا تم حسن بن صباح کے اس گروہ کے آدمی ہو جو بڑے لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور میں حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں تم نے کہا تھا سچ بولو میں نے سچ بول دیا ہے اب چاہو تو مجھے قتل کردو
تمہیں کس نے بتایا میں حسن بن صباح کے قاتل گروہ کا آدمی ہوں؟
مزمل آفندی نے پوچھا
کل تم نے مجھ سے احمد اوزال کا گھر پوچھا تھا اس نے جواب دیا میرے ساتھ ایک اور آدمی تھا اس نے تمہارے متعلق کہا تھا کہ اسے شک ہے کہ تم باطنی ہو اور شاید تم قاتل گروہ کے آدمی ہو میں یہی معلوم کرنے کے لئے تمہارے پیچھے پھر رہا تھا شک صحیح ہونے کی صورت میں میں نے تمہیں قتل کرنا تھا ہمیں بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح کے پیشہ ور صرف ایک قاتل کو قتل کرنے کا اتنا ہی ثواب ملتا ہے جیسے تم نے حسن بن صباح کو قتل کر دیا بےشک اس وقت میری جان تمہارے قبضہ اختیار میں ہے لیکن تم میں مردانگی ہے تو تم بھی سچ بتا دو کہ تم پر میرا جو شک ہے یہ صحیح ہے یا غلط
کم عقل انسان! مزمل نے کہا اگر تمہارا شک صحیح ہوتا تو اب تک میرا خنجر تمہاری شہ رگ کاٹ چکا ہوتا
مزمل آفندی نے اس کی شہ رگ سے خنجر ہٹا لیا پھر اس کے پیٹ سے اتر کر اس کے قریب بیٹھ گیا وہ آدمی اٹھ بیٹھا
کون سے فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟
مزمل نے اس سے پوچھا نام کیا ہے تمہارا
اہل سنت ہوں اس نے جواب دیا عبید ابن عابد میرا نام ہے سب مجھے بن عبد کہتے ہیں
حسن بن صباح قلعہ المُوت میں ہے مزمل نے کہا اور تم یہاں خلجان میں اسے کس طرح قتل کرو گے؟
دیکھو میرے دوست بن عابد نے کہا میں نے تمہیں اپنا راز دے دیا ہے اب اور زیادہ بھید لینے کی کوشش نہ کرو تمہارا خنجر میرے دل پر اور شہ رگ تمہارے پنچے میں آ گئی تھی اور میں بے بس ہو گیا تھا اب تمہارے ہاتھ میں خنجر ہے اور میں خالی ہاتھ ہوں مجھ پر حملہ کر کے دیکھو میں استادوں سے خالی ہاتھ لڑنے اور قتل کرنے کی تربیت لے کر آیا ہوں میں کوئی گیا گزرا آدمی نہیں ہوں میرے آباء اجداد ثقفی تھے مجھے تم پر شک ہے کہ تم کسی اور فرقے کے آدمی ہو؟
میں اہل سنت ہو بن عابد! مزمل نے کہا میرے دادا اصفہان میں آباد ہو گئے تھے میں تم سے ایک خاص مقصد کے لئے پوچھ رہا ہوں کہ حسن بن صباح کو کس طرح قتل کرو گے؟
یہ کام ایک آدمی کا نہیں بن عابد نے کہا مجھے ایک ساتھی کی ضرورت ہے میں اسی مقصد کے لیے خلجان میں رکا ہوا ہوں میں حیران ہوں کہ ایک سے بڑھ کر ایک دلیر آدمی موجود ہے جذبے والے بھی موجود ہیں یہ وہ پکے مسلمان ہیں جو حسن بن صباح کا نام سنتے ہی تو تھوک دیتے ہیں لیکن حسن بن صباح کے قتل کے لیئے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا
وجہ کیا ہے ؟
بزدلی بن عابد نے جواب دیا
کہتے ہیں وہاں جا کر بندہ خود قتل ہوجاتا ہے حسن بن صباح کو قتل نہیں کیا جاسکتا
تمہارا اپنا کیا خیال ہے؟
میرے بھائی! بن عابد نے جواب دیا میرا اپنا کوئی خیال نہیں مسلمان جو کچھ کرتا ہے اللہ کے حکم سے کرتا ہے اس کا اپنا کوئی خیال نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی راہ میں جان قربان کر دیا کرتا ہے اگر دو دنوں تک مجھے کوئی ساتھی نہ ملا تو میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا پھر دیکھوں گا کون قتل ہوتا ہے میں یا حسن بن صباح
عبید بن عابد بولتا چلا گیا اور اس کا لہجہ پہلے سے زیادہ جذباتی ہو گیا ایک سحر سا تھا جو مزمل آفندی پر طاری ہوتا چلا جا رہا تھا اسے ایک ایسا آدمی مل گیا تھا جو اس کا صرف ہم خیال ہی نہیں تھا بلکہ وہ بھی وہی عزم لے کر گھر سے نکلا تھا جو مزمل کو اتنی دور سے یہاں لے آیا تھا
اگر میں کہوں کہ میں بھی اسی ارادے سے آیا ہوں مزمل نے کہا تو مان لو گے
نہیں بن عابد نے کہا میں پچھتا رہا ہوں کہ تمہیں اپنا راز دے دیا ہے مجھے تم پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں بن عابد! مزمل نے کہا یوں سمجھو کہ تم جس ساتھی کی تلاش میں ہو وہ تمہیں مل گیا ہے مزمل اتنا جذباتی ہو گیا تھا کہ اس نے خنجر اپنے سامنے زمین پر رکھ دیا وہ بن عابد کے سامنے بیٹھا ہوا تھا بن عابد نے بڑے آرام سے خنجر اٹھا لیا اور اسے دیکھنے لگا جیسے بچہ کوئی چیز اپنے ہاتھوں میں لے کر اشتیاق سے دیکھا کرتا ہے عابد پہلے سے زیادہ جذباتی لہجے میں بول بھی رہا تھا
وہ بیٹھے بیٹھے اچانک اچھلا اور مزمل پر جا پڑا مزمل اس اچانک حملے سے پیٹھ کے بل گرا بن عابد اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور خنجر کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی
اب بتا تو کون ہے باطنی مردود! بن عابد نے کہا تو ان باطنیوں کا جاسوس ہے تو حسن بن صباح ابلیس کے خاص گروہ کا آدمی ہے میں نے تجھے اپنا راز دے دیا ہے تجھے میں زندہ کیسے رہنے دوں
مزمل منت سماجت کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا وہ قسمیں کھا کھا کر یقین دلا رہا تھا کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور وہ حسن بن صباح کے قتل کے ارادے سے آیا ہے بن عابد مان نہیں رہا تھا
پھر یوں کرو بن عابد بڑی مشکل سے مانا اور شرط یہ بتائی میرے ساتھ وہاں چلو جہاں میں رہتا ہوں
بن عابد اس کے سینے سے ہٹ گیا اور مزمل اٹھ کر بیٹھ گیا میں اپنے دوست احمد اوزال کے یہاں ہی کیوں نہ رہوں مزمل نے کہا الموت تمہارے ساتھ چلوں گا
نہیں بن عابد نے کہا میں تمہیں اس لیے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں کہ مجھے مکمل طور پر یقین کرنا ہے کہ تم قابل اعتماد ہو اور تمھیں اپنے ساتھ لے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ احمد اوزال ٹھیک آدمی نہیں میں جانتا ہوں وہ سلجوق ہے اور شاید سلجوقی سلطان کے لیے جاسوسی بھی کرتا ہے میرے یہاں کے دوستوں کو شک ہے کہ وہ باطنیوں کا بھی وفادار ہے دوغلا آدمی ہے تمہیں اس نے کیا کہا ہے؟
میں نے اسے بتا دیا ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں؟
مزمل نے جواب دیا اس نے کہا ہے کہ وہ قلعہ المُوت تک میرے ساتھ چلے گا اور میری رہنمائی کرے گا
بچو میرے دوست! بن عابد نے کہا یہ تمہیں الموت لے جاکر مروائے گا تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس رہنے کی تم پر پابندی نہیں میرے دوستوں سے ملو گے اور ان کی باتیں سنو گے تو خود محسوس کرو گے کہ تمہیں ہمارے پاس ہی رہنا چاہئے اس صورت میں ہم تمہارے دوست کو پتہ نہیں چلنے دیں گے
مزمل آفندی پر خاموشی طاری ہوگئی اس کا ذہن الجھ گیا وہ بن عابد کے ساتھ چل پڑا اسے چلتے چلتے خیال آیا کہ احمد اوزال کو تو وہ جانتا ہی نہیں تھا اس کے پاس آئے ابھی ایک رات ہی گزری اور اگلا دن گزر رہا تھا
عبید ابن عابد اسے ایک گھر میں لے گیا جہاں دو آدمی موجود تھے وہ اٹھ کر بڑے تپاک سے مزمل سے ملے بن عابد نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ مزمل بھی اسی مشن پر آیا ہے جو مشن عابد کا ہے ان دونوں آدمیوں نے مزمل کے ساتھ وہی باتیں کیں جو بن عابد نے کی تھی مزمل نے انہیں بھی یقین دلانے کی کوشش کی کہ باتطنیوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں
مزمل آفندی! ایک آدمی نے کہا تم قرآن ہاتھوں پر اٹھا کر قسم کھا سکتے ہو مسجد میں جا کر بھی قسم کھا سکتے ہو لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہوگا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ سچ ہے میں تمہیں ایک بات بتا دوں اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو زندہ نہیں رہوگے دنیا کے کسی بھی گوشے میں چلے جاؤ گے تمہیں قتل کرنے کے لئے ہمارا ایک آدمی وہاں پہنچ جائے گا اگر تم اسلام کے ساتھ مخلص اور دیانتدار ہو تو ہمارے پاس رہو اب چونکہ ہم نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا راز دے دیا ہے اس لیے یہ بھی بتا دو کہ تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے؟
سلطان ملک شاہ کے وزیر نظام الملک نے مزمل نے صحیح بات بتادی انہوں نے ہی کہا تھا کہ خلجان جاکر احمد اوزال کا گھر پوچھ لینا اور اسے بتانا کہ تمہیں ہم نے بھیجا ہے پھر اسے بتانا کہ تم کیوں آئے ہو وہ تمہارا ساتھ دے گا
بن عابد نے تمہیں بتایا ہوگا اس آدمی نے کہا احمد اوزال قابل اعتماد آدمی نہیں اگر یہ تمہیں پکڑوا دے گا تو ہم حیران نہیں ہوں گے ہمیں بن عابد کے لیے ایک ساتھی کی ضرورت تھی ہم تو کہتے ہیں کہ اللہ نے ہماری مدد کی ہے کہ تمہیں بھیج دیا ہے اور یہ بھی اللہ کی ہی مدد ہے کہ تم ہمیں مل گئے اور ہم نے تمہیں احمد اوزال سے بچا لیا
تم ایک بار ضرور سوچو گے دوسرے آدمی نے کہا تم پوچھ سکتے ہو کہ ہم میں سے کوئی بن عابد کے ساتھ کیوں نہیں گیا؟
یہ تو میں ضرور پوچھوں گا مزمل نے کہا جواب پر غور کرو مزمل! اس آدمی نے کہا اگر ہم بن عابد کے ساتھ چلے گئے تو پیچھے ہمارے محاذ کو چلانے والا کوئی نہیں رہے گا ہمارے محاذ میں کچھ آدمی اور بھی ہیں لیکن وہ اتنے بڑے خطرے میں جانے کے قابل نہیں اور وہ جانے سے ڈرتے بھی ہیں
میں ڈرنے والوں میں سے نہیں مزمل نے کہا لیکن میں یہ یقین کس طرح کرو کہ تم لوگ مجھے دھوکہ نہیں دے رہے ؟
یہی سوال ہم تم سے پوچھنا چاہتے ہیں اس آدمی نے کہا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں کہ تم ہمیں دھوکا نہیں دوں گے؟
اس مسئلہ پر باتیں شروع ہوئیں تو مزمل آفندی کو یقین آگیا کہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں اور اس نے انہیں یقین دلا دیا کہ وہ بھی قابل اعتماد ہے اس کا اس نے یہ ثبوت پیش کیا کہ اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ احمد اوزال کے پاس نہیں جائے گا
اس جماعت کا جو سردار بنا ہوا تھا اس نے فیصلہ کیا کہ آج ہی رات بن عابد اور مزمل قلعہ الموت کو روانہ ہو جائیں
ہمارے دو آدمی وہاں بھی موجود ہیں مزمل! سردار نے کہا بن عابد کو معلوم ہے وہ بڑی اچھی اور محفوظ پناہ ہے تمہیں کسی بہروپ کی بھی ضرورت نہیں یہ خیال رکھنا کہ کوئی تم سے پوچھے کہ تم کون ہو تو کہنا میں امام کا شیدائی ہوں کسی کے ساتھ حسن بن صباح کے خلاف کوئی بات نہ کرنا
قتل کس طرح کریں گے ؟
مزمل نے پوچھا
یہ تم نے وہاں جا کر دیکھنا ہے سردار نے کہا ویسے اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے وہ لوگوں کے سامنے آتا ہے لیکن لوگوں کے درمیان یعنی قریب نہیں آتا تم دونوں یوں کرنا کہ اس کے محافظوں تک پہنچ جانا اور رو رو کر تڑپ تڑپ کر منت سماجت کرنا کہ تم امام کے ہاتھ چومنے کے لئے اصفہان سے آئے ہو اگر تمہیں اجازت مل جائے تو خنجر تمہارے پاس ہوں گے یہ سوچ لو کہ اسے تو قتل کر دو گے لیکن خود وہاں سے زندہ نہیں نکل سکو گے دوسرا طریقہ تیر ہے حسن بن صباح کبھی کبھی باہر نکلتا ہے یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس پر کہاں سے تیر چلا سکتے ہو اس صورت میں تمہیں بھاگ نکلنے کا موقع مل سکتا ہے
میرا مقصد اسے قتل کرنا ہے مزمل نے کہا بھاگ سکے تو بھاگ آئیں گے ورنہ بھاگنا میرا مقصد نہیں
یہ ہوئی نہ بات بن عابد نے کہا ایسا ساتھی مجھے کہاں مل سکتا تھا
سورج غروب ہوگیا تو احمد اوزال مزمل کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا اور پریشان ہو گیا اس نے مزمل سے کہا بھی تھا کہ غروب آفتاب سے پہلے واپس آ جائے وہ وہاں اجنبی تھا کہیں گھر کا راستہ نہ بھول گیا ہو احمد اوزال کو یہ خطرہ بھی نظر آ رہا تھا کہ مزمل جاسوسی کی اونچ نیچ اور خطروں سے بالکل ہی واقف نہیں تھا کسی باطنی کے جال میں نہ آ گیا ہو
احمد اوزال گھر سے نکلا اور گلیوں میں گھومنے پھرنے لگا بازار بھی چھان مارا واپس گھر آیا مزمل واپس نہیں آیا تھا احمد اوزال اپنے ایک ساتھی کے گھر گیا اور اسے مزمل کے متعلق بتایا یہ شخص بھی سلجوقیوں کا جاسوس تھا
یہ تمہاری غلطی ہے اس کے ساتھی نے کہا تم نے یہ آدمی مجھے دکھایا ہی نہیں میں اسے کہا ڈھونڈ سکتا ہوں
کل شام ہی مرو سے آیا تھا احمد اوزال نے کہا میں نے آج رات اسے تمہارے پاس لانا تھا
وہ بچہ تو نہیں کہ رستہ بھول گیا ہو گا اس آدمی نے کہا تم جانتے ہو خلجان حسن بن صباح کے ان آدمیوں سے بھرا پڑا ہے جو مخالفوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہ اتنے ماہر ہیں کہ اجنبی کا چہرہ دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ یہ شخص مشکوک ہے یا بے ضرر ہے مجھے تو یہی نظر آرہا ہے کہ ہمارا یہ مہمان اسی جال میں آ گیا ہے اصل خطرہ یہ ہے کہ وہ تمہاری نشاندہی کر دے گا
میں وزیراعظم نظام الملک کو کیا جواب دوں احمد اوزال نے کہا انہوں نے اسے میرے پاس بھیجا تھا
صرف کل شام تک انتظار کرو احمد کے ساتھی نے کہا اگر وہ نہ آیا تو رات کو ہی نکل جانا مرو جا کر سلطان کو بتانا کہ آپ کا بھیجا ہوا آدمی لاپتہ ہو گیا ہے
سلطان کیا کرے گا؟
احمد اوزال نے کہا جاسوسی کا نظام وزیراعظم نظام الملک نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے اس شخص کو بھی اسی نے بھیجا ہے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ اس آدمی میں عقل کی باریکی بھی ہے یا نہیں اس کی صرف جذباتی باتیں سنیں اور بھیج دیا حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے
وزیراعظم کو یہی بتانا اس کے ساتھی نے کہا انہیں کہنا کہ اس قسم کے اناڑیوں کو نہ بھیجا کریں یہ ہمیں بھی پکڑوائیں گے تمہیں یہاں سے نکل جانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس نے جذبات میں آکر آپ غیر دانستہ طور پر تمہاری نشاندہی کر دی ہو
احمد اوزال پھر بھاگم بھاگ اپنے گھر اس توقع پر گیا کے مزمل شاید آگیا ہو لیکن مزمل نہیں آیا تھا اب اس نے اس حقیقت کو قبول کرلیا کہ مزمل لاپتہ ہو گیا ہے اسے اپنے ساتھی کا مشورہ دانشمندانہ لگا کہ اسے خلجان سے نکل جانا چاہیے
رات کے اس وقت جب احمد اوزال مزمل آفندی کے لئے پریشان ہو رہا تھا اور جب اسے یہ خطرہ اور پریشان کر رہا تھا کہ مزمل نے بھولے پن میں اس کی نشاندہی کر دی ہو گی اس وقت دو گھوڑے شہر سے نکلے ایک پر بن عابد اور دوسرے پر مزمل آفندی سوار تھا شہر سے نکل کر انہوں نے قلعہ الموت کا رخ کرلیا
ان کے ساتھ بن عابد کے وہ دو ساتھی تھے جن کے یہاں بن عابد مزمل کو لے گیا تھا اور انہوں نے مزمل کو قائل کرلیا تھا کہ وہ احمد اوزال کے پاس نہ جائے یہ دونوں شہر کے باہر تک بن عابد اور مزمل کے ساتھ گئے تھے اور انہوں نے دعاوں سے رخصت کیا تھا
اللہ تمہیں امان میں رکھے ایک نے کہا
اللہ تمہیں کامیاب واپس لائے گا دوسرے نے کہا گھوڑے رات کی تاریکی میں تحلیل ہو گئے تو یہ دونوں واپس آ گئے
ایک تو ہاتھ آ گیا ان میں سے ایک نے جو اس خفیہ جماعت کا سردار تھا اپنے ساتھی سے کہا اب بتاؤ عمر! اسے بھی پکڑ لیں
احمد اوزال کو؟
عمر نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا اس کے متعلق کوئی شک تو رہا نہیں یہ شخص مزمل سارے شک صحیح ثابت کر گیا ہے ایک بات بتاؤ شمش! کیا ہم دو آدمی اسے پکڑنے کے لیے کافی ہیں؟
کیوں نہیں شمس نے کہا وہ اکیلا رہتا ہے ذرا عقل سے کام لو وہ اپنے اس مہمان مزمل کے لئے پریشان ہو گا کہ وہ کہاں گیا ہے ہم یہ ذہن میں رکھ کر اس کے گھر میں داخل ہو سکیں گے
رات اسے اپنے گھر باندھ کر رکھیں گے عمر نے کہا
اور کل رات اسے یہاں سے لے جائیں گے شمس نے کہا اور امام کے حوالے کرکے کہیں گے لو ایک اور سلجوقی جاسوس آگیا ہے امام المُوت پہنچ گیا ہے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 5 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-5/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-5/#respond Wed, 24 Jul 2024 13:51:42 +0000 https://urducover.com/?p=4723 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 5

قسط نمبر:17 }
نظام الملک اپنی فطرت کے مطابق مطمئن رہا لیکن حسن بن صباح اپنی فطرت کے مطابق نظام الملک کو ذلیل و خوار کرنے کے موقع کی تلاش میں رہا حسن بن صباح کے سامنے صرف یہ مقصد تھا کہ وہ وزیراعظم بن جائے اس کے بعد ان باطنیوں نے خفیہ قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر کے سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنا تھا
حسن بن صباح کو ایک موقع مل ہی گیا جو اس نے خود پیدا کیا تھا وہ اس طرح کے ایک روز سلطنت کے کچھ حاکم بیٹھے آپس میں تبادلہ خیالات کر رہے تھے کسی نے کہہ دیا کہ سلطان ملک شاہ عرصہ بیس سال سے سلطان ہے اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس عرصے میں رعایا سے محصولات وغیرہ کے ذریعے کتنی رقم وصول کی گئی اور یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی ہے
کون کہتا ہے کہ ساری رقم خرچ ہوئی ہے حسن بن صباح نے کہا میں کہتا ہوں کہ اس میں سے بہت سی رقم خورد بُرد اور غبن ہوئی ہے اگر سلطان مجھے اجازت اور سہولت مہیا کرے تو میں بیس سال کا حساب کتاب تیار کرکے سلطان کے آگے رکھ دوں گا
احتشام مدنی بھی وہاں موجود تھا اس نے سلطان کو بتایا کہ حسن بن صباح نے بڑی عقلمندی کی بات کی ہے احتشام نے سلطان کو پوری بات سنائی جو حاکموں کی اس محفل میں ہوئی تھی احتشام نے خصوصی مشیر کی حیثیت سے سلطان کو مشورہ دیا کہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے
اس سے ہمیں کیا حاصل ہوگا ؟
سلطان نے پوچھا
اگر کچھ رقم خردبُرد ہوئی ہے تو وہ واپس نہیں ملے گی احتشام نے کہا حاصل یہ ہوگا کہ یہ پتہ چل جائے گا کہ ہمارے حکام میں بددیانت کون کون ہےسلطان اور احتشام میں اس مسئلہ پر کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوا احتشام نے سلطان کو قائل کر لیا کہ گزشتہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے سلطان اپنے وزیراعظم نظام الملک کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتا تھا اس نے نظام الملک کو بلایا اور یہ نیا مسئلہ اس کے آگے رکھا
بیس سالوں کا حساب کتنے دنوں میں تیار ہو سکتا ہے؟
سلطان نے نظام الملک سے پوچھا
دنوں میں نظام الملک نے حیرت زدگی کے عالم میں جواب دیا برسوں کی بات کریں پہلے اپنی سلطنت کی وسعت دیکھیں پھر بیس برسوں کے عرصے پر غور کریں پھر دیکھیں کہ وہ جگہ کتنی ہے جہاں محصولات وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع کرائے جاتے ہیں اگر حساب تیار کرنا ہی ہے تو اس کے لیے مجھے دو سال چاہیے
اس وقت احتشام مدنی اور حسن بن صباح بھی وہاں موجود تھے
سلطان معظم! حسن بن صباح نے کہا میں حیران ہوں کہ محترم وزیر اعظم نے دو سال کا عرصہ مانگا ہے میں صرف چالیس دنوں میں یہ حساب بنا کر دے سکتا ہوں شرط یہ ہے کہ میں جتنا عملہ مانگو وہ مجھے دیا جائے اور ہر سہولت مہیا کی جائے
سلطان ملک شاہ نے احکام جاری کر دیے اور حسن بن صباح نے کام شروع کردیا تاریخ داں ابوالقاسم رفیق دلاوری نے مختلف مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ خواجہ حسن طوسی نظام الملک عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا کبھی وہ پریشان ہو جاتا کہ حسن بن صباح نے یہ کام چالیس دنوں میں مکمل کرلیا تو وہ سلطان کی نظروں میں گر جائے گا اور کوئی بعید نہیں کہ سلطان اسے وزارت عظمیٰ سے معزول ہی کر دے اور کبھی نظام الملک یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کے حسن بن صباح یہ کام چالیس دنوں میں تو دور کی بات چالیس مہینوں میں بھی نہیں کرسکے گا اور خود ہی سلطان کی نظروں میں ذلیل ہوگا
البتہ ایک دکھ تھا جو نظام الملک کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا یہ دکھ حسن بن صباح کی احسان فراموشی کا تھا اب تو تصدیق ہو گئی تھی کہ حسن بن صباح اسے معزول کرکے خود وزیراعظم بننا چاہتا ہے
پھر حسن بن صباح نے معجزہ کر کے دکھا دیا اس نے کاغذات کا ایک انبار سلطان ملک شاہ کے آگے رکھ دیا
سلطان عالی مقام! حسن نے سلطان سے کہا میں نے چالیس دن مانگے تھے آج اکتالیسواں دن ہے یہ رہا بیس برسوں کا حساب کیا وہ شخص وزیراعظم بننے کا حق رکھتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ حساب مکمل کرنے کے لیے دو برس درکار ہیں اگر سلطان معظم کے دل پہ گراں نہ گزرے تو میں وثوق سے کہتا ہوں کہ وزیراعظم حسن طوسی جسے آپ نے نظام الملک کا خطاب دے رکھا ہے محصولات کی رقمیں غبن کرتا رہا ہے اپنی لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ حساب تو ہو ہی نہیں سکتا اگر ہوگا تو دو سال لگیں گے
سلطان نے نظام الملک اور احتشام مدنی کو بلایا
خواجہ طوسی! سلطان نے نظام الملک سے کہا یہ ہے وہ حساب جو آپ دو سالوں سے کم عرصے میں نہیں کر سکتے تھے یہ دیکھیں حسن چالیس دنوں میں کر لایا ہے
نظام الملک پر خاموشی طاری ہوگئی اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ وہاں بیٹھ گیا اور معزولی کے حکم کا انتظار کرنے لگا
سلطان نے کاغذات کی ورق گردانی شروع کردی اور ایک ورک پر رک گیا
حسن! سلطان نے کہا اس ورق پر آمدنی اور اخراجات مشکوک سے نظر آتی ہیں یہ مجھے سمجھا دو
حسن بن صباح بغلیں جھانکنے لگا
سلطان نے ایک اور ورق پر روک کر پوچھا حسن نے اس کا بھی جواب نہ دیا سلطان نے کئی اور وضاحت پوچھی حسن کسی ایک بھی سوال کا جواب نہ دے سکا
تم نے یہ اتنا لمبا چوڑا حساب تیار کیا ہے سلطان نے کہا لیکن تمہیں بھی معلوم نہیں کہ یہ کیا ہے
سلطان معظم! نظام الملک بولا میں نے ویسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کے بیس برسوں کے اخراجات اور آمدنی کے گوشوارے تیار کرنے کے لیے کم از کم دو برس درکار ہیں
آپ میرے پاس رہیں حسن طوسی! سلطان نے نظام الملک سے کہا تم دونوں جاؤ میں یہ تمام اعداد و شمار دیکھ کر تمہیں بلاؤں گا
ان کے جانے کے بعد سلطان نے پوچھا یہ سب کیا ہے حسن طوسی! مجھے شک ہے کہ مجھے دھوکہ دیا گیا ہے
سلطان معظم! نظام الملک نے کہا یہ میرا ایمان ہے کہ کسی کو میرے ہاتھ سے نقصان نہ پہنچے لیکن جہاں میری اپنی حیثیت اور میرا اعتماد خطرے میں پڑ گیا ہے میں حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں یہ حساب کتاب تیار کرنے میں آپ کے مشیر خاص احتشام مدنی کا ہاتھ زیادہ ہے حسن بن صباح کے ساتھ اس کی ایک جوان سال بہن رہتی ہے جو اسی عمر میں بیوہ ہو گئی ہے مجھے اطلاع ملی ہیں کہ احتشام اور اس لڑکی کو شام کے بعد باغ میں دیکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ احتشام حسن بن صباح کے گھر زیادہ جاتا اور خاصا وقت وہاں گزارتا ہے جہاں تک مجھے یاد آتا ہے حسن بن صباح کی کوئی بہن نہیں میں اس کے خاندان کو مدرسے کے زمانے سے جانتا ہوں
طوسی! سلطان نے کہا میں یہ ساری سازش سمجھ گیا ہوں کچھ عرصے سے احتشام میرے پاس بیٹھ کر حسن بن صباح کی تعریفیں کر رہا ہے اور یہ شخص ذرا دبی زبان میں آپ کے خلاف بھی ایک آدھ بات کہہ جاتا ہے سلطان بولتے بولتے گہری سوچ میں چلا گیا ذرا دیر بعد سر اٹھایا اور بولا آپ حسن پر ایسا تاثر پیدا کریں کہ میں نے اس کا تیار کیا ہوا حساب سمجھ لیا ہے اور یہ بالکل صحیح ہے باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں میرے سامنے کوئی اور ہی عکس آ رہا ہے
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ سلجوقی جو ترک تھے اور جو اسلام کے دشمن ہوا کرتے تھے مسلمان ہوئے تو اسلام کے شیدائی اور سرفروش بن گئے وہ جنگجو تھے اور فہم و فراست کے لحاظ سے اتنے باریک بین کے ان کی نظریں جیسے پردوں کے پیچھے بھی دیکھ سکتی ہوں انکے سلطان اپنی سلطنت میں کسی کی حق تلفی اور سلطنت کے امور میں کوتاہی اور بددیانتی برداشت نہیں کرتے تھے نظام الملک باہر نکلا حسن بن صباح اور احتشام مدنی باہر سر جوڑے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے نظام الملک کو دیکھ کر دونوں چونکے
حسن مبارک ہو نظام الملک نے کہا تمہارا تیار کیا ہوا حساب بالکل ٹھیک ہے تم جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے وہ میں نے دے دیے ہیں میں نے سلطان سے کہا ہے کہ حسن ابھی نیا ہے اس لیے اسے پچھلے امور وغیرہ کا علم نہیں سلطان تم پر بہت خوش ہیں کہتے ہیں میں حسن کو انعام دوں گا
میں تمہارا یہ احسان ساری عمر نہیں بھولوں گا خواجہ!حسن بن صباح نے کہا نظام الملک سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا تم نے میرا وقار محفوظ کر دیا ہے
تم دونوں چلے جاؤ نظام الملک نے کہا سلطان تمہیں کل بلائیں گے
اس رات احتشام اور فاطمہ کی ملاقات ایسے تھی جیسے وہ جشن منانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہوں گزرے ہوئے دنوں میں زیادہ تر باغ میں ملتے رہے تھے تین مرتبہ وہ الگ الگ جنگل میں چلے گئے اور بہت وقت اکٹھے گزار کر آئے فاطمہ یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ حسن سے چوری گھر سے نکلتی ہے احتشام کو معلوم نہیں تھا کہ حسن خود اسے بھیجتا ہے
فاطمہ ابھی تک احتشام کے لیے سراب بنی ہوئی تھی اس نے ابھی تک احتشام کے ساتھ شادی کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور انکار بھی نہیں کیا تھا اس نے ایسا والہانہ انداز اختیار کرلیا تھا جس سے احتشام پر دیوانگی طاری ہوگئی تھی وہ تو اب حسن بن صباح اور فاطمہ کے اشاروں پر ناچنے لگا تھا حسن بن صباح سے اس نے کہا تھا کہ وہ اسے وزیراعظم بنا کر دم لے گا
جس روز نظام الملک نے حسن بن صباح کو یہ خوشخبری سنائی اس روز احتشام مدنی نے اپنے گھر کے قریب ہی چھوٹا سا ایک مکان جو خالی پڑا تھا صاف کروا لیا اور ایک کمرے میں پلنگ اور نرم و گداز بستر بھجوا دیا اپنی خاص ملازمہ کے ذریعے اس نے فاطمہ کو پیغام بھیج دیا کہ رات وہ فلاں طرف سے اس مکان میں آجائے
فاطمہ وہاں پہنچ گئی احتشام پہلے ہی وہاں موجود تھا
میرا ایک کمال دیکھ لیا فاطمہ احتشام نے فاطمہ کو اپنے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا جعلی حساب کتاب لکھ کر سلطان سے منوالیا ہے کہ یہ حساب بالکل صحیح ہے
آپ کو مبارک ہو فاطمہ نے اپنا گال احتشام کے سینے سے رگڑتے ہوئے کہا اب میرے بھائی کو وزیراعظم بنوا دیں
اب یہ کام آسان ہو گیا ہے احتشام نے کہا کل سلطان ہمیں بلائے گا میں نظام الملک کے خلاف اس کے ایسے کان بھروں گا کہ وہ اسی وقت اسے معزول کر دے گا
احتشام نے فاطمہ کو پلنگ پر بٹھا لیا
سلطان کل حسن کو انعام دے رہا ہے احتشام نے کہا میں نے آج تم سے انعام لینا ہے
فاطمہ نے جھپنے اور شرمانے کی ایسی اداکاری کی کہ احتشام نشے کی سی کیفیت میں بدمست ہو گیا اس نے فاطمہ کو لٹا دیا روحانی طور پر تو ہم میاں بیوی بن چکے ہیں احتشام نے کہا نکاح تو ایک رسم ہے یہ بعد میں بھی ادا ہو سکتی ہے
کمرے کا دروازہ بند تھا زنجیر چڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ باہر کا دروازہ بند تھا مکان کا صحن کشادہ تھا
احتشام مدنی جب فاطمہ کے طلسماتی حسن ناز و انداز اور دکھاوے کے شرم و حجاب میں مدہوش ہو چکا تھا فاطمہ چونکی
ذرا ٹھہریں فاطمہ نے کہا میں نے قدموں کی آہٹ سنی ہے
بلّی ہوگی احتشام نے نشے سے لڑکھڑاتی آواز میں کہا کسی انسان میں اتنی جرات نہیں ہو سکتی کہ اس گھر میں قدم رکھے
چار آدمی اس گھر میں قدم رکھ چکے تھے وہ چھت کی طرف سے آئے تھے اور سیڑھیاں اتر کر صحن میں آگئے تھے فاطمہ نے ایک بار پھر احتشام کو پرے ہٹنے کو کہا اسے ہلکا سا دھکا بھی دیا لیکن احتشام پر بدمستی طاری تھی
کمرے کا دروازہ کھلا احتشام نے ادھر دیکھا دو آدمی اندر آئے احتشام ان دونوں کو جانتا تھا یہ دونوں کوتوال کے ماتحت تھے ان کے پیچھے دو آدمی تھے وہ بھی کوتوال کے کارندے تھے
نکل جاؤ یہاں سے احتشام مدنی نے سلطان کے مشیر خاص کی حیثیت سے حکم کے لہجے میں کہا تمہیں میرے گھر میں آنے کی جرات کیسے ہوئی
ہم سلطان کے حکم سے آئے ہیں عالی جاہ ایک نے کہا آپ کو اور اس لڑکی کو سلطان کے پاس لے جانا ہے
چلو تم نکلو یہاں سے احتشام نے کہا میں تیار ہو کر آتا ہوں
آپ خود نہیں جائیں گے عالی جاہ کوتوال کے آدمی نے کہا ہم آپ کو لے جائیں گے اس لڑکی کو بھی
تیار ہونے کی ضرورت نہیں عالی جاہ دوسرا آدمی بولا ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اور یہ لڑکی جس حالت میں ہوں اسی حالت میں ساتھ لے آنا ہے
وہ دونوں نیم برہنہ حالت میں تھے احتشام پر دو نشے طاری تھے ایک اپنی سرکاری حیثیت کا وہ سلطان کا مشیر خصوصی تھا اور دوسرا نشہ فاطمہ کے حسن و شباب اور نفسانی جذبات کے وبال کا تھا یہ سب نشے ایک ہی بار ہوا ہو گئے
منہ مانگا انعام دوں گا احتشام نے کہا چاروں کو جاکر سلطان سے کہہ دو کہ تم نے مجھے اور اس لڑکی کو کہیں بھی نہیں دیکھا
فاطمہ کپڑے پہننے لگی تھی
اس لڑکی کو پکڑ کر باہر لے چلو اس آدمی نے احتشام کی پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آدمیوں کو حکم دیا اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر لے جاؤ
میرے عہدے اور رتبے سے تم واقف ہو احتشام مدنی نے کہا میں تمہیں اتنی ترقی دلواؤں گا کہ حاکم بن جاؤ گے
مجھے چاہتے ہو تو حاضر ہوں فاطمہ بولی
ہاں بھائیو! احتشام نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا دیکھو کتنی خوبصورت ہے
سلطان کے حکم کی تعمیل کرو کتوال کے آدمی نے کہا انہیں پکڑو اور لے چلو
وہ احتشام سے مخاطب ہوا عالی جاہ ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اگر مزاحمت کریں تو آپ کے سر پر ضرب لگا کر بیہوش کر دیا جائے اور اٹھا کر زندان میں پھینک دیا جائے
احتشام مدنی سر جھکائے ہوئے چل پڑا دو آدمی پہلے ہی فاطمہ کو گھسیٹتے دھکیلتے باہر لے گئے تھے اس کے لیے نیم برہنگی یا مکمل برہنگی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی وہ آبرو باختہ اور تربیت یافتہ لڑکی تھی
ان دونوں کو کتوالی میں لے گئے اور انہیں الگ الگ کمرے میں بند کر دیا گیا
سلطان کا اپنا جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا اسے احتشام مدنی اور فاطمہ کی خفیہ ملاقاتوں کی اطلاعیں ملی تھیں لیکن یہ کوئی اہم یہ نازک خبر نہیں تھی یہ احتشام کا ذاتی معاملہ تھا سلطان کو اس صورت میں ان دونوں کی ملاقاتوں میں خطرہ محسوس ہوتا کہ لڑکی مشکوک اور مشتبہ ہوتی شک یہ ہوتا کہ یہ لڑکی عیسائی یا یہودی ہے اور جاسوس ہے یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہ معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہے
درمیان میں معاملہ بیس برسوں کے حساب کتاب کا آ گیا تو پتہ چلا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی نے سلطان کو دھوکا دیا ہے نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کی آپس میں باتیں ہوئیں تو نئے شکوک پیدا ہوگئے سلطان ملک شاہ عقل و دانش والا آدمی تھا نظام الملک نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح کی کوئی بہن ہے ہی نہیں
سلطان نے نظام الملک سے کہا کہ وہ حسن بن صباح کو خوشخبری سنا دے کہ اس نے بیس برسوں کا آمدنی اور اخراجات کا جو حساب تیار کیا ہے وہ سلطان نے منظور کر کے اسے بالکل صحیح تسلیم کرلیا ہے اس سے سلطان کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی بے فکر اور مطمئن ہو جائیں
سلطان نے اسی وقت کوتوال کو بلایا اور اسے یہ ساری صورت حال بتا کر کہا کہ احتشام اور اس لڑکی کو اکٹھے پکڑنا ہے
ابھی جاکر مخبر مقرر کر دو سلطان نے کہا وہ شام کے بعد ملتے ہیں ایک آدمی احتشام کی نگرانی کرے اور ایک آدمی اس لڑکی کو دیکھتا رہے یہ کہیں باہر اکٹھیں ہوں تو احتشام کے رتبے کا خیال کئے بغیر دونوں کو کوتوالی میں بند کردو انہیں اسی حالت میں لانا ہے جس حالت میں پائے جائیں ضروری نہیں کہ یہ آج ہی مل جائیں گے
کل ملیں پرسوں ملیں دس دنوں بعد ملیں انہیں چھوڑنا نہیں
کوتوال یہ ساری کاروائی اور اس کا پس منظر سمجھ گیا اس نے اسی وقت چار آدمی اس کام پر لگا دیئے انہیں ضروری ہدایات اور احکام دے کر رخصت کر دیا
ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اسی رات پکڑے جائیں گے لیکن احتشام مدنی نے اس رات فاطمہ سے انعام وصول کرنا تھا اس نے فاطمہ کے بھائی حسن کی مدد کی تھی اور سلطان کو بڑی کامیابی سے دھوکہ دیا تھا
سورج غروب ہوتے ہی کوتوال کے دو آدمی بھیس بدل کر چلے گئے ایک احتشام کے گھر کو دور سے دیکھتا رہا اور دوسرا حسن بن صباح کے گھر کی نگرانی کرتا رہا ان دونوں کے ساتھ ایک ایک اور آدمی تھا یہ دونوں دور دور کھڑے تھے پہلے احتشام گھر سے نکلا اور اس مکان میں چلا گیا جو اس نے اس رات کے جشن کے لیے تیار کیا تھا اس کی نگرانی والا آدمی چھپ کر کھڑا رہا
پھر فاطمہ گھر سے نکلی اس کی نگرانی والا آدمی اس کے پیچھے چل پڑا فاطمہ بھی اسی مکان میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند ہوگیا کوتوال کے دونوں مخبر آپس میں مل گئے انہوں نے اپنے دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی بلا لیا ان میں سے ایک عہدے دار تھا انہوں نے کچھ وقت انتظار کیا پھر ساتھ والے گھر کے بڑے آدمی کو باہر بلا کر بتایا کہ وہ کوتوال کے آدمی ہیں اور اس ساتھ والے گھر میں اترنا ہے
آ جائیں اس آدمی نے کہا میری چھت سے اس چھت پر چلے جائیں میں آپ کو بتاؤں گا اس مکان کی سیڑھیاں کہاں ہے
چار آدمی اس شخص کی رہنمائی میں اس مکان میں اتر گئے جس کے ایک کمرے میں احتشام مدنی اور فاطمہ جشن منا رہے تھے
رات کوئی زیادہ نہیں گزری تھی کوتوال کو اطلاع دی گئی کہ دونوں جس حالت میں تھے اسی حالت میں پکڑ لائے ہیں کوتوال کو سلطان نے کہا تھا کہ تحقیقات کرکے اسے بتائے کہ اس لڑکی کی حقیقت کیا ہے کوتوال اسی وقت کوتوالی پہنچا اور اس کمرے میں چلا گیا جس میں لڑکی بند تھی
نام کیا ہے لڑکی؟
کوتوال نے پوچھا
فاطمہ! لڑکی نے جواب دیا میں سلطان کی معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہوں
ہمیں معلوم ہے حسن بن صباح کہاں کا رہنے والا ہے؟
کوتوال نے کہا ہم وہاں سے معلوم کریں گے کہ اس کی کوئی بہن ہے بھی یا نہیں میری ایک بات سن لو بہت ہی اذیت ناک موت مرو گی اپنے متعلق ہر بات سچ بتا دو
کیا آپ اس جسم کو اذیت دیں گے؟
لڑکی نے جذبات کی حرارت سے کِھلی ہوئی مسکراہٹ سے کہا ھاتھ لگا کر دیکھیں گلاب کی پتیوں جیسی ملائمت ہے اس جسم میں وہ نیم برہنہ تھی اس نے اپنے آپ کو اور زیادہ برہنہ کر دیا اس کی مسکراہٹ اور زیادہ ہوگئی اس کی آنکھوں میں سفلی جذبات کا خمار تھا کہنے لگی مرد اتنا زیادہ تو نہیں سوچا کرتے میرے قریب آجائیں
اس کے سر پر اوڑھنی نہیں تھی اس کے بال کھلے ہوئے تھے
ان بالوں کو ہاتھ لگا کر دیکھیں اس نے کہا ان پر ہاتھ پھیر کر دیکھیں ریشم اور مخمل جیسے ملائم ہیں
کوتوال آخر مرد تھا فرشتہ نہیں تھا اس لڑکی کے جسم اور بالوں کو دیکھ کر اسکے جسم نے جھرجھری لی اور اس پر خاموشی طاری ہوگئی وہ آہستہ آہستہ لڑکی کی طرف بڑھا اس کا دایاں ہاتھ اوپر اٹھ رہا تھا قریب جا کر اس کا ہاتھ لڑکی کے سر پر چلا گیا اور اس کی انگلیاں لڑکی کے بالوں میں رینگنے لگی اس کا دوسرا ہاتھ لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا کوتوال فرائض کی دنیا سے ایک ہی اوڑان میں رومانوں کی کہکشاں میں جا پہنچا
خدام! اسے کسی کی آواز سنائی دی کسی نے اسے پکارا تھا
اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا دروازہ بند تھا
ایک خیال رکھنا خدام اسے کمرے میں وہی آواز پھر سنائی دی سنا ہے لڑکی بہت ہی حسین ہے اگر تحقیقات تک نوبت آگئی تو یہ یاد رکھنا کے تم کوتوال ہو یہ بھی یاد رکھنا کہ دھوکا مجھے دیا گیا ہے میں اس سلطنت کا سلطان ہوں میں فرائض میں بددیانتی اور بدمعاشی برداشت نہیں کیا کرتا
یہ الفاظ سلطان ملک شاہ کے تھے جو اس نے احتشام مدنی اور لڑکی کو اکٹھے پکڑنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہے تھے
کوتوال خدام کی انگلیاں لڑکی کے ریشم جیسے ملائم بالوں میں رینگ رہی تھیں اور لڑکی اس کے دوسرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں مسل رہی تھی کوتوال کے ذہن میں سلطان ملک شاہ کے الفاظ ایسے گنجے جیسے سلطان اس بند کمرے میں کھڑا بول رہا ہو
کوتوال کی آنکھوں کے آگے بجلی سی چمکی پھر تاریکی آگئی کوتوال کا وہی ہاتھ جو لڑکی کے نرم و ملائم بالوں میں رینگ رہا تھا مٹھی بن گیا اس مٹھی میں لڑکی کے بال تھے کوتوال نے بالوں کو اتنی زور سے کھینچا کہ لڑکی کی چیخ نکل گئی درد کی شدت سے اس کا منہ کھل گیا
سچ بتا تو کون ہے؟
کوتوال نے بالوں کو مٹھی سے مروڑتے اور کھینچتے ہوئے کہا تیرے بال چھت کے ساتھ باندھ کر تجھے لٹکا دوں گا
درد سے لڑکی کے دانت بجنے لگے کوتوال نے لڑکی کو بالوں سے پکڑے ہوئے اوپر اٹھایا اور فرش پر پٹخ دیا
مر جا یہاں کوتوال نے کہا تیری کوئی نہیں سنے گا سچ بتا تو کون ہے؟
کوتوال کو اس پر بھی غصہ تھا کہ لڑکی نے اسے بھٹکا دیا تھا وہ بول نہیں رہی تھی کوتوال نے اس کے ایک ہاتھ کی انگلیاں ایک شکنجے میں جکڑ دیا اور شکنجے کو تنگ کرنا شروع کردیا لڑکی کی چیخوں سے چھت لرزتی محسوس ہوتی تھی وہ آخر لڑکی تھی کہاں تک برداشت کرتی اسے مردوں کی انگلیوں پر نچانے کی ٹریننگ دی گئی تھی یہ تو اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ کبھی وہ پکڑی بھی جائے گی
اس پر غشی سی طاری ہو رہی تھی جب کوتوال نے اس کی انگلیاں شکنجے سے نکال دیں اسے پانی پلایا لیکن وہ ابھی تک انکار کر رہی تھی کوتوال نے اس کا دوسرا ہاتھ شکنجے میں دینے کے لیے پکڑا تو وہ بلبلا اٹھی اور سچ بولنے پر آگئی اس نے بتا دیا کہ وہ حسن بن صباح کی بہن نہیں اور اسے وہ شاہ در سے لایا تھا
اس نے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح اسے اس مقصد کے لیے ساتھ لایا تھا کہ ایسے حاکموں کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے جن کا سلطان پر اثر اور رسوخ چلتا ہے انہیں نظام الملک کے خلاف استعمال کرنا ہے لڑکی نے بتایا کہ حسن بن صباح وزیراعظم بننا چاہتا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ احتشام مدنی کو اس نے کس طرح اپنے جال میں پھانسا تھا اور اسے شادی کا لالچ دے رکھا تھا
احتشام مدنی حسن بن صباح کی کس طرح مدد کر رہا تھا؟
کوتوال نے پوچھا
کہتا تھا کہ میں نظام الملک کے خلاف سلطان کے دل میں کدورت پیدا کر رہا ہوں لڑکی نے کہا یہ حساب کتاب کا جو مسئلہ کھڑا ہوا تھا اس کے پیچھے احتشام ہی تھا اور اسی نے حسن بن صباح سے یہ حساب تیار کرایا تھا احتشام کہتا تھا کہ اب ایسا موقع پیدا ہو گیا ہے کہ میں آسانی سے نظام الملک کو معزول کرادوں گا
مختصر یہ کہ لڑکی نے اپنی اصلیت اور حسن بن صباح کی نیت بے نقاب کردی لیکن اس نے یہ نہ بتایا کہ حسن بن صباح اور کیا کر رہا ہے اور شاہ در اور خلجان کے علاقے میں اس نے کیا ناٹک کھیلا اور آئندہ کے لیے اس کے کیا منصوبے ہیں
حسن بن صباح کو تو معلوم تھا کہ فاطمہ احتشام مدنی سے ملنے گئی ہے لیکن اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی زیادہ دیر سے واپس آئے گی آدھی رات ہوگئی تو اس نے اپنے ملازم کو جگا کر کہا کہ وہ احتشام مدنی کے ملازموں سے پوچھ آئے کہ وہ گھر ہے یا کہیں باہر گیا ہوا ہے
ملازم گیا اور یہ خبر لایا کہ دربان احتشام کے انتظار میں جاگ رہا ہے وہ ابھی نہیں آیا
حسن بن صباح مطمئن ہو گیا کہ احتشام واپس نہیں آیا تو فاطمہ اس کے ساتھ ہی ہوگی وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ دونوں اس وقت تک کوتوالی میں بند ہوں گے اس روز حسن بن صباح بہت خوش تھا اس نے نظام الملک کے مقابلے میں میدان مار لیا تھا فجر کی اذان کے کچھ دیر بعد حسن بن صباح کے دروازے پر دستک ہوئی وہ سمجھا فاطمہ آئی ہے لیکن ملازم نے اسے بتایا کہ کوتوالی سے دو آدمی آئے ہیں حسن نے انھیں اندر بلایا اور پوچھا وہ کیوں آئے ہیں
حکم ملا ہے کہ آپ گھر سے باہر نہ نکلیں ایک آدمی نے کہا
کیوں ؟
حسن بن صباح نے پوچھا یہ حکم کس نے دیا ہے
وجہ ہمیں معلوم نہیں اس آدمی نے کہا ہمیں یہ حکم کوتوال نے دیا ہے
آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ اپنے گھر میں قید ہیں دوسرے آدمی نے کہا
کوتوال سلطان ملک شاہ کے گھر چلا گیا سلطان فجر کی نماز کے لیے جلدی جاگا کرتا تھا کوتوال نے اسے رات کی روداد سنائی یہ بھی بتایا کہ اس نے احتشام مدنی سے بیان نہیں لیا اور حسن بن صباح کو اس نے اس کے گھر میں نظر بند کر دیا ہے
سلطان نے حکم دیا کے احتشام اور لڑکی کو فوراً اس کے سامنے لایا جائے
سلطان نے نظام الملک اور حسن بن صباح کو بھی بلوا لیا
یہ سب آگئے تو سلطان نے لڑکی سے کہا کہ گزشتہ رات اس نے کوتوال کو جو بیان دیا ہے وہ سب کے سامنے ایک بار پھر دے لڑکی نے روتے ہوئے بیان دے دیا
کیا یہ سچ ہے احتشام ؟
سلطان نے احتشام سے پوچھا اگر یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو بتاؤ سچ کیا ہے میں اس لڑکی کو جلاّد کے حوالے کردوں گا اور اگر تم نے جھوٹ بولا تو
نہیں سلطان معظم! احتشام نے کہا لڑکی کا بیان بالکل سچ ہے میں سزا کا حقدار ہوں میں نے آپ سے نمک حرامی کی ہے اگر آپ مجھے معاف کر دیں گے تو بھی میں آپ کے زیر سایہ نہیں رہوں گا میرا یہاں رہنا آپ کے سائے کی بھی توہین ہے
احتشام! سلطان نے کہا مجھے دکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ آپ جیسا دانش مند انسان ایک لڑکی کے فریب میں آ گیا
سلطان معظم! احتشام مدنی نے بڑی پختہ آواز میں کہا میں بھی اپنے آپکو دانش مند سمجھا کرتا تھا مجھے اپنی عقل و دانش پر اس لئے ناز تھا کہ میں نے آپ کو جو بھی مشورہ دیا وہ آپ نے قبول کرلیا اور عملاً وہ مشورہ کامیاب اور کارآمد ثابت ہوا لیکن میں اب محسوس کرتا ہوں کہ میرا علم اور میرا تجربہ خام تھا میں نے سنا تھا کہ عورت مرد کی سب سے بڑی اور بڑی خطرناک کمزوری ہوتی ہے لیکن مجھے اس کا عملی تجربہ نہیں ہوا تھا نسوانی حسن میں ایک جادو ہے لیکن میں اس جادو سے واقف نہ تھا اب میرا علم اور تجربہ مکمل ہوگیا ہے اس تلخ اور شرمناک تجربے سے میں نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ فریب کار عورت زیادہ دلفریب ہوتی ہے اور اس کے حسن و شباب سے بچنا ممکن نہیں ہوتا اگر اس قسم کی ایک لڑکی مجھ جیسے جہاندیدہ اور دانش مند آدمی کو دام فریب میں لے سکتی ہے تو ان جواں سال آدمیوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا جو عورت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت نے بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں میں یہی سبق لے کر آپ کے دربار میں سے ہی نہیں بلکہ آپ کی سلطنت سے ہی نکل جاؤں گا اگر آپ سزا دینا چاہتے ہیں تو میرا سر حاضر ہے
اس کا فیصلہ میں بعد میں کروں گا سلطان نے کہا آپ بیٹھیں
سلطان حسن بن صباح سے مخاطب ہوا کیوں حسن تم کیا کہتے ہو اگر اس لڑکی کو جھٹلا سکتے ہو تو بولو لیکن بہتر یہ ہے کہ خاموش رہو جھوٹ بولو گے تو بہت بری سزا دوں گا
یہ لڑکی میری بہن نہیں حسن بن صباح نے کہا میں اسے ایک یتیم اور بیوہ لڑکی سمجھ کر اپنے ساتھ لے آیا تھا اگر آپ کا کوئی حاکم اس لڑکی کو غلط راستے پر چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے اس لڑکی کی حالت دیکھیں اس کا چہرہ دیکھیں صاف پتہ چلتا ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا ہے اور اس پر دہشت طاری کرکے یہ بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے
حسن بن صباح کوئی ایسا کچا آدمی نہیں تھا کہ احتشام کی طرح فوراً اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیتا وہ بولتا رہتا اور سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھتا تو سلطان پر غالب آجاتا اور سلطان اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا لیکن اس کے خلاف شہادت ایسی تھی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا تھا احتشام مدنی کا اعتراف جرم لڑکی کے بیان کی تائید کرتا تھا
خاموش! سلطان گرج کر بولا میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ سچے ہو تو زبان کھولنا لیکن تم نے میرے اس حکم کی پروا نہ کی سلطان نے کوتوال سے کہا اسے اور اس لڑکی کو قید خانے میں پھینک دو یہ دونوں قید خانے سے اس وقت نکالے جائیں گے جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ ان کے دماغ صحیح راستے پر آ گئے ہیں احتشام مدنی میں تمہیں قید خانے کی ذلت سے بچا رہا ہوں تم آزاد ہو لیکن میں سوچ کر کوئی فیصلہ کروں گا
سلطان معظم! خواجہ حسن نظام الملک اٹھ کھڑا ہوا اور بولا عفو اور درگزر کا جذبہ اللہ کو عزیز ہے اسلام کی یہ شان ہے کہ دشمن کو بھی بخشا جاسکتا ہے انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کا ایک منصوبہ بنایا تھا اور مجھے اس عزت اور اس بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تھی جو مجھے اللہ نے عطا کیا ہے میں انہیں اللہ کے نام پر معاف کرتا ہوں
میں انہیں معاف نہیں کر سکتا سلطان نے غصے کے عالم میں کہا
سلطان عالی مقام! نظام الملک نے کہا میں نے آج پہلی بار آپ سے ایک ذاتی درخواست کی ہے اور یہ میری آخری درخواست ہوگی حسن بن صباح اور میں امام مؤافق جیسے عالم دین کے شاگرد ہیں حسن کسمپرسی کی حالت میں میرے پاس آیا اور میں نے اسے روزگار اور وقار مہیا کیا تھا میں اسے گناہ سمجھتا ہوں کہ یہ گنہگار ہی سہی لیکن میری وجہ سے اسے قید میں پھینک دیا جائے
سلطان کچھ دیر نظام الملک کے منہ کو دیکھتا رہا وہ شاید سوچ رہا تھا کہ کوئی انسان اتنا بلند کردار والا بھی ہو سکتا ہے
میں تمہاری قدر کرتا ہوں خواجہ حسن طوسی! سلطان نے کہا لیکن میں انہیں یہاں دیکھ نہیں سکتا میں حسن بن صباح اور اس لڑکی کو زندان میں بند نہیں کروں گا حسن بن صباح اور یہ لڑکی ابھی اس شہر سے نکل جائیں
سلطان نے کوتوال سے کہا اپنے آدمی بھیجو جو انہیں شہر سے نکال کر آئیں
حسن بن صباح اور اس لڑکی کو اسی روز شہر بدر کر دیا گیا نظام الملک کو روحانی اطمینان محسوس ہوا کہ اس نے اتنے بڑے فریب کار کو معاف کرکے خداوندی تعالی کو راضی کر لیا ہے لیکن نظام الملک کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے ایک بڑے ہی زہریلے ناگ کو بخش دیا ہے اور وہ وقت بھی تیزی سے چلا آرہا ہے جب نظام الملک ایک لشکر کے ساتھ حسن بن صباح کے لشکر کے مقابل آئے گا اور ایک ہی امام کے دو شاگرد تلوار لہراتے ہوئے ایک دوسرے کو میدان جنگ میں للکاریں گے
تاریخوں میں اس حساب کتاب کے متعلق جو حسن بن صباح نے تیار کیا تھا مختلف روایات ملتی ہیں بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ نظام الملک نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا دستور الوزراء اس کتاب میں نظام الملک نے لکھا تھا کہ حسن بن صباح نے بڑا ہی کمال کیا تھا کہ صرف چالیس دنوں میں اتنے زیادہ علاقوں کے محصولات وغیرہ کی آمدنی اور اخراجات کا حساب تیار کر لیا تھا نظام الملک میں یہ بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے دل میں حسد اور بغض تھا اس لئے خداوند تعالی نے اسے ذلیل و خوار کیا اگر وہ یہی کام نیک نیتی سے کرتا تو سلطان سے اسے انعام و اکرام ملتا کیوں کہ یہ حساب کتاب ایک تاریخی واقعہ ہے اس لئے بہت سے مورخوں نے اسے قلم بند کیا ہے دبستان مذاہب میں یہ روایت ملتی ہے کہ حسن بن صباح یہ کتاب تیار کر چکا تو یہ تمام کاغذات نظام الملک نے دیکھنے کے لئے منگوائے اور ان کے کئی ورق بے ترتیب کر دیے یہ کاغذات جب سلطان کے پاس گئے تو اس نے حسن بن صباح سے کچھ پوچھا تو وہ صحیح جواب نہ دے سکا
ایک روایت یہ بھی ہے کہ نظام الملک نے اپنے رکابدار کو اس طرح استعمال کیا تھا کہ رکابدار نے حسن بن صباح کے ملازم کو کچھ لالچ دے کر پھانس لیا اور اس سے ان کاغذات میں سے چند ایک کاغذات ضائع کروا دیے تھے لیکن یہ روایات صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ نظام الملک بڑا پکا ایماندار تھا اسے یہ کاغذات دکھائے ہی نہیں گئے تھے حسن بن صباح اس لڑکی کے ساتھ رے پہنچا جہاں کا وہ رہنے والا تھا اس نے اپنے باپ کو سنایا کہ سلطان کے یہاں کیا واقعہ ہوگیا ہے
تمہاری عقل ابھی خام ہے باپ نے حسن بن صباح سے کہا تم تمام کام بیک وقت اور بہت جلدی ختم کرنا چاہتے ہو جلد بازی سے بچو تم نے اپنی ملازمت ہی نہیں کھودی بلکہ سلجوقی سلطنت کھودی ہے اب میں تمہیں مصر بھیجوں گا وہاں کے کچھ لوگ یہاں آ رہے ہیں
‏رے کا امیر ابو مسلم رازی تھا جو کٹر اہل سنت والجماعت تھا اسے خفیہ رپورٹیں مل رہی تھیں کہ حسن بن صباح کے باپ کے یہاں مصر کے عبیدی آتے رہتے ہیں سلجوقی عبیدیوں کو اپنا اور اسلام کا بہت بڑا دشمن سمجھتے تھے کیونکہ عبیدیوں کا اپنا ہی ایک فرقہ تھا جو ایک جنگی طاقت بنتا جا رہا تھا ان دنوں مصر پر عبیدیوں کی حکومت تھی
سلطان ملک شاہ کی طرف سے ابومسلم رازی کو ایک تحریری حکم نامہ ملا کہ اس کے شہر رے کے باشندے حسن بن صباح کو سرکاری عہدے سے سبکدوش کرکے نکال دیا گیا ہے اس شخص پر نظر رکھی جائے کیونکہ یہ شخص بڑا پکا فریب کار اور اپنے سابقہ عہدے کو فریب کاری میں استعمال کر سکتا ہے
ابومسلم رازی کو مخبروں سے کچھ ایسی رپورٹیں بھی ملی تھیں کہ حسن بن صباح رے سے دور دراز علاقوں میں اپنا ہی ایک فرقہ تیار کر رہا ہے اور اس فرقے کے عزائم خطرناک معلوم ہوتے ہیں ابومسلم رازی نے حکم دے دیا کہ حسن بن صباح کو گرفتار کر لیا جائے
حسن بن صباح اور اس کے باپ نے مخبری اور جاسوسی کا اپنا ایک نظام قائم کر رکھا تھا اس کا کوئی آدمی ابومسلم رازی کے عملے میں ملازم تھا اس آدمی نے حسن بن صباح کو اطلاع دے دی کہ اس کی گرفتاری کا حکم جاری ہو گیا ہے حسن بن صباح نے اسی وقت شتربانوں کا لباس پہنا اور ایک اونٹ کی مہار پکڑ کر شہر سے نکل گیا اس کی گرفتاری کے لیے کوتوال کے آدمی اس کے گھر گئے تو اس کے باپ نے کہا کہ وہ کچھ بتائے بغیر کہیں چلا گیا ہے
اس وقت حسن بن صباح اونٹ پر سوار شہر سے بہت دور چلا گیا تھا اس کے قریب سے گزرنے والے اسے غریب سا شتربان سمجھتے تھے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شتربان کے لباس میں چھپا ہوا یہ شخص ایسے کارنامے کر دکھائے گا جو الف لیلیٰ کی داستانوں سے زیادہ سنسنی خیز ناقابل یقین ہوں گے اور یہ شخص انسانیت اور تاریخ کے رونگٹے کھڑے کردے گا
حسن بن صباح تو بھیس بدل کر نکل گیا لیکن وہ لڑکی جسے وہ اپنے ساتھ مرو لے گیا تھا اور سب کو بتایا کہ یہ اس کی بہن ہے اور اس کا نام فاطمہ رکھا تھا وہ ایک بڑے ہی بے رحم شکنجے میں آگئی تھی سلطان ملک شاہ نے اسے بھی حسن بن صباح کے ساتھ اپنے دارالسلطنت سے نکال دیا تھا حسن بن صباح تو وہاں وزیراعظم بننے گیا تھا اور اس لڑکی کو اس نے اس مقصد کے لئے استعمال کیا تھا لیکن اسی لڑکی کی زبان نے اس کا وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور کردیا
اس لڑکی کا اصل نام شمونہ تھا احمد بن عطاش کے آدمیوں نے ایک قافلے کو لوٹا تھا اور دیگر مال و دولت کے ساتھ چند ایک لڑکیوں کو بھی پکڑ لائے تھے جن میں تین چار گیارہ سے چودہ سال عمر تک کی تھیں انہیں شاہ در لے آئے تھے جہاں انہیں شہزادیوں کی طرح رکھا گیا اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے مطابق تربیت دی گئی تھی انہیں بڑی محنت سے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی سے کام نکلوانا ہو اس کے لئے کس طرح ایک بڑا ھی حسین سراب بنا جاتا ہے انھیں ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ اپنے جسموں کو کس طرح بچا کر رکھنا اور اپنے جال میں پھنسے ہوئے آدمی پر نشہ بن کر طاری ہو جانا ہے
شمونہ انہیں لڑکیوں میں سے تھی وہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں قافلے سے اغوا ہوئی تھی اب اس کی عمر بیس سال سے تجاوز کر گئی تھی اس نے کامیابی سے سلطان ملک شاہ کے مشیر خاص احتشام مدنی کو مسحور کر لیا تھا یہ اس کا پہلا شکار تھا وہ اس معزز اور باوقار شخصیت پر طلیسم ہوش روبا بن کر طاری ہوگئی اور اپنا دامن بھی بچا کے رکھا تھا لیکن حسن بن صباح نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ نازک اندام لڑکی ہے ایک جابر سلطان کو انگلیوں پر نچا سکتی ہے مگر یہی انگلیاں جابر سلطان کے شکنجے میں آگئی تو یہ ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کرے گی اور تمام راز اگل دے گی
حسن بن صباح اتنا کچا آدمی نہیں تھا کہ اسے یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ کمزور سی لڑکی ایذارسانی برداشت نہیں کرے گی وہ بے رحم انسان تھا اس کے جذبات اتنے نازک اور رومانی نہیں تھے کہ کسی کو اذیت میں دیکھ کر اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی اس نے شمونہ جیسی ہر لڑکی کو اور اپنے گروہ کے تمام آدمیوں کو بتا رکھا تھا کہ اپنی جان دے دینا راز نہ دینا اگر راز دے کر آؤ گے تو اس کے عوض تمہاری جان لے لی جائے گی
حسن بن صباح نے شمونہ کی جان اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی لیکن اسے مہلت نہ ملی امیر شہر ابومسلم رازی کے حکم سے کوتوالی کے آدمیوں نے چھاپہ مارا اگر اسے پہلے اطلاع نہ ملی چکی ہوتی تو وہ گرفتار ہو جاتا وہ بروقت فرار ہوگیا تھا لیکن شمونہ کی قسمت کا فیصلہ سنا گیا تھا
اس بدبخت لڑکی نے تھوڑا سا نقصان نہیں پہنچایا اس نے فرار سے کچھ دیر پہلے اپنے دو خاص مصاحبوں سے کہا تھا اسے خلجان پہنچا دینا میں وہاں پہنچ چکا ہونگا اسے میں تمام لڑکیوں کے سامنے ایسی سزائے موت دوں گا جو ان لڑکیوں کے لئے باعث عبرت ہو گی لڑکیوں کو بتاؤں گا کہ اس کا جرم کیا ہے اسے ابھی کسی گھر میں قید میں رکھو پانچ دنوں بعد اسے یہاں سے نکالنا ابھی کوتوال کے جاسوس میرے گھر کے ارد گرد گھوم پھر رہے ہونگے اگر یہ لڑکی اپنا حوصلہ ذرا مضبوط رکھتی تو میں وزیراعظم بن جاتا
شمونہ کو انہیں آدمیوں میں ایک کے گھر رکھا گیا اور اسے کہا گیا کہ وہ باہر نہ نکلے اور چھت پر بھی نہ جائے اسے وجہ یہ بتائی گئی کہ امیر شہر نے اس کی اور حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے
شمونہ کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں وہ اپنے آپ کو اس گھر میں مہمان سمجھنے لگی اس کے ساتھ بڑے ہیں معزز مہمانوں جیسا سلوک روا رکھا گیا اور اسے الگ کمرہ دیا گیا اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کمرے کی قیدی اور دو دنوں کی مہمان ہے
اس گھر میں ایک آدمی اور اس کی دو بیویاں تھیں اور ایک ادھیڑ عمر نوکرانی تھی شام کے کھانے کے بعد شمونہ اپنے کمرے میں چلی گئی ،گھر کا آدمی ایک بیوی کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا کچھ دیر بعد دوسری بیوی شمونہ کے کمرے میں چلی گئی اس نے پوچھا کہ مرو میں کیا ہوا تھا شمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا
کیا تمہارے آقا نے تمہیں معاف کر دیا ہے؟
عورت نے پوچھا
میں کچھ نہیں کہہ سکتی شمونہ نے کہا یہ بتا سکتی ہوں کہ اس نے مرو سے یہاں تک میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی صرف ایک بار اس نے کہا تھا کہ تم نے میرا ہی نہیں اپنی جماعت کا مستقبل تباہ کر دیا ہے میں نے اسے پہلے بھی کہا تھا کہ ایک بار پھر کہا کہ میں مجبور ہوگئی تھی اس نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دکھا کر کہا یہ دیکھو نشان یہ انگلیاں لوہے کے شکنجے میں جکڑ دی گئی تھیں اور شکنجا آہستہ آہستہ بند کیا جا رہا تھا میری انگلیوں کی ہڈیاں چٹخنے اور پھر ٹوٹنے لگی تھیں شکنجے کو اور زیادہ کسا جا رہا تھا اور مجھ پر غشی طاری ہو رہی تھی
اب میری سن لڑکی! عورت نے کہا آگے مت سونا میں تیرے درد کو اپنے دل میں محسوس کرتی ہوں تو اپنے ماں باپ کے پاس کیوں نہیں جاتی؟
کہاں ہیں وہ؟
شمونہ نے کہا کون ہیں وہ مجھے یاد نہیں خواب کی طرح یاد ہے کہ ایک قافلہ جا رہا تھا اسے ڈاکوؤں نے روک کر لوٹ لیا تھا میرے ماں باپ شاید مارے گئے تھے وہ مجھے یاد نہیں آتے یاد آئیں بھی تو مجھے ان کی جدائی کا ذرا سا بھی افسوس نہیں ہوتا ان سے جدا ہوئے صدیاں تو نہیں گزری چھ سات سال ہی گزرے ہیں مجھے ڈاکو اپنے ساتھ لے آئے تھے
تجھے معلوم نہیں عورت نے کہا تجھے ایسی چیز پلائی اور کھلائی جاتی رہی ہے کہ تیرے دماغ سے خون کے رشتے دھل گئے ہیں اور میں جانتی ہوں تیری تربیت کس پیار سے ان لوگوں نے کی ہے تو نہیں جانتی
یہ حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کا وہ طریقہ کار تھا جسے آج کی صدی میں برین واشنگ کا نام دیا گیا ہے
تم اتنی دلچسپی سے یہ باتیں کیوں پوچھ رہی ہو؟
شمونہ نے پوچھا کیا تمہیں مجھ سے ہمدردی ہے؟
ہاں لڑکی! عورت نے کہا مجھے تجھ سے ہمدردی ہے میرا خاوند انہی لوگوں میں سے ہے یہ لوگ میری چھوٹی بہن کو ورغلا کر لے گئے ہیں وہ بہت حسین لڑکی ہے میں اسے اس جال سے نہیں نکال سکتی تجھے نکال سکتی ہوں لیکن تو اب ان لوگوں کے نہیں بلکہ موت کے جال میں آ گئی ہے
موت کے جال میں ؟
ہاں لڑکی ! عورت نے کہا تیری زندگی چار نہیں تو پانچ دن رہ گئی ہے
یہ کیسے ؟
حسن بن صباح کسی کو معاف نہیں کیا کرتا عورت نے کہا میں جانتی ہوں تو نے کس مجبوری کے تحت راز مرو کے کتوال کو دے دیا تھا لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ تجھے اپنی جان دے دینی چاہیے تھی راز نہ دیتی حسن بن صباح کہہ گیا ہے کہ تجھے خلجان پہنچا دیا جائے حسن بن صباح وہاں پہنچ جائے گا پھر تمہیں تم جیسی لڑکیوں کے سامنے بڑے ہی اذیت ناک طریقے سے قتل کیا جائے گا تاکہ لڑکیوں کو عبرت حاصل ہو
شمونہ کو غشی آنے لگی
میں ابھی مرنا نہیں چاہتی شمونہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا
اور چاہتی میں بھی یہی ہوں کہ تو زندہ رہے عورت نے کہا اگر میری یہ خواہش نہ ہوتی تو میں تمہارے پاس آتی ہی نہ
لیکن میں کروں کیا ؟
شمونہ نے پوچھا کہاں جا پناہ لوں
میں تمہیں یہاں سے نکال سکتی ہو
کیا تم اس کی کچھ اجرت لوگی؟
نہیں! عورت نے جواب دیا میرے لئے یہی اجرت بڑی کافی ہوگی کہ تو یہاں سے نکل جائے اور زندہ رہے مجھ سے کچھ اور نہ پوچھنا نہ کسی کو یہ بتانا کہ میں نے تمہیں یہاں سے نکالا ہے صرف اتنا بتا دیتی ہوں کے تجھے دیکھ کر مجھے اپنی بہن یاد آگئی ہے تو معصوم لڑکی ہے خدا کرے تو کسی گھر میں آباد ہو جائے
مجھے نکال تو دوگی؟
شمونہ نے پوچھا میں جاؤنگی کہاں؟
رات ابھی زیادہ نہیں گزری عورت نے کہا میں تجھے راستہ بتا دوں گی یہ راستہ تجھے امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر پہنچا دے گا دروازے پر دستک دینا دربان روکے تو کہنا کہ میں مظلوم لڑکی ہوں اور امیر شہر کے آگے فریاد کرنے آئی ہوں تجھے کوئی نہیں روکے گا امیر شہر خدا کا نیک بندہ ہے وہ تجھے فوراً اندر بلا لے گا اسے ہر بات صحیح صحیح بتا دینا اور یہ مت کہنا کہ میں نے تجھے یہاں سے نکالا ہے یہ کہنا کہ تو خود یہاں سے بھاگی ہے
پھر وہ کیا کرے گا؟
وہ جو کچھ بھی کرے گا تیرے لیے اچھا ہی کرے گا عورت نے کہا ہو سکتا ہے وہ تجھے کسی نیک آدمی کے سپرد کردے میں تجھے میلی سی ایک چادر دیتی ہوں اس میں اپنے آپ کو ڈھانپ لینا کوئی آدمی آگے آ جائے تو ڈر نہ جانا پوری دلیری سے چلتی جانا تو ہوشیار لڑکی ہے تجھے تربیت بھی ایسی ہی دی گئی ہے اس کے مطابق اپنی عقل استعمال کرنا سب ٹھیک ہو جائے گا اٹھو
اس عورت کا خاوند دوسرے کمرے میں گہری نیند سو گیا تھا یہ لوگ شراب اور حشیش کے عادی تھے ان میں نشے کی عادت حسن بن صباح نے پیدا کی تھی اس اتنی بڑی حویلی کا مالک اپنی ایک جواں سال بیوی کو ساتھ لیے نشے میں بدمست حقیقی دنیا سے بے خبر سو گیا تھا
اسی حویلی کے ایک کمرے میں اس کی پرانی بیوی شمونہ کو چادر میں لپیٹ کر حویلی کی ڈیوڑھی میں لے گئی تھی شمونہ کو اس نے امیر شہر کے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا اس نے شمونہ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ راستے سے بھٹک جائے تو کسی سے پوچھ لے اس نے شمونہ کو یقین دلایا تھا کہ ابو مسلم رازی سے لوگ اتنے ڈرتے ہیں کہ اکیلی دکیلی عورت پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا
اس نے شمونہ کو حویلی سے نکال دیا شمونہ گلی کا موڑ مڑ گئی تو اس عورت نے حویلی کا دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں جا کر سو گئی وہ مسرور اور مطمئن تھی کہ اس نے ایک نوخیز لڑکی کو گناہوں کی بڑی ہی خطرناک دنیا سے نکال دیا تھا شمونہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر تک پہنچ گئی باہر دو دربان کھڑے تھے انہوں نے اسے روکا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیوں آئی ہے؟
مجھے فوراً امیر شہر تک پہنچا دو شمونہ نے بڑی پختہ آواز میں کہا دیر نہ لگانا ورنہ پچھتاؤ گے
آخر بات کیا ہے ؟
ایک دربان نے پوچھا
انہیں اتنا ہی کہہ دو کہ ایک مظلوم لڑکی کہیں سے بھاگ کر آئی ہے شمونہ نے کہا اور یہ بھی کہنا کہ وہ راز کی ایک بات بتائے گی
تاریخ بتاتی ہے کہ ابو مسلم پکا مرد مومن تھا اسلام کی وہی نظریات اور عقیدے جو رسول اکرمﷺ اپنی امت کو دے گئے تھے ان کی پاسبانی ابومسلم رازی کی زندگی کا بہت بڑا نصب العین تھا جس وقت شہر نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گیا تھا اس وقت رازی دین کی ایک کتاب کھولے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھا
دربان نے اس کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی دربان کو ایسا ڈر نہیں تھا کہ امیر شہر خفا ہو گا اور اسے ڈانٹ دے گا کہ رات کے اس وقت اسے نہیں آنا چاہیے تھا اس نے حکم نامہ جاری کر رکھا تھا کہ کوئی مظلوم شخص رات کے کسی بھی وقت اسے ملنے آئے تو اسے جگا لیا جائے اس رات دربان کی دستک پر اس نے دربان کو اندر بلایا دربان سے اس نے صرف یہ الفاظ سنے کہ ایک لڑکی آئی ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیج دو
چند لمحوں بعد ایک بڑی ہی حسین اور پرکشش جسم والی نوخیز لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی ابو مسلم رازی نے اسے بٹھایا
کیا ظلم ہوا ہے تجھ پر جو تو اس وقت میرے پاس آئی ہے؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
بات ذرا لمبی ہے شمونہ نے کہا کیا امیر شہر کے دل میں اتنا درد ہے کہ اتنی لمبی بات سنے گا؟
ہاں لڑکی! ابومسلم رازی نے کہا ہم دونوں کے درمیان اللہ کی ذات موجود ہے میں اللہ کے ہاتھ میں پابند اور مجبور ہوں کہ اللہ کے ہر اس بندے کی پوری بات سنو جس پر ظلم کیا گیا ہے تم بولو میں سنوں گا امیر شہر نہیں سنے گا تو وہ اللہ کو کیا جواب دے گا
مجھے ڈاکوؤں نے تین چار سال پہلے ایک قافلے کو لوٹتے ہوئے میرے ماں باپ سے چھینا اور مجھے اغوا کرکے لے گئے تھے شمونہ نے کہا مجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوا تشدد نہیں ہوا زیادتی نہیں ہوئی ظلم یہ ہوا کہ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میرے ماں باپ کون تھے میں اغوا کے وقت دودھ پیتی بچی تو نہ تھی مجھے اغوا کرنے والوں نے ایسی خوبصورت فضا دی اور ایسے شہانہ ماحول میں میری تربیت کی کہ میں شہزادی بن گئی لیکن یہ تربیت ویسی نہیں تھی جیسی بچوں کو دی جاتی ہے میری ذات میں ابلیسی اوصاف پیدا کیے گئے ایسا نہیں ہوا کہ میرے آقا میرے جسم کے ساتھ کھیلتے رہتے اور مجھے ہوس کاری کے لیے استعمال کرتے بلکہ انہوں نے تربیت یہ دی کہ اپنے جسم کو مردوں سے کس طرح بچا کر رکھنا ہے
کون ہے وہ؟
ابومسلم رازی نے پوچھا کہاں ہے وہ ؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام نہیں سنا؟
شمونہ نے کہا میں اس کے ساتھ سلطان ملک شاہ کے زیر سایہ رہ چکی ہوں
وہ گیا کہاں؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
یہ میں نہیں بتا سکتی شمونہ نے جواب دیا میں اپنے متعلق سب کچھ بتا سکتی ہوں
شمونہ نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی تھی اور پھر اسے پہلے شاہ در پھر خلجان لے جاکر کس طرح کی تربیت دی گئی تھی یہ بھی بتایا کہ اس جیسی اور لڑکیوں کو بھی اسی قسم کی تربیت دی جاتی ہے پھر اس نے بتایا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ مرو گئی تو وہاں اسے حسن نے کس طرح استعمال کیا تھا
ابو مسلم رازی گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سوچ سے بیدار ہو کر شمونہ سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
سب سے پہلے تو میں پناہ چاہتی ہوں شمونہ نے کہا اگر آپ نے مجھے پناہ نہ دی تو یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے
تم میری پناہ میں ہو لڑکی! ابو مسلم رازی نے کہا
میں اپنی ذات میں بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہی ہوں شمونہ نے کہا میرے اندر میرے دل اور میرے دماغ میں ابلیسیت کے سوا کچھ بھی نہیں میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتی ہوں کہ میں ایک ناگن ہوں اور ڈسنا میری سرشت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آپ کو ہی ڈس لوں میں انسان کے روپ میں آنا چاہتی ہوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری ذات میں کوئی انسانی جذبات ہے ہی نہیں کیا آپ ایسا بندوبست کر سکتے ہیں کہ میری ایسی تربیت ہو جائے جس سے میں انسانوں کے روپ میں آ جاؤں؟
کیوں نہیں ہو سکتا ہے ابو مسلم رازی نے کہا میں فوری طور پر کسی بھلے آدمی کے ساتھ تمہاری شادی کرا دوں گا
نہیں! شمونہ نے تڑپ کر کہا کسی بھلے آدمی پر یہ ظلم نہ کرنا میں ابھی کسی کی بیوی بننے کے قابل نہیں بیوی وفادار ہوتی ہے لیکن میں فریب کاری کے سوا کچھ بھی نہیں جانتی مجھے پہلے انسان بنائیں
تم آج رات آرام کرو ابو مسلم رازی نے کہا میں کل تمہارا کچھ بندوبست کر دوں گا
ابو مسلم رازی نے شمونہ کو زنان خانے میں بھجوا دیا
اس شہر کے مضافات میں ایک آدمی رہتا تھا جو مذہب میں ڈوبا ہوا تھا اور تقریباً تاریک الدنیا تھا اس کی عمر تقریباً چالیس برس ہو گئی تھی اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس نے شادی نہیں کی تھی اور یہ بھی مشہور تھا کہ وہ عورت کے وجود کو پسند ہی نہیں کرتا تھا معلوم نہیں کس عمر میں اس کے دل میں مذہب سے لگاؤ پیدا ہوا تھا وہ زیادہ تر عبادت اور کتابوں میں مگن رہتا تھا
اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ وہ کئی فرقے بدل چکا ہے اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صحیح عقیدے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا اس وقت تک مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور یہ شخص ان بہتر فرقوں میں بٹ رہا تھا اب لوگ کہتے تھے کہ وہ سنی عقیدے کو قبول کر چکا ہے لیکن یقین کے ساتھ کہنا مشکل تھا کہ وہ کس عقیدے کو قبول کئے ہوئے ہے
وہ علم روحانیت میں بھی سر کھپاتا رہتا تھا بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ راتوں کو جاگتا ہے اور جنات کو حاضر کر لیتا ہے بہرحال لوگوں کے لئے وہ پراسرار سی شخصیت بنا ہوا تھا اس کے معتقد اس کے پاس جاتے رہتے اور وہ انہیں درس دیا کرتا تھا وہ زیادہ تر زور اس پر دیتا تھا کہ عورت ایک حسین فریب ہے اور عورت گناہوں کی علامت ہے
ابومسلم رازی اس بزرگ سے بہت متاثر تھا اس کا نام نوراللہ تھا ابو مسلم رازی اکثر اس کے یہاں جاتا تھا شمونہ نے جب ابو مسلم رازی سے یہ کہا کہ وہ بھٹکی ہوئی ایک لڑکی ہے اور جب تک دینی تربیت کے ذریعے اس کی ذات سے ابلیسیت نہیں نکالی جاتی اس وقت تک وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی رازی کو نوراللہ یاد آیا تھا
اگلے روز کا سورج ابھی طلوع ہوا ہی تھا کہ ابو مسلم رازی نے شمونہ کو بلوایا شمونہ آئی تو وہاں ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا اس کی داڑھی ابھی بالکل سیاہ تھی چہرے پر نور سر پر سبز دستار اور اس نے سبز رنگ کا چغہ زیب تن کر رکھا تھا اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی
امیر شہر ابومسلم رازی نے اسے فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد بلوا لیا تھا اور اسے بتایا تھا کہ باطنیہ فرقے کی ایک لڑکی اس کے پاس آئی ہے جو خود محسوس کرتی ہے کہ اس کے وجود میں ابلیس حلول کر آیا ہے ابو مسلم رازی نے نوراللہ کو شمونہ کے متعلق تمام تر باتیں بتائی تھیں جو نوراللہ انہماک سے سنتا رہا تھا لیکن ابو مسلم نے جب یہ کہا کہ اس لڑکی کی تربیت کرنی ہے تو نوراللہ پریشان اور بے چین ہو گیا
کیا میں کچھ دیر کے لئے اس کے پاس آیا کروں گا ؟
نور اللہ نے پوچھا
نہیں! ابومسلم رازی نے کہا یہ لڑکی ایک امانت کے طور پر آپ کے حوالے کر رہا ہوں یہ ہر وقت آپ کے زیر سایہ اور زیر تربیت رہے گی
میرے متعلق شاید آپ ایک بات نہیں جانتے نوراللہ نے کہا میں آج تک عورت کے سائے سے بھی دور رہا ہوں اور میں نے شادی بھی نہیں کی آپ اس لڑکی کو میرے حوالے کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھیں میں ہر روز یہاں آ جایا کروں گا
میں آپ کا احترام کرتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا اس احترام کی وجہ یہ ہے کہ آپ مذہب کے رنگ میں رنگے ہوئے انسان ہیں اور آپ کو اپنے نفس پر پورا پورا قابو حاصل ہوگا میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کس بنا پر عورت کے وجود سے گھبراتے ہیں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک اور باطنی فرقہ بن چکا ہے جو لڑکیوں کو اپنی تبلیغ اور تشہیر کے لیے استعمال کر رہا ہے میں حکومت کی سطح پر اس کے انسداد کا کچھ بندوبست ضرور کروں گا لیکن میں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچا ہے کہ اس لڑکی جیسی گمراہ کی ہوئی لڑکیوں کو آپ جیسے عالموں کے حوالے کر کے اس کی صحیح تربیت کی جائے آپ اس لڑکی سے بسم اللہ کریں اور اسے اپنے ساتھ لے جائیں
یہ حکم حاکم تھا جس کے آگے نوراللہ بول نہ سکا ابومسلم رازی نے شمونہ کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ کچھ دن نوراللہ کے ساتھ رہے گی
تم نے وہاں مہمان بن کے نہیں رہنا ابومسلم رازی نے شمونہ سے کہا کھانا پکانا گھر میں جھاڑو دینا اپنے اور ان کے کپڑے دھونا اور گھر کے دیگر کام تم نے کرنے ہیں تم ان کی بیوی نہیں ہوگی بلکہ نوکرانی ہوگی اور تم ان کی خدمت کرو گی جب تم خود کہوں گی کہ تمہاری ذات سے ابلیسی اثرات دھل گئے ہیں تو کسی کے ساتھ تمہاری شادی کر دی جائے گی ابومسلم رازی نے نوراللہ سے کہا کہ وہ لڑکی کو ساتھ لے جائے نوراللہ اسے ساتھ لے گیا
اپنے ہاں لے جا کر نور اللہ نے شمونہ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کی ذات میں شیطان حلول کر آیا ہے یا یہ کہ اس پر شیطان غالب ہے شمونہ نے اسے اپنی زندگی کی اس وقت تک کی روداد سنا ڈالی
اپنا من مار ڈالو نوراللہ نے کہا
یہ کیسے ہوگا؟
اپنے آپ کو مٹی میں ملا دو نوراللہ نے کہا یہ بھول جاؤ کہ تمہارا رہن سہن شہزادیوں جیسا رہا تھا اس گھر میں جھاڑو د، میں نے یہیں چھوٹی سی مسجد بنا رکھی ہے اسے صاف ستھرا رکھو دھیان ہر وقت اللہ کی ذات پر رکھو اور اپنے دماغ میں اس حقیقت کو بٹھا لو کہ تم نے ایک نہ ایک دن اس مٹی میں مل کر مٹی ہو جانا ہے اپنی نفسانی خواہشات کو اور سفلی جذبات کو کچل ڈالو
اس طرح نوراللہ نے اس کی تعلیم و تربیت شروع کر دی نوراللہ کے یہاں جب اس کے معتقد اور مرید آتے تھے اس وقت شمونہ کمرے میں چلی جاتی تھی رات کو سونے سے پہلے نوراللہ شمونہ کو اپنے سامنے بیٹھاتا تھا اور اسے مذہب کے سبق دیتا تھا اس کے بعد وہ شمونہ کو الگ کمرے میں بھیج کر اسے کہتا کہ اندر سے دروازہ بند کر لے صبح اذان کے وقت وہ شمونہ کے دروازے پر دستک دیتا اور اسے جگا کر نماز پڑھاتا تھا
دن گزرتے چلے گئے نوراللہ نے محسوس کیا کہ اس کے دل میں عورت کی جو نا پسندیدگی یا نفرت تھی وہ کم ہوتی جارہی ہے شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کے استاد کا رویہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے اس رویے میں کچھ ایسا تاثر تھا جیسے نوراللہ نے اسے قبول کر لیا ہو
ایک روز شمونہ گھر کے سارے کاموں سے فارغ ہوکر ایسی تھکان سی محسوس کرنے لگی جیسے اسے نیند آ رہی ہو وہ لیٹ گئی نوراللہ کہیں باہر چلا گیا تھا وہ آیا تو شمونہ کو نہ دیکھ کر اس کے کمرے کے دروازے میں جا کھڑا ہوا شمونہ بڑی گہری نیند سوئی ہوئی تھی وہ پیٹھ کے بل پڑی تھی اس کے سر سے اوڑھنی سرک گئی تھی اس کے چند ایک بال اس کے گورے چٹے گالوں پر آگئے تھے اس کا شباب بے نقاب تھا
نوراللہ کا ایک قدم دہلیز کے اندر چلا گیا اس نے وہ قدم پیچھے کو اٹھایا لیکن اس کی ذات سے ہی ایک قوت بیدار ہوئی جس نے اسے پیچھے ہٹنے سے روک دیا اور اس نے دوسرا پاؤں اٹھا کر دہلیز کے اندر کر دیا نوراللہ کمرے میں داخل ہوگیا لیکن ایک ہی قدم آگے بڑھا کر رک گیا
شمونہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی نہ جانے کیسا خواب تھا کہ اس کے ہونٹوں پر تبسم آگیا نوراللہ کچھ دیر شمونہ کے تبسم کو دیکھتا رہا اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا تو شمونہ کا تبسم ایسی مسکراہٹ کی صورت اختیار کر گیا جس سے اس کی دانت ذرا ذرا سے نظر آنے لگے اس مسکراہٹ میں شمونہ کے حسن میں طلسماتی سا تاثر پیدا کر دیا
نوراللہ ایک دو قدم اور آگے چلا گیا اور پھر رک گیا اس کے آگے بڑھنے اور روکنے میں اس کے اپنے ارادے اور اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں یہ ایک ایسی حرکت تھی جو اس نے اپنے ارادے سے کی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس لڑکی کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا اس کی ذات میں ایک کشمکش شروع ہو گئی تھی جسے وہ سمجھ نہ پایا
آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں نوراللہ کے کانوں سے شمونہ کی مخمور سی آواز ٹکرائی
وہ چونک کر اس کیفیت سے بیدار ہو گیا جو اس پر طاری ہو چکی تھی وہ بوکھلایا اور فوری طور پر یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ آگے بڑھے اور شمونہ کو کوئی جواب دے یا باہر چلا جائے شمونہ بڑی تیزی سے اٹھی اس کے دل میں نور اللہ کا احترام اور تقدس اتنا زیادہ تھا کہ اس پر مرعوبیت طاری رہتی تھی
آپ کس وقت آئے ؟
شمونہ نے لونڈیوں اور غلاموں جیسے لہجے میں پوچھا اور کہنے لگی میں ذرا سو گئی تھی آپ چپ کیوں ہیں کیا آپ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں
نہیں نہیں نوراللہ نے بوکھلائی ہوئی سی آواز میں کہا میں تمہیں دیکھنے اندر آ گیا تھا نہیں میں خفا نہیں ہوں وہ پیچھے مڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا
دو تین دنوں بعد نوراللہ شمونہ کو سامنے بٹھایا کچھ پڑھا رہا تھا شمونہ کا سر جھکا ہوا تھا اس کی اوڑھنی سر سے ذرا سرک گئی اس کے ریشم جیسے ملائم بال بے نقاب ہوگئے شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کا قابل احترام استاد بولتے بولتے چپ ہو گیا ہے اس نے آہستہ سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ استاد کی نظریں اس کے ماتھے پر اس طرح مرکوز تھی جیسے وہ آنکھیں جھپکنا بھول گیا ہو ایک دو لمحوں بعد اس کی نظریں شمونہ کی نظروں سے ٹکرائیں نوراللہ پر بےخودی کی کیفیت طاری تھی وہ زلزلے کے جھٹکے سے تہہ و بالا ہو گئی
شمونہ کوئی سیدھی سادی دیہاتن یا نادان بچی نہیں تھی اسے جو تربیت دی گئی تھی اس میں خاص طور پر بتایا گیا تھا کہ مرد کسی خوبصورت عورت کو کیسی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کے چہرے کا تاثر کیا ہوتا ہے
شمونہ نے وہ تاثر اپنے استاذ کے چہرے پر دیکھا اور اس نے اپنے استاد کی آنکھوں میں بھی ایک تاثر دیکھا جسے وہ اچھی طرح سمجھتی تھی لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ مذہب میں ڈوبا ہوا یہ شخص جس کا دل عورت کو گناہوں کی علامت سمجھتا ہے اسے ہوس کی نظروں سے دیکھ رہا تھا
اٹھو شمونہ! نوراللہ نے کہا آج اتنا ہی کافی ہے اب تم کھانا تیار کرو
شمونہ تو چولہے پر جاکر مصروف ہو گئی لیکن نوراللہ اپنی ذات میں ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس کرتا رہا شمونہ کا ذہن بھی پرسکون نہ تھا وہ اس سوچ میں کھوئی ہوئی تھی کہ اتنے معزز اور مقدس انسان کے چہرے پر اور آنکھوں میں ایسے تاثرات کیوں آئے تھے اس نے اپنے آپ کو یہ دھوکہ دینے کی بھی کوشش کی کہ یہ اس کی اپنی غلط فہمی ہے اور یہ اس کے استاد کا تاثر نہیں تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا استاد ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہو چکا ہے جو اس کی روح کو بھی اذیت پہنچا رہی ہے
جس قدرتی رفتار سے شب و روز گزرتے جا رہے تھے اس سے زیادہ تیز رفتار سے شمونہ اپنی ذات میں ایک پاکیزہ اور پراثر تبدیلی دیکھ رہی تھی وہ ان دنوں کو بھولتی جا رہی تھی جو دن اس نے حسن بن صباح کے گروہ میں گزارے تھے وہ صاف طور پر محسوس کر رہی تھی کہ وہ ابلیس کے جال سے نکلتی آ رہی ہے
چند دن اور گزرے دوپہر کے وقت شمونہ کچھ دیر کے لئے سو گئی یہ اس کا روز کا معمول تھا اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے استاد کو اپنی چارپائی کے قریب کھڑے دیکھا اسے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے استاد نے اس کے سر پر اور شاید گالوں پر بھی ہاتھ پھیرا تھا وہ ہاتھ کے لمس کو ابھی تک محسوس کر رہی تھی لیکن اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ہاتھ اس کے مقدس استاد کا تھا وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی
کیا آپ نے مجھے جگایا ہے ؟
شمونہ نے نوراللہ سے مسکراتے ہوئے پوچھا نوراللہ نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں ایسا جواب دیا جس میں ہاں بھی تھی نہیں بھی شمونہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی نوراللہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتا کمرے سے نکل گیا شمونہ اس روز کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی اس نے دیکھا کہ نوراللہ شام تک چپ چاپ رہا چپ رہنا اس کا معمول نہیں تھا
عصر اور مغرب کی نماز کے درمیان نوراللہ کے پاس ہر روز کی طرح اس کے شاگرد اور معتقد وغیرہ آئے تو اس نے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرکے درس نہ دیا وہ سب چلے گئے نوراللہ وہیں بیٹھا رہا شمونہ نے اسے دیکھا اور چپ رہی عشاء کی نماز کے بعد جب نوراللہ ایک کتاب کھول کر پڑھنے لگا تو شمونہ اس کے سامنے جا بیٹھی
کیوں ؟
نوراللہ نے پوچھا آج سوؤ گی نہیں
نہیں! شمونہ نے بڑی نرم آواز میں کہا میں آج آپ کے پاس بیٹھوں گی
تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے شام کو درس نہیں دیا تھا نوراللہ نے کہا میرے سر میں گرانی ہے اس وقت تمہیں بھی سبق نہیں دے سکوں گا اگر میری بتائی ہوئی کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئی ہو تو وہ پوچھ لو اور جا کے سو جاؤ
ہاں میرے مرشد! شمونہ نے کہا ایک بات ہی پوچھنی ہے یہ بات آپ نے پہلے کبھی نہیں بتائی یہ مسئلہ میرے اپنے ذہن میں آیا ہے
پوچھو! نوراللہ نے شگفتہ لہجے میں کہا اور کتاب بند کرکے الگ رکھ دی میں آپ میں ایک تبدیلی دیکھ رہی ہوں شمونہ نے کہا آپ روز بروز خاموش ہوتے چلے جا رہے ہیں
یہ میری عادت ہے نوراللہ نے کہا کبھی کبھی میں خاموش ہو جایا کرتا ہوں کچھ دن اور میری یہی حالت رہے گی
نہیں میرے مرشد! شمونہ نے کہا میں گستاخی کی جرات نہیں کر سکتی لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ آپ کی زبان نے جو کہا ہے یہ آپ کے دل کی آواز نہیں آپ مجھ سے خفا ہیں آپ کے دل میں میرے لئے ناپسندیدگی ہے
ایک بات کہوں شمونہ! نوراللہ نے کہا میرے لئے مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ میرے دل میں تمہارے لئے ناپسندیدگی نہیں تم جس پیار سے میری خدمت کر رہی ہو اس نے میرے سوچیں بدل ڈالی ہیں
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہوں میرے مرشد! شمونہ نے کہا میری عمر نہ دیکھے میری تربیت دیکھیں میں سلطان ملک شاہ کے یہاں اس تربیت کا عملی تجربہ کر آئی ہوں سلطان کا مشیر خاص احتشام مدنی جو زاہد اور پارسا تھا میرے سامنے موم کی طرح پگھل گیا تھا میں نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ آپ مجھے نادان نہ تجربے کار اور کمسن لڑکی نہ سمجھتے رہیں میں کسی بھی آدمی کے دل کی بات اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے پڑھ لیا کرتی ہوں
شمونہ! نوراللہ نے کہا تم فوراً وہ بات کیوں نہیں کہہ دیتی جو تمہارے دل میں ہے
ڈرتی ہوں میرے آقا!
مت ڈرو نوراللہ نے کہا اللہ سچ بولنے والوں کو پسند کرتا ہے
لیکن اللہ کے بندے سچ سننے کی تاب نہیں رکھتے شمونہ نے کہا اگر آپ اللہ کی خوشنودی کے طلبگار ہیں تو میں بے خوف ہو کر بات کروں گی میں بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ میں آپ کے سامنے بیٹھتی ہوں تو آپ کی آنکھوں میں وہی تاثر ہوتا ہے جو میں عام سے لوگوں کی آنکھوں میں دیکھا کرتی ہوں پھر میں نے تین بار آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ میں دن کے وقت سوئی ہوئی ہوں اور آپ میرے پاس کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں آپ نے میرے سر اور میرے منہ پر ہاتھ بھی پھیرا ہے
کیا تمہیں یہ اچھا نہیں لگا ؟
نوراللہ نے پوچھا
اگر آپ کو یوں ہی اچھا لگا ہے تو میں کچھ نہیں کہوں گی شمونہ نے کہا لیکن میں یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ میں آپ کو کتنی اچھی لگتی ہوں؟
شمونہ! نوراللہ نے لپک کر شمونہ کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے لیا تم نے میری آنکھوں میں جو پڑھا ہے ٹھیک پڑھا ہے اور تم نے غلط نہیں کہا کہ تمہیں سویا ہوا دیکھ کر میں تین چار دن تمہارے پاس جا کھڑا ہوا اور تمہیں دیکھتا رہا تھا
کس نیت سے؟
اس نیت سے کہ تمہیں اپنی زندگی کی رفیقہ بنالوں نوراللہ نے کہا کیا تم مجھے قبول کرو گی؟
نہیں میرے مرشد شمونہ نے جواب دیا
کیا میں چالیس برس کی عمر میں بوڑھا ہو گیا ہوں؟
نہیں اے مقدس ہستی شمونہ نے کہا میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کروں گی یہ بات بھی ہے کہ میں نے آپ کو کبھی اپنی سطح پر لا کر دیکھا ہی نہیں میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:18 }
میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا
مجھے شک ہے تم مجھ سے اپنی قیمت وصول کرنا چاہتی ہو نوراللہ نے غصیلے لہجے میں کہا میں تمہیں شادی کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں ہوس کاری کے لیے نہیں
اپنی محنت پر پانی نہ پھیریں میرے آقا شمونہ نے کہا میں بھٹک گئی تھی آپ نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے میں نے تو سنا تھا کہ آپ تاریک الدنیا ہیں میں بھول گئی تھی میں کون ہوں آپ نے میری آنکھوں کے آگے سے پردے ہٹادئیے میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے میری نگاہ میں آپ فرشتہ ہیں
جاؤ شمونہ نوراللہ نے کہا جاؤ سو جاؤ صرف ایک بات کہوں گا میں نے دنیا کو ترک نہیں کیا تھا دنیا نے مجھے ترک کر دیا تھا
شمونہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہ نوراللہ کی بات سننے کے لیے پھر بیٹھنے لگی تھی لیکن نوراللہ نے اسے کہا جاؤ سو جاؤ تو وہ اپنے کمرے میں چلی گئی
شمونہ کو اس کے کمرے میں بھیج کر وہ خود وہیں بیٹھا رہا اس کا ذہن پیچھے کو چل پڑا اور وہاں جاکر روکا جہاں اس کا شعور بیدار ہوا اور وہ بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچ گیا اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بچوں کے ساتھ پیار بھی کیا جاتا ہے اسے کوئی عورت یاد نہیں آئی جس نے اسے گود میں لیا ہو صرف ایک بات تھی جو اس کے ذہن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی جہاں تک اس کی یاد ماضی کے دوسرے اوفق تک جاتی تھی وہ اپنے آپ کو دجلہ کے کنارے ایک کشتی کو صاف کرتا اس میں سے پانی نکالتا کشتی میں مسافروں کا سامان رکھتا اور ساحل کی ہر قسم کی مشقت کرتا دیکھتا تھا اس وقت اس کی عمر چھ سات سال تھی جب اسے ان کاموں پر لگا دیا گیا تھا اس مشقت کے عوض اسے دو وقت کی روٹی اور اپنے آقاؤں کی پھٹکار اور دھتکار ملتی تھی
دس گیارہ سال کی عمر میں اسے بتایا گیا تھا کہ وہ اس جھوپڑی میں پیدا نہیں ہوا تھا جس جھوپڑی میں وہ رہتا تھا اور جس کے رہنے والوں کو وہ اپنا والدین سمجھتا تھا یہ لوگ ملاح تھے جو مسافروں کو کشتی کے ذریعے دریا پار کراتے تھے ایک روز اس پر یہ انکشاف ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے یہ دریا سیلابی تھا اور ایک کشتی پار والے کنارے سے اس طرف آ رہی تھی اور یہ مسافروں سے اٹی پڑی تھی کشتی اتنے زیادہ مسافروں کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں تھی کشتی دریا کے وسط میں پہنچی تو اچانک سیلاب کا زور بڑھ گیا کشتی الٹ گئی
ملاحوں نے مسافروں کو بچانے کے لیے اپنی اپنی کشتیاں دریا میں ڈال دیں لیکن سیلاب اتنا تیز و تند تھا کہ مسافر تنکوں کی طرح سیلاب میں گم ہوتے چلے جا رہے تھے ایک کشتی کو اس کے ملاح خاصا آگے لے گئے انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جس نے دودھ پیتے ایک بچے کو اپنے ہاتھوں میں لیے اس طرح اوپر اٹھا رکھا تھا کہ بچہ ڈوب نہ جائے ملاح نے کشتی اس کے قریب کرکے بچے کو پکڑ لیا دوسرے ملاح نے ہاتھ لمبا کیا کہ عورت کو بھی سیلاب میں سے نکال لے لیکن عورت میں اتنی تاب نہیں رہی تھی کہ وہ دو گز اور تیر سکتی اس نے دیکھا کہ بچہ بچ گیا ہے تو اس نے اپنے آپ کو سیلاب کے حوالے کردیا اور ملاحوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی
اس بچے کو ملاحوں نے اس طرح پالا کہ اسے کبھی بکری کا دودھ پلایا اور کبھی اونٹنی کا وہ چار پانچ سال کا ہوا تو اسے کشتی رانی کی مشقت پر لگا دیا
ان ملاحوں نے اس بچے کا نام نوراللہ رکھا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھے
نوراللہ کو دس گیارہ سال کی عمر میں پتہ چلا کہ اس کے ماں باپ دریا میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے پالا تھا تو اس کے دماغ میں جو دھماکا ہوا وہ اسے چالیس برس کی عمر میں بھی یاد تھا وہ اسی کو زندگی سمجھتا تھا جس میں ملاحوں نے اسے ڈال دیا تھا لیکن اس انکشاف نے اس پر ایسی کیفیت طاری کر دی جسے وہ بھٹکا ہوا راہی ہوں اور اپنی منزل کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو
ایک روز کشتی سے مسافر اترے تو ایک امیر کبیر آدمی نے اسے کہا کہ اس کا سامان اٹھا کر وہاں تک پہنچا دے جہاں سے اونٹ مل جاتے ہیں نوراللہ نے اس کا سامان وہاں تک پہنچا دیا اور واپس چل پڑا، اس آدمی نے اسے بلایا اور ایک دینار اجرت دی دس گیارہ سال عمر کا نوراللہ دینار کو ہاتھ لگاتے ڈرتا تھا اس آدمی نے اسے کہا کہ یہ اس کا حق ہے
دنیا میں میرا کوئی حق نہیں نوراللہ نے کہا کسی پر میرا حق نہیں میں مشقت کرتا ہوں اور روٹی اور رات کو جھوپڑی کی چھت مل جاتی ہے ذرا سی سستی کرو تو مجھے مارا پیٹا جاتا ہے میں یہ اجرت لے کر جاؤں گا تو وہ لوگ مجھ سے چھین لیں گے تمہارا باپ ہے؟
نہیں اسی دریا میں ڈوب گیا تھا
ماں ہے؟
نہیں وہ بھی ڈوب گئی تھی
کوئی بھائی کوئی چچا ماموں
نوراللہ نے اسے وہ سارا واقعہ سنا دیا جو کچھ دن پہلے اسے سنایا گیا تھا
میرے ساتھ چلو گے؟
اس امیرکبیر آدمی نے پوچھا اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر کہا تنخواہ بھی ملے گی روٹی بھی ملے گی کپڑے بھی ملیں گے اور رہنے کو بہت اچھی جگہ ملے گی
نوراللہ نے یہ پہلا شخص دیکھا جس نے اس کے ساتھ پیار سے بات کی تھی اور اسے اس قابل سمجھا تھا کہ اسے اچھی جگہ رکھا جائے اچھی قسم کا روٹی کپڑا دیا جائے اور اجرت بھی دی جائے وہ وہیں سے اس شخص کے ساتھ چل پڑا
دونوں کرائے کے ایک ہی اونٹ پر سوار ہوئے اور شام کو شتربان نے انہیں ایک بڑے شہر میں پہنچا دیا یہ شہر نیشا پور تھا یہ آدمی وہی کا رہنے والا تھا اس کی حویلی بڑی ہی شاندار تھی وہاں اس شخص کی دو بیویاں رہتی تھیں ایک ادھیڑ عمر اور دوسری نوجوان تھی نوراللہ کو اس گھر میں نوکر رکھ لیا گیا وہاں ایک عورت پہلے سے ملازم تھی
نوراللہ روزمرہ کے کام کاج کرتا رہا اسے اتنی زیادہ سہولت میسر آ گئی تھی کہ وہ یوں سمجھتا تھا جیسے جہنم سے نکل کر جنت میں آگیا ہو کھانے پینے کو اتنا اچھا ملتا تھا کہ گیارہ بارہ سال کی عمر میں وہ سولہ سترہ سال کا نوجوان نظر آنے لگا
ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا
ایک روز اس کا آقا اپنی ادھیڑ عمر بیوی اور بچوں کو ساتھ لے کر کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر چلا گیا پیچھے اس کی نوجوان بیوی رہ گئی اس سے اگلی رات کا واقعہ ہے ملازمہ اپنا کام کاج ختم کر کے جا چکی تھی نوراللہ کو ایسے شک ہوا جیسے کوئی آدمی حویلی کے صحن میں سے گزرا ہے اس نے اٹھ کر دیکھا ایک آدمی اس کی نوجوان مالکن کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا ،نوراللہ دوڑ کر گیا دروازہ بند ہوچکا تھا اس نے دروازے پر دستک دی دروازے کھلا اور مالکن باہر آئی
کیا ہے؟
مالکن نے پوچھا
یہ کون ہے جو اندر آیا ہے؟
نوراللہ نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے پوچھا
تم کون ہو پوچھنے والے ؟
حسین اور نوجوان مالکن نے بڑے رعب سے پوچھا
میں آقا کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں نوراللہ نے کہا آقا کہہ گئے ہیں کہ گھر میں تم ہی ایک مرد ہو گھر کا خیال رکھنا
مالکن نے اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا تھپڑ کی آواز پر وہ آدمی جو کمرے میں گیا تھا باہر نکل آیا
کون ہے یہ؟
اس شخص نے پوچھا
میرا پہرے دار بن کے آیا ہے لڑکی نے کہا میں اس کی زبان ہمیشہ کے لئے بند کر دوں گی
اس شخص نے نوراللہ کو بازو سے پکڑا گھسیٹ کر اندر لے گیا اور اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دیا پھر اس کی شہ رگ پر پاؤں رکھ کر دبا دیا اور خنجر نکال کر اس کے اوپر جھکا
میں اس کا پیٹ چیر دوں گا اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کے پیٹ پر رکھ کر کہا اس کی لاش باہر کتوں کے آگے پھینک دوں گا
آج اسے معاف کر دو نوجوان مالکن نے اپنے آشنا کو پَرے ہٹاتے ہوئے کہا یہ زبان بند رکھے گا اس نے کبھی بھی زبان کھولی تو اس کے دونوں بازو کاٹ کر اسے جنگل میں پھینک دینگے پھر اسے گیدڑ اور بھیڑیے کھائیں گے
نوراللہ اٹھ کھڑا ہوا وہ سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا
وعدہ کر کے تو زبان بند رکھے گا اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کی شہہ رگ پر رکھ دی اور کہا خاموشی سے چلا جا اور خاموش رہنا
نوراللہ ظلم و تشدد سے بہت ڈرتا تھا وہ چپ چاپ خوفزدگی کی حالت میں اپنے کمرے میں چلا گیا
اس کے بعد اس کے آقا کی واپسی تک یہ آدمی دو تین مرتبہ رات کو اس کی مالکن کے پاس آیا اور نوراللہ اپنے کمرے میں دبکا پڑا رہا اس کا آقا واپس آیا تو نوراللہ کی جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنے آقا کو بتاتا کہ اس کی غیر حاضری میں یہاں کیا ہوتا رہا ہے
ایک بار چھوٹی مالکین نے نوراللہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور پیار سے بات کرنے کی بجائے اسے پھر وہی دھمکی دی کہ اس کا پیٹ پھاڑ کر یا بازو کاٹ کر اسے بھیڑیوں کتوں اور گیدڑوں کے آگے پھینک دیا جائے گا
نور اللہ کا کوئی مذہب نہیں تھا نہ اس نے کبھی سوچا تھا کہ مذہب کے لحاظ سے وہ کون اور اس کا آقا کون ہے نہ اس نے خود کبھی عبادت کی تھی نہ اس نے اپنے آقا یا اس کی بیویوں کو عبادت کرتے دیکھا تھا اس میں یہ احساس بیدار ہو گیا تھا کہ مذہب انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے اس سے تین چار آدمی پوچھ چکے تھے کہ وہ مسلمان ہے یا عیسائی وہ کسی کو بتاتا کہ وہ مسلمان ہے اور کسی کو عیسائی بتاتا ایک بار ایک آدمی نے اسے کہا تمہارا آقا تو باطنی معلوم ہوتا ہے اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ باطنی کیا ہوتے ہیں
ایک رات اس کے آقا نے اسے شراب لانے کو شراب خانے بھیجا وہ مسجد کے قریب سے گزرا عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور خطیب درس دے رہا تھا نوراللہ کے کانوں میں خطیب کے یہ الفاظ پڑے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہمیں ان لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام نازل ہوا ہے نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا خطیب سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کر رہا تھا نوراللہ کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے اسے صرف یہ احساس ہوا کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے
نوراللہ جلدی میں تھا اس کا آقا شراب کے انتظار میں تھا وہ دوڑا گیا شراب خریدی اور اپنے آقا کو جا دی اس کے ذہن میں خطیب کے یہ الفاظ اٹک کے رہ گئے تھے جو اس نے مسجد کے دروازے میں کھڑے ہو کر سنے تھے وہ بھی مدد اور سیدھے راستے کی رہنمائی کا طلب گار تھا
اگلی رات نوراللہ روزمرہ کے کام کاج سے فارغ ہو کر مسجد کے دروازے پر جا پہنچا خطیب روزمرہ کی طرح درس دے رہا تھا نوراللہ دروازے میں جا کر کھڑا ہوگیا خطیب نے اسے دیکھا تو اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ ڈرتے جھجکتے خطیب کے پاس چلا گیا
دروازے میں کھڑے کیا کر رہے تھے؟
خطیب نے پوچھا
آپ کی باتیں سن رہا تھا نوراللہ نے جواب دیا کل باہر کھڑا سنتا رہا ہوں
مسلمان ہو؟
معلوم نہیں نوراللہ نے بڑی سادگی سے جواب دیا میں یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں اس وقت ایک شیخ کے گھر ملازم ہوں
خطیب نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور اسے بتایا کہ جس شیخ کا اس نے نام لیا ہے وہ بے دین ہے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کس فرقے کا آدمی ہے اور اس کا عقیدہ کیا ہے ؟
کل سے تم میرے پاس آ جایا کرو خطیب نے اسے بڑے پیار سے کہا اب تم چلے جاؤ
اگلے روز سے نوراللہ خطیب کے پاس جانا شروع کر دیا اس نے خطیب کو بتایا کہ اس کے ماں باپ سیلاب میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے سیلاب سے نکالا تھا اس نے خطیب کو اپنی گزری ہوئی زندگی کا ایک ایک لمحہ سنایا خطیب نے اسے پڑھانا لکھانا شروع کردیا یہ خالصتاً دینی تعلیم تھی نوراللہ نے اس میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا تقریباً ایک سال بعد اس نے خطیب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس شیخ کی نوکری چھوڑ کر خطیب اور مسجد کی خدمت کرنا چاہتا ہے خطیب نے اسے اپنے پاس رکھ لیا
نوراللہ نے پندرہ سال اس خطیب کے ساتھ گزارے اور دین کے امور میں خاصی دسترس حاصل کر لی خاص بات یہ ہوئی کہ اس کے ذہن میں ابلیس اٹک گیا اس کا عقیدہ بن گیا کہ ہر برا کام ابلیس کرواتا ہے
دوسری خاص بات یہ ہوئی کہ خطیب کی ایک ہی بیوی تھی جو صرف تین سال کی رفاقت کے بعد مر گئی اور خطیب نے دوسری شادی نہ کی خطیب نے کسی کو بھی نہ بتایا کہ اس نے دوسری شادی کیوں نہیں کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ اسے اس بیوی سے اتنا زیادہ پیار تھا کہ اس نے کسی اور عورت کو قبول ہی نہ کیا یا یہ بات تھی کہ اس بیوی سے وہ اس قدر نالاں تھا کہ مر گئی تو خطیب نے شادی سے توبہ کرلی وجہ جو کچھ بھی تھی خطیب نے اپنے شاگرد نوراللہ کو عورت سے متنفر کردیا اور اس کے ذہن میں یہ عقیدہ ڈال دیا کہ عورت گناہوں کی علامت ہوتی ہے اور ابلیس عورت کے زیادہ قریب ہوتا ہے
چند برس اور گزرے تو خطیب فوت ہوگیا نوراللہ ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ وہ مسجد کو بھی چھوڑ گیا اور جنگل میں ایک کٹیا سی بنا کر وہاں جا ڈیرہ لگایا اب وہ عالم دین کہلانے کے قابل ہو چکا تھا خطیب کے جو شاگرد تھے وہ نوراللہ کے پاس جنگل میں پہنچنے لگے اور نوراللہ نے انہیں درس دینا شروع کر دیا اس کی شہرت اور اس کا نام ابو مسلم رازی تک پہنچا ابومسلم رازی رے کا امیر شہر تھا دینی علوم سے اسے روحانی لگاؤ تھا وہ اتنی دور جنگل میں جا کر نوراللہ سے ملا اور اس سے متاثر ہوا متاثر بھی اتنا ہوا کہ ایک روز اس کے لئے سواری ساتھ لے کر اسے اس میں بٹھایا اور اپنے شہر میں لے آیا شہر میں اسے بڑا اچھا مکان دیا اور کہا کہ یہاں وہ جو جی چاہے کرے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دے لوگ اس کے پاس آنے لگے بعض لوگ اس سے اتنا زیادہ متاثر ہو گئے تھے کہ اس سے غریب کا حال معلوم کرتے تھے وہ زیادہ تر ابلیس اور عورت پر زور دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ان دو چیزوں سے اپنے جسم اور اپنی روح کی حفاظت کرو
آج نوراللہ اسی مکان میں بیٹھا تھا جو اسے ابومسلم رازی نے دیا تھا لیکن اس پر جو کیفیت طاری تھی وہ کوئی اجنبی دیکھتا تو یہ تسلیم نہ کرتا کہ یہ شخص عالم فاضل ہے وہ اسے ذہنی مریض سمجھتا اسے اپنا ماضی یاد آرہا تھا شمونہ اپنے کمرے میں گہری نیند سو گئی تھی اسے احساس ہی نہیں تھا کہ نوراللہ کے وجود میں اور جذبات میں وہ کیسے زلزلے برپا کر آئی ہے
اسی نوراللہ نے جس نے ہمیشہ یہ سبق دیے تھے کہ عورت سے دور رہو شمونہ سے کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے لیکن شمونہ جو گنہگاروں کی پروردہ تھی گناہوں کی دنیا سے نکل کر پارسائی میں داخل ہو گئی تھی اس شمونہ نے نوراللہ سے کہہ دیا تھا میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کرونگی شمونہ نے یہ بھی کہا تھا میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا
نوراللہ کی آنکھوں کے آگے سے اس کا پورا ماضی تیز رفتار گھوڑا گاڑیوں کی قطار کی مانند گزر گیا وہ اپنے وجود میں پیاس کی تلخی محسوس کر رہا تھا ایک تشنگی تھی کچھ محرومیاں تھیں جو کانٹوں کی طرح اس کے حلق میں چبھ رہی تھی تلخی بڑھتی چلی گئی
دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ذات سے ایک شعلہ اٹھا جس نے اس کے علم و فضل کو جلا ڈالا
وہ اپنے لئے اجنبی بن گیا
وہ بڑی تیزی سے اٹھا اور اس کمرے میں داخل ہو گیا جس میں شمونہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی اس رات شمونہ نے دروازہ بند نہیں کیا تھا کیونکہ اسے توقع تھی کہ نوراللہ اسے بلائے گا وہ لیٹی اور نیند نے اسے دبوچ لیا
نوراللہ اس کے پلنگ پر جا بیٹھا کمرہ تاریک تھا برآمدے میں جلتے ہوئے دیے کی ہلکی ہلکی روشنی دروازے سے اندر آ رہی تھی جس میں سوئی ہوئی شمونہ کا سراپا دھندلا سا نظر آ رہا تھا
شمونہ گہری سانسیں لے رہی تھی نوراللہ کی سانسیں بے قابو سی ہو گئی اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اس نے ہاتھ شمونہ کی طرف بڑھایا یہ ہاتھ کچھ لرزتا ہوا آہستہ آہستہ شمونہ کے پر شباب جسم کی طرف بڑھ رہا تھا ہاتھ جب شمونہ کے جسم کے قریب گیا تو آسمان پر اچانک گھٹاؤں کی گرج سنائی دی نوراللہ نے یکلخت ہاتھ پیچھے کھینچ لیا جیسے چوری کرتے عین موقعے پر پکڑا گیا ہو جب اسے احساس ہوا کہ یہ گھٹاؤں کی گرج تھی تو اس کے دل کو حوصلہ ملا
آپ! شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا یہاں کیوں؟
مت گھبراو شمونہ! نوراللہ نے شمونہ کا ہاتھ چھوڑے بغیر کہا آج وہ پیاس مجھے جلا کر راکھ کر رہی ہے جسے میں نے پہلے کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا میری ایک بات سن لو
شمونہ کچھ ایسی ڈری کے وہ پلنگ پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کو سرکنے لگی نوراللہ نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف بڑے آرام سے کھینچا
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا نوراللہ نے ایسی آواز میں کہا جو اس کی قدرتی آواز لگتی ہی نہیں تھی مجھے بہن کا پیار نہیں ملا میں بیٹی کے پیار سے محروم رہا میں نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ لگا کر بھی نہیں دیکھا لیکن تم میرے قریب آئی تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ جس عورت کو میں نفرت کی علامت سمجھتا رہا ہوں وہ پیار کا سرچشمہ ہے تم ہو وہ سرچشمہ مجھ سے دور نہ ہٹو اس نے شمونہ کو ذرا زور سے اپنی طرف کھینچا
نہیں میرے مرشد! شمونہ نے روندھی ہوئی سی آواز میں کہا میں بدی سے نیکی کی طرف شر سے خیر کی طرف آئی ہوں مجھے اس راستے پر آپ نے ہی ڈالا تھا آپ اس طرف نہ جائیں جدھر سے میں واپس آئی ہوں مجھے اللہ اور ابلیس کے درمیان بھٹکتا نہ چھوڑیں
میری بات سمجھنے کی کوشش کرو شمونہ! نوراللہ نے ایسی ڈگمگائی ہوئی آواز میں کہا جیسے وہ نشے میں ہو تھوڑی سی دیر کے لئے مجھے بھٹک جانے دو مجھے پیاسا نہ لوٹاؤ
آسمان پر بجلی بڑی زور سے کڑکی پھر گھٹا گرجی اور اس کے ساتھ ہی طوفان باد باراں شروع ہو گیا دروازے کے کھلے کواڑ زور زور سے بجنے لگے برآمدے میں دیا بجھ گیا نوراللہ نے شمونہ کو اپنی طرف کھینچا شمونہ کا سینہ بڑی زور سے نوراللہ کے سینے سے ٹکرایا نوراللہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسے اپنے بازوؤں میں لینے لگا تو شمونہ اچھل کر پیچھے ہٹی اور بڑی زور سے ایک تھپڑ نوراللہ کے منہ پر مارا
تم لوگوں کو جس ابلیس سے ڈراتے ہو شمونہ نے بڑے ہی غضب ناک لہجے میں کہا وہ ابلیس تم خود ہو
شمونہ اچھل کر پلنگ سے اٹھی اور فرش پر کھڑی ہو گئی اسے توقع ہوگی کہ نوراللہ اس پر جھپٹے گا لیکن اندھیرے میں نوراللہ کے قدموں کی آہٹ ابھری جو شمونہ کی طرف بڑھنے کی بجائے دروازے کی طرف جا رہی تھی شمونہ وہیں دبکی کھڑی رہی نوراللہ باہر نکل گیا شمونہ کو اب یہ خوف محسوس ہونے لگا کہ نوراللہ رسی لینے گیا ہے اور وہ اسے باندھ لے گا یا چھری چاکو لا کر اسے قتل کر دے گا ڈر کے مارے وہ پلنگ کے نیچے چھپ گئی
نوراللہ صحن میں چلا گیا بارش بہت ہی تیز تھی اور اس کے ساتھ جھکڑ اور زیادہ تیز و تند تھا
مجھے سکون دو نوراللہ نے بڑی بلند آواز میں کہا مجھے انسان کامل بنا دو
شمونہ نے یہ آواز سنی اور پلنگ کے نیچے دبکی رہی
نوراللہ پر دیوانگی طاری ہو چکی تھی وہ اسی حالت میں باہر نکل گیا شہر کے لوگوں نے طوفان باد باراں کی بھیانک شور و غل میں بڑی بلند آوازیں سنیں مجھے سکون دو میں جل رہا ہوں میرے اللہ بادباراں کو اور تیز کردے میری روح کو تلخیوں سے نجات دلادے
شہر کے لوگوں نے یہ آوازیں مسلسل سنیں اور یہ دور ہٹتی گئیں اور پھر طوفان کے شوروغل میں تحلیل ہو گئی اور لوگ یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ کسی کی بھٹکی ہوئی مظلوم بد روح ہے جو فضا میں چیختی چلاتی جا رہی ہے
شمونہ پلنگ کے نیچے چھپی کانپ رہی تھی
نوراللہ شہر سے نکل کر جنگل میں چلا گیا اور وہ بازو پھیلائے چلاتا چلا جا رہا تھا کہ مجھے سکون دو شہر سے کچھ دور چھوٹی سی ایک ندی تھی جس میں بچے بھی گزر جایا کرتے تھے لیکن اوپر اتنی زور کا مینہ برسا تھا کہ ندی میں طغیانی آ گئی تھی ہر طرف پانی ہی پانی تھا ندی پانی میں ہی کہیں چھپ گئی تھی نوراللہ کچھ اور آگے گیا تو ایک ٹہن درخت سے ٹوٹ کر اس طرح گرا کے نوراللہ کے سر پر لگا وہ تو پہلے ہی دیوانگی کے حالت میں تھا اسے یہ احساس بھی نہ تھا کہ جا کہاں رہا ہے سر پر ٹہن گرا تو اس پر غشی طاری ہونے لگی وہ گرا تو چند قدم آگے ندی کے کنارے پر گرا کنارہ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا سیلاب نوراللہ کو اپنے ساتھ ہی بہا لے گیا
اسے اللہ نے سیلاب میں نئی زندگی دی تھی اور یہ زندگی سیلاب نے ہی واپس لے لی شمونہ صبح تک پلنگ کے نیچے چھپی رہی صبح ڈرتے ڈرتے باہر نکلی تو نوراللہ وہاں نہیں تھا طوفان تھم چکا تھا شمونہ گھر سے نکلی اور ابو مسلم رازی کے یہاں چلی گئی اور اسے رات کی ورادات سنائی
ابلیس ہر انسان کی ذات میں موجود ہوتا ہے ابو مسلم رازی نے شمونہ سے کہا ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ابلیس انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تمہارا اب کیا ارادہ ہے؟
میں آپ کی پناہ میں آئی تھی شمونہ نے التجا کی مجھے اپنی پناہ میں رکھیں یہ تو میرا ایک ارادہ ہے میرا ایک ارادہ اور بھی ہے آپ نے کہا ہے کہ ایک خوبصورت عورت کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے یہ آپ نے ٹھیک کہا ہے حسن بن صباح لوگوں کو اور امراء وزراء کو اپنا مرید بنانے کے لیے عورت کی یہی طاقت استعمال کر رہا ہے میں اس کی اس طاقت کو زائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں اس ارادے کی تکمیل کے لئے میں آپ کے زیر سایہ رہنا چاہتی ہوں
اسی روز شہر میں مشہور ہو گیا کہ رات کو ایک بے چین بدروح طوفان باد باراں میں چلاتی گزر گئی تھی مجھے سکون دو مجھے سکون دو یہ باتیں امیر شہر تک پہنچی تو شمونہ نے بھی سنی اس نے بتایا کہ یہ الفاظ نوراللہ نے اپنے گھر کے صحن میں کہے تھے پھر وہ باہر نکل گیا تھا وہی باہر بھی یہی نعرہ لگا کے گیا ہوگا
تیسرے چوتھے دن شہر میں کچھ دور آگے ایک جگہ نوراللہ کی لاش مل گئی
تو کڑیاں ملاتے یہ کہانی سامنے آئی جو داستان گو نے سنائی ہے یہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا یہ آگے چل کر سنایا جائے گا کہ شمونہ نے اس داستان میں کیا رول ادا کیا تھا
حسن بن صباح اپنی گرفتاری کی اطلاع قبل از وقت مل جانے سے رے سے فرار ہوگیا تھا اس نے خلجان پہنچنا تھا وہ اپنے خاص آدمیوں کو کہہ گیا تھا کہ شمونہ کو بھی خلجان پہنچا دینا وہاں وہ اسے سزائے موت دینا چاہتا تھا وہ خود بھی خلجان نہ پہنچ سکا تاریخ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خلجان کی طرف اونٹ پر جا رہا تھا وہ شتر بانوں کے بھیس میں تھا اس کی رفتار معمول کے مطابق تھی تاکہ کسی کو شک نہ ہو اس نے ابھی آدھا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ پیچھے سے ایک تیز رفتار گھوڑسوار گیا اور اسے جالیا وہ حسن بن صباح کے اپنے گروہ کا آدمی تھا
کیا خبر لائے ہو ؟
حسن نے اس سے پوچھا
خلجان نہ جائیں گھوڑ سوار نے کہا ہمارا خیال ہے سلجوقی امیر کو شک ہو گیا ہے کہ آپ خلجان جا رہے ہیں شاید وہ لوگ آپ کے تعاقب میں آئیں گے کسی اور طرف کا رخ کرلیں
حسن رک گیا کچھ دیر سوچا
میں اصفہان چلا جاتا ہوں اس نے کہا تم خلجان چلے جاؤ وہاں کے امیر احمد بن عطاش کو ساری بات سنا کر بتانا کے میں اصفہان جا رہا ہوں وہاں میرا ایک پرانا دوست رہتا ہے نام ابوالفضل ہے ہم امام موافق کے مدرسے میں اکٹھے پڑے تھے اب اس کا شمار شہر کے رئیسوں میں ہوتا ہے وہ مجھے پناہ دے گا اور مدد بھی کرے گا
احمد بن عطاش سے کہنا کہ میں کچھ دنوں بعد خلجان پہنچ جاؤں گا اور یہ بھی کہنا کہ شہر میں کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اس کے پیچھے اپنے جاسوس ڈال دو وہ سلجوقیوں کا جاسوس ہو سکتا ہے اسے زندہ نہیں چھوڑنا
میں آپکی بات سمجھ گیا ہوں گھوڑ سوار نے کہا ہمیں یہاں زیادہ دیر رکنا نہیں چاہیئے
گھوڑسوار خلجان کی طرف اور حسن بن صباح اصفہان کی طرف چلا گیا
تاریخ سے پتہ نہیں چلتا وہ کتنے دنوں بعد اصفہان پہنچا ابوالفضل اصفہانی کے گھر کا راستہ پوچھا اور اس کے گھر جاپہنچا ابوالفضل کو ملازم نے اندر جا کر اسے بتایا کہ ایک شتربان آیا ہے
ابوالفضل نے کہا کہ اس نے کسی شتربان کو نہیں بلایا نہ کسی شتربانوں کی اجرت اس کے ذمے ہے
اس سے پوچھو کیوں آیا ہے؟
ابوالفضل نے ملازم سے کہا
آقا پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟
ملازم نے باہر جاکر حسن سے پوچھا ان کا کسی شتربان سے کوئی کام نہیں ہو سکتا
آقا سے کہو یہ شتربان آپ سے ملے بغیر نہیں جائے گا حسن بن صباح نے کہا
ملازم اندر گیا اور واپس آکر وہ حسن کو اندر لے گیا معمولی سے ایک کمرے میں بٹھایا ایک تو وہ شتر بانوں کے لباس میں تھا دوسرے وہ بڑی مسافت طے کر کے آیا تھا چہرے پر تھکن کے آثار بھی تھے ابوالفضل اصفہانی اس کمرے میں گیا تو وہ حسن کو پہچان نہ سکا حسن نے قہقہہ لگایا تو ابوالفضل نے اسے پہچانا اور اسے اس کمرے میں لے گیا جس میں اعلی رتبہ کے مہمانوں کو بٹھایا جاتا تھا
وہ کچھ دیر مدرسے کے زمانے کی باتیں کرتے رہے پھر ابوالفضل نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے؟
یوں سمجھو آسمان سے گرا ہوں حسن بن صباح نے کہا میں مرو سے آیا ہوں سلطان ملک شاہ نے مجھے اپنا معتمد خاص بنا لیا تھا یہ تو تم جانتے ہو کہ ہمارا پرانا دوست نظام الملک سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم ہے حسن بن صباح نے جھوٹ بولا سلطان مجھے اپنا وزیراعظم بنا رہا تھا لیکن نظام الملک نے خفیہ طریقے سے سلطان کو میرا دشمن بنا دیا اور پھر مجھے عہدے سے معزول کرا کے شہر بدر کروا دیا
دبستان مذاہب کے حوالے سے آئمہ تلبیس میں لکھا ہے کہ ابو الفضل نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
میں سلجوقی سلطنت کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے تم جیسے دو دوست مل جائیں تو میں اس ترک ملک شاہ اور خواجہ حسن طوسی کا جو نظام الملک بنا پھرتا ہے پہلے خاتمہ کر دوں
ابوالفضل چپ رہا اتنے میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا
ابوالفضل نے ایک الماری سے ایک شیشی نکالی اور اس میں جو سفوف پڑا ہوا تھا اس میں ذرا سا سفوف ایک پیالے میں پانی ڈال کر گھولا
لو حسن! اس نے پیالا حسن کو دیتے ہوئے کہا یہ پی لو
یہ کیا ہے ؟
اس نے پوچھا
یہ دماغی تقویت کے لئے ایک دوائی ہے ابوالفضل نے کہا تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے کہ تھکان نے تمہارا دماغ شل کر دیا ہے ورنہ تم ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کرتے کہ تم سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک کا خاتمہ کر دو گے حالانکہ تمہیں پوری طرح احساس ہے کہ سلجوقی نہ آتے تو اسلام کی بنیادیں جو کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی تھیں پوری عمارت کو لے بیٹھتیں مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ان فرقوں کے اندر فرقے بن رہے ہیں اسلام کی توڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے سلجوقیوں نے اسلام کی بنیادیں مضبوط کر دی ہیں اور قرآن کے اس فرمان کے مطابق کے امت ایک جماعت ہے ایک جماعت کی حکومت قائم کردی ہے تم جیسا مسلمان یہ کہے کہ وہ سلطنت سلجوق کا خاتمہ کر دے گا تو یہ ثبوت ہے کہ وہ دماغی توازن کھو بیٹھا ہے یا کسی وجہ سے اس کے دماغ پر عارضی اثر ہوگیا ہے تمہارے دماغ پر سفر کی تھکان کا اثر ہے یہ دوائی پی لو دماغ تروتازہ ہو جائے گا
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے لکھا ہے حسن بن صباح اپنے پرانے دوست ابوالفضل اصفہانی کے ہاں پناہ اور مدد امداد کے لیے گیا تھا لیکن اس کے دوست نے اسے دماغی خرابی کا مریض قرار دے دیا
حسن کو ایک مایوسی تو یہ ہوئی کہ اس کا دوست سلجوقیوں کا حامی ہی نہیں بلکہ پیروکار نکلا اس کے ساتھ ہی اسے خطرہ محسوس ہوا کہ ابو الفضل کو اس کی اصلیت اور گرفتاری سے فرار کا پتہ چل گیا تو وہ اسے گرفتار کرا دے گا
حسن بن صباح نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے اور رسول اللہﷺ کا شیدائی ہے اسماعیلیوں میں جاتا تو اپنے آپ کو اسماعیلی بتاتا تھا حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنا ہی ایک فرقہ بنا رہا تھا اور اس نے نبوت کا دعوی کرنا تھا اس نے ابو الفضل کے ہاتھ سے پیالہ لے کر دوائی پی لی کھانا کھایا اور باتوں میں محتاط ہوگیا ابوالفضل نے اسے جلدی سلا دیا
وہ صبح بہت جلدی جاگ اٹھا اپنے میزبان سے کہا کہ وہ اس سے رخصت چاہتا ہے وہ وہاں سے بھاگنے کی فکر میں تھا ابوالفضل کے گھر سے نکل کر وہ خلجان کی طرف روانہ ہو گیا وہاں گرفتاری کا خطرہ تو تھا لیکن وہ احمد بن عطاش سے مل کر آئندہ پروگرام بنانا چاہتا تھا
دو تین دنوں کی مسافت طے کر کے وہ خلجان پہنچ گیا اس کا بہروپ اتنا کامیاب تھا کہ احمد بن عطاش بھی اسے نہ پہچان سکا اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ گرفتاری کا خطرہ ابھی ہے یا ٹل گیا ہے دوسری بات یہ پوچھی کہ شمونہ آئی ہے یا نہیں؟
شمونہ کے متعلق اسے بتایا گیا کہ نہیں آئی البتہ یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ فرار ہو گئی ہے
اس صورت میں اسے قتل کرنا ضروری ہے حسن بن صباح نے کہا اسے یہاں لاکر قتل کرنا تھا لیکن اب وہ ہمارے لیے زیادہ خطرناک ہوگئی ہے اگر وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی تو ہمارا سارا کھیل بے نقاب ہو جائے گا
تمہیں یہاں سے نکالنے کی ایک بڑی اچھی صورت پیدا ہوگئی ہے احمد بن عطاش نے کہا مصر کے دو عالم آئے ہیں تم جانتے ہو کہ مصر پر اسماعیلیوں کی حکومت ہے وہ میرے مہمان اس طرح ہوئے کے ہمیں وہ اسماعیلی سمجھتے ہیں میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم اسماعیلی فرقے کے لوگ ہیں یہ دونوں تبلیغ کے لیے آئے ہیں ان میں ایک داعی الکبیر کہلاتا ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ اسے ایسے ذہین اور پراثر گفتار والے آدمی دیے جائیں جو اسماعیلی عقائد اور مسلک کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو اس فرقے میں لائیں
میں ان میں شامل ہو جاتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مصر جانے کے ارادے سے یہ تو میں پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ مصر جاؤ اور وہاں کے حکمرانوں کو قائل کروں کہ وہ سلجوقیوں پر حملہ کریں اور ہم انہیں نفری اور دیگر ضروریات کی مدد دیں گے ہمارا پہلا شکار سلجوقی سلطنت ہے اس کا ہم نے خاتمہ کر دیا تو اس پر قابض ہونے والوں کے ہم پاؤں نہیں لگنے دیں گے
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مصر پر عبیدیوں کی حکمرانی تھی جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اسماعیلی ہیں لیکن وہ باطنی تھی یہ جو دو عالم خلجان گئے اور احمد بن عطاش سے ملے اسماعیلی ہی تھے جو اپنے فرقے کے مبلغ تھے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھی معلوم نہیں تھا کہ مصر کے حکمران اسماعیلی نہیں بلکہ باطنی ہے
ایک روایت یہ بھی ہے کہ دونوں عالم دراصل باطنی تھے اور اسماعیلیت کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھرتے تھے داستان گو کے لیے یہ عالم کوئی ایسے اہم نہیں کہ ان کے متعلق حتمی طور پر کہیں کہ وہ کس فرقے کے لوگ تھے اہم بات یہ ہے کہ حسن بن صباح مصر جانا چاہتا تھا اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان عالموں سے ملا اور تبلیغ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں دوسروں پر اپنا طلسم طاری کرنے کا ڈھنگ اسے آتا تھا اس کی زبان میں جادو کا اثر تھا اس نے عالموں کو متاثر کر لیا اور انہوں نے اسے تبلیغ کے لیے رکھ لیا حسن نے انہیں کہا کہ وہ اپنے علاقے میں تبلیغ کرنے کی بجائے مصر چلا جائے تو زیادہ بہتر ہے اس نے ایسے دلائل دیے جن سے یہ عالم متاثر ہو گئے اور اسے مصر جانے کے لیے تمام سہولتیں اور رقم وغیرہ دے دیں حسن مصر کو روانہ ہو گیا اپنے دو آدمیوں کو ساتھ لے گیا
دو مہینوں کے سفر کے بعد حسن بن صباح مصر پہنچ گیا اور سیدھا اس وقت کے حکمران کے پاس گیا اس نے حکمران کو بھی متاثر کر لیا لیکن اسے یہ نہ بتایا کہ وہ اسماعیلی عقائد کی تبلیغ کرنے کے لیے آیا ہے اس نے حکمران پر دھاک بٹھانا شروع کر دی کہ وہ بہت بڑا عالم ہے اور وہ وزارات کے رتبے کا آدمی ہے اس نے اپنے متعلق یہ بھی بتایا کہ وہ غیب دان بھی ہے اور آنے والے وقت کی پیشنگوئی بھی کر سکتا ہے
عبیدی حکمران اتنے کچے نہیں تھے کہ فوراً ہی ایک اجنبی کی باتوں میں آ جاتے انہوں نے ظاہر یہ کیا کہ وہ اس سے متاثر ہوگئے ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنے جاسوس لگا دیے ان میں ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی جس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ پہلی نظر میں ہی حسن کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے
حسن جان نہ سکا کہ وہ خود جو حربہ دوسروں کو ہاتھ میں لینے کے لیے استعمال کیا کرتا ہے وہی حربہ اس پر استعمال ہو رہا ہے
حسن بن صباح کی حکمرانوں نے ایسی پذیرائی کی جیسے وہ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ ہو اس نے وہاں درپردہ اپنا ایک گروہ بنانا شروع کر دیا اور اس لڑکی کو بھی اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کیا
اس کے ساتھ ہی اس نے حکمرانوں کو یہ مشورہ دینے شروع کر دیے کہ وہ سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں انہیں وہ اس قسم کی پیشنگوئیاں سناتا تھا کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے اور وہ خود ایک فرشتہ بن کر مصر میں آیا ہے
عبیدی حکمران یہی تو دیکھ رہے تھے کہ یہ شخص کیا کرنے آیا ہے وہ دو عالم جنہوں نے اسے مصر بھیجا تھا وہ بھی واپس مصر آ گئے وہ اسماعیلی مبلغ تھے جن کا عبیدی حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ وہ اسماعیلی نہیں تھے ایک روز حسن بن صباح ان عالموں کے بلاوے پر ان سے ملنے چلا گیا جاسوسوں نے حکمرانوں کو بتایا اس دوران جاسوسوں نے حکمرانوں کو یہ بھی اطلاع دی تھی کہ اس شخص کی کارروائی صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی معلوم ہوتی ہیں
حسن بن صباح کے متعلق صحیح اطلاعیں تو اس لڑکی نے دی جسے اس کے ساتھ لگایا گیا تھا اور جس نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے
حکمرانوں کے لئے یہی کافی تھا اور وہ یہی معلوم کرنا چاہتے تھے ایک رات حسن اس لڑکی کو پاس بٹھائے شراب پی رہا تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور دو آدمی اندر آئے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں انہوں نے حسن بن صباح کو ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور پھر اسے پیادہ چلاتے قید خانے تک لے گئے تب اسے بتایا گیا کہ سلطان وقت کے حکم سے اسے قید خانے میں ڈالا جا رہا ہے اور یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اسے کب رہائی ملے گی یا رہائی ملے گی بھی یا نہیں
مورخ لکھتے ہیں کہ اس نے قید خانے کے دروازے پر کھڑے ہوکر نعرہ لگایا مجھے قید کرنے والوں تمہاری تباہی اور بربادی کا وقت آ گیا ہے
اسے قید خانے میں تو دھکیل دیا گیا اور پھر ایک کوٹھری میں بند کر دیا گیا لیکن جس طرح اس نے تباہی کا نعرہ لگایا تھا وہ ایسا تھا کہ سننے والوں پر خوف طاری ہو گیا تھا یہ خبر حکمران تک پہنچ گئی
وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ شیطان کو بڑی ڈھیل دیتا ہے وہ حسن بن صباح کے معاملے میں بالکل صحیح ثابت ہوا اسے جس قید خانے میں بند کیا گیا تھا اس کا نام قلعہ دمیاط تھا یہ ایک قدیم قلعہ تھا ہوا یوں کہ جس رات حسن بن صباح کو اس قید خانے میں پھینکا گیا اسی رات اس قلعے کا سب سے بڑا برج گر پڑا یہ تو کسی نے بھی نہ دیکھا کہ برج کے گرنے کی وجہ کیا ہے سب پر یہ خوف طاری ہوگیا کہ یہ حسن بن صباح کی بد دعا کا نتیجہ ہے سلطان مصر کو اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو مصر سے نکال دیا جائے
اتفاق سے ایک بحری جہاز کسی دور کے سفر پر روانہ ہو رہا تھا تاریخ کے مطابق اس کے تمام مسافر عیسائی تھے حسن بن صباح کے ساتھ اس کے دو آدمی بھی تھے جو اس کے ساتھ ہی آئے تھے جہاز ساحل سے بہت دور سمندر کے درمیان پہنچا تو بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا بادبان اڑنے لگے پانی جہاز کے اندر آنے لگا اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ جہاز ڈوب جائے گا
جہاز کے عملے اور مسافروں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی ہر کوئی جہاز میں سے پانی باہر نکالنے میں مصروف تھا کچھ لوگ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے جہاز اور مسافروں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے صرف حسن بن صباح تھا جو ایک جگہ بڑے آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا جہاز کے کپتان نے اسے دیکھ لیا
کون ہو تم ؟
کپتان نے حسن بن صباح کو ڈانٹتے ہوئے کہا سب لوگ مصیبت میں گرفتار ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہنس رہے ہو اٹھو اور کوئی کام کرو
طوفان گزر جائے گا نہ جہاز کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ کوئی مسافر زخمی یا ہلاک ہوگا مجھے خدا نے بتا دیا ہے
کچھ ہی دیر بعد طوفان تھم گیا جہاز کو کوئی نقصان نہ پہنچا تمام مسافر زندہ اور سلامت تھے جہاز کے کپتان کے لیے یہ ایک معجزہ تھا
تم کون ہو؟
کپتان نے حسن بن صباح سے پوچھا
میں طوفان لا بھی سکتا ہوں روک بھی سکتا ہوں حسن بن صباح نے جواب دیا
میں جہاز رانی میں بوڑھا ہو گیا ہوں کپتان نے کہا میں نے ایسے شدید طوفان میں سے کبھی کوئی جہاز ٹھیک ٹھاک نکلتے نہیں دیکھا یہ ایک معجزہ ہے کہ میرا جہاز اس طوفان سے نکل آیا ہے
یہ معجزہ میرا ہے حسن بن صباح نے کہا
میں تمہیں کچھ انعام دینا چاہتا ہوں کپتان نے کہا کہو کیا انعام دوں؟
اگر انعام دینا ہے تو ایک کام کرو حسن بن صباح نے کہا جہاز کا رخ موڑو اور مجھے حلب پہنچا دو ایسا ہو سکتا ہے کہ میں جہاز میں موجود رہا تو ایک بار پھر طوفان آجائے کپتان بہت ہی خوف زدہ تھا اس نے جہاز کا رخ موڑا اور حلب کا رخ کرلیا حلب پہنچ کر حسن بن صباح اور اس کے دو ساتھیوں کو اتار دیا
یہ بتاؤ حسن! اس کے ساتھی نے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ چل گیا تھا کہ جہاز طوفان سے خیریت سے نکل آئے گا؟
بے وقوفوں! عقل سے کام لو حسن بن صباح نے کہا اگر جہاز ڈوب جاتا تو مجھے یہ کہنے کے لئے کوئی بھی زندہ نہ رہتا کہ میری پیشن گوئی غلط نکلی ہے میں نے سوچ لیا تھا کہ طوفان گزر جائے گا تو سب پر میری دھاک بیٹھ جائے گی اور پھر میں کپتان سے اپنی یہ بات منوا لونگا کہ مجھے ملک شام کی بندرگاہ حلب پہنچا دے ایسا ہی ہوا ہمارا کام ہوگیا حسن بن صباح حلب سے بغداد گیا اور ایک بار پھر اصفہان جا پہنچا وہاں سے اس کا جو سفر شروع ہوا وہ ایسے پراسرار واقعات کا تسلسل ہے جس پر تاریخ آج تک محو حیرت ہے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:19 }
داستان گو نے کہا ہے کہ حسن بن صباح جہاذ سے حلب اترا اور وہاں سے بغداد اور بغداد سے اصفہان پہنچا
کوئی غلط فہمی نہ رہے اس لئے داستان گو داستان کو ذرا پیچھے لے جاتا ہے پہلی بات یہ ہے کہ حلب بندرگاہ نہیں بندرگاہ انطاکیہ تھی جہاں جہاز لنگر انداز ہوا اور حسن بن صباح وہاں اترا تھا حلب وہاں سے ساٹھ میل دور ہے حلب سے وہ بغداد گیا یہ چار سو میل کی مسافت ہے بغداد سے وہ اصفہان گیا یہ فاصلہ بھی چار سو میل ہے اس طرح حسن بن صباح انطاکیہ سے اصفہان تک آٹھ میل سفر کیا
گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر عام رفتار سے چلنے سے یہ ایک مہینے کا سفر تھا تیز رفتار سے جلدی بھی طے ہوسکتا تھا لیکن حسن بن صباح اپنی منزل اصفہان تک چھ ماہ بعد پہنچا تھا
اسے اصفہان تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی اسے جلدی صرف یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے زیر اثر لے لے اور ان کی عقل پر اس طرح قابض ہو جائے کہ بلا سوچے سمجھے وہ اس کے اشاروں پر ناچیں آگے چل کر حالات بتائیں گے کہ حسن بن صباح کی ذہن میں اشاروں پر ناچنا مشہور عام مہوارہ ہی نہیں تھا وہ اپنے پیروکاروں کو دیوانگی یا پاگل پن کے اس مقام پر لے جانا چاہتا تھا جہاں وہ کسی سے کہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو تو وہ اپنا خنجر اپنی ہی دل میں اتار لے حسن بن صباح نے اپنے پیروکاروں کو جو فدائین کہلاتے تھے اس مقام پر لے آیا تھا اور اس نے یہ مظاہرے کرکے بھی دکھا دیئے اور اپنے دشمنوں کو حیرت میں ہی نہیں بلکہ خوف میں مبتلا کر دیا تھا حسن بن صباح کی سوانح حیات افسانے سے زیادہ دلچسپ اور طلسم ہوشروبا سے زیادہ حسین اور پراسرار ہے
کوئی بھی انسان صرف اس صورت میں سنسنی خیز پراسرار اور چونکا دینے والی داستان کا ہیرو بنتا ہے جب بنی نوع انسان کی محبت میں وہ دیوانہ ہو جاتا ہے یا وہ انسان ہیرو بنتا ہے جس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کا شائبہ تک نہ رہے اور اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہو اور وہ آسمان میں اور زمین پر سورج چاند اور ستاروں میں صرف اپنی ذات کو دیکھ رہا ہو اور ساری کائنات کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہو
ابتدا میں بیان ہو چکا ہے کہ ایسا انسان عورت ہو یا مرد خیر سگالی اور پیار و محبت کے جذبات سے عاری ہوتا ہے اس کا دل ابلیس کا آشیانہ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے شکار کے لئے پیار و محبت کا جال پھیلاتا خیر و برکت اور جذبہ ایثار کی ایسی اداکاری کرتا ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے یہ ھے ابلیس کا حسن اور شر کی سحر انگیزی
اللہ تبارک و تعالی نے ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ہے
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ
تو انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگیوں میں پڑے اور کھیلتے ہوئے یہاں تک کہ اپنے اس (عذاب کے) دن سے ملیں جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے
(سورہ المعارج:42)
حسن بن صباح اس دن سے پہلے پہلے جس دن کا اللہ نے وعدہ کیا ہے اپنے عزائم پورا کرنے کی کوشش میں تھا وہ جانتا تھا یہ حساب کا اور عذاب کا دن ہوگا
حسن بن صباح کو جس طرح مصر سے عبیدیوں نے نکالا اور جس طرح بحری جہاز طوفان کی لپیٹ میں آ کر نکلا اور جس طرح جہاز کے کپتان نے حسن بن صباح کو انعام کے طور پر شام کے ساحل پر اتارا وہ پیچھے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے وہاں سے تاریخ کی یہ پراسرار اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان یوں آگے چلتی ہے کہ انطاکیہ کی بندرگاہ میں اترنے والا اکیلا حسن بن صباح نہیں تھا اس کے ساتھ دو اس کے اپنے ساتھی تھے جو اس کے رازدار ہمدرد اور بہی خواہ تھے اور سات آٹھ آدمی جن میں ایک جوان عورت بھی تھی حسن بن صباح کے ساتھ انطاکیہ اتر گئے تھے ان سات آٹھ آدمیوں نے اس بندرگاہ پر اترنا تھا جو جہاز کی منزل تھی اور وہاں سے ملک شام جانا تھا ان کی خوش قسمتی کہ حسن بن صباح نے جہاز کا رخ شام کی طرف کروا لیا اور وہ پیدل سفر سے بچ گئے
ان کے ساتھ جو عورت تھی وہ اپنا چہرہ نقاب میں رکھتی تھی اس کی صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں ہوتا تھا اس کی پیشانی سفیدی مائل گلابی تھی جس پر ریشم کی باریک تاروں جیسے چند ایک بے ترتیب بال بہت ہی بھلے لگتے تھے اس کی آنکھیں صحرائی غزل جیسی تھیں جس میں خمار کا تاثر تھا جو ان آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے کو مسحور کرلیتا تھا اس کے کھڑے قد میں اور چال ڈھال میں جاذبیت تھی اور ایسا تاثر کہ یہ کوئی عام عورت نہیں اور اس کا تعلق کسی قبیلے کے سردار خاندان سے یا کسی بڑے ہی امیر کبیر تاجر خاندان سے ہے
یہ سب آدمی مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر رہے تھے انہوں نے اتنے زیادہ طوفان میں حسن بن صباح کو پرسکون بیٹھے اور مسکراتے دیکھا تھا اور وہ اسے پاگل سمجھتے تھے جسے یہ احساس تھا ہی نہیں کہ جہاز ڈوبنے والا ہے اور کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا پھر انہوں نے حسن بن صباح کی یہ پیشن گوئی سنی تھی کہ جہاز اس طوفان سے بخیر و خوبی گزر جائے گا
جہاز بپھرے ہوئے سمندر کی پہاڑوں جیسی طوفانی موجوں پر اوپر کو اٹھتا گرتا ڈولتا طوفان سے نکل گیا حسن بن صباح کے دونوں آدمیوں نے تمام مسافروں کو بتا دیا کہ جہاز کو اس برگزیدہ درویش نے طوفان سے نکالا ہے مسافروں نے حسن بن صباح کے ہاتھ چومے اور اس کے آگے رکوع میں جاکر تعظیم و تکریم پیش کی یہ سات آٹھ آدمی جو حسن بن صباح کے گرویدہ ہو گئے تھے سب سے زیادہ فائدہ تو انہیں پہنچا تھا یہ لوگ پیدل سفر سے بچ گئے تھے
انطاکیہ میں انہیں رکنا پڑا یہ سرائے میں چلے گئے حسن بن صباح اور اس کے دونوں ساتھیو نے الگ کمرہ لے لیا اور باقی آدمی ایک بڑے کمرے میں چلے گئے اس عورت اور اس کے خاوند کا کمرہ الگ تھا حسن بن صباح اور اس کے ساتھ ہی نہا چکے تھے اور اب انھوں نے سرائے کے لنگر سے کھانا لینے جانا تھا دروازے پر دستک ہوئی ایک آدمی نے دروازہ کھولا سرائے کا مالک آیا تھا
کیا میں خوش نصیب نہیں کہ آپ نے مجھے میزبانی کی سعادت عطا کی ہے سرائے کے مالک نے کہا میں سرائے کا مالک ابو مختار ثقفی ہوں ابھی ابھی آپ کے ہمسفروں نے مجھے اپنے بحری سفر کی داستان سنائی ہے خدا کی قسم جہاز میں آپ نہ ہوتے تو یہ لوگ مجھے اس طوفان کی کہانی سنانے یہاں نہ آتے
آؤ ثقفی! حسن بن صباح نے کہا بیٹھ کر بات کرو یہ تو بتاؤ ایک ثقفی اپنے وطن سے اتنی دور کیوں چلا آیا ہے؟
سنا ہے میرے آباء و اجداد حجاج بن یوسف سے عداوت مول لے بیٹھے تھے ابو مختار نے جواب دیا ان میں سے کچھ قتل کردئے گئے کچھ بھاگ کر وطن سے دور چلے گئے اور میرا کوئی بزرگ ادھر آ نکلا یہ سراۓ اس نے تعمیر کی تھی جو ورثے میں مجھ تک پہنچی ہے
کیا اس سرائے میں صرف مسلمان ٹھہرا کرتے ہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا
نہیں پیرومرشد! ابو مختار نے جواب دیا اس سرائے کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں یہ سرائے دنیا کی مانند ہے یہاں ہر مذہب ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ آتے ہیں کچھ دن گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں دنیا کی طرح اس سرائے میں بھی آمدورفت لگی رہتی ہے آپ جیسا ولی اللہ اور غیب کا بھید جاننے والا مدتوں بعد آتا ہے کیا مطلب کی بات نہ کہہ دوں؟
اجازت کی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے کہا
آج رات کا کھانا میری طرف سے قبول فرمائیں ابو مختار نے کہا اور میں نے آپ کے لئے الگ کمرہ تیار کیا ہے آپ اس کمرے میں آجائیں
کچھ دیر بعد حسن بن صباح اس کمرے میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا کھانا بہت ہیں پر تکلف تھا تین چار اور اجنبی بھی مدعو تھے یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جسے رنگا رنگ ریشمی پردوں اور فانوسوں سے سجایا گیا تھا آدھے سے زیادہ کمرہ خالی تھا دیوار سے دیوار تک دلکش رنگوں والا قالین بچھا ہوا تھا دسترخوان کمرے کے وسط میں نہیں بلکہ ایک طرف چوڑائی والی دیوار کے ساتھ بچھایا گیا تھا دیوار کے ساتھ گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے پیچھے دیوار کے ساتھ ایک قالین لٹک رہا تھا جس پر ہرے بھرے جنگل کا منظر بنا ہوا تھا اور اس میں ایک شفاف ندی بہتی دکھائی گئی تھی مختصر یہ کہ یہ شاہانہ انتظام اور یہ عالیشان ضیافت ایک اعزاز تھا جو حسن بن صباح کو دیا گیا تھا
میں آپکے مزاج سے واقف نہیں سرائے کے مالک نے حسن بن صباح سے کہا آپ کے ذوق کا بھی مجھے کچھ پتہ نہیں گستاخی ہی نہ کر بیٹھوں کیا آپ رقص گانا یا صرف سازوں کی موسیقی پسند کریں گے؟
تم نے مجھے کیا سمجھ کر یہ بات پوچھی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ایک برگزیدہ ہستی سرائے کے مالک نے جواب دیا اللہ کے جتنا قریب آپ ہیں وہ ہم جیسے گنہگار تصور میں بھی نہیں لا سکتے
اللہ نے کسی بندے پر کوئی نعمت حرام نہیں کی حسن بن صباح نے کہا رقاصہ کے فن سے لطف اندوز ہونا گناہ نہیں اس کے جسم کو اپنے قبضے میں لے کر اس سے لطف اور لذت حاصل کرنا بہت بڑا گناہ ہے
کیا اسلام نیم برہنہ رقاصہ کا رقص دیکھنے کی اجازت دیتا ہے ؟،
سرائے کے مالک نے پوچھا
ہاں ! حسن بن صباح نے جواب دیا اسلام جہاد میں ہر مسلمان سے جان کی قربانی مانگتاہے اور مسلمان نعرے لگاتے ہوئے جانوں کی قربانی دیتے ہیں اس لئے اسلام ہر مسلمان کو دنیا کی ہر نعمت اور ہر تفریح سے لطف اٹھانے کی اجازت دیتا ہے
ہم نے آج تک جو سنا ہے؟
وہ اسلام کے دشمنوں نے مشہور کیا ہے حسن بن صباح نے اپنے میزبانوں کی بات کاٹتے ہوئے کہا یہودیوں اور نصرانیوں نے دیکھا کہ اسلام تھوڑے سے عرصے میں آدھی دنیا میں مقبول ہوگیا ہے تو انہوں نے امام اور خطیب بن کر یہ بے بنیاد بات پھیلا دی کہ اسلام صرف قربانیاں مانگتا ہے اور دیتا کچھ بھی نہیں اور اسلام میں سوائے پابندیوں کے اور کچھ بھی نہیں
تاریخ میں آیا ہے کہ حسن بن صباح اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار کہلاتا تھا وہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر مشتعل کر کے انہیں اسلام کے خلاف استعمال کرتا تھا یہ ضرورت اسے اس لیے پیش آئی تھی کہ اس نے اپنی سرگرمیوں اور اپنے عزائم کے لئے جو علاقہ منتخب کیا تھا وہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کا علاقہ تھا
سرائے کے مالک نے حسن بن صباح کی یہ باتیں سنیں تو اس نے کھانے پر حاضری دینے والے ایک ملازم کی طرف اشارہ کیا ملازم بڑی تیزی سے باہر چلا گیا، فوراً ہی وہ واپس آگیا اس کے پیچھے چار پانچ سازندے ساز اٹھائے کمرے میں آئے اور قالین پر بیٹھ گئے
سازوں کی آواز ابھری تو نیم برہنہ رقاصہ یوں کمرے میں داخل ہوئی جیسے جل پری شفاف ندی میں تیرتی آ رہی ہو سازوں کی دھیمی دھیمی آواز سحر جگہ رہی تھی اور نوجوان رقاصہ کا مرمریں جسم ناگن کی طرح بل کھا رہا تھا اس کے بازو رقص کی اداؤں میں یوں اوپر نیچے اور دائیں بائیں ہو رہے تھے جیسے فردوس بریں کے ایک بڑے ہیں حسین پودے کی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل رہی ہوں فانوسوں کی رنگا رنگ روشنیوں کا اپنا ہی ایک حسن تھا
دسترخوان پر بیٹھے ہوئے مہمانوں کھانا بھول گئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس نوجوان رقاصہ نے سب کو ہپنا ٹائز کر لیا ہو لیکن حسن بن صباح اس لڑکی کو کسی اور ہی نظر سے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں کسی جوہری کے اس وقت کا تاثر تھا جب وہ ہیرا یا کوئی قیمتی پتھر پَرکھ رہا ہوتا ہے
اس ضیافت اس رقاصہ پھر ایک مغنیہ اور سازندوں نے اس رات کو الف لیلہ کی ایک ہزار راتوں جیسی ایک رات بنا دی تھا
آدھی رات گزر گئی تھی جب حسن بن صباح ضیافت سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں داخل ہوا سرائے کا مالک بھی اس کے پیچھے کمرے میں چلا گیا حسن بن صباح پلنگ پر بیٹھ گیا پیرومرشد! سرائے کے مالک نے نماز کی طرح اپنے دونوں ہاتھ پیٹ پر باندھ کر کہا کیا میں آپ کی خدمت میں کوتاہی تو نہیں کر رہا؟
یہ میرا مطالبہ نہیں تھا حسن بن صباح نے کہا مجھے تم بورئیے پر بٹھا کر اور روٹی پر دال رکھ کر دے دیتے تو بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اس کے ایک بندے نے مجھ پر اتنا بڑا کرم کیا ہے اب یہ بتا دو کہ تمہارے دل میں کوئی خاص مراد ہے یا تم کسی پریشانی میں مبتلا ہو؟
اے طوفانوں کا منہ پھیر دینے والے امام! سرائے کے مالک نے کہا پہلے اس شہر میں صرف میری سرائے تھی اور تمام مسافر میری سرائے میں آتے تھے تھوڑے عرصے سے دو یہودیوں نے ایک سرائے کھولی ہے وہ مسافروں کو شراب بھی پیش کرتے ہیں لڑکیاں بھی اس سے میری آمدنی بہت کم ہو گئی ہے آپ کو اللہ نے ایسی طاقت عطا کی ہے
ان کا بیڑہ غرق کرنا ہے یا اپنا بیڑا پار لگانا ہے؟
حسن بن صباح نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا
یہ فیصلہ آپ ہی کر سکتے ہیں حضور سرائے کے مالک نے کہا میں تو چاہتا ہوں کہ میری آمدنی پہلے جتنی ہو جائے
ہوجائے گی حسن بن صباح نے کہا کل ایک کالا بکرا ذبح کرو خواہ چھوٹا سا ہی ہو اس کے دونوں شانوں کی ہڈیاں میرے پاس لے آنا اور مجھے یہ بتاؤ کہ یہ رقاصہ کس کی ملکیت ہے
ایک بوڑھی رقاصہ کی بیٹی ہے یا ولی سرائے کے مالک نے جواب دیا زیادہ تر میں ہی اسے اپنی سرائے میں خاص مہمانوں کے لیے بلایا کرتا ہوں کیا حضور کے دل کو یہ اچھی لگی ہے؟
ہاں حسن بن صباح نے جواب دیا لیکن اس مقصد کے لیے نہیں جو تم سمجھ رہے ہو اگر تم اس کی ماں کو بلاؤ تو میں اسے اس لڑکی کے متعلق کچھ بتانا بہت ضروری سمجھتا ہوں وہ اس لڑکی کو صرف جسم سمجھتی ہو گی لیکن یہ کمسن لڑکی جسم سے کہیں زیادہ کچھ اور ہے
سرائے کے مالک نے ایک ملازم کو بلا کر کہا کہ رقاصہ اور اس کی ماں کو یہاں لے آئے وہ دونوں ابھی گئی نہیں تھیں اطلاع ملتے ہی آ گئیں سرائے کا مالک انہیں پہلے ہی حسن بن صباح کے متعلق بتا چکا تھا کہ یہ کوئی امام یا ولی ہیں اور اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی روحانی طاقت ہے جو طوفانوں کو روک دیتی ہے رقاصہ اور اس کی ماں نے بے تابی سے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ حسن بن صباح سے ملنا چاہتی ہیں وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہی تھیں کہ امام نے خود ہی انہیں بلا لیا تھا
وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو حسن بن صباح نے دیکھا کہ رقاصہ ابھی رقص کے لباس میں تھی یہ کوئی لباس نہیں تھا کمر سے اس نے ریشم کی رنگا رنگ رسیا لٹکا رکھی تھیں ان رسیوں نے اس کا کمر سے نیچے کا جسم ڈھانپ رکھا تھا لیکن وہ چلتی تھی یا ناچتی تھی تو اس کی ٹانگیں رسیوں سے باہر آ جاتی تھیں اس کے سینے کا کل لباس ایک بالشت تھا ان کے شانوں اور پیٹ کو اس کے نرم و ملائم بالوں نے ڈھانپ رکھا تھا جو اس نے کھلے چھوڑے ہوئے تھے
مستور ہو کر آ لڑکی! حسن بن صباح نے کہا میں تیرے جسم کا طلبگار نہیں میں تیری روح کو برہنہ کر کے دیکھوں گا اور تجھے بھی دکھاؤں گا تو اپنی روح سے ناآشنا ہے اس نے رقاصہ کی ماں سے کہا جا اسے ایسے کپڑے پہنا کے لا کہ اس کے صرف ہاتھ نظر آئیں اور کچھ چہرہ نظر آئے
ماں بیٹی چلی گئیں سرائے کا مالک وہیں بیٹھا رہا
تمہارا کام ہو جائے گا حسن بن صباح نے اسے کہا جب یہ ماں بیٹیاں آ جائیں تو تم چلے جانا اور صبح میرے پاس آنا
سرائے کا مالک بھی چلا گیا
رقاصہ اور اس کی ماں آ گئی رقاصہ نے ویسے ہی لباس پہن رکھا تھا جیسا حسن بن صباح نے اسے کہا تھا اس لیے اس نے اس کے چہرے کے نقش و نگار میں سحر انگیز نکھار پیدا کر دیا تھا وہ نوجوان تھی لیکن اب وہ کمسن لگتی تھی معصوم سی لڑکی
کیا تجھے یہ اس لباس میں اچھی نہیں لگتی؟
حسن بن صباح نے رقاصہ کی ماں سے پوچھا
ہاں مرشد! ماں نے جواب دیا یہ مجھے اسی لباس میں اچھی لگتی ہے
اس لیے یہ اچھی لگتی ہے کہ ایک پاک روح ہے حسن بن صباح نے کہا نا پاک جسم نہیں اس کی قیمت پہچان
میرے مرشد! رقاصہ کی ماں نے کہا میں بھٹکی ہوئی ایک بے آسرا عورت کیا جانوں ہم ماں بیٹی کا کل کیسا ہوگا ہم نے آپ کی کرامات سنی تو سرائے کے مالک سے التجا کی کہ مجھے آپ کے حضور پیش کر دے اور میں آپ سے پوچھوں کہ بیٹی کو اسی پیشے میں رکھوں یا کوئی اور راستہ دیکھوں مجھے آنے والے وقت کی کچھ خبر دیں
حسن بن صباح نے سحر اور علم نجوم میں دسترس حاصل کر لی تھی اس نے نوجوان رقاصہ کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پھیلایا اور اس کی آڑی ترچھی لکیریں پڑھنے لگا
رقاصہ نے اس انتظار میں حسن بن صباح کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں تھیں کہ خدا کا یہ برگزیدہ انسان جو بحری جہاز کو ایک خوفناک طوفان کے جبڑوں سے صحیح سلامت نکال لایا تھا وہ اس کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر کیا پیشن گوئی کرتا ہے
حسن بن صباح کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلیاں نظر آرہی تھیں ایک بار تو اس نے اپنا سر یوں پیچھے کیا جیسے رقاصہ کی ہتھیلی کی کوئی لکیر سانپ بن گئی ہو رقاصہ اور اس کی ماں بھی چونک پڑیں
کیا دیکھا ہے میرے مرشد؟
ماں نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا
پردے اٹھ رہے ہیں حسن بن صباح نے اس عورت کی طرف دیکھے بغیر زیر لب کہا
پھر اس نے رقاصہ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے کر ذرا اوپر اٹھایا
آنکھیں پوری کھلی رکھو اس نے رقاصہ سے کہا
اس کی آنکھوں نے رقاصہ کی آنکھوں کو جکڑ لیا حسن بن صباح نے دونوں انگوٹھوں سے رقاصہ کہ کنپٹیاں آہستہ آہستہ ملنی شروع کردیں وہ زیر لب کچھ کہہ رہا تھا
کچھ دیر بعد رقاصہ نے دھیمی سی آواز میں کہا میں نے سیاہ پردے کے پیچھے دیکھ لیا ہے میں جاؤں گی یہ جسم نہ گیا تو میں اس سے آزاد ہو کر وہاں پہنچ جاؤں گی
یہ جسم تمہارے ساتھ جائے گا حسن بن صباح نے کہا
یہ جسم میرے ساتھ جائے گا رقاصہ نے کہا
کیا کروں گی اس جسم کو ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یہ جسم ناچے گا نہیں رقاصہ نے کہا یہ دوسروں کو ناچائے گا
تمہیں ایک قلعہ نظر آرھا ھے حسن بن صباح نے کہا رقاصہ خاموش رہی حسن بن صباح نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے چھ سات مرتبہ کہا تمہیں ایک قلعہ نظر آرہا ہے
ہاں! رقاصہ نے کہا مجھے ایک قلعہ نظر آ رہا ہے
اس قلعے میں تم اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو؟
حسن بن صباح نے خواب ناک سی آواز میں کہا اور یہ الفاظ چند مرتبہ دہرائے
دیکھو ماں! رقاصہ نے بچوں کی طرح مچلتے ہوئے کہا میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہوں
اپنے آپ کو کس حال میں دیکھ رہی ہو؟
چار لڑکیاں ہیں رقاصہ نے کہا شہزادیاں لگتی ہیں میں انہیں جیسے لباس میں ہوں اور ہم سب ایک خوشنما باغ میں اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی ہیں
حسن بن صباح نے رقاصہ کا چہرہ چھوڑ دیا اور کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا رقاصہ نے اپنی آنکھیں تیزی سے جھپکیں اور سر جھکا لیا اس نے جب سر اٹھایا تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا وہ آنکھیں پھاڑے کبھی حسن بن صباح کو اور کبھی اپنی ماں کو دیکھتی تھی حسن بن صباح مسکرا رہا تھا
میں کہاں چلی گئی تھی؟
رقاصہ نے حیرت سے پوچھا میں ایک تاریکی میں سے گزری تھی اور آگے کوئی اور ہی دنیا آ گئی تھی
تمہاری اصل جگہ اس دنیا میں ہے جو تم نے دیکھی ہے حسن بن صباح نے کہا اب تم جہاں ہو یہ ایک فریب اور حسین دھوکا ہے یہاں تمہارا انجام بہت برا ہوگا میرے خدا نے تمہاری قسمت میں بہت اونچا مقام لکھا ہے میں نے تمہیں وہ مقام دکھا دیا ہے ماں کو بتاؤ تم نے کیا دیکھا ہے ؟
رقاصہ نے اپنی ماں کو بتایا
لیکن پیرومرشد! رقاصہ کی ماں نے پوچھا ہم اس مقام تک پہنچ کس طرح سکتے ہیں کیا آپ ہماری رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں؟
کرسکتا ہوں! حسن بن صباح نے کہا لیکن کرونگا نہیں میں تمہیں اس کی وجہ بھی بتا دیتا ہوں انسان کی فطرت ایسی ہے کہ میں تو انسان ہوں انسان اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتا میں نے دو تین آدمیوں کو اسی طرح ان کے اصل مقام دکھائے اور انہیں وہاں تک پہنچا بھی دیا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے میرے خلاف باتیں شروع کردیں اب تو میں کسی کو اس کے متعلق کچھ بتاتا نہیں تم عورت ہو اور مجبوریوں نے یا درہم و دینار کے لالچ نے تمہیں غلط اور خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے پھر مجھے تمہاری بیٹی کا خیال آتا ہے میں نے اسکا اصل روپ دیکھ لیا ہے تم نے اس پر بہروپ چڑھا دیا ہے میں اسے اس مقام تک پہنچانا چاہتا ہوں تم اس کے ساتھ رہو گی اور تمہیں تمہاری کھوئی ہوئی تعظیم اور تکریم ملے گی
پھر ہم پر کرم کیوں نہیں کرتے یا مرشد! ماں نے التجا کی
صرف ایک صورت میں کرم ہو سکتا ہے حسن بن صباح نے کہا اپنی سوچیں میرے حوالے کر دو اپنے آپ کو بھی میرے حوالے کردو
کر دیا مرشد! ماں نے کہا آپ جو حکم دیں گے ہم ماں بیٹی مانیں گے
پھر سن لو! حسن بن صباح نے کہا میں جب یہاں سے جاؤں گا تو تم دونوں میرے ساتھ چلو گی
چلیں گی یا مرشد! رقاصہ کی ماں نے کہا
آج کا رقص تمہارا آخری رقص تھا حسن بن صباح نے نوجوان رقاصہ سے کہا اب تمہاری نئی اور حقیقی زندگی شروع ہوگئی ہے جاؤ اور سو جاؤ صبح سے بیمار پڑ جانا سر کپڑے سے باندھ لینا اس سرائے والا یا دوسرے سرائے کے یہودی تمہیں رقص کے لیے بلانے آئیں تو ہائے ہائے شروع کر دینا جیسے تم اس بیماری سے مری جا رہی ہو میری کہنا کہ انہیں بلاؤ میرا علاج کریں میں آکر کوئی بیماری بتا کر سب کو ڈرا دوں گا کہ اس لڑکی کے قریب کوئی نہ آئے ورنہ اسے بھی یہ بیماری لگ جائے گی
ماں بیٹی چلی گئیں انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ اس شخص نے انہیں ایک عمل سے مسحور کر لیا تھا یہ تھا عمل تنویم جسے مغربی دنیا نے اپنی زبان میں ھیپناٹائزم کا نام دیا ہے حسن بن صباح نے رقاصہ کو اپنے کام کی چیز سمجھ کر اسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا اور رقاصہ کو وہی کچھ نظر آتا رہا جو حسن بن صباح نے اسے دکھانا چاہتا تھا
عمل تنویم کا تو اپنا اثر تھا حسن بن صباح کے بولنے کا انداز کا اپنا ایک اثر تھا جو سننے والے کو مسحور کرلیتا تھا یوروپی تاریخ نویسوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے جو دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے یہ تھے ابلیسی اوصاف
رقاصہ اور اس کی ماں کے جانے کے بعد حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے کمرے میں آئے
میں نے اپنی ترکش میں ایک اور تیر ڈال لیا ہے حسن بن صباح نے فاتحانہ انداز سے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ رقاصہ ایسا دانہ ہے کہ عقابوں اور شہبازوں کو بھی جال میں لے آئے گا
ہمارے ساتھ جا رہی ہے؟
اس کے ایک ساتھی نے پوچھا
دونوں ہمارے ساتھ جا رہی ہیں حسن بن صباح نے کہا
انہیں کسی طرح چھپا کر ساتھ لے جانا پڑے گا
یہ انتظام ہو جائے گا دوسرے نے کہا
دوسرے دن حسن بن صباح کے کمرے کے باہر اسے ملنے والوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا تھا لیکن کسی کو کمرے میں جانے نہیں دیا جا رہا تھا لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ امام عبادت میں مصروف ہیں
کچھ دیر بعد ایک آدمی اور ایک اور عورت اندر جانے کی اجازت دی گئی یہ میاں بیوی تھے اور یہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر تھے یہ وہی عورت تھی جس کا پہلے ذکر آیا ہے کہ چہرہ نقاب میں رکھتی تھی صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں تھا پیشانی اور آنکھوں سے پتہ چلتا تھا کہ عورت حسین ہے اس کے کھڑے قد میں کشش تھی اس کی چال ڈھال میں ایسا جلال سا تھا جس سے لگتا تھا جیسے یہ کسی سردار خاندان کی خاتون ہو بہرحال وہ کوئی معمولی عورت نہیں لگتی تھی
کمرے میں جا کر اس عورت کے خاوند نے حسن بن صباح کے آگے رکوع میں جاکر مصافحہ کیا وہ پیچھے ہٹا تو عورت نے آگے بڑھ کر حسن بن صباح کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پہلے آنکھوں سے ہونٹوں سے لگایا پھر اس کا ہاتھ احترام سے اس کی گود میں رکھ دیا
بیٹھ جاؤ میرے ہمسفرو! حسن بن صباح نے کہا اور خاوند سے پوچھا تم لوگ کہاں گئے تھے اور کس منزل کے مسافر ہو؟
ہماری منزل رے ہے خاوند نے جواب دیا میں اصلاً اصفہانی ہوں حافظ اصفہانی میرا نام ہے رزق کے پیچھے بہت سفر کیا ہے اور اللہ نے جھولی بھر کے رزق دیا ہے دوسری تلاش علم کی ہے علم کے حصول کے لیے بہت سفر کیا ہے سنا تھا مصر میں دو عالم ہے جن کے پاس علم کا سمندر ہے میں اپنی اس بیوی کو ساتھ لے کر مصر گیا تھا ان علماء سے ملا لیکن انہوں نے علم کو اپنے ہی ایک نظریے میں محدود کر دیا ہے
وہ عبیدی ہیں حسن بن صباح نے کہا اور ظاہر کرتے ہیں کہ اسماعیلی ہیں تم کس فرقے اور کس عقیدے کے آدمی ہوں؟
یاولی! حافظ اصفہانی نے کہا میں ایک اللہ کو مانتا ہوں جو وحدہٗ لاشریک ہے اس کے آخری کلام کو مانتا ہوں جو قرآن ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ کو مانتا ہوں جن کے ذریعہ اللہ کا کلام ہم تک پہنچا اس سے زیادہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میں کون سے فرقے سے تعلق رکھتا ہوں
اور اب رے کیوں جا رہے ہو ؟
ابومسلم رازی سےملونگا حافظ اصفہانی نے جواب دیا وہ وہاں امیر ہے اللہ کو ماننے والا حاکم ہے
اس سے تمہیں کیا حاصل ہوگا؟
میں نے اسے کچھ بتانا ہے حافظ اصفہانی نے جواب دیا میں خلجان گیا تھا وہاں ایک بڑا ہی خطرناک فرقہ سر اٹھا رہا ہے ایک شخص احمد بن عطاش نے خلجان پر قبضہ کر لیا ہے سنا ہے وہ شعبدہ بازی اور سحر کا ماہر ہے سنا تھا کہ قلعہ شاہ در اور خلجان کے درمیانی علاقے میں ایک پہاڑی پر اللہ کا ایلچی اترا تھا اور اس علاقے کے لوگوں نے اسے دیکھا ہیں اللہ کا ایلچی مان لیا ہے اس ایلچی کا نام حسن بن صباح ہے وہ آپ کا ہم نام ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ آپ کے نام کی توہین ہے آپ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو ولی کہوں یا امام کہوں؟
تم نے اس کا نام غلط سنا ہے حسن بن صباح نے کہا اس کا نام احسن ابن سبا ہے لوگوں نے اسے حسن بن صباح بنا دیا ہے
یہ تو بہت ہی اچھا ہے حافظ اصفہانی نے کہا اس کا صحیح نام سن کر مجھے روحانی اطمینان ہو گیا ہے آپ کے نام کی بے ادبی نہیں ہو رہی سنا ہے اس احسن ابن سبا کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں ایسا جادو ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس نے اور احمد بن عطاش نے لوگوں کی ایک فوج تیار کرلی ہے یہ باقاعدہ فوج نہیں لوگ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں انہیں تیغ زنی تیراندازی برچھی بازی اور گھوڑ سواری کی تربیت دی جاتی ہے
کیا تم ان لوگوں کے متعلق ابومسلم رازی کو بتاؤ گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہاں یا ولی! حافظ اصفہانی نے جواب دیا میں تو سلطان ملک شاہ تک بھی پہنچوں گا اور اسے اکساؤں گا کہ وہ اس باطل فرقے کو طاقت سے ختم کرے مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بڑی مدت سے یہ لوگ قافلوں کو لوٹ رہے ہیں وہ زروجواہرات لوٹتے ہیں اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں آٹھ دس سال عمر کی بچیوں کو بھی لے جاتے ہیں انہیں اپنے مذموم مقاصد اورعزائم کے مطابق تربیت دیتے ہیں زروجواہرات کا استعمال بھی یہی ہوتا ہے
میں جانتا ہوں حسن بن صباح نے کہا وہ بہت خطرناک لوگ ہیں
حافظ اصفہانی کو معلوم نہ تھا کہ اس نے جس حسن بن صباح کی بات سنی ہے وہ یہی شخص ہے جسے وہ ولی اور امام کہہ رہا ہے اور احمد بن عطاش اس کا استاد ہے حسن بن صباح حافظ اصفہانی سے یہ باتیں سن کر ذرا سا بھی نہ چونکا نہ اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار کیا بلکہ حافظ اصفہانی کی باتوں کی تائید کرتا اور احمد بن عطاش پر لعنت بھیجتا رہا
اب ایک عرض سن لیں یا ولی! حافظ اصفہانی نے کہا اجازت ہو تو کہوں
اجازت کی کیا ضرورت ہے حسن بن صباح نے کہا کہو وہ جو کہنا ہے
اولاد سے محروم ہوں حافظ اصفہانی نے کہا پہلی بیوی سے بھی اولاد نہیں ہوئی وہ فوت ہو گئی تو کچھ عرصے بعد میں نے اس کے ساتھ شادی کرلی
اس کے ساتھ کب شادی کی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھ
بارہ تیرہ سال ہوگئے ہیں حافظ اصفہانی نے جواب دیا اس کا پہلا خاوند ایک قافلے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا
کیا اس سے اس کا کوئی بچہ تھا؟
ایک بچی تھی حافظ نے جواب دیا نو دس سال کی تھی ڈاکو اسے اٹھا کر لے گئے تھے
بہت خوبصورت بچی تھی حافظ کی بیوی نے کہا مجھے اس سے بہت پیار تھا شاید یہ اس کے غم کا اثر ہے کہ میں کوئی بچہ پیدا نہ کر سکی
اور مجھے اس بیوی سے اتنا پیار ہے کہ میں صرف اولاد کی خاطر دوسری شادی نہیں کروں گا حافظ اصفہانی نے کہا آپ کو اللہ نے کرامت عطا کی ہے
چہرے سے نقاب ہٹا دو حسن بن صباح نے عورت سے کہا
عورت نے چہرہ بے نقاب کیا تو حسن بن صباح کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ بدک گیا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہو گی کہ یہ عورت غیر معمولی طور پر حسین تھی اس کی عمر زیادہ تھی لیکن اس کے چہرے پر معصومیت ایسی کے وہ پچیس چھبیس سال کی نوجوان لڑکی لگتی تھی
حسن بن صباح کے بدکنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے یوں لگا جیسے شمونہ نے اس کے سامنے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا ہو شمونہ وہ لڑکی تھی جسے حسن بن صباح مرو لے گیا تھا اور اسے اپنی بیوہ بہن بتایا اور نام فاطمہ بتایا تھا وہ نظام الملک کی جگہ وزیراعظم بننے کے لیے اس لڑکی کو استعمال کر رہا تھا کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور اسے اس لڑکی کے ساتھ شہر بدر کر دیا گیا تھا
اب اس کے سامنے جو چہرہ بے نقاب ہوا تھا وہ اسی لڑکی کا چہرہ تھا جس کا نام شمونہ تھا
تمہارا نام کیا ہے؟
حسن بن صباح نے اس سے پوچھا
میمونہ عورت نے جواب دیا
حسن بن صباح عام سے دماغ والا انسان نہیں تھا اس نے اپنے دماغ میں ایسی طاقت پیدا کر لی تھی جسے تین مورخوں نے مافوق العقل کہا ہے
میمونہ! حسن بن صباح نے کہا تمہیں واقعی اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی اس لیے تم نے اس کا نام شمونہ رکھا تھا یہ نام تمہارے نام سے ملتا ہے
یہ حسن بن صباح کی قیاس آرائیاں قافیہ شناسی تھی اس عورت کی بیٹی قافلے سے اغوا ہوئی تھی اور اس کی بیٹی کی شکل اس کے ساتھ ملتی تھی اس لیے حسن بن صباح نے بڑی گہری سوچ میں سے ہوا میں تیر چلایا جو ٹھیک نشانے پر جا لگا
یا امام! میمونہ نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا میں نے تو آپ کو اپنی بیٹی کا نام نہیں بتایا تھا
نہیں میمونہ! حسن بن صباح نے کہا اگر تمہارے بتانے سے مجھے تمہاری بیٹی کا نام معلوم ہوتا تو پھر میرا کیا کمال ہوا
یا امام! میمونہ نے کہا میں نے آپ کو امام مان لیا ہے آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو کہاں ہے؟
حسن بن صباح نے اپنے آپ پر مراقبہ کی کیفیت طاری کر لی آنکھیں بند کر لیں ہاتھوں سے عجیب طرح کی حرکتیں کرنے لگا پھر ایک بار اس نے تالی بجائی
کہاں مر گئے تھے اس نے کہا میرے سوالوں کے جواب دو ہوں اچھا وہ ہے کہاں؟
ٹھیک ہے ہاں تم جاسکتے ہو
وہ زندہ ہے حسن بن صباح نے مراقبے سے بیدار ہو کر میمونہ سے کہا اور اسے رے میں دیکھا گیا ہے
کیا یہ پتہ چل سکتا ہے کہ رے میں وہ کہاں مل سکتی ہے؟
میمونہ نے پوچھا
امیر شہر ابومسلم رازی سے اس کا سراغ مل سکتا ہے حسن بن صباح نے جواب دیا شمونہ کے ساتھ مجھے ابومسلم رازی کا چہرہ بھی نظر آیا ہے
کیا حسن بن صباح کو علم غیب سے اشارہ ملا تھا کہ شمونہ زندہ ہے اور رے میں ہے کیا اس نے کسی پر اسرار عمل کے ذریعے معلوم کر لیا تھا؟
نہیں داستان گو پچھلے سلسلے میں اصل حقیقت بیان کر چکا ہے حسن بن صباح نے رے سے مفرور ہوتے وقت حکم دیا تھا کہ شمونہ کو خلجان پہنچا دیا جائے جہاں دوسری لڑکیوں کے سامنے اسے قتل کیا جائے گا لیکن حسن بن صباح کو فرار ہوکر مصر جانا پڑا فرار سے پہلے اسے اطلاع مل گئی تھی کہ شمونہ کہیں بھاگ گئی ہے پھر اسے یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ شمونہ ابومسلم رازی کے پاس چلی گئی ہے
میمونہ یہ سمجھ رہی تھی کہ حسن بن صباح کو مراقبے میں یہ جنات نے بتایا ہے کہ شمونہ اس وقت کہاں ہے؟
کیا میری بیٹی مجھے مل جائے گی؟
میمونہ نے پوچھا
ہاں! حسن بن صباح نے جواب دیا مل جائے گی
یا امام! میمونہ نے کہا اب یہ بتا دیں کہ میرا کوئی اور بچہ ہوگا یا نہیں
حسن بن صباح ایک بار پھر مراقبے میں چلا گیا
نہیں نہیں کچھ دیر بعد آنکھیں بند کیں ہوئے وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے کے انداز سے بولا کچھ کرو کوئی طریقہ کوئی ذریعہ بتاؤ میں انہیں دو بچے دینا چاہتا ہوں اچھا ہاں بتاتا چلو قبر کی نشانی بتاؤ ٹھیک ہے
حسن بن صباح نے خاصی دیر بعد آنکھیں کھولیں
ایک بچے کی امید بندھ گئی ہے حسن بن صباح نے میمونہ کے خاوند سے کہا لیکن میرے جنات نے جو طریقہ بتایا ہے وہ ذرا خطرناک ہے ضروری نہیں کہ اس میں جان چلی جائے میں تمہاری حفاظت کا انتظام کر دوں گا لیکن خطرے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے
آپ طریقہ بتائیں حافظ اصفہانی نے کہا
یہ کام تمہیں ہی کرنا پڑے گا حسن بن صباح نے کہا میں کاغذ پر لکھ کر اور یہ کاغذ تہہ کرکے تمہیں دوں گا دن کے وقت قبرستان میں جاکر کوئی ایسی قبر دیکھ لینا جو بیٹھ گئی ہو ایک کدال ساتھ لے جانا قبر میں اتر جانا اور کدال سے اتنی مٹی نکال کر باہر پھینکنا جو تمہارے اندازے کے مطابق تمہارے جسم کے وزنی جتنا ہو مٹی دو بالشت چوڑی جگہ سے نکالنا تاکہ گڑھا بنتا چلا جائے یہ گڑھا اس طرف سے کھودنا ہے جس طرف مردے کا سر ہوتا ہے ہو سکتا ہے مردے کی کھوپڑی نظر آ جائے خدائی ختم کر دینا اور یہ کاغذ کھوپڑی پر رکھ کر کھودی ہوئی مٹی سے گڑھا بھر دینا اور واپس آ جانا اگر کھوپڑی نظر نہ آئے تو یہ اندازہ کرلینا کہ تمہارے جسم کے وزن جتنی مٹی نکل آئی ہے یہ کاغذ گڑھے میں رکھ کر گڑھا مٹی سے بھر کر آ جانا گیارہ دنوں بعد تمہیں میمونہ خوشخبری سنا دی گی
حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے
تم دونوں کو معلوم ہے کون سی قبر موزوں ہے اس نے ان دونوں ساتھیوں سے کہا صبح اسے ساتھ لے جانا اور قبرستان میں کوئی بہت پرانی اور بیٹھی ہوئی قبر اسے دکھا دینا رات کو یہ اکیلا جائے گا
حسن بن صباح نے کاغذ کے ایک پرزے پر کچھ لکھا منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر کاغذ پر پھونکیں ماریں کاغذ کی کئی تہہ کرکے حافظ اصفہانی کو دیا اور کہا کہ اسے کھول کر نہ دیکھے
حافظ اور اس کی بیوی میمونہ چلے گئے
تم نے اس شخص کی باتیں سنیں ہے حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ کوئی معمولی آدمی نہیں مالدار اور سردار ہے یہ ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے اسے بتائے گا کہ خلجان میں کیا ہو رہا ہے ؟
ہمارے خلاف طوفان کھڑا کرے گا ایک ساتھی نے کہا آپ حکم دیں کیا کرنا ہے؟
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے حسن بن صباح نے کہا کل رات یہ قبرستان سے زندہ واپس نہ آئے میں نے اسے سب کچھ تمہاری موجودگی میں بتایا ہے تمہیں قبرستان میں پہلے سے موجود ہونا چاہیے
اب یہ ہم پر چھوڑ دیں اس کے ساتھی نے کہا اس کی لاش اسی قبر میں پڑی ملے گی جس میں کھدائی کر کے وہ تعویذ رکھنے جائے گا
اس کی اس بیوی کا کیا بنے گا؟
دوسرے ساتھی نے پوچھا
یہ ہمارے ساتھ جائے گی حسن بن صباح نے کہا ہمارے کام کی عورت ہے ہو سکتا ہے اس کے ذریعے اس کی بیٹی شمونہ واپس آجائے
اگلے روز ابھی سورج طلوع ہوا ہی تھا کہ حافظ اصفہانی حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے میں گیا وہ انھیں قبرستان لے جانا چاہتا تھا دونوں تیار تھے اس کے ساتھ چلے گئے
وہ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا جس میں نئی قبریں بھی تھیں اور پرانی بھی اور کچھ اتنی پرانی کے اس کے ذرا ذرا سے نشان باقی رہ گئے تھے ضرورت ایسی قبر کی تھی جو بیٹھ گئی ہو یعنی جو اندر کو دھنس گئی ہو قبرستان کا یہ حصہ ایسا تھا جو بارشوں کے بہتے پانی کے راستے میں آتا تھا وہاں دھنسی ہوئی چند قبریں نظر آ گئیں ایک قبر اتنی زیادہ دھنس گئی تھی کہ اس میں مدفون مردے کی کھوپڑی اور کندھوں کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں
یہ قبر آپ کا کام کرے گی حسن بن صباح کے ایک ساتھی نے کہا آپ کو خدائی نہیں کرنی پڑے گی رات کو اس میں اترے اور امام کا دیا ہوا کاغذ اس کھوپڑی کے منہ میں رکھ دیں اور پھر اس پر کدال سے مٹی ڈال دیں
مٹی بہت ساری ڈالنا بھائی صاحب دوسرے ساتھی نے کہا اپنے وزن کے برابر مٹی ہو میں آپ کو ایک خطرے سے خبردار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں آپ کو ننگی کھوپڑی مل گئی ہے یہ آپ کی مراد پوری کر دی گئی اور بہت جلد کر دے گی لیکن آپ نے ذرا سی بھی بدپرہیزی یا بے احتیاطی کی تو یہ کھوپڑی آپ کی جان لے لے گی
پھر بھی اس موقعے سے ضرور فائدہ اٹھائیں دوسرا ساتھی بولا امام نے آپ کی حفاظت کا انتظام کر دیا ہے اللہ کا نام لے کر رات کو آ جائیں میں ضرور آؤں گا حافظ اصفہانی نے پرعزم لہجے میں کہا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ دن اس کی زندگی کا آخری دن ہے اور اس کی آنکھیں کل کا سورج نہیں دیکھ سکیں گے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:20 }
آدھی رات کے وقت وہ کدال اٹھائے قبرستان میں پہنچ گیا
چاندنی اتنی سی تھی جس میں دن میں دیکھی ہوئی قبر تک پہنچنا مشکل نہ تھا
وہ جب گھر سے چلا تھا تو میمونہ نے اسے روک لیا تھا
معلوم نہیں میرے دل پر بوجھ سا کیوں آپ پڑا ہے میمونہ نے کہا تھا کیا میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتی
نہیں میمونہ! حافظ نے کہا تمہارے سامنے امام نے کہا تھا کہ میں قبرستان میں اکیلے جاؤ یہ شرط ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی تو ہماری جانیں خطرے میں آ سکتی ہے
میری ایک بات مانیں میمونہ نے کہا تھا مجھے بچہ نہیں چاہئے آپ ہیں تو سب کچھ ہے اس وقت قبرستان میں نہ جائیں
تم تو بڑے مضبوط دل والی تھی میمونہ! حافظ نے بڑے پیارے انداز میں کہا تھا میں میدان جنگ میں نہیں جا رہا میں طوفانی سمندر میں نہیں جا رہا مجھے اللہ حافظ کہوں میمونہ میرے جانے کا وقت ہو رہا ہے
اللہ حافظ! میمونہ نے کہا
حافظ اصفہانی جب میمونہ کو اللہ حافظ کہہ کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میمونہ کو ہچکی سی آئی اور اس کا دل ڈوب گیا تھا جیسے اسے غیب سے اشارہ ملا ہو کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے
وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ کھلا رکھا اسے نیند آ جانی چاہیے تھی لیکن اسکے جسم کا روآں روآں ریشہ ریشہ بے کلی بڑھتی جا رہی تھی رات گزرتی جارہی تھی
رات کا آخری پہر شروع ہوگیا میمونہ کو ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تو دوڑ کر دروازے تک جاتی اور مایوس لوٹ آتی
اسے مؤذن کی آواز سنائی دی تو میمونہ کے دل سے ہُوک اٹھی موذن نے اذان کے الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ رات گزر گئی ہے
اتنا وقت نہیں لگنا چاہیے تھا اس کے دل نے کہا
دل کانپ رہا تھا اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا
اس نے وضو کیا اور مصلّے پر کھڑے ہو گئی فجر کی پوری نماز پڑھ کر اس نے نفل پڑھنے شروع کر دیئے ہر چار نفلوں کے بعد ہاتھ پھیلا کر اپنے خاوند کی سلامتی کی دعا مانگتی تھی
آنسو اس کا حسن دھوتے رہے اس کا دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ وہ اس کی آواز سن سکتی تھی
جب صبح کا اجالا سفید ہو گیا تو وہ حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے کی طرف اٹھ دوڑی دونوں ہاتھ زور زور سے دروازے پر مارے اور کواڑ دھماکے سے کھلے دونوں آدمی ناشتہ کر رہے تھے انہوں نے بدک کر دیکھا
حافظ آدھی رات کے وقت قبرستان میں گئے تھے میمونہ نے کہا ابھی تک نہیں آئے انہیں دیکھو
ہم دیکھنے جائیں گے ایک نے کہا ذرا دل مضبوط کریں وہ آ جائیں گے
اس شخص نے دراصل یہ کہنا تھا کہ حافظ اصفہانی کبھی واپس نہیں آئے گا
گزشتہ رات یہ دونوں حافظ اصفہانی سے پہلے قبرستان میں پہنچ گئے اور اس قبر سے کچھ دور ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے تھے چاندنی میں انہوں نے حافظ کو آتا دیکھ لیا وہ قبر میں اترا اور جھک کر کھوپڑی پر حسن بن صباح کا دیا ہوا تعویذ رکھنے لگا دونوں اٹھے اور حافظ کے عقب میں جا پہنچے حافظ نے تعویذ کھوپڑی پر رکھ دیا وہ جونہی سیدھا ہوا پیچھے سے دو ہاتھوں نے اس کی گردن شکنجے میں جکڑ لیا دوسرے آدمی نے اس کے پیٹ میں پوری طاقت سے گھونسا مارنے شروع کر دئیے
تھوڑی سی دیر میں حافظ کا جسم ساکت و جامد ہو گیا دونوں نے اچھی طرح یقین کر لیا کہ وہ مر گیا ہے اسے دھنسی ہوئی قبر میں لیٹا دیا اور واپس آگئے
صبح میمونہ ان کے کمرے میں گئی اور بتایا کہ اس کا خاوند واپس نہیں آیا دونوں نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور قبرستان کی طرف چل دیے میمونہ نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی انہوں نے اسے ساتھ لے لیا
قبرستان میں پہنچے تو دور سے انہیں اس قبر کے ارد گرد چند ایک آدمی کھڑے نظر آئے وہ میمونہ کے ساتھ پہنچے تو میمونہ کو دھنسی ہوئی قبر میں اپنے خاوند کی لاش پڑی دکھائی دی میمونہ کی چیخ نکل گئی لوگوں کی مدد سے لاش اٹھا کر سرائے میں لے آئے حسن بن صباح کو اطلاع ملی تو دوڑتا باہر آیا اسے تو اس کے ساتھیوں نے رات کو آ کر بتا دیا تھا کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل کر آئے ہیں حسن بن صباح نے انہیں خاص شراب پلائی تھی
یاد رکھو دوستوں! حسن بن صباح نے انہیں کہا تھا جس پر ذرا سا بھی شک ہو اسے ختم کر دو یہ شخص ہمارے لئے خطرناک ہو سکتا تھا اس کی بیوی اب ہمارے ساتھ رہے گی اس کے پاس مال و دولت بھی ہے یہ بھی اب ہمارا ہے جاؤ اور صبح کا انتظار کرو
صبح اسے اطلاع ملی کہ قبرستان سے حافظ اصفہانی کی لاش آئی ہے تو وہ کمرے سے دوڑتا نکلا اور لاش تک پہنچا اس نے لاش کو ہر طرف سے دیکھا دونوں ہتھیلیاں دیکھیں اور گھبراہٹ کی ایسی اداکاری کی کے دیکھنے والوں پر خوف و ہراس طاری ہوگیا اس نے میمونہ کو دیکھا جس کی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئی تھیں
میمونہ! حسن بن صباح نے کہا میرے ساتھ آؤ جلدی ایک لمحہ دیر نہ لگانا اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا تم بھی میرے ساتھ آؤ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے
وہ میمونہ اور اپنے ساتھی کو اپنے کمرے میں لے گیا اور دروازہ بند کر لیا
رونا بند کرو میمونہ! اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا فرش پر بیٹھ جاؤ تمہارا خاوند کوئی غلطی کر بیٹھا ہے ایک بڑی ہی خبیث بدروح نے اس کی جان لی ہے یہ بدروح ابھی تک غصے میں ہے میں نے اس کی سرگوشی سنی ہے تمہاری جان بھی خطرے میں ہے چونکہ یہ عمل اس لیے کیا گیا تھا کہ تمہاری کوکھ سے بچہ پیدا ہو اس لیے یہ بد روح تمہیں بھی اسی طرح مارنا چاہتی ہے میں ابھی تمہاری حفاظت کا انتظام کر دیتا ہوں
اس نے میمونہ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور کچھ بڑبڑانا شروع کردیا وقفے وقفے سے وہ میمونہ کی آنکھوں میں پھونک مارتا تھا میمونہ جو بلک بلک کر رو رہی تھی اور ایسی بے چین کے ہاتھ نہیں آتی تھی پرسکون ہونے لگی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے سکون اور اطمینان کی لمبی آہ بھری جیسے اس کا خاوند زندہ ہو گیا ہو حسن بن صباح نے اسے فرش سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیا
میں نے حافظ کو خبردار کر دیا تھا حسن بن صباح نے کہا لیکن اسے ایک بچے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے میری پوری بات توجہ سے نہ سنی میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے تمہیں دیکھ لیا اور اس بے رحم بد روح کو بھی دیکھ لیا وہ ابھی تک حافظ پر منڈلا رہی تھی اور بار بار تمہاری طرف دیکھتی تھی میں نے تمہیں محفوظ کرلیا ہے لیکن تمہیں دو چاند میرے ساتھ رہنا پڑے گا اگر تم اس سے پہلے میرے سائے سے دور ہو گئی تو تمہارا انجام اپنے خاوند سے زیادہ برا ہوگا
یہ آپ کا کرم ہے یا امام! میمونہ نے کہا میں آپ کے سائے میں نہیں رہوں گی تو جاؤں گی کہاں میری منزل اصفہان ہے
وہاں تک میں تمہیں بخیر و خوبی پہنچاؤں گا حسن بن صباح نے کہا میرے محافظ تمہاری منزل تک تمہارے ساتھ جائیں گے لیکن تمہارا خاوند کہہ رہا تھا کہ وہ سلجوقی سلطنت کے حکمران سلطان ملک شاہ سے ملنے مرو جائے گا اس نے آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ مرو کیوں جائے گا میمونہ نے کہا ہم نے خلجان شاہ در اور اس علاقے میں جو دیکھا ہے وہ سلطان ملک شاہ کو بتانا تھا خصوصاً خلجان میں کوئی ایسا فرقہ تیار ہوگیا ہے جس کے عقیدے لوگوں کے دلوں میں اتر گئے ہیں یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کے اعمال نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ فرقہ اسلام کو بالکل ہی مسخ کر دے گا سنا ہے اس فرقے نے جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو اپنی جانوں کی بازی لگا کر اپنے مخالفوں کی جانیں لیتا ہے
تمہارے خاوند نے مجھے یہ ساری باتیں بتائی تھیں حسن بن صباح نے کہا تم یہ بتاؤ کہ تم اس سلسلے میں کیا کرنا چاہتی ہو؟
کچھ بھی نہیں میمونہ نے کہا وہ خاوند ہی نہیں رہا جو اسلام کا شیدائی تھا میں تو چاہتی ہوں اصفہان پہنچ جاؤ اور سوچو کہ مجھے اب اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہیے
کیا تمہارے گھر میں سونا یا درہم و دینار ہے؟
حافظ اصفہانی ایک جاگیر کا مالک تھا میمونہ نے جواب دیا سونا بھی ہے درہم و دینار بھی ہے جو گھر کے ایک دیوار میں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں یہ تو ایک مدفون خزانہ ہے لیکن زندگی کا ساتھی ہی نہ رہا تو میں اس خزانے کو کیا کروں گی کوشش کروں گی کہ اپنی بیٹی شمونہ کی تلاش میں مروں اور رے جاؤ آپ ہی نے بتایا ہے کہ وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس ہوگی
حسن بن صباح کو دھچکا سا لگا وہ ایک رات پہلے اس عورت کو بتا چکا تھا کہ اس کی بیٹی کہاں ہے اب اسے خیال آیا کہ اس عورت کو سلطان ملک شاہ اور ابو مسلم رازی کے پاس نہیں جانا چاہیے ورنہ وہ خلجان پر حملہ کرا دے گی اور اسے گرفتار کرا دے گی
پہلے اپنی منزل پر پہنچو! حسن بن صباح نے کہا مجھ سے پوچھے بغیر کہیں نہ جانا تمہاری بیٹی زندہ ہے اور تمہیں مل جائے گی لیکن اپنے آپ اس کی تلاش میں نہ چل پڑنا
میمونہ جذبات کی ماری ہوئی تنے تنہا عورت تھی خاوند کی موت کے صدمے نے اس پر ڈوبنے کی کیفیت طاری کر دی تھی وہ تینکو کے سہارے ڈھونڈ رہی تھی حسن بن صباح سے بہتر سہارا اور کیا ہو سکتا تھا اسے وہ امام مانتی تھی جو غیب کے پردوں کے پیچھے جا کر بتا سکتا تھا کہ کیا ہو چکا ہے اور کیا ہونے والا ہے
میمونہ نے مان لیا تھا کہ حسن بن صباح نے اس کے خاوند کو ٹھیک عمل بتایا تھا لیکن ایک بدروح نے اس کی جان لے لی اس مجبور عورت کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جسے وہ غیب دان امام مانتی ہے اس نے اسے ہپنا ٹائز کرلیا ہے اور اب وہ اس کے اشاروں پر چلے گی
وہ اس عورت کو ہپنا ٹائز نہ کرتا تو بھی وہ اس کے جال میں سے نکل نہیں سکتی تھی تمام مورخوں نے خصوصاً یورپی تاریخ نویسوں اور شخصیت نگاروں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے کہ اس کے سامنے اس کا کوئی خونی دشمن اسے قتل کرنے کی نیت سے آ جاتا تو وہ بھی اس کا مرید ہو جاتا تھا یہ ابلیسیت کا طلسم تھا
میمونہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ رہے گی
اس کے خاوند کی لاش اس کے کمرے میں پڑی ہوئی تھی حسن بن صباح نے سرائے کے مالک کو بلا کر کہا کہ وہ میت کے غسل اور کفن دفن کا انتظام کرے اس کے اخراجات میمونہ ادا کریے گی
دوپہر کے وقت حافظ اصفہانی کا جنازہ سرائے سے اٹھا قبرستان میں جاکر حسن بن صباح نے نماز جنازہ پڑھائی وہ جس قبرستان میں بچہ لینے گیا تھا اسی قبرستان میں دفن ہو گیا اور اپنے پیچھے یہ کہانی چھوڑ گیا کہ اسے ایک بدروح نے مارا ہے
میمونہ اپنے کمرے میں تنہا ڈرتی تھی اس نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ اس کے کمرے میں رہ سکتی ہے حسن بن صباح نے اسے اجازت دے دی میمونہ اپنا سامان اٹھا کر اس کے کمرے میں چلی گئی
اس سرائے میں مسافر اس مجبوری کے تحت روکے ہوئے تھے کہ کوئی قافلہ تیار نہیں ہورہا تھا لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کیا کرتے تھے اکیلے دکیلے مسافروں کو رہزن لوٹ لیتے تھے
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا چودہ پندرہ دنوں بعد ایک قافلہ تیار ہوگیا یہ بہت بڑا قافلہ تھا کچھ تاجر تھے کچھ پورے پورے کنبے تھے زندگی کے ہر شعبے کے لوگ اس قافلے میں شامل تھے عورتیں بھی تھیں بچے بھی تھے
سرائے میں اطلاع آئی تو سرائے خالی ہو گئی حسن بن صباح اس کے دو ساتھیوں اور میمونہ نے سامان باندھا اور قافلے سے جا ملے انہوں نے ایک گھوڑا اور دو اونٹ کرائے پر لے لیے ایک اونٹ پر بڑی خوبصورت پالکی بندھوائی یہ میمونہ کے لیے تھے قافلے کی روانگی سے پہلے میمونہ کو پالکی میں بٹھا دیا گیا اور حسن بن صباح اپنے ساتھیوں کے ساتھ ذرا پرے جا کھڑا ہوا
اس عورت پر نظر رکھنا حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ اپنے خاوند سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے میں نے اس کا راستہ بند تو کر دیا ہے پھر بھی یہ دوسرے مسافروں سے نہ ہی ملے تو اچھا ہے اس کا گھر اصفہان میں ہے اپنے مکان کی ایک دیوار میں اس کے خاوند نے اچھا خاصا خزانہ چھپا کر رکھا ہوا ہے اس سے یہ خزانہ نکلوانا ہے اور اس کے گھر میں ہی اس عورت کو دفن کر دینا اگر اسے زندہ رہنے دیا گیا تو یہ کسی بھی دن اپنی بیٹی سے ملنے ابومسلم رازی کے شہر کو روانہ ہو جائے گا
قافلہ چل پڑا
بہت دنوں کی مسافت کے بعد قافلہ بغداد پہنچا لوگ دو چار دن آرام کرنا چاہتے تھے بہت مسافروں کی منزل بغداد ہی تھی اتنے ہی مسافر بغداد سے قافلے سے آملے
حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں کو ایک سرائے میں لے گیا جس میں انہیں کمرے مل گئے وہاں چند ایک عورتیں بھی ٹھہری ہوئی تھیں ان کے ساتھ ان کے آدمی بھی تھے
دوسری صبح تھی میمونہ اپنے کمرے سے باہر نکلی اسے اپنا خاوند بہت یاد آ رہا تھا اور وہ بہت ہی اداس ہو گئی تھی حسن بن صباح نے خود ہی اسے کہا تھا کہ وہ باہر گھومے پھیرے سرائے کے باہر نہ جائے اور عورتوں میں جا بیٹھے
وہ باہر نکلی تو اسی کی عمر کی ایک عورت سامنے آگئی وہ بھی حلب کی سرائے سے اپنے کنبے کے ساتھ قافلے میں شامل ہوئی تھی اور وہ اسی سرائے میں ٹھہری تھی اسے معلوم تھا کہ میمونہ کا خاوند قبرستان میں ایک بد روح کے ہاتھوں مارا گیا تھا لیکن یہ عورت میمونہ سے پوچھ نہیں سکتی تھی کہ اس کا خاوند کس طرح مارا گیا تھا بغداد میں میمونہ اس کے سامنے آگئی
ہمسفر ہو کے ہم ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں اس عورت نے میمونہ سے کہا عورت کا درد عورت ہی سمجھ سکتی ہے کچھ دیر کے لئے میرے پاس نہیں آؤں گی میرے ساتھ میرا خاوند اور اس کا ایک بھائی ہے دو بچے ہیں
میمونہ اداس مسکراہٹ سے اس کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی مرد ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے
یہ تو بتاؤ بہن! اس عورت کے خاوند نے میمونہ سے پوچھا تمہارا خاوند رات کے وقت قبرستان میں کیا کرنے گیا تھا
امام نے اسے بھیجا تھا میمونہ نے کہا کہنا تو یہ چاہیے کہ اسے موت لے گئی تھی وہ ایک بچے کا خواہشمند تھا
میمونہ نے ساری بات لفظ با لفظ سنا دی
کیا تمہارے خاوند نے کوئی اور باتیں بھی کی تھیں اس شخص نے پوچھا میں دراصل یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہارا خاوند اس شخص کو جانتا تھا جسے تم امام کہتی ہو
باتیں تو بہت ہوئی تھیں میمونہ نے جواب دیا میرا خاوند امام کو پہلے نہیں جانتا تھا ہم مصر سے جہاز میں آ رہے تھے بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا جہاز کا ڈوب جانا یا یقینی تھا لیکن اس امام نے کہا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا طوفان سے نکل جائے گا جہاز نکل آیا
یہاں سے بات چلی تو بہت سی باتیں ہوئیں اس عورت کا خاوند کرید کرید کر باتیں پوچھ رہا تھا میمونہ کو شک ہوا کہ یہ آدمی کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتا ہے
میرے بھائی! میمونہ نے پوچھا معلوم ہوتا ہے آپ کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے ہیں
ہاں بہن! اس نے کہا میرا خیال ہے کہ میں نے خاص بات معلوم کر لی ہے میں تمہیں اس آدمی سے خبردار کرنا چاہتا ہوں اس شخص کا نام حسن بن صباح ہے اور یہ ایک شیطانی فرقہ کا بانی ہے اسے تم امام کہتی ہو یہ اگر امام ہے تو اس شیطانی فوقے کا امام ہے اس کا استاد احمد بن عطاش ہے اور ان لوگوں نے خلجان کو اپنے فرقے کا مرکز بنایا ہے یہ دونوں شیطان کا نام لیے بغیر لوگوں کو شیطان کا پجاری بنا رہے ہیں اور نام اسلام کا لیتے ہیں
میرے خاوند نے اس کے ساتھ یہ بات کی تھیں میمونہ نے کہا اور کہا تھا کہ وہ سلطان ملک شاہ اور حاکم رے ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے اور انہیں کہے گا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے خلاف جنگی کارروائی کریں اور اسلام کی اصل روح کو بچائیں میرے خاوند نے جب اسے یہ کہا کہ وہ آپ کا ہم نام ہے تو حسن بن صباح نے کہا کہ اس کا نام احسن بن سبا ہے حسن بن صباح نہیں میرے خاوند نے حسن بن صباح اوراسکے فرقے کے خلاف بہت باتیں کی تھیں اور یہ اس نے دو تین بار کہا تھا کہ میں اس فرقے کو نیست و نابود کرا دوں گا
میری عزیز بہن! اس آدمی نے جو خاصا دانشمند لگتا تھا کہا تمہارا خاوند قتل ہوا ہے اتنی اچھی حیثیت اور عقل و ہوش والا آدمی یہ نہ سمجھ سکا کے مردے کسی زندہ انسان کو بچہ نہیں دے سکتے اور حسن بن صباح جیسے شیطان فطرت انسان کی لکھی ہوئی پرچی پر اللہ تبارک و تعالی کسی کی مراد پوری نہیں کیا کرتا حسن بن صباح نے تمہارے خاوند کی دلی مراد سنی تو اس نے فورا سوچ لیا کہ اپنے اس خطرناک مخالف کو وہ کس طرح قتل کر سکتا ہے اس نے تمہارے خاوند کو آدھی رات کو قبرستان میں بھیجا اور پیچھے اپنے آدمی بھیج کر اسے قتل کروا دیا
میں بھی اس کے ساتھ یہی باتیں کر چکی ہوں میمونہ نے کہا اور مجھے اب خیال آتا ہے کہ اس نے مجھ سے یہ بھی اگلوا لیا ہے کہ میرے خاوند نے اصفہان میں اپنے رہائشی مکان کی ایک دیوار میں بہت سا سونا اور اچھی خاصی رقم چھپا کر رکھی ہوئی ہے
اس نے کیا کہا تھا؟
اس نے کہا کہ میں تمہیں اصفہان تک اپنے آدمیوں کی حفاظت میں پہنچاوں گا میمونہ نے کہا
وہ تمہارے ساتھ اپنے آدمی ضرور بھیجے گا اس شخص نے کہا پھر جانتی ہو کیا ہو گا تمہارے خاوند کا خزانہ دیوار سے باہر آ جائے گا اور تم دیوار کے اندر ہو گی کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تم کہاں غائب ہو گئی اس حسن بن صباح کے حکم سے یہ فرقہ کئی سالوں سے قافلوں کو لوٹ رہا ہے قافلوں سے یہ زر و جواہرات اور رقم لوٹتے ہیں اور خوبصورت کمسن اور نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں
میں ایک قافلے میں لُٹ چکی ہوں میمونہ نے کہا میرا پہلا خاوند ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا اور وہ میری ایکلوتی بیٹی کو اٹھا لے گئے ہیں
تمھاری بیٹی انہی کے پاس ہوگی اس آدمی نے کہا
سب باتیں ہو چکیں میمونہ نے کہا میں نے سب باتیں سمجھ لی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ یہ شخص حسن بن صباح جب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لفظ دل میں یوں اترتا جاتا ھے جیسے یہ لفظ آسمان سے اتر رہے ہو میں حیران ہوں کہ سلجوقی سلطان اور اس کے امراء جو اپنے آپ کو صحیح العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں اور اسلام کی پاسبانی کا بھی دعوی کرتے ہیں وہ بے خبر ہیں کہ ان کی سرحد کے ساتھ ساتھ کیا ہو رہا ہے
ان کے بے خبر ہونے کی ایک وجہ ہے اس شخص نے کہا ان کے جاسوس ان باطل پرستوں کے علاقے میں جاتے ہیں لیکن وہاں ان پر ایسا نشہ طاری ہو جاتا ہے کہ وہ وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں ان میں سے بعض ان باطنیوں کے گرویدہ ہو کر ان کے جاسوس بن کے واپس آ جاتے ہیں وہاں کی باتیں غلط بتاتے ہیں اور سلجوقی حکمرانوں کی صحیح خبریں باطنیوں کو دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو غداری نہیں کرتے دیانتداری سے جاسوسی کرتے ہیں وہ وہاں پر اسرار طریقوں سے قتل ہوجاتے ہیں حسن بن صباح نے جاسوسوں اور مشکوک لوگوں کو پکڑنے کا جو نظام بنا رکھا ہے اس میں اتنی گہری نظر رکھتے ہیں کہ باہر کے جاسوس کو فوراً پہچان لیتے ہیں انہیں حکم ملا ہوا ہے کہ ایسا کوئی بھی آدمی نظر آئے اسے قتل کر دو
آپ یہ ساری باتیں جانتی ہیں میمونہ نے پوچھا پھر آپ یہ سلطان ملک شاہ تک کیوں نہیں پہنچاتے
ان بچوں کے خاطر اس نے کہا میں مارا گیا تو ان کا کیا بنے گا
میں مرو یا رے تک کیسے پہنچ سکتی ہوں؟
میمونہ نے پوچھا پتہ چلا ہے میری بیٹی وہاں ہے معلوم نہیں یہ کہاں تک سچ ہے لیکن مجھے اس بیٹی سے اتنی محبت ہے کہ میں اس کی تلاش میں جاؤنگی ضرور مشکل یہ ہے کہ میں اس شخص حسن بن صباح کی قیدی ہوں ہماری منزل کا راستہ دور سے گزرتا ہے اگر میں وہاں تک پہنچ جاؤں تو سلطان تک بھی پہنچ جاؤں گی
تمہیں ویسے بھی یہاں سے نکل جانا چاہیے اس آدمی نے کہا اس شخص نے آخر تمہیں قتل کرنا ہے
میں اس عورت کے لئے ایک قربانی دے سکتا ہوں اس آدمی کے بھائی نے جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا کہا اگر یہ یہاں سے بھاگنے کے لیے تیار ہو تو آج ہی رات بھاگ چلے میں اس کا ساتھ دوں گا میرے پاس گھوڑا ہے اس کے لیے کسی کا گھوڑا چوری کر لیں گے
ہمارے پاس کرائے کا گھوڑا ہے میمونہ نے کہا اور میں پکی سوار ہوں گھوڑا کیسا ہی منہ زور کیوں نہ ہو زمیں کیسی ہی ناہموار کیوں نہ ہو میں سنبھل کر ہر چال اور ہر رفتار پر سواری کر سکتی ہوں
کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں بھائی جان! اس جوان سال آدمی نے اپنے بھائی سے پوچھا
یہ ایک جہاد ہے بڑے بھائی نے کہا میں تجھے کیسے روک سکتا ہوں مزمل!
انہوں نے میمونہ کو فرار کرا کے رے پہنچانے کا بڑا ہی دلیرانہ منصوبہ تیار کرلیا
میمونہ اپنے کمرے میں حسن بن صباح کے پاس چلی گئی
یہ کیسے لوگ ہیں جن کے یہاں تم اتنا وقت گزار آئی ہو حسن بن صباح نے پوچھا
کوئی عام سے لوگ ہیں میمونہ نے کہا اصفہان جا رہے ہیں حافظ اصفہانی کو جانتے تھے اسی کی باتیں کرتے رہے
اب میں باہر جا رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا تم آرام کر لو
حسن بن صباح کے جانے کے بعد میمونہ نے اپنی قیمتی چیزیں اور کپڑے چھوٹی سی ایک گٹھڑی میں باندھ کر پلنگ کے نیچے رکھ دیے رات کو حسن بن صباح گہری نیند سو گیا تو میمونہ نہایت آہستہ نیچے سے گھڑی نکالی اور دبے پاؤں باہر نکل گئی سب کے گھوڑے باہر بندھے ہوئے تھے ان کی زین وغیرہ ان کے پاس ہی تھیں میمونہ کا ہمسفر مزمل آفندی بہت پہلے باہر نکل گیا تھا دن کے وقت اس نے میمونہ کا گھوڑا دیکھ لیا تھا مزمل نے دونوں گھوڑوں پر زین کس دی تھیں
میمونہ پہنچ گئی گٹھڑی اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اور گھوڑے پر سوار ہوگئی مزمل آفندی بھی گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں گھوڑے چل پڑے پہلے وہ آہستہ آہستہ چلے پھر تیز ہو گئے اور جو شہر کے دروازے سے نکلے تو اور تیز ہو گئے کچھ دور جا کر انھوں نے ایڑ لگائی اور گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے
صبح حسن بن صباح کی آنکھ کھلی تو اس نے میمونہ کو غائب پایا اپنے ساتھیوں کے کمرے میں جا کر انہیں کہا کہ اسے ڈھونڈے اس وقت تک میمونہ بغداد سے ساٹھ میل دور پہنچ چکی تھی
وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی ہے حسن بن صباح نے اسوقت کہا جب اسے پتہ چلا کہ گھوڑا غائب ہے ہم قافلے کا انتظار نہیں کریں گے ہمیں فوراً اصفہان پہنچنا چاہئے وہاں سے خلجان کی صورت حال معلوم کرکے وہاں جائیں احمد بن عطاش کو خبردار کرنا ضروری ہے
ان کے پاس دو اونٹ تھے انہوں نے ایک اچھی نسل کا گھوڑا کرائے پر لے لیا اور اسی وقت روانہ ہوگئے دونوں اونٹوں کا مالک اور گھوڑے کا مالک بھی ان کے ساتھ تھے
مزمل آفندی اور میمونہ اتنی تیز گئے تھے اور انہوں نے اتنے کم پڑاؤ کیے تھے کہ تین دنوں بعد رے پہنچ گئے اور سیدھے امیر شہر ابومسلم رازی کے یہاں چلے گئے دربان سے کہا کہ وہ امیر شہر سے ملنا چاہتے ہیں
کیا کام ہے ؟
دربار نے پوچھا کہاں سے آئے ہو تم ہو کون؟
کیا ہمارے گھوڑوں کا پسینہ نہیں بتا رہا کہ ہم بہت دور سے آئے ہیں میمونہ نے کہا ہمارے چہرے دیکھو ہمارے کپڑوں پر گرد دیکھو امیر سے کہو ایک ماں اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہے کچھ ہی دیر بعد وہ اور مزمل ابومسلم رازی کے کمرے میں اس کے سامنے کھڑے تھے
بہت دور سے آئے لگتے ہو ابومسلم راضی نے کہا
بغداد سے مزمل نے جواب دیا
دربان نے بتایا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہو ابومسلم رازی نے کہا کون ہے تمہاری بیٹی؟
یہاں اس کا کیا نام ہے اس کا نام شمونہ ہے میمونہ نے کہا کسی نے بتایا تھا وہ یہاں ہے
ہاں! ابومسلم رازی نے کہا وہ یہیں ہے
اس نے دروازے کے باہر کھڑے خدمتگار کو بلا کر کہا شمونہ کو لے آؤ
جب ماں بیٹی کا آمنا سامنا ہوا تو کچھ دیر دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں
اپنی ماں کو پہچانتی ہو شمونہ؟
ابومسلم رازی نے کہا
ماں بیٹی یوں ملی جیسے ایک دوسرے کے وجود میں سما جانے کی کوشش کر رہی ہوں
ماں اپنی بیٹی کے بازو سے نکل آئی اور ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا میں صرف اس بیٹی کی تلاش میں نہیں آئی تھی امیر شہر! میمونہ نے کہا میرا اصل مقصد کچھ اور ہے کیا آپ حسن بن صباح کو جانتے ہیں ؟
حسن بن صباح! ابومسلم رازی نے کہا کیوں ؟
اسے جانتا ہوں سلطان معظم نے اسے زندہ پکڑ لانے کے لئے ایک سالار امیر ارسلان کو حکم دے دیا ہے…

📜☜ سلسلہ جاری ہے……



www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-5/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 4 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-4/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-4/#respond Fri, 19 Jul 2024 15:30:53 +0000 https://urducover.com/?p=3578 حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 4

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:13 }
اب داستان گو کے ساتھ آئیں وہ آپ کو اس ٹیکری پر لے چلتا ہے جہاں بارہ چودہ سرکردہ افراد حسن بن صباح کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے لوگوں کے ہجوم کو حکم دے دیا گیا تھا کہ وہ بہت دور چلے جائیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ سرکردہ افراد مرعوبیت کی کیفیت میں تھے اور ان پر دھونی کا اور حسن بن صباح کی نظروں کا بھی اثر تھا ان پر مجموعی طور پر ایسی کیفیت طاری تھی جیسے وہ اس لیے سانس لے رہے ہیں کہ حسن بن صباح سانس لے رہا تھا اگر حسن بن صباح کے سانسوں کا سلسلہ رک جاتا تو یہ لوگ بھی اپنی سانسیں روک لیتے
تم ان لوگوں کے سردار ہو حسن بن صباح نے کہا یہ گھوڑے ہیں اور یہ مویشی ہیں تم جدھر چاہو انہیں ہانک کر لے جا سکتے ہو میں تمہارے لئے اور مخلوق خدا کے لیے خوش بختی اور خوشحالی لے کر آیا ہوں آج تک جتنے مذہب آئے ہیں انہوں نے انسانوں کے نظریے عقیدے اور پابندیاں دی ہیں لیکن خوش بختی اور خوشحالی کوئی مذہب نہیں دے سکا مذہب صرف اسلام ہے لیکن اسلام بھی تم تک صحیح شکل میں نہیں پہنچا میں تمہیں اس عظیم مذہب کی صحیح شکل دکھاتا ہوں تم نے صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے اپنے قبیلے کو لگام ڈال کر اس راستے پر چلانا ہے جو راستہ خدا نے مجھے دکھا کر زمین پر اتارا ہے
حسن بن صباح نے اسماعیلی مسلک کی تبلیغ شروع کردی اور ان سرداروں کو ایسے سبز باغ دکھائے کے وہ اس کے قائل ہوگئے
اب تمہارے پاس میرے مبلغ آئیں گے حسن بن صباح نے کہا تمہارا فرض ہے ان مبلغوں کی مدد کرنا اور لوگوں کو اس مسئلہ پر متحد کرنا کیا تم یہ کام کرو گے؟
ہاں ائے قابل احترام ہستی ایک معمر سردار نے کہا ہم یہ کام کریں گے
ہم تمہارے حکم پر جانے قربان کردیں گے
ہمیں آزما کے دیکھ
ایسی ہی آوازیں تھیں جو ان بارہ چودہ سرداروں کے سینوں سے پرجوش طریقے سے نکلی حسن بن صباح پہلی ہی بار بغیر کسی دقت کے کامیاب ہوگیا یہ صرف اس علاقے اور چند ایک بستیوں کا معاملہ تھا اگلے ہی روز اس نے چند ایک مبلغ جنہیں احمد بن عطاش نے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا ان بستیوں میں پھیلا دیے اور ایک نئے فرقے کی تبلیغ شروع ہو گئی
لوگ یہ مطالبہ کرنے لگے کہ حسن بن صباح ان کے علاقے میں آئے اپنی زیارت کرائے اور انہیں خدا کی باتیں سنایئے حسن بن صباح ایک اور علاقے میں اسی شان و شوکت سے جس شان و شوکت سے اس نے پہلی بار زیارت کروائی تھی ایک اور علاقے میں بڑے ہی ڈرامائی اور پراسرار طریقے سے اپنی زیارت کروائی اس کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی لوگوں نے حسب عادت اسکے متعلق ایسی ایسی باتیں مشہور کر دی تھیں جو محض زیب داستان تھیں
بھولے بھالے لوگوں نے جب بھی دھوکا کھایا ہے وہ اپنی اسی فطری عادت کی وجہ سے کھایا ہے کہ جس سے متاثر ہوئے اسے پیغمبری کا درجہ دے دیا اور اس کی عام سی باتوں کو اس طرح پھیلایا جیسے یہ باتیں ان سے براہ راست خدا نے کی ہو لوگ ان کے من گھڑت معجزے بھی بیان کرتے ہیں یہ پسماندگی کے اس دور میں بھی ہوا اور یہ آج بھی ہو رہا ہے جب انسان ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ قلعہ شاہ در پر احمد بن عطاش نے کس طرح قبضہ کیا تھا اب آگے ایک اور قلعہ تھا جس کا نام تھا خلجان تھا اس قلعے کے امیر کا نام صالح نمیری تھا اس وقت اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی وہ بہت دنوں سے سن رہا تھا کہ اس علاقے میں ایک شخصیت کا ظہور ہوا ہے شاہ بلوط کے درخت میں چمکنے والے ستارے کے متعلق بھی خبریں صالح نمیری تک پہنچی تھیں
یہ ساری باتیں خلجان کے لوگوں تک بھی پہنچی تھیں اور کئی لوگ اس جگہ آئے بھی تھے جہاں ستارہ دیکھنے کے لیے لوگ جو موجود رہتے تھے حسن بن صباح جب لوگوں کے سامنے آیا تو خلجان کے کچھ لوگ اس کی زیارت کو آئے تھے وہ بھی وہی مرعوبیت لے کر گئے تھے جو ہر کسی پر طاری ہو گئی تھی انہوں نے خلجان میں جا کر لوگوں کو ایسے دلفریب انداز میں حسن بن صباح کا ظہور اور اسکی باتیں سنائی کہ لوگ حسن بن صباح کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہونے لگے کچھ اور لوگ حسن بن صباح کی زیارت کو چل پڑے
صالح نمیری اپنے دوستوں اور مشیروں سے پوچھتا رہتا تھا کہ یہ سب کیا ہے ابتدا میں اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ یہ کوئی ویسا ہی آدمی معلوم ہوتا ہے جیسے پہلے بھی نبی اور پیغمبر بن کر آچکے ہیں یہ کوئی نیا نبی ہوگا لیکن شہر میں حسن بن صباح کے چرچے ہونے لگے یہ آوازیں صالح نمیری کے کانوں تک پہنچی اس نے اپنے مشیروں کو بلایا
یہ میں کیا سن رہا ہوں ؟
صالح نمیری نے کہا مجھے اطلاع ملی ہے کہ شہر کے بچے بچے کی زبان پر اس کا نام ہے جو آسمان سے اترا ہے اور اس کی روح میں ستارے کی روشنی ہے
ہاں آقا ایک مشیر نے کہا آپ کو جو خبریں ملی ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے لوگ اسے دیکھ بھی آئے ہیں بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ زمین کی نہیں آسمان کی مخلوق ہے
ایک خبر میں نے بھی سنی ہے محفل میں بیٹھے ہوئے ایک اور آدمی نے کہا میں نے سنا ہے کہ اس کے مبلغ اس سارے علاقے میں پھیل گئے ہیں اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اس کے دو تین مبلغ کل یہاں بھی پہنچ رہے ہیں
خیال رکھو صالح نمیری نے حکم کے لہجے میں کہا یہ مبلغ آئیں تو انہیں سیدھا میرے پاس لے آؤ شہر کا کوئی شخص ان مبلغوں کو اپنے گھر میں جگہ نہ دے بہتر ہے اعلان کردو کہ مبلغ سب سے پہلے والئ قلعہ سے ملے بغیر کسی کے ساتھ بات نہ کرے
حکم کی تعمیل ہوگی آقا اس آدمی نے کہا ہم خود بھی ان مبلغوں کو لوگوں سے دور رکھنا چاہیں گے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ یہ ہیں کون اور یہ کس عقیدے اور کس مسلک کی تبلیغ کر رہے ہیں؟
یہ اسلام کا ہی کوئی اور فرقہ پیدا ہوگیا ہوگا صالح نمیری نے کہا میں تمہیں سختی سے کہتا ہوں کے کسی اور فرقے کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی اسلام چھوٹے چھوٹے فرقوں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے اور سلطنت اسلامیہ چھوٹی چھوٹی بادشاہوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے مجھے جانتے ہو کہ میں بڑی سختی سے اہلسنت ہوں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سلجوقیوں نے اسلام کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دے دیا ہے ان کی سلطنت میں کوئی شخص سنی عقیدے کے خلاف بات بھی نہیں کرسکتا مجھے ایک شک یہ بھی ہے کہ اسماعیلی درپردہ اپنے فرقے کی تبلیغ کر رہے ہیں یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس تبلیغ کو روکیں
ہاں آقا مشیر نے کہا ہم اسلام کی صداقت اور اسلام کی اصل روح کو قائم رکھنے کے لئے اپنی جان ومال قربان کر دیں گے ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہمارے پاس فوج نہیں
ہم فوج کیسے رکھ سکتے ہیں صالح نمیری نے کہا فوج کو کھلائیں گے کہاں سے اور اسے تنخواہ کہاں سے دیں گے ہم نے کسی سے لڑنا نہیں اگر ہم پر حملہ ہوگیا تو سلجوقی ہماری مدد کو پہنچیں گے یہ بھی ذہن میں رکھو کہ کسی نئے عقیدے یا باطل نظریے کو تلواروں اور برچھیوں سے نہیں روکا جاسکتا باطل کی تبلیغ کا جواب حق کی تبلیغ سے ہی دیا جا سکتا ہے اگر بہت سے لوگ سچ بولنے کے عادی ہوں تو ایک جھوٹا آدمی فوراً پکڑا جاتا ہے اور اس کا جھوٹ نہیں چل سکتا ان مبلغوں کو آنے دو اور انہیں سیدھا میرے پاس لے آؤ
دوسرے ہی دن صالح نمیری کو اطلاع ملی کہ دو مبلغ آگئے ہیں اس نے انہیں اسی وقت اندر بلا لیا ان کے ساتھ صالح نمیری کا اپنا ایک اہلکار تھا مبلغوں کی وضع قطع شریفانہ اور پروقار تھی چال ڈھال اور بات چیت سے وہ خاصے معزز لگتے تھے صالح نمیری نے انھیں بڑے احترام سے بٹھایا اور ان سے پوچھا کہ وہ کس عقیدے کی تبلیغ کر رہے ہیں ؟
اس کا نام حسن بن صباح ہے ایک مبلغ نے بتایا وہ اسلام کا علمبردار ہے
کیا وہ نبوت کا دعوی کرتا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
نہیں مبلغ نے جواب دیا وہ اللہ کا ایلچی بن کر آیا ہے وہ پہلے ایک ستارے کے ساتھ شاہ بلوط کے درخت میں چمکتا رہا پھر آسمان کی ایک روشنی میں اس کا ظہور ہوا اور ایک روز وہ زمین پر اتر آیا
میری ایک بات غور سے سن لو صالح نمیری نے کہا جس علاقے میں تم تبلیغ کرتے پھر رہے ہو اور جس علاقے میں تمہارے خدا کے اس ایلچی کا ظہور ہوا ہے اس علاقے پر میرا کوئی عمل دخل نہیں لیکن ایک اہلسنت مسلمان کی حیثیت سے میں خدا کے اس ایلچی کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کروں گا اس وقت تم دونوں کے لئے میرا حکم یہ ہے کہ اس شہر میں جس طرح داخل ہوئے تھے اسی طرح اس شہر سے نکل جاؤ کبھی کوئی نبی یا خدا کا کوئی ایلچی شاہ بلوط کے درخت کے ذریعے آسمان سے نہیں اترا نبوت کا سلسلہ رسول اکرمﷺ پر ختم ہوچکا ہے اگر تم یہ کہو کہ یہ حسن بن صباح کوئی درویش دانشور یا عالم ہے تو میں آگے بڑھ کر اس کا استقبال کروں گا
آمیر قلعہ ایک مبلغ نے کہا اگر آپ صرف ایک بار تھوڑی سی دیر کے لئے اسے مل لیں تو آپ کا شک رفع ہوجائے گا یہ تو ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ خدا کا ایلچی ہے ہم اس کے اس پیغام سے متاثر ہوئے ہیں جو اس نے ہمیں دیا ہے وہ مسلمان ہے اور اہل سنت ہے ہوسکتا ہے آپ انہیں ملے تو آپ کو صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کوئی دانا عالم ہے یا اس کے دل و دماغ میں کوئی باطل نظریہ ہے
اور یہ بھی ہوسکتا ہے دوسرا مبلغ بولا آپ جیسا عالم اور دانشمند امیر قلعہ اس کے ساتھ گفتگو کرے تو ہمیں بھی اس کی اصلیت معلوم ہوجائے گی ہو سکتا ہے ہم ہی غلطی پر ہوں اور ویسے ہی اس کی شخصیت سے متاثر ہو گئے ہوں
کیا وہ یہاں آئے گا ؟
صالح نمیری نے پوچھا
شاید نہیں ایک مبلغ نے جواب دیا ہم ابھی چلے جاتے ہیں اور ان سے بات کرکے آپ کو بتائیں گے کہ وہ آپ کے پاس آئیں گے یا آپ کو ان کے پاس جانا پڑے گا اگر وہ آپ کو کسی جگہ بلائیں تو کیا آپ وہاں آ جائیں گے؟
ہاں صالح نمیری نے کہا میں آؤں گا
دونوں مبلغ چلے گئے
اُن دنوں حسن بن صباح قلعہ شاہ در میں تھا شاہ در میں بھی وہ لوگوں کے سامنے خدا کے ایلچی کے روپ میں آ گیا تھا دونوں مبلغ ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرکے شاہ در پہنچے اور حسن بن صباح سے ملے یہ مبلغ اس کے اپنے گروہ کے آدمی تھے انھیں خصوصی تربیت دی گئی تھی انہوں نے حسن بن صباح کو خلجان کے آمیر قلعہ صالح نمیری کی باتیں سنائی اور بتایا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے
میں اسے ملوں گا حسن بن صباح نے کہا
میں صالح نمیری کو کچھ کچھ جانتا ہوں پاس بیٹھے ہوئے احمد بن عطاش نے کہا اکھڑ سا آدمی ہے اور بڑا پکا اہل سنت ہے وہ ذرا مشکل سے ہی مانے گا
استاد محترم حسن بن صباح نے کہا آپ کیا کہہ رہے ہیں؟
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اس کے اکھڑ پن کو توڑ نہیں سکوں گا؟
میں تمہاری حوصلہ شکنی نہیں کررہا حسن احمد بن عطاش نے کہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص ایک پتھر ہے جسے ذرا طریقے سے ہی توڑنا پڑے گا
آپ نے اچھا کیا کہہ دیا حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے ہمیں اس شخص کی نہیں بلکہ اس کے قلعے کی ضرورت ہے مجھے پوری امید ہے کہ میں خلجان کا قلعہ اور یہ پورے کا پورا شہر آپ کی جھولی میں ڈال دوں گا
اسے ملو گے کہاں؟
احمد بن عطاش میں کہا
نہ میں اسے یہاں ملوں گا نہ اس کے پاس جاؤں گا حسن بن صباح نے کہا میں اسے چشمے پر ملوں گا جہاں میں دوسری بار لوگوں سے ملا تھا
وہ علاقہ بہت ہی سرسبز اور روح افزا تھا وہاں ایک چشمہ تھا اور چھوٹی سی ایک جھیل تھی پانی اتنا شفاف کے تہہ میں پڑی ہوئی کنکریاں بھی نظر آتی تھیں چشمے کے اردگرد تھوڑا سا کھلا میدان تھا جس میں مخمل جیسی قدرتی گھاس تھی چشمے کی نمی کی وجہ سے وہاں پھول دار پودوں کی بہتات تھی بعض پھول بھینی بھینی خوشبو دیتے تھے ذرا پیچھے ہٹ کر چھوٹی چھوٹی ٹھیکریاں تھیں جو اونچی نیچی گھاس سے ڈھکی ہوئی تھیں ان ٹکریوں پر بڑے خوبصورت درخت تھے بڑے خوش نما درخت چشمے کے اردگرد بھی تھے یہ چھوٹا سا خطہ اس قدر دلنشین اور عطربیز تھا کہ جاں بلب مریض بھی وہاں جاکر اپنے وجود میں روحانی تازگی محسوس کرتا تھا
حسن بن صباح اس جگہ آ چکا تھا اور اسے یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی تھی اس نے احمد بن عطاش سے کہا کہ اس جگہ وہ بڑے خیمے لگا دے اور کھانا پکانے کا انتظام بھی وہیں کر دے اس نے بتایا کہ خیمے کس ترتیب میں گاڑے جائیں
یہ جگہ شاہ در سے کم و بیش تین میل دور تھی وہاں سے خلجان بھی کچھ اتنا ہی دور تھا
احمد بن عطاش نے اسی وقت خیمے اور دیگر سازوسامان وہاں تک پہنچانے کا انتظام کردیا تمام سامان اونٹ پر لاد کر بھیج دیا گیا رات کے وقت حسن بن صباح گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا
وہ اکیلا نہیں گیا تھا اس کے ساتھ اپنے گروہ کے چند ایک آدمی تھے یہ سب اس کے بالکے اور چیلے چانٹے تھے انہیں مختلف رول دیے گئے تھے وہ علمائے دین کے روپ میں تھے وہ خاص مرید اور حاشیہ برادر تھے اور باقی ایسے معتقد تھے جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ حسن بن صباح کی خدمت میں حاضر رہنے کو اپنی روح کی ضرورت سمجھتے ہیں ‏تین لڑکیاں بھی ساتھ تھیں جن میں ایک فرح تھی یہ وہ لڑکی تھی جو حسن بن صباح کی محبت میں دیوانی ہوگئی تھی محبت بھی ایسی کہ جب حسن بن صباح شاہ در کے لیے روانہ ہوا تھا وہ حسن بن صباح کے راستے میں کھڑی ہو گئی تھی اس نے حسن بن صباح کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ جہاں بھی جا رہا ہے اسے ساتھ لے چلے
فرح بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی جسمانی اور ذہنی لحاظ سے چست اور تیز تھی احمد بن عطاش نے اسے دیکھا تو اس نے اس کی خصوصی تربیت شروع کردی تھی
حسن بن صباح تو جیسے اسے دیکھ دیکھ کر جیتا تھا
چشمے پر پہنچ کر حسن بن صباح نے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق خیمے نصب کرائے یہ عام سی قسم کے خیمے نہیں تھے یہ بڑے سائز کے چوکور خیمے تھے اندر سے یہ خیمے لگتے ہی نہیں تھے خوش نما سجے سجائے کمرے لگتے تھے اندر کی طرف ریشمی کپڑے لگائے گئے تھے ان کی بلندی بھی کمروں جیسی تھی
حسن بن صباح نے اپنے اور صالح نمیری کے خیموں کے درمیان فاصلہ زیادہ رکھا تھا ان کے درمیان لڑکیوں کا خیمہ اور تین چار خیمیں ان کے چیلے چانٹوں کے تھے ایک ٹیکری کے پیچھے باورچی خانہ بنا دیا گیا تھا
حسن بن صباح نے انہیں دو مبلغوں کو جو پہلے خلجان گئے تھے صالح نمیری کے نام ایک پیغام دے کر بھیجا کہ وہ تین چار دنوں کے لئے اس کے ساتھ رہے
اگلی ہی شام صالح نمیری ان دو مبلغوں کے ساتھ آگیا حسن بن صباح نے آگے جا کر اس کا استقبال کیا اور پورے احترام سے اسے خیموں تک لایا
صالح نمیری کے ساتھ اس کے چار محافظ تھے جو اس کے پیچھے چلے آ رہے تھے صالح نمیری جب چشمے کے قریب پہنچا تو تینوں لڑکیوں نے اس کے آگے پھول پھینکنے شروع کر دیئے جو انہوں نے چھوٹی چھوٹی ٹوکریوں میں اٹھا رکھے تھے
نہیں صالح نمیری نے آگے بڑھ کر لڑکیوں سے کہا میں اتنا بڑا آدمی نہیں ہوں مجھے پھولوں کو روندنے کا گنہگار نہ کرو
آپ کے یہاں رواج کچھ اور ہوگا فرح نے جانفزا مسکراہٹ سے کہا ہمارے یہاں کوئی معزز مہمان آتا ہے تو ہم اس کے راستے میں پھول بچھاتے ہیں
ہمارا بھی ایک رواج ہے صالح نمیری نے کہا ہمارے یہاں آپ جیسا کوئی مہمان آتا ہے تو ہم اس کے راستے میں آنکھیں بچھاتے ہیں
حسن بن صباح نے زور دار قہقہہ لگایا
صالح نمیری لڑکیوں کے قریب سے گزرتے انہیں دیکھتا رہا اور اس کی ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
صالح نمیری کی خاطر تواضع کی گئی جیسے وہ کسی ملک کا بادشاہ ہو وہ بادشاہ تو نہیں تھا لیکن وہ لگتا بادشاہ ہی تھا خوب روح آدمی تھا چہرے کا رنگ سرخی مائل سفید تھا اور اس کے انداز اور چال ڈھال میں تمکنت تھی
رات کھانے کے بعد وہ اور حسن بن صباح اکیلے بیٹھ گئے
کیا آپ نے نبوت کا دعوی کیا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
نہیں تو حسن بن صباح نے جواب دیا مجھے کچھ حاصل ضرور ہوا ہے لیکن یہ نبوت نہیں میں کچھ سمجھ نہیں سکا یہ کیا ہے میں یہ پورے یقین سے کہتا ہوں کہ میرا درجہ عام انسانوں سے ذرا اوپر ہو گیا ہے یہ مجھے آپ بتائیں گے کہ میں کیا ہوں اور خدا نے مجھے کیوں یہ درجہ بخشا ہے
پہلے تو مجھے یہ بتائیں صالح نمیری نے کہا آپ آسمان سے کس طرح اترے ہیں اور آپ کی روح میں ستاروں کا نور کہاں سے آگیا ہے ؟
لوگ شاہ بلوط کے درخت میں جو ستارہ دیکھتے رہے ہیں یہ کیا تھا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟
میں کچھ نہیں بتا سکتا حسن بن صباح نے کہا میں بھی سنا کرتا تھا کہ ایک درخت میں دوسری تیسری رات ایک ستارہ نظر آتا ہے میری بھی خواہش تھی کہ یہ ستارہ دیکھو لیکن ستارے کے ظہور کے وقت مجھ پر غشی طاری ہوجاتی تھی میں یہ ستارہ دیکھنے گیا تو لوگوں کے ہجوم کے ساتھ میں بھی انتظار ہی کرتا رہا ستارہ نظر نہ آیا
یہ غشی کیسی ہوتی تھی؟
صالح نمیری نے پوچھا
اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے حسن بن صباح نے جواب دیا غشی میں یہ ہوتا تھا کہ ایک بڑی ہی نورانی صورت والا بزرگ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتا اور بتاتا تھا کہ لوگوں کی رہنمائی کی سعادت خدا نے مجھے دی ہے
یہ بزرگ کون تھے جو مجھے سبق دیا کرتے تھے کہ میں لوگوں کی رہنمائی کس طرح کروں گا پھر ایک روز کسی غیبی طاقت نے مجھے
حسن بن صباح صالح نمیری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کوئی نئی کہانی سناؤ تم سے پہلے بھی ایسے ہی نبی ہو گزرے ہیں جنہیں غشی میں ایک بزرگ آکر بتایا کرتے تھے کہ خدا نے تمہیں اپنا ایلچی منتخب کر لیا ہے دیکھو حسن خدا نے اپنے ایلچی بھیجنے کا سلسلہ غار حرا سے اپنا آخری ایلچی بھیج کر بند کر دیا ہے
حسن بن صباح نے صالح نمیری کے ساتھ بحث نہ کی بلکہ وہ اس طرح کی باتیں کرتا رہا جیسے وہ تذبذب میں ہو کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے اور اس تبلیغ کا سلسلہ کیوں شروع کر دیا ہے
اگر میں غلط راستے پر چل نکلا ہوں تو مجھے راہ راست پر لائیں حسن بن صباح نے کہا آپ کچھ دن میرے پاس ٹھہریں میں اپنے متعلق یہ بتا سکتا ہوں کہ میں سحر کی طاقت رکھتا ہوں اور زمین میں دبے ہوئے راز بتا سکتا ہوں مجھے میں کوئی مافوق الفطرت طاقت موجود ہے احمد بن عطاش میرا پیر و مرشد ہے اس نے مجھے ایک پراسرار علم دیا ہے
شاہ در کا والی احمد بن عطاش؟
صالح نمیری نے پوچھا
ہاں حسن بن صباح نے کہا وہی احمد بن عطاش
میں نے پہلے بھی سنا ہے صالح نمیری نے کہا ہاں حسن میں نے پہلے بھی سنا ہے کہ وہ سحر کا یا کسی اور پراسرار علم کا ماہر ہے اور وہ مستقبل کے پردوں میں جھانک سکتا ہے کیا تم نے اس سے کچھ سیکھا ہے؟
بہت کچھ حسن بن صباح نے جواب دیا ستاروں کی چال بھانپ سکتا ہوں ہاتھوں کی لکیریں پڑھ سکتا ہوں
صالح نمیری نے کچھ کہے بغیر اپنا ہاتھ پھیلا کر حسن کے آگے کر دیا
تمہارا امتحان ہے صالح نمیری نے کہا
صالح نمیری سمجھ نہ سکا کے حسن بن صباح نے بات کا رخ پھیر دیا ہے وہ اس بات کو گول کر گیا کہ وہ خدا کا ایلچی ہے اور اس نے وسیع پیمانے پر اپنے عقیدے کی تبلیغ شروع کردی ہے وہ کمال استادی سے گفتگو کو سحر نجوم اور دست شناسی کی بھول بھلیوں میں لے گیا تھا اس نے دیکھ لیا تھا کہ صالح نمیری واقعی پتھر ہے جسے توڑنا آسان کام نہیں
حسن بن صباح نے صالح نمیری کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی ہتھیلی کو پھیلایا اور ہاتھ کی لکیریں دیکھتا رہا کچھ دیر بعد اس نے ہتھیلی پر اپنا سر اس طرح جھکا لیا جیسے لکیروں کو اور زیادہ غور سے دیکھ رہا ہو
اس نے یوں تیزی سے اپنا سر اوپر کرلیا جیسے صالح نمیری کی ہتھیلی سے سانپ نے اس پر حملہ کر دیا ہو پھر اس نے اپنے چہرے پر حیرت کا تاثر پیدا کرکے صالح نمیری کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں
کیا نظر آیا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
حسن چپ رہا اس نے قلم دوات منگوا کر کپڑے کی طرح کے ایک کاغذ پر خانے بنائے کسی خانے میں ایک دو ہندسے اور کسی میں ایک دو حروف لکھے بعض خانوں میں ٹیڑھی میڑھی لکیریں ڈالیں اور بہت دیر انہیں دیکھتا رہا اور سوچتا رہا
کچھ بتاؤ گے ؟
صالح نمیری نے پوچھا
چار دن یہی انتظار کریں حسن نے کہا بات ابھی دھندلکے میں ہے
بات اچھی ہے یا بری؟
اچھی بھی ہوسکتی ہے بری بھی حسن نے کہا اچھی ہے یا بری بات معمولی نہیں شاہی بھی ہوسکتی ہے گدائی بھی چار دن دیکھوں گا پانچویں دن لکیروں اور ستاروں کا بھید آپ کے سامنے آجائے گا
صالح نمیری اذیت ناک تذبذب میں مبتلا ہو گیا
حسن بن صباح کے کہنے پر وہ اپنے خیمے میں جا کر سو گیا
علی الصبح فرح اس کے خیمے میں ناشتہ لے کر گئی اسے ناشتہ رکھ کر واپس آ جانا چاہیے تھا لیکن وہیں کھڑی رہی
کچھ اور چاہیے؟
فرح نے پوچھا
میں تو یہ ناشتہ دیکھ کر حیران ہو گیا ہوں صالح نمیری نے کہا اور تم پوچھتی ہو کچھ اور چاہیے
میں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاؤ ؟
فراح نے شرمیلی سی آواز میں پوچھا
پوچھنے کی کیا ضرورت ہے صالح نمیری نے مسکراتے ہوئے کہا یہاں میرے پاس بیٹھو تم کون ہو؟
حسن بن صباح کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟
میں والئی شاہ در احمد بن عطاش کی بھانجی ہوں فراح نے جھوٹ بولا انہوں نے مجھے ان کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے بھیجا ہے
شادی ہوچکی ہے؟
نہیں فراح نے جواب دیا
اب تک تو تمہاری شادی ہو جانی چاہیے تھی صالح نے کہا
میرے والدین فوت ہوگئے ہیں فرح نے دوسرا جھوٹ بولا ماموں احمد بن عطاش نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ میں جس کسی کو پسند کرو انھیں بتا دوں اور وہ اس کے ساتھ میری شادی کر دیں گے انہوں نے شرط صرف یہ رکھی ہے کہ وہ آدمی اچھی حیثیت والا ہونا چاہیے
تو کیا ابھی تک تمہیں اپنی پسند کا آدمی نہیں ملا ؟
اب ملا ہے فرح نے جواب دیا
وہ خوش نصیب کون ہے ؟
فرح نے صالح نمیری کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں
اتنا زیادہ شرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟
صالح نمیری نے کہا اور پوچھا کیا اس آدمی کو معلوم ہے کہ تم نے اسے پسند کیا ہے
نہیں
اسے بتا دینا تھا صالح نمیری نے کہا
ڈرتی ہوں فرح نے کہا وہ یہ نہ کہہ دے کہ میں اسے پسند نہیں
وہ کوئی جنگلی جانور ہوگا جو تمھیں پسند نہیں کرے گا صالح نے کہا
کیا آپ مجھے پسند کریں گے ؟
فرح نے جھپتے شرماتے پوچھا
کیا تم مجھے قبول کروں گی؟
صالح نمیری نے سوال کے جواب میں سوال کیا
فرح نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ صالح نمیری کی طرف سرکایا دوسرے لمحے اس کی انگلیاں صالح نمیری کی انگلیوں میں الجھی ہوئی تھی پھر صالح نمیری کو یاد ہی نہ رہا کہ اس کے آگے ناشتہ پڑا ٹھنڈا ہو رہا ہے اس روز فرح کو ذرا سا بھی موقع ملتا وہ صالح نمیری کے خیمے میں چلی جاتی اور ہنس کھیل کر واپس آجاتی
اگلی رات حسن بن صباح اور صالح نمیری کھانے کے بعد الگ بیٹھے اس موضوع پر باتیں کرتے رہے کہ حسن بن صباح سہی ہے یا غلط یا اسے وہم ہو گیا ہے کہ وہ خدا کا ایلچی ہے حسن بن صباح کا انداز گفتگو یہ تھا کہ وہ بحث میں نہیں الجھتا تھا اور اس کی کوشش یہ تھی کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ بیٹھے جس سے صالح نمیری خفا ہوجائے صالح نمیری کا گزشتہ رات کا انداز بڑا جارحانہ تھا لیکن اگلی رات اس کے مزاج میں وہ برہمی نہیں تھی اس کی بجائے وہ خاصا نرم تھا اور کسی وقت یوں پتہ چلتا تھا جیسے وہ حسن بن صباح کا قائل ہوتا جا رہا ہے
حقیقت یہ ہے کہ صالح نمیری کے مزاج کی یہ تبدیلی اس وجہ سے نہیں تھی کہ حسن بن صباح نے اسے متاثر کرلیا تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ فرح کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا دوسری وجہ یہ تھی کہ حسن بن صباح نے اس کا ہاتھ دیکھا اور ستاروں کی گردش کا کچھ حساب لگایا تھا اور وہ یوں چپ ہو گیا تھا جیسے اس نے کوئی بڑی ھی خاص بات چھپا لی ہو قدرتی امر ہے کہ وہ یہ راز معلوم کرنے کو بیتاب تھا
اس رات صالح اور حسن خاصی دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر صالح اپنے خیمے میں جا کر سو گیا آدھی رات کا وقت ہوگا صالح نے اپنے چہرے پر کوئی نرم اور ملائم سی چیز رینگتی ہوئی محسوس کی وہ بڑی گہری نیند سویا ہوا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا خیمے میں تاریکی تھی صالح نے اپنے منہ پر ہاتھ مارا توایک نرم و ملائم ہاتھ اس کے ہاتھ میں آیا اس نے اندھیرے میں بھی اس ہاتھ کو پہچان لیا اس نے اس ہاتھ کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور دوسرا ہاتھ اسکی کمر پر ڈال دیا جس کا یہ ہاتھ تھا
فرح اس کے اوپر گری اور اس کی ہنسی نکل گئی
صالح نمیری کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اور فرح پچیس چھبیس سال کی تھی لیکن جسمانی صحت کے لحاظ سے صلح نمیری فرح جیسا ہی جوان لگتا تھا اس کا انداز بھی پر شباب تھا اس نے فرح کو اس طرح اپنے بازوؤں میں لے کر بھیجا جیسے اسے اپنے وجود میں سمیٹ لینا چاہتا ہو
ابھی نہیں کچھ دیر بعد فراح نے کہا پہلے شادی ابھی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں سب سوئے ہوئے ہیں
صالح اٹھ کر بیٹھ گیا اور فرح کو اپنے پاس اس طرح بٹھائے رکھا کہ فرح اس کے ایک بازو میں تھی اور فرح کا سر صالح کے سینے پر تھا وہ کچھ دیر اسی حالت میں پیار و محبت کی باتیں کرتے رہے وہ دلی اور زبانی طور پر ایک دوسرے میں جیسے تحلیل ہو گئے تھے
ایک کام کرو فرح صالح نے فرح کو پلنگ پر اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے کہا حسن بن صباح نے میرا ہاتھ دیکھا تھا اور اس نے ستاروں کی گردش بھی دیکھی تھی پھر وہ یوں چپ ہو گیا تھا جیسے اس نے میری قسمت میں کوئی ایسی بات دیکھ لی ہو جو وہ مجھے نہیں بتانا چاہتا میں نے اس کے چہرے پر کچھ اور ہی تاثر دیکھا تھا وہ مجھے کچھ نہیں بتا رہا کہتا ہے چار روز انتظار کرو میں یہاں اتنا رکنے کے لیے نہیں آیا تھا میں اس شخص سے متاثر نہیں ہوا نہ میں اسکے اس دعوے کو مانتا ہوں کہ یہ خدا کا ایلچی ہے حقیقت یہ ہے کہ میں یہ راز معلوم کرنے کے لئے رکا ہوں کہ اس نے میرے ہاتھ کی لکیروں میں کیا دیکھا ہے؟
کیا تم اس سے معلوم کر سکتی ہو؟
ہاں فراح نے جواب دیا اگر کوئی بہت ہی خطرناک بات نہ ہوئی تو وہ مجھے بتا دے گا
کبھی خیال آتا ہے کہ میں چلا جاؤں صالح نمیری نے کہا میں کٹر اہلسنت ہوں قسمت میں جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن تم میرے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہو
اب آپ جہاں بھی جائیں گے یہ زنجیر آپ کے ساتھ رہے گی فراح نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں کہا اور اس طرح بولی جیسے اسے اچانک یاد آگیا ہو
اوہ میں آپ کے لیے پھول لائی تھی
اس نے پلنگ پر ہاتھوں سے ٹٹولا اور پھول اس کے ہاتھ آ گئے یہ بڑے بڑے تین پھول تھے جنہیں اس نے گلدستے کی طرح ایک دھاگا لپیٹ کر باندھ رکھا تھا اس نے پھول صالح نمیری کی ناک کے ساتھ لگا دئیے
اتنی پیاری خوشبو صالح نے کہا میں نے اس علاقے کے وہ پھول بھی سونگھے ہیں جو دور دراز جنگلوں میں کھلتے ہیں لیکن اس پھول کی خوشبو میرے لیے بالکل نئی ہے
اس نے بار بار ان پھولوں کو سونگھا اور جوں جوں لمحے گزرتے گئے صالح پر ایسی کیفیت طاری ہوتی گئی کے وہ محسوس کرنے لگا کے وہ فرح کے لئے پیدا ہوا تھا اور باقی عمر اس کی غلامی میں گزارے گا
میرا ایک مشورہ مانیں فرح نے کہا حسن بن صباح کو یہ دعوت دیں کہ وہ کچھ دن خلجان میں آپ کا مہمان رہے اگر یہ یہیں سے واپس چلا گیا تو پھر یہ آپ کے ہاتھ کی لکیریں اور ستاروں کا راز اپنے ساتھ لے جائے گا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ یہاں سے واپس گیا تو مجھے بھی ساتھ لے جائے گا ہم خلجان چلے گئے تو میں اسے کہہ سکتی ہوں کہ میں واپس نہیں جاؤں گی میں نے اب باقی عمر آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے
میں ایسے ہی کرتا ہوں صالح نے کہا میں اسے کہوں گا میرے ساتھ خلجان چلو اور مجھے قائل کرو کہ تم خدا کی بھیجی ہوئی برگزیدہ شخصیت ہو اور میں تمہیں صرف مان ہی نہیں لوں گا بلکہ تمہارے عقیدے کی اتنی تبلیغ کروں گا کہ تم حیران رہ جاؤ گے
فرح بہت دیر بعد اس کے خیمے سے نکلی صالح نمیری کو وہ اس جذباتی کیفیت میں چھوڑ آئی کے اس نے باقی رات کروٹیں بدلتے گزار دیں وہ رہ رہ کر یہی چاہتا تھا کہ فرح کے پاس چلا جائے یا اسے اپنے خیمے میں لے آئے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:14 }
ایک روز بعد ایک قافلہ خلجان کی طرف جا رہا تھا صالح نمیری نے حسن بن صباح کو خلجان کی دعوت دی تھی جو اس نے بخوشی قبول کرلی تھی اس نے دونوں لڑکیوں کو واپس شاہ در بھیج دیا تھا صرف فرح کو ساتھ رکھا تھا باورچیوں کو بھی واپس بھیج دیا تھا تمام خیمے اور دیگر سامان بھی واپس چلا گیا اور حسن بن صباح کے ساتھ فرح کے علاوہ چند آدمی رہ گئے تھے
صالح نمیری خلجان کا والی اور امیر تھا اس کی رہائشگاہ محل جیسی تھی رہن سہن امیرانہ تھا اس نے وہاں پہنچتے ہی حسن بن صباح اور فرح کے کمرے الگ کر دیئے اور دوسرے آدمیوں کی رہائش کا بھی بڑا اچھا انتظام کیا
اس نے فرح کو وہ کمرہ دیا جو اس کی اپنی خوابگاہ کے بہت قریب تھا اس کی دو بیویاں تھیں جو اپنے اپنے کمروں میں رہتی تھیں یہ وہ زمانہ تھا جب امیر کبیر آدمی چار چار بیویاں رکھتے تھے اور ان بیویوں کی حیثیت بیوی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتی تھی ہر بیوی کا یہ فرض تھا کہ خاوند کو تفریح اور جسمانی آسودگی مہیا کرے اس زمانے میں ساکن کا تصور ناپید تھا ہر بیوی کو اس کے حقوق ملتے تھے
صالح نمیری کے لیے ایک اور بیوی لے آنا کوئی مسئلہ نہیں تھا
خلجان میں پہلی رات فرح نے وہی حرکت کی جو وہ پہلے کرچکی تھی وہ آدھی رات کے وقت صالح کے کمرے میں چلی گئی صالح کو توقع تھی کہ فرح آئے گی اس لیے اس نے دونوں بیویوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے کمرے میں نہیں رکھا تھا
ایک راز تو مل گیا ہے فرح نے کہا بڑی مشکل سے حسن نے بتایا ہے کہ آپ کی قسمت میں ایک خزانہ لکھا ہے بلکہ ایک خزانہ آپ کی راہ دیکھ رہا ہے
اس نے یہ راز مجھ سے چھپایا کیوں ہے؟
میں اس سوال کا جواب بھی لے آئی ہوں فرح نے کہا وہ کہتا ہے کہ خزانہ ایسی جگہ ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے جان کی بازی لگانی پڑے گی پھر جس جگہ یہ خزانہ ہے وہاں بھی بڑا ہی خوفناک خطرہ ہے ہوسکتا ہے وہاں ایک یا ایک سے زیادہ بڑے زہریلے اور بڑے لمبے سانپ ہوں اگر سانپ نہ ہوئے تو صحرائی بچھو ہونگے جو سانپوں جیسے ہی زہریلے ہوتے ہیں یہ بھی نہ ہوئے تو وہاں درندے ہونگے ان تمام خطروں سے نمٹنے کا انتظام ہو تو کامیابی ہو سکتی ہے
خزانہ کتنا کچھ ہے؟
صالح نے پوچھا خزانے میں کیا ہے؟
کیا اس نے یہ نہیں بتایا؟
اس نے تفصیل نہیں بتائی فرح نے کہا اس نے یہ کہا ہے کہ خزانہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے خلجان جیسے دس بارہ شہر خریدے جا سکتے ہیں اور یہ خزانہ اتنے شہر خرید کر بھی سات پشتوں تک ختم نہ ہو
یہ بھی تو ہوسکتا ہے فرح صالح نے کہا حسن بن صباح خود اس خزانے تک پہنچ جائے اس کے ہاتھ میں سحر اور نجوم کی طاقت ہے
نہیں میرے آقا فرح نے کہا اسے دنیا کی مال و دولت اور ان خزانوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں اس وقت آپ اسے جا کر دیکھیں تو وہ آپ کو عبادت میں مصروف نظر آئے گا اس کا دھیان خدا کی خوشنودی پر مرکوز رہتا ہے دنیاوی لطف اور لذت سے وہ دور رہتا ہے
پھر اس نے تمہیں اپنے ساتھ کیوں رکھا ہوا ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
میرے ساتھ اس کا وہ تعلق نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں فرح نے کہا میں اپنے ماموں کی اجازت سے سیروتفریح کے لئے اس کے ساتھ آئی ہوں لیکن اس سے مجھے انکار نہیں کہ یہ شخص میرے ساتھ بہت پیار کرتا ہے یہ پیار کسی اور نوعیت کا ہے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتا ہے اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہتا ہے کہتا ہے کہ تمہارے یہ نرم وملائم ریشمی بال مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں یہ تو اس نے کئی بار کہا ہے کہ میں تمہیں ایک پھول سمجھتا ہوں پھول کو سونگھا جاتا ہے اسے ناپاک نہیں کیا جاتا اور اسے مسلا نہیں جاتا میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اس کے دل میں میرے لئے ایسا پیار ہے جو آب کوثر جیسا مقدس ہے آپ کوئی وہم دل میں نہ رکھیں
میں دل میں وہم نہیں رکھوں گا فرح صالح نمیری نے کہا تم اسے کہو کہ مجھے وہ جگہ اور اس جگہ کا راستہ بتا دے جہاں وہ خزانہ ہے میں ایسا انتظام کرکے جاؤں گا کہ کوئی بھی خطرہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا میرے ساتھ اتنے برچھی برادر اور تیغ زن ہونگے جو سینکڑوں سانپوں کو ختم کردیں گے ذرا سوچو فرح اگر ہمیں یہ خزانہ مل جائے تو ہماری زندگی کس قدر خوبصورت اور شاہانہ ہوگی
اس خزانے کے ساتھ میری دلچسپی بھی اتنی ہی ہے جتنی آپ کی ہے فرح نے کہا میں تو پوچھ کر ہی دم لوں گی
جب فرح صالح کے کمرے میں سے آنے لگی تو صالح نے اسے روک لیا فرح صالح نے کہا وہ پھول جو تم اس رات خیمے میں میرے لیے لائی تھی وہ یہاں سے نہیں مل سکتا
مل سکتا ہے فرح نے جواب دیا آپ کو وہ خوشبو پسند ہے تو میں اس پھول کی بجائے وہ خوشبو تھوڑی سی روئی میں لگا کر آپ کو دے سکتی ہوں لیکن یہ مجھے چوری کرنی پڑے گی یہ عطر حسن بن صباح کے پاس ہے جسے وہ چھپا کر رکھتا ہے یہ اس پھول کا عطر ہے وہ تو اتفاق سے وہاں مجھے دو تین پھول نظر آ گئے تھے جو میں نے آپ کو دے دیے تھے
اگلی شام صالح نمیری اور حسن بن صباح کھانے کے لئے بیٹھے تو صالح نمیری نے اپنی مونچھوں پر یہی عطر لگا رکھا تھا کچھ ہی دیر پہلے فرح موقع دیکھ کر تھوڑی سی روئی پر ایک قطرہ عطر لگا کر صالح نمیری کو دے آئی تھی صالح نمیری نے کھانے سے پہلے یہاں عطر اپنی مونچھوں پر لگا لیا تھا
صالح نے اپنے مزاج میں ایسی نمایاں تبدیلی محسوس کی اس کا جی چاہتا تھا کہ ہنسے اور مسکرائے اور اس زندگی سے پورا لطف اٹھائیے
فرح کو بھی نہ بولا لیں کھانے کے بعد صالح نے حسن سے کہا وہ بھی آخر ایک امیر شہر کی بھانجی ہے
بلا لینا چاہیے حسن نے کہا
تھوڑی ہی دیر بعد فرح آ گئی
میری ایک بات مان لیں فرح نے حسن بن صبا سے کہا امیر خلجان بہت پریشان ہیں آپ نے ان کا ہاتھ دیکھا اور نجوم کا بھی حساب کتاب دیکھا لیکن انہیں آپ نے کچھ بتایا نہیں
ہاں حسن صالح نمیری نے کہا اس سے بہتر تھا کہ آپ میرا ہاتھ نہ دیکھتے اگر کوئی خطرناک معاملہ ہے تو وہ بھی مجھے بتا دیں آپ کی خاموشی نے مجھے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے
بتا دیں فرح نے بچوں کے سے انداز سے کہا اب بتا دیں
حسن بن صباح خاموش رہا اس نے سر جھکا لیا وہ کچھ دیر اسی حالت میں رہا صالح اور فرح سراپا سوال بنے اسے دیکھتے رہے
تھوڑی دیر بعد حسن بن صباح نے سر اٹھایا اور صالح نمیری کی طرف دیکھا
آپ کے ہاتھ کی لکیروں میں ایک خزانہ ہے حسن بن صباح نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا لیکن یہ خزانہ ایسا نہیں کہ آپ وہاں جائیں گے اور وہ خزانہ وہاں سے اٹھا لائیں گے اس میں جان جانے کا خطرہ ہے ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ وہ پورے کا پورا خزانہ اٹھا لائیں اس خزانے کا ایک حصہ الگ کرنا پڑے گا
آپ جتنا حصہ مانگیں گے میں دونگا صالح نمیری نے کہا
یہ بات نہیں حسن بن صباح نے کہا مجھے حصہ نہیں چاہیے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں نے آپ کو اس خزانے کی خبر دے ہی نہیں رہا تھا یہ میرے علم کی کچھ شرطیں ہیں جو آپ کو پوری کرنی پڑے گی اگر نہیں کریں گے تو پھر آپ کا انجام ایسا ہوگا جو میں آپ کو بتاؤں تو اس کے تصور سے ہی آپ کانپ اٹھے
اگر حصہ لینا ہی ہے تو یہ فرح لے سکتی ہے حسن بن صباح نے کہا میں نہیں لے سکتا آپ کا اور کوئی قریبی عزیز لے سکتا ہے بات یہ ہے امیر خلجان یہ خزانہ اس علم کے ذریعے مجھے نظر آیا ہے میں اسی علم کے ذریعے یہ کر سکتا ہوں کہ آپ کو خزانہ مل جائے اور آپ کی جان بھی محفوظ رہے مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک اس قلعے کا کوئی قائم مقام والی مقرر نہ ہو جائے آپ اس خزانے تک نہیں پہنچ سکتے
میری بات سنو حسن صالح نمیری نے کہا آپ مجھے کچھ نہ بتائیں آپکا یہ علم اور عمل جو کچھ بھی کہتا ہے اس کی پابندی کریں مجھے صرف خزانہ چاہیے
پھر آپ میری ہر بات کی پابندی کریں حسن بن صباح نے کہا خزانہ لینے آپ جائیں گے یہ سارا انتظام آپ کا ہوگا خزانہ مل جائے گا تو اس کا ایک چوتھائی حصہ اسے ملے گا جو آپ کی جگہ یہاں قائم مقام والی قلعہ ہوگا
والی قلعہ تو کوئی میرا ہی عزیز ہوگا ؟
صالح نمیری نے کہا
نہیں حسن بن صباح نے کہا میں یہ بھی اپنے علم کی روشنی میں دیکھ چکا ہوں پہلے میں آپ کو یہی بتا دیتا ہوں اور اس شہر کے ہر فرد کو شہر کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی ہے لیکن میں یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں میرے لیے حکم ہے کہ قلعے کا قائم مقام مقرر کروں میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ قائم مقام کون ہوگا میں یہ قلعہ کسی کو بغیر سوچے تو نہیں دے سکتا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش آپ کی جگہ عارضی طور پر خلجان کا والی ہو گا اور جب آپ واپس آئینگے تو آپ خزانے کا چوتھا حصہ اسے دے دیں گے اور وہ شہر آپ کے حوالے کرکے شاہ در چلا جائے گا
مجھے منظور ہے صالح نمیری نے بلا سوچے کہا
اس کی آپ کو تحریر دینی پڑے گی حسن بن صباح نے کہا آپ کو خزانے کا راستہ اور خزانے کی جگہ اس وقت بتائی جائے گی جب آپ یہ تحریر دیں گے یہ ایک معاہدہ ہوگا جس پر آپ کے دستخط اور آپ کی مہر ہوگئی احمد بن عطاش کی جگہ میں دستخط کروں گا اور گواہوں کے طور پر یہاں کے دو مسجدوں کے امام اور اسی شہر کے قاضی کے دستخط ہوں گے اگر آپ زندہ واپس نہ آ سکے تو خلجان کا امیر شہر احمد بن عطاش ہی ہوگا وہ جسے چاہے گا یہ شہر دے گا نہیں دینا چاہئے گا تو اس سے کوئی بھی یہ شہر نہیں لے سکے گا
کیا موت کا خطرہ یقینی ہے؟
صالح نمیری نے پوچھا
خطرہ یقینی ہے حسن بن صباح نے جواب دیا لیکن موت یقینی نہیں واپس آنے کا امکان موجود ہے آپ کے انتظامات جتنے مضبوط ہونگے موت کا خطرہ اتنا ہی کم ہو گا
صالح نمیری کی ایک طرف ذہنی پختگی کا یہ عالم تھا کہ وہ حسن بن صباح کی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ وہ ایک روشنی کے ذریعے آسمان سے اترا ہے لیکن دوسری طرف اس کی شخصی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ حسن بن صباح اسے جو کچھ بھی کہے جا رہا تھا وہ اسے تسلیم کر رہا تھا وہ اتنا بھی نہیں سوچ رہا تھا کہ خزانے کاحصول یقینی نہیں لیکن لالچ کا یہ حال کہ وہ اتنا بڑا شہر ایک غیر آدمی کو لکھ کر دینے پر آمادہ ہو گیا تھا
اس زمانے میں بلکہ اس سے بہت پہلے سے یوں ہوتا تھا کہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے بہت بڑے بڑے گروہ جو بہت ہی بڑے بڑے قافلوں کو لوٹتے تھے لوٹ مار کا قیمتی سامان مثلاً ہیرے اور جواہرات کسی ایسی جگہ رکھ دیتے تھے جو دشوار گزار ہوتی تھی اور وہاں تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکتا تھا بادشاہوں میں بھی یہ رواج تھا کہ وہ اپنا خزانہ کسی خفیہ مقام پر دفن کردیتے تھے کچھ بادشاہ ایسے ہوں گزرے تھے جو ساری دنیا کو فتح کرنے کے لئے نکلے تھے وہ شہروں اور بستیوں کو لوٹتے اور بادشاہوں کے خزانے صاف کرتے چلے جاتے تھے جب ان کے پاس اتنا زیادہ خزانا اکٹھا ہوجاتا جو سنبھالا نہیں جاتا تھا تو اسے وہ کسی بڑے ہی دشوار گزار علاقے میں اس توقع پر دفن کر جاتے تھے کہ واپس آکر نکال لے جائیں گے
ان زمانوں سے اب تک یہ عقیدے یا روایتیں چلی آ رہی ہیں کہ کوئی عامل یا جوتشی یا پراسرار علوم کا کوئی ماہر اس قسم کے خزانے کی نشاندہی کر سکتا ہے یہ بھی مشہور ہے کہ جو کوئی اس قسم کا خزانہ نکالنے کے لئے جاتا ہے وہ زندہ واپس نہیں آ سکتا یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کے اس قسم کے مدفون خزانوں کی حفاظت بڑے زہریلے سانپ کرتے ہیں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قسم کے خزانوں کی حفاظت جنات کیا کرتے ہیں ان تمام خطرات کے باوجود اس قسم کی کہانیاں مشہور تھیں کہ فلاں شخص کو مدفون خزانہ ملا اور وہ بادشاہ بن گیا ایسے لوگ بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے ایسے خزانوں کی تلاش میں ہی زندگی گزار دی تھی
دولت اور عورت دو ایسی چیزیں ہیں جن کی خاطر انسان نے اپنے مذہب کو خیرباد کہا ہے خزانے کا لالچ ایک نشے کی حیثیت رکھتا ہے اس نشے میں اگر عورت کا نشہ شامل ہو جائے تو انسان کی عقل پر سیاہ پردہ پڑ جاتا ہے
صالح نمیری اسی کیفیت کا شکار ہو گیا تھا چالیس سال کی عمر میں ایک نوجوان لڑکی اس کی محبت کا دم بھرنے لگی تھی اور وہ اس کی محبت میں اس قدر بے چین اور بے تاب تھی کہ راتوں کو چھپ کر اس کے پاس پہنچ جاتی تھی اس لڑکی نے اسے پھر سے جوان کردیا تھا پھر اس لڑکی نے اسے ایسے خزانے کی خبر دیدی جس سے وہ خلجان جیسے دس شہر خرید سکتا تھا اور باقی خزانہ اس کی سات پشتوں کے لئے کافی ہو سکتا تھا
وہ صالح نمیری جو اپنے آپ کو اہل سنت اور بڑا پکا مسلمان کہتا تھا روزمرہ کی نمازیں ہی بھول گیا تھا فرح اور خزانہ اس کے ذہن میں عقیدے کی صورت اختیار کر گئے تھے
یہ تو انسانی فطرت کی کمزوریاں تھیں جنہوں نے صالح نمیری کی عقل پر پردے ڈال دیے تھے اور وہ ذہنی طور پر اس طرح مفلوج ہوگیا تھا کہ اپنے آپ کو وہ بہت بڑا دانہ سمجھنے لگا تھا ان مورخوں نے جنہوں نے اس قسم کے واقعات ذرا تفصیل سے لکھے ہیں ایک اور راز سے پردہ اٹھایا انھوں نے لکھا ہے کہ فرح نے صالح نمیری کو رات کی ایک ملاقات میں تین پھول دیے تھے جنہیں سونگھ کر صالح نے پوچھا تھا کہ یہ پھول کہاں سے آئے ہیں اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس علاقے کا پھول ایسا نہیں جو اس نے سونگھا ہو لیکن اس پھول کی خوشبو سے وہ ناآشنا تھا
یہ پھول سونگھنے کے بعد اس نے اپنے مزاج میں اور ذہنی کیفیت میں بڑی ہی خوشگوار تبدیلی محسوس کی تھی جس کے زیر اثر اس پر خودسپردگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی خلجان میں آکر جب فرح اس کے کمرے میں گئی تو اس نے فرح سے پوچھا تھا کہ وہ پھول یہاں کہیں ملتا ہے یا نہیں فرح نے اسے بتایا تھا کہ پھول تو نہیں ملے گا اس کا عطر مل جائے گا اگلی شام فرح نے اس عطر کا ایک قطرہ تھوڑی سی روئی پر لگا کر صالح نمیری کو دیا تھا صالح نے یہ عطر مونچھوں پر مل لیا تھا اس کے بعد وہ حسن بن صباح سے کھانے پر ملا تھا
حسن بن صباح نے جب خزانے کی بات شروع کی تو وہ جو کچھ بھی کہتا رہا صالح بلا سوچے سمجھے قبول کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنا شہر بھی احمد بن عطاش کے نام لکھ دینے پر آمادگی کا اظہار کردیا یہ خزانے کی محبت کا خمار نہیں تھا بلکہ یہ اس عطر کے اثرات تھے جو اس نے مونچھوں کو لگایا تھا تاریخوں میں آیا ہے کہ فرح اس کے پاس جو تین پھول لے گئی تھی اس پر بھی یہی عطر ملا ہوا تھا اس عطر کے اثرات دماغ پر اس طرح کے ہوتے تھے کہ انسان حقیقت سے لاتعلق ہو جاتا اور جو کچھ بھی اس کے ذہن میں ڈالا جاتا اسے وہ حقیقت سمجھتا تھا یوں کہہ لیں کہ اس کا دماغ اس شخص کے قبضے میں آ جاتا تھا جو اس کے سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہوتا تھا
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ حسن بن صباح کی ابلیسی قوتیں اپنے کرشمے دکھاتی تھیں لیکن اس نے سحر کاری کے علاوہ ایسی جڑی بوٹیاں اور پھول وغیرہ دریافت کرلئے تھے جن کی دھونی یا خوشبو انسانی ذہن کو حقیقت سے ہٹا کر بڑے حسین تصورات میں لے جاتی تھیں یہی اس شخص کی قوت تھی جس نے اپنے دور کے لاکھوں انسانوں کو دنیا میں جنت دکھاں دی تھی
صالح نمیری بے تاب تھا کہ اسے خزانے کا راستہ بتایا جائے وہ تو دیوانہ ہوا جا رہا تھا حسن بن صباح نے قلم دوات منگوا کر نقشہ بنانا شروع کردیا وہ صالح نمیری کو بتاتا جا رہا تھا کہ اس راستے پر کیا کیا دشواریاں پیش آئیں گی اور فلاں جگہ کیا خطرہ ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ
آپ یہ علاقے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے حسن بن صباح نے کہا آپ سمجھیں گے کہ یہ کوئی اور ہی دنیا ہے اور یہ وہ زمین نہیں جس پر انسان آباد ہیں مثلا ایک جگہ ایسا جنگل آئے گا جو آپ کو ٹھنڈک پہنچائے گا آپ وہیں رک جانا چاہیں گے زمین کا تھوڑا سا ٹکڑا ایسا آئے گا جہاں آپ کو ہلکا ہلکا کیچڑ نظر آئے گا آپ گھوڑوں پر سوار اس کیچڑ میں سے گزریں گے تو آپ کے گھوڑے دھنس جائیں گے دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اس دلدل سے نہیں نکال سکے گی آپ گھوڑوں سمیت اس دلدل میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے گم ہو جائیں گے
میں ایسی جگہوں پر نظر رکھو گا صالح نمیری نے کہا ایسی جگہ دیکھ کر پہلے وہاں پتھر پھینکونگا اس سے پتہ چل جائے گا کہ یہ دلدل ہے
پھر آپ کو ایسی ریت ملے گی جو آپ کو دلدل کی طرح اپنے اندر غائب کردی گی حسن بن صباح نے کہا راستے میں ایسا صحرا آئے گا جہاں سے کبھی کوئی انسان نہیں گزرا وہاں صحرائی جانور اور کیڑے مکوڑے بھی زندہ نہیں رہ سکتے آپ کو اپنے ساتھ پانی کا بے شمار ذخیرہ لے جانا پڑے گا جس علاقے میں یہ خزانہ ہے وہاں ایسی چٹانیں کھڑی ہونگی جیسے دیواریں کھڑی ہوں ان پر سے گھوڑوں کے پاؤں پھسلے گے بہتر یہ ہوگا کہ گھوڑے پیچھے چھوڑ کر پیدل جائیں بعض چٹانوں پر آپ یوں چلیں گے جیسے دیوار پر چل رہے ہوں وہاں پاؤں پھسلنے کا امکان زیادہ ہو گا
میں اپنے ساتھ جانباز اور عقل والا آدمی لے جاؤں گا صالح نمیری نے کہا آپ مجھے جگہ اچھی طرح سمجھا دیں
حسن بن صباح نے اسے وہ جگہ بڑی اچھی طرح سمجھا دی
آپ کے ساتھ ایک اونٹنی ہونی چاہیے حسن بن صباح نے کہا اور اونٹنی دودھ دینے والی ہونی چاہیے جب آپ خزانے والی جگہ پہنچ جائیں تو اونٹنی کا دودھ دھو کر ایک پیالے میں ڈال دیں اور پیالہ خزانے کی اصل جگہ سے کچھ دور رکھ دیں اس سے یہ ہو گا کہ وہاں جتنے بھی سانپ ہونگے وہ دودھ پر ٹوٹ پڑیں گے اور آپس میں لڑیں گے سانپ دودھ کا عاشق ہوتا ہے اتنی دیر میں آپ خزانہ نکال لیں میں نہیں بتا سکتا کہ اس غار کے اندر کیا چیز ہو گی جو اس خزانے کی حفاظت کے لیے بیٹھی ہو گی میں یہ بتا سکتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعلیں ہونی چاہیے وہ چیز آپ سے ڈر کر بھاگ جائے گی اگر وہاں بچھو ہوئے تو انہیں جلتی ہوئی مشعلوں سے جلایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ اور ہوا تو وہ آپ اپنی عقل اور ہمت سے سنبھال سکتے ہیں
میں خدا کی مدد مانگوں گا صالح نے کہا میں صبح سے ہی جانے کی تیاری شروع کردوں گا
ایک ضروری بات رہ گئی ہے حسن بن صباح نے کہا آپ کو اس جگہ سے آدھی رات کے وقت اس طرح روانہ ہونا چاہیے کہ کوئی آپکو دیکھ نہ سکے
شہر کے چوکیدار تو دیکھ لیں گے صالح نمیری نے کہا انہیں کیا کہا جائے؟
اگر کوئی دیکھ لے تو اسے اصل بات نہ بتائیں حسن بن صباح نے کہا آپ امیر شہر ہیں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟
کوئی پوچھے تو خاموش رہیں
صالح نمیری نے اسی رات ان آدمیوں کا انتخاب کر لیا جنہوں نے اس کے ساتھ جانا تھا اس کے ساتھ ہی اس نے اس سامان کی فہرست تیار کرلی جو اس کے لئے ضروری تھا جو اس نے ساتھ لے جانا تھا
صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد اس نے ان تمام آدمیوں کو جن کی تعداد دس گیارہ تھی اپنے ہاں بلایا اور انہیں صرف یہ بتایا کہ ایک سفر پر جانا ہے جو اگر بخیر و خوبی طے ہو گیا تو سب کو سونے اور جواہرات کی شکل میں انعام ملے گا انہیں یہ بھی بتایا کہ کسی کے ساتھ یہ ذکر نہ ہو کہ وہ کہیں جا رہے ہیں اگر کسی کی زبان سے ایسی بات نکل گئی تو اسے قتل کردیا جائے گا
اس نے ان آدمیوں کو بہت سی ہدایات دی اور کہا کہ وہ آدھی رات کے وقت کوچ کرینگے صالح نمیری کا حکم چلتا تھا اس کے حکم سے تمام ضروری سامان اونٹ اور دودھ والی ایک اونٹنی شام سے پہلے پہلے تیار ہوگئی صالح نمیری نے ان تمام سامان کا معائنہ کیا اور مطمئن ہو گیا
رات جب لوگ سو گئے تو فرح چوری چھپے اس کے کمرے میں آئی اس نے تو آنا ہی تھا، کیوں کہ وہ حسن بن صباح کی اس سازش میں شامل تھی کہ صالح نمیری قلعے کی تحریر لکھ دے اور یہاں سے چلا جائے انہیں یقین تھا کہ صالح خوفناک سفر سے زندہ واپس نہیں آسکے گا انہوں نے صالح نمیری سے شہر احمد بن عطاش کے نام لکھوا لیا تھا۔
فراح نے حسب معمول صالح کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں اور حرکتیں شروع کر دیں اس نے رونے کی بھی اداکاری کی اور اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ اس کی جدائی کو برداشت نہیں کرسکے گی، صالح نمیری کی فرح کی محبت میں جذباتی کیفیت ایسی ہو چکی تھی جو اس کی برداشت سے باہر تھی اس نے فرح سے کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے
میں چلی تو چلوں لیکن ایسا نہ ہو کہ ساتھ جانے سے آپ کی مہم کو کوئی نقصان پہنچے
کوئی نقصان نہیں پہنچے گا صالح نمیری نے کہا تم ساتھ ہو گی تو میری ہمت قائم رہے گی
پھر آپ مجھے اجازت لے دیں فرح نے کہا لیکن میں آپ کو یہ بتادوں کہ مجھے اجازت نہیں ملے گی
صالح نمیری اجازت لینا ہی نہیں چاہتا تھا وہ جان گیا تھا کہ حسن بن صباح سحر اور علم نجوم کا عامل ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی کوئی حیثیت نہیں وہ حسن بن صباح کے اس علم اور عمل کا قائل ہو گیا تھا اس نے سچ مان لیا تھا کہ خزانہ موجود ہے اور اس کا وہی راستہ ہے جو حسن بن صباح نے اسے بتایا ہے اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس قسم کے جادوگر اپنے ساتھ ایک دو خوبصورت لڑکیاں رکھتے ہیں فرح کو بھی اس نے ایسی ہی لڑکی سمجھا تھا اور اس نے یہ بھی مان لیا تھا کہ فرح امیر شاہ در احمد بن عطاش کی بھانجی ہے اور اس نے یہ بھی تسلیم کرلیا تھا کہ فرح اس کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے
یہ سب کچھ جانتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ فرح کو ساتھ لے جانے سے اس کی مہم پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا فرح اس کا جذباتی معاملہ بھی بن گئی تھی لیکن یہ لڑکی اس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی
صالح نمیری آخر اتنے بڑے شہر کا حکمران تھا وہ برداشت نہ کرسکا کہ ایک لڑکی اس کی بات نہیں مان رہی اس نے اسی وقت دو آدمیوں کو بلایا اور انہیں حکم دیا کے اس لڑکی کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے لکڑی کے تابوت جیسے بکس میں ڈال دیا جائے اور اس بکس میں ہر طرف سے سوراخ کر دیے جائیں تاکہ ہوا کا گزر ہوتا رہے
صبح طلوع ہوئی حسن بن صباح جاگا تو وہ اچھل کر بستر سے نکلا اس نے اپنے دو آدمیوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ صالح نمیری کا قافلہ چلا گیا ہے یا نہیں ؟
آپ کا تیر کبھی خطا نہیں گیا ایک آدمی نے ہنستے ہوئے کہا ہم اس کی روانگی کو دیکھنے کے لئے جاگتے رہے ہیں
تم دونوں شاہ در چلے جاؤ حسن بن صباح نے کہا احمد بن عطاش سے کہو کہ میں نے خلجان لے لیا ہے تم یہاں آجاؤ اسے ساری بات بتا دینا کہ صالح نمیری کو ہم نے کس طرح غائب کیا ہے اسے یہ بھی بتانا کہ اس میں فرح کا بھی کمال شامل ہے تم ابھی روانہ ہو جاؤ فرح ابھی سوئی ہوئی ہو گی اسے سویا رہنے دو
حسن بن صباح نے بہت دیر فرح کا انتظار کیا اسے ہر طرف تلاش کیا وہ کہیں بھی نہ ملی
اس وقت فرح سوراخ والے تابوت میں بند نہ جانے کتنے میل خلجان سے دور پہنچ چکی تھی
صالح نمیری کا قافلہ اس جنگل میں داخل ہو چکا تھا جس میں حسن بن صباح کے کہنے کے مطابق بڑی خطرناک دلدل تھی…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:15 }
کیا حسن بن صباح پریشان ہو گیا تھا کہ فرح لاپتہ ہوگئی ہے؟
کیا اس نے اپنے بالکوں کو حکم دیا تھا کہ صالح نمیری کے پیچھے جاؤ فرح اس کے ساتھ چلی گئی ہو گئی ؟
کیا وہ فرح کے فراق میں دیوانہ ہوا جارہا تھا؟
نہیں اس نے فرح کے تعاقب میں اپنے آدمی بھیجنے کی بجائے انہیں شاہ در احمد بن عطاش کے نام یہ پیغام دے کر بھیج دیا کہ میں نے خلجان کا شہر لے لیا ہے فوراً یہاں آ جائیں اس کی نگاہ میں ایک لڑکی کوئی ایسی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ اس کے جذبات میں ہلچل بپا ہو جاتی وہ ایک حسین لڑکی کو دوسروں کے جذبات میں ہلچل بپا کرنے اور دوسروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا ذریعہ سمجھتا تھا
اس کی دنیا کی سرحدیں صرف ایک فرح کی محبت پر ختم نہیں ہو جاتی تھیں وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا انسان تھا
حسن بن صباح تھا تو انسان ہی لیکن اس کی تاریخ کے واقعات گواہی دیتے ہیں کہ وہ انسانیت کی سرحدوں سے نکل کر ابلیسیت کی سرحدوں میں داخل ہو گیا تھا
اس کی نگاہیں افق کے اس لامحدود گول دائرے تک دیکھ رہی تھیں جہاں آسمان جھک کر زمین کو چومتا ہے ایک فرح اسکی نگاہوں کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی
حسن بن صباح ایک آتش فشاں پہاڑ تھا اور وہ اپنے ابلیسی وجود میں ایسا لاوا پکا رہا تھا جس نے بڑی ہی اہم تاریخی شخصیت کو صفحہ ہستی سے غائب کردینا تھا اور بستیاں اجاڑ دینی تھیں
حسن بن صباح نے وہ مقام حاصل کیا کہ اس نے کسی بادشاہ کے قتل کا حکم دیا تو اس کے فدائین نے اسے قتل کر دیا اس نے جو فدائین تیار کیے تھے وہ پاگل پن کی حد تک جنونی تھے
داستان گو آگے چل کر سنائے گا کہ حسن بن صباح نے ان پر یہ جنون کس طرح طاری کیا تھا کہ ان میں سے بعض خود بھی قتل ہو جاتے تھے لیکن اپنے شکار کو قتل کرکے قتل ہوتے تھے
داستان گو حسن بن صباح کے حکم سے قتل ہونے والی جن اہم شخصیتوں اور حکمرانوں کے نام فوری طور پر یاد آئے ہیں وہ یہ ہیں
1092/ عیسوی میں حسن بن صباح نے جو سب سے پہلی نہایت اہم شخصیت قتل کروائی وہ سلجوقی سلطان ملک شاہ کا وزیر خواجہ حسن طوسی تھا جسے غیر معمولی قابلیت اور حُسن کارکردگی کی بدولت نظام الملک کا خطاب دیا گیا تھا نظام الملک حسن بن صباح کا محسن تھا
1092/عیسوی میں ہی حسن بن صباح نے نظام الملک کے دو بیٹوں کو قتل کروایا تھا
1102/عیسوی میں حمس کے ایک شہزادے کو اس وقت قتل کروایا جب وہ جامع مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا
1113/عیسوی میں موصل کے شہزادہ مودود کو جامع مسجد میں نماز پڑھتے قتل کروایا
1114/ عیسوی میں سلجوقی سلطان سنجر شاہ کے وزیر عبدالمظفر علی اور اس کے دادا چکر بیگ کو قتل کروایا
1121/ عیسوی میں فارس کے ایک سلطان کی موجودگی میں مرغ کے ایک شہزادے کا کام بغداد میں تمام کروایا
1121/ عیسوی میں ہی قاہرہ میں ایک مصری وزیر کو حسن بن صباح کے فدائی نے قتل کیا
1126/ عیسوی میں حلب اور موصل کے ایک شہزادے کو مسجد میں قتل کیا گیا
1127/ عیسوی میں سنجر شاہ کے وزیر معین الدین کو فدائین نے قتل کیا
1129/ عیسوی میں مصر کا خلیفہ حسن بن صباح کے فدائین کا شکار ہوا
1134/ عیسوی میں دمشق کا ایک شہزادہ فدائین کے ہاتھوں مارا گیا
1135 سے 1138/عیسوی کے عرصے میں خلیفہ موسترشید خلیفہ رشید اور آذربائیجان کا سلجوقی شہزادہ داؤد قتل ہوئے
1149/ عیسوی میں طرابلس کا حکمران ریمانڈ فدائین کے ہاتھوں قتل ہوا
1174/عیسوی سے 1176/عیسوی کے عرصے میں حسن بن صباح کے فدائین نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر چار قاتلانہ حملے کئے اور سلطان ایوبی ہر بار بچ نکلا
یہ تمام قتل حسن بن صباح کی زندگی میں نہیں ہوئے تھے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے فدائین نے جو حشیشین کے نام سے مشہور ہوئے اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ جاری رکھا تھا پھر آہستہ آہستہ یہ لوگ کرائے کے قاتل بن گئے انہیں عیسائی بادشاہوں اور جرنیلوں نے بھی ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا تھا
یہ بہت بعد کی باتیں ہیں بہت بعد کے واقعات ہیں جب حسن بن صباح بے تاج بادشاہ اور ایک ہیبت کی علامت بن گیا تھا قتل کے یہ تمام واقعات اپنے اپنے مناسب اور موزوں موقع پر سنائے جائیں گے
داستان گو ابھی داستان کے اس انتہائی مرحلے میں ہے جہاں حسن بن صباح اپنے ابلیسی عزائم کی تکمیل کے لئے زمین ہموار کر رہا تھا اس نے اس خطے کا ایک اور قلعہ بند شہر خلجان لے لیا تھا
اس کی نظر اب قلعہ المُوت پر تھی جسے اس نے اپنا مرکز اور مستقر بنانا تھا اتنے بڑے عزائم اور اتنے بڑے منصوبے میں فرح کی کوئی حیثیت نہیں تھی
یا مرشد حسن بن صباح کے ایک خاص آدمی نے اسے آ کر کہا یہ تو معلوم کر لینا چاہئے وہ گئی کہاں ؟
اگر وہ صالح نمیری کے ساتھ چلی گئی ہے تو خطرہ ہے کہ اسے بخیروعافیت واپس لے آئے گی
وہ اسی کے ساتھ گئی ہے حسن بن صباح نے کہا اور اسی کے ساتھ مرے گی صالح نمیری کے دماغ پر جس طرح خزانہ سوار ہوا ہے وہ واپس نہیں آئے گا
اس وقت صالح نمیری اس جنگل میں داخل ہو چکا تھا جس کے اندر کہیں کہیں کچھ حصہ دلدلی تھا
فرح تابوت میں بند تھی تابوت میں ہوا کے لیے سوراخ رکھے گئے تھے تابوت ایک اونٹ پر لدا ہوا تھا فرح کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا صالح نمیری نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ہم بہت دور آ گئے ہیں اگر اس لڑکی کو واپس لے جانے کے لیے ہمارے پیچھے کوئی آتا تو وہ اب تک یہاں پہنچ چکا ہوتا اب اس لڑکی کو تابوت سے نکال لیا جائے تو کوئی خطرہ نہیں
ہاں امیر خلجان اس کے ایک آدمی نے کہا خطرہ کیسا؟
یہ بھاگ کر جائے گی کہاں؟
تابوت کھول کر فرح کو نکال لیا گیا ایک تو وہ تابوت میں گزشتہ رات سے بند تھی اس کے ساتھ اونٹ کے ہچکولے اس کی ہڈیاں بھی دکھ رہی تھیں تابوت سے نکل کر کچھ دیر تو وہ بول ہی نہ سکی صالح نمیری کے آدمی ان دونوں سے دور ایک اوٹ میں بیٹھ گئے تھے مجھے اپنے ساتھ کیوں لے آئے ہو؟
فرح نے ایسی آواز میں کہا جو روندھی ہوئی تھی اور غصیلیی بھی تھی
محبت کی خاطر صالح نمیری نے کہا
اگر تمہیں میرے ساتھ اتنی ہی محبت ہے تو مجھے اتنی خطرناک مہم میں اپنے ساتھ نہ لے جاؤ فرح نے کہا کیا میں اتنی مشکلات اور اتنی زیادہ دشواریاں برداشت کر سکونگی؟
محبت کی ابتدا تو تم نے کی تھی فرح صالح نمیری نے کہا کیا تم میرے پاس محبت کا پیغام لے کر نہیں آئی تھی؟
تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو
فرح کی محبت کی جو حقیقت تھی وہ فرح جانتی تھی اسے تو جال میں دانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا وہ صالح نمیری کو جال میں لے آئی تھی وہی جانتی تھی کہ اس خزانے کا وجود ہے ہی نہیں جس کی تلاش میں صالح نمیری جا رہا ہے وہ یہ بھی جانتی تھی کہ حسن بن صباح نے صالح نمیری کو موت کے منہ میں ڈال دیا ہے اور اس کا زندہ واپس آ جانا کسی صورت ممکن نہیں لیکن اس کے اپنے زندہ واپس آ جانے کے امکانات بھی ختم ہوچکے تھے
وہ تو اب یہ سوچ رہی تھی کہ حسن بن صباح سے وفا کرے یا اپنی زندگی سے یہ عمر مرنے کی نہیں تھی جب اس کا شباب عروج پر تھا صالح نمیری کے ساتھ اس نے بات کر کے دیکھ لی تھی یہ شخص تو ایک چٹان تھا جسے اپنی جگہ سے سرکانا فرح کے بس کی بات نہیں تھی
اس کے سامنے ایک راستہ یہ تھا کہ صالح نمیری کو بتا دے کہ وہ ایسے دھوکے کا شکار ہو رہا ہے جس کا انجام موت ہے اور وہ وہیں سے واپس چلا جائے اور اگر وہ واپس نہ گیا تو وہ صرف مرے گا ہی نہیں بلکہ اس کا اتنا بڑا شہر خلجان اور قلعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور اس کا خاندان بھکاری بن جائے گا
اس نے اس پر غور کیا تو اسے صاف نظر آنے لگا کے اسے حسن بن صباح غداری کے جرم میں قتل کرادے گا اسے معلوم تھا کہ حسن بن صباح کا دل رحم اور بخشش کے جذبات سے خالی ہے کسی کو قتل کرا دینے سے اسے روحانی تسکین ملتی تھی
فرح کے لیے ادھر بھی موت تھی ادھر بھی موت اسے یہ دیکھنا تھا کہ کون سی موت آسان ہے
اگر وہ حسن بن صباح سے وفا کرتی ہے تو وہ آگے آنے والے صحرا میں جھلس کر پیاس سے تڑپ تڑپ کر بڑی ہی اذیت ناک موت مرے گی جل جل کر مرے گی ایسی موت کے تصور سے ہی اس نے اپنے وجود میں لرزہ محسوس کیا
پھر اسے دوسرا خیال آیا وہ صالح نمیری کو واپس لے جاتی ہے اور حسن بن صباح کو اس کی غداری کا پتہ چل جاتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں یا آپ نے کسی آدمی کے ہاتھوں اس کا سر تن سے جدا کر دے گا یہ موت سہل ہوگی
وہ تو زندہ رہنا چاہتی تھی حسن بن صباح نے اسے آلئہ کار بنایا تھا اور اسے شہزادی بنا کے رکھا ہوا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ حسن بن صباح اس کے ہاتھ سے نکل جائے وہ دیکھ رہی تھی کہ حسن بن صباح بادشاہوں کا بادشاہ بنتا جا رہا تھا لیکن زندگی بڑی پیاری ہوتی ہے وہ تو سوچ سوچ کر بے حال ہوئی جا رہی تھی
کسی گہری سوچ میں کھو گئی ہو فرح صالح نمیری نے کہا واپس جانے کا خیال دل سے نکال دو دل میں اس خزانے کو رکھو جو ہم لینے جا رہے ہیں میں واپس آ کر باقاعدہ فوج بناؤں گا اور اس علاقے کے تمام قلعے فتح کر لونگا میں بادشاہ ہونگا تم ملکہ ہوگی
اگر ہم زندہ واپس آئے تو فراح نے کہا
ہم زندہ واپس آئیں گے صالح نمیری نے کہا
اگر میں کہوں کہ آپ جہاں جا رہے ہیں وہاں کوئی خزانہ نہیں تو کیا آپ مان لیں گے؟
فراح نے پوچھا
بالکل نہیں صالح نمیری نے کہا
فرح نے دیکھا کہ صالح نمیری کے دماغ پر خزانہ ایسا سوار ہوا ہے کہ اس کا دماغی توازن صحیح نہیں رہا اس نے ایک اور دلیل سوچ لی
آپ تو بڑے پکے مسلمان ہوا کرتے تھے فرح نے کہا پتہ چلا تھا کہ آپ زاہد اور پارسا ہیں اہل سنت ہیں لیکن اس خزانے نے تو آپ کے دل سے خدا کو نکال دیا ہے میں آپ کی کچھ نہیں لگتی لیکن آپ مجھے اپنے ساتھ لے آئے ہیں صرف اس لئے کہ میں خوبصورت اور جوان لڑکی ہوں
میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو صالح نمیری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا مجھے آگے جانے سے روکنے کے لیے تم یہ کہوں گی کہ مسلمان اپنے دلوں میں خزانے کا لالچ نہیں رکھا کرتے تم مجھے خلفاء راشدین کی سادگی کی باتیں سناؤ گی میری بات غور سے سن لو فرح وہ وقت اور تھا وہ مسلمان اور تھے آج کے وقت کا تقاضا کچھ اور ہے آج طاقت اس کے پاس ہے جس کے پاس خزانہ ہے میں تو کہتا ہوں کہ آج خدا بھی اسی کا ہے جس کے پاس خزانہ ہے میں نے خدا کے آگے رکوع و سجود کرتے ایک عمر گزار دی ہے لیکن خدا نے مجھے اس خزانے کا اشارہ نہیں دیا اچانک اس کی آواز اونچی اور تحکمانہ ہوگئی اس نے کہا تم میری ملکیت ہو سفر کی صعوبتوں اور خطروں کے اور موت کے خوف سے مجھے آگے بڑھنے سے روک رہی ہو میں قلعہ خلجان کا والی اور امیر شہر ہوں میرا حکم چلتا ہے یہ گیارہ آدمی جو میرے ساتھ جا رہے ہیں یہ میرے حکم کے غلام ہیں تم بھی میرے حکم کی پابند ہو
خزانے کے تو اپنے اثرات تھے لیکن صالح نمیری کو فرح نے ایک پھول دیا تھا جس کی خوشبو کی اس نے بہت تعریف کی تھی پھر فرح نے اسے روئی پر اسی خوشبو کا عطر لگا کر دیا جو اس نے اپنی مونچھوں پر مل لیا تھا وہ نہ جان سکا کہ یہ خوشبو حسن بن صباح کی ایجاد ہے اور یہ خوشبو انسان کے خیالات کو بدل دیتی ہے تصور کو انسان حقیقت اور حقیقت کو تصور سمجھنے لگتا ہے
فرح خاموش ہوگئی
دن ابھی آدھا گزرا تھا صالح نمیری نے اپنے قافلے کو کوچ کا حکم دیا اور یہ حکم بھی کے تابوت کو توڑ دیا جائے انہوں نے چار گھوڑے فالتو ساتھ لے لیے تھے سفر ایسا تھا کہ گھوڑے مر سکتے تھے یہ چار گھوڑے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ساتھ لے جائے جارہے تھے ایک گھوڑے پر فرح کو سوار کر دیا گیا
جنگل زیادہ گھنا ہوتا جا رہا تھا اس میں اونچی نیچی ٹیکریاں اور سلّوں والی چٹانیں بھی تھیں جگہ جگہ پانی جمع تھا چلنے کا راستہ مشکل سے ہی ملتا تھا ہر آٹھ دس قدموں کے بعد دائیں یا بائیں مڑنا پڑتا تھا اس طرح فاصلہ زیادہ ہی ہوتا جا رہا تھا
سورج افق کے پیچھے چلا گیا جنگل اتنا گھنا تھا کہ شام بہت جلد تاریک ہوگئی
صالح نمیری وہیں رک گیا اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ رات گزارنے کے لیے جگہ دیکھیں تھوڑی ہی دیر میں ایک جگہ دیکھ لیں گئی جو قدرے وسیع اور ہموار تھی اس کے اردگرد ہری سرسبز ٹیکریاں تھیں گھنے درختوں نے شامیاںے تان رکھے تھے
دو مشعلیں جلا کر زمین میں گاڑ دیں گئیں
صالح نمیری کا خیمہ نصب ہونے لگا تو فرح بھڑک گئی
میں الگ خیمے میں سوؤں گی اس نے کہا اپنے ساتھ چھوٹے خیمے بھی ہیں
آخر تم نے میری بیوی بننا ہے صالح نمیری نے کہا یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے اگر تم میرے خیمے میں سوؤگی تو یہ معیوب فعل نہیں ہوگا
بیوی بن جانے تک آپ میرے لیے غیر مرد ہیں فرح نے کہا میں مسلمان کی بیٹی ہوں میں اسلام کی پوری پابندی کرونگی
ایک چھوٹا خیمہ اور لگا دو صالح نمیری نے حکم کے لہجے میں کہا
خیمہ گاہ میں دو چھوٹے اور دو بڑے خیمے کھڑے ہوگئے بڑے خیمے گیارہ آدمیوں کے لیے تھے جو چھوٹے خیموں سے دور نصب کیے گئے تھے دونوں چھوٹے خیموں کے درمیان فرح نے خاصا فاصلہ رکھوایا تھا
اس نے صالح نمیری کے ساتھ ایسی باتیں کی تھیں کہ یہ شخص اس سے متاثر ہو گیا اور وہ فرح کو شرم حجاب والی بااخلاق لڑکی سمجھ بیٹھا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ لڑکی حسن بن صباح کی شاگرد ہے اور زبان کا جادو چلانے میں مہارت رکھتی ہے فرح نے اسے اپنی محبت کا بھی یقین دلایا تھا
کھانا کھا کر سب سو گئے دن بھر کی گھوڑ سواری نے ان کی ہڈیاں توڑ دی تھیں
انہیں بے ہوشی جیسی نیند نے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا صرف فرح تھی جو جاگ رہی تھی اور نیند پر غلبہ پانے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی وہ دوسروں کے سوجانے اور بہت سا وقت گزر جانے کی منتظر تھی اس نے کچھ سوچ کر صالح نمیری کے ساتھ وہ باتیں کی تھیں جن سے وہ متاثر بلکہ مسحور ہو گیا تھا
چاند اوپر آ گیا تھا مشعلیں سونے سے پہلے بجھا دی گئی تھیں جنگل اور صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف ہوا کرتی ہے چاندنی کی کرنیں درختوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں رات دبے پاؤں گزرتی جا رہی تھی
فرح اس دور کی لڑکی تھی جب عورتیں بھی اپنے مردوں کے دوش بدوش لڑنے کے لیے میدان جنگ میں پہنچ جایا کرتی تھیں یہ الگ بات ہے کہ مرد انہیں پیچھے رکھتے لڑاتے نہیں تھے اس وقت عورتیں بھی گھوڑ سواری تیغ زنی وغیرہ میں مہارت رکھتی تھیں فرح تو خاص طور پر پھرتیلی اور چست و چالاک لڑکی تھی
نصف شب سے کچھ دیر پہلے فرح خیمے میں سے نکلی اور قریب کے ایک درخت کی اوٹ میں ہوگی خیموں کو باری باری دیکھا ہر خیمے کے پردے گرے ہوئے تھے وہ پیچھے ایک اور درخت کی اوٹ میں چلی گئی وہاں اونچی گھاس تھی وہ اس گھاس کے پیچھے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چل پڑی
گھوڑے اور اونٹ خیموں سے کچھ دور ایک ٹیکری کے پیچھے باندھے گئے تھے فرح خیموں سے دور چلی گئی تھی گھاس جھاڑیوں اور درختوں کی اوٹ میں وہ چکر کاٹ کر گھوڑوں تک پہنچی زینیں وغیرہ گھوڑوں کے قریب پڑی تھیں فرح نے ایک زین بغیر آواز پیدا کیے اٹھائی اور ایک گھوڑے کی پیٹھ پر رکھ کر کس دی پھر گھوڑے کے منہ پر لگام بھی چڑھا دیا رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہو گئی
اس نے گھوڑے کو فوراً ایڑ نہ لگائی تاکہ قدموں کی آہٹ نہ ہو لیکن وہ زمین پتھریلی تھی آواز پیدا ہو رہی تھی رات کے سناٹے میں ہلکی سی یہ آواز اتنی اونچی سنائی دی کہ ایک آدمی کی آنکھ کھل گئی اسے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دینے لگی جو دور ہٹتے جا رہے تھی
وہ اپنے کسی ساتھی کو جگائے بغیر خیمے سے نکلا اور گھوڑوں کی طرف گیا ایک گھوڑا کم تھا زینیں دیکھی ایک زین کم تھی
ایک گھوڑا کوئی لے گیا ہے اوئے اس نے بلند آواز سے کہا اس کے ساتھی ہڑبڑا کر اٹھے اور باہر کو دوڑے ادھر کچھ دور گھوڑے کے سرپٹ دوڑتے ٹاپ سنائی دیے فرح نے اس خیال سے گھوڑے کو ایڑ لگا دی تھی کہ وہ خاصی دور نکل آئی ہے اسے واپسی کے راستے کا اندازہ تھا
ان سب کی آوازوں پر صالح نمیری بھی جاگ اٹھا خیمے سے نکل کر اس نے وہیں سے پوچھا یہ کیا شور ہے ؟
ایک گھوڑا چوری ہو گیا ہے ایک آدمی نے کہا
صالح نمیری یہ سنتے ہی فرح کے خیمے کی طرف دوڑا خیمے میں دیکھا فرح وہاں نہیں تھی
بدبختو صالح نمیری نے کہا وہ بھاگ گئی ہے دو آدمی فوراً اس کے پیچھے جاؤ وہ موت کے ڈر سے میرا ساتھ چھوڑ گئی ہے اسے پکڑ کر لے آؤ میں اسے یہی درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر آگے چلا جاؤں گا دو آدمیوں نے بہت تیزی سے گھوڑے پر زین کسی اور سوار ہوکر ایڑ لگا دی
فرح دور نکل گئی تھی اور وہ صحیح راستے پر جا رہی تھی گھوڑا اس کا خوب ساتھ دے رہا تھا شفاف چاندنی اسے راستہ دکھا رہی تھی وہ تین میل سے زیادہ فاصلہ طے کر گئی ایک جگہ درخت کم ہو گئے تھے اور ایک دوسرے سے دور دور تھے
اس نے بڑی زور سے باگ کھینچی طاقتور گھوڑا فوراً رک گیا فرح کو بیس پچیس گھوڑسوار دکھائی دیئے جو دائیں سے بائیں طرف جا رہے تھے یعنی فرح کا راستہ کاٹ رہے تھے فاصلہ ایک سو گز سے کچھ کم ہی تھا فرح ان کے گزر جانے کا انتظار کرنے لگی اس کا راستہ یہی تھا فرح اگر مرد ہوتی تو اسے روکنے کی ضرورت نہیں تھی رات کو مسافر چلتے ہی رہتے ہیں لیکن فرح جوان اور بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی اور اس جنگل میں تنہا تھی اسے کسی آدمی نے بخشا نہیں تھا
ان سواروں میں سے کسی نے فرح کو دیکھ لیا اور ایک آدمی کو بتایا جو اس قافلے کے آگے آگے جا رہا تھا اس نے حکم دیا کے جاؤ دیکھو کون ہے مجھے تو عورت لگتی ہے
ایک سوار نے فرح کی طرف گھوڑا دوڑا دیا فرح نے اپنا گھوڑا ایک اور طرف دوڑا دیا حکم دینے والے آدمی نے کہا کہ دو تین اور آدمی جاؤ تین اور سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے فرح نے ان سے بچنے کی بہت کوشش کی گھوڑے کو بہت موڑا اور گھمایا لیکن وہ چار سواروں کے گھیرے میں آ گئی اور پکڑی گئی
ادھر سے صالح نمیری کے دو سوار آ گئے انہوں نے فرح کو دیکھا تو رک گئے
یہ ہمارے امیر کی لڑکی ہے ایک سوار نے کہا اس سے بھاگ آئی ہے اسے ہمارے حوالے کر دو
نہیں فرح نے کہا یہ جھوٹ کہتے ہیں ان کے امیر کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں یہ مجھے اغوا کرکے لے جا رہے تھے اور میں بھاگ آئی مجھے خلجان پہنچا دو
تم بھائیوں جاؤ صالح نمیری کے ایک سوار نے کہا یہ جس کی لڑکی ہے وہ خلجان کا امیر اور والی قلعہ ہے ہم اسے اس کے حوالے کریں گے
فرح نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا
چاروں سواروں نے صالح نمیری کے سواروں سے کہا کہ وہ واپس چلے جائیں اور اس لڑکی کو بھول جائیں دونوں سواروں نے ان چار سواروں کو عام مسافر سمجھ کر تلواریں نکال لیں ان چاروں نے بھی تلوار نکالی پھر تلواروں سے تلواریں ٹکرا نے لگیں تب ان کو پتہ چلا کہ یہ بڑے ماہر تیغ زن ہیں انہوں نے مقابلہ تو کیا لیکن وہ چار تھے ان کی تلواروں نے ان دونوں کو بری طرح کاٹ پھینکا
ان سواروں نے صالح نمیری کے سواروں کی تلواریں اٹھائیں نیامیں اتار کر تلواریں ان میں ڈالیں ان کے گھوڑے پکڑے اور فرح کو ساتھ لے کر چل پڑے
تم کون لوگ ہو؟
فرح نے ان سے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟
غلط فہمی میں نہ رہنا لڑکی ایک نے کہا ہم کسی کو دھوکے میں نہیں رکھا کرتے ہم صحرائی قزاق ہیں اپنے سردار کے پاس جا رہے ہیں
کیا تم لوگ مجھے خلجان پہنچا دو گے؟
فرح نے کہا مجھے خلجان کے راستے پر ڈال دینا میں اکیلی چلی جاؤں گی
تمہارے اس سوال کا جواب ہمارا سردار ہی دے سکتا ہے ایک سوار نے کہا
جواب مجھ سے سن لو ایک اور سوار بولا تم بہت حسین لڑکی ہو ہیروں کی قدر صرف ہمارا سردار ہی کر سکتا ہے وہ تمہیں نہیں جانے دے گا
فرح کے لیے یہ خبر بہت ہی بری تھی وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ چلی جاتی اس نے کیا بھی یہی مزحمت تو دور کی بات ہے اس نے زبان بھی نہ ہلائی اور اس طرح ان کے ساتھ چل پڑی جیسے وہ اپنی خوشی اور مرضی سے جا رہی ہو لیکن اس کا دماغ بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا
اس کے دل و دماغ پر حسن بن صباح طاری رہتا تھا اس لیے اس کے سوچنے کا انداز حسن بن صباح جیسا ہی تھا اور یہ انداز ابلیسی تھا ایسے انداز فکر میں یہ پابندی نہیں ہوا کرتی کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور اپنا مفاد حاصل کرتے کرتے کسی اور کی حق تلفی نہ ہو جائے اس لڑکی کے سوچنے کا انداز یہ تھا کہ باپ بیٹے کو ذبح کر دے بھائی بہن کا گلا کاٹ دے بیٹا ماں کا پیٹ چاک کر دے میرا بھلا ہو جائے
قزاقوں کے سردار تک پہنچتے فرح کے دماغ نے اسے راہ نجات دکھا دی
اوہ سردار نے چاندنی میں فرح کا چہرہ دیکھ کر حیرت زدگی کے عالم میں کہا کیسے مان لوں کہ تو نسل انسانی سے ہے اور تو جہان دگر کی پر اسرار مخلوق میں سے نہیں؟
سردار لب و لہجے اور انداز تکلم سے عربی لگتا تھا عرب یوں بات کیا کرتے تھے جیسے انداز نظم سنا رہے ہوں
یہ کہتی ہے اسے امیر خلجان اغوا کرکے لے جا رہا تھا ایک سوار نے کہا دو سوار اس کے پیچھے آئے تھے ایک اور سوار بولا ہم نے دونوں کو مار ڈالا ہے
امیر خلجان سردار نے سوالیہ انداز سے پوچھا؟
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ یہ چاند نہیں سورج ہے امیر خلجان کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک لڑکی کو اغوا کر کے لے جا رہا ہو کیا وہ تجھے کہیں سے زبردستی اٹھوا کر خلجان لے جا رہا تھا ؟
گھوڑے سے اترو آؤ ہمارے پاس بیٹھو اور گلاب کی پنکھڑیوں کو ذرا حرکت دو کہ ہم تمہاری اصلیت جان سکیں
پہلے ان پنکھڑیوں کی قدروقیمت پہچانو فرح نے سردار کا انداز تکلم بھانپ کر کہا تم پتھروں کے سوداگر ہو ہیرو کی قدر کیا جانو پہلے میں ایک امیر شہر کی داشتہ تھی اب ایک قزاق کی لونڈی بن گئی ہوں میری اصلیت کو قزاق کا سردار نہیں سمجھ سکتا
ہاہاہاہا سردار نے فرمائشی قہقہہ لگا کر کہا میں چاندنی میں ہیروں کی طرح چمکتی ہوئی تیری آنکھوں کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ انسان کے نطفے سے پیدا ہونے والی کسی عورت کی آنکھیں اس قدر مخمور اور سحر انگیز ہو سکتی ہیں؟
لیکن تیری زبان کا حسن ان نشیلی انکھوں کے سحر سے زیادہ اثر انگیز ہے
میرے حسن کو ہی نہ دیکھ ائے سردار فرح نے کہا میں تجھے ہفت اقلیم کا شہنشاہ بنا سکتی ہوں تیری ذرا سی ہمت کی ضرورت ہے اب اپنی حالت دیکھ اپنے آپ کو پہچان کیا تو شکار کی تلاش میں جنگل جنگل صحرا صحرا مارا مارا نہیں پھر رہا کسی بڑے قافلے کو لوٹ کر تو بہت بڑا خزانہ حاصل کرلیتا ہے لیکن رہتا قزاق کا قزاق ہی ہے میں تجھے ایک خزانے کا راستہ دکھاتی ہوں وہ تیرے ہاتھ آ جائے تو تو ایک فوج تیار کرکے سلطنت پر قبضہ کر سکتا ہے عرب اور مصر کو اپنی سلطنت میں شامل کر سکتا ہے
کیا تو اپنے ہوش و حواس میں ہے لڑکی سردار نے کہا اگر تو دہشت زدگی سے دماغی توازن کھو نہیں بیٹھی تو یوں بول کہ میں کچھ سمجھ سکوں
فرح نے ایک پتھر سے دو پرندے مارنے کی جو ترکیب سوچی تھی وہ ان قزاقوں کے سردار کو سنا دی
امیر خلجان ایک بڑا خزانہ نکال لانے کے لئے جا رہا ہے فرح نے کہا
کہاں سے ؟
نقشہ اس کے پاس ہے فرح نے کہا اس پر راستہ دکھایا گیا ہے واضح نشانیاں بھی موجود ہیں اور جن خطروں کا امکان ہے وہ بھی نقشے میں دکھائے گئے ہیں اور اس جگہ کی نشانیاں صاف دکھائی ہوئی ہے جہاں خزانہ ایک غار میں رکھا ہوا ہے
خزانے کی نشاندہی کس نے کی ہے؟
ایک درویش نے فرح نے جھوٹ بولا امیر خلجان صالح نمیری نے اس کی بہت خدمت کی تھی میں نے سنا تھا کہ اس درویش کی کوئی خواہش تھی یا ضرورت تھی جو امیر خلجان نے بسروچشم پوری کر دی تھی
اور یہ بتا؟
سردار نے پوچھا تو مجھ پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہے کہ اتنا بڑا راز مجھے دے رہی ہے؟
اس کی وجہ بھی سن لے فرح نے کہا میرے دل میں خزانے کی ذرا سی بھی محبت نہیں اس دل میں ایک آدمی کی محبت ہے میری مجبوری یہ تھی کہ میں امیر خلجان کی داشتہ تھی کچھ وقت ملتا تو اس آدمی سے مل لیتی تھی امیر خلجان درویش کے بتا ہوئے خزانے کی تلاش میں چلا تو میں بہت خوش ہوئی کہ یہ جا رہا ہے تو میں اپنے محبوب کے پاس چلی جاؤں گی اور ہماری شادی ہو جائے گی لیکن امیر خلجان مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے آیا سفر میں آج ہماری پہلی رات ہے میں نے موقع غنیمت جانا اور بھاگ نکلی اگر تیرے آدمی مجھے پکڑ نہ لیتے تو میں کل اس کے پاس ہوتی جو مجھے چاہتا ہے
کیا تو یہ چاہتی ہے کہ میں تجھے چھوڑ دوں؟
سردار نے پوچھا
ہاں فرح نے کہا تو خزانوں کا متلاشی ہے میں محبت کی پیاسی ہوں
لیکن تجھے امیر خلجان تک چلنا پڑے گا سردار نے کہا تیری یہ بات دھوکا بھی تو ہوسکتی ہے مجھے نقشہ مل جائے گا تو تجھے آزاد کردوں گا
تو تو مجھے آزاد کردے فرح نے کہا امیر خلجان کو تو نے زندہ چھوڑ دیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا
وہ زندہ نہیں رہے گا سردار نے کہا اٹھو اپنے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ
وہ ابھی تک نہیں آئے صالح نمیری نے کئی بار کہہ چکا تھا
وہ اسے جانے نہیں دیں گے ہر بار اس کا کوئی نہ کوئی آدمی اسے کہتا یا یہ جنگل میں بھٹک گئی ہو گی یا یہ جا نہیں سکتی وہ اسے لے کے ہی آئیں گے
پھر انہیں گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دینے لگی
وہ آرہے ہیں دو تین آدمیوں نے کہا
اب میں اسے ہر رات باندھ کے رکھا کروں گا صالح نمیری نے کہا
نہیں امیر محترم ایک آدمی نے کہا ہم اور آگے نکل جائیں گے تو یہ بھاگنے کی جرات نہیں کرے گی میں جانتا ہوں کل کے سفر میں یہ جنگل ختم ہو جائے گا اور بے آب و گیاہ پہاڑی علاقہ شروع ہو جائے گا
ٹھہرو صالح نمیری نے کہا سنو گھوڑے دو یا تین نہیں لگتے کیا یہ بہت سے گھوڑے نہیں
ہاں امیر محترم ایک آدمی نے کہا
وہ ابھی سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ آنے والے گھوڑے دو ہیں یا تین ہیں یا زیادہ ہیں کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کا طوفان آگیا اور اس کے ساتھ یہ للکار جو جہاں ہے وہیں کھڑا رہے
وہ تقریباً پچیس قزاق تھے جنہوں نے صالح نمیری کی اس چھوٹی سی خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا
امیر خلجان نقشہ میرے حوالے کر دے سردار نے کہا وہ خزانہ ہمارا ہے صالح نمیری چپ چاپ اپنے خیمے میں چلا گیا باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں تلوار تھی
دیکھتے کیا ہو اس نے اپنے آدمیوں سے کہا ہتھیار اٹھاؤ وہ خزانہ ہمارا ہے
ایک بار پھر سوچ لے صالح نمیری سردار نے کہا ہم قزاق ہیں اور ہم زیادہ ہیں نقشہ میرے حوالے کر دو اور زندہ واپس چلے جاؤ
صالح نمیری کچھ جواب دیے بغیر سردار کی طرف تیزی سے بڑھا سردار کا گھوڑا اس کی طرف بڑھا صالح نمیری تیزی سے بیٹھ گیا اور سردار کے گھوڑے کے پیٹ میں تلوار اتاردی گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا اور اچھلنے کودنے لگا سردار گھوڑے سے کود آیا
صالح نمیری کے ساتھ اب نو آدمی رہ گئے تھے ان میں سے بعض نے تلواریں اٹھا لی تھیں اور بعض کے پاس برچھیاں تھیں ان سب نے جانوں کی بازی لگا دی لیکن نو پیادے پچیس سواروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا فرح کھڑی دیکھ رہی تھی اور اپنی چال کی کامیابی پر بہت ہی خوش تھی وہ اب بھاگ نکلنے کا موقع دیکھ رہی تھی اس نے صرف یہ دیکھنا تھا کہ صالح نمیری مارا جاتا ہے یا نکل بھاگتا ہے اسے اتنے گھمسان کے معرکے اور ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے گھومتے مڑتے گھوڑوں میں صالح نمیری اور قزاقوں کا سردار نظر نہیں آرہے تھے
لڑکی ادھر آ جا فرح کو آواز سنائی دی اپنے امیر کے خیمے تک آجا لڑکی
فرح گھوڑے سے اتری اور صالح نمیری کے خیمے تک دوڑتی گئی چاند سر پر آیا ہوا تھا چاندنی بہت ہی صاف ہو گئی تھی اس نے خیمے کے قریب صالح نمیری کی لاش پڑی دیکھی
میرے ساتھ خیمے میں آ سردار نے فرح سے کہا اور بتاؤ وہ نقشہ کہاں ہے؟
سردار اور فرح اندر چلے گئے فرح نے چمڑے کا ایک تھیلا اٹھا کر سردار کے حوالے کیا اور بتایا کہ نقشہ اس میں ہے سردار تھیلا اٹھائے خیمے سے باہر آگیا تھیلے میں کچھ اور چیزیں پڑی تھیں جو سردار نے باہر پھینک دیں پھر اس میں سے نقشہ نکالا فرح نے کہا یہی ہے اور وہ وہاں سے چل پڑی کہاں جارہی ہے تو؟
سردار نے اس سے پوچھا
تجھے خزانے کا نقشہ مل گیا ہے فرح نے چند قدم دور رہ کر کہا سمجھ لے کے تجھے خزانہ مل گیا ہے اور مجھے آزادی مل گئی ہے
ٹھہر جا سردار نے کہا میں اتنی جلدی تجھے آزادی نہیں دوں گا تو مرجھایا ہوا پھول تو نہیں کہ بغیر سونگھے پھینک دوں
وہ قزاقوں کا سردار تھا کوئی شریف اور معزز آدمی نہیں تھا کہ اپنے وعدے کا پاس کرتا اتنی خوبصورت لڑکی کو وہ کیوں کر چھوڑ دیتا فرح اپنے گھوڑے کی طرف دوڑی تو سردار اس کے راستے میں آگیا فرح دوسری طرف دوڑ پڑی لڑائی لڑی جارہی تھی صالح نمیری کے آدمی مارے جا رہے تھے انہوں نے مرنے سے پہلے کچھ قزاقوں کو بھی مار ڈالا تھا
فرح دوسری طرف دوڑی تو سردار اس کے پیچھے گیا فرح اس کوشش میں تھی کہ وہ مرے ہوئے کسی آدمی کے گھوڑے تک پہنچ جائے سواروں کے بغیر گھوڑے ادھر ادھر بکھر گئے تھے لیکن سردار فرح کو کسی گھوڑے کے قریب نہیں جانے دے رہا تھا
فرح پھرتیلی تھی وہ تیز دوڑتی خیمے گاہ سے کچھ دور چلی گئی سردار بھی تیز دوڑا
آگے اونچی اور گھنی جھاڑیاں تھیں جو باڑ کی طرح ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں فرح ان میں سے گزر گئی لیکن آگے دلدل تھی وہ راستہ بدلنے ہی لگی تھی کہ سردار پہنچ گیا فرح دلدل میں چلتی آگے چلی چند ہی قدم آگے گئی ہوگی کہ اسے ایسا لگا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو وہ نیچے جانے لگی
سردار چیتے کی طرح اس پر جھپٹا اور وہ بھی نیچے ہی نیچے جانے لگا یہ دلدل تھی جو ہر چیز کو اپنے اندر غائب کر دیا کرتی ہے فرح اور سردار نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا فرح چیخ اور چلا رہی تھی سردار اپنے آدمیوں کو نام لے لے کر پکار رہا تھا اور وہ دونوں دلدل میں دھنستے چلے جارہے تھے سردار کے ہاتھ سے خزانے کا نقشہ چھوٹ گیا یہ نقشہ بے بنیاد تھا اور خزانہ ایک فریب اور ایک مفروضہ تھا
سردار کے تین چار آدمی پہنچ گئے انہیں اپنے سردار اور فرح کے سر نظر آئے اور یہ بھی دلدل میں غائب ہوگۓ
تیسرے یا چوتھے روز احمد بن عطاش شاہ در سے خلجان پہنچ گیا
خلجان کا قلعہ مبارک ہو پیرومرشد حسن بن صباح نے اس کا استقبال کرتے ہوئے کہا
کیا صالح نمیری کی واپسی کا کوئی امکان نہیں؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
نہیں حسن بن صباح نے جواب دیا خزانہ وہ اژدہا ہے جو آج تک نہ جانے کتنے انسانوں کو نگل چکا ہے اس نے بڑے جابر بادشاہوں کو بھی نگلا ہے اور اس نے مومنین کو زاہدوں اور پارساؤں کو بھی نگلا ہے وہ صالح نمیری جو مجھ پر لعن طعن کرنے آیا تھا کہ تم خدا کے ایلچی کیسے بن گئے اور وہ صالح نمیری جو دعوی کرتا تھا کہ اللہ کے واحد عقیدے کے پیروکار صرف اہل سنت ہیں اور وہی اللہ کے قریب ہیں وہ صالح نمیری خدا اور اپنے عقیدے کو فراموش کر کے خزانے کی تلاش میں چلا گیا فرح بھی اس کے ساتھ چلی گئی ہے
کیا تمہیں اس کا افسوس ہے؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
نہیں مرشد حسن بن صباح نے کہا میں حیران ہوں کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم صالح نمیری کو خزانے کا دھوکا دے کر غائب کر رہے ہیں وہ اس کے ساتھ کیوں چلی گئی ؟
اتنے میں دربان نے اندر آ کر بتایا کہ والی خلجان صالح نمیری کا ایک آدمی بہت بری حالت میں آیا ہے حسن بن صباح نے کہا اسے فوراً اندر لے آؤ
ایک آدمی دربان کے سہارے اندر آیا اس کے کپڑے خون سے لال تھے اور خون خشک ہو چکا تھا اس کے سر پر بازوؤں پر اور ران پر کپڑے لپٹے ہوئے تھے احمد بن عطاش کے کہنے پر اسے پانی پلایا گیا وہ تو جیسے آخری سانسیں لے رہا تھا
کون ہو تم ؟
احمد بن عطاش نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
ایک دن کی مسافت چار دنوں میں طے کی ہے اس نے ہانپتی سانسوں کو سنبھال سنبھال کر بڑی ہی مشکل سے کہا
وہ ان گیارہ آدمیوں میں سے تھا جو صالح نمیری کے ساتھ گئے تھے یہ آدمی قزاقوں کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوا اور اسے وہاں سے نکل آنے کا موقع مل گیا تھا وہ صالح نمیری کے نمک حلال اور وفادار ملازموں میں سے تھا وہ صرف اطلاع دینے کے لئے خلجان آ گیا تھا راستے میں کئی بار بےہوش ہوا گھوڑے سے گرا اٹھا اور چوتھے روز خلجان پہنچ گیا
اس نے بتایا کہ صالح نمیری مارا گیا ہے اور خزانے کا نقشہ قزاقوں کے سردار نے لے لیا ہوگا فرح کے متعلق اس نے بتایا کہ وہ قزاقوں کے قبضے میں تھی اس نے فرح اور سردار کو دلدل میں ڈوبتے نہیں دیکھا تھا
یہ وفادار شخص باتیں کرتے کرتے خاموش ہو گیا اور اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا تھا
حسن بن صباح نے کہا کہ اس کی لاش لے جاؤ اور دفن کر دو
اب یہ قلعہ ہمارا ہوگیا ہے احمد بن عطاش نے کہا اب بتاؤ حسن اس کامیابی سے تم نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟
یہ کہ انسان نفسانی خواہشات کا غلام ہے حسن بن صباح نے کہا کسی بھی انسان کی ان خواہشات کو ابھار دو اور اسے یقین دلا دو کہ اس کی یہ خواہشات پوری ہو جائیں گی تو اسے جس راستے پر ڈال دو وہ اسی راستے پر چل پڑے گا
میں تمہیں یہ سبق پہلے دے چکا ہوں احمد بن عطاش نے کہا ہر انسان کی ذات میں ابلیس موجود ہے اور ہر انسان کی ذات میں خدا بھی موجود ہے یوں کہہ لو کہ انسان بیک وقت نیک بھی ہے بد بھی ہے عبادت کیا ہے؟
بدی پر غلبہ پائے رکھنے کا ایک ذریعہ حسن بن صباح نے کہا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک وسیلہ
ہم نے ہر انسان میں ابلیس کو بیدار کرنا ہے احمد بن عطاش نے کہا صالح نمیری پکا مومن تھا زاہد اور پارسا تھا تم نے اسے ایسے خزانے کا راستہ دکھایا جس کا وجود ہی نہ تھا اس دھوکے میں فرح جیسی حسین لڑکی شامل تھی، تم نے دیکھا کہ اس شخص کی پارسائی اس طرح اڑ گئی جس طرح سورج کی تمازت سے شبنم اُڑ جاتی ہے
تلبیس ابلیس آئمہ تلبیس اور تاریخ ابن خلدون میں تفصیل سے لکھا ہے کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے راتوں کو آئینوں کی چمک دیکھا کر جس طرح لوگوں کو دکھایا تھا کہ خدا کا ایلچی زمین پر اترا ہے اس کا اس وسیع و عریض علاقے کے لوگوں پر وہی اثر ہوا تھا جو پیدا کرنا مقصود تھا
حسن بن صباح نے لوگوں کو اپنی زیارت بھی کرائی تھی اور ایک خاص جڑی بوٹی کی دھونی اتنے بڑے مجمعے کو دے کر لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ حاصل کرلیا تھا یہ تاریخ کی پہلی اجتماعی ہپنا ٹائزم تھی
اگر یہ ڈھنگ اختیار نہ کیا جاتا تو بھی لوگ اس کے قائل ہو جاتے ،کیونکہ لوگوں میں توہم پرستی اور افواہ پسندی جیسی کمزوریاں موجود تھیں حسن بن صباح نے قبیلوں کے سرداروں کو خصوصی اہمیت دی تھی حسن بن صباح کے مبلغوں یعنی پروپیگنڈا کرنے والوں کا بھی ایک گروہ پیدا ہوگیا ،اس گروہ کے آدمی فقیروں اور درویشوں کے بھینس میں بستی بستی پھرتے اور خدا کے ایلچی کے نزول اور اس کے برحق ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے تھے
خلجان کا قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں آگیا تو یہ مشہور کردیا گیا کہ امیر شہر صالح نمیری خدا کے ایلچی سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے قلعہ خدا کے ایلچی کی نذر کر دی ہے اور خود تارک الدنیا ہو کر کہیں چلا گیا ہے
مختصر یہ کہ حسن بن صباح اور احمد بن عطاش نے باطنی نظریات اور اپنی عقیدے لانے کے لئے زمین کا خاصا خطہ حاصل کرلیا اور فضا اور ماحول کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا
اب داستان گو اس داستان کو واپس اس مقام پر لے جا رہا ہے جہاں حسن بن صباح خواجہ طوسی نظام الملک کے پاس اسے ایک وعدہ یاد دلانے گیا تھا اس وقت نظام الملک نیشاپور میں سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم مقرر کیا جا چکا تھا ،داستان کو یاد دہانی کی خاطر ایک بار پھر مختصراً بتا دیتا ہے کہ یہ وعدہ کیا تھا اور یہ کس طرح پورا ہوا
خواجہ حسن طوسی جو بعد میں نظام الملک کے نام سے مشہور ہوا تاریخ کی ایک اور مشہور شخصیت عمر خیام اور حسن بن صباح ایک مشہور عالم امام مؤافق کے مدرسے میں پڑھے تھے مدرسے میں ایک روز حسن بن صباح نے اپنے ان دونوں ہم جماعتوں سے کہا کہ امام مؤافق کے شاگرد بڑے اونچے مقام پر پہنچا کرتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم تینوں یہاں سے فارغ ہو کر اونچے مقام پر پہنچیں گے آؤ وعدہ کریں کہ ہم نے جو کوئی کسی اونچے مقام پر پہنچ گیا وہ دوسرے دو دوستوں کی مدد کرے گا
تینوں دوستوں نے ہاتھ ملا کر یہ وعدہ کیا نظام الملک اور عمر خیام کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حسن بن صباح نے بڑے ہی مذموم مقاصد کی خاطر یہ وعدہ یا معاہدہ کیا ہے، پھر ایسا ہوا کہ تینوں تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی اپنی راہ لگ گئے کچھ عرصے بعد نظام الملک سلطان ملک شاہ کے یہاں گیا اور ملازمت مانگی اس کی قابلیت اور فہم و فراست کو دیکھتے ہوئے سلطان ملک شاہ نے اسے اپنا وزیر بنا لیا اور کچھ ہی عرصے بعد اسے وزیراعظم بنا دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے نظام الملک کا خطاب دے دیا
عمر خیام کو پتہ چلا کہ اس کا ہم جماعت اور دوست وزیراعظم بن گیا ہے تو وہ اس سے جا ملا اور مدرسے کے زمانے کا وعدہ یاد دلایا نظام الملک نے عمر خیام کو ملازمت دلانی چاہی لیکن عمر خیام نے کہا کہ وہ تحقیق کے میدان میں جانا چاہتا ہے پھر وہ کتابیں لکھےگا
نظام الملک نے اسے سلطان سے اچھی خاصی رقم دلوادی، عمر خیام نے حکمت میں نام پیدا کیا اور ایسی کتابیں لکھیں جو آج تک سند کے طور پر استعمال ہوتی ہیں
اس کے بعد حسن بن صباح نظام الملک کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ تالاش روزگار میں مارا مارا پھر رہا ہے اور ذلیل و خوار ہو رہا ہے آخر مجبور ہو کر اس کے پاس آیا ہے کیا تم اتنے لمبے لمبے سال بے روزگار پھرتے رہے ہو؟
نظام الملک نے پوچھا تھا
اگر کہیں روزی کا ذریعہ ملا بھی تو کچھ دنوں بعد ختم ہو گیا حسن بن صباح نے کہا تھا مجھے تاجر بننے کا مشورہ دیا گیا لیکن تجارت کے لیے سرمایہ کہاں سے لاتا دکانداری مجھ سے ہوتی نہیں میں تو روزگار کی تلاش میں مصر تک چلا گیا تھا لیکن قسمت نے کہیں بھی ساتھ نہ دیا لوگ کہتے ہیں کہ تم نے اتنا زیادہ علم حاصل کر لیا ہے کہ تم سرکاری عہدے پر ہی کام کر سکتے ہو
نظام الملک شریف النفس اور مخلص انسان تھا اس نے اپنے دوست اور ہم جماعت کو اس افسردگی مایوسی اور تنگدستی کے عالم میں دیکھا تو اس نے سلطان ملک شاہ کو بتایا کہ اس کا ایک دوست آیا ہے جو غیر معمولی فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کی تعلیمی سند یہ ہے کہ امام مؤافق کے مدرسے کا پڑھا ہوا ہے
ہمارے لئے صرف آپ کی رائے سند ہے سلطان نے کہا تھا اسے آپ جس عہدے کے لیے مناسب سمجھتے ہیں رکھ لیں
نظام الملک کو صرف سلطان کی منظوری درکار تھی وہ مل گئی تو نظام الملک نے اسے ایک اونچے عہدے پر فائز کر دیا یہ شک تو اس کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا تھا کہ حسن بن صباح کچھ اور ہی مقاصد دل میں لے کر حکومت کی انتظامی مشینری میں شامل ہوا ہے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:16 }
داستان گو نے ابتدا میں یہاں تک ہی سنایا تھا کہ حسن بن صباح سلجوقی سلطنت کی انتظامیہ میں کس طرح داخل ہوا تھا وہ جو اس نے نظام الملک کو درد بھری داستان سنائی تھی وہ جھوٹ تھا وہ مصر نہیں گیا تھا نہ اس نے ذریعہ معاش کی تلاش کی تھی نہ وہ تنگدست رہا تھا یہ سنایا جاچکا ہے کہ وہ اپنے استاد عبدالملک بن عطاش کے یہاں چلا گیا تھا جس نے اس کی تربیت شروع کر دی تھی پھر اسے احمد بن عطاش کے پاس بھیج دیا تھا فرح اس کے ساتھ گئی تھی
اس نے خلجان کا شہر لے لیا تھا اور یہ کامیابی حاصل کی تھی کہ لوگوں نے اسے خدا کا ایلچی یا خدا کی بھیجی ہوئی برگزیدہ شخصیت مان لیا تھا اس کے بعد وہ نظام الملک کے پاس گیا اور اس کے آگے یہ رونا رویا تھا کہ وہ اتنا عرصہ بے روزگار اور تنگ دست رہا ہے
حسن بن صباح کو نظام الملک کس طرح یاد آیا تھا؟
ہر مستند تاریخ میں اس سوال کا جواب موجود ہے احمد بن عطاش نے شاہ در کا شہر اور قلعہ دھوکے میں لے لیا تھا پھر حسن بن صباح نے فریب کاری سے خلجان کے امیر صالح نمیری سے تحریر لے کر اسے خزانے کا رستہ دکھا دیا اور وہ موت کے منہ میں چلا گیا یہ شہر بھی ان باغیوں کے قبضے میں آ گیا اب یہ دونوں باتیں سوچنے لگے کہ اس سے آگے کیا کیا جائے؟
تم نے دیکھ لیا ہے حسن احمد بن عطاش نے کہا لوگوں کو اپنے جال میں لانا کوئی مشکل نہیں لوگ افواہ سنسنی اور پراسراریت سے متاثر ہوتے ہیں
اور وہ زبان کے ہیر پھیر کا اثر قبول کرتے ہیں حسن بن صباح نے کہا
اور ان لوگوں کے امراء اور سردار وغیرہ کا معاملہ ذرا الگ ہے احمد بن عطاش نے کہا انہیں یہ تاثر دے دو کہ تم لوگوں کے روزی رساں ہو اور انہیں دولت اور عورت کی جھلک دکھا دو پھر یہ تمہارے غلام ہو جائیں گے لیکن لوگوں کو ساتھ لے کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ حکومت سلجوقیوں کی ہے اور سلجوقی اہل سنت ہیں
ہم لوگوں کو اپنے اثر میں لے کر انہیں سلجوقیوں کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں حسن بن صباح نے کہا
نہیں حسن! احمد بن عطاش نے کہا اس کے لیے کم از کم دو سال کا عرصہ چاہیے اور اس حقیقت کو کبھی نہ بھولنا کے سلجوقی ترک ہیں اور بڑے ظالم اور جنگجو ہیں ان کے پاس فوج ہے اس وقت ضرورت یہ ہے کہ جس طرح ہم نے شاہ در اور خلجان لے لیا ہے اسی طرح سلجوقیوں کی سلطنت پر قبضہ کرلیں
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا حسن! احمد بن عطاش نے کہا عزم پختہ مقصد واضح اور دماغ حاضر ہونا چاہیے ہمیں ان سلاطین کی انتظامیہ میں گھس جانا چاہیے یہ کام تم کر سکتے ہو میں تمہیں ایک نیا محاذ دے رہا ہوں
میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں استاد محترم! حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ بتائیں میں نے کرنا کیا ہے
میرے جاسوسوں نے مجھے ایک اطلاع دی ہے احمد بن عطاش نے کہا خواجہ حسن طوسی سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم بن گیا ہے یہ تو مجھے کبھی کا معلوم تھا کہ اسے سلطان ملک شاہ نے اپنا وزیر بنا لیا ہے لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں وزیراعظم بن جانا بہت بڑی بات ہے یہی نہیں مجھے اطلاع ملی ہے کہ سلطان ملک شاہ اس سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اسے نظام الملک کا خطاب دیا ہے
استاد محترم! حسن بن صباح نے پوچھا وہ تو وزیراعظم بن گیا ہے یہ بتائیں میں نے کیا کرنا ہے کیا اسے قتل کرانا ہے؟
قتل بعد کی بات ہے احمد بن عطاش نے کہا ہمارے راستے میں جو آئے گا وہ قتل ہو گا ابھی یہ کرنا ہے کہ اس کی جگہ لینی ہے کیا تمہیں یاد نہیں کہ خواجہ حسن طوسی تمہارا ہم جماعت تھا
ہاں میرے مرشد! حسن بن صباح نے اچھل کر کہا یہ تو میں بھول ہی گیا تھا
میں یہ بھی جانتا ہوں تم کیوں بھول گئے تھے احمد بن عطاش نے کہا مدرسے سے نکلتے ہی تمہیں عبدالملک بن عطاش کے حوالے کر دیا گیا تھا پھر تمھاری سرگرمیاں ایسی رہی کہ تمہیں اور کچھ یاد آ ہی نہیں سکتا تھا
مجھے کچھ اور بھی یاد آ گیا ہے حسن بن صباح نے کہا مدرسے میں ہم تین دوست تھے عمر خواجہ حسن اور میں ہم نے معاہدہ کیا تھا کہ مدرسے سے فارغ ہو کر ہم میں سے کسی کو کہیں بڑا عہدہ مل گیا تو وہ دونوں کو کسی اچھے عہدے پر فائز کرائے گا میرا کام تو آسان ہوگیا کل صبح روانہ ہو جاؤں گا اور خواجہ حسن کو اس کا وعدہ یاد دلاؤں گا
دیکھا حسن! احمد بن عطاش نے کہا ہمارا ہر کام آسان ہوتا چلا جا رہا ہے یہ ثبوت ہے کہ ہم حق پر ہیں اور خدا ہماری مدد کر رہا ہے یہ بھی یاد رکھو کہ سلطان ملک شاہ اب نیشاپور میں نہیں اب اس کا دارالحکومت مَرو میں ہے
اگلی صبح کا دھندلکا ابھی خاصا گہرا تھا جب حسن بن صباح اپنے اعلیٰ عربی نسل کے گھوڑے کی بجائے معمولی سے ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس کا لباس بھی ایک عام آدمی کا لباس تھا ایسے گھوڑے اور ایسے لباس میں وہ غریب آدمی لگتا تھا اس کے ساتھ ایک گھوڑا اور تھا جس پر ایک جوان اور بڑی ہی دلکش لڑکی تھی اس کا لباس بھی غریبانا تھا
یاد رکھنا حسن! احمد بن عطاش نے کہا اپنے آپ کو اہل سنت ظاہر کرنا ہے اور جمعہ کے روز مسجد میں چلے جایا کرنا اگر تمہیں وہاں کوئی اچھا رتبہ مل گیا تو سلطان ملک شاہ کا منظور نظر بننے کی کوشش کرنا اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھتے رہنا کے نظام الملک کو تم سلطان کی نظروں سے کس طرح گرا سکتے ہو ایک بار وزارت کا عہدہ لے لو پھر سلجوقی سلطنت میں ہماری زمین دوز کاروائیاں شروع ہوجائیگی جاسوس کے ذریعے میرا تمہارے ساتھ رابطہ قائم رہے گا ایک بار پھر سوچ لو کہ اس لڑکی کو تم نے اپنی بیوہ بہن ظاہر کرنا ہے یہ بات تو ہو چکی ہے کہ اس لڑکی کو کس طرح استعمال کرنا ہے
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی سازش یہ تھی کہ نظام الملک کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرکے اسے معزول کرانا اور اس کی جگہ حسن بن صباح نے لینی ہے اور پھر بڑے عہدوں پر اپنے آدمی فائز کروانے ہیں اور سلطنت کی جڑیں کھوکھلی کر کے عالم اسلام کو اپنے فرقے کے تابع کرنا ہے
یہاں ایک غلط فہمی کی وضاحت ہو جائے تو بہتر ہے ایک مقام تک ان لوگوں کی تبلیغ سے پتہ چلتا تھا کہ یہ اسماعیلی عقیدے کے لوگ ہیں لیکن شاہ در سے نکل کر انہوں نے جب خلجان کا رخ کیا اور نئی سے نئی تخریب کاریاں کرنے لگے تو واضح ہو گیا کہ یہ لوگ فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا ہی ایک فرقہ بناتے نچلے جا رہے تھے لہذا حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کو کسی فرقے سے منسوب کرنا صحیح نہیں
داستان گو ایک بات اور کہنا چاہتا ہے اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ حسن بن صباح ایک افسانوی کردار ہے اور قلعہ المُوت میں اس کی خود ساختہ جنت کا بھی حقیقت سے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور یہ الف لیلی کی ایک داستان ہے
ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ داستان اگر خیالی ہوتی تو ابن خلدون جیسا مورخ اسے تاریخ کے دامن میں نہ ڈالتا ابن اثیر اور ابن جوزی اس کا ذکر نہ کرتے درجنوں مستند مورخوں نے حسن بن صباح اور اس کی جنت کا تفصیلی ذکر کیا ہے یوروپی مورخوں نے تو اور زیادہ تحقیق کر کے یہ حالات قلم بند کیے ہیں
اس باب میں ان عظیم شخصیتوں کے نام دیے گئے ہیں جو حسن بن صباح کے پیروکاروں کے ہاتھوں قتل ہوئے اس فہرست کو دیکھ کر بتائیں کہ یہ شخصیت افسانوی ہیں؟
داستان گو آپ کو مرو لے چلتا ہے جہاں حسن بن صباح پہنچ چکا ہے اور نظام الملک کے پاس بیٹھا ہے وہ نظام الملک کو بتا چکا ہے کہ فاطمہ اس کی بہن ہے جو جوانی کی عمر میں ہی بیوہ ہو گئی ہے نظام الملک نے اس کی بہن کو اپنی بیوی کے پاس بھیج دیا ہے
حسن بن صباح نے نظام الملک کو مدرسے کے زمانے کا وعدہ یاد دلادیا اور بڑی ہی دردناک اور اثر انگیز لہجے میں اپنی بے روزگاری اور بدحالی کا قصہ سنایا
میں تمہیں مجبور نہیں کرسکتا خواجہ حسن بن صباح نے کہا تم وزیراعظم ہو اور میں تمہاری رعایا کا ایک نادار آدمی ہوں میں یہ ضرور کہوں گا کہ تم ان مومنین میں سے ہوں جو زہد اور تقوی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں تم جیسے زاہد اور متقی اپنے وعدے پورے کیا کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وعدہ خلافی گناہ ہے یہ بھی سوچو کہ میں نے اتنا ہی علم حاصل کیا ہے جتنا تم نے کیا ہے لیکن تم وزیراعظم ہو اور میں دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا
اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہو حسن نظام الملک نے کہا میں اپنا صرف وعدہ ہی پورا نہیں کروں گا بلکہ تمہیں اپنی ذاتی املاک کا بھی برابر کا حصہ سمجھوں گا
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کو حسن بن صباح کی شخصیت اور علمی قابلیت کی ایسی تصویر دکھائی کہ سلطان نے اسے معتمد خاص کا رتبہ دے دیا مورخ لکھتے ہیں کہ یہ عہدہ وزیر کے برابر تھا لیکن حسن بن صباح ایسا رتبہ چاہتا تھا جس میں وہ آزادانہ فیصلے کر سکتا
نظام الملک اپنے آستین میں ایک سانپ پالنے لگا
تقریباً تمام تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے نظام الملک کو سلطان کی نظروں میں گرانے کے لیے یہ طریقہ سوچا کہ ان اہم رتبوں والے عہدے داروں کو ہاتھ میں لے لیا جائے جن کی بات سلطان توجہ اور دلچسپی سے سنتا ہے ان میں ایک احتشام مدنی تھا جو سلطان کے تین مشیروں میں سے تھا ادھیڑ عمر آدمی تھا پابند صوم وصلاۃ بھی تھا احتشام مدنی شام کے وقت شہر کے ایک باغ میں چہل قدمی کرنے کے لئے جایا کرتا تھا
ایک شام وہ حسب معمول ٹہل رہا تھا کہ ایک جواں سال لڑکی اس کے سامنے اچانک آگئی اور جھجک کر ایک طرف ہوگئی باغ خاص قسم کے لوگوں کے لیے مخصوص تھا اس لڑکی کو احتشام مدنی نے پہلی بار دیکھا تھا لڑکی کسی عام سے گھرانے کی نہیں لگتی تھی احتشام مدنی نے دیکھا کہ لڑکی اچانک سامنے آ جانے سے کچھ گھبرا گئی تھی اور اس پر حجاب طاری ہو گیا تھا ویسے بھی یہ لڑکی اسے بہت اچھی لگی اس نے لڑکی کو بلا کر پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں آئی ہے؟
میں حسن بن صباح کی بہن ہوں لڑکی نے جواب دیا
حسن بن صباح ؟
احتشام مدنی نے پوچھا اور خود ہی بولا اچھا اچھا وہ حسن بن صباح جو چند دن پہلے سلطان کے معتمد خاص مقرر ہوئے ہیں
یہ احتشام مدنی اور اس لڑکی کی پہلی ملاقات تھی بیان ہو چکا ہے کہ یہ لڑکی حسن بن صباح کی بہن نہیں تھی نہ اس کا نام فاطمہ تھا نہ ہی وہ بیوہ تھی اس نے باتوں باتوں میں احتشام مدنی کو بتایا کہ وہ بیوہ ہے اس لئے بھائی اسے ساتھ لے آیا ہے اس سے احتشام مدنی کے دل میں اس لڑکی کی ہمدردی پیدا ہوگئی لڑکی نے ایسے انداز سے باتیں کیں جیسے وہ احتشام مدنی کی شخصیت سے متاثر ہو گئی ہو احتشام مدنی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لڑکی حسن بن صباح اور احمد بن عطاش جیسے باطنیوں کی تربیت یافتہ ہے اور یہ انسان کے روپ میں آئی ہوئی ہیں زہریلی ناگن ہے
وہ جب وہاں سے چلی تو احتشام مدنی جیسے زاہد اور پارسا نے اپنے دل میں دھچکہ سا محسوس کیا اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ یہ لڑکیاں سے ایک بار پھر ملے
لڑکی اسے پھر مل گئی اور پہلے روز سے زیادہ بے تکلفی کی باتیں کیں وہ ظاہر یہ کرتی تھی کہ بیویگی نے اسے مغموم اور رنجیدہ کر رکھا ہے اس طرح اس نے احتشام مدنی کے دل میں اپنی ہمدردی پیدا کر لی
پھر اسی باغ میں شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد ان دونوں کی کئی بار ملاقات ہوئیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی نے احتشام مدنی کو ایک روز اپنے گھر بلا لیا لڑکی نے اسے کہا تھا کہ حسن بن صباح صبح چلا جاتا ہے اور شام کو واپس آتا ہے یہ لڑکی تربیت کے مطابق احتشام مدنی پر ایک نشہ بن کر غالب آگئی تھی اس حد تک کہ صوم و صلوۃ کا پابند یہ معزز شخص اپنا آپ فراموش کر بیٹھا
دن کے وقت وہ اس لڑکی کے گھر میں اس کے حسن و شباب سے مخمور اور مدہوش ہوا جارہا تھا کہ صحن میں کسی کے قدموں کی آہٹ نے اسے چونکا دیا
یہ کون ہے؟
احتشام مدنی نے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا
خادم ہوگا لڑکی نے بڑے اطمینان سے کہا میں دیکھتی ہوں
پیشتر اس کے کہ لڑکی باہر نکلتی حسن بن صباح کمرے میں داخل ہوا احتشام مدنی جیسے مومن آدمی کو اپنی بہن کے ساتھ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا احتشام مدنی اس کے سامنے کھڑا کانپ رہا تھا
میں تم دونوں کو سنگسار کراؤں گا حسن بن صباح نے کہا میں باھر دروازہ بند کرکے سلطان کے پاس جا رہا ہوں حسن بن صباح دروازے کی طرف بڑھا تو لڑکی اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی اور رو رو کر کہنے لگی کہ اس نے اس شخص کو نہیں بلایا تھا
پھر یہ میرے گھر میں کس طرح آ گیا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یہ خود ہی آیا تھا لڑکی نے جواب دیا اور اس نے میرے ساتھ اور محبت کی باتیں شروع کردیں اچھا ہوا کہ تم آگئے اور میں اس کی دست درازی سے بچ گئی
احتشام مدنی نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس لڑکی نے اسے خود بلایا تھا کچھ دیر یہی جھگڑا چلتا رہا
حقیقت کچھ بھی ہے حسن بن صباح نے کہا میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے گھر میں میری بہن کے پاس بری نیت سے آئے بیٹھے ہو میں سلطان کو ضرور بتاؤں گا
احتشام مدنی صرف معزز آدمی ہی نہیں تھا بلکہ وہ سلطان ملک شاہ کا پسندیدہ مشیر بھی تھا اس کی جان چلی جاتی تو وہ قبول کر لیتا لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سلطان اسے معزول کر کے نکال دے اس صورت میں اس کی جو بےعزتی اور بدنامی ہونی تھی اس کے تصور سے ہی وہ کانپ اٹھا اس نے حسن بن صباح کی منت سماجت شروع کر دی کہ وہ اسے معاف کردے لڑکی نے بھی حسن بن صباح سے کہا کہ یہ آخر معزز آدمی ہے اسے بخش دیا جائے
حسن بن صباح گہری سوچ میں چلا گیا جو دراصل اداکاری تھی سوچ سے بیدار ہو کر اس نے احتشام مدنی کا بازو پکڑا اور اسے دوسرے کمرے میں لے گیا جب وہ دونوں باہر نکلے تو احتشام مدنی کے چہرے پر رونق عود کر آئی تھی حسن بن صباح نے اس کے ساتھ سودا بازی کر لی تھی جو مختصر یہ تھی کہ احتشام مدنی نظام الملک کے خلاف حسن بن صباح کا ساتھ دے گا
یہ شخص حسن بن صباح کا پہلا شکار تھا جسے اس نے نظام الملک کو سلطان کی نظروں سے گرانے میں استعمال کرنا تھا
ابلیس نے خدا کی حکم عدولی کی اور انسان کے آگے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اس نے اللہ سے کہا تھا مٹی کا بنا ہوا یہ انسان زمین پر اپنے ہی بھائیوں کا خون بہائے گا فتنہ اور فساد برپا کرے گا اور تیری عطا کی ہوئی اس عظمت کو بھول جائے گا کہ تیرے حکم سے فرشتوں نے اس کے آگے سجدہ کیا تھا
اسے ہم نے اشرف المخلوقات بنایا ہے یہ اللہ کی آواز تھی
یہ حشرات الارض سے بدتر ہوگا یہ ابلیس کی آواز تھی
یہ میرے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا اللہ نے کہا میں اس کی رہنمائی کے لئے نبی اور پیغمبر بھیجتا رہوں گا
میں اسے اپنے راستے پر چلاؤں گا ابلیس نے کہا جو طاقت مجھ میں ہے وہ اس میں نہیں میں آگ سے بنا ہوں یہ مٹی کا پتلا ہے میں اسے بڑی حسین اور دلفریب خواہشوں کا غلام بنا دوں گا
یہ میری عبادت کرے گا
میں اسے دنیا کی چمک دمک کا شیدائی بنا دوں گا ابلیس نے کہا یہ تیری عبادت کرے گا لیکن اس کا دل دولت کا پجاری ہوگا یہ ہر اس چیز کی پرستش کرے گا جس سے ذہنی اور جسمانی لذت حاصل ہو گی اور یہ ہر وہ کام کرے گا جس سے اسے روکا جائے گا یہ بدی سے لطف اندوز ہو گا
جا تو تاقیامت ملعون رہے گا اللہ نے کہا اور ابلیس کو دھتکار دیا
پھر یوں ہوا کہ اللہ کا پہلا ہی بندہ جنت سے نکالا گیا پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ عورت جو آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی وہ آدم کی جڑوں میں بیٹھتی چلی گئی اور آدم کی کمزوری بن گئی کہ وہ مجبور اور بے بس ہوگیا
عورت آدمی کے لیے نشہ بن گیا
آدمی عورت کے دام میں آ کر ابلیس کا پوجاری بن گیا
داستان گو اپنے آپ کو فن داستان گوئی تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے ابلیس کے متعلق ایک پیر طریقت شیخ عربی کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرتا ہے
ابلیس اہل خلوت کو راہ راست سے منحرف کرنے میں ایسے ایسے کمال رکھتا ہے کہ انسان علم و عمل کے بڑے مضبوط قلعے اس کی ادنی فسوں طرازیوں سے آناً فاناً زیر و زبر ہو جاتے ہیں اگر توفیق الہی اور ہدایت ازلی رفیق حال ہو تو انسان اس کی مغویانہ دست بُرد سے ہر وقت محفوظ ہے ورنہ جو بخت خفتہ اور طالع گم گشتہ اپنی قسمت کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں وہ ان کو ایسی بری طرح پٹختا ہے کہ اس کا جھٹکا مشرق و مغرب تک محسوس ہوتا ہے
سلجوقی سلطان ملک شاہ کا مشیر خاص اور منظور نظر احتشام مدنی پابند صوم و صلوۃ تھا زاہد و پارسا اور معزز انسان تھا کوئی ایسا جواں سال بھی نہ تھا کہ جوش شباب میں ایک حسین لڑکی کو دیکھ کر بے قابو ہوجاتا مگر وہ فاطمہ کو دیکھ کر اپنے آپ کو اور اللہ کو بھی بھلا بیٹھا اور حسن بن صباح کے جال میں آ گیا
وہ اس کمرے سے جس میں حسن بن صباح اسے لے گیا تھا نکلا تو اس کے چہرے سے شرمساری اورگھبراہٹ دھل گئی تھی اور رونق عود کر آئی تھی یہ تو واضح ہے کہ حسن بن صباح نے اس کے ساتھ سودا بازی کرلی تھی کہ وہ وزیراعظم نظام الملک کو سلطان ملک شاہ کی نظروں میں گرانے میں اس کی مدد کرے گا لیکن ان کے درمیان باتیں کیا ہوئی تھیں؟
تاریخوں میں جو اشارے ملتے ہیں ان سے یہ بات سامنے آتی ہیں کہ حسن بن صباح نے احتشام کو اندر لے جا کر یوں نہیں کہا تھا کہ احتشام اسے نظام الملک کی جگہ وزیراعظم بنوا دے
تم بے شک سلطان کے مشیر ہو احتشام! حسن بن صباح نے کہا تھا لیکن میرا رتبہ بھی تم سے کم نہیں میں جو بات کرنا چاہوں گا وہ براہ راست سلطان کے ساتھ کرلوں گا لیکن تمہاری اس حرکت سے مجھے مایوسی ہوئی ہے فوری طور پر مجھے خیال آتا ہے وہ یہ ہے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں میں تو دل میں سلطنت سلجوق کی بھلائی لے کر آیا تھا میں اہل سنت والجماعت ہوں مجھے کسی عہدے اور کسی رتبے کی ضرورت نہیں قلعہ شاہ در سے قلعہ خلجان تک کے علاقے کے لوگ مجھے اپنا مرشد اور عالم دین مانتے ہیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ سلطنت سلجوق اور اسلام کے خلاف کچھ فتنے اٹھ رہے ہیں میں یہاں ان خطروں کے انسداد کے لیے یہاں آیا تھا لیکن میں نے یہاں کچھ اور ہی دیکھا ہے
میں اپنی اس حرکت پر نادم ہوں میرے بھائی احتشام مدنی نے کہا صرف یہی ایک حرکت نہیں ہوئی حسن بن صباح نے کہا میں نے یہ عہدہ سنبھالا تو نظام الملک نے سلطان کے اور تمہارے خلاف کان بھرنے شروع کر دئیے تمہیں شاید معلوم ہوگا کہ میں اور نظام الملک امام مؤافق کے مدرسے میں اکٹھے پڑھے ہیں
ہم گہرے دوست ہوا کرتے تھے اس نے خود مجھے یہاں بلایا اور اس عہدے پر یہاں لگوایا ہے یہ سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کر رہا ہے اور اس کے ارادے بڑے خطرناک ہیں یہ خلیفہ سے مل کر ایک فوج تیار کرنے کی کوشش میں ہے یہ سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے
میں سلطان کو خبردار کرونگا احتشام مدنی نے کہا سلطان صرف میری بات سنتا ہے
ایسی حماقت نہ کر بیٹھنا حسن بن صباح نے کہا نظام الملک پہلے ہی تمہیں یہاں سے ذلیل و خوار کرکے نکلوانا چاہتا ہے یہ تو لڑکپن میں مدرسے میں اسی طرح جوڑ توڑ کرتا رہتا تھا اس کا ذہن شازشی ہے سلطان اگر تمہاری سنتا ہے تو اس کی بھی سنتا اور مانتا ہے اگر تم نے جلد بازی سے کام لیا تو یہ شخص تمہیں یہاں سے نکلو آئے گا نہیں بلکہ قید خانے میں بھجوا دے گا میں باہر کے خطروں کو تو بھول ہی گیا ہو احتشام سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے یہ بڑا ہی زہریلا سانپ ہے جو سلطان کی آستین میں پرورش پا رہا ہے
مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟
احتشام نے پوچھا
پہلے میری بات پوری ہونے دو حسن بن صباح نے کہا میں اس وزیراعظم کی سازشوں سے پریشان ہو رہا تھا اور یہی سوچا تھا کہ تمہارے ساتھ بات کروں لیکن تم نے جو حرکت کی ہے اس سے میں بالکل ہی مایوس ہو گیا ہوں اگر مشیر خاص اس طرح کرے کہ حاکموں کے گھروں میں داخل ہو کر ان کی عزت کے ساتھ کھیلے تو اس سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے میں سلطان کو یہ تو ضرور بتاؤں گا کہ اس کی ناک کے عین نیچے کیا ہو رہا ہے
احتشام مدنی نے حسن بن صباح کے آگے ہاتھ جوڑے اور منت سماجت شروع کر دی کہ وہ اسے معاف کر دے اور یہ بات سلطان تک نہ پہنچائے
اگر میں نے تمہاری اس حرکت کی شکایت سلطان کو کر دی تو حسن بن صباح نے کہا تو تم نہیں جانتے کیا ہوگا سلطان نظام الملک سے مشورہ لے گا نظام الملک جس موقع کی تلاش میں ہے وہ اسے مل جائے گا پھر تم سیدھے قید خانے میں جاؤ گے حسن بن صباح سوچ میں پڑ گیا کچھ دیر بعد بولا اگر تم میرا ساتھ دو تو ہم دونوں نظام الملک کو سلطان کی نظروں سے گرانے کی کوشش کریں گے
مجھے اپنے ساتھ سمجھو احتشام نے کہا
لیکن نظام الملک کے ساتھ پہلے کی طرح دوستانہ رویہ رکھنا حسن بن صباح نے کہا اسے شک نہ ہو کہ ہم دونوں اس کے خلاف کچھ کر رہے ہیں
حسن بن صباح کے بولنے کا انداز ایسا تھا جو ایک خاص تاثر پیدا کرتا تھا احتشام مدنی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اس شخص کے جال میں آ گیا ہے جس نے بڑی محنت سے اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کیے ہیں اور دو استادوں نے اس میں ابلیس کی قوت پیدا کرکے اسے مکمل ابلیس بنا دیا ہے
انسانی فطرت کے عالم کہتے ہیں کہ ایسے انسان میں جو اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیتا ہے ایک ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اس کے بولنے کے انداز میں چاشنی پیدا ہوجاتی ہے اس کے ہونٹوں پر ہر وقت بڑا ہی دل فریب تبسم کھلا رہتا ہے ضرورت پڑے تو وہ اپنے اوپر ایسی اداسی غم زدگی اور مظلومیت طاری کر لیتا ہے کہ دوسروں کو رولا دیتا ہے اور وہ جب کسی کے ساتھ خیر سگالی یا محبت کے جذبات کا اظہار کرتا ہے تو دل موہ لیتا ہے لیکن یہ محض اداکاری اور فریب کاری ہوتی ہے
احتشام مدنی نے نظام الملک کے خلاف حسن بن صباح کی باتیں اپنے دل میں اتار لی اور اس کے ساتھ اس طرح بے تکلف ہو گیا جیسے بچپن کے ہمجولی ہوں حسن بن صباح نے تو اس پر طلسماتی اثر پیدا کر دیا تھا بے تکلفی یہاں تک بڑھی کہ احتشام مدنی نے اپنے دل کی بات کہہ دی
میری ایک درخواست پر غور کرو گے؟
حسن احتشام نے پوچھا
دوستوں میں یہ تکلف نہیں ہونا چاہیے احتشام! حسن بن صباح نے کہا درخواست نہ کہو بات کرو اور مجھ پر اپنا حق سمجھ کر بات کرو
کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہاری بہن کے ساتھ شادی کر لوں؟
احتشام نے پوچھا
میرے سامنے مسئلہ اور ہے حسن بن صباح نے جواب دیا سوال یہ نہیں کہ میں پسند کروں گا یا نہیں سوال یہ ہے کہ فاطمہ پسند کرے گی یا نہیں تمہیں شاید میری یہ بات عجیب لگے کہ میں نے یہ فیصلہ اپنی بہن پر چھوڑ دیا ہے بات یہ ہے احتشام اس بہن سے مجھے بہت ہی پیار ہے میں کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اسے اچھا نہ لگے اس کی پہلی شادی میری پسند پر ہوئی لیکن وہ آدمی ٹھیک نہ نکلا فاطمہ کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا تھا اسے شاید اسی کی بددعا لگی کہ وہ ایک ہی سال بعد مر گیا شادی سے یہ ایسی متنفر ہوئی کے شادی کا نام نہیں سننا چاہتی
میں اسے کیسے یقین دلاؤں کہ میں اسے سر آنکھوں پر بیٹھا کر رکھوں گا احتشام مدنی نے کہا میرے دل میں اس لڑکی کی محبت پیدا ہو گئی ہے
میں ایک کام کرسکتا ہوں حسن بن صباح نے کہا فاطمہ سے کہوں گا کہ تمہیں پسند کرلے میں اسے تمہارے ساتھ ملنے سے روکوں گا نہیں
تو کیا اب میں جا سکتا ہوں؟
احتشام نے پوچھا
ہاں احتشام! حسن نے کہا ہم دشمنوں کی طرح ملے تھے اللہ کا شکر ہے کہ تم بھائیوں کی طرح جا رہے ہو
اللہ کرے ہم ہمیشہ کے لئے بھائی بن جائیں احتشام نے کہا
میں پوری کوشش کروں گا میرے بھائی حسن نے کہا میں فاطمہ کو منوا لونگا
احتشام مدنی حسن بن صباح کے گھر سے نکل گیا تو لڑکی ساتھ والے کمرے سے نکلی
شکار مار لیا یا نہیں؟
لڑکی نے ہنستے ہوئے پوچھا
جال میں تم جیسا دانہ پھینکا جائے تو شکار کیوں نہیں پھنسے گا حسن بن صباح نے بازو پھیلا کر فاتحانہ لہجے میں کہا
لڑکی لپک کر اس کے بازوؤں میں چلی گئی اور حسن بن صباح نے اسے بازوؤں میں سمیٹ لیا
وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے لڑکی نے کہا میں دروازے کے ساتھ کان لگا کر سن رہی تھی
یہ یاد رکھنا کے تم اب فاطمہ ہو حسن نے کہا اپنا اصل نام بھول جاؤ ہاں یہ شخص تمہارے ساتھ شادی کرنے کو بے تاب ہے تم اسے ملتی رہنا اور اس کے لیے بڑا ہی حسین سراب بنی رہنا تم نے یہ کہتے رہنا کہ مجھے آپ سے پیار ہے لیکن میں شادی کا نام سنتی ہوں تو مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے اس کے ساتھ اس پر پیار کا ایسا نشہ طاری کیے رکھنا کے یہ مدہوش رہے تمہیں معلوم ہے کہ اس سے ملاقات کے وقت تم نے اپنے کپڑوں اور بالوں پر کون سی خوشبو لگانی ہے اسے پیار دو اس کا پیار لو اور اپنے جسم کو اس سے بچائے رکھو
کیا مجھے یہ باتیں بتانا ضروری ہے؟
لڑکی نے کہا بارہ سال کی عمر سے میں آپ لوگوں سے جو تربیت لے رہی ہوں یہ میری روح میں شامل ہو گئی ہے یہ میرا عقیدہ بن گئی ہے
میں تمہیں اس روز خراج تحسین پیش کروں گا جس روز میں اس سلطنت کا وزیراعظم بن جاؤں گا حسن نے کہا تمہیں ایک خاص سبق دیا جاتا رہا ہے یہ نہ بھولنا میں تمہیں پھر بتا دیتا ہوں تمہارے جذبات بھی ہیں اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک خوبرو اور دلکش جسم والے شہزادے اور امیر زادے موجود ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ
ایسا نہ ہو گا آقا! لڑکی نے کہا
اگر ایسا ہو گیا تو اس کی سزا سے تم واقف ہو حسن بن صباح نے کہا سزائے موت یہ موت اتنی سہل نہیں ہوگی کہ سر تن سے جدا کر دیا اور بات ختم ہو گئی یہ بڑی اذیت ناک موت ہوگی
اس تک نوبت نہیں پہنچے گی آقا لڑکی نے کہا
دوسرے ہی دن احتشام مدنی سلطان ملک شاہ کے پاس بیٹھا کاروبار سلطنت کی باتیں کر رہا تھا
سلطان معظم! احتشام نے پوچھا اس نئے معتمد خاص حسن بن صباح کے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟
جو رائے تمہاری ہوگی وہی میری ہوگی سلطان نے کہا میں اپنے اتنے سارے کارندوں اور امراء کے متعلق الگ الگ کوئی رائے نہیں دے سکتا مجھے خواجہ حسن طوسی نے کہا کہ حسن بن صباح اس کا مدرسے کے زمانے کا دوست ہے علم و فضل سے مالامال باریک بین دور اندیش اور دیانت دار ہے تو میں نے حسن طوسی کی رائے کو مستند مانا مجھے اس وزیراعظم پر اعتماد ہے اسی لیے میں نے اسے نظام الملک کا خطاب دیا ہے تم میرے مشیر خاص ہو اور میں تمہیں قابل اعتماد سمجھتا ہوں تم کسی کے متعلق جو رائے دو گے میں اسے صحیح معنوں گا تم میری رائے کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟
مجھے حسن بن صباح میں کوئی ایسا وصف نظر آیا ہے جو ہم میں سے کسی میں بھی نہیں احتشام نے کہا آپ نے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی کو نظام الملک کا خطاب تو دے دیا ہے لیکن میں جو وصف حسن بن صباح میں دیکھ رہا ہوں وہ نظام الملک میں بھی نہیں
کیا تم میرے ساتھ صاف بات نہیں کرنا چاہو گے؟
سلطان نے کہا تم حسن بن صباح کے متعلق میری ذاتی رائے کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟
آپ نے مجھے بہت بڑا اعزاز بخشا ہے احتشام مدنی نے کہا مجھے آپ نے اپنا مشیر خاص بنایا ہے یہ بہت بڑا اعزاز ہے میں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ میں اس اعزاز کے قابل ہوں میں آپ کا نمک کس طرح حلال کر سکتا ہوں کہ جو اچھی یا بری چیز میں دیکھو وہ آپ کو بھی دکھاؤ اور جو اچھی یا بری بات میں سنو وہ آپ کو بھی دکھاؤ آپ کسی وقت حسن بن صباح کو شرف باریابی بخشیں اور اس کی عقل و دانش کا امتحان لیں
اسے ابھی میرے پاس بھیجو سلطان ملک شاہ نے کہا
تھوڑی ہی دیر بعد حسن بن صباح سلطان کے پاس بیٹھا ہوا تھا سلطان اس کی فہم و فراست کا امتحان لینا چاہتا تھا
حسن! سلطان نے پوچھا کوئی بادشاہ اپنی تمام تر رعایا کو کس طرح خوش اور راضی رکھ سکتا ہے
اپنے دل کو ناراض کرکے حسن نے جواب دیا
اس کی تشریح کرو
بادشاہ اپنے دل سے شاہانہ خواہشات نکال دے حسن نے کہا ہر بادشاہ عیش و عشرت کا دلادہ ہوتا ہے خزانہ اپنے اوپر لٹا دیتا ہے رعایا کے محصولات میں اضافہ کرکے اپنا خزانہ بھرتا ہے اور رعایا کے خون پسینے کی کمائی پر فرعون بن جاتا ہے اگر وہ اپنے دل کو ایک عام انسان کا دل سمجھے تو عقل اسے اس راستے پر ڈال دی گی جس راستے کے دونوں طرف رعایا اس کے دیدار کو کھڑی ہوگی
تم ہمارے معتمد خاص ہو سلطان نے پوچھا کیا تم بتا سکتے ہو ہمارا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟
جو ہماری سلطنت پر کسی بھی روز حملہ کر سکتا ہے
آپ کے دربار کے خوشامدی حسن بن صباح نے جواب دیا سلطان چونک پڑا
میں دوسرے دشمن کی بات کر رہا ہوں سلطان نے کہا کوئی دوسرا ملک کوئی دوسری قوم؟
سلطان عالی مقام حسن بن صباح نے کہا جنگل میں یا کہیں اور آپ کے سامنے سانپ آجائے تو آپ اسے مار سکتے ہیں یا بھگا سکتے ہیں لیکن جو سانپ آپ کے آستین میں پل رہا ہو اس کے ڈنک سے آپ نہیں بچ سکتے وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے
کیا تم نے ہمارے کاروبار سلطنت میں کوئی خطرناک کمزوری یا خامی دیکھی ہے سلطان نے پوچھا
ہاں سلطان عالی مقام! حسن بن صباح نے کہا یہاں میں نے جو سب سے بڑی خامی دیکھی ہے وہ ہے اپنے وزیر اور دیگر اہلکاروں پر اندھا اعتماد
کیا تم ہمارے وزیراعظم میں کوئی خامی دیکھ رہے ہو سلطان نے پوچھا
سلطان عالی مقام! حسن بن صباح نے کہا اگر میں وزیراعظم یا کسی مشیر یا کسی اور حاکم کی خامیاں بیان کرنے لگوں تو یہ غیبت ہو گی غیبت ایک ایسا گناہ ہے جو بادشاہوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے میں اس وقت کوئی خامی بتاؤں گا جب کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہوگا اور جو آپ کو صاف نظر آئے گا
سلطان ملک شاہ دراصل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ شخص کتنا ذہین ہے اور اس کی عقل میں باریک بینی اور دوراندیشی ہے بھی یا نہیں کاروبار سلطنت سے ہٹ کر ایک بات پوچھتا ہوں سلطان نے پوچھا کیا تم نے کبھی شیر یا چیتے وغیرہ کا شکار کھیلا ہے
نہیں سلطان عالی مقام
تو اس کا مطلب یہ ہوا سلطان نے کہا کہ تم ان درندوں سے ڈرتے ہو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان درندوں سے ڈرنا چاہیے؟
نہیں سلطان محترم! حسن بن صباح نے جواب دیا درندوں سے کسی کو بھی نہیں ڈرنا چاہیے میں صرف ایک درندے سے ڈرتا ہوں اور آپ کے دل میں بھی اس کا ڈر پیدا کرنا چاہتا ہوں
ایسا کون سا درندہ ہے ؟
دیمک! حسن بن صباح نے جواب دیا
سلطان ملک شاہ ہنس پڑا
تم میں بذلہ سیخی بھی ہے سلطان نے کہا مجھے یہ وصف اچھا لگا ہے میں نے پہلی بار کسی کو دیمک کو درندہ کہتے سنا ہے
نہیں سلطان معظم حسن بن صباح نے کہا میں اس وقت ہر بات پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں یہ موقع ہنسی مذاق کا نہیں درندہ آپ کے سامنے آتا ہے تو آپ اس پر تیر چلاتے ہیں یا اس سے بچنے کے لیے راستہ بدل لیتے ہیں یا درختوں پر چڑھ جاتے ہیں لیکن دیمک وہ درندہ ہے جو سامنے نہیں آتا آپ اس پر تیر نہیں چلا سکتے نہ آپ درخت پر چڑھ جانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں آپ کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب دیمک اندر ہی اندر کھا کر سب کچھ کھو کھلا اور بے جان کر چکی ہوتی ہے دیمک بادشاہ کے تختوں کو لگ جائے تو بادشاہ کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب تخت بیٹھ جاتا ہے میں نے اب تک جو کچھ کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ڈرو درباری خوشامدی سے آستین کے سانپ سے اور ان کارندوں اور درباریوں سے جو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سلطنت کو کھا رہے ہیں
کیا تم بتا سکتے ہو کہ ہم نے تمہاری یہ باتیں سن کر کیا رائے قائم کی ہے؟
سلطان نے پوچھا
رائے اچھی نہیں ہوسکتی حسن بن صباح نے کہا کیوں کہ میں نے خوشامد نہیں کی بلکہ خوشامد کے خلاف بات کی ہے
نہیں حسن! سلطان نے کہا تمہاری یہ باتیں سن کر ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ تم صاف گو اور صداقت پسند ہو تم جاسکتے ہو
سلطان ملک شاہ حسن بن صباح کے جانے کے بعد کچھ دیر سوچ میں گم رہا اس کے ذہن میں حسن بن صباح کی باتیں گونج رہی تھیں یہ باتیں بے مقصد اور بے معنی نہیں تھی اس نے احتشام مدنی کو بلایا
احتشام! سلطان نے کہا میرا یہ معتمد خاص مجھ پر بڑا اچھا تاثر چھوڑ گیا ہے یہ عمر کے لحاظ سے زیادہ جہاندیدہ اور عالم لگتا ہے
احتشام مدنی جیسے اسی انتظار میں تھا کہ سلطان حسن بن صباح کے متعلق یہ رائے دے سلطان کی اتنی اچھی رائے سن کر احتشام مدنی نے حسن بن صباح کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور دبی زبان میں نظام الملک کے خلاف بھی ایک دو باتیں کہہ دیں
احتشام مدنی نے حسن بن صباح سے جو قیمت وصول کرنی تھی وہ تقریباً طے ہوچکی تھی لیکن یہ قیمت اس نے اپنی کوشش سے حاصل کرنی تھی
اس شام کا دھندلکا جب تاریک ہوگیا تو احتشام فاطمہ کے ساتھ باغ کے ایک ایسے گوشے میں بیٹھا تھا جہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا وہ جسم تو دو تھے لیکن اس طرح باہم پیوست ہوگئے کہ ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی تھی
کل رات تو تم نے مجھے مروا ہی دیا تھا فاطمہ! احتشام نے کہا تم نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ تم مجھے جانتی پہچانتی ہی نہیں
تو میں اور کیا کرتی فاطمہ نے ہنستے ہوئے کہا اگر میں یہ کہہ دیتی کہ آپ کو میں نے خود بلایا تھا تو میرا بھائی میری گردن کاٹ دیتا آپ مرد ہیں سب کچھ کہہ سکتے ہیں میں جانتی تھی کہ آپ میرے بھائی کو ٹھنڈا کر لیں گے وہ آپ نے کرلیا
میں تو اس سے بھی زیادہ اکھڑ اور جابر آدمیوں کو ٹھنڈا کر لیا کرتا ہوں احتشام مدنی نے کہا میرا تو خیال تھا کہ اب تم مجھے کبھی بھی نہیں ملو گی
یہ وہم دل سے نکال دیں فاطمہ نے کہا میں نے آپ سے محبت کی ہے اور یہ محبت وقتی اور جسمانی نہیں
محبت میری بھی وقتی نہیں احتشام نے کہا میں تمہیں اپنی زندگی کی رفیقہ بناؤں گا کہو گی تو اپنی دونوں بیویوں کو طلاق دے دوں گا
نہیں! فاطمہ نے کہا ایسی کوئی ضرورت نہیں اگر آپ کے دل میں میری محبت ہے تو میں دو عورتوں کو کیوں اجاڑوں
اس زمانے کے مسلمان معاشرے میں ایک آدمی چار نہیں تو دو یا تین بیویاں ضرور رکھتا تھا ابھی سوکنوں کی رفاقت کا تصور پیدا نہیں ہوا تھا عرب کی چار دیواری کی دنیا میں تو یہ دستور بھی چلتا تھا کہ کوئی بیوی اپنی کسی خوبصورت سہیلی کو اپنے خاوند کو تحفے کے طور پر پیش کرتی تھی اور خاوند اس کے ساتھ شادی کر لیتا تھا سلجوقیوں کے یہاں یہ رواج ذرا مختلف تھا لیکن احتشام نسلاً عربی تھا
معلوم نہیں میرے بھائی حسن نے آپ کو کیا بتایا ہوگا کہ میں شادی کے نام سے بھی بھاگتی ہوں فاطمہ نے کہا
ہاں فاطمہ احتشام نے کہا حسن نے مجھے تمہارے متعلق سب کچھ بتا دیا ہے اس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میں خود تمہیں شادی کے لیے تیار کرو دیکھو فاطمہ تمام آدمی ایک جیسے نہیں ہوتے تمہارا پہلا خاوند ہوش و حواس میں نہیں تھا اس کا تو دماغی توازن بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا جو تم جیسے پھول کی قدر نہیں کر سکا
میں حیران ہوں کہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہوں فاطمہ نے کہا بیٹھی ہوئی بھی نہیں بلکہ آپ کے بازوؤں میں ہوں حیران اس لئے ہوں کہ مجھے مرد کے تصور سے ہی نفرت ہوگئی ہے آپ نے مجھے بڑے کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے ایک طرف آپ کی شادی کی پیشکش ہے جو میں قبول کرنے سے ڈرتی ہوں دوسری طرف آپ کی محبت ہے جس سے میں دستبردار نہیں ہو سکتی
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں کہ میں تمہارے پہلے خاوند جیسا آدمی نہیں احتشام نے کہا میں اپنی محبت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا
مجھے سوچنے کا موقع دیں فاطمہ نے کہا میں عجیب سی حالت میں پڑی ہوئی ہوں میرے بھائی کو میرا خیال پریشان رکھتا ہے اور میں اپنے اس بھائی کے متعلق سوچتی رہتی ہوں
مجھے بتاؤ فاطمہ! احتشام نے کہا بھائی کے متعلق تم کیا سوچتی ہو؟
میرا بھائی بہت ہی قابل اور عالم فاضل ہے فاطمہ نے کہا یہ جتنا قابل ہے اتنا ہی سادہ آدمی ہے وزیراعظم نظام الملک میرے بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ میرے بھائی سے مشورہ لے کر سلطان کے ساتھ اس طرح بات کرتا ہے جیسے یہ مشورے اس کے اپنے دماغ سے نکلے ہیں میں سلطان کو یہ بات بتا نہیں سکتی سلطان کو اصل حقیقت کا علم ہونا چاہیے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس سلطنت کا وزیراعظم میرا بھائی ہو تو آپ اس سلطنت میں ایسی تبدیلیاں دیکھیں جو آپ کو حیرت میں ڈال دیں
مجھے کچھ وقت چاہیے فاطمہ احتشام نے کہا حسن نے مجھے نظام الملک کے متعلق کچھ باتیں بتائی ہیں میں نے آج ہی سلطان کے ساتھ بات کی ہے معلوم نہیں حسن نے تمہیں بتایا ہے یا نہیں سلطان نے حسن کو بلایا تھا اور ان کے درمیان خاصی دیر بات ہوئی تھی اس کے بعد سلطان نے مجھے بلایا اور اس نے صاف لفظوں میں بتایا کہ وہ حسن سے بہت متاثر ہوا ہے مجھے موقع مل گیا میں نے سلطان کے آگے حسن کو اتنا چڑھایا کہ انتظامی قابلیت اور عقل و دانش کے لحاظ سے اسے آسمان تک پہنچا دیا
کیا میں دل کی بات صاف صاف نہ کہہ دوں فاطمہ نے کہا
کیوں نہیں احتشام نے اسے اپنے اور زیادہ قریب کرتے ہوئے کہا دل کی بات صاف لفظوں میں کہہ دوں گی تو یہ مجھ پر احسان ہوگا
ایسی صورت پیدا کریں کہ سلطان نظام الملک کی جگہ میرے بھائی کو وزیراعظم مقرر کردے فاطمہ نے کہا اگر ایسا ہو جائے تو میں اسی روز آپ کو اپنا خاوند تسلیم کر لوں گی
ایسا ہو کر رہے گا احتشام نے کہا لیکن کچھ وقت چاہیے کسی کے دماغ کو ایک دو دنوں میں بدلا نہیں جا سکتا پھر بھی میں سلطان کو نظام الملک کے خلاف کر دوں گا
کیا احتشام مدنی جس کی عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان تھی اور جو ایک اتنی بڑی سلطنت کے سلطان کا مشیر خاص تھا اتنا سیدھا اور کم فہم تھا کہ ایک جواں سال لڑکی کے ہاتھوں الّو بن گیا تھا؟
وہ سیدھا تھا نہ کم فہم وہ ذہنی طور پر بالغ آدمی تھا سلطنت کے انتظامی امور کا خصوصی تجربہ رکھتا تھا فن حرب و ضرب کی بھی سوجھ بوجھ تھی لیکن وہ انسان تھا مرد تھا اور ہر مرد کی طرح عورت اس کی فطری کمزوری تھی فاطمہ کوئی عام سی عورت نہیں بلکہ حسین و جمیل لڑکی تھی اپنے حسن کے استعمال کی اسے تربیت دی گئی تھی اسے بڑی ہی خرانٹ اور عمر رسیدہ عورتوں نے عملاً بتایا تھا کہ آدمی پر کس طرح حسن کا طلسم طاری کیا جاتا ہے
اس معاشرے میں جس میں مرد دو دو تین تین اور چار چار بیویوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تھے احتشام کا ایک حسین لڑکی کے نشے میں مبتلا ہو جانا کوئی عجوبہ نہیں تھا
ایک تو اس لڑکی کا حسن اور اس کے خصوصی انداز تھے جنہوں نے احتشام کی عقل پر پردہ ڈال دیا دوسرے وہ خوشبو تھی جو حسن بن صباح نے اس لڑکی کو اپنے کپڑوں اور بالوں پر لگانے کے لیے دی تھی اس خوشبو نے احتشام کی سوچنے کی صلاحیت کو سلا دیا تھا احتشام کو محسوس ہی نہ ہوا کہ وہ اپنے گھر اپنی دو بیویوں کے پاس پہنچ چکا ہے اس پر فاطمہ نشے کی طرح طاری تھی
یہ سلسلہ کچھ دن اسی طرح چلا کہ فاطمہ اور احتشام مدنی کی ملاقاتیں اسی باغ میں اسی جگہ ہوتی ہر ملاقات میں فاطمہ احتشام کی آغوش اور بازوؤں میں ہوتے ہوئے بھی اس سے بہت ہی دور ہوتی فاطمہ کی خوشبو احتسام کو مسحور کر لیتی اور وہ ایسی باتیں کرتا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہ ہو یا نشے میں ہو
حسن بن صباح کی ہدایت کے مطابق فاطمہ احتشام کے لیے بڑا ہی حسین اور دلکش سراب بنی رہی
احتشام مدنی کو جب موقع ملتا سلطان کے پاس جا بیٹھتا اور نظام الملک کے خلاف ایک دو باتیں کرکے حسن بن صباح کی تعریف کر دیتا
اس دوران ایک روز حسن بن صباح کے پاس خلجان سے ایک آدمی آیا وہ احمد بن عطاش کا قاصد تھا
قلعدار احمد بن عطاش نے پوچھا ہے کہ یہاں کے حالات کیا ہیں؟
قاصد نے کہا کیا ہم اس مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے جس کے لئے آپ کو یہاں بھیجا گیا ہے
میں تحریری جواب نہیں دے سکتا حسن بن صباح نے کہا میرے مرشد احمد بن عطاش جانتے ہیں کہ ایسی باتیں تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں انہیں میرا سلام کہنا پھر کہنا کہ آپ کا یہ ناچیز شاگرد کبھی ناکام نہیں ہوا ہر مشکل سے بخیر و خوبی نکلا ہے اور اسے پوری امید ہے کہ وہ یہ مہم بھی سر کر لے گا انہیں بتانا کہ آپ نے جو چیز میرے ساتھ بھیجی ہے اس نے بڑی کامیابی سے اپنا راستہ بنالیا ہے میری بات سلطان تک پہنچ گئی ہے اور باقاعدگی سے پہنچائی جا رہی ہے اب میں عملی طور پر کچھ کروں گا اب تم بتاؤ کہ وہاں خلجان میں کیا ہو رہا ہے؟
وہاں اتنی زیادہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے کہ اتنی متوقع نہیں تھی قاصد نے کہا لوگ ابھی تک خدا کے ایلچی کو ڈھونڈ رہے ہیں انہیں بتایا جا رہا ہے کہ خدا کا ایلچی لوگوں کو خدا کا پیغام اور اپنا دیدار دے کر واپس چلا گیا ہے اور کسی روز اچانک واپس آئے گا احمد بن عطاش نے کسانوں کے محصولات اور مالیہ وغیرہ بہت کم کر دیا ہے جس سے لوگ بہت خوش ہیں وہ احمد بن عطاش کو خدا کے ایلچی کا خاص مرید اور نمائندہ سمجھتے ہیں وہ جدھر جاتا ہے لوگ اسے رکوع کی حالت میں جا کر سلام کرتے ہیں
میرے پیر استاد احمد بن عطاش خود دانش مند ہیں حسن بن صباح نے کہا پھر بھی انہیں میری طرف سے کہہ دینا کہ ابھی اسلام اور اہل سنت کے خلاف کوئی بات نہ کریں اور یہ بھی کہنا کہ ایک لشکر تیار کرنا شروع کر دیں جو تنخواہ دار نہیں ہوگا بلکہ ضرورت کے وقت اسے استعمال کیا جائے گا
یہ کام شروع ہو چکا ہے قاصد نے کہا لوگوں میں گھوڑ سواری تیغ زنی اور تیر اندازی کا شوق پیدا کیا جا رہا ہے عنقریب مقابلے منعقد کئے جائیں گے محترم قلعدار نے آخری بات یہ کہی ہے کہ آپ اگر یہاں کامیاب نہ ہوسکے اور کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آۓ تو ہمیں اطلاع دینا ہم نظام الملک کو قتل کروانے کا انتظام کر لیں گے یا اسے اغوا کرکے غائب کردیں گے اور یہ ظاہر کریں گے کہ وہ خود ہی کہیں روپوش ہوگیا ہے
ابھی ایسی کوئی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے کہا مجھے امید ہے کہ میں مطلوبہ کامیابی حاصل کر لوں گا حسن بن صباح نے قاصد کو رخصت کر دیا
داستان گو سنا چکا ہے کہ حسن بن صباح نے جب ایسی سرگرمیاں شروع کی تھی تو یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ شخص اور اس کا استاد اسماعیلی فرقے کے پیروکار ہیں اور اس فرقے اور مکتبہ فکر کی تبلیغ کر کے اسلام کے دوسرے فرقوں خصوصاً سنی عقیدے کو ختم کر دیں گے لیکن آگے چل کر تاریخ صاف گواہی دیتی ہے کہ یہ فرقہ باطنیہ کے لوگ تھے اور یہ اپنا ہی کوئی عقیدہ پھیلا رہے تھے چونکہ ان کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی کتاب تو تھی نہیں نہ ان کی کوئی علمی عقلی یا دینی بنیاد تھی اس لیے وہ فریب کاری اور قتل کا سہارا لے رہے تھے یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ لوگ انسانی فطرت کی کمزوریوں کو ماہرانہ طریقے سے استعمال کررہے تھے
تاریخوں میں دو اہم واقعات ملتے ہیں جن میں حسن بن صباح کو موقع ملتا ہے کہ وہ کھلم کھلا نظام الملک کو نالائق ثابت کرے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ خود بڑا ہی دانش مند ہے ایک واقعہ تقریباً ہر مؤرخ نے لکھا ہے جو یوں ہے کہ ایک بار سلطان ملک شاہ حلب گیا وہاں ایک خاص قسم کا پتھر پایا جاتا تھا جو سنگ رخام کہلاتا تھا اس پتھر سے برتن اور گلدان وغیرہ بنائے جاتے تھے سلطان نے حکم دیا کہ پانچ سو من سنگ رخام اصفہان پہنچایا جائے
یہ ذہن میں رکھیں کہ اس زمانے میں اس علاقے کا من چالیس تولے اور آٹھ ماشے کا ہوتا تھا
دو عربی شتربان اصفہان جا رہے تھے ایک کے چھ اور دوسرے کے چار اونٹ تھے ان دونوں کے اونٹوں پر پہلے ہی پانچ سو من سامان لدا ہوا تھا انہوں نے پانچ سو من سنگ رخام بھی آپس میں تقسیم کر کے اونٹوں پر لاد لیا اگر خالی اونٹ تلاش کیے جاتے تو کئی دن گزر جاتے اتفاق سے یہ شتربان اصفہان کو ہی جا رہے تھے
سلطان واپس اپنے دارالحکومت میں پہنچ گیا اسے اطلاع ملی کہ سنگ رخام پہنچ گیا ہے تو وہ حیران ہوا اور خوش بھی کہ اس کے حکم کی تعمیل اتنی جلدی ہو گئی ہے اس نے حکم دیا کہ ان شتر بانوں کو ایک ہزار دینار انعام کے طور پر دے دیے جائیں
خواجہ طوسی! سلطان ملک نے نظام الملک سے کہا یہ رقم ان دونوں میں تقسیم کر دو
نظام الملک نے چھ اونٹ والے شتربان کو چھے سو اور چار اونٹ والے کو چار سو دینار ادا کر دیے
یہ تقسیم غلط ہے حسن بن صباح نے جو وہاں موجود تھا بول پڑا وزیراعظم کو سوچ سمجھ کر یہ رقم تقسیم کرنی چاہیے
تم اس غلطی کو صحیح کردو حسن! سلطان نے کہا لیکن یہ بتا دو کہ اس تقسیم میں وزیر اعظم نے کیا غلطی کی ہے؟
چھے اونٹ والے شتر Lبان کی حق تلفی ہوئی ہے حسن بن صباح نے کہا چھے اونٹوں والے کو آٹھ سو اور چار اونٹ والے کو دو سو دینار ملنے چاہیے
وہ کیسے ؟
سلطان نے پوچھا
سلطان محترم! حسن بن صباح نے کہا غور فرمائیں اونٹ دس ہیں اور وزن پندرہ سو من اس لیے ہر اونٹ نے ڈیڑھ ڈیڑھ سو من وزن اٹھایا جس کے چھے اونٹ ہیں وہ نو سو من وزن لایا ہے وہ اس طرح کہ پانچ سو من سامان اس کے اونٹوں نے پہلے ہی اٹھا رکھا تھا پھر چار سو من سنگ رخام اس کے اونٹوں پر لادا گیا دوسرے شتربان کے چار اونٹ تھے اس کے اونٹوں پر چھ سو من وزن تھا جس میں سے پانچ سو من پہلے ہی اونٹوں پر لدا ہوا تھا اور ایک سو من سنگ رخام اس کے اونٹوں پر لادا گیا آپ نے ایک ہزار دینا چانچ سو من وزن کے لیے دیا ہے حساب یہ بنا کہ دو سو دینار فی سو من کا انعام ھوا اس حساب سے چھ اونٹ والے کو آٹھ سو دینار اور چار اونٹ والے کو دو سو دینار ملنے چاہیے یہ ہے ہمارے محترم وزیر اعظم کی غلطی
تاریخ میں لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ نظام الملک کا بہت احترام کرتا تھا اور اس کی قابلیت سے متاثر تھا وہ حسن بن صباح کا حساب سمجھ گیا لیکن وہ نظام الملک کو شرمسار کرنے سے گریز کر رہا تھا اس نے حسن بن صباح کا حساب ہنسی مزاق میں ٹال دیا لیکن نظام الملک پر سنجیدگی طاری ہوگئی اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ حسن بن صباح اسے اور اس کی حیثیت کو نقصان پہنچانے پر اتر آیا ہے
اس سے پہلے نظام الملک کو اس کے کارندوں نے کچھ اس قسم کی اطلاع دی تھی کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی اکثر راز و نیاز کی باتیں کرتے دیکھے جاتے ہیں اسے ایک اطلاع یہ بھی ملی تھی کہ احتشام مدنی کو باغ میں حسن بن صباح کی بہن کے ساتھ دیکھا گیا ہے تاریخوں کے مطابق نظام الملک شریف النفس اور بڑے اونچے کردار کا آدمی تھا یہ خبریں سن کر بھی اس کے دل میں حسن بن صباح کے خلاف شک پیدا نہ ہوا وہ کہتا تھا کہ اس نے حسن بن صباح کو جو رتبہ دیا ہے یہ احسان ہے جسے حسن بن صباح کبھی نہیں بھولے گا اور اسے گزند نہیں پہنچا ئے گا…

📜☜ سلسلہ جاری ہے……

 



www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-4/feed/ 0