islamic stories – https://urducover.com Sun, 18 Aug 2024 15:49:13 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.6.2 https://urducover.com/wp-content/uploads/2024/07/Urdu-cover-logo--150x150.png islamic stories – https://urducover.com 32 32 مس عائشہ اور طارق https://urducover.com/%d9%85%d8%b3-%d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82/ https://urducover.com/%d9%85%d8%b3-%d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82/#respond Sun, 18 Aug 2024 15:44:20 +0000 https://urducover.com/?p=5882 مس عائشہ اور طارق   

مس عائشہ ایک چھوٹے سے شہر میں پرائمری اسکول کلاس 5 کی ٹیچر تھیں۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ “آئی لو یو آل” بولتی تھیں۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ سچ نہیں کہتی تھیں۔ وہ کلاس کے تمام بچوں سے یکساں پیار نہیں کرتیں تھیں۔

کلاس میں ایک ایسا بچہ تھا جو مس عائشہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس کا نام طارق تھا۔ طارق میلی کچیلی حالت میں اسکول آ جاتا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، جسم پر میل کا نشان ہوتا۔ لیکچر کے دوران بھی اس کا دھیان کہیں اور ہوتا۔

مس عائشہ کے سامنے وہ چونک کر انہیں دیکھنےتو لگتا  ۔ مگر اس کی خالی خالی نظروں سے انہیں صاف پتہ لگتا تھا کہ طارق جسمانی طور پر کلاس میں موجود ہونے کے باوجود دماغی طور پر غائب ہے۔ رفتہ رفتہ مس عائشہ کو طارق سے نفرت سی ہونے لگی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی طارق مس عائشہ کی سخت تنقید کا نشانہ بننے لگتا۔ ہر بُری مثال طارق کے نام سے منصوب کی جاتی۔ بچے اس پر کھلکھلا کر ہنستے اور مس عائشہ اس کی تذلیل کر کے تسکین حاصل کرتیں۔ طارق نے کبھی بھی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

مس عائشہ کو وہ ایک بے جان پتھر کی طرح لگتا جس کے اندر احساس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر ڈانٹ، طنز اور سزا کے جواب میں وہ بس اپنی جذبات سے عاری نظروں سے انہیں دیکھتا اور سر جھکا لیتا۔ مس عائشہ کو اب اس سے شدید چڑ ہو چکی تھی۔ پہلا سیمسٹر ختم ہوا اور رپورٹ بنانے کا مرحلہ آیا تو مس عائشہ نے طارق کی ترقی کی رپورٹ میں اس کی تمام برائیاں لکھ ماریں۔ پروگریس رپورٹ والدین کو دکھانے سے پہلے،ہیڈ مسٹریس کے پاس جاتی تھیں۔ جب انھوں نے طارق کی رپورٹ دیکھی، تو   فوراً مس عائشہ کو بلا لیا ۔ “مس عائشہ، ترقی کی رپورٹ میں کچھ تو ترقی بھی نظر آنی چاہیے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے طارق کے والدین اس سے بالکل ہی نا امید ہو جائیں گے۔” “میں معذرت خواہ ہوں مگر طارق ایک بالکل ہی بدتمیز اور نکما بچہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اس کی ترقی کے بارے میں کچھ لکھ سکتی ہوں۔” مس عائشہ نفرت انگیز لہجے میں بول کر وہاں سے اٹھ آئیں۔

ہیڈ مسٹریس نے ایک عجیب حرکت کی۔ انہوں نے چپڑاسی کے ہاتھ مس عائشہ کی ڈیسک پر طارق کی گذشتہ سالوں کی ترقی کی رپورٹ رکھوا دی۔ اگلے دن مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو رپورٹ پر نظر پڑی۔الٹ پلٹ کر دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ طارق کی رپورٹ ہے۔ “پچھلی کلاسوں میں بھی اس نے یقیناً یہی گل کھلائے ہوں گے۔” انہوں نے سوچا اور کلاس 3 کی رپورٹ کھول لی۔ رپورٹ میں ریمارکس پڑھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ رپورٹ اس کی تعریفوں سے بھری پڑی تھی۔ “طارق جیسا ذہین بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔” “انتہائی حساس بچہ ہے اور اپنے دوستوں اور ٹیچر سے بے حد لگاؤ رکھتا ہے۔”

آخری سیمسٹر میں بھی طارق نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ “مس عائشہ نے غیر یقین کی حالت میں کلاس 4 کی رپورٹ کھولی۔ “طارق کی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے۔ اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ گئی ہے۔” “طارق کی ماںکو آخری سٹیج  کی کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔ گھر پر اس کا اور کوئی خیال رکھنے والا نہیں ہے جس کا گہرہ اثر اس کی پڑھائی پر پڑا ہے۔”

طارق کی والدہ فوت ہوچکی ہیں اور ان کے ساتھ ہی طارق کی زندگی کا بھی کوئی اور رنگ باقی نہیں رہا۔ اسے بچانا ممکن نہیں، کیونکہ بہت دیر ہو چکی ہے۔ مس عائشہ پر لرزہ طاری تھا، ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور انہوں نے پروگریس رپورٹ بند کی۔ ان کی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک آنسو گرنے لگے۔ اگلے دن جب مس عائشہ کلاس میں آئیں، تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اپنا روایتی جملہ “آئی لو یو آل” کہا۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ آج بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔ کیونکہ اسی کلاس میں بیٹھے ایک بے ترتیب بالوں والے بچے طارق کے لیے جو   محبت  وہ آج   اپنے دل میں محسوس کر رہی تھیں،   وہ کلاس میں بیٹھے کسی اور بچے کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔  

لیکچر کے دوران، انہوں نے طارق سے ایک سوال کیا جس پر طارق نے ہمیشہ کی طرح سر جھکایا۔ جب کچھ دیر تک مس عائشہ کی طرف سے کوئی  ڈانٹ پھٹکار  اور ہم جماعت ساتھیوں کی طرف سے ہنسی کی آواز اس کے کانوں میں نہ پہنچی، تو اس نے اچنبھے میں سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ توقع کے برخلاف، ان کے ماتھے پر بل نہ تھا، بلکہ وہ مسکرا رہی تھیں۔ مس عائشہ نے طارق کو اپنے پاس بلایا اور اسے سوال کا جواب بتا کر زبردستی دہرانے کو کہا۔

طارق   تین چار دفعہ کے اسرار کے بعد آخر کار بولا۔ اس کے جواب دیتے ہی مس عائشہ نے نہ صرف خود تعریف کی بلکہ باقی سب کو بھی بولا۔ یہ روز کا معمول بن گیا کہ مس عائشہ ہر سوال کا جواب خود بتاتی اور پھر اس کی خوب پذیرائی کرتی۔ ہر اچھی مثال طارق سے منسوب کی جاتی۔ رفتہ رفتہ پرانا طارق سکوت کی قبرسے نکلنے لگا۔ اب مس عائشہ کو سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ روز بلا ناغہ جوابات دے کر سب کو متاثر کرتا اور نئے سوالات پوچھ کر سب کو  حیران بھی کرتا۔

اس کے بال اب کسی حد تک سنورے ہوئے تھے، کپڑے بھی کافی حد تک صاف ہوتے، جنہیں شاید وہ خود دھونے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال ختم ہوا اور طارق نے دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مس عائشہ کے لیے خوبصورت تحفے لے کر آئے اور مس عائشہ کو دینےلگے۔ ان خوبصورت تحفوں میں ایک پرانا اخبار میں بد سلیقہ انداز میں لپٹا ہوا تحفہ بھی تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے، لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تحفے کے نام پر یہ چیز طارق لایا ہوگا۔

مس عائشہ نے تحفے کے اس چھوٹے سے پیکٹ کو محبت سے   باہر نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک عطر کا آدھی استعمال شدہ شیشی اور ایک ہاتھ میں پہننے والا بوسیدہ ساکڑا تھا، جس کے زیادہ تر موتی جھڑ چکے تھے۔ مس عائشہ نے خاموشی سے اس عطر کو خود پر چھڑک لیا اور کڑا   ہاتھ میں پہن لیا۔ بچے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے، اور خود طارق بھی۔ آخر کار طارق   سے   رہا  نہ  گیااور مس عائشہ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اٹک اٹک  کر مس عائشہ کو بتایا، “آج آپ سے بالکل میری ماں جیسی خوشبو آ رہی ہے۔

وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔دن ہفتوں،ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدلتے بھلا کہاں دیر لگتی ہے؟مگر ہر سال کے اختتام پر مس عائشہ کو طارق کی طرف سے ایک خط باقاعدگی کے ساتھ موصول ہوتا جس میں لکھا ہوتا کہ “میں اس سال بہت سارے نئے ٹیچرز سے ملا مگر آپ جیسا کوئی نہیں تھا۔”پھر طارق کا اسکول ختم ہو گیا اور خطوط کا سلسلہ بھی۔کئی سال مزید گزرے اور مس عائشہ ریٹائر ہو گئیں۔ایک دن انہیں اپنی ڈاک میں طارق کا خط ملا جس میں لکھا تھا

  “اس مہینے کے آخر میں میری شادی ہے اور میں آپ کی موجودگی کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایک اور بات، میں زندگی میں بہت سارے لوگوں سے مل چکا ہوں، مگر آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔۔۔فقط ڈاکٹر طارق

ساتھ ہی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ بھی لفافے میں موجود تھا۔ مس عائشہ خود کو ہرگز نہیں روک سکتی تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے اجازت لی اور دوسرے شہر کے لیے روانہ ہو گئیں۔ شادی کے دن جب وہ شادی کی جگہ پہنچیں تو تھوڑی دیر ہو چکی تھی، تقریب ختم ہو چکی تھی۔ مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں، بزنس مین اور یہاں تک کہ وہاں موجود نکاح خواں بھی اکتا چکے تھے، لیکن طارق تقریب کی ادائیگی کے بجائے گیٹ کی طرف دیکھتا رہا اور ان کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں، طارق  ان کی طرف لپکااور ان کا وہ  ہاتھ پکڑ لیا جس میں  انہون نے اب تک وہ بوسیدہ سا کڑا پہنا ہوا تھا  اور انہیں سیدھا اسٹیج پر لے گیا۔

مائک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے کچھ یوں اعلان کیا: “دوستو ، آپ سب ہمیشہ مجھ سے میری ماں کے بارے میں پوچھتے رہے ہیں اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ سب کو ان سے ملواؤں گا۔۔۔ یہ میری ماں ہیں ۔”

www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d9%85%d8%b3-%d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 8 https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/ https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/#respond Sun, 04 Aug 2024 15:03:20 +0000 https://urducover.com/?p=5322 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 8

قسط نمبر    “29”   سے قسط    نمبر”32″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:29 }
اگلے روز سلطان نے صبح اٹھ کر بادام کی آخری گیری بھی کھا لی اور وہ سارا دن تڑپتے گزارا اور سورج غروب ھو گیا سلطان نے کہا کہ درویش کو بلاؤ اور کہو کہ کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزارے تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے
مزمل آفندی بہت دنوں سے سلطان کو نہیں دیکھ سکا تھا اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ طبیب نے اور اب درویش نے سختی سے کہا ہے کہ سلطان کے پاس کوئی ملاقاتی نہ آئے اس شام جب سلطان کی تکلیف بہت ہی بڑھ گئی تھی مزمل بے تاب سا ہو گیا اور سلطان کو دیکھنے چلا گیا برکیارق سے تو اس کی ملاقات ہر روز ہی ہوتی تھی اور برقیارق اسے بتاتا رہتا تھا کہ درویش نے کیا کہا ہے اور سلطان کی حالت کیا ہے لیکن اس شام وہ سلطان کے محل میں چلا گیا اسے برکیارق ملا مزمل نے برکیارق سے کہا کہ وہ سلطان کو دیکھنا چاہتا ہے اس نے ایسی بے تابی کا اظہار کیا کہ برکیارق اسے سلطان کے کمرے میں لے ہی گیا
وہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سلطان پلنگ پر لیٹا ہوا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اس کے چہرے کا رنگ لاش کی طرح سفید تھا مزمل تو سلطان ملک شاہ کا مرید تھا اور سلطان کو بھی مزمل سے بہت پیار تھا مزمل کی نظر درویش کے چہرے پر پڑی جو قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کا چہرہ دیکھتے ہیں مزمل کو دھچکا سا لگا جیسے اس کے پاؤں فرش سے اکھڑ رہے ہوں مزمل نے درویش کی آنکھ کے قریب گال کی ابھری ہوئی ہڈی پر کالا تل دیکھا جو مٹر کے دانے کے برابر تھا
ایسے تل والا آدمی اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا اور مزمل نے اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی اور اسے کہا بھی تھا کہ وہ کہیں مل چکے ہیں مزمل کو یاد آیا کہ اس تل والے آدمی کی داڑھی بڑے سلیقے سے تراشی ہوئی اور چھوٹی چھوٹی تھی اور وہ جوان تھا لیکن اس درویش کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی اور اس کی عمر کا اندازہ چالیس سال کے لگ بھگ تھا اچانک مزمل کو یاد آگیا کہ اس نے اس تل والے آدمی کو خلجان میں دیکھا تھا اور یہ آدمی اس کے ساتھ الموت تک گیا تھا اب اسے خیال آیا کہ یہ حسن بن صباح کا آدمی ہے
مزمل کی کھوپڑی کے اندر جیسے دھماکا ہوا ہو اس نے کچھ سوچے بغیر لپک کر بلکہ جھپٹ کر اپنا ہاتھ درویش کی لمبی داڑھی پر رکھا اور زور سے جھٹکا دیا لمبی داڑھی مزمل کے ہاتھ میں آ گئی اور درویش کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی کالی داڑھی رہ گئی یہ وہ آدمی تھا جو اسے خلجان میں ملا تھا اور الموت تک اس کے ساتھ گیا تھا اور یہ یاد میں اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا مزمل نے اس کی پگڑی اتار دی دیکھا کہ اس کے لمبے بال جو اس کے کندھوں تک پہنچتے تھے مصنوعی تھے سلطان چونک کر اٹھ بیٹھا برکیارق کھڑا ہوگیا
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص نے آپ کو باداموں کی گیری اور چھوہاروں میں زہر کھلا دیا ہے فوراً طبیب کو بلائیں
سلطان کی تلوار دیوار کے ساتھ لٹک رہی تھی مزمل نے لپک کر وہ تلوار نیام سے نکالی اور اس کی نوک درویش کی شہ رگ پر رکھ دی
سچ بتاؤ تم کون ہو ؟
مزمل نے پوچھا اور تمہارے ساتھ جو لڑکی ہے وہ کون ہے وہ تمہاری بہن نہیں اور تم حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہو
میرے دوست! درویش نے مسکرا کر کہا تم مجھے قتل کر سکتے ہو میں نے اپنا کام کر دیا ہے یہ لڑکی جو میرے ساتھ ہے اسے مشکوک یا مجرم نہ سمجھنا یہ میری بہن ہے یہ میری خفیہ زندگی سے لاعلم ہے میں سلطان کا قاتل ہوں اس لئے میں اس حق سے محروم ہو گیا ہوں کہ سلطان سے درخواست کرو کہ میری بہن کو پناہ دی جائے اور میرے جرم کی سزا اسے نہ دی جائے
سلطان ملک شاہ نے سنا کہ اس شخص نے درویشی کے بہروپ میں اسے زہر دے دیا ہے تو اسے موت سر پر کھڑی نظر آنے لگی
او ظالم انسان! سلطان نے اس جعلی درویش سے کہا اگر تو اس زہر کا اثر اتار دے تو میں تیرا یہ جرم معاف کر کے عزت سے رخصت کردوں گا اور تیری بہن کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کر دوں گا اور جو انعام مانگو گے دوں گا
نہیں بدنصیب سلطان! اس شخص نے کہا اس زہر کا کوئی تریاق نہیں جو میں نے باداموں اور چھوہاروں میں ملا کر آپ کو دیا ہے مجھے مرنے کا ذرا سا بھی غم نہیں مجھے انعام نہیں چاہیے میں امام حسن بن صباح کا فدائی ہوں میرے لئے یہی انعام کافی ہے کہ میں نے امام کی خوشنودی حاصل کر لی ہے اور میں سیدھا جنت میں جا رہا ہوں امام نے مجھے جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ میں نے کر دیا ہے
طبیب آ گیا تھا اس نے سلطان کی نبض دیکھی ایک دوائی بھی دی لیکن اس کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر آ گیا تھا اسے وہ چھپا نہ سکا
برکیاروق کی ماں اور روزینہ بھی سلطان کے کمرے میں آ گئی تھیں ماں نے تو رونا اور چلانا شروع کر دیا تھا برکیارق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر بھی وہاں موجود تھے
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص کو میرے حوالے کر دیا جائے اسے میں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا
اسے لے جاؤ! سلطان نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اسے کمر تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دو اور ایک قبر کھود کر اس کی بہن کو زندہ دفن کر دو
روزینہ نے خوفزدہ نظروں سے برکیارق کو دیکھا برکیارق روزینہ کے آگے جا کر کھڑا ہوا
نہیں! اس نے کہا بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی
بے وقوف نہ بن برکیارق! مزمل نے کہا یہ ناگن ہے جسے تم اپنی پناہ میں لے رہے ہو
خبردار برکیارق نے کہا اس لڑکی کے قریب نہ آنا اور سب یہ بھی سوچ لو کہ سلطان زندہ نہ رہے تو میں ان کا جانشین ہوں میں سلطان ہوں اب میرا حکم چلے گا
اس نے حسن بن صباح کے فدائی کی طرف اشارہ کرکے کہا اسے اسی طرح ہلاک کیا جائے جس طرح سلطان معظم نے حکم دیا ہے یہ ہنگامہ جاری ہی تھا کہ سلطان ملک شاہ نے آخری ہچکی لی اور فوت ہوگیا جعلی درویش کو قید خانے میں بھیج دیا گیا اسے اگلے روز کتوں سے مروانا تھا
اب برکیارق سلطنت سلجوقی سلطان تھا
یہ دوسری بڑی شخصیت ہے جسے حسن بن صباح نے نظام الملک کے بعد قتل کروایا
تاریخوں میں آیا ہے کہ برکیارق نے سلطان بنتے ہی تین حکم دیے
ایک یہ کہ سلطان ملک شاہ کو زہر دینے والے باطنی کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح سلطان نے وفات سے پہلے حکم دیا تھا
دوسرا یہ کہ اس باطنی کی بہن روزینہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا
اور اس نے تیسرا حکم یہ دیا کہ یہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ سلطان کو ایک باطنی نے زہر دے کر مارا ہے ہر کسی کو یہ بتایا جائے کہ سلطان طویل علالت کے بعد فوت ہوئے ہیں
اس تیسرے حکم کی تعمیل تو کی گئی لیکن موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا سلطان ملک شاہ کی موت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا نہ وہ کوئی عام آدمی تھا کہ لوگ سنتے اور رسمی سا افسوس کر کے بھول جاتے ملک شاہ کوئی روایتی سلطان یا بادشاہ بھی نہیں تھا کہ رعایا کو افسوس نہ ہوتا لوگ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے کہ آج ایک مرگیا تو کل دوسرا بادشاہ آجائے گا سلطان ملک شاہ کی موت تو یوں تھی جیسے سلطنت اسلامیہ کا سب سے زیادہ مضبوط ستون گر پڑا ہو
باطنی ابلیسیت کے طوفان کو روکنے والا یہی ایک شخص ہی تو تھا یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ اس طوفان کو نہیں روک سکا تھا اور ابلیسیت پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی لیکن سلطان ملک شاہ نے اپنی پوری توجہ اور اپنے پورے ذرائع اور اپنی پوری جنگی طاقت اسی کے خلاف مرکوز کر رکھی تھی وہ اسلام کا پاسبان تھا اسلام کے اصل نظریے اور روح کی آبیاری کرنے والا ملک شاہ ہی تھا وہ صرف اپنے خاندان کو ہی عزیز نہ تھا بلکہ رعایا کا بچہ بچہ اس کا نام احترام اور محبت سے لیتا تھا
وہ جب فوت ہوا تو اس کے گھر میں جو کہرام بپا ہوا وہ جنگل کی آگ کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں پھیل گیا ایک ہجوم تھا جو اس کے گھر پر ٹوٹ پڑا تھا دربان کسی کو اندر جانے سے روک نہ سکے تھے خود دربان دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ان سب کے سامنے اس باطنی جعلی درویش کو پکڑ کر باہر لائے اور اسے زود و کوب کیا جا رہا تھا گھر کی عورتیں چیخ چلا رہی تھیں کہ اس کافر نے سلطان کو زہر دے دیا ہے اس قسم کی صورتحال میں سلطان کی موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا
ایک تو سارے شہر میں برکیارق نے اعلان کروا دیا کہ سلطان ملک شاہ فوت ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف قاصد دوڑا دیے گئے کہ تمام سلطنت میں یہ اطلاع پہنچ جائے اس کے اعلان کے ساتھ دوسرا اعلان یہ بھی کروا دیا کہ کل نماز جنازہ کے بعد تمام لوگ گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھے ہو جائیں ایک باطنی کو سزائے موت دی جائے گی اس اعلان سے قدرتی طور پر ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کے اس باطنی کو سزائے موت کیوں دی جائے گی
سلطان ملک شاہ کا سرکاری عملہ گھر کے ملازمین اور دیگر شاہی خاندان سے کوئی نہ کوئی تعلق رکھنے والے افراد کچھ کم تعداد میں نہ تھے جذبات کی گرما گرمی میں ہر فرد جو اس راز سے واقف تھا یہ سوال پوچھنے والوں کو صحیح جواب دیتا اور غصے کا اظہار یوں کرتا تھا کہ کل اس کافر کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے گا
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلے روز ظہر کی نماز کے بعد جنازہ اٹھا اس وقت تک جہاں جہاں تک اطلاع پہنچ سکتی تھی وہاں وہاں سے لوگ سیلاب کی طرح امنڈ کر مرو میں آگئے تھے نماز جنازہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں پڑھائی گئی اس کے بعد سلطان ملک شاہ کو قبر میں اتارا گیا اور جب قبر میں مٹی ڈال دی گئی تو اس باطنی کو میدان میں لایا گیا جس نے سلطان مرحوم کو زہر دیا تھا اس کی سزا کے لئے گڑھا پہلے سے تیار تھا اسے گڑھے میں کھڑا کر دیا گیا جو اس کے گھٹنوں سے ذرا اوپر تک گہرا تھا
گڑھے میں مٹی ڈال کر مٹی کو اچھی طرح کُوٹ کُوٹ کر دبا دیا گیا اس شخص کے بازو کھول دیے گئے ایک طرف سے چار خونخار شکاری کتے لائے گئے اس شخص کے قریب لا کر کتے کھول دیے گئے اس باطنی کے جسم پر کوئی بو مل دی گئی تھی جس پر کتے ٹوٹ پڑے تماشائیوں کا ہجوم دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا اس باطنی کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلا رہی تھی آخر اس نے بڑی ہی بلند آواز میں نعرہ لگایا امام حسن بن صباح زندہ باد یہ اسکی آخری آواز تھی اس وقت تک کتے اس کی کھال ادھیڑ چکے تھے تھوڑی ہی دیر میں کتوں نے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیا اس کا سر دور جا پڑا اور پھر کتے اس کے جسم کے ٹکڑے اٹھا کر ادھر ادھر ہو گئے
لوگوں کو یہ نہ بتایا گیا کہ اس شخص کو یہ سزا کیوں دی گئی ہے لیکن لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ اس نے سلطان ملک شاہ کو زہر دیا ہے ایسی غصیلی آوازیں اور ایسی للکار بھی سنائی دیں کہ اس شخص کے خاندان کے بچے بچے کو یہاں لاکر کتوں سے پھڑوا دو کوئی کہہ رہا تھا کہ اس کے گھر کو آگ لگادو یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا
اس سوال کا صحیح جواب صرف روزینہ دے سکتی تھی جو اس باطنی کی بہن تھی اس وقت روزینہ سلطان کے محل کے ایک کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوگا
سلطان ملکشاہ سپرد خاک ہو گیا اور اس کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا اور سلطان کے گھر میں روزینہ ایک مسئلہ بن گئی اس خاندان کی کوئی عورت روزینہ کو قبول نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ سلطان کے قاتل کی بہن تھی یہ شک بے جا نہ تھا کہ وہ بھی قاتل کی اس سازش میں شریک تھی سب دیکھ رہے تھے کہ اس نے سلطان کے بڑے بیٹے برکیارق کو دام محبت میں گرفتار کر لیا تھا اور برکیارق نے اعلان کردیا تھا کہ کوئی بھی روزینہ سے باز پرس کی جرات نہ کرے اور وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا
برکیارق نے تو یہ اعلان کر دیا تھا لیکن برکیارق کی ماں کے لیے یہ شادی قابل قبول نہیں تھی وہ شام کے وقت کسی کو بتائے بغیر اس کمرے میں چلی گئی جہاں روزینہ اکیلی بیٹھی تھی تصور میں لایا جا سکتا ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوی کس قدر غمگین اور اداس ہو گی روزینہ نے اسے دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی
بیٹھ جاؤ لڑکی! سلطان مرحوم کی بیوہ نے ایک طرف بیٹھتے ہوئے کہا میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنے آئی ہوں تمہیں صرف میرے بیٹے نے ہی پسند نہیں کیا تھا بلکہ مرحوم سلطان نے اور میں نے بھی تمہیں دل سے پسند کیا اور فیصلہ کردیا تھا کہ برکیارق تمہارے ساتھ شادی کرلے لیکن جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں کہ اس شخص کی بہن کو اپنی بہو بنا کر ایک سلطان کے خاندان کی فرد بنا لو جس نے صرف مجھے ہی بیوہ نہیں کیا بلکہ مرحوم کی دو اور بیویاں بھی وہ ہوئی ہیں اور لوگوں سے پوچھنا کہ وہ یوں کہہ رہے ہیں کہ سلطنت سلجوقیہ بیوہ ہو گئی ہے میں تمہیں کوئی سزا سنانے نہیں آئی میں تمہارے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتی ہوں یہ بتاؤ کہ تمہیں کہاں جانا ہے میں دوچار محافظوں کے ساتھ باعزت طریقے سے تمہیں وہاں تک پہنچانے کا انتظام کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے غم سے بوجھل آواز میں کہا یہ تو بعد کا حادثہ ہے کہ سلطان میرے بھائی کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اس صورت میں یہی ھونا چاہیئے کہ آپ سب مجھے دھتکار دیں میں اس سے پہلے کی بات آپ کو سناتی ہوں برکیارق نے جب مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو میں نے انکار کر دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میں شاہی خاندان کے قابل نہیں ہم آپ کے مقابلے میں بہت چھوٹے لوگ ہیں خاتون محترم! برکیارق نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اسکے ساتھ یہاں آؤں اور سلطان مرحوم اور آپ مجھے دیکھیں میں نہیں آرہی تھی آئی اس لئے کہ میرے بھائی نے یہاں آنا تھا اور وہ مجھے اکیلا سرائے میں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی یعنی میرے بھائی کی نیت کیا تھی میں یہاں آگئی سلطان مرحوم نے مجھے دیکھا
وہ باتیں مجھے کیوں سناتی ہو سلطان مرحوم کی بیوہ نے کہا میں نے تمہیں کوئی سزا نہیں دینی میں کہہ چکی ہوں کہ تمہیں باعزت طریقے سے رخصت کروں گی
میری عرض ہے کہ میں جو کہنا چاہتی ہوں وہ آپ سنیں روزینہ نے کہا میں یہ بتا رہی ہوں کے میں برکیارق کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرچکی تھی برکیارق نہیں مان رہا تھا سلطان مرحوم نے اور آپ نے بھی مجھے قبول کر لیا تو میں خاموش ہوگئی اس کے بعد جو خوفناک اور انتہائی المناک صورت پیدا ہوئی اس کے پیش نظر میں اپنے آپ کو اس احترام اور عزت کی حقدار نہیں سمجھتی جو آپ مجھے دے رہی ہیں میری آپ سے درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے میرے بھائی کو سزائے موت دی ہے اسی طرح مجھے بھی سزائے موت دیں میں سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ہوں میں رحم کی طلب گار نہیں
کیا تمہیں معلوم تھا کہ تمہارا بھائی سلطان کو زہر دینا چاہتا ہے؟
بیوہ نے پوچھا
نہیں روزینہ نے بڑی زور سے سر ہلا کر کہا اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں برکیارق کو یتیم نہ ہونے دیتی اور اسے دھوکہ نہ دیتی میں کوئی بات چھپا نہیں رہی سچ بول رہی ہوں سچ یہ ہے کہ برکیارق پہلا آدمی ہے جسے میں نے دل و جان سے چاہا ہے اور برکیارق مجھے اس سے بھی زیادہ چاہتا ہے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر سکوں میں اب برکیارق کی بیوی نہیں بنوں گی مجھے اپنے بھائی کی نیت کا علم تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ میں سلطان کے قاتل کی بہن ہوں مجھے سزائے موت ملنی چاہیے
تم لوگ آخر آئے کہاں سے تھے ؟
سلطان کی بیوہ نے پوچھا کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تمہارا بھائی باطنی ہے ؟
یہ میں کیسے مان سکتی ہوں میرا خیال ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا
محترم خاتون! روزینہ نے کہا ہمارا کوئی ایک ٹھکانہ ہوتا تو میں آپ کو بتاتی کہ ہم کہاں سے آئے ہیں بھائی نے بتایا تھا کہ ہم اصفہان کے رہنے والے تھے بچپن میں میرے ماں باپ مر گئے تھے اور اس بھائی نے مجھے پالا پوسا تھا میں نے اسے خانہ بدوش ہی دیکھا چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا جس سے ہمیں دو وقت کی روٹی اور سفر کے اخراجات مل جاتے تھے ہم کئی ایک شہروں اور قصبوں میں ایک ایک سال اور دو دو سال بھی رہے ہیں بھائی مجھے ہمیشہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اس لئے میں نہیں بتاسکتی کہ باہر اس کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ ہر سال حج کا ارادہ کرتا تھا جو پورا نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ میرے فرض سے فارغ ہوکر حج کا فریضہ ادا کرنے کا عزم کیے ہوئے تھا
اس گفتگو کے دوران روزینہ روتی رہی آنسو پوچھتی رہی اور کبھی تو وہ سسکنے لگتی تھی
میرے بیٹے نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ہی شادی کرے گا سلطان کی بیوہ نے کہا وہ میری نہیں مانے گا اور وہ کسی کی بھی نہیں مانے گا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر سکتی ہو؟
انکار ہی تو کر رہی ہوں روزینہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا میں یہ جو کہتی ہوں کہ مجھے بھی سزائے موت دے دیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں قاتل کی بہن ہوں اور اس کے ساتھ تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں کوئی گھر اور میرا کوئی وارث نہیں میرے لیے ایک ہی پناہ ہے اور وہ قبر ہے میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ مجھے قبر میں اتار دیں میں آپ کو فیصلہ سناچکی ہوں کہ آپ کے خاندان کی فرد نہیں بنوں گی نہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتی ہوں
برکیارق کی ماں روزینہ کے رونے سے اس کے بولنے کے انداز سے اور اس کے بار بار یہ کہنے سے کہ اسے سزائے موت دی جائے اتنی متاثر ہوئی کہ اس سوچ میں پڑ گئی کہ اس لڑکی کو بھٹکنے کے لئے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ چڑھ جانے کے لیے تنہا نہ چھوڑے یہ تو برکیارق کی ماں کا فیصلہ تھا کہ اس کا بیٹا اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرے گا لیکن وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ لڑکی کو کہاں بھیجے ویسے بھی وہ سلطان مرحوم کی طرح رحمدل عورت تھی
میں تمہیں اپنے گھر سے نکالنا نہیں چاہتی روزینہ! سلطان کی بیوہ نے کہا اگر میں تمہاری شادی کسی اور سے کرا دوں تو تم قبول کروگی؟
میں بلا سوچے کوئی جواب نہیں دے سکتی روزینہ نے کہا خدا کی قسم ابھی تو میرے دل اور دماغ پر اس قدر بوجھ ہے کہ میں یہی ایک فیصلہ کئے ہوئے ہوں کہ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں
میں تمہیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہوں سلطان کی بیوہ نے کہا تم سوچ لو پھر مجھے بتا دینا میں تمہارا کوئی بہتر بندوبست کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے کہا آپ یہ کام کریں کہ برکیارق کے دل سے مجھے نکال دیں میرا مطلب یہ ہے کہ اسے قائل کریں کہ میرا خیال چھوڑ دے بے شک وہ سلطان ہوگیا ہے اور اس نے سلطان کی حیثیت سے حکم دیا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی شادی کرے گا لیکن اس کا یہ حکم مجھے اچھا نہیں لگا بیٹے ماؤں کو حکم دیتے اچھے نہیں لگتے بلکہ یہ گناہ ہے میں اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتی
سلطان کی بیوہ نے سر جھکا لیا جیسے اسے کوئی اور سوچ آ گئی ہو کمرے کا دروازہ کھلا ماں نے اور روزینہ نے دیکھا دروازے میں برکیارق کھڑا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے ماں کا اس کمرے میں آنا اچھا نہیں لگا
آپ کا احترام مجھ پر فرض ہے ماں برکیارق نے اپنی ماں سے کہا لیکن یہ پوچھنا میرا حق ہے کہ آپ یہاں کیوں آئیں ہیں میرا خیال ہے کہ آپ اسے یہ کہنے آئی ہیں کہ یہ قاتل کی بہن ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا برکیارق روزینہ کے بہتے آنسو دیکھ رہا تھا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی ماں اسے کیا کہہ رہی ہوگی
برکیارق! روزینہ نے کہا اور ذرا رک کر بولی معاف رکھنا مجھے برکیارق نہیں بلکہ مجھے سلطان محترم کہنا چاہیے آپ کی والدہ نے جو کچھ کہا اور جو کچھ میں نے انہیں کہا ہے وہ میں لفظ با لفظ سنا دیتی ہوں
روزینہ نے وہ تمام باتیں جو اسکے اور برکیارق کی والدہ کے درمیان ہوئی تھی سنادیں
تمہیں اس فیصلے پر عمل کرنا ہوگا جو میں سنا چکا ہوں برکیارق نے کہا میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں تمہیں حکم دیکر اپنی بیوی بناؤں گا یہ میرے دل کی آواز اور میری روح کا مطالبہ ہے
روح کی آواز روح ہی سن سکتی ہے سلطان محترم! روزینہ نے کہا میری روح مر گئی ہے میرے بھائی نے سلطان کو ہی زہر نہیں دیا بلکہ میری روح کو بھی زہر دے کر مار ڈالا ہے میرے ضمیر پر بڑے ہی گھناؤنے جرم کا بوجھ ہے میں یہاں سے بھاگ جاؤ گی اور میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے بھاگ جانے دیں
میرے عزیز بیٹے! برکیارق کی ماں بول پڑی تم ابھی نوجوان ہو میری عمر دیکھو میں نے دنیا دیکھی ہے اور انسانوں کو پڑھا ہے میں تمہیں اس شادی کی اجازت دے سکتی ہوں لیکن آگے جو کچھ ہو گا وہ میں جانتی ہوں
یہ بتاؤ روزینہ! برکیارق نے پوچھا تم نے میری ماں سے کہا ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہارے بھائی کی باہر سرگرمیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا وہ باطنی کیسے بنا؟
اس نے مرنے سے پہلے امام حسن بن صباح کا نعرہ لگایا تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا وہ فدائی کیسے بنا تھا؟
تم جانتی ہو گی
میں کچھ بھی نہیں جانتی روزینہ نے جواب دیا وہ مجھے الموت لے گیا تھا وہاں ہم سات آٹھ مہینے رہے تھے میں نے آپ کی والدہ محترمہ کو بتایا ہے کہ مجھے وہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اور مجھے کچھ بھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ باہر کیا کرتا ہے اب معلوم ہوا ہے کہ وہ باطنیوں سے جا ملا تھا اور جیسے کہ آپ کہہ رہے ہیں وہ فدائی بن گیا ہوگا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ روزینہ اللہ کرے تمہیں کسی نیک آدمی کے پلے باندھ دوں تو میں حج کا فریضہ ادا کر لوں
ماں! برکیارق نے کہا آج ہی ہم نے اپنے عظیم باپ کو دفن کیا ہے غم اور دکھ ابھی تازہ ہے کچھ دن گزر جانے دیں اس لڑکی کو یہی رہنے دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا کچھ دن انتظار کرلیں
سلطان محترم! روزینہ نے کہا آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو میری یہ خوبی پسند آئی ہے کہ میں وہی بات کرتی ہوں جو میرے دل میں ہوتی ہے میں سچ بولتی اور سچ سنتی ہوں خواہ وہ کتنا ہی تلخ ہو میرے ذہن میں گناہ کا تصور ہی نہیں آیا اس لئے مجھ میں اخلاقی جرات بھی ہے میں آپ کو آپ کا باپ واپس نہیں دے سکتی میں چاہتی ہوں کے اپنی جان دے دوں شاید اس سے آپ کے اور آپ کی والدہ محترمہ اور خاندان کے دوسرے افراد کی تسکین ہو جائے یہ میری روح کی آواز ہے کہ مجھے بھی سزائے موت ملنی چاہئے میں آپ کی والدہ محترمہ کو بتا چکی ہوں کہ میں زندہ رہوں گی بھی تو کس کے لیے؟
میرے لئے برکیارق نے کہا میں جو فیصلہ کر چکا ہوں اس پر قائم رہوں گا لیکن اپنی ماں سے اجازت لینے کے لیے میں کچھ دن انتظار کروں گا
یہ حسین و جمیل لڑکی برکیاروق کے اعصاب پر تو پہلے ہی غالب آ چکی تھی لیکن اب اس نے جو باتیں کی اور جس انداز سے کیں برکیارق اور زیادہ متاثر ہوا اس کی ماں بھی شش و پنج میں پڑ گئی اور ماں بیٹے نے فیصلہ کیا کہ روزینہ کو کچھ دن یہیں رکھا جائے اور پھر کچھ فیصلہ کیا جائے
مرو پر غم و غصے کی جو گھٹا چھا گئی تھی وہ سلطان کی موت کی خبر کے ساتھ ساتھ تمام سلطنت سلجوقیہ پر چھا گئی ساری سلطنت ماتم کدہ بن گئی
الموت میں خوشیوں کا ہنگامہ تھا وہاں سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر پہنچی تو باطنی گھروں سے نکل آئے اور خوشی سے ناچنے کودنے لگے جشن کا سا سماں بندھ گیا مرو چونکہ دارالسلطنت تھا اس لیے اس شہر میں باطنیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی جونہی سلطان مرحوم کے قاتل کو کتوں نے چیر پھاڑ دیا ایک جاسوس الموت کی طرف چل پڑا تھا
یا امام ! اس جاسوس نے حسن بن صباح سے کہا تھا سب سے بڑا دشمن مارا گیا ہے دفن بھی ہو گیا ہے اور اس کی گدی پر اس کا بڑا بیٹا برکیارق بیٹھ گیا ہے
اور قاتل کا کیا بنا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اسے آدھا زمین میں گاڑ کر کتوں سے مروایا گیا ہے جاسوس نے بتایا
اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
حسن بن صباح نے پوچھا تھا کچھ معلوم ہے وہ کہاں ہے؟
سلطان کے گھر میں ہے جاسوس نے جواب دیا تھا اس نے نئے سلطان کو پہلے ہی اپنی جال میں لے لیا تھا
کیا وہ اکیلی کچھ کر سکے گی؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اس سوال کا جواب دو تین دنوں بعد آجائیے گا جاسوس نے کہا تھا میں سلطان ملک شاہ کے دفن ہونے کے بعد اپنے آدمی کی سزائے موت دیکھ کر چل پڑا تھا
حسن بن صباح نے اپنے جاسوس کو فارغ کردیا اور اپنے مصاحبوں اور نائبین کو بلایا وہ فوراً سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر سن کر خوشی اور فتح کا واویلا بپا کرنے لگے
دیکھ لیا تم نے حسن بن صباح نے کہا میں نے کچھ عرصہ پہلے تم لوگوں کو ایک اصول بتایا تھا کہ کسی خاندان کو تباہ کرنا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے ہر فرد کو قتل کردیا جائے بلکہ اتنا ہی کیا جائے کہ اس خاندان کے سربراہ کا دماغ خراب کر دو
اسے عیش و عشرت میں ڈال دو اور اسے یہ یقین دلادوں کہ تم آدھی دنیا کے بادشاہ ہوں اور تم جیسا کوئی نہیں اس پر کوئی نشہ طاری کردو خوبصورت اور چالاک عورت سے بڑھ کر کوئی ایسا نشہ نہیں جو کسی زاہد اور پارسا کی توبہ اور قسمیں نہ توڑ سکے کسی خاندان کو تباہ کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس خاندان پر ایک شیطان عورت آسیب کی طرح غالب کر دو تم نے ایسے خاندان دیکھے ہونگے جو عورت اور دولت پر تباہ ہوئے ہیں
یا امام! ایک مصاحب نے کہا ہم نے دیکھ لیا ہے
کسی سلطنت کو تباہ کرنا ہو تو حسن بن صباح نے کہا اس کے حکمران کو عظمت کے راستے سے ہٹا دو اور اس کے دل سے رعایا کی محبت نکال دو پھر بھی کام نہ بنے تو اسے قتل کردو
یا امام! ایک مصاحب نے پوچھا یہ کام تو ہو گیا اب بتائیں اس سے آگے کیا کرنا ہوگا؟
یہ کام وہ لڑکی کرے گی حسن بن صباح نے کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکی بڑی تیز ہے اور اپنا کام کرنے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتی ہے اس لڑکی کا انتخاب میں نے خود کیا تھا اب یہ کرنا ہے کہ کوئی ایسا عقلمند آدمی مرو جائے جو روزینہ کے ساتھ رابطہ رکھے مجھے کون بتا سکتا ہے کہ یہ لڑکی قابل اعتماد ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ کر لی گی
میں بتا سکتا ہوں یا امام! ایک آدمی بولا اس کی تربیت میری نگرانی میں ہوئی ہے مرو میں اس کے ساتھ ایک تجربے کار آدمی اور دو بڑی خرانٹ عورتیں موجود ہیں
تم جانتے ہو ہم نے مرو میں کیا کرنا ہے حسن بن صباح نے کہا ہمارے اس فدائی نے وہاں زمین ہموار کر دی ہے اس نے سلطنت سلجوقیہ کا سر کاٹ دیا ہے اب اس کا باقی جسم دو حصوں میں کاٹنا ہے
ہاں امام! ایک آدمی نے کہا سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت میں خانہ جنگی کرانی ہے یہ کام روزینہ کرا لے گی
ملک شاہ کا بڑا بیٹا برکیارق جوان آدمی تھا حسن بن صباح نے کہا اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی میں اس کی فطرت اور خصلت کے متعلق تمام معلومات حاصل کر چکا ہوں وہ تو یوں سمجھو جیسے موم ہے اگر روزینہ ثابت قدم رہی تو وہ اس موم کو پگھلا کر اپنے سانچے میں ڈھال لے گی روزینہ بہت ہی حسین لڑکی ہے میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہوں
یا امام! اس کے ایک مصاحب نے کہا آپ یہ بات کیوں دہراتے ہیں ایک بار آپ نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ ملک شاہ کے قتل کے بعد کیا کرنا ہے یہ ہم پر چھوڑیں کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یا نہیں
تم اچھی طرح جانتے ہو حسن بن صباح نے کہا کہ میرے حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو ان سب کا کیا انجام ہوگا جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا
یہ داستان اس دور میں داخل ہو گئی تھی جو بلا شک و شبہ حسن بن صباح کا دور تھا ابلیسیت نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی اس سے مرو اور رے جیسے شہر بھی محفوظ نہیں رہے تھے
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح نے ایک جنت بنائی تھی اس جنت میں جو داخل ہوتا تھا وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا اسے کچھ عرصے کے لیے وہاں سے نکال لیا جاتا تو وہ اسی جنت میں جانے کو تڑپتا تھا اسے کہا جاتا کہ وہ فلاں فلاں بڑی شخصیت کو قتل کر آئے تو وہ ہمیشہ اسی جنت میں رہے گا اس طرح وہ آدمی جا کر دو تین بتاۓ ہوئے آدمیوں کو قتل کر دیتا اور بعد میں اسے بھی قتل کر دیا جاتا تھا اس جنت کی حقیقت اس سے کچھ مختلف تھی جو تاریخ نے بیان کی ہے
بیشتر مؤرخوں نے حسن بن صباح کی جنت کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی تفصیل “ائمہ تلبیبس” میں ان الفاظ میں ملتی ہے حسن بن صباح نے جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی اور اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے انکی لوح دل پر یہ بات ثبت کرادی کہ شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح تمام دنیا کا مالک اور اس دنیا میں بڑا قادر ہے اس تعلیم و تلقین کے علاوہ اس نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی وجہ سے اس جماعت کو جاں سپاری پر آمادہ کرنا بالکل چٹکی بجانے کا کام تھا
اس نے اپنا قلعہ الموت کے اردگرد نظر فریب مرغزاروں اور جاں بخش نزہت گاہوں میں نہایت خوبصورت محل برج اور کوشکیں کی تعمیر کروائیں عالی شان محلات کی دل آویزی اور خوشنمائی باغوں اور مرغزاروں کی نزہت اور تروتازگی دیکھنے والے کے دل پر جادو کا اثر کرتی تھی ان کے بیچوں بیچ جنت کے نام سے ایک نہایت خوشنما باغ بنوایا جس میں وہ تمام سامان مہیا کیے جو انسان کے لیے موجب تفریح ہو سکتی ہیں مثلا اشیاء تعیش ہر قسم کے میوہ دار درخت پھول چینی کے خوبصورت ظرورف بلوری طلائی اور نقرائی سامان بیش قیمت فرش یونان کے اسباب تعیشات پر تکلف سامان خوردنوش نغمہ سرور جنت کی دیواروں پر نقش و نگار کا نہایت نازک کام بنوایا
نالوں کے ذریعے سے محلات میں پانی دودھ شراب اور شہد جاتا تھا ان سب لذائذ کے علاوہ دل بہلانے کے لئے پری تمثال کمسن نازنین موجود تھیں ان کی سادگی وضع اور ان کے حسن و جمال کی دلربائی وہاں دیکھنے والوں کو یہ یقین دلاتی تھی کہ یہ عالم سفلی کے سوا اور ہی عالم کی پیکر ہیں کوشش کی گئی تھی کہ اس جنت میں داخلے کے بعد زائر کے دل پر فرحت کا احساس شیری اثر پیدا کیا جائے کہ وہ اس فرحت اور مسرت کو دنیاوی نہیں بلکہ اخروی یقین کرے
یہاں کے حوروغلمان کا تمام کاروبار بالکل راز داری سے انجام پاتا تھا ہر وہ چیز جس کی باہر سے مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اس حسن اسلوب سے فراہم کی جاتی تھی کہ کسی کو بھی سراغ نہ لگ سکتا تھا
حسن بن صباح علاقہ طالقان اور روزبار وغیرہ کے خوبصورت تندرست اور قوی ہیکل نوجوان جو سادہ لوح ہوتے اور ان میں ہر بیان باور کرنے اور ایمان لانے کی صلاحیت نظر آتی فدائین کی جماعت میں بھرتی کر لیتا یہ وہ لوگ تھے جو حسن بن صباح کے ہر حکم کی بلاعذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے
بھنگ جسے عربی میں حشیش کہتے ہیں شاید ان ایام میں ایک غیر معمولی اور غیر معمولی چیز تھی اور غالبا حسن بن صباح ہی پہلا شخص ہے جس نے اپنی دانشمندی سے وہ کام لیا جو اس سے پہلے شاید کسی نے نہ لیا ہوگا جب فدائی امیدواری کا دور ختم کر لیتا تو حسن بن صباح اسے بھنگ کے اثر سے بے ہوش کرکے جنت میں بھجوا دیتا جہاں وہ جاں پرور حوروں کی گود میں آنکھ کھولتا اور اپنے آپ کو ایسے عالم میں پاتا جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں شاید بڑے بڑے شاہان عالم کو بھی نصیب نہیں تھیں
یہاں وہ انواع و اقسام کی نزہت گاہوں کی سیر کرتا حوروں کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ان کی صحبت انکی جانستانی کرتی اور ان مہوشوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر مئے ارغوانی کے جام اڑاتا اعلی سے اعلی غذائیں اور بہترین قسم کے میوے کھاتا اور ہر طرح کے تعیشات میں محو رہتا ہفتہ عشرہ کے بعد جب ان محبت شعار حوروں کی محبت کا نقش اس کے دل پر اتنا گہرا پڑجاتا کہ پھر مدت العمر مٹ نہ سکے تب وہی حوریں بھنگ کا ایک جام پلا کر اسے شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح کے پاس بھجوا دیتیں جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے شیخ کے قدموں میں پاتا اور جنت کے چند روزہ قیام کی خوشگوار یاد اس کو سخت بے چین کر دیتی
حسن بن صباح اس کو جنت میں بھیجے جانے کی پھر امید دلاتا اور کہتا کہ جنت کے دائمی قیام کی لازمی شرط جاں ستانی اور جاں سپاری ہے وہ شخص جس کے دل پرگذشتہ عیش و عشرت کا اثر اتنا مضبوط پڑ چکا تھا اور حوروں کی ہم نشینی کی تصویر ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی تھی وہ حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل میں کس طرح کوتاہی کر سکتا تھا
چنانچہ جب حسن بن صباح کو کسی دشمن کا قتل کرانا منظور ہوتا تھا تو وہ ایک فدائی نوجوان کو حکم دیتا کہ جا فلاں شخص کو قتل کرکے قتل ہوجا مرنے کے بعد فرشتے تجھے جنت میں پہنچا دیں گے
یہ فدائی اپنے حوصلے سے بڑھ کر مستعدی دکھاتا تاکہ کسی طرح جلد جنت میں پہنچ کر وہاں مسرتوں سے ہمکنار ہو یہی وہ خطرناک لوگ تھے جن سے خون آشامی کا کام لیا جاتا تھا ان لوگوں کو جس کے قتل کا بھی اشارہ دیا جاتا وہ وہاں کوئی روپ بھر کر جاتے رسائی اور آشنائی پیدا کرتے اس کے معتمد بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کر دیتے تھے
تاریخ کی یہ تحریر شہادت مصدقا تسلیم نہیں کی جاسکتی اس دور میں محلات کی تعمیر چند دنوں یا چند مہینوں میں ناممکن تھی جس قسم کے محلات مورخوں نے بیان کئے ہیں ان کی تعمیر کے لئے پچیس تیس سال درکار تھے پھر پھلدار درختوں کا جو ذکر آتا ہے وہ اس لیے مشکوک ہے کہ درخت اتنی جلدی تناور نہیں ہو سکتا کہ وہ پھل اور میوہ جات دینے لگتا مؤرخوں اور ان کے بعد آنے والے تاریخ نویسوں نے ایک دوسرے کی تحریروں میں زیب داستان اور مبالغہ آرائی کے ذریعے اضافے کئے اور ہمارے سامنے اس جنت کا نقشہ آگیا جو اللہ کی بنائی ہوئی جنت سے بھی زیادہ خوشنما اور دلفریب لگتا ہے دودھ شہد اور شراب کے نلوں کو تو شاید تصور میں لایا جا سکے اور لایا بھی جا رہا ہے لیکن ان کا وجود بھی مشکوک ہے
پھر یہ سب کیا تھا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی اس کے قاتل فدائین نے اسی جنت میں جنم لیا تھا ان قاتلوں کی اگلی نسلیں حسن بن صباح کی موت کے بعد بھی قاتل ہی کہلاتی رہیں اور ان نسلوں نے کرائے کے قتل کی وارادتوں میں نام حاصل کیا تھا
قارئین کرام کو قبل از مسیح کے دور میں کچھ دیر کے لیے لے چلتا ہوں ایسی ایک جنت کا ذکر یونان کی دیو مالائی داستانوں میں ملتا ہے یہ اس دور کی بات ہے جب یونان والوں نے پوجا کرنے کے لئے کئی دیوتا اور دیویاں تخلیق کر لی تھیں یہ معبود آسمانوں پر رہتے تھے اور زمین پر بھی ایک داستان میں اس جنت کا ذکر ملتا ہے جس کی خوشنمائی اور دلکشی کی تفصیلات پڑھو یا سنو تو حسن بن صباح کی جنت سامنے آجاتی ہے لیکن وہ یونانی داستان لکھنے والے تھے جنہوں نے اس جنت کی حقیقت بھی بیان کردی تھی اس جنت کا تجزیہ آج کے سائنسی دور میں جب دیگر علوم بھی نقطہ عروج پر ہیں کرو تو یقین آجاتا ہے کہ وہ جنت ہی تھی لیکن اس کی حقیقت کیا تھی؟
حقیقت یہ تھی کہ یونان میں ایک پہاڑ تھا اس پہاڑ میں ایک غار تھا جو دور اندر تک چلا گیا تھا لیکن سیدھا نہیں بلکہ بھول بھلیوں کی صورت میں اس وقت کے بادشاہ نے اس غار کے اندر کوئی ایسی جڑی بوٹیاں رکھ دی تھیں جن کی بو پھیل گئی تھی تھوڑے تھوڑے عرصے بعد یہ جڑی بوٹی تروتازہ پھر وہاں بکھیر آتے تھے
بادشاہ اپنے کسی مخالف کو یا کسی اور وجہ سے کسی آدمی کو کوئی لالچ دے کر اس غار میں بھیج دیتا تھا وہ شخص اس غار میں دور اندر تک جاتا تو اسے اندر حوریں نظر آنے لگتی تھیں اور اسے یوں نظر آتا جیسے وہ اس کے استقبال کے لیے بے تاب ہوں وہ ان کے ساتھ عیش عشرت کرتا اور پھر اسے یہ حوریں ایسے ایسے کھانے پیش کرتیں جو زمین پر رہنے والے انسانوں نے کبھی دیکھے اور کبھی سنے نہیں تھے یہ تحریر بھی کیا گیا کہ اندر جانے والے اور کچھ دن اندر رہنے والے شخص کو باہر لائے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آیا اور دوڑ کر پھر غار میں چلا گیا وہ اس جنت میں سے کسی قیمت پر نکلنا نہیں چاہتا تھا وہ پھر اندر چلا جاتا اور چند دنوں میں ہی مر جاتا اور تھوڑے عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتی حقیقت یہ تھی کہ اس غار کے اندر چھوٹی چھوٹی چٹانیں ستونوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں ان چٹانوں کو وہ حوروغلمان سمجھ لیتا تھا اور یہ چٹانے اسے حوروغلمان ہی کی شکل میں نظر آتی تھیں وہ جو مرغن اور عجیب و غریب خانے کھاتا تھا وہ کنکریاں اور مٹی ہوتی تھیں
یہ اس بو کا اثر تھا جو جڑی بوٹیوں سے اٹھتی اور غاروں کے اندر فضا میں پھیلتی رہتی تھی اس بو میں نشے کا ایسا اثر تھا جو ذہن کو انتہائی خوبصورت اور دلفریب تصور دیتا تھا یہ دیومالائی داستان بہت ہی طویل ہے جس میں تخیلاتی اور انہونی واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں لیکن داستان لکھنے والے نے دانشمندی کا یہ ثبوت دیا ہے کہ اس جنت کی اصل حقیقت پوری طرح بیان کر دی ہے
میں آپکو یہ سنانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یونان کی اس دیومالائی داستان کا ایک باب مختصراً بیان کر دوں اس میں وہ عقل و دانش کا راز نظر آتا ہے جو ہر انسان کے لیے سمجھنا ضروری ہے یہ داستان لکھنے والا لکھتا ہے کہ ایک شہزادے کے دل میں یہ خواہش ابھری کے وہ اس غار میں جائے اور اس جنت میں دو تین دن گزار کر واپس آجائے
اس نے اپنے بوڑھے اتالیق سے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا تو بزرگ اتالیق نے اسے سمجھایا کہ اس جنت کی حقیقت کیا ہے شہزادہ چونکہ شہزادہ تھا اس لیے وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے اتالیق کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کے ساتھ اس غار تک چلے اتالیق نے دھاگے کا ایک گولا اٹھایا اور شہزادے کو ساتھ لے کر اس پراسرار غار تک چلا گیا اس نے دھاگے کا ایک سرا شہزادے کے کلائی سے باندھ کر کہا کہ تم غار کے اندر چلے جاؤ اندر بھول بھلیاں ہیں جن میں تم گم ہو جاؤ گے ان میں سے تم نکل نہیں سکو گے تمہیں یاد ہی نہیں رہے گا کہ تم کس راستے سے اندر آئے تھے یہ دھاگہ ٹوٹنے نہ دینا میں باہر بیٹھ جاؤں گا اور دھاگا کھولتا جاؤں گا جہاں تمہیں حوریں اور ایسی ہی چیزیں نظر آنے لگیں وہیں سے اس دھاگے کو پکڑ کر واپس آ جانا یہ دھاگا تمہاری رہنمائی کرے گا
شہزادہ غار میں داخل ہوگیا اور بزرگ اتالیق دھاگا ڈھیلا کرتا گیا کرتا گیا حتیٰ کہ بڑاہی لمبا دھاگا شہزادے کے ساتھ غار کے اندر چلا گیا دن گزر گیا مگر شہزادہ باہر نہ آیا یہاں کئی اور واقعات بیان کئے گئے ہیں لیکن میں آپ کو صرف ایک حصہ پیش کرکے بتانا چاہتا ہوں
بزرگ اتالیق نے جب دیکھا کہ شہزادہ ابھی تک باہر نہیں آیا وہ دھاگے کا باقی گولا باہر رکھ کر دھاگے کو پکڑ پکڑ کر غار کی بھول بھلیوں میں جاتے شہزادے تک پہنچ گیا خود اس معمر اور دانشمند اتالیق کو حسین و جمیل چیزیں نظر آنے لگیں مگر اس نے اپنی ناک پر کپڑا باندھ لیا اور شہزادے تک جا پہنچا شہزادہ مٹی کھا رہا تھا اور قہقہے لگارہا تھا اور بازو پھیلا کر یوں بازو اپنے سینے پر سمیٹ لیتا تھا جیسے اس نے اپنے بازوؤں میں کوئی چیز دبوچ لی ہو اتالیق شہزادے کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر لایا اگر دھاگہ ٹوٹ جاتا تو دونوں باہر نہ نکل سکتے
باہر آکر شہزادہ اپنے اتالیق سے الجھ پڑا اور پھر غار کی طرف دوڑا اتالیق نے اسے پکڑ لیا لیکن اتالیق بوڑھا اور شہزادہ نوجوان تھا شہزادے کو بے بس کرنے کے لئے اس کے سر کے پچھلے حصے پر پتھر کی ضرب لگائی شہزادہ بے ہوش ہو کر گرپڑا شہزادہ جب ہوش میں آیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر فورا ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے غار کا دہانہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا اس نے اتالیق سے پوچھا اتالیق نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ اپنے منہ میں انگلیاں ڈالو اور انگلیاں دیکھو شہزادے نے اپنے منہ میں ایک انگلی پھیری تو اسے کچھ مٹی نظر آئی جو اس کی انگلی کے ساتھ لگ گئی تھی اس وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کے دانتوں کے درمیان ریتی اور مٹی موجود ہے اس نے تھوک تو مٹیالے رنگ کا تھوک تھا شہزادے نے اپنے دانشمند اتالیق کی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا
میرے عزیز شہزادے! اتالیق نے کہا میں آج تمہیں ایسا سبق دوں گا جو مرتے دم تک تمہیں فریب کاروں اور بے وفا لوگوں کے دھوکوں سے بچائے رکھے گا اس غار کے اندر کوئی جنت نہیں نہ کوئی حور ہے اور نہ حوروں جیسے لڑکے اور نہ ہی وہاں آسمان سے اترے ہوئے کھانے ہیں اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی شراب ہے جسے تم سمجھتے ہو زمین پر نہیں ملتی یہ جنت ہر انسان کے اپنے ذہن میں موجود ہے ہر انسان زندگی کے حقائق سے بھاگ کر اپنے ذہن کی جنت میں چلا جانا چاہتا ہے لیکن اس کے ہوش و حواس اس حد تک بیدار رہتے ہیں کہ وہ تصور کو تصور ہی سمجھتے ہیں اس غار میں ایک خاص بوٹی کی بو چھوڑی گئی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن سے یہ حقیقی زندگی نکل جاتی ہے اور جو حسین تصور انسانی ذہن نے تخلیق کیے ہوتے ہیں وہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتے ہیں یوں سمجھ لو کے انسان کی بیداری والی حس سو جاتی ہے اور تصورات پیدا ہو جاتے ہیں
تمہارے پھیپڑوں میں یہ بو گئی اور تمہارے دماغ پر قابض ہو گئی پھر تم حقیقت سے کٹ گئے اور تمہارے ذہن نے جو خوبصورت تصورات تخلیق کر رکھے تھے وہ باہر تمہارے سامنے حوروں اور جنت نظیر ماحول کی صورت میں سامنے آگئے انسان بڑی کمزور چیز ہے انسان ذہن کا غلام ہوتا ہے تخریبی قوتوں کا حملہ ذہن پر ہوتا ہے انہیں تخریبی اور سفلی قوتوں کو شیطان کہا گیا ہے میں نے تمہاری کلائی کے ساتھ دھاگا باندھ دیا تھا اور اس کا دوسرا سرا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا غور کرو شہزادے میں زندہ حقیقی زندگی میں بیٹھا ہوا تھا اور تم تصورات میں گم ہوگئے تھے لیکن یہ دھاگا حقیقت اور تصور کے درمیان ایک رشتہ تھا یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو تم ہمیشہ کے لئے حقیقی زندگی سے کٹ جاتے یاد رکھو حسین تصورات اور حقیقی زندگی کے درمیان صرف ایک کچا دھاگا حائل ہے جس نے اس دھاگے کو توڑ ڈالا وہ اپنی موت خود مرا اور جس نے اس دھاگے کو ٹوٹنے نہ دیا وہ بھٹک بھٹک کر کبھی تو واپس حقیقت میں آ ہی گیا
یہ ایک نشہ ہے جو کسی جابر بادشاہ پر بھی طاری ہو جائے تو وہ حسین تصورو میں جا پڑتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد گم ہو جاتا ہے بادشاہ اپنے دشمن کو قتل کروا دیتے ہیں دشمن کو مارنے کا بہترین اور بڑا ہی حسین طریقہ یہ ہے جو ہمارے بادشاہ نے اختیار کیا ہے دشمن کو کسی نشے میں مبتلا کرکے اس میں یہ غلط احساس پیدا کر دو کہ تم ساری دنیا کے بادشاہ ہو اور اتنے خوب رو ہو کے کسی بھی دیس کی شہزادیاں تم پر مر مٹے گی اس کی زندہ مثال تم اس غار کے اندر دیکھ آئے ہو تمہارے لیے سبق یہ ہے کہ اپنے ذہن کو اپنے قابو میں رکھو اپنے ہوش و حواس کو اپنے ذہن کے حوالے کبھی نہ کرو اور بچو اس نشے سے جو نیک وبد کا احساس ہی مٹا دے لیکن انسان کی فطرت اتنی کمزور ہے کہ وہ لذت اور تعیش کو فوراً قبول کرلیتی ہے اور انسان کا حلیہ ہی بگاڑ دیتی اور اسے تباہی کی گہری کھائی میں پھینک دیتی ہے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:30 }
آج کی سائنس نے قدیم زمانے کے اسرار کو بے نقاب کردیا ہے کوئی انسان غصے سے باؤلا ہو جائے درندہ بن جائے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تو چھوٹی سے ایک گولی یا ذرا سا ایک انجکشن اس کے ذہن کو سلا دیتا ہے اور وہ کمزور سا ایک انسان بن جاتا ہے اب تو ایسے ملزموں کو جو اپنے جرم کا اقبال نہیں کرتے دھوکے میں کھانے یا پینے کی اشیاء میں ذرا سی دوائی ملا کر دی جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں جیسے وہ بہت بڑی شخصیت ہو اور حسین ترین لڑکیاں اس پر جان نثار کرتی ہوں اور اسے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ اس قدر بہادر دلیر اور دانشمند ہے کہ اس نے وہ جرم کیا ہے جو اور کوئی نہیں کر سکتا اس طرح دو چار مرتبہ اسے یہ دوائی کھانے پینے میں دی جاتی ہے اور وہ بڑے فخر سے اپنے جرم کا اقبال ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ایک تفصیل سنا دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے
حسن بن صباح کی جنت کا زیادہ تر تعلق انسانی ذہن ہی سے تھا تاریخوں میں جو تفصیلات آئی ہیں ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اختلاف ہے لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حسن بن صباح اپنے فدائین کو حشیس پلاتا تھا حشیش کے جو اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ ان تمام منشی اشیاء کے اثرات سے مختلف ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں
حشیش پی کر انسان نے اگر ہنسنا شروع کر دیا تو وہ نشہ اترنے تک ہنستا ہی چلا جائے گا اور اگر وہ رونے پر آیا تو گھنٹوں روتا ہی رہے گا کسی انسان کو آہستہ آہستہ حشیش پلاتے رہیں اور ساتھ ساتھ کوئی بڑا ہی حسین منظر الفاظ میں بیان کرتے رہیں تو وہ شخص ایسے ہی منظر میں چلا جائے گا خواہ اس منظر کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو
تاریخ میں یہ بالکل صحیح لکھا گیا ہے کہ جس دانشمندی سے حسن بن صباح نے حشیش کو استعمال کیا ہے اس طرح اس وقت تک اور کوئی نہیں کر سکا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح غیر معمولی طور پر دانشمند آدمی تھا
یونان کی دیو مالائی داستان کی جنت اور حسن بن صباح کی جنت میں فرق یہ تھا کہ اس یونانی داستان میں ایک غار تھا جس میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں ابھری تھیں اور وہاں کنکریاں اور مٹی تھیں لیکن حسن بن صباح نے جس علاقے میں جنت بنائی تھی وہ بڑا ہی حسین اور روح افزا جنگل تھا اس جنگل میں پھل دار درخت بھی تھے اور پھولدار خودرو پودے بھی تھے ایسے اور بھی بہت سے پودے وہاں اگائے گئے تھے اور اس خطے کو کاٹ کاٹ کر مزید خوبصورت بنا دیا گیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعہ الموت بلندی پر تھا اور اس کا اپنا ایک حسن تھا یہ قلعہ بنانے والوں نے اس کی خوبصورتی کا خاص طور پر خیال رکھا تھا
حسن بن صباح کے یہاں نوجوان اور بڑی ہی حسین لڑکیوں کی کمی نہیں تھی اس کا ایک گروہ ہر ایک دن قافلے لوٹنے میں لگا رہتا تھا یہ گروہ قافلوں سے سونے چاندی کے علاوہ نقد رقم لوٹ لیتا اور اس کے ساتھ ہی کمسن بچیوں کو بھی اٹھا لاتا تھا ان بچیوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی تھی لیکن ان پر ذرا سا بھی ظلم اور تشدد نہیں کیا جاتا تھا انہیں بڑی خوبصورت زندگی مہیا کی جاتی تھی اور اسکے ساتھ انہیں مردوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی لڑکیوں کے ہاتھوں سے فدائین کو تیار کرنے کے لئے حشیش پلائی جاتی تھی حشیش پلا کر یہ لڑکیاں ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتی تھیں جن سے انہیں یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ اتنے بہادر ہیں کہ جسے چاہیں قتل کر دیں اور چاہیں تو ساری دنیا کو فتح کر لیں
مختصر یہ کہ حسین اور نوجوان لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے ان آدمیوں کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا جاتا تھا اس کے ساتھ وہاں کا قدرتی ماحول اپنا ایک اثر رکھتا تھا کچھ دنوں بعد اس شخص کو اس ماحول ان لڑکیوں اور حشیش سے محروم کرکے قلعے کے تہہ خانے میں پہنچا دیا جاتا تھا وہ شخص تڑپتا اور کاٹنے کو دوڑتا تھا اس کیفیت میں اسے حسن بن صباح کے سامنے لے جایا جاتا اور تاثر یہ دیا جاتا کہ حسن بن صباح ساری دنیا کا بادشاہ ہے اور وہ جسے چاہے جنت عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے جہنم میں پھینک دیتا ہے
اس شخص کی اس ذہنی اور جذباتی حالت میں حسن بن صباح اپنا جادو چلاتا تھا وہ اسے قتل کرنے اور قتل ہو جانے پر آمادہ کرلیتا تھا بات وہیں پر آتی ہے کہ یہ ان انسانوں کے ذہن تھے جن پر حسن بن صباح قابض ہونا ہوجاتا اور انہیں اس مقام تک لے جاتا تھا جہاں وہ لوگ اس کے اشارے پر جانیں قربان کر دیتے تھے
انسان کی سب سے بڑی کمزوری تعیش پرستی ہے اللہ کے بندوں کی یہی وہ دکھتی رگ ہے جسے ابلیس اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اسی لئے حسن بن صباح کی جنت کو ابلیسی جنت کہا گیا ہے
پھر حقائق سے فرار انسان کی دوسری بڑی کمزوری ہے کوئی انسان جب عورت کو فرار کا ذریعہ بناتا ہے تو اس کے ذہن میں ابلیس کی جنت کا وجود آ جاتا ہے پھر اس انسان کو دنیا کی کوئی طاقت تباہی سے نہیں بچا سکتی ایسا انسان اللہ کے اس فرمان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے جس میں اللہ نے انسان کو یہ وارننگ دی ہے کہ تم پر جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی اعمال بد کا نتیجہ ہوتی ہے
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ
حسن بن صباح کا باطنی عقیدہ بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا تھا اور بے شمار علاقہ اس کی زد میں آچکا تھا اس عقیدے نے تیزی سے ہی پھیلنا تھا انسان فطری طور پر خود سر اور سرکش واقع ہوا ہے یہ بھی ایک فطری کمزوری ہے اگر کوئی مخلص قائد مل جائے اور وہ کچھ انسانوں کی خود سری اور سرکشی کو منظم طریقے سے کسی نصب العین کے لیے استعمال کرے تو یہ ایک قوت بن جاتی ہے لیکن اسی خودسری اور سرکشی کو انسان جب اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اوصاف اس کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں انسان پابندیاں قبول نہیں کیا کرتا حسن بن صباح نے لوگوں کو جو عقیدہ دیا تھا اس کا نام اسلام ہی رہنے دیا تھا لیکن اس میں ترمیم یہ کی تھی کہ انسان کے باطن میں جو کچھ ہے وہی مذہب ہے اس نے شریعت کو اسلام میں سے نکال دیا تھا
وہ پسماندگی کا دور تھا تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ان علاقوں کے لوگ مسلمان تھے حسن بن صباح نے ان کو مسلمان ہی رہنے دیا اور کمال یہ کر دکھایا کہ انہیں تمام مذہبی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد کردیا
اس کا باطنی عقیدہ تیزی سے پھیل رہا تھا پھر بھی سلطان ملک شاہ اس کے راستے میں ایک رکاوٹ بنا ہوا تھا اسے معلوم تھا کہ یہ سلطان اس کے خلاف بہت بڑی فوج تیار کر رہا ہے حسن بن صباح نے اپنے ایک فدائین کے ہاتھوں سلطان ملک شاہ کا پتہ ہی کاٹ دیا تو یہ رکاوٹ راستے سے ہٹ گئی اسے برکیارق کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا اس نے اپنے مصاحبوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ جوان آدمی ہے جس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اسے ذہنی طور پر بیدار کرنے کے لئے روزینہ کو بھیج دیا تھا جس کے حسن و جمال اور انداز میں طلسماتی اثرات چھپے ہوئے تھے
اس علاقے میں ابھی کچھ اور قلعے ایسے تھے جو حسن بن صباح کے قبضے میں نہیں آئے تھے وہ اس خیال سے ان قلعوں کی طرف نہیں بڑھتا تھا کہ سلطان ملک شاہ فوج لے کر آ جائے گا
ان قلعوں میں ایک اہم قلعہ قلعہ ملاذ خان تھا جو فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا کسی وقت یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے قبضے میں تھا وہ قافلوں کو لوٹتے اور مال اس قلعے میں لاکر جمع کر دیتے تھے قافلوں میں سے انہیں کمسن بچیاں اور نوجوان لڑکیاں ملتی تھیں تو انہیں بھی اس قلعے میں لے آتے تھے
ان ڈاکوؤں کے ڈر سے قافلوں کی آمد و رفت و بند ہوگئی اور اس کا اثر تجارت پر بھی پڑا لوگ سلطان ملک شاہ کے یہاں گئے اور فریاد کی کہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے ان دنوں سلطان ملک شاہ جوان تھا اور نیا نیا سلطان بنا تھا اس نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ وہ اس قلعے پر قبضہ کرے اور ان ڈاکوؤں کا قلع قمع کردے اس سالار کا نام عفد الدولہ بن بویا تھا سلجوقیوں کی تاریخ کا یہ ایک نامور سالار تھا اس نے ایک روز طوفان کی طرح جا کر قلعے کا محاصرہ کرلیا ڈاکو آخر ڈاکو تھے وہ کوئی جنگجو نہیں تھے سالار بویا نے اپنے سپاھیوں کو حکم دیا کہ کمندیں پھینک کر قلعے کی دیواروں پر چڑھیں اور اپنی جانیں قربان کردیں
وہ مجاہدین تھے جنہیں بتایا گیا تھا کہ ان ڈاکوؤں نے کتنے ہی قافلے لوٹے ہیں اور سیکڑوں کمسن لڑکیوں کو اغوا کیا ہے اور سیکڑوں نہیں ہزاروں گھروں میں صف ماتم بچھا دی ہے ان مجاہدین نے جانوں کی بازی لگادی اور قلعے میں دیوار پھاند کر داخل ہوگئے تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں طوفان کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے ان کا جذبہ ایسا تھا کہ انہیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اللہ کے حکم سے اس قلعے پر حملہ آور ہوئے ہوں
ایک بھی ڈاکو قلعے میں سے زندہ نہ نکل سکا سب کو کاٹ دیا گیا صرف عورتوں اور بچوں کو زندہ رہنے دیا گیا جنہیں سلطان ملک شاہ کے حکم سے دارالسلطنت میں بھیج دیا گیا تھا اور ان سب کو لوگوں کے گھروں میں آباد کر دیا گیا تھا
سلطان ملک شاہ نے یہ قلعہ اپنے ایک رئیس میرانز کو بطور جاگیر دے دیا اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد حسن بن صباح نے اپنا ایک وفد میرانز کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ یہ قلعہ خریدنا چاہتا ہے رائیس قلعہ نے صاف انکار کردیا اور یہ پیغام کا جواب دیا کہ آئندہ کوئی باطنی اس قلعے میں داخل ہونے کی جرات نہ کرے
قافلے محفوظ ہوگئے اور اس وسیع علاقے میں لوگ آکر آباد ہونے لگے حتٰی کہ یہ ایک شہر کی صورت اختیار کرگیا حسن بن صباح کی نظر ہمیشہ اس قلعے پر لگی رہی لیکن اس نے ظاہر یہ کیا کہ اسے اس قلعے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں
سلطان ملک شاہ قتل ہوگیا تو حسن بن صباح نے اپنے خاص مصاحبوں سے کہا کہ اب قلعہ ملاذ خان اپنے قبضے میں آ جانا چاہیے
رئیس قلعہ بن بویا شام کے وقت اپنے مصاحبوں میں بیٹھا ہوا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ ایک سفید ریش بزرگ اسے ملنے آئے ہیں بن بویا بااخلاق اور صاحب اقتدار رئیس تھا وہ اس بزرگوں کو اندر بلانے کی بجائے خود اس کے استقبال کے لئے چلا گیا اسے بڑے تپاک اور احترام سے ملا اور اندر لے آیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا کے کان میں سرگوشی کی میں علاحدگی میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں
بن بویا اسے دوسرے کمرے میں لے گیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بات شروع کی میں آپکو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں باطنی ہوں آپ نے اس قلعے میں باطنیوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے
پھر آپ اس قلعے میں کس طرح داخل ہوئے؟
بن بویا نے ذرا تحکمانہ لہجے میں کہا کیا دروازے پر آپ سے کسی نے پوچھا نہیں تھا
پوچھا تھا بزرگ نے جواب دیا میں نے جھوٹ بولا تھا کہ میں اہل سنت ہوں اب آپ پوچھیں گے کہ میں نے جھوٹ کیوں بولا میرا اپنا کچھ ہی کیوں نہ ہو میں تارک الدنیا ہوں اور میرے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے خداوند تعالی نے مجھے کشف کی طاقت دی ہے میں اس قلعے میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا نہ میرا یہاں کوئی کام تھا میں اس قلعے کی دیوار کے ساتھ جاتے ہوئے راستے پر جا رہا تھا کہ مجھے ایک اشارہ سا ملا اور میں نے گھوڑا روک لیا کوئی طاقت جو کشش کی طاقت ہی ہوسکتی ہے مجھے قلعے کی دیوار کے قریب لے آئی مجھے صاف اور واضح اشارہ ملا کہ قلعے کے اندر خزانہ دفن ہے میں نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہونا چاہیے تھا اور یقین ہے کیونکہ یہ قلعہ صدیوں سے ڈاکوؤں کے قبضے میں تھا جہاں ڈاکو ہوتے ہیں وہاں کی زمین میں خزانہ کا مدفون ہونا لازمی ہوتا ہے
کیا آپ مجھے اس خزانے کی خوشخبری سنانے آئے ہیں؟
بن بویا نے کہا اس کے بعد آپ یہ کہیں گے کہ میں آدھا خزانہ آپ کو دینے کا وعدہ کروں تو آپ خزانے کی نشاندہی کریں گے
میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ میں تاریک الدنیا ہوں بزرگ نے کہا میں نے خزانہ حاصل کرکے کیا کرنا ہے میں خزانے کی نشاندہی کر دوں گا لیکن شرط یہ نہیں ہوگی کہ آدھا خزانہ مجھے دیں بلکہ شرط یہ ہوگی کہ اس خزانے میں لوگوں کا لوٹا ہوا مال ہے اس خزانے کے لئے ڈاکوؤں نے نہ جانے کتنے سو یا کتنے ہزار آدمی مار ڈالے ہوں گے یہ خزانہ نہ میرا ہے نہ آپ کا میں اسکی نشاندہی کروں گا لیکن اس شرط پر کہ اس خزانے کا صرف چالیسواں حصہ آپ لینگے باقی سب غریبوں میں تقسیم کر دیں گے
ہاں بزرگوارِ محترم! بن بویا نے کہا میں خزانہ غریبوں میں تقسیم کر دونگا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خزانہ کتنا کچھ ہے؟
نہیں! بزرگ نے جواب دیا یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خزانہ زیادہ ہے ایک بات اور بھی ہے جو ذرا تحمّل سے سنیں آپ ہم باطنیوں کو کافر کہتے ہیں میں کبھی خود بھی شک میں پڑ گیا تھا لیکن جب مجھے کشف ہونے لگا تو یہ خیال آیا کہ میں کافر ہوتا تو اللہ کی ذات مجھے کشف کی طاقت نہ عطا کرتی آج مجھے اس خزانے کا اشارہ ملا تو میں نے پہلے یہ سوچا کہ خزانہ ہے تو پڑا رہے مجھے اس سے کیا خیال آگیا کہ نہیں یہ خزانہ اللہ کے بندوں کے کام آنا چاہیے اس پر مجھے اشارہ ملا کہ یہ غریبوں میں تقسیم ہو میں بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک بار ہمیں موقع دیں کہ ہم آپ کے ساتھ باطنی عقیدے پر بات کر سکیں میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہمارے عقیدے میں آجائیں البتہ میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں
کیا آپ ہم سے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ؟
رئیس قلعہ بن بویا نے پوچھا اگر ایسی بات ہے تو مناظرہ آپ کریں گے یا کوئی اور آئے گا؟
میں مناظرے کی بات نہیں کر رہا بزرگ نے کہا مناظرے کا مطلب ہوگا کہ ہم آپ کو جھٹلانے کی کوشش کریں گے نہیں رئیس قلعہ! میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں نہ میں آپ کی توہین کرنے کا خواہشمند ہوں میں اپنا مطلب پھر واضح کر دیتا ہوں کہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیں تاکہ ہم آپ کا دل صاف کر سکیں
کیا آپ خزانے کی بات اس کے بعد کریں گے؟
بن بویا نے پوچھا یا آپ یہ کوشش کریں گے کہ میں آپ کے عقیدے کو قبول کر لوں؟
نہیں رئیس قلعہ! بزرگ نے جواب دیا خزانے کی بات الگ ہے میں وہ بھی کروں گا میں آپ کے ساتھ رہ کر خزانے کی نشاندہی کروں گا عقیدوں کی میں نے جو بات کی ہے وہ تو میں نے آپ سے اجازت مانگی ہے آپ اس قلعے کے مالک ہیں اجازت نہ دیں گے تو میں آپ کا کیا بگاڑ لوں گا میرے دل میں اللہ کے ہر بندے کی محبت ہے
بن بویا ایک تو اس بزرگ کی باتوں سے متاثر ہوا اور خزانے کی موجودگی نے تو اس کا دماغ ہیں پھیر دیا خزانہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مدفون خزانہ کوئی عجوبہ نہیں ہوتا تھا اس دور میں قدیم بادشاہ بھی اپنے خزانے کا کچھ حصہ کسی خفیہ جگہ دفن کر دیا کرتے تھے چونکہ یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کا تھا اس لئے رئیس قلعہ بن بویا نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہے مدفون خزانوں کے متعلق دو روایات مشہور تھیں جو آج بھی سنی سنائی جاتی ہیں ایک یہ کہ جہاں خزانہ دفن ہوتا ہے وہاں ایک بڑا ہی زہریلا سانپ ہوتا ہے جو خزانہ کے قریب آنے والے کو ڈس لیتا ہے دوسری روایت یہ ہے کہ خزانہ زمین کے اندر چلتا رہتا ہے اور اصل جگہ سے دور پہنچ جاتا ہے ایک عقیدہ ہے کہ خزانے کی سراغرسانی کوئی ایسا شخص کر سکتا ہے جس کے پاس کشف کی طاقت ہوتی ہے
مجھے یہ بتائیں بزرگوار ! رئیس بن بویا نے پوچھا آپ کتنے آدمیوں کو اپنے ساتھ لائیں گے
رائس قلعہ! بزرگ نے کہا میرے ساتھ کوئی عام سے آدمی نہیں ہوں گے وہ چند ایک علماء ہیں اور کچھ ان کے شاگرد ہوں گے ان سب کی دلچسپی صرف مذہبی عقیدوں کے ساتھ ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ساتھ کم وبیش چالیس علماء اور ان کے شاگردوں کو لے آؤں میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ وہ یہاں آکر آپ کے لوگوں میں گھومے پھیرے سلام و دعا کریں اور اس طرح ہم میں بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جائے
میں اجازت دے دوں گا بن بویا نے کہا لیکن میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ کے آدمی یہاں تبلیغ شروع کردیں
نہیں کرینگے بزرگ نے کہا اگر میرے ساتھ آنے والا کوئی بھی اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہوا پکڑا گیا تو میں آپ سے کہوں گا کہ اسے جو بھی سزا دینا چاہتے ہیں دے دیں
اور خزانے کی بات اسی روز ہوگی؟
بن بویا نے پوچھا
نہیں! بزرگ نے کہا میں ان لوگوں کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا اور دو چار دنوں کے بعد آپ کے پاس واپس آ جاؤں گا پھر میں آپ کو ساتھ لے کر خزانے کا سراغ لگاؤں گا اور اپنی موجودگی میں کھدائی کرواؤں گا
رئیس قلعہ بن بویا نے اس بزرگ کے ساتھ ایک دن طے کرلیا کہ وہ اپنے علماء کے ساتھ آ جائے اس کے دماغ پر خزانہ سوار ہوگیا تھا سورج غروب ہوچکا تھا اس لئے بن بویا نے اس بزرگ کو رات بھر کے لیے اپنے یہاں مہمان رکھا اور اگلی صبح رخصت کردیا
اگلی صبح بزرگ کو رخصت کرکے بن بویا نے شہر کی بڑی مسجد کے خطیب کو بلایا اور اسے بتایا کہ فلاں دن باطنیوں کے علماء آئیں گے اور خطیب انہیں جھٹلانے کے لیے تیاری کرلے
مقررہ روز یہ بزرگ دوپہر کے وقت کم و بیش چالیس آدمیوں کو ساتھ لیے پہنچ گئے تھے ان کی پگڑیاں عالموں جیسی تھیں پگڑیوں کے اوپر بڑے سائز کے رومال ڈالے ہوئے تھے جو ان کے کندھوں سے بھی نیچے آئے ہوئے تھے سب کے ہاتھوں میں تسبیح تھی ان کا لباس ان کی چال ڈھال اور ان کے بولنے کا انداز بتاتا تھا کہ ان لوگوں کو مذہب کے سوا کسی اور چیز میں کوئی دلچسپی نہیں رئیس قلعہ نے انکا استقبال بڑے احترام سے کیا اور انکی خاطر تواضع کی
بزرگ تین چار علماء کو ساتھ لے کر رئیس قلعہ کو الگ کمرے میں لے گیا اس نے رئیس قلعہ سے کہا تھا کہ وہ الگ بیٹھ کر بات کریں گے
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا سے کہا ہم آپکے ساتھ باتیں کریں گے اور آپ کی باتیں سنیں گے آپ نے اچھا کیا ہے کہ اپنے خطیب کو بھی یہاں بلا لیا ہے جتنی دیر ہم آپس میں بات چیت کرتے ہیں اتنی دیر میں ہمارے ساتھ آئے ہوئے آدمی شہر میں گھوم پھر لیں گے آپ بالکل مطمئن رہیں یہ بے ضرر آدمی ہیں
بن بویا مسکرا دیا اور اس نے کچھ بھی نہ کہا اسکے اپنے حکم کے مطابق کسی باطنی کا اس قلعہ بند شہر میں داخل ہونا ممنوع تھا لیکن خزانے کی خاطر وہ اس باطنی بزرگ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے رہا تھا وہ ان باطنی علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا اور باقی باطنی شہر میں نکل گئے ان کا انداز یہ تھا کہ ہر آدمی کو جو ان کے قریب سے گزرتا تھا السلام علیکم کہتے اور جو سلام پر رک جاتا اس سے وہ بغلگیر ہو کر ملتے تھے لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ باطنی ہیں اور انہیں رئیس قلعہ نے قلعے میں آنے کی اجازت دی ہے لوگ انہیں مذہبی پیشوا یا کسی دوسرے شہر کے دینی مدرسے کے استاد سمجھ رہے تھے
یہ باطنی کچھ آگے جا کر تین چار ٹولیوں میں بٹ گئے ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھی اور ان کے ہونٹ ہل رہے تھے جیسے کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہوں لوگ انہیں دلچسپی سے دیکھ رہے تھے
ان میں سے آٹھ نو آدمی قلعے کے بڑے دروازے تک چلے گئے دروازے کے ساتھ اندر کی طرف ایک کمرہ تھا جس میں دروازے کے پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے دو محافظ دروازے پر کھڑے تھے یہ باطنی ان دونوں محافظوں کے ساتھ بغلگیر ہو کر ملے اور باتوں باتوں میں انہیں اپنے ساتھ محافظوں کے کمرے میں لے گئے
کمرے میں جو پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے ان باطنیوں کو عالم سمجھ کر بڑے احترام سے ملے ایک باطنی نے کمرے کا دروازہ بند کردیا تمام باطنیوں نے اپنے چغوں کے اندر ہاتھ ڈالے اور جب ان کے ہاتھ باہر آئے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک چھوٹی تلوار تھی محافظ نہتے تھے ان کی تلواریں اور برچھیاں الگ رکھی تھیں انہیں اپنے ہتھیاروں تک پہنچنے کی مہلت ہی نہ ملی باطنیوں نے انہیں دبوچ لیا بعض نے اپنے ہاتھ آئے ہوئے محافظوں کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور دوسروں نے تلواروں سے ان کے پیٹ چاک کر دیئے ان محافظوں میں قلیدبردار بھی تھا یعنی وہ محافظ جو محافظوں کا کمانڈر جس کے پاس قلع کی چابیاں تھیں ان باطنیوں نے اس کی لاش سے چابیاں اپنے قبضے میں لے لیں
باقی باطنی بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر ہو گئے شہر کے وہ لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے جو باطنی تھے اور پہلے ہی اس قلعے میں موجود تھے انہیں معلوم تھا کہ حسن بن صباح چالیس فدائی بھیج رہا ہے جو علماء کے بھیس میں آئینگے اس قلعے میں فوج تو تھی لیکن اس کی تعداد بہت ہی کم تھی قلعے میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قلعے پر حملہ بھی ہوسکتا ہے حملہ ہوا بھی تو ایسا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی رئیس قلعہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا باطنی فدائین نے اس تھوڑی سی فوج کی ساری نفری کو مار ڈالا یا بیکار کر دیا
ایک باطنی اس کمرے میں داخل ہوا جس میں رائس قلعہ بن بویا باطنیوں کے ساتھ محو گفتگو تھا اس باطنی نے السلام علیکم کہا یہ ایک اشارہ تھا کہ باہر کام مکمل ہوگیا ہے ایک باطنی جو دوسروں کی طرح علماء کے بھیس میں تھا اٹھا اور اس نے بن بویا کو دبوچ لیا ایک اور باطنی نے خطیب کو دبوچ لیا اور انہوں نے دونوں کو قتل کر دیا اس طرح یہ قلعہ باطنیوں کے قبضے میں چلا گیا
حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی اس نے ایک آدمی کو امیر قلعہ بنا کر بھیج دیا
قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور ایک اور قلعہ تھا جس کا نام قستان تھا کسی بھی تاریخ میں اس قلعے کے حاکم کا نام نہیں ملتا اس کے نام کے بجائے تقریبا ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ وہ فاسق اور بدکار تھا اسے سلجوقیوں نے یہ قلعہ دیا تھا تمام مستند تاریخوں میں اس قلعے کی کہانی بیان کی گئی ہے
اس قلعے میں بھی ایک شہر آباد تھا اس شہر کا ایک رئیس تھا جس کا نام منور الدولہ تھا اس کے متعلق تاریخوں میں آیا ہے کہ صحیح العقیدہ اور جذبے والا مسلمان تھا اس قلعے پر بھی باطنیوں کی نظر تھی قلعے کے دفاع کے لیے کوئی خاص فوج نہیں تھی چند سو محافظہ قلعے میں موجود رہتے تھے چونکہ امیر قلعہ اپنی عیش و عشرت میں مگن رہتا تھا اس لیے باطنی قلعے میں کھلے بندوں آتے جاتے تھے
رئیس قلعہ منور الدولہ کو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک مکان میں پانچ باطنی رہتے ہیں جو یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ باطنی ہیں وہ اپنے آپ کو پکا مومن ظاہر کرتے ہیں ان کی سرگرمیاں مشکوک سی تھیں
دو چار آدمیوں نے رئیس منور کو بتایا کہ یہ لوگ خطرناک معلوم ہوتے ہیں ان کی موجودگی کی اطلاع امیر قلعہ تک پہنچنی چاہیے تاکہ وہ ان پر جاسوس اور مخبر مقرر کردے امیر قلعہ تک کوئی رئیس ہی سہی پہنچ سکتا تھا ایک روز منورہ چلا گیا اور اسے ان باطنیوں کے متعلق بتایا رئیس منور امیر قلعہ کے یہاں آتا جاتا رہتا تھا
ہمارے لوگ وہمی ہیں منور! امیر قلعہ نے بے نیازی اور بے پرواہی سے کہا کہو تمہاری بہن کا کہیں رشتہ ہوا ہے یا نہیں؟
منور کو اس پر طیش آئی کہ وہ بات کتنی اہم کرنے آیا تھا اور امیر قلعہ اس کی بہن کے رشتےکے متعلق پوچھ رہا تھا منور کی ایک چھوٹی بہن تھی جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئی تھی مورخ لکھتے ہیں کہ وہ بہت ہی حسین اور شوخ لڑکی تھی اس کے حسن کی شہرت سارے شہر میں پھیلی ہوئی تھی امیر قلعہ نے اس لڑکی کے رشتے کے متعلق پوچھا تو منور نے بات کو ٹال دیا اور کہا کہ وہ جس کام کے لیے آیا ہے اس کا ان کی طرف توجہ دینا بہت ہی ضروری ہے
میں دیکھوں گا امیر قلعہ نے کہا میں ان پر اپنے جاسوس مقرر کر دوں گا
چونکہ منور صحیح معنوں میں مسلمان تھا اس لیے وہ باطنیوں کا جانی دشمن بنا ہوا تھا
تین چار دنوں بعد وہ پھر امیر قلعہ کے پاس گیا اور اسے کہا کہ اس نے ابھی تک ان مشکوک باطنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی
تمہیں میرے قلعے کا اتنا فکر کیوں لگا ہوا ہے؟
امیر قلعہ نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا یہ پانچ سات باطنی میرا کیا بگاڑ لیں گے؟
امیر محترم! منور نے کہا کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ یہ باطنی کس طرح چھاتے چلے جارہے ہیں سلطان ملک شاہ کو انہوں نے قتل کیا ہے اس سے پہلے سلطان مرحوم کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی نظام الملک کو بھی انہیں باطنیوں نے قتل کیا تھا اگر آپ بیدار نہ ہوئے تو اس قلعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرلیا ہے
کیا بات کرتے ہو منور! امیر قلعہ نے ہنس کر کہا باطنی میرے قلعے پر قبضہ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے وہ یہاں آ بھی گئے تو یوں سمجھو کہ انہیں موت یہاں لے آئی ہے
یہ قلعہ اتنا اہم تو نہ تھا کہ اسے تاریخ میں اتنا زیادہ بیان کیا جاتا لیکن اس کے ساتھ جو واقعہ وابستہ ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے اسی وجہ سے مورخوں نے یہ واقعہ تاریخ میں شامل کیا ہے
منور الدولہ کے جذبے کا یہ عالم کہ وہ قلعے کی سلامتی کے متعلق پریشان تھا اور وہ ان پانچ آدمیوں کے متعلق بھی فکر مند تھا جن کے متعلق بتایا جارہا تھا کہ مشکوک ہیں اور باطنی معلوم ہوتے ہیں لیکن امیر قلعہ کی ذہنی حالت یہ تھی کہ جس روز رئیس منور اسے ملا اس سے دو روز بعد امیر قلعہ نے اپنے دو خاص آدمیوں کے ہاتھ منور کی طرف بیش قیمت تحفہ بھیجے اور ساتھ یہ پیغام کہ منور اپنی بہن کو اس کی بیوی بنا دے
کیا امیر قلعہ کا دماغ ٹھیک کام کرتا ہے؟
منور نے تحفے دیکھ کر اور اس کا پیغام سن کر کہا یہ تو تحفے واپس لے جاؤ اور اسے کہنا کہ میں اپنی نوجوان بہن کو ایک ایسے بوڑھے کے حوالے نہیں کروں گا جو شرابی بھی ہے بدکار بھی ہے اور جس کی پہلی ہی نہ جانے کتنی بیویاں ھیں
اس کی یہ جرات امیر قلعہ لانے اپنے تحفے واپس آتے دیکھ کر اور رئیس منور کا انکار سن کر کہا میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دوں گا میں اس کے ساتھ دوستی قائم رکھوں گا اور تم دیکھنا کہ بہت جلد اس کی بہن میرے پاس ہوگی
منور اپنے آپ میں یوں تڑپنے لگا جیسے امیر قلعہ نے اسے بڑی شدید ضرب لگائی ہو منور کو قلعے کا غم کھائے جا رہا تھا اور امیر قلعہ کی نظر اس کی بہن پر لگی ہوئی تھی منور کی ایک ہی بیوی اور دو بچے تھے اور اس کے گھر کی ایک فرد اس کی یہ بہن تھی منور نے بڑے غصے کی حالت میں اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ یہ بات تفصیل سے کردی
میں ان پانچ چھے باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں منور نے کہا اگر یہ پکڑے گئے اور یقین ہوگیا کہ یہ باطنی جاسوس اور تخریب کار ہیں تو میں اپنے ہاتھوں انہیں قتل کروں گا
تاریخی واقعات کے ایک انگریزی مجموعے میں یہ واقعہ اس طرح عیاں ہے کہ منور کی بہن کا قومی جذبہ بھی منور جیسا ہی تھا اس نے جب اپنے بھائی کی زبان سے سنا کہ وہ ان باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ بھائی نے اسے آمیر قلعہ سے بیاہنے سے انکار کردیا ہے تو اس لڑکی کے دل میں بھائی کی عظمت اور قومی جذبہ اور زیادہ شدت سے ابھر آیا
میرے عزیز اور عظیم بھائی! بہن نے منور سے کہا میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں مجھے بتائیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں میں آپ کے خلوص آپ کی محبت اور آپ کے جذبے کو دیکھ کر اپنا ایک راز آپ کو دے رہی ہوں یہ جو پانچ چھے جواں سال آدمی ہیں اور جن پر آپ کو شبہ ہے ان میں سے ایک مجھے چاہتا ہے اور میں اسے پسند کرتی ہوں میں بلا جھجک آپ کو بتا رہی ہوں کہ میں اس آدمی سے تین چار مرتبہ تنہائی میں مل چکی ہوں میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ہوا ہے وہ بھی میرے ساتھ بات محبت کرتا ہے اگر آپ کہیں تو میں اس آدمی کو جذبات میں الجھا کر معلوم کر سکتی ہوں کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
آفرین! منور نے کہا کوئی بھائی اپنی نوجوان بہن کو اس طرح استعمال نہیں کیا کرتا لیکن تمہارا ان لوگوں میں سے ایک کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے تو اس تعلق کو استعمال کرو اگر تمہیں کہیں بھی خطرہ محسوس ہو تو فوراً مجھے بتا دینا تم اس کے ساتھ حسن بن صباح کی بات چھیڑ دینا اور اس طرح باتیں کرنا جیسے تم حسن بن صباح کو اچھا سمجھتی ہوں اور اس کے پاس جانا چاہتی ہو
منور کی بہن خوبصورت تو تھی لیکن شوخ اور ذہین بھی تھی اس نے منور سے کہا کہ وہ ان لوگوں کی اصلیت معلوم کرلے گی
امیر قلعہ نے منور کو اپنے یہاں بلایا منور نے جانے سے انکار کردیا اس انکار کے جواب میں امیر قلعہ نے اپنی محفل میں اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ منور کو اڑا دے گا اور اس کی بہن کو اپنے یہاں لے آئے گا اس کی یہ دھمکی منور کے کانوں تک پہنچ گئی اس کا اس پر بہت ہی برا اثر ہوا اور وہ ایک کشمکش میں مبتلا ہوگیا کشمکش یہ تھی کہ وہ اپنے جذبے کو قائم رکھے یا امیر قلعہ کے رویے سے متاثر ہوکر اپنے جذبے سے دستبردار ہو جائے اسے یہ خیال بھی آیا کہ امیر قلعہ کو اپنے قلعے کا کچھ خیال نہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ جاسوسیاں کرتا پھرے جذبے مرا تو نہیں کرتے اس کے خیالوں پر قومی جذبہ غالب آگیا
تین چار دنوں بعد ہی منور کو اس کی بہن نے بتایا کہ یہ لوگ باطنی ہیں اور جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے یہاں آئے ہیں لیکن ابھی اپنے باطنی عقیدے کی درپردہ تبلیغ کر رہے ہیں
تم نے کیسے معلوم کیا ہے؟
منور نے بہن سے پوچھا
مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی بہن نے کہا جس طرح آپ نے کہا تھا میں نے اسی طرح کیا میں نے حسن بن صباح کی باتیں ایسے الفاظ میں کیں جیسے میں اسے نبی سمجھتی ہوں اور اسے دیکھنے کو بے قرار ہوں لیکن میں اسے جذبات میں لے آئی اور اپنی بات پر قائم رہی دوسرے دن وہ میری بات پر آگیا اور اس نے کہا کہ وہ مجھے حسن بن صباح کے پاس لے جائے گا اس نے یہ بھی کہا کہ امام حسن بن صباح تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا
مختصر یہ کہ اس لڑکی نے پانچ آدمیوں کے اس گروہ کی اصلیت معلوم کرلی وہ جس آدمی سے محبت کرتی تھی اس آدمی نے وہ دن بھی مقرر کردیا تھا جب اس آدمی نے اس لڑکی کو اس شہر سے لے جانا تھا دو دن گزرگئے منور کی بہن باہر نکلی اور پھر واپس نہ آئی سورج غروب ہوگیا رات گہری ہوگئی لڑکی واپس نہ آئی تب منور کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے بہن کو خطرناک آدمی کے ساتھ دوستی بنائے رکھنے پر اکسایا تھا اس میں کوئی شک تھا ہی نہیں کہ اس کی بہن اس باطنی کے ساتھ چلی گئی ہے منور کو معلوم تھا کہ حسن بن صباح کے پاس اس قسم کے سیکڑوں حسین اور تیز طرار لڑکیاں ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے یہ سوچ کر منور کا غصہ بڑھتا ہی گیا اور وہ بیچ و تاب کھانے لگا کہ وہ کیا کرے اسے امیر قلعہ کا خیال آیا کہ اسے جا کر بتائے اور وہ ان مشکوک آدمیوں کو پکڑ کر معلوم کرے کہ لڑکی ان کے قبضے میں ہے یا نہیں لیکن اس نے جب سوچا کہ امیر قلعہ نے اسے دشمن سمجھ لیا ہے تو اس نے امیر قلعہٰ کو ذہن سے اتار دیا رات گزرتی جارہی تھی
میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے منور کو اس کی بیوی نے کہا آپ امیر قلعہ کے پاس جائیں اور اسے بتائیں کہ اس کی بہن کو ان مشکوک آدمیوں میں سے ایک آدمی نے محبت کا جھانسہ دے کر غائب کر دیا ہے پھر امیر قلعہ سے کہیں کہ اگر آپ میری بہن کو ان سے آزاد کروا دیں تو میں اپنی بہن کو آپ کے ساتھ بیاہ دوں گا
یہ تو میں کسی قیمت پر نہیں کروں گا منور نے کہا بہن مجھے نظر آ گئی تو میں اسے قتل کر دوں گا اسے اس امیر قلعہ کی جوزیت میں نہیں دوں گا
میں آپ سے یہ تو نہیں کہہ رہی کہ اپنی بہن ضرور ہی اسے دینی ہے منور کی بیوی نے کہا پہلے اپنی بہن کا سراغ تو لگائیں وہ مل گئی تو امیر قلعہ کو صاف کہہ دینا کہ میں تمہیں اپنی بہن نہیں دوں گا آپ ڈرے نہیں میرے تین بھائی ہیں میں ان کے ہاتھ امیر قلعہ کو قتل کروا سکتی ہوں
منور اسی وقت امیر قلعہ کے یہاں چلا گیا امیر قلعہ شراب پی رہا تھا اور اس وقت اس کے ساتھ ایک نوخیز لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اس نے منور کو اندر بلایا اور لڑکی کو وہاں سے اٹھا دیا
کہو رئیس! امیر قلعہ نے طنزیہ سے لہجے میں پوچھا کیسے آنا ہوا ؟
مجھے آپ کی مدد کی ضرورت آ پڑی ہے منور نے کہا میری بہن لاپتہ ہوگئی ہے مجھے انہیں پانچ آدمیوں پر شک ہے جن کے متعلق میں آپ کے ساتھ بات کر چکا ہوں میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک آدمی نے میری بہن کو محبت کا جھانسہ دیا تھا مجھے شک ہے کہ میری بہن کو وہی لے گیا ہے اور میں جس مسئلہ پر پریشان ہو رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میری بہن کو حسن بن صباح تک پہنچا دیا جائے گا
وہ کہیں نہیں گئی امیر قلعہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں شراب کا اثر نمایاں تھا وہ یہی ہے اور میرے پاس ہے پریشان مت ہو رئیس! اگر تم اجازت دے دو تو یہ شادی دھوم دھام سے ہوگی اور اگر تم اجازت نہیں دو گے تو بھی یہ شادی ہو کر رہے گی اور تم منہ دیکھتے رہ جاؤ گے کہو کیا کہتے ہو کیا تم بھول گئے تھے کہ میرے ہاتھ میں کتنی طاقت ہے؟
شراب کی طاقت کوئی طاقت نہیں ہوتی منور نے اٹھتے ہوئے کہا میں تمہیں صرف ایک بار شرافت اور دوستی سے کہوں گا کہ میری بہن ابھی میرے حوالے کر دو دوسری بار نہیں کہوں گا
اس وقت امیر نشے میں بدمست تھا شراب کا نشہ تو کوئی نشہ نہیں تھا اصل نشہ تو یہ تھا کہ وہ قلعے کا اور اس شہر کا حاکم تھا یہ تھا اصل نشہ
رئیس منور! امیر قلعہ نے کہا تم چلے جاؤ سوچ کر کل مجھے جواب دینا اگر اس وقت دھمکیوں کی زبان میں بات کرو گے تو میں اپنے نوکروں کو بلاکر تمہیں دھکے دلوا کر گھر سے نکالوں گا اور شکاری کتے تم پر چھوڑ دوں گا
منور وہاں سے نکل آیا منور اپنے گھر پہنچا تو منور وہ منور نہیں تھا جو قومی جذبے سے سرشار رہتا تھا اس کے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے اور اس کی ذات میں آتش فشاں پھٹ پڑا تھا بیوی نے اس سے پوچھا تو وہ چپ رہا بیوی کو ایک طرف کر دیا اور تلوار لے کر پھر باہر نکل گیا اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑی اور باہر تک آ گئی منور نے رک کر پیچھے دیکھا
تم واپس چلی جاؤ اس نے بیوی سے کہا میں کسی کو قتل کرنے نہیں جا رہا میں ان شاءاللہ زندہ واپس آؤں گا
بیوی واپس اپنے گھر آگئی لیکن وہ بہت ہی پریشان تھی منور نے اس حویلی کے دروازے پر جا دستک دی جس میں پانچ مشکوک آدمی رہتے تھے دروازہ کھلا تو منور نے دیکھا کہ دروازہ کھولنے والا وہی آدمی تھا جسے اس کی بہن چاہتی تھی اور جو اس کی بہن کو چاہتا تھا منور اسے اور وہ منور کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا وہ منور کو اندر لے گیا سارے آدمی منور کے پاس بیٹھ گئے
میرے دوستو! منور نے کہا میں قتل کرنے نہیں آیا نہ قتل ہونے کا ارادہ ہے میری بہن لاپتہ ہے اور مجھے پتا چل گیا ہے کہ وہ امیر قلعہ کے پاس ہے وہ بدبخت کب کا میری بہن کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور میں اسے صاف الفاظ میں کہہ چکا تھا کہ میں اپنی بہن اس کی زوجیت میں نہیں دوں گا
آپ ہمارے پاس کیوں آئے ہیں؟
اس آدمی نے پوچھا جس کے ساتھ منور کی بہن کی محبت تھی ہم آپ کی جو مدد کر سکتے ہیں وہ بتائیں
میرے دوستو ! منور نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم سب باطنی ہو اور حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے یہاں آئے ہو میں تمہیں کسی بھی وقت پکڑواکر قتل کروا سکتا تھا لیکن میری یہ بات اب غور سے سنو میں تمہارا ساتھی ہوں مجھ پر اعتبار کرو صبح ہوتے ہی تم میں سے کوئی ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جائے اور اسے کہے کہ اپنے آدمی بھیجے جس طرح تم نے قلعی ملاذخان میں بھیجے تھے یہ قلعہ بھی لے لو
اس سلسلے میں ان کے درمیان کچھ اور باتیں ہوئیں اور ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جانے کے لئے تیار ہوگیا منور کی حالت ایسی تھی جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو اس کو بہن سے بہت ہی پیار تھا اس بہن کو امیر قلعہ لے اڑا تھا وہ پاگل نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا وہ بھول ہی گیا کہ وہ باطنیوں کا دشمن ہے اور باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے
دو یا تین دن گزرے ہونگے کہ جو آدمی حسن بن صباح کے پاس گیا تھا وہ واپس آ گیا اور اسی روز شہر میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا ان کے ساتھ اونٹ تھے جن پر اناج اور مختلف قسم کا سامان لدا ہوا تھا ان تاجروں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی یہ سرائے میں ٹھہرے
رات کا پہلا پہر تھا امیر قلعہ حسب معمول شراب پی رہا تھا اس نے منور کی بہن کو اپنے پاس بٹھا رکھا تھا اور شراب پینے پر مجبور کر رہا تھا لڑکی رو رو کر انکار کر رہی تھی امیر قلعہ قہقہے لگا رہا تھا عین اس وقت دربان نے اندر جا کر اسے بتایا کہ رئیس شہر منور الدولہ آئے ہیں امیر قلعہ نے قہقہہ لگا کر کہا کہ اسے اندر بھیج دو
جب منور اندر گیا تو وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پیچھے آٹھ نو آدمی تھے امیر قلعی نے حیرت زدہ سا ہو کر ان سب کو دیکھا لیکن اسے یہ پوچھنے کی مہلت نہ ملی کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں انہوں نے امیر قلعہ کو پکڑ لیا اور ان میں سے ایک نے خنجر امیر قلعہ کے دل میں اتار دیا ایک ہی وار کافی تھا
یہ جو تاجر آئے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے وہ ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور جب امیر قلعہ کو قتل کیا گیا اس وقت تک وہ ان چند سو محافظوں پر قابو پا چکے تھے جو مختلف جگہوں پر سوئے ہوئے تھے اگلی صبح اعلان ہوا کہ اب امیر قلعہ کوئی اور ہے اس طرح یہ قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں چلا گیا
منور کو توقع تھی کے باطنی اسے کوئی اعزاز دیں گے تاریخی حوالوں کے مطابق اس کی خواہش یہ تھی کہ اسے اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنی بیوی کو بہن اور بچوں کو ساتھ لے کر مرو یا رے چلا جائے لیکن اس کا انجام بہت برا ہوا منور پراسرار طریقے سے ختم ہوگیا اور اس کی بہن کو حسن بن صباح کی جنت میں بھیج دیا گیا اس کے بیوی بچوں کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:31 }
منور الدولہ قتل ہوگیا اس کے بیوی بچے کا کچھ پتہ ہی نہ چلا وہ کہاں غائب ہوگئے ہیں یا غائب کر دیئے گئے ہیں اور اس کی بہن کو باطنی لے اڑے منور الدولہ نے اسی بہن کے خاطر قلعہ قستان پر باطنیوں کا قبضہ کروا دیا تھا وہ تو پکا مومن تھا لیکن بہن کی عزت اور عصمت پر اس نے اپنا ایمان بھی قربان کر دیا تھا منور الدولہ کے خاندان کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا تھا لیکن یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی
اس کی بہن کا نام حمیرا تھا تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑی ہی حسین لڑکی تھی وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی اپنے دین وایمان کی پکی تھی اس میں اپنے بھائی منور الدولہ جیسا جذبہ تھا اس کے دل میں بھی حسن بن صباح اور اسکے باطنی فرقہ کی نفرت موجزن تھی لیکن اسے محبت ہوئی تو ایک باطنی سے ہوئی وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ خوبرو اور جواں سال آدمی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا تخریب کار اور جاسوس ہے
پہلے گزر چکا ہے کہ اس شہر کے مکان میں پانچ آدمی رہتے تھے جو بظاہر دیندار اور زاہد تھے لیکن یہ انکا بہروپ تھا وہ پانچوں وقت مسجد میں جاکر نماز ادا کرتے اور وہ اتنے ملنسار ہر کسی کے ہمدرد اور اتنے ہنس مکھ تھے کہ ہر کوئی انہیں محبت اور احترام سے ملتا اور ہر محفل میں انہیں تعظیم دی جاتی تھی یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ان کی سرگرمیاں کتنی پراسرار اور مشکوک سی تھی کہ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ لوگ باہر سے کچھ اور اور اندر سے کچھ اور ہیں شہر کے بیشتر لوگ ان پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں کرتے تھے منور الدولہ کو تو آخر میں آکر یقین ہوگیا تھا کہ یہ پانچ مذہبی قسم کے آدمی باطنی ہیں اور کسی بھی وقت کوئی تباہ کاری کر سکتے ہیں لیکن قلعے کا حاکم منور الدولہ کی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا
منور الدولہ اس شہر کا رئیس تھا لیکن اس میں وہ تکبر اور غرور نہیں تھا جو اس وقت کے رئیسوں میں ہوا کرتا تھا وہ صاف ستھرا مسلمان تھا صوم و صلوۃ اور حقوق العباد کا پابند تھا عبادت کے ساتھ ساتھ وہ عسکریت پسند بھی تھا اسے اپنی بہن حمیرا کے ساتھ بہت ہی پیار تھا اسی پیار کا کرشمہ تھا کہ حمیرا بھی خیالات اور کردار کے لحاظ سے اپنے بھائی کے نقشے قدم پر چل رہی تھی اسے گھوڑسواری کا بہت شوق تھا منور نے اسے شہسوار بنا دیا تھا اسے تیغ اور خنجر زنی نیزابازی اور تیر اندازی بھی سکھا دی تھی وہ آخر شہر کے رئیس کی بہن تھی اس لیے اس میں خود اعتمادی اور جرات تھی وہ دوسرے تیسرے دن شام کے وقت گھوڑے پر سوار ہوتی اور شہر سے نکل جاتی تھی گھوڑا دوڑاتی اور جدھر چاہتی ادھر ہو آتی تھی
ایسے ہی ایک شام وہ شہر سے کچھ دور گھوڑا دوڑا رہی تھی ایک بڑا ھی خوبرو گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا حمیرا نے اپنا گھوڑا اس کے قریب سے گزارا تو اس سوار نے اسے غور سے دیکھا اور فوراً ہی گھوڑا اس کے پیچھے دوڑا دیا دونوں گھوڑے جب پہلو بہ پہلو ہوئے تو حمیرا نے اس سوار کو غصیلی نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا کہ وہ کس نیت سے اس کے پاس چلا آیا ہے
گھوڑا فوراً روک لیں اس سوار نے کہا آپ کی زین کسی ہوئی نہیں ڈھیلی ہے اور آپ گر پڑیں گی
حمیرا نے گھوڑا روک لیا اور اتر آئی وہ آدمی بھی گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے گھوڑے کی زین دیکھی واقعی زین کسی ہوئی نہیں تھی اس نے زین اچھی طرح کس دی
اب جائیں اس سوار نے کہا بس مجھے آپ سے اتنی ہی دلچسپی تھی
حمیرا کو یہ شخص شکل و صورت اور جسم کے لحاظ سے بھی اچھا لگا اور بول چال کے انداز سے بھی وہ کوئی چھوٹی سی حیثیت کا آدمی نہیں لگتا تھا
آپ کون ہیں؟
حمیرا نے پوچھا کیا آپ یہیں کے رہنے والے ہیں
میرا نام جابر بن حاجب ہے اس سوار نے جواب دیا پردیسی ہوں بغداد سے یہاں علم کی تلاش میں آیا ہوں اپنے جیسے چار پانچ آدمی مل گئے ہیں ان کے ساتھ رہتا ہوں
لیکن آپ تو شہسوار معلوم ہوتے ہیں حمیرا نے کہا اس زین پر میں سوار تھی اور مجھے پتہ نہ چلا کہ یہ پوری طرح کسی ہوئی نہیں آپ کو اتنا تجربہ ہے کہ آپ نے دور سے دیکھ لیا اور مجھے گرنے سے بچا لیا
کیا علم کی جستجو میں مارے مارے پھرنے والے شہسوار نہیں ہوسکتے؟
جابر بن حاجب نے مسکراتے ہوئے کہا
ہوتا تو یہی ہے حمیرا نے کہا عالم عموماً تارک الدنیا سے ہو جاتے ہیں
میں ان عالموں میں سے نہیں جابر نے کہا دنیا سے تعلق توڑ لینا علم کے خلاف ورزی ہے بلکہ میں اسے علم کی توہین سمجھتا ہوں میں مسلمان ہوں وہ مسلمان ہی کیا جو شہسوار نہ ہو اور جس کا ہاتھ تلوار برچھی اور کمان پر صاف نہ ہو میں ایک زندہ قسم کا عالم بننا چاہتا ہوں اس عالم کو میں نامکمل انسان سمجھتا ہوں جو عمل سے کتراتا ہو
دونوں اپنے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑے آہستہ آہستہ چلنے لگے جابر کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں کوئی ایسا تاثر تھا کہ حمیرا کو جیسے یہ بھی یاد نہ رہا ہوں کہ اسے واپس گھر بھی جانا ہے گھوڑے آگے ہی آگے چلے جارہے تھے آگے دریا تھا جہاں گھوڑے رک گئے
وہ علاقہ بڑا ہی سرسبز تھا جس میں پیڑ پودوں کی افراط تھی اس ماحول کی اپنی ایک رومانیت تھی جو حمیرا پر اثر انداز ہونے لگی جابر نے حمیرا کو یاد دلایا کہ شام گہری ہو گئی ہے اس لیے اسے گھر جانا چاہیئے حمیرا وہاں سے چل تو پڑی لیکن وہ محسوس کرنے لگی کہ اس کا دل وہیں دریا کے کنارے رہ گیا ہے اس نے گھوم گھوم کے پیچھے دیکھا آخر گھوڑے کو ایڑ لگا دی
یہ حمیرا اور جابر کی پہلی ملاقات تھی اس کے بعد حمیرا گھوڑ سواری کے لیے ہر شام باہر آنے لگی اس کی نظریں جابر کو ڈھونڈتی تھیں لیکن جابر ہر روز باہر نہیں جاتا تھا تیسرے چوتھے روز اسے جابر مل جاتا اور دونوں دریا کے کنارے اس جگہ چلے جاتے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا جابر نے کوئی ایسی بات کی تھی نہ حمیرا نے کوئی ایسا اشارہ دیا تھا کہ ان کی محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ ہے یہ دو روحوں کی محبت تھی اور ان کی روحوں کا جسمانی آسودگی اور نفسانی خواہشات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا وہ گھوڑوں سے اتر کر ایک دوسرے میں گم ہو جایا کرتے تھے
انہوں نے شادی کے عہدوپیمان کرلیے حمیرا نے جابر کو بتا دیا تھا کہ اس کا بھائی شہر کا ریس ہے اس لیے وہ اس کی شادی کسی رئیس زادے سے ہی کرے گا
اگر تم بھائی سے کہو کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو کیا وہ انکار کردے گا؟
جابر نے پوچھا
ہاں ! حمیرا نے جواب دیا میں اسے اجازت تو ضرور لوں گی اسے میرے ساتھ اتنا پیار ہے جو اسے اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں لیکن اس نے انکار کر دیا تو میں تمہارے ساتھ جہاں کہو گے چلی چلوں گی میرا دل کسی رئیس زادے یا کسی امیر زادے کو قبول نہیں کرے گا یہ لوگ عیش پرست ہوتے ہیں میں کسی کے حرم کی قیدی نہیں بنوں گی میں ایک انسان کی رفیقہ حیات بنونگی
حمیرا کسی وقت بھی محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص باطنی ہے اور علم و فضل کے ساتھ اسکا دور کا بھی تعلق نہیں اور یہ حسن بن صباح جیسے ابلیس کا پیروکار ہے پھر وہ دن آیا جس دن منور الدولہ نے حمیرا کو بتایا کہ فلاں مکان میں جو پانچ آدمی رہتے ہیں وہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے بڑے ہی خطرناک آدمی ہیں
باطنیوں کو تم جانتی ہو نا حمیرا ! منور نے کہا اسلام کا نام لے کر یہ فرقہ اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہے اور اگر انہیں یہیں پر روکا نہ گیا تو اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا جو ہمیں رسول اللہﷺ نے دیا تھا
حمیرا نے وہ مکان دیکھا تھا جس میں جابر بن حاجب رہتا تھا اور اس نے جابر کے ساتھی بھی دیکھے تھے اپنے بھائی کی یہ بات سن کر اسے افسوس ہوا کہ جابر بھی باطنی ہے اور اس نے جھوٹ بولا ہے کہ وہ بغداد سے علم کی تلاش میں آیا ہے
میرے عظیم بھائی! حمیرا نے پوچھا کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ باطنی ہیں؟
ابھی یقین نہ کہو منور نے جواب دیا شک پکا ہے کچھ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ پانچ چھ آدمی مشکوک ہیں
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ منور امیر شہر کے پاس گیا اور اسے بتایا تھا کہ یہ پانچ آدمی ٹھیک معلوم نہیں ہوتے اور انہیں پکڑنا چاہیے لیکن امیر نے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لی تھی منور مومن اور مجاہد قسم کا مسلمان تھا اس نے حمیرا سے کہا کہ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا قلع قمع کرے لیکن یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ یہ لوگ واقعی باطنی ہیں اور تخریب کاری کی نیت سے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں
حمیرا نے بھائی سے کہا کہ اگر سوال اسلام کی سربلندی اور باطنیوں کی سرکوبی کا ہے تو وہ یہ راز نکال لائے گی پہلے سنایا جاچکا ہے کہ وہ ان پانچ چھ آدمیوں کی اصل حقیقت معلوم کر لائی اس نے یہ راز جابر بن حاجب سے لیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جابر کو حمیرا سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ اس نے حمیرا کو اپنا راز دے دیا حمیرا کے دل میں بھی جابر کی بے پناہ محبت تھی لیکن اسے جو محبت اپنے بھائی سے اور اسلام سے تھی اس پر اس نے اپنی محبت قربان کردی اس راز سے اس قلعہ بند شہر کے زمین وآسمان تہہ و بالا ہو گئے
قلعے میں خونریز ہنگامہ شروع ہوا تو جابر حمیرا کے گھر جا پہنچا اس وقت منور گھر نہیں تھا وہ امیر شہر کے گھر میں تھا جہاں کچھ باطنی اس کے ساتھ تھے اور پھر امیر شہر کو قتل کر دیا گیا تھا جابر نے حمیرا کو ساتھ لیا اور شہر سے نکل گیا
حمیرا اس توقع پر جارہی تھی کہ جابر اسے اپنے گھر بغداد لے جا رہا ہے لیکن شام کے بعد جب وہ ایک جگہ روکے تو حمیرا پر یہ انکشاف ہوا کہ اسے بغداد نہیں بلکہ الموت لے جایا جا رہا ہے
یہ اسے اس طرح پتہ چلا کہ وہ جب اپنے شہر سے نکلی تھی تو جابر اس کے ساتھ اکیلا تھا دونوں گھوڑے پر جا رہے تھے جابر بہت ہی آہستہ رفتار پر جارہا تھا حمیرا نے اسے کہا کہ تیز چلنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس کا بھائی تعاقب میں آجائے جابر نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے انتظار میں ہے وہ بھی شہر سے نکل آئے ہوں گے کچھ دیر بعد جابر کے پانچ ساتھی اس سے آ ملے قلعے پر قبضہ کرنے کے لئے دوسرے باطنی پہنچ گئے تھے جابر اور اس کے ساتھیوں کا کام ختم ہوگیا تھا جابر نے قلعہ سر کرنے کے علاوہ ایک بڑا خوبصورت شکار بھی مار لیا تھا حسن بن صباح جن لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا تھا حمیرا اگر ان سے کچھ درجہ زیادہ حسین نہیں تھی تو کسی سے کم بھی نہیں تھی حمیرا کو الموت پہنچ کر کچھ ٹریننگ دینی تھی اور پھر اسے حسن بن صباح کی جنت میں حور بنا کر داخل کرنا تھا
سورج غروب ہوگیا اور یہ چھوٹا سا قافلہ چلتا گیا اور جب رات زیادہ گہری ہوگئی تو یہ لوگ روک گئے وہ کھانا اپنے ساتھ لے آئے تھے جو انہوں نے خود بھی کھایا اور حمیرا کو بھی کھلایا انہوں نے حمیرا کی موجودگی میں ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کو یقین ہوگیا کہ اسے بغداد لے جایا جا رہا ہے جہاں جابر اس کے ساتھ شادی کرلے گا کھانا کھا چکے تو انہوں نے سونے کا بندوبست اس طرح کیا کہ حمیرا کے لئے الگ چادر بچھا دی اور باقی آدمی اس سے ذرا پرے ہٹ کر لیٹ گئے حمیرا پختہ کردار اور ایمان والی لڑکی تھی لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ گھر سے بھاگ آئی تھی اس کی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ وہ اپنے آپ میں بے چینی محسوس کر رہی تھی کبھی تو اس کو خیال آتا کہ اس نے گھر سے نکل کر کوئی غلط کام نہیں کیا وہ فخر سے کہہ سکتی تھی کہ وہ باعصمت لڑکی ہے اور محبت میں مبتلا ہوکر بھی اس نے اپنی عصمت کو داغدار نہیں ہونے دیا وہ اس خیال سے بھی خوش تھی کہ اس نے اپنے بھائی کو ناراض نہیں کیا اور اس کے آگے جھوٹ نہیں بولا لیکن فوراً ہی اس کا ضمیر لعنت ملامت کرنے لگا کہ ایک طرف تو وہ اسلام کی محبت کو دل میں لئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اس نے ایک شہر باطنیوں کے حوالے کروا دیا ہے بیشک اسکے بھائی نے امیر شہر سے انتقام لے لیا تھا لیکن ایک شہر اور مسلمان شہر کی آبادی باطنیوں کے حوالے کردینا ایک گناہ تھا
حمیرا کی ذات میں ایسی کشمکش پیدا ہوگئی کہ وہ بے چین ہی ہوتی چلی گئی اس کیفیت میں اسے نیند کیسے آتی وہ دل ہی دل میں اللہ سے معافیاں مانگنے لگی اپنے دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ کو سبز باغ بھی دکھائے اس نے تصور میں دیکھا کہ وہ جابر کی بیوی بن گئی ہے اور زندگی بڑی ہی پرسکون ہو گئی ہے جابر نے اسے یہ تو بتا دیا تھا کہ اس کے ساتھی باطنی ہیں لیکن اپنے متعلق یہ بتایا تھا کہ وہ باطنی نہیں اور وہ ان آدمیوں کے ساتھ اس لئے رہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے عقیدے اور نظریے معلوم کرنا چاہتا ہے اور جب اسے یہ سب کچھ معلوم ہو جائے گا تو پھر وہ حسن بن صباح کے عقیدوں کے خلاف تبلیغ کا فریضہ انجام دے گا
جابر حمیرا کے پاس آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ سوئی ہوئی ہے آنکھیں بندکر لیں جابر چلا گیا وہ یہی دیکھنے آیا تھا کہ حمیرا سو گئی ہے یا نہیں وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا بیٹھا وہ حمیرا سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا یہی کوئی آٹھ دس قدموں کا فاصلہ ہوگا
سوگئی ہے یہ جابر کی آواز تھی جو حمیرا کو سنائی دی
حمیرا پہلے ہی بیدار تھی اس نے جابر کی یہ بات سنی تو وہ بالکل ہی بیدار ہوگئی اور اس نے کان ان لوگوں کی طرف لگا دیے اسے شک اس لیے ہوا کہ جابر نے یہ بات کچھ اور ہی انداز سے کی تھی
اسے شک تو نہیں ہوا کہ ہم اسے کہیں اور لے جا رہے ہیں؟
جابر کے ایک ساتھی نے پوچھا
نہیں! جابر نے جواب دیا میں نے اسے شک نہیں ہونے دیا
خدا کی قسم! ایک نے کہا امام اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اگر یہ چل پڑی تو ہو سکتا ہے امام اسے باہر بھیج دیں
میں تمہیں ایک بات بتا دو دوستو! جابر نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ میں اسے کس کام کے لیے لے جا رہا ہوں لیکن میں نے اس کے ساتھ جو محبت کی ہے اس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں میں اسے اپنی روح میں بٹھا چکا ہوں میں جانتا ہوں کہ میں نے اپنے لیے کتنی بڑی دشواری پیدا کر لی ہے
اگر ایسی بات ہے تو شیخ الجبل کو پتہ نہ چلنے دینا ایک اور ساتھی بولا شیخ الجبل کو پتہ چل گیا کہ تم اس لڑکی کے معاملے میں جذباتی ہو تو تم جانتے ہو کہ تمہیں کیا سزا ملے گی ہاں جانتا ہوں جابر نے کہا امام اپنا خنجر دے کر مجھے کہے گا کہ یہ اپنے دل میں اتار لو میں محتاط رہوں گا کہ امام کو اپنی جذباتی حالت نہ بتاؤں
حسن بن صباح کو اس کے پیروکار امام کہا کرتے تھے اور تاریخوں میں اسے شیخ الجبل کہا گیا ہے
اس کے بعد ان لوگوں نے حمیرا کو سویا ہوا سمجھ کر ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کے ذہن میں کوئی شک وشبہ نہ رہا کہ اسے دھوکے میں الموت لے جایا جا رہا ہے وہاں وہ اسی ابلیسیت کا ایک کل پرزہ بن جائے گی جس کے خلاف اس کے دل میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ پہلے ہی بے چینی میں مبتلا تھی اب وہ یوں محسوس کرنے لگیں جیسے اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی ہو اس نے پہلے تو یہ سوچا کہ ان لوگوں کے پاس چلی جائے اور کہے کہ وہ یہاں سے آگے نہیں جائے گی لیکن عقل نے اس کی رہنمائی کی اس نے سوچا کہ یہ چھ آدمی ہیں اور یہ چھے آدمیوں سے آزاد نہیں ہو سکتی اس نے ان کے ہاتھوں مر جانے کا بھی فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے پر قائم نہ رہ سکی اس نے یہ بھی سوچا کہ جب یہ سب سو جائیں تو اٹھے اور دبے پاؤں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ نکلے اس پر اس نے غور کیا اور یہی فیصلہ کرلیا کہ یہ سو جائیں تو وہ بھاگ جائے گی
آدھی رات ہونے کو آئی تھی جب یہ چھ آدمی سونے لگے جابر ایک بار پھر حمیرا کے قریب آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے آنکھیں بند کر لیں جابر یہ یقین کرکے کہ لڑکی سو گئی ہے اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا پھر وہ سب سو گئے
حمیرا تو پوری طرح بیدار اور تیار ہو چکی تھی اب اسے انتظار تھا کہ یہ اور زیادہ گہری نیند میں چلے جائیں تو وہ یہاں سے اٹھے اور نکلے گھوڑے پندرہ بیس قدم دور بندھے ہوئے تھے زین ان آدمیوں نے اپنے قریب رکھی ہوئی تھیں
حمیرا کو ان کے خراٹے سنائی دینے لگے اس نے کچھ دیر اور انتظار کیا آخر وہ اٹھی اور دبے پاؤں زینوں تک پہنچی اس نے ایک زین اٹھا لی لیکن زین وزنی تھی وہ زین اٹھا کر چلی تو زین پر پڑی ہوئیں ایک زین سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا اور وہ گر پڑی لوہے کی رکابیں آپس میں ٹکرائیں تو بڑی زور کی آواز اٹھی رات کے سناٹے میں یہ آواز زیادہ ہی زوردار سنائی دی جابر کی آنکھ کھل گئی باقی ساتھی سوئے ہوئے تھے ادھر حمیرا اٹھی ادھر جابر اٹھا اور حمیرا تک پہنچا
کیا کر رہی ہو؟
جابر نے سرگوشی میں پوچھا تا کہ اس کے ساتھی نہ جاگ پڑیں کیا تم گر پڑی تھی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے ساتھ آؤ
حمیرا نے جابر کا بازو پکڑا اور اسے اس کے ساتھیوں سے دور لے گئی اور دونوں وہاں بیٹھ گئے
مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟
حمیرا نے پوچھا
قلعہ الموت جابر نے بڑے تحمل سے جواب دیا
الموت! حمیرا نے پوچھا کیا ہم بغداد نہیں جا رہے
سنو حمیرا ! جابر نے کہا میں باطنی نہیں ہوں
اور تم مجھے اس ابلیس حسن بن صباح کے حضور پیش کرو گے حمیرا نے کہا اور وہ مجھے اپنی بہشت کی حور بنادے گا جابر میں نے رات تم سب کی باتیں سنی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ باطنیوں کو مجھ جیسی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے
مجھے معلوم ہے تم سب کچھ جانتی ہو جابر نے کہا لیکن تم مجھے پوری طرح نہیں جان سکی میں اپنے امام حسن بن صباح کے اس گروہ کا آدمی ہوں جو کسی لڑکی یا کسی آدمی کو پھانسنے کے لیے ایسی جذباتی اور پراثر باتیں کرتے ہیں کہ ان کا شکار ان کا گرویدہ ہو کر ان کے قدموں میں آ گرتا ہے لیکن ان میں جذبات ہوتے ہی نہیں کسی دوسرے کی جان لے لینا اور اپنی جان دے دینا میرے گروہ کے لئے ایک کھیل ہوتا ہے ان لوگوں میں اپنی بہنوں اور اپنی ماؤں کے لیے بھی کوئی جذبات نہیں ہوتے لیکن حمیرا تم پہلی لڑکی اور شاید آخری بھی ہو جس نے میرے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اب کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ میں تمہیں فریب اور جھانسے دیتا چلا جاؤں اب تم پوری طرح ہمارے قبضے میں ہو یہاں سے بھاگو گی تو کتنی دور تک پہنچ جاؤں گی؟
اور پھر جاؤں گی کہاں؟
اگر تم ہمارے قابو میں آؤں گی تو ہم تمہارے اس حسین جسم سے پورا پورا لطف اٹھا کر تمہیں قتل کر دیں گے
اور میں یہی صورت قبول کرونگی کہ اپنے آپ کو پہلے ہی ختم کر لوں حمیرا نے کہا میں مسلمان کی بیٹی ہوں اپنا آپ کسی کے حوالے نہیں کروں گی
کیا تم میری پوری بات نہیں سنوں گی جابر نے کہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب میں تمہارے ساتھ محبت کی جو بات کر رہا ہوں یہ فریب نہیں محبت میرے لئے ہمیشہ ایک سراب بنی رہی ہے اور میں اس سراب کے پیچھے دوڑتا اور بھٹکتا اور گرتا ہی رہا ہوں میں گر گر کر اٹھا اور اٹھ اٹھ کر محبت کے سراب کے پیچھے دوڑتا رہا ہوں حتیٰ کہ میں الموت پہنچ گیا میں کوئی لمبی چوڑی کوئی میٹھی کڑوی باتیں نہیں کروں گا مجھے محبت تم سے ملی ہے میرے سوئے ہوئے اور فریب خوردہ جذبات کو تم نے جگایا ہے تم اتنا کرو کہ خاموشی سے اور اطمینان سے میرے ساتھ چلی چلو ہمارا طریقہ یہ ہے کہ لڑکی کو پھانس کر لاتے ہیں اور الموت کی جنت میں داخل کر دیتے ہیں ایسی لڑکیوں کو سنبھالنے اور اپنے راستے پر چلانے والے وہاں موجود ہیں وہ دو تین دنوں ہی میں اس کے ذہن پر اور دل پر قبضہ کرلیتے ہیں پھر کوئی لڑکی وہاں سے بھاگنے کے متعلق سوچتی ہی نہیں لیکن حمیرا میں ایسے نہیں کروں گا میں اپنی روحانی محبت کا جو تم سے ہے پورا پورا ثبوت پیش کروں گا دیکھ حمیرا ہر انسان اس عقیدے کو اور اس مذہب کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے جو اسے باپ سے ورثے میں ملا ہے عقیدہ غلط بھی ہو سکتے ہیں انسان جب سے پیدا ہوا ہے عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا چلا آیا ہے میں تمہیں اسلام کے راستے سے نہیں ہٹا رہا ہمارا امام حسن بن صباح اسلام کا شیدائی ہے تم چل کے دیکھو اگر یہ عقیدہ تمہارے دل نے قبول کرلیا تو وہاں رہنا ورنہ مجھے اپنا قائل کر لینا اور میں تمہارے ساتھ بغداد چلا چلوں گا میں تم سے محبت کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کسی کے حوالے نہیں کروں گا اپنے پاس رکھوں گا
خنک اور خاموش رات گزرتی جارہی تھی اور جابر اپنی زبان کا جادو جگا رہا تھا اس کے دل میں حمیرا کی محبت تو تھی ہی لیکن اس دل میں حسن بن صباح بھی موجود تھا حمیرا پر غنودگی اور خاموشی طاری ہوتی چلی جارہی تھی وہ اتنا تو تسلیم کرتی تھی کہ وہ تنہائیوں میں جابر سے ملتی تھی لیکن جابر نے کبھی اشارتاً بھی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کی ساری دلچسپیاں اور چاہت حمیرا کے جسم کے ساتھ ہے اب آبادیوں سے دور جنگل میں جہاں حمیرا کو اس شخص سے بچانے والا کوئی بھی نہ تھا جابر نے نفسانی خواہش کا ذرا جتنا بھی اظہار نہیں کیا تھا حمیرا جابر کو ہی اپنا ہمسفر اور محافظ سمجھ رہی تھی اور اس نے اس شرط پر جابر کی ہمسفر رہنا قبول کرلیا کہ وہ الموت جاکر دیکھیں گی کہ وہاں کیا ہے اور اس کا دل کیا کہتا ہے
اگلی صبح یہ قافلہ اپنی منزل کو روانہ ہوگیا
سلجوقی سلطان ملک شاہ کو دفن ہوئے دو مہینے اور کچھ دن گزر گئے تھے یہی ایک طاقت تھی جو حسن بن صباح کی ابلیس کے سیلاب کو روک سکتی تھی گو اس طاقت کو اب تک ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن یہ طاقت ہاری نہیں تھی اور نئی تیاریوں میں مصروف ہوگئی تھی اس کا مقصد اور نصب العین صرف یہ تھا کہ حسن بن صباح کی جنت کو اس کے لئے اور اس کے فدائین کے لئے جہنم بنا دیا جائے لیکن ملک شاہ ایک فدائی کا شکار ہوگیا اگر اس کا بڑا بیٹا برکیارق جو اس کی جگہ ایک عظیم سلطنت کا سربراہ بنا تھا اپنے باپ جیسا ہوتا تو یہ طاقت ابلیسی جنت پر بجلی بن کر گرتی لیکن برکیارق اسی قاتل کی بہن کی زلفوں کا اسیر ہوگیا تھا جس نے صرف اسے ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کو بھی یتیم کر دیا تھا
یہ لڑکی جس کا نام روزینہ تھا اس قاتل کی بہن نہیں تھی وہ تو حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی لڑکی تھی جس نے مرو میں خانہ جنگی کا بیج بونا تھا قاتل نے اپنا کام کر دیا تھا اور روزینہ مقتول کے جانشین کو اپنے طلسماتی حسن میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی یہ بھی اسکی کامیابی تھی کہ اس نے برکیارق کی ماں اور اس کے خاندان کے دیگر اہم افراد سے منوالیا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے پہلے یہ تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ روزینہ نے ایسی حیران کن مہارت سے پورے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں
وہ لوگ اس خاندان کے خون کے رشتے دار نہیں تھے جو کہتے تھے کہ یہ لڑکی مشکوک ہے اور خطرناک بھی لیکن برکیارق کسی کی سنتا ہی نہیں تھا اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا سلطان ملک شاہ کا چہلم ہو چکا تھا کئی دن گزر گئے تھے اب کسی بھی دن برکیارق نے روزینہ کے ساتھ شادی کر لینی تھی
مزمل آفندی اور شمونہ کی محبت کا پہلے ذکر آچکا ہے ان کی محبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ دو نوجوان تھے اور خوبصورت بھی تھے اور پہلی نظر میں ہی ایک دوسرے کے ہوگئے تھے بلکہ ان کی محبت کی ایک بنیاد تھی اور اس کے پس منظر میں ایک مقصد تھا جو ان دونوں میں مشترک تھا یہ تھی حسن بن صباح کی نفرت اور یہ ارادہ کے اس ابلیس کو قتل کرنا ہے
شمونہ حسن بن صباح کی داشتہ اور اعلی کار رہ چکی تھی اس نے حسن بن صباح کے لیے کچھ کام بڑی کامیابی سے کیے تھے لیکن اللہ نے اسے روشنی دکھائی اور وہ پھر واپس اسلام کی گود میں آگئی ابومسلم رازی نے جو سلطنت سلجوقہ کے دوسرے بڑے شہر کا امیر تھا شمونہ کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا اس حسین و جمیل لڑکی کے دل میں انتقام کے شعلے اٹھ رہے تھے
مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا مگر خواجہ حسن طوسی کو قتل کرنے واپس آ گیا تھا یہ تو شمونہ کی محبت اور شاہی طبیب نجم مدنی کا کمال تھا کہ انہوں نے مزمل آفندی کے ذہن سے حسن بن صباح کے اثرات بد نکال دیے تھے اور وہ اپنی اصلیت میں واپس آگیا تھا مزمل بھی انتقام کی آگ میں جل رہا تھا
مزمل اور شمونہ ملتے اور گھنٹوں اکٹھے بیٹھے رہتے تھے شمونہ اور اس کی ماں کو جس کا نام میمونہ تھا سلطان ملک شاہ نے ایک مکان دے دیا اور ان کا وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا مزمل اپنے کاروبار میں لگ گیا تھا لیکن وہ اور شمونہ اپنے مشترک مشن کی تکمیل کے لیے تڑپتے رہتے تھے ایک روز مزمل شمونہ کے گھر میں آیا بیٹھا تھا شمونہ کی ماں نے انہیں کہا کہ وہ شادی کر لیں اس نے وجہ یہ بتائی کہ وہ دونوں نوجوان ہیں اور اکٹھے بیٹھتے اٹھتے ہیں اور اس سے لوگ شک کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے لوگ انہیں بدنام کر دیں اور سلطان برکیارق کے کان بھرنے شروع کر دیں جسکا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا میمونہ نے دوسری دلیل یہ دی کہ وہ دو نوجوان ہیں اور ایک دوسرے کو روحوں کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جذبات سے مغلوب اور اندھے ہوکر وہ گناہ کر بیٹھیں
مزمل نے کوئی بات نہ کی اس نے شمونہ کی طرف دیکھا اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی ماں کو شمونہ خود ہی کوئی جواب دے
میری ایک بات یقین سے سنو ماں! شمونہ نے کہا اگر میری اور مزمل کی محبت جسمانی ہوتی تو اب تک ہم میاں بیوی بن چکے ہوتے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم وہ گناہ کر چکے ہوتے جس کا تمہیں ڈر ہے ہماری محبت روحوں کا عشق ہے ہمارا نصب العین ایک اور راستہ ایک ہے ہمارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے اور ہم دونوں کا اللہ حامی اور ناصر ہے مجھے جس روز یہ اشارہ ملا کہ مزمل کو میرے حسن اور میرے جسم کے ساتھ محبت ہے تو اسی روز میرے اور اس کے راستے الگ ہوجائیں گے
شمونہ بیٹی! میمونہ نے کہا میں نے دنیا دیکھی ہے حسن اور جوانی میں وہ طاقت ہے
مجھے اپنے حسن اور اپنی جوانی سے نفرت ہے ماں! شمونہ نے جھنجلا کر کہا اس حسن اور جوانی نے مجھے اس ذلیل انسان کے قدموں میں جا پھینکا تھا مجھے اپنے اس جسم سے نفرت ہوتی جارہی ہے جسے لوگ اتنا زیادہ پسند کرتے ہیں میرے پاس روح رہ گئی ہے اس کا مالک مزمل ہے میں جو کچھ بھی ہوں پاک و پلید ہوں مزمل کی ہوں لیکن شادی ہمارا نصب العین نہیں میں لوگوں کے لیے بڑا ہی حسین دھوکا بنی رہی تھی میں نے اللہ کو ناراض کیا اللہ نے مجھے ایمان کی روشنی بخشی اس کے شکرانے کے لیے یہ میرا فرض ہے کہ اللہ کو راضی کروں اور اپنی روح کو پاک کروں پھر میں اپنا آپ ایک بیوی کے طور پر مزمل کو پیش کروں گی کیوں مزمل کیا تمہیں میری اس بات سے اختلاف ہے؟
نہیں شمونہ! مزمل نے جواب دیا میں بولتا تو میں بھی یہی کہتا جو تم نے کہا ہے میں نے سب سے پہلے اپنا مقصد پورا کرنا ہے تم نے ماں کو یہ جواب دے کر میرے ایمان میرے کردار اور میرے عزم کو نئی تازگی دی ہے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں کہیں دیتی ہوں شمونہ نے مزمل سے کہا میں اپنی ذات کو اور اپنے وجود کو مزمل کے بغیر نامکمل سمجھتی ہوں دونوں نے میمونہ کو یقین دلا دیا کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہتے رہیں لیکن وہ اس گناہ کا تصور بھی اپنے ذہن میں نہیں لائیں گے جس کی طرف میمونہ نے اشارہ کیا تھا
ایک بات بتاؤ مزمل! شمونہ نے پوچھا تم نے پھر برکیارق کو نہیں کہا کہ یہ لڑکی مشکوک ہے
ایک ہی بار کہہ کر دیکھ لیا تھا مزمل نے کہا اس نے مجھے ڈانٹ کر چپ کرادیا تھا میں تو ابھی تک اسے دوست سمجھ رہا تھا لیکن وہ جس لہجے میں بولا اس سے مجھے یاد آگیا کہ یہ شخص اب دوست نہیں بلکہ سلطان بن گیا ہے
تم رے کیوں نہیں چلے جاتے شمونہ نے کہا تم ابومسلم رازی سے بات کرکے دیکھو وہ اتنے بڑے شہر اور اتنے وسیع علاقے کا حاکم ہے سلطان ملک شاہ مرحوم کا وہ خاص معتمد اور مشیر تھا ہوسکتا ہے وہ برکیارق کو سمجھا بجھا کر اس لڑکی سے شادی کرنے سے روک دے
ابومسلم رازی سلطان ملک شاہ مرحوم کا معتمد اور مشیر تھا مزمل نے کہا برکیارق اس کی بھی نہیں مانے گا تم شاید نہیں جانتی کہ برکیارق روزینہ کے لیے پاگل ہوا جارہا ہے ابومسلم رازی برکیارق کی شادی پر آرہا ہے اس سے پہلے اسے ملنا بیکار ہے شادی تو ہونی ہی ہے میں ابومسلم رازی سے کہوں گا کہ روزینہ کو کسی طرح غائب کیا جائے ابھی تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ روزینہ کیا کر گزرے گی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ دکھائے گی ضرور پھر برکیارق زندہ رہا تو باقی عمر پچھتاتا رہے گا
شادی ہو جانے دو شمونہ نے کہا میں روزینہ کے ساتھ دوستی لگانے کی کوشش کروں گی اگر میں کامیاب ہوگئی تو اسے زہر پلا دو گی
سلطان ملک شاہ مرحوم تو حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کا دشمن تھا ہی لیکن ابومسلم رازی کی تو زندگی کا جیسے مقصد ہی یہی تھا کہ اس فرقے کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے وہ تو صاف الفاظ میں کہا کرتا تھا کہ یہ کام تبلیغ سے نہیں ہوگا یہ کام صرف تلوار سے ہو سکتا ہے اس سلسلے میں پہلے سنایا جا چکا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اتنی شہرت نہیں ملی تھی اور وہ ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ ابومسلم رازی نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن کسی طرح حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ رے سے غائب ہوگیا تھا
برکیارق اور روزینہ کی شادی کا دن آگیا بارات نے تو کہیں جانا نہیں تھا دلہن سلطان کے محل میں موجود تھی سلطان برکیارق کے حکم سے سارے شہر میں رات کو چراغاں کی گئی اور اس شادی پر جو ضیافت دی گئی اس کے چرچے تاریخ تک پہنچے اور آج تک سنائی دے رہی ہیں ایک دعوت عام تھی امراء اور وزراء اور دیگر رتبوں والے افراد کے لیے الگ انتظام تھا اور شہر کے لیے باہر کھلے میدان میں کھانا رکھا گیا تھا دور دور سے ناچنے گانے والے آئے تھے ناچنے والیوں نے بھی آکر اپنے فن کے مظاہرے کیے اور سب نے سلطان سے انعام وصول کیے
یہ ہنگامہ خیز شادی جس پر خزانے کا منہ کھول دیا گیا تھا یہ انداز اس خاندان کی روایت کے منافی تھے سلطان ملک شاہ مرحوم ہر دلعزیز سلطان تھا اسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے اور کچھ دن گزرے تھے لوگ اس کے غم میں نڈھال ہوئے جارہے تھے لیکن برکیارق کی شادی کے دن لوگ سلطان مرحوم کا غم جیسے بھول ہی گئے تھے برکیارق کا مقصد ہی یہی تھا
جب اندر نکاح وغیرہ ہو رہا تھا اس وقت مزمل آفندی رے کے امیر ابو مسلم رازی کے پاس جا بیٹھا برکیارق کے دونوں چھوٹے بھائی محمد اور سنجر بھی اس کے پاس آ بیٹھے یہ دونوں بھائی خاصے مغموم تھے صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک تو انہیں اپنا باپ یاد آرہا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ اپنے بھائی کی شادی پر خوش نہیں
امیرمحترم! مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا آپ جب سلطان مرحوم کی وفات پر یہاں آئے تھے تو مجھے آپ کے ساتھ بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اب میں نے موقع نکالا ہے کیا آپ کو کسی نے پہلے بتایا ہے کہ ہمارے نئے سلطان کی دلہن باطنی ہے اور یہ اپنے آپ کو سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ظاہر کرتی ہے؟
ہاں مزمل آفندی! ابومسلم رازی نے جواب دیا میری مخبری کے ذرائع ایسے ہیں کہ زمین کے نیچے کی ہوئی بات بھی میرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے مجھے معلوم ہو چکا ہے
سلطان برکیارق کی دلہن سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن نہیں مزمل نے کہا یہ اس کے ساتھ الموت سے آئی تھی کیا آپ اس کے متعلق کچھ سوچ رہے ہیں ؟
میں سب کچھ سوچ چکا ہوں ابومسلم رازی نے کہا اور سوچ بھی رہا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو؟
امیرمحترم! مزمل نے جواب دیا میں یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ لڑکی نہ جانے کیا گل کھلائے گی آپ سے میں نے صرف یہ کہنا ہے کہ جہاں کہیں آپ کو میری ضرورت پڑے مجھے فوراً بلائیں آپ اس لڑکی کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں جس کا نام شمونہ ہے وہ آگ بگولا بنی بیٹھی ہے آپ اسے بھی استعمال کر سکتے ہیں
تم کسی بھی دن رے آ جاؤ ابومسلم رازی نے کہا اطمینان سے بیٹھے گے اور کچھ سوچ لیں گے
کیا یہ لڑکی ہمارے بھائی کو مار ڈالے گی؟
برکیارق کے بھائی محمد نے پوچھا
شاید نہیں ابومسلم رازی نے کہا یہ لڑکی سلطان برکیارق کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور اس کی توجہ حسن بن صباح سے ہٹا دے گی مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ سلطان مرحوم کی وفات کے بعد باطنیوں کی تبلیغ بہت تیز ہوگئی ہے اور ان کے اثرات دور دور تک پھیلنے شروع ہوگئے ہیں میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ سلطان برکیارق کیا کرتے ہیں
ہمارا بھائی برکیارق کچھ بھی نہیں کرے گا محمد نے کہا ہم اسکے ساتھ رہتے ہیں ہم دونوں بھائی دیکھ رہے ہیں کہ برکیارق کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل ہی بدل گیا ہے جیسے ہم اس گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور دو چار دنوں بعد رخصت ہو جائیں گے
ایک خیال کرنا محم ! ابو مسلم رازی نے کہا اور تم بھی سنجر اگر برکیارق یا اس کی بیوی کوئی بدتمیزی یا تمہارے ساتھ برا رویہ اختیار کرے تو خاموش رہنا میں ابھی ایک بات زبان پر نہیں لانا چاہتا تھا مگر تم لوگوں کو ذرا سا اشارہ دے ہی دوں تو بہتر ہے مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس لڑکی کے ذریعے حسن بن صباح ہماری سلطنت میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے خانہ جنگی کیسے ہوگی اس پر ابھی نہ سوچو میں موجود ہوں تم دونوں بھائی چوکنے رہنا اور تم مزمل ادھر ادھر دھیان رکھنا جونہی کوئی بات معلوم ہو میرے پاس آ جانا
اگلے روز دعوت ولیمہ دی گئی جو شادی کی ضیافت جیسی ہی تھی امراء وزراء اور دیگر اعلی سرکاری رتبوں والے افراد فرداً فرداً سلطان برکیارق کو مبارک باد کہنے گئے برکیارق نے ہر ایک سے کہا کہ یہ لوگ تین چار دن یہیں رہیں کیونکہ وہ ان سے خطاب کرے گا
یہ لوگ روکے رہے پانچویں روز برکیارق نے ان سب کو اکٹھا کرکے خطاب کیا یہ ایک تاریخی اہمیت کا خطاب تھا تاریخی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ نئے سلطان نے سلطنت سلجوقیہ کی گاڑی الٹے رخ چلا دی تھی تاریخ میں آیا ہے کہ اس نے خطاب میں جو نئے اعلان کئے وہ کچھ اس طرح تھے
نیا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری ہوگا
انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں گی
حسن بن صباح کا مقابلہ تبلیغ سے کیا جائے گا کیونکہ وہ ایک مذہبی فرقہ ہے جسے فوجی طاقت سے نہیں دبایا جاسکتا سلطان برکیارق نے زور دے کر کہا کہ پہلے بہت زیادہ جانی نقصان کرایا جاچکا ہے جو اب ختم کیا جا رہا ہے
محصولات زیادہ کیے جائیں گے
وہاں جتنے بھی امراء وزراء اور سالار وغیرہ بیٹھے تھے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے سب نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ سلطان نشے کی حالت میں بول رہا ہے یہ نشہ سلطانی کا بھی تھا اور روزینہ کے حسن و جوانی کا بھی
سلطان محترم! ابومسلم رازی بے قابو ہوکر بول پڑا حسن بن صباح ایک خطرناک فتنہ ہے اور اسلام کا بدترین دشمن نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کا قاتل حسن بن صباح ہے
سلطان برکیارق نے ابومسلم جیسے عالم مجاہد اور بزرگ کو آگے بولنے نہ دیا
اب کوئی قتل نہیں ہوگا سلطان برکیارق نے کہا یہ سوچنا میرا کام ہے آپ کا نہیں آپ رے میں امن وامان قائم رکھیں
سلطان برکیارق کی اس نئی حکمت عملی سے سب کو اختلاف تھا لیکن جس طرح اس نے ابومسلم رازی کو ٹوک کر اپنا حکم چلایا اس سے سب خاموش رہے سب نے جان لیا کہ یہاں بولنا بیکار ہے یہ سب چھوٹے بڑے حاکم سلطان برکیارق کے باپ کے وقتوں کے تھے اور سب کی عمریں اس کے باپ جتنی تھیں لیکن برکیارق نے کسی ایک کا بھی احترام نہ کیا اور کسی کو وہ تعظیم بھی نہ دی جو سرکاری طور پر ان کا حق تھا وہ اپنا خطاب ختم کر کے وہاں سے چلا گیا
باہر آ کر آپس میں سب نے کھسر پھسر کی مگر اونچا کوئی بھی نہ بولا بعض پر تو حیرت کی خاموشی چھا گئی تھی ابومسلم رازی برکیارق کی ماں کے پاس چلا گیا اس گھر میں اس کی اتنی قدر و منزلت ہوتی تھی جیسے وہ اسی خاندان کا ایک فرد ہو برکیارق کی ماں اسے دیکھ کر رونے لگی مجھے غم تھا کہ میں بیوہ ہو گئی ہوں ماں نے کہا لیکن ایک اور غم یہ آ پڑا ہے جیسے میرا بیٹا برکیارق بھی مر گیا ہو روزینہ اس پر نشے کی طرح طاری ہوگئی ہے ولیمے کے بعد میرا بیٹا باہر نکلا ہی نہیں کیا دن کیا رات کو دلہن کے ساتھ کمرے میں بند رہا کل شام دونوں بگھی پر باہر نکلے تو میں ان کے خواب گاہ میں چلی گئی خادمہ برتن اٹھا رہی تھی دو چاندی کے پیالے پڑے تھے پاس ایک صراحی رکھی تھی میں نے پیالے سونگھے تو عجیب سی بو آئی یہ اگر شراب نہیں تھی تو کوئی اور مشروب نہیں بلکہ یہ کوئی اور نشہ تھا
آپ اتنے بھی پریشان نہ ہو جائیں ابومسلم رازی نے برکیارق کی ماں کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہا یہ آپ کے بیٹے کا نہیں یہ جوانی کا قصور ہے کچھ دنوں بعد نشہ اتر جائے گا اور مجھے امید ہے کہ لڑکا اپنے خاندان کے راستے پر آ جائے گا میں نے دنیا دیکھی ہے برکیارق کی ماں نے کہا میں اپنے آپ کو یہ دھوکہ کس طرح دوں کہ بیٹا اپنے باپ کے راستے پر واپس آجائے گا ہم نے بھی جوانی دیکھی ہے سلطان مرحوم کے ساتھ میری شادی ہوئی تھی تو میں اس لڑکی جیسی خوبصورت تھی اور کمسن بھی تھی سلطان مرحوم کبھی میرے ساتھ کمرے میں بند نہیں ہوئے تھے انہوں نے مجھے ایک نشہ نہیں بنایا بلکہ ایک خوبصورت بیوی سمجھ کر اس حیثیت میں رکھا جو بیوی کو اسلام نے دی ہے خوبصورت عورت بجائے خود ایک نشہ ہوتی ہے اللہ نے مرد میں کمزوری رکھ دی ہے کہ وہ حسین عورت کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیتا ہے چالاک اور مطلب پرست عورت جس مرد پر بدنیتی سے یا اپنے مطلب کے لئے قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ شخص اس عورت کا زر خرید غلام ہو جاتا ہے ایسی بدفطرت عورت مردوں کو اس مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہوجاتی ہے اس مقام پر جا کر اسے سود و زیاں کا احساس ہی نہیں رہتا وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس کی تباہی کی ذمہ داری یہ عورت ہے اور وہ اس عورت کا پوجاری بن جاتا ہے عورت کے ہاتھوں بادشاہیاں الٹ گئی ہیں
ابومسلم رازی جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوہ جو کہہ رہی ہے ٹھیک کہہ رہی ہے یہ مشاہدے کی باتیں تھیں لیکن اب تو یہ سوچنا تھا کہ برکیارق کو کس طرح اس لڑکی کے نشے سے نکالا جائے ابومسلم نے اس خاتون کو جھوٹی سچی تسلیاں دیں اور کہا کہ وہ نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ سلطنت کا وقار قائم رہے
اس سے کچھ عرصہ پہلے حمیرا جابر کے ساتھ قلعہ الموت پہنچ گئی تھی ان لوگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ کوئی آدمی کسی لڑکی کو ورغلا کر الموت لاتا تو اس لڑکی کو لڑکیوں کے گروہ کے نگراں کے حوالے کردیا جاتا تھا اگر کوئی لڑکی اکھڑ پن پر اتر آتی اور ان لوگوں کی بات پر آنے سے انکار کردیتی تو ان کے پاس اس کا بھی علاج موجود تھا ایک علاج تو تشدد اور زبردستی تھا لیکن یہ علاج کم سے کم استعمال کیا جاتا تھا ان لوگوں کے پاس بڑے ہی پیارے اور دل کو لبھانے والے طریقے تھے جو بڑی اکھڑ لڑکیوں کو بھی موم کر لیتے تھے جابر کو بھی یہی چاہیے تھا کہ وہ حمیرا کو متعلقہ گروہ کے نگراں کے حوالے کر دیتا اس کا کام ہو گیا تھا لیکن جابر نے اس مروّجہ طریقہ کار سے انحراف کیا اور حمیرا کو اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا
اس کا یہ دوست تھا تو باطنی لیکن وہ فدائین میں سے نہیں تھا نہ کبھی اسے ذمہ داری کا کوئی کام سونپا گیا تھا اس دوست نے جابر سے کہا کہ وہ کیوں اس لڑکی کو ساتھ لئے اور چھپائے پھرتا ہے اسے ان کے حوالے کیوں نہیں کر دیتا جو نئی آنے والی لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں
نہیں بھائی! جابر نے اپنے دوست سے کہا اس لڑکی کے ساتھ میرا کچھ جذباتی ساتھ تعلق پیدا ہوگیا ہے اسے آخر اسی جگہ بھیجنا ہے جس جگہ کے لیے میں اسے ساتھ لایا ہوں لیکن اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میں اسے کسی اور کے حوالے کروں میں اسے خود تیار کروں گا
دراصل جابر کو حمیرا سے محبت ہی اتنی زیادہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ اسے باطنیوں کے مقاصد کے لیے تیار بھی کرلے اور یہ لڑکی اس سے متنفر بھی نہ ہو دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ حمیرا کو ایک بار حسن بن صباح کے سامنے لے جائے اور اس سے درخواست کرے کہ وہ اس لڑکی کو خود تیار کرنا چاہتا ہے دوست نے اسے یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ وہ کبھی اس لڑکی کے ساتھ پکڑا گیا یا کسی کو پتہ چل گیا کہ جابر نے ایک لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے تو اسے موت سے کم سزا نہیں ملے گی
جابر نے اس مشورے کو بڑا قیمتی مشورہ جانا اور ایک روز حمیرا کو حسن بن صباح کے پاس لے گیا حمیرہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس نے سوچا کہ اس انسان کو ایک بار دیکھ تو لے جس نے ایک باطل عقیدے کو اتنی جلدی اور اتنی دور دور تک پھیلا دیا ہے حمیرا نے یہ بھی سنا تھا کہ حسن بن صباح اپنے کسی فدائی سے کہتا ہے کہ اپنی جان لے لو تو وہ فدائی اپنے آپ کو مار دینے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتا اور وہ فوراً خنجر اپنے سینے میں اتار لیتا ہے حمیرا نے سوچا دیکھوں تو سہی کہ وہ انسان کیسا ہے
جابر اسے سیدھا حسن بن صباح کے پاس نہ لے گیا بلکہ اسے ایک جگہ چھوڑ کر پہلے خود حسن بن صباح کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ اس لڑکی کو لایا ہے جس کے بھائی نے انہیں قستان جیسا اہم قلعہ دلایا ہے حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ یہ قلعہ بند شہر کس طرح اس کے قبضے میں آیا ہے جابر نے حسن بن صباح کو پوری تفصیل سنائی
تم اب چاہتے کیا ہو ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یا شیخ الجبل! جابر نے کہا میں اس لڑکی کو کچھ انعام دینے کی درخواست کرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میں اسے خود تیار کروں اس پر تشدد نہ ہو یا اسے حشیش نہ پلائی جائے اور اسے دھوکے میں بھی نہ رکھا جائے اگر میں اسے بقائمی ہوش و حواس تیار کرلوں تو یہ لڑکی پہاڑوں کو آپ کے قدموں میں جھکا دے گی
میرا خیال ہے کہ تم خود انعام لینا چاہتے ہو حسن بن صباح نے کہا ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی سے بڑھ کر اور انعام کیا ہوسکتا ہے کیا تم انعام کے طور پر اس لڑکی کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو؟
یا شیخ الجبل! جابر نے سر جھکا کر کہا جس روز میرے دل میں یہ آئی کہ میں اپنے امام کو دھوکہ دوں اس روز میں اپنے خنجر سے اپنے آپ کو ختم کر لوں گا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لایا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ آپ کے پاس تھوڑی سی دیر بیٹھی تو اس کا اکھڑ پن ختم ہو جائے گا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس لڑکی کے دل میں آپ کی اور ہم سب کی نفرت بھری ہوئی ہے میں یہ بھی عرض کر دیتا ہوں کہ اس کے دل میں میری محبت موجزن ہے آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں
حسن بن صباح کے اشارے پر جابر اٹھا اور باہر جاکر حمیرا کو اپنے ساتھ لے آیا حمیرا حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئی حسن بن صباح کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اس شخص کی آنکھیں بھی مسکرا رہی ہوں ان مسکراتی آنکھوں نے حمیرا کو جیسے جکڑ لیا ہو اور حمیرا کی آنکھوں میں پلک جھپکنے کی بھی سکت نہ رہی ہو حمیرا نے محسوس کیا کہ جیسے حسن بن صباح کی آنکھوں سے غیر مرائی اور بڑے پیارے رنگوں والی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں اور شعاعیں حمیرا کی آنکھوں کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہو رہی ہوں حمیرا اپنی ذات میں تبدیلی سی محسوس کرنے لگی اس کے اندر ایسا احساس بیدار ہونے لگا جیسے حسن بن صباح اتنا قابل نفرت نہیں ہے جتنا وہ سمجھتی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے یہ پراسرار طاقت بڑی محنت سے اور استادوں کے قدموں میں سجدے کر کر کے حاصل کی ہے
ایک بات بتاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا تمہارے دل میں کسی کی محبت تو ضرور ہوگی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے دل میں اللہ کی محبت ہے
اس کے بعد کون ؟
اللہ کے آخری رسول حمیرا نے جواب دیا
اس کے بعد ؟
اپنے بھائی منور الدولہ کی محبت میرے دل میں رچی بسی ہوئی ہے حمیرا نے جواب دیا
اور اس کے بعد ؟
حمیرا نے جابر کی طرف دیکھا اور زبان سے کچھ بھی نہ کہا
ایک بات بتا لڑکی! حسن بن صباح نے کہا جس دل میں محبت کا سمندر موجزن ہے اس میں نفرت کہاں سے آگئی؟
حمیرا نے چونک کر حسن بن صباح کی طرف دیکھا لیکن کچھ بھی نہ کہہ سکی
جاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے کہا تم قدرت کے حسن کا شاہکار ہو تم پھول ہو جو خوشبو دیا کرتے ہیں اپنے پھول جیسے حسن میں نفرت کی بدبو نہ بھرو جاؤ جابر کے ساتھ رہو جب تمہارے دل سے نفرت نکل جائے گی اور ضرور نکلے گی پھر تمہارا دل تمہیں کہے گا کہ چلو اسی شخص کے پاس پھر تم خود میرے پاس آؤں گی
حمیرا آنکھیں حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہ کر سکی اسے اٹھنا تھا لیکن نہ اٹھی اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی تھی اور وہ اپنی ذات میں کوئی ایسا تاثر محسوس کر رہی تھی جیسے وہ یہاں سے اٹھنا نہیں چاہتی اگر جابر اس کا بازو پکڑ کر نہ اٹھاتا تو وہ وہیں بیٹھی رہتی جابر حمیرا کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آیا
جابر کے دوست کے گھر پہنچنے تک حمیرا نے کوئی بات نہ کی وہ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی محسوس کر رہی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی وہ انسان اور ابلیس کے اس پہلو سے ناواقف تھی کہ جب کوئی انسان اپنے اپنے ابلیسی اوصاف پیدا کرلیتا ہے تو اس میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ خام کردار والے لوگ اس کی طرف کھینچے ہوئے چلے جاتے ہیں اگر وہ بدصورت ہو تو بھی دیکھنے والوں کو خوبصورت لگتا ہے اس کی زبان میں ایسا طلسماتی تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جب بات کرتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں اس کا ایک ایک لفظ اترتا چلا جاتا ہے یہ تو اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو انسان میرے راستے سے ہٹ کر ابلیس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اس پر میں ایک ابلیس مسلط کر دیتا ہوں
حمیرا اس لیے بھی حسن بن صباح سے اچھا تاثر لے کر آئی تھی کہ وہ تو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا اس کے پیروکار اسے نبی بھی مانتے تھے وہ جسے چاہتا ایک اشارے پر قتل کروا دیا کرتا تھا یہ شخص کہہ سکتا تھا جابر تم جاؤ اور اس لڑکی کو میرے پاس رہنے دو لیکن حسن بن صباح نے جیسے حمیرا کے حسن و جوانی کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی اس لحاظ سے وہ جابر کے کردار کی بھی قائل ہوگئی تھی اتنے دن اور اتنی راتیں جابر کے ساتھ رہ کر اس نے دیکھا کہ جابر نے کبھی اس سے پیار اور محبت کی باتوں کے سوا کوئی بے ہودہ بات یا حرکت نہیں کی تھی
حمیرا کو اپنا بھائی ماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آتے تھے اسے اپنے بھائی کی بیوی اور اس کے بچے بھی یاد آتے تھے لیکن وہ گھر سے کبھی واپس نہ جانے کے لیے نکلی تھی وہ اس کوشش میں لگی رہتی تھی کہ ان سب کو دل سے اتار دے ایک دو دنوں بعد جابر نے حمیرا سے کہا آؤ تمہیں یہاں کا قدرتی حسن دکھاؤں تم کہے اٹھو گی کے اگلے جہان کی جنت اس سے خوبصورت کیا ہوگی وہ دونوں شہر سے باہر نکل گئے قلعہ اور یہ شہر پہاڑی کے اوپر تھے دور جا کر وہ اس پہاڑی سے اترے آگے دریا تھا دریا اور پہاڑی کے درمیان ذرا کشادہ میدان تھا جس میں بڑے خوبصورت اور دلنشین پودے تھے درخت تھے اور گھاس تھی حمیرا کو یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی اس کے دل پر جو بوجھ سا اور گرفت سی رہتی تھی وہ کم ہونے لگی اس نے محسوس کیا جیسے وہ یہاں سے واپس نہیں جاسکے گی جابر اسے دریا کے کنارے لے گیا یہ کنارہ بہت ہی اونچا تھا دریا بہت نیچے بہتا چلا جا رہا تھا وہاں دریا کا پاٹ تنگ تھا سامنے والا کنارہ بھی اونچا تھا وہاں سے دریا مڑتا بھی تھا اس لئے وہاں پانی کا جوش بڑا ہی زیادہ تھا اور بھنور بھی پیدا ہو رہا تھا یہ دراصل پہاڑی تھی جسے کاٹ کر دریا گزر رہا تھا جابر اور حمیرا کنارے پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے
یہاں سے دریا میں کوئی گر پڑے تو کیا وہ بچ کے نکل آئے گا؟
حمیرا نے پوچھا
ناممکن جابر نے جواب دیا کوئی تیراک بھی نہیں نکل سکے گا کیونکہ پاٹ تنگ ہے اور پانی زیادہ اور تیز بھی ہے اور دریا یہاں سے مڑتا بھی ہے یہ دریا یہاں سے کھڑے ہوکر دیکھو تو ہی اچھا لگتا ہے
اپنے امام کے پاس پھر کبھی لے چلو گے؟
حمیرا نے پوچھا
کیا تم اس کے پاس جانا چاہو گی؟
جابر نے مسکراتے ہوئے پوچھا
میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے حمیرا نے کہا اور پھر آہ بھر کر بولی اپنے بھائی کو ماں کو اور بھائی کے بچوں کو دل سے اتارنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں
میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں جابر نے کہا اور کچھ توقف کے بعد بولا تم ان سب کو بھول ہی جاؤں تو بہتر ہے تمہارا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا
کیا کہا حمیرا نے تڑپ کر پوچھا وہ اس دنیا میں نہیں رہا؟ کیا ہوا اسے؟
اسے قتل کر دیا گیا تھا جابر نے کہا اس کے بیوی بچوں کا اور تمہاری ماں اور بہن بھائیوں کا بھی یہی انجام ہوا
میرے بھائی کو کس نے قتل کیا تھا؟
میرے ساتھیوں نے جابر نے جواب دیا تمہارے ساتھیوں نے حمیرا نے چلا کر کہا اور جابر پر جھپٹ پڑی
اس وقت جابر دریا کے کنارے پر کھڑا تھا حمیرا نے اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پوری طاقت سے دھکا دیا پیچھے ہٹنے کو جگہ تھی ہی نہیں پیچھے دریا تھا جابر اتنے اونچے کنارے سے گرا اس کی چیخیں سنائی دیں اور جب وہ دریا میں گرا تو اس کی چیخیں گرنے کی آواز میں دب گئی حمیرا نے اوپر سے دیکھا جابر ہاتھ مار رہا تھا دریا اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا لیکن موڑ پر بھنور تھا جابر اس بھنور میں آگیا اور ایک ہی جگہ لٹو کی طرح گھومنے لگا حمیرا نے دائیں بائیں دیکھا ایک بڑا ہی وزنی پتھر پڑا تھا حمیرا نے پتھر اٹھایا جو اس سے ذرا مشکل سے ہی اٹھا جابر اس کے بالکل نیچے پھنسا ہوا تھا حمیرا نے اوپر سے پتھر پھینکا جو جابر کے سر پر گرا اس کے بعد جابر پانی سے ابھر نہ سکا
جابر ڈوب گیا تو حمیرا نے توجہ اپنی طرف کی اس حقیقت نے اس کے دل کو مٹھی میں لے لیا کہ وہ اکیلی رہ گئی ہے اب وہ واپس جابر کے دوست کے پاس نہیں جا سکتی تھی اسے اب وہاں سے فرار ہونا تھا اس کی خوش نصیبی تھی کہ سورج غروب ہو رہا تھا وہ آگے کو چل پڑی اس نے رو رو کر اللہ کو یاد کیا اور تیز ہی تیز چلتی گئی اور جب سورج غروب ہوگیا تو وہ گھنے جنگل میں پہنچ چکی تھی
وہ اس خیال سے دوڑ پڑی کے رات ہی رات وہ اتنی دور نکل جائے کہ کوئی اس کے تعاقب میں نہ آ سکے رات تاریک ہوتی چلی گئی حمیرا کو راستے کا کچھ اندازہ تھا وہ اس راستے پر ہو لی
الموت کا قلعہ اور شہر اندھیرے میں چھپ گئے تھے حمیرا نے اللہ کا نام لے کر اپنے حوصلے مضبوط کرنے کی کوشش شروع کر دی وہ چلتی چلی گئی رات کی تاریکی اسے دنیا سے چھپائے ہوئے تھی وہ بہت دور نکل گئی اور اسے یوں سنائی دیا جیسے کوئی گھوڑا آ رہا ہو وہ راستے سے ذرا ہٹ کر ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئی اندھیرے میں ذرا ذرا نظر کام کرتی تھی
گھوڑا قریب آ گیا اس پر ایک آدمی سوار تھا حمیرا ڈرپوک لڑکی نہیں تھی اس کے دماغ نے ایک ترکیب سوچ لی جونہی گھوڑا قریب آیا حمیرا تیزی سے گھوڑے کے راستے میں جا کھڑی ہوئی اس نے بازو پھیلا دیے اور بڑی زور سے چیخیں مارنے لگیں یہ چیخیں اس طرح کی نہیں تھی جو خوف یا تکلیف کی حالت میں منہ سے نکلا کرتی ہیں حمیرا نے چڑیلوں کے قصے سنے تھے وہ چڑیلوں کی طرح چیخ رہی تھی اور بڑی بھدی سی آواز میں بولی مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل نہیں تو کلیجہ نکال لوں گی
لوگ چوڑائلوں کے وجود کو مانتے تھے سوار اسے چوڑیل نہ سمجھتا تو اور کیا سمجھتا رات کو اس ویرانے میں کوئی عورت اور وہ بھی اکیلی جا ہی نہیں سکتی تھی حمیرا ایسے خوفناک طریقے سے چیخیں تھیں کہ گھوڑا بھی بدک گیا تھا سوار کود کر گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے آگے گھٹنے زمین پر ٹیک کر ہاتھ جوڑ دیئے وہ بری طرح کانپ رہا تھا وہ چڑیل سے اپنی جان کی بخشش مانگ رہا تھا حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:32 }
حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا
ایسے شدید اور تیزوتند بھنور میں آیا ہوا جابر بن حاجب اس میں سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا وہ اس میں سے نکل نہیں سکتا تھا لیکن حمیرا نے اوپر سے اس کے سر پر بڑا وزنی پتھر گرایا تو وہ پانی کے نیچے چلا گیا اور بے ہوش ہوگیا سر پر اتنا وزنی پتھر گرنے سے وہ بڑی جلدی مر گیا ہوگا حمیرا وہاں سے بھاگ گئی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ پیچھے کیا ہوا ہے
جابر جب دریا کے نیچے سے ابھرا تو بھنور نے اسے دور پھینک دیا یا اگل دیا وہ مر چکا تھا وہاں سے کوئی ایک میل آگے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو جاتا تھا وہاں کنارے پر پکی گھاٹ بنی ہوئی تھی دریا میں تیراک کے شوقین آیا کرتے تھے اور نہایا کرتے تھے سورج غروب ہورہا تھا اس لئے وہاں چار پانچ ہی آدمی تھے جو گھاٹ سے دریا میں کود کود کر ہنس کھیل رہے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے ان میں سے ایک نے ڈبکی لگائی اور جب وہ پانی میں سے ابھرا تو اس کا سر ایک انسانی جسم کے ساتھ ٹکرایا جسے وہ اپنے کسی ساتھی کا جسم سمجھا اس نے پھر ڈبکی لگائی اور ذرا ایک طرف ہو کر پانی سے ابھرا تب اس کے کانوں میں اپنے ساتھیوں کی آواز سنائی دی لاش ہے ڈوب کر مرا ہوگا اسے پکڑو اور باہر گھسیٹ لو اس فدائی نے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا سر اسی لاش کے ساتھ ٹکرایا تھا
یہ تو جابر بن حاجب ہے ایک فدائی نے لاش کو پہچانتے ہوئے کہا یہ کیسے ڈوب گیا ہے؟
ان میں سے دو فدائین جابر کو اچھی طرح جانتے تھے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جابر ایک نئی لڑکی کو ساتھ لایا تھا اور حسن بن صباح نے اس کی درخواست پر اسے اجازت دے دی تھی کہ وہ تھوڑا عرصہ اس لڑکی کو اپنے پاس رکھے اور خود اسے اصل کام کے لئے تیار کرے
یہ فدائین اپنا شغل میلہ بھول گئے اور وہ جابر کی لاش اٹھا کر قلعے میں لے گئے
شیخ الجبل کو اطلاع کر دینی چاہیے ایک نے کہا
لاش وہیں اٹھا لے چلو دوسرے نے کہا
وہ لاش اٹھا کر حسن بن صباح کی رہائش گاہ میں لے گئے اور لاش برآمدے میں رکھ کر اندر اطلاع بھجوائی حسن بن صباح جسے لوگ امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی خود باہر آ گیا اور اس نے جابر کی لاش دیکھی
یہ ایک لڑکی کو ساتھ لایا تھا حسن بن صباح نے کہا یہ جہاں رہتا تھا وہاں جاؤ اور اس لڑکی کو ساتھ لے آؤ
ایک فدائن دوڑا گیا اور کچھ دیر بعد دوڑا ہوا ہی آیا اور اس نے بتایا کہ لڑکی وہاں نہیں ہے
وہ بھی اس کے ساتھ ڈوب گئی ہوگی حسن بن صباح نے کہا اس کی لاش دریا کے تیز بہاؤ میں چلی گئی ہوگی
جابر کی لاش دریا کے کنارے کنارے بہی جارہی تھی جہاں پانی کا بہاؤ تیز نہیں تھا یہ تو کسی کے ذہن میں آئی ہی نہیں اور آسکتی بھی نہیں تھی کہ حمیرا نے جابر کو اونچے کنارے سے دھکا دے کر دریا میں پھینکا تھا رات گہری ہو گئی تھی اس لیے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ حمیرا کہاں غائب ہوگئی ہے یا یہی یقین کر لیا جاتا کہ وہ بھی ڈوب کر مر گئی ہے
اسے لے جاؤ ۔حسن بن صباح نے کہا اس کے کفن دفن کا انتظام کرو اور منادی کرادو کے اس کا جنازہ کل دوپہر کے وقت ہوگا اور جنازہ میں پڑاٶ ہوگا لڑکی کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی جائے
صبح قلعہ الموت میں یہ منادی کرادی گئی کہ جابر بن حاجب دریا میں ڈوب کر مر گیا ہے اور اس کا جنازہ دوپہر کے وقت اٹھے گا
جابر کو جاننے والے اور اس کے دوست دوڑے آئے اور جابر کا آخری دیدار کیا لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور خاصہ ہجوم ہوگیا لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ایک سوال ہر کسی کی زبان پر تھا کہ جابر ڈوبا کیسے؟
میں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ دریا کی طرف جاتے دیکھا تھا ایک فدائین نے کہا میں اس وقت قلعے کی دیوار پر ویسے ہی ٹہل رہا تھا دونوں قلعے کی پہاڑی سے اتر کر خاصی دور چلے گئے تھے پھر میں نے دونوں کو دریا کے اس کنارے کی طرف جاتے دیکھا جو بہت اونچا ہے وہاں ایک ٹیکری ہے جس نے ان دونوں کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا تھا میں ادھر ہی دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد میں نے لڑکی کو وہاں سے واپس آتے دیکھا وہ سامنے آئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی پھر ایک طرف کو دوڑ پڑی اب جابر اس کے ساتھ نہیں تھا میں نے جابر کو وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا تھا لڑکی وہاں سے غائب ہوگئی تھی میں بہت دیر وہاں کھڑا رہا مجھے جابر نظر نہ آیا پھر سورج غروب ہوگیا اور میں نے دوسری طرف دیکھا جدھر گھاٹ ہے لیکن میری نظروں کو ان چٹانوں نے روک لیا تھا جو وہاں سے دور آگے تک دریا کے کنارے کھڑی ہے
پھر لوگوں میں ایک اور خبر پھیل گی جو یوں تھی کہ آج الصبح ایک آدمی سرائے میں آیا اور اس نے بتایا ہے کہ راستے میں گزشتہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اور اسے گھوڑے سے اتار کر اس پر خود سوار ہوئی اور گھوڑا لے کر غائب ہو گئی
یہ خبر حسن بن صباح کے اس گروہ کے ایک دو آدمیوں تک پہنچی جو جاسوسی اور نگرانی میں خصوصی مہارت رکھتے تھے انھوں نے اس آدمی کو ڈھونڈ نکالا اور اس سے پوچھا کہ وہ چڑیل کیسی تھی اور کس روپ میں اس کے سامنے آئی تھی
چاندنی دھوپ جیسی شفاف تھی اس شخص نے کہا چڑیل بڑی ہی حسین اور نوجوان لڑکی کے روپ میں تھی وہ اچانک میرے سامنے میرے راستے میں نمودار ہوئی اور اس قدر زور سے اس نے چیخ ماری کے میرا گھوڑا بدک گیا میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ میرا دل اس کی مٹھی میں آ گیا ہے اس نے کہا اے مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل ،نہیں تو کلیجہ نکال لونگی میں ڈرتا کانپتا گھوڑے سے اترا اور اس کے قریب جا کر گھٹنوں کے بل ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگی اس نے اور کچھ بھی نہ کہا میرے گھوڑے کی طرف گئی اور پلک جھپکتے گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو پیچھے موڑا اور گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑا میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گھوڑا گیا ہے میری جان ہی نہیں چلی گئی میں الموت کی طرف دوڑ پڑا صبح یہاں پہنچا اور سرائے میں ٹھہرا وہاں جو چند آدمی تھے انہیں یہ بات سنائی
اس سے پوچھا گیا کہ لڑکی چڑیل نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے تھے اور اس کے چہرے کے نقش ونگار کیسے تھے اس نے حمیرا کے کپڑوں کا رنگ بناوٹ وغیرہ اور چہرے کا حلیہ بتایا
حسن بن صباح جب جنازے کے لئے آیا تو اس کے جاسوسوں نے اسے بتایا کہ انہیں کیا کیا سراغ ملے ہیں ایک تو اس آدمی کو حسن بن صباح کے سامنے لایا گیا جس نے جابر اور حمیرا کو دریا کے اونچے کنارے کی طرف جاتے دیکھا تھا پھر اس آدمی کو حسن بن صباح کے آگے کھڑا کیا گیا جس نے کہا تھا کہ رات ایک چڑیل اس سے گوڑا چھین کر لے گئی ہے
حسن بن صباح نے دونوں کے بیان سن کر ان پر جرح کی اور اس کا دو رس دماغ اس یقین پر پہنچ گیا کہ لڑکی اس کے فدائین جابر بن حاجب کو دریا میں ڈبو کر بھاگ گئی ہے اگر جابر خود ہی پھسل کر گر پڑا ہوتا تو حمیرا بھاگ نہ جاتی بلکہ وہیں شورشرابہ کرتی کہ کوئی مدد کو پہنچ جائے یا واپس قلعے میں آجاتی
دو آدمی ابھی قستان چلے جائیں حسن بن صباح نے حکم دیا وہ وہیں ہوگی یہ لڑکی مل گئی تو اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی ہمیں ایسی ہی لڑکیوں کی ضرورت ہے اسے ہر جگہ اور ہر طرف تلاش کیا جائے ہوسکتا ہے وہ مرو یا رے چلی گئی ہو
حسن بن صباح کے حکم کے مطابق اسی وقت آدمی روانہ ہوگۓ
جس وقت وہ آدمی قلعہ الموت کی ایک سرائے میں اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا کہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اس وقت حمیرا چند گھروں کی ایک بستی میں جا پہنچی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بستی کے اندر جاؤں یا آگے نکل جاؤں ابھی پو پھٹ رہی تھی صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا رات نے اسے اس طرح چھپائے رکھا تھا جس طرح ماں اپنے بچے کو آغوش میں چھپا لیا کرتی ہے اسے ذرا سا بھی خوف نہیں محسوس ہوا تھا وہ فاتحانہ مسرت سے سرشار تھی کہ شیطانوں کے چنگل سے نکل آئی تھی اسے جب اپنا بھائی منور الدولہ یاد آتا تو اس کا دل بیٹھ جاتا اور آنسو جاری ہوجاتے تھے ایسے میں اس کے وجود میں انتقام کے شعلے بھڑک اٹھے تھے الموت سے بچ کر نکل آنے کی خوشی اس کے غمگین دل کو سہلا دیتی تھی وہ اسی رنگ بدلتی کیفیت میں گھوڑے پر سوار سفر طے کرتی گئی لیکن رات نے اپنے پردے سمیٹے اور رخصت ہو گئی
صبح کی پہلی دھندلی دھندلی کرنیں نمودار ہوئیں تو حمیرا کا دل یکلخت ایک خوف کی گرفت میں آگیا وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی ڈرنے والی یا خطرے والی بات نہیں تھی خطرہ یہ تھا کہ وہ نوجوان تھی اور بہت ہی حسین اور نظروں کو گرفتار کر لینے والی لڑکی تھی کوئی بھی اسے دیکھ لیتا تو کبھی نظرانداز نہ کرتا وہ اس ویران علاقے میں تھی جہاں ابلیس کا قانون چلتا تھا اسے اپنے سامنے چند گھروں کی ایک بستی نظر آرہی تھی
اس نے گھوڑے کی رفتار کم اور سوچنے کی رفتار تیز کر دی اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ روکے یا آگے نکل جائے لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ اس نے یہ بھی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ جائے کہاں اسے جابر نے بتایا تھا کہ اس کا بھائی مارا جاچکا ہے اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں شاید وہ بھی قتل کردیئے گئے تھے یہ تو حمیرا کو معلوم تھا کہ قستان میں اب اس کا کوئی نہیں رہا اور وہاں اب ان باطنیوں کا قبضہ ہے
وہ تذبذب کے عالم میں آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور بستی کے قریب روک گی یہ چند ایک مکان تھے جو معمولی سے لوگوں کے معلوم ہوتے تھے ایک مکان باقی سب سے بہت مختلف تھا وہ کسی امیر آدمی کا مکان معلوم ہوتا تھا اس کا دروازہ بڑا خوبصورت اور اونچا تھا حمیرا اس دروازے سے پندرہ بیس قدم دور گھوڑے روکے کھڑی تھی
دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک سفید ریش بزرگ باہر آیا اس نے لمبا سفید چغہ پہنے رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک چلا گیا تھا اس کے سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی اور ہاتھ میں لوٹے کی شکل کا ایک برتن تھا جس میں سے دھواں نکل رہا تھا اس نے حمیرا کو دیکھا تو آہستہ آہستہ چلتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا اس بزرگ کی داڑھی دودھ جیسی سفید تھی اور اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر نورانی سے رونق تھی وہ حمیرا کے سامنے کھڑا اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا حمیرا نے اپنا چہرہ اس طرح چھپا لیا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں اپنا چہرہ اس نے اس خیال سے ڈھانپ لیا تھا کہ کوئی اس کی عمر کا اندازہ نہ کرسکے اور کوئی یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے
آؤ خاتون! بزرگ نے کہا مسافر ہو تو روکو اور ذرا سستالو راستہ بھول گئی ہو تو اپنی منزل بتاؤ کوئی اور مشکل آن پڑی ہے تو زبان پر لاؤ یہ ہمارا مندر ہے جہاں ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے
آپ اپنے مندر کے راہب ہیں؟
حمیرا نے کہا لیکن میں کیسے یقین کرلوں کہ میں آپ کے مندر میں محفوظ رہوں گی
سفید ریش راہب نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا دھونی دان آگے کیا اور اسے ذرا سا ایک دائرے میں گھومایا اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں حمیرا کے گھوڑے کے منہ کو چھونے لگا پھر یہ دھواں حمیرا تک پہنچا حمیرا نے بڑی پیاری خوشبو سونگھی
تم شاید مسلمان ہو؟
راہب نے کہا آؤ ہمارے مندر میں تم وہیں روحانی سکون پاؤ گی جو تم اپنے خدا کے حضور جھک کر پایا کرتی ہو گھوڑے سے اترو اور مجھے امتحان میں نہ ڈالو
صرف ایک بات بتا دو مقدس راہب! حمیرا نے کہا کیا انسان اندر سے بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا وہ چہرے سے نظر آتا ہے میرا تجربہ کچھ اور ہے
راہب نے کوئی جواب نہ دیا وہ آگے بڑھا اور گھوڑے کے پہلو میں رک کر اپنا ایک ہاتھ حمیرا کی طرف بڑھایا کہ وہ اس کا ہاتھ تھام کر گھوڑے سے اتر آئے حمیرا اس کی خاموشی سے کچھ ایسی متاثر ہوئی کہ وہ راہب کا ہاتھ تھامے بغیر گھوڑے سے اتر آئ راہب نے اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا
میرا گھوڑا ایسی جگہ باندھیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے حمیرا نے کہا وہ میرے تعاقب میں آرہے ہونگے
کون؟
باطنی! حمیرا نے جواب دیا تعاقب سے یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی جرم کرکے بھاگی ہوں میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی متاع لے کر ان ظالموں سے نکلی اور یہاں تک پہنچی ہوں میری متاع میری عصمت ہے اور میرا دینی عقیدہ
اتنے میں ایک اور آدمی مندر سے باہر آیا راہب نے اسے کہا کہ وہ گھوڑے لے جائے اور ایسی جگہ باندھے جہاں کسی کو نظر نہ آ سکے راہب حمیرا کو مندر میں لے گیا اور دائیں کو مڑا ایک دروازہ کھلا یہ ایک کمرہ تھا جو عبادت گاہ نہیں تھی بلکہ رہائشی کمرہ تھا راہب نے حمیرا کو پلنگ پر بٹھا دیا اور پوچھا کہ وہ کچھ کھانا پینا چاہتی ہو گی
میں بھوکی نہیں ہوں حمیرا نے کہا اور میں پیاسی بھی نہیں گھوڑے کے ساتھ پانی بھی تھا اور ایک تھیلی میں کھانے کا سامان بھی تھا تھوڑی ہی دیر پہلے میں نے پیٹ بھر لیا تھا
حمیرا نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا راہب نے اس کا چہرہ دیکھا تو یوں چونک پڑا جیسے حمیرا نے اسے قتل کرنے کے لئے خنجر نکال لیا ہو راہب کچھ دیر حمیرا کے چہرے کو دیکھتا ہی رہا
تم یقین کرنا چاہتی ہوں کہ یہاں محفوظ رہوں گی یا نہیں راہب نے کہا لیکن اب میں شک میں پڑ گیا ہو کہ میری ذات اور یہ مندر تم سے محفوظ رہے گا یا نہیں
کیا میرے چہرے پر بدی کا کوئی تاثر نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
باطنیوں کے امام شیخ الجبل حسن بن صباح کے پاس تم جیسی بے شمار لڑکیاں موجود ہیں راہب نے کہا میں ان میں سے آج پہلی لڑکی دیکھ رہا ہوں میں نے سنا ہے کہ ان باطنیوں کا امام کسی کو اپنے جال میں پھانسنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ تم جیسی لڑکی کو بھیجتا ہے اور وہ لڑکی تمہاری طرح مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی کوئی کہانی سناتی ہے
حمیرا اسے بڑی غور سے دیکھ رہی تھی
مقدس راہب! حمیرا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا مجھے ایسی ہی لڑکی بنانے کے لیے دھوکے سے اپنے قلعہ الموت لے جایا گیا تھا لیکن میں آپ کو سناؤں گی کہ میں وہاں سے کس طرح نکل بھاگی پہلے میں آپ کو یہ بتا دو کہ میں قستان کے رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں امیر قستان کو باطنیوں نے قتل کردیا اور میرے بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا ہے
ہاں میں سن چکا ہوں راہب نے کہا قستان پر باطنی قابض ہو چکے ہیں اور منور الدولہ ان کے ہاتھوں دھوکے سے قتل ہوا ہے وہاں کا امیر شہر بڑا ہیں بدطینت انسان تھا اب تم سناؤ تم پر کیا بیتی ہے
حمیرا نے اسے سارا واقعہ کہہ سنایا یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے شخص سے محبت کر بیٹھی تھی جو درپردہ باطنی تھا ورنہ وہ کبھی الموت تک نہ پہنچتی اس نے یہ بھی سنایا کہ اس شخص کو اس نے کس طرح دریا میں پھینکا اور خود بھاگ آئی اور پھر یہ گھوڑا اسے کس طرح ملا
اس دوران مندر کا ایک آدمی ان کے آگے ناشتہ رکھ گیا تھا
تم اب یقیناً قستان جانے کی نہیں سوچو گی راہب نے کہا قستان کو اب دل سے اتار دو
پھر میں کہاں جاؤں؟
حمیرا نے پوچھا
سلجوقی سلطان کے پاس راہب نے جواب دیا وہی ایک ٹھکانہ ہے جہاں تم جاسکتی ہو اور جہاں تمہیں پناہ مل سکتی ہے مرو یا رے یہ نہیں بتا سکتا کہ نیا سلجوقی سلطان کیسا آدمی ہے وہ جو نیک آدمی تھا اور جس نے باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا عزم کر رکھا تھا وہ مر چکا ہے اس کا نام سلطان ملک شاہ تھا اب اس کا بیٹا برکیارق سلطان ہے بہتر یہ ہوگا کہ تم رے چلی جاؤ وہاں کا حاکم ابومسلم رازی بڑا ہی نیک بزرگ اور عالم دین ہے اس کے پاس چلی جاؤں تو نہ صرف یہ کہ محفوظ رہوں گی بلکہ وہ تمہیں اسی حیثیت سے اپنے پاس رکھے گا جو تمہیں قستان میں حاصل تھی
کیا میں وہاں تک اکیلی جاؤنگی ؟
حمیرا نے پوچھا اور کہا اگر اکیلی جانا ہے تو پھر مجھے رات کو سفر کرنا چاہیے
تم اس وقت میری نگاہ میں اس مندر کی طرح مقدس ہو میں تمہیں اکیلا بھیج کر اپنے دیوتاؤں کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کر سکتا میرے دو آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے اور تمہیں کسی اور بھیس میں بھیجا جائے گا
حمیرا نے ایسا سکون محسوس کیا جیسے اس پر کسی نے پہاڑ جیسا بوجھ ڈال دیا تھا اور یہ بوجھ یکلخت ہٹا دیا گیا ہو
مقدس راہب! حمیرا نے پوچھا میرا مستقبل کیا ہوگا کیا وہ اجنبی لوگ مجھے کسی اور دھوکے میں نہیں ڈال دیں گے
تم کون ہو؟
کچھ بھی نہیں راہب نے کہا میں کیا ہوں؟
کچھ بھی نہیں تم یہ پوچھو کہ اسلام کا مستقبل کیا ہوگا اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے مذہب کا مستقبل کیا ہوگا تمہیں اور مجھے اس اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خدا نے جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے ہم پورا کررہے ہیں یا نہیں وہ مقصد کیا ہے؟
بنی نوع انسان کی محبت
اسلام کا مستقبل آپ کو کیا نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
کچھ اچھا نظر نہیں آتا راہب نے جواب دیا اس وقت سب سے بڑا مذہب اسلام ہے لیکن اسکی جو بڑائی ہے وہ چھوٹی ہوتی جارہی ہے باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئےہیں جھوٹ موٹ کا یہ عقیدہ بڑی ہی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے حسن بن صباح نے ابلیسیت کو جائز قرار دے کر رائج کردیا ہے انسان لذت پرستی کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے عورت اور شراب میں اسے جو لذت ملتی ہے وہ خدا پرستی میں نہیں مل سکتی تم نے مستقبل کی بات کی ہے ایک وقت آئے گا کہ حسن بن صباح دنیا میں نہیں ہوگا اور اس کا عقیدہ آہستہ آہستہ مٹ جائے گا لیکن لوگ عیش و عشرت کو نہیں مٹنے دیں گے حسن بن صباح تو کسی نہ کسی روپ میں زندہ رہے گا لذت پرستی ہر مسلمان کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا اور ایک وقت آئے گا کہ وہ مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے،ان میں وہ طاقت نہیں رہے گی جو ہوا کرتی تھی
مجھے آپ کس وقت یہاں سے روانہ کریں گے؟
حمیرا نے پوچھا
سورج غروب ہونے کے بعد راہب نے جواب دیا
سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برکیارق کی ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا ماں کے آنسو بہہ رہے تھے
کیا اپنے بیٹے برکیارق پر آپ کا کچھ اثر نہیں رہا ؟
عبدالرحمن سمیری نے پوچھا
تم اثر کی بات کرتے ہو برکیارق کی ماں نے جواب دیا وہ تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ میں اس کی ماں ہوں کئی دنوں سے میں نے اس کی صورت بھی نہیں دیکھی البتہ اس کی ملکہ روزینہ کبھی نظر آجاتی ہے تو وہ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتی اگر کوئی بات کرتی بھی ہے تو وہ حکم کے لہجے میں کرتی ہے اپنے بھائیوں کے ساتھ برکیارق کا سلوک اور برتاؤ دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے میں ڈرتی ہوں کہ بھائی کہیں آپس میں نہ ٹکرا جائیں
میں آپ کے ساتھ یہی بات کرنے آیا ہوں عبدالرحمن سمیری نے کہا سلطان برکیارق کاروبار سلطنت میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان ملک شاہ مرحوم کے دور حکومت نے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا فوج برکیارق سے بیزار ہوتی جا رہی ہے ادھر باطنی پھیلتے اور غالب آتے چلے جارہے ہیں اگر ہم نے فوج میں بے زاری اور مایوسی پیدا کردی تو سلجوقی سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے
کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟
ماں نے پوچھا
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے جواب دیا بات کہاں کروں وہ تو باہر نکلتے ہی نہیں
تم یہیں بیٹھو ماں نے اٹھتے ہوئے کہا میں اسے باہر نکالتی ہوں میں آخر ماں ہوں
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے اٹھ کر برکیاروق کی ماں کو روکتے ہوئے کہا آپ اس کے پاس نہ جائیں وہ بدتمیزی پر اتر سکتا ہے اگر اس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا کر گزروں گا
برکیارق کی ماں نے اسکی نہ سنی اور ہاتھ سے اسے ایک طرف کر کے باہر نکل گئی اس نے برکیارق کی خواب گاہ کے بند دروازے پر دستک دی دروازہ کھلا اور روزینہ باہر آئی
کیا بات ہے؟
روزینہ نے پوچھا
ماں نے اسے کوئی جواب دینے کی بجائے کواڑ دھکیل کر اندر چلی گئی برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا
کیا ہوگیا ہے ماں ؟
برکیارق نے غنودگی کے عالم میں پوچھا
کیا باہر نکل کر یہ دیکھنا تمہارا کام نہیں کہ کیا ہورہا ہے ماں نے غصیلے لہجے میں کہا کیا باپ کو تم نے اس وقت کبھی اپنی خوابگاہ میں دیکھا تھا تم خارش کے مارے ہوئے کتے کی طرح اس وقت بھی خواب گاہ میں پڑے ہوئے ہو
ان کی طبیعت ٹھیک نہیں روزینہ نے کہا آپ یہاں سے چلی جائیں اور وزیراعظم سے کہیں کہ وہ اپنا کام کرے
میں تم سے مخاطب ہوں برکیارق! ماں نے اپنا لرزتا کانپتا ہاتھ برکیارق کی طرف بڑھا کر کہا سلطان تم ہو تمہاری یہ چہیتی بیگم نہیں تمہارے باپ نے یہ فوج باطنیوں کو ختم کرنے کے لئے تیار کی تھی اور آج تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس فوج کو اس مہینے کی تنخواہ بھی نہیں دی گئی
تو پھر کیا قیامت آگئی ہے برکیارق نے خفگی اور بے رخی سے کہا میں اتنی زیادہ فوج رکھوں گا ہی نہیں میں سالاروں کو بلا کر کہہ رہا ہوں کہ آدھی فوج کو چھٹی دے دیں
پھر اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر تیار ہو جاؤ ماں نے کہا تم فوج کی چھٹی کراؤ اور کچھ ہی دنوں بعد باطنی آ کرتمہارے چھٹی کرا دیں گے ہوش میں آ برکیارق! ہوش میں آ اپنے باپ کی قبر کی یوں توہین نہ کر یاد کر یہ سلطنت کیسی کیسی قربانیاں دے کر قائم کی گئی تھی اپنے آباء اجداد کی روحوں کو یوں اذیت نہ دے یہ جوانی چند دنوں کا میلہ ہے ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا صرف اللہ ہے
آپ انہیں اتنا پریشان تو نہ کریں ماں! روزینہ نے بیزاری کے لہجے میں کہا
تو خاموش رہ لڑکی! ماں نے روزینہ سے کہا اور مجھے ماں نہ کہہ میں اس کی ماں ہوں اور میں ماں ہوں سلطنت کی جو ہمارے بڑے بزرگوں نے اسلام کا پرچم اونچا رکھنے کے لیے بنائی تھی تجھے اس کے ساتھ روحانی دلچسپی ہوتی تو اسے یوں مدہوش کر کے کمرے میں قید نہ رکھتی
اچھا ماں اچھا برکیارق نے اٹھتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ تھکن سے چور تھا تم جاؤ میں تیار ہو کر باہر نکلتا ہوں
میں تمہیں ابھی باہر نکلتا دیکھنا چاہتی ہوں ماں نے کہا ابھی اٹھ
برکیارق آہستہ آہستہ اٹھنے لگا اور ماں کمرے سے نکل آئی روزینہ نے بڑے غصے سے دروازہ بند کرکے زنجیر چڑھا دی اور برکیارق کے پاس گئی
کچھ دیر اور لیٹے رہیں روزینہ نے برکیارق کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے ذرا سا دھکیلا اور لیٹا کر بولی ماں قابل احترام ہی سہی لیکن ماں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ بیٹا کس حال میں ہے ان لوگوں کو آپ کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں آپ کی ماں کو اور دونوں بھائیوں کو صرف سلطنت کا غم کھا رہا ہے معلوم نہیں انہیں یہ خطرہ کیوں نظر آنے لگا ہے کہ ان سے یہ سلطنت چھن جائے گی یہ لوگ بادشاہی چاہتے ہیں
روزینہ ابھی تک شب خوابی کے لباس میں تھی اس کے ریشم جیسے نرم و ملائم بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے وہ بلاشک و شبہ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی لیکن اسکے جو انداز تھے اس میں طلسماتی سا تاثر تھا اور یہ برکیارق کو مدہوش کر دیا کرتے تھے گھروں میں بند بعض بیویاں روزینہ سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں لیکن ان میں چونکہ روزینہ والے ناز و انداز مکاری اور عیاری نہیں ہوتی اس لئے خاوندوں کو وہ اتنی خوبصورت نظر نہیں آتی جتنی کوئی پیشہ ور عورت دل پر غالب آجاتی ہے روزینہ تربیت یافتہ لڑکی تھی اسے ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ مرد کی کون کون سی رگ کمزور ہوتی ہے ایسی لڑکیاں ان رنگوں کو مٹھی میں لے لیتی ہے
روزینہ نے برکیاروق کو لٹا کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں اور اس پر اس طرح جھکی کے اس کے بکھرے ہوئے نرم و گداز بال اس کے چہرے کو چھونے لگے پھر اس نے برکیارق کے عریاں سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور دو تین بار اپنے گال اسکے سینے سے لگائے پھر اسکی ٹانگیں دبانی شروع کر دیں
برکیارق جو ماں کی آواز سے بیدار ہو گیا تھا پھر مدہوش ہوگیا روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلا دیا اس سارے عمل کے دوران وہ بڑے ہی اداس اور پراثر لہجے میں برکیارق کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ مظلوم اور تنہا ہے اور اس کے خاندان کا ہر فرد اسے انسان سمجھتا ہی نہیں روزینہ کا تو خداداد حسن تھا اور پھر اس حسن کو ایک نشے اور ایک طلسم کی طرح استعمال کرنے کا سلیقہ تھا اور اس کے ساتھ برکیارق کو وہ جو مشروب پلا رہی تھی اس کا اثر الگ تھا برکیارق بھول ہی گیا کہ اس کی ماں اس کے کمرے میں آئی تھی اور کچھ کہہ کر چلی گئی تھی
دن کے پچھلے پہر برکیارق اس کمرے میں بیٹھا تھا جہاں وہ وزیراعظم اور دیگر اہلکاروں سے+923054856932 امور سلطنت کی باتیں سنتا اور حکم جاری کیا کرتا تھا وہاں جاتے ہی اس نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو بلا لیا تھا
آپ میرے بزرگ ہیں اور میں آپ کا احترام کرتا ہوں اس نے وزیر اعظم سے کہا آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بات نہ ہو کہ میرے دل میں آپ کا احترام کم ہوجائے فوج کو تنخواہ میری ماں نے نہیں بلکہ میں نے دینی ہے آپ کو یہ بات میرے ساتھ کرنی چاہیے تھی آپ نے میری ماں کو بلاوجہ پریشان کیا اور انہوں نے غصے میں آکر میری بیوی کے سامنے میری بےعزتی کر دی میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ آئندہ آپ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے
میں معافی کا خواستگار ہوں سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا میں دو مرتبہ آپ سے درخواست کر چکا ہوں کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ فوج کو بروقت تنخواہ نہ ملی ہو میں ادائیگی کی اس تاخیر سے ڈرتا ہوں کہ فوج میں ذرا سی بھی مایوسی اور بیزاری پیدا نہیں ہونی چاہئے آپ کو تو معلوم ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم نے یہ فوج کس مقصد کے لیے تیار کی تھی زندگی نے وفا نہ کی اگر وہ زندہ رہتے تو قلعہ الموت پر حملہ کرکے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتے مجھے جاسوس اور مخبر روزبروز اطلاع دے رہے ہیں کہ باطنی عقیدے بڑی تیزی سے پھیلتے چلے جارہے ہیں اور یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ ہمارے شہر میں اور دوسرے شہروں میں بھی باطنی آ کر آباد ہوتے چلے جا رہے ہیں وہ اپنے عقیدے مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں
آپ میرے وہ احکام غالباً بھول گئے ہیں جو میں پہلے دے چکا ہوں سلطان برکیارق نے کہا مرحوم سلطان نے فوج تو تیار کرلی تھی لیکن یہ نہ سوچا کہ اس فوج کو ہم کب تک پالتے رہیں گے محصولات کا زیادہ تر حصہ یہ فوج کھا رہی ہے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں حسن بن صباح کی طرف ایک وفد بھیجوں گا اور اس کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کروں گا وہ میری یہ شرط مان لے گا کہ وہ اپنے علاقے میں محدود رہے اور ہمیں اپنے علاقے میں محدود رہنے دے اس بار تو آپ فوج کو تنخواہ دے دیں لیکن فوج کی آدھی نفری کو سبکدوش کر دیں جو گھوڑے فالتو ہو جائیں وہ فروخت کرکے رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں میں اپنے سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو حکم دے رہا ہوں کہ وہ فوج کی چھانٹی کرکے نصف فوج کو ختم کر دیں
سلطان عالی مقام! وزیراعظم نے کہا آپ کے والد مرحوم نے وفد بھیجا تھا جس کا حسن بن صباح نے مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ تمہارے پاس وہ طاقت نہیں جو میرے پاس ہے اس نے ہمارے وفد کے سامنے اپنے تین آدمیوں کو باری باری حکم دیا تھا کہ اپنے آپ کو قتل کردیں ان آدمیوں نے فوراً اپنے خنجروں سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا تھا حسن بن صباح نے ہمارے وفد سے کہا تھا کہ تمہاری فوج میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو اس طرح اپنی جان قربان کر دے
مجھے وہ باتیں یاد نہ دلائیں سلطان برکیارق نے کہا وہ میرے والد مرحوم کے دور کی باتیں ہیں میں اپنا راستہ خود بنا رہا ہوں میں حکم دے رہا ہوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے
جس وقت سلطان برکیارق آپ نے وزیراعظم کو یہ احکام دے رہا تھا اس وقت اس کی بیوی روزینہ کے پاس ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہوئی تھی اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا یہ عورت روزینہ کی خاص ملازمہ تھی اس عورت کو روزینہ نے قابل اعتماد کنیز کا درجہ دے رکھا تھا
اور اسے یہ کہنا روزینہ اس کنیز سے کہہ رہی تھی امام تک یہ خبر جلدی پہنچا دیں کہ میں نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں سب سے زیادہ اہم فیصلہ یہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے گی سلطان برکیارق نے اپنے وزیر اعظم کو یہ حکم دے دیا ہے اور سالاروں کو بلا کر کہہ دے گا کہ آدھی فوج کو چھانٹی کر دو پھر امام تک یہ خبر پہنچا دینا کہ سلطان پوری طرح میری مٹھی میں آ گیا ہے اس کی ماں وزیراعظم اور اس کا بھائی محمد اسے مجھ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن میں اسے ان سب سے متنفر کر دوں گی یہاں فوج میں بیزاری اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی تنخواہ میں اس تاخیر کے پیچھے بھی میرا ہی ہاتھ ہے امام سے کہنا کہ اب اپنے آدمی بھیج دیں کیوں کہ فوج میں چھانٹی ہوگی تو جنہیں نکالا جائے گا انہیں بھڑکانا اور سلطان کے خلاف مشتعل کرنا ضروری ہوگا پیغام میں یہ بھی کہنا کہ ابھی میں رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کے فیصلوں کے خلاف ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس سلسلے میں وہ کیا عملی کاروائی کرے گا تم ابھی چلی جاؤ اور یہ پیغام ان لوگوں کو اچھی طرح سنا دینا اور انہیں کہنا کہ آج ہی ایک آدمی الموت روانہ ہو جائے
یہ حسن بن صباح کا زمین دوز انتظام تھا جس کے تحت سلطنت سلجوقیہ کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا تھا تھوڑے ہی دنوں بعد اس بارود میں ذرا سی چنگاری پھینک دینی تھی قوم اور ملک حکمرانوں کے ہاتھوں ہی تباہ ہوتے چلے آئے ہیں حکمران جب اپنی سوچنے کی صلاحیت اور اپنا وقار کسی دوسرے کے حوالے کردے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا روزینہ سلطان برکیارق کی سلطنت میں تاریخ کو دہرا رہی تھی برکیارق کے ذہن میں وہ یہ بات نقش کر رہی تھی کہ اس سلطنت کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سلطنت برکیارق کی ذاتی ملکیت ہے تباہی کے عمل کو تیز کرنے کے لئے روزینہ سلطنت سلجوقیہ کو اس تلوار سے محروم کر رہی تھی جسے فوج کہتے ہیں
سلطان برکیارق نے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو احکام دے کر فارغ کردیا اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی اور اس کے نائب سالار اوریزی کو بلایا وہ فورا پہنچ گئے
فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان برکیارق نے کہا کل خزانے سے رقم نکلوا کر فوج میں تقسیم کردیں اب میرے اس فیصلے پر عمل شروع کر دیں کہ فوج کی آدھی نفری کو فوج سے نکال دیں میں اب اتنی زیادہ فوج کی ضرورت نہیں سمجھتا آپ دونوں نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ کسے فوج میں رکھنا اور کسی نکالنا ہے
ہاں سلطان محترم! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا فوج آدھی ہو جانی چاہیے ہم آپ کے حکم کی تعمیل بہت جلدی کر دینگے
سلطان محترم! سالار اوریزی نے کہا بصد معذرت عرض کرتا ہوں کہ فوج میں کمی نہیں ہونی چاہئے آپ کو معلوم ہی ہے کہ مرحوم سلطان نے یہ فوج کیوں تیار کی تھی
مجھے اور بھی بہت کچھ معلوم ہے سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کی بات کاٹ کر کہا یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ اتنی زیادہ فوج کو تنخواہ کس طرح دی جاتی ہے میں جو کہہ رہا ہوں سوچ اور سمجھ کر کہہ رہا ہوں اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے
سلطان ٹھیک فرما رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا اتنی زیادہ تنخواہ پوری کرنا بہت مشکل ہے اور خزانے پر بلاوجہ بوجھ پڑا ہوا ہے ہمیں سلطان محترم کے حکم پر فوراً عمل کرنا چاہیے
حکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے سالار اوریزی نے کہا لیکن میں یہ نہیں بھول سکتا کہ یہ ملک ہمارا اپنا ہے اور یہ اسلامی سلطنت ہے یہ فوج اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے تیار کی گئی ہے اس سے ہم نے باطل کی قوتوں کو اسی طرح ختم کرنا ہے جس طرح آتش پرستوں اور رومیوں کی جنگی طاقتوں کو ختم کردیا گیا اگر ہم نے حسن بن صباح کو ختم نہ کیا
میں اس نام سے تنگ آگیا ہوں سلطان برکیارق نے کہا حسن بن صباح کا نام سنتے سنتے میرے کان پک گئے ہیں میں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہم باطنیوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کریں گے
یہ بھی سوچ لیں سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا اگر آپ نے فوج میں سے آدھی نفری نکال دی تو فوج میں اور قوم میں بھی آپ کے خلاف بداعتمادی پیدا ہوجائے گی اس کے نتائج کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں میں ابھی کوئی اور بات نہیں کہنا چاہتا سوائے اس کے کہ یہ نتائج بڑے ہیں خطرناک بھی ہو سکتے ہیں
ہم آپ کو نہیں نکال رہے سالار اوریزی! سپہ سالار نے کہا آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے
میں سب سے پہلے فوج سے نکلوں گا سالار اوریزی نے کہا میں مجاہد ہوں اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے فوج میں شامل ہوا تھا سلطان کی خوشامد کے لیے نہیں جیسا آپ کر رہے ہیں
آپ میری توہین کر رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار نے کہا میں بھی مجاہد ہوں خوش آمدی نہیں
دونوں خاموش ہوجاؤ! سلطان برکیارق نے کہا میں نے تمہیں آپس میں لڑنے کے لیے نہیں بلایا
سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا آپ میری صاف گوئی برداشت کریں یا نہ کریں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ آپ کی سلطنت کی سلامتی کے لئے کہہ رہا ہوں یہ سلطنت آپ کی نہیں یہ میری بھی ہے یہ اللہ کی سلطنت ہے اگر آپ فوج کے متعلق غلط فیصلے کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ جو سالار ان فیصلوں کو غلط سمجھے گا وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور ہمارے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا حکم نہیں مانے گا سپہ سالار حجازی آپ کو خوش کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنے اللہ کو خوش کر رہا ہوں اور یہی میرا فرض ہے
تقریباً تمام مستند تاریخوں میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کا خوشامدی تھا اور سلطان ابلیسی اثرات کے تحت فیصلے کر رہا تھا ایک بیدار مغز اور دیانتدار سالار نے ان کی مخالفت کی تو آگے چل کر یہی اختلاف خانہ جنگی کا بنیادی پتھر بن گیا سلطان برکیارق نے جب ان دونوں سالاروں کو فارغ کیا تو باہر آکر سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے سالار اوریزی کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ جانتا ہے کہ سلطان کا یہ حکم سلطنت کے لیے اچھا نہیں لیکن ہمیں کیا ہمیں سلطان کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہے لیکن سالار اوریزی اس قدر بگڑ گیا تھا کہ اس نے سپہ سالار کے ساتھ بحث بے معنی سمجھی
ایک روز رے میں امیر شہر ابومسلم رازی اپنے دفتر میں امور سلطنت میں الجھا ہوا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے دو آدمی آئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکی ہے ابومسلم رازی نے انہیں فوراً اندر بلا لیا
ہم اس لڑکی کو آپ کے حوالے کرنے آئے ہیں دونوں میں سے ایک آدمی نے کہا ہم مسلمان نہیں یہ لڑکی مسلمان ہے
کون ہے یہ لڑکی؟
ابومسلم رازی نے پوچھا اسے کہاں سے لائے ہو میرے حوالے کرنے کا مقصد کیا ہے ؟
میرا نام حمیرا ہے لڑکی بولی میں قستان کے ایک رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں
قستان پر تو باطنی قابض ہوگئے ہیں ابومسلم رازی نے کہا اور پوچھا تم کس طرح بچ نکلی ہو؟
اگر آپ اجازت دیں گے تو میں اپنی داستان سناؤں گی؟
حمیرا نے کہا سب سے پہلے تو میں ان دونوں کی تعریف کروں گی کہ یہ مسلمان نہیں اور یہ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں
ابومسلم رازی کے کہنے پر حمیرا نے وہ سب کہہ سنائی جو اس پر بیتی تھی اس نے اپنی محبت کی بات بھی نہ چھپائی اور سفید ریش راہب کے منزل تک پہنچنے کی ایک ایک تفصیل سنائی
میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم نے جو بات سنائی ہے وہ بالکل سچ ہے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
آپ کا شک بجا ہے حمیرا نے کہا ان کے بزرگ راہب نے بھی یہی شک کیا تھا میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ میں ثابت کر سکوں کہ میں نے جو بات کہی ہے یہ سچ ہے
ہمارے راہب نے اس لڑکی کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا تھا ایک آدمی نے کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں اور یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو آپ ہم دونوں کو قید خانے میں بند کردیں اور جب آپ کو یقین آجائے گا تو ہمیں رہا کردیں
ابو مسلم رازی نے ان دونوں آدمیوں کو کھانا کھلایا اور مشروبات پلائے اور پھر ان کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں
میں تمہیں اپنی پناہ میں رکھوں گا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا تمہارا کوئی اور ٹھکانہ ہوتا تو میں تمہیں وہاں بھیج دیتا
میری ایک بات ذہن میں رکھ لیں محترم! حمیرا نے کہا میں یہاں آپ کی پناہ میں محتاجوں کی طرح بیٹھی نہیں رہونگی میں نے ان باطنیوں سے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کے خون کا انتقام لینا ہے میں جانتی ہوں کہ آپ باطنیوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں آپ مجھے اس جہاد میں جس طرح بھی استعمال کریں گے میں اپنی جان بھی پیش کردوں گی
ابومسلم رازی نے حمیرا کے ساتھ آئے ہوئے دونوں آدمیوں کا شکریہ ادا کیا انہیں کچھ تحفے دیے اور رخصت کردیا
رے سلطنت سلجوقیہ ان کا ایک بڑا شہر تھا اور یہ دونوں آدمی دیہاتی علاقے میں سے آئے تھے دونوں جب بازار سے گزرے تو گھوڑوں سے اتر آئے انہیں اس شہر کی دوکانیں بڑی اچھی لگ رہی تھیں وہ ایک دکان کے سامنے رک گئے دکان میں سجا ہوا سامان انہیں اچھا لگ رہا تھا
تم اجنبی معلوم ہوتے ہو ؟
انہیں ایک آواز سنائی دی انہوں نے دیکھا ایک آدمی جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ان سے مخاطب تھا معلوم ہوتا ہے بڑے لمبے سفر سے آئے ہو اس آدمی نے کہا
ہاں بھائی! ایک نے کہا ہم بہت دور سے آئے ہیں اور اب واپس جا رہے ہیں
اس دکان سے کچھ خریدنا چاہتے ہو ؟
اس آدمی نے پوچھا
ویسے ہی یہ چیزیں اچھی لگ رہی ہیں ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہم جنگلوں میں رہنے والوں نے کیا خریدنا ہے
تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بتاؤ اس شخص نے کہا تم پردیسی ہو میں تمہیں کوئی تحفہ دینا چاہتا ہوں
کیوں ؟
ایک مسافر نے پوچھا تم ہمیں تحفہ کیوں دینا چاہتے ہو؟
میں نے تم سے کیا لینا ہے اس شخص نے کہا یہ میری عادت ہے کہ کسی سیدھے سادے اجنبی کو دیکھتا ہوں تو اسے ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے پوچھنے سے میرا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے اسے کسی چیز کی کھانے پینے کی یا کسی طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہو اور یہ بیچارا کسی سے کہتا نہ ہو
ہمیں کچھ نہیں چاہئے دوست! ایک نے کہا یہی کافی ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ پیار اور محبت سے بات کی ہے
پھر میری خوشی کی خاطر میرے ساتھ آؤ اس شخص نے کہا میں تمہیں اس شہر کا ایک خاص شربت پلا کر رخصت کرنا چاہتا ہوں
اس شخص نے ایسی اپنائیت کا اظہار کیا کہ وہ دونوں اس کے ساتھ چل پڑے ذرا ہی آگے مشروبات کی ایک دکان تھی جس میں بیٹھنے کا بڑا ہی اچھا انتظام تھا یہ شخص دونوں کو اندر لے گیا اور ان کے لیے شربت منگوایا وہ ایسی باتیں کرتا رہا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ دوسروں کی خدمت کرے
تمہارے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
اس شخص نے پوچھا اور تم امیر شہر کے یہاں گئے تھے وہ لڑکی شاید شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی
سفید ریش راہب نے اپنے ان دو آدمیوں کو حمیرا کے ساتھ بھیجا اور صرف یہ کہا تھا کہ اسے رے کے امیر شہر ابومسلم رازی کے حوالے کرکے واپس آ جائیں انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ کوئی اور پوچھ بیٹھے کہ یہ لڑکی کون ہے تو اسے لڑکی کی اصلیت نہ بتائیں یہ دونوں آدمی حمیرا کی پوری داستان سن چکے تھے انہوں نے حمیرا کے ساتھ اتنا لمبا سفر کیا تھا حمیرا نے خود بھی انہیں سنائی تھی کہ اس پر کیا بیتی ہے اور وہ کس طرح الموت سے نکلی ہے
اب رے سے رخصت ہوتے وقت ان دونوں کو یہ اجنبی میزبان مل گیا تو اس کی باتوں میں آگئے اس نے ان سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے جسے وہ امیر شہر کے یہاں چھوڑ چلے ہیں ان دونوں نے بڑے فخر اور خوشی سے حمیرا کی ساری داستان اس آدمی کو سنا ڈالی اس آدمی نے حمیرا کے اس کارنامے پر دل کھول کر واہ واہ کی اور پھر ان دونوں آدمیوں کے خلوص اور دیانت داری اور ان کے کردار کی بےپناہ تعریف کی اس کے بعد دونوں رخصت ہوگئے
ان کے جانے کے بعد یہ شخص بہت ہی تیز چلتا ایک مکان میں چلا گیا وہاں تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے
لو بھائیو! اس نے کہا وہ مل گئی ہے
کون؟
حمیرا! اس نے جواب دیا اس شہر کے حاکم ابو مسلم رازی کے گھر پہنچ گئی ہے ابھی ابھی دو آدمی اسے اپنے ساتھ لائے تھے اور وہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں اس نے اپنے ساتھیوں کو سنایا کہ کس طرح اس نے ان دونوں آدمیوں کو گھیرا اور ان سے یہ راز لیا ہے یہ سب باطنی تھے اور حسن بن صباح کے جاسوس تھے جو کچھ عرصہ سے رے میں ٹھہرے ہوئے تھے،انہیں دو ہی روز پہلے الموت سے اطلاع ملی تھی کہ حمیرا نام کی ایک لڑکی الموت سے لاپتہ ہو گئی ہے اسے تلاش کیا جائے
الموت کون جائے گا ؟
ان میں سے ایک نے پوچھا اور کہا اگر آج ہی کوئی روانہ ہو جائے تو اچھا ہے امام خوش ہوجائے گا
وہ صرف اتنی سی بات پر خوش نہیں ہوگا کہ لڑکی کا سراغ مل گیا ہے ان میں سے ایک نے کہا اب یہ حکم آئے گا کہ لڑکی کو اغوا کرکے الموت پہنچاؤ
ایک آدمی اٹھا اور سفر کی تیاری کرنے لگا
چند دن گزرے تھے کہ ایک روز سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد رے آ گیا اور ابو مسلم رازی کے یہاں پہنچا ابومسلم اسے اس طرح شفقت اور پیار سے ملا جیسے باپ اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملتا ہے محمد بڑا خوبصورت اور قد آور جوان نکلا تھا اس میں اپنے باپ ملک شاہ والا جذبہ تھا
کہو محمد! ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا مرو کے حالات کیسے ہیں اور تم کیسے آئے ہو؟
بہت برے! محمد نے جواب دیا آپ کے پاس مجھے ماں نے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے بھیجا ہے میں بھائی برکیاروق کو بتائے بغیر آگیا ہوں برکیارق تو پوری طرح اپنی بیوی کے قبضے میں آ چکا ہے وہ اس کے دماغ میں جو کچھ بھی ڈالتی ہے وہ سلطنت کے لئے حکم بن جاتا ہے مجھے اور سنجر کو برکیارق نے بھائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے مجھے کہتا ہے کہ میں تمہیں کسی اچھے عہدے پر لگا دوں گا لیکن کسی بھی وقت میرے راستے میں نہ آنا یہ تو ہماری گھریلو باتیں ہیں اس نے ایک بڑا ہی خطرناک حکم دے دیا ہے جس کے تحت فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیجا جا رہا ہے فوج آدھی رہ جائے گی
کیا کہا؟
ابو مسلم نے چونک کر کہا کیا وہ اتنی خطرناک حماقت پر اتر آیا ہے کہ فوج آدھی کرکے سلطنت کو خطرے میں ڈال رہا ہے؟
کیا وزیراعظم اور تمہاری ماں نے اسے روکا نہیں؟
سب نے روکا ہے محمد نے جواب دیا وہ کسی کی سنتا ہی نہیں اصل خطرہ جو سامنے آگیا ہے اس سے وہ بے خبر ہے لیکن میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں اور میرے آنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں کچھ مشورہ دیں
ہاں محمد! ابومسلم نے کہا یہ تو تم نے بڑی تشویش ناک خبر سنائی ہے
وہاں تو خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوتی جارہی ہے محمد نے کہا فوج میں سے ان آدمیوں کو الگ کیا جا رہا ہے جنہیں فوج سے نکالنا ہے ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ بےروزگار ہو جائیں گے بلکہ وہ سلطنت اور باطنیوں کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ بتا کر فوج میں شامل کیا گیا تھا کہ باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے اسلام کے فروغ کے راستے کھولنے ہیں پھر خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نائب سالار اوریزی بگڑ گیا ہے اس نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ سپہ سالار ابوجعفرحجازی کے خلاف باقاعدہ لڑائی لڑے گا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے گا
میں سپہ سالار حجازی کو اچھی طرح جانتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا خوشامدی آدمی ہے معلوم نہیں سلطان ملک شاہ مرحوم نے اسے سپہ سالار کیسے بنا دیا تھا وہ سوائے خوشامد کے کچھ بھی نہیں جانتا
وہ ہمارےبھائی برکیارق کا ہر غلط حکم بسروچشم مانتا ہے اور دوسروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی یہ حکم مانیں اس میں اور سالار اوریزی میں باقاعدہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے
اوریزی صحیح معنوں میں مجاہد آدمی ہے ابومسلم رازی نے کہا اس نے جو کہا ہے وہ کرکے بھی دکھا دے گا لیکن یہ صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے
وہ خطرہ سامنے آگیا ہے محمد نے کہا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے مخبروں نے انہیں بتایا ہے کہ باطنی تخریب کار دونوں طرف کی فوجیوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں نظر یہی آ رہا ہے کہ وہ فوجی جنھیں نکالا جارہا ہے ان فوجیوں سے ٹکرا جائیں گے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا ہے شہری بھی دو مخالف گروہوں میں بٹے جارہے ہیں اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ باطنی شہریوں میں شامل ہوکر انہیں بھڑکا رہے ہیں کسی بھی روز یہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا
مجھے سوچنے دو ابومسلم نے کہا آج یہ صورتحال ایسی نہیں کہ میں فوراً ہی کوئی مشورہ دے دوں اس وقت میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں یقین دلا دوں کہ میں ہر طرح تمہارے ساتھ ہوں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں اس نفری کو جسے نکالا جارہا ہے یہاں بلا لوں گا اور فوج تیار کرکے سلطان برکیارق کا تختہ الٹ دوں گا بہرحال صورتحال بہت ہی خطرناک ہے تم کچھ دن یہیں ٹھہرو میں کچھ نہ کچھ سوچ لوں گا
وہ اس مسئلے اور اس صورتحال پر باتیں کرتے رہے اور حسن بن صباح کا ذکر آگیا اس ذکر کے ساتھ ابومسلم رازی نے حمیرا کا نام لیا اور مختصراً محمد کو سنایا کہ یہ لڑکی کس طرح اس کے پاس پہنچی ہے اور حسن بن صباح سے انتقام لینے کے لیے بے تاب ہے ابومسلم رازی نے حمیرا کو بلا لیا وہ آئی تو اس کا تعارف محمد سے کرایا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا محمد کچھ دن یہاں رہے گا اس میں وہی جذبہ اور وہی خیالات ہیں جو تمہارے ہیں اس کی میزبانی تم نے کرنی ہے اسے کمرے میں لے جاؤ اور اس کا خیال رکھنا محمد اور حمیرا اٹھے اور کمرے سے نکل گئے دونوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیسی سنسنی خیز کہانی کے کردار بننے جارہے ہیں…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……



www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 5 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-5/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-5/#respond Wed, 24 Jul 2024 13:51:42 +0000 https://urducover.com/?p=4723 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 5

قسط نمبر:17 }
نظام الملک اپنی فطرت کے مطابق مطمئن رہا لیکن حسن بن صباح اپنی فطرت کے مطابق نظام الملک کو ذلیل و خوار کرنے کے موقع کی تلاش میں رہا حسن بن صباح کے سامنے صرف یہ مقصد تھا کہ وہ وزیراعظم بن جائے اس کے بعد ان باطنیوں نے خفیہ قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر کے سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنا تھا
حسن بن صباح کو ایک موقع مل ہی گیا جو اس نے خود پیدا کیا تھا وہ اس طرح کے ایک روز سلطنت کے کچھ حاکم بیٹھے آپس میں تبادلہ خیالات کر رہے تھے کسی نے کہہ دیا کہ سلطان ملک شاہ عرصہ بیس سال سے سلطان ہے اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس عرصے میں رعایا سے محصولات وغیرہ کے ذریعے کتنی رقم وصول کی گئی اور یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی ہے
کون کہتا ہے کہ ساری رقم خرچ ہوئی ہے حسن بن صباح نے کہا میں کہتا ہوں کہ اس میں سے بہت سی رقم خورد بُرد اور غبن ہوئی ہے اگر سلطان مجھے اجازت اور سہولت مہیا کرے تو میں بیس سال کا حساب کتاب تیار کرکے سلطان کے آگے رکھ دوں گا
احتشام مدنی بھی وہاں موجود تھا اس نے سلطان کو بتایا کہ حسن بن صباح نے بڑی عقلمندی کی بات کی ہے احتشام نے سلطان کو پوری بات سنائی جو حاکموں کی اس محفل میں ہوئی تھی احتشام نے خصوصی مشیر کی حیثیت سے سلطان کو مشورہ دیا کہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے
اس سے ہمیں کیا حاصل ہوگا ؟
سلطان نے پوچھا
اگر کچھ رقم خردبُرد ہوئی ہے تو وہ واپس نہیں ملے گی احتشام نے کہا حاصل یہ ہوگا کہ یہ پتہ چل جائے گا کہ ہمارے حکام میں بددیانت کون کون ہےسلطان اور احتشام میں اس مسئلہ پر کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوا احتشام نے سلطان کو قائل کر لیا کہ گزشتہ بیس برسوں کا حساب ہونا چاہیے سلطان اپنے وزیراعظم نظام الملک کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتا تھا اس نے نظام الملک کو بلایا اور یہ نیا مسئلہ اس کے آگے رکھا
بیس سالوں کا حساب کتنے دنوں میں تیار ہو سکتا ہے؟
سلطان نے نظام الملک سے پوچھا
دنوں میں نظام الملک نے حیرت زدگی کے عالم میں جواب دیا برسوں کی بات کریں پہلے اپنی سلطنت کی وسعت دیکھیں پھر بیس برسوں کے عرصے پر غور کریں پھر دیکھیں کہ وہ جگہ کتنی ہے جہاں محصولات وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع کرائے جاتے ہیں اگر حساب تیار کرنا ہی ہے تو اس کے لیے مجھے دو سال چاہیے
اس وقت احتشام مدنی اور حسن بن صباح بھی وہاں موجود تھے
سلطان معظم! حسن بن صباح نے کہا میں حیران ہوں کہ محترم وزیر اعظم نے دو سال کا عرصہ مانگا ہے میں صرف چالیس دنوں میں یہ حساب بنا کر دے سکتا ہوں شرط یہ ہے کہ میں جتنا عملہ مانگو وہ مجھے دیا جائے اور ہر سہولت مہیا کی جائے
سلطان ملک شاہ نے احکام جاری کر دیے اور حسن بن صباح نے کام شروع کردیا تاریخ داں ابوالقاسم رفیق دلاوری نے مختلف مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ خواجہ حسن طوسی نظام الملک عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا کبھی وہ پریشان ہو جاتا کہ حسن بن صباح نے یہ کام چالیس دنوں میں مکمل کرلیا تو وہ سلطان کی نظروں میں گر جائے گا اور کوئی بعید نہیں کہ سلطان اسے وزارت عظمیٰ سے معزول ہی کر دے اور کبھی نظام الملک یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کے حسن بن صباح یہ کام چالیس دنوں میں تو دور کی بات چالیس مہینوں میں بھی نہیں کرسکے گا اور خود ہی سلطان کی نظروں میں ذلیل ہوگا
البتہ ایک دکھ تھا جو نظام الملک کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا یہ دکھ حسن بن صباح کی احسان فراموشی کا تھا اب تو تصدیق ہو گئی تھی کہ حسن بن صباح اسے معزول کرکے خود وزیراعظم بننا چاہتا ہے
پھر حسن بن صباح نے معجزہ کر کے دکھا دیا اس نے کاغذات کا ایک انبار سلطان ملک شاہ کے آگے رکھ دیا
سلطان عالی مقام! حسن نے سلطان سے کہا میں نے چالیس دن مانگے تھے آج اکتالیسواں دن ہے یہ رہا بیس برسوں کا حساب کیا وہ شخص وزیراعظم بننے کا حق رکھتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ حساب مکمل کرنے کے لیے دو برس درکار ہیں اگر سلطان معظم کے دل پہ گراں نہ گزرے تو میں وثوق سے کہتا ہوں کہ وزیراعظم حسن طوسی جسے آپ نے نظام الملک کا خطاب دے رکھا ہے محصولات کی رقمیں غبن کرتا رہا ہے اپنی لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ حساب تو ہو ہی نہیں سکتا اگر ہوگا تو دو سال لگیں گے
سلطان نے نظام الملک اور احتشام مدنی کو بلایا
خواجہ طوسی! سلطان نے نظام الملک سے کہا یہ ہے وہ حساب جو آپ دو سالوں سے کم عرصے میں نہیں کر سکتے تھے یہ دیکھیں حسن چالیس دنوں میں کر لایا ہے
نظام الملک پر خاموشی طاری ہوگئی اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ وہاں بیٹھ گیا اور معزولی کے حکم کا انتظار کرنے لگا
سلطان نے کاغذات کی ورق گردانی شروع کردی اور ایک ورک پر رک گیا
حسن! سلطان نے کہا اس ورق پر آمدنی اور اخراجات مشکوک سے نظر آتی ہیں یہ مجھے سمجھا دو
حسن بن صباح بغلیں جھانکنے لگا
سلطان نے ایک اور ورق پر روک کر پوچھا حسن نے اس کا بھی جواب نہ دیا سلطان نے کئی اور وضاحت پوچھی حسن کسی ایک بھی سوال کا جواب نہ دے سکا
تم نے یہ اتنا لمبا چوڑا حساب تیار کیا ہے سلطان نے کہا لیکن تمہیں بھی معلوم نہیں کہ یہ کیا ہے
سلطان معظم! نظام الملک بولا میں نے ویسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کے بیس برسوں کے اخراجات اور آمدنی کے گوشوارے تیار کرنے کے لیے کم از کم دو برس درکار ہیں
آپ میرے پاس رہیں حسن طوسی! سلطان نے نظام الملک سے کہا تم دونوں جاؤ میں یہ تمام اعداد و شمار دیکھ کر تمہیں بلاؤں گا
ان کے جانے کے بعد سلطان نے پوچھا یہ سب کیا ہے حسن طوسی! مجھے شک ہے کہ مجھے دھوکہ دیا گیا ہے
سلطان معظم! نظام الملک نے کہا یہ میرا ایمان ہے کہ کسی کو میرے ہاتھ سے نقصان نہ پہنچے لیکن جہاں میری اپنی حیثیت اور میرا اعتماد خطرے میں پڑ گیا ہے میں حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں یہ حساب کتاب تیار کرنے میں آپ کے مشیر خاص احتشام مدنی کا ہاتھ زیادہ ہے حسن بن صباح کے ساتھ اس کی ایک جوان سال بہن رہتی ہے جو اسی عمر میں بیوہ ہو گئی ہے مجھے اطلاع ملی ہیں کہ احتشام اور اس لڑکی کو شام کے بعد باغ میں دیکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ احتشام حسن بن صباح کے گھر زیادہ جاتا اور خاصا وقت وہاں گزارتا ہے جہاں تک مجھے یاد آتا ہے حسن بن صباح کی کوئی بہن نہیں میں اس کے خاندان کو مدرسے کے زمانے سے جانتا ہوں
طوسی! سلطان نے کہا میں یہ ساری سازش سمجھ گیا ہوں کچھ عرصے سے احتشام میرے پاس بیٹھ کر حسن بن صباح کی تعریفیں کر رہا ہے اور یہ شخص ذرا دبی زبان میں آپ کے خلاف بھی ایک آدھ بات کہہ جاتا ہے سلطان بولتے بولتے گہری سوچ میں چلا گیا ذرا دیر بعد سر اٹھایا اور بولا آپ حسن پر ایسا تاثر پیدا کریں کہ میں نے اس کا تیار کیا ہوا حساب سمجھ لیا ہے اور یہ بالکل صحیح ہے باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں میرے سامنے کوئی اور ہی عکس آ رہا ہے
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ سلجوقی جو ترک تھے اور جو اسلام کے دشمن ہوا کرتے تھے مسلمان ہوئے تو اسلام کے شیدائی اور سرفروش بن گئے وہ جنگجو تھے اور فہم و فراست کے لحاظ سے اتنے باریک بین کے ان کی نظریں جیسے پردوں کے پیچھے بھی دیکھ سکتی ہوں انکے سلطان اپنی سلطنت میں کسی کی حق تلفی اور سلطنت کے امور میں کوتاہی اور بددیانتی برداشت نہیں کرتے تھے نظام الملک باہر نکلا حسن بن صباح اور احتشام مدنی باہر سر جوڑے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے نظام الملک کو دیکھ کر دونوں چونکے
حسن مبارک ہو نظام الملک نے کہا تمہارا تیار کیا ہوا حساب بالکل ٹھیک ہے تم جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے وہ میں نے دے دیے ہیں میں نے سلطان سے کہا ہے کہ حسن ابھی نیا ہے اس لیے اسے پچھلے امور وغیرہ کا علم نہیں سلطان تم پر بہت خوش ہیں کہتے ہیں میں حسن کو انعام دوں گا
میں تمہارا یہ احسان ساری عمر نہیں بھولوں گا خواجہ!حسن بن صباح نے کہا نظام الملک سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا تم نے میرا وقار محفوظ کر دیا ہے
تم دونوں چلے جاؤ نظام الملک نے کہا سلطان تمہیں کل بلائیں گے
اس رات احتشام اور فاطمہ کی ملاقات ایسے تھی جیسے وہ جشن منانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہوں گزرے ہوئے دنوں میں زیادہ تر باغ میں ملتے رہے تھے تین مرتبہ وہ الگ الگ جنگل میں چلے گئے اور بہت وقت اکٹھے گزار کر آئے فاطمہ یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ حسن سے چوری گھر سے نکلتی ہے احتشام کو معلوم نہیں تھا کہ حسن خود اسے بھیجتا ہے
فاطمہ ابھی تک احتشام کے لیے سراب بنی ہوئی تھی اس نے ابھی تک احتشام کے ساتھ شادی کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور انکار بھی نہیں کیا تھا اس نے ایسا والہانہ انداز اختیار کرلیا تھا جس سے احتشام پر دیوانگی طاری ہوگئی تھی وہ تو اب حسن بن صباح اور فاطمہ کے اشاروں پر ناچنے لگا تھا حسن بن صباح سے اس نے کہا تھا کہ وہ اسے وزیراعظم بنا کر دم لے گا
جس روز نظام الملک نے حسن بن صباح کو یہ خوشخبری سنائی اس روز احتشام مدنی نے اپنے گھر کے قریب ہی چھوٹا سا ایک مکان جو خالی پڑا تھا صاف کروا لیا اور ایک کمرے میں پلنگ اور نرم و گداز بستر بھجوا دیا اپنی خاص ملازمہ کے ذریعے اس نے فاطمہ کو پیغام بھیج دیا کہ رات وہ فلاں طرف سے اس مکان میں آجائے
فاطمہ وہاں پہنچ گئی احتشام پہلے ہی وہاں موجود تھا
میرا ایک کمال دیکھ لیا فاطمہ احتشام نے فاطمہ کو اپنے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا جعلی حساب کتاب لکھ کر سلطان سے منوالیا ہے کہ یہ حساب بالکل صحیح ہے
آپ کو مبارک ہو فاطمہ نے اپنا گال احتشام کے سینے سے رگڑتے ہوئے کہا اب میرے بھائی کو وزیراعظم بنوا دیں
اب یہ کام آسان ہو گیا ہے احتشام نے کہا کل سلطان ہمیں بلائے گا میں نظام الملک کے خلاف اس کے ایسے کان بھروں گا کہ وہ اسی وقت اسے معزول کر دے گا
احتشام نے فاطمہ کو پلنگ پر بٹھا لیا
سلطان کل حسن کو انعام دے رہا ہے احتشام نے کہا میں نے آج تم سے انعام لینا ہے
فاطمہ نے جھپنے اور شرمانے کی ایسی اداکاری کی کہ احتشام نشے کی سی کیفیت میں بدمست ہو گیا اس نے فاطمہ کو لٹا دیا روحانی طور پر تو ہم میاں بیوی بن چکے ہیں احتشام نے کہا نکاح تو ایک رسم ہے یہ بعد میں بھی ادا ہو سکتی ہے
کمرے کا دروازہ بند تھا زنجیر چڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ باہر کا دروازہ بند تھا مکان کا صحن کشادہ تھا
احتشام مدنی جب فاطمہ کے طلسماتی حسن ناز و انداز اور دکھاوے کے شرم و حجاب میں مدہوش ہو چکا تھا فاطمہ چونکی
ذرا ٹھہریں فاطمہ نے کہا میں نے قدموں کی آہٹ سنی ہے
بلّی ہوگی احتشام نے نشے سے لڑکھڑاتی آواز میں کہا کسی انسان میں اتنی جرات نہیں ہو سکتی کہ اس گھر میں قدم رکھے
چار آدمی اس گھر میں قدم رکھ چکے تھے وہ چھت کی طرف سے آئے تھے اور سیڑھیاں اتر کر صحن میں آگئے تھے فاطمہ نے ایک بار پھر احتشام کو پرے ہٹنے کو کہا اسے ہلکا سا دھکا بھی دیا لیکن احتشام پر بدمستی طاری تھی
کمرے کا دروازہ کھلا احتشام نے ادھر دیکھا دو آدمی اندر آئے احتشام ان دونوں کو جانتا تھا یہ دونوں کوتوال کے ماتحت تھے ان کے پیچھے دو آدمی تھے وہ بھی کوتوال کے کارندے تھے
نکل جاؤ یہاں سے احتشام مدنی نے سلطان کے مشیر خاص کی حیثیت سے حکم کے لہجے میں کہا تمہیں میرے گھر میں آنے کی جرات کیسے ہوئی
ہم سلطان کے حکم سے آئے ہیں عالی جاہ ایک نے کہا آپ کو اور اس لڑکی کو سلطان کے پاس لے جانا ہے
چلو تم نکلو یہاں سے احتشام نے کہا میں تیار ہو کر آتا ہوں
آپ خود نہیں جائیں گے عالی جاہ کوتوال کے آدمی نے کہا ہم آپ کو لے جائیں گے اس لڑکی کو بھی
تیار ہونے کی ضرورت نہیں عالی جاہ دوسرا آدمی بولا ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اور یہ لڑکی جس حالت میں ہوں اسی حالت میں ساتھ لے آنا ہے
وہ دونوں نیم برہنہ حالت میں تھے احتشام پر دو نشے طاری تھے ایک اپنی سرکاری حیثیت کا وہ سلطان کا مشیر خصوصی تھا اور دوسرا نشہ فاطمہ کے حسن و شباب اور نفسانی جذبات کے وبال کا تھا یہ سب نشے ایک ہی بار ہوا ہو گئے
منہ مانگا انعام دوں گا احتشام نے کہا چاروں کو جاکر سلطان سے کہہ دو کہ تم نے مجھے اور اس لڑکی کو کہیں بھی نہیں دیکھا
فاطمہ کپڑے پہننے لگی تھی
اس لڑکی کو پکڑ کر باہر لے چلو اس آدمی نے احتشام کی پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آدمیوں کو حکم دیا اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر لے جاؤ
میرے عہدے اور رتبے سے تم واقف ہو احتشام مدنی نے کہا میں تمہیں اتنی ترقی دلواؤں گا کہ حاکم بن جاؤ گے
مجھے چاہتے ہو تو حاضر ہوں فاطمہ بولی
ہاں بھائیو! احتشام نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا دیکھو کتنی خوبصورت ہے
سلطان کے حکم کی تعمیل کرو کتوال کے آدمی نے کہا انہیں پکڑو اور لے چلو
وہ احتشام سے مخاطب ہوا عالی جاہ ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ اگر مزاحمت کریں تو آپ کے سر پر ضرب لگا کر بیہوش کر دیا جائے اور اٹھا کر زندان میں پھینک دیا جائے
احتشام مدنی سر جھکائے ہوئے چل پڑا دو آدمی پہلے ہی فاطمہ کو گھسیٹتے دھکیلتے باہر لے گئے تھے اس کے لیے نیم برہنگی یا مکمل برہنگی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی وہ آبرو باختہ اور تربیت یافتہ لڑکی تھی
ان دونوں کو کتوالی میں لے گئے اور انہیں الگ الگ کمرے میں بند کر دیا گیا
سلطان کا اپنا جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا اسے احتشام مدنی اور فاطمہ کی خفیہ ملاقاتوں کی اطلاعیں ملی تھیں لیکن یہ کوئی اہم یہ نازک خبر نہیں تھی یہ احتشام کا ذاتی معاملہ تھا سلطان کو اس صورت میں ان دونوں کی ملاقاتوں میں خطرہ محسوس ہوتا کہ لڑکی مشکوک اور مشتبہ ہوتی شک یہ ہوتا کہ یہ لڑکی عیسائی یا یہودی ہے اور جاسوس ہے یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہ معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہے
درمیان میں معاملہ بیس برسوں کے حساب کتاب کا آ گیا تو پتہ چلا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی نے سلطان کو دھوکا دیا ہے نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کی آپس میں باتیں ہوئیں تو نئے شکوک پیدا ہوگئے سلطان ملک شاہ عقل و دانش والا آدمی تھا نظام الملک نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح کی کوئی بہن ہے ہی نہیں
سلطان نے نظام الملک سے کہا کہ وہ حسن بن صباح کو خوشخبری سنا دے کہ اس نے بیس برسوں کا آمدنی اور اخراجات کا جو حساب تیار کیا ہے وہ سلطان نے منظور کر کے اسے بالکل صحیح تسلیم کرلیا ہے اس سے سلطان کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح اور احتشام مدنی بے فکر اور مطمئن ہو جائیں
سلطان نے اسی وقت کوتوال کو بلایا اور اسے یہ ساری صورت حال بتا کر کہا کہ احتشام اور اس لڑکی کو اکٹھے پکڑنا ہے
ابھی جاکر مخبر مقرر کر دو سلطان نے کہا وہ شام کے بعد ملتے ہیں ایک آدمی احتشام کی نگرانی کرے اور ایک آدمی اس لڑکی کو دیکھتا رہے یہ کہیں باہر اکٹھیں ہوں تو احتشام کے رتبے کا خیال کئے بغیر دونوں کو کوتوالی میں بند کردو انہیں اسی حالت میں لانا ہے جس حالت میں پائے جائیں ضروری نہیں کہ یہ آج ہی مل جائیں گے
کل ملیں پرسوں ملیں دس دنوں بعد ملیں انہیں چھوڑنا نہیں
کوتوال یہ ساری کاروائی اور اس کا پس منظر سمجھ گیا اس نے اسی وقت چار آدمی اس کام پر لگا دیئے انہیں ضروری ہدایات اور احکام دے کر رخصت کر دیا
ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اسی رات پکڑے جائیں گے لیکن احتشام مدنی نے اس رات فاطمہ سے انعام وصول کرنا تھا اس نے فاطمہ کے بھائی حسن کی مدد کی تھی اور سلطان کو بڑی کامیابی سے دھوکہ دیا تھا
سورج غروب ہوتے ہی کوتوال کے دو آدمی بھیس بدل کر چلے گئے ایک احتشام کے گھر کو دور سے دیکھتا رہا اور دوسرا حسن بن صباح کے گھر کی نگرانی کرتا رہا ان دونوں کے ساتھ ایک ایک اور آدمی تھا یہ دونوں دور دور کھڑے تھے پہلے احتشام گھر سے نکلا اور اس مکان میں چلا گیا جو اس نے اس رات کے جشن کے لیے تیار کیا تھا اس کی نگرانی والا آدمی چھپ کر کھڑا رہا
پھر فاطمہ گھر سے نکلی اس کی نگرانی والا آدمی اس کے پیچھے چل پڑا فاطمہ بھی اسی مکان میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند ہوگیا کوتوال کے دونوں مخبر آپس میں مل گئے انہوں نے اپنے دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی بلا لیا ان میں سے ایک عہدے دار تھا انہوں نے کچھ وقت انتظار کیا پھر ساتھ والے گھر کے بڑے آدمی کو باہر بلا کر بتایا کہ وہ کوتوال کے آدمی ہیں اور اس ساتھ والے گھر میں اترنا ہے
آ جائیں اس آدمی نے کہا میری چھت سے اس چھت پر چلے جائیں میں آپ کو بتاؤں گا اس مکان کی سیڑھیاں کہاں ہے
چار آدمی اس شخص کی رہنمائی میں اس مکان میں اتر گئے جس کے ایک کمرے میں احتشام مدنی اور فاطمہ جشن منا رہے تھے
رات کوئی زیادہ نہیں گزری تھی کوتوال کو اطلاع دی گئی کہ دونوں جس حالت میں تھے اسی حالت میں پکڑ لائے ہیں کوتوال کو سلطان نے کہا تھا کہ تحقیقات کرکے اسے بتائے کہ اس لڑکی کی حقیقت کیا ہے کوتوال اسی وقت کوتوالی پہنچا اور اس کمرے میں چلا گیا جس میں لڑکی بند تھی
نام کیا ہے لڑکی؟
کوتوال نے پوچھا
فاطمہ! لڑکی نے جواب دیا میں سلطان کی معتمد خاص حسن بن صباح کی بہن ہوں
ہمیں معلوم ہے حسن بن صباح کہاں کا رہنے والا ہے؟
کوتوال نے کہا ہم وہاں سے معلوم کریں گے کہ اس کی کوئی بہن ہے بھی یا نہیں میری ایک بات سن لو بہت ہی اذیت ناک موت مرو گی اپنے متعلق ہر بات سچ بتا دو
کیا آپ اس جسم کو اذیت دیں گے؟
لڑکی نے جذبات کی حرارت سے کِھلی ہوئی مسکراہٹ سے کہا ھاتھ لگا کر دیکھیں گلاب کی پتیوں جیسی ملائمت ہے اس جسم میں وہ نیم برہنہ تھی اس نے اپنے آپ کو اور زیادہ برہنہ کر دیا اس کی مسکراہٹ اور زیادہ ہوگئی اس کی آنکھوں میں سفلی جذبات کا خمار تھا کہنے لگی مرد اتنا زیادہ تو نہیں سوچا کرتے میرے قریب آجائیں
اس کے سر پر اوڑھنی نہیں تھی اس کے بال کھلے ہوئے تھے
ان بالوں کو ہاتھ لگا کر دیکھیں اس نے کہا ان پر ہاتھ پھیر کر دیکھیں ریشم اور مخمل جیسے ملائم ہیں
کوتوال آخر مرد تھا فرشتہ نہیں تھا اس لڑکی کے جسم اور بالوں کو دیکھ کر اسکے جسم نے جھرجھری لی اور اس پر خاموشی طاری ہوگئی وہ آہستہ آہستہ لڑکی کی طرف بڑھا اس کا دایاں ہاتھ اوپر اٹھ رہا تھا قریب جا کر اس کا ہاتھ لڑکی کے سر پر چلا گیا اور اس کی انگلیاں لڑکی کے بالوں میں رینگنے لگی اس کا دوسرا ہاتھ لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا کوتوال فرائض کی دنیا سے ایک ہی اوڑان میں رومانوں کی کہکشاں میں جا پہنچا
خدام! اسے کسی کی آواز سنائی دی کسی نے اسے پکارا تھا
اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا دروازہ بند تھا
ایک خیال رکھنا خدام اسے کمرے میں وہی آواز پھر سنائی دی سنا ہے لڑکی بہت ہی حسین ہے اگر تحقیقات تک نوبت آگئی تو یہ یاد رکھنا کے تم کوتوال ہو یہ بھی یاد رکھنا کہ دھوکا مجھے دیا گیا ہے میں اس سلطنت کا سلطان ہوں میں فرائض میں بددیانتی اور بدمعاشی برداشت نہیں کیا کرتا
یہ الفاظ سلطان ملک شاہ کے تھے جو اس نے احتشام مدنی اور لڑکی کو اکٹھے پکڑنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہے تھے
کوتوال خدام کی انگلیاں لڑکی کے ریشم جیسے ملائم بالوں میں رینگ رہی تھیں اور لڑکی اس کے دوسرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں مسل رہی تھی کوتوال کے ذہن میں سلطان ملک شاہ کے الفاظ ایسے گنجے جیسے سلطان اس بند کمرے میں کھڑا بول رہا ہو
کوتوال کی آنکھوں کے آگے بجلی سی چمکی پھر تاریکی آگئی کوتوال کا وہی ہاتھ جو لڑکی کے نرم و ملائم بالوں میں رینگ رہا تھا مٹھی بن گیا اس مٹھی میں لڑکی کے بال تھے کوتوال نے بالوں کو اتنی زور سے کھینچا کہ لڑکی کی چیخ نکل گئی درد کی شدت سے اس کا منہ کھل گیا
سچ بتا تو کون ہے؟
کوتوال نے بالوں کو مٹھی سے مروڑتے اور کھینچتے ہوئے کہا تیرے بال چھت کے ساتھ باندھ کر تجھے لٹکا دوں گا
درد سے لڑکی کے دانت بجنے لگے کوتوال نے لڑکی کو بالوں سے پکڑے ہوئے اوپر اٹھایا اور فرش پر پٹخ دیا
مر جا یہاں کوتوال نے کہا تیری کوئی نہیں سنے گا سچ بتا تو کون ہے؟
کوتوال کو اس پر بھی غصہ تھا کہ لڑکی نے اسے بھٹکا دیا تھا وہ بول نہیں رہی تھی کوتوال نے اس کے ایک ہاتھ کی انگلیاں ایک شکنجے میں جکڑ دیا اور شکنجے کو تنگ کرنا شروع کردیا لڑکی کی چیخوں سے چھت لرزتی محسوس ہوتی تھی وہ آخر لڑکی تھی کہاں تک برداشت کرتی اسے مردوں کی انگلیوں پر نچانے کی ٹریننگ دی گئی تھی یہ تو اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ کبھی وہ پکڑی بھی جائے گی
اس پر غشی سی طاری ہو رہی تھی جب کوتوال نے اس کی انگلیاں شکنجے سے نکال دیں اسے پانی پلایا لیکن وہ ابھی تک انکار کر رہی تھی کوتوال نے اس کا دوسرا ہاتھ شکنجے میں دینے کے لیے پکڑا تو وہ بلبلا اٹھی اور سچ بولنے پر آگئی اس نے بتا دیا کہ وہ حسن بن صباح کی بہن نہیں اور اسے وہ شاہ در سے لایا تھا
اس نے یہ بھی بتا دیا کہ حسن بن صباح اسے اس مقصد کے لیے ساتھ لایا تھا کہ ایسے حاکموں کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے جن کا سلطان پر اثر اور رسوخ چلتا ہے انہیں نظام الملک کے خلاف استعمال کرنا ہے لڑکی نے بتایا کہ حسن بن صباح وزیراعظم بننا چاہتا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ احتشام مدنی کو اس نے کس طرح اپنے جال میں پھانسا تھا اور اسے شادی کا لالچ دے رکھا تھا
احتشام مدنی حسن بن صباح کی کس طرح مدد کر رہا تھا؟
کوتوال نے پوچھا
کہتا تھا کہ میں نظام الملک کے خلاف سلطان کے دل میں کدورت پیدا کر رہا ہوں لڑکی نے کہا یہ حساب کتاب کا جو مسئلہ کھڑا ہوا تھا اس کے پیچھے احتشام ہی تھا اور اسی نے حسن بن صباح سے یہ حساب تیار کرایا تھا احتشام کہتا تھا کہ اب ایسا موقع پیدا ہو گیا ہے کہ میں آسانی سے نظام الملک کو معزول کرادوں گا
مختصر یہ کہ لڑکی نے اپنی اصلیت اور حسن بن صباح کی نیت بے نقاب کردی لیکن اس نے یہ نہ بتایا کہ حسن بن صباح اور کیا کر رہا ہے اور شاہ در اور خلجان کے علاقے میں اس نے کیا ناٹک کھیلا اور آئندہ کے لیے اس کے کیا منصوبے ہیں
حسن بن صباح کو تو معلوم تھا کہ فاطمہ احتشام مدنی سے ملنے گئی ہے لیکن اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی زیادہ دیر سے واپس آئے گی آدھی رات ہوگئی تو اس نے اپنے ملازم کو جگا کر کہا کہ وہ احتشام مدنی کے ملازموں سے پوچھ آئے کہ وہ گھر ہے یا کہیں باہر گیا ہوا ہے
ملازم گیا اور یہ خبر لایا کہ دربان احتشام کے انتظار میں جاگ رہا ہے وہ ابھی نہیں آیا
حسن بن صباح مطمئن ہو گیا کہ احتشام واپس نہیں آیا تو فاطمہ اس کے ساتھ ہی ہوگی وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ دونوں اس وقت تک کوتوالی میں بند ہوں گے اس روز حسن بن صباح بہت خوش تھا اس نے نظام الملک کے مقابلے میں میدان مار لیا تھا فجر کی اذان کے کچھ دیر بعد حسن بن صباح کے دروازے پر دستک ہوئی وہ سمجھا فاطمہ آئی ہے لیکن ملازم نے اسے بتایا کہ کوتوالی سے دو آدمی آئے ہیں حسن نے انھیں اندر بلایا اور پوچھا وہ کیوں آئے ہیں
حکم ملا ہے کہ آپ گھر سے باہر نہ نکلیں ایک آدمی نے کہا
کیوں ؟
حسن بن صباح نے پوچھا یہ حکم کس نے دیا ہے
وجہ ہمیں معلوم نہیں اس آدمی نے کہا ہمیں یہ حکم کوتوال نے دیا ہے
آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ اپنے گھر میں قید ہیں دوسرے آدمی نے کہا
کوتوال سلطان ملک شاہ کے گھر چلا گیا سلطان فجر کی نماز کے لیے جلدی جاگا کرتا تھا کوتوال نے اسے رات کی روداد سنائی یہ بھی بتایا کہ اس نے احتشام مدنی سے بیان نہیں لیا اور حسن بن صباح کو اس نے اس کے گھر میں نظر بند کر دیا ہے
سلطان نے حکم دیا کے احتشام اور لڑکی کو فوراً اس کے سامنے لایا جائے
سلطان نے نظام الملک اور حسن بن صباح کو بھی بلوا لیا
یہ سب آگئے تو سلطان نے لڑکی سے کہا کہ گزشتہ رات اس نے کوتوال کو جو بیان دیا ہے وہ سب کے سامنے ایک بار پھر دے لڑکی نے روتے ہوئے بیان دے دیا
کیا یہ سچ ہے احتشام ؟
سلطان نے احتشام سے پوچھا اگر یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو بتاؤ سچ کیا ہے میں اس لڑکی کو جلاّد کے حوالے کردوں گا اور اگر تم نے جھوٹ بولا تو
نہیں سلطان معظم! احتشام نے کہا لڑکی کا بیان بالکل سچ ہے میں سزا کا حقدار ہوں میں نے آپ سے نمک حرامی کی ہے اگر آپ مجھے معاف کر دیں گے تو بھی میں آپ کے زیر سایہ نہیں رہوں گا میرا یہاں رہنا آپ کے سائے کی بھی توہین ہے
احتشام! سلطان نے کہا مجھے دکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ آپ جیسا دانش مند انسان ایک لڑکی کے فریب میں آ گیا
سلطان معظم! احتشام مدنی نے بڑی پختہ آواز میں کہا میں بھی اپنے آپکو دانش مند سمجھا کرتا تھا مجھے اپنی عقل و دانش پر اس لئے ناز تھا کہ میں نے آپ کو جو بھی مشورہ دیا وہ آپ نے قبول کرلیا اور عملاً وہ مشورہ کامیاب اور کارآمد ثابت ہوا لیکن میں اب محسوس کرتا ہوں کہ میرا علم اور میرا تجربہ خام تھا میں نے سنا تھا کہ عورت مرد کی سب سے بڑی اور بڑی خطرناک کمزوری ہوتی ہے لیکن مجھے اس کا عملی تجربہ نہیں ہوا تھا نسوانی حسن میں ایک جادو ہے لیکن میں اس جادو سے واقف نہ تھا اب میرا علم اور تجربہ مکمل ہوگیا ہے اس تلخ اور شرمناک تجربے سے میں نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ فریب کار عورت زیادہ دلفریب ہوتی ہے اور اس کے حسن و شباب سے بچنا ممکن نہیں ہوتا اگر اس قسم کی ایک لڑکی مجھ جیسے جہاندیدہ اور دانش مند آدمی کو دام فریب میں لے سکتی ہے تو ان جواں سال آدمیوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا جو عورت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت نے بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں میں یہی سبق لے کر آپ کے دربار میں سے ہی نہیں بلکہ آپ کی سلطنت سے ہی نکل جاؤں گا اگر آپ سزا دینا چاہتے ہیں تو میرا سر حاضر ہے
اس کا فیصلہ میں بعد میں کروں گا سلطان نے کہا آپ بیٹھیں
سلطان حسن بن صباح سے مخاطب ہوا کیوں حسن تم کیا کہتے ہو اگر اس لڑکی کو جھٹلا سکتے ہو تو بولو لیکن بہتر یہ ہے کہ خاموش رہو جھوٹ بولو گے تو بہت بری سزا دوں گا
یہ لڑکی میری بہن نہیں حسن بن صباح نے کہا میں اسے ایک یتیم اور بیوہ لڑکی سمجھ کر اپنے ساتھ لے آیا تھا اگر آپ کا کوئی حاکم اس لڑکی کو غلط راستے پر چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے اس لڑکی کی حالت دیکھیں اس کا چہرہ دیکھیں صاف پتہ چلتا ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا ہے اور اس پر دہشت طاری کرکے یہ بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے
حسن بن صباح کوئی ایسا کچا آدمی نہیں تھا کہ احتشام کی طرح فوراً اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیتا وہ بولتا رہتا اور سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھتا تو سلطان پر غالب آجاتا اور سلطان اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا لیکن اس کے خلاف شہادت ایسی تھی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا تھا احتشام مدنی کا اعتراف جرم لڑکی کے بیان کی تائید کرتا تھا
خاموش! سلطان گرج کر بولا میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ سچے ہو تو زبان کھولنا لیکن تم نے میرے اس حکم کی پروا نہ کی سلطان نے کوتوال سے کہا اسے اور اس لڑکی کو قید خانے میں پھینک دو یہ دونوں قید خانے سے اس وقت نکالے جائیں گے جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ ان کے دماغ صحیح راستے پر آ گئے ہیں احتشام مدنی میں تمہیں قید خانے کی ذلت سے بچا رہا ہوں تم آزاد ہو لیکن میں سوچ کر کوئی فیصلہ کروں گا
سلطان معظم! خواجہ حسن نظام الملک اٹھ کھڑا ہوا اور بولا عفو اور درگزر کا جذبہ اللہ کو عزیز ہے اسلام کی یہ شان ہے کہ دشمن کو بھی بخشا جاسکتا ہے انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کا ایک منصوبہ بنایا تھا اور مجھے اس عزت اور اس بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تھی جو مجھے اللہ نے عطا کیا ہے میں انہیں اللہ کے نام پر معاف کرتا ہوں
میں انہیں معاف نہیں کر سکتا سلطان نے غصے کے عالم میں کہا
سلطان عالی مقام! نظام الملک نے کہا میں نے آج پہلی بار آپ سے ایک ذاتی درخواست کی ہے اور یہ میری آخری درخواست ہوگی حسن بن صباح اور میں امام مؤافق جیسے عالم دین کے شاگرد ہیں حسن کسمپرسی کی حالت میں میرے پاس آیا اور میں نے اسے روزگار اور وقار مہیا کیا تھا میں اسے گناہ سمجھتا ہوں کہ یہ گنہگار ہی سہی لیکن میری وجہ سے اسے قید میں پھینک دیا جائے
سلطان کچھ دیر نظام الملک کے منہ کو دیکھتا رہا وہ شاید سوچ رہا تھا کہ کوئی انسان اتنا بلند کردار والا بھی ہو سکتا ہے
میں تمہاری قدر کرتا ہوں خواجہ حسن طوسی! سلطان نے کہا لیکن میں انہیں یہاں دیکھ نہیں سکتا میں حسن بن صباح اور اس لڑکی کو زندان میں بند نہیں کروں گا حسن بن صباح اور یہ لڑکی ابھی اس شہر سے نکل جائیں
سلطان نے کوتوال سے کہا اپنے آدمی بھیجو جو انہیں شہر سے نکال کر آئیں
حسن بن صباح اور اس لڑکی کو اسی روز شہر بدر کر دیا گیا نظام الملک کو روحانی اطمینان محسوس ہوا کہ اس نے اتنے بڑے فریب کار کو معاف کرکے خداوندی تعالی کو راضی کر لیا ہے لیکن نظام الملک کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے ایک بڑے ہی زہریلے ناگ کو بخش دیا ہے اور وہ وقت بھی تیزی سے چلا آرہا ہے جب نظام الملک ایک لشکر کے ساتھ حسن بن صباح کے لشکر کے مقابل آئے گا اور ایک ہی امام کے دو شاگرد تلوار لہراتے ہوئے ایک دوسرے کو میدان جنگ میں للکاریں گے
تاریخوں میں اس حساب کتاب کے متعلق جو حسن بن صباح نے تیار کیا تھا مختلف روایات ملتی ہیں بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ نظام الملک نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا دستور الوزراء اس کتاب میں نظام الملک نے لکھا تھا کہ حسن بن صباح نے بڑا ہی کمال کیا تھا کہ صرف چالیس دنوں میں اتنے زیادہ علاقوں کے محصولات وغیرہ کی آمدنی اور اخراجات کا حساب تیار کر لیا تھا نظام الملک میں یہ بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے دل میں حسد اور بغض تھا اس لئے خداوند تعالی نے اسے ذلیل و خوار کیا اگر وہ یہی کام نیک نیتی سے کرتا تو سلطان سے اسے انعام و اکرام ملتا کیوں کہ یہ حساب کتاب ایک تاریخی واقعہ ہے اس لئے بہت سے مورخوں نے اسے قلم بند کیا ہے دبستان مذاہب میں یہ روایت ملتی ہے کہ حسن بن صباح یہ کتاب تیار کر چکا تو یہ تمام کاغذات نظام الملک نے دیکھنے کے لئے منگوائے اور ان کے کئی ورق بے ترتیب کر دیے یہ کاغذات جب سلطان کے پاس گئے تو اس نے حسن بن صباح سے کچھ پوچھا تو وہ صحیح جواب نہ دے سکا
ایک روایت یہ بھی ہے کہ نظام الملک نے اپنے رکابدار کو اس طرح استعمال کیا تھا کہ رکابدار نے حسن بن صباح کے ملازم کو کچھ لالچ دے کر پھانس لیا اور اس سے ان کاغذات میں سے چند ایک کاغذات ضائع کروا دیے تھے لیکن یہ روایات صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ نظام الملک بڑا پکا ایماندار تھا اسے یہ کاغذات دکھائے ہی نہیں گئے تھے حسن بن صباح اس لڑکی کے ساتھ رے پہنچا جہاں کا وہ رہنے والا تھا اس نے اپنے باپ کو سنایا کہ سلطان کے یہاں کیا واقعہ ہوگیا ہے
تمہاری عقل ابھی خام ہے باپ نے حسن بن صباح سے کہا تم تمام کام بیک وقت اور بہت جلدی ختم کرنا چاہتے ہو جلد بازی سے بچو تم نے اپنی ملازمت ہی نہیں کھودی بلکہ سلجوقی سلطنت کھودی ہے اب میں تمہیں مصر بھیجوں گا وہاں کے کچھ لوگ یہاں آ رہے ہیں
‏رے کا امیر ابو مسلم رازی تھا جو کٹر اہل سنت والجماعت تھا اسے خفیہ رپورٹیں مل رہی تھیں کہ حسن بن صباح کے باپ کے یہاں مصر کے عبیدی آتے رہتے ہیں سلجوقی عبیدیوں کو اپنا اور اسلام کا بہت بڑا دشمن سمجھتے تھے کیونکہ عبیدیوں کا اپنا ہی ایک فرقہ تھا جو ایک جنگی طاقت بنتا جا رہا تھا ان دنوں مصر پر عبیدیوں کی حکومت تھی
سلطان ملک شاہ کی طرف سے ابومسلم رازی کو ایک تحریری حکم نامہ ملا کہ اس کے شہر رے کے باشندے حسن بن صباح کو سرکاری عہدے سے سبکدوش کرکے نکال دیا گیا ہے اس شخص پر نظر رکھی جائے کیونکہ یہ شخص بڑا پکا فریب کار اور اپنے سابقہ عہدے کو فریب کاری میں استعمال کر سکتا ہے
ابومسلم رازی کو مخبروں سے کچھ ایسی رپورٹیں بھی ملی تھیں کہ حسن بن صباح رے سے دور دراز علاقوں میں اپنا ہی ایک فرقہ تیار کر رہا ہے اور اس فرقے کے عزائم خطرناک معلوم ہوتے ہیں ابومسلم رازی نے حکم دے دیا کہ حسن بن صباح کو گرفتار کر لیا جائے
حسن بن صباح اور اس کے باپ نے مخبری اور جاسوسی کا اپنا ایک نظام قائم کر رکھا تھا اس کا کوئی آدمی ابومسلم رازی کے عملے میں ملازم تھا اس آدمی نے حسن بن صباح کو اطلاع دے دی کہ اس کی گرفتاری کا حکم جاری ہو گیا ہے حسن بن صباح نے اسی وقت شتربانوں کا لباس پہنا اور ایک اونٹ کی مہار پکڑ کر شہر سے نکل گیا اس کی گرفتاری کے لیے کوتوال کے آدمی اس کے گھر گئے تو اس کے باپ نے کہا کہ وہ کچھ بتائے بغیر کہیں چلا گیا ہے
اس وقت حسن بن صباح اونٹ پر سوار شہر سے بہت دور چلا گیا تھا اس کے قریب سے گزرنے والے اسے غریب سا شتربان سمجھتے تھے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شتربان کے لباس میں چھپا ہوا یہ شخص ایسے کارنامے کر دکھائے گا جو الف لیلیٰ کی داستانوں سے زیادہ سنسنی خیز ناقابل یقین ہوں گے اور یہ شخص انسانیت اور تاریخ کے رونگٹے کھڑے کردے گا
حسن بن صباح تو بھیس بدل کر نکل گیا لیکن وہ لڑکی جسے وہ اپنے ساتھ مرو لے گیا تھا اور سب کو بتایا کہ یہ اس کی بہن ہے اور اس کا نام فاطمہ رکھا تھا وہ ایک بڑے ہی بے رحم شکنجے میں آگئی تھی سلطان ملک شاہ نے اسے بھی حسن بن صباح کے ساتھ اپنے دارالسلطنت سے نکال دیا تھا حسن بن صباح تو وہاں وزیراعظم بننے گیا تھا اور اس لڑکی کو اس نے اس مقصد کے لئے استعمال کیا تھا لیکن اسی لڑکی کی زبان نے اس کا وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور کردیا
اس لڑکی کا اصل نام شمونہ تھا احمد بن عطاش کے آدمیوں نے ایک قافلے کو لوٹا تھا اور دیگر مال و دولت کے ساتھ چند ایک لڑکیوں کو بھی پکڑ لائے تھے جن میں تین چار گیارہ سے چودہ سال عمر تک کی تھیں انہیں شاہ در لے آئے تھے جہاں انہیں شہزادیوں کی طرح رکھا گیا اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے مطابق تربیت دی گئی تھی انہیں بڑی محنت سے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی سے کام نکلوانا ہو اس کے لئے کس طرح ایک بڑا ھی حسین سراب بنا جاتا ہے انھیں ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ اپنے جسموں کو کس طرح بچا کر رکھنا اور اپنے جال میں پھنسے ہوئے آدمی پر نشہ بن کر طاری ہو جانا ہے
شمونہ انہیں لڑکیوں میں سے تھی وہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں قافلے سے اغوا ہوئی تھی اب اس کی عمر بیس سال سے تجاوز کر گئی تھی اس نے کامیابی سے سلطان ملک شاہ کے مشیر خاص احتشام مدنی کو مسحور کر لیا تھا یہ اس کا پہلا شکار تھا وہ اس معزز اور باوقار شخصیت پر طلیسم ہوش روبا بن کر طاری ہوگئی اور اپنا دامن بھی بچا کے رکھا تھا لیکن حسن بن صباح نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ نازک اندام لڑکی ہے ایک جابر سلطان کو انگلیوں پر نچا سکتی ہے مگر یہی انگلیاں جابر سلطان کے شکنجے میں آگئی تو یہ ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کرے گی اور تمام راز اگل دے گی
حسن بن صباح اتنا کچا آدمی نہیں تھا کہ اسے یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ کمزور سی لڑکی ایذارسانی برداشت نہیں کرے گی وہ بے رحم انسان تھا اس کے جذبات اتنے نازک اور رومانی نہیں تھے کہ کسی کو اذیت میں دیکھ کر اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی اس نے شمونہ جیسی ہر لڑکی کو اور اپنے گروہ کے تمام آدمیوں کو بتا رکھا تھا کہ اپنی جان دے دینا راز نہ دینا اگر راز دے کر آؤ گے تو اس کے عوض تمہاری جان لے لی جائے گی
حسن بن صباح نے شمونہ کی جان اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی لیکن اسے مہلت نہ ملی امیر شہر ابومسلم رازی کے حکم سے کوتوالی کے آدمیوں نے چھاپہ مارا اگر اسے پہلے اطلاع نہ ملی چکی ہوتی تو وہ گرفتار ہو جاتا وہ بروقت فرار ہوگیا تھا لیکن شمونہ کی قسمت کا فیصلہ سنا گیا تھا
اس بدبخت لڑکی نے تھوڑا سا نقصان نہیں پہنچایا اس نے فرار سے کچھ دیر پہلے اپنے دو خاص مصاحبوں سے کہا تھا اسے خلجان پہنچا دینا میں وہاں پہنچ چکا ہونگا اسے میں تمام لڑکیوں کے سامنے ایسی سزائے موت دوں گا جو ان لڑکیوں کے لئے باعث عبرت ہو گی لڑکیوں کو بتاؤں گا کہ اس کا جرم کیا ہے اسے ابھی کسی گھر میں قید میں رکھو پانچ دنوں بعد اسے یہاں سے نکالنا ابھی کوتوال کے جاسوس میرے گھر کے ارد گرد گھوم پھر رہے ہونگے اگر یہ لڑکی اپنا حوصلہ ذرا مضبوط رکھتی تو میں وزیراعظم بن جاتا
شمونہ کو انہیں آدمیوں میں ایک کے گھر رکھا گیا اور اسے کہا گیا کہ وہ باہر نہ نکلے اور چھت پر بھی نہ جائے اسے وجہ یہ بتائی گئی کہ امیر شہر نے اس کی اور حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے
شمونہ کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں وہ اپنے آپ کو اس گھر میں مہمان سمجھنے لگی اس کے ساتھ بڑے ہیں معزز مہمانوں جیسا سلوک روا رکھا گیا اور اسے الگ کمرہ دیا گیا اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کمرے کی قیدی اور دو دنوں کی مہمان ہے
اس گھر میں ایک آدمی اور اس کی دو بیویاں تھیں اور ایک ادھیڑ عمر نوکرانی تھی شام کے کھانے کے بعد شمونہ اپنے کمرے میں چلی گئی ،گھر کا آدمی ایک بیوی کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا کچھ دیر بعد دوسری بیوی شمونہ کے کمرے میں چلی گئی اس نے پوچھا کہ مرو میں کیا ہوا تھا شمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا
کیا تمہارے آقا نے تمہیں معاف کر دیا ہے؟
عورت نے پوچھا
میں کچھ نہیں کہہ سکتی شمونہ نے کہا یہ بتا سکتی ہوں کہ اس نے مرو سے یہاں تک میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی صرف ایک بار اس نے کہا تھا کہ تم نے میرا ہی نہیں اپنی جماعت کا مستقبل تباہ کر دیا ہے میں نے اسے پہلے بھی کہا تھا کہ ایک بار پھر کہا کہ میں مجبور ہوگئی تھی اس نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دکھا کر کہا یہ دیکھو نشان یہ انگلیاں لوہے کے شکنجے میں جکڑ دی گئی تھیں اور شکنجا آہستہ آہستہ بند کیا جا رہا تھا میری انگلیوں کی ہڈیاں چٹخنے اور پھر ٹوٹنے لگی تھیں شکنجے کو اور زیادہ کسا جا رہا تھا اور مجھ پر غشی طاری ہو رہی تھی
اب میری سن لڑکی! عورت نے کہا آگے مت سونا میں تیرے درد کو اپنے دل میں محسوس کرتی ہوں تو اپنے ماں باپ کے پاس کیوں نہیں جاتی؟
کہاں ہیں وہ؟
شمونہ نے کہا کون ہیں وہ مجھے یاد نہیں خواب کی طرح یاد ہے کہ ایک قافلہ جا رہا تھا اسے ڈاکوؤں نے روک کر لوٹ لیا تھا میرے ماں باپ شاید مارے گئے تھے وہ مجھے یاد نہیں آتے یاد آئیں بھی تو مجھے ان کی جدائی کا ذرا سا بھی افسوس نہیں ہوتا ان سے جدا ہوئے صدیاں تو نہیں گزری چھ سات سال ہی گزرے ہیں مجھے ڈاکو اپنے ساتھ لے آئے تھے
تجھے معلوم نہیں عورت نے کہا تجھے ایسی چیز پلائی اور کھلائی جاتی رہی ہے کہ تیرے دماغ سے خون کے رشتے دھل گئے ہیں اور میں جانتی ہوں تیری تربیت کس پیار سے ان لوگوں نے کی ہے تو نہیں جانتی
یہ حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کا وہ طریقہ کار تھا جسے آج کی صدی میں برین واشنگ کا نام دیا گیا ہے
تم اتنی دلچسپی سے یہ باتیں کیوں پوچھ رہی ہو؟
شمونہ نے پوچھا کیا تمہیں مجھ سے ہمدردی ہے؟
ہاں لڑکی! عورت نے کہا مجھے تجھ سے ہمدردی ہے میرا خاوند انہی لوگوں میں سے ہے یہ لوگ میری چھوٹی بہن کو ورغلا کر لے گئے ہیں وہ بہت حسین لڑکی ہے میں اسے اس جال سے نہیں نکال سکتی تجھے نکال سکتی ہوں لیکن تو اب ان لوگوں کے نہیں بلکہ موت کے جال میں آ گئی ہے
موت کے جال میں ؟
ہاں لڑکی ! عورت نے کہا تیری زندگی چار نہیں تو پانچ دن رہ گئی ہے
یہ کیسے ؟
حسن بن صباح کسی کو معاف نہیں کیا کرتا عورت نے کہا میں جانتی ہوں تو نے کس مجبوری کے تحت راز مرو کے کتوال کو دے دیا تھا لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ تجھے اپنی جان دے دینی چاہیے تھی راز نہ دیتی حسن بن صباح کہہ گیا ہے کہ تجھے خلجان پہنچا دیا جائے حسن بن صباح وہاں پہنچ جائے گا پھر تمہیں تم جیسی لڑکیوں کے سامنے بڑے ہی اذیت ناک طریقے سے قتل کیا جائے گا تاکہ لڑکیوں کو عبرت حاصل ہو
شمونہ کو غشی آنے لگی
میں ابھی مرنا نہیں چاہتی شمونہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا
اور چاہتی میں بھی یہی ہوں کہ تو زندہ رہے عورت نے کہا اگر میری یہ خواہش نہ ہوتی تو میں تمہارے پاس آتی ہی نہ
لیکن میں کروں کیا ؟
شمونہ نے پوچھا کہاں جا پناہ لوں
میں تمہیں یہاں سے نکال سکتی ہو
کیا تم اس کی کچھ اجرت لوگی؟
نہیں! عورت نے جواب دیا میرے لئے یہی اجرت بڑی کافی ہوگی کہ تو یہاں سے نکل جائے اور زندہ رہے مجھ سے کچھ اور نہ پوچھنا نہ کسی کو یہ بتانا کہ میں نے تمہیں یہاں سے نکالا ہے صرف اتنا بتا دیتی ہوں کے تجھے دیکھ کر مجھے اپنی بہن یاد آگئی ہے تو معصوم لڑکی ہے خدا کرے تو کسی گھر میں آباد ہو جائے
مجھے نکال تو دوگی؟
شمونہ نے پوچھا میں جاؤنگی کہاں؟
رات ابھی زیادہ نہیں گزری عورت نے کہا میں تجھے راستہ بتا دوں گی یہ راستہ تجھے امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر پہنچا دے گا دروازے پر دستک دینا دربان روکے تو کہنا کہ میں مظلوم لڑکی ہوں اور امیر شہر کے آگے فریاد کرنے آئی ہوں تجھے کوئی نہیں روکے گا امیر شہر خدا کا نیک بندہ ہے وہ تجھے فوراً اندر بلا لے گا اسے ہر بات صحیح صحیح بتا دینا اور یہ مت کہنا کہ میں نے تجھے یہاں سے نکالا ہے یہ کہنا کہ تو خود یہاں سے بھاگی ہے
پھر وہ کیا کرے گا؟
وہ جو کچھ بھی کرے گا تیرے لیے اچھا ہی کرے گا عورت نے کہا ہو سکتا ہے وہ تجھے کسی نیک آدمی کے سپرد کردے میں تجھے میلی سی ایک چادر دیتی ہوں اس میں اپنے آپ کو ڈھانپ لینا کوئی آدمی آگے آ جائے تو ڈر نہ جانا پوری دلیری سے چلتی جانا تو ہوشیار لڑکی ہے تجھے تربیت بھی ایسی ہی دی گئی ہے اس کے مطابق اپنی عقل استعمال کرنا سب ٹھیک ہو جائے گا اٹھو
اس عورت کا خاوند دوسرے کمرے میں گہری نیند سو گیا تھا یہ لوگ شراب اور حشیش کے عادی تھے ان میں نشے کی عادت حسن بن صباح نے پیدا کی تھی اس اتنی بڑی حویلی کا مالک اپنی ایک جواں سال بیوی کو ساتھ لیے نشے میں بدمست حقیقی دنیا سے بے خبر سو گیا تھا
اسی حویلی کے ایک کمرے میں اس کی پرانی بیوی شمونہ کو چادر میں لپیٹ کر حویلی کی ڈیوڑھی میں لے گئی تھی شمونہ کو اس نے امیر شہر کے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا اس نے شمونہ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ راستے سے بھٹک جائے تو کسی سے پوچھ لے اس نے شمونہ کو یقین دلایا تھا کہ ابو مسلم رازی سے لوگ اتنے ڈرتے ہیں کہ اکیلی دکیلی عورت پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا
اس نے شمونہ کو حویلی سے نکال دیا شمونہ گلی کا موڑ مڑ گئی تو اس عورت نے حویلی کا دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں جا کر سو گئی وہ مسرور اور مطمئن تھی کہ اس نے ایک نوخیز لڑکی کو گناہوں کی بڑی ہی خطرناک دنیا سے نکال دیا تھا شمونہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر تک پہنچ گئی باہر دو دربان کھڑے تھے انہوں نے اسے روکا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیوں آئی ہے؟
مجھے فوراً امیر شہر تک پہنچا دو شمونہ نے بڑی پختہ آواز میں کہا دیر نہ لگانا ورنہ پچھتاؤ گے
آخر بات کیا ہے ؟
ایک دربان نے پوچھا
انہیں اتنا ہی کہہ دو کہ ایک مظلوم لڑکی کہیں سے بھاگ کر آئی ہے شمونہ نے کہا اور یہ بھی کہنا کہ وہ راز کی ایک بات بتائے گی
تاریخ بتاتی ہے کہ ابو مسلم پکا مرد مومن تھا اسلام کی وہی نظریات اور عقیدے جو رسول اکرمﷺ اپنی امت کو دے گئے تھے ان کی پاسبانی ابومسلم رازی کی زندگی کا بہت بڑا نصب العین تھا جس وقت شہر نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گیا تھا اس وقت رازی دین کی ایک کتاب کھولے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھا
دربان نے اس کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی دربان کو ایسا ڈر نہیں تھا کہ امیر شہر خفا ہو گا اور اسے ڈانٹ دے گا کہ رات کے اس وقت اسے نہیں آنا چاہیے تھا اس نے حکم نامہ جاری کر رکھا تھا کہ کوئی مظلوم شخص رات کے کسی بھی وقت اسے ملنے آئے تو اسے جگا لیا جائے اس رات دربان کی دستک پر اس نے دربان کو اندر بلایا دربان سے اس نے صرف یہ الفاظ سنے کہ ایک لڑکی آئی ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیج دو
چند لمحوں بعد ایک بڑی ہی حسین اور پرکشش جسم والی نوخیز لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی ابو مسلم رازی نے اسے بٹھایا
کیا ظلم ہوا ہے تجھ پر جو تو اس وقت میرے پاس آئی ہے؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
بات ذرا لمبی ہے شمونہ نے کہا کیا امیر شہر کے دل میں اتنا درد ہے کہ اتنی لمبی بات سنے گا؟
ہاں لڑکی! ابومسلم رازی نے کہا ہم دونوں کے درمیان اللہ کی ذات موجود ہے میں اللہ کے ہاتھ میں پابند اور مجبور ہوں کہ اللہ کے ہر اس بندے کی پوری بات سنو جس پر ظلم کیا گیا ہے تم بولو میں سنوں گا امیر شہر نہیں سنے گا تو وہ اللہ کو کیا جواب دے گا
مجھے ڈاکوؤں نے تین چار سال پہلے ایک قافلے کو لوٹتے ہوئے میرے ماں باپ سے چھینا اور مجھے اغوا کرکے لے گئے تھے شمونہ نے کہا مجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوا تشدد نہیں ہوا زیادتی نہیں ہوئی ظلم یہ ہوا کہ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میرے ماں باپ کون تھے میں اغوا کے وقت دودھ پیتی بچی تو نہ تھی مجھے اغوا کرنے والوں نے ایسی خوبصورت فضا دی اور ایسے شہانہ ماحول میں میری تربیت کی کہ میں شہزادی بن گئی لیکن یہ تربیت ویسی نہیں تھی جیسی بچوں کو دی جاتی ہے میری ذات میں ابلیسی اوصاف پیدا کیے گئے ایسا نہیں ہوا کہ میرے آقا میرے جسم کے ساتھ کھیلتے رہتے اور مجھے ہوس کاری کے لیے استعمال کرتے بلکہ انہوں نے تربیت یہ دی کہ اپنے جسم کو مردوں سے کس طرح بچا کر رکھنا ہے
کون ہے وہ؟
ابومسلم رازی نے پوچھا کہاں ہے وہ ؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام نہیں سنا؟
شمونہ نے کہا میں اس کے ساتھ سلطان ملک شاہ کے زیر سایہ رہ چکی ہوں
وہ گیا کہاں؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
یہ میں نہیں بتا سکتی شمونہ نے جواب دیا میں اپنے متعلق سب کچھ بتا سکتی ہوں
شمونہ نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی تھی اور پھر اسے پہلے شاہ در پھر خلجان لے جاکر کس طرح کی تربیت دی گئی تھی یہ بھی بتایا کہ اس جیسی اور لڑکیوں کو بھی اسی قسم کی تربیت دی جاتی ہے پھر اس نے بتایا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ مرو گئی تو وہاں اسے حسن نے کس طرح استعمال کیا تھا
ابو مسلم رازی گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سوچ سے بیدار ہو کر شمونہ سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
سب سے پہلے تو میں پناہ چاہتی ہوں شمونہ نے کہا اگر آپ نے مجھے پناہ نہ دی تو یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے
تم میری پناہ میں ہو لڑکی! ابو مسلم رازی نے کہا
میں اپنی ذات میں بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہی ہوں شمونہ نے کہا میرے اندر میرے دل اور میرے دماغ میں ابلیسیت کے سوا کچھ بھی نہیں میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتی ہوں کہ میں ایک ناگن ہوں اور ڈسنا میری سرشت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آپ کو ہی ڈس لوں میں انسان کے روپ میں آنا چاہتی ہوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری ذات میں کوئی انسانی جذبات ہے ہی نہیں کیا آپ ایسا بندوبست کر سکتے ہیں کہ میری ایسی تربیت ہو جائے جس سے میں انسانوں کے روپ میں آ جاؤں؟
کیوں نہیں ہو سکتا ہے ابو مسلم رازی نے کہا میں فوری طور پر کسی بھلے آدمی کے ساتھ تمہاری شادی کرا دوں گا
نہیں! شمونہ نے تڑپ کر کہا کسی بھلے آدمی پر یہ ظلم نہ کرنا میں ابھی کسی کی بیوی بننے کے قابل نہیں بیوی وفادار ہوتی ہے لیکن میں فریب کاری کے سوا کچھ بھی نہیں جانتی مجھے پہلے انسان بنائیں
تم آج رات آرام کرو ابو مسلم رازی نے کہا میں کل تمہارا کچھ بندوبست کر دوں گا
ابو مسلم رازی نے شمونہ کو زنان خانے میں بھجوا دیا
اس شہر کے مضافات میں ایک آدمی رہتا تھا جو مذہب میں ڈوبا ہوا تھا اور تقریباً تاریک الدنیا تھا اس کی عمر تقریباً چالیس برس ہو گئی تھی اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس نے شادی نہیں کی تھی اور یہ بھی مشہور تھا کہ وہ عورت کے وجود کو پسند ہی نہیں کرتا تھا معلوم نہیں کس عمر میں اس کے دل میں مذہب سے لگاؤ پیدا ہوا تھا وہ زیادہ تر عبادت اور کتابوں میں مگن رہتا تھا
اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ وہ کئی فرقے بدل چکا ہے اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صحیح عقیدے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا اس وقت تک مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور یہ شخص ان بہتر فرقوں میں بٹ رہا تھا اب لوگ کہتے تھے کہ وہ سنی عقیدے کو قبول کر چکا ہے لیکن یقین کے ساتھ کہنا مشکل تھا کہ وہ کس عقیدے کو قبول کئے ہوئے ہے
وہ علم روحانیت میں بھی سر کھپاتا رہتا تھا بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ راتوں کو جاگتا ہے اور جنات کو حاضر کر لیتا ہے بہرحال لوگوں کے لئے وہ پراسرار سی شخصیت بنا ہوا تھا اس کے معتقد اس کے پاس جاتے رہتے اور وہ انہیں درس دیا کرتا تھا وہ زیادہ تر زور اس پر دیتا تھا کہ عورت ایک حسین فریب ہے اور عورت گناہوں کی علامت ہے
ابومسلم رازی اس بزرگ سے بہت متاثر تھا اس کا نام نوراللہ تھا ابو مسلم رازی اکثر اس کے یہاں جاتا تھا شمونہ نے جب ابو مسلم رازی سے یہ کہا کہ وہ بھٹکی ہوئی ایک لڑکی ہے اور جب تک دینی تربیت کے ذریعے اس کی ذات سے ابلیسیت نہیں نکالی جاتی اس وقت تک وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی رازی کو نوراللہ یاد آیا تھا
اگلے روز کا سورج ابھی طلوع ہوا ہی تھا کہ ابو مسلم رازی نے شمونہ کو بلوایا شمونہ آئی تو وہاں ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا اس کی داڑھی ابھی بالکل سیاہ تھی چہرے پر نور سر پر سبز دستار اور اس نے سبز رنگ کا چغہ زیب تن کر رکھا تھا اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی
امیر شہر ابومسلم رازی نے اسے فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد بلوا لیا تھا اور اسے بتایا تھا کہ باطنیہ فرقے کی ایک لڑکی اس کے پاس آئی ہے جو خود محسوس کرتی ہے کہ اس کے وجود میں ابلیس حلول کر آیا ہے ابو مسلم رازی نے نوراللہ کو شمونہ کے متعلق تمام تر باتیں بتائی تھیں جو نوراللہ انہماک سے سنتا رہا تھا لیکن ابو مسلم نے جب یہ کہا کہ اس لڑکی کی تربیت کرنی ہے تو نوراللہ پریشان اور بے چین ہو گیا
کیا میں کچھ دیر کے لئے اس کے پاس آیا کروں گا ؟
نور اللہ نے پوچھا
نہیں! ابومسلم رازی نے کہا یہ لڑکی ایک امانت کے طور پر آپ کے حوالے کر رہا ہوں یہ ہر وقت آپ کے زیر سایہ اور زیر تربیت رہے گی
میرے متعلق شاید آپ ایک بات نہیں جانتے نوراللہ نے کہا میں آج تک عورت کے سائے سے بھی دور رہا ہوں اور میں نے شادی بھی نہیں کی آپ اس لڑکی کو میرے حوالے کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھیں میں ہر روز یہاں آ جایا کروں گا
میں آپ کا احترام کرتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا اس احترام کی وجہ یہ ہے کہ آپ مذہب کے رنگ میں رنگے ہوئے انسان ہیں اور آپ کو اپنے نفس پر پورا پورا قابو حاصل ہوگا میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کس بنا پر عورت کے وجود سے گھبراتے ہیں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک اور باطنی فرقہ بن چکا ہے جو لڑکیوں کو اپنی تبلیغ اور تشہیر کے لیے استعمال کر رہا ہے میں حکومت کی سطح پر اس کے انسداد کا کچھ بندوبست ضرور کروں گا لیکن میں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچا ہے کہ اس لڑکی جیسی گمراہ کی ہوئی لڑکیوں کو آپ جیسے عالموں کے حوالے کر کے اس کی صحیح تربیت کی جائے آپ اس لڑکی سے بسم اللہ کریں اور اسے اپنے ساتھ لے جائیں
یہ حکم حاکم تھا جس کے آگے نوراللہ بول نہ سکا ابومسلم رازی نے شمونہ کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ کچھ دن نوراللہ کے ساتھ رہے گی
تم نے وہاں مہمان بن کے نہیں رہنا ابومسلم رازی نے شمونہ سے کہا کھانا پکانا گھر میں جھاڑو دینا اپنے اور ان کے کپڑے دھونا اور گھر کے دیگر کام تم نے کرنے ہیں تم ان کی بیوی نہیں ہوگی بلکہ نوکرانی ہوگی اور تم ان کی خدمت کرو گی جب تم خود کہوں گی کہ تمہاری ذات سے ابلیسی اثرات دھل گئے ہیں تو کسی کے ساتھ تمہاری شادی کر دی جائے گی ابومسلم رازی نے نوراللہ سے کہا کہ وہ لڑکی کو ساتھ لے جائے نوراللہ اسے ساتھ لے گیا
اپنے ہاں لے جا کر نور اللہ نے شمونہ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کی ذات میں شیطان حلول کر آیا ہے یا یہ کہ اس پر شیطان غالب ہے شمونہ نے اسے اپنی زندگی کی اس وقت تک کی روداد سنا ڈالی
اپنا من مار ڈالو نوراللہ نے کہا
یہ کیسے ہوگا؟
اپنے آپ کو مٹی میں ملا دو نوراللہ نے کہا یہ بھول جاؤ کہ تمہارا رہن سہن شہزادیوں جیسا رہا تھا اس گھر میں جھاڑو د، میں نے یہیں چھوٹی سی مسجد بنا رکھی ہے اسے صاف ستھرا رکھو دھیان ہر وقت اللہ کی ذات پر رکھو اور اپنے دماغ میں اس حقیقت کو بٹھا لو کہ تم نے ایک نہ ایک دن اس مٹی میں مل کر مٹی ہو جانا ہے اپنی نفسانی خواہشات کو اور سفلی جذبات کو کچل ڈالو
اس طرح نوراللہ نے اس کی تعلیم و تربیت شروع کر دی نوراللہ کے یہاں جب اس کے معتقد اور مرید آتے تھے اس وقت شمونہ کمرے میں چلی جاتی تھی رات کو سونے سے پہلے نوراللہ شمونہ کو اپنے سامنے بیٹھاتا تھا اور اسے مذہب کے سبق دیتا تھا اس کے بعد وہ شمونہ کو الگ کمرے میں بھیج کر اسے کہتا کہ اندر سے دروازہ بند کر لے صبح اذان کے وقت وہ شمونہ کے دروازے پر دستک دیتا اور اسے جگا کر نماز پڑھاتا تھا
دن گزرتے چلے گئے نوراللہ نے محسوس کیا کہ اس کے دل میں عورت کی جو نا پسندیدگی یا نفرت تھی وہ کم ہوتی جارہی ہے شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کے استاد کا رویہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے اس رویے میں کچھ ایسا تاثر تھا جیسے نوراللہ نے اسے قبول کر لیا ہو
ایک روز شمونہ گھر کے سارے کاموں سے فارغ ہوکر ایسی تھکان سی محسوس کرنے لگی جیسے اسے نیند آ رہی ہو وہ لیٹ گئی نوراللہ کہیں باہر چلا گیا تھا وہ آیا تو شمونہ کو نہ دیکھ کر اس کے کمرے کے دروازے میں جا کھڑا ہوا شمونہ بڑی گہری نیند سوئی ہوئی تھی وہ پیٹھ کے بل پڑی تھی اس کے سر سے اوڑھنی سرک گئی تھی اس کے چند ایک بال اس کے گورے چٹے گالوں پر آگئے تھے اس کا شباب بے نقاب تھا
نوراللہ کا ایک قدم دہلیز کے اندر چلا گیا اس نے وہ قدم پیچھے کو اٹھایا لیکن اس کی ذات سے ہی ایک قوت بیدار ہوئی جس نے اسے پیچھے ہٹنے سے روک دیا اور اس نے دوسرا پاؤں اٹھا کر دہلیز کے اندر کر دیا نوراللہ کمرے میں داخل ہوگیا لیکن ایک ہی قدم آگے بڑھا کر رک گیا
شمونہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی نہ جانے کیسا خواب تھا کہ اس کے ہونٹوں پر تبسم آگیا نوراللہ کچھ دیر شمونہ کے تبسم کو دیکھتا رہا اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا تو شمونہ کا تبسم ایسی مسکراہٹ کی صورت اختیار کر گیا جس سے اس کی دانت ذرا ذرا سے نظر آنے لگے اس مسکراہٹ میں شمونہ کے حسن میں طلسماتی سا تاثر پیدا کر دیا
نوراللہ ایک دو قدم اور آگے چلا گیا اور پھر رک گیا اس کے آگے بڑھنے اور روکنے میں اس کے اپنے ارادے اور اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں یہ ایک ایسی حرکت تھی جو اس نے اپنے ارادے سے کی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس لڑکی کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا اس کی ذات میں ایک کشمکش شروع ہو گئی تھی جسے وہ سمجھ نہ پایا
آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں نوراللہ کے کانوں سے شمونہ کی مخمور سی آواز ٹکرائی
وہ چونک کر اس کیفیت سے بیدار ہو گیا جو اس پر طاری ہو چکی تھی وہ بوکھلایا اور فوری طور پر یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ آگے بڑھے اور شمونہ کو کوئی جواب دے یا باہر چلا جائے شمونہ بڑی تیزی سے اٹھی اس کے دل میں نور اللہ کا احترام اور تقدس اتنا زیادہ تھا کہ اس پر مرعوبیت طاری رہتی تھی
آپ کس وقت آئے ؟
شمونہ نے لونڈیوں اور غلاموں جیسے لہجے میں پوچھا اور کہنے لگی میں ذرا سو گئی تھی آپ چپ کیوں ہیں کیا آپ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں
نہیں نہیں نوراللہ نے بوکھلائی ہوئی سی آواز میں کہا میں تمہیں دیکھنے اندر آ گیا تھا نہیں میں خفا نہیں ہوں وہ پیچھے مڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا
دو تین دنوں بعد نوراللہ شمونہ کو سامنے بٹھایا کچھ پڑھا رہا تھا شمونہ کا سر جھکا ہوا تھا اس کی اوڑھنی سر سے ذرا سرک گئی اس کے ریشم جیسے ملائم بال بے نقاب ہوگئے شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کا قابل احترام استاد بولتے بولتے چپ ہو گیا ہے اس نے آہستہ سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ استاد کی نظریں اس کے ماتھے پر اس طرح مرکوز تھی جیسے وہ آنکھیں جھپکنا بھول گیا ہو ایک دو لمحوں بعد اس کی نظریں شمونہ کی نظروں سے ٹکرائیں نوراللہ پر بےخودی کی کیفیت طاری تھی وہ زلزلے کے جھٹکے سے تہہ و بالا ہو گئی
شمونہ کوئی سیدھی سادی دیہاتن یا نادان بچی نہیں تھی اسے جو تربیت دی گئی تھی اس میں خاص طور پر بتایا گیا تھا کہ مرد کسی خوبصورت عورت کو کیسی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کے چہرے کا تاثر کیا ہوتا ہے
شمونہ نے وہ تاثر اپنے استاذ کے چہرے پر دیکھا اور اس نے اپنے استاد کی آنکھوں میں بھی ایک تاثر دیکھا جسے وہ اچھی طرح سمجھتی تھی لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ مذہب میں ڈوبا ہوا یہ شخص جس کا دل عورت کو گناہوں کی علامت سمجھتا ہے اسے ہوس کی نظروں سے دیکھ رہا تھا
اٹھو شمونہ! نوراللہ نے کہا آج اتنا ہی کافی ہے اب تم کھانا تیار کرو
شمونہ تو چولہے پر جاکر مصروف ہو گئی لیکن نوراللہ اپنی ذات میں ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس کرتا رہا شمونہ کا ذہن بھی پرسکون نہ تھا وہ اس سوچ میں کھوئی ہوئی تھی کہ اتنے معزز اور مقدس انسان کے چہرے پر اور آنکھوں میں ایسے تاثرات کیوں آئے تھے اس نے اپنے آپ کو یہ دھوکہ دینے کی بھی کوشش کی کہ یہ اس کی اپنی غلط فہمی ہے اور یہ اس کے استاد کا تاثر نہیں تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا استاد ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہو چکا ہے جو اس کی روح کو بھی اذیت پہنچا رہی ہے
جس قدرتی رفتار سے شب و روز گزرتے جا رہے تھے اس سے زیادہ تیز رفتار سے شمونہ اپنی ذات میں ایک پاکیزہ اور پراثر تبدیلی دیکھ رہی تھی وہ ان دنوں کو بھولتی جا رہی تھی جو دن اس نے حسن بن صباح کے گروہ میں گزارے تھے وہ صاف طور پر محسوس کر رہی تھی کہ وہ ابلیس کے جال سے نکلتی آ رہی ہے
چند دن اور گزرے دوپہر کے وقت شمونہ کچھ دیر کے لئے سو گئی یہ اس کا روز کا معمول تھا اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے استاد کو اپنی چارپائی کے قریب کھڑے دیکھا اسے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے استاد نے اس کے سر پر اور شاید گالوں پر بھی ہاتھ پھیرا تھا وہ ہاتھ کے لمس کو ابھی تک محسوس کر رہی تھی لیکن اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ہاتھ اس کے مقدس استاد کا تھا وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی
کیا آپ نے مجھے جگایا ہے ؟
شمونہ نے نوراللہ سے مسکراتے ہوئے پوچھا نوراللہ نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں ایسا جواب دیا جس میں ہاں بھی تھی نہیں بھی شمونہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی نوراللہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتا کمرے سے نکل گیا شمونہ اس روز کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی اس نے دیکھا کہ نوراللہ شام تک چپ چاپ رہا چپ رہنا اس کا معمول نہیں تھا
عصر اور مغرب کی نماز کے درمیان نوراللہ کے پاس ہر روز کی طرح اس کے شاگرد اور معتقد وغیرہ آئے تو اس نے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرکے درس نہ دیا وہ سب چلے گئے نوراللہ وہیں بیٹھا رہا شمونہ نے اسے دیکھا اور چپ رہی عشاء کی نماز کے بعد جب نوراللہ ایک کتاب کھول کر پڑھنے لگا تو شمونہ اس کے سامنے جا بیٹھی
کیوں ؟
نوراللہ نے پوچھا آج سوؤ گی نہیں
نہیں! شمونہ نے بڑی نرم آواز میں کہا میں آج آپ کے پاس بیٹھوں گی
تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے شام کو درس نہیں دیا تھا نوراللہ نے کہا میرے سر میں گرانی ہے اس وقت تمہیں بھی سبق نہیں دے سکوں گا اگر میری بتائی ہوئی کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئی ہو تو وہ پوچھ لو اور جا کے سو جاؤ
ہاں میرے مرشد! شمونہ نے کہا ایک بات ہی پوچھنی ہے یہ بات آپ نے پہلے کبھی نہیں بتائی یہ مسئلہ میرے اپنے ذہن میں آیا ہے
پوچھو! نوراللہ نے شگفتہ لہجے میں کہا اور کتاب بند کرکے الگ رکھ دی میں آپ میں ایک تبدیلی دیکھ رہی ہوں شمونہ نے کہا آپ روز بروز خاموش ہوتے چلے جا رہے ہیں
یہ میری عادت ہے نوراللہ نے کہا کبھی کبھی میں خاموش ہو جایا کرتا ہوں کچھ دن اور میری یہی حالت رہے گی
نہیں میرے مرشد! شمونہ نے کہا میں گستاخی کی جرات نہیں کر سکتی لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ آپ کی زبان نے جو کہا ہے یہ آپ کے دل کی آواز نہیں آپ مجھ سے خفا ہیں آپ کے دل میں میرے لئے ناپسندیدگی ہے
ایک بات کہوں شمونہ! نوراللہ نے کہا میرے لئے مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ میرے دل میں تمہارے لئے ناپسندیدگی نہیں تم جس پیار سے میری خدمت کر رہی ہو اس نے میرے سوچیں بدل ڈالی ہیں
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہوں میرے مرشد! شمونہ نے کہا میری عمر نہ دیکھے میری تربیت دیکھیں میں سلطان ملک شاہ کے یہاں اس تربیت کا عملی تجربہ کر آئی ہوں سلطان کا مشیر خاص احتشام مدنی جو زاہد اور پارسا تھا میرے سامنے موم کی طرح پگھل گیا تھا میں نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ آپ مجھے نادان نہ تجربے کار اور کمسن لڑکی نہ سمجھتے رہیں میں کسی بھی آدمی کے دل کی بات اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے پڑھ لیا کرتی ہوں
شمونہ! نوراللہ نے کہا تم فوراً وہ بات کیوں نہیں کہہ دیتی جو تمہارے دل میں ہے
ڈرتی ہوں میرے آقا!
مت ڈرو نوراللہ نے کہا اللہ سچ بولنے والوں کو پسند کرتا ہے
لیکن اللہ کے بندے سچ سننے کی تاب نہیں رکھتے شمونہ نے کہا اگر آپ اللہ کی خوشنودی کے طلبگار ہیں تو میں بے خوف ہو کر بات کروں گی میں بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ میں آپ کے سامنے بیٹھتی ہوں تو آپ کی آنکھوں میں وہی تاثر ہوتا ہے جو میں عام سے لوگوں کی آنکھوں میں دیکھا کرتی ہوں پھر میں نے تین بار آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ میں دن کے وقت سوئی ہوئی ہوں اور آپ میرے پاس کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں آپ نے میرے سر اور میرے منہ پر ہاتھ بھی پھیرا ہے
کیا تمہیں یہ اچھا نہیں لگا ؟
نوراللہ نے پوچھا
اگر آپ کو یوں ہی اچھا لگا ہے تو میں کچھ نہیں کہوں گی شمونہ نے کہا لیکن میں یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ میں آپ کو کتنی اچھی لگتی ہوں؟
شمونہ! نوراللہ نے لپک کر شمونہ کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے لیا تم نے میری آنکھوں میں جو پڑھا ہے ٹھیک پڑھا ہے اور تم نے غلط نہیں کہا کہ تمہیں سویا ہوا دیکھ کر میں تین چار دن تمہارے پاس جا کھڑا ہوا اور تمہیں دیکھتا رہا تھا
کس نیت سے؟
اس نیت سے کہ تمہیں اپنی زندگی کی رفیقہ بنالوں نوراللہ نے کہا کیا تم مجھے قبول کرو گی؟
نہیں میرے مرشد شمونہ نے جواب دیا
کیا میں چالیس برس کی عمر میں بوڑھا ہو گیا ہوں؟
نہیں اے مقدس ہستی شمونہ نے کہا میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کروں گی یہ بات بھی ہے کہ میں نے آپ کو کبھی اپنی سطح پر لا کر دیکھا ہی نہیں میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:18 }
میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا
مجھے شک ہے تم مجھ سے اپنی قیمت وصول کرنا چاہتی ہو نوراللہ نے غصیلے لہجے میں کہا میں تمہیں شادی کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں ہوس کاری کے لیے نہیں
اپنی محنت پر پانی نہ پھیریں میرے آقا شمونہ نے کہا میں بھٹک گئی تھی آپ نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے میں نے تو سنا تھا کہ آپ تاریک الدنیا ہیں میں بھول گئی تھی میں کون ہوں آپ نے میری آنکھوں کے آگے سے پردے ہٹادئیے میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے میری نگاہ میں آپ فرشتہ ہیں
جاؤ شمونہ نوراللہ نے کہا جاؤ سو جاؤ صرف ایک بات کہوں گا میں نے دنیا کو ترک نہیں کیا تھا دنیا نے مجھے ترک کر دیا تھا
شمونہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہ نوراللہ کی بات سننے کے لیے پھر بیٹھنے لگی تھی لیکن نوراللہ نے اسے کہا جاؤ سو جاؤ تو وہ اپنے کمرے میں چلی گئی
شمونہ کو اس کے کمرے میں بھیج کر وہ خود وہیں بیٹھا رہا اس کا ذہن پیچھے کو چل پڑا اور وہاں جاکر روکا جہاں اس کا شعور بیدار ہوا اور وہ بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچ گیا اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بچوں کے ساتھ پیار بھی کیا جاتا ہے اسے کوئی عورت یاد نہیں آئی جس نے اسے گود میں لیا ہو صرف ایک بات تھی جو اس کے ذہن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی جہاں تک اس کی یاد ماضی کے دوسرے اوفق تک جاتی تھی وہ اپنے آپ کو دجلہ کے کنارے ایک کشتی کو صاف کرتا اس میں سے پانی نکالتا کشتی میں مسافروں کا سامان رکھتا اور ساحل کی ہر قسم کی مشقت کرتا دیکھتا تھا اس وقت اس کی عمر چھ سات سال تھی جب اسے ان کاموں پر لگا دیا گیا تھا اس مشقت کے عوض اسے دو وقت کی روٹی اور اپنے آقاؤں کی پھٹکار اور دھتکار ملتی تھی
دس گیارہ سال کی عمر میں اسے بتایا گیا تھا کہ وہ اس جھوپڑی میں پیدا نہیں ہوا تھا جس جھوپڑی میں وہ رہتا تھا اور جس کے رہنے والوں کو وہ اپنا والدین سمجھتا تھا یہ لوگ ملاح تھے جو مسافروں کو کشتی کے ذریعے دریا پار کراتے تھے ایک روز اس پر یہ انکشاف ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے یہ دریا سیلابی تھا اور ایک کشتی پار والے کنارے سے اس طرف آ رہی تھی اور یہ مسافروں سے اٹی پڑی تھی کشتی اتنے زیادہ مسافروں کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں تھی کشتی دریا کے وسط میں پہنچی تو اچانک سیلاب کا زور بڑھ گیا کشتی الٹ گئی
ملاحوں نے مسافروں کو بچانے کے لیے اپنی اپنی کشتیاں دریا میں ڈال دیں لیکن سیلاب اتنا تیز و تند تھا کہ مسافر تنکوں کی طرح سیلاب میں گم ہوتے چلے جا رہے تھے ایک کشتی کو اس کے ملاح خاصا آگے لے گئے انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جس نے دودھ پیتے ایک بچے کو اپنے ہاتھوں میں لیے اس طرح اوپر اٹھا رکھا تھا کہ بچہ ڈوب نہ جائے ملاح نے کشتی اس کے قریب کرکے بچے کو پکڑ لیا دوسرے ملاح نے ہاتھ لمبا کیا کہ عورت کو بھی سیلاب میں سے نکال لے لیکن عورت میں اتنی تاب نہیں رہی تھی کہ وہ دو گز اور تیر سکتی اس نے دیکھا کہ بچہ بچ گیا ہے تو اس نے اپنے آپ کو سیلاب کے حوالے کردیا اور ملاحوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی
اس بچے کو ملاحوں نے اس طرح پالا کہ اسے کبھی بکری کا دودھ پلایا اور کبھی اونٹنی کا وہ چار پانچ سال کا ہوا تو اسے کشتی رانی کی مشقت پر لگا دیا
ان ملاحوں نے اس بچے کا نام نوراللہ رکھا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھے
نوراللہ کو دس گیارہ سال کی عمر میں پتہ چلا کہ اس کے ماں باپ دریا میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے پالا تھا تو اس کے دماغ میں جو دھماکا ہوا وہ اسے چالیس برس کی عمر میں بھی یاد تھا وہ اسی کو زندگی سمجھتا تھا جس میں ملاحوں نے اسے ڈال دیا تھا لیکن اس انکشاف نے اس پر ایسی کیفیت طاری کر دی جسے وہ بھٹکا ہوا راہی ہوں اور اپنی منزل کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو
ایک روز کشتی سے مسافر اترے تو ایک امیر کبیر آدمی نے اسے کہا کہ اس کا سامان اٹھا کر وہاں تک پہنچا دے جہاں سے اونٹ مل جاتے ہیں نوراللہ نے اس کا سامان وہاں تک پہنچا دیا اور واپس چل پڑا، اس آدمی نے اسے بلایا اور ایک دینار اجرت دی دس گیارہ سال عمر کا نوراللہ دینار کو ہاتھ لگاتے ڈرتا تھا اس آدمی نے اسے کہا کہ یہ اس کا حق ہے
دنیا میں میرا کوئی حق نہیں نوراللہ نے کہا کسی پر میرا حق نہیں میں مشقت کرتا ہوں اور روٹی اور رات کو جھوپڑی کی چھت مل جاتی ہے ذرا سی سستی کرو تو مجھے مارا پیٹا جاتا ہے میں یہ اجرت لے کر جاؤں گا تو وہ لوگ مجھ سے چھین لیں گے تمہارا باپ ہے؟
نہیں اسی دریا میں ڈوب گیا تھا
ماں ہے؟
نہیں وہ بھی ڈوب گئی تھی
کوئی بھائی کوئی چچا ماموں
نوراللہ نے اسے وہ سارا واقعہ سنا دیا جو کچھ دن پہلے اسے سنایا گیا تھا
میرے ساتھ چلو گے؟
اس امیرکبیر آدمی نے پوچھا اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر کہا تنخواہ بھی ملے گی روٹی بھی ملے گی کپڑے بھی ملیں گے اور رہنے کو بہت اچھی جگہ ملے گی
نوراللہ نے یہ پہلا شخص دیکھا جس نے اس کے ساتھ پیار سے بات کی تھی اور اسے اس قابل سمجھا تھا کہ اسے اچھی جگہ رکھا جائے اچھی قسم کا روٹی کپڑا دیا جائے اور اجرت بھی دی جائے وہ وہیں سے اس شخص کے ساتھ چل پڑا
دونوں کرائے کے ایک ہی اونٹ پر سوار ہوئے اور شام کو شتربان نے انہیں ایک بڑے شہر میں پہنچا دیا یہ شہر نیشا پور تھا یہ آدمی وہی کا رہنے والا تھا اس کی حویلی بڑی ہی شاندار تھی وہاں اس شخص کی دو بیویاں رہتی تھیں ایک ادھیڑ عمر اور دوسری نوجوان تھی نوراللہ کو اس گھر میں نوکر رکھ لیا گیا وہاں ایک عورت پہلے سے ملازم تھی
نوراللہ روزمرہ کے کام کاج کرتا رہا اسے اتنی زیادہ سہولت میسر آ گئی تھی کہ وہ یوں سمجھتا تھا جیسے جہنم سے نکل کر جنت میں آگیا ہو کھانے پینے کو اتنا اچھا ملتا تھا کہ گیارہ بارہ سال کی عمر میں وہ سولہ سترہ سال کا نوجوان نظر آنے لگا
ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا
ایک روز اس کا آقا اپنی ادھیڑ عمر بیوی اور بچوں کو ساتھ لے کر کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر چلا گیا پیچھے اس کی نوجوان بیوی رہ گئی اس سے اگلی رات کا واقعہ ہے ملازمہ اپنا کام کاج ختم کر کے جا چکی تھی نوراللہ کو ایسے شک ہوا جیسے کوئی آدمی حویلی کے صحن میں سے گزرا ہے اس نے اٹھ کر دیکھا ایک آدمی اس کی نوجوان مالکن کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا ،نوراللہ دوڑ کر گیا دروازہ بند ہوچکا تھا اس نے دروازے پر دستک دی دروازے کھلا اور مالکن باہر آئی
کیا ہے؟
مالکن نے پوچھا
یہ کون ہے جو اندر آیا ہے؟
نوراللہ نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے پوچھا
تم کون ہو پوچھنے والے ؟
حسین اور نوجوان مالکن نے بڑے رعب سے پوچھا
میں آقا کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں نوراللہ نے کہا آقا کہہ گئے ہیں کہ گھر میں تم ہی ایک مرد ہو گھر کا خیال رکھنا
مالکن نے اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا تھپڑ کی آواز پر وہ آدمی جو کمرے میں گیا تھا باہر نکل آیا
کون ہے یہ؟
اس شخص نے پوچھا
میرا پہرے دار بن کے آیا ہے لڑکی نے کہا میں اس کی زبان ہمیشہ کے لئے بند کر دوں گی
اس شخص نے نوراللہ کو بازو سے پکڑا گھسیٹ کر اندر لے گیا اور اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دیا پھر اس کی شہ رگ پر پاؤں رکھ کر دبا دیا اور خنجر نکال کر اس کے اوپر جھکا
میں اس کا پیٹ چیر دوں گا اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کے پیٹ پر رکھ کر کہا اس کی لاش باہر کتوں کے آگے پھینک دوں گا
آج اسے معاف کر دو نوجوان مالکن نے اپنے آشنا کو پَرے ہٹاتے ہوئے کہا یہ زبان بند رکھے گا اس نے کبھی بھی زبان کھولی تو اس کے دونوں بازو کاٹ کر اسے جنگل میں پھینک دینگے پھر اسے گیدڑ اور بھیڑیے کھائیں گے
نوراللہ اٹھ کھڑا ہوا وہ سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا
وعدہ کر کے تو زبان بند رکھے گا اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کی شہہ رگ پر رکھ دی اور کہا خاموشی سے چلا جا اور خاموش رہنا
نوراللہ ظلم و تشدد سے بہت ڈرتا تھا وہ چپ چاپ خوفزدگی کی حالت میں اپنے کمرے میں چلا گیا
اس کے بعد اس کے آقا کی واپسی تک یہ آدمی دو تین مرتبہ رات کو اس کی مالکن کے پاس آیا اور نوراللہ اپنے کمرے میں دبکا پڑا رہا اس کا آقا واپس آیا تو نوراللہ کی جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنے آقا کو بتاتا کہ اس کی غیر حاضری میں یہاں کیا ہوتا رہا ہے
ایک بار چھوٹی مالکین نے نوراللہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور پیار سے بات کرنے کی بجائے اسے پھر وہی دھمکی دی کہ اس کا پیٹ پھاڑ کر یا بازو کاٹ کر اسے بھیڑیوں کتوں اور گیدڑوں کے آگے پھینک دیا جائے گا
نور اللہ کا کوئی مذہب نہیں تھا نہ اس نے کبھی سوچا تھا کہ مذہب کے لحاظ سے وہ کون اور اس کا آقا کون ہے نہ اس نے خود کبھی عبادت کی تھی نہ اس نے اپنے آقا یا اس کی بیویوں کو عبادت کرتے دیکھا تھا اس میں یہ احساس بیدار ہو گیا تھا کہ مذہب انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے اس سے تین چار آدمی پوچھ چکے تھے کہ وہ مسلمان ہے یا عیسائی وہ کسی کو بتاتا کہ وہ مسلمان ہے اور کسی کو عیسائی بتاتا ایک بار ایک آدمی نے اسے کہا تمہارا آقا تو باطنی معلوم ہوتا ہے اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ باطنی کیا ہوتے ہیں
ایک رات اس کے آقا نے اسے شراب لانے کو شراب خانے بھیجا وہ مسجد کے قریب سے گزرا عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور خطیب درس دے رہا تھا نوراللہ کے کانوں میں خطیب کے یہ الفاظ پڑے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہمیں ان لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام نازل ہوا ہے نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا خطیب سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کر رہا تھا نوراللہ کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے اسے صرف یہ احساس ہوا کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے
نوراللہ جلدی میں تھا اس کا آقا شراب کے انتظار میں تھا وہ دوڑا گیا شراب خریدی اور اپنے آقا کو جا دی اس کے ذہن میں خطیب کے یہ الفاظ اٹک کے رہ گئے تھے جو اس نے مسجد کے دروازے میں کھڑے ہو کر سنے تھے وہ بھی مدد اور سیدھے راستے کی رہنمائی کا طلب گار تھا
اگلی رات نوراللہ روزمرہ کے کام کاج سے فارغ ہو کر مسجد کے دروازے پر جا پہنچا خطیب روزمرہ کی طرح درس دے رہا تھا نوراللہ دروازے میں جا کر کھڑا ہوگیا خطیب نے اسے دیکھا تو اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ ڈرتے جھجکتے خطیب کے پاس چلا گیا
دروازے میں کھڑے کیا کر رہے تھے؟
خطیب نے پوچھا
آپ کی باتیں سن رہا تھا نوراللہ نے جواب دیا کل باہر کھڑا سنتا رہا ہوں
مسلمان ہو؟
معلوم نہیں نوراللہ نے بڑی سادگی سے جواب دیا میں یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں اس وقت ایک شیخ کے گھر ملازم ہوں
خطیب نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور اسے بتایا کہ جس شیخ کا اس نے نام لیا ہے وہ بے دین ہے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کس فرقے کا آدمی ہے اور اس کا عقیدہ کیا ہے ؟
کل سے تم میرے پاس آ جایا کرو خطیب نے اسے بڑے پیار سے کہا اب تم چلے جاؤ
اگلے روز سے نوراللہ خطیب کے پاس جانا شروع کر دیا اس نے خطیب کو بتایا کہ اس کے ماں باپ سیلاب میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے سیلاب سے نکالا تھا اس نے خطیب کو اپنی گزری ہوئی زندگی کا ایک ایک لمحہ سنایا خطیب نے اسے پڑھانا لکھانا شروع کردیا یہ خالصتاً دینی تعلیم تھی نوراللہ نے اس میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا تقریباً ایک سال بعد اس نے خطیب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس شیخ کی نوکری چھوڑ کر خطیب اور مسجد کی خدمت کرنا چاہتا ہے خطیب نے اسے اپنے پاس رکھ لیا
نوراللہ نے پندرہ سال اس خطیب کے ساتھ گزارے اور دین کے امور میں خاصی دسترس حاصل کر لی خاص بات یہ ہوئی کہ اس کے ذہن میں ابلیس اٹک گیا اس کا عقیدہ بن گیا کہ ہر برا کام ابلیس کرواتا ہے
دوسری خاص بات یہ ہوئی کہ خطیب کی ایک ہی بیوی تھی جو صرف تین سال کی رفاقت کے بعد مر گئی اور خطیب نے دوسری شادی نہ کی خطیب نے کسی کو بھی نہ بتایا کہ اس نے دوسری شادی کیوں نہیں کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ اسے اس بیوی سے اتنا زیادہ پیار تھا کہ اس نے کسی اور عورت کو قبول ہی نہ کیا یا یہ بات تھی کہ اس بیوی سے وہ اس قدر نالاں تھا کہ مر گئی تو خطیب نے شادی سے توبہ کرلی وجہ جو کچھ بھی تھی خطیب نے اپنے شاگرد نوراللہ کو عورت سے متنفر کردیا اور اس کے ذہن میں یہ عقیدہ ڈال دیا کہ عورت گناہوں کی علامت ہوتی ہے اور ابلیس عورت کے زیادہ قریب ہوتا ہے
چند برس اور گزرے تو خطیب فوت ہوگیا نوراللہ ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ وہ مسجد کو بھی چھوڑ گیا اور جنگل میں ایک کٹیا سی بنا کر وہاں جا ڈیرہ لگایا اب وہ عالم دین کہلانے کے قابل ہو چکا تھا خطیب کے جو شاگرد تھے وہ نوراللہ کے پاس جنگل میں پہنچنے لگے اور نوراللہ نے انہیں درس دینا شروع کر دیا اس کی شہرت اور اس کا نام ابو مسلم رازی تک پہنچا ابومسلم رازی رے کا امیر شہر تھا دینی علوم سے اسے روحانی لگاؤ تھا وہ اتنی دور جنگل میں جا کر نوراللہ سے ملا اور اس سے متاثر ہوا متاثر بھی اتنا ہوا کہ ایک روز اس کے لئے سواری ساتھ لے کر اسے اس میں بٹھایا اور اپنے شہر میں لے آیا شہر میں اسے بڑا اچھا مکان دیا اور کہا کہ یہاں وہ جو جی چاہے کرے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دے لوگ اس کے پاس آنے لگے بعض لوگ اس سے اتنا زیادہ متاثر ہو گئے تھے کہ اس سے غریب کا حال معلوم کرتے تھے وہ زیادہ تر ابلیس اور عورت پر زور دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ان دو چیزوں سے اپنے جسم اور اپنی روح کی حفاظت کرو
آج نوراللہ اسی مکان میں بیٹھا تھا جو اسے ابومسلم رازی نے دیا تھا لیکن اس پر جو کیفیت طاری تھی وہ کوئی اجنبی دیکھتا تو یہ تسلیم نہ کرتا کہ یہ شخص عالم فاضل ہے وہ اسے ذہنی مریض سمجھتا اسے اپنا ماضی یاد آرہا تھا شمونہ اپنے کمرے میں گہری نیند سو گئی تھی اسے احساس ہی نہیں تھا کہ نوراللہ کے وجود میں اور جذبات میں وہ کیسے زلزلے برپا کر آئی ہے
اسی نوراللہ نے جس نے ہمیشہ یہ سبق دیے تھے کہ عورت سے دور رہو شمونہ سے کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے لیکن شمونہ جو گنہگاروں کی پروردہ تھی گناہوں کی دنیا سے نکل کر پارسائی میں داخل ہو گئی تھی اس شمونہ نے نوراللہ سے کہہ دیا تھا میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کرونگی شمونہ نے یہ بھی کہا تھا میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا
نوراللہ کی آنکھوں کے آگے سے اس کا پورا ماضی تیز رفتار گھوڑا گاڑیوں کی قطار کی مانند گزر گیا وہ اپنے وجود میں پیاس کی تلخی محسوس کر رہا تھا ایک تشنگی تھی کچھ محرومیاں تھیں جو کانٹوں کی طرح اس کے حلق میں چبھ رہی تھی تلخی بڑھتی چلی گئی
دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ذات سے ایک شعلہ اٹھا جس نے اس کے علم و فضل کو جلا ڈالا
وہ اپنے لئے اجنبی بن گیا
وہ بڑی تیزی سے اٹھا اور اس کمرے میں داخل ہو گیا جس میں شمونہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی اس رات شمونہ نے دروازہ بند نہیں کیا تھا کیونکہ اسے توقع تھی کہ نوراللہ اسے بلائے گا وہ لیٹی اور نیند نے اسے دبوچ لیا
نوراللہ اس کے پلنگ پر جا بیٹھا کمرہ تاریک تھا برآمدے میں جلتے ہوئے دیے کی ہلکی ہلکی روشنی دروازے سے اندر آ رہی تھی جس میں سوئی ہوئی شمونہ کا سراپا دھندلا سا نظر آ رہا تھا
شمونہ گہری سانسیں لے رہی تھی نوراللہ کی سانسیں بے قابو سی ہو گئی اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اس نے ہاتھ شمونہ کی طرف بڑھایا یہ ہاتھ کچھ لرزتا ہوا آہستہ آہستہ شمونہ کے پر شباب جسم کی طرف بڑھ رہا تھا ہاتھ جب شمونہ کے جسم کے قریب گیا تو آسمان پر اچانک گھٹاؤں کی گرج سنائی دی نوراللہ نے یکلخت ہاتھ پیچھے کھینچ لیا جیسے چوری کرتے عین موقعے پر پکڑا گیا ہو جب اسے احساس ہوا کہ یہ گھٹاؤں کی گرج تھی تو اس کے دل کو حوصلہ ملا
آپ! شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا یہاں کیوں؟
مت گھبراو شمونہ! نوراللہ نے شمونہ کا ہاتھ چھوڑے بغیر کہا آج وہ پیاس مجھے جلا کر راکھ کر رہی ہے جسے میں نے پہلے کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا میری ایک بات سن لو
شمونہ کچھ ایسی ڈری کے وہ پلنگ پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کو سرکنے لگی نوراللہ نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف بڑے آرام سے کھینچا
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا نوراللہ نے ایسی آواز میں کہا جو اس کی قدرتی آواز لگتی ہی نہیں تھی مجھے بہن کا پیار نہیں ملا میں بیٹی کے پیار سے محروم رہا میں نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ لگا کر بھی نہیں دیکھا لیکن تم میرے قریب آئی تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ جس عورت کو میں نفرت کی علامت سمجھتا رہا ہوں وہ پیار کا سرچشمہ ہے تم ہو وہ سرچشمہ مجھ سے دور نہ ہٹو اس نے شمونہ کو ذرا زور سے اپنی طرف کھینچا
نہیں میرے مرشد! شمونہ نے روندھی ہوئی سی آواز میں کہا میں بدی سے نیکی کی طرف شر سے خیر کی طرف آئی ہوں مجھے اس راستے پر آپ نے ہی ڈالا تھا آپ اس طرف نہ جائیں جدھر سے میں واپس آئی ہوں مجھے اللہ اور ابلیس کے درمیان بھٹکتا نہ چھوڑیں
میری بات سمجھنے کی کوشش کرو شمونہ! نوراللہ نے ایسی ڈگمگائی ہوئی آواز میں کہا جیسے وہ نشے میں ہو تھوڑی سی دیر کے لئے مجھے بھٹک جانے دو مجھے پیاسا نہ لوٹاؤ
آسمان پر بجلی بڑی زور سے کڑکی پھر گھٹا گرجی اور اس کے ساتھ ہی طوفان باد باراں شروع ہو گیا دروازے کے کھلے کواڑ زور زور سے بجنے لگے برآمدے میں دیا بجھ گیا نوراللہ نے شمونہ کو اپنی طرف کھینچا شمونہ کا سینہ بڑی زور سے نوراللہ کے سینے سے ٹکرایا نوراللہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسے اپنے بازوؤں میں لینے لگا تو شمونہ اچھل کر پیچھے ہٹی اور بڑی زور سے ایک تھپڑ نوراللہ کے منہ پر مارا
تم لوگوں کو جس ابلیس سے ڈراتے ہو شمونہ نے بڑے ہی غضب ناک لہجے میں کہا وہ ابلیس تم خود ہو
شمونہ اچھل کر پلنگ سے اٹھی اور فرش پر کھڑی ہو گئی اسے توقع ہوگی کہ نوراللہ اس پر جھپٹے گا لیکن اندھیرے میں نوراللہ کے قدموں کی آہٹ ابھری جو شمونہ کی طرف بڑھنے کی بجائے دروازے کی طرف جا رہی تھی شمونہ وہیں دبکی کھڑی رہی نوراللہ باہر نکل گیا شمونہ کو اب یہ خوف محسوس ہونے لگا کہ نوراللہ رسی لینے گیا ہے اور وہ اسے باندھ لے گا یا چھری چاکو لا کر اسے قتل کر دے گا ڈر کے مارے وہ پلنگ کے نیچے چھپ گئی
نوراللہ صحن میں چلا گیا بارش بہت ہی تیز تھی اور اس کے ساتھ جھکڑ اور زیادہ تیز و تند تھا
مجھے سکون دو نوراللہ نے بڑی بلند آواز میں کہا مجھے انسان کامل بنا دو
شمونہ نے یہ آواز سنی اور پلنگ کے نیچے دبکی رہی
نوراللہ پر دیوانگی طاری ہو چکی تھی وہ اسی حالت میں باہر نکل گیا شہر کے لوگوں نے طوفان باد باراں کی بھیانک شور و غل میں بڑی بلند آوازیں سنیں مجھے سکون دو میں جل رہا ہوں میرے اللہ بادباراں کو اور تیز کردے میری روح کو تلخیوں سے نجات دلادے
شہر کے لوگوں نے یہ آوازیں مسلسل سنیں اور یہ دور ہٹتی گئیں اور پھر طوفان کے شوروغل میں تحلیل ہو گئی اور لوگ یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ کسی کی بھٹکی ہوئی مظلوم بد روح ہے جو فضا میں چیختی چلاتی جا رہی ہے
شمونہ پلنگ کے نیچے چھپی کانپ رہی تھی
نوراللہ شہر سے نکل کر جنگل میں چلا گیا اور وہ بازو پھیلائے چلاتا چلا جا رہا تھا کہ مجھے سکون دو شہر سے کچھ دور چھوٹی سی ایک ندی تھی جس میں بچے بھی گزر جایا کرتے تھے لیکن اوپر اتنی زور کا مینہ برسا تھا کہ ندی میں طغیانی آ گئی تھی ہر طرف پانی ہی پانی تھا ندی پانی میں ہی کہیں چھپ گئی تھی نوراللہ کچھ اور آگے گیا تو ایک ٹہن درخت سے ٹوٹ کر اس طرح گرا کے نوراللہ کے سر پر لگا وہ تو پہلے ہی دیوانگی کے حالت میں تھا اسے یہ احساس بھی نہ تھا کہ جا کہاں رہا ہے سر پر ٹہن گرا تو اس پر غشی طاری ہونے لگی وہ گرا تو چند قدم آگے ندی کے کنارے پر گرا کنارہ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا سیلاب نوراللہ کو اپنے ساتھ ہی بہا لے گیا
اسے اللہ نے سیلاب میں نئی زندگی دی تھی اور یہ زندگی سیلاب نے ہی واپس لے لی شمونہ صبح تک پلنگ کے نیچے چھپی رہی صبح ڈرتے ڈرتے باہر نکلی تو نوراللہ وہاں نہیں تھا طوفان تھم چکا تھا شمونہ گھر سے نکلی اور ابو مسلم رازی کے یہاں چلی گئی اور اسے رات کی ورادات سنائی
ابلیس ہر انسان کی ذات میں موجود ہوتا ہے ابو مسلم رازی نے شمونہ سے کہا ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ابلیس انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تمہارا اب کیا ارادہ ہے؟
میں آپ کی پناہ میں آئی تھی شمونہ نے التجا کی مجھے اپنی پناہ میں رکھیں یہ تو میرا ایک ارادہ ہے میرا ایک ارادہ اور بھی ہے آپ نے کہا ہے کہ ایک خوبصورت عورت کسی کے بھی ایمان کو سُلا کر ابلیس کو بیدار کر سکتی ہے یہ آپ نے ٹھیک کہا ہے حسن بن صباح لوگوں کو اور امراء وزراء کو اپنا مرید بنانے کے لیے عورت کی یہی طاقت استعمال کر رہا ہے میں اس کی اس طاقت کو زائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں اس ارادے کی تکمیل کے لئے میں آپ کے زیر سایہ رہنا چاہتی ہوں
اسی روز شہر میں مشہور ہو گیا کہ رات کو ایک بے چین بدروح طوفان باد باراں میں چلاتی گزر گئی تھی مجھے سکون دو مجھے سکون دو یہ باتیں امیر شہر تک پہنچی تو شمونہ نے بھی سنی اس نے بتایا کہ یہ الفاظ نوراللہ نے اپنے گھر کے صحن میں کہے تھے پھر وہ باہر نکل گیا تھا وہی باہر بھی یہی نعرہ لگا کے گیا ہوگا
تیسرے چوتھے دن شہر میں کچھ دور آگے ایک جگہ نوراللہ کی لاش مل گئی
تو کڑیاں ملاتے یہ کہانی سامنے آئی جو داستان گو نے سنائی ہے یہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا یہ آگے چل کر سنایا جائے گا کہ شمونہ نے اس داستان میں کیا رول ادا کیا تھا
حسن بن صباح اپنی گرفتاری کی اطلاع قبل از وقت مل جانے سے رے سے فرار ہوگیا تھا اس نے خلجان پہنچنا تھا وہ اپنے خاص آدمیوں کو کہہ گیا تھا کہ شمونہ کو بھی خلجان پہنچا دینا وہاں وہ اسے سزائے موت دینا چاہتا تھا وہ خود بھی خلجان نہ پہنچ سکا تاریخ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خلجان کی طرف اونٹ پر جا رہا تھا وہ شتر بانوں کے بھیس میں تھا اس کی رفتار معمول کے مطابق تھی تاکہ کسی کو شک نہ ہو اس نے ابھی آدھا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ پیچھے سے ایک تیز رفتار گھوڑسوار گیا اور اسے جالیا وہ حسن بن صباح کے اپنے گروہ کا آدمی تھا
کیا خبر لائے ہو ؟
حسن نے اس سے پوچھا
خلجان نہ جائیں گھوڑ سوار نے کہا ہمارا خیال ہے سلجوقی امیر کو شک ہو گیا ہے کہ آپ خلجان جا رہے ہیں شاید وہ لوگ آپ کے تعاقب میں آئیں گے کسی اور طرف کا رخ کرلیں
حسن رک گیا کچھ دیر سوچا
میں اصفہان چلا جاتا ہوں اس نے کہا تم خلجان چلے جاؤ وہاں کے امیر احمد بن عطاش کو ساری بات سنا کر بتانا کے میں اصفہان جا رہا ہوں وہاں میرا ایک پرانا دوست رہتا ہے نام ابوالفضل ہے ہم امام موافق کے مدرسے میں اکٹھے پڑے تھے اب اس کا شمار شہر کے رئیسوں میں ہوتا ہے وہ مجھے پناہ دے گا اور مدد بھی کرے گا
احمد بن عطاش سے کہنا کہ میں کچھ دنوں بعد خلجان پہنچ جاؤں گا اور یہ بھی کہنا کہ شہر میں کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اس کے پیچھے اپنے جاسوس ڈال دو وہ سلجوقیوں کا جاسوس ہو سکتا ہے اسے زندہ نہیں چھوڑنا
میں آپکی بات سمجھ گیا ہوں گھوڑ سوار نے کہا ہمیں یہاں زیادہ دیر رکنا نہیں چاہیئے
گھوڑسوار خلجان کی طرف اور حسن بن صباح اصفہان کی طرف چلا گیا
تاریخ سے پتہ نہیں چلتا وہ کتنے دنوں بعد اصفہان پہنچا ابوالفضل اصفہانی کے گھر کا راستہ پوچھا اور اس کے گھر جاپہنچا ابوالفضل کو ملازم نے اندر جا کر اسے بتایا کہ ایک شتربان آیا ہے
ابوالفضل نے کہا کہ اس نے کسی شتربان کو نہیں بلایا نہ کسی شتربانوں کی اجرت اس کے ذمے ہے
اس سے پوچھو کیوں آیا ہے؟
ابوالفضل نے ملازم سے کہا
آقا پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟
ملازم نے باہر جاکر حسن سے پوچھا ان کا کسی شتربان سے کوئی کام نہیں ہو سکتا
آقا سے کہو یہ شتربان آپ سے ملے بغیر نہیں جائے گا حسن بن صباح نے کہا
ملازم اندر گیا اور واپس آکر وہ حسن کو اندر لے گیا معمولی سے ایک کمرے میں بٹھایا ایک تو وہ شتر بانوں کے لباس میں تھا دوسرے وہ بڑی مسافت طے کر کے آیا تھا چہرے پر تھکن کے آثار بھی تھے ابوالفضل اصفہانی اس کمرے میں گیا تو وہ حسن کو پہچان نہ سکا حسن نے قہقہہ لگایا تو ابوالفضل نے اسے پہچانا اور اسے اس کمرے میں لے گیا جس میں اعلی رتبہ کے مہمانوں کو بٹھایا جاتا تھا
وہ کچھ دیر مدرسے کے زمانے کی باتیں کرتے رہے پھر ابوالفضل نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے؟
یوں سمجھو آسمان سے گرا ہوں حسن بن صباح نے کہا میں مرو سے آیا ہوں سلطان ملک شاہ نے مجھے اپنا معتمد خاص بنا لیا تھا یہ تو تم جانتے ہو کہ ہمارا پرانا دوست نظام الملک سلطان ملک شاہ کا وزیراعظم ہے حسن بن صباح نے جھوٹ بولا سلطان مجھے اپنا وزیراعظم بنا رہا تھا لیکن نظام الملک نے خفیہ طریقے سے سلطان کو میرا دشمن بنا دیا اور پھر مجھے عہدے سے معزول کرا کے شہر بدر کروا دیا
دبستان مذاہب کے حوالے سے آئمہ تلبیس میں لکھا ہے کہ ابو الفضل نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
میں سلجوقی سلطنت کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے تم جیسے دو دوست مل جائیں تو میں اس ترک ملک شاہ اور خواجہ حسن طوسی کا جو نظام الملک بنا پھرتا ہے پہلے خاتمہ کر دوں
ابوالفضل چپ رہا اتنے میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا
ابوالفضل نے ایک الماری سے ایک شیشی نکالی اور اس میں جو سفوف پڑا ہوا تھا اس میں ذرا سا سفوف ایک پیالے میں پانی ڈال کر گھولا
لو حسن! اس نے پیالا حسن کو دیتے ہوئے کہا یہ پی لو
یہ کیا ہے ؟
اس نے پوچھا
یہ دماغی تقویت کے لئے ایک دوائی ہے ابوالفضل نے کہا تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے کہ تھکان نے تمہارا دماغ شل کر دیا ہے ورنہ تم ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کرتے کہ تم سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک کا خاتمہ کر دو گے حالانکہ تمہیں پوری طرح احساس ہے کہ سلجوقی نہ آتے تو اسلام کی بنیادیں جو کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی تھیں پوری عمارت کو لے بیٹھتیں مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ان فرقوں کے اندر فرقے بن رہے ہیں اسلام کی توڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے سلجوقیوں نے اسلام کی بنیادیں مضبوط کر دی ہیں اور قرآن کے اس فرمان کے مطابق کے امت ایک جماعت ہے ایک جماعت کی حکومت قائم کردی ہے تم جیسا مسلمان یہ کہے کہ وہ سلطنت سلجوق کا خاتمہ کر دے گا تو یہ ثبوت ہے کہ وہ دماغی توازن کھو بیٹھا ہے یا کسی وجہ سے اس کے دماغ پر عارضی اثر ہوگیا ہے تمہارے دماغ پر سفر کی تھکان کا اثر ہے یہ دوائی پی لو دماغ تروتازہ ہو جائے گا
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے لکھا ہے حسن بن صباح اپنے پرانے دوست ابوالفضل اصفہانی کے ہاں پناہ اور مدد امداد کے لیے گیا تھا لیکن اس کے دوست نے اسے دماغی خرابی کا مریض قرار دے دیا
حسن کو ایک مایوسی تو یہ ہوئی کہ اس کا دوست سلجوقیوں کا حامی ہی نہیں بلکہ پیروکار نکلا اس کے ساتھ ہی اسے خطرہ محسوس ہوا کہ ابو الفضل کو اس کی اصلیت اور گرفتاری سے فرار کا پتہ چل گیا تو وہ اسے گرفتار کرا دے گا
حسن بن صباح نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے اور رسول اللہﷺ کا شیدائی ہے اسماعیلیوں میں جاتا تو اپنے آپ کو اسماعیلی بتاتا تھا حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنا ہی ایک فرقہ بنا رہا تھا اور اس نے نبوت کا دعوی کرنا تھا اس نے ابو الفضل کے ہاتھ سے پیالہ لے کر دوائی پی لی کھانا کھایا اور باتوں میں محتاط ہوگیا ابوالفضل نے اسے جلدی سلا دیا
وہ صبح بہت جلدی جاگ اٹھا اپنے میزبان سے کہا کہ وہ اس سے رخصت چاہتا ہے وہ وہاں سے بھاگنے کی فکر میں تھا ابوالفضل کے گھر سے نکل کر وہ خلجان کی طرف روانہ ہو گیا وہاں گرفتاری کا خطرہ تو تھا لیکن وہ احمد بن عطاش سے مل کر آئندہ پروگرام بنانا چاہتا تھا
دو تین دنوں کی مسافت طے کر کے وہ خلجان پہنچ گیا اس کا بہروپ اتنا کامیاب تھا کہ احمد بن عطاش بھی اسے نہ پہچان سکا اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ گرفتاری کا خطرہ ابھی ہے یا ٹل گیا ہے دوسری بات یہ پوچھی کہ شمونہ آئی ہے یا نہیں؟
شمونہ کے متعلق اسے بتایا گیا کہ نہیں آئی البتہ یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ فرار ہو گئی ہے
اس صورت میں اسے قتل کرنا ضروری ہے حسن بن صباح نے کہا اسے یہاں لاکر قتل کرنا تھا لیکن اب وہ ہمارے لیے زیادہ خطرناک ہوگئی ہے اگر وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی تو ہمارا سارا کھیل بے نقاب ہو جائے گا
تمہیں یہاں سے نکالنے کی ایک بڑی اچھی صورت پیدا ہوگئی ہے احمد بن عطاش نے کہا مصر کے دو عالم آئے ہیں تم جانتے ہو کہ مصر پر اسماعیلیوں کی حکومت ہے وہ میرے مہمان اس طرح ہوئے کے ہمیں وہ اسماعیلی سمجھتے ہیں میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم اسماعیلی فرقے کے لوگ ہیں یہ دونوں تبلیغ کے لیے آئے ہیں ان میں ایک داعی الکبیر کہلاتا ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ اسے ایسے ذہین اور پراثر گفتار والے آدمی دیے جائیں جو اسماعیلی عقائد اور مسلک کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو اس فرقے میں لائیں
میں ان میں شامل ہو جاتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مصر جانے کے ارادے سے یہ تو میں پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ مصر جاؤ اور وہاں کے حکمرانوں کو قائل کروں کہ وہ سلجوقیوں پر حملہ کریں اور ہم انہیں نفری اور دیگر ضروریات کی مدد دیں گے ہمارا پہلا شکار سلجوقی سلطنت ہے اس کا ہم نے خاتمہ کر دیا تو اس پر قابض ہونے والوں کے ہم پاؤں نہیں لگنے دیں گے
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مصر پر عبیدیوں کی حکمرانی تھی جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اسماعیلی ہیں لیکن وہ باطنی تھی یہ جو دو عالم خلجان گئے اور احمد بن عطاش سے ملے اسماعیلی ہی تھے جو اپنے فرقے کے مبلغ تھے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھی معلوم نہیں تھا کہ مصر کے حکمران اسماعیلی نہیں بلکہ باطنی ہے
ایک روایت یہ بھی ہے کہ دونوں عالم دراصل باطنی تھے اور اسماعیلیت کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھرتے تھے داستان گو کے لیے یہ عالم کوئی ایسے اہم نہیں کہ ان کے متعلق حتمی طور پر کہیں کہ وہ کس فرقے کے لوگ تھے اہم بات یہ ہے کہ حسن بن صباح مصر جانا چاہتا تھا اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان عالموں سے ملا اور تبلیغ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں دوسروں پر اپنا طلسم طاری کرنے کا ڈھنگ اسے آتا تھا اس کی زبان میں جادو کا اثر تھا اس نے عالموں کو متاثر کر لیا اور انہوں نے اسے تبلیغ کے لیے رکھ لیا حسن نے انہیں کہا کہ وہ اپنے علاقے میں تبلیغ کرنے کی بجائے مصر چلا جائے تو زیادہ بہتر ہے اس نے ایسے دلائل دیے جن سے یہ عالم متاثر ہو گئے اور اسے مصر جانے کے لیے تمام سہولتیں اور رقم وغیرہ دے دیں حسن مصر کو روانہ ہو گیا اپنے دو آدمیوں کو ساتھ لے گیا
دو مہینوں کے سفر کے بعد حسن بن صباح مصر پہنچ گیا اور سیدھا اس وقت کے حکمران کے پاس گیا اس نے حکمران کو بھی متاثر کر لیا لیکن اسے یہ نہ بتایا کہ وہ اسماعیلی عقائد کی تبلیغ کرنے کے لیے آیا ہے اس نے حکمران پر دھاک بٹھانا شروع کر دی کہ وہ بہت بڑا عالم ہے اور وہ وزارات کے رتبے کا آدمی ہے اس نے اپنے متعلق یہ بھی بتایا کہ وہ غیب دان بھی ہے اور آنے والے وقت کی پیشنگوئی بھی کر سکتا ہے
عبیدی حکمران اتنے کچے نہیں تھے کہ فوراً ہی ایک اجنبی کی باتوں میں آ جاتے انہوں نے ظاہر یہ کیا کہ وہ اس سے متاثر ہوگئے ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنے جاسوس لگا دیے ان میں ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی جس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ پہلی نظر میں ہی حسن کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے
حسن جان نہ سکا کہ وہ خود جو حربہ دوسروں کو ہاتھ میں لینے کے لیے استعمال کیا کرتا ہے وہی حربہ اس پر استعمال ہو رہا ہے
حسن بن صباح کی حکمرانوں نے ایسی پذیرائی کی جیسے وہ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ ہو اس نے وہاں درپردہ اپنا ایک گروہ بنانا شروع کر دیا اور اس لڑکی کو بھی اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کیا
اس کے ساتھ ہی اس نے حکمرانوں کو یہ مشورہ دینے شروع کر دیے کہ وہ سلجوقی سلطنت پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں انہیں وہ اس قسم کی پیشنگوئیاں سناتا تھا کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے اور وہ خود ایک فرشتہ بن کر مصر میں آیا ہے
عبیدی حکمران یہی تو دیکھ رہے تھے کہ یہ شخص کیا کرنے آیا ہے وہ دو عالم جنہوں نے اسے مصر بھیجا تھا وہ بھی واپس مصر آ گئے وہ اسماعیلی مبلغ تھے جن کا عبیدی حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ وہ اسماعیلی نہیں تھے ایک روز حسن بن صباح ان عالموں کے بلاوے پر ان سے ملنے چلا گیا جاسوسوں نے حکمرانوں کو بتایا اس دوران جاسوسوں نے حکمرانوں کو یہ بھی اطلاع دی تھی کہ اس شخص کی کارروائی صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی معلوم ہوتی ہیں
حسن بن صباح کے متعلق صحیح اطلاعیں تو اس لڑکی نے دی جسے اس کے ساتھ لگایا گیا تھا اور جس نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے
حکمرانوں کے لئے یہی کافی تھا اور وہ یہی معلوم کرنا چاہتے تھے ایک رات حسن اس لڑکی کو پاس بٹھائے شراب پی رہا تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور دو آدمی اندر آئے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں انہوں نے حسن بن صباح کو ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور پھر اسے پیادہ چلاتے قید خانے تک لے گئے تب اسے بتایا گیا کہ سلطان وقت کے حکم سے اسے قید خانے میں ڈالا جا رہا ہے اور یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اسے کب رہائی ملے گی یا رہائی ملے گی بھی یا نہیں
مورخ لکھتے ہیں کہ اس نے قید خانے کے دروازے پر کھڑے ہوکر نعرہ لگایا مجھے قید کرنے والوں تمہاری تباہی اور بربادی کا وقت آ گیا ہے
اسے قید خانے میں تو دھکیل دیا گیا اور پھر ایک کوٹھری میں بند کر دیا گیا لیکن جس طرح اس نے تباہی کا نعرہ لگایا تھا وہ ایسا تھا کہ سننے والوں پر خوف طاری ہو گیا تھا یہ خبر حکمران تک پہنچ گئی
وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ شیطان کو بڑی ڈھیل دیتا ہے وہ حسن بن صباح کے معاملے میں بالکل صحیح ثابت ہوا اسے جس قید خانے میں بند کیا گیا تھا اس کا نام قلعہ دمیاط تھا یہ ایک قدیم قلعہ تھا ہوا یوں کہ جس رات حسن بن صباح کو اس قید خانے میں پھینکا گیا اسی رات اس قلعے کا سب سے بڑا برج گر پڑا یہ تو کسی نے بھی نہ دیکھا کہ برج کے گرنے کی وجہ کیا ہے سب پر یہ خوف طاری ہوگیا کہ یہ حسن بن صباح کی بد دعا کا نتیجہ ہے سلطان مصر کو اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو مصر سے نکال دیا جائے
اتفاق سے ایک بحری جہاز کسی دور کے سفر پر روانہ ہو رہا تھا تاریخ کے مطابق اس کے تمام مسافر عیسائی تھے حسن بن صباح کے ساتھ اس کے دو آدمی بھی تھے جو اس کے ساتھ ہی آئے تھے جہاز ساحل سے بہت دور سمندر کے درمیان پہنچا تو بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا بادبان اڑنے لگے پانی جہاز کے اندر آنے لگا اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ جہاز ڈوب جائے گا
جہاز کے عملے اور مسافروں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی ہر کوئی جہاز میں سے پانی باہر نکالنے میں مصروف تھا کچھ لوگ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے جہاز اور مسافروں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے صرف حسن بن صباح تھا جو ایک جگہ بڑے آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا جہاز کے کپتان نے اسے دیکھ لیا
کون ہو تم ؟
کپتان نے حسن بن صباح کو ڈانٹتے ہوئے کہا سب لوگ مصیبت میں گرفتار ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہنس رہے ہو اٹھو اور کوئی کام کرو
طوفان گزر جائے گا نہ جہاز کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ کوئی مسافر زخمی یا ہلاک ہوگا مجھے خدا نے بتا دیا ہے
کچھ ہی دیر بعد طوفان تھم گیا جہاز کو کوئی نقصان نہ پہنچا تمام مسافر زندہ اور سلامت تھے جہاز کے کپتان کے لیے یہ ایک معجزہ تھا
تم کون ہو؟
کپتان نے حسن بن صباح سے پوچھا
میں طوفان لا بھی سکتا ہوں روک بھی سکتا ہوں حسن بن صباح نے جواب دیا
میں جہاز رانی میں بوڑھا ہو گیا ہوں کپتان نے کہا میں نے ایسے شدید طوفان میں سے کبھی کوئی جہاز ٹھیک ٹھاک نکلتے نہیں دیکھا یہ ایک معجزہ ہے کہ میرا جہاز اس طوفان سے نکل آیا ہے
یہ معجزہ میرا ہے حسن بن صباح نے کہا
میں تمہیں کچھ انعام دینا چاہتا ہوں کپتان نے کہا کہو کیا انعام دوں؟
اگر انعام دینا ہے تو ایک کام کرو حسن بن صباح نے کہا جہاز کا رخ موڑو اور مجھے حلب پہنچا دو ایسا ہو سکتا ہے کہ میں جہاز میں موجود رہا تو ایک بار پھر طوفان آجائے کپتان بہت ہی خوف زدہ تھا اس نے جہاز کا رخ موڑا اور حلب کا رخ کرلیا حلب پہنچ کر حسن بن صباح اور اس کے دو ساتھیوں کو اتار دیا
یہ بتاؤ حسن! اس کے ساتھی نے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ چل گیا تھا کہ جہاز طوفان سے خیریت سے نکل آئے گا؟
بے وقوفوں! عقل سے کام لو حسن بن صباح نے کہا اگر جہاز ڈوب جاتا تو مجھے یہ کہنے کے لئے کوئی بھی زندہ نہ رہتا کہ میری پیشن گوئی غلط نکلی ہے میں نے سوچ لیا تھا کہ طوفان گزر جائے گا تو سب پر میری دھاک بیٹھ جائے گی اور پھر میں کپتان سے اپنی یہ بات منوا لونگا کہ مجھے ملک شام کی بندرگاہ حلب پہنچا دے ایسا ہی ہوا ہمارا کام ہوگیا حسن بن صباح حلب سے بغداد گیا اور ایک بار پھر اصفہان جا پہنچا وہاں سے اس کا جو سفر شروع ہوا وہ ایسے پراسرار واقعات کا تسلسل ہے جس پر تاریخ آج تک محو حیرت ہے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:19 }
داستان گو نے کہا ہے کہ حسن بن صباح جہاذ سے حلب اترا اور وہاں سے بغداد اور بغداد سے اصفہان پہنچا
کوئی غلط فہمی نہ رہے اس لئے داستان گو داستان کو ذرا پیچھے لے جاتا ہے پہلی بات یہ ہے کہ حلب بندرگاہ نہیں بندرگاہ انطاکیہ تھی جہاں جہاز لنگر انداز ہوا اور حسن بن صباح وہاں اترا تھا حلب وہاں سے ساٹھ میل دور ہے حلب سے وہ بغداد گیا یہ چار سو میل کی مسافت ہے بغداد سے وہ اصفہان گیا یہ فاصلہ بھی چار سو میل ہے اس طرح حسن بن صباح انطاکیہ سے اصفہان تک آٹھ میل سفر کیا
گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر عام رفتار سے چلنے سے یہ ایک مہینے کا سفر تھا تیز رفتار سے جلدی بھی طے ہوسکتا تھا لیکن حسن بن صباح اپنی منزل اصفہان تک چھ ماہ بعد پہنچا تھا
اسے اصفہان تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی اسے جلدی صرف یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے زیر اثر لے لے اور ان کی عقل پر اس طرح قابض ہو جائے کہ بلا سوچے سمجھے وہ اس کے اشاروں پر ناچیں آگے چل کر حالات بتائیں گے کہ حسن بن صباح کی ذہن میں اشاروں پر ناچنا مشہور عام مہوارہ ہی نہیں تھا وہ اپنے پیروکاروں کو دیوانگی یا پاگل پن کے اس مقام پر لے جانا چاہتا تھا جہاں وہ کسی سے کہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو تو وہ اپنا خنجر اپنی ہی دل میں اتار لے حسن بن صباح نے اپنے پیروکاروں کو جو فدائین کہلاتے تھے اس مقام پر لے آیا تھا اور اس نے یہ مظاہرے کرکے بھی دکھا دیئے اور اپنے دشمنوں کو حیرت میں ہی نہیں بلکہ خوف میں مبتلا کر دیا تھا حسن بن صباح کی سوانح حیات افسانے سے زیادہ دلچسپ اور طلسم ہوشروبا سے زیادہ حسین اور پراسرار ہے
کوئی بھی انسان صرف اس صورت میں سنسنی خیز پراسرار اور چونکا دینے والی داستان کا ہیرو بنتا ہے جب بنی نوع انسان کی محبت میں وہ دیوانہ ہو جاتا ہے یا وہ انسان ہیرو بنتا ہے جس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کا شائبہ تک نہ رہے اور اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہو اور وہ آسمان میں اور زمین پر سورج چاند اور ستاروں میں صرف اپنی ذات کو دیکھ رہا ہو اور ساری کائنات کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہو
ابتدا میں بیان ہو چکا ہے کہ ایسا انسان عورت ہو یا مرد خیر سگالی اور پیار و محبت کے جذبات سے عاری ہوتا ہے اس کا دل ابلیس کا آشیانہ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے شکار کے لئے پیار و محبت کا جال پھیلاتا خیر و برکت اور جذبہ ایثار کی ایسی اداکاری کرتا ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے یہ ھے ابلیس کا حسن اور شر کی سحر انگیزی
اللہ تبارک و تعالی نے ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ہے
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ
تو انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگیوں میں پڑے اور کھیلتے ہوئے یہاں تک کہ اپنے اس (عذاب کے) دن سے ملیں جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے
(سورہ المعارج:42)
حسن بن صباح اس دن سے پہلے پہلے جس دن کا اللہ نے وعدہ کیا ہے اپنے عزائم پورا کرنے کی کوشش میں تھا وہ جانتا تھا یہ حساب کا اور عذاب کا دن ہوگا
حسن بن صباح کو جس طرح مصر سے عبیدیوں نے نکالا اور جس طرح بحری جہاز طوفان کی لپیٹ میں آ کر نکلا اور جس طرح جہاز کے کپتان نے حسن بن صباح کو انعام کے طور پر شام کے ساحل پر اتارا وہ پیچھے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے وہاں سے تاریخ کی یہ پراسرار اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان یوں آگے چلتی ہے کہ انطاکیہ کی بندرگاہ میں اترنے والا اکیلا حسن بن صباح نہیں تھا اس کے ساتھ دو اس کے اپنے ساتھی تھے جو اس کے رازدار ہمدرد اور بہی خواہ تھے اور سات آٹھ آدمی جن میں ایک جوان عورت بھی تھی حسن بن صباح کے ساتھ انطاکیہ اتر گئے تھے ان سات آٹھ آدمیوں نے اس بندرگاہ پر اترنا تھا جو جہاز کی منزل تھی اور وہاں سے ملک شام جانا تھا ان کی خوش قسمتی کہ حسن بن صباح نے جہاز کا رخ شام کی طرف کروا لیا اور وہ پیدل سفر سے بچ گئے
ان کے ساتھ جو عورت تھی وہ اپنا چہرہ نقاب میں رکھتی تھی اس کی صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں ہوتا تھا اس کی پیشانی سفیدی مائل گلابی تھی جس پر ریشم کی باریک تاروں جیسے چند ایک بے ترتیب بال بہت ہی بھلے لگتے تھے اس کی آنکھیں صحرائی غزل جیسی تھیں جس میں خمار کا تاثر تھا جو ان آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے کو مسحور کرلیتا تھا اس کے کھڑے قد میں اور چال ڈھال میں جاذبیت تھی اور ایسا تاثر کہ یہ کوئی عام عورت نہیں اور اس کا تعلق کسی قبیلے کے سردار خاندان سے یا کسی بڑے ہی امیر کبیر تاجر خاندان سے ہے
یہ سب آدمی مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر رہے تھے انہوں نے اتنے زیادہ طوفان میں حسن بن صباح کو پرسکون بیٹھے اور مسکراتے دیکھا تھا اور وہ اسے پاگل سمجھتے تھے جسے یہ احساس تھا ہی نہیں کہ جہاز ڈوبنے والا ہے اور کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا پھر انہوں نے حسن بن صباح کی یہ پیشن گوئی سنی تھی کہ جہاز اس طوفان سے بخیر و خوبی گزر جائے گا
جہاز بپھرے ہوئے سمندر کی پہاڑوں جیسی طوفانی موجوں پر اوپر کو اٹھتا گرتا ڈولتا طوفان سے نکل گیا حسن بن صباح کے دونوں آدمیوں نے تمام مسافروں کو بتا دیا کہ جہاز کو اس برگزیدہ درویش نے طوفان سے نکالا ہے مسافروں نے حسن بن صباح کے ہاتھ چومے اور اس کے آگے رکوع میں جاکر تعظیم و تکریم پیش کی یہ سات آٹھ آدمی جو حسن بن صباح کے گرویدہ ہو گئے تھے سب سے زیادہ فائدہ تو انہیں پہنچا تھا یہ لوگ پیدل سفر سے بچ گئے تھے
انطاکیہ میں انہیں رکنا پڑا یہ سرائے میں چلے گئے حسن بن صباح اور اس کے دونوں ساتھیو نے الگ کمرہ لے لیا اور باقی آدمی ایک بڑے کمرے میں چلے گئے اس عورت اور اس کے خاوند کا کمرہ الگ تھا حسن بن صباح اور اس کے ساتھ ہی نہا چکے تھے اور اب انھوں نے سرائے کے لنگر سے کھانا لینے جانا تھا دروازے پر دستک ہوئی ایک آدمی نے دروازہ کھولا سرائے کا مالک آیا تھا
کیا میں خوش نصیب نہیں کہ آپ نے مجھے میزبانی کی سعادت عطا کی ہے سرائے کے مالک نے کہا میں سرائے کا مالک ابو مختار ثقفی ہوں ابھی ابھی آپ کے ہمسفروں نے مجھے اپنے بحری سفر کی داستان سنائی ہے خدا کی قسم جہاز میں آپ نہ ہوتے تو یہ لوگ مجھے اس طوفان کی کہانی سنانے یہاں نہ آتے
آؤ ثقفی! حسن بن صباح نے کہا بیٹھ کر بات کرو یہ تو بتاؤ ایک ثقفی اپنے وطن سے اتنی دور کیوں چلا آیا ہے؟
سنا ہے میرے آباء و اجداد حجاج بن یوسف سے عداوت مول لے بیٹھے تھے ابو مختار نے جواب دیا ان میں سے کچھ قتل کردئے گئے کچھ بھاگ کر وطن سے دور چلے گئے اور میرا کوئی بزرگ ادھر آ نکلا یہ سراۓ اس نے تعمیر کی تھی جو ورثے میں مجھ تک پہنچی ہے
کیا اس سرائے میں صرف مسلمان ٹھہرا کرتے ہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا
نہیں پیرومرشد! ابو مختار نے جواب دیا اس سرائے کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں یہ سرائے دنیا کی مانند ہے یہاں ہر مذہب ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ آتے ہیں کچھ دن گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں دنیا کی طرح اس سرائے میں بھی آمدورفت لگی رہتی ہے آپ جیسا ولی اللہ اور غیب کا بھید جاننے والا مدتوں بعد آتا ہے کیا مطلب کی بات نہ کہہ دوں؟
اجازت کی ضرورت نہیں حسن بن صباح نے کہا
آج رات کا کھانا میری طرف سے قبول فرمائیں ابو مختار نے کہا اور میں نے آپ کے لئے الگ کمرہ تیار کیا ہے آپ اس کمرے میں آجائیں
کچھ دیر بعد حسن بن صباح اس کمرے میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا کھانا بہت ہیں پر تکلف تھا تین چار اور اجنبی بھی مدعو تھے یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جسے رنگا رنگ ریشمی پردوں اور فانوسوں سے سجایا گیا تھا آدھے سے زیادہ کمرہ خالی تھا دیوار سے دیوار تک دلکش رنگوں والا قالین بچھا ہوا تھا دسترخوان کمرے کے وسط میں نہیں بلکہ ایک طرف چوڑائی والی دیوار کے ساتھ بچھایا گیا تھا دیوار کے ساتھ گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے پیچھے دیوار کے ساتھ ایک قالین لٹک رہا تھا جس پر ہرے بھرے جنگل کا منظر بنا ہوا تھا اور اس میں ایک شفاف ندی بہتی دکھائی گئی تھی مختصر یہ کہ یہ شاہانہ انتظام اور یہ عالیشان ضیافت ایک اعزاز تھا جو حسن بن صباح کو دیا گیا تھا
میں آپکے مزاج سے واقف نہیں سرائے کے مالک نے حسن بن صباح سے کہا آپ کے ذوق کا بھی مجھے کچھ پتہ نہیں گستاخی ہی نہ کر بیٹھوں کیا آپ رقص گانا یا صرف سازوں کی موسیقی پسند کریں گے؟
تم نے مجھے کیا سمجھ کر یہ بات پوچھی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ایک برگزیدہ ہستی سرائے کے مالک نے جواب دیا اللہ کے جتنا قریب آپ ہیں وہ ہم جیسے گنہگار تصور میں بھی نہیں لا سکتے
اللہ نے کسی بندے پر کوئی نعمت حرام نہیں کی حسن بن صباح نے کہا رقاصہ کے فن سے لطف اندوز ہونا گناہ نہیں اس کے جسم کو اپنے قبضے میں لے کر اس سے لطف اور لذت حاصل کرنا بہت بڑا گناہ ہے
کیا اسلام نیم برہنہ رقاصہ کا رقص دیکھنے کی اجازت دیتا ہے ؟،
سرائے کے مالک نے پوچھا
ہاں ! حسن بن صباح نے جواب دیا اسلام جہاد میں ہر مسلمان سے جان کی قربانی مانگتاہے اور مسلمان نعرے لگاتے ہوئے جانوں کی قربانی دیتے ہیں اس لئے اسلام ہر مسلمان کو دنیا کی ہر نعمت اور ہر تفریح سے لطف اٹھانے کی اجازت دیتا ہے
ہم نے آج تک جو سنا ہے؟
وہ اسلام کے دشمنوں نے مشہور کیا ہے حسن بن صباح نے اپنے میزبانوں کی بات کاٹتے ہوئے کہا یہودیوں اور نصرانیوں نے دیکھا کہ اسلام تھوڑے سے عرصے میں آدھی دنیا میں مقبول ہوگیا ہے تو انہوں نے امام اور خطیب بن کر یہ بے بنیاد بات پھیلا دی کہ اسلام صرف قربانیاں مانگتا ہے اور دیتا کچھ بھی نہیں اور اسلام میں سوائے پابندیوں کے اور کچھ بھی نہیں
تاریخ میں آیا ہے کہ حسن بن صباح اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار کہلاتا تھا وہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر مشتعل کر کے انہیں اسلام کے خلاف استعمال کرتا تھا یہ ضرورت اسے اس لیے پیش آئی تھی کہ اس نے اپنی سرگرمیوں اور اپنے عزائم کے لئے جو علاقہ منتخب کیا تھا وہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کا علاقہ تھا
سرائے کے مالک نے حسن بن صباح کی یہ باتیں سنیں تو اس نے کھانے پر حاضری دینے والے ایک ملازم کی طرف اشارہ کیا ملازم بڑی تیزی سے باہر چلا گیا، فوراً ہی وہ واپس آگیا اس کے پیچھے چار پانچ سازندے ساز اٹھائے کمرے میں آئے اور قالین پر بیٹھ گئے
سازوں کی آواز ابھری تو نیم برہنہ رقاصہ یوں کمرے میں داخل ہوئی جیسے جل پری شفاف ندی میں تیرتی آ رہی ہو سازوں کی دھیمی دھیمی آواز سحر جگہ رہی تھی اور نوجوان رقاصہ کا مرمریں جسم ناگن کی طرح بل کھا رہا تھا اس کے بازو رقص کی اداؤں میں یوں اوپر نیچے اور دائیں بائیں ہو رہے تھے جیسے فردوس بریں کے ایک بڑے ہیں حسین پودے کی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل رہی ہوں فانوسوں کی رنگا رنگ روشنیوں کا اپنا ہی ایک حسن تھا
دسترخوان پر بیٹھے ہوئے مہمانوں کھانا بھول گئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس نوجوان رقاصہ نے سب کو ہپنا ٹائز کر لیا ہو لیکن حسن بن صباح اس لڑکی کو کسی اور ہی نظر سے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں کسی جوہری کے اس وقت کا تاثر تھا جب وہ ہیرا یا کوئی قیمتی پتھر پَرکھ رہا ہوتا ہے
اس ضیافت اس رقاصہ پھر ایک مغنیہ اور سازندوں نے اس رات کو الف لیلہ کی ایک ہزار راتوں جیسی ایک رات بنا دی تھا
آدھی رات گزر گئی تھی جب حسن بن صباح ضیافت سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں داخل ہوا سرائے کا مالک بھی اس کے پیچھے کمرے میں چلا گیا حسن بن صباح پلنگ پر بیٹھ گیا پیرومرشد! سرائے کے مالک نے نماز کی طرح اپنے دونوں ہاتھ پیٹ پر باندھ کر کہا کیا میں آپ کی خدمت میں کوتاہی تو نہیں کر رہا؟
یہ میرا مطالبہ نہیں تھا حسن بن صباح نے کہا مجھے تم بورئیے پر بٹھا کر اور روٹی پر دال رکھ کر دے دیتے تو بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اس کے ایک بندے نے مجھ پر اتنا بڑا کرم کیا ہے اب یہ بتا دو کہ تمہارے دل میں کوئی خاص مراد ہے یا تم کسی پریشانی میں مبتلا ہو؟
اے طوفانوں کا منہ پھیر دینے والے امام! سرائے کے مالک نے کہا پہلے اس شہر میں صرف میری سرائے تھی اور تمام مسافر میری سرائے میں آتے تھے تھوڑے عرصے سے دو یہودیوں نے ایک سرائے کھولی ہے وہ مسافروں کو شراب بھی پیش کرتے ہیں لڑکیاں بھی اس سے میری آمدنی بہت کم ہو گئی ہے آپ کو اللہ نے ایسی طاقت عطا کی ہے
ان کا بیڑہ غرق کرنا ہے یا اپنا بیڑا پار لگانا ہے؟
حسن بن صباح نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا
یہ فیصلہ آپ ہی کر سکتے ہیں حضور سرائے کے مالک نے کہا میں تو چاہتا ہوں کہ میری آمدنی پہلے جتنی ہو جائے
ہوجائے گی حسن بن صباح نے کہا کل ایک کالا بکرا ذبح کرو خواہ چھوٹا سا ہی ہو اس کے دونوں شانوں کی ہڈیاں میرے پاس لے آنا اور مجھے یہ بتاؤ کہ یہ رقاصہ کس کی ملکیت ہے
ایک بوڑھی رقاصہ کی بیٹی ہے یا ولی سرائے کے مالک نے جواب دیا زیادہ تر میں ہی اسے اپنی سرائے میں خاص مہمانوں کے لیے بلایا کرتا ہوں کیا حضور کے دل کو یہ اچھی لگی ہے؟
ہاں حسن بن صباح نے جواب دیا لیکن اس مقصد کے لیے نہیں جو تم سمجھ رہے ہو اگر تم اس کی ماں کو بلاؤ تو میں اسے اس لڑکی کے متعلق کچھ بتانا بہت ضروری سمجھتا ہوں وہ اس لڑکی کو صرف جسم سمجھتی ہو گی لیکن یہ کمسن لڑکی جسم سے کہیں زیادہ کچھ اور ہے
سرائے کے مالک نے ایک ملازم کو بلا کر کہا کہ رقاصہ اور اس کی ماں کو یہاں لے آئے وہ دونوں ابھی گئی نہیں تھیں اطلاع ملتے ہی آ گئیں سرائے کا مالک انہیں پہلے ہی حسن بن صباح کے متعلق بتا چکا تھا کہ یہ کوئی امام یا ولی ہیں اور اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی روحانی طاقت ہے جو طوفانوں کو روک دیتی ہے رقاصہ اور اس کی ماں نے بے تابی سے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ حسن بن صباح سے ملنا چاہتی ہیں وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہی تھیں کہ امام نے خود ہی انہیں بلا لیا تھا
وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو حسن بن صباح نے دیکھا کہ رقاصہ ابھی رقص کے لباس میں تھی یہ کوئی لباس نہیں تھا کمر سے اس نے ریشم کی رنگا رنگ رسیا لٹکا رکھی تھیں ان رسیوں نے اس کا کمر سے نیچے کا جسم ڈھانپ رکھا تھا لیکن وہ چلتی تھی یا ناچتی تھی تو اس کی ٹانگیں رسیوں سے باہر آ جاتی تھیں اس کے سینے کا کل لباس ایک بالشت تھا ان کے شانوں اور پیٹ کو اس کے نرم و ملائم بالوں نے ڈھانپ رکھا تھا جو اس نے کھلے چھوڑے ہوئے تھے
مستور ہو کر آ لڑکی! حسن بن صباح نے کہا میں تیرے جسم کا طلبگار نہیں میں تیری روح کو برہنہ کر کے دیکھوں گا اور تجھے بھی دکھاؤں گا تو اپنی روح سے ناآشنا ہے اس نے رقاصہ کی ماں سے کہا جا اسے ایسے کپڑے پہنا کے لا کہ اس کے صرف ہاتھ نظر آئیں اور کچھ چہرہ نظر آئے
ماں بیٹی چلی گئیں سرائے کا مالک وہیں بیٹھا رہا
تمہارا کام ہو جائے گا حسن بن صباح نے اسے کہا جب یہ ماں بیٹیاں آ جائیں تو تم چلے جانا اور صبح میرے پاس آنا
سرائے کا مالک بھی چلا گیا
رقاصہ اور اس کی ماں آ گئی رقاصہ نے ویسے ہی لباس پہن رکھا تھا جیسا حسن بن صباح نے اسے کہا تھا اس لیے اس نے اس کے چہرے کے نقش و نگار میں سحر انگیز نکھار پیدا کر دیا تھا وہ نوجوان تھی لیکن اب وہ کمسن لگتی تھی معصوم سی لڑکی
کیا تجھے یہ اس لباس میں اچھی نہیں لگتی؟
حسن بن صباح نے رقاصہ کی ماں سے پوچھا
ہاں مرشد! ماں نے جواب دیا یہ مجھے اسی لباس میں اچھی لگتی ہے
اس لیے یہ اچھی لگتی ہے کہ ایک پاک روح ہے حسن بن صباح نے کہا نا پاک جسم نہیں اس کی قیمت پہچان
میرے مرشد! رقاصہ کی ماں نے کہا میں بھٹکی ہوئی ایک بے آسرا عورت کیا جانوں ہم ماں بیٹی کا کل کیسا ہوگا ہم نے آپ کی کرامات سنی تو سرائے کے مالک سے التجا کی کہ مجھے آپ کے حضور پیش کر دے اور میں آپ سے پوچھوں کہ بیٹی کو اسی پیشے میں رکھوں یا کوئی اور راستہ دیکھوں مجھے آنے والے وقت کی کچھ خبر دیں
حسن بن صباح نے سحر اور علم نجوم میں دسترس حاصل کر لی تھی اس نے نوجوان رقاصہ کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پھیلایا اور اس کی آڑی ترچھی لکیریں پڑھنے لگا
رقاصہ نے اس انتظار میں حسن بن صباح کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں تھیں کہ خدا کا یہ برگزیدہ انسان جو بحری جہاز کو ایک خوفناک طوفان کے جبڑوں سے صحیح سلامت نکال لایا تھا وہ اس کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر کیا پیشن گوئی کرتا ہے
حسن بن صباح کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلیاں نظر آرہی تھیں ایک بار تو اس نے اپنا سر یوں پیچھے کیا جیسے رقاصہ کی ہتھیلی کی کوئی لکیر سانپ بن گئی ہو رقاصہ اور اس کی ماں بھی چونک پڑیں
کیا دیکھا ہے میرے مرشد؟
ماں نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا
پردے اٹھ رہے ہیں حسن بن صباح نے اس عورت کی طرف دیکھے بغیر زیر لب کہا
پھر اس نے رقاصہ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے کر ذرا اوپر اٹھایا
آنکھیں پوری کھلی رکھو اس نے رقاصہ سے کہا
اس کی آنکھوں نے رقاصہ کی آنکھوں کو جکڑ لیا حسن بن صباح نے دونوں انگوٹھوں سے رقاصہ کہ کنپٹیاں آہستہ آہستہ ملنی شروع کردیں وہ زیر لب کچھ کہہ رہا تھا
کچھ دیر بعد رقاصہ نے دھیمی سی آواز میں کہا میں نے سیاہ پردے کے پیچھے دیکھ لیا ہے میں جاؤں گی یہ جسم نہ گیا تو میں اس سے آزاد ہو کر وہاں پہنچ جاؤں گی
یہ جسم تمہارے ساتھ جائے گا حسن بن صباح نے کہا
یہ جسم میرے ساتھ جائے گا رقاصہ نے کہا
کیا کروں گی اس جسم کو ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یہ جسم ناچے گا نہیں رقاصہ نے کہا یہ دوسروں کو ناچائے گا
تمہیں ایک قلعہ نظر آرھا ھے حسن بن صباح نے کہا رقاصہ خاموش رہی حسن بن صباح نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے چھ سات مرتبہ کہا تمہیں ایک قلعہ نظر آرہا ہے
ہاں! رقاصہ نے کہا مجھے ایک قلعہ نظر آ رہا ہے
اس قلعے میں تم اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو؟
حسن بن صباح نے خواب ناک سی آواز میں کہا اور یہ الفاظ چند مرتبہ دہرائے
دیکھو ماں! رقاصہ نے بچوں کی طرح مچلتے ہوئے کہا میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہوں
اپنے آپ کو کس حال میں دیکھ رہی ہو؟
چار لڑکیاں ہیں رقاصہ نے کہا شہزادیاں لگتی ہیں میں انہیں جیسے لباس میں ہوں اور ہم سب ایک خوشنما باغ میں اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی ہیں
حسن بن صباح نے رقاصہ کا چہرہ چھوڑ دیا اور کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا رقاصہ نے اپنی آنکھیں تیزی سے جھپکیں اور سر جھکا لیا اس نے جب سر اٹھایا تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا وہ آنکھیں پھاڑے کبھی حسن بن صباح کو اور کبھی اپنی ماں کو دیکھتی تھی حسن بن صباح مسکرا رہا تھا
میں کہاں چلی گئی تھی؟
رقاصہ نے حیرت سے پوچھا میں ایک تاریکی میں سے گزری تھی اور آگے کوئی اور ہی دنیا آ گئی تھی
تمہاری اصل جگہ اس دنیا میں ہے جو تم نے دیکھی ہے حسن بن صباح نے کہا اب تم جہاں ہو یہ ایک فریب اور حسین دھوکا ہے یہاں تمہارا انجام بہت برا ہوگا میرے خدا نے تمہاری قسمت میں بہت اونچا مقام لکھا ہے میں نے تمہیں وہ مقام دکھا دیا ہے ماں کو بتاؤ تم نے کیا دیکھا ہے ؟
رقاصہ نے اپنی ماں کو بتایا
لیکن پیرومرشد! رقاصہ کی ماں نے پوچھا ہم اس مقام تک پہنچ کس طرح سکتے ہیں کیا آپ ہماری رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں؟
کرسکتا ہوں! حسن بن صباح نے کہا لیکن کرونگا نہیں میں تمہیں اس کی وجہ بھی بتا دیتا ہوں انسان کی فطرت ایسی ہے کہ میں تو انسان ہوں انسان اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتا میں نے دو تین آدمیوں کو اسی طرح ان کے اصل مقام دکھائے اور انہیں وہاں تک پہنچا بھی دیا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے میرے خلاف باتیں شروع کردیں اب تو میں کسی کو اس کے متعلق کچھ بتاتا نہیں تم عورت ہو اور مجبوریوں نے یا درہم و دینار کے لالچ نے تمہیں غلط اور خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے پھر مجھے تمہاری بیٹی کا خیال آتا ہے میں نے اسکا اصل روپ دیکھ لیا ہے تم نے اس پر بہروپ چڑھا دیا ہے میں اسے اس مقام تک پہنچانا چاہتا ہوں تم اس کے ساتھ رہو گی اور تمہیں تمہاری کھوئی ہوئی تعظیم اور تکریم ملے گی
پھر ہم پر کرم کیوں نہیں کرتے یا مرشد! ماں نے التجا کی
صرف ایک صورت میں کرم ہو سکتا ہے حسن بن صباح نے کہا اپنی سوچیں میرے حوالے کر دو اپنے آپ کو بھی میرے حوالے کردو
کر دیا مرشد! ماں نے کہا آپ جو حکم دیں گے ہم ماں بیٹی مانیں گے
پھر سن لو! حسن بن صباح نے کہا میں جب یہاں سے جاؤں گا تو تم دونوں میرے ساتھ چلو گی
چلیں گی یا مرشد! رقاصہ کی ماں نے کہا
آج کا رقص تمہارا آخری رقص تھا حسن بن صباح نے نوجوان رقاصہ سے کہا اب تمہاری نئی اور حقیقی زندگی شروع ہوگئی ہے جاؤ اور سو جاؤ صبح سے بیمار پڑ جانا سر کپڑے سے باندھ لینا اس سرائے والا یا دوسرے سرائے کے یہودی تمہیں رقص کے لیے بلانے آئیں تو ہائے ہائے شروع کر دینا جیسے تم اس بیماری سے مری جا رہی ہو میری کہنا کہ انہیں بلاؤ میرا علاج کریں میں آکر کوئی بیماری بتا کر سب کو ڈرا دوں گا کہ اس لڑکی کے قریب کوئی نہ آئے ورنہ اسے بھی یہ بیماری لگ جائے گی
ماں بیٹی چلی گئیں انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ اس شخص نے انہیں ایک عمل سے مسحور کر لیا تھا یہ تھا عمل تنویم جسے مغربی دنیا نے اپنی زبان میں ھیپناٹائزم کا نام دیا ہے حسن بن صباح نے رقاصہ کو اپنے کام کی چیز سمجھ کر اسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا اور رقاصہ کو وہی کچھ نظر آتا رہا جو حسن بن صباح نے اسے دکھانا چاہتا تھا
عمل تنویم کا تو اپنا اثر تھا حسن بن صباح کے بولنے کا انداز کا اپنا ایک اثر تھا جو سننے والے کو مسحور کرلیتا تھا یوروپی تاریخ نویسوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے جو دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے یہ تھے ابلیسی اوصاف
رقاصہ اور اس کی ماں کے جانے کے بعد حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے کمرے میں آئے
میں نے اپنی ترکش میں ایک اور تیر ڈال لیا ہے حسن بن صباح نے فاتحانہ انداز سے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ رقاصہ ایسا دانہ ہے کہ عقابوں اور شہبازوں کو بھی جال میں لے آئے گا
ہمارے ساتھ جا رہی ہے؟
اس کے ایک ساتھی نے پوچھا
دونوں ہمارے ساتھ جا رہی ہیں حسن بن صباح نے کہا
انہیں کسی طرح چھپا کر ساتھ لے جانا پڑے گا
یہ انتظام ہو جائے گا دوسرے نے کہا
دوسرے دن حسن بن صباح کے کمرے کے باہر اسے ملنے والوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا تھا لیکن کسی کو کمرے میں جانے نہیں دیا جا رہا تھا لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ امام عبادت میں مصروف ہیں
کچھ دیر بعد ایک آدمی اور ایک اور عورت اندر جانے کی اجازت دی گئی یہ میاں بیوی تھے اور یہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر تھے یہ وہی عورت تھی جس کا پہلے ذکر آیا ہے کہ چہرہ نقاب میں رکھتی تھی صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں تھا پیشانی اور آنکھوں سے پتہ چلتا تھا کہ عورت حسین ہے اس کے کھڑے قد میں کشش تھی اس کی چال ڈھال میں ایسا جلال سا تھا جس سے لگتا تھا جیسے یہ کسی سردار خاندان کی خاتون ہو بہرحال وہ کوئی معمولی عورت نہیں لگتی تھی
کمرے میں جا کر اس عورت کے خاوند نے حسن بن صباح کے آگے رکوع میں جاکر مصافحہ کیا وہ پیچھے ہٹا تو عورت نے آگے بڑھ کر حسن بن صباح کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پہلے آنکھوں سے ہونٹوں سے لگایا پھر اس کا ہاتھ احترام سے اس کی گود میں رکھ دیا
بیٹھ جاؤ میرے ہمسفرو! حسن بن صباح نے کہا اور خاوند سے پوچھا تم لوگ کہاں گئے تھے اور کس منزل کے مسافر ہو؟
ہماری منزل رے ہے خاوند نے جواب دیا میں اصلاً اصفہانی ہوں حافظ اصفہانی میرا نام ہے رزق کے پیچھے بہت سفر کیا ہے اور اللہ نے جھولی بھر کے رزق دیا ہے دوسری تلاش علم کی ہے علم کے حصول کے لیے بہت سفر کیا ہے سنا تھا مصر میں دو عالم ہے جن کے پاس علم کا سمندر ہے میں اپنی اس بیوی کو ساتھ لے کر مصر گیا تھا ان علماء سے ملا لیکن انہوں نے علم کو اپنے ہی ایک نظریے میں محدود کر دیا ہے
وہ عبیدی ہیں حسن بن صباح نے کہا اور ظاہر کرتے ہیں کہ اسماعیلی ہیں تم کس فرقے اور کس عقیدے کے آدمی ہوں؟
یاولی! حافظ اصفہانی نے کہا میں ایک اللہ کو مانتا ہوں جو وحدہٗ لاشریک ہے اس کے آخری کلام کو مانتا ہوں جو قرآن ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ کو مانتا ہوں جن کے ذریعہ اللہ کا کلام ہم تک پہنچا اس سے زیادہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میں کون سے فرقے سے تعلق رکھتا ہوں
اور اب رے کیوں جا رہے ہو ؟
ابومسلم رازی سےملونگا حافظ اصفہانی نے جواب دیا وہ وہاں امیر ہے اللہ کو ماننے والا حاکم ہے
اس سے تمہیں کیا حاصل ہوگا؟
میں نے اسے کچھ بتانا ہے حافظ اصفہانی نے جواب دیا میں خلجان گیا تھا وہاں ایک بڑا ہی خطرناک فرقہ سر اٹھا رہا ہے ایک شخص احمد بن عطاش نے خلجان پر قبضہ کر لیا ہے سنا ہے وہ شعبدہ بازی اور سحر کا ماہر ہے سنا تھا کہ قلعہ شاہ در اور خلجان کے درمیانی علاقے میں ایک پہاڑی پر اللہ کا ایلچی اترا تھا اور اس علاقے کے لوگوں نے اسے دیکھا ہیں اللہ کا ایلچی مان لیا ہے اس ایلچی کا نام حسن بن صباح ہے وہ آپ کا ہم نام ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ آپ کے نام کی توہین ہے آپ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو ولی کہوں یا امام کہوں؟
تم نے اس کا نام غلط سنا ہے حسن بن صباح نے کہا اس کا نام احسن ابن سبا ہے لوگوں نے اسے حسن بن صباح بنا دیا ہے
یہ تو بہت ہی اچھا ہے حافظ اصفہانی نے کہا اس کا صحیح نام سن کر مجھے روحانی اطمینان ہو گیا ہے آپ کے نام کی بے ادبی نہیں ہو رہی سنا ہے اس احسن ابن سبا کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں ایسا جادو ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس نے اور احمد بن عطاش نے لوگوں کی ایک فوج تیار کرلی ہے یہ باقاعدہ فوج نہیں لوگ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں انہیں تیغ زنی تیراندازی برچھی بازی اور گھوڑ سواری کی تربیت دی جاتی ہے
کیا تم ان لوگوں کے متعلق ابومسلم رازی کو بتاؤ گے؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہاں یا ولی! حافظ اصفہانی نے جواب دیا میں تو سلطان ملک شاہ تک بھی پہنچوں گا اور اسے اکساؤں گا کہ وہ اس باطل فرقے کو طاقت سے ختم کرے مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بڑی مدت سے یہ لوگ قافلوں کو لوٹ رہے ہیں وہ زروجواہرات لوٹتے ہیں اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں آٹھ دس سال عمر کی بچیوں کو بھی لے جاتے ہیں انہیں اپنے مذموم مقاصد اورعزائم کے مطابق تربیت دیتے ہیں زروجواہرات کا استعمال بھی یہی ہوتا ہے
میں جانتا ہوں حسن بن صباح نے کہا وہ بہت خطرناک لوگ ہیں
حافظ اصفہانی کو معلوم نہ تھا کہ اس نے جس حسن بن صباح کی بات سنی ہے وہ یہی شخص ہے جسے وہ ولی اور امام کہہ رہا ہے اور احمد بن عطاش اس کا استاد ہے حسن بن صباح حافظ اصفہانی سے یہ باتیں سن کر ذرا سا بھی نہ چونکا نہ اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار کیا بلکہ حافظ اصفہانی کی باتوں کی تائید کرتا اور احمد بن عطاش پر لعنت بھیجتا رہا
اب ایک عرض سن لیں یا ولی! حافظ اصفہانی نے کہا اجازت ہو تو کہوں
اجازت کی کیا ضرورت ہے حسن بن صباح نے کہا کہو وہ جو کہنا ہے
اولاد سے محروم ہوں حافظ اصفہانی نے کہا پہلی بیوی سے بھی اولاد نہیں ہوئی وہ فوت ہو گئی تو کچھ عرصے بعد میں نے اس کے ساتھ شادی کرلی
اس کے ساتھ کب شادی کی ہے؟
حسن بن صباح نے پوچھ
بارہ تیرہ سال ہوگئے ہیں حافظ اصفہانی نے جواب دیا اس کا پہلا خاوند ایک قافلے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا
کیا اس سے اس کا کوئی بچہ تھا؟
ایک بچی تھی حافظ نے جواب دیا نو دس سال کی تھی ڈاکو اسے اٹھا کر لے گئے تھے
بہت خوبصورت بچی تھی حافظ کی بیوی نے کہا مجھے اس سے بہت پیار تھا شاید یہ اس کے غم کا اثر ہے کہ میں کوئی بچہ پیدا نہ کر سکی
اور مجھے اس بیوی سے اتنا پیار ہے کہ میں صرف اولاد کی خاطر دوسری شادی نہیں کروں گا حافظ اصفہانی نے کہا آپ کو اللہ نے کرامت عطا کی ہے
چہرے سے نقاب ہٹا دو حسن بن صباح نے عورت سے کہا
عورت نے چہرہ بے نقاب کیا تو حسن بن صباح کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ بدک گیا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہو گی کہ یہ عورت غیر معمولی طور پر حسین تھی اس کی عمر زیادہ تھی لیکن اس کے چہرے پر معصومیت ایسی کے وہ پچیس چھبیس سال کی نوجوان لڑکی لگتی تھی
حسن بن صباح کے بدکنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے یوں لگا جیسے شمونہ نے اس کے سامنے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا ہو شمونہ وہ لڑکی تھی جسے حسن بن صباح مرو لے گیا تھا اور اسے اپنی بیوہ بہن بتایا اور نام فاطمہ بتایا تھا وہ نظام الملک کی جگہ وزیراعظم بننے کے لیے اس لڑکی کو استعمال کر رہا تھا کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور اسے اس لڑکی کے ساتھ شہر بدر کر دیا گیا تھا
اب اس کے سامنے جو چہرہ بے نقاب ہوا تھا وہ اسی لڑکی کا چہرہ تھا جس کا نام شمونہ تھا
تمہارا نام کیا ہے؟
حسن بن صباح نے اس سے پوچھا
میمونہ عورت نے جواب دیا
حسن بن صباح عام سے دماغ والا انسان نہیں تھا اس نے اپنے دماغ میں ایسی طاقت پیدا کر لی تھی جسے تین مورخوں نے مافوق العقل کہا ہے
میمونہ! حسن بن صباح نے کہا تمہیں واقعی اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی اس لیے تم نے اس کا نام شمونہ رکھا تھا یہ نام تمہارے نام سے ملتا ہے
یہ حسن بن صباح کی قیاس آرائیاں قافیہ شناسی تھی اس عورت کی بیٹی قافلے سے اغوا ہوئی تھی اور اس کی بیٹی کی شکل اس کے ساتھ ملتی تھی اس لیے حسن بن صباح نے بڑی گہری سوچ میں سے ہوا میں تیر چلایا جو ٹھیک نشانے پر جا لگا
یا امام! میمونہ نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا میں نے تو آپ کو اپنی بیٹی کا نام نہیں بتایا تھا
نہیں میمونہ! حسن بن صباح نے کہا اگر تمہارے بتانے سے مجھے تمہاری بیٹی کا نام معلوم ہوتا تو پھر میرا کیا کمال ہوا
یا امام! میمونہ نے کہا میں نے آپ کو امام مان لیا ہے آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو کہاں ہے؟
حسن بن صباح نے اپنے آپ پر مراقبہ کی کیفیت طاری کر لی آنکھیں بند کر لیں ہاتھوں سے عجیب طرح کی حرکتیں کرنے لگا پھر ایک بار اس نے تالی بجائی
کہاں مر گئے تھے اس نے کہا میرے سوالوں کے جواب دو ہوں اچھا وہ ہے کہاں؟
ٹھیک ہے ہاں تم جاسکتے ہو
وہ زندہ ہے حسن بن صباح نے مراقبے سے بیدار ہو کر میمونہ سے کہا اور اسے رے میں دیکھا گیا ہے
کیا یہ پتہ چل سکتا ہے کہ رے میں وہ کہاں مل سکتی ہے؟
میمونہ نے پوچھا
امیر شہر ابومسلم رازی سے اس کا سراغ مل سکتا ہے حسن بن صباح نے جواب دیا شمونہ کے ساتھ مجھے ابومسلم رازی کا چہرہ بھی نظر آیا ہے
کیا حسن بن صباح کو علم غیب سے اشارہ ملا تھا کہ شمونہ زندہ ہے اور رے میں ہے کیا اس نے کسی پر اسرار عمل کے ذریعے معلوم کر لیا تھا؟
نہیں داستان گو پچھلے سلسلے میں اصل حقیقت بیان کر چکا ہے حسن بن صباح نے رے سے مفرور ہوتے وقت حکم دیا تھا کہ شمونہ کو خلجان پہنچا دیا جائے جہاں دوسری لڑکیوں کے سامنے اسے قتل کیا جائے گا لیکن حسن بن صباح کو فرار ہوکر مصر جانا پڑا فرار سے پہلے اسے اطلاع مل گئی تھی کہ شمونہ کہیں بھاگ گئی ہے پھر اسے یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ شمونہ ابومسلم رازی کے پاس چلی گئی ہے
میمونہ یہ سمجھ رہی تھی کہ حسن بن صباح کو مراقبے میں یہ جنات نے بتایا ہے کہ شمونہ اس وقت کہاں ہے؟
کیا میری بیٹی مجھے مل جائے گی؟
میمونہ نے پوچھا
ہاں! حسن بن صباح نے جواب دیا مل جائے گی
یا امام! میمونہ نے کہا اب یہ بتا دیں کہ میرا کوئی اور بچہ ہوگا یا نہیں
حسن بن صباح ایک بار پھر مراقبے میں چلا گیا
نہیں نہیں کچھ دیر بعد آنکھیں بند کیں ہوئے وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے کے انداز سے بولا کچھ کرو کوئی طریقہ کوئی ذریعہ بتاؤ میں انہیں دو بچے دینا چاہتا ہوں اچھا ہاں بتاتا چلو قبر کی نشانی بتاؤ ٹھیک ہے
حسن بن صباح نے خاصی دیر بعد آنکھیں کھولیں
ایک بچے کی امید بندھ گئی ہے حسن بن صباح نے میمونہ کے خاوند سے کہا لیکن میرے جنات نے جو طریقہ بتایا ہے وہ ذرا خطرناک ہے ضروری نہیں کہ اس میں جان چلی جائے میں تمہاری حفاظت کا انتظام کر دوں گا لیکن خطرے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے
آپ طریقہ بتائیں حافظ اصفہانی نے کہا
یہ کام تمہیں ہی کرنا پڑے گا حسن بن صباح نے کہا میں کاغذ پر لکھ کر اور یہ کاغذ تہہ کرکے تمہیں دوں گا دن کے وقت قبرستان میں جاکر کوئی ایسی قبر دیکھ لینا جو بیٹھ گئی ہو ایک کدال ساتھ لے جانا قبر میں اتر جانا اور کدال سے اتنی مٹی نکال کر باہر پھینکنا جو تمہارے اندازے کے مطابق تمہارے جسم کے وزنی جتنا ہو مٹی دو بالشت چوڑی جگہ سے نکالنا تاکہ گڑھا بنتا چلا جائے یہ گڑھا اس طرف سے کھودنا ہے جس طرف مردے کا سر ہوتا ہے ہو سکتا ہے مردے کی کھوپڑی نظر آ جائے خدائی ختم کر دینا اور یہ کاغذ کھوپڑی پر رکھ کر کھودی ہوئی مٹی سے گڑھا بھر دینا اور واپس آ جانا اگر کھوپڑی نظر نہ آئے تو یہ اندازہ کرلینا کہ تمہارے جسم کے وزن جتنی مٹی نکل آئی ہے یہ کاغذ گڑھے میں رکھ کر گڑھا مٹی سے بھر کر آ جانا گیارہ دنوں بعد تمہیں میمونہ خوشخبری سنا دی گی
حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے
تم دونوں کو معلوم ہے کون سی قبر موزوں ہے اس نے ان دونوں ساتھیوں سے کہا صبح اسے ساتھ لے جانا اور قبرستان میں کوئی بہت پرانی اور بیٹھی ہوئی قبر اسے دکھا دینا رات کو یہ اکیلا جائے گا
حسن بن صباح نے کاغذ کے ایک پرزے پر کچھ لکھا منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر کاغذ پر پھونکیں ماریں کاغذ کی کئی تہہ کرکے حافظ اصفہانی کو دیا اور کہا کہ اسے کھول کر نہ دیکھے
حافظ اور اس کی بیوی میمونہ چلے گئے
تم نے اس شخص کی باتیں سنیں ہے حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ کوئی معمولی آدمی نہیں مالدار اور سردار ہے یہ ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے اسے بتائے گا کہ خلجان میں کیا ہو رہا ہے ؟
ہمارے خلاف طوفان کھڑا کرے گا ایک ساتھی نے کہا آپ حکم دیں کیا کرنا ہے؟
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے حسن بن صباح نے کہا کل رات یہ قبرستان سے زندہ واپس نہ آئے میں نے اسے سب کچھ تمہاری موجودگی میں بتایا ہے تمہیں قبرستان میں پہلے سے موجود ہونا چاہیے
اب یہ ہم پر چھوڑ دیں اس کے ساتھی نے کہا اس کی لاش اسی قبر میں پڑی ملے گی جس میں کھدائی کر کے وہ تعویذ رکھنے جائے گا
اس کی اس بیوی کا کیا بنے گا؟
دوسرے ساتھی نے پوچھا
یہ ہمارے ساتھ جائے گی حسن بن صباح نے کہا ہمارے کام کی عورت ہے ہو سکتا ہے اس کے ذریعے اس کی بیٹی شمونہ واپس آجائے
اگلے روز ابھی سورج طلوع ہوا ہی تھا کہ حافظ اصفہانی حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے میں گیا وہ انھیں قبرستان لے جانا چاہتا تھا دونوں تیار تھے اس کے ساتھ چلے گئے
وہ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا جس میں نئی قبریں بھی تھیں اور پرانی بھی اور کچھ اتنی پرانی کے اس کے ذرا ذرا سے نشان باقی رہ گئے تھے ضرورت ایسی قبر کی تھی جو بیٹھ گئی ہو یعنی جو اندر کو دھنس گئی ہو قبرستان کا یہ حصہ ایسا تھا جو بارشوں کے بہتے پانی کے راستے میں آتا تھا وہاں دھنسی ہوئی چند قبریں نظر آ گئیں ایک قبر اتنی زیادہ دھنس گئی تھی کہ اس میں مدفون مردے کی کھوپڑی اور کندھوں کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں
یہ قبر آپ کا کام کرے گی حسن بن صباح کے ایک ساتھی نے کہا آپ کو خدائی نہیں کرنی پڑے گی رات کو اس میں اترے اور امام کا دیا ہوا کاغذ اس کھوپڑی کے منہ میں رکھ دیں اور پھر اس پر کدال سے مٹی ڈال دیں
مٹی بہت ساری ڈالنا بھائی صاحب دوسرے ساتھی نے کہا اپنے وزن کے برابر مٹی ہو میں آپ کو ایک خطرے سے خبردار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں آپ کو ننگی کھوپڑی مل گئی ہے یہ آپ کی مراد پوری کر دی گئی اور بہت جلد کر دے گی لیکن آپ نے ذرا سی بھی بدپرہیزی یا بے احتیاطی کی تو یہ کھوپڑی آپ کی جان لے لے گی
پھر بھی اس موقعے سے ضرور فائدہ اٹھائیں دوسرا ساتھی بولا امام نے آپ کی حفاظت کا انتظام کر دیا ہے اللہ کا نام لے کر رات کو آ جائیں میں ضرور آؤں گا حافظ اصفہانی نے پرعزم لہجے میں کہا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ دن اس کی زندگی کا آخری دن ہے اور اس کی آنکھیں کل کا سورج نہیں دیکھ سکیں گے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:20 }
آدھی رات کے وقت وہ کدال اٹھائے قبرستان میں پہنچ گیا
چاندنی اتنی سی تھی جس میں دن میں دیکھی ہوئی قبر تک پہنچنا مشکل نہ تھا
وہ جب گھر سے چلا تھا تو میمونہ نے اسے روک لیا تھا
معلوم نہیں میرے دل پر بوجھ سا کیوں آپ پڑا ہے میمونہ نے کہا تھا کیا میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتی
نہیں میمونہ! حافظ نے کہا تمہارے سامنے امام نے کہا تھا کہ میں قبرستان میں اکیلے جاؤ یہ شرط ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی تو ہماری جانیں خطرے میں آ سکتی ہے
میری ایک بات مانیں میمونہ نے کہا تھا مجھے بچہ نہیں چاہئے آپ ہیں تو سب کچھ ہے اس وقت قبرستان میں نہ جائیں
تم تو بڑے مضبوط دل والی تھی میمونہ! حافظ نے بڑے پیارے انداز میں کہا تھا میں میدان جنگ میں نہیں جا رہا میں طوفانی سمندر میں نہیں جا رہا مجھے اللہ حافظ کہوں میمونہ میرے جانے کا وقت ہو رہا ہے
اللہ حافظ! میمونہ نے کہا
حافظ اصفہانی جب میمونہ کو اللہ حافظ کہہ کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میمونہ کو ہچکی سی آئی اور اس کا دل ڈوب گیا تھا جیسے اسے غیب سے اشارہ ملا ہو کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے
وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ کھلا رکھا اسے نیند آ جانی چاہیے تھی لیکن اسکے جسم کا روآں روآں ریشہ ریشہ بے کلی بڑھتی جا رہی تھی رات گزرتی جارہی تھی
رات کا آخری پہر شروع ہوگیا میمونہ کو ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تو دوڑ کر دروازے تک جاتی اور مایوس لوٹ آتی
اسے مؤذن کی آواز سنائی دی تو میمونہ کے دل سے ہُوک اٹھی موذن نے اذان کے الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ رات گزر گئی ہے
اتنا وقت نہیں لگنا چاہیے تھا اس کے دل نے کہا
دل کانپ رہا تھا اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا
اس نے وضو کیا اور مصلّے پر کھڑے ہو گئی فجر کی پوری نماز پڑھ کر اس نے نفل پڑھنے شروع کر دیئے ہر چار نفلوں کے بعد ہاتھ پھیلا کر اپنے خاوند کی سلامتی کی دعا مانگتی تھی
آنسو اس کا حسن دھوتے رہے اس کا دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ وہ اس کی آواز سن سکتی تھی
جب صبح کا اجالا سفید ہو گیا تو وہ حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے کی طرف اٹھ دوڑی دونوں ہاتھ زور زور سے دروازے پر مارے اور کواڑ دھماکے سے کھلے دونوں آدمی ناشتہ کر رہے تھے انہوں نے بدک کر دیکھا
حافظ آدھی رات کے وقت قبرستان میں گئے تھے میمونہ نے کہا ابھی تک نہیں آئے انہیں دیکھو
ہم دیکھنے جائیں گے ایک نے کہا ذرا دل مضبوط کریں وہ آ جائیں گے
اس شخص نے دراصل یہ کہنا تھا کہ حافظ اصفہانی کبھی واپس نہیں آئے گا
گزشتہ رات یہ دونوں حافظ اصفہانی سے پہلے قبرستان میں پہنچ گئے اور اس قبر سے کچھ دور ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے تھے چاندنی میں انہوں نے حافظ کو آتا دیکھ لیا وہ قبر میں اترا اور جھک کر کھوپڑی پر حسن بن صباح کا دیا ہوا تعویذ رکھنے لگا دونوں اٹھے اور حافظ کے عقب میں جا پہنچے حافظ نے تعویذ کھوپڑی پر رکھ دیا وہ جونہی سیدھا ہوا پیچھے سے دو ہاتھوں نے اس کی گردن شکنجے میں جکڑ لیا دوسرے آدمی نے اس کے پیٹ میں پوری طاقت سے گھونسا مارنے شروع کر دئیے
تھوڑی سی دیر میں حافظ کا جسم ساکت و جامد ہو گیا دونوں نے اچھی طرح یقین کر لیا کہ وہ مر گیا ہے اسے دھنسی ہوئی قبر میں لیٹا دیا اور واپس آگئے
صبح میمونہ ان کے کمرے میں گئی اور بتایا کہ اس کا خاوند واپس نہیں آیا دونوں نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور قبرستان کی طرف چل دیے میمونہ نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی انہوں نے اسے ساتھ لے لیا
قبرستان میں پہنچے تو دور سے انہیں اس قبر کے ارد گرد چند ایک آدمی کھڑے نظر آئے وہ میمونہ کے ساتھ پہنچے تو میمونہ کو دھنسی ہوئی قبر میں اپنے خاوند کی لاش پڑی دکھائی دی میمونہ کی چیخ نکل گئی لوگوں کی مدد سے لاش اٹھا کر سرائے میں لے آئے حسن بن صباح کو اطلاع ملی تو دوڑتا باہر آیا اسے تو اس کے ساتھیوں نے رات کو آ کر بتا دیا تھا کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل کر آئے ہیں حسن بن صباح نے انہیں خاص شراب پلائی تھی
یاد رکھو دوستوں! حسن بن صباح نے انہیں کہا تھا جس پر ذرا سا بھی شک ہو اسے ختم کر دو یہ شخص ہمارے لئے خطرناک ہو سکتا تھا اس کی بیوی اب ہمارے ساتھ رہے گی اس کے پاس مال و دولت بھی ہے یہ بھی اب ہمارا ہے جاؤ اور صبح کا انتظار کرو
صبح اسے اطلاع ملی کہ قبرستان سے حافظ اصفہانی کی لاش آئی ہے تو وہ کمرے سے دوڑتا نکلا اور لاش تک پہنچا اس نے لاش کو ہر طرف سے دیکھا دونوں ہتھیلیاں دیکھیں اور گھبراہٹ کی ایسی اداکاری کی کے دیکھنے والوں پر خوف و ہراس طاری ہوگیا اس نے میمونہ کو دیکھا جس کی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئی تھیں
میمونہ! حسن بن صباح نے کہا میرے ساتھ آؤ جلدی ایک لمحہ دیر نہ لگانا اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا تم بھی میرے ساتھ آؤ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے
وہ میمونہ اور اپنے ساتھی کو اپنے کمرے میں لے گیا اور دروازہ بند کر لیا
رونا بند کرو میمونہ! اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا فرش پر بیٹھ جاؤ تمہارا خاوند کوئی غلطی کر بیٹھا ہے ایک بڑی ہی خبیث بدروح نے اس کی جان لی ہے یہ بدروح ابھی تک غصے میں ہے میں نے اس کی سرگوشی سنی ہے تمہاری جان بھی خطرے میں ہے چونکہ یہ عمل اس لیے کیا گیا تھا کہ تمہاری کوکھ سے بچہ پیدا ہو اس لیے یہ بد روح تمہیں بھی اسی طرح مارنا چاہتی ہے میں ابھی تمہاری حفاظت کا انتظام کر دیتا ہوں
اس نے میمونہ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور کچھ بڑبڑانا شروع کردیا وقفے وقفے سے وہ میمونہ کی آنکھوں میں پھونک مارتا تھا میمونہ جو بلک بلک کر رو رہی تھی اور ایسی بے چین کے ہاتھ نہیں آتی تھی پرسکون ہونے لگی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے سکون اور اطمینان کی لمبی آہ بھری جیسے اس کا خاوند زندہ ہو گیا ہو حسن بن صباح نے اسے فرش سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیا
میں نے حافظ کو خبردار کر دیا تھا حسن بن صباح نے کہا لیکن اسے ایک بچے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے میری پوری بات توجہ سے نہ سنی میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے تمہیں دیکھ لیا اور اس بے رحم بد روح کو بھی دیکھ لیا وہ ابھی تک حافظ پر منڈلا رہی تھی اور بار بار تمہاری طرف دیکھتی تھی میں نے تمہیں محفوظ کرلیا ہے لیکن تمہیں دو چاند میرے ساتھ رہنا پڑے گا اگر تم اس سے پہلے میرے سائے سے دور ہو گئی تو تمہارا انجام اپنے خاوند سے زیادہ برا ہوگا
یہ آپ کا کرم ہے یا امام! میمونہ نے کہا میں آپ کے سائے میں نہیں رہوں گی تو جاؤں گی کہاں میری منزل اصفہان ہے
وہاں تک میں تمہیں بخیر و خوبی پہنچاؤں گا حسن بن صباح نے کہا میرے محافظ تمہاری منزل تک تمہارے ساتھ جائیں گے لیکن تمہارا خاوند کہہ رہا تھا کہ وہ سلجوقی سلطنت کے حکمران سلطان ملک شاہ سے ملنے مرو جائے گا اس نے آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ مرو کیوں جائے گا میمونہ نے کہا ہم نے خلجان شاہ در اور اس علاقے میں جو دیکھا ہے وہ سلطان ملک شاہ کو بتانا تھا خصوصاً خلجان میں کوئی ایسا فرقہ تیار ہوگیا ہے جس کے عقیدے لوگوں کے دلوں میں اتر گئے ہیں یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کے اعمال نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ فرقہ اسلام کو بالکل ہی مسخ کر دے گا سنا ہے اس فرقے نے جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو اپنی جانوں کی بازی لگا کر اپنے مخالفوں کی جانیں لیتا ہے
تمہارے خاوند نے مجھے یہ ساری باتیں بتائی تھیں حسن بن صباح نے کہا تم یہ بتاؤ کہ تم اس سلسلے میں کیا کرنا چاہتی ہو؟
کچھ بھی نہیں میمونہ نے کہا وہ خاوند ہی نہیں رہا جو اسلام کا شیدائی تھا میں تو چاہتی ہوں اصفہان پہنچ جاؤ اور سوچو کہ مجھے اب اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہیے
کیا تمہارے گھر میں سونا یا درہم و دینار ہے؟
حافظ اصفہانی ایک جاگیر کا مالک تھا میمونہ نے جواب دیا سونا بھی ہے درہم و دینار بھی ہے جو گھر کے ایک دیوار میں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں یہ تو ایک مدفون خزانہ ہے لیکن زندگی کا ساتھی ہی نہ رہا تو میں اس خزانے کو کیا کروں گی کوشش کروں گی کہ اپنی بیٹی شمونہ کی تلاش میں مروں اور رے جاؤ آپ ہی نے بتایا ہے کہ وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس ہوگی
حسن بن صباح کو دھچکا سا لگا وہ ایک رات پہلے اس عورت کو بتا چکا تھا کہ اس کی بیٹی کہاں ہے اب اسے خیال آیا کہ اس عورت کو سلطان ملک شاہ اور ابو مسلم رازی کے پاس نہیں جانا چاہیے ورنہ وہ خلجان پر حملہ کرا دے گی اور اسے گرفتار کرا دے گی
پہلے اپنی منزل پر پہنچو! حسن بن صباح نے کہا مجھ سے پوچھے بغیر کہیں نہ جانا تمہاری بیٹی زندہ ہے اور تمہیں مل جائے گی لیکن اپنے آپ اس کی تلاش میں نہ چل پڑنا
میمونہ جذبات کی ماری ہوئی تنے تنہا عورت تھی خاوند کی موت کے صدمے نے اس پر ڈوبنے کی کیفیت طاری کر دی تھی وہ تینکو کے سہارے ڈھونڈ رہی تھی حسن بن صباح سے بہتر سہارا اور کیا ہو سکتا تھا اسے وہ امام مانتی تھی جو غیب کے پردوں کے پیچھے جا کر بتا سکتا تھا کہ کیا ہو چکا ہے اور کیا ہونے والا ہے
میمونہ نے مان لیا تھا کہ حسن بن صباح نے اس کے خاوند کو ٹھیک عمل بتایا تھا لیکن ایک بدروح نے اس کی جان لے لی اس مجبور عورت کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جسے وہ غیب دان امام مانتی ہے اس نے اسے ہپنا ٹائز کرلیا ہے اور اب وہ اس کے اشاروں پر چلے گی
وہ اس عورت کو ہپنا ٹائز نہ کرتا تو بھی وہ اس کے جال میں سے نکل نہیں سکتی تھی تمام مورخوں نے خصوصاً یورپی تاریخ نویسوں اور شخصیت نگاروں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے کہ اس کے سامنے اس کا کوئی خونی دشمن اسے قتل کرنے کی نیت سے آ جاتا تو وہ بھی اس کا مرید ہو جاتا تھا یہ ابلیسیت کا طلسم تھا
میمونہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ رہے گی
اس کے خاوند کی لاش اس کے کمرے میں پڑی ہوئی تھی حسن بن صباح نے سرائے کے مالک کو بلا کر کہا کہ وہ میت کے غسل اور کفن دفن کا انتظام کرے اس کے اخراجات میمونہ ادا کریے گی
دوپہر کے وقت حافظ اصفہانی کا جنازہ سرائے سے اٹھا قبرستان میں جاکر حسن بن صباح نے نماز جنازہ پڑھائی وہ جس قبرستان میں بچہ لینے گیا تھا اسی قبرستان میں دفن ہو گیا اور اپنے پیچھے یہ کہانی چھوڑ گیا کہ اسے ایک بدروح نے مارا ہے
میمونہ اپنے کمرے میں تنہا ڈرتی تھی اس نے حسن بن صباح سے پوچھا کہ وہ اس کے کمرے میں رہ سکتی ہے حسن بن صباح نے اسے اجازت دے دی میمونہ اپنا سامان اٹھا کر اس کے کمرے میں چلی گئی
اس سرائے میں مسافر اس مجبوری کے تحت روکے ہوئے تھے کہ کوئی قافلہ تیار نہیں ہورہا تھا لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کیا کرتے تھے اکیلے دکیلے مسافروں کو رہزن لوٹ لیتے تھے
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا چودہ پندرہ دنوں بعد ایک قافلہ تیار ہوگیا یہ بہت بڑا قافلہ تھا کچھ تاجر تھے کچھ پورے پورے کنبے تھے زندگی کے ہر شعبے کے لوگ اس قافلے میں شامل تھے عورتیں بھی تھیں بچے بھی تھے
سرائے میں اطلاع آئی تو سرائے خالی ہو گئی حسن بن صباح اس کے دو ساتھیوں اور میمونہ نے سامان باندھا اور قافلے سے جا ملے انہوں نے ایک گھوڑا اور دو اونٹ کرائے پر لے لیے ایک اونٹ پر بڑی خوبصورت پالکی بندھوائی یہ میمونہ کے لیے تھے قافلے کی روانگی سے پہلے میمونہ کو پالکی میں بٹھا دیا گیا اور حسن بن صباح اپنے ساتھیوں کے ساتھ ذرا پرے جا کھڑا ہوا
اس عورت پر نظر رکھنا حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ اپنے خاوند سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے میں نے اس کا راستہ بند تو کر دیا ہے پھر بھی یہ دوسرے مسافروں سے نہ ہی ملے تو اچھا ہے اس کا گھر اصفہان میں ہے اپنے مکان کی ایک دیوار میں اس کے خاوند نے اچھا خاصا خزانہ چھپا کر رکھا ہوا ہے اس سے یہ خزانہ نکلوانا ہے اور اس کے گھر میں ہی اس عورت کو دفن کر دینا اگر اسے زندہ رہنے دیا گیا تو یہ کسی بھی دن اپنی بیٹی سے ملنے ابومسلم رازی کے شہر کو روانہ ہو جائے گا
قافلہ چل پڑا
بہت دنوں کی مسافت کے بعد قافلہ بغداد پہنچا لوگ دو چار دن آرام کرنا چاہتے تھے بہت مسافروں کی منزل بغداد ہی تھی اتنے ہی مسافر بغداد سے قافلے سے آملے
حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں کو ایک سرائے میں لے گیا جس میں انہیں کمرے مل گئے وہاں چند ایک عورتیں بھی ٹھہری ہوئی تھیں ان کے ساتھ ان کے آدمی بھی تھے
دوسری صبح تھی میمونہ اپنے کمرے سے باہر نکلی اسے اپنا خاوند بہت یاد آ رہا تھا اور وہ بہت ہی اداس ہو گئی تھی حسن بن صباح نے خود ہی اسے کہا تھا کہ وہ باہر گھومے پھیرے سرائے کے باہر نہ جائے اور عورتوں میں جا بیٹھے
وہ باہر نکلی تو اسی کی عمر کی ایک عورت سامنے آگئی وہ بھی حلب کی سرائے سے اپنے کنبے کے ساتھ قافلے میں شامل ہوئی تھی اور وہ اسی سرائے میں ٹھہری تھی اسے معلوم تھا کہ میمونہ کا خاوند قبرستان میں ایک بد روح کے ہاتھوں مارا گیا تھا لیکن یہ عورت میمونہ سے پوچھ نہیں سکتی تھی کہ اس کا خاوند کس طرح مارا گیا تھا بغداد میں میمونہ اس کے سامنے آگئی
ہمسفر ہو کے ہم ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں اس عورت نے میمونہ سے کہا عورت کا درد عورت ہی سمجھ سکتی ہے کچھ دیر کے لئے میرے پاس نہیں آؤں گی میرے ساتھ میرا خاوند اور اس کا ایک بھائی ہے دو بچے ہیں
میمونہ اداس مسکراہٹ سے اس کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی مرد ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے
یہ تو بتاؤ بہن! اس عورت کے خاوند نے میمونہ سے پوچھا تمہارا خاوند رات کے وقت قبرستان میں کیا کرنے گیا تھا
امام نے اسے بھیجا تھا میمونہ نے کہا کہنا تو یہ چاہیے کہ اسے موت لے گئی تھی وہ ایک بچے کا خواہشمند تھا
میمونہ نے ساری بات لفظ با لفظ سنا دی
کیا تمہارے خاوند نے کوئی اور باتیں بھی کی تھیں اس شخص نے پوچھا میں دراصل یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہارا خاوند اس شخص کو جانتا تھا جسے تم امام کہتی ہو
باتیں تو بہت ہوئی تھیں میمونہ نے جواب دیا میرا خاوند امام کو پہلے نہیں جانتا تھا ہم مصر سے جہاز میں آ رہے تھے بڑا ہی تیز و تند طوفان آگیا جہاز کا ڈوب جانا یا یقینی تھا لیکن اس امام نے کہا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا طوفان سے نکل جائے گا جہاز نکل آیا
یہاں سے بات چلی تو بہت سی باتیں ہوئیں اس عورت کا خاوند کرید کرید کر باتیں پوچھ رہا تھا میمونہ کو شک ہوا کہ یہ آدمی کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتا ہے
میرے بھائی! میمونہ نے پوچھا معلوم ہوتا ہے آپ کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے ہیں
ہاں بہن! اس نے کہا میرا خیال ہے کہ میں نے خاص بات معلوم کر لی ہے میں تمہیں اس آدمی سے خبردار کرنا چاہتا ہوں اس شخص کا نام حسن بن صباح ہے اور یہ ایک شیطانی فرقہ کا بانی ہے اسے تم امام کہتی ہو یہ اگر امام ہے تو اس شیطانی فوقے کا امام ہے اس کا استاد احمد بن عطاش ہے اور ان لوگوں نے خلجان کو اپنے فرقے کا مرکز بنایا ہے یہ دونوں شیطان کا نام لیے بغیر لوگوں کو شیطان کا پجاری بنا رہے ہیں اور نام اسلام کا لیتے ہیں
میرے خاوند نے اس کے ساتھ یہ بات کی تھیں میمونہ نے کہا اور کہا تھا کہ وہ سلطان ملک شاہ اور حاکم رے ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے اور انہیں کہے گا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے خلاف جنگی کارروائی کریں اور اسلام کی اصل روح کو بچائیں میرے خاوند نے جب اسے یہ کہا کہ وہ آپ کا ہم نام ہے تو حسن بن صباح نے کہا کہ اس کا نام احسن بن سبا ہے حسن بن صباح نہیں میرے خاوند نے حسن بن صباح اوراسکے فرقے کے خلاف بہت باتیں کی تھیں اور یہ اس نے دو تین بار کہا تھا کہ میں اس فرقے کو نیست و نابود کرا دوں گا
میری عزیز بہن! اس آدمی نے جو خاصا دانشمند لگتا تھا کہا تمہارا خاوند قتل ہوا ہے اتنی اچھی حیثیت اور عقل و ہوش والا آدمی یہ نہ سمجھ سکا کے مردے کسی زندہ انسان کو بچہ نہیں دے سکتے اور حسن بن صباح جیسے شیطان فطرت انسان کی لکھی ہوئی پرچی پر اللہ تبارک و تعالی کسی کی مراد پوری نہیں کیا کرتا حسن بن صباح نے تمہارے خاوند کی دلی مراد سنی تو اس نے فورا سوچ لیا کہ اپنے اس خطرناک مخالف کو وہ کس طرح قتل کر سکتا ہے اس نے تمہارے خاوند کو آدھی رات کو قبرستان میں بھیجا اور پیچھے اپنے آدمی بھیج کر اسے قتل کروا دیا
میں بھی اس کے ساتھ یہی باتیں کر چکی ہوں میمونہ نے کہا اور مجھے اب خیال آتا ہے کہ اس نے مجھ سے یہ بھی اگلوا لیا ہے کہ میرے خاوند نے اصفہان میں اپنے رہائشی مکان کی ایک دیوار میں بہت سا سونا اور اچھی خاصی رقم چھپا کر رکھی ہوئی ہے
اس نے کیا کہا تھا؟
اس نے کہا کہ میں تمہیں اصفہان تک اپنے آدمیوں کی حفاظت میں پہنچاوں گا میمونہ نے کہا
وہ تمہارے ساتھ اپنے آدمی ضرور بھیجے گا اس شخص نے کہا پھر جانتی ہو کیا ہو گا تمہارے خاوند کا خزانہ دیوار سے باہر آ جائے گا اور تم دیوار کے اندر ہو گی کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تم کہاں غائب ہو گئی اس حسن بن صباح کے حکم سے یہ فرقہ کئی سالوں سے قافلوں کو لوٹ رہا ہے قافلوں سے یہ زر و جواہرات اور رقم لوٹتے ہیں اور خوبصورت کمسن اور نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں
میں ایک قافلے میں لُٹ چکی ہوں میمونہ نے کہا میرا پہلا خاوند ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا اور وہ میری ایکلوتی بیٹی کو اٹھا لے گئے ہیں
تمھاری بیٹی انہی کے پاس ہوگی اس آدمی نے کہا
سب باتیں ہو چکیں میمونہ نے کہا میں نے سب باتیں سمجھ لی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ یہ شخص حسن بن صباح جب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لفظ دل میں یوں اترتا جاتا ھے جیسے یہ لفظ آسمان سے اتر رہے ہو میں حیران ہوں کہ سلجوقی سلطان اور اس کے امراء جو اپنے آپ کو صحیح العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں اور اسلام کی پاسبانی کا بھی دعوی کرتے ہیں وہ بے خبر ہیں کہ ان کی سرحد کے ساتھ ساتھ کیا ہو رہا ہے
ان کے بے خبر ہونے کی ایک وجہ ہے اس شخص نے کہا ان کے جاسوس ان باطل پرستوں کے علاقے میں جاتے ہیں لیکن وہاں ان پر ایسا نشہ طاری ہو جاتا ہے کہ وہ وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں ان میں سے بعض ان باطنیوں کے گرویدہ ہو کر ان کے جاسوس بن کے واپس آ جاتے ہیں وہاں کی باتیں غلط بتاتے ہیں اور سلجوقی حکمرانوں کی صحیح خبریں باطنیوں کو دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو غداری نہیں کرتے دیانتداری سے جاسوسی کرتے ہیں وہ وہاں پر اسرار طریقوں سے قتل ہوجاتے ہیں حسن بن صباح نے جاسوسوں اور مشکوک لوگوں کو پکڑنے کا جو نظام بنا رکھا ہے اس میں اتنی گہری نظر رکھتے ہیں کہ باہر کے جاسوس کو فوراً پہچان لیتے ہیں انہیں حکم ملا ہوا ہے کہ ایسا کوئی بھی آدمی نظر آئے اسے قتل کر دو
آپ یہ ساری باتیں جانتی ہیں میمونہ نے پوچھا پھر آپ یہ سلطان ملک شاہ تک کیوں نہیں پہنچاتے
ان بچوں کے خاطر اس نے کہا میں مارا گیا تو ان کا کیا بنے گا
میں مرو یا رے تک کیسے پہنچ سکتی ہوں؟
میمونہ نے پوچھا پتہ چلا ہے میری بیٹی وہاں ہے معلوم نہیں یہ کہاں تک سچ ہے لیکن مجھے اس بیٹی سے اتنی محبت ہے کہ میں اس کی تلاش میں جاؤنگی ضرور مشکل یہ ہے کہ میں اس شخص حسن بن صباح کی قیدی ہوں ہماری منزل کا راستہ دور سے گزرتا ہے اگر میں وہاں تک پہنچ جاؤں تو سلطان تک بھی پہنچ جاؤں گی
تمہیں ویسے بھی یہاں سے نکل جانا چاہیے اس آدمی نے کہا اس شخص نے آخر تمہیں قتل کرنا ہے
میں اس عورت کے لئے ایک قربانی دے سکتا ہوں اس آدمی کے بھائی نے جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا کہا اگر یہ یہاں سے بھاگنے کے لیے تیار ہو تو آج ہی رات بھاگ چلے میں اس کا ساتھ دوں گا میرے پاس گھوڑا ہے اس کے لیے کسی کا گھوڑا چوری کر لیں گے
ہمارے پاس کرائے کا گھوڑا ہے میمونہ نے کہا اور میں پکی سوار ہوں گھوڑا کیسا ہی منہ زور کیوں نہ ہو زمیں کیسی ہی ناہموار کیوں نہ ہو میں سنبھل کر ہر چال اور ہر رفتار پر سواری کر سکتی ہوں
کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں بھائی جان! اس جوان سال آدمی نے اپنے بھائی سے پوچھا
یہ ایک جہاد ہے بڑے بھائی نے کہا میں تجھے کیسے روک سکتا ہوں مزمل!
انہوں نے میمونہ کو فرار کرا کے رے پہنچانے کا بڑا ہی دلیرانہ منصوبہ تیار کرلیا
میمونہ اپنے کمرے میں حسن بن صباح کے پاس چلی گئی
یہ کیسے لوگ ہیں جن کے یہاں تم اتنا وقت گزار آئی ہو حسن بن صباح نے پوچھا
کوئی عام سے لوگ ہیں میمونہ نے کہا اصفہان جا رہے ہیں حافظ اصفہانی کو جانتے تھے اسی کی باتیں کرتے رہے
اب میں باہر جا رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا تم آرام کر لو
حسن بن صباح کے جانے کے بعد میمونہ نے اپنی قیمتی چیزیں اور کپڑے چھوٹی سی ایک گٹھڑی میں باندھ کر پلنگ کے نیچے رکھ دیے رات کو حسن بن صباح گہری نیند سو گیا تو میمونہ نہایت آہستہ نیچے سے گھڑی نکالی اور دبے پاؤں باہر نکل گئی سب کے گھوڑے باہر بندھے ہوئے تھے ان کی زین وغیرہ ان کے پاس ہی تھیں میمونہ کا ہمسفر مزمل آفندی بہت پہلے باہر نکل گیا تھا دن کے وقت اس نے میمونہ کا گھوڑا دیکھ لیا تھا مزمل نے دونوں گھوڑوں پر زین کس دی تھیں
میمونہ پہنچ گئی گٹھڑی اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اور گھوڑے پر سوار ہوگئی مزمل آفندی بھی گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں گھوڑے چل پڑے پہلے وہ آہستہ آہستہ چلے پھر تیز ہو گئے اور جو شہر کے دروازے سے نکلے تو اور تیز ہو گئے کچھ دور جا کر انھوں نے ایڑ لگائی اور گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے
صبح حسن بن صباح کی آنکھ کھلی تو اس نے میمونہ کو غائب پایا اپنے ساتھیوں کے کمرے میں جا کر انہیں کہا کہ اسے ڈھونڈے اس وقت تک میمونہ بغداد سے ساٹھ میل دور پہنچ چکی تھی
وہ سلجوقیوں کے پاس چلی گئی ہے حسن بن صباح نے اسوقت کہا جب اسے پتہ چلا کہ گھوڑا غائب ہے ہم قافلے کا انتظار نہیں کریں گے ہمیں فوراً اصفہان پہنچنا چاہئے وہاں سے خلجان کی صورت حال معلوم کرکے وہاں جائیں احمد بن عطاش کو خبردار کرنا ضروری ہے
ان کے پاس دو اونٹ تھے انہوں نے ایک اچھی نسل کا گھوڑا کرائے پر لے لیا اور اسی وقت روانہ ہوگئے دونوں اونٹوں کا مالک اور گھوڑے کا مالک بھی ان کے ساتھ تھے
مزمل آفندی اور میمونہ اتنی تیز گئے تھے اور انہوں نے اتنے کم پڑاؤ کیے تھے کہ تین دنوں بعد رے پہنچ گئے اور سیدھے امیر شہر ابومسلم رازی کے یہاں چلے گئے دربان سے کہا کہ وہ امیر شہر سے ملنا چاہتے ہیں
کیا کام ہے ؟
دربار نے پوچھا کہاں سے آئے ہو تم ہو کون؟
کیا ہمارے گھوڑوں کا پسینہ نہیں بتا رہا کہ ہم بہت دور سے آئے ہیں میمونہ نے کہا ہمارے چہرے دیکھو ہمارے کپڑوں پر گرد دیکھو امیر سے کہو ایک ماں اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہے کچھ ہی دیر بعد وہ اور مزمل ابومسلم رازی کے کمرے میں اس کے سامنے کھڑے تھے
بہت دور سے آئے لگتے ہو ابومسلم راضی نے کہا
بغداد سے مزمل نے جواب دیا
دربان نے بتایا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی تلاش میں آئی ہو ابومسلم رازی نے کہا کون ہے تمہاری بیٹی؟
یہاں اس کا کیا نام ہے اس کا نام شمونہ ہے میمونہ نے کہا کسی نے بتایا تھا وہ یہاں ہے
ہاں! ابومسلم رازی نے کہا وہ یہیں ہے
اس نے دروازے کے باہر کھڑے خدمتگار کو بلا کر کہا شمونہ کو لے آؤ
جب ماں بیٹی کا آمنا سامنا ہوا تو کچھ دیر دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں
اپنی ماں کو پہچانتی ہو شمونہ؟
ابومسلم رازی نے کہا
ماں بیٹی یوں ملی جیسے ایک دوسرے کے وجود میں سما جانے کی کوشش کر رہی ہوں
ماں اپنی بیٹی کے بازو سے نکل آئی اور ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا میں صرف اس بیٹی کی تلاش میں نہیں آئی تھی امیر شہر! میمونہ نے کہا میرا اصل مقصد کچھ اور ہے کیا آپ حسن بن صباح کو جانتے ہیں ؟
حسن بن صباح! ابومسلم رازی نے کہا کیوں ؟
اسے جانتا ہوں سلطان معظم نے اسے زندہ پکڑ لانے کے لئے ایک سالار امیر ارسلان کو حکم دے دیا ہے…

📜☜ سلسلہ جاری ہے……



www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-5/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ سوئم https://urducover.com/hassan-bin-sabah/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah/#respond Fri, 19 Jul 2024 15:02:53 +0000 https://urducover.com/?p=3572 حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ سوئم

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:9 }
ملک شاہ نے اسی وقت فوج کے سپہ سالار اور کوتوال کو بلا کر انہیں وہ جگہ بتائی جہاں قافلہ لوٹا گیا اور قافلے والوں کا قتل عام ہوا تھا اس نے حکم دیا کہ ہر طرف ہر شہر اور ہر آبادی میں جاسوس پھیلا دیئے جائیں
یہ کوئی بہت بڑا اور منظم گروہ ہے سلطان ملک شاہ نے کہا تم جاسوسوں اور مخبروں کے بغیر اس کا سراغ نہیں لگا سکتے مجھے ان چھوٹے چھوٹے قلعوں کے مالکوں اور قلعہ داروں پر بھی شک ہے ان کے ساتھ ہمیں مروت سے پیش آنا پڑتا ہے تم جانتے ہو کہ وہ کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتے ہیں میں ان پر فوج کشی نہیں کرنا چاہتا ورنہ یہ شرکس اور باغی ہو جائیں گے
سلطان عالی مقام سپہ سالار نے کہا میری نظر قلعہ شاہ در کے والی احمد بن عطاش پر بار بار اٹھتی ہے مجھے شک ہے کہ وہ کوئی زمین دوز کاروائیوں میں مصروف ہے شاہ در ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی آبادی خاصی زیادہ ہے احمد کو اس آبادی سے فوج مل سکتی ہے
اسے شاہ در کا والی میں نے ہی بنایا تھا سلطان نے کہا اور یہ شہر اس کے حوالے اسکی کچھ خوبیاں دیکھ کر کیا تھا اس کی شہرت یہ ہے کہ وہ اہل سنت ہے اور وہ جب وعظ اور خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو کفر کے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں پہلے والی ذاکر نے وصیت کی تھی کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے
گستاخی معاف سلطان محترم کوتوال نے کہا کسی کے خطابت سے متاثر ہونا اور بات ہے لیکن ایسے خطیب کی نیت اور دل میں چھپے ہوئے عزائم کو سمجھنا بالکل ہی مختلف معاملہ ہے اور یہی ایک راز ہے جو جاننا ضروری ہوتا ہے مجھے کچھ ایسی اطلاع ملتی رہی ہیں جن سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شاہ در میں اسماعیلی اکٹھے ہو رہے ہیں
یہ شک ایک اور وجہ سے بھی پختہ ہوتا ہے سپہ سالار نے کہا احمد نے قلعے کا والی بنتے ہی ان تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا تھا جنہیں سنی عقیدے کے خلاف کام کرتے پکڑا گیا تھا لیکن اب ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اب ہم صرف یہ کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کرنا بھی چاہئے کہ کسی ایسے جاسوس کو شاہ در بھیج دیتے ہیں جو بہت ہی ذہین دانش مند اور ہر بات کی گہرائی میں اتر جانے والا ہے وہ ذرا اونچی حیثیت کا آدمی ہونا چاہیے جو والی قلعہ کی محفلوں میں بیٹھنے کے قابل ہو
ایسا کوئی تمھاری نظر میں ہے؟
سلطان نے پوچھا میرے پاس دو ایسے آدمی ہیں کوتوال نے کہا ان دونوں میں جو بہتر ہے اگر آپ حکم دیں تو میں اسے شاہ در بھیج دوں گا بھیجنے سے پہلے میں اسے کچھ دن تربیت دوں گا بھیج دو ملک شاہ نے کہا اگر فوج کشی کی ضرورت پڑی تو میں حیل و حجت نہیں کرونگا میں اپنی ذات کی توہین برداشت کر سکتا ہوں اپنے عقیدے کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کروں گا
اس شخص کا نام یحییٰ ابن الہادی تھا اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی عراقی عرب تھا خوبرو اتنا کے ہجوم میں ہوتا تو بھی دیکھنے والوں کی نظریں اس پر رک جاتی تھی جسم گٹھا ہوا اور ساخت پرکشش ایسا ہی حسن اس کی زبان میں تھا عربی اس کی مادری زبان تھی فارسی بھی بولتا اور سلجوقیوں کی زبان بھی سمجھ اور بول لیتا تھا یہ ترکی زبان تھی شہسوار تھا تیغ زنی اور تیراندازی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا کوتوال نے اسے آٹھ دس دن اپنے ساتھ رکھا اور تربیت دیتا رہا
ابن الہادی کوتوال نے اسے شاہ در روانہ کرنے سے ایک روز پہلے کہا یہ تو تم جان چکے ہو کہ شاہ در جاسوسی کے لیے جا رہے ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم کامیاب لوٹو گے لیکن ایک بار پھر سن لو کہ تمہارا مقصد کیا ہے شک یہ ہے کہ احمد بن عطاش کی کچھ زمین دوز سرگرمیاں ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اسماعیلیوں اور باغیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اگر ایسا نہیں تو یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟
کیا یہ عزائم سلطنت کے حق میں ہیں یا احمد سرکشی اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے
میں آپ تک خبریں کس طرح پہنچایا کروں گا؟
یحییٰ ابن الہادی نے پوچھا
سنان تمہارے ساتھ جارہا ہے کوتوال نے اسے بتایا وہ تمہیں ملتا رہا کرے گا میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ابن الہادی
اگلی صبح یحییٰ ابن الہادی اور سنان شاہ در کو روانہ ہو گئے
احمد بن عطاش کو بتایا جاچکا تھا کہ قافلہ کامیابی سے لوٹ لیا گیا ہے آٹھ دس دنوں بعد وہ تمام زروجواہرات جو قافلے سے ملے تھے احمد کے حوالے کردیئے گئے تھے پھر باقی سامان بھی تھوڑا تھوڑا اس کو پہنچایا جاتا رہا کسی کو شک تک نہ ہوا کہ قافلہ والی شاہ در کے کہنے پر لوٹا گیا تھا
محترم استاد ایک روز حسن بن صباح نے احمد بن عطاش سے پرمسرت لہجے میں کہا کیا اتنا مال ودولت اور اتنی حسین نوخیز لڑکیاں پہلے بھی آپ کو کسی قافلے سے ملی تھیں
نہیں حسن احمد نے کہا میں نے اب تک جتنے قافلوں پر حملہ کروائے ہیں ان سب کا لوٹا ہوا مال اکٹھا کیا جائے تو اتنا نہیں بنتا جتنا اس قافلے سے حاصل ہوا ہے احمد خاموش ہو گیا اور حسن بن صباح کو غور سے دیکھ کر بولا کیوں حسن آج تم کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے ہو؟
ہاں استاد حسن نے کہا میں اس لیے خوش نہیں کہ اس قافلے نے ہمیں مالامال کر دیا ہے بلکہ میری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ میری بتائی ہوئی ترکیب کامیاب رہی ہے میں کوئ اور بات کہنے لگا تھا اس کامیابی کا جشن منانا چاہیے اور اس جشن میں شہر کے لوگوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے
کیا لوگوں کو کھانا کھلاؤ گے؟
احمد بن عطاش نے پوچھا ناچ گانا کراؤ گے ؟
جو کچھ بھی کرو گے وہ بعد کی بات ہے پہلے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ لوگوں کو کیا بتاؤ گے کہ یہ کیسا جشن ہے؟
بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے حسن نے کہا جشن تو ہم منائیں گے لوگوں کو کسی اور طریقے سے شامل کرنا ہے وہ اس طرح کہ کم از کم دو دن گھوڑ دوڑ نیزہ بازی تیغ زنی تیراندازی کُشتی وغیرہ کے مقابلے کرائیں گے اور جیتنے والوں کو انعام دیں گے ہم نے جشن تو اپنا منانا ہے لیکن اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ لوگ خوش ہو جائیں گے، لوگوں کے ساتھ آپ کا رابطہ بہت ضروری ہے، لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے نہیں آؤں گا یا انہیں اپنا چہرہ نہیں دیکھاؤ گا کیونکہ میں نے بعد میں کسی اور روپ میں سامنے آنا ہے جشن آپ کو ہر دلعزیز بنانے کے لئے ضروری ہے
احمد بن عطاش کو یہ تجویز اچھی لگی کہ اس نے اسی وقت جشن کی تفصیلات طے کرنی شروع کر دی پھر حکم دیا کہ شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں ایک ہی دن میں یہ منادی کرا دی جائے کہ فلاں دن شاہ در میں گھوڑدوڑ نیزہ بازی تیغ زنی کُشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے جن میں جو چاہے شریک ہو کر انعام حاصل کرسکتا ہے
اس منادی سے شاہ در کے ارد گرد کے علاقے میں نئی جان پڑ گئی لوگ ایک دو دن پہلے ہی شاہ در پہنچنا شروع ہو گئے شہر کے ارد گرد خیموں کی ایک وسیع و عریض بستی آباد ہوگئی گھوڑوں اور اونٹوں کا ہی کوئی شمار نہ تھا
مقابلے کے دن سے ایک دن پہلے خیموں کی بستی اتنی دور تک پھیل گئی تھی کہ اس کے درمیان شاہ در گاؤں سا لگتا تھا سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے حسن بن صباح اپنے استاد اور پیرومرشد احمد بن کے ساتھ محل نما مکان کے بالا خانے کی کھڑکی میں کھڑا باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا ان کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں تھی
میرے مرشد حسن بن صباح نے احمد سے کہا یہ ہے وہ مخلوق خدا جسے ہم نے اپنی مریدی میں لینا ہے کیا یہ ممکن ہے؟
ناممکن بھی نہیں حسن احمد نے کہا ہمارا کام آسان تو نہیں ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہے تمہارے ساتھ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں اگر حکومت ہماری ہوتی تو پھر کوئی مشکل نہیں تھی ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ حکمران سلجوقی ہیں اور وہ اہلسنت ہیں ہم تعداد میں تھوڑے ہیں ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنا ہے تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہاری یہ تجویز کتنی قیمتی ہے
تفریح استاد محترم حسن نے کہا انسان کی فطرت تفریح چاہتی ہے انسان حقیقت کا مفرور ہے لذت چاہتا ہے آپ استاد ہیں آفتاب ہیں آپ میں آپ کے سامنے چراغ سے بڑھ کر کیا حیثیت رکھتا ہوں مجھے آپ کا سبق یاد ہے ہر انسان کی ذات میں کمزوریاں ہیں اور ہر انسان اپنی کمزوریوں کا غلام ہے اس ہجوم میں بڑے امیر لوگ بھی ہیں زرپرستی اور برتری ان کی کمزوری ہے اور جو غریب ہیں وہ ایسے خدا کی تلاش میں ہیں جو انہیں بھی امیر بنانے کی قدرت رکھتا ہے
انہیں یہ خدا ہم دیں گے احمد نے کہا انہیں ہم اپنے عقیدے میں لے آئیں گے
سورج غروب ہو گیا شاہ در اور اس کے اردگرد خیموں کی دنیا کی گہماگہمی رات کی تاریکی اور سکوت میں دم توڑتی چلی گئی باہر کے لوگ نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گئے تو احمد اور حسن کی دنیا کی رونق عروج پر پہنچ گئی شراب کا دور چل رہا تھا نیک و بد کی تمیز ختم ہو چکی تھی
صبح طلوع ہوئی تو ہزارہا انسانوں کا انبوہ بے کراں اس میدان کے اردگرد جمع ہوگیا جس میدان میں مختلف مقابلے منعقد ہونے تھے یہ بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا مقابلے میں شرکت کرنے والوں کو منتظمین نے الگ جگہ دے دی تھی اس طرف کسی تماشائی کو جانے کی اجازت نہیں تھی
احمد بن عطاش کے بیٹھنے کی جگہ ایک چبوترے پر تھی جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا شاہی مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام بھی اسی چبوترے پر تھا اس پر بڑا ہی خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا برچھی برادار سنتری اور چوب دار چمکیلے اور رنگ دار لباس میں چبوترے کے نیچے اور اوپر چاک و چوبند کھڑے تھے ہر لحاظ سے یہ اہتمام شاہانہ لگتا تھا روم کے شہنشاہوں کی یاد تازہ ہو رہی تھی
اچانک دو نقارے بجنے لگے ایک طرف سے احمد بن عطاش شاہی مہمانوں اپنے خاندان کے افراد اور مصاحبوں کے جلوس میں شاہانہ چال چلتا آیا اس کے ساتھ ایک باریش آدمی تھا جو سر تا پا ہلکے سبز رنگ کی عبا میں ملبوس تھا اس کا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آتا تھا کیونکہ اس نے سر پر جو کپڑا لے رکھا تھا اس کپڑے نے اس کا آدھا چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں اور ناک ہی نظر آتی تھیں وہ حسن بن صباح تھا جس نے اپنے آپ کو لوگوں سے مستور رکھنا تھا
احمد بن عطاش حسن بن صباح کے ساتھ یوں چل رہا تھا جیسے حسن بن صباح کوئی بہت ہی معزز اور برگزیدہ بزرگ ہو یہ سب لوگ چبوترے پر آکر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرسیوں پر بیٹھ گئے احمد بن عطاش اٹھا اور چبوترے پر دو چار قدم آگے آیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا میں نے ان مقابلوں کا اہتمام اس لیے کرایا ہے کہ اسلام کی پاسبانی کے لئے قوم کے ہر فرد کا مجاہد بننا لازمی ہے جہاد کے لیے تیاریاں کرتے رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم میں کتنے لوگ جہاد میں دشمن کو تہ تیغ کرنے کے قابل ہیں
اس نے ہاتھ بلند کرکے نیچے کیا جو اشارہ تھا کہ مقابلے شروع کردیئے جائیں گھوڑ دوڑ شروع ہوگئ
لوگوں نے داد و تحسین کا شور و غل بپا کردیا
اس کے بعد گھوڑ سواری کے کرتبوں کے مقابلے ہوئے اور اس کے بعد شترسوار میدان میں اترے جب اونٹوں کی دوڑ ختم ہو گئی تو اعلان ہوا کہ اب تیر اندازی کا مقابلہ ہوگا اس اعلان کے ساتھ ہی چار آدمی ایک بہت بڑا پنجرہ اٹھائے ہوئے میدان میں آئے پنجرے میں ڈیڑھ دو سو کبوتر بند تھے ایک آدمی نے اعلان کیا کہ ایک کبوتر اڑایا جائے گا اور ایک تیر انداز اس کبوتر کو تیر سے گرائے گا یہ بھی کہا گیا کہ کوئی تیرانداز پہلے تیر سے کبوتر کو نہ گرا سکے تو وہ دوسرا اور پھر تیسرا تیر بھی چلا سکتا ہے اول انعام ان تیر اندازوں کو دیئے جائیں گے جو پہلے ہی تیر سے کبوتر کو نشانہ بنا لیں گے
کم و بیش ایک سو تیرانداز ایک طرف کھڑے تھے پہلے تیر انداز کو بلایا گیا پنجرے میں سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو پھینکا گیا تیرانداز نے کمان میں تیر ڈالا اور جب کبوتر ذرا بلندی پر گیا تو اس نے تیر چلایا لیکن کبوتر تیر کے راستے سے ہٹ گیا تیرانداز نے بڑی پھرتی سے تیرکش سے دوسرا تیر نکال کر کمان میں ڈالا اور کبوتر پر چلایا وہ بھی خطا گیا تیسرا تیر بھی کبوتر کے دور سے گزر گیا
ایک اور تیر انداز کو بلایا گیا میدان کے وسط میں کھڑے ہو کر اس نے کمان میں تیر ڈالا اور تیار ہو گیا پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو چھوڑا گیا یہ تیر انداز بھی کبوتر کو نہ گرا سکا
دس بارہ تیرانداز آئے کوئی ایک بھی کبوتر کو نہ گرا سکا اگر پرندہ سیدھی اڑان میں اڑتا آئے تو ماہر تیر انداز اسے نشانہ بنا سکتا ہے لیکن جو کبوتر پنجرے سے نکلتا تھا وہ اتنا ڈرا ہوا ہوتا تھا کہ بلندی پر بھی جاتا تھا اور بڑی تیزی سے دائیں اور بائیں بھی ہوتا تھا اس کی اڑان کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اب یہ کس طرف گھوم جائے گا ایسے پرندے کو تیر سے مارنا بہت ہی مشکل تھا
ایک اور تیرانداز آگے آیا اور ایک کبوتر اس کے لئے چھوڑا گیا اس تیر انداز نے بھی یکے بعد دیگرے تین تیر چلائے مگر تینوں خطا گئے لوگوں نے شور و غل بلند کیا تیر اوپر جاتے اور گردے صاف نظر آتے تھے یہ کبوتر تین تیروں سے بچ گیا اور تماشائیوں کے اوپر ایک چکر میں اڑتا بلند ہوتا جا رہا تھا ایک اور تیرانداز میدان میں آ رہا تھا
تماشائی ابھی اوپر اس کبوتر کو دیکھ رہے تھے جو تین تیروں سے بچ کر محو پرواز تھا احمد بن عطاش کے چبوترے کے قریب جو تماشائی کھڑے تھے ان میں سے ایک کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے پیٹ میں اتر گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آنے لگا تماشائیوں پر سناٹا طاری ہو گیا ان کی حیرت قدرتی تھی کبوتر زیادہ بلندی پر چلا گیا تھا اور ابھی تک گھبراہٹ کے عالم میں یوں اڑ رہا تھا جیسے پھڑپھڑا رہا ہو
یہ تیر انداز کون ہے؟
احمد بن عطاش نے اٹھ کر اور چبوترے پر آگے آکر کہا سامنے آؤ خدا کی قسم میں اس تیرانداز کو اپنے ساتھ رکھوں گا
ایک گھوڑسوار تماشائیوں میں سے نکلا اور چبوترے کے سامنے جا کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں کمان تھی اور کندھے کے پیچھے ترکش بندھی ہوئی تھی
کیا نام ہے تمہارا؟
احمد بن عطاش نے اس سے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
کیا تم شاہ در کے رہنے والے ہو؟
میرا نام یحییٰ ابن الہادی ہے تیر انداز نے جواب دیا بہت دور سے آیا ہوں اور بہت دور جا رہا ہوں یہاں کچھ دیر کے لیئے رکا تھا لوگوں کا ہجوم دیکھا تو ادھر آ گیا اگر اجازت ہو تو میں دوڑتے گھوڑے سے تیر اندازی کا مظاہرہ کر سکتا ہوں میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ آپ کو کچھ بہتر تماشہ دکھا سکوں
اجازت ہے احمد بن عطاش نے کہا
یحییٰ ابن الہادی نے گھوڑے کو دوڑایا اور میدان میں لے جاکر کہا کہ جب اس کا گھوڑا دوڑنے لگے تو ایک کبوتر چھوڑ دیا جائے وہ گھوڑے کو ایک طرف لے گیا اور گھوڑا دوڑا دیا پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر چھوڑ دیا گیا یحییٰ نے دوڑتے گھوڑے پر ترکش سے ایک تیر کمان میں ڈالا اور کبوتر کو نشانے میں لینے لگا آخر اس کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے ایک پر کو کاٹتا ہوا اوپر چلا گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آ پڑا
آفرین احمد بن عطاش نے اٹھ کر بے ساختہ کہا میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا شاہ در ہی تمہاری منزل ہے
ایک خالی اونٹ میدان میں دوڑا دیا جائے یحیٰی نے بلند آواز سے کہا اور اس نے گھوڑے کو روک لیا
ایک قوی ہیکل اونٹ کو میدان کے ایک سرے پر لا کر پیچھے سے مارا پیٹا گیا اونٹ ڈر کر دوڑ پڑا تین چار آدمی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے تاکہ اس کی رفتار تیز ہو جائے یحییٰ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے کو گھما پھرا کر اونٹ کے پہلو کے ساتھ کر لیا
گھوڑے کو اپنے ساتھ دوڑتا دیکھ کر اونٹ اور تیز ہوگیا اونٹ کی پیٹھ پر کجاوہ کسا ہوا تھا جو ایک آدمی کی سواری کے لئے تھا اس کی مہار زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی یحییٰ نے ریکاب میں سے پاؤں نکالے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہو گیا وہاں سے اچھلا اور اونٹ کی پیٹھ پر پہنچے گیا اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی گھوڑا اونٹ سے الگ ہو گیا یحییٰ اونٹ کو گھوڑے کے پہلو میں لے گیا اور اونٹ کی پیٹھ سے کود کر گھوڑے کی پیٹھ پر آگیا اس نے یہ کرتب دکھانے سے پہلے اپنی کمان پھینک دی تھی اس نے گھوڑے کو موڑا اور چبوترے کے سامنے جا رکا
یہ وہی یحییٰ ابن الہادی تھا جسے سلطان ملک شاہ کے کوتوال نے جاسوسی کے لئے شاہ در بھیجا تھا وہ دو روز پہلے شاہ در پہنچا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنا کام کس طرح شروع کرے انہیں دنوں مقابلوں کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا پھر مقابلے کا دن آگیا اور وہ تماشائیوں میں جا کھڑا ہوا اس نے جب اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے اور خطا ہوتے دیکھے تو اس نے سامنے آئے بغیر ایک کبوتر پر تیر چلا دیا اس طرح اس کا رابطہ براہ راست احمد بنات عطاش سے ہو گیا موقع بہتر جان کر اس نے گھوڑسواری کا کرتب بھی دکھا دیا
ایک ایک تیر انداز آگے آتا رہا اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے رہے کوئی ایک بھی تیرانداز کبوتر کو نشانہ نہ بنا سکا یحییٰ بن الھادی کی شکل و شباہت، قد، کانٹھ، جسم کی ساخت، ڈیل ڈول، اور انداز ایسا تھا کہ احمد بن عطاش نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے حسن بن صباح سے کہا کہ یہ جواں سال گھوڑسوار کوئی معمولی آدمی نہیں لگتا
اگر یہ مان جائے تو میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں احمد بن عطاش نے حسن سے کہا ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے
پوچھ لیں حسن نے کہا لگتا تو مسلمان ہے معلوم نہیں کون سے قبیلے اور کس فرقے کا آدمی ہے؟
احمد بن عطاش نے ایک چوبدار کو بھیج کر یحییٰ کو بلایا یحییٰ آیا تو احمد نے اسے چبوترے پر بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا ،یحییٰ کا گھوڑا ایک چوبدار نے پکڑ لیا میدان میں مختلف مقابلے یک بعد دیگر رہے تھے لیکن احمد کی توجہ ادھر سے ہٹ گئی تھی وہ یحییٰ کے ساتھ باتیں کررہا تھا پہلا اور قدرتی سوال یہ تھا کہ وہ کون ہے اور کہا جارہا ہے؟
اپنی منزل کا مجھے کچھ پتہ نہیں یحییٰ نے کہا شاید میں بھٹک گیا ہوں
کیا تم صاف بات نہیں کرو گے؟
احمد بن عطاش میں کہا مجھے تمہاری بات میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے کیا تم کچھ دن میرے مہمان رہنا پسند کرو گے ؟
روک جاؤ گا یحییٰ نے جواب دیا اگر میری روح کو یہاں تسکین مل گئی تو اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لوں گا لیکن آپ مجھے یہاں روک کر کریں گے کیا؟
میں چاہتا ہوں کہ لوگ تم سے تیراندازی سیکھیں احمد نے کہا اور تم یہاں ایک محافظ دستہ تیار کرو یہ دستہ گھوڑسوار ہو گا تم نے ہر ایک محافظ کو شہسوار بنانا ہے
کیا آپ اپنی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں؟
یحییٰ نے پوچھا یحییٰ نے یہ سوال جاسوس کی حیثیت سے کیا تھا اسے پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ اس کا سامنا کس قدر گھاگ اور کایاں آدمی سے ہے
اپنی فوج احمد بن عطاش نے چونک کر کہا میں اپنی فوج نہیں بناسکتا میں تو یہاں کا والی ہوں فوج تیار کرنا سلطان کا کام ہے میں یہاں لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں تم نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک بھی ایسا تیر انداز نہیں جو اڑتے کبوتر کو نشانہ بنا سکے گھوڑ سواری میں یہ لوگ اتنے ماہر نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے اگر میں ایک دستے کی صورت میں کچھ لوگوں کو تیار کر لوں گا تو وہ سلطان کے ہی کام آئیں گے تم یقینا اہلسنت والجماعت ہو
میں مسلمان ہوں یحییٰ نے کہا لیکن میں عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں سوچ سوچ کر پاگل ہوا جارہا ہوں کہ کونسا عقیدہ خدا کا اتارا ہوا ہے اور کونسا انسانوں نے خود گھڑ لیا ہے کبھی کہتا ہوں کے اسماعیلی صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور پھر خیال آتا ہے کہ اہلسنت صراط مستقیم پر ہیں میں تو مرد میدان تھا آپ نے دیکھ ہی لیا لیکن دماغ میں ان سوالوں نے سر اٹھایا اور مجھے منزل منزل کا بھٹکا ہوا مسافر بنا ڈالا میری روح تشنہ اور بے چین ہے
احمد نے حسن بن صباح کی طرف دیکھا جس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا حسن بن صباح نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ کہہ دیا
ہم تمہیں بھٹکنے نہیں دیں گے یحییٰ احمد نے کہا خدا نے ہم پر یہ کرم کیا ہے کہ یہ بزرگ ہستی ہمیں عنایت کی ہے یہ دینی علوم کے بہت بڑے عالم ہیں میں ان سے درخواست کروں گا کہ یہ تمہیں اپنی شاگردی میں بیٹھا لیں اور تمہارے شکوک و شبہات رفع کر دیں ،مجھے امید ہے کہ تمہاری روح کی تشنگی ختم ہو جائے گی
اے بھٹکے ہوئے مسافر حسن بن صباح نے کہا مرد میدان ہو تمہیں علم اور خصوصا دینی علم کی جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو ہم تمہیں اپنے پاس بٹھائیں گے کچھ روشنی دکھائیں گے اور تمہاری تسکین کر دیں گے
تیغ زنی وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے تماشائیوں نے بے ہنگم شور و غوغا باپا کر رکھا تھا میدان سے اتنی گرد اڑ رہی تھی کہ مقابلہ کرنے والے اچھی طرح نظر بھی نہیں آتے تھے دوپہر کے بعد کا وقت ہو گیا تھا احمد بن عطاش نے اعلان کروایا کہ باقی مقابلے کل صبح ہوں گے اور جو لوگ اس وقت تک مقابلوں میں کامیاب رہے ہیں انہیں مقابلے ختم ہونے کے بعد انعامات دیے جائیں گے
احمد بن عطاش اٹھ کھڑا ہوا شاہی مہمان وغیرہ بھی اٹھے اور وہ سب چلے گئے احمد نے یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھا گھر لے جا کر اس کا منہ ہاتھ دلوایا اور پھر وہ دسترخوان پر جا بیٹھے کھانے کے دوران بھی ان کے درمیان باتیں ہوتی رہیں یحییٰ نے اپنے متعلق یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار خاندان کا فرد ہے اور اس کا اثر و رسوخ اس وقت صرف اپنے قبیلے پر ہی نہیں بلکہ دوسرے قبیلے بھی اس کے خاندان کے رعب و دبدبے کو مانتے ہیں
یہ بڑا ہی اچھا اتفاق تھا کہ یحییٰ انہی لوگوں میں پہنچ گیا تھا جن کے متعلق اس نے معلوم کرنا تھا کہ ان کے اصل چہرے کیا ہیں اور کیا انہوں نے کوئی بہروپ تو نہیں چڑھا رکھا اب یہ اس کی ذہانت اور تجربے کا امتحان تھا کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح راز کی باتیں اگلوا سکتا ہے
چونکہ احمد بن عطاش حاکم تھا اس لئے اسے اپنے متعلق یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ سرداری کی سطح کا آدمی ہے اور دوچار قبیلوں پر اس کا اثر اور رسوخ کام کرتا ہے اس نے ان کے سامنے اپنی ایک مصنوعی کمزوری بھی رکھ دی تھی کہ وہ دینی علوم کے راز حاصل کرنے کے لئے بھٹکتا پھر رہا تھا
تم آج بہت تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو احمد بن عطاش نے کھانے کے کچھ دیر بعد یحییٰ سے کہا تمہارے لئے اسی مکان میں رہائش کا بندوبست کردیا گیا ہے شام کا کھانا وہیں پہنچ جائے گا آج آرام کر لو کل کام کی باتیں ہونگی
مسلسل سفر میں ہوں یحییٰ نے کہا آپ نے ٹھیک جانا ہے میں بہت ہی تھکا ہوا ہوں ایک درخواست ہے میرا ملازم بھی میرے ساتھ ہے اگر اس کی رہائش کا بھی انتظام ہو جائے
ہوجائے گا احمد نے کہا اسے یہیں لے آؤ
جسے یحییٰ نے اپنا نوکر کہا تھا وہ سنان تھا سنان کو اس کام کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا کہ کوئی ضروری اطلاع وغیرہ ہوگی تو وہ سنان لے کر مرو جائے گا
ایک ملازم کو بلا کر یحییٰ کو اس کے ساتھ اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا یحییٰ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گیا وہ تو شاہانہ کمرہ تھا یحییٰ بہت خوش تھا کہ وہ ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گیا ہے اور وہ چند دنوں میں اپنا کام مکمل کر لے گا
اب بتاؤ حسن احمد بن عطاش نے یحییٰ کے جانے کے بعد حسن بن صباح سے پوچھا اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ایک تو ہم اس سے یہ فائدہ اٹھائیں گے کہ ہمیں تیر انداز اور شہسوار تیار کر دے گا ہم نے قلعہ المُوت تک جتنے قلعہ نما شہر سامنے آتے ہیں انہیں اپنے قبضے میں لینا ہے یہ ہمیں کر ہی لینے پڑیں گے اس کے لئے ہمیں جاں باز فوج کی ضرورت ہے اس کی نفری چاہے تھوڑی ہی ہو یہ شخص خاصہ عقلمند لگتا ہے اور تین قبیلوں پر بھی اس کا اثر اور رسوخ ہے اسے اگر ہم اپنے سانچے میں ڈھالیں تو یہ بڑے کام کا آدمی ثابت ہوگا
ہاں استاد محترم حسن بن صباح نے کہا آدمی تو کام کا لگتا ہے لیکن ہمیں اس پر نظر رکھنی پڑے گی کہ یہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اسے راز کی باتیں بتانا شروع کردیں جیسا کہ یہ کہتا ہے کہ یہ منزل منزل کا مسافر ہے یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہمیں بتائے بغیر غائب ہی ہو جائے احتیاط لازمی ہے
صورت یہ پیدا ہو گئی کہ جو جاسوس بن کر آیا تھا اس کی بھی درپردہ جاسوسی ہونے لگی اگلی صبح اسے کمرے میں ہی ناشتہ دیا گیا اور ناشتے کے بعد ایک چوبدار اسے اپنے ساتھ لے گیا ایک کمرے میں حسن بن صباح اس کے انتظار میں بیٹھا تھا اس کے اشارے پر یحییٰ اس کے سامنے بیٹھ گیا
اب بات کرو یحییٰ حسن نے کہا کیا وہم ہے کیا مسئلہ ہے جو تم اپنے دماغ میں لیے پھرتے ہو؟
کیا میں خدا کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر جا رہا ہوں؟
یحییٰ نے پوچھا کیا میرا عقیدہ صحیح ہے؟
یہ بات نہیں یحییٰ حسن نے کہا اصل سوال جو تمہارے دماغ میں تڑپ رہا ہے اور تمہارے لیے بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خدا کا وجود ہے اگر ہے تو خدا کہاں ہے؟
خدا نظر ہی نہیں آتا تو یہ راستہ اور یہ عقیدہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے حسن بن صباح یحییٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح بات کر رہا تھا جیسے ندی کا شفاف پانی پتھروں پر آہستہ آہستہ جلترنگ بجاتا بہا جا رہا ہو حسن کے ہونٹوں پر روح افزا مسکراہٹ تھی یحییٰ کے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہیں تھا وہ توان لوگوں کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں تھا اسے توقع تھی کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہوا تو اس کے سوال سن کر یہ لوگ اس کے ذہن میں اسماعیلیت ٹھوسنی شروع کر دیں گے لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے دشمن نے اسے تہہ تیغ کرکے نہتا کر دیا ہو حالانکہ حسن بن صباح نے اپنی بات ابھی شروع ہی کی تھی
خدا وہ ہے جو انسان کو نظر آتا ہے حسن کہہ رہا تھا نظر آنے والا خدا ایک نہیں کئی ایک ہے اور یہ سب انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں کسی نے پتھر کو تراش کر خدا کو آدمی کی شکل دے دی کسی نے خدا کو عورت بنا دیا کسی نے شیر کسی نے سانپ اور کسی نے دھڑ جانور کا اور چہرہ انسان کا بنا دیا
بات یہ سمجھنے والی ہے یحییٰ خدا انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان خدا کی تخلیق ہے اور انسان کا ہر قول اور فعل خدا کے حکم کا پابند ہے یہ صراط مستقیم ہی ہے کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو یہاں تمہارے سارے شکوک صاف ہو جائیں گے لیکن یہ ایک دن کا معاملہ نہیں کچھ دن لگیں گے تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو انسان وہی کامل بنتا ہے جو اپنے آپ کو کسی کامل پیر و مرشد کے حوالے کردیتا ہے
قابل تعظیم بزرگ یحییٰ نے التجا کی مجھے اپنی مریدی اور شاگردی میں قبول فرما لیں
دین کی تبلیغ میرا فرض ہے حسن نے کہا میں تمہیں تمہارے متعلق ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں تم نے کہا تھا کہ تم مرد میدان ہو خدا تمہیں منزل پر لے آیا ہے تم نے لوگوں کو اپنے جیسا تیرانداز اور شہسوار بنانا ہے انہیں کفر کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنا ہے میں علم ہو تو عامل ہو خدا کی نگاہ میں تمہارا رتبہ مجھ سے زیادہ بلند ہے یہاں سے جانے کی نہ سوچنا
یحییٰ ابن الہادی تو چاہتا ہی یہی تھا وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی ذات باری نے اس کا کام بہت ہی آسان کر دیا تھا اور اس کے آگے آگے راستہ صاف ہوتا چلا جا رہا تھا
اس کے ساتھی سنان کی رہائش وغیرہ کا انتظام کہیں اور کیا گیا تھا اس نے سنان کو بلاکر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا کہ اس سے کوئی پوچھے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟
تو وہ کیا جواب دے اور وہ سیدھا سادہ بلکہ بیوقوف سا نوکر بنا رہے جو معمولی سی بات سمجھنے میں بھی بہت وقت لگاتا ہے
کچھ دیر بعد یحییٰ احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا ہوا تھا اسے احمد نے بلایا تھا وہاں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں چاروں نوجوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت وہ بہت ہی شوخ اور چنچل تھیں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھیں یحییٰ کی موجودگی کا انہی جیسے احساس ہی نہیں تھا
یحییٰ احمد بن عطاش یحییٰ سے کہہ رہا تھا تم خوش قسمت ہو کہ اتنے بڑے عالم دین نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں اپنی مریدی میں قبول کر لیا ہے اور تمہیں کہا ہے کہ یہیں رہو اور تیر اندازی اور شہسواری کا ہنر جو تم میں ہے وہ دوسروں کو بھی سکھا دو یہ تو کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے خدا کی یاد میں ڈوبے رہتے ہیں اور خدا سے ہی ہم کلام ہوتے ہیں
ہر حکم بجا لاؤں گا یحییٰ نے کہا ان آدمیوں کو میرے حوالے کر دیں جنہیں میں نے سکھلائی دینا ہے
بسم اللہ ان لڑکیوں سے کرو احمد نے کہا یہ میرے خاندان کی لڑکیاں ہیں یہ جب تیر اندازی میں تم جیسی مہارت حاصل کرلیں گی تو دوسری لڑکیوں کی سکھلائی کریں گی ہماری عورتوں کو تیر انداز ہونا چاہیے پھر انہیں گھوڑ سواری کی مشق کرنی ہے میں تمھاری باقاعدہ تنخواہ مقرر کر دوں گا
میں آج ہی یہ کام شروع کر دوں گا یحییٰ نے کہا مجھے تیراندازی کے لیے ایسی جگہ دکھا دیں جہاں سامنے تیروں کے لئے رکاوٹ ہو ورنہ تیر ہر طرف اڑتے پھریں گے اور راہ جاتے لوگ زخمی ہونگے
احمد بن عطاش کے حکم سے سارے انتظامات کر دیے گئے اور یحییٰ چاروں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گیا وہ کمانیں اور تیروں کا ایک ذخیرہ بھی ساتھ لے گیا تھا یحییٰ نے لڑکیوں کی سکھلائی شروع کردی پہلے دن وہ انہیں کمان کھینچنا اور بازوؤں کو سیدھا رکھنا سکھاتا رہا کمانیں بہت سخت تھیں لڑکیاں کمان کھینچتیں تھیں تو ان کے دونوں بازو کانپتے تھے یحییٰ انہیں بتا رہا تھا کہ بازوؤں کو اپنے قابو میں کس طرح رکھنا ہے کہ ان میں لرزا پیدا نہ ہو
ادھر میدان میں کشتیوں اور دوڑوں وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے احمد بن عطاش اور حسن بن صباح وہاں چلے گئے تھے وہ دونوں بہت خوش تھے کہ انہوں نے اتنے زیادہ لوگ اکٹھا کر لیے تھے وہ کھیل تماشوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے بلکہ وہ اپنے اس منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے کہ اس مخلوق خدا کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا ہے
ان چار لڑکیوں میں جو یحییٰ ابن الہادی سے تیراندازی سیکھنے گئی تھیں داستان گو دو کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہے ایک تھی فرح جو حسن بن صباح کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ گئی تھی دوسری زرّیں تھی جس نے شاہ در کے مرحوم والی ذاکر کو اپنے حسن و جوانی اور بھولے پن کے جال میں پھانسا اور اسے دھوکے سے شربت میں زہر پلا پلا کر ایسی بیماری میں مبتلا کردیا تھا کہ کچھ دنوں بعد ذاکر مر گیا طبیب سر پٹختے رہ گئے کہ ذاکر کی بیماری کیا تھی
ذریں غیرمعمولی طور پر حسین اور نوجوان لڑکی تھی احمد بن عطاش نے اس کی تربیت ایسی کی تھی کہ تجربے کار اور معمر استاد بھی اس کے ہاتھوں میں عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے یحییٰ خاص طور پر خوبرو اور پرکشش جوان تھا اور اس نے تیر اندازی اور گھوڑ سواری کے جو کرتب دکھائے تھے ان سے اس نے لوگوں سے بے ساختہ داد و تحسین حاصل کی تھی اور کچھ دلوں میں اس نے ہلچل برپا کردی تھی اس زمانے میں مرد ایسے ہی اوصاف اور کمالات سے باعزت اور قابل محبت سمجھے جاتے تھے
زرین اپنے استاد سے فریب کاری سیکھی تھی اور یہ مفروضہ اس کا عقیدہ بن گیا تھا کہ عورت کا حسن مردوں کو فریب دینے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے احمد نے اس کے دل سے جذبات نکال دیے تھے وہ دانشمند تھا خوب جانتا تھا کہ عورت ہو یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی جذبات میں الجھ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا
صرف یہ راز اپنے دل میں بند کرلو زرّیں احمد بن عطاش نے اسے کئی بار کہا تھا تم ایک ایسا حسین بلکہ طلسماتی پھندہ ہو جس میں انتہائی زہریلا ناگ بھی آ جائے گا اور جانداروں کو چیر پھاڑ دینے والا درندہ بھی تمہارے پھندے میں آ کر تمہارا غلام ہو جائے گا تم نے اس کے لئے ایسا حسین فریب بنے رہنا ہے کہ وہ تمہاری فریب کاری کو بھی تمہارے حسن کا حصہ سمجھے گا اسے یہ تاثر دیے رکھو کہ تم اس کی محبوبہ ہو اور تم اسے خدا کے بعد کا درجہ دیتی ہو اور پھر عملی طور پر ایسے مظاہرے کرتی رہو جیسے تم اس کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتی اس کے جذبات کے ساتھ کھیلوں اور ناز و انداز کے علاوہ اس کے قدموں میں یوں لوٹ پوٹ ہوتی رہو جیسے تم اس کی زر خرید لونڈی ہو اس طرح اس پر اپنے حسن و جوانی اور فریب کاری کا نشہ طاری کرکے اس کی کھال اتارتی رہو اور اس کا خون چوستی رہو
یہ ایک بنیادی سبق تھا جو احمد لڑکپن کے پہلے دن سے زرین کو دیتا چلا آیا تھا لیکن اس نے اسے یہ سبق وعظ کی صورت میں ہی نہیں دیا تھا بلکہ عملی طور پر بھی اسے سمجھایا تھا اس کے پاس ذرا بڑی عمر کی تین چار عورتیں تھیں جنہوں نے زریں کو اس سبق کے عملی مظاہرے کرکے دکھائے تھے ان عورتوں نے زریں کو بڑا ہی حسین اور روشنی میں رنگارنگ شعاعیں دینے والا پتھر یا ہیرا بنا دیا تھا اسے ایسا ہی ایک خوبصورت ہیرا دکھایا بھی گیا تھا
یہ ہیرا دیکھ رہی ہو زریں اسے ہیرا دکھا کر کہا گیا تھا کیا تم نہیں چاہوں گی کہ یہ ہیرا تمہارے گلے کی یا انگلی کی زینت بنے
کیوں نہیں چاہوں گی زریں نے کہا تھا
اگر تمہیں اس کی قیمت بتائی جائے تو تمہارے ہوش اڑ جائیں اسے کہا گیا تھا ایسے ایک ایک ہیرے پر بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں لیکن اس اتنے دلکش اور قیمتی ہیرے کو تم نگلو تو مر جاؤں گی یہ اس ہیرے کے زہر کا اثر ہوگا تم نے یہ ہیرا بننا ہے تمہیں کوئی جنگجو اور جابر بادشاہ بھی دیکھے تو وہ تمہیں حاصل کرنے کے لئے اپنی بادشاہی کو بھی بازی پر لگا دے لیکن جو تمہیں نگلنے یعنی تمہیں زیر کر کے تم پر قبضہ کرلے وہ زندہ نہ رہے
داستان گو آگے چل کر وہ واقعات سنائے گا جو ثابت کریں گے کہ عورت کتنی بڑی قوت کتنا زبردست جادو کا ایسا طلسم ہے حسن بن صباح کی کامیابی کا جو راز تھا اس راز کا نام عورت ہے حسین عورت جسے چاہے قتل کروا سکتی ہے اور جسے چاہے اسے زندہ لاش بنا سکتی ہے عورت قاتل کو تختہ دار سے بھی اتروا سکتی ہے
زریں کی ذات میں یہ سارا زہر بھر دیا گیا تھا اس نے اپنا پہلا شکار بڑی کامیابی سے مار لیا تھا وہ ذاکر تھا کامیابی صرف یہی نہیں تھی کہ اس قلعہ نما شہر کا والی مر گیا تھا بلکہ زریں نے شاہ در جیسا شہر اپنے استاد احمد بن عطاش کی جھولی میں ڈال دیا پھر یہ احمد کی فریب کاری کا کمال تھا کہ سلجوقی سلطان نے اسے قلعے کا والی مقرر کردیا تھا
زریں اس کامیابی پر بہت خوش تھی وہ اگلے شکار کے انتظار میں تھی لیکن اس نے یحییٰ ابن الھادی کو دیکھا تو اس نے اپنے آپ میں کچھ ایسی ہلچل محسوس کی جسے وہ سمجھ نہ سکی اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ یحییٰ کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھے کہ اسے دیکھ کر اس کے اندر بھونچال کے جو ہلکے ہلکے اور لطیف سے جو جھٹکے محسوس ہوتے ہیں یہ کیا ہیں؟
یحییٰ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ خوش طبع آدمی تھا کسی بات میں تلخی ہوتی تو اس بات میں بھی وہ شگفتگی پیدا کر لیا کرتا تھا چاروں لڑکیاں اس کی اس زندہ مزاجی کو اتنا پسند کرتی تھیں کہ اسے اکساتی تھیں کہ وہ باتیں کرے یحییٰ بھی ان لڑکیوں کو باتوں باتوں میں خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ لڑکیاں تیراندازی میں دلچسپی لیتی رہیں لیکن زریں کی جذباتی حالت کچھ اور ہی تھی کبھی تو وہ کچھ دور بیٹھ کر یحییٰ کو دیکھتی رہتی تھی زریں بھی کچھ طبعاً اور کچھ خصوصی تربیت کے زیر اثر زندہ اور شگفتہ مزاج لڑکی تھی لیکن یحییٰ کو دیکھ کر اس پر سنجیدگی سی طاری ہو جاتی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی
یحییٰ ان لڑکیوں کو تیراندازی اس طرح سیکھاتا تھا کہ کمان لڑکی کے ہاتھ میں دیتا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا سکھانے کا طریقہ بھی یہی تھا وہ اپنا بازو لڑکی کے کندھے سے ذرا اوپر کرکے اس کے ہاتھوں میں کمان کو سیدھا کرتا تھا اس طرح اکثر یوں ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیٹھ اسکے سینے کے ساتھ لگ جاتی تھی باقی لڑکیوں کی توجہ تیراندازی میں ہوتی تھی وہ شاید محسوس بھی نہیں کرتی تھی کہ اس کا جسم ایک جوان آدمی کے ساتھ لگ رہا ہے لیکن زریں کا معاملہ کچھ اور تھا وہ دانستہ اپنی پیٹھ یحییٰ کے ساتھ لگا لیتی تھی اور پھر اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ دیر یحییٰ کے ساتھ اسی حالت میں رہے
شاید یحییٰ بھی زریں کے ان جذبات کو سمجھنے لگا تھا
شام گہری ہو چکی تھی یحییٰ سونے کی تیاری کررہا تھا اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی یحییٰ نے دروازہ کھولا باہر زریں کھڑی تھی جو دروازہ کھلتے ہی فوراً اندر آ گئی یحییٰ اسے یوں اندر آتے دیکھ کر ذرا سا بھی حیران یا پریشان نہ ہوا وہ جانتا تھا کہ یہ والی شہر کے خاندان کی لڑکی ہے، اسے اور دوسری لڑکیوں کو بھی وہ آزادی سے گھومتے پھرتے دیکھا کرتا تھا
میں یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہتی ہوں زریں نے کہا تم برا تو نہ جانو گے
برا کیوں جانوں گا زریں یحییٰ نے کہا نیت بری نہ ہو تو برا جاننے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی یحییٰ نے زریں کو غور سے دیکھا اور بولا تم کچھ بجھی بجھی سی اور اکھڑی سی لگ رہی ہو تم تو ان سب لڑکیوں سے زیادہ ہنس مکھ ہو
میرے پاس بیٹھ جاؤ زرین نے سنجیدہ اور متین سے لہجے میں کہا یہاں میرے قریب بیٹھو
یحییٰ اس کے قریب بیٹھ گیا زریں نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا یحییٰ بھی آخر جوان آدمی تھا اور اسے خدا نے ایسی عقل اور نظر دی تھی کہ وہ پردوں کے پیچھے کی بات بھی سمجھ جایا کرتا تھا
تم ٹھیک کہتے ہو یحییٰ زریں نے یحییٰ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے کہا میرے دل کی جو کیفیت ہے وہ میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے میں اتنی سنجیدہ کبھی بھی نہیں ہوئی تھی میں تو سمجھتی تھی کہ میں دنیا میں ہنسنے کھیلنے کے لئے ہی آئی ہوں لیکن تم میرے سامنے آئے ہو تو میں نے اپنے اندر ایسا انقلاب محسوس کیا ہے کہ میرے لئے اپنے آپ کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے بار بار یہی جی میں آتا ہے کہ تمہارے پاس آ بیٹھو اور تمہاری باتیں سنو کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم جب میرے ہاتھ میں کمان دیتے ہو اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر کمان میں تیر سیدھا رکھنے کو کہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ لگ جاتی ہوں اور دانستہ کمان کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے کر دیتی ہوں تاکہ تم کچھ دیر اسی طرح میرے ساتھ لگے رہو اور بار بار میرے ہاتھ پکڑ کر کمان اور تیر سیدھا کرتے رہو
یحییٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی جس ہاتھ میں زریں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اس ہاتھ کو یحییٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا یکلخت یحییٰ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان چاروں لڑکیوں میں یہ لڑکی اسے زیادہ اچھی لگتی تھی اور کبھی کبھی وہ تیر اندازی کی سکھلائی دیتے ہوئے اس لڑکی کو اپنے کچھ زیادہ ہی قریب کر لیا کرتا تھا ،زریں نے جب اپنے جذبات کا اظہار کیا تو یحییٰ نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ زریں نے اپنی نہیں بلکہ اس کے جذبات کی ترجمانی کی ہے
کیا تم میرے ان جذبات کی تسکین کر سکتے ہو زریں نے کہا میں تمہیں صاف بتا دو کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو کیا تم میری محبت کو قبول کرو گے؟
سوچ لو زریں یحییٰ نے کہا تم شہزادی ہو اور میں ایک مسافر ہوں جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی منزل کیا ہے، کہاں ہے؟
ہوسکتا ہے ہماری محبت کوئی قربانی مانگ بیٹھے جو تم نہ دے سکو میں تو اپنی جان بھی دے دوں گا
وہ تم دیکھ لوگے زریں نے کہا کوئی ایسا خطرہ ہوا تو جہاں کہو گے تمہارے ساتھ چل پڑوں گی میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں زریں یحییٰ نے کہا تمہیں دیکھ کر میرے اندر بھی ایسے ہی جذبات امنڈے ہوئے تھے لیکن میں خاموش رہا میرے دل کی بات تم نے کہہ دی ہے صرف ایک بات کا خیال رکھنا کے اس محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ نہ ہو یہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔۔۔ زریں نے کہا میں نے کہا ہے کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، میں یہاں آتی رہا کرو گی اور میں تمہارا انتظار کیا کروں گا یحییٰ نے کہا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:10 }
اس رات کے بعد یحییٰ اور زریں بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے وجود میں تحلیل ہوتے چلے گئے
تیراندازی تیغ زنی وغیرہ کے مقابلوں کا جو میلہ لگا تھا وہ ختم ہو چکا تھا جیتنے والے انعام و اکرام لے کر چلے گئے تھے خیموں کی بستی اجڑ گئی تھی
یحییٰ ان چاروں لڑکیوں کو تیر اندازی کی مشق کروا رہا تھا لڑکیوں کے تیر ٹھکانے پر لگتے تھے
یحییٰ اور زریں کے دلوں میں جو تیر اتر گئے تھے ان سے ابھی دوسرے ناواقف تھے زریں کوئی پردہ دار لڑکی تو نہ تھی کہ اس کے باہر نکلنے پر پابندی ہوتی وہ ہر رات یحییٰ کے کمرے میں پہنچ جاتی اور دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو کر بیٹھے رہتے اور دلوں کی باتیں کرتے رہتے تھے
یحییٰ کی جذباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ وہ جب لڑکیوں کو تیر اندازی کے لئے باہر لے جاتا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ زریں میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہا ہے
وہ جو کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپے نہیں رہ سکتے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں زریں کے ساتھی لڑکیاں بھانپ گئیں کہ یہ معاملہ کچھ اور ہی ہے انہوں نے احمد بن عطاش کو بتایا احمد بن عطاش کچھ پریشان سا ہو گیا احمد کو معلوم نہیں تھا کہ یحییٰ نے یہ راز چھپا کر نہیں رکھا جس وقت لڑکیاں احمد بن عطاش کو یہ بتا رہی تھی بالکل اسی وقت یہ حسن بن صباح کے پاس بیٹھا اسے اپنے دل کی یہی بات بتا رہا تھا
یحییٰ حسن بن صباح سے متاثر ہی نہیں تھا بلکہ مرعوب تھا اس مرعوبیت میں ڈر اور خوف نہیں تھا بلکہ احترام اور تقدس کا تاثر تھا جو اس پر طاری ہو جایا کرتا تھا یہ مرعوبیت ایسی تھی جیسے حسن بن صباح نے اس کو ہپناٹائز کر رکھا ہو حسن اس کے ساتھ دینی امور پر باتیں کرتا تھا ان باتوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حسن راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اس کا درجہ نبیوں سے ذرا سا ہی کم ہے
پیر و مرشد یحییٰ نے ایک روز اس کے سامنے بیٹھے ہوئے کہا وادی شاہ در کے خاندان کی ایک لڑکی زریں اسے دل و جان سے چاہتی ہے اور اس کے اپنے دل میں بھی اس لڑکی کی محبت پیدا ہو گئی ہے اور ہم دونوں تنہائی میں بیٹھ کر پیار و محبت کی باتیں کیا کرتی ہیں کیا میں بددیانتی اور دھوکہ دہی کا ارتقاب تو نہیں کر رہا؟
نہیں حسن بن صباح نے کہا اگر اس محبت کا تعلق جسموں کے بجائے روحوں کے ساتھ ہے تو یہ گناہ نہیں
یہ ہماری روحوں کا معاملہ ہے پیر و مرشد یحییٰ نے کہا
پھر یہ ٹھیک ہے حسن بن صباح نے کہا
ادھر احمد بن عطاش نے زریں کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ یحییٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور ان کی ملاقاتیں کس قسم کی ہیں
یہ شخص مجھے اچھا لگتا ہے زریں نے کہا اور میرا اس کے ساتھ جو تعلق ہے وہ مرد و عورت والا تعلق نہیں
میری بات غور سے سنو احمد بن عطاش نے کہا میں سمجھ گیا ہوں میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس محبت کو گناہ کہا کرتے ہیں جو فرائض سے ہٹادے
میں فرائض سے نہیں ہٹی زریں نے کہا جہاں آپ مجھ میں یہ خامی دیکھیں کہ میں اپنا کوئی ایک بھی فرض بھول گئی ہوں تو مجھے جو سزا چاہیں دے دیں
تم نے شاید سزا کا نام رسمی طور پر لیا ہے احمد بن عطاش نے قدرے با رعب آواز میں کہا لیکن تمہیں بھول نہیں چاہئے کہ یہ سزا کیا ہوگی
میں جانتی ہوں زریں نے کہا مجھے قتل کر دیا جائے گا
قتل نہیں کیا جائے گا احمد بن عطاش نے کہا تمہیں قید خانے میں ان قیدیوں میں پھینک دیا جائے گا جو کئی کئی سالوں سے وہاں بند ہیں اور وہ سب وحشی آدمی ہیں پھر تمہیں اس کال کوٹھری میں بند رکھا جائے گا جہاں زہریلے کیڑے مکوڑے رہتے ہیں یہ مت بھولنا کے تم نے دوسروں کو پھانسنا ہے خود پھنس کے بیکار نہیں ہو جانا
اسی رات احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا انہیں نقصان یہ نظر آ رہا تھا کہ محبت کے نشے میں ایک قیمتی اور تجربے کار لڑکی ضائع ہوجائے گی حسن بن صباح نے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں بلایا زریں جب اس کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر کچھ اور ہی تاثر تھا
دن گزرتے چلے گئے یحییٰ اور زریں ایک دوسرے میں گم ہو گئے یحییٰ نے ان لڑکیوں کو تیر اندازی میں تاک کر دیا تھا اور اب اسے کہا گیا تھا کہ انہیں شہسوار بنا دے شہر کے لوگ دیکھتے تھے کہ پانچ گھوڑے ہر صبح جنگل کو نکل جاتے ہیں ایک پر یحییٰ اور باقی چار پر لڑکیاں سوار ہوتی تھیں صبح کے گئے ہوئے یہ گھوڑے آدھا دن گزار کر واپس آتے تھے یحییٰ کبھی کبھی زریں کو اپنے ساتھ رکھ کر باقی لڑکیوں سے کہتا کہ وہ دور کا چکر لگا کر آئیں لڑکیاں یہ رپورٹ احمد بن عطاش کو دے دیا کرتی تھیں
ادھر مرو میں سلطان ملک شاہ اور اس کا کوتوال ہر روز انتظار کرتے تھے کہ یحییٰ کی طرف سے کوئی پیغام آئے گا لیکن ہر روز انہیں مایوسی ہوتی تھی یحییٰ کے ذہن سے نکل ہی گیا تھا کہ وہ شاہ در کیوں آیا تھا اور اسے ایک روز واپس بھی جانا ہے وہ اپنے ساتھی سنان سے ہر روز ملتا اور اسے کہتا تھا کہ ان لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ کیا ہیں دو چار دنوں بعد کچھ پتہ چل جائے گا
زریں کے اظہار محبت میں اچانک دیوانگی پیدا ہوگئی اس نے یحییٰ کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس میں اب انتظار کی تاب نہیں رہی اور یحییٰ اسے اپنے ساتھ لے چلے یحییٰ نے اسے ابھی تک نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا تھا
زریں نے اس سے کئی بار پوچھا اور یحییٰ نے ہر بار اسے جذبات میں الجھا کر ٹال دیا تھا
ایک رات زریں اس کے کمرے میں آئی تو اس نے اپنی چادر میں چھپائی ہوئی چھوٹی سی صراحی نکالی
میں آج تمہارے لیے ایک خاص شربت لائی ہوں زریں نے صراحی یحییٰ کے ہاتھ میں دے کر کہا یہ احمد بن عطاش خود پیا کرتا ہے اور صرف یہ بزرگ عالم ہے جسے کبھی کبھی پلاتا ہے میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ اس میں شہد ملا ہوا ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس میں ایسے پھولوں کا رس ڈالا گیا ہے جو کسی دوسرے ملک میں ہوتے ہیں احمد کی بیویاں کہتی ہیں کہ اس نے اس شربت کا مشکیزہ بہت سے سونے کے عوض منگوایا ہے سنا ہے یہ شربت پینے والا دو سو سال زندہ رہے تو بھی بوڑھا نہیں ہوتا میں چُرا کے لائی ہوں پی کے دیکھو
یحییٰ نے صراحی ہی منہ سے لگا لی اور پھر آہستہ آہستہ اس نے سارا شربت پی لیا اس دوران زریں اس کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں ایسے والہانہ انداز سے کرتی رہی جیسے وہ نشے میں ہو زریں طلسم کی مانند یحییٰ پر طاری رہتی ہی تھی لیکن اس رات یحییٰ کی جزباتی حالت کچھ اور ہی ہو گئی وہ یوں محسوس کرنے لگا جیسے اسے دنیا بھر کی حاکمیت مل گئی ہو
آخر ہمارا انجام کیا ہوگا یہی؟
زریں نے کہا کیا تم میرے ساتھ یوں ہی محبت کا کھیل کھیلتے رہو گے تم تو اتنا بھی نہیں بتاتے کہ تم ہو کہاں کے میں کہتی ہوں کہ جہاں کہیں کے بھی ہو یہاں سے نکلو اور مجھے اپنے ساتھ لے چلو آج کی رات یہاں کی آخری رات ہونی چاہیے میں تیار ہوں مردانہ لباس پہن لونگی
یحییٰ نے قہقہہ لگاکر زریں کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اس نے اس طرح کا قہقہہ پہلے کبھی نہیں لگایا تھا زریں نے مچل مچل کر اسے کہنا شروع کر دیا کہ وہ اسے اپنے متعلق کچھ بتائیے
سن زریں یحییٰ نے شگفتہ سی سنجیدگی سے کہا یہ بھی سن لے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں اب مجھے تم پر اعتبار آ گیا ہے میں یہاں ایک فرض ادا کرنے آیا تھا وہ ابھی ادا نہیں ہوا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے
پھر مجھے بتاتے کیوں نہیں زریں نے بڑی پیاری سی جھنجلاہٹ سے کہا میں کئی بار کہہ چکی ہوں کہ تمہاری محبت پر میں اپنی جان بھی قربان کر دوں گی
میں مرو سے آیا ہوں یحییٰ نے اپنے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا میں سلجوقی سلطان ملک شاہ کا جاسوس ہوں وہاں یہ شک پایا جاتا ہے کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے اور یہاں شاہ در میں اہل سنت کے خلاف اسماعیلی مرکز بن گیا ہے میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کے اس شک میں حقیقت کتنی ہے یا کچھ حقیقت ہے بھی یا نہیں
کچھ پتہ چلا؟
زریں نے پوچھا
میں ابھی شک میں ہوں یحییٰ نے جواب دیا یوں کہہ لو کہ میرا شک ابھی موجود ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص اہل سنت ہے اس کے ساتھ جو عالم ہے اس نے دینی مسائل کے مجھے بہت سبق دیے ہیں اس میں مجھے اسماعیلیوں والی کوئی بات نظر نہیں آئی لیکن میں نے ان دونوں کو کبھی نماز پڑھتے بھی نہیں دیکھا میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس شہر میں اسماعیلیوں کی اکثریت ہے
تمہارا یہ ساتھی سنان بھی جاسوس ہی ہوگا؟
زریں نے پوچھا
ہاں یحییٰ نے کہا اسے میں نے دو تین دنوں بعد یہ بتا کر واپس بھیجنا ہے کہ میں نے اب تک یہاں کیا دیکھا ہے
یحییٰ زریں نے یحییٰ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالےمیں لے کر جذباتی لہجے میں کہا میری ایک بات مان لو مرو واپس نہ جاؤ یہاں بھی نہ رہو چلو آگے ایران چلے چلتے ہیں تم جہاں جاؤ گے تمہیں وہاں کے حاکم ہاتھوں ہاتھ لے گے تم جیسا تیر انداز اور شہسوار کہاں ملتا ہے مذہب اور فرقوں کے چکر سے نکلو
میں تمہیں ایک بات صاف بتا دیتا ہوں زریں یحییٰ نے کہا میرے دل میں تمہاری جو محبت ہے اس میں کوئی دھوکا یا بناوٹ نہیں تم میری پہلی اور آخری محبت ہو لیکن میں اپنے فرض کو محبت پر قربان نہیں کروں گا
اگر میں تمہارے سامنے کسی اور آدمی کے ساتھ چل پڑوں تو زریں نے کہا
تو میں نظریں پھیر لونگا یحییٰ نے کہا اپنے فرض سے نظر نہیں ہٹاؤں گا سلجوقیوں نے ہزارہا جانے قربان کرکے اور خون کے چڑھاوے چڑھا کر یہ سلطنت بنائی ہے اسے وہ سلجوقی سلطنت نہیں اسلامی سلطنت کہتے ہیں اسلام میں کوئی فرقہ نہیں جو مسلمان یہ کہتا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی امت سے ہے وہ اگر سنت سے منحرف ہے تو وہ رسول اللہﷺ کا امتی نہیں وہ کچھ اور ہے سلجوقی سلاطین اہلسنت والجماعت ہیں اس لئے وہ اللہ کے سچے دین کے پاسبان ہیں میں رسول اللہﷺ کا غلام اور سلجوقی سلطان کا نمک حلال ملازم ہوں یہ میرا ایمان ہے اگر تم اس دعوے میں سچی ہو کہ میری محبت تمہارے روح میں اتری ہوئی ہے تو میرے فرض کی ادائیگی میں میری مدد کرو مجھے ان لوگوں کی اصلیت بتاؤ
کل زریں کھڑی ہوئی اور یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی کل اسی وقت تمہیں راز معلوم ہوجائے گا اور تم اپنے فرض سے فارغ ہو جاؤ گے
یحییٰ پر فاتحانہ کیفیت طاری تھی وہ بہت خوش تھا کہ کل اس کا کام ختم ہو جائے گا وہ یہاں سے ایک قیمتی راز اور ایک حسین لڑکی کو ساتھ لے کر رخصت ہوگا
زریں اپنے کمرے میں گئی تو پلنگ پر اوندھے منہ گر کر ایسے روئی کے اس کی ہچکی بندھ گئی
یہ لڑکی ایک حسینہ اور دھوکہ تھی لیکن یحییٰ کے ساتھ اس کی محبت دھوکا نہیں تھی اس کی محبت کا سرچشمہ اس کی روح تھی وہ روحانی محبت کے نشے سے سرشار ہو گئی تھی مگر محبت ایسے بھنور میں آ گئی تھی جس سے اس کا سلامت نکل آنا ممکن نظر نہیں آتا تھا
لڑکیوں نے احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتا دیا کہ زریں یحییٰ کے ساتھ عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی ہے احمد اور حسن نے اس اطلاع سے یہ رائے قائم کی کہ زریں کے اندر انسانی جذبات ابھی زندہ ہیں اور اس کی ذات میں ابھی وہ عورت زندہ ہے جو مرد کی محبت کی پیاسی ہوتی ہے
دوسری بات یہ کہ زریں ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی جو ابھی مشکوک تھا حسن بن صباح عالم دین کے بہروپ میں یحییٰ کو ہر روز اپنے پاس بیٹھا تھا اور اسے دینی امور سمجھاتا تھا لیکن اس سے بات کروا کے یہ جاننے کی کوشش کرتا تھا کہ یہ شخص ہے کون؟
سلجوقیوں کا ہی آدمی تو نہیں حسن کچھ جان تو نہ سکا تھا لیکن اس نے وثوق سے کہہ دیا تھا کہ یہ شخص مشکوک ہے
اب حسن بن صباح کو پتہ چلا کہ زریں یحییٰ کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے تو اس نے زریں کو اپنے پاس بلایا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ذہن پر قابض ہوگیا لڑکی کی جو تربیت آٹھ دس سال عمر سے شروع ہوئی اور جوانی میں بھی جاری تھی وہ ابھر آئی اور زریں کی عقل پر غالب آ گئی
تم اس سے اگلوالو گی وہ کون ہے یہاں کیوں آیا ہے؟
حسن بن صباح نے کہا
ہاں میں اس سے اگلواؤں گی وہ کون ہے یہاں کیوں آیا ہے زریں نے یوں کہا جیسے اس پر غنودگی طاری ہو
وہ شربت تمہارے ساتھ ہوں
وہ شربت میرے ساتھ ہوگا
اس شربت میں جو زریں صراحی میں لے کر یحییٰ کے پاس گئی تھی اس میں شہد تو ضرور ملا ہوا تھا لیکن اس میں کسی پھول کا رس نہیں تھا اس میں حشیش ڈالی گئی تھی اور اس میں ایک خوشبو ملائی گئی تھی یہ شربت پینے کے بعد یحییٰ نے جو قہقہہ لگایا تھا وہ حشیش کے زیر اثر تھا جسے وہ زریں کے حسن و شباب اور محبت کے والہانہ اظہار محبت کا خمار سمجھتا رہا اس نشے نے اس کے سینے سے راز نکال کر زریں کے آگے رکھ دیا
یحییٰ کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ اسے یہ یاد رہا کہ وہ رسول اللہﷺ کی امت سے ہے اور اہل سنت ہے اور اسے یہ بھی یاد رہا کہ اس کا فرض کیا ہے اور یہ جذبہ ایثار بھی زندہ رہا کہ وہ محبت کو فرض پر قربان کر دے گا لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکا کے اس نے زریں کو اس کا فرض یاد دلادیا ہے وہ یہ عزم لے کر یحییٰ کے کمرے سے نکلی تھی کہ یہ شخص فرض کا اتنا پکا ہے تو میں اپنے فرضوں کو کیوں قربان کرو؟
زریں رات بہت دیر تک روتی رہی اس کے اندر خونریز معرکہ بپا تھا یہ اس کی ذات کے وہ حصے تھے جو ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے محبت اور فرض اور اس کی تربیت
صبح طلوع ہوتے ہی زریں نے پہلا کام یہ کیا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتایا کہ یحییٰ ابن الہادی جاسوسی کے لئے یہاں آیا ہے اور سنان اس کا ساتھی ہے زریں نے یحییٰ کے ساری باتیں سنائی یہ بات سناتے ہوئے زریں کی زبان بار بار ہکلاتی تھی اور اس کے آنسو بھی نکل آئے یہ یحییٰ کی محبت کا اثر تھا ورنہ یہ وہ لڑکی تھی جس نے ذاکر کو اپنے ہاتھوں زہر پلایا تھا
زریں کو اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا کچھ دیر بعد ایک ملازم روزمرہ کی طرح یحییٰ کے کمرے میں ناشتہ لے کر گیا ساتھ شہد ملا دودھ تھا سنان کو بھی ایسا ہی دودھ بھیجا گیا دونوں نے دودھ پیا اور کچھ ہی دیر بعد دونوں کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا پھر ان کی آنکھوں نے دنیا کا اجالا کبھی نہ دیکھا
ادھر آؤ زریں کو آ کے دیکھو ایک ملازمہ زریں کے کمرے سے چیختی چلاتی نکلی جلدی آؤ زریں کو دیکھو
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح بھی زریں کے کمرے میں گئے ایک تلوار زریں کے پیٹ میں داخل ہوئی اور پیٹھ سے باہر نکلی ہوئی تھی وہ ابھی زندہ تھی
تمہیں کس نے مارا ہے زریں؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
میں نے خود زریں نے کہا میں نے دو آدمی قتل کروائے ہیں یحییٰ اور سنان اور میں نے اپنی محبت کو بھی قتل کیا ہے میں نے اپنے آپ کو موت کی سزا دی ہے میں خود ہی جلاد بن گئی تھی
زریں بھی مر گئی
یحییٰ اور سنان کی لاشیں بوریوں میں بند کر کے دریا میں بہا دی گئی
ہمیں کوئی اور ڈھنگ کھیلنا پڑے گا حسن بن صباح نے کہا سلطان کو شک ہو گیا ہے مجھے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مصر جانا چاہیے
نہیں حسن احمد بن عطاش نے کہا پہلے ہم دو تین اور قلعوں پر قبضہ کرلیں پھر ہماری کوشش یہ ہوگی کہ تمہیں سلطان کی حکومت میں کوئی بڑا عہدہ اور رتبہ مل جائے پھر ہم اس سلطنت کی بنیادیں کمزور کر سکتے ہیں…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:11 }
رات کو جب ہزارہا لوگ شاہ بلوط سے دور ستارے کی چمک کے انتظار میں گھروں سے دور بیٹھے تھے اس وقت دو جواں سال آدمی یہودیوں کے مذہبی پیشوا کے گھر اس کی اور پادری کی باتیں سن رہے تھے ان دونوں نے بھی شاہ بلوط ستارے کو چمکتے دیکھا تھا اور وہ بھی قائل ہوگئے تھے کہ یہ آسمان کا ستارہ ہے جو شاہ بلوط کے اس پرانے درخت کی گھنی شاخوں میں اتر آیا ہے
آسمان کے ستارے زمین پر نہیں اترا کرتے ربی نے ان دونوں سے کہا اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا اپنا جلوہ دکھا رہا ہے تو یہ سوچو کہ وہ کسے دکھا رہا ہے کیا حضرت موسی علیہ السلام دنیا میں آگئے ہیں یا حضرت عیسی علیہ السلام پھر زمین پر اتر آئے ہیں؟
نہیں بارہا اپنا جلوہ دکھانے کی خدا کو کیا ضرورت پیش آگئی ہے کیا یہاں کے انسانوں نے خدا کو رد کر کے کسی اور کی عبادت شروع کردی ہے کوئی مسلمان ہے یا عیسائی یا کو یہودی ہے یہ سب اپنے اپنے طور طریقے سے خدا کو یاد کر رہی ہیں میری بات غور سے سنو میرے بچو جس پہاڑی پر یہ درخت اور اس کے پیچھے کی روشنی کاانتظام نہیں تو یہ کوئی شعبدہ بازی ہے تم نے چھپ چھپ کر وہاں پہنچنا ہے اور دیکھنا ہے اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نظر آئے اور پتہ چل جائے کہ یہ کیا راز ہے تو تم نے وہاں کوئی کاروائی نہیں کرنی خاموشی سے واپس آ جانا ہے
یہ ہمارا ذاتی کام نہیں پادری نے کہا یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے یہ کوئی نیا فرقہ اٹھ رہا ہے جس سے لوگ بڑی تیزی سے متاثر ہوئے جا رہے ہیں اگر لوگوں کی عقیدت مندی کا یہی حال رہا تو یہ عیسائیت اور یہودیت کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو گا اگر یہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ ہے تو ہم اسے مزید ہوا دیں گے یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ ہمیں صحیح خبر لا دو
ہم کل سورج غروب سے کچھ پہلے روانہ ہو جائیں گے یہودی جوان نے کہا
جگہ دور ہے عیسائی جوان بولا ہم سیدھے تو جا نہیں سکتے سیدھے جائیں تو ہمارے لیے یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں ہمیں پیدل جانا پڑے گا گھوڑوں پر جائیں گے تو گھوڑوں کو چھپائیں گے کیسے اور گھوڑا کہیں بھی ہنہنا کر اپنی نشاندہی کر دے گا
میں ایک بار صاف کر دوں یہودی جوان نے کہا میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ یہ کام ایک ہی رات میں ہوجائے گا ہوسکتا ہے دو یا تین راتیں ہم واپس ہی نہ آ سکیں
ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ربی نے کہا تم نے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے اور پوری کوشش کرنی ہے کہ زندہ واپس آ جاؤ تاکہ ہمیں صحیح صورت حال معلوم ہو جائے اور ہم اس کا کوئی سدباب کر سکتے ہیں
آپ کو یہ وہم نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کو دھوکا دیں گے یہودی جوان نے کہا ہم آپ کا مقصد سمجھ گئے ہیں
اب تم دونوں چلے جاؤ ربی نے کہا پانی کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کھانے کے لیے کھجوریں ساتھ لے جاؤ
باہر آکر ان دو نوجوانوں نے آپس میں طے کر لیا کہ وہ کہاں ملیں گے یہودی جوان اپنے گھر سیدھا جانے کی بجائے ایک اور طرف سے گیا ایک گھر کے سامنے بچے کھیل رہے تھے ایک بچے سے اس نے پوچھا کی اس کی بہن میرا کہاں ہے؟
بچے نے اسے بتایا کہ تھوڑی دیر ہوئی وہ بکریوں کو لے کر نکلی ہے
یہودی اپنے گھر جانے کی بجائے اس طرف چلا گیا جس طرف میرا گئی تھی گاؤں سے کچھ دور بڑی اچھی چراہگاہ تھی جہاں چھوٹی گھاس بھی تھی اور اونچی بھی یہ دونوں اسی جگہ ملا کرتے تھے وہاں سے چھوٹی سی ایک ندی گزرتی تھی ندّی کے کنارے گھنی جھاڑیاں تھیں اور خودرو بیلیں درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں یہودی ادھر جا رہا تھا کہ میرا نے اسے دیکھ لیا اور وہ اس کی طرف دوڑ پڑی یہودی جوان نے بھی اپنے قدم تیز کرلئے اور دونوں اس طرح ملے جیسے بے خیالی میں ان کی ٹکر ہو گئی ہو دونوں نے ایک دوسرے کو بازؤں میں سمیٹ لیا انہیں ایسی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی انہیں دیکھ رہا ہوگا سب جانتے تھے کہ یہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور ان کی شادی ہوجائے گی وہ اس لئے بھی بے حجاب ہیں کہ یہودی تھے کسی کو بے حیا کہنے کی بجائے یہودی کہہ دینا ہی کافی ہوتا تھا یہودی کی تمام تر تاریخ فتنہ و فساد فریب کاری اور عیاری کی تاریخ ہے اور یہودی نے ہمیشہ اسلام کو اپنا ہدف اور مسلمانوں کو دشمن نمبر ایک بنائے رکھا ہے آج بھی یہ قوم اسلام کی بیخ کنی میں مصروف ہے
اپنے ان ابلیسی عزائم کی کامیابی کے لئے یہودی اپنی لڑکیوں کو بڑے فخر سے استعمال کیا کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کا شعور بیدار ہوتے ہی انہیں بے حیائی کے سبق دینے لگتے تھے سرعام فحش حرکتیں کرنا اور مردوں کے ساتھ قابل اعتراض اور شرمناک حالت میں دیکھے جانا ان کے یہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اپنی بیٹی بہن یا بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر اعتراض کرنا قابل اعتراض فعل سمجھا جاتا تھا البتہ ایسی نوجوان لڑکی یا عورت کے پیش نظر ذاتی عیاشی نہیں بلکہ قومی مقصد ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا
اس جواں سال یہودی اور ایک نوجوان لڑکی کا یوں ملنا کہ ان کے جسموں کے درمیان سے ہوا بھی نہ گزر سکے قابل اعتراض فعل نہیں تھا وہ دونوں ایک دوسرے کی کمر میں بازو ڈالے ندی تک گئے اور وہاں بیٹھ گئے
میں تمہیں الوداع کہنے آیا ہوں میرا یہودی جوان نے کہا
کیا کہہ رہے ہو اسحاق؟
میرا نے بدک کر اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟
ایک مہم پر اسحاق میں کہا
کیسی مہم ؟
کون سی مہم ؟
میرا نے پوچھا کیا یہ کوئی خطرناک کام ہے
خطرناک ہوسکتا ہے اسحاق نے کہا اور آسان اتنا کہ ہوسکتا ہے میں کل ہی واپس آ جاؤں تم نے وہ ستارہ دیکھا ہے نا جو دور پہاڑی پر چمکتا ہے ہم دونوں نے اکٹھے دو تین بار دیکھا ہے میں دیکھنے جا رہا ہوں یہ کیا ہے؟
میرے ساتھ بنو تغلب کا ایک عیسائی آسر بن جوہل بھی جا رہا ہے
اسحاق نے میرا کو اپنے ربی اور پادری کی ساری باتیں سنائیں اور بتایا کہ یہ راز معلوم کرنا کیوں ضروری ہے
اگر یہ جنات ہوئے میرا نے کہا یا کوئی اور غیر انسانی مخلوق ہوئی تو پھر کیا کرو گے؟
ہم دور سے دیکھ کر واپس آ جائیں گے اسحاق نے کہا ہم نے ان پر حملہ تو نہیں کرنا صرف دیکھنا ہے کہ وہاں ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی خدائی اشارہ ہے
میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی میرا نے کہا میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوگی
جذباتی نہ ہو میرا اسحاق نے کہا وہاں تمہارا کوئی کام نہیں میں دو تین دنوں میں واپس آ جاؤں گا
مجھے ساتھ نہیں لے جانا تو تم بھی نہ جاؤ میرا نے روتے ہوئے کہا میں جذبات کی بات نہیں کر رہی میرا دل خوف کی گرفت میں آ گیا ہے اس نے اسحاق کے گلے میں باہیں ڈال کر روندھی ہوئی آواز میں کہا نہ جاؤ اسحاق جانا ہے تو مجھے بھی ساتھ لے چلو
اسحاق کو اس نے اتنا مجبور کردیا کہ اسحاق نے اسے کہا کہ وہ ربی کے پاس جائے اگر ربی اجازت دے دے تو وہ اسے ساتھ لے جائے گا یہ لڑکی اسحاق کو اس قدر چاہتی تھی کہ اسی وقت ربی کے گھر کی طرف دوڑی اور اسے بھی جاکر کہا کہ وہ اسحاق کے ساتھ جانا چاہتی ہے
اسحاق اپنے فرض کے لئے جا رہا ہے ربی نے کہا اور تم محبت کے لئے جا رہی ہو فرض آدمی کو آگے ہی آگے دھکیلتا ہے لیکن محبت پاؤں کی زنجیر بن جایا کرتی ہے نہیں میرا تم ان لڑکوں کے ساتھ نہ جاؤ یہ دو تین دنوں تک واپس آ جائیں گے
مجھے معلوم ہے وہ کیوں جا رہے ہیں میرا نے کہا وہاں انہیں میری ضرورت ہو گی اسحاق نے مجھے بتا دیا ہے کہ وہ مہم کیا ہے جس پر وہ جا رہے ہیں
نادان لڑکی ربی نے کہا یہ کام آدمی کرسکتے ہیں یہ کسی عورت کے کرنے کا کام نہیں
لڑکی ہنس پڑی ربی اور زیادہ سنجیدہ ہو گیا
جو کام میں کرسکتی ہوں وہ اسحاق اور آسر نہیں کرسکتے میرا نے کہا دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی مافوق الفطرت مظاہرہ ہے ہمارے دو آدمی آگے گئے تو وہ مارے بھی جا سکتے ہیں اگر میں آگے چلی گئی تو وہاں اگر انسان ہوئے تو ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی کو دیکھ کر اس طرح دوڑے آئیں گے جس طرح پرندہ دانے کو دیکھ کر جال میں آتا ہے
وہ تمہیں پکڑ لیں گے ربی نے کہا کیا تم نہیں جانتی کہ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟
جانتی ہوں ربی میرا نے کہا کچھ قربانی تو دینی پڑے گی لیکن میں انھیں دھوکہ دے کر وہاں سے نکل آؤں گی میں اس مقصد کو سمجھتی ہوں جس مقصد کے لئے آپ ان دونوں آدمیوں کو بھیج رہے ہیں یہ ہمارا قومی مقصد ہے اور محترم ربی جہاں تک جذبات کا تعلق ہے میں اسحاق کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی اگر اس نے مرنا ہے تو میں بھی اس کے ساتھ مروں گی اگر آپ مجھے نہیں جانے دیں گے تو میں اسحاق کو بھی نہیں جانے دوں گی
ربی کے بوڑھے چہرے کی لکیریں سکڑنے لگی وہ گہری سوچ میں کھو گیا میرا اسے چپ چاپ دیکھتی رہی کچھ دیر بعد ربی نے میرا کی طرف دیکھا
ہاں لڑکی ربی نے کہا اگر تم محبت کی وجہ سے فرض کو ترجیح دیتی ہوں تو اسحاق کے ساتھ چلی جاؤ تم ان کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہو اور تم انہیں ناکام بھی کر سکتی ہوں اگر تم نے عقل سے کام لیا اور ذاتی جذبات کو دبائے رکھا تو تم اس قومی مقصد میں کامیاب لوٹو گی
میرا وہاں سے اٹھ دوڑی اور سیدھی اسحاق تک پہنچی
میرا کے باپ کو پتہ چلا تو وہ ربی کے ہاں دوڑا گیا ربی نے اسے مطمئن کردیا
سورج غروب ہو گیا تھا جب اسحاق آسر اور میرا گاؤں سے نکلے وہ اکٹھے نہیں نکلے تھے انھیں چوری چھپے نکلنا تھا کیوں کہ گاؤں میں مسلمان بھی رہتے تھے جنھیں اس مہم سے بے خبر رکھنا تھا وہ اکیلے اکیلے نکلے تھے اور بہت دور جا کر اکٹھے ہوئے تھے تینوں کے پاس خنجر تھے اسحاق اور آسر کے پاس تلواریں بھی تھی وہ بہت دور کا چکر کاٹ کر جا رہے تھے
وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ اس جگہ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے تھے جہاں سے شاہ بلوط کا درخت نظر آتا تھا جس کم اونچی پہاڑی پر وہ درخت تھا اس کو سیدھے تھوڑے سے وقت میں پہنچ سکتے تھے لیکن انھیں اس پہاڑی کے پیچھے جانا تھا وہ اس ہجوم سے دور ہی دور ہٹتے گئے جو اس انتظار میں وہاں جمع ہو گیا تھا کہ آج رات بھی ستارہ چمکے گا یا وہ سفید پوش آدمی روشنی میں نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے
اسحاق آسر اور میرا اس ندی تک پہنچ گئے جو ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتی تھی وہاں یہ ندی گہری ہوئی تھی اور اس کا بہاؤ تیز بھی تھا کیونکہ یہ پہاڑی ندی تھی وہاں کوئی پل نہیں تھا تینوں ندی میں اتر گئے اور بازو ایک دوسرے میں الجھا لیے پانی یخ تھا اور بہت ہی تیز ان کے پاؤں اٹھنے لگے تینوں نے اپنا ایک ایک بازو ایک دوسرے سے آزاد کرکے تیرنا شروع کردیا پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ اگلے کنارے کی بجائے پانی انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا تھا اور پانی یہ اتنا یخ کہ انکے جسم اکڑنے لگے ندی بہت چوڑی تو نہیں تھی لیکن یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ میلوں چوڑی ہو گئی ہو
وہ آگے جانے کی بجائے خاصا پیچھے کنارے پر لگے تینوں نے کپڑے اتار دئے اور انھیں نچوڑا رات کی یخ ہوا نے ان کے جسموں کو لکڑیوں کی طرح اکڑا دیا میرا کو ایسا کوئی خیال نہ آیا کہ وہ دو جواں سال آدمیوں کے سامنے برہنہ ہو گئی ہے تینوں نے نچوڑے ہوئے کپڑے پہنے اور اسحاق کے کہنے پر تینوں نے ناچنا کودنا شروع کردیا تاکہ جسم گرم ہو جائیں میرا آخر عورت تھی قدرتی طور پر اس کا جسم مردوں جیسا سخت جان نہیں تھا اس لیے اس نے محسوس کیا کہ وہ چل نہیں سکے گی اسحاق اور آسر نے اسے اپنے درمیان کھڑا کرکے ٹخنوں سے کندھوں تک اس کے جسم کو دبانہ اور ملنا شروع کر دیا اور اس طرح کچھ دیر بعد وہ چلنے کے قابل ہوگئی
وہ تینوں ندی کے ساتھ ساتھ چلتے گئے وہ پہاڑیاں قریب آگئی تھیں جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا لیکن یہ اس پہاڑی کا ایک سرا تھا شاہ بلوط کا درخت اس کے دوسرے سرے پر تھا جو سرا ان تینوں کے قریب تھا وہاں یہ پہاڑی ختم ہو جاتی تھی پھر وہاں سے ذرا پیچھے ہٹ کر ایک اور پہاڑی شروع ہوتی تھی ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سے یہ تینوں شاہ بلوط والی پہاڑی کے پیچھے جا سکتے تھے
وہ چلتے گئے چونکہ ان کی رفتار تیز تھی اس لئے انکے جسم گرم ہو گئے اور اکڑن ختم ہو گئ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ پہاڑی کے پیچھے جانا ہے لیکن اس علاقے میں وہ پہلے کبھی نہیں آئے تھے ان کا خیال تھا کہ جس طرح دور سے یہ حطہ سرسبز اور خوبصورت نظر آتا ہے اسی طرح سفر کے معاملے میں بھی یہ سہل اور خوبصورت ہو گا لیکن آگے گئے تو انہیں پتہ چلا کہ اس خطے نے اپنے حسن میں کیسے کیسے خطرے چھپا رکھے ہیں وہ جب دونوں پہاڑیوں کے درمیان پہنچے تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ وہ کسی اور ہی دنیا میں جا نکلے ہوں ان کے سامنے تین طرف پہاڑیاں دیواروں کی طرح کھڑی تھیں یہ دیواریں کسی پرانے قلعے کی پتھروں کی دیواروں جیسی تھیں اندھیرے کے باوجود نظر آ رہا تھا کہ ان کے درمیان گدلا پانی جمع ہے ایک طرف اس پانی اور دیوار کے درمیان اتنی جگہ خالی تھی کہ دو تین آدمی پہلو بہ پہلو آرام سے گزر سکتے تھے لیکن کچھ دور آگے پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ راستہ آگے جاتا ہے یا پانی میں ہی کہیں ختم ہوجاتا ہے یہ خوفناک سی جگہ تھی صرف یہی ایک راستہ تھا جو پہاڑی کے پیچھے جاتا تھا پہاڑی کے اوپر سے تو وہ جا ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اوپر جاکر وہ نظر آسکتے تھے
وہ اس راستے پر اس طرح چلے کے میرا ان کے پیچھے تھی ذرا ہی آگے گئے ہونگے کہ انہیں اپنے پیچھے پانی میں ہلچل سی محسوس ہوئی انہوں نے اس طرف دھیان نہ دیا اچانک میرا کی چیخ بلند ہوئی اسحاق اور آسر نے پیچھے دیکھا میرا گر پڑی تھی اور چیخ چلا رہی تھی انہوں نے یہ دیکھ کہ ایک مگر مچھ کا سر اور اگلی ٹانگیں پانی سے باہر ہیں اور میرا کا پاؤں ٹخنے تک مگرمچھ کے منہ میں ہے مگر مچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا
قدرت نے مگرمچھ کے دانت نوکیلے اور ایسے تیکھے نہیں بنائے کہ وہ انسان یا جانور کے گوشت میں اتر جائیں اس کے دانتوں کے نیچے والے سرے گول ہوتے ہیں جو شکار کو صرف پکڑتے ہیں اور اوپر نیچے کے دانت بڑا مضبوط شکن بن جاتے ہیں
اسحاق اور آسر نے صرف ایک بار مگرمچھ دیکھا تھا وہ دونوں اس وقت کم سن لڑکے ہوا کرتے تھے وہ آدمی ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتے وہاں رک گئے تھے انہوں نے ایک مرا ہوا مگر مچھ گھوڑے پر ڈال رکھا تھا اسحاق اور آسر نے دیکھا تھا اور ان دونوں آدمیوں نے بتایا بھی تھا کہ مگرمچھ کے سر اور پیٹھ پر نہ برچھی اثر کرتی ہے نہ تلوار وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کا پیٹ اتنا نازک ہوتا ہے کہ ایک خنجر بھی پیٹ میں اتر جاتا ہے اسکا دوسرا نازک حصہ اس کا منہ ھے اگر اس کے کھلے ہوئے منہ کے اندر برچھی ماری جائے تو مگرمچھ مرتا تو نہیں زخمی ہو کر بھاگ جاتا ہے یا اس کی آنکھوں میں برچھی یا تلوار ماری جائے تو بھی یہ بھاگ جاتا ہے
مگرمچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اندھیرا تو تھا لیکن پانی کی چمک میں مگر مچھ کا ہیولا نظر آرہا تھا اسحاق نے مگرمچھ کی آنکھ کا اندازہ کر کے تلوار کا زوردار وار کیا آسر نے یہ دلیری کر دیکھائی کہ پانی میں اتر گیا جو اس کے گھٹنوں تک گہرا تھا آسر نے مگرمچھ کے قریب جا کر نیچے سے تلوار برچھی کی طرح مگرمچھ کے پیٹ میں اتار دی
یہ دونوں وار ایسے ٹھکانے پر پڑے کہ مگرمچھ کے منہ سے بڑی خوفناک آواز نکلی اور وہ میرا کا پاؤں چھوڑ کر تڑپتا پھڑپھڑاتا ہوا پانی میں ڈبکی لگا گیا میرا بڑی تیزی سے اٹھی اسحاق اور آسر نے اسے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور دوڑ پڑے آگے انھیں راستہ ملتا گیا پانی میں بڑی زور سے ہلچل ہو رہی تھی یہ یقیناً زخمی مگرمچھ تھا جو تڑپ رہا تھا اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مگرمچھ بھی ڈر کر ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے
یہ راستہ کچھ دور تک چلا گیا پانی پیچھے رہ گیا تھا پانی سے کچھ دور جا کر وہ روکے اور میرا کے پاؤں کا جائزہ لینے لگے جس جگہ مگرمچھ نے اس کا ٹخنہ پکڑا تھا وہاں ہاتھ پھیرا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ خون بہ رہا ہے اگر مگرمچھ کے دانت درندوں کی طرح نوکیلے ہوتے تو میرا کی ہڈی بھی کٹ جاتی اور اس کا پاؤں مگرمچھ کے ساتھ ہی چلا جاتا چونکہ اس لڑکی کا پاؤں مگرمچھ کے جبڑوں کے شکنجے میں آیا تھا اور لڑکی زور لگا کر اپنا پاؤں کھینچتی رہی تھی اور مگرمچھ اسے پانی میں کھینچ رہا تھا اس لیے لڑکی کے ٹخنے سے تھوڑی سی کھال اتر گئی تھی اور ہڈی پر اچھی خاصی ضرب لگی تھی
اسحاق نے اپنے سر پر ڈالا ہوا کپڑا اتارا اور کس کر میرا کے ٹخنے پر باندھ دیا میرا کے لئے درد نا قابل برداشت ہو رہا تھا وہ چلنے میں دشواری محسوس کررہی تھی
میری ایک بات غور سے سنو میرا نے کہا یہ اچھا شگون نہیں میرا دل کہتا ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو
ربی اور فادر ہمیں بزدل کہیں گے آسر نے کہا وہ کہیں گے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں بہتر تو یہ ہے کہ تم یہیں کہیں چھپ کر بیٹھ جاؤ اور ہم اپنا کام کر کے واپس آ جائیں اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے
نہیں میرا نے خوف زدہ آواز میں کہا میں یہاں اکیلی نہیں رہوں گی میں کہہ رہی ہوں واپس چلو میں اتنا زیادہ کبھی بھی نہیں ڈری تھی
تمہیں مگر مچھ نے ڈرا دیا ہے اسحاق نے کہا یہ خوف دل سے اتار دو
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں میرا نے کہا میرے دل پر کوئی خوف نہیں اگر ہم ویسے گھومنے پھرنے آئے ہوتے اور مگرمچھ مجھے یوں پکڑ لیتا تو میں اتنا نہ ڈرتی میں یہ کہہ رہی ہوں کے یہ شگون اچھا نہیں مگر مچھ نے کسی غیبی طاقت کے اشارے پر مجھے پکڑ لیا تھا یہ تمہارے لئے اشارہ ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو ورنہ آگے موت ہے
اسحاق بھائی آس نے کہا وقت ضائع نہ کرو اگر تم اس لڑکی کی باتوں میں آ گئے تو ہم اپنا کام کس طرح کریں گے ربی اور فادر کو کیا جواب دیں گے تم جانتے ہو کہ انہیں ہم دونوں پر کتنا بھروسہ ہے
میری بات سنو میرا اسحاق نے کہا تم نے ربی کے ساتھ جو باتیں کی تھیں وہ نہ بھولو تم نے کہا تھا کہ تم ہماری مدد کروں گی تم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر یہاں کوئی آدمی ہوئے تو تم انہیں اپنے حسن و جوانی کے جال میں لے آؤں گی تمہاری ان باتوں سے متاثر ہوکر ربی نے تمہیں ہمارے ساتھ آنے کی اجازت دی تھی ربی نے تمہیں کہا تھا کہ تم ہمارے پاؤں کی زنجیر بن جاؤں گی تم وہی کام کررہی ہوں جس کا ربی نے خدشہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا ہم تو اب اپنا فرض ادا کر کے ہی جائیں گے
مجھے صاف نظر آرہا ہے اسحاق میرا نے کہا تم یہاں سے زندہ واپس نہیں جاؤ گے
اسحاق اور آسر جھنجلا اٹھے اسحاق نے میرا کا بازو پکڑا اور اسے اٹھا کر کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے
میرا اس کے ساتھ چل پڑی وہ چلنے میں دشواری اور درد محسوس کر رہی تھی اس کی وجہ سے اسحاق اور آسر کی رفتار بھی سست ہو گئی تھی
وہ اب اس پہاڑی کے دامن میں جارہے تھے جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا دامن میں وہ اوپر سے کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے اس پہاڑی کے اوپر جو کچھ بھی تھا اسے دیکھنے کے لئے پچھلی پہاڑی پر جانا ضروری تھا ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان کم و بیش ساٹھ قدم فاصلہ تھا نیچے میدان تھا جس میں اونچی گھاس تھی اور درخت بھی تھے پیچھے والی پہاڑی ایسی نہیں تھی کہ اس کی صرف ڈھلوان ہوتی یہ پہاڑی اونچی نیچی چٹانوں کا جرمٹ تھی جن پر چڑھنا ذرا دشوار تھا
تھوڑا اور آگے گئے تو انہیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان روشنی سی نظر آئی جو سامنے والی پہاڑی پر کہیں اوپر تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی نے آگ جلا رکھی ہے وہ جوں جوں آگے بڑھتے گئے روشنی زیادہ ہوتی گئی اور اس کے ساتھ ہی انھیں کسی کی باتوں کی آواز سنائی دینے لگی کچھ آدمی بہت دور باتیں کر رہے تھے
اسحاق اور آسر نے آپس میں مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہیں سے پچھلی پہاڑی پر چڑھ جائیں کیونکہ پیچھے بلندی پر جا کر ہی پتہ چل سکتا تھا کہ یہ آگ کہاں چل رہی ہے اور باتیں کرنے والے کہاں ہیں وہ کچھ اور آگے جا کر پچھلی پہاڑی پر چڑھنے لگے وہ پہاڑی کچھ عجیب سی تھی کہیں ننگی اور سیدھی کھڑی چٹان آ جاتی تھی اور کہیں دوسری پہاڑیوں کی طرح سبزہ زار اور درخت آ جاتے تھے ایسی ایک چٹان پر چڑھتے چڑھتے اسحاق کا پاؤں پھسل گیا اور وہ چٹان سے گر کر نیچے والی چٹان پر جا پڑا، اور وہاں سے لڑکتا ہوا نیچے جا رکا
میرا اس کے پیچھے اترنے لگی لیکن آسر نے اس کا بازو پکڑ لیا یہیں رہو آس نے کہا تم بھی پھسل کر گرو گی وہ تو مرد ہے برداشت کر لے گا تم پہلے ہی زخمی ہو
اسحاق اٹھا اسے چوٹ تو آئی تھی لیکن وہ چوٹ سے بے نیاز پہاڑی پر چڑھنے لگا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا میرا نے ایک بار پھر اپنے اسی وہم کا اظہار کیا کہ یہ دوسرا برا شگون ہے اور یہ کسی آسمانی مخلوق کے اشارے ہیں کہ واپس چلے جاؤ اور ان کے مظاہر میں دخل نہ دو
اسحاق نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو وہ اس طرح پہاڑی کے اوپر اوپر چل پڑا جیسے اس نے آسمانی مخلوق کا چیلنج قبول کر لیا ہے اس کے چلنے کے انداز میں قہر اور عتاب تھا
ادھر پہاڑی سے کچھ دور لوگوں کا ہجوم اس امید پر پہاڑی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ آج پھر شاہ بلوط میں ستارہ چمکے گا یا وہ سفید پوش نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے تین چار دن نہ ستارہ چمکا تھا نہ سفید پوش نے جلوہ دکھایا تھا یہ خبر اس کے علاقے میں دور دور تک پھیل گئی تھی اس لیے تماشائیوں کا ہجوم بہت ہی زیادہ ہو گیا تھا
اس رات لوگوں کی مراد بر آئی پہلے نقارہ بجا اس کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتے ہوتے رات کی تاریکی میں تحلیل ہو گئی پھر ایک سے زیادہ شہنائیوں کی ایسی لئے ابھری جس میں سحرانگیز سوز تھا ہجوم کا شور و غل ایسے سکوت میں دم توڑ گیا جیسے وہاں کوئی ذی روح کوئی جاندار زندہ ہی نہ ہو زمین و آسمان پر پیڑ پودوں اور پہاڑیوں پر جیسے وجد طاری ہو گیا ہو
لوگوں کو اندھیرے میں شاہ بلوط کیا نظر آتا وہ پہاڑ بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس پر وہ درخت کھڑا تھا لوگ نغمے میں محو تھے کے کی آوازیں اٹھیں وہ چمکا اور اس کے ساتھ ہی لوگوں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا ایک گونج تھی جس میں وجد آفریں تاثر محویت اور تقدس تھا اس کے ساتھ رات کی تاریکی میں ھوا کی لہروں پر شہنائیوں کی تیرتی ہوئی لئے ایسا سما باندھ رہی تھی جس کا تعلق اس دنیا سے معلوم نہیں ہوتا تھا ستارہ بجھ گیا اور پھر پہلے کی طرح ایک روشنی چھتری نما شاہ بلوط پر چلنے لگی پھر یہ ایک مقام پر رک گئی اور نیچے آنے لگی جیسا پہلے ایک رات ہوا تھا روشنی نیچے آئی تو سفید پوش کا سر کندھے اور سینہ نظر آیا اس کے بازو کچھ باہر کو اور کچھ آگے کو پھیلے ہوئے تھے جیسے دعا مانگ رہا ہو روشنی آہستہ آہستہ نیچے گئی اور سفید پوش کے پاؤں تک چلی گئی
ہجوم میں جو چند ایک سبز پوش تھے انہوں نے کہنا شروع کردیا سجدے میں چلے جاؤ ہمارا نجات دہندہ زمین پر اتر آیا ہے کچھ لوگ تو پہلے ہی سجدے میں چلے گئے تھے باقی بھی سجدہ ریز ہو گئے لوگ سجدے سے اٹھے اور انہوں نے سامنے دیکھا وہاں نہ ستارہ تھا نہ سفید پوش
خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے پہاڑ کی طرف سے ایک بڑی ہی بلند آواز ہجوم تک پہنچی وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آئے گا
خدا کا پیغام لائے گا
خدا کا شکر ادا کرو لوگو
اس وقت جب ستارہ ابھی نہیں چمکا تھا اسحاق آسر اور میرا پچھلی پہاڑی پر اتنا آگے چلے گئے تھے کہ انہیں شاہ بلوط والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر ایک خاصا کشادہ غار دکھائی دیا اس کے اندر لکڑیوں کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو آگ لگی ہوئی تھی اس کے شعلے غار کی چھت تک پہنچ رہے تھے اس آگ ہی کی روشنی چونکہ پیچھے والی ڈھلان میں تھی اس لئے اس کی روشنی پہاڑی کی اس جانب نہیں جا سکتی تھی جس جانب لوگوں کا ہجوم ستارہ دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گیا تھا
اسحاق اور اس کے ساتھیوں نے وہاں پانچ آدمی گھومتے پھرتے دیکھے ایک آدمی تھوڑے تھوڑے وقفے سے آگ میں لکڑی پھینک رہا تھا غار سے کچھ دور تقریبا ایک گز لمبی اور اسی قدر چوڑی کسی دھات کی ایک چادر سی رکھی ہوئی تھی کبھی تو شک ہوتا تھا کہ یہ آئینہ ہے اور کبھی یوں لگتا تھا جیسے یہ کسی ایسی دھات کا چادر نما ٹکڑا ہے جو آئینے کی طرح چمکتا ہے یا اس پر چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہے یا اس جیسی کوئی چیز چپکائیں گئی ہے
اسحاق وغیرہ دو درختوں کے تنوں کے پیچھے کھڑے دیکھ رہے تھے فاصلہ زیادہ نہیں تھا انھیں ہر آدمی اور ہر چیز اچھی طرح نظر آ رہی تھی
سامنے والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر شاہ بلوط کے درخت کے قریب وہ چمکتی چادر پڑی تھی دو آدمیوں نے آکر یہ چادر اٹھائی اور ادھر ادھر سے پکڑ کر ایسے زاویے پر کر لیا کہ اس کی چمک سیدھی پچھلی پہاڑی پر ان دو درختوں پر پڑی جہاں اسحاق وغیرہ چھپے دیکھ رہے تھے چمک فیلڈ لائٹ جیسی تھی اتنی تیز کے ان تینوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں وہ فوراً تنوں کے پیچھے ہو گئے
یہ چادر رکھ دی گئی ایک آدمی نہ جانے کہاں سے سامنے آیا وہ سر سے پاؤں تک سفید لبادے میں ملبوس تھا
چلو بھائی آ جاؤ سفید پوش نے کہا اوپر کون جائے گا؟
ایک آدمی آگے آیا اس نے ایک جگہ سے ایک چیز اٹھائی یہ یقیننا آئینہ تھا جس کی لمبائی تقریباً ایک فٹ اور چوڑائی اس سے کچھ کم تھی اس نے پہلے تو یہ اپنے سامنے کر کے یوں دیکھا جس طرح آئینہ دیکھا جاتا ہے پھر اس نے اسے آگے کی طرف کر کے ادھر ادھر ہلایا اس کی چمک پہاڑی کی ڈھلان پر اسی طرح دکھائی دی جس طرح آئینہ سورج کے آگے رکھو تو سامنے کی اشیاء پر اس کی چمک دکھائی دیتی ہے
یہ آدمی آئینہ اٹھائے ہوئے پہاڑی پر شاہ بلوط کی طرف چڑھ گیا اب وہ اندھیرے میں تھا غار کی آگ کی روشنی اس تک نہیں پہنچتی تھی اسحاق اور اس کے ساتھیوں کا صرف اندازہ تھا کہ یہ آدمی درخت پر چڑھ گیا ہے کچھ دیر بعد انہیں درخت کے اندر چمک دکھائی دی جو فوراً ختم ہو گئی
جانتے ہو درختوں میں کیا ہو رہا ہے؟
اسحاق نے آسر سے پوچھا
تمہارے ربی کا شک غلط نہیں نکلا آسر نے کہا میں بتا سکتا ہوں اوپر کیا ہو رہا ہے اس آگ کی چمک اس آئینے پر پڑ رہی ہے جو وہ آدمی اوپر لے گیا ہے اور آئینے کی چمک ان لوگوں کو دکھائی دے رہی ہے جو پہاڑی کے اس طرف ہجوم کی صورت میں موجود ہیں
دیکھو آگ کتنی زیادہ ہے اسحاق نے کہا اگر اتنی آگ پہاڑی کی چوٹی پر جلائی جائے تو یہ سارا علاقہ روشن ہوجائے اب تصور میں لاؤ کے شاہ بلوط کی شاخوں میں تم نے ستارہ چمکتا دیکھا ہے سمجھنا کوئی مشکل نہیں یہ سب انسان ہیں
لیکن یہ ہیں کون ؟
میرا نے پوچھا یہ کیسے معلوم کرو گے؟
ہم تین ہیں اسحاق نے کہا بلکہ ہم دو ہیں میرا کو شامل نہ کرو وہ پانچ ہیں ہم ان پر حملہ نہیں کر سکتے اگر ہمارے ساتھ دو تین آدمی اور ہوتے تو کسی اور طرف سے اس پہاڑی پر جاکر ان میں سے ایک دو کو زندہ پکڑ لیتے
ٹھہرو اسحاق آسر نے کہا وہ آدمی درخت سے اتر آیا ہے وہ دیکھو سفید پوش اوپر جا رہا ہے
میں بتاتا ہوں اب کیا ہوگا اسحاق نے کہا یہ سفید لبادے والا آدمی درخت کے نیچے کھڑا ہو گا اور اس پر چمکتی ہوئی دھات کی چادر کی روشنی ڈالی جائے گی لوگ سمجھیں گے کہ کسی پیغمبر کا ظہور ہوا ہے
ایسے ہی ہوا وہ آدمی درخت کے نیچے چلا گیا ادھر وہ چادر آگ کے سامنے ایسے زاویے پر رکھی گئی کہ اس کی چمک اس آدمی پر پڑنے لگی پہلے اس روشنی کو درخت پر گھمایا گیا پھر اسے اس آدمی پر مرکوز کر دیا گیا ادھر ہجوم نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا تو اس کی گونج ان پہاڑیوں تک سنائی دینے لگی
کچھ دیر بعد یہ پلیٹ یا چادر رکھ دی گئی اور ایک آدمی انتہائی بلند آواز سے اعلان کرنے لگا
خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے
وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آجائے گا
خدا کا پیغام لائے گا
خدا کا شکر ادا کرو لوگوں
پھر وہ سفید پوش واپس آ گیا
ہم نے یہ تو دیکھ لیا ہے کہ یہ ہماری طرح انسان ہیں اسحاق نے کہا اب ہم ربی اور فادر کو بتائیں گے معلوم نہیں وہ کیا کریں گے میں انہیں مشورہ دوں گا کہ جس طرح ہم تینوں یہاں تک پہنچ گئے ہیں اسی طرح کل شام بیس پچیس آدمی سامنے والی پہاڑی کے ایک طرف چھپ کر بیٹھ جائیں اور ان سب کو موقع پر پکڑ لیں پھر لوگوں کو رات کو ہی اس پہاڑی پر لے آئیں اور انھیں دکھائیں کہ یہ شیطان لوگ کس طرح انہیں گمراہ کر رہے تھے مجھے یقین ہے یہ مسلمان ہیں
اسحاق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ میرا کی دلدوز اور بڑی ہی بلند چیخ سنائی دی اسحاق اور آسر نے گھبرا کر ادھر دیکھا غار میں جلتی ہوئی آگ کی روشنی ان تک پہنچ رہی تھی اس روشنی میں انھوں نے دیکھا کہ جس درخت کی اوٹ میں میرا چھپی ہوئی تھی اس کے تنے پر ایک خاصا لمبا سانپ نیچے کو آ رہا تھا میرا کا شاید ہاتھ سانپ کو لگ گیا سانپ نے اسے بازو پر کاٹا تھا
اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور سانپ کے دو ٹکڑے کر دیے میرا اپنے بازو پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی اس کے منہ سے عجیب سی چیخیں نکل رہی تھی اسحاق اور آسر اس کے پاس بیٹھ گئے اور دیکھنے لگے کہ سانپ نے کہاں کاٹا ہے سانپ کی دہشت نے اور میرا کی بگڑتی ہوئی حالت نے ان کے ہوش و حواس اس حد تک کم کر دیے کہ انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ سامنے والی پہاڑی پر سفید پوش اور اس کے ساتھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے ان تینوں کو دیکھ لیا ہے میرا کی چیخ اتنی بلند تھی کہ سامنے والی پہاڑی کے لوگوں نے سن لی تھی اور انھوں نے چونک کر اس طرف دیکھا تھا
سانپ کا زہر میرا کے جسم میں سرایت کر رہا تھا وہ تڑپنے لگی تکلیف کی شدت سے اٹھی اور چکرا کر گری اور ایسی گری کے اوپر سے لُڑکتی ہوئی نیچے جا پڑی اسحاق اور آسر یہ فراموش کر گئے کہ کہاں ہیں؟
اس کے پیچھے بڑی تیزی سے پہاڑی سے اترے میرا تڑپ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ گہرا نیلا بلکہ سیاہ ہوتا جا رہا تھا اور وہ بری طرح تڑپ رہی تھی اسحاق اور آسر اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے
اسے اٹھاؤ اسحاق آسر نے کہا کچھ تم اٹھاؤ کچھ میں اٹھاتا ہوں اور یہاں سے نکلتے ہیں
یہ تو راستے میں مر جائے گی اسحاق نے کہا مر گئی تو اسے مگرمچھوں والے پانی میں پھینک جائیں گے
وہ دونوں میرا کو اٹھانے ہی لگے تھے کہ انہیں قدموں کی آہٹ سنائی دی انہوں نے بدک کر پیچھے دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہوگئے وہ سات آٹھ آدمیوں کے نرغے میں آگئے تھے ان میں سفید پوش بھی تھا ان میں سے کسی کے پاس تلوار تھی اور کسی کے پاس برچھی سفید پوش نے آگے بڑھ کر ان دونوں کی نیاموں میں سے تلوار نکال لی ان میں سے ایک اور آدمی آگے بڑھا اور اس نے ان کے کمر بندوں میں سے اڑسے ہوئے خنجر بھی لے لئے میرا کا تڑپنا خاصا کم ہو گیا تھا اسے مرنا تھا وہ ہوش میں نہیں تھی ،غار کی آگ کی روشنی نیچے تک آرہی تھی
انہیں اوپر لے چلو سفید پوش نے کہا اور اسحاق اور آسر سے کہنے لگا اس لڑکی کو یہی پڑے رہنے دو یہ چند لمحوں کی مہمان ہے میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے سانپ نے ڈسا ہے اس جگہ کے سانپ جسے ڈس لیں اسے زندہ نہیں رہنے دیا کرتے، یہ جوان تھی اس لئے ابھی تک اس کا جسم ذرا ذرا حرکت کررہا ہے
کیا تم لوگ ہمیں رہا نہیں کرتے دیتے؟
اسحاق نے التجا کے لہجے میں کہا
اگر ہم اتنے احمق ہوتے تو اتنی زیادہ مخلوق خدا سے یہ نہ منوا سکتے کہ شاہ بلوط کے نیچے ایک نبی کا ظہور ہو رہا ہے سفید پوش نے کہا جن کے پاس ہمارا اتنا نازک راز ہے انہیں ہم رہا نہیں کر سکتے
ہم دونوں آپ کے ساتھ ہو جائیں گے آسر نے کہا اور آپ جو بھی کام بتائیں گے کریں گے
تم کون ہو ؟
سفید پوش نے اسحاق سے پوچھا تمہارا مذہب کیا ہے؟
سچ سچ بتا د تو شاید ہم تم پر رحم کر دیں
میرا نام اسحاق ہے اس نے جواب دیا اور میں یہودی ہوں
میرا نام آسر ہے آسر نے کہا اور میں عیسائی ہوں
یہاں کیوں آئے تھے؟
سفید پوش نے پوچھا اور کہا مجھے یہ نہ بتانا کہ تم دونوں اس لڑکی کو ساتھ لے کر یہاں سیر اور تفریح کے لیے آئے تھے یہاں تک کوئی آدمی نہیں پہنچ سکتا ایک طرف مگر مچھوں نے راستہ بند کر رکھا ہے اور دوسری طرف ایسی دلدل ہے جس میں سے کوئی گزر نہیں سکتا
اسحاق نے اسے بالکل سچ بتا دیا کہ وہ دونوں یہاں کیوں آئے تھے اور یہ لڑکی کس طرح سات چل پڑی تھی
تمہارے ربی اور پادری کو ہم ایک سبق دیں گے سفیدپوش نے کہا اب یہودیوں کا جادو نہیں چل سکتا اب حسن بن صباح کا جادو چلے گا
اسحاق اور آسر کو اوپر لے گئے وہ اب بھی منت سماجت کر رہے تھے کہ انھیں چھوڑ دیا جائے انہیں باتوں باتوں میں آگ کے قریب لے گئے جو اتنی زیادہ تھی کہ وہاں کھڑا نہیں رہا جاسکتا تھا مشکیزوں والے آدمی آگ پر پانی پھیکنے لگے تھے کیوں کہ اب آگ کی ضرورت نہیں تھی سفید پوش نے اشارہ کرکے انہیں پیچھے ہٹا دیا پھر اس نے دوسرے آدمیوں کو اشارہ دیا کہ دو تین نے اسحاق کو اور دو تین نے آسر کو پکڑ لیا اور انہیں دھکیلتے گھسیٹتے ہوئے آگ کے قریب لے گئے دونوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا
وہ سمجھ گئے تھے کہ انہیں آگ میں دھکیلا جارہا ہے سفید پوش کے آدمیوں نے دونوں کو اتنی زور سے دھکے دیے کہ وہ آگ میں جا پڑے آگ اس قدر زیادہ تھی کہ وہ اس میں گرے اور پھر انکی آواز بھی نہ نکلی جب وہ جل کر کوئلہ ہو گئے تو سفید پوش نے مشکیزوں والوں سے کہا کہ اب آگ پر پانی پھینک دو اس رات کا ناٹک ختم ہوچکا تھا اس لیے اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی
اگلے روز شاہ دیر میں احمد بن عطاش اپنے خاص کمرے میں بڑی بے تابی سے حسن بن صباح کا انتظار کر رہا تھا اس نے دو بار اپنا آدمی اسے بلانے کےلئے بھیجا تھا اور دونوں بار وہ یہ جواب لے کر آیا تھا کہ حسن رات بہت دیر سے آیا تھا اس لئے بڑی گہری نیند سویا ہوا ہے
وہ سفید پوش جو شاہ بلوط کے نیچے لوگوں کو نظر آتا تھا وہ حسن بن صباح ہی تھا رات اسحاق اور آسر کی وجہ سے حسن کو وہاں زیادہ وقت رہنا پڑا تھا اس لئے صبح دیر سے اٹھا وہ جگہ شاہ در سے خاصی دور تھی شاہ در سے وہاں تک یہ لوگ اونٹوں پر جاتے اور صبح طلوع ہونے سے پہلے واپس آ جاتے تھے اونٹوں پر آنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے قدموں کی آہٹ نہیں ہوتی رات کے سناٹے میں گھوڑے کے ٹاپ دور دور تک سنائی دیتے ہیں اس لئے پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں جگہ سے ایک یا ایک سے زیادہ گھوڑ سوار گزرے تھے
سورج سر پر آ گیا تھا جب حسن بن صباح کی آنکھ کھلی اور وہ بڑی تیزی سے غسل وغیرہ کر کے احمد بن عطاش کے یہاں جا پہنچا
آؤ حسن احمد بن عطاش نے کہا مجھے تمہارے ساتھی بتا چکے ہیں کہ رات ایک یہودی اور ایک عیسائی نے نبی کے ظہور کا راز اپنی آنکھوں دیکھ لیا تھا تم نے اچھا کیا کہ دونوں کو آگ میں پھینک دیا
ان کی ساتھی لڑکی کو تو سانپ نے پہلے ہی ختم کر دیا تھا حسن بن صباح نے کہا ان دونوں آدمیوں میں جو عیسائی تھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس لڑکی کو پہلے ایک مگرمچھ نے پاؤں سے پکڑ لیا تھا اور ان دونوں نے تلواروں سے مگرمچھ کو زخمی کر کے لڑکی کو مگرمچھ کے منہ سے نکال لیا تھا
یہ اس سحر کا اثر تھا جو میں نے تمہارے ہاتھوں کروایا تھا احمد بن عطاش نے کہا میں نے اس سحر میں یہ اثر پیدا کیا تھا کہ تمہارے راز تک پہنچنے والے خیریت سے نہ پہنچ سکیں اور اگر پہنچ جائیں تو تمہیں ان کی موجودگی کا اشارہ مل جائے ہمارا جادو کامیاب رہا
محترم استاد حسن بن صباح نے کہا میں نے اس ربی اور پادری کا ٹھکانہ معلوم کرلیا ہے جنہوں نے ان دونوں آدمیوں کو بھیجا تھا انہیں ہمیشہ کے لیے غائب کر دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ ان کا خطرہ موجود رہے گا کہ یہ کسی اور طرح ہمارے راز پا لیں گے ہمیں یہ اطمینان ہوا ہے کہ یہ جاسوس سلجوقیوں کے نہیں تھے
ہاں حسن احمد بن عطاش نے کہا ہمارا منصوبہ ایسا ہے کہ کسی سے ذرا سے بھی خطرے کا صرف شک ہی ہو اسے بالکل ہی غائب کردینا ضروری ہے تمہارے پاس آدمی ہیں انہیں استعمال کرو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں کو کس طرح غائب کرتے ہو
یہ میں کر کے بتاؤں گا کہ میں نے یہ کام کس طرح کیا ہے حسن بن صباح نے ہنستے ہوئے کہا آپ کی شاگردی میں مجھے اتنی سوجھ بوجھ مل گئی ہے کہ میں اس گاؤں کے بچوں سے بڑوں تک کو ایسا لاپتہ کر سکتا ہوں جیسے کبھی وہ دنیا میں آئے ہی نہیں تھے
اب میری ایک دو باتیں غور سے سنو احمد بن عطاش نے کہا ہمارا یہ طریقہ سو فیصد سے کچھ زیادہ کامیاب رہا ہے اب تم نے لوگوں کے سامنے آنا ہے یہ ہزاروں لوگ تمہارے مرید ہو چکے ہیں اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگلے وہ قلعے بھی ہمارے ہیں یہ تمہیں میں بتاؤں گا کہ تم لوگوں کے سامنے کس طرح آؤ گے، دوسری بات یہ ذہن میں رکھ لو کہ سحر اور جادو پر بھروسہ نہیں رکھنا بھروسہ اپنی عقل اور فہم و فراست پر کرنا ہے یہ صحیح ہے کہ طلسم سامری کو توڑنے والا اب کوئی موسی نہیں رہا اور نہ ہی کوئی موسی آئے گا لیکن یہ یاد رکھ لو کے سحر اور جادو ہر قسم کے حالات میں تمھاری مدد نہیں کر سکے گا، اپنی عقل کا جادو چلاؤ یہ ایسی باتیں ہیں جو میں تمہیں بعد میں بھی سمجھاؤں گا
تم نے دیکھ لیا ہے کہ میری اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ لوگوں کو تم بدی سے ہٹنے کے سبق دو گے تو وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم سے پہلے قوموں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیا تھا لوگوں کو اپنا مرید بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ بدی کو کچھ پراسرار طریقے استعمال کرو جو مافوق العقل نظر آئے اور جن میں ایسا تاثر ہو جو لوگ بلا سوچے سمجھے تمہاری اسرارریت سے متاثر ہو کر سجدہ ریز ہوجائیں تم نے دیکھ لیا ہے ہزاروں لوگوں نے تمہارے آگے سجدہ کیا ہے میں پیغمبر نہیں حسن لیکن میں آنے والے وقت کے متعلق پیشن گوئی کرسکتا ہوں کہ لوگ جادوگروں اور ساحروں کے پاس جایا کریں گے اور ان سے اپنی مشکلات حل کرو ائیں گے اور سحر کے ذریعے ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے اور کچھ لوگ لوگوں کو سحر کا دھوکہ دے کر لوٹیں گے آج کے لوگوں کی یہ کمزوری ان کی نسلوں اور نسلوں تک جائے گی یہ باتیں بعد میں ہوگی تم اس یہودی ربی اور عیسائی پادری کا بندوبست کرو
دو ہی دن گزرے سورج غروب ہونے کے بعد دو اجنبی اس یہودی ربی کے یہاں گئے جس نے اسحاق کو بھیجا تھا ،انہوں نے نہایت پر اثر انداز میں ربی کو بتایا کہ اسحاق اور آسر نام کے دو آدمی اور میرا نام کی ایک لڑکی وہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کیلئے انہیں بھیجا گیا تھا لیکن ایک جگہ پھنس گئے ہیں جہاں وہ پھنسے ہیں وہاں کے سرکردہ آدمی اپنی ہی ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب تک ربی اور پادری خود نہیں آئیں گے وہ ان تینوں کو نہیں چھوڑیں گے، وہ لوگ ہماری پوری مدد کریں گے لیکن ربی اور پادری کا وہاں تک جانا ضروری ہے
ان دو آدمیوں نے زبان کے ایسے جادو چلائے کے ربی اور پادری ان کے ساتھ چل پڑے ان دو آدمیوں نے انہیں اپنے گھوڑوں پر سوار کر لیا تھا اور خود پیدل چل رہے تھے
وہ ایک اور راستے سے دو پہاڑیوں کے درمیان سے اس جگہ پہنچے جہاں پانی جمع تھا اور ایک مگرمچھ نے میرا کا پاؤں پکڑ کر اسے پانی میں گھسیٹا تھا اس رات بھی ہزارہا لوگوں کا ہجوم پہاڑی سے کچھ دور اس امید پر بیٹھا تھا کہ ستارہ چمکے گا اور پیغمبر کا ظہور ہوگا لیکن اس رات حسن بن صباح نے یہ ناٹک نہیں دکھانا تھا
پانی کے قریب جاکر ان دونوں آدمیوں نے ربی اور پادری کو یہ کہہ کر گھوڑوں سے اتارا کے گھوڑے پانی پی لیں جونہی یہ دونوں مذہبی پیشوا گھوڑوں سے اترے ان دونوں آدمیوں میں سے ایک نے پادری کو اور دوسرے نے ربی کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ پانی میں جا پڑے دونوں بوڑھے تھے جو ان آدمیوں سے دھکّے کھا کر وہ پانی میں خاصا دور چلے گئے تھے
پانی میں ایک ہڑبونگ سی مچی مگرمچھ بڑی تیزی سے آئے اور ربی اور پادری کو جبڑوں میں جکڑ کر اس قدرتی تالاب کی تہہ میں لے گئے تھوڑی ہی دیر میں ان دونوں کے جسموں کے ٹکڑے مگرمچھوں کے پیٹ میں جا چکے تھے اور وہ دونوں اجنبی گھوڑوں پر سوار شاہ در کے راستے پر جا رہے تھے اس خطے کے لوگ ابلیسیت کے جال میں آ گئے تھے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:12 }
یہودیوں کا ربی اور عیسائیوں کا پادری جس بستی کے رہنے والے تھے اس بستی میں ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھے
ربی کہاں گیا؟
فادر کہاں گیا؟
اسحاق اور آسر کہاں گئے؟
میرا کہاں گئی؟
چند گھروں کی یہ بستی تھی ربی اور پادری تو مذہبی پیشوا تھے کوئی نہایت معمولی سا فرد بستی سے تھوڑی سی دیر کے لیے غیر حاضر ہوتا تو ساری بستی اس کی غیر حاضری کو محسوس کر لیتی تھی ربی اور فادر کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی اسحاق آسر اور میرا بھی اس بستی کے اہم نوجوان تھے لوگ ان کے متعلق کچھ پریشان ہونے لگے
ایک صبح ایک مجذوب سا آدمی جس نے سبز چغہ پہن رکھا تھا اور سر پر سبز پگڑی لپٹی ہوئی تھی بستی میں داخل ہوا وہ “حق ہو حق ہو” کے دھماکہ خیز نعرے لگا رہا تھا اس کی داڑھی بڑی لمبی تھی سر کے بال بھی اتنے لمبے کے شانوں سے نیچے چلے گئے تھے اور اس کی آنکھیں گوشت کی طرح سرخ تھیں وہ بستی کے وسط میں جا کر رک گیا پہلے بچے اس کے اردگرد اکٹھے ہوگئے پھر دوسرے لوگ بھی اس کے قریب آنے لگے
کچھ نہیں رہے گا اس نے دایاں ہاتھ آسمان کی طرف کرکے کہا سب گم ہو جائیں گے کچھ نہیں رہے گا نام و نشان مٹ جائے گا مانو اسے جو روشنی دکھاتا ہے حق ہو حق ہو
وہ توہم پرستی اور ذہنی پسماندگی کا زمانہ تھا داستان گو نے پہلے سنایا ہے کہ لوگ ہر اس چیز کے پیچھے دوڑ پڑتے تھے جو اسراریت کی سیاہ پردوں میں ڈھکی ہوئی ہوتی تھی اور لوگ اسے مانتے تھے جس کی زبان میں چاشنی اور کشش ہوتی تھی مانا اسے جاتا تھا جو الفاظ اور اداکاری کا ماہر ہوتا تھا
اس کے الفاظ اور اس کا انداز ایسا تھا کہ ساری بستی اس کے اردگرد اکٹھی ہو گئی وہ اور زیادہ اونچی آواز میں نعرے لگانے لگا ایک بوڑھا آدمی آگے بڑھا
کیا بتائے گا نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
بوڑھے نے اس سے پوچھا
جو مطلب نہیں سمجھے گا وہ نہیں رہے گا مجذوب نے کہا سمجھے لوگوں سمجھو!
کیا تو ہمارے پاس بیٹھے گا نہیں ؟
بوڑھے نے پوچھا
ہم سمجھنا چاہتے ہیں ایک اور بولا
بیٹھ جا بوڑھے نے کہا ہمیں اپنی کچھ خدمت کرنے دے
مجذوب وہی زمین پر بیٹھ گیا اس نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ سب بیٹھ جائیں سب اس کے سامنے بیٹھ گئے
حق ہو حق ہو مجذوب نے آسمان کی طرف منہ کرکے ہوک لگانے کے انداز سے نعرے لگائے اور بولا جو نہیں مانے گا وہ گم ہو گئے
تو کس کی کہہ رہا ہے کہ وہ گم ہو گئے؟
بوڑھے نے پوچھا
اس بستی کے باپ گم ہو گئے ہیں مجذوب نے کہا بچے بھی گم ہو گئے ہیں
کیا تو ہمارے پادری کی بات کرتا ہے ؟
ایک عیسائی نے پوچھا مجذوب چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتا رہا
کیا تو ہمارے ربی کی بات کرتا ہے؟
ایک یہودی نے پوچھا وہ پھر بھی چپ رہا
کیا تیرا اشارہ میرے بیٹے اسحاق کی طرف ہے؟
ایک آدمی نے پوچھا مجذوب کچھ بھی نہ بولا
کیا تو میرے بیٹے آسر کی بات کررہا ہے؟
ایک اور آدمی نے پوچھا
میری بیٹی میرا بھی تو لاپتہ ہے
ان سب کی بات ایک ہے مجذوب بولا وہ نہیں مانتے تھے اور وہ جو تمہارے مذہبی باپ تھے وہ بھی نہیں مانتے تھے سب گم ہو گئے ہیں
کیا نہیں مانتے تھے؟
بوڑھے نے پوچھا
اسے نہیں مانتے تھے جو روشنی میں سے ظاہر ہوتا ہے وہ اس روشنی کو بھی نہیں مانتے تھے جو خدا اپنے بندوں کو دکھاتا ہے وہ یک لخت اٹھ کھڑا ہوا اور پھر “حق ہو حق ہو” کے دھماکا نما نعرے لگاتا ایک طرف چل پڑا
وہ آ رہا ہے وہ کہتا جارہا تھا وہ اتر رہا ہے جو نہیں مانے گا وہ گم ہو جائے گا
لوگ کچھ دور تک اس کے پیچھے گئے وہ چلتا گیا آگے ایک گھاٹی آگئی جو ندی میں اترتی تھی مجذوب گھاٹی اتر کر ندی میں چلا گیا اور پانی میں یوں چلتا گیا جیسے میدان میں جا رہا ہو درمیان میں پہنچا تو پانی اس کے سینے تک گہرا ہو گیا پھر بھی وہ اس طرح چلتا گیا جیسے میدان میں چل رہا ہو لوگ اوپر کھڑے اسے دیکھتے رہے اور وہ ندی پار کر کے چلا گیا اپنے پیچھے وہ ایک دہشت اور تذبذب کی کیفیت چھوڑ گیا
وہ جب نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگوں واپس ہونے لگے ان پر خاموشی طاری تھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے سے ڈر رہے تھے
اگر ان کے دونوں مذہبی پیشوا موجود ہوتے تو وہ ان سے پوچھتے کہ یہ سب کیا ہے لیکن مذہبی پیشوا ہی تو لاپتہ ہوگئے تھے
ربی اور فادر کہتے تھے کہ یہ جو روشنی نظر آتی ہے یہ سب ایک پراسرار ڈھونگ ہے بستی میں آ کر بوڑھے نے کہا میں تو کہتا ہوں کہ انہیں اسی کی سزا ملی ہے
میں راز کی ایک بات بتاتا ہوں ایک جواں سال آدمی بولا اسحاق میرا گہرا دوست تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ میں کسی کو نہ بتاؤ اسے اور آسر کو ربی اور فادر نے کہا تھا کہ وہ اس پہاڑی کے پیچھے جائیں جس پر یہ روشنی اور پھر روشنی میں ایک سفید پوسش نظر آتا ہے میرا بھی ان کے ساتھ گئی تھی
اس پہاڑی کے پیچھے؟
ایک اور معمر آدمی نے کہا کیا کبھی کسی سے سنا ہے کہ کوئی اس پہاڑی کے پیچھے گیا ہے؟
کبھی کوئی گیا ہے تو اسے کسی نے واپس آتا نہیں دیکھا وہ موت کی وادی ہے وہاں خونخوار اور آدم خور مگرمچھ ہیں وہاں اتنی زہریلے سانپ ہیں کہ ڈستے ہیں تو پلک جھپکتے آدمی مر جاتا ہے زمین پر سانپ درختوں پر سانپ پانی میں سانپ وہاں تو کوئی جنگلی جانور اور کوئی درندہ بھی نہیں جاتا
ایک بات سمجھ میں آتی ہے دوسرے بوڑھے نے کہا اگر روشنی انسان دکھاتے ہیں اور روشنی میں ظاہر ہونے والا سفید پوش بھی انسان ہے تو وہ اس پہاڑی پر جاتے کدھر سے ہیں نہیں وہ انسان نہیں ہو سکتے
میں مانتا ہوں ایک اور آدمی بولا وہ انسان نہیں ہوسکتے کیا تم نے سنا نہیں کہ جس سانپ کی عمر سو سال ہوجاتی ہے وہ انسان کے روپ میں آ جاتا ہے میں کہتا ہوں یہ انسان کے روپ میں سانپ ہیں اور روشنی میں وہ جو سفید پوش نظر آتا ہے وہ شیش ناگ ہوگا
کچھ لوگوں نے اس آدمی کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں تائید تھی اور خوف بھی
کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ایک اور نبی ہے معمر آدمی نے کہا اسے صرف ہم ہی نہیں دیکھ رہے یہ ہزارہا لوگ اتنی دور دور سے آکر اسے دیکھ رہے ہیں وہ ظاہر ہوتا ہے تو سب سجدے میں چلے جاتے ہیں تم نے وہاں درویش صورت انسان دیکھے ہوں گے وہ بھی سجدہ ریز ہو جاتے ہیں یہ سمجھ لو کہ یہ کوئی نیا عقیدہ یا نیا پیغام آرہا ہے اس کی کوئی مخالفت نہ کرے ورنہ پوری بستی کو نقصان ہوگا
یہ کیفیت صرف اس بستی میں ہی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ لوگ خوفزدہ بھی تھے اور آنے والے کے منتظر بھی اس علاقے میں جتنی بستیاں تھیں ان سب میں یہی کیفیت تھی یہ مجذوب جو اس بستی میں گیا تھا کئی اور بستیوں میں گیا اور اپنے مخصوص مجذوبانہ انداز میں یہ خبر سناتا گیا کہ ایک عیسائی اور ایک یہودی مذہبی پیشوا نے روشنی والے کے خلاف بات کی تھی اور دونوں کو آسمان کی غیر مرئی مخلوق اٹھاکر لے گئی ہے
اور ایک روز وہ زمین پر اتر آیا
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ جس پہاڑی پر شاہ بلوط کا درخت تھا اس کے سامنے وسیع و عریض میدان میں جو سرسبز تھا اور جہاں درختوں کی بہتات تھی خیموں کی ایک بستی آباد ہو گئی تھی یہ قبیلوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کے خیمے تھے ہزاروں لوگ کھلے آسمان کے نیچے وہاں موجود رہتے تھے
ایک صبح لوگ جاگے تو انہوں نے دیکھا کہ پہاڑی کے دامن میں جو ٹیکری تھی اس پر پلنگ کی طرح کا ایک تخت رکھا تھا اس کے پائے رنگین اور خوش نما تھے اس پر بڑا قیمتی قالین بچھا ہوا تھا ٹیکری ہری بھری تھی تخت کے دائیں بائیں اور پیچھے درخت تھے ان درختوں کے ساتھ پھولدار بیلیں باندھ کر خوشنما چھت بنا دی گئی تھی
لوگوں نے دیکھا تو وہ آہستہ آہستہ اس طرف چل پڑے وہاں ابھی کوئی آدمی نظر نہیں آرہا تھا لوگ جب قریب پہنچے تو ٹیکری پر ایک آدمی نمودار ہوا وہ عقب سے اوپر چڑھتا آرہا تھا اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے ہاتھ میں سبز جھنڈا تھا اس کا لباس شاہی چوبداروں جیسا تھا تخت کے ایک طرف سے گزرتا وہ تخت سے آگے آکر لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا اس نے جھنڈا ٹیکری پر گاڑ دیا
وہ جو مسجود برحق ہے آرہا ہے چوبدار نے بڑی ہی بلند آواز میں اعلان کیا
خوش نصیب ہو تم کہ وہ تمہارے سامنے آ رہا ہے وہ آئے تو سجدے میں چلے جاؤ لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا
قبیلوں کے سردار آگے آ جاؤ چوبدار نے اعلان کیا سرکردہ آدمی سب سے آگے آکر بیٹھ جاؤ
لوگوں میں سے کئی ایک آدمی آگے چلے گئے اور بیٹھ گئے ان کے لباس اور رنگ ڈھنگ بتا رہے تھے کہ وہ سرکردہ افراد ہیں
ہوا کچھ تیز چل رہی تھی ٹیکری پر چھ آدمی نمودار ہوئے ان کے لباس معمولی سے تھے وہ ملازم لگتے تھے ہر ایک نے ایک ایک دیگچہ نما برتن اٹھا رکھا تھا وہ ٹیکری اتر آئے اور ہجوم کے اس پہلو کو چلے گئے جدھر سے ہوا آرہی تھی انہوں نے یہ برتن تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھ دئیے یہ لوگوں سے دور رکھے گئے تھے پھر ان میں آگ لگا دی گئی لیکن شعلہ کسی میں بھی نہ نکلا ہر برتن میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھنے لگا ہوا کا رخ لوگوں کی طرف تھا اس لئے یہ دھنواں ہجوم میں سے گزرنے لگا وہ آدمی وہیں کھڑا رہے
خدا کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں ٹیکری سے چوبدار کی آواز آئی لوگوں نے ایسی خوشبو محسوس کرنی شروع کردیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی پرکیف اور روح پرور خوشبو تھی یہ اس دھوئیں کی خوشبو تھی جو برتنوں سے اٹھ رہا تھا
نقارہ بجنے لگا اور اس کے ساتھ تین چار شہنائیوں کے لے ابھرے یہ صحرائی نغمے کی لے تھی جس میں وجد طاری کر دینے والا سوز تھا تخت کے عقب سے ایک آدمی ابھرنے لگا جو ایک شہانہ کرسی پر بیٹھا تھا کرسی اس آدمی کو اٹھائے اوپر ہی اوپر اٹھتی آئی پھر چار آدمیوں کے سر ابھرے اور فوراً ہی یہ چاروں آدمی پورے اوپر آ گئے کرسی بڑی تھی اور چوڑی تھی ان چاروں آدمیوں نے کرسی کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا چاروں آدمی عربی لباس میں ملبوس تھے اور جو کرسی پر بیٹھا تھا لباس اس کا بھی عربی نما لیکن کپڑا ریشمی اور چمکدار تھا
سجدہ ایک آواز گرجی سجدہ
وہاں جتنے لوگ تھے سب سجدہ ریز ہو گئے چار آدمیوں نے بڑے آرام سے کرسی تخت پر رکھ دی جس پر قالین بچھا ہوا تھا کرسی پر جو بیٹھا ہوا تھا وہ بادشاہ لگتا تھا داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی اس کے چہرے کا رنگ سفیدی مائل گندمی تھا نقش و نگار میں مردانہ حسن آنکھوں میں چمک اور ایسا تاثر کے کوئی بڑی مضبوط شخصیت والا ہی ان آنکھوں کا سامنا کر سکتا تھا زیرے لب تبسم چہرے کی جاذبیت میں اضافہ کرتا تھا
اس نے سجدہ ریز ہجوم پر نگاہ دوڑائی اس کا زیر لب تبسم مسکراہٹ کی صورت میں کھل گیا اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ لوگ سجدے سے اٹھیں
اللہ اکبر ایک آواز گرجی
ہجوم نے سجدے سے سر اٹھائے ہجوم میں عیسائی بھی یہودی بھی اور مسلمان بھی تھے اور چند ایک بے دین بھی تھے اللہ اکبر کا مطلب یہ تھا کہ یہ جو شہانہ مسند پر بیٹھا ہے مسلمان ہے پھر بھی سب لوگ اسے دیکھنے اور اسے سننے کو بے تاب ہوئے جارہے تھے اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے لیکن اللہ اکبر کی صدا پر ان کے دلوں میں تعصب نے سر نہیں اٹھایا تھا
لوگ اپنے آپ میں ایک پرلطف سی تبدیلی محسوس کر رہے تھے ان کے دلوں سے خوف نکل گیا تھا وہ ہلکے پھلکے ہو گئے تھے ان کے دلوں میں پیار اور محبت کی لہریں اٹھنے لگی تھیں
وہ جو شاہانہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا وہ حسن بن صباح تھا وہ اٹھا اور اپنے دونوں بازو پھیلا دئیے
میں تم میں سے ہوں اس نے کہا میری روح اس نور سے پیدا ہوئی ہے جو تم شاہ بلوط کے درخت میں دیکھتے رہے ہو میں تم میں سے ہوں مجھے خدا نے اپنا ایلچی منتخب کیا ہے میں تمہارے لئے خدا کا پیغام لے کر آیا ہوں لیکن ابھی پورا پیغام سنانے کا وقت نہیں آیا ابھی اتنی سی بات بتاؤں گا کہ خدا کا منشا ہے کہ اس کی زمین پر اس کے بندوں کی حکومت ہو جس طرح خدا نے فرعونوں کا خاتمہ کردیا تھا اسی طرح خدا بادشاہوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اللہ کی رضا اب اس میں ہے کہ کھیتی کا پورا حق اسے ملے جو اس میں ہل چلاتا اور بیچ پھینکتا ہے خدا نے مجھے اپنی رضا کی تکمیل کے لئے تمہارے درمیان اتارا ہے کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی سے آزاد ہو جاؤ
ہاں ہاں ہجوم سے بے شمار آوازیں اٹھیں ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ کام آسان نہیں حسن بن صباح نے کہا تمہیں متحد ہو کر میرے پیچھے چلنا پڑے گا
ہم تمھارے پیچھے چلیں گے ہجوم سے پرجوش آوازیں اٹھیں یاد رکھو حسن بن صباح نے کہا تم یہ وعدہ میرے ساتھ نہیں اس خدا کے ساتھ کررہے ہو جس نے مجھے ایلچی بنا کر تمھارے پاس بھیجا ہے تم وعدے سے پھر گئے تو تم پر خدا کا عذاب نازل ہوگا اگر تم نے خدا سے وعدہ نبھایا تو تم دنیا میں جنت دیکھ لو گے
ہم خدا کو ناراض نہیں کریں گے ہجوم میں سے آوازیں اٹھیں
یہ حسن بن صباح کی رونمائی تھی اس روپ میں وہ پہلی بار لوگوں کے سامنے آیا تھا اس نے دیکھا کہ اتنا بڑا ہجوم اس کا ہمنوا ہو گیا ہے تو اس نے نہایت پراثر الفاظ میں واعظ شروع کردیا
مورخوں کا بیان ہے کہ حسن بن صباح کی اس تقریر میں زبان کا جادو اور خطابت کا کمال تھا علم وفضل کا نام و نشان نہ تھا وہ لوگوں کے دلوں کی بات کر رہا تھا
لوگوں نے اس کے انداز خطابت نے تو متاثر کرنا ہی تھا کیونکہ اس فن میں اس نے کمال حاصل کیا تھا لوگوں کے ذہنوں کو اس نے اس دھوئیں کے ذریعے بھی اپنے قابو میں کر لیا تھا جو دیگچہ نما برتنوں سے اٹھ رہا تھا یہ ایک یا ایک سے زیادہ جڑی بوٹیوں کی دھونی تھی جن کے اثرات ویسے ہی تھے جیسے آج کل مسکّن گولیوں کے ہوتے ہیں حسن بن صباح نے آگے چل کر قلعہ المُوت میں جو جنت بنائی تھی اس میں ان جڑی بوٹیوں کا بے دریغ استعمال ہوا تھا
بعض مورخوں نے یہی لکھا ہے کہ اس نے ہجوم پر اس دھونی کا نشہ طاری کر دیا تھا لیکن دو مورخوں نے لکھا ہے کہ وہاں پانی کے بہت سے مٹکے رکھ دیے گئے تھے جن میں تھوڑا سا سرور پیدا کرنے والی دوائی ملا دی گئی تھی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ اس پانی میں آب کوثر ملا ہوا ہے سب یہ پانی پیئں لوگوں پر اس پانی نے ایسا نشہ طاری کر دیا تھا کہ ان کے ذہن حسن بن صباح کے ایک ایک لفظ کو دل و جان سے قبول کرتے جا رہے تھے
البتہ تاریخوں میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ حسن بن صباح نے قبیلوں اور بستیوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کو پہلے ہی الگ کر لیا تھا اس نے لوگوں کے ہجوم کو وہاں سے چلتا کیا اور سردار وغیرہ کو اوپر ٹیکری پر بلا لیا ٹیکری کے اوپر جگہ اتنی سرسبز اور خوشنما تھی جیسے انسانوں نے اپنے بادشاہ کے بیٹھنے کے لئے یہ جگہ بڑی محنت سے تیار کی ہو
ان سرکردہ افراد کی تعداد کوئی زیادہ نہیں تھی بارہ چودہ ہی تھی انہوں نے حسن بن صباح کے سامنے جاکر اس طرح تعظیم دی کہ رکوع کی حالت میں چلے گئے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ یہ کوئی انسان ہے یا آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہے یا یہ کوئی فریب کار ہی تو نہیں یہ سب اس سے مرعوب ہو گئے
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جڑی بوٹیوں کی دھونی کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا گیا تھا لیکن حسن بن صباح کے پاس لوگوں پر چھا جانے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا یہ تھا سحر یعنی جادو اس کے استاد اور پیرومرشد نے اسے سحر کاری کی خصوصی تربیت دی تھی بعض مورخوں نے وثوق سے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے لوگوں کے ہجوم پر نظر ڈالیں تو تمام کا تمام ہجوم ہپنا ٹائز ہو گیا تھا سردار وغیرہ اوپر گئے تو وہ بھی ہپنا ٹائز کردیئے گئے تھے اسے اجتماعی ہپناٹائز کہا جاتا ہے
حسن بن صباح کی ابلیسیت کی داستان کو بعض لوگ محاذ افسانہ سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ انھیں یقین نہیں آتا کہ ایک انسان کی ایسی فریب کاری جو لاکھوں انسان کو اپنی زد میں لے لے اور لوگ اسے پیغمبر تسلیم کر لیں من گھڑت قصہ ہی ہوسکتی ہے یہ ہے بھی سہی لیکن حسن بن صباح اور اس کے گروہ کے بعض کارنامے اور کمالات ایسے ہیں جو قابل یقین نہیں لگتے لیکن حسن بن صباح نے جو ذرائع استعمال کیے تھے وہ حیران کن کمالات دکھا سکتے تھے سحر کاری اس دور میں کوئی نئی چیز نہیں تھی اتنا ضرور ہے کہ اس دور میں سحر یا کسی بھی قسم کا جادو ہر کسی کے ہاتھ میں نہیں آ سکتا تھا مثال کے طور پر فرعونوں کے پاس جادوگر موجود تھے یہودیوں نے اس فن میں کمال حاصل کیا لیکن یہ فن ایسہ عام اور سہل نہیں تھا کہ ہر کوئی سیکھ لیتا
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حسن بن صباح کے ہاتھ کوئی ایسی جڑی بوٹی لگ گئی تھی جس کی بو یا دھونی انسان کو بڑے دلکش تصورات میں لے جاتی تھی مثلا اس بوٹی کی بو کے زیر اثر کوئی آدمی کنکریاں اور مٹی کھا رہا ہوتا تو وہ پورے یقین کے ساتھ یہ سمجھتا تھا کہ وہ من و سلویٰ کھا رہا ہے پتھروں پر لیٹ کر اسے نرم و گداز بستر کا لطف آتا تھا
آگے چل کر جب داستان گو آپ کو حسن بن صباح کی جنت میں لے جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ وہ جنت کس طرح آباد کی گئی تھی وہ ایک جہنم تھا جسے لوگ جنت سمجھتے تھے
یہ بھی انسانی فطرت کی ایک حقیقت ہے کہ انسانی ذہن نیکی کو سوچ سوچ کر اور خاصا وقت لگا کر قبول کرتا ہے لیکن بدی کی دلکشی کو وہ فورا قبول کرلیتا ہے کوئی بھی انسان اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کرنے شروع کر دیے اور ذرا سی بھی اچھائی کو قبول نہ کرے تو تھوڑے سے وقت میں وہ مکمل ابلیس بن جاتا ہے اس کی زبان میں ایسی چاشنی پیدا ہو جاتی ہے جو پتھروں سے بھی دودھ نکال لیتی ہے ایسا شخص جھوٹ کا سہارا لیتا ہے اور اتنی خوبصورتی سے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگ دل و جان سے اس کے جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں مختصر بات یہ ہے کہ انسان انسانیت کے درجے سے دستبردار ہو جائے اور یہ ذہن میں بٹھا لے کے وہ اشرف المخلوقات نہیں تو وہ شخص شیطانیت کے میدان میں معجزہ کر کے دکھا سکتا ہے جو شخص اپنی ماں بہن بہو بیٹی کی عزت اور آبرو سے دستبردار ہوجائے وہ حیران کن کارنامہ کر کے دکھا سکتا ہے
اگر بات حسن بن صباح کی نفسیات کی لے بیٹھیں تو اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن بات سمجھانے کے لئے بہتر یہ ہے کہ واقعات بیان کر دیے جائیں اور یہ پڑھنے والے پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ سب کیا تھا سمجھنے والی اصل بات یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے استادوں اور اس کے گروہ کا وجود ان کی یہ طلسماتی کارستانی یہ اسلام کی سچائی پر بڑا ہی شدید حملہ تھا اور اسلام کے لیے اتنا بڑا چیلنج جو صلیبیوں کے چیلنج سے بھی بڑا اور خطرناک تھا
صلیبی تو میدان میں آکر لڑے تھے انہوں نے زمین دوز کاروائیاں اگر کی تھی تو وہ اتنی سی تھی کہ انہوں نے اپنی اور یہودیوں کی انتہائی خوبصورت لڑکیاں جاسوسی اور اخلاقی تخریب کاری کے لئے مسلمان امراء اور سالاروں کے درمیان مسلمان لڑکیوں کے روپ میں چھوڑی گئی تھیں اس کے برعکس حسن بن صباح جو اسماعیلی مسلک کا علمبردار تھا اس لیے خطرناک تھا کہ وہ میدان میں لڑنے والا نہیں تھا اس کے حربے اتنے حسین تھے جنہیں صرف عام لوگ بلکہ ذمہ دار لوگ بھی قبول کر لیتے تھے…

📜☜سلسلہ جاری ہے……

 



 

www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah/feed/ 0
جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/ https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/#respond Thu, 11 Jul 2024 16:11:52 +0000 https://urducover.com/?p=2862  

جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام
=====================

حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا حضور! مجھے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے مجھے اس بات کا بڑا شوق ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا یہ شوق اچھا نہیں ، تم اس بات کو رہنے دو۔ اس نے کہا حضور آپ کا اس بات میں کیا نقصان ہے۔ میرا ایک شوق ہے اسے پورا کر ہی دیجئے۔حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اللہ سے عرض کی کہ مولا یہ بندہ مجھ سے اس بات کا اصرار کر رہا ہے میں کیا کروں؟ حکم الٰہی ہوا کہ جب یہ شخص باز نہیں آتا تو اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیں۔ اس شخص نے ایک مرغ اور ایک کتا پال رکھا تھا۔

ایک دن کھانا کھانے کے بعد اسکی خادمہ نے جب دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ایک ٹکڑا گرا تو کتا اور مرغ دونوں اس کی طرف لپکے اور وہ روٹی کا ٹکڑا اس مرغ نے اٹھا لیا۔ کتے نے اس مرغ سے کہا۔ ارے ظالم میں بھوکا تھا یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے، تیری خوراک تو دانہ دنکا ہے مگر تم نے یہ ٹکڑا بھی نہ چھوڑا۔ مرغ بولا گھبراؤ نہیں، کل ہمارے مالک کا یہ بیل مر جائے گا تم کل جتنا چاہو گے اس کا گوشت کھا لینا۔ اس شخص نے ان کی یہ گفتگو سن لی تو بیل کو فورن بیچ ڈالا۔ وہ بیل دوسرے دن اس آدمی کے پاس جا کر مر گیا۔ کتے نے مرغ سے کہا۔ بڑے جھوٹے ہو تم، خواہ مخواہ مجھے آج کی امید میں رکھا، بتاؤ کہاں ہے وہ بیل؟ جس کا گوشت میں کھا سکوں۔ مرغ نے کہا میں جھوٹا نہیں ہوں۔ ہمارے مالک نے نقصان سے بچنے کے لئے بیل بیچ ڈالا ہے اور اپنی بلا دوسرے کے سر ڈال دی ہے، مگر لو سنو! کل ہمارے مالک کا گھوڑا مرے گا۔ کل گھوڑے کا گوشت جی بھر کے کھانا۔

اس شخص نے یہ بات سنی تو گھوڑا بھی بیچ ڈالا۔ دوسرے دن کتے نے شکائیت کی تو مرغ بولا۔ بھئی کیا بتاؤں ہمارا مالک بڑا بے وقوف ہے جو اپنی آئی غیروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے گھوڑا بھی بیچ ڈالا ہے اور گھوڑا خریدار کے گھر جا کر مر گیا، اسی گھر میں مرتے تو ہمارے مالک کی جان کا فدیہ بن جاتے۔ مگر اس نے ان کو بیچ کر اپنی جان پر آفت مول لی ہے۔ لو سنو اور یقین کرو۔ کل ہمارا مالک خود ہی مر جائے گا اور اسکے مرنے پر جو کھانے دانے پکیں گے، اس میں سے بہت کچھ تمھہیں بھی ملے گا۔

اس شخص نے جب یہ بات سنی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو دوڑتا ہوا حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس آیا اور بولا حضور! میرے غلطی معاف فرمائیے اور موت سے مجھے بچا لیجئے۔ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے فرمایا۔ نادان! اب یہ بات مشکل ہے۔ آئی قضا ٹل نہ سکے گی۔ تمہیں اب جو بات سامنے نظر آئی ہے مجھے اسی دن نظر آ رہی تھی جب تم جانوروں کی بولیاں سیکھنے کی ضد کر رہے تھے اب مرنے کے لیے تیار رہو۔ چنانچہ دوسرے دن وہ شخص مر گیا۔

سبق: مال و دولت پہ اگر کسی قسم کی آفت آ جائے تو انسان کو صبر کرنا چاہئے، اور غم اور شکوہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اپنی جان کا فدیہ سمجھ کر اللہ کا شکر ہی ادا کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ جو ہوا بہتر ہوا۔ اگر مال پر یہ آفت نازل نہ ہوتی تو ممکن ہے جان ہلاکت میں پڑ جاتی۔

]]>
https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/feed/ 0