islamic story – https://urducover.com Thu, 08 Aug 2024 15:13:29 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.6.2 https://urducover.com/wp-content/uploads/2024/07/Urdu-cover-logo--150x150.png islamic story – https://urducover.com 32 32 پادری کی نصیحت https://urducover.com/islamic-story-in-urdu-%d9%be%d8%a7%d8%af%d8%b1%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b5%db%8c%d8%ad%d8%aa/ https://urducover.com/islamic-story-in-urdu-%d9%be%d8%a7%d8%af%d8%b1%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b5%db%8c%d8%ad%d8%aa/#respond Sun, 04 Aug 2024 15:30:02 +0000 https://urducover.com/?p=5326   پادری کی نصیحت
___________________
“”””””””””””””””””””””””””””””

حضرت طلحہ بن عبید اللہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے باسی اور تجارت پیشہ تھے۔ قریش مکہ کے ہمراہ شام کے مشہور قصبے بصری کے بازار میں مقیم تھے۔ کہ اچانک ایک عیسائی پادری کو لوگوں میں اعلان کرتے سنا کہ تمہارے درمیان اہل حرم میں سے کوئی شخص ہے۔
اتفاق کی بات کہ میں اس کے قریب ہی تھا۔ میں لپک کر اس کی طرف بڑھا
اور کہا: ہاں میں مکہ مکرمہ کا رہنے والا ہوں۔
پادری کہنے لگا: کیا تمہارے ہاں احمد نامی کوئی شخصیت ہے۔
میں نے کہا: کون احمد ؟
وہ کہنے لگا : احمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب وہ اس شہرت کا حامل ہوگا۔ اور وہ آخری نبی ہے۔ وہ مکے کا رہنے والا ہو گا اور وہاں سے ہجرت کر کے کالے پتھروں
کی سرزمین جس میں کھجور کے باغات ہیں جائے گا۔
فَإِيَّاكَ أَنْ تُسْبَقَ إِلَيْهِ يَا فَتَى
اے نوجوان ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کی دعوت کو قبول کرنے میں
دوسرے تم پر سبقت نہ لے جائیں ۔“
طلحہ کہتے ہیں کہ اس پادری کی بات میرے دل میں گھر کر گئی۔ میں اپنے اونٹوں کی طرف گیا ان کے اوپر پالان رکھا، ساز و سامان لادا اور واپس وطن کی طرف روانہ ہوا۔ میرے ہمراہ میری قوم کے کافی لوگ تھے۔ ہمارا قافلہ جلد کے پہنچ گیا۔
میں نے گھر پہنچتے ہی اپنے گھر والوں سے پوچھا:
أَكَانَ مِنْ حَدِيثٍ بَعْدَنَا فِي مَكَّةَ»
کیا ہمارے سفر کے دوران کوئی خاص واقع پیش آیا۔“
انہوں نے کہا کہ ہاں :
قَامَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ تَبِعَهُ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ
محمد بن عبداللہ ( ﷺ ) نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں۔ اور ابو قحافہ کے بیٹے
( ابو بکر صدیق ) نے ان کی تصدیق بھی کر دی ہے۔
طلحہ رضي الله عنه فرماتے ہیں: میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کو خوب اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بڑے نرم خو بڑے محبوب اور کریم شخص تھے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تاجر تھے۔ حق و انصاف کے خوگر تھے ہم ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ان کی مجالس
میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا:
أَحَقًّا مَا يُقَالُ مِنْ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَظْهَرَ النُّبُوَّةَ وَأَنَّكَ اتَّبَعْتَه
کیا جو باتیں ہم سن رہے ہیں وہ درست ہیں کہ محمد بن عبد الله ( ﷺ ) نے
نبوت کا اظہار کیا ہے اور آپ نے ان کی پیروی کی ہے اور ان کو مان لیا ہے ۔“
حضرت ابو بکر صدیق رضي الله عنه نے فرمایا : ہاں تم نے جو کچھ سنا ہے وہ درست ہے۔ اور پھر انہوں نے اللہ کے رسول کی باتیں سنانا شروع کر دیں، اور مجھے ترغیب دلائی کہ میں بھی ان کا ساتھی بن جاؤں میں نے ان کو پادری کی باتیں سنائیں تو ابوبکر رضي الله عنه کو بڑا تعجب ہوا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ چلو محمد ( ﷺ ) کے پاس چلتے ہیں اور ان کو یہ واقعہ سناتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ اور تم بھی اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ.
طلحہ رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کی معیت میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے مجھے قرآن کریم کا کچھ حصہ سنایا اور مجھے دنیا و آخرت کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو اسلام کی دعوت کے لیے کھول دیا۔ میں
نے آپ ﷺ کو بصری کے پادری کا واقعہ سنایا۔
فَسُرَّ بِهَا سُرُورًا بَدَا عَلَى وَجْهِهِ
آپ ﷺ اس سے بہت خوش ہوئے جس کے آثار آپ کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے۔“
فَأَعْلَنْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ شَهَادَةَ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ»
پھر میں نے آپ کے دست حق پرست پر کلمہ شہادت پڑھا۔
اس طرح میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کے ذریعے اسلام لانے والا چوتھا آدمی تھا۔

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼 

 ➖♻➖
 www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/islamic-story-in-urdu-%d9%be%d8%a7%d8%af%d8%b1%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b5%db%8c%d8%ad%d8%aa/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 6 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/#respond Sun, 28 Jul 2024 16:19:02 +0000 https://urducover.com/?p=5020 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 6

قسط نمبر:21 }
سلطان ملک شاہ نے سالار امیر ارسلان کو حکم تو دے دیا تھا کہ حسن بن صباح کو زندہ پکڑ لائے، لیکن حسن بن صباح کا سراغ نہیں مل رہا تھا کہ وہ ہے کہاں؟
سلطان نے امیر ارسلان سے یہ کہا تھا کہ حسن بن صباح کا سراغ لگاؤ اور اسے پکڑو
کیا آپ کو معلوم ہے وہ ہے کہاں؟
مزمل آفندی نے جو میمونہ اور شمونہ کے ساتھ تھا ابو مسلم راضی سے پوچھا
نہیں ابومسلم رازی نے جواب دیا یہی ایک سوال ہے جس کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں ایک خبر ملی تھی کہ وہ مصر چلا گیا ہے اور یہ خبر بھی ملی ہے کہ مصر سے واپس آ گیا ہے
ہم اسے بغداد چھوڑ آئے ہیں مزمل آفندی نے کہا
اور یہ میں آپ کو بتا دیتی ہوں میمونہ نے کہا کہ وہ مصر سے واپس آ گیا ہے اور اصفہان جا رہا ہے میں اسکندریہ سے اپنے خاوند کے ساتھ اس کی ہمسفر تھی یہ میرا دوسرا خاوند تھا اسے حلب میں حسن بن صباح نے قتل کروا دیا تھا
قتل کروا دیا تھا؟
ابو مسلم رازی نے چونک کر پوچھا وہ کیسے؟
میمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا
اور پھر اس نے مجھے اپنے اثر میں لے لیا میمونہ نے کہا اس نے ایسے انداز اور ایسے طریقے سے میرے ساتھ باتیں کیں کہ میں اسے خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہوا فرشتہ سمجھنے لگی میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ میرے خاوند کی جان ایک بدروح نے لی ہے اور یہ بد روح میری بھی جان لے گی اور اس بزرگ و برتر شخصیت حسن بن صباح نے مجھے اس روح سے محفوظ کرلیا ہے
کیا اس نے تمہیں اپنے ساتھ رکھ لیا تھا؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
سرائے میں وہ الگ کمرے میں رہتا تھا میمونہ نے جواب دیا میں اس کے ساتھ اس کمرے میں رہنے لگی تھی
میں حیران ہوں کہ تم اس کے چنگل سے نکل کس طرح آئی؟
ابومسلم رازی نے کہا
مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی کی رہنمائی اور مدد سے وہاں سے نکلی ہوں میمونہ نے کہا
میمونہ نے تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی سے اتفاقیہ ملی تھی اور بڑے بھائی نے اسے حسن بن صباح کی اصلیت بتائی تھی
امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا ہم اصفہان کے رہنے والے ہیں تجارت ہمارا پیشہ ہے ہم شہر شہر قصبہ قصبہ جاتے ہیں لوگوں سے ملتے ملاتے ہیں اور ہم اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے والے مسلمان ہیں اس لیے ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہاں غور سے دیکھتے ہیں کہ کہیں اسلام کی روح کو مسخ تو نہیں کیا جا رہا
ان قلعوں کے علاقوں میں تم نے کیا دیکھا ہے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
ان علاقوں میں لوگ حسن بن صباح کو خدا کا ایلچی سمجھتے ہیں مزمل آفندی نے کہا اور ان کا عقیدہ ہے کہ حسن بن صباح آسمان سے زمین پر اترا تھا اور پھر آسمان پر چلا گیا ہے اور ایک بار پھر اس کا ظہور ہوگا
ہمیں معلوم ہوچکا ہے ابو مسلم رازی نے کہا لیکن ہم لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے لوگ تو کھیتی کی مانند ہیں کھیتی ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے حشیش کا پودا بھی کھیتی اگاتی ہے اور حنا بھی کھیتی ہی دیتی ہے ہم اسے پکڑیں گے جو حنا پیدا کرنے والی زمین میں حشیش کا بیج بوتا ہے
مجھے ایک شک ہے امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا ایسے لوگوں کو آپ فوج کہیں یا احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے جانباز پیروکار کہہ لیں انہیں حشیش پلائی جاتی ہے اور نشے کی حالت میں ان کے دماغوں میں وہ لوگ اپنے بے بنیاد عقیدے ڈالتے ہیں دوسرے لوگوں کی تو انہوں نے کایا پلٹ دی ہے محصولات اور مالیہ اس قدر کم کر دیا گیا ہے جو انتہائی غریب کسان نہایت آسانی اور خوشی سے دیتا ہے
وہ محصولات اور مال یہ بالکل معاف کر سکتے ہیں ابومسلم رازی نے کہا قافلے لوٹ لوٹ کر انہوں نے قارون کے خزانے اکٹھے کر لئے ہیں اور ابھی تک ان کی لوٹ مار جاری ہے قتل و غارت گری ان لوگوں کا دستور ہے اس عورت کو دیکھو اس کی اس بیٹی شمونہ کو حسن بن صباح کے ڈاکوؤں نے چھوٹی سی عمر میں اغوا کر لیا تھا ،اس کی ماں کو دیکھو اس کے دو خاوند ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔
امیر محترم! مزمل آفندی نے پوچھا آپ کے سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے کب روانہ ہو رہے ہیں؟
میں ضروری نہیں سمجھتا کہ تمہیں اس سوال کا جواب دو ابومسلم رازی نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بغداد سے اس قافلے نے کب روانہ ہونا تھا ؟
ابھی اس کی روانگی کی کوئی آثار نہیں تھے مزمل آفندی نے جواب دیا اگر روانہ ہو بھی چکا ہو تو ابھی راستے میں ہی ہوگا
تم یقیناً اپنے بھائی کے پاس جانا چاہو گے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
یقیناً! مزمل آفندی نے کہا وہ میرے لئے پریشان بھی ہوں گے، مگر میں ایک خطرہ محسوس کر رہا ہوں میں اس خاتون کو وہاں سے لایا ہوں یہ دراصل حسن بن صباح کے قبضے میں تھی اسے میں اس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لایا ہوں ہوسکتا ہے حسن بن صباح پر یہ راز کھل جائے تو کیا وہ مجھے قتل نہیں کرا دے گا؟
تم اکیلے نہیں جاؤ گے ابومسلم رازی نے کہا میں مرو جا رہا ہوں سلطان سے کہوں گا کہ سالار امیر ارسلان کو فوراً بغداد بھیج دیں اگر قافلہ اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا ہو تو اس کا تعاقب کرے اور حسن بن صباح کو پکڑ کر لے آئے تمہیں اس کے ساتھ جانا پڑے گا میرا خیال ہے امیر ارسلان اس کو نہیں پہچانتا یہ تم اسے بتاؤ گے وہ تمہیں اپنی پناہ میں رکھے گا تمہیں یہاں تین یا چار دن رکنا پڑے گا امیر ارسلان یہاں آ کر روانہ ہوگا

ابومسلم رازی اسی روز مرو کو روانہ ہوگیا اس کے حکم سے مزمل آفندی کی رہائش کا انتظام کردیا گیا تھا شمونہ کو ابومسلم رازی نے اپنے مکان میں ٹھہرایا ہوا تھا میمونہ اس کے ساتھ چلی گئی
مزمل آفندی نے جس وقت شمونہ کو دیکھا تھا اس کی نظریں شمونہ سے ہٹ نہیں رہی تھی شمونہ بہت ہی حسین لڑکی تھی لیکن اس کے چہرے پر ایک تاثر اور بھی تھا مزمل آفندی محسوس کر رہا تھا کہ اس لڑکی کا حسن صرف جسمانی نہیں اس لڑکی میں اسے کوئی اور ہی پَر تو نظر آ رہا تھا
مزمل آفندی اپنے کمرے میں گیا تو وہ اپنے آپ میں ایسی ہلچل محسوس کر رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی وہ بے قرار سا ہوتا گیا اور سوچنے لگا کے کس بہانے وہ ماں بیٹی کے کمرے میں جائے وہ تین چار بار اس توقع پر نکلا شاید ماں یا بیٹی باہر نکلے تو اس کے پاس آ جائے یا اسے بلا لے اس نے میمونہ پر بہت بڑا احسان کیا تھا
شام گہری ہونے کے بعد مزمل آفندی کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آگئی مزمل آفندی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آئی ہے
میں تمہارے چہرے پر حیرت کا تاثر دیکھ رہی ہوں شمونہ نے کہا کیا تمہیں عجیب لگا ہے کہ میں رات کے وقت تمہارے کمرے میں آئی ہوں؟
ہاں شمونہ! مزمل آفندی نے کہا مجھے تمہارا یہاں آنا عجیب لگا تھا لیکن جس بے باکی سے تم نے پوچھا ہے اسے میری حیرت ختم ہوگئی ہے میں تمہیں حرم کی ایک عام سی لڑکی سمجھا جو بچپن میں اغوا ہوکر یہاں تک پہنچی ہے
میں اغوا ہوئی تھی شمونہ نے کہا لیکن میں کسی کے حرم میں قید نہیں ہوئی نہ مجھے جسمانی تفریح کا ذریعہ بنایا گیا تھا بلکہ مجھے ایسی تربیت دی گئی کہ میں پتھر دل آدمی کو موم کی طرح پگھلا کر اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکتی ہوں
تمہیں یہ تربیت کس نے دی تھی؟
مزمل آفندی نے پوچھا
حسن بن صباح کے ٹولے نے شمونہ نے جواب دیا لیکن مزمل میں تمہیں یہ داستان سنانے نہیں آئی کہ میں کیا تھی اور اب کیا ہوں
ساری داستان نہ سہی مزمل آفندی نے کہا میں کچھ نہ کچھ تو ضرور معلوم کرنا چاہوں گا جس طرح تم نے میرے ساتھ بے باکی سے بات کی ہے اسی طرح میں بھی تھوڑی سی بے باکی کا حق رکھتا ہوں اگر تمہیں اچھا نہ لگے تو مجھے روک دینا
آفندی! شمونہ نے کہا مجھے وہ انسان اچھا لگتا ہے جس کی زبان پر وہی ہو جو اس کے دل میں ہے
شمونہ! مزمل آفندی نے کہا میری زبان پر تمہارا نام ہے اور میرے دل میں بھی تم ھی ہو میں نے تمہیں آج ہی دیکھا ہے اور میرے دل نے کہا ہے کہ اس لڑکی کا حسن جسمانی نہیں روحانی ہے اور خدا کی قسم میں نے یقین کی حد تک محسوس کیا کہ میں تمہیں بچپن سے جانتا ہوں اور بچپن سے تم میرے دل میں موجود ہو اگر تمہیں میری نیت پر شک ہو تو یہ سوچ لینا کہ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تمہاری ماں کو یہاں لایا ہوں اور اسے میں اس لیے نہیں لایا کہ تم خوش ہو جاؤ گی تمہیں تو میں جانتا تک نہ تھا میں ایک مظلوم اور فریب خوردہ عورت کو ایک ابلیس کے جال سے نکال کر لایا ہوں یہ کہتی تھی کہ میری بیٹی سلجوقی سلطان یا کسی امیر کے پاس ہے میں اسے محض خواب اور خیال سمجھتا تھا میں تو یہ سوچ کر اسے لے آیا تھا کہ اسے ابومسلم رازی کی پناہ میں چھوڑ کر لوٹ جاؤنگا
میں تمہاری بات سمجھ گئی ہوں آفندی! شمونہ نے کہا مجھے یقین ہے کہ تم میری خاطر نہیں آئے
یہ تو اتفاق ہے مزمل آفندی نے کہا اسے معجزہ کہو تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ تم یہاں مل گئی
یہ اللہ کا انعام ہے شمونہ نے کہا اللہ نے میری توبہ قبول کر لی ہے میرے دماغ میں ابلیسیت ڈالی گئی تھی اور میرے خیالات اور میرے کردار کو ابلیسیت کے سانچے میں ڈھال دیا گیا تھا لیکن ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ میں ہوش میں آ گئی مجھے امید نہیں تھی کہ اپنے آپ کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرکے انسانیت کے دائرے میں داخل ہو سکوں گی لیکن مجھ پر یہ راز کھلا ہے کہ انسان آخر انسان ہے اور وہ اول آخر انسان رہتا ہے کبھی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ انسان ابلیسیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے یا ایسے انسانوں کے نرغے اور اثر میں آجاتا ہے کہ اسے ابلیسیت میں لذت حاصل ہوتی ہے اور وہ ابلیس کا پوجاری بن جاتا ہے لیکن وہ رہتا انسان ہی ہے وہ ابلیس نہیں بن جاتا یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ ارادہ کرلے اور یہ سمجھ لے کے اللہ نے اپنی نگاہ میں انسان کو کتنا اونچا مقام دیا ہے تو وہ ایک جھٹکے سے ابلیس کے چنگل سے نکل کر اللہ کے قریب ہو سکتا ہے یہ میں نے کیا اور اللہ نے یہ انعام دیا کہ مجھے میری بچھڑی ہوئی ماں دے دی
یہ عمر اور یہ حُسن مزمل آفندی نے کہا اور یہ سنجیدگی کیا تمہیں یہ سنجیدگی اچھی نہیں لگی؟
شمونہ نے پوچھا
یہی تو مجھے اچھی لگی ہے مزمل آفندی نے کہا تم چاہتی ہو کہ جو دل میں ہو وہی زبان پر آئے میرے دل کی آواز سن لو شمونہ! میرے دل میں تمہاری وہ محبت پیدا ہو گئی ہے جس کا تعلق روح کے ساتھ ہے اور تم نے ایسی محبت کے قصے سنے ہونگے
شمونہ چونک پڑی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا جیسے وہ خوفزدہ ہوگئی ہو وہ آنکھیں پھاڑے مزمل آفندی کو دیکھنے لگی جیسے اس جواں سال اور خوبرو آدمی نے اسے کہہ دیا ہو کہ میں تمہیں قتل کر دوں گا
کیوں شعمونہ ؟
مزمل آفندی نے کہا کیا میں نے تمہارے دل کو تکلیف پہنچائی ہے
نہیں آفندی! شمونہ نے کہا مجھے شک ہے کہ میری محبت اور موت میں کوئی زیادہ فرق نہیں
مزمل آفندی سراپا سوال بن گیا؟
آج میں کچھ اور کہنے آئی تھی شمونہ نے کہا میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم میری ماں کو لے آئے ہو اور اس سے زیادہ اللہ کی شکر گزار ہوں کہ ماں نے مجھے انسان کے روپ میں دیکھا ہے اس سے پہلے دیکھتی تو کہتی نہیں یہ میری بیٹی نہیں
وہ اٹھ کھڑی ہوئی
تم جا رہی ہوں؟
مزمل آفندی نے کہا میں کیا سمجھوں ناراض ہو کر جا رہی ہو؟
کل آؤنگی آفندی! شمونہ نہ قدر خوشگوار لہجے میں جواب دیا میں ناراض نہیں ہوں تمہاری نیت سمجھ گئی ہوں میں چہرے سے نیت معلوم کر لیا کرتی ہوں میں نے تمہارے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنی ہے
شمونہ چلی گئی
اگلے روز کا سورج طلوع ہوا مزمل آفندی ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا شمونہ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ اس کے کمرے میں آگئی
مزمل! میمونہ نے کہا میری بیٹی نے بتایا ہے کہ تم نے اسے اپنے لیے پسند کیا ہے
نہیں! مزمل نے کہا اپنے لیے پسند کرنے کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے شمونہ بازار کی کوئی چیز نہیں کہ یہ مجھے پسند آگئی ہے اور میں یہ چیز خرید لوں گا صاف بات یہ ہے کہ میں اس کی محبت کا اسیر ہو گیا ہوں اور یہ محبت میری روح میں اتر گئی ہے اگر شمونہ مجھے قبول نہیں کرے گی تو میری روح سے اس کی محبت نکل نہیں سکے گی
تمہیں قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ شمونہ کرے گی میمونہ نے کہا اور پوچھا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہو؟
شادی صرف اس صورت میں کروں گا کہ یہ میری محبت کو قبول کرلے مزمل آفندی نے کہا لیکن قابل احترام خاتون! میں ابھی شادی کی بات ہی نہیں کروں گا پہلے وہ مہم سر کروں گا جس کے لیے میں یہاں روکا ہوں حسن بن صباح کی گرفتاری سلطان نے حکم دیا ہے کہ حسن بن صباح کو زندہ اس کے سامنے لایا جائے لیکن وہ میرے سامنے آگیا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا میری تلوار اس کے خون کی پیاسی ہے
اس لئے کہ اس نے میرے پہلے خاوند کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کروایا تھا ؟
میمونہ نے پوچھا اور اس لیے کہ اس نے میرے دوسرے خاوند کو بھی قتل کروایا ہے کیا تم ہم ماں بیٹی کو خوش کرنا چاہتے ہو؟
نہیں! مزمل آفندی نے جواب دیا میں اللہ کو اور اللہ کے رسولﷺ کو خوش کرنا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے بے شمار عورتوں کو بیوہ اور بے شمار بچوں کو یتیم کیا ہے اور وہ اسلام کی روح کو قتل کر رہا ہے
آفندی! شمونہ بے اختیار بولی اگر تم اس ابلیس کو قتل کر دو تو خدا کی قسم اپنا جسم اور اپنی روح تمہارے قدموں میں ڈال دوں گی
میں نے اسے اپنے دو خاوندوں کے قتل کا انتقام لینا ہے میمونہ نے کہا اور اس نے میری بیٹی کو جو تربیت دی ہے اور اس سے جو قابل نفرت کام کروائے ہیں میں نے اس کا بھی انتقام لینا ہے
لیکن ماں شمونہ نے کہا کیا آپ محسوس نہیں کر رہی ہیں کہ آپ بھی اور آفندی بھی جذباتی باتیں کر رہے ہیں کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنی آسانی سے آپ قتل کے ارادے کی باتیں کر رہی ہیں میں اس کے ساتھ رہی ہوں کوئی شخص اس کے پاس اسے قتل کرنے کے ارادے سے جائے گا تو وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ اس شخص کو قتل کروں یا نہ کروں
میں اس کی یہ طاقت دیکھ چکی ہوں میمونہ نے کہا میں اسے طاقت نہیں جادو کہوں تو غلط نہیں ہوگا
طاقت کہوں یا جادو شمونہ نے کہا اسے جتنا میں جانتی ہوں اتنا آپ دونوں نہیں جانتے میں کہہ رہی ہوں کہ اسے قتل کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچنا پڑے گا اسے پکڑنے کے لیے فوج بھیجی جا رہی ہے میں آپ کو بتاتی ہوں وہ نہیں پکڑا جائے گا اگر پکڑا گیا تو بڑا ہی خوبصورت دھوکہ دے کر نکل جائے گا اسے قتل کرانے کے لیے قرامطیوں کو استعمال کیا جائے تو کامیابی کی امید رکھی جاسکتی ہے
یہ تم کیسے کہہ سکتی ہوں ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
یہ میں اس لیے کہہ سکتی ہوں کہ میں حسن بن صباح کے ساتھ رہی ہوں شمونہ نے جواب دیا اس نے تین چار بار یہ الفاظ کہے تھے کہ صرف قرامطی ہیں جن سے میں خطرہ محسوس کرتا ہوں میں نے اسے وجہ پوچھی تو اس نے کہا تھا کہ قرامطی خونخوار لوگ ہیں اور اس کی تاریخ قتل و غارت گری سے بھری پڑی ہے حسن بن صباح نے مجھے بتایا تھا کہ قرامطیوں نے خانہ کعبہ میں بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا
لیکن اب قرامطیوں میں وہ بات نہیں رہی میمونہ نے کہا
میں حسن بن صباح کی بات کر رہی ہوں شمونہ نے کہا وہ کسی سے نہیں ڈرتا خدا سے بھی نہیں ڈرتا لیکن اس کے دل میں قرامطیوں کا خطرہ موجود رہتا ہے ایک بار اس نے مجھے ایک ماں بیٹے کا قصہ سنایا اور کہا تھا کہ یہ سچا واقعہ ہے اس کا راوی بغداد کا ایک مشہور طبیب ابولحسین ہے جو عرصہ ہوا فوت ہوگیا ہے اس کا سنایا ہوا یہ واقعہ کاتبوں نے تحریر کر لیا تھا
اس طبیب کے پاس ایک عورت گئی اس کے شانے پر تلوار کا گہرہ اور لمبا زخم تھا وہ زخم کی مرہم پٹی کرنے گئی تھی طبیب نے پوچھا کہ یہ زخم کیسے آیا ہے عورت نے زارو قطار روتے ہوئے کہا کہ اس کا ایکلوتا اور نوجوان بیٹا کچھ عرصے سے لاپتہ ہے وہ شہروں اور قصبوں کی خاک چھانتی پھری مگر بیٹے کا کھوج نہ ملا
وہ شہر رَقّہ میں تھی بیٹا وہاں بھی نہیں تھا کسی نے اسے کہا کہ وہ بغداد جائے شاید بیٹا وہاں مل جائے ماں بغداد کو روانہ ہوگئی تھکی ہاری بغداد کے قریب پہنچی تو اسے اپنا بیٹا نظر آیا وہ قرامطیوں کے ایک لشکر کے ساتھ جا رہا تھا اسے دیکھ کر ماں کی تھکان ختم ہوگئی اس نے بیٹے کو پکارا بیٹا اسے دیکھتے ہی لشکر سے نکل آیا ماں نے اسے گلے لگا لیا پھر اس سے خیر خیریت پوچھی اور گلے شکوے کرنے لگی کہ وہ ماں کو بھول گیا ہے
بیٹا بولا فضول باتیں بند کرو ماں! یہ بتاؤ تمہارا دین کیا ہے ؟
ماں نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا کیا باہر گھوم گھوم کر دین سے پردیسی ہو کر تیرا دماغ صحیح نہیں رہا میں اسی دین کو مانتی ہوں جسے پہلے مانتی تھی میرا دین اسلام ہے سب مذہبوں میں سچا مذہب اسلام ہے بیٹا پھٹ کر بولا غلط بات مت کہوں ماں! وہ باطل ہے جس کو ہم سچا دین مانتے رہے ہیں سچا دین یہ ہے جس کا اب میں پجاری ہوں یہ ہے قرامطی دین اگر تم اسلام کو مانتی ہوں تو قرامطی اسلام کو مانو
ماں کے تو جیسے ہوش ہیں اڑ گئے بیٹے نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے خلاف ایک بے ہودہ بات کہہ دی ماں نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کانوں کو ہاتھ لگا توبہ کر اور اللہ سے معافی مانگ بیٹے نے ماں کو غصے سے گھورا اور اپنے لشکر سے جاملا ماں کو جس بیٹے کی جدائی نے پاگل کر رکھا تھا اور جو بستی بستی قریہ قریہ بیٹے کو ڈھونڈتی پھرتی تھی بیٹے کو لشکر کے ساتھ جاتا دیکھتی رہ گئی
شہر بغداد قریب تھا ماں بغداد چلی گئی وہ روتی اور فریاد کرتی تھی اسے اپنے جیسی ایک عورت مل گئی اس نے اس مجبور ماں سے پوچھا کہ وہ کونسا دکھ ہے جو اسے اتنا رولا رہا ہے ماں نے حال دل کہہ سنایا عورت نے اسے بتایا کہ وہ ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور قرامطیوں کی قید میں بھی رہ چکی ہے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ دین اسلام سے منحرف نہیں ہوئی
ہاشمی خاندان کی یہ خاتون اس غمزدہ ماں کو اپنے گھر لے جا رہی تھی کہ قرامطی بیٹا پھر سامنے آگیا اس نے ماں سے پوچھا تو نے دین اسلام کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟
ماں نے کہا میں نے اپنے گمراہ بیٹے کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے بیٹے نے بڑی تیزی سے تلوار نیام سے نکالی اور للکار کر کہا میں اپنی ماں کو قرامطی دین پر قربان کرتا ہوں یہ کہہ کر اس نے ماں پر تلوار کا زوردار وار کیا ماں وار بچا تو گئی لیکن تلوار اس کے شانے پر پڑی اور زخم گہرا آیا کچھ لوگوں نے دوڑ کر بیٹے کو پکڑ لیا ماں قتل ہونے سے بچ گئی اور طبیب ابوالحسین کے یہاں جا پہنچی
یہ واقعہ ابن اثیر نے “تاریخ کامل” کی ساتویں جلد کے صفحہ 173 پر لکھا ہے اس کی تحریر کے مطابق اس واقعے کا اختتام یوں ہوا تھا کہ قرامطی تعداد میں تو بہت زیادہ ہوگئے تھے لیکن بغداد میں ابھی ان کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی اپنی ماں پر قاتلانہ حملہ کرنے والا بیٹا پکڑا گیا ایک روز ماں طبیب سے مرہم پٹی کرا کے آ رہی تھی اس نے قیدیوں کی ایک ٹولی دیکھی ہر قیدی کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں ان میں زخمی ماں کا بیٹا بھی تھا ماں نے بیٹے کو دیکھا اور چلا کر بولی اللہ تجھ سے بھلائی نہ کرے جس نے اپنے سچے دین کو باطل کہا اور رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کی توہین کی اس قید سے تو کبھی آزاد نہ ہو
حسن بن صباح نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا شمونہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا وہ کہتا تھا کہ میں اس قسم کے پیروکار چاہتا ہوں جو اپنے عقیدے پر خواہ یہ عقیدہ باطل ہی ہو اپنی ماں کو اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بھی ذبح کردے
ہم قرامطیوں کو کہاں سے لائیں؟
مزمل آفندی نے کہا
مل جائیں گے شمونہ نے کہا میں امیر شہر سے بات کروں گی لیکن ابھی نہیں ابھی وہ فوج بھیج رہے ہیں خدا کرے وہ پکڑا جائے اگر نہ پکڑا گیا تو میں قرامطیوں کا انتظام کرو گی
شمونہ! مزمل آفندی نے کہا اگر میں وہی کام کر دوں جو تم سمجھتی ہو کہ قرامطیوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا تو
تو جو انعام مانگو گے امیر شہر سے دلواؤنگی شمونہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا
نہیں شمونہ! مزمل آفندی نے جذباتی سے لہجے میں کہا میں نے کسی امیر کسی وزیر اور کسی سلطان سے انعام نہیں لینا
اس نے شمونہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا میمونہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ماں بیٹی کمرے سے نکل گئی
امیر شہر کے محل نما مکان کے عقب میں کچھ دور بڑا ہی خوشنما باغ تھا جس میں شہر کے لوگ داخل نہیں ہو سکتے تھے اس میں گھنے پھول دار پودے تھے گھنی بیلیں اور سارے باغ پر سائے کی ہوئے درخت بھی تھے اور یہ درخت تعداد میں بہت زیادہ تھے بعض بیلیں اس طرح درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں کہ سبزے کے غار سے بنے ہوئے تھے
اسی دن کا پچھلا پہر تھا شمونہ مزمل آفندی کے کمرے میں آئی اور یہ کہہ کر چلی گئی میں باغ میں جا رہی ہوں وہاں آ جاؤ
تھوڑی ہی دیر بعد وہ دونوں باغ کے ایک بہت ہی دل نشین اور ڈھکے چھپے گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے
کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے میری محبت کو قبول کرلیا ہے شمونہ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
میں نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا تو نہیں شمونہ نے کہا لیکن مزمل میں تمہیں خبردار کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ میری محبت تمہیں راس نہیں آئے گی حسن بن صباح کے یہاں مجھے ایک بڑی ہی خوبصورت دھوکہ بنایا گیا تھا اور مجھے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی کو جال میں لینا ہو اس پر نشہ بن کر طاری ہو جاؤ اور اسے ہوش ہی نہ آنے دوں کہ وہ ایک بڑے ہی خطرناک دھوکے میں آ گیا ہے میں نے یہ کمال حاصل کیا اور مرو میں اپنے اس کمال کو آزمایا اور ایک ایسے آدمی کی عقل کو اپنی مٹھی میں لے لیا جو بلا شک و شبہ زاہد پارسا اور دانشمند تھا میرا راز فاش ہونے کی وجہ کچھ اور تھی میں نے حسن بن صباح کا راز بھی فاش کر دیا
یہاں آگئی اور امیر شہر ابومسلم رازی سے پناہ مانگ انہوں نے مجھے پناہ میں لے لیا میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے اندر انسانیت زندہ ہے میں نے اپنی فطرت کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرنے کا عزم کرلیا ابو مسلم نے مجھے ایک ایسے عالم دین کے حوالے کر دیا جو واقعی عالم دین تھا میں نے اسے اپنا پیر و مرشد مان لیا وہ تو تاریک الدنیا تھا میں نے اس کی بہت خدمت کی لیکن ہوا یہ کہ میری روح کی پیاس بجھتی گئی اور میرے پیرومرشد کی روح میں تشنگی پیدا ہوتی گئی شمونہ نے مزمل آفندی کو نوراللہ کا سارا واقعہ سنایا
میں جانتی ہوں اس نے اپنے آپ کو سزائے موت دی تھی شمونہ نے کہا وہ تو مر گیا لیکن میری ذات میں یا میری روح میں عجیب سی بے چینی اور تلخی پیدا ہوگئی مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوگئی میرے دماغ پر یہ خیال غالب آگیا کہ ہر عورت یا ہر خوبصورت عورت کے ساتھ شیطان کا تعلق ضرور ہوتا ہے ابومسلم رازی نے کہا تھا کہ ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کے ایمان کو سلا کر اس میں ابلیسیت کو پیدا کر سکتی ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ان کا ابلیس کچھ نہیں بگاڑ سکتا
تم نے مجھے یہ واقعہ کیوں سنایا ہے ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
اس لئے کہ میرے دل نے تمہاری محبت کو قبول کرلیا ہے شمونہ نے کہا تم عام سے امیر زادے ہوتے تو اور بات تھی لیکن میں تم میں کوئی ایسا جذبہ دیکھ رہی ہوں جو ہر کسی میں نہیں ہوتا میں ڈرتی ہوں کہ تم نے مجھے خوبصورت لڑکی سمجھ کر میری محبت کا نشہ اپنے دل پر طاری کر لیا ہے تو میں اپنے آپ کو اس گناہ کی گنہگار سمجھو گی کبھی تو خدا سے گلہ شکوہ بھی کرتی ہوں کہ مجھے عورت کیوں بنایا تھا؟
اگر میں یہ تفصیل سے سناؤں کہ میں بچپن میں اغوا ہوئی تھی تو اس عمر سے لے کر جوان ہونے تک مجھے کیسی تربیت ملی اور میں نے کیسی زندگی گزاری ہے تو تم آج بھی مجھ پر اعتبار نہ کرو تم آج بھی مجھے ایک دلکش دھوکا کہو گے لیکن میں تمہیں بتاتی ہوں کہ میری ذات میں جو انقلاب آیا ہے اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں یہ ایک معجزہ ہے میں نے یہ راز پا لیا ہے کہ خدا مجھ سے اپنے عظیم اور سچے دین کے لیے کوئی کام کروانا چاہتا ہے
معلوم نہیں تم نے یہ راز بھی پایا ہے یا نہیں؟
مزمل آفندی نے کہا اللہ کی ذات باری نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں اور میں تمہیں یہ بھی بتا دو کہ میری تمہارے ساتھ یہ ملاقات جو غیر متوقع طور پر اور انہونے طریقے سے ہوئی ہے اس کا کوئی خاص مقصد ہے اور یہ مقصد اللہ کی ذات باری نے متعین کیا ہے تم نے ٹھیک کہا ہے کہ میں اپنے دل پر تمہیں صرف خوبصورت لڑکی سمجھ کر محبت کا نشہ طاری نہ کرو نہیں شمونہ! میں ایسا نہیں کروں گا میں نے تمہیں پہلے کہا تھا کہ میں نے تم میں کوئی خاص بات دیکھی ہے
میں تمہیں وہ خاص بات بتا دیتی ہوں شمونہ نے کہا میں حسن بن صباح کو قتل کرنا چاہتی ہوں اس نے میرے دو باپ قتل کروائے ہیں ایک سگا دوسرے سوتیلا اس نے میری ماں کو دوبارہ بیوہ کیا ہے یہ تو میرا ذاتی معاملہ ہے دوسرا معاملہ اسلام کا ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان اور اسلام کا شیدائی ظاہر کر رہا ہے لیکن وہ اسلام کی جڑیں کاٹ رہا ہے ایک بات اور بھی ہے اس نے میرے قتل کا حکم دے رکھا ہے اس نے مجھے ایک شخص کے گھر میں قیدی کی حیثیت سے رکھا تھا اس شخص کی بیوی کو پتہ چل گیا کہ مجھے قتل کیا جائے گا اس نے مجھے رات کو فرار کرا دیا اور میں امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس آ گئی
یہی عزم میرا ہے مزمل آفندی نے کہا یہ کام میں نے کرنا ہے اگر میں اس مہم میں ناکام رہا اور مارا گیا تو یہ کام کرنے کی کوشش کرنا میں اپنی زندگی میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا میں فوج کے ساتھ جا رہا ہوں سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کو سلطان کے حکم کے مطابق زندہ پکڑنے کی کوشش کرے گا اور پکڑ بھی لے گا لیکن میں اسے وہی قتل کر دوں گا
حسن بن صباح کے قتل کی باتیں کرتے ہوئے یہ ایک دوسرے میں گھل مل گئے اور جذباتی باتوں پر آگئے شمونہ جب وہاں سے نکلی تو وہ مزمل آفندی کی محبت سے سرشار تھی
تین چار دنوں بعد ابو مسلم رازی نے مزمل آفندی کو بلایا سالار امیر ارسلان آ گیا تھا
پانچ سو سواروں کا دستہ آگیا ہے ابومسلم رازی نے مزمل آفندی کو بتایا آج ہی جتنی جلدی ہو سکے روانہ ہونا ہے اگر قافلہ بغداد سے نکل گیا ہو تو اس کے تعاقب میں جانا ہے تم حسن بن صباح کو پہچانتے ہو امیر ارسلان نے اسے کبھی نہیں دیکھا تم ہمارے مہمان ہو اور ہمارے لشکری یا ملازم نہیں ہوں اس لئے یہ فرض تم پر عائد نہیں ہوتا کہ وہاں اگر لڑائی ہو جائے تو تم بھی لڑو
کیا آپ کو توقع ہے کہ وہاں لڑائی ہوگئی؟
مزمل آفندی نے پوچھا
ہاں! ابومسلم رازی نے جواب دیا تم شاید نہیں سمجھتے جسے تم قافلہ کہہ رہے ہو اس میں حسن بن صباح کے باقاعدہ لڑنے والے آدمی بھی ہونگے
میں ایک بات کہوں گا امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا اگر بات لڑائی تک آ گئی تو پھر میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ لڑنا میرا فرض ہے یا نہیں مجھے بتایا گیا ہے کہ سلطان معظم نے حسن بن صباح کو زندہ پکڑنے کا حکم دیا ہے لیکن امیر شہر! حسن بن صباح میرے سامنے آگیا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اسے زندہ ہی پکڑوں گا
چاہتا تو میں بھی یہی ہوں ابومسلم رازی نے کہا اس شخص کو میں بھی زندہ نہیں دیکھنا چاہتا بہرحال میری طرف سے تمہارے لیے کوئی حکم اور کوئی پابندی نہیں
دن کا پچھلا پہر تھا جب سالار امیر ارسلان کی قیادت میں پانچ سو سواروں کا دستہ رے سے کوچ کر گیا
انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ حسن بن صباح بغداد سے اس قافلے کو چھوڑ کر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اسی روز اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا تھا جس روز مزمل آفندی میمونہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکلا تھا
یہ بتانا مشکل ہے کہ پانچ سو سواروں کا یہ دستہ کتنے پڑاؤ کر کے اور کتنے دنوں بعد بغداد پہنچا اس دستے کی رفتار بہت ہی تیز تھی دستہ جب بغداد پہنچا تو پتہ چلا کہ قافلے کو یہاں سے روانہ ہوئے تین دن گزر گئے ہیں امیر ارسلان نے دستے کو کچھ دیر آرام دیا اور کچھ کھایا پیا اور وہاں سے قافلے کے تعاقب میں کوچ کر گئے
جو قافلہ تین دن پہلے روانہ ہوا تھا اس تک سوار دستے کو پہنچنے کے لیے کم از کم دو دن تو ضرور ہی لگنے تھے امیر ارسلان نے اپنے دستے کو صرف ایک پڑاؤ کرایا اور بڑی تیز رفتار سے قافلے کے تعاقب میں گیا
اس روز جس روز سواروں کا دستہ قافلے تک پہنچا سورج سر پر آ گیا تھا اور قافلہ ایک ہرے بھرے سرسبز علاقے میں سے گزر رہا تھا دو اونچی پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان کشادہ وادی تھی
امیر ارسلان اور مزمل آفندی دستے کے آگے آگے جا رہے تھے ان کا راستہ ایک پہاڑی کی ڈھلان پر تھا وہ ایک موڑ مڑے تو نیچے انہیں قافلہ جاتا نظر آیا قافلے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ تھے چند ایک گھوڑے اور کچھ اونٹ بھی تھے بعض اونٹوں پر کجاوے تھے ان میں بھی مسافر سوار تھے یہ مسافر یقیناً مالدار خاندانوں کی عورتیں تھیں سالار امیر ارسلان نے اپنے دستے کو روک لیا
تم بھی سوچو آفندی! امیر ارسلان نے مزمل آفندی سے کہا اگر ہم قافلے کے عقب سے گئے تو قافلے والے ہمیں ڈاکو سمجھ کر آگے کو بھاگ اٹھیں گے مجھے بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے ساتھی اتنے ہوشیار اور چالاک ہیں کہ وہ پہاڑیوں میں بکھر کر غائب ہو جائیں گے
یہ تو میں بھی جانتا ہوں مزمل آفندی نے کہا حسن بن صباح لومڑی کی خصلت کا انسان ہے مجھے تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتا ہے
قافلے کو گھیرے میں لیا جائے
سالار امیر ارسلان تجربے کا سالار تھا اس نے اپنے دستے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصے کے کمانڈر کو قافلہ دکھایا اور اسے کہا کہ وہ دور کا چکر کاٹ کر اس وادی کے اگلے حصے میں پہنچے اور قافلے کو اس طرح روک لے کہ کسی کو ادھر ادھر بھاگنے یا چھپنے کا موقع نہ ملے
امیر ارسلان خود دوسرے حصے کے ساتھ رہا اس نے ان سواروں کو اس وقت آگے لے جانا تھا جب دوسرے حصے نے قافلے کا راستہ روک لینا تھا دوسرے حصے کے کمانڈر نے بلندی پر کھڑے ہوکر قافلے کے ارد گرد کے علاقے کو دیکھا وہ اپنے لئے راستہ دیکھ رہا تھا
قافلے کو دیکھنے والے سوار پیچھے مڑے اور جس پہاڑی کی ڈھلانی راستے پر وہ آ رہے تھے اس پہاڑی سے اترے پہاڑیوں کے اندر اندر وہ دور تک چلے گئے امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو اس پہاڑی سے اتارا وہ بلند راستے پر اس خیال سے نہ چلے کہ قافلے میں سے کسی نے گھوم کے دیکھ لیا تو وہ سارے قافلے کو خبردار کر دے گا اور حسن بن صباح کو نکل بھاگنے کا موقع مل جائے گا قافلہ اپنی رفتار سے جا رہا تھا
اس پہاڑی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے قافلے کے چار پانچ آدمیوں نے قافلے کو روک لیا تھا اور کہا تھا کہ اب ہم بڑی خطرناک جگہ پر آگئے ہیں یہاں تین قافلے لُٹ چکے ہیں ڈاکو مال و دولت کے ساتھ جوان عورتوں کو بھی لے گئے تھے
تمام جوان آدمی چوکس ہو جاؤ ایک آدمی نے اعلان کیا جس کے پاس جو بھی ہتھیار ہے وہ ہاتھ میں رکھے اور اگر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا تو لڑنے والے تمام آدمی قافلے کے باہر باہر رہیں اور عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیں اور لوگ انہیں اپنے نرغے میں لے لیں اپنے آپ پر ڈاکوؤں کا خوف طاری نہ کر لینا دیکھا گیا ہے کہ لوگوں پر ڈاکوؤں اور رہزنوں کی دہشت طاری ہوجاتی ہے اور یہ دہشت اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ دہشت زدہ لوگ ڈاکووں کے آگے بھاگ نکلتے ہیں یا ہتھیار ڈال دیتے ہیں
دیکھتے ہی دیکھتے چار سو سے کچھ زیادہ نوجوان جواں سال اور ادھیڑ عمر آدمی قافلے سے الگ ہوگئے یہ سب لڑنے والے تھے اس دور میں لوگ تلواریں اس طرح اپنے ساتھ رکھتے تھے جیسے عورتیں زیور پہنتی ہیں ان میں زیادہ آدمیوں کے پاس تلواریں تھیں اور باقی جو تھے ان میں سے کچھ برچھیوں سے مسلح تھے اور بعض کے پاس خنجر تھے یہ سب آدمی قافلے کے پہلوؤں کے ساتھ کچھ قافلے کے آگے اور باقی قافلے کے پیچھے ہو گئے اس طرح قافلے کو اپنے حفاظتی حصار میں لے کر انہوں نے کہا کہ اب چلو
دو پہاڑیوں کے درمیان کشادہ وادی سے گزرتے قافلے کی تربیت یہی تھی قافلہ لڑنے والوں کے حصار میں تھا
عصر کا وقت تھا جب اچانک قافلے کے سامنے سے چند ایک سوار نمودار ہوئے قافلہ بہت ہی لمبا تھا
ھوشیار ہوجاؤ یہ بڑا ہی بلند اعلان تھا جو قافلے میں سے ایک آدمی نے کیا ڈاکو آگئے ہیں ڈرنا نہیں ہم لڑیں گے
ہم ڈاکو نہیں! سواروں کے کمانڈر نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا بےخوف ہو کر رک جاؤ
بزدلو ڈاکوؤ! قافلے میں سے للکار سنائی دی آگے بڑھو ہم تیار ہیں
سواروں کے کمانڈر نے تمام سواروں کو سامنے لانے کی بجائے یہ عقلمندی کی کہ سواروں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں پہاڑوں کی ڈھلانوں پر چڑھا دیا اور ساتھ ساتھ اعلان کیا کہ کوئی لڑنے کی حماقت نہ کرے ہم سلطان کی فوج کے سپاہی ہیں تمہیں حفاظت میں رکھنا ہماری ذمہ داری ہے
اتنے میں امیر ارسلان اپنے سواروں کو لے کر قافلے کے عقب میں پہنچ گیا اس نے جب اپنے دوسرے کمانڈر کی یہ عقلمندی دیکھی کہ اس نے گھوڑے ڈھلانوں پر چڑھا دیے تھے تو امیر ارسلان نے بھی اپنے سواروں کو قافلے کے پہلوؤں پر لے جانے کی بجائے ڈھلانوں کی بلندی پر رکھا قافلے میں قیامت برپا ہوگی عورتوں اور بچوں کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلانے لگی سواروں کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ وہ ڈاکو نہیں لیکن قافلے میں جو لڑنے والے جوان تھے وہ سواروں کو للکار رہے تھے سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی بلندی پر چلے گئے
میں سالار امیر ارسلان ہوں! اس نے اعلان کیا حسن بن صباح اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ میرے سامنے آجائے حسن بن صباح تم خود میرے سامنے آ جاؤ گے تو زندہ رہو گے اور اگر ہم نے تمہیں خود ڈھونڈ کر پکڑا تو پھر میں تمہیں زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا
اس اعلان کے جواب میں بھی دو تین جوشیلے جوانوں نے للکار کر کہا کہ وہ دھوکے میں نہیں آئیں گے اور پورا مقابلہ کریں گے
قافلے والوں! مزمل آفندی نے بلندی سے اعلان کیا مجھے دیکھو اور پہچانو میں نے تمہارے ساتھ بغداد تک سفر کیا ہے میرا بڑا بھائی اس کی بیوی اور بچے اس قافلے میں شامل ہیں کیا تم مجھے بھی ڈاکو سمجھتے ہو؟
مزمل آفندی کا بڑا بھائی ان میں سے نکلا اور دوڑتا ہوا ڈھلان پر چڑھ گیا مزمل آفندی گھوڑے سے کود کر اترا اور اپنے بڑے بھائی سے بغلگیر ہو کر ملا اس نے بھائی کو بتایا کہ یہ سلطان ملک شاہ کے فوجی ہیں اور حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے آئے ہیں
وہ اس قافلے میں نہیں ہے مزمل کے بڑے بھائی نے کہا سالار محترم! میرا یہ بھائی ایک خاتون کو حسن بن صباح کے جال سے نکال کر بغداد سے نکلا تھا تو اس کے فوراً بعد حسن بن صباح بغداد سے نکل گیا تھا
کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرف گیا تھا ؟
امیر ارسلان نے پوچھا
اس قافلے کے بہت سے لوگ اس کے معتقد اور مرید ہو گئے تھے مزمل کے بھائی نے جواب دیا یہ مشہور ہو گیا تھا کہ وہ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہے اور غیب کی خبریں دینے کی طاقت رکھتا ہے اس نے جہاز کو بڑے ہی تیز و تند سمندری طوفان سے نکال لیا تھا وہ جب بغداد سے روانہ ہونے لگا تو اس کے مریدوں نے اسے گھیر لیا اور پوچھا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے کچھ لوگ تو اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئے تھے لیکن اس نے سب کو روک دیا اور کہا تھا کہ اسے آسمان سے اشارہ ملا ہے کہ وہ فوراً اصفہان پہنچے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اصفہان جا کر اسے اللہ کی طرف سے ایک اور اشارہ ملے گا پھر وہ چلا گیا تھا
سالار امیر ارسلان نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اور نیچے اتر آیا وہ قافلے کے سامنے گیا مزمل آفندی اور اس کا بڑا بھائی اس کے ساتھ تھے اس نے قافلے کے ہر ایک آدمی کو دیکھا اور قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا گیا قافلہ تقریباً ایک میل لمبا تھا
حسن بن صباح کو پہچاننے کے لئے مزمل اور اس کا بھائی ساتھ تھے امیر ارسلان نے اونٹوں کے کجاوؤں اور پالکیوں کے پردے ہٹا کر دیکھا اور اس طرح دیکھتے دیکھتے قافلے کے دوسرے سرے تک چلا گیا چند اور آدمیوں سے حسن بن صباح کے متعلق پوچھا ان سب نے بتایا کہ حسن بن صباح اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کیرائے کے گھوڑوں اور ایک اونٹ کے ساتھ ان جانوروں کے مالکوں سمیت بغداد سے چلا گیا تھا اور اس کی منزل اصفہان تھی
سواروں نے قافلے کو ایسے گھیرے میں لے لیا تھا کہ کسی کو نکل بھاگنے کا موقع مل ہی نہیں سکتا تھا
سالار امیر ارسلان نے اعلان کروایا کہ قافلہ جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کروایا کہ قافلے پر ڈاکوؤں کا کوئی گروہ حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ یہ پانچ سو سوار اسی علاقے میں اصفہان تک موجود رہیں گے
امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو بلا کر کوچ کی ترتیب میں کرلیا اور اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا ان کے پیچھے پیچھے قافلہ بھی چل پڑا
سواروں کو اصفہان جلدی پہنچنا تھا اس لیے وہ قافلے سے دور آگے نکل گئے اور کچھ دیر بعد بڑی پہاڑیوں کے درمیان سے بھی نکل گئے علاقہ تو آگے بھی پہاڑی ہی تھا لیکن پہاڑیاں زیادہ اونچی نہیں تھیں بعض تو ٹیکریوں جیسی تھیں اور بکھری ہوئی تھیں
ان ٹیکریوں میں سے ایک گھوڑے کے سر پر دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں جو گھوڑے کی رفتار سے دور ہٹتی جا رہی تھیں اس کے ساتھ ہی ایک گھوڑا قافلے کے طرف سے سوار دستے کی طرف دوڑتا آیا اور سالار امیر ارسلان کے پہلو میں جا رکا
محترم سالار! سوار نے کہا قافلے میں سے ایک سوار نکلا اور اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی مجھے شک ہے کہ وہ حسن بن صباح کے آدمیوں میں سے تھا اور وہ اصفہان جا کر یا جہاں کہیں بھی وہ ہے اطلاع دینے گیا ہے کہ اس کی گرفتاری کے لیے ایک سالار آ رہا ہے
اس سوار کو پکڑنا ممکن نہیں تھا اس کے گھوڑے کے ٹاپ بھی اب سنائی نہیں دیتے تھے امیر ارسلان اپنے سوار دستے کو سرپٹ تو نہیں دوڑا سکتا تھا کہ وہ اس سوار کے ساتھ ساتھ اصفہان پہنچ جاتا اس نے سوار دستے کو ذرا تیز چلنے کا حکم دیا
اصفہان میں ایک بہت بڑا مکان تھا جس کی شکل و صورت ایک قلعے جیسی تھی حسن بن صباح کچھ دن پہلے وہاں پہنچا تھا اور اس نے احمد بن عطاش کو اپنی آمد کی اطلاع دی تھی احمد بن عطاش خلجان میں تھا اطلاع ملتے ہی وہ بڑی لمبی مسافت تھوڑے سے وقت میں طے کرکے اصفہان پہنچ گیا حسن بن صباح نے اسے سنایا کہ مصر میں اس کے ساتھ کیا بیتی تھی اور اسے قید میں ڈال دیا گیا تھا اور کس طرح وہ قید سے رہا ہوا اور جس طرح وہ مصر سے حلب پہنچا تھا وہ ساری روداد سنائی پھر پوچھا کہ اب وہ خلجان آئے یا نہیں؟
تمہیں آخر آنا ہی ہے حسن! احمد بن عطاش نے کہا لیکن ہمارے جاسوسوں نے جو اطلاع دی ہیں وہ یہ ہیں کہ سلطان ملک شاہ تمہیں گرفتار کرنے کی کوشش میں ہے تم ابھی یہیں رہو
میرے پیر استاد! حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ بتائیں کہ لوگ مجھے بھول تو نہیں گئے کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی اور کام کیا ہے؟
تم بھول جانے کی بات کرتے ہو حسن! احمد بن عطاش نے کہا لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں میں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ تم وہاں آکر دیکھو گے ہم لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ خدا کا ایلچی اب پہلے کی طرح اسی علاقے میں کہیں آسمان سے اترے گا اور جو بھی اس کا پیروکار بنے گا اسے اس دنیا میں جنت مل جائے گی لوگ تمہارے نام پر جانیں دینے کے لیے تیار رہتے ہیں میں نے جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو ایک اشارے کا منتظر رہتا ہے ہم بہت جلدی سلجوقیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے اس علاقے کی تقریباً تمام مسجدوں میں جو امام یا خطیب ہیں وہ سب ہمارے آدمی ہیں وہ لوگوں کو قرآن اور احادیث کی جو تفسیر سنا رہے ہیں ان میں ہمارے عقیدے اور خدا کے ایلچی کے نزول کی پیشن گوئیاں ہوتی ہیں لوگ اسی کو صحیح اسلام سمجھ رہے ہیں
لڑکیوں کا گروہ تیار ہوا ہے یا نہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا اور کیا جانبازوں کو حشیش دی جا رہی ہے یا نہیں
حشیش نے ہی تو ہمارا کام آسان کیا ہے احمد بن عطاش نے کہا لوگوں کو خصوصاً لڑنے والے لشکریوں کو معلوم ہی نہیں کہ ہم انہیں کھانے پینے کی اشیاء میں حشیش دے رہے ہیں ہمارے لڑکیوں نے جو کام کیے ہیں وہ تم وہاں آکر دیکھو گے بعض قبیلوں کے سردار جو ہماری باتوں کا اثر قبول نہیں کر رہے تھے بلکہ ہمارے خلاف ہو گئے تھے انہیں ہماری لڑکیوں نے رام کیا ہے کہ اب وہی سردار ہماری طاقت بن گئے ہیں
تمام مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ ان لوگوں نے انسانی فطرت کی کمزوریوں اور فطری مطالبات کے عین مطابق لوگوں کے ذہنوں میں اپنا باطل عقیدہ ڈالا تھا داستان گو پہلے بیان کرچکا ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے آگ میں ایسی جڑی بوٹی ڈال دی جاتی تھی جس کا دھواں اور جس کی بو انسانی ذہن پر نشہ طاری کردیتی تھی لیکن لوگ محسوس نہیں کرتے تھے کہ ان کے دماغوں پر کس طرح قبضہ کیا جا رہا ہے وہ بظاہر ذہنی طور پر نارمل رہتے تھے لیکن ان جڑی بوٹیوں کی وجہ سے حسن بن صباح کے ٹولے کے قبضے میں چلے جاتے تھے پھر اس ٹولے کے بڑے لوگ جب باطل کی بھی کوئی بات کرتے تھے تو ان کے دماغ باطل کو بھی قبول کر لیتے تھے
دراصل وہ پسماندگی کا دور تھا لوگ جو مسلمان تھے وہ اس لئے مسلمان تھے کہ دین اسلام ان کے ورثے میں چلا آ رہا تھا جو اگر کسی باتوں میں نہیں آتے تھے تو وہ عیسائی یا یہودی تھے اسلام کے دائرے میں رہ کر مسلمانوں کو کوئی نئی چیز بتائیں جاتی تو وہ غور سے سنتے اور اسے اسلامی سمجھ کر قبول کرلیتے تھے اگر آج کی زبان میں بات کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی خاص جڑی بوٹی کے دوائی اور قرآن کی نئی تفسیروں کے ذریعے سیدھے سادے لوگوں کو ہپنا ٹائز کر لیا گیا تھا لوگوں کو کچھ شعبدے بھی دکھائے گئے تھے لوگ نہ سمجھ سکے کہ ان کے ذہنوں میں شیطانی نظریات ٹھونسے جا رہے ہیں لوگوں کو انہیں بتائے بغیر جس جڑی بوٹی کا دھواں دیا جاتا تھا وہ مورخوں کے کہنے کے مطابق حشیش کا پودا تھا سیکڑوں جانبازوں کا جو گروہ تیار کیا گیا اسے انہیں بتائے بغیر حشیش پلائی جاتی تھی
احمد بن عطاش ابھی وہی تھا کہ اطلاع دی گئی ایک سوار آیا ہے جس کی حالت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی اسے فوراً اندر بلا لیا گیا اس کی حالت بہت ہی بری تھی اصفہان تک جلدی پہنچنے کے ارادے سے اس نے اتنے لمبے سفر میں پڑاؤ کیا ہی نہیں تھا گھوڑے کو چند جگہوں پر روک کر پانی پلایا اور سفر جاری رکھا اس سے بولا بھی نہیں جاتا تھا
سلطان کے پانچ چھ سو سوار آرہے ہیں اس نے بڑی مشکل سے کہا آپ کو گرفتار کریں گے اچھا ہوا آپ پہلے نکل آئے تھے کسی نے بتا دیا ہے کہ آپ اصفہان چلے گئے ہیں وہ ادھر آ رہے ہیں اور وہ بے ہوش ہو گیا
مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے حسن بن صباح نے کہا لیکن جاؤں کہاں؟
خلجان شاہ در
نہیں! احمد بن عطاش نے کہا کسی بھی بڑے شہر میں جانا خطرناک ہو گا قلعہ تبریز گمنام سا قلعہ ہے دور بھی نہیں وہاں اپنے آدمی ہیں سب قابل اعتماد ہیں اور ضرورت پڑی تو جانیں قربان کر دیں گے
تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کو رات کے سیاہ پردے میں قلعہ تبریز پہنچا دیا گیا
صرف ایک دن اور گزرا تو سالار امیر ارسلان پانچ سو سواروں کے ساتھ پہنچ گیا یہ دستہ طوفان کی طرح اصفہان کی گلیوں میں بکھر گیا سوار اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ حسن بن صباح باہر آ جائے ہم ہر گھر کی تلاشی لیں گے جس گھر سے حسن بن صباح برآمد ہوگا اس گھر کے ہر مرد اور عورت کو ساری عمر کے لئے قید میں ڈال دیا جائے گا
اس وقت اصفہان سلجوقیوں کے زیر نگیں تھا کوئی خاندان کسی مشکوک آدمی کو پناہ نہیں دے سکتا تھا اس قلعہ نما مکان پر کوئی شک نہیں کر سکتا تھا جہاں حسن بن صباح ٹہرا اور احمد بن عطاش اسے آ کر ملا تھا اس مکان میں مذہب پرست لوگ رہتے تھے اور وہ تجارت پیشہ تھے وہ مسلمان تھے احمد بن عطاش اب بھی وہاں موجود تھا لیکن اس نے اپنا حلیہ بدل لیا تھا وہ اس مکان کے اصطبل کا سائس بن گیا تھا سر اور داڑھی کے بال بکھیر لیے تھے کپڑے بوسیدہ سے پہن لئے اور ان پر گھوڑوں کی لید کے داغ دھبے لگا لیے تھے وہ ذرا کبڑا بن گیا تھا
بہت دیر بعد جب کسی نے بھی نہ کہا کہ حسن بن صباح اُس کے گھر میں ہے ایک ضعیف بڑھیا امیر ارسلان کے پاس آئی
میں گزشتہ رات قلعہ تبریز سے آئی ہوں بڑھیا نے کہا میرا ایک نوجوان پوتا وہاں رہتا ہے اس سے مجھے بہت پیار ہے کبھی کبھی اپنی گھوڑی پر اسے دیکھنے جاتی ہوں وہاں وہ کوئی کام نہیں کرتا لیکن رہتا بڑی شان سے ہے میں اسے ملنے گئی تھی رات سے پہلے واپسی کے سفر کو روانہ ہوئی دروازہ کھلا ہوا تھا میں دروازے سے نکلنے لگی تو چھ گھوڑسوار دروازے میں داخل ہوئے انہوں نے مجھے روک لیا اور پوچھا کون ہو؟
میں نے کہا خود ہی دیکھ لو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہوں پوتے سے ملنے آئی تھی واپس اصفہان جا رہی ہوں ان میں سے ایک نے کہا جانے دو اسے اسے تو اپنی ہوش نہیں اندر سے سات آٹھ آدمی دوڑے آئے میں دروازے سے باہر آ گئی ان میں سے ایک آدمی نے کہا خوش آمدید حسن بن صباح آج ہماری قسمت جاگ اٹھی ہے ایک اور آدمی کی آواز سنائی دی نام مت لو احمق تمہاری آواز اصفہان تک پہنچ سکتی ہے معلوم نہیں یہ وہی حسن بن صباح ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو یا یہ کوئی اور ہے امیر ارسلان نے اس بڑھیا کے بیٹوں کو بلایا اور پوچھا کہ ان میں سے کس کا بیٹا قلعہ تبریز میں ہے
وہ میرا بیٹا ہے ایک آدمی نے کہا
وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟
گمراہ ہوگیا ہے اس نے جواب دیا باطنیوں کے جال میں آ گیا ہے اور خدا کے ایلچی کا جاں باز بن گیا ہے ہم صحیح العقیدہ مسلمان ہیں معلوم نہیں ہمارے بیٹے کو کیا سبز باغ دکھائے گئے ہیں کہ وہ حسن بن صباح کے نام کا ہی ورد کرتا رہتا ہے
اس طرح کڑی سے کڑی ملاتے یہ یقین ہو گیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں ہے سالار امیر ارسلان نے اسی وقت کوچ اور قلعہ تبریز کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا
یہاں ایک دو وضاحت ضروری ہے یہ قلعہ تبریز ایران کا آج والا شہر تبریز نہیں یہ ایک گمنام سی بستی تھی جس کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے
دوسری وضاحت یہ کہ بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح قلعہ المُوت میں جا چکا تھا اور امیر ارسلان نے وہاں حملہ کیا تھا یہ صحیح نہیں اس وقت حسن بن صباح کے فرقے نے قلعہ المُوت پر قبضہ ہی نہیں کیا تھا قلعہ الموت پر اس فرقے کا قبضہ سال دو سال بعد ہوا تھا اور وہاں خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے حملہ کیا تھا
بعد کے اکثر تاریخ نویسوں نے قلعوں کے نام لکھنے میں غلطیاں کی ہیں وہاں بہت سے چھوٹے بڑے قلعے تھے ان میں سے بیشتر پر حسن بن صباح کے فرقے کا قبضہ ہوگیا تھا
تو یہ تھا قلعہ تبریز جیسے سالار امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں نے محاصرے میں لے لیا انہوں نے دیواروں پر کمند پھینکنے کے لئے رسّے اور دیوار توڑنے کے لئے سامان کمانیں اور تیروں کا ذخیرہ اصفہان سے لے لیا تھا
“ائمہ تلبیس” کے مطابق حسن بن صباح کے پاس لڑنے والے صرف ستر آدمی تھے اور یہ سب جانباز تھے چھوٹے سے اس قلعے کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے جو اس وقت بند ہونے لگے جب امیر ارسلان کا سوار دستہ بالکل قریب پہنچ گیا تھا چند ایک سواروں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی کہ وہ دونوں دروازوں سے اندر چلے جائیں
دروازے بند ہو رہے تھے اندر کے جانبازوں نے ایسی بے خوفی اور بے جگری سے مقابلہ کیا کہ سوار دروازوں میں داخل نہ ہوسکے اور دروازے بند ہوگئے یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے دروازے لوہے اور شاہ بلوط کی لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے اور ٹوٹ ہی نہ سکتے عام سی لکڑی کے دروازے تھے سواروں نے گھوڑوں سے اتر کر دروازے توڑنے شروع کر دیے
ادھر سواروں نے دیوار پر کمندیں پھینکیں کوئی کمند دیوار سے اٹک جاتی تو حسن بن صباح کے جاں باز رسّہ کاٹ دیتے اور اوپر سے تیر بھی برساتے تھے تیروں کے جواب میں سواروں نے بھی تیر اندازی شروع کر دی تیروں کے سائے میں چند ایک سپاہی اوپر چلے گئے دیوار اتنی چوڑی نہیں تھی کہ اس پر لڑا جا سکتا وہ اندر کود گئے جانبازوں نے انہیں نرغے میں لے لیا لیکن ایک آواز نے ان کا نرغہ توڑ دیا
دروازے ٹوٹ گئے ہیں دونوں دروازے سے للکار اٹھ رہی تھی دروازوں پر آجاؤ دشمن اندر نہ آ جائے
حسن بن صباح کے جاں باز دروازوں کی طرف اٹھ دوڑے امیر ارسلان کے آدمیوں نے جو اب سوار نہیں پیادے بن گئے تھے ان جانبازوں پر تابڑ توڑ حملے کیے حالانکہ وہ قلعے کے اندر تھے اور ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی
باطنی جانبازوں نے باہر کے سواروں کو اندر تو نہ آنے دیا انہوں نے جانوں کی بازی لگادی تھی لیکن یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ وہ زیادہ دیر اسی طرح جم کر نہیں لڑ سکیں گے مورخ لکھتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی لڑائی تھی جو چھوٹی سی ایک بستی میں لڑی گئی تھی لیکن اس کی اہمیت اس وجہ سے ایک بڑی لڑائی جتنی تاریخی ہے کہ یہ حسن بن صباح کے باطنی فرقے اور سلجوقی مسلمانوں کا پہلا مسلح تصادم تھا اور اسی تصادم میں اندازہ ہو گیا تھا کہ حسن بن صباح کے پاس کتنی طاقت ہے اور یہ طاقت کس قسم کی ہے
حسن بن صباح دیکھ رہا تھا کہ اس کے ستر جاں باز اتنے بڑے سوار دستے کو روک نہیں سکیں گے ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی حسن بن صباح ایک بلند چبوترے پر چڑھ گیا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بلند آواز سے کہہ رہا تھا تیرا ایلچی مشکل میں آگیا ہے اللہ فرشتوں کو بھیج اللہ اپنے نام پر جانیں قربان کرنے والوں کو اتنے سخت امتحان میں نہ ڈال اللہ فرشتے اتار اللہ کفار کے طوفان سے بچا اللہ
وہ چپ ہو گیا اور آسمان کی طرف دیکھتا رہا اس کے بہت سے جانبازوں نے اسے دیکھا
یاحسن! اس کے ایک آدمی نے قریب آکر گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اپنے فدائین دل چھوڑ بیٹھے ہیں وہ باہر کو بھاگنے کا راستہ دیکھ رہے ہیں حسن بن صباح نے اس شخص کو دیکھا اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے حسن بن صباح نے آنکھیں بند کرکے آسمان کی طرف دیکھا
وحی نازل ہو گئی ہے اس نے بلند آواز سے کہا اللہ کا حکم آیا ہے کوئی شخص باہر نہ نکلے جو نکلے گا وہ دنیا میں جلے گا اور جو ہمارے ساتھ رہے گا وہ دنیا میں فردوس بریں دیکھے گا حوریں اتر رہی ہیں فرشتے اتر رہے ہیں ہمارا ساتھ چھوڑنے والوں کے لئے آگ اتر رہی ہے مدد آ رہی ہے
یہ “وحی” تمام جانبازوں تک پہنچا دی گئی وہ فوراً ثابت قدم ہوگئے اور جم کر لڑنے لگے
ہم حسن بن صباح کے ساتھ رہیں گے باطنیوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے
لڑائی میں نیا ہی جوش اور قہر پیدا ہوگیا امیر ارسلان کے جو آدمی کمندوں کے ذریعے اندر گئے تھے انہیں باطنیوں نے کاٹ ڈالا
اور آسمان سے فرشتے بھی اتر آئے
یہ تین سو سوار اچانک کہیں سے نکلے ان کے سرپٹ ٹاپوں کی آوازیں دور سے سنائی دی تھیں امیر ارسلان کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ یہ ان کے دشمن سوار ہیں اسے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ اس کے لیے کہیں سے کمک آئے گی اسے کمک کی ضرورت بھی نہیں تھی پھر یہ بھی تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ امیر ارسلان کہاں ہے؟
بہرحال اس کے ذہن میں یہ خدشہ آیا ہی نہیں کہ یہ سوار جو چلے آرہے ہیں یہ اس کے لئے ایسی مصیبت چلی آرہی ہے جس کا وہ سامنا نہیں کر سکے گا ان تین سو سواروں کی رفتار اتنی تیز تھی کہ امیر ارسلان کو کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا گھنے جنگل کی ہری بھری جھاڑیوں درختوں اور اونچی گھاس سے یہ سوار بے ترتیب سے گروہوں کی صورت میں سیلاب کی طرح چلے آرہے تھے وہ جوں جوں قریب آتے گئے پھیلتے گئے بعض کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں اور باقیوں کے پاس تلواریں تھیں انہوں نے یہ ہتھیار آگے کو کر رکھے تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حملہ کرنے آرہے ہیں
اس وقت بھی امیر ارسلان نے کوئی دفاعی اقدام نہ کیا حتیٰ کہ وہ سوار ان کے سر پر آگئے اور انہوں نے نعرہ لگایا حسن بن صباح زندہ باد اس وقت امیر ارسلان اور اس کے سواروں کے ہوش آئی لیکن سمجھنے اور سنبھل کر مقابلے میں آنے کا وقت گزر چکا تھا ان سواروں نے امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں کو بے بس کردیا سلجوقیوں نے مقابلے میں جمنے کی بہت کوشش کی لیکن حملہ آوروں کے انداز میں اتنا قہر اور غضب تھا کہ انہوں نے سلجوقی سواروں کو بالکل ہی بے بس کر کے کاٹ ڈالا انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کا سالار امیر ارسلان مارا جا چکا ہے امیر ارسلان کے سواروں میں سے چند ایک سوار نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے یہ سب زخمی حالت میں تھے ان میں مزمل آفندی بھی تھا وہ بھی زخمی تھا باقی زخمی تو ادھر ادھر چھپ گئے ان میں بھاگنے کی بھی ہمت نہیں تھی لیکن مزمل آفندی نے گھوڑے کا رخ مرو کی طرف کر دیا اور ایڑ لگا دی
ذہن میں قدرتی طور پر سوال اٹھتا ہے کیا یہ تین سو سوار واقعی فرشتے تھے جو اللہ نے حسن بن صباح کی مدد کے لیے بھیجے تھے؟
اور کیا واقعی اس پر وحی نازل ہوئی تھی؟
نہیں یہ پہلے سے کیا ہوا ایک انتظام تھا اور یہ انتظام احمد بن عطاش نے کیا تھا داستان گو سارا قصہ سنا چکا ہے قافلے سے نکلے ہوئے ایک سوار نے اصفہان پہنچ کر حسن بن صباح کو خبردار کر دیا تھا کہ سلجوقی سلطان نے اس کی گرفتاری کے لیے پانچ چھے سو گھوڑ سواروں کا دستہ بھیجا ہے اور یہ دستہ اصفہان کی طرف آ رہا ہے
احمد بن عطاش بھی حسن بن صباح کے ساتھ تھا انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا جائے وہ چلا گیا ان لوگوں کو خداوند تعالی نے بڑے ہی تیز اور بہت دور تک سوچنے والے دماغ اور بہت دور تک دیکھنے والی نگاہیں دی تھیں انہوں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ آگے کیا ہوگا خطرہ یہی تھا کہ امیر ارسلان اصفہان میں آکر حسن بن صباح کو ڈھونڈے گا اور کسی نہ کسی طرح اسے پتہ چل جائے گا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا گیا ہے
یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے اسی مکان میں جہاں وہ اور حسن بن صباح ٹھہرے تھے سائس کا بہروپ دھار لیا تھا یہ ایک قبیلے کے سردار کا مکان تھا اور یہ سردار حسن بن صباح کا پیروکار باطنی تھا
احمد بن عطاش نے اس سردار سے کہا تھا کہ حسن بن صباح کو بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ایسے سواروں کی ضرورت ہے جو شہسوار ہوں تیغ زن اور برچھی بازی کی مہارت رکھتے ہوں اور لڑائی میں جان کی بازی لگا دینے والے ہوں
یہ سردار اسی وقت ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس کے پیچھے ایک اور گھوڑا تھا جس کی باگ سائس کے ہاتھ میں تھی اور سائس پیدل چل رھا تھا لوگ جو راستے میں آتے تھے اس سردار کو جھک کر سلام کرتے تھے اور وہ سائنس کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے کیونکہ وہ اس سردار کا سائیس تھا کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ یہ سائیس ابلیس کا چیلا نہیں بلکہ سر تاپا اور اندر سے بھی وہی ابلیس ہے جسے خداوند تعالیٰ نے آدم کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا اور اس پر لعنت بھیجی تھی اب وہ ابلیس آدم کی اولاد کے لیے بڑا ہی دلکش اور اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک دھوکہ بنا ہوا تھا اور اولاد آدم اس کی تخلیق کیے ہوئے ابلیس حسن بن صباح کی ایسی مرید اور معتقد بنتی جا رہی تھی کہ اس پر جان قربان کر رہی تھی
شہر سے کچھ دور جا کر یہ سائیس جو دراصل احمد بن عطاش تھا گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور پھر سردار نے اور احمد بن عطاش نے گھوڑے دوڑا دیے اصفہان سے تھوڑی ہی دور قزوین نام ایک قصبہ تھا آج کے نقشوں میں اس نام کا کوئی مقام نہیں ملتا اس لیے یہ بتانا ناممکن ہے کہ یہ اصفہان سے کتنی دور تھا تاریخ میں اس کا نام موجود ہے یہ مقام ان دونوں کی منزل تھی
قزوین کا رئیس شہر ابوعلی تھا جس کا اس سارے علاقے میں اثر اور رسوخ تھا کچھ عرصہ پہلے اس شخص نے حسن بن صباح کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی یہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ ایک لڑکی کا اور حشیش کا کارنامہ تھا جو یہ لڑکی اسے دھوکے میں پلاتی رہی تھی احمد بن عطاش اور اس کا ساتھی سردار ابو علی کے گھر گئے اور اسے اس صورت حال سے آگاہ کیا کہ سلجوقی سلطان حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے سیکڑوں سواروں کا ایک دستہ بھیجا ہے اسے بتایا کہ صورتحال کیا بن سکتی ہے اور اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے
ان تینوں نے فوراً فیصلہ لیا ابو علی نے کہا کہ وہ جس قدر سوار مل سکے تیار کرلے گا
تاریخ میں نام ابو علی کا ہی آیا ہے کہ اس نے بہت ہی تھوڑے سے وقت میں تین سو سوار تیار کرلیے اور پھر کمال یہ کیا کہ انہیں ایسی جگہ اکٹھا کر لیا جو قلعہ تبریز سے کچھ دور تھی ان سواروں کو بتایا گیا کہ وہ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہیں اور اشارہ ملنے پر قلعہ تبریز پہنچ جائیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ باطنیوں کی جڑیں کتنی مضبوط ہو کر کتنی دور تک پہنچ گئی تھیں
ان کا جاسوسی کا نظام بھی بڑا تیز اور قابل اعتماد تھا سالار امیر ارسلان کا دستہ اصفہان سے قلعہ تبریز پہنچا تو کسانوں اور تھکے ماندے مسافروں کے بہروپ میں باطنی جاسوس اسے دور دور سے دیکھ رہے تھے انہوں نے لڑائی بھی دیکھی تھی انہیں میں سے کسی نے دیکھا کہ سلجوقی سوار قلعے میں داخل ہو جائیں گے اور اندر تمام باطنی مارے جائیں گے اور حسن بن صباح گرفتار ہو جائے گا اس جاسوس نے ابو علی کو جا اطلاع دی تین سو سوار تیار تھے انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے ان کے دلوں میں سلجوقیوں کی اتنی نفرت پیدا کی گئی تھی کہ وہ اس انتظار میں تھے کہ سلجوقی سامنے آئے تو ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیں
اب انہیں موقع مل گیا اشارہ ملتے ہی وہ قلعہ تبریز پہنچے اور سلجوقیوں کو بے خبری میں جا لیا سلجوقی بے خبری اور غلط فہمی میں مارے گئے ورنہ سلجوقیوں نے تو جنگجوی میں دور دور تک دھاک بٹھائی ہوئی تھی مگر دھاک حسن بن صباح کی بیٹھ گئی اس کے جانبازوں اور بستی تبریز کے باشندوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آسمان سے اترنے والے تین سو گھوڑسوار فرشتوں کا انتظام پہلے سے کر لیا گیا تھا انہیں یقین ہوگیا تھا کہ حسن بن صباح پر وحی نازل ہوئی تھی اور یہ مدد بھی حسن بن صباح کے کہنے پر خدا نے بھیجی تھی
مزمل آفندی گھوڑا دوڑاتا مرو جا رہا تھا اس نے اپنے زخموں پر کپڑے کس کر باندھ لیے تھے پھر بھی زخموں سے خون رس رہا تھا وہ اس کوشش میں تھا کہ زندہ سلطان ملک شاہ تک پہنچ جائے اور ہوش میں رہے تاکہ اسے قلعہ تبریز کی لڑائی کی خبر دے سکے اور اسے کہے کہ وہ فوراً جوابی حملے کے لیے فوج بھیجے
یہ ایک دن اور ایک رات کی مسافت تھی جو مزمل آفندی نے کم از کم وقت میں طے کی اور رات کو مرو پہنچا سلطان ملک شاہ سو گیا تھا سلطان کو جگانے کی جرات کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن مزمل خون میں نہایا ہوا اور نیم جان تھا اور وہ سالار امیر ارسلان اور اس کے سوار دستے کی خبر لایا تھا سلطان کو جگا کر بتایا گیا تو وہ بستر سے کود کر اٹھا اور ملاقات والے کمرے میں گیا
مزمل دروازے میں داخل ہوا تو اس کا وجود گرنے والے درخت کی طرح ڈول رہا تھا اور سر کبھی دائیں کبھی بائیں ڈھلک جاتا تھا اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے اور زخموں سے تازہ خون رس رہا تھا سلطان دوڑ کر اس تک پہنچا اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا
اسے دیوان پر لٹاؤ سلطان ملک شاہ نے دربان سے کہا اور خود ہی مزمل کو اٹھا لیا
دربان نے بھی مدد کی اور مزمل کو دیوان پر لیٹا دیا گیا سلطان کے کپڑے بھی سامنے سے لال ہو گئے اسے وہ شربت پلاؤ سلطان نے دربان سے کہا طبیب کو اور جراح کو بھی فوراً ساتھ لے آؤ
سلطان ملک شاہ نے شربت کا گلاس دربان کے ہاتھ سے لیا اور اسے دوڑا دیا پھر مزمل کو سہارا دے کر اٹھایا اور اسے اپنے ہاتھ سے شربت پلایا
اب لیٹ جاؤ سلطان نے مزمل آفندی کو لٹا کر پوچھا تم بہت زخمی ہو
میں ان شاءاللہ زندہ رہوں گا مزمل آفندی نے بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی آواز میں کہا میں نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا ہے میرا نام مزمل آفندی ہے آپ کی فوج کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں پہلے اپنے سوار دستے اور سالار امیر ارسلان کی خبر سن لیں امیر ارسلان مارا گیا ہے اور اپنے دستے کے شاید سارے ہی سوار بھی مارے گئے ہیں
کیا کہا ؟
سلطان نے حیرت زدہ ہو کر کہا ارسلان مارا گیا ہے؟
یہ ہوا کیسے ؟
یہ لڑائی کہاں لڑی گئی ہے؟
قلعہ تبریز میں مزمل آفندی نے جواب دیا طبیب اور جراح دوڑے آئے سلطان کے کہنے پر انہوں نے مزمل کے زخموں کو دھونا شروع کر دیا سلطان نے مزمل کے لئے پھل اور میوے منگوائے پھر زخموں کی مرہم پٹی ہوتی رہی مزمل پھل اور میوے کھاتا رہا اور سلطان کو سناتا رہا کہ وہ کس طرح میمونہ کو حسن بن صباح کی قید سے فرار کرا کے لایا تھا اور اسے رے میں ابومسلم رازی کے یہاں میمونہ کو اپنی بیٹی شمونہ مل گئی تھی پھر اس نے حسن بن صباح کے تعاقب کا اور قلعہ تبریز کی لڑائی کا مکمل احوال سنایا
سلطان ملک شاہ آگ بگولا ہوگیا اس نے اسی وقت اپنے ایک سالار قزل ساروق کو بلایا یہ سالار ترک تھا ابن اثیر نے لکھا ہے کہ قزل ساروق نامور سالار اور مشہور سلجوق جنگجو تھا سلطان نے اسے کہا کہ وہ کم از کم ایک ہزار سواروں کا دستہ لے کر ابھی قلعہ تبریز کو روانہ ہو جائے
قزل ساروق سمجھ گیا کہ بہت جلدی تبریز پہنچنا ہے
وہ ایک ہزار منتخب سواروں کے ساتھ حیران کن کم وقت میں قلعہ تبریز پہنچ گیا لیکن وہاں سالار امیر ارسلان اور اس کے سواروں کی لاشوں کے سوا کچھ بھی نہ ملا کسی بھی لاش کے ساتھ ہتھیار نہیں تھا ایک بھی گھوڑا نہیں تھا ہتھیار بھی اور گھوڑے بھی باطنی لے گئے تھے قزل ساروق قلعے کے اندر گیا کوئی ایک بھی انسان نظر نہ آیا مکان خالی پڑے تھے
آگ لگا دو قزل ساروق نے کہا
کچھ ہی دیر بعد مکانوں سے شعلے اٹھنے لگے اور دھواں آسمان تک پہنچنے لگا
قبر کھودو اور اپنے ساتھیوں کو دفن کردو قزل ساروق نے اپنے سواروں سے کہا ہم یہاں شاید اسی لیے آئے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو دفن کریں اور اس بستی کو آگ لگا دیں اور واپس چلے چلیں ہم یہاں کچھ دن ٹھہریں گے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:22 }
داستان  گو جس دور کی داستان سنا رہا ہے وہ ابلیس کا دور تھا قرآن حکیم کی وہ پیشن گوئی جو سورہ الاعراف کی آیت 11 سے 23تک واضح الفاظ میں آئی ہے حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہی تھی ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ابلیس کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا اور اسے کہا تو ذلیل و خوار ہوتا رہے گا تو ابلیس نے کہا کہ مجھے روز قیامت تک مہلت دے اللہ نے اسے مہلت دی ابلیس نے کہا اب دیکھنا میں تیرے ان انسانوں کو کس طرح گمراہی میں ڈالتا ہوں میں تیرے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور تیرے انسانوں کو آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اور ہر طرف سے گھیرونگا ،پھر تو دیکھے گا کہ ان میں سے بہت سے تیرے شکر گزار نہیں رہیں گے

اللہ تعالی نے آدم اور حوا سے کہا کہ جنت میں رہو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ گنہگاروں میں لکھے جاؤ گے شیطان نے آدم سے کہا کہ اللہ نے اس درخت کو تمہارے لئے اس لیے شجر ممنوعہ قرار دیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ اور تمہیں وہ زندگی نہ مل جائے جس کی موت ہوتی ہی نہیں یعنی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ابلیس نے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں
ابلیس نے زبان کا ایسا جادو چلایا اور الفاظ کا ایسا طلسم پیدا کیا کہ آدم اور حوا کو شیشے میں اتار لیا انہوں نے شجر ممنوعہ کا پھل چکھا اور اس حکم عدولی کے نتیجے میں آدم اور حوا کے ستر بے نقاب ہوگئے اور وہ درختوں کے پتوں سے ستر ڈھانپنے لگے
بات یہ سامنے آئی کی یہ ابلیس تھا جس نے آدم اور حوا کو ایک دوسرے کی شرمگاہوں سے روشناس کیا انسان میں تجسس کی بے تابی پیدا کی اور یہ جذبہ بھی کہ اللہ جس کام سے منع کرے وہ ضرور کر کے دیکھو اور شجر ممنوعہ کا پھل ضرور چکھو
حسن بن صباح نے یہی ابلیسی حربے استعمال کئے اور انسان کی ستر پوشی کو برہنگی میں بدل دیا مرد پر عورت کی برہنگی کا طلسم طاری کیا اور یہ تاثر پیدا کیا کہ شجر ممنوعہ کا پھل ضرور کھاؤ
ابلیس اپنا یہ عہد پورا کر رہا تھا کہ اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چل آؤں گا پانچویں صدی ہجری میں حسن بن صباح اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چلا رہا تھا
قلعہ تبریز کی لڑائی میں سلجوقی سالار امیر ارسلان مارا گیا اس کے پانچ سو مجاہدین ہلاک یا زخمی ہوگئے تو مزمل آفندی نے شدید زخمی حالت میں مرو پہنچ کر سلطان ملک شاہ کو لڑائی کے اس انجام کی اطلاع دی اس کا زندہ رہنا معجزہ تھا
جب سے مزمل آفندی سالار امیر ارسلان اور اس کے پانچ سو سواروں کے ساتھ چلا گیا تھا رے میں شمونہ روزمرہ کا معمول بنا لیا تھا کہ بار بار چھت پر چلی جاتی اور اس راستے کو دیکھنے لگتی جس راستے پر مزمل آفندی چلا گیا تھا شمونہ کو معلوم تھا کہ وہ دو چار دنوں میں ادھر سے کوئی اطلاع نہیں آئے گی بغداد سے اتنی جلدی اطلاع آ ہی نہیں سکتی تھی لیکن شمونہ مزمل آفندی کی محبت میں پاگل ہوۓ جا رہی تھی وہ حقائق کو تو قبول ہی نہیں کر رہی تھی وہ چھت پر جا کر کبھی بالائی منزل کا اس طرف والا دریچہ کھول کر اس راستے کو دیکھنے لگتی تھی اسے قاصد کا انتظار تھا
اور اسے انتظار تھا کہ مزمل آفندی اسی راستے سے واپس آئے گا اس کے چہرے پر فاتحانہ تاثر ہوگا سینہ پھیلا ہوا اور گردن تنی ہوئی ہوگی اور حسن بن صباح اس کے ساتھ ہوگا زندہ یا مردہ
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے نہ جانے کتنی راتیں بیت گئیں مزمل آفندی نہ آیا مرو سے کوئی قاصد نہ آیا
شمونہ! دو تین بار اس کی ماں میمونہ نے اسے کہا ایک آدمی کی محبت میں گرفتار ہو کر تم دنیا کو بھول گئی ہو تمہیں دن اور رات کا ہوش نہیں رہا یوں تو زندگی اجیران ہو جاتی ہے
میں صرف اس کا انتظار نہیں کر رہی جسے میں چاہتی ہوں شمونہ نے ماں سے کہا تھا میں حسن بن صباح کے انتظار میں ہوں اگر وہ زندہ آیا تو میں اسے زنجیروں میں بندھے دیکھنا چاہوں گی اور اگر اس کی لاش آئی تو میں سمجھوں گی کہ میرا زندگی کا مقصد پورا ہوگیا ہے مزمل اسے زندہ یا مردہ لے ہی آئے گا
شمونہ کو کوئی قاصد یا مزمل آفندی آتا نظر نہیں آتا تھا راستہ ہر روز کی طرح شہر سے نکل کر درختوں اور کھیتوں میں بل کھاتا دور ایک پہاڑی میں گم ہوجاتا تھا اسے ہر روز ویسے ہی اونٹ گھوڑے بوجھ اٹھائے ہوئے ٹٹو اور پیدل چلتے ہوئے لوگ نظر آتے تھے شمونہ کی بے چینی اور بے تابی بڑھتی جا رہی تھی اور وہ اکتانے بھی لگی تھی اس کی مزاجی کیفیت بھی کچھ بکھر سی گئی تھی آخر ایک روز دن کے پچھلے پہر دور سے اسے ایک گھوڑسوار آتا نظر آیا گھوڑے کی رفتار اور انداز بتاتا تھا کہ وہ کوئی عام سا مسافر نہیں شمونہ کی نظریں اس پر جم گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ شہر کی طرف آنے لگیں
گھوڑ سوار شہر میں داخل ہوا تو شمونہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا وہ شہر کی گلیوں میں گم ہو گیا تھا کچھ دیر بعد وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر کے قریب ایک گلی سے نکلا شمونہ دوڑتی نیچے آئی گھوڑسوار اس شاہانہ حویلی کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا
تم قاصد تو نہیں ہو شمونہ نے اس سے پوچھا
ہاں بی بی! سوار نے گھوڑے سے اترتے ہوئے کہا میں قاصد ہوں امیر شہر سے فوراً ملنا ہے
کہاں سے آئے ہو؟
مرو سے آیا ہوں
سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی کی کوئی خبر لائے ہو ؟
شمونہ نے بچوں کی سی بے تابانہ اشتیاق سے پوچھا
انہی کی خبر لایا ہوں
کیا خبر ہے ؟
شمونہ نے تڑپ کر پوچھا
امیر شہر کے سوا کسی اور کو بتانے والی خبر نہیں قاصد نے جواب دیا
شمونہ دوڑتی اندر گئی دربان کے روکنے پر بھی نہ روکی ابومسلم رازی اپنے کسی کام میں مصروف تھا شمونہ نے زور سے دروازہ کھولا کہ ابو مسلم رازی چوک اٹھا
مرو سے قاصد آیا ہے شمونہ نے بڑی تیزی سے کہا اسے فوراً بلا لیں
ابومسلم رازی نے ابھی کچھ جواب نہیں دیا تھا کہ شمونہ باہر کو دوڑ پڑیں اور قاصد کو ابومسلم رازی کے پاس لے گئی
کیا خبر لائے ہو؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
قاصد نے شمونہ کی طرف دیکھا اور پھر ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا بات بالکل صاف تھی کہ قاصد شمونہ کے سامنے پیغام نہیں دینا چاہتا تھا
تم ذرا باہر چلی جاؤ شمونہ! ابومسلم رازی نے کہا
شمونہ وہاں سے ہلی بھی نہیں اور کچھ بولی بھی نہیں اس کی نظریں ابومسلم رازی کے چہرے پر جم گئی تھیں اور اس کے اپنے چہرے کا تاثر یک لخت بدل گیا تھا رازی کی دانشمندی نے راز پا لیا وہ شمونہ کی اس بات کو سمجھتا تھا اس لڑکی نے ابومسلم رازی کے دل میں اپنی قدر و منزلت پیدا کر لی تھی
ہاں! ابومسلم رازی نے قاصد سے پوچھا کیا خبر لائے ہو؟
خبر اچھی نہیں امیر شہر! قاصد نے کہا سالار امیر ارسلان مارے گئے ہیں اور ان کے پانچ سو سواروں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو
مزمل آفندی کی کیا خبر ہے؟
شمونہ نے تیزی سے اٹھ کر پوچھا
خاموش رہو شمونہ! ابومسلم رازی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا میں تمہیں باہر بھیج دوں گا تم ایک آدمی کا غم لیے بیٹھی ہو اور ہم اس سلطنت اور دین اسلام کے لئے پریشان ہو رہے ہیں اس نے قاصد سے کہا آگے بولو
مزمل آفندی زندہ ہیں قاصد نے کہا لیکن بہت بری طرح زخمی ہے وہ مرو میں سلطان عالی مقام کے پاس ہے وہی آگے کی خبر لائے تھے
قاصد نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے وہ خبر سنائی جو مزمل آفندی نے سلطان ملک شاہ کو سنائی تھی پھر اس نے یہ بتایا کہ اب سلطان مکرم نے سالار قزل ساروق کو ایک ہزار سوار دے کر حسن بن صباح کی گرفتاری اور اس کے پیروکاروں کی تباہی کے لئے بھیج دیا ہے
قاصد پیغام دے چکا تو ابومسلم رازی نے اسے جانے کی اجازت دے دی
میں مرو جانا چاہتی ہوں شمونہ نے کہا آپ مجھے اسی قاصد کے ساتھ بھیج دیں
تم وہاں جا کر کیا کروگی؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
میں مزمل آفندی کی تیماداری کروں گی شمونہ نے جواب دیا اس شخص نے مجھ پر جو احسان کیا ہے کیا میں بھول سکتی ہوں؟
اس نے مجھے بچھڑی ہوئی ماں سے ملایا ہے اور امیر شہر میں نے اور مزمل آفندی نے عہد کیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ حسن بن صباح کو ہم دونوں قتل کریں گے اس مقصد کے لیے میں مزمل کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
ایسے کام جذبات کے جوش سے نہیں ہوا کرتے شمونہ! ابومسلم رازی نے کہا اس کے لیے تجربے کی اور دور اندیشی سے ہر پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے تم میرے ساتھ رہو تمہاری ماں یہی ہے میرا بھی یہی مقصد ہے حسن بن صباح جب یہاں آیا تھا تو میں نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن اس سے قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ فرار ہوگیا
میں نے بھی حسن بن صباح کے قتل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے پھر اس لیے بھی میں تمہیں وہاں نہیں بھیج سکتا کہ مزمل آفندی سلطان کے پاس ہے میری بات اور ہے سلطان کے یہاں فضا اور ماحول کچھ اور ہے انہوں نے مزمل آفندی کو اپنی نگرانی میں رکھا ہوگا اور وہ پریشان بھی ہوں گے کہ امیر ارسلان جیسا سالار اپنے تمام سواروں کے ساتھ مارا گیا ہے یہ پریشانی بھی لاحق ہو گئی ہے کہ حسن بن صباح کے پاس اتنی فوجی طاقت اکٹھی ہوگئی ہے کہ اس نے پانچ سو سلجوقی سواروں کو ختم کر دیا ہے کسی کو سلجوقی کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جان کی بازی لگا دینے والا جنگجو ہے اور ناقابل تسخیر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حسن بن صباح کے پیروکار سلجوقیوں سے زیادہ سرفروش ہیں تم یہیں رہو ہو سکتا ہے سلطان تمہارا وہاں جانا پسند نہ کریں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمہیں اس بنا پر شک کی نظروں سے دیکھیں کہ تم نے حسن بن صباح کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے
ابومسلم رازی نے شمونہ کی ماں کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے جذبات کو اپنے قابو میں لے لیں ورنہ یہ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھے گی
سالار قزل ساروق نے تبریز کی قلعہ نماء بستی کو نذرآتش تو کردیا لیکن وہ اس بستی کو نذر آتش کرنے کے لیے نہیں گیا تھا یہ تو غصے کا اظہار تھا جو اس نے کیا اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ حسن بن صباح اور اس کے جنگجو پیروکار کہاں گئے اس نے جو لاشیں دیکھی تھیں ان میں سالار امیر ارسلان کے سواروں کی لاشیں زیادہ تھی اور حسن بن صباح کے آدمیوں کی لاشیں بہت ہی تھوڑی تھیں
سالار قزل ساروق کے ساتھ جاسوسی کرنے والے آدمی بھی تھے بھیس اور حلیہ بدلنے کا بھی ان کے پاس انتظام تھا قزل ساروق نے اپنے چار آدمیوں کو جاسوسی کے لیے تیار کیا اور انہیں ضروری ہدایات دے کر ادھر ادھر بھیج دیا اس نے خود ذرا سا بھی آرام نہ کیا اپنے دو تین ماتحت کماندروں کو ساتھ لے کر تبریز سے کچھ دور زمین کو کھوجنے کے لئے چلا گیا اس نے ہر طرف زمین دیکھی حسن بن صباح اکیلا ہی تو نہیں تھا کہ اس کا پورا کھوج نہ ملتا اس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے جن میں گھوڑ سوار بھی تھے
ایک جگہ مل ہی گئی زمین گواہی دے رہی تھی کہ یہاں سے ایک قافلہ یا لشکر گزرا ہے قزل ساروق زمین کے یہ نشان دیکھتا ہوا آگے ہی آگے چلتا گیا یہ کوئی عام سا راستہ نہیں تھا یہ لوگ اونچی نیچی زمین پر چلتے گئے آگے ایک ندی تھی وہ اس ندی میں سے بھی گزرے تھے اگر یہ کوئی پرامن لوگوں کا قافلہ ہوتا تو کسی باقاعدہ پگڈنڈی پر جارہا ہوتا یا ہموار زمین پر چلتا یہ قافلے لوٹنے والے ڈاکو کا گروہ بھی ہو سکتا تھا اور یہ حسن بن صباح کا گروہ بھی ہو سکتا تھا
زمین کے ان نشانات سے تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کس سمت کو جا رہے ہیں لیکن اصل بات تو یہ معلوم کرنی تھی کہ وہ گئے کہاں؟
آگے ایسا پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جس کے اندر کسی آبادی کا گمان نہیں کیا جاسکتا تھا
سالار قزل ساروق ایک جگہ رک گیا اس کا آگے جانا ٹھیک نہیں تھا کیونکہ وہ دور سے پہچانا جاتا تھا کہ یہ کسی شہر کا امیر یا فوج کا سالار ہے اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا کہ اس طرف اپنا کوئی آدمی بھیس بدل کر جائے تو کچھ سراغ مل سکتا ہے ایک ماتحت نے اسے کہا کہ چل کر ایک اور آدمی کو اس سمت میں روانہ کر دیتے ہیں
اور وہ واپس آگئے
بہت دیر بعد ایک شتر سوار آتا نظر آیا وہ بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا قریب آیا تو وہ اپنا ایک جاسوس نکلا جسے علی الصبح بھیجا گیا تھا وہ اونٹ سے اترا اور اپنے سالار کے پاس گیا
سراغ مل گیا ہے جاسوس نے کہا میں نے گھوڑوں اونٹوں اور آدمیوں کے پاؤں کے نشان دیکھے اور ان پر چلتا گیا یہ نشان مجھے ایک جگہ لے گئے جہاں تین مکان تھے جن کے مکینوں کے بچے مکانوں سے کچھ دور کھیل رہے تھے میں اونٹ سے اترا اور ان بچوں سے پوچھا کہ ادھر ایک قافلہ گیا ہے میں اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ قافلہ کدھر گیا ہے بچوں نے مجھے صرف سمت بتائی
اس جاسوس نے اپنے سالار کو جو تفصیل بتائیں وہ یوں تھی کہ جب یہ شخص بچوں سے پوچھ رہا تھا اس وقت ان مکانوں کے رہنے والے کسی آدمی نے دیکھ لیا اور اس کے پاس آکر پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟
اس نے وہی بات کہی جو وہ بچوں سے کہہ چکا تھا کہ وہ اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا
وہ ایک عجیب قافلہ تھا اس آدمی نے کہا اس میں بہت سے آدمی تھے جو زخمی تھے ان کے کپڑے خون سے لال تھے ان میں کچھ گھوڑوں پر سوار تھے اور کچھ اونٹوں پر اور چند ایک پیدل بھی چلے جا رہے تھے ہمیں تو وہ قافلوں کو لوٹنے والے ڈاکوں لگتے تھے ان کے ساتھ جو اونٹ تھے ان میں سے دو اونٹوں پر پالکیاں تھیں دونوں میں ایک ایک یا شاید دو دو عورتیں تھیں ہمیں شک ہے کہ وہ ڈاکو تھے انہوں نے کسی قافلے کو لوٹنے کی کوشش کی ہوگی اور قافلے والوں نے مقابلہ کرکے انہیں مار بھگایا ہوگا
تم ٹھیک کہہ رہے ہو میرے دوست! جاسوس نے کہا وہ ڈاکو کا ہی گروہ ہے انہوں نے ایک قافلے پر حملہ کیا تھا لیکن ناکام رہے کیونکہ قافلے میں لڑنے والے بہت سے آدمی تھے انہوں نے ان ڈاکوؤں کے کئی ایک آدمی مار ڈالے اور باقی بھاگ آئے میں سلجوقی فوج کا آدمی ہوں اور اس قافلے کا سراغ لیتا پھر رہا ہوں اگر تم بتا سکوں کہ یہ لوگ آگے کہاں گئے ہیں تو تمہیں سلطان کی طرف سے جھولی بھر کر انعام ملے گا
میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں گئے ہیں میں صرف یہ بتا سکتا ہوں کے اس پہاڑی علاقے کے اندر پرانے زمانے کا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو دراصل قلعے کے کھنڈرات ہیں ہوسکتا ہے وہ اس قلعے میں گئے ہوں ان پہاڑیوں کے اندر کوئی اور آبادی نہیں بڑے بڑے غار ہیں جہاں صرف ڈاکو ہی جا سکتے ہیں کسی اور نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے
قزل ساروق کا جاسوس وہیں سے واپس آگیا اور اپنے سالار کو بتایا
اس جاسوس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جب وہاں سے قافلے کا سراغ لے کر آ گیا تھا تو پیچھے کیا ہوا تھا ہوا یہ تھا کہ جب جاسوس وہاں سے چلا تو ایک بوڑھا آدمی مکان سے نکلا اور اس نے اپنے اس آدمی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ شتر سوار کون تھا اور کیا کہتا تھا
اس نے اس بوڑھے کو بتا دیا کہ وہ کیا پوچھ رہا تھا اور اس نے کیا بتایا تھا
بے وقوف آدمی! بوڑھے نے کہا تم جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے
یہ سلطان کی فوج کا آدمی تھا اس آدمی نے کہا وہ ڈاکوؤں کے اسی گروہ کے تلاش میں تھا میں تو جانتا تھا اور اسے بتا دیا ہے اگر سلطان کی فوج نے ان ڈاکوؤں کو پکڑ لیا تو مجھے انعام ملے گا
تمہیں انعام بعد میں ملے گا بوڑھے نے کہا لیکن انعام لینے کے لیے نہ تم زندہ رہو گے نہ ہم میں سے کوئی زندہ رہے گا تم نے ہم سے پوچھ کر بات کرنی تھی تم نے جس کی نشاندہی کی ہے وہ حسن بن صباح تھا کیا تم نہیں جانتے حسن بن صباح کون ہے ؟
ہاں! اس نے کہا وہ آسمان سے اترا ہے اور خدا نے اسے اپنا ایلچی بنا کر بھیجا ہے
وہ خدا کے بندوں کو سیدھا راستہ دکھانے آیا ہے بوڑھے نے کہا اس کے مقابلے میں کتنا ہی بڑا لشکر آ جائے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے آسمان سے معلوم نہیں جنات اترتے ہیں یا قہر برسانے والے فرشتے آ جاتے ہیں جو لشکر کو کاٹ کر پھینک جاتے ہیں کیا تم نے تبریز کی لڑائی نہیں سنی ابھی چند ہی دن گزرے ہیں سلطان کا پورے کا پورا لشکر اپنے ہی خون میں ڈوب گیا ہے
ہاں سنا تھا اس نے کہا
پھر مکانوں سے ایک اور آدمی نکل آیا بوڑھے نے اسے بتایا کہ اس نے سلطان کے ایک جاسوس کو بتا دیا ہے کہ حسن بن صباح ادھر چلا گیا ہے
یہ تو نیم پاگل ہے دوسرے آدمی نے کہا
یہ تو میں جانتا ہوں بوڑھے نے کہا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ سلطان نے حسن بن صباح کے پیچھے فوج بھیج دیں تو کیا ہم نہ مارے جائیں گے سوچو ہم کیا کریں
وہ حسن بن صباح ہی تھا جو تبریز سے اپنے تمام پیروکاروں کو اور ابو علی کے قزوین سے بھیجے ہوئے تین سو سواروں کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے گزرا تھا ان مکانوں کے قریب آیا تو تمام مکین باہر آکر راستے میں کھڑے ہوگئے تھے حسن بن صباح نے انہیں دیکھا تو اپنے دو مصاحبوں سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ ہم ادھر سے گزرے ہیں اگر انہوں نے کسی کو بتایا تو ان کے بچے سے بوڑھے تک کو قتل کر دیا جائے گا اور ان کے مکانوں کو آگ لگا دی جائے گی
اب ان کے لیے یہ صورت پیدا ہو گئی تھی کہ ان کے ایک آدمی نے جسے وہ نیم پاگل کہہ رہے تھے ایک جاسوس کو بتا دیا تھا کہ وہ لوگ آگے گئے ہیں اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان پہاڑیوں کے اندر ایک قدیم قلعے کے کھنڈرات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسی قلعے میں گئے ہوں
دوسرے جاسوس کسی اور طرف چلے گئے تھے ان کی واپسی کے انتظار میں پوری رات گزر گئی وہ اگلے روز یکے بعد دیگرے آئے تو آدھا دن گزر چکا تھا ان سب نے یہی خبر دی کہ حسن بن صباح ان پہاڑیوں کے اندر گیا ہے اس طرح تصدیق ہوگئی کہ اس وقت ان کا شکار کہاں ہے تبریز سے اس جگہ کا فاصلہ کم وبیش چالیس میل بتایا گیا تھا
آدھا دن گزر چکا تھا جب قزل ساروق نے اپنے ایک ہزار کے لشکر کو کوچ کا حکم دیا
لشکر انہیں مکانوں کے قریب سے گزرا ایک جاسوس نے راستہ معلوم کر لیا تھا لشکر پہاڑی علاقے میں داخل ہوگیا آگے راستہ بہت ہی دشوار تھا اس لئے لشکر کی رفتار بہت ہی سست رہی ابھی پندہ سولہ میل بھی طے نہیں ہوئے تھے کہ سورج غروب ہو گیا چونکہ علاقہ پہاڑی اور جنگلاتی تھا اس لئے شام بہت جلدی گہری ہوگئی پھر بھی قزل ساروق نے سفر جاری رکھا آگے راستہ دشوار ہوتا چلا گیا یہ راستہ پہاڑی کے ساتھ ساتھ بل کھاتا جا رہا تھا رات بلکل تاریک تھی پھر بھی سالار نے لشکر کو نہ روکا
تھوڑا ہی اور آگے گئے ہونگے لشکر میں شور سا سنائی دیا ایک گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا دو تین آوازیں سنائی دیں کہ ایک سوار کا گھوڑا پھسل کر نیچے چلا گیا ہے اس جگہ راستہ تنگ تھا ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف وادی کی گہرائی تھی اس طرف پہاڑی کی ڈھلان عمودی تھی پہاڑ پر درخت تھے لیکن اتنے زیادہ نہیں تھے جو گھوڑے یا سوار کو روک لیتے کچھ دیر تک گھوڑے کے گرنے اور لڑتے ہوئے نیچے جانے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں
قزل ساروق نے لشکر کو روک لیا اس کے کہنے پر اس سوار کو آواز دی گئی جو گر پڑا تھا اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا وہ بے ہوش ہوگیا یا مر گیا تھا
سالار قزل ساروق نے یہ کہہ کر کوچ کا حکم دے دیا کہ ایک سوار کے لیے پورے لشکر کی پیش قدمی نہیں روکی جا سکتی
سوار اور زیادہ محتاط ہو کر چلنے لگے دو چار اور موڑ مڑے تو راستہ نیچے کو جانے لگا آخر وہ اس پہاڑی سے اترے تو آگے خاصی چوڑی وادی تھی جہاں قزل ساروق نے سواروں کو صبح تک کے لئے روک لیا سواروں نے گھوڑوں کی زینی اتاری اور باقی رات آرام کے لئے ادھر ادھر لیٹ گئے
صبح طلوع ہوئی تو کوچ کی تیاری کا حکم ملا سوار گھوڑوں پر زین کس رہے تھے کہ ایک طرف سے ایک ادھیڑ عمر آدمی ایک عورت کے ساتھ آتا نظر آیا اس کے ساتھ دو لڑکے تھے جن میں ایک چودہ پندرہ سال کا اور دوسرا گیارہ بارہ سال کا تھا آدمی نے ایک ٹٹو کی باگ پکڑ رکھی تھی اور ٹٹوں پر کچھ سامان لدا ہوا تھا انہوں نے وہیں سے گزرنا تھا جہاں لشکر کوچ کے لئے تیار ہو رہا تھا وہ ایک طرف سے گزرتے گئے سالار قزل ساروق لشکر سے تھوڑا پرے تھا وہ خود تیار ہو چکا تھا اس کا سائیس اس کے گھوڑے کو تیار کر رہا تھا
کچھ دیر بعد اس کے تین چار ماتحت کماندار اس کے پاس آ گئے وہ بالکل تیار ہو کر آئے تھے
یہ کون ہے؟
قزل ساروق نے ادھیڑ عمر آدمی اور عورت کو دیکھ کر پوچھا
ہم نے پوچھا نہیں ایک کماندار نے جواب دیا ان سے پوچھو قزل ساروق نے کہا ان کے ادھر سے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ آگے یا اس علاقے میں کہیں کوئی آبادی ہے اگر یہ یہاں کے رہنے والے ہیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ وہ قدیم قلعہ کہاں ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم غلط راستے پر جا رہے ہوں
وہ لوگ قریب آئے تو انہیں روک لیا گیا
السلام علیکم! ادھیڑ عمر آدمی نے کہا آپ اس لشکر کے سالار معلوم ہوتے ہیں آپ نہ روکتے تو بھی میں نے رکنا تھا
آپ کہیں سے آ رہے ہیں یا کہیں جا رہے ہیں؟
قزل ساروق نے پوچھا ہم آرہے ہیں سالار محترم! اس نے جواب دیا ہم تقریباً ایک سال بعد واپس اپنے گھر آ رہے ہیں الحمدللہ ہم فریضہ حج ادا کرنے گئے تھے
کیا آپ پیدل ہی گئے تھے ؟
پیدل بھی سمجھیں اور سوار بھی سمجھیں اس نے جواب دیا یہ ایک ٹٹو ساتھ تھا باری باری اسی پر سوار ہوتے گئے کہیں سب کو کرائے کی سواری مل گئی اور یوں ارض حجاز تک پہنچے مقامات مقدسہ کی زیارت کی فریضہ حج ادا کیا اور پھر جنگوں کے وہ میدان دیکھے جہاں رسول اکرمﷺ کفار سے لڑے تھے بدر کا میدان دیکھا احد کا میدان دیکھا اور پھر اس جگہ کو سجدے میں جاکر چوما جہاں ہمارے رسول اکرمﷺ زخمی ہو گئے تھے خدا کی قسم وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن پیچھے بوڑھے ماں باپ کو نوکروں کے سپرد کر گئے تھے ان کی خاطر واپس آگئے ہیں
اللہ آپ کا حج قبول فرمائے قزل ساروق نے کہا آپ خوش نصیب ہیں جو اللہ کے گھر میں رکوع و سجود کرکے آئے ہیں کیا آپ کی بستی یہاں کہیں قریب ہے؟
ایسی قریب بھی نہیں حج سے آنے والے نے جواب دیا تقریباً پورے دن کی مسافت ہے
کیا اس علاقے میں کوئی بہت پرانا قلعہ بھی ہے ؟
قزل ساروق نے پوچھا اور خود ہی کہا سنا ہے اس کے کھنڈرات باقی ہیں
ہاں محترم سالار! حاجی نے جواب دیا کہنے کو تو اس پہاڑی کے دوسری طرف ہے لیکن وہاں تک پہنچتے آج کا دن گزر چکا ہو گا کیا آپ اس قلعے تک جانا چاہتے ہیں؟
ہاں! قزل ساروق نے کہا قصد تو وہیں کا ہے راستہ معلوم نہیں
راستہ مجھ سے پوچھیں حاجی نے کہا میرے ساتھ بیوی بچے نہ ہوتے تو میں آپ کے ساتھ چلتا تھا کہ کہیں آپ بھٹک نہ جائیں آپ جو فرض ادا کر رہے ہیں اسے میں تو فریضہ حج کے برابر سمجھتا ہوں آپ یقیناً سلجوقی ہیں
ہاں! حجاج کے مسافر قزل ساروق نے کہا میں سب سے پہلے مسلمان ہوں اس کے بعد سلجوق ہو
اس اجنبی نے قزل ساروق کو اس قدیم قلعے کا راستہ سمجھ آنا شروع کردیا راستہ کوئی پیچیدہ تو نہیں تھا البتہ دشوار تھا قزل ساروق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ اس وادی سے الٹے رخ چلنے والا تھا
آپ تو فرشتہ معلوم ہوتے ہیں قزل ساروق نے کہا ہم تو کسی اور ہی طرف چلنے والے تھے اللہ نے آپ کو ہماری رہنمائی کے لیے بھیجا ہے
اللہ مسبب الاسباب ہے حاجی نے کہا اللہ نے یہ سعادت بھی میری قسمت میں لکھی تھی کہ مجاہدین کی رہنمائی کروں مجھے آپ کے کام میں دخل تو نہیں دینا چاہیے لیکن پوچھنا چاہوں گا کہ آپ اس قدیم قلعے میں کیوں جا رہے ہیں؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام سنا ہے؟
قزل ساروق نے پوچھا
اس ابلیس کا نام کس نے نہیں سنا ہوگا حاجی نے کہا میں بغداد پہنچا تو وہاں سے یہاں تک اسی کا نام سنتا رہا ہوں افسوس یہ ہو رہا ہے کہ لوگ اسے نبی اور اللہ کا ایلچی مان رہے ہیں یہاں سے دور پیچھے مجھے پتہ چلا کہ وہ اسی قدیم قلعے میں ہے اور اس کے ساتھ بڑے خونخوار قسم کے جاں باز ہیں اگر آپ اس ابلیس کو ختم کر دیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو حج اکبر کا ثواب ملے گا
ہماری کامیابی کی دعا کریں سالار قزل ساروق نے عقیدت مندی کے لہجے میں کہا انہیں مکہ کی ایک ایک کھجور کھلا دیں حاجی کی بیوی بولی اور زم زم کے پانی کا ایک ایک گھونٹ پلا دیں
اس شخص نے ٹٹو کی پیٹھ پر لدے ہوئے سامان میں سے چھوٹا سا ایک تھیلا نکالا اس میں سے کچھ کھجوریں نکالیں ایک ایک کھجوروں سالار قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں کو دی
ان کی گھٹلیاں نکلی ہوئی ہیں حاجی نے کہا وہاں ایسی ہی ملتی ہیں
بڑی خاص قسم کی کھجوریں ہیں اگر آپ کے لشکر کے پاس بہت بڑا ڈول یا مٹکا ہو تو وہ پانی سے بھر لیا جائے تو میں اس میں زمزم کا پانی ملا دوں گا پورے لشکر کو دو دو گھونٹ پلائیں
یہ ایک ہزار کا لشکر تھا جس کے کھانے پینے کا انتظام اور برتن وغیرہ ساتھ تھے پانی سے بھرے ہوئے بڑے مشکیزے اونٹوں پر لدے ہوئے تھے اس کے حکم سے دو تین مشکیزے سے لائے گئے حاجی نے خشک چمڑے کی بنی ہوئی ایک صراحی نکالی جس کا منہ بڑی مضبوطی سے بند تھا حاجی نے یہ صراحی تینوں مشکیزوں میں خالی کر دی اور کہا کہ کوچ سے پہلے ہر آدمی یہ پانی پی لے
پھر آپ دیکھنا سالار محترم! حاجی نے کہا آپ کو راستے کی دشواریوں کا احساس تک نہیں ہوگا اور آپ اور آپ کا ہر سوار یہ محسوس کرے گا کہ وہ اڑ کر اس قلعے تک پہنچ گیا ہے قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں نے ایک ایک کھجور کھا لیں پھر انہوں نے مشکیزہ سارے لشکر میں اس حکم کے ساتھ گھمائے کہ ہر سوار پانی پیے لشکر کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آب زمزم ہے
حاجی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رخصت ہوگیا سالار قزل ساروق نے صرف اس خیال سے اپنے آپ میں ایک توانائی محسوس کی کہ اس نے مکے کی کھجور کھائی ہے اور آب زم زم پیا ہے لشکر کے ہر سوار نے عقیدت مندی سے آب زم زم پیا اور پھر لشکر اس راستے پر چل پڑا جو حاجی نے بتایا تھا حاجی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا
لشکر کو ایک بار پھر پہاڑی راستے پر اوپر جانا پڑا گزشتہ رات ان کا ایک گھوڑا اور اس کا سوار ضائع ہو چکے تھے یہ راستہ اس سے زیادہ تنگ اور خطرناک تھا گھوڑے ایک دوسرے کے پیچھے جارہے تھے ان کی رفتار بہت ہی سست تھی وہ جوں جوں آگے بڑھتے جارہے تھے راستہ تنگ ہی ہوتا جا رہا تھا اور آگے جاکر راستہ ختم ہوگیا آگے پہاڑی دیوار کی طرح کھڑی تھی
کیا اس حاجی نہیں یہی راستہ بتایا تھا سالار قزل ساروق نے اپنے ماتحتوں سے پوچھا جو اس کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے
اس نے کہا تھا کہ یہ راستہ اوپر جا کر نیچے اترے گا ایک ماتحت نے کہا یہاں اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں
قزل ساروق نے اس پہاڑی کی ڈھلان کو دیکھا اس سے آدمی سنبھل سنبھل کر اتر سکتا تھا اور گھوڑے بھی اتر سکتے تھے لیکن سواروں کے بغیر
کسی ایک سوار کو نیچے اتارو قزل ساروق نے اپنے ماتحت کماندروں سے کہا گھوڑے سے اتر کر گھوڑے کو ساتھ رکھیں
ایک جگہ ایسی مل گئی جہاں ڈھلان کا زاویہ زیادہ خطرناک نہیں تھا ایک سوار گھوڑے سے اترا اور باگ پکڑ کر ڈھلان سے اترنے لگا وہ کبھی دایاں کبھی بایاں جہاں پاؤں جمانے کو جگہ ملتی پاؤں جما کر اتر گیا گھوڑے خچر اور گدھے کو پہاڑی پر چڑھنے اور اترنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی قدرت نے ان کے پاؤں ایسے بنائے ہیں کہ پہاڑی سے پھسلتے نہیں
بلندی خاصی زیادہ تھی وہ سوار آخر اتر گیا قزل ساروق نے حکم دیا کے تمام سوار اسی طرح نیچے اتریں یوں لگا جیسے پہاڑی کا بالائی حصہ ٹوٹ کر بہت بڑے بڑے تودوں کی طرح نیچے کو سرک رہا ہو چند ایک گھوڑے گرے لڑکے اور سنبھل کر کھڑے ہوگئے آدمی گرتے سنبھلتے اترتے گئے اور جب سب اتر گئے تو سورج اپنا بہت سا سفر طے کر گیا تھا
سواروں کو اکٹھا کرکے کوچ شروع ہوا حاجی کی بتائی ہوئی نشانیوں کو دیکھتے وہ چلتے گئے بہت دور جا کر ایک پہاڑی کے درمیان سے انہیں راستہ مل گیا قدرت نے یہاں سے پہاڑی کو کاٹ دیا تھا اس سے نکل کر آگے گئے تو ایک پر شور ندی نے راستہ روک لیا چونکہ یہ علاقہ پہاڑی تھا اس لئے ندی کا بہاؤ بہت ہی تیز تھا پانی اتنا شفاف کے اس کی تہہ میں کنکریاں بھی دکھائی دے رہی تھیں ندی کم و بیش بیس گز چوڑی تھی درمیان میں اس کا بہاؤ بہت ہی تیز تھا گہرائی اتنی نہیں تھی کہ گھوڑے ڈوب جاتے گھوڑے ندی میں ڈال دیئے گئے درمیان میں گہرائی اتنی ہی تھی کہ پانی رکابوں تک آتا تھا لیکن بہاؤ اتنا تیز کے گھوڑے کے پاؤں اکھڑنے اور گھوڑے پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے بعض گھوڑے بہاؤ کے ساتھ ہی چلے گئے اور دور جا کر کنارے لگے آگے گھنا جنگل تھا ایسا گھنا بھی نہیں کہ اس میں سے گزرا ہی نہیں جاسکتا لیکن زمین ہموار نہیں تھی نشیب فراز تھی گھاٹیاں اور ٹیکریاں تھیں اور جگہ جگہ پانی جمع تھا اس کے اردگرد پھلن اور دلدل تھی گھوڑوں کو اسی میں سے گزارا گیا
وہ بہت ہی پرانا قلعہ تھا اور یہ کوئی بڑا قلعہ نہ تھا ایک جگہ سے دیوار کے پتھر گر پڑے تھے اور دیوار کی بلندی آدھی بھی نہیں رہ گئی تھی آدمی گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر قلعے کے اندر دیکھ سکتا تھا دروازوں کی لکڑی کو دیمک نے چاٹ لیا تھا ان کے لوہے کے فریم سلامت تھے ان فریموں نے ادھ کھائی لکڑی کو تھام رکھا تھا
قلعے کے اندر بہت ہی وسیع کھلی زمین تھی اس پر مکانوں کا ملبہ بکھرا ہوا تھا یہ ان لوگوں کے کچے پکے مکان تھے جو کبھی یہاں آباد تھے اس ملبے کے اردگرد قلعے کے کمرے تھے زیادہ تر کمروں کی چھتیں بیٹھ گئی تھیں کئی ایک کمرے ابھی سلامت تھے ان کی چھتوں میں چمگادڑوں نے بسیرا کر رکھا تھا
بڑے دروازے کے پیچھے ڈیوڑھی تھی اس کے پہلو میں بڑے کمرے تھے دیواروں کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا فرش اور دیواروں پر کائی اُگ کر خشک ہو گئی تھی معلوم نہیں وہ کون تھے جنہوں نے یہ قلعہ بنایا تھا اس سوال کا جواب بھی نہیں ملتا کہ اس دشوار گزار علاقے میں آکر یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا تھا علاقہ سرسبز اور خوبصورت تھا شاید صدیوں پہلے یہ علاقہ آباد ہوگا اب تو یہ چمگادڑوں اور بدروحوں کا مسکن تھا کوئی زندہ انسان تو اس میں جھانکنے کی بھی جرات نہیں کرتا تھا نہ جھانکنے کی ضرورت محسوس کرتا تھا
یہ قلعہ گزرگاہوں سے بہت دور تھا شاید ڈاکو اور رہزن کبھی یہاں چھپنے کے لیے آتے ہوں گے لیکن کچھ دنوں سے یہ قلعہ پھر سے آباد ہو گیا تھا آباد ہونے والوں کی تعداد کم و بیش تین سو تھی ان میں سات آٹھ عورتیں بھی تھیں آدمی جو تھے ان میں کئی ایک زخمی تھے شدید زخمی بھی تھے ان کے گھوڑے بھی تھے اور اونٹ بھی وہ عارضی طور پر یہاں آئے تھے یہاں سے انہیں اپنی منزل کو روانہ ہونا تھا لیکن ابھی انہوں نے منزل کے راستے کا تعین نہیں کیا تھا
سلجوقی سالار قزل ساروق کی یہی منزل تھی اور یہی اس کا ہدف تھا اس کا شکار اسی قلعے میں موجود تھا وہ حسن بن صباح تھا
حسن بن صباح تبریز خالی کر آیا تھا اسے معلوم تھا کہ پانچ سو سلجوقی سواروں اور ان کے سالار کو مار کر اس کا راستہ صاف نہیں ہوگیا بلکہ راستے کی دشواریاں پیدا ہوئی ہیں سلجوقیوں کے ساتھ اس کا یہ پہلا تصادم تھا اس نے سلجوقیوں کو اپنا خونی دشمن بنا لیا تھا پہلے تو ان کے ساتھ اس کا نظریاتی اختلاف تھا حسن بن صباح باطل عقیدے کا بانی اور علمبردار تھا سلجوقی صحیح العقیدہ مسلمان تھے وہ ایک اسلامی سلطنت میں حسن بن صباح کا وجود برداشت نہیں کر سکتے تھے اب نظریاتی اختلاف مرنے مارنے والی عداوت کی شکل اختیار کر گیا تھا
تبریز کے خونریز تصادم کے بعد حسن بن صباح خلجان شاہ در اور اپنے پیرومرشد احمد بن عطاش کی تحویل میں کسی بھی قلعے میں جا سکتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ اور خصوصاً ابو مسلم رازی جوابی کارروائی کریں گے اور فوراً کریں گے اور اسے زمین کی ساتویں تہہ میں سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے
یہ سوچ کر تبریز میں اس کے جتنے پیروکار فدائین اور وہاں تھوڑے سے جو لوگ آباد تھے ان سب کو ساتھ لے کر اس قدیم قلعے میں آگیا تھا یہ بتانا مشکل ہے کہ اسے کس نے مشورہ دیا تھا یا اسے کس نے اس قلعے کی نشاندہی کر کے کہا تھا کہ وہاں جا کر روپوش ہو جائے
تاریخوں میں آیا ہے کہ اس نے احمد بن عطاش کو اطلاع دے دی تھی کہ تبریز میں کیسی خون ریزی ہوئی ہے اور اب وہ ایک ایسے قلعے کے کھنڈروں میں روپوش ہے جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت وقت رہتا تھا حسن بن صباح ایک کمرے میں فرش پر بیٹھا تھا یہ کمرہ اس کے لیے خاص طور پر صاف کیا گیا تھا اس کے ساتھ جو لوگ آئے تھے انھوں نے فرش پر کمبل رکھیے اور ان پر صاف ستھری چادریں بچھا دیں تھیں تکیئے بھی رکھ دیے تھے اور یہ ان لوگوں کا سردار یا سالار نہیں بلکہ ان کا روحانی پیشوا تھا بعض نے اسے پیغمبری کا درجہ دے دیا تھا تبریز والوں نے دیکھا تھا کہ وہ بھاگنے کا راستہ دیکھ رہے تھے تو حسن بن صباح نے اللہ کو پکارا تھا پھر اس نے اعلان کیا تھا کہ وحی آ گئی ہے اللہ کی مدد آ رہی ہے پھر تین سو سوار آگئے تھے جنہوں نے سلجوقی سواروں کو بے خبری میں آ لیا اور انہیں ان کے سالار سمیت کاٹ کر پھینک ڈالا تھا
اور تم جانتے ہو حسن بن صباح کمرے میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چند ایک آدمیوں سے کہہ رہا تھا کہ ہر پیغمبر کو بھاگنا پڑا روپوش ہونا پڑا مصائب برداشت کرنے پڑے اور انہیں کہیں پناہ لینی پڑی حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون نے قتل کرنے کی کوشش کی رسول اللہﷺ کو مکہ سےنکل کر مدینہ میں پناہ لینی پڑی اگر میں آج ان کھنڈروں میں آ بیٹھا ہوں تو یہ نہ سمجھنا کہ مجھے اللہ نے فراموش کر دیا ہے یہ اللہ کا اشارہ تھا کہ میں یہاں آگیا ہوں پیغمبروں کے ساتھیوں کو اللہ نے عام لوگوں سے زیادہ اونچا رتبہ دیا ہے تم سب اللہ کی نگاہوں میں اونچے رتبے کے افراد ہو تم پر جب بھی مشکل وقت آئے گا اللہ تمہاری مدد کو پہنچے گا
وہ یہیں تک کہہ پایا تھا کہ باہر سے ایک آدمی کی بڑی بلند آواز سنائی دی حملہ آرہا ہے ھوشیار ہوجاؤ
حسن بن صباح چپ ہو گیا اور اس کے کان کھڑے ہوگئے
سلجوقیوں کا لشکر آ رہا ہے
بہت بڑا لشکر ہے
ولی کو اطلاع دے دو
ان آوازوں کے ساتھ جب دوڑتے قدموں کی آہٹیں سنائی دینے لگی تو حسن بن صباح اٹھا اور باہر نکل گیا اس نے اپنے آدمیوں میں ہڑبونگ مچی دیکھی کچھ آدمی قلعے کی ٹوٹی ہوئی خستہ حال سیڑھیوں سے اوپر جا رہے تھے اور کچھ دوسری طرف کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے انہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں شور و غل برپا کر رکھا تھا
زخمیوں کا کیا بنے گا
ہم اتنے بڑے لشکر سے نہیں لڑ سکتے
روک جاؤ! حسن بن صباح نے اپنی مخصوص گرجدار آواز میں کہا جو جہاں ہے وہیں رہے
حسن بن صباح بڑے تحمل اور اطمینان سے سیڑھیاں چڑھ گیا اور اس طرف دیکھا جس طرف اس کے آدمی دیکھ رہے تھے کم و بیش ڈیڑھ میل دور ایک ہزار سوار سمندر کی لہر کی طرح چلے آ رہے تھے ایک ہزار سوار بہت بڑی طاقت تھی قلعہ تو محض ایک کھنڈر تھا جس کے دروازے دیمک نے کھا لئے تھے حسن بن صباح کے ساتھ تین سو سے کچھ ہی زیادہ آدمی تھے جن میں آدھے تبریز کی لڑائی کے زخمی تھے ابو علی نے قزوین سے تین سو آدمی بھیجے تھے ان میں سے زیادہ تر واپس چلے گئے تھے
زخمیوں میں چند ایک ہی تھے جو لڑنے کے قابل تھے ان سب کا یہ واویلا بجا تھا کہ وہ اتنے بڑے لشکر سے نہیں لڑ سکیں گے لیکن وہ اپنے پیرومرشد یا امام حسن بن صباح کے چہرے پر سکون اور اطمینان دیکھ رہے تھے سالار قزل ساروق کے ایک ہزار سوار قریب آتے گئے ان کی رفتار اتنی سست تھی جیسے وہ آرام آرام سے سفر پر جا رہے ہوں
کیا خیال ہے ؟
حسن بن صباح نے ایک آدمی سے پوچھا جو اس کے ساتھ کھڑا تھا
اور قریب آنے دیں ساتھ والے آدمی نے کہا ان کی رفتار بتاتی ہے کہ وار خالی نہیں گیا
یہ تو میں دیکھ رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا یہاں سے انہیں گھوڑے دوڑا دینے چاہیئے تھے میں کچھ اثر دیکھ رہا ہوں
قلعے کی دیوار پر اور نیچے حسن بن صباح کے آدمیوں نے ایسا غل غپاڑہ بپا کر رکھا تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی
ہر آدمی اپنا ہتھیار لے کر لڑنے کے لیے تیار ہو جائے حسن بن صباح نے دیوار سے اندر کی طرف منہ کرکے اپنے آدمیوں کو حکم دیا تیر انداز اوپر آ جائیں
چونکہ یہ حسن بن صباح کا حکم تھا اور سب اسے ولی بھی مانتے تھے امام بھی اور بعض نے تو اسے پیغمبر بھی بنا دیا تھا انہوں نے حکم کی تعمیل کی لیکن بددلی اور بزدلی ان کے چہروں پر صاف نظر آرہی تھی زخمیوں نے الگ ہنگامہ مچا رکھا تھا وہ جانتے تھے کہ وہ تو معذوری اور بے بسی کی حالت میں ہیں مارے جائیں گے
دوسری طرف سے نکل بھاگو قلعے سے ایک آواز اٹھی
ہمیں ساتھ لے چلو بھائیو! یہ زخمیوں کی آہ و بکا تھی
حسن بن صباح نے دیوار پر کھڑے تیر اندازوں کو دیکھا پھر اندر کی طرف اپنے آدمیوں کو دیکھا اور ان کی باتیں سنیں باہر دیکھا تو ایک ہزار سواروں کا لشکر قلعے کے قریب آ گیا تھا اور گھوڑے قلعے کے دائیں بائیں پھیلتے جارہے تھے سالار قزل ساروق اور اس کے سواروں کے چہروں پر وہ غیظ وغضب نہیں تھا جو حملہ آوروں کے چہروں پر ہوا کرتا ہے
قزل ساروق کو تو آگ بگولا ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان باطنیوں نے اس کے ساتھی سالار امیر ارسلان کو قتل کیا تھا اور انہوں نے پانچ سو سلجوقی سوار مار ڈالے تھے لیکن قزل ساروق کے چہرے پر اطمینان سا تھا
حسن بن صباح نے اپنے آدمیوں کا جائزہ لے لیا تھا اس نے دیکھ لیا تھا کہ ان میں لڑنے کا دم نہیں اور نہ ہی ان میں جذبہ ہے اس حقیقت سے تو وہ آگاہ تھا کہ اتنے تھوڑے سے آدمی ایک ہزار سواروں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے وہ اچانک دیوار سے ہٹ کر پیچھے کو موڑا اور وہیں سے اندر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا
اللہ مجھے زمین پر اتارنے والے اللہ حسن بن صباح نے دونوں ہاتھ اور منہ آسمان کی طرف کرکے بڑی ہی بلند آواز میں کہا تیرا ایلچی جسے تو نے امامت بخشی ہے بہت بڑی مشکل میں آگیا ہے اپنی راہ میں لڑ کر زخمی ہونے والے بندوں پر رحم فرما اور اپنی خدائی کی لاج رکھ لے
حسن بن صباح پلٹ کر دیوار کی بیرونی طرف چلا گیا سالار قزل ساروق اس کے سامنے تھا اس سلجوقی سالار نے اپنے سواروں کو کوئی حکم نہیں دیا تھا وہ حسن بن صباح کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو
تم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہو؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہیں قزل ساروق نے اپنے ایک ماتحت سے پوچھا جو اس کے پاس موجود تھا
ماتحت نے اس کے منہ کی طرف دیکھا اور پھر منہ اوپر کرکے دیوار پر کھڑے حسن بن صباح کو دیکھنے لگا
حسن بن صباح ایک بار پھر پیچھے کو مڑا اس نے بازو اوپر کئے اور بڑی ہی گرجدار آواز میں اعلان کیا فرشتے اتر آئے ہیں حوصلوں کو مضبوط رکھو دشمن بھاگ رہا ہے
وہ پھر دیوار کے باہر کی طرف موڑا دو تیر اندازوں کو بلایا انہیں کچھ کہا انہوں نے ایک ایک تیر چلایا ایک تیر ایک سوار کے سینے میں اور دوسرا تیر ایک اور سوار کی شہ رگ میں اتر گیا دونوں سوار گھوڑوں سے گر پڑے
تم نے میرے سواروں کو کیوں مروایا ہے؟
سالار قزل ساروق نے حسن بن صباح سے پوچھا
اپنے سواروں کو یہاں سے لے جاؤ حسن بن صباح نے کہا ورنہ تمہارا ہر سوار اسی طرح مارا جائے گا پھر تمہیں گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑے کو بھگا دیا جائے گا
سالار قزل ساروق نے کچھ بھی نہ کہا اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کو موڑا اور چل دیا تمام سوار اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے
امام نے دشمن کو بھگا دیا ہے قلعے کی دیوار سے بڑی ہی بلند آواز اٹھی اوپر آ کر دیکھو
اپنے پیر و مرشد کا معجزا دیکھو ایک اور آواز اٹھی
پیرومرشد نہیں کسی نے گلا پھاڑ کر کہا نبی کہو خدا کا بھیجا ہوا امام کہو
نیچے والے تمام آدمی جن میں چند ایک عورتیں بھی تھیں دوڑتے ہوئے اوپر گئے اور حیرت زدگی کے عالم میں جاتے ہوئے سواروں کو دیکھنے لگے سلجوقی سوار جاتے جاتے جنگل کی ہریالی میں تحلیل ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی سورج مغرب والی بلند و بالا پہاڑیوں کے پیچھے چلا گیا
حسن بن صباح دیوار پر ہی کھڑا رہا اور اس کی نظریں ادھر ہی لگی رہیں جدھر سالار قزل ساروق اور اس کے سوار نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے
امام کو سجدہ کرو کسی کی آواز اٹھی
سب لوگ جیسے اسی آواز کے منتظر تھے جو دیوار پر تھے وہ دوڑتے آئے اور حسن بن صباح کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے نیچے والے آدمی جہاں تھے وہیں سے انہوں نے منہ حسن بن صباح کی طرف کر لئے اور سجدے میں چلے گئے
حسن بن صباح کا سینہ تن گیا شروع سے اس کے ساتھ جو ادھیڑ عمر آدمی موجود رہا تھا جسے اس نے کہا تھا کہ میں کچھ اثر دیکھ رہا ہوں وہ بھی سجدے میں تھا حسن بن صباح نے اسے آہستہ سے پاؤں کی ٹھوکر ماری اس آدمی نے سر اٹھا کر دیکھا حسن بن صباح نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا وہ آدمی اٹھا تو حسن بن صباح نے اس کے کان میں کوئی بات کہی
کیا ہم اپنے فرشتوں کو واپس بلا لیں ؟
اس آدمی نے اپنی آواز کو بھاری کرکے جلالی لہجے میں کہا بولو میرے امام!
ہاں خداوند دو عالم! حسن بن صباح نے کہا میں اپنے بندوں کی طرف سے تیری ذات باری کا شکر ادا کرتا ہوں تیرے فرشتوں نے ہمارے دشمن کو بھگا دیا ہے
سب لوگ ابھی تک سجدے میں تھے وہ حسن بن صباح کے ساتھی کی آواز کو خدا کی آواز سمجھے تھے
اٹھو! حسن بن صباح نے کہا تم نے اللہ کی آواز سن لی ہے
سب سجدے سے اٹھے اب ان کے چہروں پر کچھ اور ہی تاثر تھا بعض کے منہ سے حیرت یا جوش عقیدت سے کھل گئے تھے اور وہ حسن بن صباح کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ بھی اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ تھا اور وہ ابھی غائب ہو جائے گا اور آسمان پر جا پہنچے گا
عورتیں جو نیچے تھیں دوڑتی اوپر آئیں ہر ایک نے باری باری آگے بڑھ کر حسن بن صباح کا دایاں ہاتھ پکڑا آنکھوں سے لگایا اور چوما
شام کا دھندلکا گہرہ ہو رہا تھا قلعے کے اندر مشعلیں جل اٹھی تھیں حسن بن صباح آہستہ آہستہ چلتا سیڑھیوں سے اترا اس کی چال میں اور اس کے چہرے پر جلالی تاثر تھا اس کے ہر آدمی کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس کے قریب ہو کر اسے ہاتھ لگائے اور دیکھے کہ یہ شخص انسان ہے یا اللہ کی پسندیدہ کوئی آسمانی مخلوق ہے تبریز میں بھی اس نے اللہ سے مدد مانگی تھی تو اللہ نے ایسی مدد بھیجی تھی کہ سلجوقیوں کے تمام کے تمام سوار مارے گئے تھے
شام کھانے کے بعد قلعے میں جشن کا سماں بندھ گیا عورتوں نے گیت گائے آدمی پاگلوں کی طرح ناچے انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر لیا تھا اور تھوڑے سے وقت میں پکا بھی لیا تھا وہاں کوئی چیز نہیں تھی تو شراب نہیں تھی شراب حسن بن صباح نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی اس کے پیروکار اور مرید شراب کو اللہ کے حضور پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے
فتح کا یہ جشن بہت دیر بعد ختم ہوا سب سے زیادہ خوش تو وہ زخمی تھے جو لڑنا تو دور کی بات ہے چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے وہ بال بال بچ گئے تھے
وقت آدھی رات کا تھا حسن بن صباح اپنے کمرے میں بیٹھا تھا فانوس جل رہا تھا شراب کی صراحی اور پیالے سامنے رکھے تھے وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پاس ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا اور ایک جواں سال عورت بھی تھی وہ ایک حسین عورت تھی جس کی آنکھیں مسکراتی تھیں اس کے ہونٹوں کے تبسم میں ایسا تاثر تھا کہ دیکھنے والا اس سے نظریں ہٹا نہیں سکتا تھا
یہ ادھیڑ عمر آدمی وہی تھا جو قزل ساروق کو صبح سویرے وادی میں ملا تھا اور اس نے اپنا تعارف کرایا تھا کہ وہ اپنی بیوی اور اپنے دو بیٹوں کے ساتھ حج کر کے آیا ہے اس کے ساتھ جو بیوی تھی وہ یہی عورت تھی جو حسن بن صباح کے پاس بیٹھی شراب پی رہی تھی یہ اس شخص کی بیوی نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے خصوصی اور خفیہ گروہ کی عورت تھی اور ان کے ساتھ وادی میں جو دو لڑکے تھے وہ ان کے کچھ نہیں لگتے تھے وہ تبریز سے آئے ہوئے ایک آدمی کے دو بیٹے تھے
یہ صرف تمہارا کمال ہے اسماعیل! حسن بن صباح نے اس آدمی سے کہا مجھے توقع نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی یہ کام کر سکو گے نہ کر سکتے تو میں تمہیں بے قصور اور مجبور سمجھتا
وہاں نہ سہی عورت نے کہا یہ سلجوقی وہاں نہ ملتے تو کہیں اور مل جاتے خوش نصیبی یہ ہوئی کے یہ ہمیں جلدی مل گئے
میں نے انہیں غلط راستے پر ڈال دیا تھا اسماعیل نے کہا وہ ٹھیک راستے پر آ رہے تھے اس راستے سے وہ جلدی یہاں تک پہنچ جاتے میں نے یہ سوچ کر انہیں غلط راستے پر ڈال دیا تھا کہ کھجوروں اور پانی کو اپنا اثر پورا کرنے کا وقت مل جائے آپ نے بتایا تھا کہ ان میں جو چیز ملائی گئی ہے اس کا اثر دیر سے شروع ہوتا ہے
میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے ایک خوشی یہ بھی ہے کہ اس دوائی کا یہ پہلا تجربہ کیا گیا ہے مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ اس حد تک کامیاب ہوگا کہ ایک ہزار کے لشکر کو ذہنی طور پر مفلوج کر دے گا اور مفلوج بھی اس طرح کرے گا کہ متاثرہ آدمی ہر کام ٹھیک ٹھاک کرے گا لیکن جذباتی لحاظ سے اتنا سرد ہوجائے گا کہ کسی کو لڑنے جھگڑنے کے لیے نہیں للکارے گا اور اگر اسے کوئی للکارے گا تو وہ بزدلوں کی طرح منہ موڑ جائے گا
تو کیا یہ لشکر صحیح وسلامت اپنی منزل پر پہنچ جائے گا؟
اسماعیل نے پوچھا
کیا وہ یہاں تک صحیح سلامت نہیں پہنچ گئے تھے حسن بن صباح نے کہا وہ جو تمہارے بتائے ہوئے اتنے دشوار راستے سے یہاں تک پہنچ گئے تھے واپس بھی چلے جائیں گے
یہ اثر کب تک رہے گا؟
اسماعیل نے پوچھا
شاید دو دن تک حسن بن صباح نے جواب دیا
ایک اور بات امام! اس جواں سال عورت نے پوچھا جو اس کام میں شامل تھی ایسا کیوں نہ کیا گیا کہ اسی دوائی کی زیادہ مقدار کھجوروں اور پانی میں ملا دی جاتی تاکہ یہ لشکر جہاں تھا وہیں سے واپس چلا جاتا
اس میں ایک راز ہے حسن بن صباح نے ہنستے ہوئے کہا اس لشکر کو وہیں سے واپس بھیجا جا سکتا تھا اور جس عقیدے سے انہوں نے تمہاری دی ہوئی کھجوریں اور ندی کے پانی کو آب زمزم سمجھ کر منہ میں ڈال لیا تھا انہیں انہی کھجوروں اور پانی میں زہر بھی دیا جاسکتا تھا جس کا نہ کوئی ذائقہ ہوتا ہے نہ بو لیکن انہیں تک زندہ آنے اور زندہ واپس جانے دیا گیا ولی اور پیغمبر ہر کوئی نہیں بن سکتا بنتا وہ ہے جس کی سوچ آسمانوں تک چلی جاتی ہے میں نے ان لوگوں کو یہ معجزہ دکھانا تھا جو ہمارے ساتھ ہیں انہوں نے یہ دیکھا کہ میرے کہنے پر آسمان سے مدد آئی جو نظر نہیں آتی تھی پھر ان آدمیوں نے دیکھا کہ اتنا طاقتور گھوڑسوار لشکر میری ہلکی سی للکار پر واپس چلا گیا اب یہ لوگ جہاں جائیں گے میرا یہ معجزہ سنائیں گے انسانی فطرت میں زیب داستان بھی موجود ہے اس لیے یہ لوگ میرا معجزہ بیان کرتے زیب داستان کے لئے مبالغہ آرائی بھی کریں گے کہ تین سو انسان تین ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ تعداد کو میرے پاس کھینچ لایئں گے
بلکہ یہ تعداد کھینچی ہوئی آئے گی اسماعیل نے کہا مسلمان کی عقیدت مندی کی بھی کوئی حد نہیں اسے کہیں کی ذرا سی مٹی پڑیا میں باندھ کر دے دو اور کہو کہ یہ مکہ اور مدینہ کی سوغات ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے یہ مٹی کھا لے گا ایسے ہی اس سلجوقی سالار اور اس کے ساتھیوں نے میری دی ہوئی کھجور حجاج کی کھجوریں سمجھ کر بڑے احترام سے کھالی اور جب میں نے ندی میں سے بھری ہوئی صراحی دکھا کر کہا کہ یہ زم زم کا پانی ہے تو سالار نے فوراً ایسا انتظام کر لیا کہ سارے لشکر کو پانی پلا دیا
تم بڑے کام کی چیز ہو خدیجہ! حسن بن صباح نے اس جواں سال اور دلنشین عورت کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ابھی تو میں نے تم سے بہت کام لینا ہے حسن بن صباح نے خدیجہ کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے لیا اور اسماعیل کی طرف دیکھا
اسماعیل اشارہ سمجھ گیا وہ کمرے سے نکل گیا
بیشتر مؤرخوں نے تبریز کی لڑائی کا ذکر کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ سالار امیر ارسلان اور اس کے سوار مارے گئے انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک باطنی سردار ابو علی نے قزوین سے تین سو باطنی سواروں کی کمک بھیجی تھی پھر انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ نے غصے کے عالم میں سالار قزل ساروق کو ایک ہزار سوار دے کر بھیجا تھا اور اس کے ساتھ حکم یہ دیا تھا کہ واپس آؤ تو حسن بن صباح تمہارے ساتھ ہو زندہ یا مردہ
یہ سب باتیں تو ان مؤرخوں نے لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کوئی گمنام سا قلعہ تھا یہاں سے بھی حسن بن صباح کے پیروکار بھاگ نکلنے پر اتر آئے تھے اور حسن بن صباح نے تبریز والا مظاہرہ کیا تھا کہ وحی نازل ہو گئی ہے اور خدائی مدد آ رہی ہے یہ سن کر سب کے حوصلے قائم ہوگئے تھے اس کے بعد کیا ہوا؟
ان مؤرخوں میں سے کسی نے بھی نہیں لکھا کہ اس لڑائی کا انجام کیا ہوا یہاں آ کر ان کی لکھی ہوئی تاریخ ایسے اندھیرے میں چلی جاتی ہے جہاں کچھ نظر نہیں آتا البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح قلعہ المُوت میں پہنچ گیا
داستان گو نے قزل ساروق اور اس کے سواروں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کا جو واقعہ سنایا ہے یہ تین غیر معروف سے مؤرخوں نے کچھ ایسے حوالوں اور دلائل سے لکھا ہے کہ یہ قابل قبول اور مستند سمجھا جاتا ہے ان میں اٹلی کا ایک تاریخ نویس بانسولینی خاص طور پر قابل ذکر ہے اس کی تحریری اطالوی زبان میں ملتی ہیں جن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا گیا ہے
بظاہر یہ واقعہ افسانوی سا لگتا ہے لیکن حسن بن صباح کو خدا نے ایسا دماغ دیا تھا جسے اگر مافوق الفطرت یا بالائی سطح انسانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس کی تاریخ کا مطالعہ گہرائی میں جا کر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنے ابلیسی فرقے کی بنیاد انسان کی فطری کمزوریوں پر رکھی تھی ان میں ایک تو عورت اور دوسری تھی نشہ یہ دونوں چیزیں جب انسان کے دماغ پر غالب آجاتی ہیں تو پھر وہ انسان اگر ضرورت پڑے تو اپنے بچوں تک کو قتل کر دیتا ہے لیکن پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح کی کامیابی کا راز حشیش اور حسین عورتیں تھیں
حسن بن صباح جہاں بھی جاتا تھا اس کا جاسوسی کا نظام اس کے ساتھ ہوتا تھا وہ تبریز سے نکلا تو اس نے اپنے دو تین آدمی اس علاقے میں چھوڑ دیے تھے سالار قزل ساروق تبریز پہنچا تو اتنی دور بیٹھے ہوئے حسن بن صباح کو اطلاع مل گئی اگر نیم پاگل سا شخص قزل ساروق کے جاسوس کو نہ بتاتا کہ حسن بن صباح کا قافلہ فلاں طرف گیا ہے تو وہاں تک کوئی بھی نہ پہنچ سکتا لیکن انہیں دو تین مکانوں میں سے ایک آدمی نے حسن بن صباح تک اطلاع پہنچا دیں کہ اس کی نشاندہی ہوگئی ہے اور ایک ہزار سواروں کا لشکر آ رہا ہے
حسن بن صباح کو اطلاع ملی تو اس نے وہاں سے کہیں اور بھاگ جانے کی بجائے یہ طریقہ سوچ لیا جو بیان کیا گیا ہے اس نے اپنا خفیہ گروہ ساتھ رکھا ہوا تھا جس میں اسماعیل بھی تھا اور خدیجہ بھی فوراً یہ طریقہ سوچ لیا گیا پھر جس طرح اسماعیل اور خدیجہ میاں بیوی کے روپ میں دو لڑکوں اور ایک ٹٹوں کے ساتھ روانہ ہو گئے یہ حسن بن صباح کے دماغ کا بے مثال کمال تھا اسماعیل اور خدیجہ رات بھر ان سواروں کے انتظار میں ایک جگہ بیٹھے رہے تھے صبح انہیں یہ لشکر مل گیا
سالار قزل ساروق اپنے سواروں کے آگے آگے گھوڑے پر سوار چلتا گیا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے ذہن سے یہ اتر ہی گیا ہوں کہ وہ کس مقصد کے لیے ادھر آیا تھا اس کا انداز ایسا تھا جیسے لوگ سیر سپاٹے کے لئے آئے ہوں ان کے دماغ صحیح کام کر رہے تھے وہ راستہ بھولے نہیں تھے ان کے دماغ اس وقت بھی حاضر تھے جب وہ بڑی خطرناک حد تک پہاڑی راستوں پر جا رہے تھے البتہ انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ کہیں رات بھر کے لیے پڑاؤ بھی کرنا ہے
انہوں نے دن کے وقت پڑاؤ کیا کھانا تیار کیا کھایا بھی اور سو گئے چونکہ ان کے احساس زندہ نہیں تھا اور یہ احساس سویا ہوا تھا وہ ایسے سوئے کہ اگلی صبح جاگے اور چل پڑے تاریخوں میں یہ کھوج نہیں ملتا کہ وہ کتنے پڑاؤ کر کے مرو پہنچے یہ سراغ ملتا ہے کہ وہ مرو سے ابھی کچھ دور ہی تھے تو سالار قزل ساروق نے اپنے سر کو زور سے ہلایا اور لشکر کو روک لیا اس نے اپنے ماتحتوں کو بلایا وہی ماتحت جو خوش وخرم چلے آرہے تھے اب کسی اور ہی ذہنی کیفیت میں تھے ان کے چہروں پر حیرت اور تذبذب کے تاثرات تھے
تم کیا محسوس کر رہے ہو؟
سالار قزل ساروق نے ان سے پوچھا اور اپنی کیفیت یوں بیان کی لگتا ہے ہم خواب میں کہیں گھومتے پھرتے رہے ہیں اور شاید حسن بن صباح کو دیکھا تھا
میں بھی یہی محسوس کر رہا ہوں ایک ادھیڑ عمر ماتحت نے کہا کچھ کچھ یاد آرہا ہے کہ ہم وہاں تک پہنچے تھے
مجھے یاد ہے کہ ایک حاجی اس کی بیوی اور دو بیٹے ملے تھے ایک اور ماتحت کمانڈر نے کہا پھر مجھے ندی تک یاد ہے
سالار قزل ساروق یوں چونک کر سیدھا ہوگیا جیسے سب کچھ یاد آگیا ہو
ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے اس نے کہا ہم سلطان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے لیکن میرے رفیقو! سلطان کے آگے جھوٹ نہیں بولنا جو ہوا ہے وہ من و عن بیان کرنا ہے اگر سلطان کو رحم آگیا تو وہ ہمیں معاف کر دے گا ورنہ وہ جو بھی سزا دے گا وہ ہم دل و جان سے قبول کریں گے
پھر یوں کرو دوستو! ایک ماتحت کماندار نے کہا اگر سلطان نے ہمیں سبکدوش کر دیا تو آؤ حلفیہ یہ عہد کریں کہ ہم اپنے طور پر سب مل کر حسن بن صباح کو زندہ یا مردہ سلطان کے سامنے پیش کریں گے اور اس کے گروہ کے ایک بھی آدمی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
اگر سلطان نے ہمیں قید میں ڈال دیا ایک اور کماندار نے کہا تو ہم اسے کہیں گے کہ ہمیں اپنی اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے آزاد کرے
یہ بھی سوچ لو دوستو! سالار قزل ساروق نے کہا حسن بن صباح کی جگہ کوئی اور دشمن ہوتا تو سلطان ہماری اس غلطی کو جو ہم سے دھوکے میں ہوئی معاف کر دیتا لیکن یہاں معاملہ حسن بن صباح اور اسلام کے تحفظ کا ہے سلطان مجھے اور تم سب کمانداروں کو سزائے موت بھی دے سکتا ہے اور مجھے توقع سزائے موت کی ہی ہے لیکن ہماری وفاداری یہ ہے کہ ہم اس کے سامنے جائیں گے اور مرنے کے لیے تیار ہو کر جائیں گے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:23 }
سلطان ملک شاہ کو سالار قزل ساروق پر اتنا زیادہ اعتماد تھا کہ اس نے ایک بار بھی ایسے شک کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کا یہ سالار ناکام لوٹے گا اس کا دانشمند وزیر خواجہ حسن طوسی نظام الملک دو تین بار کہہ چکا تھا کہ قزل ساروق کا کوئی پیغام نہیں آیا کم از کم ایک پیغام تو آنا چاہیے تھا
لومڑی کا شکار آسان نہیں ہوتا خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا کیا آپ نہیں جانتے کہ حسن بن صباح جنگجو دشمن نہیں وہ لومڑی ہے وہ دکھاتا تلوار ہے اور مارتا برچھی ہے ہمارا سالار امیر ارسلان اس کے دھوکے میں مارا گیا ہے وہ ان باطنیوں سے دو بدُو لڑائی لڑا ہے لیکن اس پر وار پیٹھ پیچھے سے ہوا تھا قزل ساروق دھوکے میں نہیں آئے گا وہ وثوق سے کہہ گیا تھا کہ وہ واپس آئے گا تو حسن بن صباح زندہ یا مردہ اس کے ساتھ ہوگا نہ ہوا تو وہ خود بھی واپس نہیں آئے گا
نظام الملک خاموش رہا جیسے سلطان ملک شاہ کی اس بات کو وہ خوش فہمی سمجھا ہو اور اسے قزل ساروق کی کامیابی مشکوک نظر آرہی ہے تاریخ شاہد ہے کہ خواجہ حسن طوسی دانشمند اور دوراندیش تھا اس کی نگاہیں اس حد سے آگے نکل جایا کرتی تھی جس حد تک ملک شاہ کی نگاہی دیکھ سکتی تھیں ملک شاہ اس کی دور اندیشی کا قائل تھا،, یہ الفاظ سلطان ملک شاہ کے ہی ہیں کہ خواجہ حسن طوسی روح کی آنکھ سے دیکھتا اور روحانی طاقت سے مشکلات پر قابو پا لیتا ہے
پھر ایک روز جب سورج ڈھل رہا تھا سلطان ملک شاہ کے محل کے قریب ایک بڑی ہی بلند آواز اٹھی لشکر واپس آ رہا ہے
پھر دوڑتے قدموں کے ساتھ آوازوں کا طوفان آگیا
سالار قزل ساروق آ رہا ہے
لشکر پورا معلوم ہوتا ہے
فاتح آ رہے ہیں
سلطان عالی مقام! دربان نے سلطان ملک شاہ کو اطلاع دی سالار قزل ساروق کا لشکر واپس آ رہا ہے شہر سے ابھی کچھ دور ہے
ہمارا اور نظام الملک کا گھوڑا فوراً تیار کرو ملک شاہ نے کہا
نظام الملک باہر کی آوازیں سن کر ملک شاہ کے پاس پہنچ گیا ہم قزل ساروق کا استقبال شہر سے باہر کریں گے سلطان ملک شاہ نے کہا
سلطان اور نظام الملک گھوڑوں پر سوار شہر سے نکل گئے محافظ دستے کے چار سوار ان کے آگے اور بارہ پیچھے جارہے تھے سالار قزل ساروق اور اس کے ایک ہزار سوار شہر سے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے
قزل ساروق نے ہمیں دیکھ کر بھی اپنے گھوڑے کو ایڑ نہیں لگائی ملک شاہ نے نظام الملک سے کہا کیا یہ فتح کے نشے کا اظہار ہے؟
اس کا چہرہ اور اس کا اندازہ فتح والا نہیں لگتا نظام الملک نے کہا اگر یہ فتح کے نشے سے سرشار ہوتا تو ہمیں دیکھتے ہی گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہم تک پہنچ چکا ہوتا یہ تو لگتا ہے بڑی مشکل سے گھوڑے پر بیٹھا ہوا ہے
اور لشکر بھی خاموشی سے آرہا ہے سلطان ملک شاہ نے کہا اور گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی
قریب آکر قزل ساروق نے اپنا گھوڑا لشکر کے آگے سے ایک طرف کر لیا اور ملک شاہ کے سامنے رک گیا
خوش آمدید ساروق! سلطان ملک شاہ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اگر تم حسن بن صباح کو زندہ یا مردہ اپنے ساتھ نہیں لا سکے تو یہ شرم شاری کی معقول وجہ نہیں سلطان ملک شاہ نے دیکھا کہ اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور قزل ساروق نے اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا
سالار قزل ساروق! نظام الملک نے کہا سلطان مکرم نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے کر رکھا ہے میرا خیال ہے سالار کا رتبہ اتنا اونچا نہیں کہ وہ سلطان کے ہاتھ کو یوں نظر انداز کردے
ٹھیک فرمایا محترم وزیراعظم! قزل ساروق نے کہا لیکن آپ کا یہ سالار اس قابل نہیں رہا کہ سلطان عالی مقام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے
کیوں ؟
سلطان ملک شاہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے پوچھا کیا ہم غلط سمجھ رہے ہیں کہ تم فاتح لوٹے ہو سلجوق سالار شکست سے نہ آشنا ہوتا ہے
سلطان مکرم! سالار قزل ساروق نے کہا میری فتح یہی ہے کہ میں پورے دستے کو زندہ لے آیا ہوں صرف دو سوار ضائع ہوئے ہیں لیکن یہ فتح حسن بن صباح کی ہے کہ ہم لڑیں بغیر واپس آگئے ہیں اگر وہ ہم پر حملہ کر دیتا تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آتا کیا سلطان مکرم اجازت دیں گے کہ آرام سے بیٹھ کر پورا واقعہ سناؤں
ایک ہزار سواروں کا لشکر جس میں سے صرف دو آدمی کم ہوئے تھے ان کے قریب سے گزرتا جا رہا تھا سلطان ملک شاہ سواروں کے چہرے دیکھ رہا تھا ہر چہرہ سپاٹ تھا یہ ماتمی جلوس لگتا تھا
ہمارے ساتھ آؤ سلطان ملک شاہ نے کہا
سلطان کے یہاں جاکر سالار قزل ساروق نے سلطان اور نظام الملک کو تمام واقعہ سنادیا کچھ بھی نہ چھپایا
اس قدیم قلعے کی دیوار سے دو تیر آئے سالار قزل ساروق نے کہا اور میرے دو سوار مارے گئے میں بہت حیران ہوا کہ ان تیر اندازوں نے ان سواروں کو کیوں مار ڈالا ہے دیوار پر ایک اور آدمی کھڑا تھا وہ حسن بن صباح تھا لیکن اس وقت وہ کوئی اور لگ رہا تھا اس نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ہم یہاں کیوں آئے ہیں حسن بن صباح نے کہا یہاں سے چلے جاؤ
اور تم واپس چلے آئے سلطان ملک شاہ نے کہا
ہاں سلطان مکرم! قزل ساروق نے کہا میں کچھ نہیں سمجھ سکا اس کے آنسو بہہ نکلے
کیا آپ کو یاد ہے وہاں اور کیا کچھ ہوا تھا؟
نظام الملک نے پوچھا
یاد ہے قزل ساروق نے رندھی ہوئی آواز میں کہا سب کچھ یاد ہے لیکن خواب کی طرح
حوصلہ مت ہارو ساروق! سلطان ملک شاہ نے کہا ہم جانتے ہیں یہ کیا ہوا تھا ،؟یہ بتاؤ کہ واپسی سفر کے دوران تم اپنے آپ میں آئے تو تم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ واپس جا کر قلعے پر حملہ کر دو؟
سوچا تھا سلطان عالی مقام! قزل ساروق نے جواب دیا اپنے ساتھی کمانڈروں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا تو سب نے کہا کہ واپس جانا بیکار ہے جس طرح باطنی تبریز میں سالار امیر ارسلان اور اس کے پانچ سو سواروں کو قتل کر کے آگے نکل گئے تھے اسی طرح ان کھنڈروں سے نکل کر کہیں اور چلے گئے ہونگے حقیقت یہ ہے سلطان محترم مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ میں کچھ بھی فیصلہ نہ کر سکا میں نے جو لڑائیاں لڑی ہیں وہ آپ کو یاد ہونگی میں خود بھی نہیں گن سکتا کہ میرے جسم پر کتنے زخموں کے نشان ہیں سلطنت سلجوقی کی بنیادوں میں میرا اتنا زیادہ خون رچا بسا ہوا ہے کہ آج آپ بھی اس کی بو سونگھ سکتے ہیں کیا کوئی مان سکتا ہے کہ میں ڈر کر بغیر لڑے واپس آ گیا ہوں
تم پر کوئی الزام نہیں ساروق! نظام الملک نے کہا تمہارے اور تمہارے لشکر کے ہوش و حواس ان کھجوروں نے گم کیے تھے جو تم مکہ معظمہ کی سوغات سمجھ کر کھا گئے تھے اور تم سب کی سوچنے کی صلاحیت اس پانی نے سلب کی تھی جسے تم آب زمزم سمجھے تھے
خواجہ طوسی! سلطان ملک شاہ نے کہا فوج کے لئے آج حکم جاری کر دو کہ باہر جاکر کوئی فوجی وہ سالار ہے یا سپاہی کسی اجنبی کے ہاتھ سے کوئی چیز نہیں کھائے گا نہ کسی بھی قسم کا مشروب پئے گا نہ پانی قزل ساروق! تم دھوکے میں آ گئے تھے جاؤ آرام کرو اپنے تمام لشکر سے کہہ دینا کہ تم پر کوئی الزام نہیں اور تمام سواروں کو بتا دینا کہ تمہیں کھجور اور پانی میں کوئی ایسا نشہ ملایا گیا تھا جس نے تمہاری عقل اور جذبے کو سلا دیا تھا انہیں یہ بتانا اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس وہم میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جس سے وہ دشمن کی پوری فوج کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے
لشکر کے متعلق تو میں نے بتایا ہی نہیں قزل ساروق نے کہا میں نے اور میرے ماتحت کماندروں نے سواروں کو یہ بتایا تھا لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ کئی ایک سوار اس وہم کو قبول کر چکے ہیں کہ حسن بن صباح کو خدا نے ایسی روحانی طاقت دی ہے کہ وہ اپنے جس دشمن کی طرف دیکھتا ہے وہ دشمن ہلاک ہو جاتا ہے یا ہماری طرح حسن بن صباح کی طرف پیٹھ کرکے وہاں سے غائب ہو جاتا ہے یہ سب سوار میرے ساتھ آ گئے ہیں لیکن ان کے دلوں میں وہم موجود ہے
ہم اس کا انتظام بھی کر لیں گے سلطان ملک شاہ نے کہا تم جاؤ
میں آپ کا ممنون ہوں سلطان عالی مقام! قزل ساروق نے کہا آپ نے میری خطا معاف کی لیکن میں اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتا میں اس دھوکے کا انتقام لونگا ،یں گناہ کا کفارہ ادا کروں گا
میں تمہارے جذبات کو سمجھتا ہوں ساروق! سلطان ملک شاہ نے کہا لیکن تم نے وہ دشمن دیکھ لیا ہے جس سے تم انتقام لینا چاہتے ہو یہ آمنے سامنے آ کر لڑنے والا دشمن نہیں اس کے لیے ہمیں کوئی اور طریقہ سوچنا پڑے گا اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم جو تجربے کار سالار ہو اپنے منتخب سواروں کے ساتھ زندہ واپس آگئے ہو امیر ارسلان کی طرح تمام سواروں کے ساتھ مارے نہیں گئے اس دشمن کی سرکوبی میرا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی جہاد ہے حسن بن صباح اور احمد بن عطاش نے اسلام کے نام پر ایک اور فرقہ بنا لیا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اس فرقے میں شامل ہو رہے ہیں
سالار قزل ساروق وہاں سے چلا گیا لیکن اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک کی باتوں سے مطمئن نہ ہوا ہو اس کا سوار دستہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر گھوڑے کھول چکا تھا ہر سوار کو آٹھ دس فوجیوں نے گھیر لیا اور ان سے سن رہے تھے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں
آپ نے کیا سوچا ہے خواجہ! سلطان ملک شاہ نے نظام الملک سے پوچھا
ہمارے پاس فوج ہے نظام الملک نے کہا باطنیوں کی کوئی فوج نہیں لیکن ہم نے ان پر دوبارہ حملہ کرکے کیا حاصل کیا ہے ہمارے ایک سالار اور پانچ سو سواروں کو کس نے قتل کیا ہے؟
ان لوگوں نے جن پر حسن بن صباح نے اپنی عقیدت مندی کا جنون طاری کر رکھا ہے انہوں نے اپنی جانیں اس شخص کے لیے وقف کر رکھی ہیں دوسرے حملے کا انجام دیکھ لیں اس سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ یہ شخص جس کا نام حسن بن صباح ہے اپنے مریدوں اور اندھی عقیدت رکھنے والے پیروکاروں سے ہماری فوج کو خون میں نہلا سکتا ہے جس طرح اس نے سالار اور اس کے دستے کو بےکار کیا ہے
لیکن خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا میں آپ کا یہ مشورہ نہیں مانوں گا کہ حسن بن صباح کو ہم بھول جائیں
میں ایسا مشورہ دوں گا بھی نہیں اعلی مقام! نظام الملک نے کہا میں نے عہد کر رکھا ہے کہ حسن بن صباح کو گرفتار کرکے اسے جلاد کے حوالے کردوں گا
گرفتار کیسے کریں گے؟
ابھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکوں گا نظام الملک نے جواب دیا ابھی یہی کہوں گا کہ ضروری نہیں حسن بن صباح کی سرکوبی کے لیے فوج ہی استعمال کی جائے میں ادھر سے غافل نہیں عالی جاہ میں نے جاسوس بھیج رکھیں ہیں اب تک مجھے جو اطلاعیں ملی ہیں ان سے بڑی بھدی اور خطرناک تصویر سامنے آتی ہے یہ آپ کو پہلے ہی معلوم ہے کہ حسن بن صباح ان علاقوں کا بے تاج بادشاہ بن چکا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے اور اس کی مقبولیت بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے
خواجہ حسن طوسی! سلطان ملک شاہ نے یوں کہا جیسے اچانک بیدار ہو گیا ہو ہم نے کوئی علاقہ اور کوئی ملک فتح نہیں کرنا آپ کہتے ہیں کہ حسن بن صباح لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے ہم نے لوگوں کے دلوں کو باطل اور ابلیسیت سے آزاد کرانا ہے اور یہ مہم تبلیغ سے نہیں ہوگی یہ مبلغوں کا نہیں یہ مجاہدین کا کام ہے آپ کو ہماری سلطنت کی تاریخ تو معلوم ہی ہے خواجہ! اہل سلجوق اسلام قبول کرکے یہ سلطنت قائم نہ کرتے تو اسلام کی بنیادیں ہل چکی ہوتیں اور اللہ کا یہ دین بڑا پرانا قصہ بن چکا ہوتا پہلا دفاع اپنے دین کا پھر اپنی سلطنت کا دین قائم و دائم ہے تو ہم سب قائم ہیں جس کا دین اور ایمان ہی نہ رہے اس کی نگاہوں میں آزادی اور غلامی میں کوئی فرق نہیں رہتا اسلام کو سامنے رکھو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسلام کی بیخ کنی کے لئے ہو رہا ہے
سلطان عالی مقام! نظام الملک نے کہا رسول اللہﷺ کی پیشن گوئی پوری ہو رہی ہے آپ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری امت فرقوں میں بٹ جائے گی اسلام کی بیخ کنی تو یہ فرقہ بندی کر رہی ہے
باتوں کا وقت نہیں رہا خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا اب ہمیں کچھ کرنا ہوگا
سلطان معظم! نظام الملک نے کہا صرف دو آدمیوں کو روئے زمین سے اٹھا دیا جائے تو یہ فتنہ اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا
حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کو! ملک شاہ نے کہا یہ میں سو چکا ہوں کرنا یہی پڑے گا
لیکن یہ کام آسان نہیں نظام الملک نے کہا پھر بھی میں اس کا انتظام کرو گا یہ انتظام کرنا پڑے گا
سلجوق سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی کا جذبہ قابل قدر تھا ملک شاہ تو انتقام کی آگ میں جلنے لگا تھا اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سلطانی یا بادشاہی کے نشے میں لاؤ لشکر لے کر چڑھ دوڑتا اور نقصان اٹھاتا سلطان ملکشاہ دانش مند تھا اور ہر طرح کی صورتحال میں ہوش و حواس قائم رکھتا تھا نظام الملک اس سے زیادہ دانش مند اور دوراندیش تھا
نظام الملک نے کچھ عرصے سے ان علاقوں میں جاسوس بھیج رکھے تھے جن علاقوں میں لوگ حسن بن صباح کے مرید اور پیروکار ہو گئے تھے بلکہ بعض لوگوں نے اسے امام کی بجائے پیغمبر سمجھنا شروع کر دیا تھا ان جاسوسوں میں سے کوئی نہ کوئی آتا اور اپنے مشاہدات بیان کر جاتا تھا ان کا لب لباب یہی ہوتا تھا کہ مبلغوں کا ایک گروہ سارے علاقوں میں پھیلا ہوا حسن بن صباح کے معجزے اور کرامات بیان کرتا ہے
یہ رپورٹ تو ہر جاسوس دیتا تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حوالے سے بات کرتے ہیں اپنے آپ کو صحیح العقیدہ مسلمان کہتے ہیں
“تلبیس ابلیس” اور “آئمہ تلبیس” میں بھی یہی آیا ہے کہ حسن بن صباح کے پیروکاروں کو شک تک نہ ہوتا تھا کہ جسے وہ امام اور نبی مانتے ہیں وہ باطنی ہے اس کے مبلغ بڑے ہی دردناک انداز میں لوگوں کو اس قسم کی حکایتیں سناتے تھے کہ کفار نے رسول اکرمﷺ پر کیا کیا ظلم کیا اور کیسے کیسے ستم ڈھائے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اور رسالت کے دوسرے شیدائیوں نے کس طرح ناموس رسالت پر جان قربان کی تھیں
مورخوں نے لکھا ہے کہ ان علاقوں میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی اور یہ لوگ علم اور تعلیم سے بے بہرہ تھے اور اسلام کے معاملے میں بہت ہی جذباتی انہیں رسول اکرمﷺ پر یہود و نصاریٰ کے ظلم و ستم اشتعال انگیز الفاظ اور دردناک لہجے میں سنائے جاتے تھے کہ لوگ بھڑک اٹھتے تھے ظلم و ستم کی ان حکایتوں میں زیادہ تر من گھڑت ہوتی تھیں
یوں لوگوں کو مشتعل کر کے انہیں بتایا جاتا کہ حسن بن صباح وہ اسلام لے کر آسمان سے اترا ہے جو رسول اللہﷺ لے کر آئے تھے اور کفار نے سازش کے تحت اس کی روح بدل ڈالی اور چہرہ بگاڑ دیا ہے اور اب حسن بن صباح پر کفار ہی نہیں بلکہ بگڑے ہوئے نظریات اور غلط عقیدوں کو صحیح ماننے والے مسلمان بھی حسن بن صباح اور اس کے معاون ساتھیوں پر ظلم و تشدد کر رہے ہیں
نظام الملک کے جاسوس اسی قسم کی خبریں دے کر پھر چلے جاتے تھے تین چار جاسوس تو وہیں جا کر آباد ہو گئے تھے وہ معلومات اور خبریں اکٹھی کرتے رہتے اپنے ساتھی جاسوسوں کو بتاتے اور یہ جاسوس باری باری خبریں مرو پہنچاتے رہتے تھے
میرے دوستو! ایک بار نظام الملک نے ادھر سے آئے ہوئے دو جاسوسوں سے کہا تھا آج تک تم جتنی خبریں لائے ہو ان میں کوئی نئی بات نہیں تھی میں جانتا ہوں کہ وہاں در پردہ کیا ہوتا ہے میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ کسی نشے اور بڑی ہی خوبصورت اور چنچل لڑکیوں کے ذریعے بعض اہم افراد کو وہ اپنا غلام بنا لیتے ہیں ہماری ضرورت یہ ہے کہ وہاں پردوں کے پیچھے بند کمروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ معلوم ہو جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ حسن بن صباح اور اسکے استاد احمد بن عطاش کو قتل کس طرح کیا جا سکتا ہے
ابھی تک کوئی جاسوس حسن بن صباح کے اندرونی حلقے میں داخل نہیں ہوسکا تھا اس لیے یہ بتانا ممکن نہیں تھا کہ پردوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے
اب نظام الملک نے ایسے جاسوسوں کی تلاش شروع کر دی جو حسن بن صباح کے اتنے قریب پہنچ جائیں کے اس کے خاص مصاحبوں میں شامل ہو جائیں اور اندر کی خبریں لائیں داستان گو موزوں سمجھتا ہے کہ اس داستان کو واپس قدیم قلعے کے ان کھنڈرات میں لے جائے جہاں سے حسن بن صباح نے سلجوقی سالار قزل ساروق اور اس کے سواروں کے لشکر کو کچھ پلا کر واپس بھیج دیا تھا
پھر کیا حسن بن صباح انہیں کھنڈرات میں بیٹھا رہا تھا؟
نہیں رات اس کے پیروکاروں نے فتح کا جشن منایا اور اگلی صبح وہاں سے اس سمت کوچ کر گیا تھا جس طرف مشہور تاریخی قلعہ المُوت تھا اس کی اور اس کے پیرومرشد کی نظریں اس قلعے پر لگی ہوئی تھیں حسن بن صباح کی منزل یہی قلعہ تھا اسے اس نے اپنا مستقبل اڈہ بنانا تھا اور اسی قلعے کے اندر اور اس کے ارد گرد اس نے اپنی جنت بنانی تھی وہ جنت جس نے تاریخ کو انگشت بدنداں کر دیا تھا یہ جنت ایسی حیران کن حقیقت تھی کہ آج کے دور کے کچھ لوگ اسے محض ایک افسانہ اور مبالغہ کہتے ہیں
قلعہ المُوت کے کھنڈرات آج بھی ایک وسیع و عریض ٹیکری کی بلندی پر موجود ہیں ایران کے اس علاقے کو طالقان کہتے ہیں یہ بلند ٹیکری شہر قزوین اور دریائے خزز کے درمیان ہے یہ قلعی یوں تعمیر ہوا تھا کہ کسی زمانے میں اس خوبصورت خطے میں دلیمی سلاطین کی حکمرانی تھی ایک روز ایک سلطان اپنا عقاب ساتھ لے کر شکار کو گیا اس نے اڑتے ہوئے ایک پرندے کے پیچھے عقاب چھوڑا عقاب نے پرندے کو کچھ دور جا کر پکڑ لیا لیکن پرندہ اس کے پنجوں سے نکل گیا یہ اتنا زخمی تھا کہ زیادہ دور تک اڑ نہیں سکتا تھا گرتے گرتے ٹیکری کی چوٹی پر جا گرا یہ کوئی چھوٹا سا پرندہ نہیں ایک بڑا اور کمیاب نسل کا پرندہ تھا
عقاب نے اس پر ایک بار پھر جھپٹا مارا اور اسے وہیں دبوچ لیا سلطان جو گھوڑے پر سوار تھا گھوڑا دوڑاتا ٹیکری پر چڑھ گیا اس کے ساتھ اس کے محافظ اور کچھ مصاحب تھے سلطان نے پرندہ عقاب سے لے لیا اور جب اس بلندی سے چارسو نظر دوڑائی تو اس کی تو جیسے روح بھی مخمور ہو گئی ہو یہ خطہ ہریالی کی بدولت بہت ہی خوبصورت تھا ایک طرف دریا تھا جس کا اپنا ہی حسن تھا
ٹیکری دامن سے اوپر تک گھنے درختوں اور مخمل جیسی گھاس سے ڈھکی ہوئی تھی بعض درخت پھول دار تھے جن کی بھینی بھینی خوشبو خمار سا طاری کرتی تھی ٹیکری کے چاروں طرف دور دور تک ایسا سبزہ زار تھا کہ اسے جنت نظیر ہی کہا جا سکتا تھا دو جگہوں سے چشمے پھوٹتے دونوں جگہوں پر پچیس تیس گز چوڑی جھیلیں بنی ہوئی تھی ان کا شفاف پانی چھوٹی چھوٹی ندیوں کی شکل میں بہتا پتھروں اور کنکریوں پر جلترنگ بجاتا دریا میں جا گرتا تھا بعض جگہوں پر قریب قریب کھڑے تین تین چار چار درختوں کے تنوں کو پھولوں کے بیلوں نے کچھ اس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا کہ گوفے سے بنی گئی تھی دائیں بائیں اور پیچھے ہرے پتوں اور پھولوں کی دیواریں اور اوپر چھتیں بنی ہوئی تھیں یوں لگتا تھا جیسے یہ گفیں انسانوں نے بیلوں کو تراش کر بنائی ہو لیکن یہ قدرت کی صناعی کا شاہکار تھا ایک یوروپی مؤرخ نے لکھا ہے کہ کوئی کہے کہ یہ خطہ بہشت کا حصہ تھا اور کسی وجہ سے زمین پر آن گرا تھا یا یہ کہے کہ آدم اور حوا کو خدا نے بہشت کے اس حصے میں رکھا تھا تو میں اسے سچ مان لوں گا
سلطان کو اس خطے کا حسن مسحور تو کرہی لیا تھا اس نے دیکھا کہ دفاعی لحاظ سے بھی یہ جگہ موزوں ہے یہ ٹیکری اوپر سے نوکیلی یا گول نہیں بلکہ چپٹی تھی اور اس کی طول ایک میل سے ذرا ہی کم اور عرض بھی کچھ اتنا ہی تھا
بلاشبہ میں نے اتنی دلفریب زمین آج ہی دیکھی ہے سلطان نے کہا کیا تم میں کوئی ہے جو مجھے یہ مشورہ نہ دینا چاہے کہ میں یہاں ایک ایسا قلعہ تعمیر کروں جو اس خطے جیسا دلنشین اور چٹانوں جیسا مضبوط ہو
کوئی نہیں عالی جاہ! مصاحبوں کی ملی جلی آواز اٹھی اس سے زیادہ دلفریب جگہ اور کہیں نہیں قلعہ جو یہاں بنے گا اس کی دیواروں اور اس کے دروازوں تک کوئی دشمن نہیں پہنچ سکے گا دشمن کا لشکر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ٹیکری پر چڑھتے ہمارے تیروں کی بوچھاڑوں سے لڑکتا نیچے جائے گا
سلطان نے شکار سے واپس آ کر پہلا کام یہ کیا کہ اس ٹیکری پر قلعے کی تعمیر کا حکم دیا دور دور سے ماہر معمار بلوائے گئے ان سے نقشے بنوائے گئے ان میں ردوبدل کیا گیا نقشے کو بڑی محنت سے آخری شکل دی اس دلیمی سلطان نے نقشے میں جو نئی چیزیں شامل کیں انہوں نے تعمیرات کے ماہرین کو حیران کر دیا قلعے کی تعمیر کوئی پیچیدہ کام نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اس سلطان نے (جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا) جو نقشہ معماروں کو دیا وہ قلعہ بھی تھا محل بھی اور باقی جو کچھ تھا وہ پراسرار تھا اس میں تہہ خانہ بھی تھا جس میں بے شمار کمرے تھے ان کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں گلیاں تھیں جو بھول بھلیاں تھیں ان میں چھوٹے کمرے تھے بڑے بڑے بھی اور بہت بڑے بھی اور تہہ خانے سے ایک سرنگ بھی نکالنی تھی اسے اتنا کھلا اور اونچا رکھنا تھا کہ تین آدمی پہلو بہ پہلو اس میں سے گزر سکیں سرنگ بھی بھول بھلیوں جیسی بنانی تھی
قلعے کی تعمیر شروع ہوگئی ملک کے بے شمار معماروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ملک کی آدھی آبادی مزدوری کے لیے پہنچ گئی اتنی زیادہ مخلوق چوٹیوں کی طرح کام کرنے لگی
اس قلعے کا نام آلہ مُوت رکھا گیا دیلمی زبان میں موت عقاب کو کہتے ہیں اور آلہ کے معنے تربیت گاہ ہوتے تھے سلطان عقاب کے پیچھے اس جگہ گیا تھا اگر اس کے عقاب کا شکار اس ٹیکری پر نہ گرتا تو سلطان کبھی اس حسین ٹیکری کو نہ دیکھ سکتا نہ اسے ایسا بنانے کا خیال آتا جو اس دور کا ایک اور عجوبہ تھا اور جو بعد میں حسن بن صباح کی جنت بنا اس قلعے کا نام آلہ مُوت رکھا گیا تھا جو بگڑتے بگڑتے المُوت بن گیا
حسن بن صباح کے زمانے میں یہ قلعہ اپنی اصل حالت میں تھا اس علاقے کا حکمران امیر جعفری تھا کسی بھی مورخ نے اس کا پورا نام نہیں لکھا امیر جعفری نے اپنی حیثیت کے ایک سرکردہ فرد مہدی علوی کو قلعہ المُوت کا حاکم مقرر کر رکھا تھا حسن بن صباح الموت سے تھوڑی ہی دور رک گیا اس کے ساتھ قدیم قلعے میں تین سو کے لگ بھگ آدمی تھے ان سب نے اس کے ساتھ جانا تھا لیکن ان میں سے بہت سے آدمیوں کو پہلے ہی روانہ کر دیا گیا تھا انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ المُوت کے راستے میں آنے والی آبادیوں میں جا کر لوگوں کو حسن بن صباح کے یہ معجزہ سناتے جائیں کہ تبریز میں صرف ستر آدمی تھے جن پر سلجوقیوں کے پانچ سو سے زائد سواروں نے حملہ کردیا حسن بن صباح نے خدا سے مدد مانگی تو غیب سے سیکڑوں سوار آگئے اور تمام کے تمام سلجوقی سواروں کو قتل کر دیا پھر قدیم قلعے میں تین سو آدمیوں پر ایک ہزار سے زائد سواروں نے حملہ کر دیا حسن بن صباح نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہوکر اس گھوڑسوار لشکر کے سالار کی طرف دیکھا پھر کہا واپس چلے جاؤ لشکر نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلا گیا
ان تین سو آدمیوں میں صرف تین آدمی تھے جو حقیقت سے آگاہ تھے اور ایک عورت تھی جو حسن بن صباح کی راز دار تھی ان تین آدمیوں میں ایک اسماعیل تھا اور یہ عورت خدیجہ تھی ان دونوں نے حج سے آئے ہوئے میاں بیوی بن کر سالار قزل ساروق اور اسکے لشکر کو آب زمزم پلایا اور ذہنی طور پر مفلوج کردیا تھا
صرف یہ تین آدمی اور ایک عورت تھی جنہیں حسن بن صباح کے ان معجزوں کی حقیقت معلوم تھی باقی سب نے ان معجزوں کو حقیقت تسلیم کر لیا تھا انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ ان معجزوں کی تشہیر کریں وہ تو انہوں نے کہے بغیر بھی کرنی تھی یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ کوئی عجوبہ دیکھتا ہے یا کوئی پراسرار واقعہ اس کے سامنے رونما ہوتا ہے تو وہ اس کی تہہ تک نہیں پہنچتا اس کا تجزیہ نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پر ہیجانی کیفیت طاری کرکے یہ واقعہ ہر کسی کو سنسنی خیز لہجے میں سناتا ہے اور اس وہم میں مبتلا ہو کر کہ اس کی بات کو کچھ لوگ سچ نہیں مانیں گے سنانے والا زیب داستان کا سہارا لیتا اور مبالغہ آرائی کرتا ہے
حسن بن صباح کو خدا نے ایسا دماغ دیا تھا کہ وہ انسان کی کمزوریوں کو سمجھتا اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا جانتا تھا اس نے اپنے تین سو میں سے دو سو سے زائد آدمیوں کو خود اپنی زبان سے نہیں بلکہ اپنے خاص مصاحبوں کی زبان سے کہلوایا کہ وہ آبادیوں میں امام کے معجزے سناتے جائیں
یہ حکم امام کا نہیں مصاحبوں نے ان تین سو افراد سے کہا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہر کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ امام جسے خدا نے ملت رسولﷺ کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے آسمان سے اتارا ہے اس نے کیا معجزے دکھائے ہیں لوگوں سے کہو کہ وہ امام کو خدا کا بھیجا ہوا امام مان لے حسن بن صباح جب الموت سے تھوڑی دور رکا اس وقت اس کے ساتھ تین سو کے بجائے تین ہزار سے زائد لوگ تھے تاریخ میں یہ پتا نہیں ملتا کہ پہاڑیوں کے اندر قدیم قلعے سے المُوت تک کتنا فاصلہ تھا البتہ یہ بات صاف ہے کہ حسن بن صباح کے آدمیوں نے اس علاقے کی آبادیوں میں خدا کے بھیجے ہوئے امام کے معجزے ایسے انداز سے سنائے کے لوگ حسن بن صباح کے پیچھے پیچھے چل پڑے حسن بن صباح نے ایک جگہ رک کر ڈیرے ڈال دیئے اس کے لیے بڑے سائز کا شاہانہ خیمہ لگا دیا گیا تھا تشہیر اور پروپیگنڈے کا کام صرف حسن بن صباح نے ہی نہیں کیا تھا احمد بن عطاش اس کام میں ہمہ تن مصروف رہتا تھا اس نے مبلغوں کی جماعتیں بنا دی تھیں جس کے ارکان اسلام کے حوالے سے باطنی نظریے کی تبلیغ کرتے تھے بڑے مؤرخوں خصوصاً ابن خلدون”ابوالقاسم رفیق دلاوری”ابن اثیر” نے تو یوں لکھا ہے کہ وہ باطنی نظریے کی تبلیغ کرتے تھے تفصیلات لکھنے والے وقائع نگاروں اور مبصروں نے لکھا ہے کہ یہ تبلیغ دراصل تشہیر تھی حسن بن صباح کی اور لوگ جوق در جوق حسن بن صباح کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوتے جا رہے تھے لیکن حسن بن صباح کی جھلک انہیں نظر نہیں آرہی تھی
حسن بن صباح کا خیمہ کپڑے کا ایک کمرہ تھا چوکور اور خاصہ کشادہ چاروں طرف قناتیں تھیں اور ان پر مخروطی شامیانہ تھا لوگوں کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ امام خیمے میں نہیں اور اس کے قریبی مصاحبوں کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں غائب ہو گیا ہے
امام کو خدا کبھی کبھی اپنے پاس بلا لیتا ہے ایک مصاحب نے شوشہ چھوڑا وہ کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے
جس جگہ حسن بن صباح کا خیمہ تھا وہاں تک کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی اس سے ذرا پرے ہٹ کر ان کے اپنے آدمیوں کے خیمے تھے لوگوں کو حسن بن صباح کے خیمے سے دور روک لیا جاتا تھا
حسن بن صباح یہاں پہنچا تو تیسری رات خلجان سے اس کا پیرومرشد احمد بن عطاش اس کے پاس آ گیا تھا ان کی ملاقات دو اڑھائی سال بعد ہو رہی تھی احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو مصر بھیجا تھا اس کے بعد یہ دونوں پہلی بار مل رہے تھے حسن بن صباح نے اپنے استاد کو اپنی کارگزاری سنائی اور استاد نے جب حسن بن صباح کو بتایا کہ اس نے اپنے قلعہ خلجان میں کیسے کیسے خفیہ انتظام کیے ہیں تو حسن بن صباح حیران رہ گیا
اب قلعہ المُوت پر قبضہ کرنا ہے احمد بن عطاش نے کہا جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے امیر مہدی علوی کے پاس تین سو سواروں کا صرف ایک دستہ ہے یہ اس کا محافظ دستہ ہے اس کی فوج ہے ہی نہیں
پھر تو اس قلعے پر قبضہ کر لینا کوئی مشکل نہیں حسن بن صباح نے کہا میرے پاس تین سو سے کچھ زائد تجربے کار لڑنے والے آدمی ہیں اور یہ جو میری زیارت کے لئے ہجوم آگیا ہے کئی سو اس میں لڑنے والے مل جائیں گے
نہیں حسن! احمد بن عطاش نے کہا میں حیران ہوں کہ یہ بات تم کہہ رہے ہو کیا ہم نے پہلے جو قلعے لیے ہیں وہ لڑ کر لیے ہیں؟
خون کا ایک قطرہ نہیں بہے گا اور المُوت ہمارا ہوگا سنو ہم کیا کریں گے
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی باتیں سرگوشیوں میں بدل گئی سرگوشیاں بھی ایسی جو خیمے کے کپڑے کی دیواریں بھی نہ سن سکیں احمد بن عطاش سحری کے وقت خیمے سے نکلا اور خلجان کو چلا گیا
تین چار راتیں گزر گئیں اللہ کے امام اور اس کے معجزوں کے چرچے اتنی زیادہ اور ایسے انداز سے کیے جا رہے تھے کہ تجسس اور پسماندگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ حسن بن صباح کی زیارت کے لیے چلے آرہے تھے داستان گو سنا چکا ہے کہ پہلے بھی لوگوں نے سنا تھا کہ خدا کا ایلچی آسمان سے اترنے والا ہے تو لوگ اسی طرح اکٹھے ہوگئے تھے اور انہوں نے وہیں ڈیرے ڈال دیے تھے لوگوں کی فطرت میں کوئی انقلاب تو نہیں آ گیا تھا ان میں فطری کمزوریاں جوں کی توں موجود تھیں اب وہ اس جگہ ہجوم کر کے آ گئے تھے
داستان گو کہ رہا تھا کہ لوگوں نے حسن بن صباح کی زیارت کے لئے وہیں ڈیرے ڈال دیے تھے احمد بن عطاش حسن بن صباح سے مل کر اور کوئی نیا منصوبہ تیار کر کے چلا گیا تاریخ میں ایک شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ احمد بن عطاش گیا نہیں تھا وہیں روپوش رہا تھا اس منصوبے میں اسے پس منظر میں رکھنا تھا
ایک رات آدھی گزر گئی تھی رات کے سناٹے کو تین چار دھماکہ نما آوازوں نے تہہ و بالا کر ڈالا
وہ دیکھو لوگوں ادھر دیکھو
زمین سے بادل اٹھ رہے ہیں
لوگوں جاگو بادلوں کے رنگ دیکھو
یہ ضرور امام کا ظہور ہو رہا ہے
پھر ایک ہڑبونگ تھی ایک شور تھا بھاگ دوڑ تھی نفسا نفسی جیسی حالت تھی لوگ دھکے دے رہے تھے دھکے کھا رہے تھے اور اس طرف دوڑے جا رہے تھے جدھر زمین سے بادل اٹھ رہا تھا
وہ ہری سرسبز گھاس اور جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ایک ٹیکری تھی جو زیادہ اونچی نہیں تھی پندرہ نہیں تو سترہ ہاتھ اونچی ہوگی اس کی لمبائی اڑھائی تین فرلانگ تھی اس کی ڈھلان پر اوپر بھی ایک دوسرے سے کچھ دور دور چھاتوں کی طرف پھیلے ہوئے اور لمبوترے بھی درخت تھے
اس ٹیکری کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی جو اگلی ٹیکری سے زیادہ بلند تھی ان کے دامن آپس میں ملے ہوئے تھے
لوگوں نے زمین سے اٹھتا ہوا جو بادل دیکھا تھا بلکہ دیکھ رہے تھے وہ آگے والی کم بلند ٹیکری کے عقب سے اٹھ رہا تھا یہ آگ کے دھوئیں کا بادل نہیں تھا یہ بادل بادلوں کے ان ٹکڑوں جیسا تھا جو برسات کے بعد سرسبز پہاڑیوں سے نیچے آجاتے اور وادیوں میں منڈلاتے رہتے ہیں
وہ رات تھی اور رات تاریک تھی لیکن بادل کا یہ دودھ جیسا سفید اور بہت بڑا ٹکڑا روشن تھا اور صاف نظر آرہا تھا یہی نہیں بلکہ اس میں سرخ سبز نیلی اور پیلی روشنیاں تیر رہی تھیں یوں لگتا تھا جیسے قوس و قزح کے رنگ بکھر کر اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے ہوں
بادل ٹیکری پر آ گیا اور آہستہ آہستہ فضا میں تحلیل ہونے لگا اور اس میں ایک آدمی کا ہیولہ نظر آنے لگا اس کے بازو دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے
لوگو! بڑی ہی بلند آواز میں کسی نے اعلان کیا بسم اللہ پڑھو کلمہ طیبہ پڑھو اور سجدے میں چلے جاؤ اللہ تبارک و تعالی نے امام حسن بن صباح کو زمین پر اتار دیا ہے
جسے دشمن کے لشکر دیکھتے ہی واپس چلے جاتے ہیں اس کا ظہور ہو گیا ہے کسی اور نے اعلان کیا
لوگ سجدے میں چلے گئے
حسن بن صباح کے تین سو آدمیوں کے جہاں خیمے لگے ہوئے تھے وہاں سے جلتی ہوئی دس بارہ مشعلیں نکلیں جو ٹیکری پر چڑھ گئیں ہوا ذرا تیز چل رہی تھی اس لئے بادل کا یہ ٹکڑا ایک طرف ہٹ گیا اور فضا میں تحلیل ہوتے ہوتے غائب ہو گیا اور اس جگہ ٹیکری پر حسن بن صباح رہ گیا جو بازو پھیلائے کھڑا تھا وہ سبز رنگ کے چمکدار چغے میں ملبوس تھا سر پر پگڑی اور اس پر اتنا بڑا سبز رومال پڑا ہوا تھا جس نے کندھے بھی ڈھانپ رکھے تھے
سجدے سے اٹھو لوگو! ایک اعلان ہوا اور ٹیکری کے قریب آ جاؤ لوگ اٹھ دوڑے انہیں تلواروں اور برچھیوں سے مسلح کچھ آدمیوں نے ٹیکری کے قریب روک کر بیٹھ جانے کو کہا دس بارہ مشعلوں کی روشنی میں لوگوں کو حسن بن صباح کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا
میں آگیا ہوں حسن بن صباح نے بلند آواز سے کہا اللہ سے یہ وعدہ لے کر آیا ہوں کہ ان مسلمانوں کو جو میرے دائرے میں آ جائیں گے دنیا میں ہی جنت دکھا دی جائے گی میں تم سب کے گناہ بخشوا آیا ہوں
اے اللہ کی طرف سے آنے والے لوگوں میں سے ایک نے پوچھا ہم تجھے امام کہیں نبی کہیں میں تم میں سے ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے جو کہنا چاہتے ہو کہہ لو یہ سوچ لو کہ میرے راستے پر چلو گے تو رنج و آلام سے مشکلات اور مصائب سے تنگدستی اور بیماری سے محفوظ رہو گے شیطان سے اور جنات سے محفوظ رہو گے
ہم نے تجھے مان لیا ہے ایک آدمی بولا امام بھی نبی بھی کوئی معجزہ دکھا
لوگوں کے ہجوم پر ایسا سناٹا طاری تھا جیسے وہاں کوئی ایک بھی انسان نہ ہو یہ تقدس اور عقیدت مندی کی انتہا تھی کہ لوگ جیسے اپنی سانسوں کو بھی روکنے کی کوشش کر رہے ہو کہ امام ناراض ہو جائے گا ان کے کانوں میں جب کسی کی آواز پڑی کے کوئی معجزہ دکھا تو سناٹا اور گہرا ہو گیا
کیا یہ معجزہ نہیں جو تم نے دیکھا ہے؟
حسن بن صباح نے کہا اللہ نے مجھے جنت کے بادلوں کے ایک ٹکڑے پر سوار کر کے زمین پر اتارا ہے کیا تم نے دیکھا نہیں کہ یہ بادل قوس و قزح کے رنگوں سے سجا ہوا تھا مجھے زمین پر اتار کر جنت کا بادل واپس چلا گیا ہے
ہم نے دیکھا ہے بہت سی آوازیں اٹھیں
بے شک ہم نے دیکھا ہے یا امام اور بھی آواز اٹھیں
حسن بن صباح کو مشعل بردار ٹیکری سے اتار کر اس خیمے میں لے گئے جو کپڑے کی دیواروں اور کپڑے کی چھت کا خوش نما کمرہ تھا اسی خیمے میں احمد بن عطاش سے اس کی ملاقات ہوئی تھی اور شاید احمد بن عطاش ابھی وہیں تھا زیارت کے لئے آئے ہوئے ہجوم میں مختلف قبیلوں کے سردار اور دیگر سرکردہ افراد بھی تھے اگلی صبح ان لوگوں نے حسن بن صباح کی بیعت کا سلسلہ شروع کر دیا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:24 }
کیا حسن بن صباح واقعی بادل کے ٹکڑے پر سوار ہو کر آسمان سے زمین پر آیا تھا؟
اس سوال کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے حسن بن صباح کا پہلے بھی ایک پہاڑی پر ظہور ہوا تھا
پہاڑی کے پیچھے ایک غار میں آگ جلا کر اس کی چمک آئینوں پر ڈالی جاتی تھی ان میں آئینے بھی تھے اور چمکتی ہوئی دھات کی چادریں اور ایسی چادریں بھی تھیں جن پر ابرق چپکایا گیا تھا ،ایک آئینہ شاہ بلوط کے درخت میں رکھا گیا تھا آئینہ چمکدار دھات کی پلیٹ سے آگ کی چمک شاہ بلوط والے پر منعقد کی جاتی تو رات کو یوں لگتا تھا جیسے شاہ بلوط میں آسمان کا ستارہ چمک رہا ہو سیدھے سادے پسماندہ لوگ اسے آسمان کے ستارے کی چمک سمجھتے رہے اور ایک روز شاہ بلوط کے ستارے کی چمک میں سے حسن بن صباح کا ظہور ہوا
اب ایک ٹیکری سے بادل اٹھا اور ٹیکری پر آیا اس میں رنگ تیر رے تھے اور اس میں سے حسن بن صباح نکلا یہ بھی آگ چمکدار دھات یا ابرق کی چادروں اور آئینوں کا کرشمہ تھا ٹیکری کے پیچھے دامن میں پندرہ بیس گز لمبائی میں دہکتے انگارے پھیلائے گئے تھے اور ان پر دھوئیں پیدا کرنے والا بارود یا کوئی اور کیمیائی مادہ پھینکا گیا تھا جو سفید بادل کی شکل کا دھواں بن کر اوپر اٹھا تاریخ میں یہ سراغ نہیں ملتا کہ یہ بارود تھا یا سفوف یا سیال مادہ یہ تحریر ملتی ہے کہ اس وقت تک مسلمانوں نے بارود سازی اور کیمیاگری میں یورپ والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی کر لی تھی
چونکہ وہ علاقہ جنگلاتی تھا سبزہ زار تھا اور رات تھی اس لیے فضا میں نمی زیادہ تھی نمی کی وجہ سے دھواں فوراً اور نہ جلدی بکھرا اسمیں جو رنگ تیر رہے تھے آئینوں یا دھات کی چمکدار چادروں سے اس طرح دھوئیں میں شامل کیے گئے تھے کہ ٹیکری کے پیچھے آگ جلا کر اس کی چمک منعکس کی گئی اور آئینوں وغیرہ کے آگے باریک رنگ دار کپڑے رکھے گئے تھے تاریخ میں اس سے زیادہ تشریح اور وضاحت نہیں ملتی ٹیکری کے پیچھے کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی
قلعہ المُوت وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا اس بلندی پر جہاں قلعہ تھا ایک شہر آباد ہو گیا تھا امیر قلعہ الموت مہدی علوی کو اطلاع مل رہی تھی کہ فلاں جگہ ایک قافلہ پڑاؤ کیے ہوئے ہے جس کا امیر کارواں ایک برگزیدہ شخصیت ہے مہدی علوی کو اس بزرگ کے معجزے بھی سنائے گئے لیکن اس نے دھیان سے نہ سنے اور کوئی اہمیت نہ دی
مہدی علوی کو یہ تو پتہ ہی نہ چل سکا کہ حسن بن صباح کی تشہیر اور تبلیغ کی تیز و تند ہوا چلی ہے جس کا گزر المُوت سے بھی ہوا ہے اور اس سے اس کا محافظ دستہ بھی متاثر ہوا ہے یہ انتظام احمد بن عطاش کا تھا مہدی علوی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ حسن بن صباح نے بادل کے ٹکڑے میں سے اپنے ظہور کا جو ڈھونگ رچایا ہے یہ المُوت کے کچھ لوگوں نے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے اسے برحق مانا ہے
امیر اعلی مقام! مہدی علوی کو اس کے ایک مشیر نے پریشانی کے عالم میں کہا ہم نے تو ادھر توجہ ہی نہیں دی تھی لیکن اپنے تمام لوگوں میں اور آپ کے محافظ دستے میں یہ عجیب و غریب خبر پھیل گئی ہے کہ امام حسن بن صباح بادل کے ٹکڑے میں آسمان سے اترا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اس کی بیعت کر رہے ہیں
ہم یہی کر سکتے ہیں کہ اسے اپنے علاقے سے نکال دیں مہدی علوی نے کہا کسی مسلمان کو یقین نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی امام یا کوئی نبی یا کوئی بزرگ آسمان سے اترا ہے ہم نبوت پر یقین رکھنے والے مسلمان ہیں اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے
آپ نہ مانیں مشیر نے کہا میں بھی نہیں مانتا لیکن یہ صورتحال بڑی ہی خطرناک ہے کہ لوگوں نے بھی اسے سچ مان لیا ہے اور ہمارے سپاہیوں اور سواروں نے بھی امیر محترم! میں نے جو معلومات فراہم کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی نیا فرقہ بن رہا ہے اسے یہیں پر ختم کر دیا جائے تو اچھا ہے
ان دونوں میں کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوا کچھ بحث و مباحثہ ہوا آخر مہدی علوی نے اپنا حکم سنایا
پچاس سواروں کا ایک دستہ لے جاؤ اس نے کہا وہاں حسن بن صباح کے مرید اور معتقد بھی ہوں گے تم ساتھ جاؤں حسن بن صباح سے کہنا کہ وہ تمہارے ساتھ آ جائے نہ آئے تو اسے میرا حکم سنانا کہ تم زیر حراست ہو ہو سکتا ہے اس کے مرید اور معتقد مزاحمت کریں کوشش کرنا کے خون خرابہ نہ ہو ہونے کو وہاں بہت کچھ ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کچھ بھی نہ ہو اگر معاملہ بگڑتا نظر آئے تو ایک سوار کو دوڑا دینا میں اپنا تمام دستہ بھیج دوں گا میں حسن بن صباح کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہوں
مہدی علوی کے حکم کی تعمیل فوری طور پر ہوئی مشیر پچاس سواروں کو ساتھ لے کر چلا گیا فاصلہ زیادہ نہیں تھا یہ دستہ دن کے پچھلے پہر چلا تھا رات کو حسن بن صباح کی خیمہ گاہ میں پہنچ گیا وہاں اب لوگوں کا اتنا ہجوم نہیں تھا انہوں نے حسن بن صباح کی زیارت کر لی تھی اور وہ چلے گئے تھے پیچھے حسن بن صباح کے اپنے آدمی رہ گئے تھے
سواروں نے خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا حسن بن صباح اپنے مصاحبوں میں بیٹھا تھا اس نے گھوڑوں کے ٹاپ سنے اور چونکا اس کے مصاحبوں کے چہروں پر گھبراہٹ آگئی پیشتر اس کے کہ حسن بن صباح کوئی حرکت کرتا یا کوئی حکم دیتا مہدی علوی کا مشیر خیمے میں داخل ہوا اور جھک کر سلام کیا
یا امام! مشیر عابد حبیبی نے حسن بن صباح سے مصافحہ کرکے اور اس کے سامنے دوزانو بیٹھ کر کہا امیر قلعہ المُوت مہدی علوی نے امام کے حضور سلام بھیجا ہے اور یہ عرض بھی کی امام جنگل میں پڑے اچھے نہیں لگتے اگر امام قلعے میں آ جائیں اور کچھ دن یہاں رہ کر دیکھیں اگر یہ جگہ پسند آجائے تو قلعے میں ہی رہیں
کیا دعوت نامہ رات کے اس وقت دیا جاتا ہے حسن بن صباح نے عابد حبیبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہوئے کہا اور کیا تمہارے یہاں مہمان کو محاصرے میں لے کر اسے دعوت دی جاتی ہے؟
امیر شہر نے حکم دیا کہ ابھی روانہ ہو جاؤ عابد حبیبی نے کہا ہم ایسے وقت روانہ ہوئے کہ یہاں بے وقت پہنچے اگر آپ کے خیمے میں روشنی نہ ہوتی تو میں کل صبح آپ کے حضور حاضر ہوتا اور یہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ مہمان کے لیے ہم گھوڑسوار بھیجا کرتے ہیں آپ کے لیے پچاس گھوڑسوار لایا ہوں
امیر شہر کو میرا سلام کہنا حسن بن صباح نے کہا اور ان کا شکریہ ادا کرنا پھر کہنا کہ میں آؤں گا لیکن میں اپنے رواج کے مطابق آؤنگا رواج یہ ہے کہ پہلے امیر شہر کم از کم ایک رات کے لیے مجھے میزبانی کا شرف عطا کریں گے پھر میں ان کے ساتھ ہیں الموت چل پڑوں گا
عابد حبیبی کو مہدی علوی نے حکم دیا تھا کہ حسن بن صباح کو اپنے ساتھ لے آئے اگر وہ نہ آئے تو اسے میرا حکم سنانا کہ تم حراست میں ہو اگر اس کے آدمی مزاحمت کریں تو جنگی کارروائی کرنا اور مدد کی ضرورت ہو تو مجھے اطلاع دینا دراصل مہدی علوی کا حکم یہ تھا کہ حسن بن صباح کو گرفتار کرکے لے آنا
عابد حبیبی نے پہلے دوستانہ انداز اختیار کیا تھا اس نے حسن بن صباح کو ایسے انداز سے امام کہا تھا جیسے اس نے دل کی گہرائیوں سے اسے امام تسلیم کرلیا ہو لیکن حسن بن صباح نے اس کے ساتھ جانے کی بجائے یہ کہہ دیا کہ پہلے امیر شہر اس کے پاس آئے تو عابد حبیبی نے یوں محسوس کیا جیسے امام نے اس کی اور اس کے امیر شہر کی عزت افزائی کی ہو
عابد حبیبی کا ارادہ تو یہ تھا کہ حسن بن صباح نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کیا تو وہ اسے گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن وہ جان نہیں سکا تھا کہ حسن بن صباح نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں اور اسی میں سارا راز تھا عابد حبیبی اپنی آنکھوں کو حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہیں کرا سکا تھا حسن بن صباح نے اسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا اس کا ذہن اب حسن بن صباح کے زیر اثر تھا یوں تو ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے بولنے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والے پر سحر کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور اس کا استدلال خالصتاً فریب کاری پر مبنی ہوتا تھا لیکن اچھے خاصے دانشور بھی اس کے فریب میں آ جاتے تھے عابد حبیبی سدھائے ہوئے جانور کی طرح اٹھا اور رخصت ہوگیا
دو روز بعد الموت سے ایک گھوڑسوار آیا اس نے حسن بن صباح کو پیغام دیا کہ امیر قلعہ الموت مہدی علوی تیسرے دن آ رہا ہے سوار یہ پیغام دے کر چلا گیا تو حسن بن صباح نے اس کے استقبال کی اور اس کے لیے رہائش کی تیاریاں شروع کردیں اپنا شاہانہ خیمہ مہدی علوی کے لیے چھوڑ دیا اپنے آدمیوں سے کہا کہ مہدی علوی آئے تو شام کو خوشبودار پھولوں کے گلدستے خیمے میں سجا دیں
اس کے پاس مہمان کے ہوش گم کرنے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا ایک تو خدیجہ تھی جس نے اسماعیل کے ساتھ مل کر سالار قزل ساروق کو کامیاب دھوکہ دیا تھا خدیجہ نوجوان لڑکی نہیں جوان عورت تھی خوبصورت تو تھی ہی اس کی ٹریننگ ایسی ہوئی تھی کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتی اور فرعونوں کو بھی اپنے قدموں میں جھکا لیتی تھی
احمد بن عطاش اس کے پاس دو اور لڑکیاں لے آیا تھا انہیں قلعہ الموت پر قبضے کے لیے استعمال کرنا تھا یہ بھی تربیت یافتہ اور آزمائی ہوئی لڑکیاں تھیں انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ کس طرح صورتحال میں کیا کرنا ہے
تیسرے دن مہدی علوی آگیا حسن بن صباح نے اس کا استقبال اس طرح کیا کہ اپنے آدمیوں کو مہدی علوی کے راستے میں دو زاویہ کھڑا کیا ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں جو اوپر کرکے ان کی نوکیں آمنے سامنے کے آدمیوں نے ملا رکھی تھیں مہدی علوی ان تلواروں کے سائے میں گزر کر خیمے تک پہنچا وہاں حسن بن صباح نے اس کا استقبال کیا اور جب مہمان خیمے میں داخل ہوا تو خدیجہ اور دوسری دو لڑکیوں نے اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں مہدی علوی بڑی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا
کیا وہ آپ ہی ہیں جو آسمان سے اترے ہیں؟
کھانے کے بعد مہدی علوی نے حسن بن صباح سے پوچھا
کیا آپ کو یقین نہیں آرہا ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
نہیں مہدی علوی نے کہا کوئی مسلمان یقین نہیں کر سکتا کہ کوئی امام یا نبی آسمان سے اترا ہو
اور کوئی مسلمان آپکی کوئی بات یقین سے نہیں سنے گا جب تک اسے یہ یقین نہ دلائیں کہ آپ آسمان سے اترے ہیں حسن بن صباح نے کہا کیا آپ نہیں جانتے کہ نبیوں اور پیغمبروں کے ساتھ لوگوں نے کیا سلوک کیا تھا ؟
آپ کیا جانتے ہیں؟
مہدی علوی نے پوچھا نبوت؟
امامت عبادت! حسن بن صباح نے جواب دیا میں اللہ کی عبادت اور اس کے رسولﷺ کا عشق چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں سکون ہو اطمینان ہو اور میں عبادت میں ڈوب جاؤں میرے پیرومرشد نے مجھے بتایا ہے کہ عبادت میں مجھے ایک اشارہ ملے گا جو ویسا ہی ہوگا جس طرح رسول اللہﷺ پر وحی کا نزول ہوا کرتا تھا اس اشارے میں میری راہ اور میری منزل کا تعین ہوگا
لیکن آپ کا یہ شاہانہ خیمہ؟
مہدی علوی نے کہا اور یہ حسین و جمیل لڑکیاں اور یہ انداز عبادت کرنے والوں کے تو نہیں ہوتے؟
اور یہ میرے لئے ہیں بھی نہیں حسن بن صباح نے کہا میرے مریدوں اور معتقدوں میں آپ سے زیادہ اونچی حیثیت کے لوگ بھی ہیں میرے لیے یہ شان و شوکت انہوں نے ہی بنائی ہے میں تو چھوٹے سے ایک خیمے میں زمین پر بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتا ہوں آپ نے پوچھا ہے میں کیا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں اور اپنا وقار بحال کریں
مہدی علوی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک انسان سے نہیں بلکہ ایک پراسرار طاقت سے محو گفتگو ہے اور اسے محسوس نہیں ہو رہا کہ مکڑی کے جالے کے تار اس کے گرد لپیٹتے جا رہے ہیں
آپ کے معجزوں کی حقیقت کیا ہے ؟
مہندی علوی نے پوچھا تبریز میں کیا ہوا تھا اور سلجوقیوں کے ایک ہزار سواروں کے لشکر کو آپ نے کس طرح پسپا کیا تھا؟
یہ آپ مجھ سے نہ سنیں حسن بن صباح نے کہا ہو سکتا ہے مجھ پر آپ مبالغہ آرائی کا شک کریں یہ ان سلجوقیوں سے پوچھیں جو میرے اتنا کہنے پر کہ واپس چلے جاؤ وہ واپس چلے گئے تھے
حسن بن صباح نے اسے اپنے یہ معجزہ سنانے شروع کر دیئے ایک ایک لفظ دروغ اور مبالغہ تھا لیکن سنانے کا انداز ایسا کہ مہدی علوی مسحور ہوتا چلا گیا انسان کی خطرناک کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے لئے انسان ہاتھ پاؤں مارتا ہے کہ اس کا آنے والا وقت کیسا ہوگا اور اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے اور اسے بڑا رتبہ اور خزانہ کیسے مل سکتا ہے؟
کچھ ایسی ہی بات مہدی علوی حسن بن صباح سے کر بیٹھا حسن بن صباح قلعہ الموت سے واقف تھا اور یہ علاقہ تو اسے بہت ہی پسند تھا اس قلعے پر اس نے قبضہ کرنا تھا مہدی علوی کی بات سن کر حسن بن صباح نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے اوپر مراقبے کی کیفیت طاری کرلی
اوہ حسن بن صباح نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور گھبرائےہوئے سے لہجے میں بولا بڑی ہی کالی گھٹا ہے جو المُوت پر پھیلتی چلی جارہی ہے اس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اس نے جھوٹ بولا میں نے آپ کا قلعہ کبھی نہیں دیکھا مجھے جو نظر آرہا ہے وہ تو بہت ہی مضبوط ہے اس میں راہداریاں تہہ خانے راستے اور چور راستے ایسے ہیں کہ کوئی اجنبی ان میں چلا جائے تو انہیں میں بھٹک بھٹک کر مر جائے لیکن اتنے قیمتی قلعے اور اتنے خوبصورت شہر کے تحفظ کے لیے مجھے کوئی فوج نظر نہیں آرہی کیا میں صحیح کہہ رہا ہوں یا مجھے غلط نظر آرہا؟
مہدی علوی نے حسن بن صباح کی زبان سے اپنے قلعے کی تفصیلات سنیں تو اس پر رقت طاری ہو گئی اس نے حسن بن صباح کو بتایا کہ اس نے اپنے قلعے میں فوج رکھی ہی نہیں صرف ایک محافظ دستہ ہے جس میں پانچ سو سوار ہیں
فوج رکھیں حسن بن صباح نے کہا دشمن بڑھ رہا ہے گھٹا گہری ہو رہی ہے اگر آپ نے فوج رکھ لی تو یہ گھٹا جس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اڑ جائے گی اور آپ محفوظ رہیں گے فوج تجربے کار ہونی چاہیے بغیر فوج کے آپ قلعہ گوا بیٹھے گے
مہدی علوی حسن بن صباح کے جال میں آ گیا اس نے حسن بن صباح کے ساتھ اس مسئلہ پر بات شروع کر دی کہ وہ اتنی زیادہ فوج نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ فوج کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں حسن بن صباح اسے ڈراتا رہا کہ اس نے فوج نہ رکھی تو کوئی نہ کوئی دشمن اپنی فوج لے آئے گا اور قلعے پر قبضہ کر لے گا
حملہ آور سلجوقی بھی ہو سکتے ہیں حسن بن صباح نے کہا یہ گھٹا جو میں نے دیکھی ہے یہ بڑا ہی خطرناک اشارہ ہے میں آپ کی یہ مدد کر سکتا ہوں کہ میرے ساتھ جو آدمی ہیں میں ان کی ایک فوج بنا سکتا ہوں آپ انہیں دو وقت روٹی دے دیا کریں ان کی تنخواہ اور دیگر اخراجات میں اپنے ذمے لے لوں گا یہ میں جہاں سے بھی پورے کروں یہ میری ذمہ داری ہوگی آپ مجھے اپنے قلعے میں تھوڑی سی جگہ دے دیں جہاں میں عبادت کر سکوں اور جو لوگ میری زیارت کے لئے آئیں انہیں بٹھا کر ان کی رہنمائی کر سکوں مجھے امید ہے کہ میں اپنے پیروکاروں کو مریدوں کو جو بھی حکم دونگا وہ مانیں گے
مہدی علوی حسن بن صباح کی باتوں میں آ گیا اور اس کے ساتھ معاہدہ کر لیا تاریخ میں اس معاہدے کی تفصیلات نہیں ملتی البتہ یہ واضح ہے کہ وہ امیر قلعہ الموت مہدی علوی جس نے حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دیا تھا خود اس کے فریب میں گرفتار ہو گیا اور اس کی عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ یہ بھی نہ سوچ سکا کہ وہ کتنا خطرناک معاہدہ کر بیٹھا ہے
ادھر مرو میں سلطان ملک شاہ اور نظام الملک پیچ و تاب کھا رہے تھے سلطان ملک شاہ تو زیادہ فوج بھیج کر بہت بڑا حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن نظام الملک نے اسے روک دیا اور کہا تھا کہ ایسے عقلمند اور غیر معمولی طور پر دلیر جاسوس بھیجے جائیں جو حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کے خفیہ حلقے تک پہنچ کر اندر کی خبریں لائیں تاکہ ان کے مطابق کوئی کاروائی کی جائے
اصل بیچ و تاب تو سالار قزل ساروق کھا رہا تھا وہ اپنی بےعزتی کا انتقام لینے کو تڑپ رہا تھا اس نے سلطان ملک شاہ اور وزیر اعظم سے کئی بار کہا تھا کہ اسے جاسوسی کے لئے بھیجا جائے
یہ کام سالار کا نہیں ساروق! آخر ایک دن سلطان نے اسے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا حملے کی صورت میں ہم تمہیں ہی بھیجیں گے لیکن دو تجربوں کے بعد ہم تیسرا ناکام تجربہ نہیں کریں گے
میں حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا چاہتا ہوں قزل ساروق نے کہا تھا صرف یہ شخص قتل ہوجائے تو باطنیوں کا کھیل ختم ہو جائے گا
اس کی بجائے وہاں تم قتل ہو سکتے ہو نظام الملک نے کہا تھا اس صورت میں ہم سب کی بےعزتی ہوگی اور باطنی اور زیادہ شیر اور دلیر ہو جائیں گے
مزمل آفندی صحت یاب ہو چکا تھا سالار قزل ساروق جس طرح اپنے ایک ہزار سواروں کے ساتھ واپس آیا تھا اس سے مزمل آفندی بھی واقف تھا اسے وہ ملا بھی تھا اور اس کی قہر آلود باتیں بھی سنی تھیں قزل ساروق نے اسے بھی بتایا تھا کہ وہ اکیلا حسن بن صباح کے قتل کے لیے جائے گا مزمل نے اسے کہا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گا۔دونوں نے پلان تیار کرلیا تھا لیکن سلطان ملک شاہ نے قزل ساروق کو روک دیا
مزمل اکیلا نظام الملک سے ملا
جس مقصد کے لئے آپ جاسوس بھیج رہے ہیں وہ مقصد صرف میں پورا کر سکتا ہوں مزمل آفندی نے کہا میں آپ سے صرف ایک گھوڑا یا ایک اونٹ مانگوں گا
نہیں مزمل! نظام الملک نے کہا تھا ہم تمہیں کسی خطرناک مہم پر نہیں بھیج سکتے کیونکہ تم ہمارے ملازم نہیں
عالی جاہ! مزمل نے کہا تھا اس خطرناک مہم میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو ملازم نہیں ہوگا یہ کام وہ شخص کرے گا جس میں جذبہ ہوگا ملازم تو اپنے اہل و عیال کو روٹی کھلانے کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کرے گا میں حسن بن صباح کو اپنے دین اور اپنے عقیدے کے نام پر قتل کروں گا اگر قتل نہ کر سکا تو ان کی پردوں کے پیچھے کی خبریں اور ان کے دلوں کے بھید لے کر آؤں گا یہ ایک قومی مسئلہ ہے ہمارے دین کا مسئلہ ہے جتنا آپ کا ہے اتنا ہی میرا ہے میں آپ سے کوئی معاوضہ نہیں مانگ رہا مجھے جہاد اور شہادت کے راستے سے نہ ہٹائیں
نظام الملک کو ایسے ہی ایک آدمی کی تلاش تھی وہ مزمل آفندی کے دو کارنامے دیکھ چکا تھا شمونہ کی ماں میمونہ کو حسن بن صباح کے قبضے سے آزاد کرایا تھا یہ سنایا چکا ہے کہ حسن بن صباح نے میمونہ کے خاوند کو ایسے طریقے سے قتل کروایا تھا کہ میمونہ کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا یہ مزمل آفندی کا جذبہ ایثار تھا کہ وہ جان کی بازی لگا کر میمونہ کو حسن بن صباح کے بڑے ہی خطرناک اور ابلیسی فریب سے نکال لایا اور رے لا کر ابومسلم رازی کے گھر پہنچا دیا تھا معجزے جیسا اتفاق یہ ہوا کہ وہاں میمونہ کی بیٹی شمونہ مل گئی جو بچپن میں اغوا ہوئی تھی
مزمل آفندی کا دوسرا کارنامہ بھی کم قابل قدر نہ تھا اس نے سلطان ملک شاہ کو بتایا تھا کہ حسن بن صباح ایک قافلے کے ساتھ اصفہان جا رہا ہے سلطان ملک شاہ نے پانچ سو سوار بھیجے جن کی رہنمائی مزمل آفندی نے کی تھی پھر تبریز کی لڑائی میں مزمل اس لڑائی میں اتنا زیادہ زخمی ہوا تھا کہ اس کا زندہ رہنا مشکوک تھا لیکن وہ اتنی دور سے اس حالت میں مرو سلطان ملک شاہ کے پاس پہنچا تھا کہ طبیب اور جراح دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ یہ زندہ کیسے رہا
اب یہ مزمل آفندی ایک بار پھر اپنی جان کی بازی لگا رہا تھا نظام الملک اسے سلطان ملک شاہ کے پاس لے گیا سلطان نے اسے اجازت دے دی
مزمل آفندی اس علاقے میں جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک شمونہ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ رے سے آ گئی یہ دونوں رے میں ابومسلم رازی کے ساتھ رہتی تھیں وہاں جس روز اطلاع پہنچی تھی کہ مزمل شدید زخمی حالت میں مرو آیا ہے اس دن سے شمونہ اس کے پاس پہنچنے کو تڑپ رہی تھی لیکن کسی مصلحت کی بنا پر اسے مزمل کے پاس نہیں جانے دیا جا رہا تھا اب مزمل کی صحت یابی کی اطلاع ملی تو ابومسلم رازی نے اونٹ پر پالکی بندھوا کر ماں بیٹی کو مرو بھیج دیا محافظ دستے کے چند ایک سوار ساتھ بھیجے تھے
شمونہ پر مزمل کی محبت کا پاگل پن سوار تھا وہ مزمل کو اتنی لمبی جدائی کے بعد دیکھ رہی تھی اس کی جذباتی حالت اس ماں جیسی تھی جسے اپنا گمشدہ بچہ خلاف توقع مل گیا ہو وہ تو اس کے زخموں کے نشان چوم رہی تھی
میں پھر جا رہا ہوں شمونہ! مزمل نے کہا
کہاں؟
تمہاری اور تمہاری ماں کی عصمت کا انتقام لینے مزمل آفندی نے کہا اور اسے بتایا کہ اس کا مشن کیا ہے
میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی شمونہ نے بے تابی سے کہا
میرے لئے مشکل پیدا نہ کرو شمونہ! مزمل نے کہا تم حسن بن صباح کی دنیا سے بھاگی ہوئی ہو وہاں فوراً پہچانی جاؤں گی
تم حسن بن صباح کی دنیا سے واقف نہیں مزمل ؟
شمونہ نے کہا میں کوئی بھیس بدل لوں گی تمہاری رہنمائی کروں گی اس نے اتنی ضد کی کہ نظام الملک کو اطلاع دی گئی اس نے شمونہ سے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان اپنی بیٹیوں کو نہ میدان میں اتارا کرتے ہیں نہ انہیں جاسوسی کے لیے استعمال کیا کرتے ہیں
پھر ایک دو باتیں سن لو مزمل! شمونہ نے کہا کسی خوش فہمی میں نہ رہنا باطنیوں کی نظریں انسان کے جسم کے اندر بھی چلی جایا کرتی ہیں کسی پر اعتبار نہ کرنا وہاں تمہیں مجھ جیسی کوئی لڑکی مل جائے اور تمہارے آگے روئے اور فریاد کرے کہ میں مظلوم ہوں میری مدد کرو تو پتھر بن جانا یہ بھی یاد رکھنا کے وہاں پتھر بھی موم ہو جایا کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ قتل کرنے سے پہلے خود قتل ہو جاؤ میں نے پارساؤں کو پانی بنایا ہے وہ ابلیس کی ولایت ہے وہاں اللہ والے راہ سے بے راہ ہو جاتے ہیں
شمونہ نے اسے اور بھی بہت سی ہدایات دیں خطروں کی نشاندہی کی اور اسے بتایا کہ وہ راتوں کو سوئے تو ایک آنکھ کھول کر سوئے
مزمل آفندی نصف شب کے بعد مرو سے روانہ ہوا تھا اس نے داڑھی پہلے ہی بڑھا لی تھی اس سے پہلے اس کی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی ہوتی تھی جو اس کے سفیدی مائل گندمی چہرے میں دلکشی پیدا کرتی تھی اس نے سر کے بال بڑھائے اور کچھ دن پہلے ہی انہیں دھونا چھوڑ دیا تھا سلطان کے تجربے کار جاسوسوں نے اس کا بہروپ تیار کیا اور اسے شتربان بنا دیا جو اپنے اونٹ باربرداری اور سواری کے لیے کرائے پر دیتا تھا
وہ بڑی لمبی مسافت طے کرکے خلجان میں داخل ہوا اسے بتایا گیا تھا کہ وہ خلجان میں کہاں جائے اور کس سے ملے خلجان میں ایک آدمی تھا جو سلجوقیوں کے جاسوسوں کو اپنے پاس رکھتا تھا وہ خود جاسوس نہیں تھا جاسوسوں کی رہنمائی کرتا تھا سلجوقی جاسوس اپنے دائیں ہاتھ کی درمیانی اور چھوٹی انگلی کے درمیان والی انگلی میں ایک خاص ساخت کی انگوٹھی ڈال کر رکھتے تھے کسی جاسوس کو جب خفیہ طور پر پناہ دینے والا آدمی مل جاتا اور وہ جاسوس کو پہچان تو جاسوس انگوٹھی اتار کر چھپا لیتا تھا مزمل آفندی خلجان میں داخل ہوا حسن بن صباح مہدی علوی کے ساتھ قلعہ المُوت میں داخل ہوا
مہدی علوی کو حسن بن صباح نے رات اپنے یہاں مہمان رکھا تھا خود اپنی سادگی اور درویشی کے دکھاوے کے لیے معمولی سے ایک خیمے میں چلا گیا تھا اور مہدی علوی کو اپنے شاہانہ خیمے میں ٹھہرایا اور اس پر یہ ظاہر کیا تھا کہ یہ خیمہ اس کے لیے تیار کیا گیا تھا خیمے میں پھول ہی پھول نظر آتے تھے ان کی مہک خمار طاری کر رہی تھی
رنگا رنگ پھولوں میں ایک پھول اور بھی تھا جو چلتا پھرتا تھا مسکراتا تھا اس کی عطر بیز بو اور اس کے رنگ پھولوں سے جدا تھے یہ تھی خدیجہ جسے حسن بن صباح نے خاص ہدایات دے کر مہدی علوی کے ساتھ لگا دیا تھا بظاہر خدیجہ کا کام یہ تھا کہ مہمان کی دیکھ بھال کرے اس کا بستر ٹھیک کردے اور اس کے پاس پانی رکھ دے اور اس کے خیمے کی شمع بجھا کر باہر آ جائے پھر صبح اسے ناشتہ دے لیکن خدیجہ کو کوئی اور ہی مقصد دیا گیا تھا
رات کھانے کے بعد حسن بن صباح مہدی علوی کو خیمے میں اکیلا چھوڑ کر اپنے خیمے میں چلا گیا تو خدیجہ مہدی علوی کے پاس آ گئی اس نے لباس ایسا پہن رکھا تھا جس میں اس کا جسم پوری طرح مستور نہیں تھا لیکن اس کی باتوں اور حرکات میں بے حیائی نہیں بلکہ شرم وحجاب تھا مہدی علوی ادھیڑ عمر آدمی تھا بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا اس عمر میں آدمی بڑھاپے کو فریب دیا کرتا ہے کہ وہ ابھی جوان ہے مہدی علوی تو ایک شہر کا امیر یعنی حاکم تھا دولت میں کھیلتا تھا اس کی دو بیویاں تھیں لیکن حاکم شہر دو بیویوں سے مطمئن نہیں ہوا کرتے تھے نت نئے غنچوں کے متلاشی رہتے ہیں داشتہ ان کی زندگی کا لازمی جزو ہوتا تھا
خدیجہ کو دیکھ کر مہدی علوی نے اپنی جذباتی دنیا میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے خدیجہ کو معلوم تھا کہ مرد کو کوئی بات کئے بغیر کس طرح جال میں لایا جاتا ہے وہ خیمے میں گلدستے اور دیگر اشیاء قرینے سے رکھ رہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ مہدی علوی کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں وہ کوئی چیز اٹھا کر کہیں اور رکھنے کے لیے جھکتی تھی تو اس کے جسم کا کوئی ذرا سا حصہ عریاں ہو جاتا تھا
تم کون ہو ؟
مہدی علوی نے پوچھا
خدیجہ! خدیجہ نے جھوٹ بولا بیوہ ہوں خاوند تبریز کی لڑائی میں مارا گیا ہے میں امام کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ رہتی ہوں
بیوی بن کر ؟
مہدی علوی نے پوچھا یا شادی کے بغیر ہی
نہیں معزز مہمان! خدیجہ نے جواب دیا امام کسی عورت کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھتا نہ بیوی نا داشتہ امام تو آسمان کی مخلوق ہے خوبصورت لڑکیوں کو ساتھ رکھتا ہے لیکن بالکل اس طرح جس طرح گلدانوں میں پھول رکھے ہوئے ہیں
تم بیوہ ھو خدیجہ! مہدی علوی نے کہا جوان ہو اور اتنی حسین ہو کہ میں نے تم جیسی خوب صورت لڑکی کم ہی کبھی دیکھی ہے کیا تم مرد کے ساتھ کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تشنگی سی اور میں کیا کہوں
خدیجہ نے شرمانے کی ایسی اداکاری کی جیسے زمین میں اتر جانا چاہتی ہو مہدی علوی نے اپنا سوال دہرایا تو خدیجہ نے سر کے ہلکے سے اشارے سے بتایا کہ مرد کے ساتھ کی ضرورت محسوس کرتی ہے
کیا میرا ساتھ پسند کروں گی مہدی علوی نے کہا تمہارے امام سے اجازت لے لوں گا تمہیں بیوی نہیں ملکہ بناؤں گا میرے قریب آؤ میرے پاس بیٹھو
میں آپ کو ایک خاص شربت بلاتی ہوں خدیجہ نے کہا یہ ہم اپنے بہت ہی خاص مہمانوں کو پلایا کرتے ہیں
اس نے ایک صراحی میں سے ایک پیالا بھرا اور مہدی علوی کو پیش کیا یہ شربت خاص طور پر خیمے میں رکھا گیا تھا مہدی علوی نے شربت پی لیا اور خدیجہ کو اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لے لیا پھر جب شربت نے اپنا اثر دکھایا تو خدیجہ ایک طلسم یا ایک بڑا ھی حسین آسیب بن کر مہدی علوی پر غالب آگئی
خدیجہ جب آدھی رات سے کچھ پہلے خیمے سے نکلی تو اس کا جسم ویسا ہی پاک نہ تھا جیسا اس وقت تھا جس وقت وہ اس خیمے میں داخل ہوئی تھی
مہدی علوی کی آنکھ کھلی تو اس نے سب سے پہلے خدیجہ کو پکارا اور اسی روز وہ حسن بن صباح اور اسکے تمام آدمیوں کو اپنے ساتھ قلعہ الموت میں لے گیا خدیجہ اور دوسری لڑکیاں بھی ساتھ تھیں
ادھر مزمل آفندی خلجان میں داخل ہوا اسے بتا دیا گیا تھا کہ اس آدمی کا گھر کہاں ہے جس کے یہاں اس نے قیام کرنا ہے اس کا نام احمد اوزال تھا وہ سلجوق تھا مزمل نے تین چار آدمیوں سے اس کا گھر پوچھا آخر اس نے دو آدمیوں کو روکا اور ان سے احمد اوزال کا گھر معلوم کیا انہوں نے اسے صحیح راستے پر ڈال دیا وہ چلا گیا تو ان دونوں میں سے ایک آدمی نے اسے جاتے دیکھتا رہا
شاید میں اس شخص کو جانتا ہوں ایک نے کہا
جانتے ہوں گے دوسرے نے کہا شتربان ہے کبھی تم نے اس کا اونٹ استعمال کیا ہوگا
نہیں یہ شتربان نہیں پہلے آدمی نے کہا اور اس نے جس کا گھر پوچھا ہے وہ بھی مشکوک آدمی ہے
مزمل آفندی پہچانا گیا تھا اور وہ بے خبر تھا
رات کھانے کے بعد مزمل آفندی اور احمد اوزال الگ بیٹھ گئے اب بتاؤ مزمل! احمد اوزال نے پوچھا کیا تم کسی خاص مقصد کے لئے آئے ہو یا میری طرح جاسوسی کے لیے یہی رہوگے
میں بہت بڑا مقصد لے کر آیا ہوں احمد بھائی! مزمل نے کہا حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے یا اسے زندہ پکڑ کر سلطان ملک شاہ کے حوالے کرنا ہے
کیا تمہیں سلطان نے کہا ہے کہ یہ کام کرنا ہے؟
احمد اوزال نے پوچھا
ہاں احمد بھائی! مزمل نے جواب دیا سلطان نے کہا ہے اور وزیر نظام الملک نے بھی
نظام الملک نے بھی؟
احمد اوزال نے حیرت سے کہا وہ دونوں اسے کوئی عام سا فریب کار اور شیطان فطرت انسان سمجھ رہے ہیں جسے وہ بڑی آسانی سے قتل کرا دیں گے؟
اسی لیے انہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے مزمل نے کہا مجھے بتاؤ کہ میں اسے کہاں اور کس طرح قتل کر سکتا ہوں اگر تم اسے ناممکن سمجھتے ہو تو یہ بھی بتا دوں میں ناممکن کو ممکن کر کے دکھا دوں گا
تم جذبات کے غلبے میں بات کر رہے ہو مزمل! احمد اوزال نے کہا تم ناممکن کو ممکن نہیں بلکہ ممکن کو ناممکن بنا دو گے سلطان اور نظام الملک حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتے ہیں اسے قتل نہیں کروا سکتے تم کچھ دن یہاں رہو میں تمہیں قلعہ المُوت میں لے جاؤں گا خود ہی دیکھ لینا کہ اسے تم کس طرح قتل کر سکتے ہو ہم تین چار آدمی یہاں سے چھوٹی بڑی خبر سلطان تک پہنچا رہے ہیں
ایک بات کہوں احمد! مزمل نے کہا بری لگے تو معاف کر دینا میرا خیال ہے تم سلطان کے تنخواہ دار ملازم ہو تم اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے میں جذبہ لے کر آیا ہوں اس میں بری لگنے والی کوئی بات نہیں مزمل! احمد اوزال نے کہا بے شک ہم اس علاقے میں جو چند ایک آدمی جاسوسی کے لیے آئے ہیں سب تنخواہ دار ملازم ہیں لیکن ہم رضاکارانہ طور پر آئے ہیں اور وہی جذبہ لے کر آئے ہیں جس نے تمہیں یہاں آنے پر مجبور کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں تجربہ کار استادوں نے جاسوسی کی تربیت دی تھی پھر ہمیں آزمائشوں میں ڈال کر پرکھا اور اس وقت یہاں بھیجا جب انہوں نے اطمینان کر لیا کہ ہم اس کام کے لیے تیار ہوگئے ہیں صرف ایک جذبہ کچھ نہیں کر سکتا اور میں تمہیں یہ بھی بتادوں مزمل جس میں جذبہ نہیں وہ بھی کچھ نہیں کر سکتا
تم میری رہنمائی کرو احمد
کیوں نہیں کروں گا احمد اوزال نے کہا میں تمہیں الموت لے جاؤں گا خود دیکھنا کے حسن بن صباح تک قتل کے ارادے سے پہنچنا کس قدر دشوار اور خطرناک ہے اس نے نبوت کا دعوی نہیں کیا لیکن لوگوں نے اسے نبی ماننا شروع کر دیا ہے اس نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں جنت دکھا دے گا
یہ میں جانتا ہوں مزمل آفندی نے کہا اس نے اپنی شخصیت میں ابلیسی اوصاف پیدا کرلیے ہیں
ہاں! احمد اوزال نے کہا تم یہ بھی جانتے ہوں گے کہ انسانی فطرت کی کمزوریوں اور کبھی پوری نہ ہونے والی خواہشات کو اگر تسکین ملتی ہے تو وہ ابلیسی اوصاف سے ملتی ہے یا اس انسان سے ملتی ہے جس نے اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرلیے ہوں ابلیس کا بنیادی وصف ہے بندگان خدا کو خدا اور رسول اللہﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹانا اور نفسانی لذت پرستی کا عادی بنا دینا
باتیں بہت ہو چکی ہیں احمد بھائی! مزمل آفندی نے کہا اب کچھ کرنا ہے اس ابلیس کا راستہ روکنا ہے یہ صرف سلطان ملک شاہ کا مسئلہ نہیں یہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے یہ میرا اور تمہارا مسئلہ ہے یہ دین اسلام کا مسئلہ ہے میں حسن بن صباح پر دو وار کر چکا ہوں اس کے قبضے سے ایک عورت کو آزاد کرایا تھا
مزمل نے احمد اوزال کو سنایا کہ اس نے میمونہ کو کس طرح حسن بن صباح سے آزاد کرایا تھا یہ بھی سنایا کہ اس نے کس طرح اس قافلے پر پانچ سو سواروں کا چھاپا مروایا تھا جس قافلے کے ساتھ حسن بن صباح اصفہان جا رہا تھا
میں اپنی جان کی قربانی دینے آیا ہوں احمد بھائی! مزمل نے کہا مجھے تمھارے پاس بھیجا گیا ہے تم نے میری رہنمائی کرنا ہے میں عہد کر کے آیا ہوں کہ زندہ اسی صورت میں واپس جاؤنگا کے حسن بن صباح زندہ نہیں ہوگا میں کامیاب لوٹنا چاہتا ہوں
میں تمہارے ساتھ ہوں مزمل! احمد اوزال نے کہا میں تمہارا حوصلہ توڑ نہیں رہا صرف خطروں سے آگاہ کر رہا ہوں میں تمہیں چند دن اپنے پاس رکھ کر تمہاری تربیت کروں گا جاسوسی اور تباہ کاری کے معاملے میں تم بالکل کورے ہو تمہیں کچھ تو معلوم ہونا چاہیے یہاں تمہیں اپنے دوستوں سے بھی ملوانا ہے کل صبح باہر نکل جانا اور سارے شہر میں گھوم پھر کر یہاں کی گلیاں اور بازار بھی دیکھنا اور یہاں کے لوگوں کو بھی دیکھنا یہ خیال رکھنا کہ کوئی تمہارے ساتھ علیک سلیک کرے تو اسے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملنا یہ بتاؤ کہ تم سے کوئی پوچھ لے کہاں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو تو کیا جواب دو گے؟
کہہ دوں گا بغداد سے آیا ہوں مزمل نے جواب دیا اصفہان کہہ دوں گا میں نے بہت سفر کیا ہے اور بڑے شہروں سے واقف ہوں یہاں آنے کی وجہ سیرو سیاحت بتاؤں گا
یہ ٹھیک ہے احمد اوزال نے کہا تم عقل والے ہو میں سوچتا تھا کہ تم مرو رے نیشاپور کہو گے یہاں کسی کو پتہ نہ چلے کہ تمہارا سلطنت سلجوق کے ساتھ کوئی تعلق ہے میرے متعلق دل میں کوئی غلط فہمی نہ رکھنا مزمل! میں مسلمان تو ہوں لیکن میں سلجوق ہوں ترک ہوں اس سلطنت کی بنیادوں میں میرے آباء اجداد کا خون رچا بسا ہوا ہے میں اس سلطنت کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا میں پہلے مسلمان ہوں پھر سلجوق ہوں اس طرح اس سلطنت کے ساتھ میرے دو رشتے بنتے ہیں مجھے تنخواہ دار ملازم نہ سمجھنا میں تمہارے ساتھ نہیں ہوگا تو بھی مجھے اپنے ساتھ سمجھنا اور بہت ہی ضروری بات یہ ذہن میں رکھنا کہ اس شہر میں باطنیوں کے جاسوس بھی موجود ہیں کہیں پکڑے نہ جانا
اگلی صبح مزمل آفندی احمد اوزال کے گھر سے اس خیال سے نکلا کے سارے شہر میں گھوم پھر کر شہر سے واقفیت حاصل کرے گا گلی میں اسی کی عمر کا ایک آدمی ٹہل رہا تھا مزمل نے اس کی طرف توجہ نہ دی اسے صرف دیکھا اور ایک طرف نکل گیا وہ اس شہر میں اجنبی تھا گلیوں کے موڑ مڑتا گیا ایک گلی سے مڑ کر ایک اور گلی میں داخل ہوا ایک اور گلی اس گلی کے ساتھ ملتی تھی مزمل نے اس آدمی کو جسے اس نے احمد اوزال کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا اسے دوسری گلی میں آہستہ آہستہ چلتے دیکھا اب کے مزمل نے اسے ذرا توجہ سے دیکھا اسے یاد آیا کہ کل اس نے اسی آدمی سے احمد اوزال کا گھر پوچھا تھا
مزمل بازار میں چلا گیا اور ایک دکان پر رک گیا یہ خنجروں اور چھوٹی بڑی تلواروں کی دکان تھی مزمل خنجر اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگا اس نے دائیں طرف دیکھا اگلی دکان پر وہی آدمی کھڑا مزمل کی طرف دیکھ رہا تھا مزمل نے اسے دیکھا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا
اس کے بعد مزمل جدھر بھی گیا اس نے کچھ فاصلے پر اس آدمی کو دیکھا
دوپہر کے کھانے کے وقت مزمل واپس احمد اوزال کے گھر آیا اور اسے بتایا کہ ایک آدمی اس کا پیچھا کرتا رہا ہے
میں نے اسی آدمی سے تمہارے گھر کا پتہ پوچھا تھا مزمل نے کہا یہ حسن بن صباح کا جاسوس ہے احمد اوزال نے کہا تم نے تین چار دن ابھی یہیں رہنا ہے اس آدمی سے بچ کے رہنا یہ تمہیں قتل نہیں کرے گا نہ تمہیں گرفتار کرے گا یہ کسی وقت تمہیں ملے گا اور تمہیں دوست بنائے گا اسے اچھی طرح ملنا لیکن ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اسے شک ہو جائے یہی بتانا کہ تم سفر پر ہو میرے متعلق بتانا کہ میری تمہاری ملاقات حلب میں ہوئی تھی تم گھومو پھرو شہر سے باہر جنگل بھی دیکھنا بہت خوبصورت علاقہ ہے ایک ندی گذرتی ہے
ضرور جاؤں گا مزمل نے کہا قدرت کے حسن کا تو میں دلدادہ ہوں
نہیں مزمل! احمد اوزال نے کہا تم نے قدرت کے حسن میں کھو نہیں جانا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ تمہیں اگر یہاں سے بھاگنا پڑے تو جنگل میں کہاں کہاں چھپتے ہوئے بھاگو گے یاد رکھو مزمل جاسوس اور تباہ کار کو کیڑے مکوڑوں کی طرح رہنا ہوتا ہے
احمد اوزال نے اسے اور بھی بہت سی ہدایات دیں وہ مزمل کو باقاعدہ ٹریننگ دے رہا تھا
کھانے کے بعد مزمل پھر نکل گیا اس نے ادھر ادھر دیکھا اسے توقع تھی کہ وہ آدمی پھر اسے نظر آئے گا لیکن وہ نظر نہ آیا مزمل شہر سے نکل کر جنگل کی طرف ہو لیا آگے اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں جو سبز گھاس خوبصورت جھاڑیوں اور درختوں سے ڈھکی ہوئی تھیں واقعی بہت خوبصورت علاقہ تھا
مزمل آفندی جوان آدمی تھا ایسے روح افزا علاقے اسے بہت ہی اچھے لگتے تھے وہ دو تین ٹیکریوں کے درمیان سے گزر کر آگے چلا گیا اسے ندی نظر آئی اس کے کناروں پر گھنے درخت تھے اس کے پس منظر میں پہاڑی تھی وہ بھی سبز پوش تھی اس پر بادلوں کے سفید ٹکڑے منڈلا رہے تھے
مزمل ندی کی طرف جا رہا تھا
اسے اپنے پیچھے ایسی سرسراہٹ سنائی دی جیسے کوئی خشک گھاس پر چل رہا ہو اس نے گھوم کر پیچھے دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا اسے یوں شک ہوا جیسے اس نے کسی جنگلی جانور یا کتے یا بلّی کو ٹیکری کی اوٹ میں ہوتے دیکھا ہے اسے وہم سمجھ کر وہ ندی تک پہنچ گیا اور کنارے پر ٹہلنے لگا ندی کا جلترنگ بجاتا ہوا شفاف پانی دلوں پر وجد طاری کر رہا تھا
مزمل کو یاد آیا کہ احمد اوزال نے اسے کہا تھا کہ قدرت کے حسن میں ہی نہ کھو جانا بلکہ وہاں چھپنے کی جگہیں دیکھنا اس نے ہر سو دیکھا اسے جھاڑیوں کے اور اونچے اور گھنے پودوں کے جھرمٹ نظر آئے بعض ٹیکریاں دیواروں جیسی تھیں ان کے دامن میں ہاتھی گھاس بھی تھی اور ہرے سرکنڈے بھی بعض گھنے درخت ایسے بھی تھے جن کے نیچے والے ٹہن زمین کے قریب آگئے تھے مزمل کو خیال آیا کہ وہ ایسے کسی ٹہن پر چڑھ جائے گا اور چوڑے پتوں والی گھنی شاخیں اسے چھپا لیں گیں
اسے ندی کے کنارے کے قریب تین چار درختوں کا جھنڈ دکھائی دیا ان پر چوڑے پتوں والی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں یہ درختوں کے درمیان سے اٹھ رہی تھیں ان بیلوں نے درختوں کے نیچے غار یا گف کی طرح کا کمرہ سا بنا رکھا تھا
مزمل ندی کے ساتھ ساتھ وہاں تک جانے کی بجائے چکر کاٹ کر عقب سے آگے گیا اسے سامنے سے دیکھنے کو آگے ہوا تو وہ ٹھٹک کر ایک قدم پیچھے ہو گیا وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا مزمل کو کسی آدمی سے کوئی ڈر اور خطرہ نہیں ہو سکتا تھا لیکن یہ وہی آدمی تھا جو گلیوں اور بازاروں میں اس کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا تھا کچھ دیر پہلے مزمل نے اپنے پیچھے جو آہٹ اور سرسراہٹ سنی تھی وہ اسی آدمی کی تھی
اسے وہاں دیکھ کر مزمل فوراً سمجھ گیا کہ یہ شخص جنگل میں بھی اس کے پیچھے آ گیا ہے وہ غصے سے آگ بگولا ہوگیا اس نے اپنے کپڑوں کے اندر خنجر اڑس رکھا تھا وہ آدمی اٹھ رہا تھا مزمل نے بڑی تیزی سے خنجر نکالا اس کے ذہن میں احمد اوزال کے الفاظ گونجے یہ حسن بن صباح کا جاسوس ہے مزمل کو یوں سنائی دیا جیسے اسے کسی نے کہا ہو یہ حسن بن صباح ہے
یہ آدمی اٹھا ہی تھا کہ مزمل کا بایاں ہاتھ تیر کی طرح آگے ہوا اور اس ہاتھ نے اس آدمی کی گردن دبوچ لی مزمل کے دوسرے ہاتھ میں خنجر تھا اس کے خنجر کی نوک اس شخص کے دل کے مقام پر رکھ دی بائیں ہاتھ کا پنجہ اتنی زور سے دبایا کہ اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مزمل کی بائیں کلائی پکڑ لی اور تڑپنے لگا اس میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ مزمل کے پنچے سے اپنی گردن چھڑوا سکتا اس کے ساتھ ہی مزمل کے خنجر کی نوک اس کے دل کے مقام پر چبھ رہی تھی
مزمل اسے جان سے مار سکتا تھا لیکن اسے خیال آگیا کہ اس سے یہ تو پوچھ لے کے وہ کون ہے اور چاہتا کیا ہے اور اگر وہ حسن بن صباح کے باطنی فرقہ کا جاسوس ہے تو اس سے راز کی کچھ باتیں پوچھ لے یہ خیال آتے ہی اس نے اس شخص کی ٹانگوں کے پیچھے اپنی ایک ٹانگ کر کے بائیں ہاتھ سے ایسا دھکا دیا کہ وہ آدمی پیٹھ کے بل گرا مزمل کود کر اس کے پیٹ پر بیٹھ گیا اور خنجر کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی
کیا چاہتے ہو؟
مزمل نے پوچھا میرے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہو
میں بتا نہیں سکتا اس نے کہا بتایا تو تم مجھے قتل کر دو گے قتل تو میں تمہیں کر ہی دوں گا مزمل نے کہا سچ بول دو گے تو شاید میں تمہیں چھوڑ دوں
اس وقت میری جان تمہارے ہاتھ میں ہے اس نے کہا اس لئے میں تمہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وعدہ کرو تم کسی کو بتاؤ گے نہیں سچ بولو گے تو جو وعدہ چاہو گے پورا کروں گا مزمل نے کہا میں نے تمہیں قتل کرنا تھا اس شخص نے کہا لیکن ایک بات کا یقین کرنا تھا
میرا قصور؟
تم باطنیوں کے جاسوس ہو اس آدمی نے کہا تم حسن بن صباح کے اس گروہ کے آدمی ہو جو بڑے لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور میں حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں تم نے کہا تھا سچ بولو میں نے سچ بول دیا ہے اب چاہو تو مجھے قتل کردو
تمہیں کس نے بتایا میں حسن بن صباح کے قاتل گروہ کا آدمی ہوں؟
مزمل آفندی نے پوچھا
کل تم نے مجھ سے احمد اوزال کا گھر پوچھا تھا اس نے جواب دیا میرے ساتھ ایک اور آدمی تھا اس نے تمہارے متعلق کہا تھا کہ اسے شک ہے کہ تم باطنی ہو اور شاید تم قاتل گروہ کے آدمی ہو میں یہی معلوم کرنے کے لئے تمہارے پیچھے پھر رہا تھا شک صحیح ہونے کی صورت میں میں نے تمہیں قتل کرنا تھا ہمیں بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح کے پیشہ ور صرف ایک قاتل کو قتل کرنے کا اتنا ہی ثواب ملتا ہے جیسے تم نے حسن بن صباح کو قتل کر دیا بےشک اس وقت میری جان تمہارے قبضہ اختیار میں ہے لیکن تم میں مردانگی ہے تو تم بھی سچ بتا دو کہ تم پر میرا جو شک ہے یہ صحیح ہے یا غلط
کم عقل انسان! مزمل نے کہا اگر تمہارا شک صحیح ہوتا تو اب تک میرا خنجر تمہاری شہ رگ کاٹ چکا ہوتا
مزمل آفندی نے اس کی شہ رگ سے خنجر ہٹا لیا پھر اس کے پیٹ سے اتر کر اس کے قریب بیٹھ گیا وہ آدمی اٹھ بیٹھا
کون سے فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟
مزمل نے اس سے پوچھا نام کیا ہے تمہارا
اہل سنت ہوں اس نے جواب دیا عبید ابن عابد میرا نام ہے سب مجھے بن عبد کہتے ہیں
حسن بن صباح قلعہ المُوت میں ہے مزمل نے کہا اور تم یہاں خلجان میں اسے کس طرح قتل کرو گے؟
دیکھو میرے دوست بن عابد نے کہا میں نے تمہیں اپنا راز دے دیا ہے اب اور زیادہ بھید لینے کی کوشش نہ کرو تمہارا خنجر میرے دل پر اور شہ رگ تمہارے پنچے میں آ گئی تھی اور میں بے بس ہو گیا تھا اب تمہارے ہاتھ میں خنجر ہے اور میں خالی ہاتھ ہوں مجھ پر حملہ کر کے دیکھو میں استادوں سے خالی ہاتھ لڑنے اور قتل کرنے کی تربیت لے کر آیا ہوں میں کوئی گیا گزرا آدمی نہیں ہوں میرے آباء اجداد ثقفی تھے مجھے تم پر شک ہے کہ تم کسی اور فرقے کے آدمی ہو؟
میں اہل سنت ہو بن عابد! مزمل نے کہا میرے دادا اصفہان میں آباد ہو گئے تھے میں تم سے ایک خاص مقصد کے لئے پوچھ رہا ہوں کہ حسن بن صباح کو کس طرح قتل کرو گے؟
یہ کام ایک آدمی کا نہیں بن عابد نے کہا مجھے ایک ساتھی کی ضرورت ہے میں اسی مقصد کے لیے خلجان میں رکا ہوا ہوں میں حیران ہوں کہ ایک سے بڑھ کر ایک دلیر آدمی موجود ہے جذبے والے بھی موجود ہیں یہ وہ پکے مسلمان ہیں جو حسن بن صباح کا نام سنتے ہی تو تھوک دیتے ہیں لیکن حسن بن صباح کے قتل کے لیئے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا
وجہ کیا ہے ؟
بزدلی بن عابد نے جواب دیا
کہتے ہیں وہاں جا کر بندہ خود قتل ہوجاتا ہے حسن بن صباح کو قتل نہیں کیا جاسکتا
تمہارا اپنا کیا خیال ہے؟
میرے بھائی! بن عابد نے جواب دیا میرا اپنا کوئی خیال نہیں مسلمان جو کچھ کرتا ہے اللہ کے حکم سے کرتا ہے اس کا اپنا کوئی خیال نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی راہ میں جان قربان کر دیا کرتا ہے اگر دو دنوں تک مجھے کوئی ساتھی نہ ملا تو میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا پھر دیکھوں گا کون قتل ہوتا ہے میں یا حسن بن صباح
عبید بن عابد بولتا چلا گیا اور اس کا لہجہ پہلے سے زیادہ جذباتی ہو گیا ایک سحر سا تھا جو مزمل آفندی پر طاری ہوتا چلا جا رہا تھا اسے ایک ایسا آدمی مل گیا تھا جو اس کا صرف ہم خیال ہی نہیں تھا بلکہ وہ بھی وہی عزم لے کر گھر سے نکلا تھا جو مزمل کو اتنی دور سے یہاں لے آیا تھا
اگر میں کہوں کہ میں بھی اسی ارادے سے آیا ہوں مزمل نے کہا تو مان لو گے
نہیں بن عابد نے کہا میں پچھتا رہا ہوں کہ تمہیں اپنا راز دے دیا ہے مجھے تم پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں بن عابد! مزمل نے کہا یوں سمجھو کہ تم جس ساتھی کی تلاش میں ہو وہ تمہیں مل گیا ہے مزمل اتنا جذباتی ہو گیا تھا کہ اس نے خنجر اپنے سامنے زمین پر رکھ دیا وہ بن عابد کے سامنے بیٹھا ہوا تھا بن عابد نے بڑے آرام سے خنجر اٹھا لیا اور اسے دیکھنے لگا جیسے بچہ کوئی چیز اپنے ہاتھوں میں لے کر اشتیاق سے دیکھا کرتا ہے عابد پہلے سے زیادہ جذباتی لہجے میں بول بھی رہا تھا
وہ بیٹھے بیٹھے اچانک اچھلا اور مزمل پر جا پڑا مزمل اس اچانک حملے سے پیٹھ کے بل گرا بن عابد اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور خنجر کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی
اب بتا تو کون ہے باطنی مردود! بن عابد نے کہا تو ان باطنیوں کا جاسوس ہے تو حسن بن صباح ابلیس کے خاص گروہ کا آدمی ہے میں نے تجھے اپنا راز دے دیا ہے تجھے میں زندہ کیسے رہنے دوں
مزمل منت سماجت کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا وہ قسمیں کھا کھا کر یقین دلا رہا تھا کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور وہ حسن بن صباح کے قتل کے ارادے سے آیا ہے بن عابد مان نہیں رہا تھا
پھر یوں کرو بن عابد بڑی مشکل سے مانا اور شرط یہ بتائی میرے ساتھ وہاں چلو جہاں میں رہتا ہوں
بن عابد اس کے سینے سے ہٹ گیا اور مزمل اٹھ کر بیٹھ گیا میں اپنے دوست احمد اوزال کے یہاں ہی کیوں نہ رہوں مزمل نے کہا الموت تمہارے ساتھ چلوں گا
نہیں بن عابد نے کہا میں تمہیں اس لیے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں کہ مجھے مکمل طور پر یقین کرنا ہے کہ تم قابل اعتماد ہو اور تمھیں اپنے ساتھ لے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ احمد اوزال ٹھیک آدمی نہیں میں جانتا ہوں وہ سلجوق ہے اور شاید سلجوقی سلطان کے لیے جاسوسی بھی کرتا ہے میرے یہاں کے دوستوں کو شک ہے کہ وہ باطنیوں کا بھی وفادار ہے دوغلا آدمی ہے تمہیں اس نے کیا کہا ہے؟
میں نے اسے بتا دیا ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں؟
مزمل نے جواب دیا اس نے کہا ہے کہ وہ قلعہ المُوت تک میرے ساتھ چلے گا اور میری رہنمائی کرے گا
بچو میرے دوست! بن عابد نے کہا یہ تمہیں الموت لے جاکر مروائے گا تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس رہنے کی تم پر پابندی نہیں میرے دوستوں سے ملو گے اور ان کی باتیں سنو گے تو خود محسوس کرو گے کہ تمہیں ہمارے پاس ہی رہنا چاہئے اس صورت میں ہم تمہارے دوست کو پتہ نہیں چلنے دیں گے
مزمل آفندی پر خاموشی طاری ہوگئی اس کا ذہن الجھ گیا وہ بن عابد کے ساتھ چل پڑا اسے چلتے چلتے خیال آیا کہ احمد اوزال کو تو وہ جانتا ہی نہیں تھا اس کے پاس آئے ابھی ایک رات ہی گزری اور اگلا دن گزر رہا تھا
عبید ابن عابد اسے ایک گھر میں لے گیا جہاں دو آدمی موجود تھے وہ اٹھ کر بڑے تپاک سے مزمل سے ملے بن عابد نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ مزمل بھی اسی مشن پر آیا ہے جو مشن عابد کا ہے ان دونوں آدمیوں نے مزمل کے ساتھ وہی باتیں کیں جو بن عابد نے کی تھی مزمل نے انہیں بھی یقین دلانے کی کوشش کی کہ باتطنیوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں
مزمل آفندی! ایک آدمی نے کہا تم قرآن ہاتھوں پر اٹھا کر قسم کھا سکتے ہو مسجد میں جا کر بھی قسم کھا سکتے ہو لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہوگا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ سچ ہے میں تمہیں ایک بات بتا دوں اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو زندہ نہیں رہوگے دنیا کے کسی بھی گوشے میں چلے جاؤ گے تمہیں قتل کرنے کے لئے ہمارا ایک آدمی وہاں پہنچ جائے گا اگر تم اسلام کے ساتھ مخلص اور دیانتدار ہو تو ہمارے پاس رہو اب چونکہ ہم نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا راز دے دیا ہے اس لیے یہ بھی بتا دو کہ تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے؟
سلطان ملک شاہ کے وزیر نظام الملک نے مزمل نے صحیح بات بتادی انہوں نے ہی کہا تھا کہ خلجان جاکر احمد اوزال کا گھر پوچھ لینا اور اسے بتانا کہ تمہیں ہم نے بھیجا ہے پھر اسے بتانا کہ تم کیوں آئے ہو وہ تمہارا ساتھ دے گا
بن عابد نے تمہیں بتایا ہوگا اس آدمی نے کہا احمد اوزال قابل اعتماد آدمی نہیں اگر یہ تمہیں پکڑوا دے گا تو ہم حیران نہیں ہوں گے ہمیں بن عابد کے لیے ایک ساتھی کی ضرورت تھی ہم تو کہتے ہیں کہ اللہ نے ہماری مدد کی ہے کہ تمہیں بھیج دیا ہے اور یہ بھی اللہ کی ہی مدد ہے کہ تم ہمیں مل گئے اور ہم نے تمہیں احمد اوزال سے بچا لیا
تم ایک بار ضرور سوچو گے دوسرے آدمی نے کہا تم پوچھ سکتے ہو کہ ہم میں سے کوئی بن عابد کے ساتھ کیوں نہیں گیا؟
یہ تو میں ضرور پوچھوں گا مزمل نے کہا جواب پر غور کرو مزمل! اس آدمی نے کہا اگر ہم بن عابد کے ساتھ چلے گئے تو پیچھے ہمارے محاذ کو چلانے والا کوئی نہیں رہے گا ہمارے محاذ میں کچھ آدمی اور بھی ہیں لیکن وہ اتنے بڑے خطرے میں جانے کے قابل نہیں اور وہ جانے سے ڈرتے بھی ہیں
میں ڈرنے والوں میں سے نہیں مزمل نے کہا لیکن میں یہ یقین کس طرح کرو کہ تم لوگ مجھے دھوکہ نہیں دے رہے ؟
یہی سوال ہم تم سے پوچھنا چاہتے ہیں اس آدمی نے کہا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں کہ تم ہمیں دھوکا نہیں دوں گے؟
اس مسئلہ پر باتیں شروع ہوئیں تو مزمل آفندی کو یقین آگیا کہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں اور اس نے انہیں یقین دلا دیا کہ وہ بھی قابل اعتماد ہے اس کا اس نے یہ ثبوت پیش کیا کہ اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ احمد اوزال کے پاس نہیں جائے گا
اس جماعت کا جو سردار بنا ہوا تھا اس نے فیصلہ کیا کہ آج ہی رات بن عابد اور مزمل قلعہ الموت کو روانہ ہو جائیں
ہمارے دو آدمی وہاں بھی موجود ہیں مزمل! سردار نے کہا بن عابد کو معلوم ہے وہ بڑی اچھی اور محفوظ پناہ ہے تمہیں کسی بہروپ کی بھی ضرورت نہیں یہ خیال رکھنا کہ کوئی تم سے پوچھے کہ تم کون ہو تو کہنا میں امام کا شیدائی ہوں کسی کے ساتھ حسن بن صباح کے خلاف کوئی بات نہ کرنا
قتل کس طرح کریں گے ؟
مزمل نے پوچھا
یہ تم نے وہاں جا کر دیکھنا ہے سردار نے کہا ویسے اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے وہ لوگوں کے سامنے آتا ہے لیکن لوگوں کے درمیان یعنی قریب نہیں آتا تم دونوں یوں کرنا کہ اس کے محافظوں تک پہنچ جانا اور رو رو کر تڑپ تڑپ کر منت سماجت کرنا کہ تم امام کے ہاتھ چومنے کے لئے اصفہان سے آئے ہو اگر تمہیں اجازت مل جائے تو خنجر تمہارے پاس ہوں گے یہ سوچ لو کہ اسے تو قتل کر دو گے لیکن خود وہاں سے زندہ نہیں نکل سکو گے دوسرا طریقہ تیر ہے حسن بن صباح کبھی کبھی باہر نکلتا ہے یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس پر کہاں سے تیر چلا سکتے ہو اس صورت میں تمہیں بھاگ نکلنے کا موقع مل سکتا ہے
میرا مقصد اسے قتل کرنا ہے مزمل نے کہا بھاگ سکے تو بھاگ آئیں گے ورنہ بھاگنا میرا مقصد نہیں
یہ ہوئی نہ بات بن عابد نے کہا ایسا ساتھی مجھے کہاں مل سکتا تھا
سورج غروب ہوگیا تو احمد اوزال مزمل کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا اور پریشان ہو گیا اس نے مزمل سے کہا بھی تھا کہ غروب آفتاب سے پہلے واپس آ جائے وہ وہاں اجنبی تھا کہیں گھر کا راستہ نہ بھول گیا ہو احمد اوزال کو یہ خطرہ بھی نظر آ رہا تھا کہ مزمل جاسوسی کی اونچ نیچ اور خطروں سے بالکل ہی واقف نہیں تھا کسی باطنی کے جال میں نہ آ گیا ہو
احمد اوزال گھر سے نکلا اور گلیوں میں گھومنے پھرنے لگا بازار بھی چھان مارا واپس گھر آیا مزمل واپس نہیں آیا تھا احمد اوزال اپنے ایک ساتھی کے گھر گیا اور اسے مزمل کے متعلق بتایا یہ شخص بھی سلجوقیوں کا جاسوس تھا
یہ تمہاری غلطی ہے اس کے ساتھی نے کہا تم نے یہ آدمی مجھے دکھایا ہی نہیں میں اسے کہا ڈھونڈ سکتا ہوں
کل شام ہی مرو سے آیا تھا احمد اوزال نے کہا میں نے آج رات اسے تمہارے پاس لانا تھا
وہ بچہ تو نہیں کہ رستہ بھول گیا ہو گا اس آدمی نے کہا تم جانتے ہو خلجان حسن بن صباح کے ان آدمیوں سے بھرا پڑا ہے جو مخالفوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہ اتنے ماہر ہیں کہ اجنبی کا چہرہ دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ یہ شخص مشکوک ہے یا بے ضرر ہے مجھے تو یہی نظر آرہا ہے کہ ہمارا یہ مہمان اسی جال میں آ گیا ہے اصل خطرہ یہ ہے کہ وہ تمہاری نشاندہی کر دے گا
میں وزیراعظم نظام الملک کو کیا جواب دوں احمد اوزال نے کہا انہوں نے اسے میرے پاس بھیجا تھا
صرف کل شام تک انتظار کرو احمد کے ساتھی نے کہا اگر وہ نہ آیا تو رات کو ہی نکل جانا مرو جا کر سلطان کو بتانا کہ آپ کا بھیجا ہوا آدمی لاپتہ ہو گیا ہے
سلطان کیا کرے گا؟
احمد اوزال نے کہا جاسوسی کا نظام وزیراعظم نظام الملک نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے اس شخص کو بھی اسی نے بھیجا ہے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ اس آدمی میں عقل کی باریکی بھی ہے یا نہیں اس کی صرف جذباتی باتیں سنیں اور بھیج دیا حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے
وزیراعظم کو یہی بتانا اس کے ساتھی نے کہا انہیں کہنا کہ اس قسم کے اناڑیوں کو نہ بھیجا کریں یہ ہمیں بھی پکڑوائیں گے تمہیں یہاں سے نکل جانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس نے جذبات میں آکر آپ غیر دانستہ طور پر تمہاری نشاندہی کر دی ہو
احمد اوزال پھر بھاگم بھاگ اپنے گھر اس توقع پر گیا کے مزمل شاید آگیا ہو لیکن مزمل نہیں آیا تھا اب اس نے اس حقیقت کو قبول کرلیا کہ مزمل لاپتہ ہو گیا ہے اسے اپنے ساتھی کا مشورہ دانشمندانہ لگا کہ اسے خلجان سے نکل جانا چاہیے
رات کے اس وقت جب احمد اوزال مزمل آفندی کے لئے پریشان ہو رہا تھا اور جب اسے یہ خطرہ اور پریشان کر رہا تھا کہ مزمل نے بھولے پن میں اس کی نشاندہی کر دی ہو گی اس وقت دو گھوڑے شہر سے نکلے ایک پر بن عابد اور دوسرے پر مزمل آفندی سوار تھا شہر سے نکل کر انہوں نے قلعہ الموت کا رخ کرلیا
ان کے ساتھ بن عابد کے وہ دو ساتھی تھے جن کے یہاں بن عابد مزمل کو لے گیا تھا اور انہوں نے مزمل کو قائل کرلیا تھا کہ وہ احمد اوزال کے پاس نہ جائے یہ دونوں شہر کے باہر تک بن عابد اور مزمل کے ساتھ گئے تھے اور انہوں نے دعاوں سے رخصت کیا تھا
اللہ تمہیں امان میں رکھے ایک نے کہا
اللہ تمہیں کامیاب واپس لائے گا دوسرے نے کہا گھوڑے رات کی تاریکی میں تحلیل ہو گئے تو یہ دونوں واپس آ گئے
ایک تو ہاتھ آ گیا ان میں سے ایک نے جو اس خفیہ جماعت کا سردار تھا اپنے ساتھی سے کہا اب بتاؤ عمر! اسے بھی پکڑ لیں
احمد اوزال کو؟
عمر نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا اس کے متعلق کوئی شک تو رہا نہیں یہ شخص مزمل سارے شک صحیح ثابت کر گیا ہے ایک بات بتاؤ شمش! کیا ہم دو آدمی اسے پکڑنے کے لیے کافی ہیں؟
کیوں نہیں شمس نے کہا وہ اکیلا رہتا ہے ذرا عقل سے کام لو وہ اپنے اس مہمان مزمل کے لئے پریشان ہو گا کہ وہ کہاں گیا ہے ہم یہ ذہن میں رکھ کر اس کے گھر میں داخل ہو سکیں گے
رات اسے اپنے گھر باندھ کر رکھیں گے عمر نے کہا
اور کل رات اسے یہاں سے لے جائیں گے شمس نے کہا اور امام کے حوالے کرکے کہیں گے لو ایک اور سلجوقی جاسوس آگیا ہے امام المُوت پہنچ گیا ہے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/feed/ 0
جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/ https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/#respond Thu, 11 Jul 2024 16:11:52 +0000 https://urducover.com/?p=2862  

جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام
=====================

حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا حضور! مجھے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے مجھے اس بات کا بڑا شوق ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا یہ شوق اچھا نہیں ، تم اس بات کو رہنے دو۔ اس نے کہا حضور آپ کا اس بات میں کیا نقصان ہے۔ میرا ایک شوق ہے اسے پورا کر ہی دیجئے۔حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اللہ سے عرض کی کہ مولا یہ بندہ مجھ سے اس بات کا اصرار کر رہا ہے میں کیا کروں؟ حکم الٰہی ہوا کہ جب یہ شخص باز نہیں آتا تو اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیں۔ اس شخص نے ایک مرغ اور ایک کتا پال رکھا تھا۔

ایک دن کھانا کھانے کے بعد اسکی خادمہ نے جب دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ایک ٹکڑا گرا تو کتا اور مرغ دونوں اس کی طرف لپکے اور وہ روٹی کا ٹکڑا اس مرغ نے اٹھا لیا۔ کتے نے اس مرغ سے کہا۔ ارے ظالم میں بھوکا تھا یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے، تیری خوراک تو دانہ دنکا ہے مگر تم نے یہ ٹکڑا بھی نہ چھوڑا۔ مرغ بولا گھبراؤ نہیں، کل ہمارے مالک کا یہ بیل مر جائے گا تم کل جتنا چاہو گے اس کا گوشت کھا لینا۔ اس شخص نے ان کی یہ گفتگو سن لی تو بیل کو فورن بیچ ڈالا۔ وہ بیل دوسرے دن اس آدمی کے پاس جا کر مر گیا۔ کتے نے مرغ سے کہا۔ بڑے جھوٹے ہو تم، خواہ مخواہ مجھے آج کی امید میں رکھا، بتاؤ کہاں ہے وہ بیل؟ جس کا گوشت میں کھا سکوں۔ مرغ نے کہا میں جھوٹا نہیں ہوں۔ ہمارے مالک نے نقصان سے بچنے کے لئے بیل بیچ ڈالا ہے اور اپنی بلا دوسرے کے سر ڈال دی ہے، مگر لو سنو! کل ہمارے مالک کا گھوڑا مرے گا۔ کل گھوڑے کا گوشت جی بھر کے کھانا۔

اس شخص نے یہ بات سنی تو گھوڑا بھی بیچ ڈالا۔ دوسرے دن کتے نے شکائیت کی تو مرغ بولا۔ بھئی کیا بتاؤں ہمارا مالک بڑا بے وقوف ہے جو اپنی آئی غیروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے گھوڑا بھی بیچ ڈالا ہے اور گھوڑا خریدار کے گھر جا کر مر گیا، اسی گھر میں مرتے تو ہمارے مالک کی جان کا فدیہ بن جاتے۔ مگر اس نے ان کو بیچ کر اپنی جان پر آفت مول لی ہے۔ لو سنو اور یقین کرو۔ کل ہمارا مالک خود ہی مر جائے گا اور اسکے مرنے پر جو کھانے دانے پکیں گے، اس میں سے بہت کچھ تمھہیں بھی ملے گا۔

اس شخص نے جب یہ بات سنی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو دوڑتا ہوا حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس آیا اور بولا حضور! میرے غلطی معاف فرمائیے اور موت سے مجھے بچا لیجئے۔ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے فرمایا۔ نادان! اب یہ بات مشکل ہے۔ آئی قضا ٹل نہ سکے گی۔ تمہیں اب جو بات سامنے نظر آئی ہے مجھے اسی دن نظر آ رہی تھی جب تم جانوروں کی بولیاں سیکھنے کی ضد کر رہے تھے اب مرنے کے لیے تیار رہو۔ چنانچہ دوسرے دن وہ شخص مر گیا۔

سبق: مال و دولت پہ اگر کسی قسم کی آفت آ جائے تو انسان کو صبر کرنا چاہئے، اور غم اور شکوہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اپنی جان کا فدیہ سمجھ کر اللہ کا شکر ہی ادا کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ جو ہوا بہتر ہوا۔ اگر مال پر یہ آفت نازل نہ ہوتی تو ممکن ہے جان ہلاکت میں پڑ جاتی۔

]]>
https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/feed/ 0
ISLAMIC STORY ماں کو قتل کرنے والے کاعبرت ناک انجام https://urducover.com/islamic-story-in-urdu/ https://urducover.com/islamic-story-in-urdu/#respond Mon, 01 Jul 2024 13:53:45 +0000 https://urducover.com/?p=2456     ماں کو قتل کرنے والے کاعبرت ناک انجام

ISLAMIC STORY

  • •<><••••<>><••••><<><••••<><••

حضرت سیدنا جعفر بن سلیمان علیہ رحمۃالمنّان فرماتے ہیں

 حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفّار نے فرمایا

 ”ایک مرتبہ حج کے موسم میں، مَیں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ۔

حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کی اتنی کثرت تھی کہ انہیں دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ میرے دل میں یہ خواہش اُبھری کہ کاش !کسی طر ح مجھے معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں میں سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کون مقبول ہے تاکہ میں اس کو مبارکباد دوں اور جس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ یہ مردود ہے او راللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس کا حج قبول نہیں تو اس کو نیکی کی دعوت دو ں اور اس کے لئے دعا کروں۔”

جب رات کو میں سویا تو خواب میں کسی کہنے والے نے کہا

”اے مالک بن دینار! تُو حاجیوں او ر عمرہ کرنے والوں کے بارے میں فکر مند ہے ؟

تو سن !اس مرتبہ اللہ عزوجل نے ہر چھوٹے بڑے ، مرد وعورت ، سفیدوسیاہ رنگت والے ، عربی وعجمی الغرض ہر حج اور عمرہ کرنے والے کو بخش دیا ہے لیکن ایک شخص کی مغفرت نہیں کی گئی،

 ﷲ عزوجل کا اس شخص پر بہت زیادہ غضب ہے اور ﷲ عزوجل اس سے ناراض ہے۔ اس کا حج قبول نہیں کیا گیابلکہ اس کے منہ پر مار دیا گیا ہے ۔”

حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”اس خواب کے بعد میری جو حالت ہوئی اسے ﷲ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے ۔” میں نے یہ گمان کرلیا کہ وہ مغضوب شخص شاید مَیں ہی ہوں اور ﷲ عزوجل مجھ سے ناراض ہے۔ میں بہت پریشان رہا۔ سارا دن اسی غم اور فکر میں گزر گیا پھر دو سری رات تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگی تو پھر مجھے اسی طرح کا خواب نظر آیااور ایسی ہی غیبی آواز سنائی دی، پھر کہا گیا : ”اے مالک بن دینار ! تُو وہ نہیں جس کا ذکر کیا جارہا ہے بلکہ وہ تو خراسان کا ایک شخص ہے جو بلخ شہر میں رہتا ہے، اس کا نام محمد بن ہرون بلخی ہے ۔اللہ عزوجل اس سے شدید ناراض ہے، اس کا حج مردو د ہے اور اس کے منہ پر مار دیا گیا ہے ۔”

حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :”میں صبح خراسان سے ا ۤئے ہوئے حاجیوں کے قافلے میں گیا انہیں سلام کیا اوران سے پوچھا : ”کیا تم میں بلخ شہر کے حجاج موجود ہیں ؟ ”انہوں نے کہا :”ہاں !ہم میں بلخ کے کئی حاجی موجود ہیں ۔”میں نے پھرپوچھا: ”کیا تم میں کوئی محمد بن ہرون بلخی ہے؟” انہوں نے کہا: ”مرحبا! اس نیک شخص کو کون نہیں جانتا ،

 اس سے بڑھ کر عا بد وزاہد پور ے خراسان میں کوئی نہیں ۔ ”

(حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃُﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ)مجھے ان لوگو ں کی زبانی اس کی تعریف سن کر بڑا تعجب ہوا کیونکہ خواب میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ بہرحال میں نے ان سے پوچھا :” اس وقت وہ کہا ں ہوگا؟”لوگو ں نے کہا:” وہ چالیس سال سے مسلسل روزے رکھ رہا ہے او رساری ساری رات عبادت میں گزار دیتا ہے، اگر تم اسے تلاش کرنا چاہتے ہو تو مکہ مکرمہ کے کسی ٹو ٹے پھوٹے مکان میں تلاش کر و وہ ایسی ہی جگہوں میں قیام کرتا ہے۔”

ان لوگوں سے یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد میں مکہ شریف کے ویران علاقے کی طر ف گیا اور اس ابن ہرون کو ڈھونڈ نے لگا۔بالآخر ایک دیوار کے پیچھے میں نے ایک شخص کو دیکھا۔میں نے جان لیاکہ یہی ابن ہرون ہے ۔اس کی حالت یہ تھی کہ اس کا سیدھا ہاتھ کٹا ہو اتھا اور اس ہاتھ کی ہڈی میں سوراخ کر کے زنجیر ڈال دی گئی تھی۔

ابن ہرون نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو زنجیر کی مدد سے گر دن سے لٹکایا ہوا تھا۔اسی طر ح اس نے اپنے قدموں میں بھی بیڑیاں ڈال رکھی تھیں او روہ مشغولِ عبادت تھا۔

جب اس نے میرے قدموں کی آہٹ سنی تو وہ میری طرف متوجہ ہو ا اور کہنے لگا: ”اے اللہ عزوجل کے بندے ! تُو کو ن ہے او رکہا ں سے آیا ہے ؟” میں نے کہا: ”میرا نام مالک بن دینار(علیہ رحمۃ اللہ الغفار) ہے اور مَیں بصرہ کا رہنے والا ہوں ۔ ”وہ کہنے لگا:” اچھا! تم و ہی مالک بن دینار(علیہ رحمۃ اللہ الغفار ) ہو جن کی علمیت اور زُہد و تقوی کے ڈنکے پورے عراق میں بج رہے ہیں۔” میں نے کہا :” عالم تو اللہ عزوجل کی ذات ہے اور زاہد وعا بد حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید ہیں ،وہ اگر چاہیں توخوب عیش وعشرت سے زندگی گزار سکتے ہیں لیکن با دشاہت کے باوجود انہوں نے زُہد و تقوی اختیار کیا او ردنیا سے بے رغبتی ان کے اندر بد رجہ اَتم پائی جاتی ہے ، ہمیں تو دنیاوی نعمتیں میسر ہی نہیں اس لئے ان سے دور ہیں۔”

اُس نے مجھ سے کہا: ”اے مالک بن دینار (رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ )! تم میرے پاس کس لئے آئے ہو ؟ اگر تم نے میرے بارے میں کوئی خواب دیکھا ہے تو بیان کر و۔ ”میں نے کہا: ”مجھے تمہارے سامنے وہ خواب بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے ۔” تو وہ کہنے لگا:” اے مالک بن دینار (رحمۃُ ﷲ تعالیٰ علیہ )! تم نے جوخواب دیکھاہے وہ بیان کرو اور مجھ سے شر م نہ کرو ۔”

(حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ) بالآخر مَیں نے اسے اپنا خواب سنایا ۔خواب سن کر وہ کافی دیر تک روتا رہا ، پھر کہنے لگا :” اے مالک بن دینار(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! مسلسل چالیس سال سے میرے بارے میں حج کے موقع پر اسی طرح کا خواب کسی نیک وزاہد بندے کو دکھا یا جاتا ہے اور اسے بتا یا جاتا ہے کہ میں جہنمی ہوں ۔ ”حضرت سیدنا مالک بن دینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میں نے اس سے پوچھا :” کیا تیرے اور اللہ عزوجل کے درمیان کوئی بہت بڑا گناہ حائل ہے ؟” اس نے کہا :”ہاں !میرا گناہ زمین و آسماں اور عرش وکرسی سے بھی بڑا ہے ۔”میں نے کہا: ”مجھے تم اپنا وہ گناہ بتاؤ تاکہ میں لوگوں کو اس کے اِرتکاب سے بچا ؤں اور انہیں اس گناہ سے ڈراؤں جس کی سزا تم بھگت رہے ہو۔ ”

تووہ کہنے لگا:” اے مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! مَیں شراب کا عادی تھا اور ہر وقت شراب کے نشے میں مدہوش رہتا۔ ایک مرتبہ میں اپنے ایک شرابی دوست کے پاس گیا۔میں نے وہاں خوب شراب پی پھر جب مجھ پر نشہ طاری ہونے لگا اور میری عقل پرپردہ پڑگیا تومیں نشے کی حالت میں گرتا پڑتا اپنے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹا یا۔ میری زوجہ نے دروازہ کھولا ۔

میں گھر میں داخل ہو ا تو میری والدہ تنور میں آگ جلا کر لکڑیاں ڈال رہی تھی او راس میں خوب آگ بھڑک رہی تھی ۔”

جب میری والدہ نے مجھے نشے کی حالت میں دیکھاتو میری طر ف ا ۤئی۔ مَیں لڑکھڑاکر گرنے لگا تواس نے مجھے تھام لیا اور کہنے لگی:” آج شعبان المعظم کی آخری تاریخ ہے اوررمضان المبارک کی پہلی رات شروع ہونے والی ہے، لوگ صبح روزہ رکھیں گے اور تیری صبح اس حالت میں ہوگی کہ تُو شراب کے نشے میں ہوگا ،کیا تجھے اللہ عزوجل سے حیا نہیں آتی؟ ” یہ سن کر مجھے غصہ آگیا اور میں نے ایک گھونسااپنی والدہ کے سینے پر مارا اور اسے اُٹھا کر جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا، مَیں اس وقت نشے میں تھا اور میرے ہوش وحواس بحال نہ تھے،جب میری زوجہ نے یہ درد نا ک منظر دیکھا تو اس نے مجھے دھکیل کر ایک کوٹھڑی میں بندکردیااورباہر سے کنڈی لگادی تا کہ پڑوسی میر ی آواز نہ سن سکیں اور انہیں معاملے کی خبر نہ ہو۔”

میں اسی طر ح نشے کی حالت میں پڑا رہا جب رات کافی گزر گئی تو مجھے ہوش آیا اب میرا نشہ دور ہوچکا تھا۔ میں دروازے کی طر ف بڑھا تو دروازہ بند تھا۔میں نے اپنی زوجہ کو آواز دی کہ دروازہ کھولو۔ اس نے بڑے سخت لہجے میں جواب دیا: ”میں دروازہ نہیں کھولوں گی ۔”میں نے کہا :”آخر تم مجھ سے اِتنی ناراض کیوں ہو؟ آخر مَیں نے ایسی کون سی خطا کی ہے ؟”اس نے کہا : ” تُو نے اتنی بڑی خطا کی ہے کہ تُو اس لائق ہی نہیں کہ تجھ پر رحم کیا جائے ۔”میں نے کہا :”آخربات کیا ہے؟ مجھے بھی تو معلوم ہو کہ میں نے کیا بُری حرکت کی ہے؟”میری زوجہ نے کہا :” تُو نے اپنی ماں کو قتل کر دیا ہے اور اسے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا ہے اور اب وہ جل کر کوئلہ بن چکی ہے۔”

جب میں نے یہ بات سنی تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے دروازہ اُکھاڑ پھینکا او رتنور کی طرف لپکا ، جب تنور میں دیکھا تو میری والدہ جل کر کو ئلہ ہوچکی تھی ۔

 میں یہ حالت دیکھ کر بہت افسردہ ہوااور اُلٹے قدموں ٹوٹے ہوئے دروازے کی طر ف بڑھا اپنا ہاتھ چوکھٹ پر رکھا اور اس ہاتھ کو کاٹ ڈالا جس سے میں نے اپنی ماں کو گھونسا مارا تھا ،پھر میں نے لوہا گر م کر کے اس ہاتھ کی ہڈی میں سوراخ کیا اور اس میں زنجیر ڈال کر گلے میں لٹکا لیا پھر اپنے دونوں پاؤں میں بھی بیڑی ڈال لی ۔ اس وقت میری ملکیت میں آٹھ ہزار دینار تھے وہ سب کے سب میں نے غروبِ آفتاب سے قبل صدقہ کردیئے۔26 لونڈیاں اور23غلام آزاد کئے اور اپنی تمام جائیداد  الله عزوجل کے نام پر وقف کردی ۔

اب مسلسل چالیس سال سے میری یہ حالت ہے کہ دن میں روزہ رکھتا ہوں اور ساری ساری رات اپنے پر ور دگار عزوجل کی عبادت کرتا ہوں اور چالیس دن کے بعد کھانا کھا تاہو ں۔ صرف اِفطاری کے وقت تھوڑا سا پانی اور کوئی معمولی سی چیز کھالیتا ہوں ۔ میں ہر سال حج کرنے آتا ہوں او رہر سال کسی عالم وزاہد کو میرے متعلق ایسا ہی خواب دکھایا جاتا ہے جیسا آپ کودکھایا گیا ہے ، یہ ہے میری ساری داستانِ عبرت نشان۔”

حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ الله الغفَّار فرماتے ہیں : ”یہ سن کر میں نے اس کے چہرے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا :” اے منحوس انسان! قریب ہے کہ جو آگ تجھ پر نازل ہونے والی ہے وہ ساری زمین کو جلا ڈالے۔ پھر میں وہاں سے ایک طرف ہوگیا اور ایک جگہ چھپ گیا تا کہ وہ مجھے نہ دیکھ سکے۔جب اس نے محسوس کیا کہ میں جاچکاہو ں تو اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا اور ﷲ عزوجل سے اس طر ح مناجات کرنے لگا:

” اے غموں اور مصیبتو ں کو دور کرنے والے! اے مجبور اور پریشان حال لوگو ں کی دعائیں قبول کرنے والے !اے میری اُمیدوں کی لاج رکھنے والے !اے گہرے سمندروں کو پیدا کرنے والے! اے میرے پا ک پروردگار عزوجل ! اے وہ ذات جس کے دستِ قدرت میں تمام بھلائیاں ہیں ! میں تیری رضا چاہتا ہوں اور تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں ، تُو اپنے عفو وکرم کے صدقے مجھے عذاب سے محفو ظ رکھ اور مجھے اپنی ناراضگی سے بچا ۔اے میرے پاک پرورد گار عزوجل !مَیں کما حقہ تیری تعریف نہیں کرسکتا،تُوایسا ہی ہے جیسا تُونے اپنی تعریف خود بیان فرمائی ،اے میر ے رحیم وکریم پر وردگار عزوجل !تُو میری اُمیدوں کی لاج رکھ لے، بے شک میں تجھ سے تیری رحمت کا طالب ہوں۔ (مجھے یقین ہے) کہ تُومیری دعا کو رد نہیں کریگا۔ میں صرف تجھ ہی سے دعا کرتا ہوں ۔ اے ﷲ عزوجل !موت سے پہلے مجھے اپنی رضا کا مژدہ سنادے او رمجھے اپنے عفو وکرم کی ایک جھلک دکھادے۔”

حضرت سیدنامالک بن دینار رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی یہ رِقّت انگیز مناجات سن کر مَیں اپنی منزل کی طرف لوٹ آیا۔ پھر جب رات کو نیند آئی تو دل کی آنکھیں کھل گئیں ۔مجھے خواب میں پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت ہوئی ۔آپ صلَّی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:

”اے مالک بن دینار! تُو لوگوں کو ﷲ کی رحمت اور اس کے عفووکرم سے مایوس مت کر۔

” بے شک اللہ عزوجل محمد بن ہرون کے افعال سے باخبر ہے اور ﷲ عزوجل نے اس کی دعا قبول فرما کر اس کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف فرمادیا ہے تُو صبح اس کے پاس جانا اور اس سے کہنا :”بے شک ﷲ عزوجل بر وز قیامت میدانِ محشر میں تمام اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا ۔

اگر کسی سینگ والے جانور نے بغیرسینگ والے جانور کو مارا ہوگا تو اس کو بدلہ دلوائے گا او ر ذرے ذرے کا حساب لے گا۔

ﷲ عزوجل فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! مَیں ذرے ذرے کا حساب لوں گا اور اگر کسی نے ذرہ بھر بھی ظلم کیا ہوگا تو مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلواؤں گا ۔ اے ابن ہرو ن! کل بر وزِ قیامت ﷲ عزوجل تجھے اور تیری ماں کو اکٹھا کریگا اور تیرے بارے میں فیصلہ ہوگا ۔فرشتے تجھے مضبوط زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف دھکیل دیں گے پھر تُو دنیوی تین دن اور تین رات کے برابر جہنم کی آگ کا مزہ چکھے گا کیونکہ ﷲ عزوجل فرما تا ہے:” میں نے اپنے اُوپر یہ بات لازم کرلی ہے کہ میرا جو بندہ بھی ناحق کسی جان کو قتل کریگا یا شراب پئے گا تو میں اسے جہنم کی آگ کا مزہ ضرورچکھاؤں گا اگر چہ وہ کیسا ہی بر گزیدہ کیوں نہ ہو۔” اے ابن ہرون !پھر اللہ عزوجل تیری ماں کے دل میں تیرے لئے رحم ڈالے گا او راس کے دل میں یہ بات ڈال دے گا کہ وہ اللہ عزوجل سے سوال کرے کہ:” اے  ﷲ عزوجل ! تُو میرے بیٹے کو بخش دے ۔” پھر ﷲ عزوجل تجھے، تیری والدہ کے حوالے کردے گا، تیری والدہ تیرا ہاتھ پکڑ کر تجھے جنت میں لے جائے گی ۔”

حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” جب صبح ہوئی تو میں فوراًا بن ہرون کے پاس گیا اور اسے بشارت دی کہ آج رات خواب میں مجھے پیارے آقاصلَّی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔ آپ صلَّی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے تیرے بارے میں اس طر ح بتا یا ہے پھر میں نے اسے اپنا پورا خواب سنایا ۔ خدا عزوجل کی قسم! میراخواب سن کر وہ جھوم اُٹھا اور اس کی روح اس طر ح آسانی سے اس کے تن سے جدا ہوئی جیسا کہ پتھر کو جب پانی میں ڈالاجائے تو وہ آسانی سے نیچے کی جانب چلا جاتا ہے۔پھر اس کی تجہیز و تکفین کاانتظام کیا گیا اور میں نے اس کے جنازہ میں شرکت کی ۔ ”

(ﷲ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي ﷲ تعالی عليہ وسلم)

➖—-»»🌹 🪷🌹««—-➖

]]>
https://urducover.com/islamic-story-in-urdu/feed/ 0