stories – https://urducover.com Sun, 18 Aug 2024 15:46:52 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.6.2 https://urducover.com/wp-content/uploads/2024/07/Urdu-cover-logo--150x150.png stories – https://urducover.com 32 32 A True Story عبرت https://urducover.com/a-true-story-%d8%b9%d8%a8%d8%b1%d8%aa/ https://urducover.com/a-true-story-%d8%b9%d8%a8%d8%b1%d8%aa/#respond Sun, 18 Aug 2024 14:23:41 +0000 https://urducover.com/?p=5878 A True Story

عبرت    :    ایک سچی کہانی

اردن میں گزشتہ دنوں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ نہایت ہی عجیب!!! ابوانس ایک نیک تاجر تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ جس کے جملہ اخراجات ابوانس پورے کرتا۔ کچھ عرصہ بعد ابوانس کا نوجوانی میں ہی انتقال ہو گیا۔ لواحقین میں نوجوان بیوہ اور ایک بیٹا انس رہ گیا۔
کچھ دن بعد ابوانس کا چھوٹا بھائی بھی اس کے گھر منتقل ہوا اور یہ آسرا دیا کہ مرحوم بھائی کی تجارت سنبھالنے کے ساتھ یتیم اور بیوہ کی کفالت بھی میں کروں گا۔ کچھ وقت تو معاملہ ٹھیک چلتا رہا۔ بعد میں اس کی نیت میں فتور آگیا۔ اس نے چپکے سے ساری جائیداد اپنے نام کرائی اور راتوں رات سب کچھ فروخت کرکے امریکا بھاگ گیا۔ پیچھے یتیم اور اس کی ماں سڑک پہ آگئے۔
اس بدبخت نے امریکا جا کر گاڑیوں کا کاروبار سیٹ کردیا اور ایک گوری لڑکی سے شادی بھی کرلی۔ اس کا بزنس چمک اٹھا اور یہ ارب پتی بن گیا۔ 15 برس بعد اسے خیال آیا کہ اب وطن واپس جانا چاہئے۔ یہ سوچ کر وہ اردن آگیا اور پھر یہیں بزنس کرنے کا ارادہ بنا۔ اس نے “ام اذینة” کے علاقے میں ایک بڑی جگہ خریدی اور اس پہ شاندار بلڈنگ بھی تعمیر کردی۔ پھر یہاں بھی گاڑیوں کا بزنس شروع کردیا اور کچھ عرصے میں ہی اردن بھر میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔
ادھر انس اور اس کی ماں انتہائی کسمپرسی سے رات دن گزارتے رہے۔ ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے انس نے تعلیم حاصل کی اور اب وہ شادی کرکے نوکری بھی کرنے لگ چکا تھا۔ غربت کے باوجود وہ اپنی ماں کا بہت خیال رکھتا۔ مگر بدبخت چچا کو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ لیکن انس اور اس کی ماں کو سب معلوم تھا کہ وہ حرام خور واپس آچکا ہے۔
ایک دن ماں نے بیٹے سے کہا کہ ہمت کرو، جاؤ اپنے چچا کے پاس اور اس سے اپنے باپ کے مال کا کچھ حصہ مانگو۔ ماں کے کہنے پہ انس چچا کے شو روم میں پہنچ گیا۔ مگر چچا نے کھٹور دلی کا مظاہرہ کرکے اسے بھگا دیا اور کہا کہ آئندہ ادھر کا رخ بھی کیا تو گرفتار کرادوں گا۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ ماں کے واپس آیا اور ماجرا سارا سنایا۔ بیوہ سوائے بددعا کے کیا کرسکتی تھی۔
اس حرام خور بزنس مین نے اب اردن میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک جنت نما محل تعمیر کر چکا تھا اور اب اس نے بیوی بچوں کو اپنے پاس اردن بلالیا۔ ادھر وہ لوگ امریکا سے روانہ ہوئے اور ادھر یہ بدبخت انہیں لینے کیلئے اپنی نئی ماڈل کی پرتعیش گاڑی لے کر ایئرپورٹ روانہ ہوا۔ جب وہ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو یہ سب اس نئی گاڑی میں سوار ہوکر اپنے محل کی طرف چل پڑے۔
یہ سارا منظر دیکھ کر فرشتہ اجل ہنس رہا تھا۔ جیسے ہی ان کی گاڑی مین سڑک پہ پہنچی تو ایک تیز رفتار ٹرالر نے اسے روند ڈالا اور انس کا حرام خور چچا اپنی امریکن بیوی اور دونوں بچوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
پیچھے اس کا سوائے انس کے کوئی نہیں تھا۔ یہی اکلوتا وارث۔ اب اس کا محل، شو روم اور بزنس بیٹھے بٹھائے انس کی جھولی میں گر گیا۔
کیسا عجیب معاملہ ہے رب کریم کا۔ اس نے یتیم کے مال کو کئی گنا بڑھا کر اسے لوٹا دیا۔ وہ مظلوم کی دعا ضرور سنتا ہے اگرچہ اس کے ظاہر ہونے میں 15 برس بھی لگ جائیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ظالم کو ڈھیل ضرور دیتا ہے۔ لیکن جب پکڑتا ہے تو سامان عبرت بنا کر چھوڑتا ہے۔ تیسرا یہ کہ حرام کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال حرام سے پلنے والے جسم کا زیادہ حقدار دوزخ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو حرام سے بچائے اور حلال ہی پہ اکتفا کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(عربی سے ترجمہ: ضیاء چترالی)

]]>
https://urducover.com/a-true-story-%d8%b9%d8%a8%d8%b1%d8%aa/feed/ 0
معجزاتی سبز پتہ https://urducover.com/kids-story-%d9%85%d8%b9%d8%ac%d8%b2%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d8%b3%d8%a8%d8%b2-%d9%be%d8%aa%db%81/ https://urducover.com/kids-story-%d9%85%d8%b9%d8%ac%d8%b2%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d8%b3%d8%a8%d8%b2-%d9%be%d8%aa%db%81/#respond Sun, 04 Aug 2024 15:50:42 +0000 https://urducover.com/?p=5334 معجزاتی سبز پتہ

شاندار کہانیوں میں سے ایک  

 

کہا جاتا ہے کہ ایک لڑکی اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور شدید بیماری میں مبتلا تھی۔

اس نے اپنی بڑی بہن سے، جو کھڑکی کے پاس موجود درخت کو دیکھ رہی تھی، پوچھا: “درخت پر کتنے پتے باقی ہیں؟”
بڑی بہن نے آنکھوں میں آنسو لیے جواب دیا: “کیوں پوچھ رہی ہو، میری جان؟”

بیمار بچی نے جواب دیا: “کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے دن آخری پتے کے گرنے کے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔”
بڑی بہن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: “تو جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہم اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں گے اور

خوبصورت دن گزاریں گے۔”
دن گزرتے گئے اور پتے گرتے گئے، اور آخر میں ایک پتہ رہ گیا۔
بیمار بچی اس پتے کو دیکھتی رہی، یہ سمجھتے ہوئے کہ جس دن یہ پتہ گرے گا، بیماری اس کی زندگی ختم کر دے گی۔

Kids Story معجزاتی سبز پتہ

خزاں ختم ہو گئی، اس کے بعد سردی آئی اور سال گزر گیا لیکن وہ پتہ نہیں گرا۔

لڑکی اپنی بہن کے ساتھ خوش تھی اور آہستہ آہستہ صحت یاب ہو رہی تھی یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک ہو گئی۔

سب سے پہلا کام جو اس نے کیا،

وہ یہ تھا کہ اس معجزاتی پتے کو دیکھنے گئی جو نہیں گرا تھا۔
تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلاسٹک کا پتہ تھا
جسے اس کی بہن نے درخت پر باندھ دیا تھا۔

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼 

 ➖♻➖  ➖♻➖  ➖♻➖  ➖♻➖ ➖♻➖  ➖♻➖  ➖♻➖
www.urducover.com

 

]]>
https://urducover.com/kids-story-%d9%85%d8%b9%d8%ac%d8%b2%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d8%b3%d8%a8%d8%b2-%d9%be%d8%aa%db%81/feed/ 0
پادری کی نصیحت https://urducover.com/islamic-story-in-urdu-%d9%be%d8%a7%d8%af%d8%b1%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b5%db%8c%d8%ad%d8%aa/ https://urducover.com/islamic-story-in-urdu-%d9%be%d8%a7%d8%af%d8%b1%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b5%db%8c%d8%ad%d8%aa/#respond Sun, 04 Aug 2024 15:30:02 +0000 https://urducover.com/?p=5326   پادری کی نصیحت
___________________
“”””””””””””””””””””””””””””””

حضرت طلحہ بن عبید اللہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے باسی اور تجارت پیشہ تھے۔ قریش مکہ کے ہمراہ شام کے مشہور قصبے بصری کے بازار میں مقیم تھے۔ کہ اچانک ایک عیسائی پادری کو لوگوں میں اعلان کرتے سنا کہ تمہارے درمیان اہل حرم میں سے کوئی شخص ہے۔
اتفاق کی بات کہ میں اس کے قریب ہی تھا۔ میں لپک کر اس کی طرف بڑھا
اور کہا: ہاں میں مکہ مکرمہ کا رہنے والا ہوں۔
پادری کہنے لگا: کیا تمہارے ہاں احمد نامی کوئی شخصیت ہے۔
میں نے کہا: کون احمد ؟
وہ کہنے لگا : احمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب وہ اس شہرت کا حامل ہوگا۔ اور وہ آخری نبی ہے۔ وہ مکے کا رہنے والا ہو گا اور وہاں سے ہجرت کر کے کالے پتھروں
کی سرزمین جس میں کھجور کے باغات ہیں جائے گا۔
فَإِيَّاكَ أَنْ تُسْبَقَ إِلَيْهِ يَا فَتَى
اے نوجوان ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کی دعوت کو قبول کرنے میں
دوسرے تم پر سبقت نہ لے جائیں ۔“
طلحہ کہتے ہیں کہ اس پادری کی بات میرے دل میں گھر کر گئی۔ میں اپنے اونٹوں کی طرف گیا ان کے اوپر پالان رکھا، ساز و سامان لادا اور واپس وطن کی طرف روانہ ہوا۔ میرے ہمراہ میری قوم کے کافی لوگ تھے۔ ہمارا قافلہ جلد کے پہنچ گیا۔
میں نے گھر پہنچتے ہی اپنے گھر والوں سے پوچھا:
أَكَانَ مِنْ حَدِيثٍ بَعْدَنَا فِي مَكَّةَ»
کیا ہمارے سفر کے دوران کوئی خاص واقع پیش آیا۔“
انہوں نے کہا کہ ہاں :
قَامَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ تَبِعَهُ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ
محمد بن عبداللہ ( ﷺ ) نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں۔ اور ابو قحافہ کے بیٹے
( ابو بکر صدیق ) نے ان کی تصدیق بھی کر دی ہے۔
طلحہ رضي الله عنه فرماتے ہیں: میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کو خوب اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بڑے نرم خو بڑے محبوب اور کریم شخص تھے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تاجر تھے۔ حق و انصاف کے خوگر تھے ہم ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ان کی مجالس
میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا:
أَحَقًّا مَا يُقَالُ مِنْ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَظْهَرَ النُّبُوَّةَ وَأَنَّكَ اتَّبَعْتَه
کیا جو باتیں ہم سن رہے ہیں وہ درست ہیں کہ محمد بن عبد الله ( ﷺ ) نے
نبوت کا اظہار کیا ہے اور آپ نے ان کی پیروی کی ہے اور ان کو مان لیا ہے ۔“
حضرت ابو بکر صدیق رضي الله عنه نے فرمایا : ہاں تم نے جو کچھ سنا ہے وہ درست ہے۔ اور پھر انہوں نے اللہ کے رسول کی باتیں سنانا شروع کر دیں، اور مجھے ترغیب دلائی کہ میں بھی ان کا ساتھی بن جاؤں میں نے ان کو پادری کی باتیں سنائیں تو ابوبکر رضي الله عنه کو بڑا تعجب ہوا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ چلو محمد ( ﷺ ) کے پاس چلتے ہیں اور ان کو یہ واقعہ سناتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ اور تم بھی اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ.
طلحہ رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کی معیت میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے مجھے قرآن کریم کا کچھ حصہ سنایا اور مجھے دنیا و آخرت کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو اسلام کی دعوت کے لیے کھول دیا۔ میں
نے آپ ﷺ کو بصری کے پادری کا واقعہ سنایا۔
فَسُرَّ بِهَا سُرُورًا بَدَا عَلَى وَجْهِهِ
آپ ﷺ اس سے بہت خوش ہوئے جس کے آثار آپ کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے۔“
فَأَعْلَنْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ شَهَادَةَ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ»
پھر میں نے آپ کے دست حق پرست پر کلمہ شہادت پڑھا۔
اس طرح میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کے ذریعے اسلام لانے والا چوتھا آدمی تھا۔

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼 

 ➖♻➖
 www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/islamic-story-in-urdu-%d9%be%d8%a7%d8%af%d8%b1%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b5%db%8c%d8%ad%d8%aa/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 8 https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/ https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/#respond Sun, 04 Aug 2024 15:03:20 +0000 https://urducover.com/?p=5322 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 8

قسط نمبر    “29”   سے قسط    نمبر”32″     تک

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:29 }
اگلے روز سلطان نے صبح اٹھ کر بادام کی آخری گیری بھی کھا لی اور وہ سارا دن تڑپتے گزارا اور سورج غروب ھو گیا سلطان نے کہا کہ درویش کو بلاؤ اور کہو کہ کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزارے تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے
مزمل آفندی بہت دنوں سے سلطان کو نہیں دیکھ سکا تھا اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ طبیب نے اور اب درویش نے سختی سے کہا ہے کہ سلطان کے پاس کوئی ملاقاتی نہ آئے اس شام جب سلطان کی تکلیف بہت ہی بڑھ گئی تھی مزمل بے تاب سا ہو گیا اور سلطان کو دیکھنے چلا گیا برکیارق سے تو اس کی ملاقات ہر روز ہی ہوتی تھی اور برقیارق اسے بتاتا رہتا تھا کہ درویش نے کیا کہا ہے اور سلطان کی حالت کیا ہے لیکن اس شام وہ سلطان کے محل میں چلا گیا اسے برکیارق ملا مزمل نے برکیارق سے کہا کہ وہ سلطان کو دیکھنا چاہتا ہے اس نے ایسی بے تابی کا اظہار کیا کہ برکیارق اسے سلطان کے کمرے میں لے ہی گیا
وہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سلطان پلنگ پر لیٹا ہوا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اس کے چہرے کا رنگ لاش کی طرح سفید تھا مزمل تو سلطان ملک شاہ کا مرید تھا اور سلطان کو بھی مزمل سے بہت پیار تھا مزمل کی نظر درویش کے چہرے پر پڑی جو قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کا چہرہ دیکھتے ہیں مزمل کو دھچکا سا لگا جیسے اس کے پاؤں فرش سے اکھڑ رہے ہوں مزمل نے درویش کی آنکھ کے قریب گال کی ابھری ہوئی ہڈی پر کالا تل دیکھا جو مٹر کے دانے کے برابر تھا
ایسے تل والا آدمی اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا اور مزمل نے اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی اور اسے کہا بھی تھا کہ وہ کہیں مل چکے ہیں مزمل کو یاد آیا کہ اس تل والے آدمی کی داڑھی بڑے سلیقے سے تراشی ہوئی اور چھوٹی چھوٹی تھی اور وہ جوان تھا لیکن اس درویش کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی اور اس کی عمر کا اندازہ چالیس سال کے لگ بھگ تھا اچانک مزمل کو یاد آگیا کہ اس نے اس تل والے آدمی کو خلجان میں دیکھا تھا اور یہ آدمی اس کے ساتھ الموت تک گیا تھا اب اسے خیال آیا کہ یہ حسن بن صباح کا آدمی ہے
مزمل کی کھوپڑی کے اندر جیسے دھماکا ہوا ہو اس نے کچھ سوچے بغیر لپک کر بلکہ جھپٹ کر اپنا ہاتھ درویش کی لمبی داڑھی پر رکھا اور زور سے جھٹکا دیا لمبی داڑھی مزمل کے ہاتھ میں آ گئی اور درویش کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی کالی داڑھی رہ گئی یہ وہ آدمی تھا جو اسے خلجان میں ملا تھا اور الموت تک اس کے ساتھ گیا تھا اور یہ یاد میں اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا مزمل نے اس کی پگڑی اتار دی دیکھا کہ اس کے لمبے بال جو اس کے کندھوں تک پہنچتے تھے مصنوعی تھے سلطان چونک کر اٹھ بیٹھا برکیارق کھڑا ہوگیا
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص نے آپ کو باداموں کی گیری اور چھوہاروں میں زہر کھلا دیا ہے فوراً طبیب کو بلائیں
سلطان کی تلوار دیوار کے ساتھ لٹک رہی تھی مزمل نے لپک کر وہ تلوار نیام سے نکالی اور اس کی نوک درویش کی شہ رگ پر رکھ دی
سچ بتاؤ تم کون ہو ؟
مزمل نے پوچھا اور تمہارے ساتھ جو لڑکی ہے وہ کون ہے وہ تمہاری بہن نہیں اور تم حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہو
میرے دوست! درویش نے مسکرا کر کہا تم مجھے قتل کر سکتے ہو میں نے اپنا کام کر دیا ہے یہ لڑکی جو میرے ساتھ ہے اسے مشکوک یا مجرم نہ سمجھنا یہ میری بہن ہے یہ میری خفیہ زندگی سے لاعلم ہے میں سلطان کا قاتل ہوں اس لئے میں اس حق سے محروم ہو گیا ہوں کہ سلطان سے درخواست کرو کہ میری بہن کو پناہ دی جائے اور میرے جرم کی سزا اسے نہ دی جائے
سلطان ملک شاہ نے سنا کہ اس شخص نے درویشی کے بہروپ میں اسے زہر دے دیا ہے تو اسے موت سر پر کھڑی نظر آنے لگی
او ظالم انسان! سلطان نے اس جعلی درویش سے کہا اگر تو اس زہر کا اثر اتار دے تو میں تیرا یہ جرم معاف کر کے عزت سے رخصت کردوں گا اور تیری بہن کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کر دوں گا اور جو انعام مانگو گے دوں گا
نہیں بدنصیب سلطان! اس شخص نے کہا اس زہر کا کوئی تریاق نہیں جو میں نے باداموں اور چھوہاروں میں ملا کر آپ کو دیا ہے مجھے مرنے کا ذرا سا بھی غم نہیں مجھے انعام نہیں چاہیے میں امام حسن بن صباح کا فدائی ہوں میرے لئے یہی انعام کافی ہے کہ میں نے امام کی خوشنودی حاصل کر لی ہے اور میں سیدھا جنت میں جا رہا ہوں امام نے مجھے جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ میں نے کر دیا ہے
طبیب آ گیا تھا اس نے سلطان کی نبض دیکھی ایک دوائی بھی دی لیکن اس کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر آ گیا تھا اسے وہ چھپا نہ سکا
برکیاروق کی ماں اور روزینہ بھی سلطان کے کمرے میں آ گئی تھیں ماں نے تو رونا اور چلانا شروع کر دیا تھا برکیارق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر بھی وہاں موجود تھے
سلطان محترم! مزمل آفندی نے کہا اس شخص کو میرے حوالے کر دیا جائے اسے میں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا
اسے لے جاؤ! سلطان نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اسے کمر تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دو اور ایک قبر کھود کر اس کی بہن کو زندہ دفن کر دو
روزینہ نے خوفزدہ نظروں سے برکیارق کو دیکھا برکیارق روزینہ کے آگے جا کر کھڑا ہوا
نہیں! اس نے کہا بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی
بے وقوف نہ بن برکیارق! مزمل نے کہا یہ ناگن ہے جسے تم اپنی پناہ میں لے رہے ہو
خبردار برکیارق نے کہا اس لڑکی کے قریب نہ آنا اور سب یہ بھی سوچ لو کہ سلطان زندہ نہ رہے تو میں ان کا جانشین ہوں میں سلطان ہوں اب میرا حکم چلے گا
اس نے حسن بن صباح کے فدائی کی طرف اشارہ کرکے کہا اسے اسی طرح ہلاک کیا جائے جس طرح سلطان معظم نے حکم دیا ہے یہ ہنگامہ جاری ہی تھا کہ سلطان ملک شاہ نے آخری ہچکی لی اور فوت ہوگیا جعلی درویش کو قید خانے میں بھیج دیا گیا اسے اگلے روز کتوں سے مروانا تھا
اب برکیارق سلطنت سلجوقی سلطان تھا
یہ دوسری بڑی شخصیت ہے جسے حسن بن صباح نے نظام الملک کے بعد قتل کروایا
تاریخوں میں آیا ہے کہ برکیارق نے سلطان بنتے ہی تین حکم دیے
ایک یہ کہ سلطان ملک شاہ کو زہر دینے والے باطنی کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح سلطان نے وفات سے پہلے حکم دیا تھا
دوسرا یہ کہ اس باطنی کی بہن روزینہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا
اور اس نے تیسرا حکم یہ دیا کہ یہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ سلطان کو ایک باطنی نے زہر دے کر مارا ہے ہر کسی کو یہ بتایا جائے کہ سلطان طویل علالت کے بعد فوت ہوئے ہیں
اس تیسرے حکم کی تعمیل تو کی گئی لیکن موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا سلطان ملک شاہ کی موت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا نہ وہ کوئی عام آدمی تھا کہ لوگ سنتے اور رسمی سا افسوس کر کے بھول جاتے ملک شاہ کوئی روایتی سلطان یا بادشاہ بھی نہیں تھا کہ رعایا کو افسوس نہ ہوتا لوگ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے کہ آج ایک مرگیا تو کل دوسرا بادشاہ آجائے گا سلطان ملک شاہ کی موت تو یوں تھی جیسے سلطنت اسلامیہ کا سب سے زیادہ مضبوط ستون گر پڑا ہو
باطنی ابلیسیت کے طوفان کو روکنے والا یہی ایک شخص ہی تو تھا یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ اس طوفان کو نہیں روک سکا تھا اور ابلیسیت پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی لیکن سلطان ملک شاہ نے اپنی پوری توجہ اور اپنے پورے ذرائع اور اپنی پوری جنگی طاقت اسی کے خلاف مرکوز کر رکھی تھی وہ اسلام کا پاسبان تھا اسلام کے اصل نظریے اور روح کی آبیاری کرنے والا ملک شاہ ہی تھا وہ صرف اپنے خاندان کو ہی عزیز نہ تھا بلکہ رعایا کا بچہ بچہ اس کا نام احترام اور محبت سے لیتا تھا
وہ جب فوت ہوا تو اس کے گھر میں جو کہرام بپا ہوا وہ جنگل کی آگ کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں پھیل گیا ایک ہجوم تھا جو اس کے گھر پر ٹوٹ پڑا تھا دربان کسی کو اندر جانے سے روک نہ سکے تھے خود دربان دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ان سب کے سامنے اس باطنی جعلی درویش کو پکڑ کر باہر لائے اور اسے زود و کوب کیا جا رہا تھا گھر کی عورتیں چیخ چلا رہی تھیں کہ اس کافر نے سلطان کو زہر دے دیا ہے اس قسم کی صورتحال میں سلطان کی موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا
ایک تو سارے شہر میں برکیارق نے اعلان کروا دیا کہ سلطان ملک شاہ فوت ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف قاصد دوڑا دیے گئے کہ تمام سلطنت میں یہ اطلاع پہنچ جائے اس کے اعلان کے ساتھ دوسرا اعلان یہ بھی کروا دیا کہ کل نماز جنازہ کے بعد تمام لوگ گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھے ہو جائیں ایک باطنی کو سزائے موت دی جائے گی اس اعلان سے قدرتی طور پر ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کے اس باطنی کو سزائے موت کیوں دی جائے گی
سلطان ملک شاہ کا سرکاری عملہ گھر کے ملازمین اور دیگر شاہی خاندان سے کوئی نہ کوئی تعلق رکھنے والے افراد کچھ کم تعداد میں نہ تھے جذبات کی گرما گرمی میں ہر فرد جو اس راز سے واقف تھا یہ سوال پوچھنے والوں کو صحیح جواب دیتا اور غصے کا اظہار یوں کرتا تھا کہ کل اس کافر کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے گا
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلے روز ظہر کی نماز کے بعد جنازہ اٹھا اس وقت تک جہاں جہاں تک اطلاع پہنچ سکتی تھی وہاں وہاں سے لوگ سیلاب کی طرح امنڈ کر مرو میں آگئے تھے نماز جنازہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں پڑھائی گئی اس کے بعد سلطان ملک شاہ کو قبر میں اتارا گیا اور جب قبر میں مٹی ڈال دی گئی تو اس باطنی کو میدان میں لایا گیا جس نے سلطان مرحوم کو زہر دیا تھا اس کی سزا کے لئے گڑھا پہلے سے تیار تھا اسے گڑھے میں کھڑا کر دیا گیا جو اس کے گھٹنوں سے ذرا اوپر تک گہرا تھا
گڑھے میں مٹی ڈال کر مٹی کو اچھی طرح کُوٹ کُوٹ کر دبا دیا گیا اس شخص کے بازو کھول دیے گئے ایک طرف سے چار خونخار شکاری کتے لائے گئے اس شخص کے قریب لا کر کتے کھول دیے گئے اس باطنی کے جسم پر کوئی بو مل دی گئی تھی جس پر کتے ٹوٹ پڑے تماشائیوں کا ہجوم دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا اس باطنی کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلا رہی تھی آخر اس نے بڑی ہی بلند آواز میں نعرہ لگایا امام حسن بن صباح زندہ باد یہ اسکی آخری آواز تھی اس وقت تک کتے اس کی کھال ادھیڑ چکے تھے تھوڑی ہی دیر میں کتوں نے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیا اس کا سر دور جا پڑا اور پھر کتے اس کے جسم کے ٹکڑے اٹھا کر ادھر ادھر ہو گئے
لوگوں کو یہ نہ بتایا گیا کہ اس شخص کو یہ سزا کیوں دی گئی ہے لیکن لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ اس نے سلطان ملک شاہ کو زہر دیا ہے ایسی غصیلی آوازیں اور ایسی للکار بھی سنائی دیں کہ اس شخص کے خاندان کے بچے بچے کو یہاں لاکر کتوں سے پھڑوا دو کوئی کہہ رہا تھا کہ اس کے گھر کو آگ لگادو یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا
اس سوال کا صحیح جواب صرف روزینہ دے سکتی تھی جو اس باطنی کی بہن تھی اس وقت روزینہ سلطان کے محل کے ایک کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوگا
سلطان ملکشاہ سپرد خاک ہو گیا اور اس کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا اور سلطان کے گھر میں روزینہ ایک مسئلہ بن گئی اس خاندان کی کوئی عورت روزینہ کو قبول نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ سلطان کے قاتل کی بہن تھی یہ شک بے جا نہ تھا کہ وہ بھی قاتل کی اس سازش میں شریک تھی سب دیکھ رہے تھے کہ اس نے سلطان کے بڑے بیٹے برکیارق کو دام محبت میں گرفتار کر لیا تھا اور برکیارق نے اعلان کردیا تھا کہ کوئی بھی روزینہ سے باز پرس کی جرات نہ کرے اور وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا
برکیارق نے تو یہ اعلان کر دیا تھا لیکن برکیارق کی ماں کے لیے یہ شادی قابل قبول نہیں تھی وہ شام کے وقت کسی کو بتائے بغیر اس کمرے میں چلی گئی جہاں روزینہ اکیلی بیٹھی تھی تصور میں لایا جا سکتا ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوی کس قدر غمگین اور اداس ہو گی روزینہ نے اسے دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی
بیٹھ جاؤ لڑکی! سلطان مرحوم کی بیوہ نے ایک طرف بیٹھتے ہوئے کہا میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنے آئی ہوں تمہیں صرف میرے بیٹے نے ہی پسند نہیں کیا تھا بلکہ مرحوم سلطان نے اور میں نے بھی تمہیں دل سے پسند کیا اور فیصلہ کردیا تھا کہ برکیارق تمہارے ساتھ شادی کرلے لیکن جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں کہ اس شخص کی بہن کو اپنی بہو بنا کر ایک سلطان کے خاندان کی فرد بنا لو جس نے صرف مجھے ہی بیوہ نہیں کیا بلکہ مرحوم کی دو اور بیویاں بھی وہ ہوئی ہیں اور لوگوں سے پوچھنا کہ وہ یوں کہہ رہے ہیں کہ سلطنت سلجوقیہ بیوہ ہو گئی ہے میں تمہیں کوئی سزا سنانے نہیں آئی میں تمہارے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتی ہوں یہ بتاؤ کہ تمہیں کہاں جانا ہے میں دوچار محافظوں کے ساتھ باعزت طریقے سے تمہیں وہاں تک پہنچانے کا انتظام کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے غم سے بوجھل آواز میں کہا یہ تو بعد کا حادثہ ہے کہ سلطان میرے بھائی کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اس صورت میں یہی ھونا چاہیئے کہ آپ سب مجھے دھتکار دیں میں اس سے پہلے کی بات آپ کو سناتی ہوں برکیارق نے جب مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو میں نے انکار کر دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میں شاہی خاندان کے قابل نہیں ہم آپ کے مقابلے میں بہت چھوٹے لوگ ہیں خاتون محترم! برکیارق نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اسکے ساتھ یہاں آؤں اور سلطان مرحوم اور آپ مجھے دیکھیں میں نہیں آرہی تھی آئی اس لئے کہ میرے بھائی نے یہاں آنا تھا اور وہ مجھے اکیلا سرائے میں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی یعنی میرے بھائی کی نیت کیا تھی میں یہاں آگئی سلطان مرحوم نے مجھے دیکھا
وہ باتیں مجھے کیوں سناتی ہو سلطان مرحوم کی بیوہ نے کہا میں نے تمہیں کوئی سزا نہیں دینی میں کہہ چکی ہوں کہ تمہیں باعزت طریقے سے رخصت کروں گی
میری عرض ہے کہ میں جو کہنا چاہتی ہوں وہ آپ سنیں روزینہ نے کہا میں یہ بتا رہی ہوں کے میں برکیارق کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرچکی تھی برکیارق نہیں مان رہا تھا سلطان مرحوم نے اور آپ نے بھی مجھے قبول کر لیا تو میں خاموش ہوگئی اس کے بعد جو خوفناک اور انتہائی المناک صورت پیدا ہوئی اس کے پیش نظر میں اپنے آپ کو اس احترام اور عزت کی حقدار نہیں سمجھتی جو آپ مجھے دے رہی ہیں میری آپ سے درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے میرے بھائی کو سزائے موت دی ہے اسی طرح مجھے بھی سزائے موت دیں میں سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ہوں میں رحم کی طلب گار نہیں
کیا تمہیں معلوم تھا کہ تمہارا بھائی سلطان کو زہر دینا چاہتا ہے؟
بیوہ نے پوچھا
نہیں روزینہ نے بڑی زور سے سر ہلا کر کہا اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں برکیارق کو یتیم نہ ہونے دیتی اور اسے دھوکہ نہ دیتی میں کوئی بات چھپا نہیں رہی سچ بول رہی ہوں سچ یہ ہے کہ برکیارق پہلا آدمی ہے جسے میں نے دل و جان سے چاہا ہے اور برکیارق مجھے اس سے بھی زیادہ چاہتا ہے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر سکوں میں اب برکیارق کی بیوی نہیں بنوں گی مجھے اپنے بھائی کی نیت کا علم تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ میں سلطان کے قاتل کی بہن ہوں مجھے سزائے موت ملنی چاہیے
تم لوگ آخر آئے کہاں سے تھے ؟
سلطان کی بیوہ نے پوچھا کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تمہارا بھائی باطنی ہے ؟
یہ میں کیسے مان سکتی ہوں میرا خیال ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا
محترم خاتون! روزینہ نے کہا ہمارا کوئی ایک ٹھکانہ ہوتا تو میں آپ کو بتاتی کہ ہم کہاں سے آئے ہیں بھائی نے بتایا تھا کہ ہم اصفہان کے رہنے والے تھے بچپن میں میرے ماں باپ مر گئے تھے اور اس بھائی نے مجھے پالا پوسا تھا میں نے اسے خانہ بدوش ہی دیکھا چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا جس سے ہمیں دو وقت کی روٹی اور سفر کے اخراجات مل جاتے تھے ہم کئی ایک شہروں اور قصبوں میں ایک ایک سال اور دو دو سال بھی رہے ہیں بھائی مجھے ہمیشہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اس لئے میں نہیں بتاسکتی کہ باہر اس کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ ہر سال حج کا ارادہ کرتا تھا جو پورا نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ میرے فرض سے فارغ ہوکر حج کا فریضہ ادا کرنے کا عزم کیے ہوئے تھا
اس گفتگو کے دوران روزینہ روتی رہی آنسو پوچھتی رہی اور کبھی تو وہ سسکنے لگتی تھی
میرے بیٹے نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ہی شادی کرے گا سلطان کی بیوہ نے کہا وہ میری نہیں مانے گا اور وہ کسی کی بھی نہیں مانے گا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر سکتی ہو؟
انکار ہی تو کر رہی ہوں روزینہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا میں یہ جو کہتی ہوں کہ مجھے بھی سزائے موت دے دیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں قاتل کی بہن ہوں اور اس کے ساتھ تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں کوئی گھر اور میرا کوئی وارث نہیں میرے لیے ایک ہی پناہ ہے اور وہ قبر ہے میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ مجھے قبر میں اتار دیں میں آپ کو فیصلہ سناچکی ہوں کہ آپ کے خاندان کی فرد نہیں بنوں گی نہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتی ہوں
برکیارق کی ماں روزینہ کے رونے سے اس کے بولنے کے انداز سے اور اس کے بار بار یہ کہنے سے کہ اسے سزائے موت دی جائے اتنی متاثر ہوئی کہ اس سوچ میں پڑ گئی کہ اس لڑکی کو بھٹکنے کے لئے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ چڑھ جانے کے لیے تنہا نہ چھوڑے یہ تو برکیارق کی ماں کا فیصلہ تھا کہ اس کا بیٹا اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرے گا لیکن وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ لڑکی کو کہاں بھیجے ویسے بھی وہ سلطان مرحوم کی طرح رحمدل عورت تھی
میں تمہیں اپنے گھر سے نکالنا نہیں چاہتی روزینہ! سلطان کی بیوہ نے کہا اگر میں تمہاری شادی کسی اور سے کرا دوں تو تم قبول کروگی؟
میں بلا سوچے کوئی جواب نہیں دے سکتی روزینہ نے کہا خدا کی قسم ابھی تو میرے دل اور دماغ پر اس قدر بوجھ ہے کہ میں یہی ایک فیصلہ کئے ہوئے ہوں کہ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں
میں تمہیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہوں سلطان کی بیوہ نے کہا تم سوچ لو پھر مجھے بتا دینا میں تمہارا کوئی بہتر بندوبست کر دوں گی
محترم خاتون! روزینہ نے کہا آپ یہ کام کریں کہ برکیارق کے دل سے مجھے نکال دیں میرا مطلب یہ ہے کہ اسے قائل کریں کہ میرا خیال چھوڑ دے بے شک وہ سلطان ہوگیا ہے اور اس نے سلطان کی حیثیت سے حکم دیا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی شادی کرے گا لیکن اس کا یہ حکم مجھے اچھا نہیں لگا بیٹے ماؤں کو حکم دیتے اچھے نہیں لگتے بلکہ یہ گناہ ہے میں اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتی
سلطان کی بیوہ نے سر جھکا لیا جیسے اسے کوئی اور سوچ آ گئی ہو کمرے کا دروازہ کھلا ماں نے اور روزینہ نے دیکھا دروازے میں برکیارق کھڑا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے ماں کا اس کمرے میں آنا اچھا نہیں لگا
آپ کا احترام مجھ پر فرض ہے ماں برکیارق نے اپنی ماں سے کہا لیکن یہ پوچھنا میرا حق ہے کہ آپ یہاں کیوں آئیں ہیں میرا خیال ہے کہ آپ اسے یہ کہنے آئی ہیں کہ یہ قاتل کی بہن ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا برکیارق روزینہ کے بہتے آنسو دیکھ رہا تھا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی ماں اسے کیا کہہ رہی ہوگی
برکیارق! روزینہ نے کہا اور ذرا رک کر بولی معاف رکھنا مجھے برکیارق نہیں بلکہ مجھے سلطان محترم کہنا چاہیے آپ کی والدہ نے جو کچھ کہا اور جو کچھ میں نے انہیں کہا ہے وہ میں لفظ با لفظ سنا دیتی ہوں
روزینہ نے وہ تمام باتیں جو اسکے اور برکیارق کی والدہ کے درمیان ہوئی تھی سنادیں
تمہیں اس فیصلے پر عمل کرنا ہوگا جو میں سنا چکا ہوں برکیارق نے کہا میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں تمہیں حکم دیکر اپنی بیوی بناؤں گا یہ میرے دل کی آواز اور میری روح کا مطالبہ ہے
روح کی آواز روح ہی سن سکتی ہے سلطان محترم! روزینہ نے کہا میری روح مر گئی ہے میرے بھائی نے سلطان کو ہی زہر نہیں دیا بلکہ میری روح کو بھی زہر دے کر مار ڈالا ہے میرے ضمیر پر بڑے ہی گھناؤنے جرم کا بوجھ ہے میں یہاں سے بھاگ جاؤ گی اور میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے بھاگ جانے دیں
میرے عزیز بیٹے! برکیارق کی ماں بول پڑی تم ابھی نوجوان ہو میری عمر دیکھو میں نے دنیا دیکھی ہے اور انسانوں کو پڑھا ہے میں تمہیں اس شادی کی اجازت دے سکتی ہوں لیکن آگے جو کچھ ہو گا وہ میں جانتی ہوں
یہ بتاؤ روزینہ! برکیارق نے پوچھا تم نے میری ماں سے کہا ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہارے بھائی کی باہر سرگرمیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا وہ باطنی کیسے بنا؟
اس نے مرنے سے پہلے امام حسن بن صباح کا نعرہ لگایا تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا وہ فدائی کیسے بنا تھا؟
تم جانتی ہو گی
میں کچھ بھی نہیں جانتی روزینہ نے جواب دیا وہ مجھے الموت لے گیا تھا وہاں ہم سات آٹھ مہینے رہے تھے میں نے آپ کی والدہ محترمہ کو بتایا ہے کہ مجھے وہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اور مجھے کچھ بھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ باہر کیا کرتا ہے اب معلوم ہوا ہے کہ وہ باطنیوں سے جا ملا تھا اور جیسے کہ آپ کہہ رہے ہیں وہ فدائی بن گیا ہوگا میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ روزینہ اللہ کرے تمہیں کسی نیک آدمی کے پلے باندھ دوں تو میں حج کا فریضہ ادا کر لوں
ماں! برکیارق نے کہا آج ہی ہم نے اپنے عظیم باپ کو دفن کیا ہے غم اور دکھ ابھی تازہ ہے کچھ دن گزر جانے دیں اس لڑکی کو یہی رہنے دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا کچھ دن انتظار کرلیں
سلطان محترم! روزینہ نے کہا آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو میری یہ خوبی پسند آئی ہے کہ میں وہی بات کرتی ہوں جو میرے دل میں ہوتی ہے میں سچ بولتی اور سچ سنتی ہوں خواہ وہ کتنا ہی تلخ ہو میرے ذہن میں گناہ کا تصور ہی نہیں آیا اس لئے مجھ میں اخلاقی جرات بھی ہے میں آپ کو آپ کا باپ واپس نہیں دے سکتی میں چاہتی ہوں کے اپنی جان دے دوں شاید اس سے آپ کے اور آپ کی والدہ محترمہ اور خاندان کے دوسرے افراد کی تسکین ہو جائے یہ میری روح کی آواز ہے کہ مجھے بھی سزائے موت ملنی چاہئے میں آپ کی والدہ محترمہ کو بتا چکی ہوں کہ میں زندہ رہوں گی بھی تو کس کے لیے؟
میرے لئے برکیارق نے کہا میں جو فیصلہ کر چکا ہوں اس پر قائم رہوں گا لیکن اپنی ماں سے اجازت لینے کے لیے میں کچھ دن انتظار کروں گا
یہ حسین و جمیل لڑکی برکیاروق کے اعصاب پر تو پہلے ہی غالب آ چکی تھی لیکن اب اس نے جو باتیں کی اور جس انداز سے کیں برکیارق اور زیادہ متاثر ہوا اس کی ماں بھی شش و پنج میں پڑ گئی اور ماں بیٹے نے فیصلہ کیا کہ روزینہ کو کچھ دن یہیں رکھا جائے اور پھر کچھ فیصلہ کیا جائے
مرو پر غم و غصے کی جو گھٹا چھا گئی تھی وہ سلطان کی موت کی خبر کے ساتھ ساتھ تمام سلطنت سلجوقیہ پر چھا گئی ساری سلطنت ماتم کدہ بن گئی
الموت میں خوشیوں کا ہنگامہ تھا وہاں سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر پہنچی تو باطنی گھروں سے نکل آئے اور خوشی سے ناچنے کودنے لگے جشن کا سا سماں بندھ گیا مرو چونکہ دارالسلطنت تھا اس لیے اس شہر میں باطنیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی جونہی سلطان مرحوم کے قاتل کو کتوں نے چیر پھاڑ دیا ایک جاسوس الموت کی طرف چل پڑا تھا
یا امام ! اس جاسوس نے حسن بن صباح سے کہا تھا سب سے بڑا دشمن مارا گیا ہے دفن بھی ہو گیا ہے اور اس کی گدی پر اس کا بڑا بیٹا برکیارق بیٹھ گیا ہے
اور قاتل کا کیا بنا؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اسے آدھا زمین میں گاڑ کر کتوں سے مروایا گیا ہے جاسوس نے بتایا
اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
حسن بن صباح نے پوچھا تھا کچھ معلوم ہے وہ کہاں ہے؟
سلطان کے گھر میں ہے جاسوس نے جواب دیا تھا اس نے نئے سلطان کو پہلے ہی اپنی جال میں لے لیا تھا
کیا وہ اکیلی کچھ کر سکے گی؟
حسن بن صباح نے پوچھا
اس سوال کا جواب دو تین دنوں بعد آجائیے گا جاسوس نے کہا تھا میں سلطان ملک شاہ کے دفن ہونے کے بعد اپنے آدمی کی سزائے موت دیکھ کر چل پڑا تھا
حسن بن صباح نے اپنے جاسوس کو فارغ کردیا اور اپنے مصاحبوں اور نائبین کو بلایا وہ فوراً سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر سن کر خوشی اور فتح کا واویلا بپا کرنے لگے
دیکھ لیا تم نے حسن بن صباح نے کہا میں نے کچھ عرصہ پہلے تم لوگوں کو ایک اصول بتایا تھا کہ کسی خاندان کو تباہ کرنا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے ہر فرد کو قتل کردیا جائے بلکہ اتنا ہی کیا جائے کہ اس خاندان کے سربراہ کا دماغ خراب کر دو
اسے عیش و عشرت میں ڈال دو اور اسے یہ یقین دلادوں کہ تم آدھی دنیا کے بادشاہ ہوں اور تم جیسا کوئی نہیں اس پر کوئی نشہ طاری کردو خوبصورت اور چالاک عورت سے بڑھ کر کوئی ایسا نشہ نہیں جو کسی زاہد اور پارسا کی توبہ اور قسمیں نہ توڑ سکے کسی خاندان کو تباہ کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس خاندان پر ایک شیطان عورت آسیب کی طرح غالب کر دو تم نے ایسے خاندان دیکھے ہونگے جو عورت اور دولت پر تباہ ہوئے ہیں
یا امام! ایک مصاحب نے کہا ہم نے دیکھ لیا ہے
کسی سلطنت کو تباہ کرنا ہو تو حسن بن صباح نے کہا اس کے حکمران کو عظمت کے راستے سے ہٹا دو اور اس کے دل سے رعایا کی محبت نکال دو پھر بھی کام نہ بنے تو اسے قتل کردو
یا امام! ایک مصاحب نے پوچھا یہ کام تو ہو گیا اب بتائیں اس سے آگے کیا کرنا ہوگا؟
یہ کام وہ لڑکی کرے گی حسن بن صباح نے کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکی بڑی تیز ہے اور اپنا کام کرنے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتی ہے اس لڑکی کا انتخاب میں نے خود کیا تھا اب یہ کرنا ہے کہ کوئی ایسا عقلمند آدمی مرو جائے جو روزینہ کے ساتھ رابطہ رکھے مجھے کون بتا سکتا ہے کہ یہ لڑکی قابل اعتماد ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ کر لی گی
میں بتا سکتا ہوں یا امام! ایک آدمی بولا اس کی تربیت میری نگرانی میں ہوئی ہے مرو میں اس کے ساتھ ایک تجربے کار آدمی اور دو بڑی خرانٹ عورتیں موجود ہیں
تم جانتے ہو ہم نے مرو میں کیا کرنا ہے حسن بن صباح نے کہا ہمارے اس فدائی نے وہاں زمین ہموار کر دی ہے اس نے سلطنت سلجوقیہ کا سر کاٹ دیا ہے اب اس کا باقی جسم دو حصوں میں کاٹنا ہے
ہاں امام! ایک آدمی نے کہا سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت میں خانہ جنگی کرانی ہے یہ کام روزینہ کرا لے گی
ملک شاہ کا بڑا بیٹا برکیارق جوان آدمی تھا حسن بن صباح نے کہا اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی میں اس کی فطرت اور خصلت کے متعلق تمام معلومات حاصل کر چکا ہوں وہ تو یوں سمجھو جیسے موم ہے اگر روزینہ ثابت قدم رہی تو وہ اس موم کو پگھلا کر اپنے سانچے میں ڈھال لے گی روزینہ بہت ہی حسین لڑکی ہے میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہوں
یا امام! اس کے ایک مصاحب نے کہا آپ یہ بات کیوں دہراتے ہیں ایک بار آپ نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ ملک شاہ کے قتل کے بعد کیا کرنا ہے یہ ہم پر چھوڑیں کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یا نہیں
تم اچھی طرح جانتے ہو حسن بن صباح نے کہا کہ میرے حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو ان سب کا کیا انجام ہوگا جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا
یہ داستان اس دور میں داخل ہو گئی تھی جو بلا شک و شبہ حسن بن صباح کا دور تھا ابلیسیت نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی اس سے مرو اور رے جیسے شہر بھی محفوظ نہیں رہے تھے
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح نے ایک جنت بنائی تھی اس جنت میں جو داخل ہوتا تھا وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا اسے کچھ عرصے کے لیے وہاں سے نکال لیا جاتا تو وہ اسی جنت میں جانے کو تڑپتا تھا اسے کہا جاتا کہ وہ فلاں فلاں بڑی شخصیت کو قتل کر آئے تو وہ ہمیشہ اسی جنت میں رہے گا اس طرح وہ آدمی جا کر دو تین بتاۓ ہوئے آدمیوں کو قتل کر دیتا اور بعد میں اسے بھی قتل کر دیا جاتا تھا اس جنت کی حقیقت اس سے کچھ مختلف تھی جو تاریخ نے بیان کی ہے
بیشتر مؤرخوں نے حسن بن صباح کی جنت کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی تفصیل “ائمہ تلبیبس” میں ان الفاظ میں ملتی ہے حسن بن صباح نے جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی اور اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے انکی لوح دل پر یہ بات ثبت کرادی کہ شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح تمام دنیا کا مالک اور اس دنیا میں بڑا قادر ہے اس تعلیم و تلقین کے علاوہ اس نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی وجہ سے اس جماعت کو جاں سپاری پر آمادہ کرنا بالکل چٹکی بجانے کا کام تھا
اس نے اپنا قلعہ الموت کے اردگرد نظر فریب مرغزاروں اور جاں بخش نزہت گاہوں میں نہایت خوبصورت محل برج اور کوشکیں کی تعمیر کروائیں عالی شان محلات کی دل آویزی اور خوشنمائی باغوں اور مرغزاروں کی نزہت اور تروتازگی دیکھنے والے کے دل پر جادو کا اثر کرتی تھی ان کے بیچوں بیچ جنت کے نام سے ایک نہایت خوشنما باغ بنوایا جس میں وہ تمام سامان مہیا کیے جو انسان کے لیے موجب تفریح ہو سکتی ہیں مثلا اشیاء تعیش ہر قسم کے میوہ دار درخت پھول چینی کے خوبصورت ظرورف بلوری طلائی اور نقرائی سامان بیش قیمت فرش یونان کے اسباب تعیشات پر تکلف سامان خوردنوش نغمہ سرور جنت کی دیواروں پر نقش و نگار کا نہایت نازک کام بنوایا
نالوں کے ذریعے سے محلات میں پانی دودھ شراب اور شہد جاتا تھا ان سب لذائذ کے علاوہ دل بہلانے کے لئے پری تمثال کمسن نازنین موجود تھیں ان کی سادگی وضع اور ان کے حسن و جمال کی دلربائی وہاں دیکھنے والوں کو یہ یقین دلاتی تھی کہ یہ عالم سفلی کے سوا اور ہی عالم کی پیکر ہیں کوشش کی گئی تھی کہ اس جنت میں داخلے کے بعد زائر کے دل پر فرحت کا احساس شیری اثر پیدا کیا جائے کہ وہ اس فرحت اور مسرت کو دنیاوی نہیں بلکہ اخروی یقین کرے
یہاں کے حوروغلمان کا تمام کاروبار بالکل راز داری سے انجام پاتا تھا ہر وہ چیز جس کی باہر سے مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اس حسن اسلوب سے فراہم کی جاتی تھی کہ کسی کو بھی سراغ نہ لگ سکتا تھا
حسن بن صباح علاقہ طالقان اور روزبار وغیرہ کے خوبصورت تندرست اور قوی ہیکل نوجوان جو سادہ لوح ہوتے اور ان میں ہر بیان باور کرنے اور ایمان لانے کی صلاحیت نظر آتی فدائین کی جماعت میں بھرتی کر لیتا یہ وہ لوگ تھے جو حسن بن صباح کے ہر حکم کی بلاعذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے
بھنگ جسے عربی میں حشیش کہتے ہیں شاید ان ایام میں ایک غیر معمولی اور غیر معمولی چیز تھی اور غالبا حسن بن صباح ہی پہلا شخص ہے جس نے اپنی دانشمندی سے وہ کام لیا جو اس سے پہلے شاید کسی نے نہ لیا ہوگا جب فدائی امیدواری کا دور ختم کر لیتا تو حسن بن صباح اسے بھنگ کے اثر سے بے ہوش کرکے جنت میں بھجوا دیتا جہاں وہ جاں پرور حوروں کی گود میں آنکھ کھولتا اور اپنے آپ کو ایسے عالم میں پاتا جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں شاید بڑے بڑے شاہان عالم کو بھی نصیب نہیں تھیں
یہاں وہ انواع و اقسام کی نزہت گاہوں کی سیر کرتا حوروں کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ان کی صحبت انکی جانستانی کرتی اور ان مہوشوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر مئے ارغوانی کے جام اڑاتا اعلی سے اعلی غذائیں اور بہترین قسم کے میوے کھاتا اور ہر طرح کے تعیشات میں محو رہتا ہفتہ عشرہ کے بعد جب ان محبت شعار حوروں کی محبت کا نقش اس کے دل پر اتنا گہرا پڑجاتا کہ پھر مدت العمر مٹ نہ سکے تب وہی حوریں بھنگ کا ایک جام پلا کر اسے شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح کے پاس بھجوا دیتیں جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے شیخ کے قدموں میں پاتا اور جنت کے چند روزہ قیام کی خوشگوار یاد اس کو سخت بے چین کر دیتی
حسن بن صباح اس کو جنت میں بھیجے جانے کی پھر امید دلاتا اور کہتا کہ جنت کے دائمی قیام کی لازمی شرط جاں ستانی اور جاں سپاری ہے وہ شخص جس کے دل پرگذشتہ عیش و عشرت کا اثر اتنا مضبوط پڑ چکا تھا اور حوروں کی ہم نشینی کی تصویر ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی تھی وہ حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل میں کس طرح کوتاہی کر سکتا تھا
چنانچہ جب حسن بن صباح کو کسی دشمن کا قتل کرانا منظور ہوتا تھا تو وہ ایک فدائی نوجوان کو حکم دیتا کہ جا فلاں شخص کو قتل کرکے قتل ہوجا مرنے کے بعد فرشتے تجھے جنت میں پہنچا دیں گے
یہ فدائی اپنے حوصلے سے بڑھ کر مستعدی دکھاتا تاکہ کسی طرح جلد جنت میں پہنچ کر وہاں مسرتوں سے ہمکنار ہو یہی وہ خطرناک لوگ تھے جن سے خون آشامی کا کام لیا جاتا تھا ان لوگوں کو جس کے قتل کا بھی اشارہ دیا جاتا وہ وہاں کوئی روپ بھر کر جاتے رسائی اور آشنائی پیدا کرتے اس کے معتمد بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کر دیتے تھے
تاریخ کی یہ تحریر شہادت مصدقا تسلیم نہیں کی جاسکتی اس دور میں محلات کی تعمیر چند دنوں یا چند مہینوں میں ناممکن تھی جس قسم کے محلات مورخوں نے بیان کئے ہیں ان کی تعمیر کے لئے پچیس تیس سال درکار تھے پھر پھلدار درختوں کا جو ذکر آتا ہے وہ اس لیے مشکوک ہے کہ درخت اتنی جلدی تناور نہیں ہو سکتا کہ وہ پھل اور میوہ جات دینے لگتا مؤرخوں اور ان کے بعد آنے والے تاریخ نویسوں نے ایک دوسرے کی تحریروں میں زیب داستان اور مبالغہ آرائی کے ذریعے اضافے کئے اور ہمارے سامنے اس جنت کا نقشہ آگیا جو اللہ کی بنائی ہوئی جنت سے بھی زیادہ خوشنما اور دلفریب لگتا ہے دودھ شہد اور شراب کے نلوں کو تو شاید تصور میں لایا جا سکے اور لایا بھی جا رہا ہے لیکن ان کا وجود بھی مشکوک ہے
پھر یہ سب کیا تھا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی اس کے قاتل فدائین نے اسی جنت میں جنم لیا تھا ان قاتلوں کی اگلی نسلیں حسن بن صباح کی موت کے بعد بھی قاتل ہی کہلاتی رہیں اور ان نسلوں نے کرائے کے قتل کی وارادتوں میں نام حاصل کیا تھا
قارئین کرام کو قبل از مسیح کے دور میں کچھ دیر کے لیے لے چلتا ہوں ایسی ایک جنت کا ذکر یونان کی دیو مالائی داستانوں میں ملتا ہے یہ اس دور کی بات ہے جب یونان والوں نے پوجا کرنے کے لئے کئی دیوتا اور دیویاں تخلیق کر لی تھیں یہ معبود آسمانوں پر رہتے تھے اور زمین پر بھی ایک داستان میں اس جنت کا ذکر ملتا ہے جس کی خوشنمائی اور دلکشی کی تفصیلات پڑھو یا سنو تو حسن بن صباح کی جنت سامنے آجاتی ہے لیکن وہ یونانی داستان لکھنے والے تھے جنہوں نے اس جنت کی حقیقت بھی بیان کردی تھی اس جنت کا تجزیہ آج کے سائنسی دور میں جب دیگر علوم بھی نقطہ عروج پر ہیں کرو تو یقین آجاتا ہے کہ وہ جنت ہی تھی لیکن اس کی حقیقت کیا تھی؟
حقیقت یہ تھی کہ یونان میں ایک پہاڑ تھا اس پہاڑ میں ایک غار تھا جو دور اندر تک چلا گیا تھا لیکن سیدھا نہیں بلکہ بھول بھلیوں کی صورت میں اس وقت کے بادشاہ نے اس غار کے اندر کوئی ایسی جڑی بوٹیاں رکھ دی تھیں جن کی بو پھیل گئی تھی تھوڑے تھوڑے عرصے بعد یہ جڑی بوٹی تروتازہ پھر وہاں بکھیر آتے تھے
بادشاہ اپنے کسی مخالف کو یا کسی اور وجہ سے کسی آدمی کو کوئی لالچ دے کر اس غار میں بھیج دیتا تھا وہ شخص اس غار میں دور اندر تک جاتا تو اسے اندر حوریں نظر آنے لگتی تھیں اور اسے یوں نظر آتا جیسے وہ اس کے استقبال کے لیے بے تاب ہوں وہ ان کے ساتھ عیش عشرت کرتا اور پھر اسے یہ حوریں ایسے ایسے کھانے پیش کرتیں جو زمین پر رہنے والے انسانوں نے کبھی دیکھے اور کبھی سنے نہیں تھے یہ تحریر بھی کیا گیا کہ اندر جانے والے اور کچھ دن اندر رہنے والے شخص کو باہر لائے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آیا اور دوڑ کر پھر غار میں چلا گیا وہ اس جنت میں سے کسی قیمت پر نکلنا نہیں چاہتا تھا وہ پھر اندر چلا جاتا اور چند دنوں میں ہی مر جاتا اور تھوڑے عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتی حقیقت یہ تھی کہ اس غار کے اندر چھوٹی چھوٹی چٹانیں ستونوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں ان چٹانوں کو وہ حوروغلمان سمجھ لیتا تھا اور یہ چٹانے اسے حوروغلمان ہی کی شکل میں نظر آتی تھیں وہ جو مرغن اور عجیب و غریب خانے کھاتا تھا وہ کنکریاں اور مٹی ہوتی تھیں
یہ اس بو کا اثر تھا جو جڑی بوٹیوں سے اٹھتی اور غاروں کے اندر فضا میں پھیلتی رہتی تھی اس بو میں نشے کا ایسا اثر تھا جو ذہن کو انتہائی خوبصورت اور دلفریب تصور دیتا تھا یہ دیومالائی داستان بہت ہی طویل ہے جس میں تخیلاتی اور انہونی واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں لیکن داستان لکھنے والے نے دانشمندی کا یہ ثبوت دیا ہے کہ اس جنت کی اصل حقیقت پوری طرح بیان کر دی ہے
میں آپکو یہ سنانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یونان کی اس دیومالائی داستان کا ایک باب مختصراً بیان کر دوں اس میں وہ عقل و دانش کا راز نظر آتا ہے جو ہر انسان کے لیے سمجھنا ضروری ہے یہ داستان لکھنے والا لکھتا ہے کہ ایک شہزادے کے دل میں یہ خواہش ابھری کے وہ اس غار میں جائے اور اس جنت میں دو تین دن گزار کر واپس آجائے
اس نے اپنے بوڑھے اتالیق سے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا تو بزرگ اتالیق نے اسے سمجھایا کہ اس جنت کی حقیقت کیا ہے شہزادہ چونکہ شہزادہ تھا اس لیے وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے اتالیق کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کے ساتھ اس غار تک چلے اتالیق نے دھاگے کا ایک گولا اٹھایا اور شہزادے کو ساتھ لے کر اس پراسرار غار تک چلا گیا اس نے دھاگے کا ایک سرا شہزادے کے کلائی سے باندھ کر کہا کہ تم غار کے اندر چلے جاؤ اندر بھول بھلیاں ہیں جن میں تم گم ہو جاؤ گے ان میں سے تم نکل نہیں سکو گے تمہیں یاد ہی نہیں رہے گا کہ تم کس راستے سے اندر آئے تھے یہ دھاگہ ٹوٹنے نہ دینا میں باہر بیٹھ جاؤں گا اور دھاگا کھولتا جاؤں گا جہاں تمہیں حوریں اور ایسی ہی چیزیں نظر آنے لگیں وہیں سے اس دھاگے کو پکڑ کر واپس آ جانا یہ دھاگا تمہاری رہنمائی کرے گا
شہزادہ غار میں داخل ہوگیا اور بزرگ اتالیق دھاگا ڈھیلا کرتا گیا کرتا گیا حتیٰ کہ بڑاہی لمبا دھاگا شہزادے کے ساتھ غار کے اندر چلا گیا دن گزر گیا مگر شہزادہ باہر نہ آیا یہاں کئی اور واقعات بیان کئے گئے ہیں لیکن میں آپ کو صرف ایک حصہ پیش کرکے بتانا چاہتا ہوں
بزرگ اتالیق نے جب دیکھا کہ شہزادہ ابھی تک باہر نہیں آیا وہ دھاگے کا باقی گولا باہر رکھ کر دھاگے کو پکڑ پکڑ کر غار کی بھول بھلیوں میں جاتے شہزادے تک پہنچ گیا خود اس معمر اور دانشمند اتالیق کو حسین و جمیل چیزیں نظر آنے لگیں مگر اس نے اپنی ناک پر کپڑا باندھ لیا اور شہزادے تک جا پہنچا شہزادہ مٹی کھا رہا تھا اور قہقہے لگارہا تھا اور بازو پھیلا کر یوں بازو اپنے سینے پر سمیٹ لیتا تھا جیسے اس نے اپنے بازوؤں میں کوئی چیز دبوچ لی ہو اتالیق شہزادے کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر لایا اگر دھاگہ ٹوٹ جاتا تو دونوں باہر نہ نکل سکتے
باہر آکر شہزادہ اپنے اتالیق سے الجھ پڑا اور پھر غار کی طرف دوڑا اتالیق نے اسے پکڑ لیا لیکن اتالیق بوڑھا اور شہزادہ نوجوان تھا شہزادے کو بے بس کرنے کے لئے اس کے سر کے پچھلے حصے پر پتھر کی ضرب لگائی شہزادہ بے ہوش ہو کر گرپڑا شہزادہ جب ہوش میں آیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر فورا ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے غار کا دہانہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا اس نے اتالیق سے پوچھا اتالیق نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ اپنے منہ میں انگلیاں ڈالو اور انگلیاں دیکھو شہزادے نے اپنے منہ میں ایک انگلی پھیری تو اسے کچھ مٹی نظر آئی جو اس کی انگلی کے ساتھ لگ گئی تھی اس وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کے دانتوں کے درمیان ریتی اور مٹی موجود ہے اس نے تھوک تو مٹیالے رنگ کا تھوک تھا شہزادے نے اپنے دانشمند اتالیق کی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا
میرے عزیز شہزادے! اتالیق نے کہا میں آج تمہیں ایسا سبق دوں گا جو مرتے دم تک تمہیں فریب کاروں اور بے وفا لوگوں کے دھوکوں سے بچائے رکھے گا اس غار کے اندر کوئی جنت نہیں نہ کوئی حور ہے اور نہ حوروں جیسے لڑکے اور نہ ہی وہاں آسمان سے اترے ہوئے کھانے ہیں اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی شراب ہے جسے تم سمجھتے ہو زمین پر نہیں ملتی یہ جنت ہر انسان کے اپنے ذہن میں موجود ہے ہر انسان زندگی کے حقائق سے بھاگ کر اپنے ذہن کی جنت میں چلا جانا چاہتا ہے لیکن اس کے ہوش و حواس اس حد تک بیدار رہتے ہیں کہ وہ تصور کو تصور ہی سمجھتے ہیں اس غار میں ایک خاص بوٹی کی بو چھوڑی گئی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن سے یہ حقیقی زندگی نکل جاتی ہے اور جو حسین تصور انسانی ذہن نے تخلیق کیے ہوتے ہیں وہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتے ہیں یوں سمجھ لو کے انسان کی بیداری والی حس سو جاتی ہے اور تصورات پیدا ہو جاتے ہیں
تمہارے پھیپڑوں میں یہ بو گئی اور تمہارے دماغ پر قابض ہو گئی پھر تم حقیقت سے کٹ گئے اور تمہارے ذہن نے جو خوبصورت تصورات تخلیق کر رکھے تھے وہ باہر تمہارے سامنے حوروں اور جنت نظیر ماحول کی صورت میں سامنے آگئے انسان بڑی کمزور چیز ہے انسان ذہن کا غلام ہوتا ہے تخریبی قوتوں کا حملہ ذہن پر ہوتا ہے انہیں تخریبی اور سفلی قوتوں کو شیطان کہا گیا ہے میں نے تمہاری کلائی کے ساتھ دھاگا باندھ دیا تھا اور اس کا دوسرا سرا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا غور کرو شہزادے میں زندہ حقیقی زندگی میں بیٹھا ہوا تھا اور تم تصورات میں گم ہوگئے تھے لیکن یہ دھاگا حقیقت اور تصور کے درمیان ایک رشتہ تھا یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو تم ہمیشہ کے لئے حقیقی زندگی سے کٹ جاتے یاد رکھو حسین تصورات اور حقیقی زندگی کے درمیان صرف ایک کچا دھاگا حائل ہے جس نے اس دھاگے کو توڑ ڈالا وہ اپنی موت خود مرا اور جس نے اس دھاگے کو ٹوٹنے نہ دیا وہ بھٹک بھٹک کر کبھی تو واپس حقیقت میں آ ہی گیا
یہ ایک نشہ ہے جو کسی جابر بادشاہ پر بھی طاری ہو جائے تو وہ حسین تصورو میں جا پڑتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد گم ہو جاتا ہے بادشاہ اپنے دشمن کو قتل کروا دیتے ہیں دشمن کو مارنے کا بہترین اور بڑا ہی حسین طریقہ یہ ہے جو ہمارے بادشاہ نے اختیار کیا ہے دشمن کو کسی نشے میں مبتلا کرکے اس میں یہ غلط احساس پیدا کر دو کہ تم ساری دنیا کے بادشاہ ہو اور اتنے خوب رو ہو کے کسی بھی دیس کی شہزادیاں تم پر مر مٹے گی اس کی زندہ مثال تم اس غار کے اندر دیکھ آئے ہو تمہارے لیے سبق یہ ہے کہ اپنے ذہن کو اپنے قابو میں رکھو اپنے ہوش و حواس کو اپنے ذہن کے حوالے کبھی نہ کرو اور بچو اس نشے سے جو نیک وبد کا احساس ہی مٹا دے لیکن انسان کی فطرت اتنی کمزور ہے کہ وہ لذت اور تعیش کو فوراً قبول کرلیتی ہے اور انسان کا حلیہ ہی بگاڑ دیتی اور اسے تباہی کی گہری کھائی میں پھینک دیتی ہے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:30 }
آج کی سائنس نے قدیم زمانے کے اسرار کو بے نقاب کردیا ہے کوئی انسان غصے سے باؤلا ہو جائے درندہ بن جائے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تو چھوٹی سے ایک گولی یا ذرا سا ایک انجکشن اس کے ذہن کو سلا دیتا ہے اور وہ کمزور سا ایک انسان بن جاتا ہے اب تو ایسے ملزموں کو جو اپنے جرم کا اقبال نہیں کرتے دھوکے میں کھانے یا پینے کی اشیاء میں ذرا سی دوائی ملا کر دی جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں جیسے وہ بہت بڑی شخصیت ہو اور حسین ترین لڑکیاں اس پر جان نثار کرتی ہوں اور اسے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ اس قدر بہادر دلیر اور دانشمند ہے کہ اس نے وہ جرم کیا ہے جو اور کوئی نہیں کر سکتا اس طرح دو چار مرتبہ اسے یہ دوائی کھانے پینے میں دی جاتی ہے اور وہ بڑے فخر سے اپنے جرم کا اقبال ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ایک تفصیل سنا دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے
حسن بن صباح کی جنت کا زیادہ تر تعلق انسانی ذہن ہی سے تھا تاریخوں میں جو تفصیلات آئی ہیں ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اختلاف ہے لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حسن بن صباح اپنے فدائین کو حشیس پلاتا تھا حشیش کے جو اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ ان تمام منشی اشیاء کے اثرات سے مختلف ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں
حشیش پی کر انسان نے اگر ہنسنا شروع کر دیا تو وہ نشہ اترنے تک ہنستا ہی چلا جائے گا اور اگر وہ رونے پر آیا تو گھنٹوں روتا ہی رہے گا کسی انسان کو آہستہ آہستہ حشیش پلاتے رہیں اور ساتھ ساتھ کوئی بڑا ہی حسین منظر الفاظ میں بیان کرتے رہیں تو وہ شخص ایسے ہی منظر میں چلا جائے گا خواہ اس منظر کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو
تاریخ میں یہ بالکل صحیح لکھا گیا ہے کہ جس دانشمندی سے حسن بن صباح نے حشیش کو استعمال کیا ہے اس طرح اس وقت تک اور کوئی نہیں کر سکا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح غیر معمولی طور پر دانشمند آدمی تھا
یونان کی دیو مالائی داستان کی جنت اور حسن بن صباح کی جنت میں فرق یہ تھا کہ اس یونانی داستان میں ایک غار تھا جس میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں ابھری تھیں اور وہاں کنکریاں اور مٹی تھیں لیکن حسن بن صباح نے جس علاقے میں جنت بنائی تھی وہ بڑا ہی حسین اور روح افزا جنگل تھا اس جنگل میں پھل دار درخت بھی تھے اور پھولدار خودرو پودے بھی تھے ایسے اور بھی بہت سے پودے وہاں اگائے گئے تھے اور اس خطے کو کاٹ کاٹ کر مزید خوبصورت بنا دیا گیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعہ الموت بلندی پر تھا اور اس کا اپنا ایک حسن تھا یہ قلعہ بنانے والوں نے اس کی خوبصورتی کا خاص طور پر خیال رکھا تھا
حسن بن صباح کے یہاں نوجوان اور بڑی ہی حسین لڑکیوں کی کمی نہیں تھی اس کا ایک گروہ ہر ایک دن قافلے لوٹنے میں لگا رہتا تھا یہ گروہ قافلوں سے سونے چاندی کے علاوہ نقد رقم لوٹ لیتا اور اس کے ساتھ ہی کمسن بچیوں کو بھی اٹھا لاتا تھا ان بچیوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی تھی لیکن ان پر ذرا سا بھی ظلم اور تشدد نہیں کیا جاتا تھا انہیں بڑی خوبصورت زندگی مہیا کی جاتی تھی اور اسکے ساتھ انہیں مردوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی لڑکیوں کے ہاتھوں سے فدائین کو تیار کرنے کے لئے حشیش پلائی جاتی تھی حشیش پلا کر یہ لڑکیاں ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتی تھیں جن سے انہیں یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ اتنے بہادر ہیں کہ جسے چاہیں قتل کر دیں اور چاہیں تو ساری دنیا کو فتح کر لیں
مختصر یہ کہ حسین اور نوجوان لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے ان آدمیوں کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا جاتا تھا اس کے ساتھ وہاں کا قدرتی ماحول اپنا ایک اثر رکھتا تھا کچھ دنوں بعد اس شخص کو اس ماحول ان لڑکیوں اور حشیش سے محروم کرکے قلعے کے تہہ خانے میں پہنچا دیا جاتا تھا وہ شخص تڑپتا اور کاٹنے کو دوڑتا تھا اس کیفیت میں اسے حسن بن صباح کے سامنے لے جایا جاتا اور تاثر یہ دیا جاتا کہ حسن بن صباح ساری دنیا کا بادشاہ ہے اور وہ جسے چاہے جنت عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے جہنم میں پھینک دیتا ہے
اس شخص کی اس ذہنی اور جذباتی حالت میں حسن بن صباح اپنا جادو چلاتا تھا وہ اسے قتل کرنے اور قتل ہو جانے پر آمادہ کرلیتا تھا بات وہیں پر آتی ہے کہ یہ ان انسانوں کے ذہن تھے جن پر حسن بن صباح قابض ہونا ہوجاتا اور انہیں اس مقام تک لے جاتا تھا جہاں وہ لوگ اس کے اشارے پر جانیں قربان کر دیتے تھے
انسان کی سب سے بڑی کمزوری تعیش پرستی ہے اللہ کے بندوں کی یہی وہ دکھتی رگ ہے جسے ابلیس اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اسی لئے حسن بن صباح کی جنت کو ابلیسی جنت کہا گیا ہے
پھر حقائق سے فرار انسان کی دوسری بڑی کمزوری ہے کوئی انسان جب عورت کو فرار کا ذریعہ بناتا ہے تو اس کے ذہن میں ابلیس کی جنت کا وجود آ جاتا ہے پھر اس انسان کو دنیا کی کوئی طاقت تباہی سے نہیں بچا سکتی ایسا انسان اللہ کے اس فرمان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے جس میں اللہ نے انسان کو یہ وارننگ دی ہے کہ تم پر جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی اعمال بد کا نتیجہ ہوتی ہے
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ
حسن بن صباح کا باطنی عقیدہ بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا تھا اور بے شمار علاقہ اس کی زد میں آچکا تھا اس عقیدے نے تیزی سے ہی پھیلنا تھا انسان فطری طور پر خود سر اور سرکش واقع ہوا ہے یہ بھی ایک فطری کمزوری ہے اگر کوئی مخلص قائد مل جائے اور وہ کچھ انسانوں کی خود سری اور سرکشی کو منظم طریقے سے کسی نصب العین کے لیے استعمال کرے تو یہ ایک قوت بن جاتی ہے لیکن اسی خودسری اور سرکشی کو انسان جب اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اوصاف اس کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں انسان پابندیاں قبول نہیں کیا کرتا حسن بن صباح نے لوگوں کو جو عقیدہ دیا تھا اس کا نام اسلام ہی رہنے دیا تھا لیکن اس میں ترمیم یہ کی تھی کہ انسان کے باطن میں جو کچھ ہے وہی مذہب ہے اس نے شریعت کو اسلام میں سے نکال دیا تھا
وہ پسماندگی کا دور تھا تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ان علاقوں کے لوگ مسلمان تھے حسن بن صباح نے ان کو مسلمان ہی رہنے دیا اور کمال یہ کر دکھایا کہ انہیں تمام مذہبی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد کردیا
اس کا باطنی عقیدہ تیزی سے پھیل رہا تھا پھر بھی سلطان ملک شاہ اس کے راستے میں ایک رکاوٹ بنا ہوا تھا اسے معلوم تھا کہ یہ سلطان اس کے خلاف بہت بڑی فوج تیار کر رہا ہے حسن بن صباح نے اپنے ایک فدائین کے ہاتھوں سلطان ملک شاہ کا پتہ ہی کاٹ دیا تو یہ رکاوٹ راستے سے ہٹ گئی اسے برکیارق کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا اس نے اپنے مصاحبوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ جوان آدمی ہے جس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اسے ذہنی طور پر بیدار کرنے کے لئے روزینہ کو بھیج دیا تھا جس کے حسن و جمال اور انداز میں طلسماتی اثرات چھپے ہوئے تھے
اس علاقے میں ابھی کچھ اور قلعے ایسے تھے جو حسن بن صباح کے قبضے میں نہیں آئے تھے وہ اس خیال سے ان قلعوں کی طرف نہیں بڑھتا تھا کہ سلطان ملک شاہ فوج لے کر آ جائے گا
ان قلعوں میں ایک اہم قلعہ قلعہ ملاذ خان تھا جو فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا کسی وقت یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے قبضے میں تھا وہ قافلوں کو لوٹتے اور مال اس قلعے میں لاکر جمع کر دیتے تھے قافلوں میں سے انہیں کمسن بچیاں اور نوجوان لڑکیاں ملتی تھیں تو انہیں بھی اس قلعے میں لے آتے تھے
ان ڈاکوؤں کے ڈر سے قافلوں کی آمد و رفت و بند ہوگئی اور اس کا اثر تجارت پر بھی پڑا لوگ سلطان ملک شاہ کے یہاں گئے اور فریاد کی کہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے ان دنوں سلطان ملک شاہ جوان تھا اور نیا نیا سلطان بنا تھا اس نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ وہ اس قلعے پر قبضہ کرے اور ان ڈاکوؤں کا قلع قمع کردے اس سالار کا نام عفد الدولہ بن بویا تھا سلجوقیوں کی تاریخ کا یہ ایک نامور سالار تھا اس نے ایک روز طوفان کی طرح جا کر قلعے کا محاصرہ کرلیا ڈاکو آخر ڈاکو تھے وہ کوئی جنگجو نہیں تھے سالار بویا نے اپنے سپاھیوں کو حکم دیا کہ کمندیں پھینک کر قلعے کی دیواروں پر چڑھیں اور اپنی جانیں قربان کردیں
وہ مجاہدین تھے جنہیں بتایا گیا تھا کہ ان ڈاکوؤں نے کتنے ہی قافلے لوٹے ہیں اور سیکڑوں کمسن لڑکیوں کو اغوا کیا ہے اور سیکڑوں نہیں ہزاروں گھروں میں صف ماتم بچھا دی ہے ان مجاہدین نے جانوں کی بازی لگادی اور قلعے میں دیوار پھاند کر داخل ہوگئے تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں طوفان کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے ان کا جذبہ ایسا تھا کہ انہیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اللہ کے حکم سے اس قلعے پر حملہ آور ہوئے ہوں
ایک بھی ڈاکو قلعے میں سے زندہ نہ نکل سکا سب کو کاٹ دیا گیا صرف عورتوں اور بچوں کو زندہ رہنے دیا گیا جنہیں سلطان ملک شاہ کے حکم سے دارالسلطنت میں بھیج دیا گیا تھا اور ان سب کو لوگوں کے گھروں میں آباد کر دیا گیا تھا
سلطان ملک شاہ نے یہ قلعہ اپنے ایک رئیس میرانز کو بطور جاگیر دے دیا اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد حسن بن صباح نے اپنا ایک وفد میرانز کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ یہ قلعہ خریدنا چاہتا ہے رائیس قلعہ نے صاف انکار کردیا اور یہ پیغام کا جواب دیا کہ آئندہ کوئی باطنی اس قلعے میں داخل ہونے کی جرات نہ کرے
قافلے محفوظ ہوگئے اور اس وسیع علاقے میں لوگ آکر آباد ہونے لگے حتٰی کہ یہ ایک شہر کی صورت اختیار کرگیا حسن بن صباح کی نظر ہمیشہ اس قلعے پر لگی رہی لیکن اس نے ظاہر یہ کیا کہ اسے اس قلعے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں
سلطان ملک شاہ قتل ہوگیا تو حسن بن صباح نے اپنے خاص مصاحبوں سے کہا کہ اب قلعہ ملاذ خان اپنے قبضے میں آ جانا چاہیے
رئیس قلعہ بن بویا شام کے وقت اپنے مصاحبوں میں بیٹھا ہوا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ ایک سفید ریش بزرگ اسے ملنے آئے ہیں بن بویا بااخلاق اور صاحب اقتدار رئیس تھا وہ اس بزرگوں کو اندر بلانے کی بجائے خود اس کے استقبال کے لئے چلا گیا اسے بڑے تپاک اور احترام سے ملا اور اندر لے آیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا کے کان میں سرگوشی کی میں علاحدگی میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں
بن بویا اسے دوسرے کمرے میں لے گیا
رئیس قلعہ! بزرگ نے بات شروع کی میں آپکو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں باطنی ہوں آپ نے اس قلعے میں باطنیوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے
پھر آپ اس قلعے میں کس طرح داخل ہوئے؟
بن بویا نے ذرا تحکمانہ لہجے میں کہا کیا دروازے پر آپ سے کسی نے پوچھا نہیں تھا
پوچھا تھا بزرگ نے جواب دیا میں نے جھوٹ بولا تھا کہ میں اہل سنت ہوں اب آپ پوچھیں گے کہ میں نے جھوٹ کیوں بولا میرا اپنا کچھ ہی کیوں نہ ہو میں تارک الدنیا ہوں اور میرے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے خداوند تعالی نے مجھے کشف کی طاقت دی ہے میں اس قلعے میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا نہ میرا یہاں کوئی کام تھا میں اس قلعے کی دیوار کے ساتھ جاتے ہوئے راستے پر جا رہا تھا کہ مجھے ایک اشارہ سا ملا اور میں نے گھوڑا روک لیا کوئی طاقت جو کشش کی طاقت ہی ہوسکتی ہے مجھے قلعے کی دیوار کے قریب لے آئی مجھے صاف اور واضح اشارہ ملا کہ قلعے کے اندر خزانہ دفن ہے میں نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہونا چاہیے تھا اور یقین ہے کیونکہ یہ قلعہ صدیوں سے ڈاکوؤں کے قبضے میں تھا جہاں ڈاکو ہوتے ہیں وہاں کی زمین میں خزانہ کا مدفون ہونا لازمی ہوتا ہے
کیا آپ مجھے اس خزانے کی خوشخبری سنانے آئے ہیں؟
بن بویا نے کہا اس کے بعد آپ یہ کہیں گے کہ میں آدھا خزانہ آپ کو دینے کا وعدہ کروں تو آپ خزانے کی نشاندہی کریں گے
میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ میں تاریک الدنیا ہوں بزرگ نے کہا میں نے خزانہ حاصل کرکے کیا کرنا ہے میں خزانے کی نشاندہی کر دوں گا لیکن شرط یہ نہیں ہوگی کہ آدھا خزانہ مجھے دیں بلکہ شرط یہ ہوگی کہ اس خزانے میں لوگوں کا لوٹا ہوا مال ہے اس خزانے کے لئے ڈاکوؤں نے نہ جانے کتنے سو یا کتنے ہزار آدمی مار ڈالے ہوں گے یہ خزانہ نہ میرا ہے نہ آپ کا میں اسکی نشاندہی کروں گا لیکن اس شرط پر کہ اس خزانے کا صرف چالیسواں حصہ آپ لینگے باقی سب غریبوں میں تقسیم کر دیں گے
ہاں بزرگوارِ محترم! بن بویا نے کہا میں خزانہ غریبوں میں تقسیم کر دونگا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خزانہ کتنا کچھ ہے؟
نہیں! بزرگ نے جواب دیا یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خزانہ زیادہ ہے ایک بات اور بھی ہے جو ذرا تحمّل سے سنیں آپ ہم باطنیوں کو کافر کہتے ہیں میں کبھی خود بھی شک میں پڑ گیا تھا لیکن جب مجھے کشف ہونے لگا تو یہ خیال آیا کہ میں کافر ہوتا تو اللہ کی ذات مجھے کشف کی طاقت نہ عطا کرتی آج مجھے اس خزانے کا اشارہ ملا تو میں نے پہلے یہ سوچا کہ خزانہ ہے تو پڑا رہے مجھے اس سے کیا خیال آگیا کہ نہیں یہ خزانہ اللہ کے بندوں کے کام آنا چاہیے اس پر مجھے اشارہ ملا کہ یہ غریبوں میں تقسیم ہو میں بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک بار ہمیں موقع دیں کہ ہم آپ کے ساتھ باطنی عقیدے پر بات کر سکیں میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہمارے عقیدے میں آجائیں البتہ میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں
کیا آپ ہم سے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ؟
رئیس قلعہ بن بویا نے پوچھا اگر ایسی بات ہے تو مناظرہ آپ کریں گے یا کوئی اور آئے گا؟
میں مناظرے کی بات نہیں کر رہا بزرگ نے کہا مناظرے کا مطلب ہوگا کہ ہم آپ کو جھٹلانے کی کوشش کریں گے نہیں رئیس قلعہ! میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں نہ میں آپ کی توہین کرنے کا خواہشمند ہوں میں اپنا مطلب پھر واضح کر دیتا ہوں کہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیں تاکہ ہم آپ کا دل صاف کر سکیں
کیا آپ خزانے کی بات اس کے بعد کریں گے؟
بن بویا نے پوچھا یا آپ یہ کوشش کریں گے کہ میں آپ کے عقیدے کو قبول کر لوں؟
نہیں رئیس قلعہ! بزرگ نے جواب دیا خزانے کی بات الگ ہے میں وہ بھی کروں گا میں آپ کے ساتھ رہ کر خزانے کی نشاندہی کروں گا عقیدوں کی میں نے جو بات کی ہے وہ تو میں نے آپ سے اجازت مانگی ہے آپ اس قلعے کے مالک ہیں اجازت نہ دیں گے تو میں آپ کا کیا بگاڑ لوں گا میرے دل میں اللہ کے ہر بندے کی محبت ہے
بن بویا ایک تو اس بزرگ کی باتوں سے متاثر ہوا اور خزانے کی موجودگی نے تو اس کا دماغ ہیں پھیر دیا خزانہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مدفون خزانہ کوئی عجوبہ نہیں ہوتا تھا اس دور میں قدیم بادشاہ بھی اپنے خزانے کا کچھ حصہ کسی خفیہ جگہ دفن کر دیا کرتے تھے چونکہ یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کا تھا اس لئے رئیس قلعہ بن بویا نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہے مدفون خزانوں کے متعلق دو روایات مشہور تھیں جو آج بھی سنی سنائی جاتی ہیں ایک یہ کہ جہاں خزانہ دفن ہوتا ہے وہاں ایک بڑا ہی زہریلا سانپ ہوتا ہے جو خزانہ کے قریب آنے والے کو ڈس لیتا ہے دوسری روایت یہ ہے کہ خزانہ زمین کے اندر چلتا رہتا ہے اور اصل جگہ سے دور پہنچ جاتا ہے ایک عقیدہ ہے کہ خزانے کی سراغرسانی کوئی ایسا شخص کر سکتا ہے جس کے پاس کشف کی طاقت ہوتی ہے
مجھے یہ بتائیں بزرگوار ! رئیس بن بویا نے پوچھا آپ کتنے آدمیوں کو اپنے ساتھ لائیں گے
رائس قلعہ! بزرگ نے کہا میرے ساتھ کوئی عام سے آدمی نہیں ہوں گے وہ چند ایک علماء ہیں اور کچھ ان کے شاگرد ہوں گے ان سب کی دلچسپی صرف مذہبی عقیدوں کے ساتھ ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ساتھ کم وبیش چالیس علماء اور ان کے شاگردوں کو لے آؤں میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ وہ یہاں آکر آپ کے لوگوں میں گھومے پھیرے سلام و دعا کریں اور اس طرح ہم میں بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جائے
میں اجازت دے دوں گا بن بویا نے کہا لیکن میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ کے آدمی یہاں تبلیغ شروع کردیں
نہیں کرینگے بزرگ نے کہا اگر میرے ساتھ آنے والا کوئی بھی اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہوا پکڑا گیا تو میں آپ سے کہوں گا کہ اسے جو بھی سزا دینا چاہتے ہیں دے دیں
اور خزانے کی بات اسی روز ہوگی؟
بن بویا نے پوچھا
نہیں! بزرگ نے کہا میں ان لوگوں کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا اور دو چار دنوں کے بعد آپ کے پاس واپس آ جاؤں گا پھر میں آپ کو ساتھ لے کر خزانے کا سراغ لگاؤں گا اور اپنی موجودگی میں کھدائی کرواؤں گا
رئیس قلعہ بن بویا نے اس بزرگ کے ساتھ ایک دن طے کرلیا کہ وہ اپنے علماء کے ساتھ آ جائے اس کے دماغ پر خزانہ سوار ہوگیا تھا سورج غروب ہوچکا تھا اس لئے بن بویا نے اس بزرگ کو رات بھر کے لیے اپنے یہاں مہمان رکھا اور اگلی صبح رخصت کردیا
اگلی صبح بزرگ کو رخصت کرکے بن بویا نے شہر کی بڑی مسجد کے خطیب کو بلایا اور اسے بتایا کہ فلاں دن باطنیوں کے علماء آئیں گے اور خطیب انہیں جھٹلانے کے لیے تیاری کرلے
مقررہ روز یہ بزرگ دوپہر کے وقت کم و بیش چالیس آدمیوں کو ساتھ لیے پہنچ گئے تھے ان کی پگڑیاں عالموں جیسی تھیں پگڑیوں کے اوپر بڑے سائز کے رومال ڈالے ہوئے تھے جو ان کے کندھوں سے بھی نیچے آئے ہوئے تھے سب کے ہاتھوں میں تسبیح تھی ان کا لباس ان کی چال ڈھال اور ان کے بولنے کا انداز بتاتا تھا کہ ان لوگوں کو مذہب کے سوا کسی اور چیز میں کوئی دلچسپی نہیں رئیس قلعہ نے انکا استقبال بڑے احترام سے کیا اور انکی خاطر تواضع کی
بزرگ تین چار علماء کو ساتھ لے کر رئیس قلعہ کو الگ کمرے میں لے گیا اس نے رئیس قلعہ سے کہا تھا کہ وہ الگ بیٹھ کر بات کریں گے
رئیس قلعہ! بزرگ نے بن بویا سے کہا ہم آپکے ساتھ باتیں کریں گے اور آپ کی باتیں سنیں گے آپ نے اچھا کیا ہے کہ اپنے خطیب کو بھی یہاں بلا لیا ہے جتنی دیر ہم آپس میں بات چیت کرتے ہیں اتنی دیر میں ہمارے ساتھ آئے ہوئے آدمی شہر میں گھوم پھر لیں گے آپ بالکل مطمئن رہیں یہ بے ضرر آدمی ہیں
بن بویا مسکرا دیا اور اس نے کچھ بھی نہ کہا اسکے اپنے حکم کے مطابق کسی باطنی کا اس قلعہ بند شہر میں داخل ہونا ممنوع تھا لیکن خزانے کی خاطر وہ اس باطنی بزرگ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے رہا تھا وہ ان باطنی علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا اور باقی باطنی شہر میں نکل گئے ان کا انداز یہ تھا کہ ہر آدمی کو جو ان کے قریب سے گزرتا تھا السلام علیکم کہتے اور جو سلام پر رک جاتا اس سے وہ بغلگیر ہو کر ملتے تھے لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ باطنی ہیں اور انہیں رئیس قلعہ نے قلعے میں آنے کی اجازت دی ہے لوگ انہیں مذہبی پیشوا یا کسی دوسرے شہر کے دینی مدرسے کے استاد سمجھ رہے تھے
یہ باطنی کچھ آگے جا کر تین چار ٹولیوں میں بٹ گئے ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھی اور ان کے ہونٹ ہل رہے تھے جیسے کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہوں لوگ انہیں دلچسپی سے دیکھ رہے تھے
ان میں سے آٹھ نو آدمی قلعے کے بڑے دروازے تک چلے گئے دروازے کے ساتھ اندر کی طرف ایک کمرہ تھا جس میں دروازے کے پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے دو محافظ دروازے پر کھڑے تھے یہ باطنی ان دونوں محافظوں کے ساتھ بغلگیر ہو کر ملے اور باتوں باتوں میں انہیں اپنے ساتھ محافظوں کے کمرے میں لے گئے
کمرے میں جو پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے ان باطنیوں کو عالم سمجھ کر بڑے احترام سے ملے ایک باطنی نے کمرے کا دروازہ بند کردیا تمام باطنیوں نے اپنے چغوں کے اندر ہاتھ ڈالے اور جب ان کے ہاتھ باہر آئے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک چھوٹی تلوار تھی محافظ نہتے تھے ان کی تلواریں اور برچھیاں الگ رکھی تھیں انہیں اپنے ہتھیاروں تک پہنچنے کی مہلت ہی نہ ملی باطنیوں نے انہیں دبوچ لیا بعض نے اپنے ہاتھ آئے ہوئے محافظوں کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور دوسروں نے تلواروں سے ان کے پیٹ چاک کر دیئے ان محافظوں میں قلیدبردار بھی تھا یعنی وہ محافظ جو محافظوں کا کمانڈر جس کے پاس قلع کی چابیاں تھیں ان باطنیوں نے اس کی لاش سے چابیاں اپنے قبضے میں لے لیں
باقی باطنی بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر ہو گئے شہر کے وہ لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے جو باطنی تھے اور پہلے ہی اس قلعے میں موجود تھے انہیں معلوم تھا کہ حسن بن صباح چالیس فدائی بھیج رہا ہے جو علماء کے بھیس میں آئینگے اس قلعے میں فوج تو تھی لیکن اس کی تعداد بہت ہی کم تھی قلعے میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قلعے پر حملہ بھی ہوسکتا ہے حملہ ہوا بھی تو ایسا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی رئیس قلعہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا باطنی فدائین نے اس تھوڑی سی فوج کی ساری نفری کو مار ڈالا یا بیکار کر دیا
ایک باطنی اس کمرے میں داخل ہوا جس میں رائس قلعہ بن بویا باطنیوں کے ساتھ محو گفتگو تھا اس باطنی نے السلام علیکم کہا یہ ایک اشارہ تھا کہ باہر کام مکمل ہوگیا ہے ایک باطنی جو دوسروں کی طرح علماء کے بھیس میں تھا اٹھا اور اس نے بن بویا کو دبوچ لیا ایک اور باطنی نے خطیب کو دبوچ لیا اور انہوں نے دونوں کو قتل کر دیا اس طرح یہ قلعہ باطنیوں کے قبضے میں چلا گیا
حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی اس نے ایک آدمی کو امیر قلعہ بنا کر بھیج دیا
قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور ایک اور قلعہ تھا جس کا نام قستان تھا کسی بھی تاریخ میں اس قلعے کے حاکم کا نام نہیں ملتا اس کے نام کے بجائے تقریبا ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ وہ فاسق اور بدکار تھا اسے سلجوقیوں نے یہ قلعہ دیا تھا تمام مستند تاریخوں میں اس قلعے کی کہانی بیان کی گئی ہے
اس قلعے میں بھی ایک شہر آباد تھا اس شہر کا ایک رئیس تھا جس کا نام منور الدولہ تھا اس کے متعلق تاریخوں میں آیا ہے کہ صحیح العقیدہ اور جذبے والا مسلمان تھا اس قلعے پر بھی باطنیوں کی نظر تھی قلعے کے دفاع کے لیے کوئی خاص فوج نہیں تھی چند سو محافظہ قلعے میں موجود رہتے تھے چونکہ امیر قلعہ اپنی عیش و عشرت میں مگن رہتا تھا اس لیے باطنی قلعے میں کھلے بندوں آتے جاتے تھے
رئیس قلعہ منور الدولہ کو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک مکان میں پانچ باطنی رہتے ہیں جو یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ باطنی ہیں وہ اپنے آپ کو پکا مومن ظاہر کرتے ہیں ان کی سرگرمیاں مشکوک سی تھیں
دو چار آدمیوں نے رئیس منور کو بتایا کہ یہ لوگ خطرناک معلوم ہوتے ہیں ان کی موجودگی کی اطلاع امیر قلعہ تک پہنچنی چاہیے تاکہ وہ ان پر جاسوس اور مخبر مقرر کردے امیر قلعہ تک کوئی رئیس ہی سہی پہنچ سکتا تھا ایک روز منورہ چلا گیا اور اسے ان باطنیوں کے متعلق بتایا رئیس منور امیر قلعہ کے یہاں آتا جاتا رہتا تھا
ہمارے لوگ وہمی ہیں منور! امیر قلعہ نے بے نیازی اور بے پرواہی سے کہا کہو تمہاری بہن کا کہیں رشتہ ہوا ہے یا نہیں؟
منور کو اس پر طیش آئی کہ وہ بات کتنی اہم کرنے آیا تھا اور امیر قلعہ اس کی بہن کے رشتےکے متعلق پوچھ رہا تھا منور کی ایک چھوٹی بہن تھی جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئی تھی مورخ لکھتے ہیں کہ وہ بہت ہی حسین اور شوخ لڑکی تھی اس کے حسن کی شہرت سارے شہر میں پھیلی ہوئی تھی امیر قلعہ نے اس لڑکی کے رشتے کے متعلق پوچھا تو منور نے بات کو ٹال دیا اور کہا کہ وہ جس کام کے لیے آیا ہے اس کا ان کی طرف توجہ دینا بہت ہی ضروری ہے
میں دیکھوں گا امیر قلعہ نے کہا میں ان پر اپنے جاسوس مقرر کر دوں گا
چونکہ منور صحیح معنوں میں مسلمان تھا اس لیے وہ باطنیوں کا جانی دشمن بنا ہوا تھا
تین چار دنوں بعد وہ پھر امیر قلعہ کے پاس گیا اور اسے کہا کہ اس نے ابھی تک ان مشکوک باطنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی
تمہیں میرے قلعے کا اتنا فکر کیوں لگا ہوا ہے؟
امیر قلعہ نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا یہ پانچ سات باطنی میرا کیا بگاڑ لیں گے؟
امیر محترم! منور نے کہا کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ یہ باطنی کس طرح چھاتے چلے جارہے ہیں سلطان ملک شاہ کو انہوں نے قتل کیا ہے اس سے پہلے سلطان مرحوم کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی نظام الملک کو بھی انہیں باطنیوں نے قتل کیا تھا اگر آپ بیدار نہ ہوئے تو اس قلعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرلیا ہے
کیا بات کرتے ہو منور! امیر قلعہ نے ہنس کر کہا باطنی میرے قلعے پر قبضہ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے وہ یہاں آ بھی گئے تو یوں سمجھو کہ انہیں موت یہاں لے آئی ہے
یہ قلعہ اتنا اہم تو نہ تھا کہ اسے تاریخ میں اتنا زیادہ بیان کیا جاتا لیکن اس کے ساتھ جو واقعہ وابستہ ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے اسی وجہ سے مورخوں نے یہ واقعہ تاریخ میں شامل کیا ہے
منور الدولہ کے جذبے کا یہ عالم کہ وہ قلعے کی سلامتی کے متعلق پریشان تھا اور وہ ان پانچ آدمیوں کے متعلق بھی فکر مند تھا جن کے متعلق بتایا جارہا تھا کہ مشکوک ہیں اور باطنی معلوم ہوتے ہیں لیکن امیر قلعہ کی ذہنی حالت یہ تھی کہ جس روز رئیس منور اسے ملا اس سے دو روز بعد امیر قلعہ نے اپنے دو خاص آدمیوں کے ہاتھ منور کی طرف بیش قیمت تحفہ بھیجے اور ساتھ یہ پیغام کہ منور اپنی بہن کو اس کی بیوی بنا دے
کیا امیر قلعہ کا دماغ ٹھیک کام کرتا ہے؟
منور نے تحفے دیکھ کر اور اس کا پیغام سن کر کہا یہ تو تحفے واپس لے جاؤ اور اسے کہنا کہ میں اپنی نوجوان بہن کو ایک ایسے بوڑھے کے حوالے نہیں کروں گا جو شرابی بھی ہے بدکار بھی ہے اور جس کی پہلی ہی نہ جانے کتنی بیویاں ھیں
اس کی یہ جرات امیر قلعہ لانے اپنے تحفے واپس آتے دیکھ کر اور رئیس منور کا انکار سن کر کہا میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دوں گا میں اس کے ساتھ دوستی قائم رکھوں گا اور تم دیکھنا کہ بہت جلد اس کی بہن میرے پاس ہوگی
منور اپنے آپ میں یوں تڑپنے لگا جیسے امیر قلعہ نے اسے بڑی شدید ضرب لگائی ہو منور کو قلعے کا غم کھائے جا رہا تھا اور امیر قلعہ کی نظر اس کی بہن پر لگی ہوئی تھی منور کی ایک ہی بیوی اور دو بچے تھے اور اس کے گھر کی ایک فرد اس کی یہ بہن تھی منور نے بڑے غصے کی حالت میں اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ یہ بات تفصیل سے کردی
میں ان پانچ چھے باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں منور نے کہا اگر یہ پکڑے گئے اور یقین ہوگیا کہ یہ باطنی جاسوس اور تخریب کار ہیں تو میں اپنے ہاتھوں انہیں قتل کروں گا
تاریخی واقعات کے ایک انگریزی مجموعے میں یہ واقعہ اس طرح عیاں ہے کہ منور کی بہن کا قومی جذبہ بھی منور جیسا ہی تھا اس نے جب اپنے بھائی کی زبان سے سنا کہ وہ ان باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ بھائی نے اسے آمیر قلعہ سے بیاہنے سے انکار کردیا ہے تو اس لڑکی کے دل میں بھائی کی عظمت اور قومی جذبہ اور زیادہ شدت سے ابھر آیا
میرے عزیز اور عظیم بھائی! بہن نے منور سے کہا میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں مجھے بتائیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں میں آپ کے خلوص آپ کی محبت اور آپ کے جذبے کو دیکھ کر اپنا ایک راز آپ کو دے رہی ہوں یہ جو پانچ چھے جواں سال آدمی ہیں اور جن پر آپ کو شبہ ہے ان میں سے ایک مجھے چاہتا ہے اور میں اسے پسند کرتی ہوں میں بلا جھجک آپ کو بتا رہی ہوں کہ میں اس آدمی سے تین چار مرتبہ تنہائی میں مل چکی ہوں میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ہوا ہے وہ بھی میرے ساتھ بات محبت کرتا ہے اگر آپ کہیں تو میں اس آدمی کو جذبات میں الجھا کر معلوم کر سکتی ہوں کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
آفرین! منور نے کہا کوئی بھائی اپنی نوجوان بہن کو اس طرح استعمال نہیں کیا کرتا لیکن تمہارا ان لوگوں میں سے ایک کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے تو اس تعلق کو استعمال کرو اگر تمہیں کہیں بھی خطرہ محسوس ہو تو فوراً مجھے بتا دینا تم اس کے ساتھ حسن بن صباح کی بات چھیڑ دینا اور اس طرح باتیں کرنا جیسے تم حسن بن صباح کو اچھا سمجھتی ہوں اور اس کے پاس جانا چاہتی ہو
منور کی بہن خوبصورت تو تھی لیکن شوخ اور ذہین بھی تھی اس نے منور سے کہا کہ وہ ان لوگوں کی اصلیت معلوم کرلے گی
امیر قلعہ نے منور کو اپنے یہاں بلایا منور نے جانے سے انکار کردیا اس انکار کے جواب میں امیر قلعہ نے اپنی محفل میں اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ منور کو اڑا دے گا اور اس کی بہن کو اپنے یہاں لے آئے گا اس کی یہ دھمکی منور کے کانوں تک پہنچ گئی اس کا اس پر بہت ہی برا اثر ہوا اور وہ ایک کشمکش میں مبتلا ہوگیا کشمکش یہ تھی کہ وہ اپنے جذبے کو قائم رکھے یا امیر قلعہ کے رویے سے متاثر ہوکر اپنے جذبے سے دستبردار ہو جائے اسے یہ خیال بھی آیا کہ امیر قلعہ کو اپنے قلعے کا کچھ خیال نہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ جاسوسیاں کرتا پھرے جذبے مرا تو نہیں کرتے اس کے خیالوں پر قومی جذبہ غالب آگیا
تین چار دنوں بعد ہی منور کو اس کی بہن نے بتایا کہ یہ لوگ باطنی ہیں اور جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے یہاں آئے ہیں لیکن ابھی اپنے باطنی عقیدے کی درپردہ تبلیغ کر رہے ہیں
تم نے کیسے معلوم کیا ہے؟
منور نے بہن سے پوچھا
مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی بہن نے کہا جس طرح آپ نے کہا تھا میں نے اسی طرح کیا میں نے حسن بن صباح کی باتیں ایسے الفاظ میں کیں جیسے میں اسے نبی سمجھتی ہوں اور اسے دیکھنے کو بے قرار ہوں لیکن میں اسے جذبات میں لے آئی اور اپنی بات پر قائم رہی دوسرے دن وہ میری بات پر آگیا اور اس نے کہا کہ وہ مجھے حسن بن صباح کے پاس لے جائے گا اس نے یہ بھی کہا کہ امام حسن بن صباح تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا
مختصر یہ کہ اس لڑکی نے پانچ آدمیوں کے اس گروہ کی اصلیت معلوم کرلی وہ جس آدمی سے محبت کرتی تھی اس آدمی نے وہ دن بھی مقرر کردیا تھا جب اس آدمی نے اس لڑکی کو اس شہر سے لے جانا تھا دو دن گزرگئے منور کی بہن باہر نکلی اور پھر واپس نہ آئی سورج غروب ہوگیا رات گہری ہوگئی لڑکی واپس نہ آئی تب منور کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے بہن کو خطرناک آدمی کے ساتھ دوستی بنائے رکھنے پر اکسایا تھا اس میں کوئی شک تھا ہی نہیں کہ اس کی بہن اس باطنی کے ساتھ چلی گئی ہے منور کو معلوم تھا کہ حسن بن صباح کے پاس اس قسم کے سیکڑوں حسین اور تیز طرار لڑکیاں ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے یہ سوچ کر منور کا غصہ بڑھتا ہی گیا اور وہ بیچ و تاب کھانے لگا کہ وہ کیا کرے اسے امیر قلعہ کا خیال آیا کہ اسے جا کر بتائے اور وہ ان مشکوک آدمیوں کو پکڑ کر معلوم کرے کہ لڑکی ان کے قبضے میں ہے یا نہیں لیکن اس نے جب سوچا کہ امیر قلعہ نے اسے دشمن سمجھ لیا ہے تو اس نے امیر قلعہٰ کو ذہن سے اتار دیا رات گزرتی جارہی تھی
میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے منور کو اس کی بیوی نے کہا آپ امیر قلعہ کے پاس جائیں اور اسے بتائیں کہ اس کی بہن کو ان مشکوک آدمیوں میں سے ایک آدمی نے محبت کا جھانسہ دے کر غائب کر دیا ہے پھر امیر قلعہ سے کہیں کہ اگر آپ میری بہن کو ان سے آزاد کروا دیں تو میں اپنی بہن کو آپ کے ساتھ بیاہ دوں گا
یہ تو میں کسی قیمت پر نہیں کروں گا منور نے کہا بہن مجھے نظر آ گئی تو میں اسے قتل کر دوں گا اسے اس امیر قلعہ کی جوزیت میں نہیں دوں گا
میں آپ سے یہ تو نہیں کہہ رہی کہ اپنی بہن ضرور ہی اسے دینی ہے منور کی بیوی نے کہا پہلے اپنی بہن کا سراغ تو لگائیں وہ مل گئی تو امیر قلعہ کو صاف کہہ دینا کہ میں تمہیں اپنی بہن نہیں دوں گا آپ ڈرے نہیں میرے تین بھائی ہیں میں ان کے ہاتھ امیر قلعہ کو قتل کروا سکتی ہوں
منور اسی وقت امیر قلعہ کے یہاں چلا گیا امیر قلعہ شراب پی رہا تھا اور اس وقت اس کے ساتھ ایک نوخیز لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اس نے منور کو اندر بلایا اور لڑکی کو وہاں سے اٹھا دیا
کہو رئیس! امیر قلعہ نے طنزیہ سے لہجے میں پوچھا کیسے آنا ہوا ؟
مجھے آپ کی مدد کی ضرورت آ پڑی ہے منور نے کہا میری بہن لاپتہ ہوگئی ہے مجھے انہیں پانچ آدمیوں پر شک ہے جن کے متعلق میں آپ کے ساتھ بات کر چکا ہوں میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک آدمی نے میری بہن کو محبت کا جھانسہ دیا تھا مجھے شک ہے کہ میری بہن کو وہی لے گیا ہے اور میں جس مسئلہ پر پریشان ہو رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میری بہن کو حسن بن صباح تک پہنچا دیا جائے گا
وہ کہیں نہیں گئی امیر قلعہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں شراب کا اثر نمایاں تھا وہ یہی ہے اور میرے پاس ہے پریشان مت ہو رئیس! اگر تم اجازت دے دو تو یہ شادی دھوم دھام سے ہوگی اور اگر تم اجازت نہیں دو گے تو بھی یہ شادی ہو کر رہے گی اور تم منہ دیکھتے رہ جاؤ گے کہو کیا کہتے ہو کیا تم بھول گئے تھے کہ میرے ہاتھ میں کتنی طاقت ہے؟
شراب کی طاقت کوئی طاقت نہیں ہوتی منور نے اٹھتے ہوئے کہا میں تمہیں صرف ایک بار شرافت اور دوستی سے کہوں گا کہ میری بہن ابھی میرے حوالے کر دو دوسری بار نہیں کہوں گا
اس وقت امیر نشے میں بدمست تھا شراب کا نشہ تو کوئی نشہ نہیں تھا اصل نشہ تو یہ تھا کہ وہ قلعے کا اور اس شہر کا حاکم تھا یہ تھا اصل نشہ
رئیس منور! امیر قلعہ نے کہا تم چلے جاؤ سوچ کر کل مجھے جواب دینا اگر اس وقت دھمکیوں کی زبان میں بات کرو گے تو میں اپنے نوکروں کو بلاکر تمہیں دھکے دلوا کر گھر سے نکالوں گا اور شکاری کتے تم پر چھوڑ دوں گا
منور وہاں سے نکل آیا منور اپنے گھر پہنچا تو منور وہ منور نہیں تھا جو قومی جذبے سے سرشار رہتا تھا اس کے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے اور اس کی ذات میں آتش فشاں پھٹ پڑا تھا بیوی نے اس سے پوچھا تو وہ چپ رہا بیوی کو ایک طرف کر دیا اور تلوار لے کر پھر باہر نکل گیا اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑی اور باہر تک آ گئی منور نے رک کر پیچھے دیکھا
تم واپس چلی جاؤ اس نے بیوی سے کہا میں کسی کو قتل کرنے نہیں جا رہا میں ان شاءاللہ زندہ واپس آؤں گا
بیوی واپس اپنے گھر آگئی لیکن وہ بہت ہی پریشان تھی منور نے اس حویلی کے دروازے پر جا دستک دی جس میں پانچ مشکوک آدمی رہتے تھے دروازہ کھلا تو منور نے دیکھا کہ دروازہ کھولنے والا وہی آدمی تھا جسے اس کی بہن چاہتی تھی اور جو اس کی بہن کو چاہتا تھا منور اسے اور وہ منور کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا وہ منور کو اندر لے گیا سارے آدمی منور کے پاس بیٹھ گئے
میرے دوستو! منور نے کہا میں قتل کرنے نہیں آیا نہ قتل ہونے کا ارادہ ہے میری بہن لاپتہ ہے اور مجھے پتا چل گیا ہے کہ وہ امیر قلعہ کے پاس ہے وہ بدبخت کب کا میری بہن کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور میں اسے صاف الفاظ میں کہہ چکا تھا کہ میں اپنی بہن اس کی زوجیت میں نہیں دوں گا
آپ ہمارے پاس کیوں آئے ہیں؟
اس آدمی نے پوچھا جس کے ساتھ منور کی بہن کی محبت تھی ہم آپ کی جو مدد کر سکتے ہیں وہ بتائیں
میرے دوستو ! منور نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم سب باطنی ہو اور حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے یہاں آئے ہو میں تمہیں کسی بھی وقت پکڑواکر قتل کروا سکتا تھا لیکن میری یہ بات اب غور سے سنو میں تمہارا ساتھی ہوں مجھ پر اعتبار کرو صبح ہوتے ہی تم میں سے کوئی ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جائے اور اسے کہے کہ اپنے آدمی بھیجے جس طرح تم نے قلعی ملاذخان میں بھیجے تھے یہ قلعہ بھی لے لو
اس سلسلے میں ان کے درمیان کچھ اور باتیں ہوئیں اور ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جانے کے لئے تیار ہوگیا منور کی حالت ایسی تھی جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو اس کو بہن سے بہت ہی پیار تھا اس بہن کو امیر قلعہ لے اڑا تھا وہ پاگل نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا وہ بھول ہی گیا کہ وہ باطنیوں کا دشمن ہے اور باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے
دو یا تین دن گزرے ہونگے کہ جو آدمی حسن بن صباح کے پاس گیا تھا وہ واپس آ گیا اور اسی روز شہر میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا ان کے ساتھ اونٹ تھے جن پر اناج اور مختلف قسم کا سامان لدا ہوا تھا ان تاجروں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی یہ سرائے میں ٹھہرے
رات کا پہلا پہر تھا امیر قلعہ حسب معمول شراب پی رہا تھا اس نے منور کی بہن کو اپنے پاس بٹھا رکھا تھا اور شراب پینے پر مجبور کر رہا تھا لڑکی رو رو کر انکار کر رہی تھی امیر قلعہ قہقہے لگا رہا تھا عین اس وقت دربان نے اندر جا کر اسے بتایا کہ رئیس شہر منور الدولہ آئے ہیں امیر قلعہ نے قہقہہ لگا کر کہا کہ اسے اندر بھیج دو
جب منور اندر گیا تو وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پیچھے آٹھ نو آدمی تھے امیر قلعی نے حیرت زدہ سا ہو کر ان سب کو دیکھا لیکن اسے یہ پوچھنے کی مہلت نہ ملی کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں انہوں نے امیر قلعہ کو پکڑ لیا اور ان میں سے ایک نے خنجر امیر قلعہ کے دل میں اتار دیا ایک ہی وار کافی تھا
یہ جو تاجر آئے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے وہ ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور جب امیر قلعہ کو قتل کیا گیا اس وقت تک وہ ان چند سو محافظوں پر قابو پا چکے تھے جو مختلف جگہوں پر سوئے ہوئے تھے اگلی صبح اعلان ہوا کہ اب امیر قلعہ کوئی اور ہے اس طرح یہ قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں چلا گیا
منور کو توقع تھی کے باطنی اسے کوئی اعزاز دیں گے تاریخی حوالوں کے مطابق اس کی خواہش یہ تھی کہ اسے اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنی بیوی کو بہن اور بچوں کو ساتھ لے کر مرو یا رے چلا جائے لیکن اس کا انجام بہت برا ہوا منور پراسرار طریقے سے ختم ہوگیا اور اس کی بہن کو حسن بن صباح کی جنت میں بھیج دیا گیا اس کے بیوی بچوں کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:31 }
منور الدولہ قتل ہوگیا اس کے بیوی بچے کا کچھ پتہ ہی نہ چلا وہ کہاں غائب ہوگئے ہیں یا غائب کر دیئے گئے ہیں اور اس کی بہن کو باطنی لے اڑے منور الدولہ نے اسی بہن کے خاطر قلعہ قستان پر باطنیوں کا قبضہ کروا دیا تھا وہ تو پکا مومن تھا لیکن بہن کی عزت اور عصمت پر اس نے اپنا ایمان بھی قربان کر دیا تھا منور الدولہ کے خاندان کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا تھا لیکن یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی
اس کی بہن کا نام حمیرا تھا تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑی ہی حسین لڑکی تھی وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی اپنے دین وایمان کی پکی تھی اس میں اپنے بھائی منور الدولہ جیسا جذبہ تھا اس کے دل میں بھی حسن بن صباح اور اسکے باطنی فرقہ کی نفرت موجزن تھی لیکن اسے محبت ہوئی تو ایک باطنی سے ہوئی وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ خوبرو اور جواں سال آدمی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا تخریب کار اور جاسوس ہے
پہلے گزر چکا ہے کہ اس شہر کے مکان میں پانچ آدمی رہتے تھے جو بظاہر دیندار اور زاہد تھے لیکن یہ انکا بہروپ تھا وہ پانچوں وقت مسجد میں جاکر نماز ادا کرتے اور وہ اتنے ملنسار ہر کسی کے ہمدرد اور اتنے ہنس مکھ تھے کہ ہر کوئی انہیں محبت اور احترام سے ملتا اور ہر محفل میں انہیں تعظیم دی جاتی تھی یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ان کی سرگرمیاں کتنی پراسرار اور مشکوک سی تھی کہ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ لوگ باہر سے کچھ اور اور اندر سے کچھ اور ہیں شہر کے بیشتر لوگ ان پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں کرتے تھے منور الدولہ کو تو آخر میں آکر یقین ہوگیا تھا کہ یہ پانچ مذہبی قسم کے آدمی باطنی ہیں اور کسی بھی وقت کوئی تباہ کاری کر سکتے ہیں لیکن قلعے کا حاکم منور الدولہ کی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا
منور الدولہ اس شہر کا رئیس تھا لیکن اس میں وہ تکبر اور غرور نہیں تھا جو اس وقت کے رئیسوں میں ہوا کرتا تھا وہ صاف ستھرا مسلمان تھا صوم و صلوۃ اور حقوق العباد کا پابند تھا عبادت کے ساتھ ساتھ وہ عسکریت پسند بھی تھا اسے اپنی بہن حمیرا کے ساتھ بہت ہی پیار تھا اسی پیار کا کرشمہ تھا کہ حمیرا بھی خیالات اور کردار کے لحاظ سے اپنے بھائی کے نقشے قدم پر چل رہی تھی اسے گھوڑسواری کا بہت شوق تھا منور نے اسے شہسوار بنا دیا تھا اسے تیغ اور خنجر زنی نیزابازی اور تیر اندازی بھی سکھا دی تھی وہ آخر شہر کے رئیس کی بہن تھی اس لیے اس میں خود اعتمادی اور جرات تھی وہ دوسرے تیسرے دن شام کے وقت گھوڑے پر سوار ہوتی اور شہر سے نکل جاتی تھی گھوڑا دوڑاتی اور جدھر چاہتی ادھر ہو آتی تھی
ایسے ہی ایک شام وہ شہر سے کچھ دور گھوڑا دوڑا رہی تھی ایک بڑا ھی خوبرو گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا حمیرا نے اپنا گھوڑا اس کے قریب سے گزارا تو اس سوار نے اسے غور سے دیکھا اور فوراً ہی گھوڑا اس کے پیچھے دوڑا دیا دونوں گھوڑے جب پہلو بہ پہلو ہوئے تو حمیرا نے اس سوار کو غصیلی نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا کہ وہ کس نیت سے اس کے پاس چلا آیا ہے
گھوڑا فوراً روک لیں اس سوار نے کہا آپ کی زین کسی ہوئی نہیں ڈھیلی ہے اور آپ گر پڑیں گی
حمیرا نے گھوڑا روک لیا اور اتر آئی وہ آدمی بھی گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے گھوڑے کی زین دیکھی واقعی زین کسی ہوئی نہیں تھی اس نے زین اچھی طرح کس دی
اب جائیں اس سوار نے کہا بس مجھے آپ سے اتنی ہی دلچسپی تھی
حمیرا کو یہ شخص شکل و صورت اور جسم کے لحاظ سے بھی اچھا لگا اور بول چال کے انداز سے بھی وہ کوئی چھوٹی سی حیثیت کا آدمی نہیں لگتا تھا
آپ کون ہیں؟
حمیرا نے پوچھا کیا آپ یہیں کے رہنے والے ہیں
میرا نام جابر بن حاجب ہے اس سوار نے جواب دیا پردیسی ہوں بغداد سے یہاں علم کی تلاش میں آیا ہوں اپنے جیسے چار پانچ آدمی مل گئے ہیں ان کے ساتھ رہتا ہوں
لیکن آپ تو شہسوار معلوم ہوتے ہیں حمیرا نے کہا اس زین پر میں سوار تھی اور مجھے پتہ نہ چلا کہ یہ پوری طرح کسی ہوئی نہیں آپ کو اتنا تجربہ ہے کہ آپ نے دور سے دیکھ لیا اور مجھے گرنے سے بچا لیا
کیا علم کی جستجو میں مارے مارے پھرنے والے شہسوار نہیں ہوسکتے؟
جابر بن حاجب نے مسکراتے ہوئے کہا
ہوتا تو یہی ہے حمیرا نے کہا عالم عموماً تارک الدنیا سے ہو جاتے ہیں
میں ان عالموں میں سے نہیں جابر نے کہا دنیا سے تعلق توڑ لینا علم کے خلاف ورزی ہے بلکہ میں اسے علم کی توہین سمجھتا ہوں میں مسلمان ہوں وہ مسلمان ہی کیا جو شہسوار نہ ہو اور جس کا ہاتھ تلوار برچھی اور کمان پر صاف نہ ہو میں ایک زندہ قسم کا عالم بننا چاہتا ہوں اس عالم کو میں نامکمل انسان سمجھتا ہوں جو عمل سے کتراتا ہو
دونوں اپنے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑے آہستہ آہستہ چلنے لگے جابر کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں کوئی ایسا تاثر تھا کہ حمیرا کو جیسے یہ بھی یاد نہ رہا ہوں کہ اسے واپس گھر بھی جانا ہے گھوڑے آگے ہی آگے چلے جارہے تھے آگے دریا تھا جہاں گھوڑے رک گئے
وہ علاقہ بڑا ہی سرسبز تھا جس میں پیڑ پودوں کی افراط تھی اس ماحول کی اپنی ایک رومانیت تھی جو حمیرا پر اثر انداز ہونے لگی جابر نے حمیرا کو یاد دلایا کہ شام گہری ہو گئی ہے اس لیے اسے گھر جانا چاہیئے حمیرا وہاں سے چل تو پڑی لیکن وہ محسوس کرنے لگی کہ اس کا دل وہیں دریا کے کنارے رہ گیا ہے اس نے گھوم گھوم کے پیچھے دیکھا آخر گھوڑے کو ایڑ لگا دی
یہ حمیرا اور جابر کی پہلی ملاقات تھی اس کے بعد حمیرا گھوڑ سواری کے لیے ہر شام باہر آنے لگی اس کی نظریں جابر کو ڈھونڈتی تھیں لیکن جابر ہر روز باہر نہیں جاتا تھا تیسرے چوتھے روز اسے جابر مل جاتا اور دونوں دریا کے کنارے اس جگہ چلے جاتے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا جابر نے کوئی ایسی بات کی تھی نہ حمیرا نے کوئی ایسا اشارہ دیا تھا کہ ان کی محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ ہے یہ دو روحوں کی محبت تھی اور ان کی روحوں کا جسمانی آسودگی اور نفسانی خواہشات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا وہ گھوڑوں سے اتر کر ایک دوسرے میں گم ہو جایا کرتے تھے
انہوں نے شادی کے عہدوپیمان کرلیے حمیرا نے جابر کو بتا دیا تھا کہ اس کا بھائی شہر کا ریس ہے اس لیے وہ اس کی شادی کسی رئیس زادے سے ہی کرے گا
اگر تم بھائی سے کہو کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو کیا وہ انکار کردے گا؟
جابر نے پوچھا
ہاں ! حمیرا نے جواب دیا میں اسے اجازت تو ضرور لوں گی اسے میرے ساتھ اتنا پیار ہے جو اسے اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں لیکن اس نے انکار کر دیا تو میں تمہارے ساتھ جہاں کہو گے چلی چلوں گی میرا دل کسی رئیس زادے یا کسی امیر زادے کو قبول نہیں کرے گا یہ لوگ عیش پرست ہوتے ہیں میں کسی کے حرم کی قیدی نہیں بنوں گی میں ایک انسان کی رفیقہ حیات بنونگی
حمیرا کسی وقت بھی محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص باطنی ہے اور علم و فضل کے ساتھ اسکا دور کا بھی تعلق نہیں اور یہ حسن بن صباح جیسے ابلیس کا پیروکار ہے پھر وہ دن آیا جس دن منور الدولہ نے حمیرا کو بتایا کہ فلاں مکان میں جو پانچ آدمی رہتے ہیں وہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے بڑے ہی خطرناک آدمی ہیں
باطنیوں کو تم جانتی ہو نا حمیرا ! منور نے کہا اسلام کا نام لے کر یہ فرقہ اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہے اور اگر انہیں یہیں پر روکا نہ گیا تو اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا جو ہمیں رسول اللہﷺ نے دیا تھا
حمیرا نے وہ مکان دیکھا تھا جس میں جابر بن حاجب رہتا تھا اور اس نے جابر کے ساتھی بھی دیکھے تھے اپنے بھائی کی یہ بات سن کر اسے افسوس ہوا کہ جابر بھی باطنی ہے اور اس نے جھوٹ بولا ہے کہ وہ بغداد سے علم کی تلاش میں آیا ہے
میرے عظیم بھائی! حمیرا نے پوچھا کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ باطنی ہیں؟
ابھی یقین نہ کہو منور نے جواب دیا شک پکا ہے کچھ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ پانچ چھ آدمی مشکوک ہیں
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ منور امیر شہر کے پاس گیا اور اسے بتایا تھا کہ یہ پانچ آدمی ٹھیک معلوم نہیں ہوتے اور انہیں پکڑنا چاہیے لیکن امیر نے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لی تھی منور مومن اور مجاہد قسم کا مسلمان تھا اس نے حمیرا سے کہا کہ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا قلع قمع کرے لیکن یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ یہ لوگ واقعی باطنی ہیں اور تخریب کاری کی نیت سے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں
حمیرا نے بھائی سے کہا کہ اگر سوال اسلام کی سربلندی اور باطنیوں کی سرکوبی کا ہے تو وہ یہ راز نکال لائے گی پہلے سنایا جاچکا ہے کہ وہ ان پانچ چھ آدمیوں کی اصل حقیقت معلوم کر لائی اس نے یہ راز جابر بن حاجب سے لیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جابر کو حمیرا سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ اس نے حمیرا کو اپنا راز دے دیا حمیرا کے دل میں بھی جابر کی بے پناہ محبت تھی لیکن اسے جو محبت اپنے بھائی سے اور اسلام سے تھی اس پر اس نے اپنی محبت قربان کردی اس راز سے اس قلعہ بند شہر کے زمین وآسمان تہہ و بالا ہو گئے
قلعے میں خونریز ہنگامہ شروع ہوا تو جابر حمیرا کے گھر جا پہنچا اس وقت منور گھر نہیں تھا وہ امیر شہر کے گھر میں تھا جہاں کچھ باطنی اس کے ساتھ تھے اور پھر امیر شہر کو قتل کر دیا گیا تھا جابر نے حمیرا کو ساتھ لیا اور شہر سے نکل گیا
حمیرا اس توقع پر جارہی تھی کہ جابر اسے اپنے گھر بغداد لے جا رہا ہے لیکن شام کے بعد جب وہ ایک جگہ روکے تو حمیرا پر یہ انکشاف ہوا کہ اسے بغداد نہیں بلکہ الموت لے جایا جا رہا ہے
یہ اسے اس طرح پتہ چلا کہ وہ جب اپنے شہر سے نکلی تھی تو جابر اس کے ساتھ اکیلا تھا دونوں گھوڑے پر جا رہے تھے جابر بہت ہی آہستہ رفتار پر جارہا تھا حمیرا نے اسے کہا کہ تیز چلنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس کا بھائی تعاقب میں آجائے جابر نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے انتظار میں ہے وہ بھی شہر سے نکل آئے ہوں گے کچھ دیر بعد جابر کے پانچ ساتھی اس سے آ ملے قلعے پر قبضہ کرنے کے لئے دوسرے باطنی پہنچ گئے تھے جابر اور اس کے ساتھیوں کا کام ختم ہوگیا تھا جابر نے قلعہ سر کرنے کے علاوہ ایک بڑا خوبصورت شکار بھی مار لیا تھا حسن بن صباح جن لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا تھا حمیرا اگر ان سے کچھ درجہ زیادہ حسین نہیں تھی تو کسی سے کم بھی نہیں تھی حمیرا کو الموت پہنچ کر کچھ ٹریننگ دینی تھی اور پھر اسے حسن بن صباح کی جنت میں حور بنا کر داخل کرنا تھا
سورج غروب ہوگیا اور یہ چھوٹا سا قافلہ چلتا گیا اور جب رات زیادہ گہری ہوگئی تو یہ لوگ روک گئے وہ کھانا اپنے ساتھ لے آئے تھے جو انہوں نے خود بھی کھایا اور حمیرا کو بھی کھلایا انہوں نے حمیرا کی موجودگی میں ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کو یقین ہوگیا کہ اسے بغداد لے جایا جا رہا ہے جہاں جابر اس کے ساتھ شادی کرلے گا کھانا کھا چکے تو انہوں نے سونے کا بندوبست اس طرح کیا کہ حمیرا کے لئے الگ چادر بچھا دی اور باقی آدمی اس سے ذرا پرے ہٹ کر لیٹ گئے حمیرا پختہ کردار اور ایمان والی لڑکی تھی لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ گھر سے بھاگ آئی تھی اس کی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ وہ اپنے آپ میں بے چینی محسوس کر رہی تھی کبھی تو اس کو خیال آتا کہ اس نے گھر سے نکل کر کوئی غلط کام نہیں کیا وہ فخر سے کہہ سکتی تھی کہ وہ باعصمت لڑکی ہے اور محبت میں مبتلا ہوکر بھی اس نے اپنی عصمت کو داغدار نہیں ہونے دیا وہ اس خیال سے بھی خوش تھی کہ اس نے اپنے بھائی کو ناراض نہیں کیا اور اس کے آگے جھوٹ نہیں بولا لیکن فوراً ہی اس کا ضمیر لعنت ملامت کرنے لگا کہ ایک طرف تو وہ اسلام کی محبت کو دل میں لئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اس نے ایک شہر باطنیوں کے حوالے کروا دیا ہے بیشک اسکے بھائی نے امیر شہر سے انتقام لے لیا تھا لیکن ایک شہر اور مسلمان شہر کی آبادی باطنیوں کے حوالے کردینا ایک گناہ تھا
حمیرا کی ذات میں ایسی کشمکش پیدا ہوگئی کہ وہ بے چین ہی ہوتی چلی گئی اس کیفیت میں اسے نیند کیسے آتی وہ دل ہی دل میں اللہ سے معافیاں مانگنے لگی اپنے دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ کو سبز باغ بھی دکھائے اس نے تصور میں دیکھا کہ وہ جابر کی بیوی بن گئی ہے اور زندگی بڑی ہی پرسکون ہو گئی ہے جابر نے اسے یہ تو بتا دیا تھا کہ اس کے ساتھی باطنی ہیں لیکن اپنے متعلق یہ بتایا تھا کہ وہ باطنی نہیں اور وہ ان آدمیوں کے ساتھ اس لئے رہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے عقیدے اور نظریے معلوم کرنا چاہتا ہے اور جب اسے یہ سب کچھ معلوم ہو جائے گا تو پھر وہ حسن بن صباح کے عقیدوں کے خلاف تبلیغ کا فریضہ انجام دے گا
جابر حمیرا کے پاس آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ سوئی ہوئی ہے آنکھیں بندکر لیں جابر چلا گیا وہ یہی دیکھنے آیا تھا کہ حمیرا سو گئی ہے یا نہیں وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا بیٹھا وہ حمیرا سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا یہی کوئی آٹھ دس قدموں کا فاصلہ ہوگا
سوگئی ہے یہ جابر کی آواز تھی جو حمیرا کو سنائی دی
حمیرا پہلے ہی بیدار تھی اس نے جابر کی یہ بات سنی تو وہ بالکل ہی بیدار ہوگئی اور اس نے کان ان لوگوں کی طرف لگا دیے اسے شک اس لیے ہوا کہ جابر نے یہ بات کچھ اور ہی انداز سے کی تھی
اسے شک تو نہیں ہوا کہ ہم اسے کہیں اور لے جا رہے ہیں؟
جابر کے ایک ساتھی نے پوچھا
نہیں! جابر نے جواب دیا میں نے اسے شک نہیں ہونے دیا
خدا کی قسم! ایک نے کہا امام اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اگر یہ چل پڑی تو ہو سکتا ہے امام اسے باہر بھیج دیں
میں تمہیں ایک بات بتا دو دوستو! جابر نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ میں اسے کس کام کے لیے لے جا رہا ہوں لیکن میں نے اس کے ساتھ جو محبت کی ہے اس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں میں اسے اپنی روح میں بٹھا چکا ہوں میں جانتا ہوں کہ میں نے اپنے لیے کتنی بڑی دشواری پیدا کر لی ہے
اگر ایسی بات ہے تو شیخ الجبل کو پتہ نہ چلنے دینا ایک اور ساتھی بولا شیخ الجبل کو پتہ چل گیا کہ تم اس لڑکی کے معاملے میں جذباتی ہو تو تم جانتے ہو کہ تمہیں کیا سزا ملے گی ہاں جانتا ہوں جابر نے کہا امام اپنا خنجر دے کر مجھے کہے گا کہ یہ اپنے دل میں اتار لو میں محتاط رہوں گا کہ امام کو اپنی جذباتی حالت نہ بتاؤں
حسن بن صباح کو اس کے پیروکار امام کہا کرتے تھے اور تاریخوں میں اسے شیخ الجبل کہا گیا ہے
اس کے بعد ان لوگوں نے حمیرا کو سویا ہوا سمجھ کر ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کے ذہن میں کوئی شک وشبہ نہ رہا کہ اسے دھوکے میں الموت لے جایا جا رہا ہے وہاں وہ اسی ابلیسیت کا ایک کل پرزہ بن جائے گی جس کے خلاف اس کے دل میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ پہلے ہی بے چینی میں مبتلا تھی اب وہ یوں محسوس کرنے لگیں جیسے اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی ہو اس نے پہلے تو یہ سوچا کہ ان لوگوں کے پاس چلی جائے اور کہے کہ وہ یہاں سے آگے نہیں جائے گی لیکن عقل نے اس کی رہنمائی کی اس نے سوچا کہ یہ چھ آدمی ہیں اور یہ چھے آدمیوں سے آزاد نہیں ہو سکتی اس نے ان کے ہاتھوں مر جانے کا بھی فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے پر قائم نہ رہ سکی اس نے یہ بھی سوچا کہ جب یہ سب سو جائیں تو اٹھے اور دبے پاؤں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ نکلے اس پر اس نے غور کیا اور یہی فیصلہ کرلیا کہ یہ سو جائیں تو وہ بھاگ جائے گی
آدھی رات ہونے کو آئی تھی جب یہ چھ آدمی سونے لگے جابر ایک بار پھر حمیرا کے قریب آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے آنکھیں بند کر لیں جابر یہ یقین کرکے کہ لڑکی سو گئی ہے اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا پھر وہ سب سو گئے
حمیرا تو پوری طرح بیدار اور تیار ہو چکی تھی اب اسے انتظار تھا کہ یہ اور زیادہ گہری نیند میں چلے جائیں تو وہ یہاں سے اٹھے اور نکلے گھوڑے پندرہ بیس قدم دور بندھے ہوئے تھے زین ان آدمیوں نے اپنے قریب رکھی ہوئی تھیں
حمیرا کو ان کے خراٹے سنائی دینے لگے اس نے کچھ دیر اور انتظار کیا آخر وہ اٹھی اور دبے پاؤں زینوں تک پہنچی اس نے ایک زین اٹھا لی لیکن زین وزنی تھی وہ زین اٹھا کر چلی تو زین پر پڑی ہوئیں ایک زین سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا اور وہ گر پڑی لوہے کی رکابیں آپس میں ٹکرائیں تو بڑی زور کی آواز اٹھی رات کے سناٹے میں یہ آواز زیادہ ہی زوردار سنائی دی جابر کی آنکھ کھل گئی باقی ساتھی سوئے ہوئے تھے ادھر حمیرا اٹھی ادھر جابر اٹھا اور حمیرا تک پہنچا
کیا کر رہی ہو؟
جابر نے سرگوشی میں پوچھا تا کہ اس کے ساتھی نہ جاگ پڑیں کیا تم گر پڑی تھی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے ساتھ آؤ
حمیرا نے جابر کا بازو پکڑا اور اسے اس کے ساتھیوں سے دور لے گئی اور دونوں وہاں بیٹھ گئے
مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟
حمیرا نے پوچھا
قلعہ الموت جابر نے بڑے تحمل سے جواب دیا
الموت! حمیرا نے پوچھا کیا ہم بغداد نہیں جا رہے
سنو حمیرا ! جابر نے کہا میں باطنی نہیں ہوں
اور تم مجھے اس ابلیس حسن بن صباح کے حضور پیش کرو گے حمیرا نے کہا اور وہ مجھے اپنی بہشت کی حور بنادے گا جابر میں نے رات تم سب کی باتیں سنی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ باطنیوں کو مجھ جیسی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے
مجھے معلوم ہے تم سب کچھ جانتی ہو جابر نے کہا لیکن تم مجھے پوری طرح نہیں جان سکی میں اپنے امام حسن بن صباح کے اس گروہ کا آدمی ہوں جو کسی لڑکی یا کسی آدمی کو پھانسنے کے لیے ایسی جذباتی اور پراثر باتیں کرتے ہیں کہ ان کا شکار ان کا گرویدہ ہو کر ان کے قدموں میں آ گرتا ہے لیکن ان میں جذبات ہوتے ہی نہیں کسی دوسرے کی جان لے لینا اور اپنی جان دے دینا میرے گروہ کے لئے ایک کھیل ہوتا ہے ان لوگوں میں اپنی بہنوں اور اپنی ماؤں کے لیے بھی کوئی جذبات نہیں ہوتے لیکن حمیرا تم پہلی لڑکی اور شاید آخری بھی ہو جس نے میرے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اب کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ میں تمہیں فریب اور جھانسے دیتا چلا جاؤں اب تم پوری طرح ہمارے قبضے میں ہو یہاں سے بھاگو گی تو کتنی دور تک پہنچ جاؤں گی؟
اور پھر جاؤں گی کہاں؟
اگر تم ہمارے قابو میں آؤں گی تو ہم تمہارے اس حسین جسم سے پورا پورا لطف اٹھا کر تمہیں قتل کر دیں گے
اور میں یہی صورت قبول کرونگی کہ اپنے آپ کو پہلے ہی ختم کر لوں حمیرا نے کہا میں مسلمان کی بیٹی ہوں اپنا آپ کسی کے حوالے نہیں کروں گی
کیا تم میری پوری بات نہیں سنوں گی جابر نے کہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب میں تمہارے ساتھ محبت کی جو بات کر رہا ہوں یہ فریب نہیں محبت میرے لئے ہمیشہ ایک سراب بنی رہی ہے اور میں اس سراب کے پیچھے دوڑتا اور بھٹکتا اور گرتا ہی رہا ہوں میں گر گر کر اٹھا اور اٹھ اٹھ کر محبت کے سراب کے پیچھے دوڑتا رہا ہوں حتیٰ کہ میں الموت پہنچ گیا میں کوئی لمبی چوڑی کوئی میٹھی کڑوی باتیں نہیں کروں گا مجھے محبت تم سے ملی ہے میرے سوئے ہوئے اور فریب خوردہ جذبات کو تم نے جگایا ہے تم اتنا کرو کہ خاموشی سے اور اطمینان سے میرے ساتھ چلی چلو ہمارا طریقہ یہ ہے کہ لڑکی کو پھانس کر لاتے ہیں اور الموت کی جنت میں داخل کر دیتے ہیں ایسی لڑکیوں کو سنبھالنے اور اپنے راستے پر چلانے والے وہاں موجود ہیں وہ دو تین دنوں ہی میں اس کے ذہن پر اور دل پر قبضہ کرلیتے ہیں پھر کوئی لڑکی وہاں سے بھاگنے کے متعلق سوچتی ہی نہیں لیکن حمیرا میں ایسے نہیں کروں گا میں اپنی روحانی محبت کا جو تم سے ہے پورا پورا ثبوت پیش کروں گا دیکھ حمیرا ہر انسان اس عقیدے کو اور اس مذہب کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے جو اسے باپ سے ورثے میں ملا ہے عقیدہ غلط بھی ہو سکتے ہیں انسان جب سے پیدا ہوا ہے عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا چلا آیا ہے میں تمہیں اسلام کے راستے سے نہیں ہٹا رہا ہمارا امام حسن بن صباح اسلام کا شیدائی ہے تم چل کے دیکھو اگر یہ عقیدہ تمہارے دل نے قبول کرلیا تو وہاں رہنا ورنہ مجھے اپنا قائل کر لینا اور میں تمہارے ساتھ بغداد چلا چلوں گا میں تم سے محبت کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کسی کے حوالے نہیں کروں گا اپنے پاس رکھوں گا
خنک اور خاموش رات گزرتی جارہی تھی اور جابر اپنی زبان کا جادو جگا رہا تھا اس کے دل میں حمیرا کی محبت تو تھی ہی لیکن اس دل میں حسن بن صباح بھی موجود تھا حمیرا پر غنودگی اور خاموشی طاری ہوتی چلی جارہی تھی وہ اتنا تو تسلیم کرتی تھی کہ وہ تنہائیوں میں جابر سے ملتی تھی لیکن جابر نے کبھی اشارتاً بھی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کی ساری دلچسپیاں اور چاہت حمیرا کے جسم کے ساتھ ہے اب آبادیوں سے دور جنگل میں جہاں حمیرا کو اس شخص سے بچانے والا کوئی بھی نہ تھا جابر نے نفسانی خواہش کا ذرا جتنا بھی اظہار نہیں کیا تھا حمیرا جابر کو ہی اپنا ہمسفر اور محافظ سمجھ رہی تھی اور اس نے اس شرط پر جابر کی ہمسفر رہنا قبول کرلیا کہ وہ الموت جاکر دیکھیں گی کہ وہاں کیا ہے اور اس کا دل کیا کہتا ہے
اگلی صبح یہ قافلہ اپنی منزل کو روانہ ہوگیا
سلجوقی سلطان ملک شاہ کو دفن ہوئے دو مہینے اور کچھ دن گزر گئے تھے یہی ایک طاقت تھی جو حسن بن صباح کی ابلیس کے سیلاب کو روک سکتی تھی گو اس طاقت کو اب تک ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن یہ طاقت ہاری نہیں تھی اور نئی تیاریوں میں مصروف ہوگئی تھی اس کا مقصد اور نصب العین صرف یہ تھا کہ حسن بن صباح کی جنت کو اس کے لئے اور اس کے فدائین کے لئے جہنم بنا دیا جائے لیکن ملک شاہ ایک فدائی کا شکار ہوگیا اگر اس کا بڑا بیٹا برکیارق جو اس کی جگہ ایک عظیم سلطنت کا سربراہ بنا تھا اپنے باپ جیسا ہوتا تو یہ طاقت ابلیسی جنت پر بجلی بن کر گرتی لیکن برکیارق اسی قاتل کی بہن کی زلفوں کا اسیر ہوگیا تھا جس نے صرف اسے ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کو بھی یتیم کر دیا تھا
یہ لڑکی جس کا نام روزینہ تھا اس قاتل کی بہن نہیں تھی وہ تو حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی لڑکی تھی جس نے مرو میں خانہ جنگی کا بیج بونا تھا قاتل نے اپنا کام کر دیا تھا اور روزینہ مقتول کے جانشین کو اپنے طلسماتی حسن میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی یہ بھی اسکی کامیابی تھی کہ اس نے برکیارق کی ماں اور اس کے خاندان کے دیگر اہم افراد سے منوالیا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے پہلے یہ تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ روزینہ نے ایسی حیران کن مہارت سے پورے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں
وہ لوگ اس خاندان کے خون کے رشتے دار نہیں تھے جو کہتے تھے کہ یہ لڑکی مشکوک ہے اور خطرناک بھی لیکن برکیارق کسی کی سنتا ہی نہیں تھا اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا سلطان ملک شاہ کا چہلم ہو چکا تھا کئی دن گزر گئے تھے اب کسی بھی دن برکیارق نے روزینہ کے ساتھ شادی کر لینی تھی
مزمل آفندی اور شمونہ کی محبت کا پہلے ذکر آچکا ہے ان کی محبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ دو نوجوان تھے اور خوبصورت بھی تھے اور پہلی نظر میں ہی ایک دوسرے کے ہوگئے تھے بلکہ ان کی محبت کی ایک بنیاد تھی اور اس کے پس منظر میں ایک مقصد تھا جو ان دونوں میں مشترک تھا یہ تھی حسن بن صباح کی نفرت اور یہ ارادہ کے اس ابلیس کو قتل کرنا ہے
شمونہ حسن بن صباح کی داشتہ اور اعلی کار رہ چکی تھی اس نے حسن بن صباح کے لیے کچھ کام بڑی کامیابی سے کیے تھے لیکن اللہ نے اسے روشنی دکھائی اور وہ پھر واپس اسلام کی گود میں آگئی ابومسلم رازی نے جو سلطنت سلجوقہ کے دوسرے بڑے شہر کا امیر تھا شمونہ کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا اس حسین و جمیل لڑکی کے دل میں انتقام کے شعلے اٹھ رہے تھے
مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا مگر خواجہ حسن طوسی کو قتل کرنے واپس آ گیا تھا یہ تو شمونہ کی محبت اور شاہی طبیب نجم مدنی کا کمال تھا کہ انہوں نے مزمل آفندی کے ذہن سے حسن بن صباح کے اثرات بد نکال دیے تھے اور وہ اپنی اصلیت میں واپس آگیا تھا مزمل بھی انتقام کی آگ میں جل رہا تھا
مزمل اور شمونہ ملتے اور گھنٹوں اکٹھے بیٹھے رہتے تھے شمونہ اور اس کی ماں کو جس کا نام میمونہ تھا سلطان ملک شاہ نے ایک مکان دے دیا اور ان کا وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا مزمل اپنے کاروبار میں لگ گیا تھا لیکن وہ اور شمونہ اپنے مشترک مشن کی تکمیل کے لیے تڑپتے رہتے تھے ایک روز مزمل شمونہ کے گھر میں آیا بیٹھا تھا شمونہ کی ماں نے انہیں کہا کہ وہ شادی کر لیں اس نے وجہ یہ بتائی کہ وہ دونوں نوجوان ہیں اور اکٹھے بیٹھتے اٹھتے ہیں اور اس سے لوگ شک کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے لوگ انہیں بدنام کر دیں اور سلطان برکیارق کے کان بھرنے شروع کر دیں جسکا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا میمونہ نے دوسری دلیل یہ دی کہ وہ دو نوجوان ہیں اور ایک دوسرے کو روحوں کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جذبات سے مغلوب اور اندھے ہوکر وہ گناہ کر بیٹھیں
مزمل نے کوئی بات نہ کی اس نے شمونہ کی طرف دیکھا اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی ماں کو شمونہ خود ہی کوئی جواب دے
میری ایک بات یقین سے سنو ماں! شمونہ نے کہا اگر میری اور مزمل کی محبت جسمانی ہوتی تو اب تک ہم میاں بیوی بن چکے ہوتے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم وہ گناہ کر چکے ہوتے جس کا تمہیں ڈر ہے ہماری محبت روحوں کا عشق ہے ہمارا نصب العین ایک اور راستہ ایک ہے ہمارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے اور ہم دونوں کا اللہ حامی اور ناصر ہے مجھے جس روز یہ اشارہ ملا کہ مزمل کو میرے حسن اور میرے جسم کے ساتھ محبت ہے تو اسی روز میرے اور اس کے راستے الگ ہوجائیں گے
شمونہ بیٹی! میمونہ نے کہا میں نے دنیا دیکھی ہے حسن اور جوانی میں وہ طاقت ہے
مجھے اپنے حسن اور اپنی جوانی سے نفرت ہے ماں! شمونہ نے جھنجلا کر کہا اس حسن اور جوانی نے مجھے اس ذلیل انسان کے قدموں میں جا پھینکا تھا مجھے اپنے اس جسم سے نفرت ہوتی جارہی ہے جسے لوگ اتنا زیادہ پسند کرتے ہیں میرے پاس روح رہ گئی ہے اس کا مالک مزمل ہے میں جو کچھ بھی ہوں پاک و پلید ہوں مزمل کی ہوں لیکن شادی ہمارا نصب العین نہیں میں لوگوں کے لیے بڑا ہی حسین دھوکا بنی رہی تھی میں نے اللہ کو ناراض کیا اللہ نے مجھے ایمان کی روشنی بخشی اس کے شکرانے کے لیے یہ میرا فرض ہے کہ اللہ کو راضی کروں اور اپنی روح کو پاک کروں پھر میں اپنا آپ ایک بیوی کے طور پر مزمل کو پیش کروں گی کیوں مزمل کیا تمہیں میری اس بات سے اختلاف ہے؟
نہیں شمونہ! مزمل نے جواب دیا میں بولتا تو میں بھی یہی کہتا جو تم نے کہا ہے میں نے سب سے پہلے اپنا مقصد پورا کرنا ہے تم نے ماں کو یہ جواب دے کر میرے ایمان میرے کردار اور میرے عزم کو نئی تازگی دی ہے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں کہیں دیتی ہوں شمونہ نے مزمل سے کہا میں اپنی ذات کو اور اپنے وجود کو مزمل کے بغیر نامکمل سمجھتی ہوں دونوں نے میمونہ کو یقین دلا دیا کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہتے رہیں لیکن وہ اس گناہ کا تصور بھی اپنے ذہن میں نہیں لائیں گے جس کی طرف میمونہ نے اشارہ کیا تھا
ایک بات بتاؤ مزمل! شمونہ نے پوچھا تم نے پھر برکیارق کو نہیں کہا کہ یہ لڑکی مشکوک ہے
ایک ہی بار کہہ کر دیکھ لیا تھا مزمل نے کہا اس نے مجھے ڈانٹ کر چپ کرادیا تھا میں تو ابھی تک اسے دوست سمجھ رہا تھا لیکن وہ جس لہجے میں بولا اس سے مجھے یاد آگیا کہ یہ شخص اب دوست نہیں بلکہ سلطان بن گیا ہے
تم رے کیوں نہیں چلے جاتے شمونہ نے کہا تم ابومسلم رازی سے بات کرکے دیکھو وہ اتنے بڑے شہر اور اتنے وسیع علاقے کا حاکم ہے سلطان ملک شاہ مرحوم کا وہ خاص معتمد اور مشیر تھا ہوسکتا ہے وہ برکیارق کو سمجھا بجھا کر اس لڑکی سے شادی کرنے سے روک دے
ابومسلم رازی سلطان ملک شاہ مرحوم کا معتمد اور مشیر تھا مزمل نے کہا برکیارق اس کی بھی نہیں مانے گا تم شاید نہیں جانتی کہ برکیارق روزینہ کے لیے پاگل ہوا جارہا ہے ابومسلم رازی برکیارق کی شادی پر آرہا ہے اس سے پہلے اسے ملنا بیکار ہے شادی تو ہونی ہی ہے میں ابومسلم رازی سے کہوں گا کہ روزینہ کو کسی طرح غائب کیا جائے ابھی تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ روزینہ کیا کر گزرے گی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ دکھائے گی ضرور پھر برکیارق زندہ رہا تو باقی عمر پچھتاتا رہے گا
شادی ہو جانے دو شمونہ نے کہا میں روزینہ کے ساتھ دوستی لگانے کی کوشش کروں گی اگر میں کامیاب ہوگئی تو اسے زہر پلا دو گی
سلطان ملک شاہ مرحوم تو حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کا دشمن تھا ہی لیکن ابومسلم رازی کی تو زندگی کا جیسے مقصد ہی یہی تھا کہ اس فرقے کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے وہ تو صاف الفاظ میں کہا کرتا تھا کہ یہ کام تبلیغ سے نہیں ہوگا یہ کام صرف تلوار سے ہو سکتا ہے اس سلسلے میں پہلے سنایا جا چکا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اتنی شہرت نہیں ملی تھی اور وہ ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ ابومسلم رازی نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن کسی طرح حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ رے سے غائب ہوگیا تھا
برکیارق اور روزینہ کی شادی کا دن آگیا بارات نے تو کہیں جانا نہیں تھا دلہن سلطان کے محل میں موجود تھی سلطان برکیارق کے حکم سے سارے شہر میں رات کو چراغاں کی گئی اور اس شادی پر جو ضیافت دی گئی اس کے چرچے تاریخ تک پہنچے اور آج تک سنائی دے رہی ہیں ایک دعوت عام تھی امراء اور وزراء اور دیگر رتبوں والے افراد کے لیے الگ انتظام تھا اور شہر کے لیے باہر کھلے میدان میں کھانا رکھا گیا تھا دور دور سے ناچنے گانے والے آئے تھے ناچنے والیوں نے بھی آکر اپنے فن کے مظاہرے کیے اور سب نے سلطان سے انعام وصول کیے
یہ ہنگامہ خیز شادی جس پر خزانے کا منہ کھول دیا گیا تھا یہ انداز اس خاندان کی روایت کے منافی تھے سلطان ملک شاہ مرحوم ہر دلعزیز سلطان تھا اسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے اور کچھ دن گزرے تھے لوگ اس کے غم میں نڈھال ہوئے جارہے تھے لیکن برکیارق کی شادی کے دن لوگ سلطان مرحوم کا غم جیسے بھول ہی گئے تھے برکیارق کا مقصد ہی یہی تھا
جب اندر نکاح وغیرہ ہو رہا تھا اس وقت مزمل آفندی رے کے امیر ابو مسلم رازی کے پاس جا بیٹھا برکیارق کے دونوں چھوٹے بھائی محمد اور سنجر بھی اس کے پاس آ بیٹھے یہ دونوں بھائی خاصے مغموم تھے صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک تو انہیں اپنا باپ یاد آرہا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ اپنے بھائی کی شادی پر خوش نہیں
امیرمحترم! مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا آپ جب سلطان مرحوم کی وفات پر یہاں آئے تھے تو مجھے آپ کے ساتھ بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اب میں نے موقع نکالا ہے کیا آپ کو کسی نے پہلے بتایا ہے کہ ہمارے نئے سلطان کی دلہن باطنی ہے اور یہ اپنے آپ کو سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ظاہر کرتی ہے؟
ہاں مزمل آفندی! ابومسلم رازی نے جواب دیا میری مخبری کے ذرائع ایسے ہیں کہ زمین کے نیچے کی ہوئی بات بھی میرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے مجھے معلوم ہو چکا ہے
سلطان برکیارق کی دلہن سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن نہیں مزمل نے کہا یہ اس کے ساتھ الموت سے آئی تھی کیا آپ اس کے متعلق کچھ سوچ رہے ہیں ؟
میں سب کچھ سوچ چکا ہوں ابومسلم رازی نے کہا اور سوچ بھی رہا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو؟
امیرمحترم! مزمل نے جواب دیا میں یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ لڑکی نہ جانے کیا گل کھلائے گی آپ سے میں نے صرف یہ کہنا ہے کہ جہاں کہیں آپ کو میری ضرورت پڑے مجھے فوراً بلائیں آپ اس لڑکی کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں جس کا نام شمونہ ہے وہ آگ بگولا بنی بیٹھی ہے آپ اسے بھی استعمال کر سکتے ہیں
تم کسی بھی دن رے آ جاؤ ابومسلم رازی نے کہا اطمینان سے بیٹھے گے اور کچھ سوچ لیں گے
کیا یہ لڑکی ہمارے بھائی کو مار ڈالے گی؟
برکیارق کے بھائی محمد نے پوچھا
شاید نہیں ابومسلم رازی نے کہا یہ لڑکی سلطان برکیارق کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور اس کی توجہ حسن بن صباح سے ہٹا دے گی مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ سلطان مرحوم کی وفات کے بعد باطنیوں کی تبلیغ بہت تیز ہوگئی ہے اور ان کے اثرات دور دور تک پھیلنے شروع ہوگئے ہیں میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ سلطان برکیارق کیا کرتے ہیں
ہمارا بھائی برکیارق کچھ بھی نہیں کرے گا محمد نے کہا ہم اسکے ساتھ رہتے ہیں ہم دونوں بھائی دیکھ رہے ہیں کہ برکیارق کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل ہی بدل گیا ہے جیسے ہم اس گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور دو چار دنوں بعد رخصت ہو جائیں گے
ایک خیال کرنا محم ! ابو مسلم رازی نے کہا اور تم بھی سنجر اگر برکیارق یا اس کی بیوی کوئی بدتمیزی یا تمہارے ساتھ برا رویہ اختیار کرے تو خاموش رہنا میں ابھی ایک بات زبان پر نہیں لانا چاہتا تھا مگر تم لوگوں کو ذرا سا اشارہ دے ہی دوں تو بہتر ہے مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس لڑکی کے ذریعے حسن بن صباح ہماری سلطنت میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے خانہ جنگی کیسے ہوگی اس پر ابھی نہ سوچو میں موجود ہوں تم دونوں بھائی چوکنے رہنا اور تم مزمل ادھر ادھر دھیان رکھنا جونہی کوئی بات معلوم ہو میرے پاس آ جانا
اگلے روز دعوت ولیمہ دی گئی جو شادی کی ضیافت جیسی ہی تھی امراء وزراء اور دیگر اعلی سرکاری رتبوں والے افراد فرداً فرداً سلطان برکیارق کو مبارک باد کہنے گئے برکیارق نے ہر ایک سے کہا کہ یہ لوگ تین چار دن یہیں رہیں کیونکہ وہ ان سے خطاب کرے گا
یہ لوگ روکے رہے پانچویں روز برکیارق نے ان سب کو اکٹھا کرکے خطاب کیا یہ ایک تاریخی اہمیت کا خطاب تھا تاریخی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ نئے سلطان نے سلطنت سلجوقیہ کی گاڑی الٹے رخ چلا دی تھی تاریخ میں آیا ہے کہ اس نے خطاب میں جو نئے اعلان کئے وہ کچھ اس طرح تھے
نیا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری ہوگا
انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں گی
حسن بن صباح کا مقابلہ تبلیغ سے کیا جائے گا کیونکہ وہ ایک مذہبی فرقہ ہے جسے فوجی طاقت سے نہیں دبایا جاسکتا سلطان برکیارق نے زور دے کر کہا کہ پہلے بہت زیادہ جانی نقصان کرایا جاچکا ہے جو اب ختم کیا جا رہا ہے
محصولات زیادہ کیے جائیں گے
وہاں جتنے بھی امراء وزراء اور سالار وغیرہ بیٹھے تھے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے سب نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ سلطان نشے کی حالت میں بول رہا ہے یہ نشہ سلطانی کا بھی تھا اور روزینہ کے حسن و جوانی کا بھی
سلطان محترم! ابومسلم رازی بے قابو ہوکر بول پڑا حسن بن صباح ایک خطرناک فتنہ ہے اور اسلام کا بدترین دشمن نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کا قاتل حسن بن صباح ہے
سلطان برکیارق نے ابومسلم جیسے عالم مجاہد اور بزرگ کو آگے بولنے نہ دیا
اب کوئی قتل نہیں ہوگا سلطان برکیارق نے کہا یہ سوچنا میرا کام ہے آپ کا نہیں آپ رے میں امن وامان قائم رکھیں
سلطان برکیارق کی اس نئی حکمت عملی سے سب کو اختلاف تھا لیکن جس طرح اس نے ابومسلم رازی کو ٹوک کر اپنا حکم چلایا اس سے سب خاموش رہے سب نے جان لیا کہ یہاں بولنا بیکار ہے یہ سب چھوٹے بڑے حاکم سلطان برکیارق کے باپ کے وقتوں کے تھے اور سب کی عمریں اس کے باپ جتنی تھیں لیکن برکیارق نے کسی ایک کا بھی احترام نہ کیا اور کسی کو وہ تعظیم بھی نہ دی جو سرکاری طور پر ان کا حق تھا وہ اپنا خطاب ختم کر کے وہاں سے چلا گیا
باہر آ کر آپس میں سب نے کھسر پھسر کی مگر اونچا کوئی بھی نہ بولا بعض پر تو حیرت کی خاموشی چھا گئی تھی ابومسلم رازی برکیارق کی ماں کے پاس چلا گیا اس گھر میں اس کی اتنی قدر و منزلت ہوتی تھی جیسے وہ اسی خاندان کا ایک فرد ہو برکیارق کی ماں اسے دیکھ کر رونے لگی مجھے غم تھا کہ میں بیوہ ہو گئی ہوں ماں نے کہا لیکن ایک اور غم یہ آ پڑا ہے جیسے میرا بیٹا برکیارق بھی مر گیا ہو روزینہ اس پر نشے کی طرح طاری ہوگئی ہے ولیمے کے بعد میرا بیٹا باہر نکلا ہی نہیں کیا دن کیا رات کو دلہن کے ساتھ کمرے میں بند رہا کل شام دونوں بگھی پر باہر نکلے تو میں ان کے خواب گاہ میں چلی گئی خادمہ برتن اٹھا رہی تھی دو چاندی کے پیالے پڑے تھے پاس ایک صراحی رکھی تھی میں نے پیالے سونگھے تو عجیب سی بو آئی یہ اگر شراب نہیں تھی تو کوئی اور مشروب نہیں بلکہ یہ کوئی اور نشہ تھا
آپ اتنے بھی پریشان نہ ہو جائیں ابومسلم رازی نے برکیارق کی ماں کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہا یہ آپ کے بیٹے کا نہیں یہ جوانی کا قصور ہے کچھ دنوں بعد نشہ اتر جائے گا اور مجھے امید ہے کہ لڑکا اپنے خاندان کے راستے پر آ جائے گا میں نے دنیا دیکھی ہے برکیارق کی ماں نے کہا میں اپنے آپ کو یہ دھوکہ کس طرح دوں کہ بیٹا اپنے باپ کے راستے پر واپس آجائے گا ہم نے بھی جوانی دیکھی ہے سلطان مرحوم کے ساتھ میری شادی ہوئی تھی تو میں اس لڑکی جیسی خوبصورت تھی اور کمسن بھی تھی سلطان مرحوم کبھی میرے ساتھ کمرے میں بند نہیں ہوئے تھے انہوں نے مجھے ایک نشہ نہیں بنایا بلکہ ایک خوبصورت بیوی سمجھ کر اس حیثیت میں رکھا جو بیوی کو اسلام نے دی ہے خوبصورت عورت بجائے خود ایک نشہ ہوتی ہے اللہ نے مرد میں کمزوری رکھ دی ہے کہ وہ حسین عورت کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیتا ہے چالاک اور مطلب پرست عورت جس مرد پر بدنیتی سے یا اپنے مطلب کے لئے قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ شخص اس عورت کا زر خرید غلام ہو جاتا ہے ایسی بدفطرت عورت مردوں کو اس مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہوجاتی ہے اس مقام پر جا کر اسے سود و زیاں کا احساس ہی نہیں رہتا وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس کی تباہی کی ذمہ داری یہ عورت ہے اور وہ اس عورت کا پوجاری بن جاتا ہے عورت کے ہاتھوں بادشاہیاں الٹ گئی ہیں
ابومسلم رازی جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوہ جو کہہ رہی ہے ٹھیک کہہ رہی ہے یہ مشاہدے کی باتیں تھیں لیکن اب تو یہ سوچنا تھا کہ برکیارق کو کس طرح اس لڑکی کے نشے سے نکالا جائے ابومسلم نے اس خاتون کو جھوٹی سچی تسلیاں دیں اور کہا کہ وہ نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ سلطنت کا وقار قائم رہے
اس سے کچھ عرصہ پہلے حمیرا جابر کے ساتھ قلعہ الموت پہنچ گئی تھی ان لوگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ کوئی آدمی کسی لڑکی کو ورغلا کر الموت لاتا تو اس لڑکی کو لڑکیوں کے گروہ کے نگراں کے حوالے کردیا جاتا تھا اگر کوئی لڑکی اکھڑ پن پر اتر آتی اور ان لوگوں کی بات پر آنے سے انکار کردیتی تو ان کے پاس اس کا بھی علاج موجود تھا ایک علاج تو تشدد اور زبردستی تھا لیکن یہ علاج کم سے کم استعمال کیا جاتا تھا ان لوگوں کے پاس بڑے ہی پیارے اور دل کو لبھانے والے طریقے تھے جو بڑی اکھڑ لڑکیوں کو بھی موم کر لیتے تھے جابر کو بھی یہی چاہیے تھا کہ وہ حمیرا کو متعلقہ گروہ کے نگراں کے حوالے کر دیتا اس کا کام ہو گیا تھا لیکن جابر نے اس مروّجہ طریقہ کار سے انحراف کیا اور حمیرا کو اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا
اس کا یہ دوست تھا تو باطنی لیکن وہ فدائین میں سے نہیں تھا نہ کبھی اسے ذمہ داری کا کوئی کام سونپا گیا تھا اس دوست نے جابر سے کہا کہ وہ کیوں اس لڑکی کو ساتھ لئے اور چھپائے پھرتا ہے اسے ان کے حوالے کیوں نہیں کر دیتا جو نئی آنے والی لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں
نہیں بھائی! جابر نے اپنے دوست سے کہا اس لڑکی کے ساتھ میرا کچھ جذباتی ساتھ تعلق پیدا ہوگیا ہے اسے آخر اسی جگہ بھیجنا ہے جس جگہ کے لیے میں اسے ساتھ لایا ہوں لیکن اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میں اسے کسی اور کے حوالے کروں میں اسے خود تیار کروں گا
دراصل جابر کو حمیرا سے محبت ہی اتنی زیادہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ اسے باطنیوں کے مقاصد کے لیے تیار بھی کرلے اور یہ لڑکی اس سے متنفر بھی نہ ہو دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ حمیرا کو ایک بار حسن بن صباح کے سامنے لے جائے اور اس سے درخواست کرے کہ وہ اس لڑکی کو خود تیار کرنا چاہتا ہے دوست نے اسے یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ وہ کبھی اس لڑکی کے ساتھ پکڑا گیا یا کسی کو پتہ چل گیا کہ جابر نے ایک لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے تو اسے موت سے کم سزا نہیں ملے گی
جابر نے اس مشورے کو بڑا قیمتی مشورہ جانا اور ایک روز حمیرا کو حسن بن صباح کے پاس لے گیا حمیرہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس نے سوچا کہ اس انسان کو ایک بار دیکھ تو لے جس نے ایک باطل عقیدے کو اتنی جلدی اور اتنی دور دور تک پھیلا دیا ہے حمیرا نے یہ بھی سنا تھا کہ حسن بن صباح اپنے کسی فدائی سے کہتا ہے کہ اپنی جان لے لو تو وہ فدائی اپنے آپ کو مار دینے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتا اور وہ فوراً خنجر اپنے سینے میں اتار لیتا ہے حمیرا نے سوچا دیکھوں تو سہی کہ وہ انسان کیسا ہے
جابر اسے سیدھا حسن بن صباح کے پاس نہ لے گیا بلکہ اسے ایک جگہ چھوڑ کر پہلے خود حسن بن صباح کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ اس لڑکی کو لایا ہے جس کے بھائی نے انہیں قستان جیسا اہم قلعہ دلایا ہے حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ یہ قلعہ بند شہر کس طرح اس کے قبضے میں آیا ہے جابر نے حسن بن صباح کو پوری تفصیل سنائی
تم اب چاہتے کیا ہو ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
یا شیخ الجبل! جابر نے کہا میں اس لڑکی کو کچھ انعام دینے کی درخواست کرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میں اسے خود تیار کروں اس پر تشدد نہ ہو یا اسے حشیش نہ پلائی جائے اور اسے دھوکے میں بھی نہ رکھا جائے اگر میں اسے بقائمی ہوش و حواس تیار کرلوں تو یہ لڑکی پہاڑوں کو آپ کے قدموں میں جھکا دے گی
میرا خیال ہے کہ تم خود انعام لینا چاہتے ہو حسن بن صباح نے کہا ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی سے بڑھ کر اور انعام کیا ہوسکتا ہے کیا تم انعام کے طور پر اس لڑکی کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو؟
یا شیخ الجبل! جابر نے سر جھکا کر کہا جس روز میرے دل میں یہ آئی کہ میں اپنے امام کو دھوکہ دوں اس روز میں اپنے خنجر سے اپنے آپ کو ختم کر لوں گا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لایا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ آپ کے پاس تھوڑی سی دیر بیٹھی تو اس کا اکھڑ پن ختم ہو جائے گا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس لڑکی کے دل میں آپ کی اور ہم سب کی نفرت بھری ہوئی ہے میں یہ بھی عرض کر دیتا ہوں کہ اس کے دل میں میری محبت موجزن ہے آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں
حسن بن صباح کے اشارے پر جابر اٹھا اور باہر جاکر حمیرا کو اپنے ساتھ لے آیا حمیرا حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئی حسن بن صباح کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اس شخص کی آنکھیں بھی مسکرا رہی ہوں ان مسکراتی آنکھوں نے حمیرا کو جیسے جکڑ لیا ہو اور حمیرا کی آنکھوں میں پلک جھپکنے کی بھی سکت نہ رہی ہو حمیرا نے محسوس کیا کہ جیسے حسن بن صباح کی آنکھوں سے غیر مرائی اور بڑے پیارے رنگوں والی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں اور شعاعیں حمیرا کی آنکھوں کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہو رہی ہوں حمیرا اپنی ذات میں تبدیلی سی محسوس کرنے لگی اس کے اندر ایسا احساس بیدار ہونے لگا جیسے حسن بن صباح اتنا قابل نفرت نہیں ہے جتنا وہ سمجھتی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے یہ پراسرار طاقت بڑی محنت سے اور استادوں کے قدموں میں سجدے کر کر کے حاصل کی ہے
ایک بات بتاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا تمہارے دل میں کسی کی محبت تو ضرور ہوگی؟
ہاں! حمیرا نے کہا میرے دل میں اللہ کی محبت ہے
اس کے بعد کون ؟
اللہ کے آخری رسول حمیرا نے جواب دیا
اس کے بعد ؟
اپنے بھائی منور الدولہ کی محبت میرے دل میں رچی بسی ہوئی ہے حمیرا نے جواب دیا
اور اس کے بعد ؟
حمیرا نے جابر کی طرف دیکھا اور زبان سے کچھ بھی نہ کہا
ایک بات بتا لڑکی! حسن بن صباح نے کہا جس دل میں محبت کا سمندر موجزن ہے اس میں نفرت کہاں سے آگئی؟
حمیرا نے چونک کر حسن بن صباح کی طرف دیکھا لیکن کچھ بھی نہ کہہ سکی
جاؤ لڑکی! حسن بن صباح نے کہا تم قدرت کے حسن کا شاہکار ہو تم پھول ہو جو خوشبو دیا کرتے ہیں اپنے پھول جیسے حسن میں نفرت کی بدبو نہ بھرو جاؤ جابر کے ساتھ رہو جب تمہارے دل سے نفرت نکل جائے گی اور ضرور نکلے گی پھر تمہارا دل تمہیں کہے گا کہ چلو اسی شخص کے پاس پھر تم خود میرے پاس آؤں گی
حمیرا آنکھیں حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہ کر سکی اسے اٹھنا تھا لیکن نہ اٹھی اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی تھی اور وہ اپنی ذات میں کوئی ایسا تاثر محسوس کر رہی تھی جیسے وہ یہاں سے اٹھنا نہیں چاہتی اگر جابر اس کا بازو پکڑ کر نہ اٹھاتا تو وہ وہیں بیٹھی رہتی جابر حمیرا کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آیا
جابر کے دوست کے گھر پہنچنے تک حمیرا نے کوئی بات نہ کی وہ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی محسوس کر رہی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی وہ انسان اور ابلیس کے اس پہلو سے ناواقف تھی کہ جب کوئی انسان اپنے اپنے ابلیسی اوصاف پیدا کرلیتا ہے تو اس میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ خام کردار والے لوگ اس کی طرف کھینچے ہوئے چلے جاتے ہیں اگر وہ بدصورت ہو تو بھی دیکھنے والوں کو خوبصورت لگتا ہے اس کی زبان میں ایسا طلسماتی تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جب بات کرتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں اس کا ایک ایک لفظ اترتا چلا جاتا ہے یہ تو اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو انسان میرے راستے سے ہٹ کر ابلیس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اس پر میں ایک ابلیس مسلط کر دیتا ہوں
حمیرا اس لیے بھی حسن بن صباح سے اچھا تاثر لے کر آئی تھی کہ وہ تو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا اس کے پیروکار اسے نبی بھی مانتے تھے وہ جسے چاہتا ایک اشارے پر قتل کروا دیا کرتا تھا یہ شخص کہہ سکتا تھا جابر تم جاؤ اور اس لڑکی کو میرے پاس رہنے دو لیکن حسن بن صباح نے جیسے حمیرا کے حسن و جوانی کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی اس لحاظ سے وہ جابر کے کردار کی بھی قائل ہوگئی تھی اتنے دن اور اتنی راتیں جابر کے ساتھ رہ کر اس نے دیکھا کہ جابر نے کبھی اس سے پیار اور محبت کی باتوں کے سوا کوئی بے ہودہ بات یا حرکت نہیں کی تھی
حمیرا کو اپنا بھائی ماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آتے تھے اسے اپنے بھائی کی بیوی اور اس کے بچے بھی یاد آتے تھے لیکن وہ گھر سے کبھی واپس نہ جانے کے لیے نکلی تھی وہ اس کوشش میں لگی رہتی تھی کہ ان سب کو دل سے اتار دے ایک دو دنوں بعد جابر نے حمیرا سے کہا آؤ تمہیں یہاں کا قدرتی حسن دکھاؤں تم کہے اٹھو گی کے اگلے جہان کی جنت اس سے خوبصورت کیا ہوگی وہ دونوں شہر سے باہر نکل گئے قلعہ اور یہ شہر پہاڑی کے اوپر تھے دور جا کر وہ اس پہاڑی سے اترے آگے دریا تھا دریا اور پہاڑی کے درمیان ذرا کشادہ میدان تھا جس میں بڑے خوبصورت اور دلنشین پودے تھے درخت تھے اور گھاس تھی حمیرا کو یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی اس کے دل پر جو بوجھ سا اور گرفت سی رہتی تھی وہ کم ہونے لگی اس نے محسوس کیا جیسے وہ یہاں سے واپس نہیں جاسکے گی جابر اسے دریا کے کنارے لے گیا یہ کنارہ بہت ہی اونچا تھا دریا بہت نیچے بہتا چلا جا رہا تھا وہاں دریا کا پاٹ تنگ تھا سامنے والا کنارہ بھی اونچا تھا وہاں سے دریا مڑتا بھی تھا اس لئے وہاں پانی کا جوش بڑا ہی زیادہ تھا اور بھنور بھی پیدا ہو رہا تھا یہ دراصل پہاڑی تھی جسے کاٹ کر دریا گزر رہا تھا جابر اور حمیرا کنارے پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے
یہاں سے دریا میں کوئی گر پڑے تو کیا وہ بچ کے نکل آئے گا؟
حمیرا نے پوچھا
ناممکن جابر نے جواب دیا کوئی تیراک بھی نہیں نکل سکے گا کیونکہ پاٹ تنگ ہے اور پانی زیادہ اور تیز بھی ہے اور دریا یہاں سے مڑتا بھی ہے یہ دریا یہاں سے کھڑے ہوکر دیکھو تو ہی اچھا لگتا ہے
اپنے امام کے پاس پھر کبھی لے چلو گے؟
حمیرا نے پوچھا
کیا تم اس کے پاس جانا چاہو گی؟
جابر نے مسکراتے ہوئے پوچھا
میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے حمیرا نے کہا اور پھر آہ بھر کر بولی اپنے بھائی کو ماں کو اور بھائی کے بچوں کو دل سے اتارنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں
میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں جابر نے کہا اور کچھ توقف کے بعد بولا تم ان سب کو بھول ہی جاؤں تو بہتر ہے تمہارا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا
کیا کہا حمیرا نے تڑپ کر پوچھا وہ اس دنیا میں نہیں رہا؟ کیا ہوا اسے؟
اسے قتل کر دیا گیا تھا جابر نے کہا اس کے بیوی بچوں کا اور تمہاری ماں اور بہن بھائیوں کا بھی یہی انجام ہوا
میرے بھائی کو کس نے قتل کیا تھا؟
میرے ساتھیوں نے جابر نے جواب دیا تمہارے ساتھیوں نے حمیرا نے چلا کر کہا اور جابر پر جھپٹ پڑی
اس وقت جابر دریا کے کنارے پر کھڑا تھا حمیرا نے اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پوری طاقت سے دھکا دیا پیچھے ہٹنے کو جگہ تھی ہی نہیں پیچھے دریا تھا جابر اتنے اونچے کنارے سے گرا اس کی چیخیں سنائی دیں اور جب وہ دریا میں گرا تو اس کی چیخیں گرنے کی آواز میں دب گئی حمیرا نے اوپر سے دیکھا جابر ہاتھ مار رہا تھا دریا اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا لیکن موڑ پر بھنور تھا جابر اس بھنور میں آگیا اور ایک ہی جگہ لٹو کی طرح گھومنے لگا حمیرا نے دائیں بائیں دیکھا ایک بڑا ہی وزنی پتھر پڑا تھا حمیرا نے پتھر اٹھایا جو اس سے ذرا مشکل سے ہی اٹھا جابر اس کے بالکل نیچے پھنسا ہوا تھا حمیرا نے اوپر سے پتھر پھینکا جو جابر کے سر پر گرا اس کے بعد جابر پانی سے ابھر نہ سکا
جابر ڈوب گیا تو حمیرا نے توجہ اپنی طرف کی اس حقیقت نے اس کے دل کو مٹھی میں لے لیا کہ وہ اکیلی رہ گئی ہے اب وہ واپس جابر کے دوست کے پاس نہیں جا سکتی تھی اسے اب وہاں سے فرار ہونا تھا اس کی خوش نصیبی تھی کہ سورج غروب ہو رہا تھا وہ آگے کو چل پڑی اس نے رو رو کر اللہ کو یاد کیا اور تیز ہی تیز چلتی گئی اور جب سورج غروب ہوگیا تو وہ گھنے جنگل میں پہنچ چکی تھی
وہ اس خیال سے دوڑ پڑی کے رات ہی رات وہ اتنی دور نکل جائے کہ کوئی اس کے تعاقب میں نہ آ سکے رات تاریک ہوتی چلی گئی حمیرا کو راستے کا کچھ اندازہ تھا وہ اس راستے پر ہو لی
الموت کا قلعہ اور شہر اندھیرے میں چھپ گئے تھے حمیرا نے اللہ کا نام لے کر اپنے حوصلے مضبوط کرنے کی کوشش شروع کر دی وہ چلتی چلی گئی رات کی تاریکی اسے دنیا سے چھپائے ہوئے تھی وہ بہت دور نکل گئی اور اسے یوں سنائی دیا جیسے کوئی گھوڑا آ رہا ہو وہ راستے سے ذرا ہٹ کر ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئی اندھیرے میں ذرا ذرا نظر کام کرتی تھی
گھوڑا قریب آ گیا اس پر ایک آدمی سوار تھا حمیرا ڈرپوک لڑکی نہیں تھی اس کے دماغ نے ایک ترکیب سوچ لی جونہی گھوڑا قریب آیا حمیرا تیزی سے گھوڑے کے راستے میں جا کھڑی ہوئی اس نے بازو پھیلا دیے اور بڑی زور سے چیخیں مارنے لگیں یہ چیخیں اس طرح کی نہیں تھی جو خوف یا تکلیف کی حالت میں منہ سے نکلا کرتی ہیں حمیرا نے چڑیلوں کے قصے سنے تھے وہ چڑیلوں کی طرح چیخ رہی تھی اور بڑی بھدی سی آواز میں بولی مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل نہیں تو کلیجہ نکال لوں گی
لوگ چوڑائلوں کے وجود کو مانتے تھے سوار اسے چوڑیل نہ سمجھتا تو اور کیا سمجھتا رات کو اس ویرانے میں کوئی عورت اور وہ بھی اکیلی جا ہی نہیں سکتی تھی حمیرا ایسے خوفناک طریقے سے چیخیں تھیں کہ گھوڑا بھی بدک گیا تھا سوار کود کر گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے آگے گھٹنے زمین پر ٹیک کر ہاتھ جوڑ دیئے وہ بری طرح کانپ رہا تھا وہ چڑیل سے اپنی جان کی بخشش مانگ رہا تھا حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:32 }
حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی اس نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگادی وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا
ایسے شدید اور تیزوتند بھنور میں آیا ہوا جابر بن حاجب اس میں سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا وہ اس میں سے نکل نہیں سکتا تھا لیکن حمیرا نے اوپر سے اس کے سر پر بڑا وزنی پتھر گرایا تو وہ پانی کے نیچے چلا گیا اور بے ہوش ہوگیا سر پر اتنا وزنی پتھر گرنے سے وہ بڑی جلدی مر گیا ہوگا حمیرا وہاں سے بھاگ گئی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ پیچھے کیا ہوا ہے
جابر جب دریا کے نیچے سے ابھرا تو بھنور نے اسے دور پھینک دیا یا اگل دیا وہ مر چکا تھا وہاں سے کوئی ایک میل آگے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو جاتا تھا وہاں کنارے پر پکی گھاٹ بنی ہوئی تھی دریا میں تیراک کے شوقین آیا کرتے تھے اور نہایا کرتے تھے سورج غروب ہورہا تھا اس لئے وہاں چار پانچ ہی آدمی تھے جو گھاٹ سے دریا میں کود کود کر ہنس کھیل رہے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے ان میں سے ایک نے ڈبکی لگائی اور جب وہ پانی میں سے ابھرا تو اس کا سر ایک انسانی جسم کے ساتھ ٹکرایا جسے وہ اپنے کسی ساتھی کا جسم سمجھا اس نے پھر ڈبکی لگائی اور ذرا ایک طرف ہو کر پانی سے ابھرا تب اس کے کانوں میں اپنے ساتھیوں کی آواز سنائی دی لاش ہے ڈوب کر مرا ہوگا اسے پکڑو اور باہر گھسیٹ لو اس فدائی نے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا سر اسی لاش کے ساتھ ٹکرایا تھا
یہ تو جابر بن حاجب ہے ایک فدائی نے لاش کو پہچانتے ہوئے کہا یہ کیسے ڈوب گیا ہے؟
ان میں سے دو فدائین جابر کو اچھی طرح جانتے تھے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جابر ایک نئی لڑکی کو ساتھ لایا تھا اور حسن بن صباح نے اس کی درخواست پر اسے اجازت دے دی تھی کہ وہ تھوڑا عرصہ اس لڑکی کو اپنے پاس رکھے اور خود اسے اصل کام کے لئے تیار کرے
یہ فدائین اپنا شغل میلہ بھول گئے اور وہ جابر کی لاش اٹھا کر قلعے میں لے گئے
شیخ الجبل کو اطلاع کر دینی چاہیے ایک نے کہا
لاش وہیں اٹھا لے چلو دوسرے نے کہا
وہ لاش اٹھا کر حسن بن صباح کی رہائش گاہ میں لے گئے اور لاش برآمدے میں رکھ کر اندر اطلاع بھجوائی حسن بن صباح جسے لوگ امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی خود باہر آ گیا اور اس نے جابر کی لاش دیکھی
یہ ایک لڑکی کو ساتھ لایا تھا حسن بن صباح نے کہا یہ جہاں رہتا تھا وہاں جاؤ اور اس لڑکی کو ساتھ لے آؤ
ایک فدائن دوڑا گیا اور کچھ دیر بعد دوڑا ہوا ہی آیا اور اس نے بتایا کہ لڑکی وہاں نہیں ہے
وہ بھی اس کے ساتھ ڈوب گئی ہوگی حسن بن صباح نے کہا اس کی لاش دریا کے تیز بہاؤ میں چلی گئی ہوگی
جابر کی لاش دریا کے کنارے کنارے بہی جارہی تھی جہاں پانی کا بہاؤ تیز نہیں تھا یہ تو کسی کے ذہن میں آئی ہی نہیں اور آسکتی بھی نہیں تھی کہ حمیرا نے جابر کو اونچے کنارے سے دھکا دے کر دریا میں پھینکا تھا رات گہری ہو گئی تھی اس لیے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ حمیرا کہاں غائب ہوگئی ہے یا یہی یقین کر لیا جاتا کہ وہ بھی ڈوب کر مر گئی ہے
اسے لے جاؤ ۔حسن بن صباح نے کہا اس کے کفن دفن کا انتظام کرو اور منادی کرادو کے اس کا جنازہ کل دوپہر کے وقت ہوگا اور جنازہ میں پڑاٶ ہوگا لڑکی کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی جائے
صبح قلعہ الموت میں یہ منادی کرادی گئی کہ جابر بن حاجب دریا میں ڈوب کر مر گیا ہے اور اس کا جنازہ دوپہر کے وقت اٹھے گا
جابر کو جاننے والے اور اس کے دوست دوڑے آئے اور جابر کا آخری دیدار کیا لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور خاصہ ہجوم ہوگیا لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ایک سوال ہر کسی کی زبان پر تھا کہ جابر ڈوبا کیسے؟
میں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ دریا کی طرف جاتے دیکھا تھا ایک فدائین نے کہا میں اس وقت قلعے کی دیوار پر ویسے ہی ٹہل رہا تھا دونوں قلعے کی پہاڑی سے اتر کر خاصی دور چلے گئے تھے پھر میں نے دونوں کو دریا کے اس کنارے کی طرف جاتے دیکھا جو بہت اونچا ہے وہاں ایک ٹیکری ہے جس نے ان دونوں کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا تھا میں ادھر ہی دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد میں نے لڑکی کو وہاں سے واپس آتے دیکھا وہ سامنے آئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی پھر ایک طرف کو دوڑ پڑی اب جابر اس کے ساتھ نہیں تھا میں نے جابر کو وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا تھا لڑکی وہاں سے غائب ہوگئی تھی میں بہت دیر وہاں کھڑا رہا مجھے جابر نظر نہ آیا پھر سورج غروب ہوگیا اور میں نے دوسری طرف دیکھا جدھر گھاٹ ہے لیکن میری نظروں کو ان چٹانوں نے روک لیا تھا جو وہاں سے دور آگے تک دریا کے کنارے کھڑی ہے
پھر لوگوں میں ایک اور خبر پھیل گی جو یوں تھی کہ آج الصبح ایک آدمی سرائے میں آیا اور اس نے بتایا ہے کہ راستے میں گزشتہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اور اسے گھوڑے سے اتار کر اس پر خود سوار ہوئی اور گھوڑا لے کر غائب ہو گئی
یہ خبر حسن بن صباح کے اس گروہ کے ایک دو آدمیوں تک پہنچی جو جاسوسی اور نگرانی میں خصوصی مہارت رکھتے تھے انھوں نے اس آدمی کو ڈھونڈ نکالا اور اس سے پوچھا کہ وہ چڑیل کیسی تھی اور کس روپ میں اس کے سامنے آئی تھی
چاندنی دھوپ جیسی شفاف تھی اس شخص نے کہا چڑیل بڑی ہی حسین اور نوجوان لڑکی کے روپ میں تھی وہ اچانک میرے سامنے میرے راستے میں نمودار ہوئی اور اس قدر زور سے اس نے چیخ ماری کے میرا گھوڑا بدک گیا میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ میرا دل اس کی مٹھی میں آ گیا ہے اس نے کہا اے مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل ،نہیں تو کلیجہ نکال لونگی میں ڈرتا کانپتا گھوڑے سے اترا اور اس کے قریب جا کر گھٹنوں کے بل ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگی اس نے اور کچھ بھی نہ کہا میرے گھوڑے کی طرف گئی اور پلک جھپکتے گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو پیچھے موڑا اور گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑا میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گھوڑا گیا ہے میری جان ہی نہیں چلی گئی میں الموت کی طرف دوڑ پڑا صبح یہاں پہنچا اور سرائے میں ٹھہرا وہاں جو چند آدمی تھے انہیں یہ بات سنائی
اس سے پوچھا گیا کہ لڑکی چڑیل نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے تھے اور اس کے چہرے کے نقش ونگار کیسے تھے اس نے حمیرا کے کپڑوں کا رنگ بناوٹ وغیرہ اور چہرے کا حلیہ بتایا
حسن بن صباح جب جنازے کے لئے آیا تو اس کے جاسوسوں نے اسے بتایا کہ انہیں کیا کیا سراغ ملے ہیں ایک تو اس آدمی کو حسن بن صباح کے سامنے لایا گیا جس نے جابر اور حمیرا کو دریا کے اونچے کنارے کی طرف جاتے دیکھا تھا پھر اس آدمی کو حسن بن صباح کے آگے کھڑا کیا گیا جس نے کہا تھا کہ رات ایک چڑیل اس سے گوڑا چھین کر لے گئی ہے
حسن بن صباح نے دونوں کے بیان سن کر ان پر جرح کی اور اس کا دو رس دماغ اس یقین پر پہنچ گیا کہ لڑکی اس کے فدائین جابر بن حاجب کو دریا میں ڈبو کر بھاگ گئی ہے اگر جابر خود ہی پھسل کر گر پڑا ہوتا تو حمیرا بھاگ نہ جاتی بلکہ وہیں شورشرابہ کرتی کہ کوئی مدد کو پہنچ جائے یا واپس قلعے میں آجاتی
دو آدمی ابھی قستان چلے جائیں حسن بن صباح نے حکم دیا وہ وہیں ہوگی یہ لڑکی مل گئی تو اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی ہمیں ایسی ہی لڑکیوں کی ضرورت ہے اسے ہر جگہ اور ہر طرف تلاش کیا جائے ہوسکتا ہے وہ مرو یا رے چلی گئی ہو
حسن بن صباح کے حکم کے مطابق اسی وقت آدمی روانہ ہوگۓ
جس وقت وہ آدمی قلعہ الموت کی ایک سرائے میں اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا کہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اس وقت حمیرا چند گھروں کی ایک بستی میں جا پہنچی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بستی کے اندر جاؤں یا آگے نکل جاؤں ابھی پو پھٹ رہی تھی صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا رات نے اسے اس طرح چھپائے رکھا تھا جس طرح ماں اپنے بچے کو آغوش میں چھپا لیا کرتی ہے اسے ذرا سا بھی خوف نہیں محسوس ہوا تھا وہ فاتحانہ مسرت سے سرشار تھی کہ شیطانوں کے چنگل سے نکل آئی تھی اسے جب اپنا بھائی منور الدولہ یاد آتا تو اس کا دل بیٹھ جاتا اور آنسو جاری ہوجاتے تھے ایسے میں اس کے وجود میں انتقام کے شعلے بھڑک اٹھے تھے الموت سے بچ کر نکل آنے کی خوشی اس کے غمگین دل کو سہلا دیتی تھی وہ اسی رنگ بدلتی کیفیت میں گھوڑے پر سوار سفر طے کرتی گئی لیکن رات نے اپنے پردے سمیٹے اور رخصت ہو گئی
صبح کی پہلی دھندلی دھندلی کرنیں نمودار ہوئیں تو حمیرا کا دل یکلخت ایک خوف کی گرفت میں آگیا وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی ڈرنے والی یا خطرے والی بات نہیں تھی خطرہ یہ تھا کہ وہ نوجوان تھی اور بہت ہی حسین اور نظروں کو گرفتار کر لینے والی لڑکی تھی کوئی بھی اسے دیکھ لیتا تو کبھی نظرانداز نہ کرتا وہ اس ویران علاقے میں تھی جہاں ابلیس کا قانون چلتا تھا اسے اپنے سامنے چند گھروں کی ایک بستی نظر آرہی تھی
اس نے گھوڑے کی رفتار کم اور سوچنے کی رفتار تیز کر دی اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ روکے یا آگے نکل جائے لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ اس نے یہ بھی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ جائے کہاں اسے جابر نے بتایا تھا کہ اس کا بھائی مارا جاچکا ہے اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں شاید وہ بھی قتل کردیئے گئے تھے یہ تو حمیرا کو معلوم تھا کہ قستان میں اب اس کا کوئی نہیں رہا اور وہاں اب ان باطنیوں کا قبضہ ہے
وہ تذبذب کے عالم میں آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور بستی کے قریب روک گی یہ چند ایک مکان تھے جو معمولی سے لوگوں کے معلوم ہوتے تھے ایک مکان باقی سب سے بہت مختلف تھا وہ کسی امیر آدمی کا مکان معلوم ہوتا تھا اس کا دروازہ بڑا خوبصورت اور اونچا تھا حمیرا اس دروازے سے پندرہ بیس قدم دور گھوڑے روکے کھڑی تھی
دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک سفید ریش بزرگ باہر آیا اس نے لمبا سفید چغہ پہنے رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک چلا گیا تھا اس کے سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی اور ہاتھ میں لوٹے کی شکل کا ایک برتن تھا جس میں سے دھواں نکل رہا تھا اس نے حمیرا کو دیکھا تو آہستہ آہستہ چلتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا اس بزرگ کی داڑھی دودھ جیسی سفید تھی اور اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر نورانی سے رونق تھی وہ حمیرا کے سامنے کھڑا اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا حمیرا نے اپنا چہرہ اس طرح چھپا لیا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں اپنا چہرہ اس نے اس خیال سے ڈھانپ لیا تھا کہ کوئی اس کی عمر کا اندازہ نہ کرسکے اور کوئی یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے
آؤ خاتون! بزرگ نے کہا مسافر ہو تو روکو اور ذرا سستالو راستہ بھول گئی ہو تو اپنی منزل بتاؤ کوئی اور مشکل آن پڑی ہے تو زبان پر لاؤ یہ ہمارا مندر ہے جہاں ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے
آپ اپنے مندر کے راہب ہیں؟
حمیرا نے کہا لیکن میں کیسے یقین کرلوں کہ میں آپ کے مندر میں محفوظ رہوں گی
سفید ریش راہب نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا دھونی دان آگے کیا اور اسے ذرا سا ایک دائرے میں گھومایا اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں حمیرا کے گھوڑے کے منہ کو چھونے لگا پھر یہ دھواں حمیرا تک پہنچا حمیرا نے بڑی پیاری خوشبو سونگھی
تم شاید مسلمان ہو؟
راہب نے کہا آؤ ہمارے مندر میں تم وہیں روحانی سکون پاؤ گی جو تم اپنے خدا کے حضور جھک کر پایا کرتی ہو گھوڑے سے اترو اور مجھے امتحان میں نہ ڈالو
صرف ایک بات بتا دو مقدس راہب! حمیرا نے کہا کیا انسان اندر سے بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا وہ چہرے سے نظر آتا ہے میرا تجربہ کچھ اور ہے
راہب نے کوئی جواب نہ دیا وہ آگے بڑھا اور گھوڑے کے پہلو میں رک کر اپنا ایک ہاتھ حمیرا کی طرف بڑھایا کہ وہ اس کا ہاتھ تھام کر گھوڑے سے اتر آئے حمیرا اس کی خاموشی سے کچھ ایسی متاثر ہوئی کہ وہ راہب کا ہاتھ تھامے بغیر گھوڑے سے اتر آئ راہب نے اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا
میرا گھوڑا ایسی جگہ باندھیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے حمیرا نے کہا وہ میرے تعاقب میں آرہے ہونگے
کون؟
باطنی! حمیرا نے جواب دیا تعاقب سے یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی جرم کرکے بھاگی ہوں میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی متاع لے کر ان ظالموں سے نکلی اور یہاں تک پہنچی ہوں میری متاع میری عصمت ہے اور میرا دینی عقیدہ
اتنے میں ایک اور آدمی مندر سے باہر آیا راہب نے اسے کہا کہ وہ گھوڑے لے جائے اور ایسی جگہ باندھے جہاں کسی کو نظر نہ آ سکے راہب حمیرا کو مندر میں لے گیا اور دائیں کو مڑا ایک دروازہ کھلا یہ ایک کمرہ تھا جو عبادت گاہ نہیں تھی بلکہ رہائشی کمرہ تھا راہب نے حمیرا کو پلنگ پر بٹھا دیا اور پوچھا کہ وہ کچھ کھانا پینا چاہتی ہو گی
میں بھوکی نہیں ہوں حمیرا نے کہا اور میں پیاسی بھی نہیں گھوڑے کے ساتھ پانی بھی تھا اور ایک تھیلی میں کھانے کا سامان بھی تھا تھوڑی ہی دیر پہلے میں نے پیٹ بھر لیا تھا
حمیرا نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا راہب نے اس کا چہرہ دیکھا تو یوں چونک پڑا جیسے حمیرا نے اسے قتل کرنے کے لئے خنجر نکال لیا ہو راہب کچھ دیر حمیرا کے چہرے کو دیکھتا ہی رہا
تم یقین کرنا چاہتی ہوں کہ یہاں محفوظ رہوں گی یا نہیں راہب نے کہا لیکن اب میں شک میں پڑ گیا ہو کہ میری ذات اور یہ مندر تم سے محفوظ رہے گا یا نہیں
کیا میرے چہرے پر بدی کا کوئی تاثر نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
باطنیوں کے امام شیخ الجبل حسن بن صباح کے پاس تم جیسی بے شمار لڑکیاں موجود ہیں راہب نے کہا میں ان میں سے آج پہلی لڑکی دیکھ رہا ہوں میں نے سنا ہے کہ ان باطنیوں کا امام کسی کو اپنے جال میں پھانسنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ تم جیسی لڑکی کو بھیجتا ہے اور وہ لڑکی تمہاری طرح مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی کوئی کہانی سناتی ہے
حمیرا اسے بڑی غور سے دیکھ رہی تھی
مقدس راہب! حمیرا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا مجھے ایسی ہی لڑکی بنانے کے لیے دھوکے سے اپنے قلعہ الموت لے جایا گیا تھا لیکن میں آپ کو سناؤں گی کہ میں وہاں سے کس طرح نکل بھاگی پہلے میں آپ کو یہ بتا دو کہ میں قستان کے رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں امیر قستان کو باطنیوں نے قتل کردیا اور میرے بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا ہے
ہاں میں سن چکا ہوں راہب نے کہا قستان پر باطنی قابض ہو چکے ہیں اور منور الدولہ ان کے ہاتھوں دھوکے سے قتل ہوا ہے وہاں کا امیر شہر بڑا ہیں بدطینت انسان تھا اب تم سناؤ تم پر کیا بیتی ہے
حمیرا نے اسے سارا واقعہ کہہ سنایا یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے شخص سے محبت کر بیٹھی تھی جو درپردہ باطنی تھا ورنہ وہ کبھی الموت تک نہ پہنچتی اس نے یہ بھی سنایا کہ اس شخص کو اس نے کس طرح دریا میں پھینکا اور خود بھاگ آئی اور پھر یہ گھوڑا اسے کس طرح ملا
اس دوران مندر کا ایک آدمی ان کے آگے ناشتہ رکھ گیا تھا
تم اب یقیناً قستان جانے کی نہیں سوچو گی راہب نے کہا قستان کو اب دل سے اتار دو
پھر میں کہاں جاؤں؟
حمیرا نے پوچھا
سلجوقی سلطان کے پاس راہب نے جواب دیا وہی ایک ٹھکانہ ہے جہاں تم جاسکتی ہو اور جہاں تمہیں پناہ مل سکتی ہے مرو یا رے یہ نہیں بتا سکتا کہ نیا سلجوقی سلطان کیسا آدمی ہے وہ جو نیک آدمی تھا اور جس نے باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا عزم کر رکھا تھا وہ مر چکا ہے اس کا نام سلطان ملک شاہ تھا اب اس کا بیٹا برکیارق سلطان ہے بہتر یہ ہوگا کہ تم رے چلی جاؤ وہاں کا حاکم ابومسلم رازی بڑا ہی نیک بزرگ اور عالم دین ہے اس کے پاس چلی جاؤں تو نہ صرف یہ کہ محفوظ رہوں گی بلکہ وہ تمہیں اسی حیثیت سے اپنے پاس رکھے گا جو تمہیں قستان میں حاصل تھی
کیا میں وہاں تک اکیلی جاؤنگی ؟
حمیرا نے پوچھا اور کہا اگر اکیلی جانا ہے تو پھر مجھے رات کو سفر کرنا چاہیے
تم اس وقت میری نگاہ میں اس مندر کی طرح مقدس ہو میں تمہیں اکیلا بھیج کر اپنے دیوتاؤں کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کر سکتا میرے دو آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے اور تمہیں کسی اور بھیس میں بھیجا جائے گا
حمیرا نے ایسا سکون محسوس کیا جیسے اس پر کسی نے پہاڑ جیسا بوجھ ڈال دیا تھا اور یہ بوجھ یکلخت ہٹا دیا گیا ہو
مقدس راہب! حمیرا نے پوچھا میرا مستقبل کیا ہوگا کیا وہ اجنبی لوگ مجھے کسی اور دھوکے میں نہیں ڈال دیں گے
تم کون ہو؟
کچھ بھی نہیں راہب نے کہا میں کیا ہوں؟
کچھ بھی نہیں تم یہ پوچھو کہ اسلام کا مستقبل کیا ہوگا اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے مذہب کا مستقبل کیا ہوگا تمہیں اور مجھے اس اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خدا نے جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے ہم پورا کررہے ہیں یا نہیں وہ مقصد کیا ہے؟
بنی نوع انسان کی محبت
اسلام کا مستقبل آپ کو کیا نظر آتا ہے؟
حمیرا نے پوچھا
کچھ اچھا نظر نہیں آتا راہب نے جواب دیا اس وقت سب سے بڑا مذہب اسلام ہے لیکن اسکی جو بڑائی ہے وہ چھوٹی ہوتی جارہی ہے باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئےہیں جھوٹ موٹ کا یہ عقیدہ بڑی ہی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے حسن بن صباح نے ابلیسیت کو جائز قرار دے کر رائج کردیا ہے انسان لذت پرستی کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے عورت اور شراب میں اسے جو لذت ملتی ہے وہ خدا پرستی میں نہیں مل سکتی تم نے مستقبل کی بات کی ہے ایک وقت آئے گا کہ حسن بن صباح دنیا میں نہیں ہوگا اور اس کا عقیدہ آہستہ آہستہ مٹ جائے گا لیکن لوگ عیش و عشرت کو نہیں مٹنے دیں گے حسن بن صباح تو کسی نہ کسی روپ میں زندہ رہے گا لذت پرستی ہر مسلمان کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا اور ایک وقت آئے گا کہ وہ مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے،ان میں وہ طاقت نہیں رہے گی جو ہوا کرتی تھی
مجھے آپ کس وقت یہاں سے روانہ کریں گے؟
حمیرا نے پوچھا
سورج غروب ہونے کے بعد راہب نے جواب دیا
سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برکیارق کی ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا ماں کے آنسو بہہ رہے تھے
کیا اپنے بیٹے برکیارق پر آپ کا کچھ اثر نہیں رہا ؟
عبدالرحمن سمیری نے پوچھا
تم اثر کی بات کرتے ہو برکیارق کی ماں نے جواب دیا وہ تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ میں اس کی ماں ہوں کئی دنوں سے میں نے اس کی صورت بھی نہیں دیکھی البتہ اس کی ملکہ روزینہ کبھی نظر آجاتی ہے تو وہ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتی اگر کوئی بات کرتی بھی ہے تو وہ حکم کے لہجے میں کرتی ہے اپنے بھائیوں کے ساتھ برکیارق کا سلوک اور برتاؤ دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے میں ڈرتی ہوں کہ بھائی کہیں آپس میں نہ ٹکرا جائیں
میں آپ کے ساتھ یہی بات کرنے آیا ہوں عبدالرحمن سمیری نے کہا سلطان برکیارق کاروبار سلطنت میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان ملک شاہ مرحوم کے دور حکومت نے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا فوج برکیارق سے بیزار ہوتی جا رہی ہے ادھر باطنی پھیلتے اور غالب آتے چلے جارہے ہیں اگر ہم نے فوج میں بے زاری اور مایوسی پیدا کردی تو سلجوقی سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے
کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟
ماں نے پوچھا
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے جواب دیا بات کہاں کروں وہ تو باہر نکلتے ہی نہیں
تم یہیں بیٹھو ماں نے اٹھتے ہوئے کہا میں اسے باہر نکالتی ہوں میں آخر ماں ہوں
نہیں! عبدالرحمن سمیری نے اٹھ کر برکیاروق کی ماں کو روکتے ہوئے کہا آپ اس کے پاس نہ جائیں وہ بدتمیزی پر اتر سکتا ہے اگر اس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا کر گزروں گا
برکیارق کی ماں نے اسکی نہ سنی اور ہاتھ سے اسے ایک طرف کر کے باہر نکل گئی اس نے برکیارق کی خواب گاہ کے بند دروازے پر دستک دی دروازہ کھلا اور روزینہ باہر آئی
کیا بات ہے؟
روزینہ نے پوچھا
ماں نے اسے کوئی جواب دینے کی بجائے کواڑ دھکیل کر اندر چلی گئی برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا
کیا ہوگیا ہے ماں ؟
برکیارق نے غنودگی کے عالم میں پوچھا
کیا باہر نکل کر یہ دیکھنا تمہارا کام نہیں کہ کیا ہورہا ہے ماں نے غصیلے لہجے میں کہا کیا باپ کو تم نے اس وقت کبھی اپنی خوابگاہ میں دیکھا تھا تم خارش کے مارے ہوئے کتے کی طرح اس وقت بھی خواب گاہ میں پڑے ہوئے ہو
ان کی طبیعت ٹھیک نہیں روزینہ نے کہا آپ یہاں سے چلی جائیں اور وزیراعظم سے کہیں کہ وہ اپنا کام کرے
میں تم سے مخاطب ہوں برکیارق! ماں نے اپنا لرزتا کانپتا ہاتھ برکیارق کی طرف بڑھا کر کہا سلطان تم ہو تمہاری یہ چہیتی بیگم نہیں تمہارے باپ نے یہ فوج باطنیوں کو ختم کرنے کے لئے تیار کی تھی اور آج تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس فوج کو اس مہینے کی تنخواہ بھی نہیں دی گئی
تو پھر کیا قیامت آگئی ہے برکیارق نے خفگی اور بے رخی سے کہا میں اتنی زیادہ فوج رکھوں گا ہی نہیں میں سالاروں کو بلا کر کہہ رہا ہوں کہ آدھی فوج کو چھٹی دے دیں
پھر اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر تیار ہو جاؤ ماں نے کہا تم فوج کی چھٹی کراؤ اور کچھ ہی دنوں بعد باطنی آ کرتمہارے چھٹی کرا دیں گے ہوش میں آ برکیارق! ہوش میں آ اپنے باپ کی قبر کی یوں توہین نہ کر یاد کر یہ سلطنت کیسی کیسی قربانیاں دے کر قائم کی گئی تھی اپنے آباء اجداد کی روحوں کو یوں اذیت نہ دے یہ جوانی چند دنوں کا میلہ ہے ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا صرف اللہ ہے
آپ انہیں اتنا پریشان تو نہ کریں ماں! روزینہ نے بیزاری کے لہجے میں کہا
تو خاموش رہ لڑکی! ماں نے روزینہ سے کہا اور مجھے ماں نہ کہہ میں اس کی ماں ہوں اور میں ماں ہوں سلطنت کی جو ہمارے بڑے بزرگوں نے اسلام کا پرچم اونچا رکھنے کے لیے بنائی تھی تجھے اس کے ساتھ روحانی دلچسپی ہوتی تو اسے یوں مدہوش کر کے کمرے میں قید نہ رکھتی
اچھا ماں اچھا برکیارق نے اٹھتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ تھکن سے چور تھا تم جاؤ میں تیار ہو کر باہر نکلتا ہوں
میں تمہیں ابھی باہر نکلتا دیکھنا چاہتی ہوں ماں نے کہا ابھی اٹھ
برکیارق آہستہ آہستہ اٹھنے لگا اور ماں کمرے سے نکل آئی روزینہ نے بڑے غصے سے دروازہ بند کرکے زنجیر چڑھا دی اور برکیارق کے پاس گئی
کچھ دیر اور لیٹے رہیں روزینہ نے برکیارق کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے ذرا سا دھکیلا اور لیٹا کر بولی ماں قابل احترام ہی سہی لیکن ماں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ بیٹا کس حال میں ہے ان لوگوں کو آپ کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں آپ کی ماں کو اور دونوں بھائیوں کو صرف سلطنت کا غم کھا رہا ہے معلوم نہیں انہیں یہ خطرہ کیوں نظر آنے لگا ہے کہ ان سے یہ سلطنت چھن جائے گی یہ لوگ بادشاہی چاہتے ہیں
روزینہ ابھی تک شب خوابی کے لباس میں تھی اس کے ریشم جیسے نرم و ملائم بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے وہ بلاشک و شبہ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی لیکن اسکے جو انداز تھے اس میں طلسماتی سا تاثر تھا اور یہ برکیارق کو مدہوش کر دیا کرتے تھے گھروں میں بند بعض بیویاں روزینہ سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں لیکن ان میں چونکہ روزینہ والے ناز و انداز مکاری اور عیاری نہیں ہوتی اس لئے خاوندوں کو وہ اتنی خوبصورت نظر نہیں آتی جتنی کوئی پیشہ ور عورت دل پر غالب آجاتی ہے روزینہ تربیت یافتہ لڑکی تھی اسے ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ مرد کی کون کون سی رگ کمزور ہوتی ہے ایسی لڑکیاں ان رنگوں کو مٹھی میں لے لیتی ہے
روزینہ نے برکیاروق کو لٹا کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں اور اس پر اس طرح جھکی کے اس کے بکھرے ہوئے نرم و گداز بال اس کے چہرے کو چھونے لگے پھر اس نے برکیارق کے عریاں سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور دو تین بار اپنے گال اسکے سینے سے لگائے پھر اسکی ٹانگیں دبانی شروع کر دیں
برکیارق جو ماں کی آواز سے بیدار ہو گیا تھا پھر مدہوش ہوگیا روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلا دیا اس سارے عمل کے دوران وہ بڑے ہی اداس اور پراثر لہجے میں برکیارق کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ مظلوم اور تنہا ہے اور اس کے خاندان کا ہر فرد اسے انسان سمجھتا ہی نہیں روزینہ کا تو خداداد حسن تھا اور پھر اس حسن کو ایک نشے اور ایک طلسم کی طرح استعمال کرنے کا سلیقہ تھا اور اس کے ساتھ برکیارق کو وہ جو مشروب پلا رہی تھی اس کا اثر الگ تھا برکیارق بھول ہی گیا کہ اس کی ماں اس کے کمرے میں آئی تھی اور کچھ کہہ کر چلی گئی تھی
دن کے پچھلے پہر برکیارق اس کمرے میں بیٹھا تھا جہاں وہ وزیراعظم اور دیگر اہلکاروں سے+923054856932 امور سلطنت کی باتیں سنتا اور حکم جاری کیا کرتا تھا وہاں جاتے ہی اس نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو بلا لیا تھا
آپ میرے بزرگ ہیں اور میں آپ کا احترام کرتا ہوں اس نے وزیر اعظم سے کہا آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بات نہ ہو کہ میرے دل میں آپ کا احترام کم ہوجائے فوج کو تنخواہ میری ماں نے نہیں بلکہ میں نے دینی ہے آپ کو یہ بات میرے ساتھ کرنی چاہیے تھی آپ نے میری ماں کو بلاوجہ پریشان کیا اور انہوں نے غصے میں آکر میری بیوی کے سامنے میری بےعزتی کر دی میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ آئندہ آپ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے
میں معافی کا خواستگار ہوں سلطان محترم! وزیر اعظم نے کہا میں دو مرتبہ آپ سے درخواست کر چکا ہوں کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ فوج کو بروقت تنخواہ نہ ملی ہو میں ادائیگی کی اس تاخیر سے ڈرتا ہوں کہ فوج میں ذرا سی بھی مایوسی اور بیزاری پیدا نہیں ہونی چاہئے آپ کو تو معلوم ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم نے یہ فوج کس مقصد کے لیے تیار کی تھی زندگی نے وفا نہ کی اگر وہ زندہ رہتے تو قلعہ الموت پر حملہ کرکے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتے مجھے جاسوس اور مخبر روزبروز اطلاع دے رہے ہیں کہ باطنی عقیدے بڑی تیزی سے پھیلتے چلے جارہے ہیں اور یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ ہمارے شہر میں اور دوسرے شہروں میں بھی باطنی آ کر آباد ہوتے چلے جا رہے ہیں وہ اپنے عقیدے مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں
آپ میرے وہ احکام غالباً بھول گئے ہیں جو میں پہلے دے چکا ہوں سلطان برکیارق نے کہا مرحوم سلطان نے فوج تو تیار کرلی تھی لیکن یہ نہ سوچا کہ اس فوج کو ہم کب تک پالتے رہیں گے محصولات کا زیادہ تر حصہ یہ فوج کھا رہی ہے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں حسن بن صباح کی طرف ایک وفد بھیجوں گا اور اس کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کروں گا وہ میری یہ شرط مان لے گا کہ وہ اپنے علاقے میں محدود رہے اور ہمیں اپنے علاقے میں محدود رہنے دے اس بار تو آپ فوج کو تنخواہ دے دیں لیکن فوج کی آدھی نفری کو سبکدوش کر دیں جو گھوڑے فالتو ہو جائیں وہ فروخت کرکے رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں میں اپنے سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو حکم دے رہا ہوں کہ وہ فوج کی چھانٹی کرکے نصف فوج کو ختم کر دیں
سلطان عالی مقام! وزیراعظم نے کہا آپ کے والد مرحوم نے وفد بھیجا تھا جس کا حسن بن صباح نے مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ تمہارے پاس وہ طاقت نہیں جو میرے پاس ہے اس نے ہمارے وفد کے سامنے اپنے تین آدمیوں کو باری باری حکم دیا تھا کہ اپنے آپ کو قتل کردیں ان آدمیوں نے فوراً اپنے خنجروں سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا تھا حسن بن صباح نے ہمارے وفد سے کہا تھا کہ تمہاری فوج میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو اس طرح اپنی جان قربان کر دے
مجھے وہ باتیں یاد نہ دلائیں سلطان برکیارق نے کہا وہ میرے والد مرحوم کے دور کی باتیں ہیں میں اپنا راستہ خود بنا رہا ہوں میں حکم دے رہا ہوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے
جس وقت سلطان برکیارق آپ نے وزیراعظم کو یہ احکام دے رہا تھا اس وقت اس کی بیوی روزینہ کے پاس ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہوئی تھی اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا یہ عورت روزینہ کی خاص ملازمہ تھی اس عورت کو روزینہ نے قابل اعتماد کنیز کا درجہ دے رکھا تھا
اور اسے یہ کہنا روزینہ اس کنیز سے کہہ رہی تھی امام تک یہ خبر جلدی پہنچا دیں کہ میں نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں سب سے زیادہ اہم فیصلہ یہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے گی سلطان برکیارق نے اپنے وزیر اعظم کو یہ حکم دے دیا ہے اور سالاروں کو بلا کر کہہ دے گا کہ آدھی فوج کو چھانٹی کر دو پھر امام تک یہ خبر پہنچا دینا کہ سلطان پوری طرح میری مٹھی میں آ گیا ہے اس کی ماں وزیراعظم اور اس کا بھائی محمد اسے مجھ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن میں اسے ان سب سے متنفر کر دوں گی یہاں فوج میں بیزاری اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی تنخواہ میں اس تاخیر کے پیچھے بھی میرا ہی ہاتھ ہے امام سے کہنا کہ اب اپنے آدمی بھیج دیں کیوں کہ فوج میں چھانٹی ہوگی تو جنہیں نکالا جائے گا انہیں بھڑکانا اور سلطان کے خلاف مشتعل کرنا ضروری ہوگا پیغام میں یہ بھی کہنا کہ ابھی میں رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کے فیصلوں کے خلاف ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس سلسلے میں وہ کیا عملی کاروائی کرے گا تم ابھی چلی جاؤ اور یہ پیغام ان لوگوں کو اچھی طرح سنا دینا اور انہیں کہنا کہ آج ہی ایک آدمی الموت روانہ ہو جائے
یہ حسن بن صباح کا زمین دوز انتظام تھا جس کے تحت سلطنت سلجوقیہ کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا تھا تھوڑے ہی دنوں بعد اس بارود میں ذرا سی چنگاری پھینک دینی تھی قوم اور ملک حکمرانوں کے ہاتھوں ہی تباہ ہوتے چلے آئے ہیں حکمران جب اپنی سوچنے کی صلاحیت اور اپنا وقار کسی دوسرے کے حوالے کردے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا روزینہ سلطان برکیارق کی سلطنت میں تاریخ کو دہرا رہی تھی برکیارق کے ذہن میں وہ یہ بات نقش کر رہی تھی کہ اس سلطنت کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سلطنت برکیارق کی ذاتی ملکیت ہے تباہی کے عمل کو تیز کرنے کے لئے روزینہ سلطنت سلجوقیہ کو اس تلوار سے محروم کر رہی تھی جسے فوج کہتے ہیں
سلطان برکیارق نے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو احکام دے کر فارغ کردیا اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی اور اس کے نائب سالار اوریزی کو بلایا وہ فورا پہنچ گئے
فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی سلطان برکیارق نے کہا کل خزانے سے رقم نکلوا کر فوج میں تقسیم کردیں اب میرے اس فیصلے پر عمل شروع کر دیں کہ فوج کی آدھی نفری کو فوج سے نکال دیں میں اب اتنی زیادہ فوج کی ضرورت نہیں سمجھتا آپ دونوں نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ کسے فوج میں رکھنا اور کسی نکالنا ہے
ہاں سلطان محترم! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا فوج آدھی ہو جانی چاہیے ہم آپ کے حکم کی تعمیل بہت جلدی کر دینگے
سلطان محترم! سالار اوریزی نے کہا بصد معذرت عرض کرتا ہوں کہ فوج میں کمی نہیں ہونی چاہئے آپ کو معلوم ہی ہے کہ مرحوم سلطان نے یہ فوج کیوں تیار کی تھی
مجھے اور بھی بہت کچھ معلوم ہے سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کی بات کاٹ کر کہا یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ اتنی زیادہ فوج کو تنخواہ کس طرح دی جاتی ہے میں جو کہہ رہا ہوں سوچ اور سمجھ کر کہہ رہا ہوں اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے
سلطان ٹھیک فرما رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا اتنی زیادہ تنخواہ پوری کرنا بہت مشکل ہے اور خزانے پر بلاوجہ بوجھ پڑا ہوا ہے ہمیں سلطان محترم کے حکم پر فوراً عمل کرنا چاہیے
حکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے سالار اوریزی نے کہا لیکن میں یہ نہیں بھول سکتا کہ یہ ملک ہمارا اپنا ہے اور یہ اسلامی سلطنت ہے یہ فوج اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے تیار کی گئی ہے اس سے ہم نے باطل کی قوتوں کو اسی طرح ختم کرنا ہے جس طرح آتش پرستوں اور رومیوں کی جنگی طاقتوں کو ختم کردیا گیا اگر ہم نے حسن بن صباح کو ختم نہ کیا
میں اس نام سے تنگ آگیا ہوں سلطان برکیارق نے کہا حسن بن صباح کا نام سنتے سنتے میرے کان پک گئے ہیں میں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہم باطنیوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کریں گے
یہ بھی سوچ لیں سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا اگر آپ نے فوج میں سے آدھی نفری نکال دی تو فوج میں اور قوم میں بھی آپ کے خلاف بداعتمادی پیدا ہوجائے گی اس کے نتائج کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں میں ابھی کوئی اور بات نہیں کہنا چاہتا سوائے اس کے کہ یہ نتائج بڑے ہیں خطرناک بھی ہو سکتے ہیں
ہم آپ کو نہیں نکال رہے سالار اوریزی! سپہ سالار نے کہا آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے
میں سب سے پہلے فوج سے نکلوں گا سالار اوریزی نے کہا میں مجاہد ہوں اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے فوج میں شامل ہوا تھا سلطان کی خوشامد کے لیے نہیں جیسا آپ کر رہے ہیں
آپ میری توہین کر رہے ہیں اوریزی! سپہ سالار نے کہا میں بھی مجاہد ہوں خوش آمدی نہیں
دونوں خاموش ہوجاؤ! سلطان برکیارق نے کہا میں نے تمہیں آپس میں لڑنے کے لیے نہیں بلایا
سلطان عالی مقام! سالار اوریزی نے کہا آپ میری صاف گوئی برداشت کریں یا نہ کریں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ آپ کی سلطنت کی سلامتی کے لئے کہہ رہا ہوں یہ سلطنت آپ کی نہیں یہ میری بھی ہے یہ اللہ کی سلطنت ہے اگر آپ فوج کے متعلق غلط فیصلے کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ جو سالار ان فیصلوں کو غلط سمجھے گا وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور ہمارے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا حکم نہیں مانے گا سپہ سالار حجازی آپ کو خوش کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنے اللہ کو خوش کر رہا ہوں اور یہی میرا فرض ہے
تقریباً تمام مستند تاریخوں میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کا خوشامدی تھا اور سلطان ابلیسی اثرات کے تحت فیصلے کر رہا تھا ایک بیدار مغز اور دیانتدار سالار نے ان کی مخالفت کی تو آگے چل کر یہی اختلاف خانہ جنگی کا بنیادی پتھر بن گیا سلطان برکیارق نے جب ان دونوں سالاروں کو فارغ کیا تو باہر آکر سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے سالار اوریزی کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ جانتا ہے کہ سلطان کا یہ حکم سلطنت کے لیے اچھا نہیں لیکن ہمیں کیا ہمیں سلطان کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہے لیکن سالار اوریزی اس قدر بگڑ گیا تھا کہ اس نے سپہ سالار کے ساتھ بحث بے معنی سمجھی
ایک روز رے میں امیر شہر ابومسلم رازی اپنے دفتر میں امور سلطنت میں الجھا ہوا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے دو آدمی آئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکی ہے ابومسلم رازی نے انہیں فوراً اندر بلا لیا
ہم اس لڑکی کو آپ کے حوالے کرنے آئے ہیں دونوں میں سے ایک آدمی نے کہا ہم مسلمان نہیں یہ لڑکی مسلمان ہے
کون ہے یہ لڑکی؟
ابومسلم رازی نے پوچھا اسے کہاں سے لائے ہو میرے حوالے کرنے کا مقصد کیا ہے ؟
میرا نام حمیرا ہے لڑکی بولی میں قستان کے ایک رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں
قستان پر تو باطنی قابض ہوگئے ہیں ابومسلم رازی نے کہا اور پوچھا تم کس طرح بچ نکلی ہو؟
اگر آپ اجازت دیں گے تو میں اپنی داستان سناؤں گی؟
حمیرا نے کہا سب سے پہلے تو میں ان دونوں کی تعریف کروں گی کہ یہ مسلمان نہیں اور یہ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں
ابومسلم رازی کے کہنے پر حمیرا نے وہ سب کہہ سنائی جو اس پر بیتی تھی اس نے اپنی محبت کی بات بھی نہ چھپائی اور سفید ریش راہب کے منزل تک پہنچنے کی ایک ایک تفصیل سنائی
میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم نے جو بات سنائی ہے وہ بالکل سچ ہے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
آپ کا شک بجا ہے حمیرا نے کہا ان کے بزرگ راہب نے بھی یہی شک کیا تھا میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ میں ثابت کر سکوں کہ میں نے جو بات کہی ہے یہ سچ ہے
ہمارے راہب نے اس لڑکی کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا تھا ایک آدمی نے کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں اور یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو آپ ہم دونوں کو قید خانے میں بند کردیں اور جب آپ کو یقین آجائے گا تو ہمیں رہا کردیں
ابو مسلم رازی نے ان دونوں آدمیوں کو کھانا کھلایا اور مشروبات پلائے اور پھر ان کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں
میں تمہیں اپنی پناہ میں رکھوں گا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا تمہارا کوئی اور ٹھکانہ ہوتا تو میں تمہیں وہاں بھیج دیتا
میری ایک بات ذہن میں رکھ لیں محترم! حمیرا نے کہا میں یہاں آپ کی پناہ میں محتاجوں کی طرح بیٹھی نہیں رہونگی میں نے ان باطنیوں سے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کے خون کا انتقام لینا ہے میں جانتی ہوں کہ آپ باطنیوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں آپ مجھے اس جہاد میں جس طرح بھی استعمال کریں گے میں اپنی جان بھی پیش کردوں گی
ابومسلم رازی نے حمیرا کے ساتھ آئے ہوئے دونوں آدمیوں کا شکریہ ادا کیا انہیں کچھ تحفے دیے اور رخصت کردیا
رے سلطنت سلجوقیہ ان کا ایک بڑا شہر تھا اور یہ دونوں آدمی دیہاتی علاقے میں سے آئے تھے دونوں جب بازار سے گزرے تو گھوڑوں سے اتر آئے انہیں اس شہر کی دوکانیں بڑی اچھی لگ رہی تھیں وہ ایک دکان کے سامنے رک گئے دکان میں سجا ہوا سامان انہیں اچھا لگ رہا تھا
تم اجنبی معلوم ہوتے ہو ؟
انہیں ایک آواز سنائی دی انہوں نے دیکھا ایک آدمی جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ان سے مخاطب تھا معلوم ہوتا ہے بڑے لمبے سفر سے آئے ہو اس آدمی نے کہا
ہاں بھائی! ایک نے کہا ہم بہت دور سے آئے ہیں اور اب واپس جا رہے ہیں
اس دکان سے کچھ خریدنا چاہتے ہو ؟
اس آدمی نے پوچھا
ویسے ہی یہ چیزیں اچھی لگ رہی ہیں ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہم جنگلوں میں رہنے والوں نے کیا خریدنا ہے
تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بتاؤ اس شخص نے کہا تم پردیسی ہو میں تمہیں کوئی تحفہ دینا چاہتا ہوں
کیوں ؟
ایک مسافر نے پوچھا تم ہمیں تحفہ کیوں دینا چاہتے ہو؟
میں نے تم سے کیا لینا ہے اس شخص نے کہا یہ میری عادت ہے کہ کسی سیدھے سادے اجنبی کو دیکھتا ہوں تو اسے ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے پوچھنے سے میرا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے اسے کسی چیز کی کھانے پینے کی یا کسی طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہو اور یہ بیچارا کسی سے کہتا نہ ہو
ہمیں کچھ نہیں چاہئے دوست! ایک نے کہا یہی کافی ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ پیار اور محبت سے بات کی ہے
پھر میری خوشی کی خاطر میرے ساتھ آؤ اس شخص نے کہا میں تمہیں اس شہر کا ایک خاص شربت پلا کر رخصت کرنا چاہتا ہوں
اس شخص نے ایسی اپنائیت کا اظہار کیا کہ وہ دونوں اس کے ساتھ چل پڑے ذرا ہی آگے مشروبات کی ایک دکان تھی جس میں بیٹھنے کا بڑا ہی اچھا انتظام تھا یہ شخص دونوں کو اندر لے گیا اور ان کے لیے شربت منگوایا وہ ایسی باتیں کرتا رہا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ دوسروں کی خدمت کرے
تمہارے ساتھ ایک لڑکی تھی؟
اس شخص نے پوچھا اور تم امیر شہر کے یہاں گئے تھے وہ لڑکی شاید شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی
سفید ریش راہب نے اپنے ان دو آدمیوں کو حمیرا کے ساتھ بھیجا اور صرف یہ کہا تھا کہ اسے رے کے امیر شہر ابومسلم رازی کے حوالے کرکے واپس آ جائیں انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ کوئی اور پوچھ بیٹھے کہ یہ لڑکی کون ہے تو اسے لڑکی کی اصلیت نہ بتائیں یہ دونوں آدمی حمیرا کی پوری داستان سن چکے تھے انہوں نے حمیرا کے ساتھ اتنا لمبا سفر کیا تھا حمیرا نے خود بھی انہیں سنائی تھی کہ اس پر کیا بیتی ہے اور وہ کس طرح الموت سے نکلی ہے
اب رے سے رخصت ہوتے وقت ان دونوں کو یہ اجنبی میزبان مل گیا تو اس کی باتوں میں آگئے اس نے ان سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے جسے وہ امیر شہر کے یہاں چھوڑ چلے ہیں ان دونوں نے بڑے فخر اور خوشی سے حمیرا کی ساری داستان اس آدمی کو سنا ڈالی اس آدمی نے حمیرا کے اس کارنامے پر دل کھول کر واہ واہ کی اور پھر ان دونوں آدمیوں کے خلوص اور دیانت داری اور ان کے کردار کی بےپناہ تعریف کی اس کے بعد دونوں رخصت ہوگئے
ان کے جانے کے بعد یہ شخص بہت ہی تیز چلتا ایک مکان میں چلا گیا وہاں تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے
لو بھائیو! اس نے کہا وہ مل گئی ہے
کون؟
حمیرا! اس نے جواب دیا اس شہر کے حاکم ابو مسلم رازی کے گھر پہنچ گئی ہے ابھی ابھی دو آدمی اسے اپنے ساتھ لائے تھے اور وہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں اس نے اپنے ساتھیوں کو سنایا کہ کس طرح اس نے ان دونوں آدمیوں کو گھیرا اور ان سے یہ راز لیا ہے یہ سب باطنی تھے اور حسن بن صباح کے جاسوس تھے جو کچھ عرصہ سے رے میں ٹھہرے ہوئے تھے،انہیں دو ہی روز پہلے الموت سے اطلاع ملی تھی کہ حمیرا نام کی ایک لڑکی الموت سے لاپتہ ہو گئی ہے اسے تلاش کیا جائے
الموت کون جائے گا ؟
ان میں سے ایک نے پوچھا اور کہا اگر آج ہی کوئی روانہ ہو جائے تو اچھا ہے امام خوش ہوجائے گا
وہ صرف اتنی سی بات پر خوش نہیں ہوگا کہ لڑکی کا سراغ مل گیا ہے ان میں سے ایک نے کہا اب یہ حکم آئے گا کہ لڑکی کو اغوا کرکے الموت پہنچاؤ
ایک آدمی اٹھا اور سفر کی تیاری کرنے لگا
چند دن گزرے تھے کہ ایک روز سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد رے آ گیا اور ابو مسلم رازی کے یہاں پہنچا ابومسلم اسے اس طرح شفقت اور پیار سے ملا جیسے باپ اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملتا ہے محمد بڑا خوبصورت اور قد آور جوان نکلا تھا اس میں اپنے باپ ملک شاہ والا جذبہ تھا
کہو محمد! ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا مرو کے حالات کیسے ہیں اور تم کیسے آئے ہو؟
بہت برے! محمد نے جواب دیا آپ کے پاس مجھے ماں نے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے بھیجا ہے میں بھائی برکیاروق کو بتائے بغیر آگیا ہوں برکیارق تو پوری طرح اپنی بیوی کے قبضے میں آ چکا ہے وہ اس کے دماغ میں جو کچھ بھی ڈالتی ہے وہ سلطنت کے لئے حکم بن جاتا ہے مجھے اور سنجر کو برکیارق نے بھائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے مجھے کہتا ہے کہ میں تمہیں کسی اچھے عہدے پر لگا دوں گا لیکن کسی بھی وقت میرے راستے میں نہ آنا یہ تو ہماری گھریلو باتیں ہیں اس نے ایک بڑا ہی خطرناک حکم دے دیا ہے جس کے تحت فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیجا جا رہا ہے فوج آدھی رہ جائے گی
کیا کہا؟
ابو مسلم نے چونک کر کہا کیا وہ اتنی خطرناک حماقت پر اتر آیا ہے کہ فوج آدھی کرکے سلطنت کو خطرے میں ڈال رہا ہے؟
کیا وزیراعظم اور تمہاری ماں نے اسے روکا نہیں؟
سب نے روکا ہے محمد نے جواب دیا وہ کسی کی سنتا ہی نہیں اصل خطرہ جو سامنے آگیا ہے اس سے وہ بے خبر ہے لیکن میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں اور میرے آنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں کچھ مشورہ دیں
ہاں محمد! ابومسلم نے کہا یہ تو تم نے بڑی تشویش ناک خبر سنائی ہے
وہاں تو خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوتی جارہی ہے محمد نے کہا فوج میں سے ان آدمیوں کو الگ کیا جا رہا ہے جنہیں فوج سے نکالنا ہے ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ بےروزگار ہو جائیں گے بلکہ وہ سلطنت اور باطنیوں کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ بتا کر فوج میں شامل کیا گیا تھا کہ باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے اسلام کے فروغ کے راستے کھولنے ہیں پھر خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نائب سالار اوریزی بگڑ گیا ہے اس نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ سپہ سالار ابوجعفرحجازی کے خلاف باقاعدہ لڑائی لڑے گا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے گا
میں سپہ سالار حجازی کو اچھی طرح جانتا ہوں ابومسلم رازی نے کہا خوشامدی آدمی ہے معلوم نہیں سلطان ملک شاہ مرحوم نے اسے سپہ سالار کیسے بنا دیا تھا وہ سوائے خوشامد کے کچھ بھی نہیں جانتا
وہ ہمارےبھائی برکیارق کا ہر غلط حکم بسروچشم مانتا ہے اور دوسروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی یہ حکم مانیں اس میں اور سالار اوریزی میں باقاعدہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے
اوریزی صحیح معنوں میں مجاہد آدمی ہے ابومسلم رازی نے کہا اس نے جو کہا ہے وہ کرکے بھی دکھا دے گا لیکن یہ صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے
وہ خطرہ سامنے آگیا ہے محمد نے کہا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے مخبروں نے انہیں بتایا ہے کہ باطنی تخریب کار دونوں طرف کی فوجیوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں نظر یہی آ رہا ہے کہ وہ فوجی جنھیں نکالا جارہا ہے ان فوجیوں سے ٹکرا جائیں گے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا ہے شہری بھی دو مخالف گروہوں میں بٹے جارہے ہیں اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ باطنی شہریوں میں شامل ہوکر انہیں بھڑکا رہے ہیں کسی بھی روز یہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا
مجھے سوچنے دو ابومسلم نے کہا آج یہ صورتحال ایسی نہیں کہ میں فوراً ہی کوئی مشورہ دے دوں اس وقت میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں یقین دلا دوں کہ میں ہر طرح تمہارے ساتھ ہوں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں اس نفری کو جسے نکالا جارہا ہے یہاں بلا لوں گا اور فوج تیار کرکے سلطان برکیارق کا تختہ الٹ دوں گا بہرحال صورتحال بہت ہی خطرناک ہے تم کچھ دن یہیں ٹھہرو میں کچھ نہ کچھ سوچ لوں گا
وہ اس مسئلے اور اس صورتحال پر باتیں کرتے رہے اور حسن بن صباح کا ذکر آگیا اس ذکر کے ساتھ ابومسلم رازی نے حمیرا کا نام لیا اور مختصراً محمد کو سنایا کہ یہ لڑکی کس طرح اس کے پاس پہنچی ہے اور حسن بن صباح سے انتقام لینے کے لیے بے تاب ہے ابومسلم رازی نے حمیرا کو بلا لیا وہ آئی تو اس کا تعارف محمد سے کرایا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا حمیرا ابومسلم رازی نے کہا محمد کچھ دن یہاں رہے گا اس میں وہی جذبہ اور وہی خیالات ہیں جو تمہارے ہیں اس کی میزبانی تم نے کرنی ہے اسے کمرے میں لے جاؤ اور اس کا خیال رکھنا محمد اور حمیرا اٹھے اور کمرے سے نکل گئے دونوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیسی سنسنی خیز کہانی کے کردار بننے جارہے ہیں…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……



www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%a8%d9%86-%d8%b5%d8%a8%d8%a7%d8%ad-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%8f%d8%b3%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%aa%db%94%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9-8/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 6 https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/#respond Sun, 28 Jul 2024 16:19:02 +0000 https://urducover.com/?p=5020 Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔پارٹ 6

قسط نمبر:21 }
سلطان ملک شاہ نے سالار امیر ارسلان کو حکم تو دے دیا تھا کہ حسن بن صباح کو زندہ پکڑ لائے، لیکن حسن بن صباح کا سراغ نہیں مل رہا تھا کہ وہ ہے کہاں؟
سلطان نے امیر ارسلان سے یہ کہا تھا کہ حسن بن صباح کا سراغ لگاؤ اور اسے پکڑو
کیا آپ کو معلوم ہے وہ ہے کہاں؟
مزمل آفندی نے جو میمونہ اور شمونہ کے ساتھ تھا ابو مسلم راضی سے پوچھا
نہیں ابومسلم رازی نے جواب دیا یہی ایک سوال ہے جس کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں ایک خبر ملی تھی کہ وہ مصر چلا گیا ہے اور یہ خبر بھی ملی ہے کہ مصر سے واپس آ گیا ہے
ہم اسے بغداد چھوڑ آئے ہیں مزمل آفندی نے کہا
اور یہ میں آپ کو بتا دیتی ہوں میمونہ نے کہا کہ وہ مصر سے واپس آ گیا ہے اور اصفہان جا رہا ہے میں اسکندریہ سے اپنے خاوند کے ساتھ اس کی ہمسفر تھی یہ میرا دوسرا خاوند تھا اسے حلب میں حسن بن صباح نے قتل کروا دیا تھا
قتل کروا دیا تھا؟
ابو مسلم رازی نے چونک کر پوچھا وہ کیسے؟
میمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا
اور پھر اس نے مجھے اپنے اثر میں لے لیا میمونہ نے کہا اس نے ایسے انداز اور ایسے طریقے سے میرے ساتھ باتیں کیں کہ میں اسے خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہوا فرشتہ سمجھنے لگی میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ میرے خاوند کی جان ایک بدروح نے لی ہے اور یہ بد روح میری بھی جان لے گی اور اس بزرگ و برتر شخصیت حسن بن صباح نے مجھے اس روح سے محفوظ کرلیا ہے
کیا اس نے تمہیں اپنے ساتھ رکھ لیا تھا؟
ابو مسلم رازی نے پوچھا
سرائے میں وہ الگ کمرے میں رہتا تھا میمونہ نے جواب دیا میں اس کے ساتھ اس کمرے میں رہنے لگی تھی
میں حیران ہوں کہ تم اس کے چنگل سے نکل کس طرح آئی؟
ابومسلم رازی نے کہا
مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی کی رہنمائی اور مدد سے وہاں سے نکلی ہوں میمونہ نے کہا
میمونہ نے تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح مزمل آفندی اور اس کے بڑے بھائی سے اتفاقیہ ملی تھی اور بڑے بھائی نے اسے حسن بن صباح کی اصلیت بتائی تھی
امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا ہم اصفہان کے رہنے والے ہیں تجارت ہمارا پیشہ ہے ہم شہر شہر قصبہ قصبہ جاتے ہیں لوگوں سے ملتے ملاتے ہیں اور ہم اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے والے مسلمان ہیں اس لیے ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہاں غور سے دیکھتے ہیں کہ کہیں اسلام کی روح کو مسخ تو نہیں کیا جا رہا
ان قلعوں کے علاقوں میں تم نے کیا دیکھا ہے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
ان علاقوں میں لوگ حسن بن صباح کو خدا کا ایلچی سمجھتے ہیں مزمل آفندی نے کہا اور ان کا عقیدہ ہے کہ حسن بن صباح آسمان سے زمین پر اترا تھا اور پھر آسمان پر چلا گیا ہے اور ایک بار پھر اس کا ظہور ہوگا
ہمیں معلوم ہوچکا ہے ابو مسلم رازی نے کہا لیکن ہم لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے لوگ تو کھیتی کی مانند ہیں کھیتی ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے حشیش کا پودا بھی کھیتی اگاتی ہے اور حنا بھی کھیتی ہی دیتی ہے ہم اسے پکڑیں گے جو حنا پیدا کرنے والی زمین میں حشیش کا بیج بوتا ہے
مجھے ایک شک ہے امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا ایسے لوگوں کو آپ فوج کہیں یا احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے جانباز پیروکار کہہ لیں انہیں حشیش پلائی جاتی ہے اور نشے کی حالت میں ان کے دماغوں میں وہ لوگ اپنے بے بنیاد عقیدے ڈالتے ہیں دوسرے لوگوں کی تو انہوں نے کایا پلٹ دی ہے محصولات اور مالیہ اس قدر کم کر دیا گیا ہے جو انتہائی غریب کسان نہایت آسانی اور خوشی سے دیتا ہے
وہ محصولات اور مال یہ بالکل معاف کر سکتے ہیں ابومسلم رازی نے کہا قافلے لوٹ لوٹ کر انہوں نے قارون کے خزانے اکٹھے کر لئے ہیں اور ابھی تک ان کی لوٹ مار جاری ہے قتل و غارت گری ان لوگوں کا دستور ہے اس عورت کو دیکھو اس کی اس بیٹی شمونہ کو حسن بن صباح کے ڈاکوؤں نے چھوٹی سی عمر میں اغوا کر لیا تھا ،اس کی ماں کو دیکھو اس کے دو خاوند ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔
امیر محترم! مزمل آفندی نے پوچھا آپ کے سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے کب روانہ ہو رہے ہیں؟
میں ضروری نہیں سمجھتا کہ تمہیں اس سوال کا جواب دو ابومسلم رازی نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بغداد سے اس قافلے نے کب روانہ ہونا تھا ؟
ابھی اس کی روانگی کی کوئی آثار نہیں تھے مزمل آفندی نے جواب دیا اگر روانہ ہو بھی چکا ہو تو ابھی راستے میں ہی ہوگا
تم یقیناً اپنے بھائی کے پاس جانا چاہو گے؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
یقیناً! مزمل آفندی نے کہا وہ میرے لئے پریشان بھی ہوں گے، مگر میں ایک خطرہ محسوس کر رہا ہوں میں اس خاتون کو وہاں سے لایا ہوں یہ دراصل حسن بن صباح کے قبضے میں تھی اسے میں اس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لایا ہوں ہوسکتا ہے حسن بن صباح پر یہ راز کھل جائے تو کیا وہ مجھے قتل نہیں کرا دے گا؟
تم اکیلے نہیں جاؤ گے ابومسلم رازی نے کہا میں مرو جا رہا ہوں سلطان سے کہوں گا کہ سالار امیر ارسلان کو فوراً بغداد بھیج دیں اگر قافلہ اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا ہو تو اس کا تعاقب کرے اور حسن بن صباح کو پکڑ کر لے آئے تمہیں اس کے ساتھ جانا پڑے گا میرا خیال ہے امیر ارسلان اس کو نہیں پہچانتا یہ تم اسے بتاؤ گے وہ تمہیں اپنی پناہ میں رکھے گا تمہیں یہاں تین یا چار دن رکنا پڑے گا امیر ارسلان یہاں آ کر روانہ ہوگا

ابومسلم رازی اسی روز مرو کو روانہ ہوگیا اس کے حکم سے مزمل آفندی کی رہائش کا انتظام کردیا گیا تھا شمونہ کو ابومسلم رازی نے اپنے مکان میں ٹھہرایا ہوا تھا میمونہ اس کے ساتھ چلی گئی
مزمل آفندی نے جس وقت شمونہ کو دیکھا تھا اس کی نظریں شمونہ سے ہٹ نہیں رہی تھی شمونہ بہت ہی حسین لڑکی تھی لیکن اس کے چہرے پر ایک تاثر اور بھی تھا مزمل آفندی محسوس کر رہا تھا کہ اس لڑکی کا حسن صرف جسمانی نہیں اس لڑکی میں اسے کوئی اور ہی پَر تو نظر آ رہا تھا
مزمل آفندی اپنے کمرے میں گیا تو وہ اپنے آپ میں ایسی ہلچل محسوس کر رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی وہ بے قرار سا ہوتا گیا اور سوچنے لگا کے کس بہانے وہ ماں بیٹی کے کمرے میں جائے وہ تین چار بار اس توقع پر نکلا شاید ماں یا بیٹی باہر نکلے تو اس کے پاس آ جائے یا اسے بلا لے اس نے میمونہ پر بہت بڑا احسان کیا تھا
شام گہری ہونے کے بعد مزمل آفندی کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آگئی مزمل آفندی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ شمونہ اس کے کمرے میں آئی ہے
میں تمہارے چہرے پر حیرت کا تاثر دیکھ رہی ہوں شمونہ نے کہا کیا تمہیں عجیب لگا ہے کہ میں رات کے وقت تمہارے کمرے میں آئی ہوں؟
ہاں شمونہ! مزمل آفندی نے کہا مجھے تمہارا یہاں آنا عجیب لگا تھا لیکن جس بے باکی سے تم نے پوچھا ہے اسے میری حیرت ختم ہوگئی ہے میں تمہیں حرم کی ایک عام سی لڑکی سمجھا جو بچپن میں اغوا ہوکر یہاں تک پہنچی ہے
میں اغوا ہوئی تھی شمونہ نے کہا لیکن میں کسی کے حرم میں قید نہیں ہوئی نہ مجھے جسمانی تفریح کا ذریعہ بنایا گیا تھا بلکہ مجھے ایسی تربیت دی گئی کہ میں پتھر دل آدمی کو موم کی طرح پگھلا کر اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکتی ہوں
تمہیں یہ تربیت کس نے دی تھی؟
مزمل آفندی نے پوچھا
حسن بن صباح کے ٹولے نے شمونہ نے جواب دیا لیکن مزمل میں تمہیں یہ داستان سنانے نہیں آئی کہ میں کیا تھی اور اب کیا ہوں
ساری داستان نہ سہی مزمل آفندی نے کہا میں کچھ نہ کچھ تو ضرور معلوم کرنا چاہوں گا جس طرح تم نے میرے ساتھ بے باکی سے بات کی ہے اسی طرح میں بھی تھوڑی سی بے باکی کا حق رکھتا ہوں اگر تمہیں اچھا نہ لگے تو مجھے روک دینا
آفندی! شمونہ نے کہا مجھے وہ انسان اچھا لگتا ہے جس کی زبان پر وہی ہو جو اس کے دل میں ہے
شمونہ! مزمل آفندی نے کہا میری زبان پر تمہارا نام ہے اور میرے دل میں بھی تم ھی ہو میں نے تمہیں آج ہی دیکھا ہے اور میرے دل نے کہا ہے کہ اس لڑکی کا حسن جسمانی نہیں روحانی ہے اور خدا کی قسم میں نے یقین کی حد تک محسوس کیا کہ میں تمہیں بچپن سے جانتا ہوں اور بچپن سے تم میرے دل میں موجود ہو اگر تمہیں میری نیت پر شک ہو تو یہ سوچ لینا کہ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تمہاری ماں کو یہاں لایا ہوں اور اسے میں اس لیے نہیں لایا کہ تم خوش ہو جاؤ گی تمہیں تو میں جانتا تک نہ تھا میں ایک مظلوم اور فریب خوردہ عورت کو ایک ابلیس کے جال سے نکال کر لایا ہوں یہ کہتی تھی کہ میری بیٹی سلجوقی سلطان یا کسی امیر کے پاس ہے میں اسے محض خواب اور خیال سمجھتا تھا میں تو یہ سوچ کر اسے لے آیا تھا کہ اسے ابومسلم رازی کی پناہ میں چھوڑ کر لوٹ جاؤنگا
میں تمہاری بات سمجھ گئی ہوں آفندی! شمونہ نے کہا مجھے یقین ہے کہ تم میری خاطر نہیں آئے
یہ تو اتفاق ہے مزمل آفندی نے کہا اسے معجزہ کہو تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ تم یہاں مل گئی
یہ اللہ کا انعام ہے شمونہ نے کہا اللہ نے میری توبہ قبول کر لی ہے میرے دماغ میں ابلیسیت ڈالی گئی تھی اور میرے خیالات اور میرے کردار کو ابلیسیت کے سانچے میں ڈھال دیا گیا تھا لیکن ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ میں ہوش میں آ گئی مجھے امید نہیں تھی کہ اپنے آپ کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرکے انسانیت کے دائرے میں داخل ہو سکوں گی لیکن مجھ پر یہ راز کھلا ہے کہ انسان آخر انسان ہے اور وہ اول آخر انسان رہتا ہے کبھی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ انسان ابلیسیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے یا ایسے انسانوں کے نرغے اور اثر میں آجاتا ہے کہ اسے ابلیسیت میں لذت حاصل ہوتی ہے اور وہ ابلیس کا پوجاری بن جاتا ہے لیکن وہ رہتا انسان ہی ہے وہ ابلیس نہیں بن جاتا یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ ارادہ کرلے اور یہ سمجھ لے کے اللہ نے اپنی نگاہ میں انسان کو کتنا اونچا مقام دیا ہے تو وہ ایک جھٹکے سے ابلیس کے چنگل سے نکل کر اللہ کے قریب ہو سکتا ہے یہ میں نے کیا اور اللہ نے یہ انعام دیا کہ مجھے میری بچھڑی ہوئی ماں دے دی
یہ عمر اور یہ حُسن مزمل آفندی نے کہا اور یہ سنجیدگی کیا تمہیں یہ سنجیدگی اچھی نہیں لگی؟
شمونہ نے پوچھا
یہی تو مجھے اچھی لگی ہے مزمل آفندی نے کہا تم چاہتی ہو کہ جو دل میں ہو وہی زبان پر آئے میرے دل کی آواز سن لو شمونہ! میرے دل میں تمہاری وہ محبت پیدا ہو گئی ہے جس کا تعلق روح کے ساتھ ہے اور تم نے ایسی محبت کے قصے سنے ہونگے
شمونہ چونک پڑی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا جیسے وہ خوفزدہ ہوگئی ہو وہ آنکھیں پھاڑے مزمل آفندی کو دیکھنے لگی جیسے اس جواں سال اور خوبرو آدمی نے اسے کہہ دیا ہو کہ میں تمہیں قتل کر دوں گا
کیوں شعمونہ ؟
مزمل آفندی نے کہا کیا میں نے تمہارے دل کو تکلیف پہنچائی ہے
نہیں آفندی! شمونہ نے کہا مجھے شک ہے کہ میری محبت اور موت میں کوئی زیادہ فرق نہیں
مزمل آفندی سراپا سوال بن گیا؟
آج میں کچھ اور کہنے آئی تھی شمونہ نے کہا میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم میری ماں کو لے آئے ہو اور اس سے زیادہ اللہ کی شکر گزار ہوں کہ ماں نے مجھے انسان کے روپ میں دیکھا ہے اس سے پہلے دیکھتی تو کہتی نہیں یہ میری بیٹی نہیں
وہ اٹھ کھڑی ہوئی
تم جا رہی ہوں؟
مزمل آفندی نے کہا میں کیا سمجھوں ناراض ہو کر جا رہی ہو؟
کل آؤنگی آفندی! شمونہ نہ قدر خوشگوار لہجے میں جواب دیا میں ناراض نہیں ہوں تمہاری نیت سمجھ گئی ہوں میں چہرے سے نیت معلوم کر لیا کرتی ہوں میں نے تمہارے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنی ہے
شمونہ چلی گئی
اگلے روز کا سورج طلوع ہوا مزمل آفندی ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا شمونہ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ اس کے کمرے میں آگئی
مزمل! میمونہ نے کہا میری بیٹی نے بتایا ہے کہ تم نے اسے اپنے لیے پسند کیا ہے
نہیں! مزمل نے کہا اپنے لیے پسند کرنے کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے شمونہ بازار کی کوئی چیز نہیں کہ یہ مجھے پسند آگئی ہے اور میں یہ چیز خرید لوں گا صاف بات یہ ہے کہ میں اس کی محبت کا اسیر ہو گیا ہوں اور یہ محبت میری روح میں اتر گئی ہے اگر شمونہ مجھے قبول نہیں کرے گی تو میری روح سے اس کی محبت نکل نہیں سکے گی
تمہیں قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ شمونہ کرے گی میمونہ نے کہا اور پوچھا کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہو؟
شادی صرف اس صورت میں کروں گا کہ یہ میری محبت کو قبول کرلے مزمل آفندی نے کہا لیکن قابل احترام خاتون! میں ابھی شادی کی بات ہی نہیں کروں گا پہلے وہ مہم سر کروں گا جس کے لیے میں یہاں روکا ہوں حسن بن صباح کی گرفتاری سلطان نے حکم دیا ہے کہ حسن بن صباح کو زندہ اس کے سامنے لایا جائے لیکن وہ میرے سامنے آگیا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا میری تلوار اس کے خون کی پیاسی ہے
اس لئے کہ اس نے میرے پہلے خاوند کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کروایا تھا ؟
میمونہ نے پوچھا اور اس لیے کہ اس نے میرے دوسرے خاوند کو بھی قتل کروایا ہے کیا تم ہم ماں بیٹی کو خوش کرنا چاہتے ہو؟
نہیں! مزمل آفندی نے جواب دیا میں اللہ کو اور اللہ کے رسولﷺ کو خوش کرنا چاہتا ہوں حسن بن صباح نے بے شمار عورتوں کو بیوہ اور بے شمار بچوں کو یتیم کیا ہے اور وہ اسلام کی روح کو قتل کر رہا ہے
آفندی! شمونہ بے اختیار بولی اگر تم اس ابلیس کو قتل کر دو تو خدا کی قسم اپنا جسم اور اپنی روح تمہارے قدموں میں ڈال دوں گی
میں نے اسے اپنے دو خاوندوں کے قتل کا انتقام لینا ہے میمونہ نے کہا اور اس نے میری بیٹی کو جو تربیت دی ہے اور اس سے جو قابل نفرت کام کروائے ہیں میں نے اس کا بھی انتقام لینا ہے
لیکن ماں شمونہ نے کہا کیا آپ محسوس نہیں کر رہی ہیں کہ آپ بھی اور آفندی بھی جذباتی باتیں کر رہے ہیں کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنی آسانی سے آپ قتل کے ارادے کی باتیں کر رہی ہیں میں اس کے ساتھ رہی ہوں کوئی شخص اس کے پاس اسے قتل کرنے کے ارادے سے جائے گا تو وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ اس شخص کو قتل کروں یا نہ کروں
میں اس کی یہ طاقت دیکھ چکی ہوں میمونہ نے کہا میں اسے طاقت نہیں جادو کہوں تو غلط نہیں ہوگا
طاقت کہوں یا جادو شمونہ نے کہا اسے جتنا میں جانتی ہوں اتنا آپ دونوں نہیں جانتے میں کہہ رہی ہوں کہ اسے قتل کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچنا پڑے گا اسے پکڑنے کے لیے فوج بھیجی جا رہی ہے میں آپ کو بتاتی ہوں وہ نہیں پکڑا جائے گا اگر پکڑا گیا تو بڑا ہی خوبصورت دھوکہ دے کر نکل جائے گا اسے قتل کرانے کے لیے قرامطیوں کو استعمال کیا جائے تو کامیابی کی امید رکھی جاسکتی ہے
یہ تم کیسے کہہ سکتی ہوں ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
یہ میں اس لیے کہہ سکتی ہوں کہ میں حسن بن صباح کے ساتھ رہی ہوں شمونہ نے جواب دیا اس نے تین چار بار یہ الفاظ کہے تھے کہ صرف قرامطی ہیں جن سے میں خطرہ محسوس کرتا ہوں میں نے اسے وجہ پوچھی تو اس نے کہا تھا کہ قرامطی خونخوار لوگ ہیں اور اس کی تاریخ قتل و غارت گری سے بھری پڑی ہے حسن بن صباح نے مجھے بتایا تھا کہ قرامطیوں نے خانہ کعبہ میں بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا
لیکن اب قرامطیوں میں وہ بات نہیں رہی میمونہ نے کہا
میں حسن بن صباح کی بات کر رہی ہوں شمونہ نے کہا وہ کسی سے نہیں ڈرتا خدا سے بھی نہیں ڈرتا لیکن اس کے دل میں قرامطیوں کا خطرہ موجود رہتا ہے ایک بار اس نے مجھے ایک ماں بیٹے کا قصہ سنایا اور کہا تھا کہ یہ سچا واقعہ ہے اس کا راوی بغداد کا ایک مشہور طبیب ابولحسین ہے جو عرصہ ہوا فوت ہوگیا ہے اس کا سنایا ہوا یہ واقعہ کاتبوں نے تحریر کر لیا تھا
اس طبیب کے پاس ایک عورت گئی اس کے شانے پر تلوار کا گہرہ اور لمبا زخم تھا وہ زخم کی مرہم پٹی کرنے گئی تھی طبیب نے پوچھا کہ یہ زخم کیسے آیا ہے عورت نے زارو قطار روتے ہوئے کہا کہ اس کا ایکلوتا اور نوجوان بیٹا کچھ عرصے سے لاپتہ ہے وہ شہروں اور قصبوں کی خاک چھانتی پھری مگر بیٹے کا کھوج نہ ملا
وہ شہر رَقّہ میں تھی بیٹا وہاں بھی نہیں تھا کسی نے اسے کہا کہ وہ بغداد جائے شاید بیٹا وہاں مل جائے ماں بغداد کو روانہ ہوگئی تھکی ہاری بغداد کے قریب پہنچی تو اسے اپنا بیٹا نظر آیا وہ قرامطیوں کے ایک لشکر کے ساتھ جا رہا تھا اسے دیکھ کر ماں کی تھکان ختم ہوگئی اس نے بیٹے کو پکارا بیٹا اسے دیکھتے ہی لشکر سے نکل آیا ماں نے اسے گلے لگا لیا پھر اس سے خیر خیریت پوچھی اور گلے شکوے کرنے لگی کہ وہ ماں کو بھول گیا ہے
بیٹا بولا فضول باتیں بند کرو ماں! یہ بتاؤ تمہارا دین کیا ہے ؟
ماں نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا کیا باہر گھوم گھوم کر دین سے پردیسی ہو کر تیرا دماغ صحیح نہیں رہا میں اسی دین کو مانتی ہوں جسے پہلے مانتی تھی میرا دین اسلام ہے سب مذہبوں میں سچا مذہب اسلام ہے بیٹا پھٹ کر بولا غلط بات مت کہوں ماں! وہ باطل ہے جس کو ہم سچا دین مانتے رہے ہیں سچا دین یہ ہے جس کا اب میں پجاری ہوں یہ ہے قرامطی دین اگر تم اسلام کو مانتی ہوں تو قرامطی اسلام کو مانو
ماں کے تو جیسے ہوش ہیں اڑ گئے بیٹے نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے خلاف ایک بے ہودہ بات کہہ دی ماں نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کانوں کو ہاتھ لگا توبہ کر اور اللہ سے معافی مانگ بیٹے نے ماں کو غصے سے گھورا اور اپنے لشکر سے جاملا ماں کو جس بیٹے کی جدائی نے پاگل کر رکھا تھا اور جو بستی بستی قریہ قریہ بیٹے کو ڈھونڈتی پھرتی تھی بیٹے کو لشکر کے ساتھ جاتا دیکھتی رہ گئی
شہر بغداد قریب تھا ماں بغداد چلی گئی وہ روتی اور فریاد کرتی تھی اسے اپنے جیسی ایک عورت مل گئی اس نے اس مجبور ماں سے پوچھا کہ وہ کونسا دکھ ہے جو اسے اتنا رولا رہا ہے ماں نے حال دل کہہ سنایا عورت نے اسے بتایا کہ وہ ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور قرامطیوں کی قید میں بھی رہ چکی ہے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ دین اسلام سے منحرف نہیں ہوئی
ہاشمی خاندان کی یہ خاتون اس غمزدہ ماں کو اپنے گھر لے جا رہی تھی کہ قرامطی بیٹا پھر سامنے آگیا اس نے ماں سے پوچھا تو نے دین اسلام کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟
ماں نے کہا میں نے اپنے گمراہ بیٹے کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے بیٹے نے بڑی تیزی سے تلوار نیام سے نکالی اور للکار کر کہا میں اپنی ماں کو قرامطی دین پر قربان کرتا ہوں یہ کہہ کر اس نے ماں پر تلوار کا زوردار وار کیا ماں وار بچا تو گئی لیکن تلوار اس کے شانے پر پڑی اور زخم گہرا آیا کچھ لوگوں نے دوڑ کر بیٹے کو پکڑ لیا ماں قتل ہونے سے بچ گئی اور طبیب ابوالحسین کے یہاں جا پہنچی
یہ واقعہ ابن اثیر نے “تاریخ کامل” کی ساتویں جلد کے صفحہ 173 پر لکھا ہے اس کی تحریر کے مطابق اس واقعے کا اختتام یوں ہوا تھا کہ قرامطی تعداد میں تو بہت زیادہ ہوگئے تھے لیکن بغداد میں ابھی ان کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی اپنی ماں پر قاتلانہ حملہ کرنے والا بیٹا پکڑا گیا ایک روز ماں طبیب سے مرہم پٹی کرا کے آ رہی تھی اس نے قیدیوں کی ایک ٹولی دیکھی ہر قیدی کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں ان میں زخمی ماں کا بیٹا بھی تھا ماں نے بیٹے کو دیکھا اور چلا کر بولی اللہ تجھ سے بھلائی نہ کرے جس نے اپنے سچے دین کو باطل کہا اور رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کی توہین کی اس قید سے تو کبھی آزاد نہ ہو
حسن بن صباح نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا شمونہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا وہ کہتا تھا کہ میں اس قسم کے پیروکار چاہتا ہوں جو اپنے عقیدے پر خواہ یہ عقیدہ باطل ہی ہو اپنی ماں کو اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بھی ذبح کردے
ہم قرامطیوں کو کہاں سے لائیں؟
مزمل آفندی نے کہا
مل جائیں گے شمونہ نے کہا میں امیر شہر سے بات کروں گی لیکن ابھی نہیں ابھی وہ فوج بھیج رہے ہیں خدا کرے وہ پکڑا جائے اگر نہ پکڑا گیا تو میں قرامطیوں کا انتظام کرو گی
شمونہ! مزمل آفندی نے کہا اگر میں وہی کام کر دوں جو تم سمجھتی ہو کہ قرامطیوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا تو
تو جو انعام مانگو گے امیر شہر سے دلواؤنگی شمونہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا
نہیں شمونہ! مزمل آفندی نے جذباتی سے لہجے میں کہا میں نے کسی امیر کسی وزیر اور کسی سلطان سے انعام نہیں لینا
اس نے شمونہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا میمونہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ماں بیٹی کمرے سے نکل گئی
امیر شہر کے محل نما مکان کے عقب میں کچھ دور بڑا ہی خوشنما باغ تھا جس میں شہر کے لوگ داخل نہیں ہو سکتے تھے اس میں گھنے پھول دار پودے تھے گھنی بیلیں اور سارے باغ پر سائے کی ہوئے درخت بھی تھے اور یہ درخت تعداد میں بہت زیادہ تھے بعض بیلیں اس طرح درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں کہ سبزے کے غار سے بنے ہوئے تھے
اسی دن کا پچھلا پہر تھا شمونہ مزمل آفندی کے کمرے میں آئی اور یہ کہہ کر چلی گئی میں باغ میں جا رہی ہوں وہاں آ جاؤ
تھوڑی ہی دیر بعد وہ دونوں باغ کے ایک بہت ہی دل نشین اور ڈھکے چھپے گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے
کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے میری محبت کو قبول کرلیا ہے شمونہ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
میں نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا تو نہیں شمونہ نے کہا لیکن مزمل میں تمہیں خبردار کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ میری محبت تمہیں راس نہیں آئے گی حسن بن صباح کے یہاں مجھے ایک بڑی ہی خوبصورت دھوکہ بنایا گیا تھا اور مجھے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی کو جال میں لینا ہو اس پر نشہ بن کر طاری ہو جاؤ اور اسے ہوش ہی نہ آنے دوں کہ وہ ایک بڑے ہی خطرناک دھوکے میں آ گیا ہے میں نے یہ کمال حاصل کیا اور مرو میں اپنے اس کمال کو آزمایا اور ایک ایسے آدمی کی عقل کو اپنی مٹھی میں لے لیا جو بلا شک و شبہ زاہد پارسا اور دانشمند تھا میرا راز فاش ہونے کی وجہ کچھ اور تھی میں نے حسن بن صباح کا راز بھی فاش کر دیا
یہاں آگئی اور امیر شہر ابومسلم رازی سے پناہ مانگ انہوں نے مجھے پناہ میں لے لیا میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے اندر انسانیت زندہ ہے میں نے اپنی فطرت کو ابلیسی اوصاف سے پاک کرنے کا عزم کرلیا ابو مسلم نے مجھے ایک ایسے عالم دین کے حوالے کر دیا جو واقعی عالم دین تھا میں نے اسے اپنا پیر و مرشد مان لیا وہ تو تاریک الدنیا تھا میں نے اس کی بہت خدمت کی لیکن ہوا یہ کہ میری روح کی پیاس بجھتی گئی اور میرے پیرومرشد کی روح میں تشنگی پیدا ہوتی گئی شمونہ نے مزمل آفندی کو نوراللہ کا سارا واقعہ سنایا
میں جانتی ہوں اس نے اپنے آپ کو سزائے موت دی تھی شمونہ نے کہا وہ تو مر گیا لیکن میری ذات میں یا میری روح میں عجیب سی بے چینی اور تلخی پیدا ہوگئی مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوگئی میرے دماغ پر یہ خیال غالب آگیا کہ ہر عورت یا ہر خوبصورت عورت کے ساتھ شیطان کا تعلق ضرور ہوتا ہے ابومسلم رازی نے کہا تھا کہ ایک خوبصورت عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کے ایمان کو سلا کر اس میں ابلیسیت کو پیدا کر سکتی ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ان کا ابلیس کچھ نہیں بگاڑ سکتا
تم نے مجھے یہ واقعہ کیوں سنایا ہے ؟
مزمل آفندی نے پوچھا
اس لئے کہ میرے دل نے تمہاری محبت کو قبول کرلیا ہے شمونہ نے کہا تم عام سے امیر زادے ہوتے تو اور بات تھی لیکن میں تم میں کوئی ایسا جذبہ دیکھ رہی ہوں جو ہر کسی میں نہیں ہوتا میں ڈرتی ہوں کہ تم نے مجھے خوبصورت لڑکی سمجھ کر میری محبت کا نشہ اپنے دل پر طاری کر لیا ہے تو میں اپنے آپ کو اس گناہ کی گنہگار سمجھو گی کبھی تو خدا سے گلہ شکوہ بھی کرتی ہوں کہ مجھے عورت کیوں بنایا تھا؟
اگر میں یہ تفصیل سے سناؤں کہ میں بچپن میں اغوا ہوئی تھی تو اس عمر سے لے کر جوان ہونے تک مجھے کیسی تربیت ملی اور میں نے کیسی زندگی گزاری ہے تو تم آج بھی مجھ پر اعتبار نہ کرو تم آج بھی مجھے ایک دلکش دھوکا کہو گے لیکن میں تمہیں بتاتی ہوں کہ میری ذات میں جو انقلاب آیا ہے اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں یہ ایک معجزہ ہے میں نے یہ راز پا لیا ہے کہ خدا مجھ سے اپنے عظیم اور سچے دین کے لیے کوئی کام کروانا چاہتا ہے
معلوم نہیں تم نے یہ راز بھی پایا ہے یا نہیں؟
مزمل آفندی نے کہا اللہ کی ذات باری نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں اور میں تمہیں یہ بھی بتا دو کہ میری تمہارے ساتھ یہ ملاقات جو غیر متوقع طور پر اور انہونے طریقے سے ہوئی ہے اس کا کوئی خاص مقصد ہے اور یہ مقصد اللہ کی ذات باری نے متعین کیا ہے تم نے ٹھیک کہا ہے کہ میں اپنے دل پر تمہیں صرف خوبصورت لڑکی سمجھ کر محبت کا نشہ طاری نہ کرو نہیں شمونہ! میں ایسا نہیں کروں گا میں نے تمہیں پہلے کہا تھا کہ میں نے تم میں کوئی خاص بات دیکھی ہے
میں تمہیں وہ خاص بات بتا دیتی ہوں شمونہ نے کہا میں حسن بن صباح کو قتل کرنا چاہتی ہوں اس نے میرے دو باپ قتل کروائے ہیں ایک سگا دوسرے سوتیلا اس نے میری ماں کو دوبارہ بیوہ کیا ہے یہ تو میرا ذاتی معاملہ ہے دوسرا معاملہ اسلام کا ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان اور اسلام کا شیدائی ظاہر کر رہا ہے لیکن وہ اسلام کی جڑیں کاٹ رہا ہے ایک بات اور بھی ہے اس نے میرے قتل کا حکم دے رکھا ہے اس نے مجھے ایک شخص کے گھر میں قیدی کی حیثیت سے رکھا تھا اس شخص کی بیوی کو پتہ چل گیا کہ مجھے قتل کیا جائے گا اس نے مجھے رات کو فرار کرا دیا اور میں امیر شہر ابومسلم رازی کے پاس آ گئی
یہی عزم میرا ہے مزمل آفندی نے کہا یہ کام میں نے کرنا ہے اگر میں اس مہم میں ناکام رہا اور مارا گیا تو یہ کام کرنے کی کوشش کرنا میں اپنی زندگی میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا میں فوج کے ساتھ جا رہا ہوں سالار امیر ارسلان حسن بن صباح کو سلطان کے حکم کے مطابق زندہ پکڑنے کی کوشش کرے گا اور پکڑ بھی لے گا لیکن میں اسے وہی قتل کر دوں گا
حسن بن صباح کے قتل کی باتیں کرتے ہوئے یہ ایک دوسرے میں گھل مل گئے اور جذباتی باتوں پر آگئے شمونہ جب وہاں سے نکلی تو وہ مزمل آفندی کی محبت سے سرشار تھی
تین چار دنوں بعد ابو مسلم رازی نے مزمل آفندی کو بلایا سالار امیر ارسلان آ گیا تھا
پانچ سو سواروں کا دستہ آگیا ہے ابومسلم رازی نے مزمل آفندی کو بتایا آج ہی جتنی جلدی ہو سکے روانہ ہونا ہے اگر قافلہ بغداد سے نکل گیا ہو تو اس کے تعاقب میں جانا ہے تم حسن بن صباح کو پہچانتے ہو امیر ارسلان نے اسے کبھی نہیں دیکھا تم ہمارے مہمان ہو اور ہمارے لشکری یا ملازم نہیں ہوں اس لئے یہ فرض تم پر عائد نہیں ہوتا کہ وہاں اگر لڑائی ہو جائے تو تم بھی لڑو
کیا آپ کو توقع ہے کہ وہاں لڑائی ہوگئی؟
مزمل آفندی نے پوچھا
ہاں! ابومسلم رازی نے جواب دیا تم شاید نہیں سمجھتے جسے تم قافلہ کہہ رہے ہو اس میں حسن بن صباح کے باقاعدہ لڑنے والے آدمی بھی ہونگے
میں ایک بات کہوں گا امیر شہر! مزمل آفندی نے کہا اگر بات لڑائی تک آ گئی تو پھر میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ لڑنا میرا فرض ہے یا نہیں مجھے بتایا گیا ہے کہ سلطان معظم نے حسن بن صباح کو زندہ پکڑنے کا حکم دیا ہے لیکن امیر شہر! حسن بن صباح میرے سامنے آگیا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اسے زندہ ہی پکڑوں گا
چاہتا تو میں بھی یہی ہوں ابومسلم رازی نے کہا اس شخص کو میں بھی زندہ نہیں دیکھنا چاہتا بہرحال میری طرف سے تمہارے لیے کوئی حکم اور کوئی پابندی نہیں
دن کا پچھلا پہر تھا جب سالار امیر ارسلان کی قیادت میں پانچ سو سواروں کا دستہ رے سے کوچ کر گیا
انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ حسن بن صباح بغداد سے اس قافلے کو چھوڑ کر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اسی روز اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا تھا جس روز مزمل آفندی میمونہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکلا تھا
یہ بتانا مشکل ہے کہ پانچ سو سواروں کا یہ دستہ کتنے پڑاؤ کر کے اور کتنے دنوں بعد بغداد پہنچا اس دستے کی رفتار بہت ہی تیز تھی دستہ جب بغداد پہنچا تو پتہ چلا کہ قافلے کو یہاں سے روانہ ہوئے تین دن گزر گئے ہیں امیر ارسلان نے دستے کو کچھ دیر آرام دیا اور کچھ کھایا پیا اور وہاں سے قافلے کے تعاقب میں کوچ کر گئے
جو قافلہ تین دن پہلے روانہ ہوا تھا اس تک سوار دستے کو پہنچنے کے لیے کم از کم دو دن تو ضرور ہی لگنے تھے امیر ارسلان نے اپنے دستے کو صرف ایک پڑاؤ کرایا اور بڑی تیز رفتار سے قافلے کے تعاقب میں گیا
اس روز جس روز سواروں کا دستہ قافلے تک پہنچا سورج سر پر آ گیا تھا اور قافلہ ایک ہرے بھرے سرسبز علاقے میں سے گزر رہا تھا دو اونچی پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان کشادہ وادی تھی
امیر ارسلان اور مزمل آفندی دستے کے آگے آگے جا رہے تھے ان کا راستہ ایک پہاڑی کی ڈھلان پر تھا وہ ایک موڑ مڑے تو نیچے انہیں قافلہ جاتا نظر آیا قافلے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ تھے چند ایک گھوڑے اور کچھ اونٹ بھی تھے بعض اونٹوں پر کجاوے تھے ان میں بھی مسافر سوار تھے یہ مسافر یقیناً مالدار خاندانوں کی عورتیں تھیں سالار امیر ارسلان نے اپنے دستے کو روک لیا
تم بھی سوچو آفندی! امیر ارسلان نے مزمل آفندی سے کہا اگر ہم قافلے کے عقب سے گئے تو قافلے والے ہمیں ڈاکو سمجھ کر آگے کو بھاگ اٹھیں گے مجھے بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے ساتھی اتنے ہوشیار اور چالاک ہیں کہ وہ پہاڑیوں میں بکھر کر غائب ہو جائیں گے
یہ تو میں بھی جانتا ہوں مزمل آفندی نے کہا حسن بن صباح لومڑی کی خصلت کا انسان ہے مجھے تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتا ہے
قافلے کو گھیرے میں لیا جائے
سالار امیر ارسلان تجربے کا سالار تھا اس نے اپنے دستے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصے کے کمانڈر کو قافلہ دکھایا اور اسے کہا کہ وہ دور کا چکر کاٹ کر اس وادی کے اگلے حصے میں پہنچے اور قافلے کو اس طرح روک لے کہ کسی کو ادھر ادھر بھاگنے یا چھپنے کا موقع نہ ملے
امیر ارسلان خود دوسرے حصے کے ساتھ رہا اس نے ان سواروں کو اس وقت آگے لے جانا تھا جب دوسرے حصے نے قافلے کا راستہ روک لینا تھا دوسرے حصے کے کمانڈر نے بلندی پر کھڑے ہوکر قافلے کے ارد گرد کے علاقے کو دیکھا وہ اپنے لئے راستہ دیکھ رہا تھا
قافلے کو دیکھنے والے سوار پیچھے مڑے اور جس پہاڑی کی ڈھلانی راستے پر وہ آ رہے تھے اس پہاڑی سے اترے پہاڑیوں کے اندر اندر وہ دور تک چلے گئے امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو اس پہاڑی سے اتارا وہ بلند راستے پر اس خیال سے نہ چلے کہ قافلے میں سے کسی نے گھوم کے دیکھ لیا تو وہ سارے قافلے کو خبردار کر دے گا اور حسن بن صباح کو نکل بھاگنے کا موقع مل جائے گا قافلہ اپنی رفتار سے جا رہا تھا
اس پہاڑی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے قافلے کے چار پانچ آدمیوں نے قافلے کو روک لیا تھا اور کہا تھا کہ اب ہم بڑی خطرناک جگہ پر آگئے ہیں یہاں تین قافلے لُٹ چکے ہیں ڈاکو مال و دولت کے ساتھ جوان عورتوں کو بھی لے گئے تھے
تمام جوان آدمی چوکس ہو جاؤ ایک آدمی نے اعلان کیا جس کے پاس جو بھی ہتھیار ہے وہ ہاتھ میں رکھے اور اگر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا تو لڑنے والے تمام آدمی قافلے کے باہر باہر رہیں اور عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیں اور لوگ انہیں اپنے نرغے میں لے لیں اپنے آپ پر ڈاکوؤں کا خوف طاری نہ کر لینا دیکھا گیا ہے کہ لوگوں پر ڈاکوؤں اور رہزنوں کی دہشت طاری ہوجاتی ہے اور یہ دہشت اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ دہشت زدہ لوگ ڈاکووں کے آگے بھاگ نکلتے ہیں یا ہتھیار ڈال دیتے ہیں
دیکھتے ہی دیکھتے چار سو سے کچھ زیادہ نوجوان جواں سال اور ادھیڑ عمر آدمی قافلے سے الگ ہوگئے یہ سب لڑنے والے تھے اس دور میں لوگ تلواریں اس طرح اپنے ساتھ رکھتے تھے جیسے عورتیں زیور پہنتی ہیں ان میں زیادہ آدمیوں کے پاس تلواریں تھیں اور باقی جو تھے ان میں سے کچھ برچھیوں سے مسلح تھے اور بعض کے پاس خنجر تھے یہ سب آدمی قافلے کے پہلوؤں کے ساتھ کچھ قافلے کے آگے اور باقی قافلے کے پیچھے ہو گئے اس طرح قافلے کو اپنے حفاظتی حصار میں لے کر انہوں نے کہا کہ اب چلو
دو پہاڑیوں کے درمیان کشادہ وادی سے گزرتے قافلے کی تربیت یہی تھی قافلہ لڑنے والوں کے حصار میں تھا
عصر کا وقت تھا جب اچانک قافلے کے سامنے سے چند ایک سوار نمودار ہوئے قافلہ بہت ہی لمبا تھا
ھوشیار ہوجاؤ یہ بڑا ہی بلند اعلان تھا جو قافلے میں سے ایک آدمی نے کیا ڈاکو آگئے ہیں ڈرنا نہیں ہم لڑیں گے
ہم ڈاکو نہیں! سواروں کے کمانڈر نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا بےخوف ہو کر رک جاؤ
بزدلو ڈاکوؤ! قافلے میں سے للکار سنائی دی آگے بڑھو ہم تیار ہیں
سواروں کے کمانڈر نے تمام سواروں کو سامنے لانے کی بجائے یہ عقلمندی کی کہ سواروں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں پہاڑوں کی ڈھلانوں پر چڑھا دیا اور ساتھ ساتھ اعلان کیا کہ کوئی لڑنے کی حماقت نہ کرے ہم سلطان کی فوج کے سپاہی ہیں تمہیں حفاظت میں رکھنا ہماری ذمہ داری ہے
اتنے میں امیر ارسلان اپنے سواروں کو لے کر قافلے کے عقب میں پہنچ گیا اس نے جب اپنے دوسرے کمانڈر کی یہ عقلمندی دیکھی کہ اس نے گھوڑے ڈھلانوں پر چڑھا دیے تھے تو امیر ارسلان نے بھی اپنے سواروں کو قافلے کے پہلوؤں پر لے جانے کی بجائے ڈھلانوں کی بلندی پر رکھا قافلے میں قیامت برپا ہوگی عورتوں اور بچوں کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلانے لگی سواروں کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ وہ ڈاکو نہیں لیکن قافلے میں جو لڑنے والے جوان تھے وہ سواروں کو للکار رہے تھے سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی بلندی پر چلے گئے
میں سالار امیر ارسلان ہوں! اس نے اعلان کیا حسن بن صباح اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ میرے سامنے آجائے حسن بن صباح تم خود میرے سامنے آ جاؤ گے تو زندہ رہو گے اور اگر ہم نے تمہیں خود ڈھونڈ کر پکڑا تو پھر میں تمہیں زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا
اس اعلان کے جواب میں بھی دو تین جوشیلے جوانوں نے للکار کر کہا کہ وہ دھوکے میں نہیں آئیں گے اور پورا مقابلہ کریں گے
قافلے والوں! مزمل آفندی نے بلندی سے اعلان کیا مجھے دیکھو اور پہچانو میں نے تمہارے ساتھ بغداد تک سفر کیا ہے میرا بڑا بھائی اس کی بیوی اور بچے اس قافلے میں شامل ہیں کیا تم مجھے بھی ڈاکو سمجھتے ہو؟
مزمل آفندی کا بڑا بھائی ان میں سے نکلا اور دوڑتا ہوا ڈھلان پر چڑھ گیا مزمل آفندی گھوڑے سے کود کر اترا اور اپنے بڑے بھائی سے بغلگیر ہو کر ملا اس نے بھائی کو بتایا کہ یہ سلطان ملک شاہ کے فوجی ہیں اور حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے آئے ہیں
وہ اس قافلے میں نہیں ہے مزمل کے بڑے بھائی نے کہا سالار محترم! میرا یہ بھائی ایک خاتون کو حسن بن صباح کے جال سے نکال کر بغداد سے نکلا تھا تو اس کے فوراً بعد حسن بن صباح بغداد سے نکل گیا تھا
کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرف گیا تھا ؟
امیر ارسلان نے پوچھا
اس قافلے کے بہت سے لوگ اس کے معتقد اور مرید ہو گئے تھے مزمل کے بھائی نے جواب دیا یہ مشہور ہو گیا تھا کہ وہ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہے اور غیب کی خبریں دینے کی طاقت رکھتا ہے اس نے جہاز کو بڑے ہی تیز و تند سمندری طوفان سے نکال لیا تھا وہ جب بغداد سے روانہ ہونے لگا تو اس کے مریدوں نے اسے گھیر لیا اور پوچھا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے کچھ لوگ تو اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئے تھے لیکن اس نے سب کو روک دیا اور کہا تھا کہ اسے آسمان سے اشارہ ملا ہے کہ وہ فوراً اصفہان پہنچے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اصفہان جا کر اسے اللہ کی طرف سے ایک اور اشارہ ملے گا پھر وہ چلا گیا تھا
سالار امیر ارسلان نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اور نیچے اتر آیا وہ قافلے کے سامنے گیا مزمل آفندی اور اس کا بڑا بھائی اس کے ساتھ تھے اس نے قافلے کے ہر ایک آدمی کو دیکھا اور قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا گیا قافلہ تقریباً ایک میل لمبا تھا
حسن بن صباح کو پہچاننے کے لئے مزمل اور اس کا بھائی ساتھ تھے امیر ارسلان نے اونٹوں کے کجاوؤں اور پالکیوں کے پردے ہٹا کر دیکھا اور اس طرح دیکھتے دیکھتے قافلے کے دوسرے سرے تک چلا گیا چند اور آدمیوں سے حسن بن صباح کے متعلق پوچھا ان سب نے بتایا کہ حسن بن صباح اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کیرائے کے گھوڑوں اور ایک اونٹ کے ساتھ ان جانوروں کے مالکوں سمیت بغداد سے چلا گیا تھا اور اس کی منزل اصفہان تھی
سواروں نے قافلے کو ایسے گھیرے میں لے لیا تھا کہ کسی کو نکل بھاگنے کا موقع مل ہی نہیں سکتا تھا
سالار امیر ارسلان نے اعلان کروایا کہ قافلہ جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کروایا کہ قافلے پر ڈاکوؤں کا کوئی گروہ حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ یہ پانچ سو سوار اسی علاقے میں اصفہان تک موجود رہیں گے
امیر ارسلان نے اپنے سواروں کو بلا کر کوچ کی ترتیب میں کرلیا اور اصفہان کی طرف روانہ ہو گیا ان کے پیچھے پیچھے قافلہ بھی چل پڑا
سواروں کو اصفہان جلدی پہنچنا تھا اس لیے وہ قافلے سے دور آگے نکل گئے اور کچھ دیر بعد بڑی پہاڑیوں کے درمیان سے بھی نکل گئے علاقہ تو آگے بھی پہاڑی ہی تھا لیکن پہاڑیاں زیادہ اونچی نہیں تھیں بعض تو ٹیکریوں جیسی تھیں اور بکھری ہوئی تھیں
ان ٹیکریوں میں سے ایک گھوڑے کے سر پر دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں جو گھوڑے کی رفتار سے دور ہٹتی جا رہی تھیں اس کے ساتھ ہی ایک گھوڑا قافلے کے طرف سے سوار دستے کی طرف دوڑتا آیا اور سالار امیر ارسلان کے پہلو میں جا رکا
محترم سالار! سوار نے کہا قافلے میں سے ایک سوار نکلا اور اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی مجھے شک ہے کہ وہ حسن بن صباح کے آدمیوں میں سے تھا اور وہ اصفہان جا کر یا جہاں کہیں بھی وہ ہے اطلاع دینے گیا ہے کہ اس کی گرفتاری کے لیے ایک سالار آ رہا ہے
اس سوار کو پکڑنا ممکن نہیں تھا اس کے گھوڑے کے ٹاپ بھی اب سنائی نہیں دیتے تھے امیر ارسلان اپنے سوار دستے کو سرپٹ تو نہیں دوڑا سکتا تھا کہ وہ اس سوار کے ساتھ ساتھ اصفہان پہنچ جاتا اس نے سوار دستے کو ذرا تیز چلنے کا حکم دیا
اصفہان میں ایک بہت بڑا مکان تھا جس کی شکل و صورت ایک قلعے جیسی تھی حسن بن صباح کچھ دن پہلے وہاں پہنچا تھا اور اس نے احمد بن عطاش کو اپنی آمد کی اطلاع دی تھی احمد بن عطاش خلجان میں تھا اطلاع ملتے ہی وہ بڑی لمبی مسافت تھوڑے سے وقت میں طے کرکے اصفہان پہنچ گیا حسن بن صباح نے اسے سنایا کہ مصر میں اس کے ساتھ کیا بیتی تھی اور اسے قید میں ڈال دیا گیا تھا اور کس طرح وہ قید سے رہا ہوا اور جس طرح وہ مصر سے حلب پہنچا تھا وہ ساری روداد سنائی پھر پوچھا کہ اب وہ خلجان آئے یا نہیں؟
تمہیں آخر آنا ہی ہے حسن! احمد بن عطاش نے کہا لیکن ہمارے جاسوسوں نے جو اطلاع دی ہیں وہ یہ ہیں کہ سلطان ملک شاہ تمہیں گرفتار کرنے کی کوشش میں ہے تم ابھی یہیں رہو
میرے پیر استاد! حسن بن صباح نے کہا مجھے یہ بتائیں کہ لوگ مجھے بھول تو نہیں گئے کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی اور کام کیا ہے؟
تم بھول جانے کی بات کرتے ہو حسن! احمد بن عطاش نے کہا لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں میں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ تم وہاں آکر دیکھو گے ہم لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ خدا کا ایلچی اب پہلے کی طرح اسی علاقے میں کہیں آسمان سے اترے گا اور جو بھی اس کا پیروکار بنے گا اسے اس دنیا میں جنت مل جائے گی لوگ تمہارے نام پر جانیں دینے کے لیے تیار رہتے ہیں میں نے جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو ایک اشارے کا منتظر رہتا ہے ہم بہت جلدی سلجوقیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے اس علاقے کی تقریباً تمام مسجدوں میں جو امام یا خطیب ہیں وہ سب ہمارے آدمی ہیں وہ لوگوں کو قرآن اور احادیث کی جو تفسیر سنا رہے ہیں ان میں ہمارے عقیدے اور خدا کے ایلچی کے نزول کی پیشن گوئیاں ہوتی ہیں لوگ اسی کو صحیح اسلام سمجھ رہے ہیں
لڑکیوں کا گروہ تیار ہوا ہے یا نہیں؟
حسن بن صباح نے پوچھا اور کیا جانبازوں کو حشیش دی جا رہی ہے یا نہیں
حشیش نے ہی تو ہمارا کام آسان کیا ہے احمد بن عطاش نے کہا لوگوں کو خصوصاً لڑنے والے لشکریوں کو معلوم ہی نہیں کہ ہم انہیں کھانے پینے کی اشیاء میں حشیش دے رہے ہیں ہمارے لڑکیوں نے جو کام کیے ہیں وہ تم وہاں آکر دیکھو گے بعض قبیلوں کے سردار جو ہماری باتوں کا اثر قبول نہیں کر رہے تھے بلکہ ہمارے خلاف ہو گئے تھے انہیں ہماری لڑکیوں نے رام کیا ہے کہ اب وہی سردار ہماری طاقت بن گئے ہیں
تمام مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ ان لوگوں نے انسانی فطرت کی کمزوریوں اور فطری مطالبات کے عین مطابق لوگوں کے ذہنوں میں اپنا باطل عقیدہ ڈالا تھا داستان گو پہلے بیان کرچکا ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے آگ میں ایسی جڑی بوٹی ڈال دی جاتی تھی جس کا دھواں اور جس کی بو انسانی ذہن پر نشہ طاری کردیتی تھی لیکن لوگ محسوس نہیں کرتے تھے کہ ان کے دماغوں پر کس طرح قبضہ کیا جا رہا ہے وہ بظاہر ذہنی طور پر نارمل رہتے تھے لیکن ان جڑی بوٹیوں کی وجہ سے حسن بن صباح کے ٹولے کے قبضے میں چلے جاتے تھے پھر اس ٹولے کے بڑے لوگ جب باطل کی بھی کوئی بات کرتے تھے تو ان کے دماغ باطل کو بھی قبول کر لیتے تھے
دراصل وہ پسماندگی کا دور تھا لوگ جو مسلمان تھے وہ اس لئے مسلمان تھے کہ دین اسلام ان کے ورثے میں چلا آ رہا تھا جو اگر کسی باتوں میں نہیں آتے تھے تو وہ عیسائی یا یہودی تھے اسلام کے دائرے میں رہ کر مسلمانوں کو کوئی نئی چیز بتائیں جاتی تو وہ غور سے سنتے اور اسے اسلامی سمجھ کر قبول کرلیتے تھے اگر آج کی زبان میں بات کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی خاص جڑی بوٹی کے دوائی اور قرآن کی نئی تفسیروں کے ذریعے سیدھے سادے لوگوں کو ہپنا ٹائز کر لیا گیا تھا لوگوں کو کچھ شعبدے بھی دکھائے گئے تھے لوگ نہ سمجھ سکے کہ ان کے ذہنوں میں شیطانی نظریات ٹھونسے جا رہے ہیں لوگوں کو انہیں بتائے بغیر جس جڑی بوٹی کا دھواں دیا جاتا تھا وہ مورخوں کے کہنے کے مطابق حشیش کا پودا تھا سیکڑوں جانبازوں کا جو گروہ تیار کیا گیا اسے انہیں بتائے بغیر حشیش پلائی جاتی تھی
احمد بن عطاش ابھی وہی تھا کہ اطلاع دی گئی ایک سوار آیا ہے جس کی حالت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی اسے فوراً اندر بلا لیا گیا اس کی حالت بہت ہی بری تھی اصفہان تک جلدی پہنچنے کے ارادے سے اس نے اتنے لمبے سفر میں پڑاؤ کیا ہی نہیں تھا گھوڑے کو چند جگہوں پر روک کر پانی پلایا اور سفر جاری رکھا اس سے بولا بھی نہیں جاتا تھا
سلطان کے پانچ چھ سو سوار آرہے ہیں اس نے بڑی مشکل سے کہا آپ کو گرفتار کریں گے اچھا ہوا آپ پہلے نکل آئے تھے کسی نے بتا دیا ہے کہ آپ اصفہان چلے گئے ہیں وہ ادھر آ رہے ہیں اور وہ بے ہوش ہو گیا
مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے حسن بن صباح نے کہا لیکن جاؤں کہاں؟
خلجان شاہ در
نہیں! احمد بن عطاش نے کہا کسی بھی بڑے شہر میں جانا خطرناک ہو گا قلعہ تبریز گمنام سا قلعہ ہے دور بھی نہیں وہاں اپنے آدمی ہیں سب قابل اعتماد ہیں اور ضرورت پڑی تو جانیں قربان کر دیں گے
تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کو رات کے سیاہ پردے میں قلعہ تبریز پہنچا دیا گیا
صرف ایک دن اور گزرا تو سالار امیر ارسلان پانچ سو سواروں کے ساتھ پہنچ گیا یہ دستہ طوفان کی طرح اصفہان کی گلیوں میں بکھر گیا سوار اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ حسن بن صباح باہر آ جائے ہم ہر گھر کی تلاشی لیں گے جس گھر سے حسن بن صباح برآمد ہوگا اس گھر کے ہر مرد اور عورت کو ساری عمر کے لئے قید میں ڈال دیا جائے گا
اس وقت اصفہان سلجوقیوں کے زیر نگیں تھا کوئی خاندان کسی مشکوک آدمی کو پناہ نہیں دے سکتا تھا اس قلعہ نما مکان پر کوئی شک نہیں کر سکتا تھا جہاں حسن بن صباح ٹہرا اور احمد بن عطاش اسے آ کر ملا تھا اس مکان میں مذہب پرست لوگ رہتے تھے اور وہ تجارت پیشہ تھے وہ مسلمان تھے احمد بن عطاش اب بھی وہاں موجود تھا لیکن اس نے اپنا حلیہ بدل لیا تھا وہ اس مکان کے اصطبل کا سائس بن گیا تھا سر اور داڑھی کے بال بکھیر لیے تھے کپڑے بوسیدہ سے پہن لئے اور ان پر گھوڑوں کی لید کے داغ دھبے لگا لیے تھے وہ ذرا کبڑا بن گیا تھا
بہت دیر بعد جب کسی نے بھی نہ کہا کہ حسن بن صباح اُس کے گھر میں ہے ایک ضعیف بڑھیا امیر ارسلان کے پاس آئی
میں گزشتہ رات قلعہ تبریز سے آئی ہوں بڑھیا نے کہا میرا ایک نوجوان پوتا وہاں رہتا ہے اس سے مجھے بہت پیار ہے کبھی کبھی اپنی گھوڑی پر اسے دیکھنے جاتی ہوں وہاں وہ کوئی کام نہیں کرتا لیکن رہتا بڑی شان سے ہے میں اسے ملنے گئی تھی رات سے پہلے واپسی کے سفر کو روانہ ہوئی دروازہ کھلا ہوا تھا میں دروازے سے نکلنے لگی تو چھ گھوڑسوار دروازے میں داخل ہوئے انہوں نے مجھے روک لیا اور پوچھا کون ہو؟
میں نے کہا خود ہی دیکھ لو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہوں پوتے سے ملنے آئی تھی واپس اصفہان جا رہی ہوں ان میں سے ایک نے کہا جانے دو اسے اسے تو اپنی ہوش نہیں اندر سے سات آٹھ آدمی دوڑے آئے میں دروازے سے باہر آ گئی ان میں سے ایک آدمی نے کہا خوش آمدید حسن بن صباح آج ہماری قسمت جاگ اٹھی ہے ایک اور آدمی کی آواز سنائی دی نام مت لو احمق تمہاری آواز اصفہان تک پہنچ سکتی ہے معلوم نہیں یہ وہی حسن بن صباح ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو یا یہ کوئی اور ہے امیر ارسلان نے اس بڑھیا کے بیٹوں کو بلایا اور پوچھا کہ ان میں سے کس کا بیٹا قلعہ تبریز میں ہے
وہ میرا بیٹا ہے ایک آدمی نے کہا
وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟
گمراہ ہوگیا ہے اس نے جواب دیا باطنیوں کے جال میں آ گیا ہے اور خدا کے ایلچی کا جاں باز بن گیا ہے ہم صحیح العقیدہ مسلمان ہیں معلوم نہیں ہمارے بیٹے کو کیا سبز باغ دکھائے گئے ہیں کہ وہ حسن بن صباح کے نام کا ہی ورد کرتا رہتا ہے
اس طرح کڑی سے کڑی ملاتے یہ یقین ہو گیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں ہے سالار امیر ارسلان نے اسی وقت کوچ اور قلعہ تبریز کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا
یہاں ایک دو وضاحت ضروری ہے یہ قلعہ تبریز ایران کا آج والا شہر تبریز نہیں یہ ایک گمنام سی بستی تھی جس کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے
دوسری وضاحت یہ کہ بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح قلعہ المُوت میں جا چکا تھا اور امیر ارسلان نے وہاں حملہ کیا تھا یہ صحیح نہیں اس وقت حسن بن صباح کے فرقے نے قلعہ المُوت پر قبضہ ہی نہیں کیا تھا قلعہ الموت پر اس فرقے کا قبضہ سال دو سال بعد ہوا تھا اور وہاں خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے حملہ کیا تھا
بعد کے اکثر تاریخ نویسوں نے قلعوں کے نام لکھنے میں غلطیاں کی ہیں وہاں بہت سے چھوٹے بڑے قلعے تھے ان میں سے بیشتر پر حسن بن صباح کے فرقے کا قبضہ ہوگیا تھا
تو یہ تھا قلعہ تبریز جیسے سالار امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں نے محاصرے میں لے لیا انہوں نے دیواروں پر کمند پھینکنے کے لئے رسّے اور دیوار توڑنے کے لئے سامان کمانیں اور تیروں کا ذخیرہ اصفہان سے لے لیا تھا
“ائمہ تلبیس” کے مطابق حسن بن صباح کے پاس لڑنے والے صرف ستر آدمی تھے اور یہ سب جانباز تھے چھوٹے سے اس قلعے کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے جو اس وقت بند ہونے لگے جب امیر ارسلان کا سوار دستہ بالکل قریب پہنچ گیا تھا چند ایک سواروں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی کہ وہ دونوں دروازوں سے اندر چلے جائیں
دروازے بند ہو رہے تھے اندر کے جانبازوں نے ایسی بے خوفی اور بے جگری سے مقابلہ کیا کہ سوار دروازوں میں داخل نہ ہوسکے اور دروازے بند ہوگئے یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے دروازے لوہے اور شاہ بلوط کی لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے اور ٹوٹ ہی نہ سکتے عام سی لکڑی کے دروازے تھے سواروں نے گھوڑوں سے اتر کر دروازے توڑنے شروع کر دیے
ادھر سواروں نے دیوار پر کمندیں پھینکیں کوئی کمند دیوار سے اٹک جاتی تو حسن بن صباح کے جاں باز رسّہ کاٹ دیتے اور اوپر سے تیر بھی برساتے تھے تیروں کے جواب میں سواروں نے بھی تیر اندازی شروع کر دی تیروں کے سائے میں چند ایک سپاہی اوپر چلے گئے دیوار اتنی چوڑی نہیں تھی کہ اس پر لڑا جا سکتا وہ اندر کود گئے جانبازوں نے انہیں نرغے میں لے لیا لیکن ایک آواز نے ان کا نرغہ توڑ دیا
دروازے ٹوٹ گئے ہیں دونوں دروازے سے للکار اٹھ رہی تھی دروازوں پر آجاؤ دشمن اندر نہ آ جائے
حسن بن صباح کے جاں باز دروازوں کی طرف اٹھ دوڑے امیر ارسلان کے آدمیوں نے جو اب سوار نہیں پیادے بن گئے تھے ان جانبازوں پر تابڑ توڑ حملے کیے حالانکہ وہ قلعے کے اندر تھے اور ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی
باطنی جانبازوں نے باہر کے سواروں کو اندر تو نہ آنے دیا انہوں نے جانوں کی بازی لگادی تھی لیکن یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ وہ زیادہ دیر اسی طرح جم کر نہیں لڑ سکیں گے مورخ لکھتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی لڑائی تھی جو چھوٹی سی ایک بستی میں لڑی گئی تھی لیکن اس کی اہمیت اس وجہ سے ایک بڑی لڑائی جتنی تاریخی ہے کہ یہ حسن بن صباح کے باطنی فرقے اور سلجوقی مسلمانوں کا پہلا مسلح تصادم تھا اور اسی تصادم میں اندازہ ہو گیا تھا کہ حسن بن صباح کے پاس کتنی طاقت ہے اور یہ طاقت کس قسم کی ہے
حسن بن صباح دیکھ رہا تھا کہ اس کے ستر جاں باز اتنے بڑے سوار دستے کو روک نہیں سکیں گے ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی حسن بن صباح ایک بلند چبوترے پر چڑھ گیا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بلند آواز سے کہہ رہا تھا تیرا ایلچی مشکل میں آگیا ہے اللہ فرشتوں کو بھیج اللہ اپنے نام پر جانیں قربان کرنے والوں کو اتنے سخت امتحان میں نہ ڈال اللہ فرشتے اتار اللہ کفار کے طوفان سے بچا اللہ
وہ چپ ہو گیا اور آسمان کی طرف دیکھتا رہا اس کے بہت سے جانبازوں نے اسے دیکھا
یاحسن! اس کے ایک آدمی نے قریب آکر گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اپنے فدائین دل چھوڑ بیٹھے ہیں وہ باہر کو بھاگنے کا راستہ دیکھ رہے ہیں حسن بن صباح نے اس شخص کو دیکھا اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے حسن بن صباح نے آنکھیں بند کرکے آسمان کی طرف دیکھا
وحی نازل ہو گئی ہے اس نے بلند آواز سے کہا اللہ کا حکم آیا ہے کوئی شخص باہر نہ نکلے جو نکلے گا وہ دنیا میں جلے گا اور جو ہمارے ساتھ رہے گا وہ دنیا میں فردوس بریں دیکھے گا حوریں اتر رہی ہیں فرشتے اتر رہے ہیں ہمارا ساتھ چھوڑنے والوں کے لئے آگ اتر رہی ہے مدد آ رہی ہے
یہ “وحی” تمام جانبازوں تک پہنچا دی گئی وہ فوراً ثابت قدم ہوگئے اور جم کر لڑنے لگے
ہم حسن بن صباح کے ساتھ رہیں گے باطنیوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے
لڑائی میں نیا ہی جوش اور قہر پیدا ہوگیا امیر ارسلان کے جو آدمی کمندوں کے ذریعے اندر گئے تھے انہیں باطنیوں نے کاٹ ڈالا
اور آسمان سے فرشتے بھی اتر آئے
یہ تین سو سوار اچانک کہیں سے نکلے ان کے سرپٹ ٹاپوں کی آوازیں دور سے سنائی دی تھیں امیر ارسلان کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ یہ ان کے دشمن سوار ہیں اسے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ اس کے لیے کہیں سے کمک آئے گی اسے کمک کی ضرورت بھی نہیں تھی پھر یہ بھی تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ امیر ارسلان کہاں ہے؟
بہرحال اس کے ذہن میں یہ خدشہ آیا ہی نہیں کہ یہ سوار جو چلے آرہے ہیں یہ اس کے لئے ایسی مصیبت چلی آرہی ہے جس کا وہ سامنا نہیں کر سکے گا ان تین سو سواروں کی رفتار اتنی تیز تھی کہ امیر ارسلان کو کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا گھنے جنگل کی ہری بھری جھاڑیوں درختوں اور اونچی گھاس سے یہ سوار بے ترتیب سے گروہوں کی صورت میں سیلاب کی طرح چلے آرہے تھے وہ جوں جوں قریب آتے گئے پھیلتے گئے بعض کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں اور باقیوں کے پاس تلواریں تھیں انہوں نے یہ ہتھیار آگے کو کر رکھے تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حملہ کرنے آرہے ہیں
اس وقت بھی امیر ارسلان نے کوئی دفاعی اقدام نہ کیا حتیٰ کہ وہ سوار ان کے سر پر آگئے اور انہوں نے نعرہ لگایا حسن بن صباح زندہ باد اس وقت امیر ارسلان اور اس کے سواروں کے ہوش آئی لیکن سمجھنے اور سنبھل کر مقابلے میں آنے کا وقت گزر چکا تھا ان سواروں نے امیر ارسلان کے پانچ سو سواروں کو بے بس کردیا سلجوقیوں نے مقابلے میں جمنے کی بہت کوشش کی لیکن حملہ آوروں کے انداز میں اتنا قہر اور غضب تھا کہ انہوں نے سلجوقی سواروں کو بالکل ہی بے بس کر کے کاٹ ڈالا انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کا سالار امیر ارسلان مارا جا چکا ہے امیر ارسلان کے سواروں میں سے چند ایک سوار نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے یہ سب زخمی حالت میں تھے ان میں مزمل آفندی بھی تھا وہ بھی زخمی تھا باقی زخمی تو ادھر ادھر چھپ گئے ان میں بھاگنے کی بھی ہمت نہیں تھی لیکن مزمل آفندی نے گھوڑے کا رخ مرو کی طرف کر دیا اور ایڑ لگا دی
ذہن میں قدرتی طور پر سوال اٹھتا ہے کیا یہ تین سو سوار واقعی فرشتے تھے جو اللہ نے حسن بن صباح کی مدد کے لیے بھیجے تھے؟
اور کیا واقعی اس پر وحی نازل ہوئی تھی؟
نہیں یہ پہلے سے کیا ہوا ایک انتظام تھا اور یہ انتظام احمد بن عطاش نے کیا تھا داستان گو سارا قصہ سنا چکا ہے قافلے سے نکلے ہوئے ایک سوار نے اصفہان پہنچ کر حسن بن صباح کو خبردار کر دیا تھا کہ سلجوقی سلطان نے اس کی گرفتاری کے لیے پانچ چھے سو گھوڑ سواروں کا دستہ بھیجا ہے اور یہ دستہ اصفہان کی طرف آ رہا ہے
احمد بن عطاش بھی حسن بن صباح کے ساتھ تھا انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا جائے وہ چلا گیا ان لوگوں کو خداوند تعالی نے بڑے ہی تیز اور بہت دور تک سوچنے والے دماغ اور بہت دور تک دیکھنے والی نگاہیں دی تھیں انہوں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ آگے کیا ہوگا خطرہ یہی تھا کہ امیر ارسلان اصفہان میں آکر حسن بن صباح کو ڈھونڈے گا اور کسی نہ کسی طرح اسے پتہ چل جائے گا کہ حسن بن صباح قلعہ تبریز میں چلا گیا ہے
یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے اسی مکان میں جہاں وہ اور حسن بن صباح ٹھہرے تھے سائس کا بہروپ دھار لیا تھا یہ ایک قبیلے کے سردار کا مکان تھا اور یہ سردار حسن بن صباح کا پیروکار باطنی تھا
احمد بن عطاش نے اس سردار سے کہا تھا کہ حسن بن صباح کو بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ایسے سواروں کی ضرورت ہے جو شہسوار ہوں تیغ زن اور برچھی بازی کی مہارت رکھتے ہوں اور لڑائی میں جان کی بازی لگا دینے والے ہوں
یہ سردار اسی وقت ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس کے پیچھے ایک اور گھوڑا تھا جس کی باگ سائس کے ہاتھ میں تھی اور سائس پیدل چل رھا تھا لوگ جو راستے میں آتے تھے اس سردار کو جھک کر سلام کرتے تھے اور وہ سائنس کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے کیونکہ وہ اس سردار کا سائیس تھا کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ یہ سائیس ابلیس کا چیلا نہیں بلکہ سر تاپا اور اندر سے بھی وہی ابلیس ہے جسے خداوند تعالیٰ نے آدم کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا اور اس پر لعنت بھیجی تھی اب وہ ابلیس آدم کی اولاد کے لیے بڑا ہی دلکش اور اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک دھوکہ بنا ہوا تھا اور اولاد آدم اس کی تخلیق کیے ہوئے ابلیس حسن بن صباح کی ایسی مرید اور معتقد بنتی جا رہی تھی کہ اس پر جان قربان کر رہی تھی
شہر سے کچھ دور جا کر یہ سائیس جو دراصل احمد بن عطاش تھا گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور پھر سردار نے اور احمد بن عطاش نے گھوڑے دوڑا دیے اصفہان سے تھوڑی ہی دور قزوین نام ایک قصبہ تھا آج کے نقشوں میں اس نام کا کوئی مقام نہیں ملتا اس لیے یہ بتانا ناممکن ہے کہ یہ اصفہان سے کتنی دور تھا تاریخ میں اس کا نام موجود ہے یہ مقام ان دونوں کی منزل تھی
قزوین کا رئیس شہر ابوعلی تھا جس کا اس سارے علاقے میں اثر اور رسوخ تھا کچھ عرصہ پہلے اس شخص نے حسن بن صباح کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی یہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ ایک لڑکی کا اور حشیش کا کارنامہ تھا جو یہ لڑکی اسے دھوکے میں پلاتی رہی تھی احمد بن عطاش اور اس کا ساتھی سردار ابو علی کے گھر گئے اور اسے اس صورت حال سے آگاہ کیا کہ سلجوقی سلطان حسن بن صباح کی گرفتاری کے لیے سیکڑوں سواروں کا ایک دستہ بھیجا ہے اسے بتایا کہ صورتحال کیا بن سکتی ہے اور اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے
ان تینوں نے فوراً فیصلہ لیا ابو علی نے کہا کہ وہ جس قدر سوار مل سکے تیار کرلے گا
تاریخ میں نام ابو علی کا ہی آیا ہے کہ اس نے بہت ہی تھوڑے سے وقت میں تین سو سوار تیار کرلیے اور پھر کمال یہ کیا کہ انہیں ایسی جگہ اکٹھا کر لیا جو قلعہ تبریز سے کچھ دور تھی ان سواروں کو بتایا گیا کہ وہ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہیں اور اشارہ ملنے پر قلعہ تبریز پہنچ جائیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ باطنیوں کی جڑیں کتنی مضبوط ہو کر کتنی دور تک پہنچ گئی تھیں
ان کا جاسوسی کا نظام بھی بڑا تیز اور قابل اعتماد تھا سالار امیر ارسلان کا دستہ اصفہان سے قلعہ تبریز پہنچا تو کسانوں اور تھکے ماندے مسافروں کے بہروپ میں باطنی جاسوس اسے دور دور سے دیکھ رہے تھے انہوں نے لڑائی بھی دیکھی تھی انہیں میں سے کسی نے دیکھا کہ سلجوقی سوار قلعے میں داخل ہو جائیں گے اور اندر تمام باطنی مارے جائیں گے اور حسن بن صباح گرفتار ہو جائے گا اس جاسوس نے ابو علی کو جا اطلاع دی تین سو سوار تیار تھے انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے ان کے دلوں میں سلجوقیوں کی اتنی نفرت پیدا کی گئی تھی کہ وہ اس انتظار میں تھے کہ سلجوقی سامنے آئے تو ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیں
اب انہیں موقع مل گیا اشارہ ملتے ہی وہ قلعہ تبریز پہنچے اور سلجوقیوں کو بے خبری میں جا لیا سلجوقی بے خبری اور غلط فہمی میں مارے گئے ورنہ سلجوقیوں نے تو جنگجوی میں دور دور تک دھاک بٹھائی ہوئی تھی مگر دھاک حسن بن صباح کی بیٹھ گئی اس کے جانبازوں اور بستی تبریز کے باشندوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آسمان سے اترنے والے تین سو گھوڑسوار فرشتوں کا انتظام پہلے سے کر لیا گیا تھا انہیں یقین ہوگیا تھا کہ حسن بن صباح پر وحی نازل ہوئی تھی اور یہ مدد بھی حسن بن صباح کے کہنے پر خدا نے بھیجی تھی
مزمل آفندی گھوڑا دوڑاتا مرو جا رہا تھا اس نے اپنے زخموں پر کپڑے کس کر باندھ لیے تھے پھر بھی زخموں سے خون رس رہا تھا وہ اس کوشش میں تھا کہ زندہ سلطان ملک شاہ تک پہنچ جائے اور ہوش میں رہے تاکہ اسے قلعہ تبریز کی لڑائی کی خبر دے سکے اور اسے کہے کہ وہ فوراً جوابی حملے کے لیے فوج بھیجے
یہ ایک دن اور ایک رات کی مسافت تھی جو مزمل آفندی نے کم از کم وقت میں طے کی اور رات کو مرو پہنچا سلطان ملک شاہ سو گیا تھا سلطان کو جگانے کی جرات کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن مزمل خون میں نہایا ہوا اور نیم جان تھا اور وہ سالار امیر ارسلان اور اس کے سوار دستے کی خبر لایا تھا سلطان کو جگا کر بتایا گیا تو وہ بستر سے کود کر اٹھا اور ملاقات والے کمرے میں گیا
مزمل دروازے میں داخل ہوا تو اس کا وجود گرنے والے درخت کی طرح ڈول رہا تھا اور سر کبھی دائیں کبھی بائیں ڈھلک جاتا تھا اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے اور زخموں سے تازہ خون رس رہا تھا سلطان دوڑ کر اس تک پہنچا اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا
اسے دیوان پر لٹاؤ سلطان ملک شاہ نے دربان سے کہا اور خود ہی مزمل کو اٹھا لیا
دربان نے بھی مدد کی اور مزمل کو دیوان پر لیٹا دیا گیا سلطان کے کپڑے بھی سامنے سے لال ہو گئے اسے وہ شربت پلاؤ سلطان نے دربان سے کہا طبیب کو اور جراح کو بھی فوراً ساتھ لے آؤ
سلطان ملک شاہ نے شربت کا گلاس دربان کے ہاتھ سے لیا اور اسے دوڑا دیا پھر مزمل کو سہارا دے کر اٹھایا اور اسے اپنے ہاتھ سے شربت پلایا
اب لیٹ جاؤ سلطان نے مزمل آفندی کو لٹا کر پوچھا تم بہت زخمی ہو
میں ان شاءاللہ زندہ رہوں گا مزمل آفندی نے بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی آواز میں کہا میں نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا ہے میرا نام مزمل آفندی ہے آپ کی فوج کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں پہلے اپنے سوار دستے اور سالار امیر ارسلان کی خبر سن لیں امیر ارسلان مارا گیا ہے اور اپنے دستے کے شاید سارے ہی سوار بھی مارے گئے ہیں
کیا کہا ؟
سلطان نے حیرت زدہ ہو کر کہا ارسلان مارا گیا ہے؟
یہ ہوا کیسے ؟
یہ لڑائی کہاں لڑی گئی ہے؟
قلعہ تبریز میں مزمل آفندی نے جواب دیا طبیب اور جراح دوڑے آئے سلطان کے کہنے پر انہوں نے مزمل کے زخموں کو دھونا شروع کر دیا سلطان نے مزمل کے لئے پھل اور میوے منگوائے پھر زخموں کی مرہم پٹی ہوتی رہی مزمل پھل اور میوے کھاتا رہا اور سلطان کو سناتا رہا کہ وہ کس طرح میمونہ کو حسن بن صباح کی قید سے فرار کرا کے لایا تھا اور اسے رے میں ابومسلم رازی کے یہاں میمونہ کو اپنی بیٹی شمونہ مل گئی تھی پھر اس نے حسن بن صباح کے تعاقب کا اور قلعہ تبریز کی لڑائی کا مکمل احوال سنایا
سلطان ملک شاہ آگ بگولا ہوگیا اس نے اسی وقت اپنے ایک سالار قزل ساروق کو بلایا یہ سالار ترک تھا ابن اثیر نے لکھا ہے کہ قزل ساروق نامور سالار اور مشہور سلجوق جنگجو تھا سلطان نے اسے کہا کہ وہ کم از کم ایک ہزار سواروں کا دستہ لے کر ابھی قلعہ تبریز کو روانہ ہو جائے
قزل ساروق سمجھ گیا کہ بہت جلدی تبریز پہنچنا ہے
وہ ایک ہزار منتخب سواروں کے ساتھ حیران کن کم وقت میں قلعہ تبریز پہنچ گیا لیکن وہاں سالار امیر ارسلان اور اس کے سواروں کی لاشوں کے سوا کچھ بھی نہ ملا کسی بھی لاش کے ساتھ ہتھیار نہیں تھا ایک بھی گھوڑا نہیں تھا ہتھیار بھی اور گھوڑے بھی باطنی لے گئے تھے قزل ساروق قلعے کے اندر گیا کوئی ایک بھی انسان نظر نہ آیا مکان خالی پڑے تھے
آگ لگا دو قزل ساروق نے کہا
کچھ ہی دیر بعد مکانوں سے شعلے اٹھنے لگے اور دھواں آسمان تک پہنچنے لگا
قبر کھودو اور اپنے ساتھیوں کو دفن کردو قزل ساروق نے اپنے سواروں سے کہا ہم یہاں شاید اسی لیے آئے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو دفن کریں اور اس بستی کو آگ لگا دیں اور واپس چلے چلیں ہم یہاں کچھ دن ٹھہریں گے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:22 }
داستان  گو جس دور کی داستان سنا رہا ہے وہ ابلیس کا دور تھا قرآن حکیم کی وہ پیشن گوئی جو سورہ الاعراف کی آیت 11 سے 23تک واضح الفاظ میں آئی ہے حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہی تھی ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ابلیس کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا اور اسے کہا تو ذلیل و خوار ہوتا رہے گا تو ابلیس نے کہا کہ مجھے روز قیامت تک مہلت دے اللہ نے اسے مہلت دی ابلیس نے کہا اب دیکھنا میں تیرے ان انسانوں کو کس طرح گمراہی میں ڈالتا ہوں میں تیرے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور تیرے انسانوں کو آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اور ہر طرف سے گھیرونگا ،پھر تو دیکھے گا کہ ان میں سے بہت سے تیرے شکر گزار نہیں رہیں گے

اللہ تعالی نے آدم اور حوا سے کہا کہ جنت میں رہو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ گنہگاروں میں لکھے جاؤ گے شیطان نے آدم سے کہا کہ اللہ نے اس درخت کو تمہارے لئے اس لیے شجر ممنوعہ قرار دیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ اور تمہیں وہ زندگی نہ مل جائے جس کی موت ہوتی ہی نہیں یعنی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ابلیس نے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں
ابلیس نے زبان کا ایسا جادو چلایا اور الفاظ کا ایسا طلسم پیدا کیا کہ آدم اور حوا کو شیشے میں اتار لیا انہوں نے شجر ممنوعہ کا پھل چکھا اور اس حکم عدولی کے نتیجے میں آدم اور حوا کے ستر بے نقاب ہوگئے اور وہ درختوں کے پتوں سے ستر ڈھانپنے لگے
بات یہ سامنے آئی کی یہ ابلیس تھا جس نے آدم اور حوا کو ایک دوسرے کی شرمگاہوں سے روشناس کیا انسان میں تجسس کی بے تابی پیدا کی اور یہ جذبہ بھی کہ اللہ جس کام سے منع کرے وہ ضرور کر کے دیکھو اور شجر ممنوعہ کا پھل ضرور چکھو
حسن بن صباح نے یہی ابلیسی حربے استعمال کئے اور انسان کی ستر پوشی کو برہنگی میں بدل دیا مرد پر عورت کی برہنگی کا طلسم طاری کیا اور یہ تاثر پیدا کیا کہ شجر ممنوعہ کا پھل ضرور کھاؤ
ابلیس اپنا یہ عہد پورا کر رہا تھا کہ اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چل آؤں گا پانچویں صدی ہجری میں حسن بن صباح اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چلا رہا تھا
قلعہ تبریز کی لڑائی میں سلجوقی سالار امیر ارسلان مارا گیا اس کے پانچ سو مجاہدین ہلاک یا زخمی ہوگئے تو مزمل آفندی نے شدید زخمی حالت میں مرو پہنچ کر سلطان ملک شاہ کو لڑائی کے اس انجام کی اطلاع دی اس کا زندہ رہنا معجزہ تھا
جب سے مزمل آفندی سالار امیر ارسلان اور اس کے پانچ سو سواروں کے ساتھ چلا گیا تھا رے میں شمونہ روزمرہ کا معمول بنا لیا تھا کہ بار بار چھت پر چلی جاتی اور اس راستے کو دیکھنے لگتی جس راستے پر مزمل آفندی چلا گیا تھا شمونہ کو معلوم تھا کہ وہ دو چار دنوں میں ادھر سے کوئی اطلاع نہیں آئے گی بغداد سے اتنی جلدی اطلاع آ ہی نہیں سکتی تھی لیکن شمونہ مزمل آفندی کی محبت میں پاگل ہوۓ جا رہی تھی وہ حقائق کو تو قبول ہی نہیں کر رہی تھی وہ چھت پر جا کر کبھی بالائی منزل کا اس طرف والا دریچہ کھول کر اس راستے کو دیکھنے لگتی تھی اسے قاصد کا انتظار تھا
اور اسے انتظار تھا کہ مزمل آفندی اسی راستے سے واپس آئے گا اس کے چہرے پر فاتحانہ تاثر ہوگا سینہ پھیلا ہوا اور گردن تنی ہوئی ہوگی اور حسن بن صباح اس کے ساتھ ہوگا زندہ یا مردہ
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے نہ جانے کتنی راتیں بیت گئیں مزمل آفندی نہ آیا مرو سے کوئی قاصد نہ آیا
شمونہ! دو تین بار اس کی ماں میمونہ نے اسے کہا ایک آدمی کی محبت میں گرفتار ہو کر تم دنیا کو بھول گئی ہو تمہیں دن اور رات کا ہوش نہیں رہا یوں تو زندگی اجیران ہو جاتی ہے
میں صرف اس کا انتظار نہیں کر رہی جسے میں چاہتی ہوں شمونہ نے ماں سے کہا تھا میں حسن بن صباح کے انتظار میں ہوں اگر وہ زندہ آیا تو میں اسے زنجیروں میں بندھے دیکھنا چاہوں گی اور اگر اس کی لاش آئی تو میں سمجھوں گی کہ میرا زندگی کا مقصد پورا ہوگیا ہے مزمل اسے زندہ یا مردہ لے ہی آئے گا
شمونہ کو کوئی قاصد یا مزمل آفندی آتا نظر نہیں آتا تھا راستہ ہر روز کی طرح شہر سے نکل کر درختوں اور کھیتوں میں بل کھاتا دور ایک پہاڑی میں گم ہوجاتا تھا اسے ہر روز ویسے ہی اونٹ گھوڑے بوجھ اٹھائے ہوئے ٹٹو اور پیدل چلتے ہوئے لوگ نظر آتے تھے شمونہ کی بے چینی اور بے تابی بڑھتی جا رہی تھی اور وہ اکتانے بھی لگی تھی اس کی مزاجی کیفیت بھی کچھ بکھر سی گئی تھی آخر ایک روز دن کے پچھلے پہر دور سے اسے ایک گھوڑسوار آتا نظر آیا گھوڑے کی رفتار اور انداز بتاتا تھا کہ وہ کوئی عام سا مسافر نہیں شمونہ کی نظریں اس پر جم گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ شہر کی طرف آنے لگیں
گھوڑ سوار شہر میں داخل ہوا تو شمونہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا وہ شہر کی گلیوں میں گم ہو گیا تھا کچھ دیر بعد وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر کے قریب ایک گلی سے نکلا شمونہ دوڑتی نیچے آئی گھوڑسوار اس شاہانہ حویلی کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا
تم قاصد تو نہیں ہو شمونہ نے اس سے پوچھا
ہاں بی بی! سوار نے گھوڑے سے اترتے ہوئے کہا میں قاصد ہوں امیر شہر سے فوراً ملنا ہے
کہاں سے آئے ہو؟
مرو سے آیا ہوں
سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی کی کوئی خبر لائے ہو ؟
شمونہ نے بچوں کی سی بے تابانہ اشتیاق سے پوچھا
انہی کی خبر لایا ہوں
کیا خبر ہے ؟
شمونہ نے تڑپ کر پوچھا
امیر شہر کے سوا کسی اور کو بتانے والی خبر نہیں قاصد نے جواب دیا
شمونہ دوڑتی اندر گئی دربان کے روکنے پر بھی نہ روکی ابومسلم رازی اپنے کسی کام میں مصروف تھا شمونہ نے زور سے دروازہ کھولا کہ ابو مسلم رازی چوک اٹھا
مرو سے قاصد آیا ہے شمونہ نے بڑی تیزی سے کہا اسے فوراً بلا لیں
ابومسلم رازی نے ابھی کچھ جواب نہیں دیا تھا کہ شمونہ باہر کو دوڑ پڑیں اور قاصد کو ابومسلم رازی کے پاس لے گئی
کیا خبر لائے ہو؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
قاصد نے شمونہ کی طرف دیکھا اور پھر ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا بات بالکل صاف تھی کہ قاصد شمونہ کے سامنے پیغام نہیں دینا چاہتا تھا
تم ذرا باہر چلی جاؤ شمونہ! ابومسلم رازی نے کہا
شمونہ وہاں سے ہلی بھی نہیں اور کچھ بولی بھی نہیں اس کی نظریں ابومسلم رازی کے چہرے پر جم گئی تھیں اور اس کے اپنے چہرے کا تاثر یک لخت بدل گیا تھا رازی کی دانشمندی نے راز پا لیا وہ شمونہ کی اس بات کو سمجھتا تھا اس لڑکی نے ابومسلم رازی کے دل میں اپنی قدر و منزلت پیدا کر لی تھی
ہاں! ابومسلم رازی نے قاصد سے پوچھا کیا خبر لائے ہو؟
خبر اچھی نہیں امیر شہر! قاصد نے کہا سالار امیر ارسلان مارے گئے ہیں اور ان کے پانچ سو سواروں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو
مزمل آفندی کی کیا خبر ہے؟
شمونہ نے تیزی سے اٹھ کر پوچھا
خاموش رہو شمونہ! ابومسلم رازی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا میں تمہیں باہر بھیج دوں گا تم ایک آدمی کا غم لیے بیٹھی ہو اور ہم اس سلطنت اور دین اسلام کے لئے پریشان ہو رہے ہیں اس نے قاصد سے کہا آگے بولو
مزمل آفندی زندہ ہیں قاصد نے کہا لیکن بہت بری طرح زخمی ہے وہ مرو میں سلطان عالی مقام کے پاس ہے وہی آگے کی خبر لائے تھے
قاصد نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے وہ خبر سنائی جو مزمل آفندی نے سلطان ملک شاہ کو سنائی تھی پھر اس نے یہ بتایا کہ اب سلطان مکرم نے سالار قزل ساروق کو ایک ہزار سوار دے کر حسن بن صباح کی گرفتاری اور اس کے پیروکاروں کی تباہی کے لئے بھیج دیا ہے
قاصد پیغام دے چکا تو ابومسلم رازی نے اسے جانے کی اجازت دے دی
میں مرو جانا چاہتی ہوں شمونہ نے کہا آپ مجھے اسی قاصد کے ساتھ بھیج دیں
تم وہاں جا کر کیا کروگی؟
ابومسلم رازی نے پوچھا
میں مزمل آفندی کی تیماداری کروں گی شمونہ نے جواب دیا اس شخص نے مجھ پر جو احسان کیا ہے کیا میں بھول سکتی ہوں؟
اس نے مجھے بچھڑی ہوئی ماں سے ملایا ہے اور امیر شہر میں نے اور مزمل آفندی نے عہد کیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ حسن بن صباح کو ہم دونوں قتل کریں گے اس مقصد کے لیے میں مزمل کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
ایسے کام جذبات کے جوش سے نہیں ہوا کرتے شمونہ! ابومسلم رازی نے کہا اس کے لیے تجربے کی اور دور اندیشی سے ہر پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے تم میرے ساتھ رہو تمہاری ماں یہی ہے میرا بھی یہی مقصد ہے حسن بن صباح جب یہاں آیا تھا تو میں نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن اس سے قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ فرار ہوگیا
میں نے بھی حسن بن صباح کے قتل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے پھر اس لیے بھی میں تمہیں وہاں نہیں بھیج سکتا کہ مزمل آفندی سلطان کے پاس ہے میری بات اور ہے سلطان کے یہاں فضا اور ماحول کچھ اور ہے انہوں نے مزمل آفندی کو اپنی نگرانی میں رکھا ہوگا اور وہ پریشان بھی ہوں گے کہ امیر ارسلان جیسا سالار اپنے تمام سواروں کے ساتھ مارا گیا ہے یہ پریشانی بھی لاحق ہو گئی ہے کہ حسن بن صباح کے پاس اتنی فوجی طاقت اکٹھی ہوگئی ہے کہ اس نے پانچ سو سلجوقی سواروں کو ختم کر دیا ہے کسی کو سلجوقی کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جان کی بازی لگا دینے والا جنگجو ہے اور ناقابل تسخیر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حسن بن صباح کے پیروکار سلجوقیوں سے زیادہ سرفروش ہیں تم یہیں رہو ہو سکتا ہے سلطان تمہارا وہاں جانا پسند نہ کریں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمہیں اس بنا پر شک کی نظروں سے دیکھیں کہ تم نے حسن بن صباح کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے
ابومسلم رازی نے شمونہ کی ماں کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے جذبات کو اپنے قابو میں لے لیں ورنہ یہ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھے گی
سالار قزل ساروق نے تبریز کی قلعہ نماء بستی کو نذرآتش تو کردیا لیکن وہ اس بستی کو نذر آتش کرنے کے لیے نہیں گیا تھا یہ تو غصے کا اظہار تھا جو اس نے کیا اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ حسن بن صباح اور اس کے جنگجو پیروکار کہاں گئے اس نے جو لاشیں دیکھی تھیں ان میں سالار امیر ارسلان کے سواروں کی لاشیں زیادہ تھی اور حسن بن صباح کے آدمیوں کی لاشیں بہت ہی تھوڑی تھیں
سالار قزل ساروق کے ساتھ جاسوسی کرنے والے آدمی بھی تھے بھیس اور حلیہ بدلنے کا بھی ان کے پاس انتظام تھا قزل ساروق نے اپنے چار آدمیوں کو جاسوسی کے لیے تیار کیا اور انہیں ضروری ہدایات دے کر ادھر ادھر بھیج دیا اس نے خود ذرا سا بھی آرام نہ کیا اپنے دو تین ماتحت کماندروں کو ساتھ لے کر تبریز سے کچھ دور زمین کو کھوجنے کے لئے چلا گیا اس نے ہر طرف زمین دیکھی حسن بن صباح اکیلا ہی تو نہیں تھا کہ اس کا پورا کھوج نہ ملتا اس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے جن میں گھوڑ سوار بھی تھے
ایک جگہ مل ہی گئی زمین گواہی دے رہی تھی کہ یہاں سے ایک قافلہ یا لشکر گزرا ہے قزل ساروق زمین کے یہ نشان دیکھتا ہوا آگے ہی آگے چلتا گیا یہ کوئی عام سا راستہ نہیں تھا یہ لوگ اونچی نیچی زمین پر چلتے گئے آگے ایک ندی تھی وہ اس ندی میں سے بھی گزرے تھے اگر یہ کوئی پرامن لوگوں کا قافلہ ہوتا تو کسی باقاعدہ پگڈنڈی پر جارہا ہوتا یا ہموار زمین پر چلتا یہ قافلے لوٹنے والے ڈاکو کا گروہ بھی ہو سکتا تھا اور یہ حسن بن صباح کا گروہ بھی ہو سکتا تھا
زمین کے ان نشانات سے تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کس سمت کو جا رہے ہیں لیکن اصل بات تو یہ معلوم کرنی تھی کہ وہ گئے کہاں؟
آگے ایسا پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جس کے اندر کسی آبادی کا گمان نہیں کیا جاسکتا تھا
سالار قزل ساروق ایک جگہ رک گیا اس کا آگے جانا ٹھیک نہیں تھا کیونکہ وہ دور سے پہچانا جاتا تھا کہ یہ کسی شہر کا امیر یا فوج کا سالار ہے اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا کہ اس طرف اپنا کوئی آدمی بھیس بدل کر جائے تو کچھ سراغ مل سکتا ہے ایک ماتحت نے اسے کہا کہ چل کر ایک اور آدمی کو اس سمت میں روانہ کر دیتے ہیں
اور وہ واپس آگئے
بہت دیر بعد ایک شتر سوار آتا نظر آیا وہ بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا قریب آیا تو وہ اپنا ایک جاسوس نکلا جسے علی الصبح بھیجا گیا تھا وہ اونٹ سے اترا اور اپنے سالار کے پاس گیا
سراغ مل گیا ہے جاسوس نے کہا میں نے گھوڑوں اونٹوں اور آدمیوں کے پاؤں کے نشان دیکھے اور ان پر چلتا گیا یہ نشان مجھے ایک جگہ لے گئے جہاں تین مکان تھے جن کے مکینوں کے بچے مکانوں سے کچھ دور کھیل رہے تھے میں اونٹ سے اترا اور ان بچوں سے پوچھا کہ ادھر ایک قافلہ گیا ہے میں اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ قافلہ کدھر گیا ہے بچوں نے مجھے صرف سمت بتائی
اس جاسوس نے اپنے سالار کو جو تفصیل بتائیں وہ یوں تھی کہ جب یہ شخص بچوں سے پوچھ رہا تھا اس وقت ان مکانوں کے رہنے والے کسی آدمی نے دیکھ لیا اور اس کے پاس آکر پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟
اس نے وہی بات کہی جو وہ بچوں سے کہہ چکا تھا کہ وہ اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا
وہ ایک عجیب قافلہ تھا اس آدمی نے کہا اس میں بہت سے آدمی تھے جو زخمی تھے ان کے کپڑے خون سے لال تھے ان میں کچھ گھوڑوں پر سوار تھے اور کچھ اونٹوں پر اور چند ایک پیدل بھی چلے جا رہے تھے ہمیں تو وہ قافلوں کو لوٹنے والے ڈاکوں لگتے تھے ان کے ساتھ جو اونٹ تھے ان میں سے دو اونٹوں پر پالکیاں تھیں دونوں میں ایک ایک یا شاید دو دو عورتیں تھیں ہمیں شک ہے کہ وہ ڈاکو تھے انہوں نے کسی قافلے کو لوٹنے کی کوشش کی ہوگی اور قافلے والوں نے مقابلہ کرکے انہیں مار بھگایا ہوگا
تم ٹھیک کہہ رہے ہو میرے دوست! جاسوس نے کہا وہ ڈاکو کا ہی گروہ ہے انہوں نے ایک قافلے پر حملہ کیا تھا لیکن ناکام رہے کیونکہ قافلے میں لڑنے والے بہت سے آدمی تھے انہوں نے ان ڈاکوؤں کے کئی ایک آدمی مار ڈالے اور باقی بھاگ آئے میں سلجوقی فوج کا آدمی ہوں اور اس قافلے کا سراغ لیتا پھر رہا ہوں اگر تم بتا سکوں کہ یہ لوگ آگے کہاں گئے ہیں تو تمہیں سلطان کی طرف سے جھولی بھر کر انعام ملے گا
میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں گئے ہیں میں صرف یہ بتا سکتا ہوں کے اس پہاڑی علاقے کے اندر پرانے زمانے کا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو دراصل قلعے کے کھنڈرات ہیں ہوسکتا ہے وہ اس قلعے میں گئے ہوں ان پہاڑیوں کے اندر کوئی اور آبادی نہیں بڑے بڑے غار ہیں جہاں صرف ڈاکو ہی جا سکتے ہیں کسی اور نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے
قزل ساروق کا جاسوس وہیں سے واپس آگیا اور اپنے سالار کو بتایا
اس جاسوس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جب وہاں سے قافلے کا سراغ لے کر آ گیا تھا تو پیچھے کیا ہوا تھا ہوا یہ تھا کہ جب جاسوس وہاں سے چلا تو ایک بوڑھا آدمی مکان سے نکلا اور اس نے اپنے اس آدمی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ شتر سوار کون تھا اور کیا کہتا تھا
اس نے اس بوڑھے کو بتا دیا کہ وہ کیا پوچھ رہا تھا اور اس نے کیا بتایا تھا
بے وقوف آدمی! بوڑھے نے کہا تم جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے
یہ سلطان کی فوج کا آدمی تھا اس آدمی نے کہا وہ ڈاکوؤں کے اسی گروہ کے تلاش میں تھا میں تو جانتا تھا اور اسے بتا دیا ہے اگر سلطان کی فوج نے ان ڈاکوؤں کو پکڑ لیا تو مجھے انعام ملے گا
تمہیں انعام بعد میں ملے گا بوڑھے نے کہا لیکن انعام لینے کے لیے نہ تم زندہ رہو گے نہ ہم میں سے کوئی زندہ رہے گا تم نے ہم سے پوچھ کر بات کرنی تھی تم نے جس کی نشاندہی کی ہے وہ حسن بن صباح تھا کیا تم نہیں جانتے حسن بن صباح کون ہے ؟
ہاں! اس نے کہا وہ آسمان سے اترا ہے اور خدا نے اسے اپنا ایلچی بنا کر بھیجا ہے
وہ خدا کے بندوں کو سیدھا راستہ دکھانے آیا ہے بوڑھے نے کہا اس کے مقابلے میں کتنا ہی بڑا لشکر آ جائے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے آسمان سے معلوم نہیں جنات اترتے ہیں یا قہر برسانے والے فرشتے آ جاتے ہیں جو لشکر کو کاٹ کر پھینک جاتے ہیں کیا تم نے تبریز کی لڑائی نہیں سنی ابھی چند ہی دن گزرے ہیں سلطان کا پورے کا پورا لشکر اپنے ہی خون میں ڈوب گیا ہے
ہاں سنا تھا اس نے کہا
پھر مکانوں سے ایک اور آدمی نکل آیا بوڑھے نے اسے بتایا کہ اس نے سلطان کے ایک جاسوس کو بتا دیا ہے کہ حسن بن صباح ادھر چلا گیا ہے
یہ تو نیم پاگل ہے دوسرے آدمی نے کہا
یہ تو میں جانتا ہوں بوڑھے نے کہا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ سلطان نے حسن بن صباح کے پیچھے فوج بھیج دیں تو کیا ہم نہ مارے جائیں گے سوچو ہم کیا کریں
وہ حسن بن صباح ہی تھا جو تبریز سے اپنے تمام پیروکاروں کو اور ابو علی کے قزوین سے بھیجے ہوئے تین سو سواروں کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے گزرا تھا ان مکانوں کے قریب آیا تو تمام مکین باہر آکر راستے میں کھڑے ہوگئے تھے حسن بن صباح نے انہیں دیکھا تو اپنے دو مصاحبوں سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ ہم ادھر سے گزرے ہیں اگر انہوں نے کسی کو بتایا تو ان کے بچے سے بوڑھے تک کو قتل کر دیا جائے گا اور ان کے مکانوں کو آگ لگا دی جائے گی
اب ان کے لیے یہ صورت پیدا ہو گئی تھی کہ ان کے ایک آدمی نے جسے وہ نیم پاگل کہہ رہے تھے ایک جاسوس کو بتا دیا تھا کہ وہ لوگ آگے گئے ہیں اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان پہاڑیوں کے اندر ایک قدیم قلعے کے کھنڈرات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسی قلعے میں گئے ہوں
دوسرے جاسوس کسی اور طرف چلے گئے تھے ان کی واپسی کے انتظار میں پوری رات گزر گئی وہ اگلے روز یکے بعد دیگرے آئے تو آدھا دن گزر چکا تھا ان سب نے یہی خبر دی کہ حسن بن صباح ان پہاڑیوں کے اندر گیا ہے اس طرح تصدیق ہوگئی کہ اس وقت ان کا شکار کہاں ہے تبریز سے اس جگہ کا فاصلہ کم وبیش چالیس میل بتایا گیا تھا
آدھا دن گزر چکا تھا جب قزل ساروق نے اپنے ایک ہزار کے لشکر کو کوچ کا حکم دیا
لشکر انہیں مکانوں کے قریب سے گزرا ایک جاسوس نے راستہ معلوم کر لیا تھا لشکر پہاڑی علاقے میں داخل ہوگیا آگے راستہ بہت ہی دشوار تھا اس لئے لشکر کی رفتار بہت ہی سست رہی ابھی پندہ سولہ میل بھی طے نہیں ہوئے تھے کہ سورج غروب ہو گیا چونکہ علاقہ پہاڑی اور جنگلاتی تھا اس لئے شام بہت جلدی گہری ہوگئی پھر بھی قزل ساروق نے سفر جاری رکھا آگے راستہ دشوار ہوتا چلا گیا یہ راستہ پہاڑی کے ساتھ ساتھ بل کھاتا جا رہا تھا رات بلکل تاریک تھی پھر بھی سالار نے لشکر کو نہ روکا
تھوڑا ہی اور آگے گئے ہونگے لشکر میں شور سا سنائی دیا ایک گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا دو تین آوازیں سنائی دیں کہ ایک سوار کا گھوڑا پھسل کر نیچے چلا گیا ہے اس جگہ راستہ تنگ تھا ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف وادی کی گہرائی تھی اس طرف پہاڑی کی ڈھلان عمودی تھی پہاڑ پر درخت تھے لیکن اتنے زیادہ نہیں تھے جو گھوڑے یا سوار کو روک لیتے کچھ دیر تک گھوڑے کے گرنے اور لڑتے ہوئے نیچے جانے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں
قزل ساروق نے لشکر کو روک لیا اس کے کہنے پر اس سوار کو آواز دی گئی جو گر پڑا تھا اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا وہ بے ہوش ہوگیا یا مر گیا تھا
سالار قزل ساروق نے یہ کہہ کر کوچ کا حکم دے دیا کہ ایک سوار کے لیے پورے لشکر کی پیش قدمی نہیں روکی جا سکتی
سوار اور زیادہ محتاط ہو کر چلنے لگے دو چار اور موڑ مڑے تو راستہ نیچے کو جانے لگا آخر وہ اس پہاڑی سے اترے تو آگے خاصی چوڑی وادی تھی جہاں قزل ساروق نے سواروں کو صبح تک کے لئے روک لیا سواروں نے گھوڑوں کی زینی اتاری اور باقی رات آرام کے لئے ادھر ادھر لیٹ گئے
صبح طلوع ہوئی تو کوچ کی تیاری کا حکم ملا سوار گھوڑوں پر زین کس رہے تھے کہ ایک طرف سے ایک ادھیڑ عمر آدمی ایک عورت کے ساتھ آتا نظر آیا اس کے ساتھ دو لڑکے تھے جن میں ایک چودہ پندرہ سال کا اور دوسرا گیارہ بارہ سال کا تھا آدمی نے ایک ٹٹو کی باگ پکڑ رکھی تھی اور ٹٹوں پر کچھ سامان لدا ہوا تھا انہوں نے وہیں سے گزرنا تھا جہاں لشکر کوچ کے لئے تیار ہو رہا تھا وہ ایک طرف سے گزرتے گئے سالار قزل ساروق لشکر سے تھوڑا پرے تھا وہ خود تیار ہو چکا تھا اس کا سائیس اس کے گھوڑے کو تیار کر رہا تھا
کچھ دیر بعد اس کے تین چار ماتحت کماندار اس کے پاس آ گئے وہ بالکل تیار ہو کر آئے تھے
یہ کون ہے؟
قزل ساروق نے ادھیڑ عمر آدمی اور عورت کو دیکھ کر پوچھا
ہم نے پوچھا نہیں ایک کماندار نے جواب دیا ان سے پوچھو قزل ساروق نے کہا ان کے ادھر سے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ آگے یا اس علاقے میں کہیں کوئی آبادی ہے اگر یہ یہاں کے رہنے والے ہیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ وہ قدیم قلعہ کہاں ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم غلط راستے پر جا رہے ہوں
وہ لوگ قریب آئے تو انہیں روک لیا گیا
السلام علیکم! ادھیڑ عمر آدمی نے کہا آپ اس لشکر کے سالار معلوم ہوتے ہیں آپ نہ روکتے تو بھی میں نے رکنا تھا
آپ کہیں سے آ رہے ہیں یا کہیں جا رہے ہیں؟
قزل ساروق نے پوچھا ہم آرہے ہیں سالار محترم! اس نے جواب دیا ہم تقریباً ایک سال بعد واپس اپنے گھر آ رہے ہیں الحمدللہ ہم فریضہ حج ادا کرنے گئے تھے
کیا آپ پیدل ہی گئے تھے ؟
پیدل بھی سمجھیں اور سوار بھی سمجھیں اس نے جواب دیا یہ ایک ٹٹو ساتھ تھا باری باری اسی پر سوار ہوتے گئے کہیں سب کو کرائے کی سواری مل گئی اور یوں ارض حجاز تک پہنچے مقامات مقدسہ کی زیارت کی فریضہ حج ادا کیا اور پھر جنگوں کے وہ میدان دیکھے جہاں رسول اکرمﷺ کفار سے لڑے تھے بدر کا میدان دیکھا احد کا میدان دیکھا اور پھر اس جگہ کو سجدے میں جاکر چوما جہاں ہمارے رسول اکرمﷺ زخمی ہو گئے تھے خدا کی قسم وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن پیچھے بوڑھے ماں باپ کو نوکروں کے سپرد کر گئے تھے ان کی خاطر واپس آگئے ہیں
اللہ آپ کا حج قبول فرمائے قزل ساروق نے کہا آپ خوش نصیب ہیں جو اللہ کے گھر میں رکوع و سجود کرکے آئے ہیں کیا آپ کی بستی یہاں کہیں قریب ہے؟
ایسی قریب بھی نہیں حج سے آنے والے نے جواب دیا تقریباً پورے دن کی مسافت ہے
کیا اس علاقے میں کوئی بہت پرانا قلعہ بھی ہے ؟
قزل ساروق نے پوچھا اور خود ہی کہا سنا ہے اس کے کھنڈرات باقی ہیں
ہاں محترم سالار! حاجی نے جواب دیا کہنے کو تو اس پہاڑی کے دوسری طرف ہے لیکن وہاں تک پہنچتے آج کا دن گزر چکا ہو گا کیا آپ اس قلعے تک جانا چاہتے ہیں؟
ہاں! قزل ساروق نے کہا قصد تو وہیں کا ہے راستہ معلوم نہیں
راستہ مجھ سے پوچھیں حاجی نے کہا میرے ساتھ بیوی بچے نہ ہوتے تو میں آپ کے ساتھ چلتا تھا کہ کہیں آپ بھٹک نہ جائیں آپ جو فرض ادا کر رہے ہیں اسے میں تو فریضہ حج کے برابر سمجھتا ہوں آپ یقیناً سلجوقی ہیں
ہاں! حجاج کے مسافر قزل ساروق نے کہا میں سب سے پہلے مسلمان ہوں اس کے بعد سلجوق ہو
اس اجنبی نے قزل ساروق کو اس قدیم قلعے کا راستہ سمجھ آنا شروع کردیا راستہ کوئی پیچیدہ تو نہیں تھا البتہ دشوار تھا قزل ساروق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ اس وادی سے الٹے رخ چلنے والا تھا
آپ تو فرشتہ معلوم ہوتے ہیں قزل ساروق نے کہا ہم تو کسی اور ہی طرف چلنے والے تھے اللہ نے آپ کو ہماری رہنمائی کے لیے بھیجا ہے
اللہ مسبب الاسباب ہے حاجی نے کہا اللہ نے یہ سعادت بھی میری قسمت میں لکھی تھی کہ مجاہدین کی رہنمائی کروں مجھے آپ کے کام میں دخل تو نہیں دینا چاہیے لیکن پوچھنا چاہوں گا کہ آپ اس قدیم قلعے میں کیوں جا رہے ہیں؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام سنا ہے؟
قزل ساروق نے پوچھا
اس ابلیس کا نام کس نے نہیں سنا ہوگا حاجی نے کہا میں بغداد پہنچا تو وہاں سے یہاں تک اسی کا نام سنتا رہا ہوں افسوس یہ ہو رہا ہے کہ لوگ اسے نبی اور اللہ کا ایلچی مان رہے ہیں یہاں سے دور پیچھے مجھے پتہ چلا کہ وہ اسی قدیم قلعے میں ہے اور اس کے ساتھ بڑے خونخوار قسم کے جاں باز ہیں اگر آپ اس ابلیس کو ختم کر دیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو حج اکبر کا ثواب ملے گا
ہماری کامیابی کی دعا کریں سالار قزل ساروق نے عقیدت مندی کے لہجے میں کہا انہیں مکہ کی ایک ایک کھجور کھلا دیں حاجی کی بیوی بولی اور زم زم کے پانی کا ایک ایک گھونٹ پلا دیں
اس شخص نے ٹٹو کی پیٹھ پر لدے ہوئے سامان میں سے چھوٹا سا ایک تھیلا نکالا اس میں سے کچھ کھجوریں نکالیں ایک ایک کھجوروں سالار قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں کو دی
ان کی گھٹلیاں نکلی ہوئی ہیں حاجی نے کہا وہاں ایسی ہی ملتی ہیں
بڑی خاص قسم کی کھجوریں ہیں اگر آپ کے لشکر کے پاس بہت بڑا ڈول یا مٹکا ہو تو وہ پانی سے بھر لیا جائے تو میں اس میں زمزم کا پانی ملا دوں گا پورے لشکر کو دو دو گھونٹ پلائیں
یہ ایک ہزار کا لشکر تھا جس کے کھانے پینے کا انتظام اور برتن وغیرہ ساتھ تھے پانی سے بھرے ہوئے بڑے مشکیزے اونٹوں پر لدے ہوئے تھے اس کے حکم سے دو تین مشکیزے سے لائے گئے حاجی نے خشک چمڑے کی بنی ہوئی ایک صراحی نکالی جس کا منہ بڑی مضبوطی سے بند تھا حاجی نے یہ صراحی تینوں مشکیزوں میں خالی کر دی اور کہا کہ کوچ سے پہلے ہر آدمی یہ پانی پی لے
پھر آپ دیکھنا سالار محترم! حاجی نے کہا آپ کو راستے کی دشواریوں کا احساس تک نہیں ہوگا اور آپ اور آپ کا ہر سوار یہ محسوس کرے گا کہ وہ اڑ کر اس قلعے تک پہنچ گیا ہے قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں نے ایک ایک کھجور کھا لیں پھر انہوں نے مشکیزہ سارے لشکر میں اس حکم کے ساتھ گھمائے کہ ہر سوار پانی پیے لشکر کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آب زمزم ہے
حاجی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رخصت ہوگیا سالار قزل ساروق نے صرف اس خیال سے اپنے آپ میں ایک توانائی محسوس کی کہ اس نے مکے کی کھجور کھائی ہے اور آب زم زم پیا ہے لشکر کے ہر سوار نے عقیدت مندی سے آب زم زم پیا اور پھر لشکر اس راستے پر چل پڑا جو حاجی نے بتایا تھا حاجی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا
لشکر کو ایک بار پھر پہاڑی راستے پر اوپر جانا پڑا گزشتہ رات ان کا ایک گھوڑا اور اس کا سوار ضائع ہو چکے تھے یہ راستہ اس سے زیادہ تنگ اور خطرناک تھا گھوڑے ایک دوسرے کے پیچھے جارہے تھے ان کی رفتار بہت ہی سست تھی وہ جوں جوں آگے بڑھتے جارہے تھے راستہ تنگ ہی ہوتا جا رہا تھا اور آگے جاکر راستہ ختم ہوگیا آگے پہاڑی دیوار کی طرح کھڑی تھی
کیا اس حاجی نہیں یہی راستہ بتایا تھا سالار قزل ساروق نے اپنے ماتحتوں سے پوچھا جو اس کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے
اس نے کہا تھا کہ یہ راستہ اوپر جا کر نیچے اترے گا ایک ماتحت نے کہا یہاں اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں
قزل ساروق نے اس پہاڑی کی ڈھلان کو دیکھا اس سے آدمی سنبھل سنبھل کر اتر سکتا تھا اور گھوڑے بھی اتر سکتے تھے لیکن سواروں کے بغیر
کسی ایک سوار کو نیچے اتارو قزل ساروق نے اپنے ماتحت کماندروں سے کہا گھوڑے سے اتر کر گھوڑے کو ساتھ رکھیں
ایک جگہ ایسی مل گئی جہاں ڈھلان کا زاویہ زیادہ خطرناک نہیں تھا ایک سوار گھوڑے سے اترا اور باگ پکڑ کر ڈھلان سے اترنے لگا وہ کبھی دایاں کبھی بایاں جہاں پاؤں جمانے کو جگہ ملتی پاؤں جما کر اتر گیا گھوڑے خچر اور گدھے کو پہاڑی پر چڑھنے اور اترنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی قدرت نے ان کے پاؤں ایسے بنائے ہیں کہ پہاڑی سے پھسلتے نہیں
بلندی خاصی زیادہ تھی وہ سوار آخر اتر گیا قزل ساروق نے حکم دیا کے تمام سوار اسی طرح نیچے اتریں یوں لگا جیسے پہاڑی کا بالائی حصہ ٹوٹ کر بہت بڑے بڑے تودوں کی طرح نیچے کو سرک رہا ہو چند ایک گھوڑے گرے لڑکے اور سنبھل کر کھڑے ہوگئے آدمی گرتے سنبھلتے اترتے گئے اور جب سب اتر گئے تو سورج اپنا بہت سا سفر طے کر گیا تھا
سواروں کو اکٹھا کرکے کوچ شروع ہوا حاجی کی بتائی ہوئی نشانیوں کو دیکھتے وہ چلتے گئے بہت دور جا کر ایک پہاڑی کے درمیان سے انہیں راستہ مل گیا قدرت نے یہاں سے پہاڑی کو کاٹ دیا تھا اس سے نکل کر آگے گئے تو ایک پر شور ندی نے راستہ روک لیا چونکہ یہ علاقہ پہاڑی تھا اس لئے ندی کا بہاؤ بہت ہی تیز تھا پانی اتنا شفاف کے اس کی تہہ میں کنکریاں بھی دکھائی دے رہی تھیں ندی کم و بیش بیس گز چوڑی تھی درمیان میں اس کا بہاؤ بہت ہی تیز تھا گہرائی اتنی نہیں تھی کہ گھوڑے ڈوب جاتے گھوڑے ندی میں ڈال دیئے گئے درمیان میں گہرائی اتنی ہی تھی کہ پانی رکابوں تک آتا تھا لیکن بہاؤ اتنا تیز کے گھوڑے کے پاؤں اکھڑنے اور گھوڑے پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے بعض گھوڑے بہاؤ کے ساتھ ہی چلے گئے اور دور جا کر کنارے لگے آگے گھنا جنگل تھا ایسا گھنا بھی نہیں کہ اس میں سے گزرا ہی نہیں جاسکتا لیکن زمین ہموار نہیں تھی نشیب فراز تھی گھاٹیاں اور ٹیکریاں تھیں اور جگہ جگہ پانی جمع تھا اس کے اردگرد پھلن اور دلدل تھی گھوڑوں کو اسی میں سے گزارا گیا
وہ بہت ہی پرانا قلعہ تھا اور یہ کوئی بڑا قلعہ نہ تھا ایک جگہ سے دیوار کے پتھر گر پڑے تھے اور دیوار کی بلندی آدھی بھی نہیں رہ گئی تھی آدمی گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر قلعے کے اندر دیکھ سکتا تھا دروازوں کی لکڑی کو دیمک نے چاٹ لیا تھا ان کے لوہے کے فریم سلامت تھے ان فریموں نے ادھ کھائی لکڑی کو تھام رکھا تھا
قلعے کے اندر بہت ہی وسیع کھلی زمین تھی اس پر مکانوں کا ملبہ بکھرا ہوا تھا یہ ان لوگوں کے کچے پکے مکان تھے جو کبھی یہاں آباد تھے اس ملبے کے اردگرد قلعے کے کمرے تھے زیادہ تر کمروں کی چھتیں بیٹھ گئی تھیں کئی ایک کمرے ابھی سلامت تھے ان کی چھتوں میں چمگادڑوں نے بسیرا کر رکھا تھا
بڑے دروازے کے پیچھے ڈیوڑھی تھی اس کے پہلو میں بڑے کمرے تھے دیواروں کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا فرش اور دیواروں پر کائی اُگ کر خشک ہو گئی تھی معلوم نہیں وہ کون تھے جنہوں نے یہ قلعہ بنایا تھا اس سوال کا جواب بھی نہیں ملتا کہ اس دشوار گزار علاقے میں آکر یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا تھا علاقہ سرسبز اور خوبصورت تھا شاید صدیوں پہلے یہ علاقہ آباد ہوگا اب تو یہ چمگادڑوں اور بدروحوں کا مسکن تھا کوئی زندہ انسان تو اس میں جھانکنے کی بھی جرات نہیں کرتا تھا نہ جھانکنے کی ضرورت محسوس کرتا تھا
یہ قلعہ گزرگاہوں سے بہت دور تھا شاید ڈاکو اور رہزن کبھی یہاں چھپنے کے لیے آتے ہوں گے لیکن کچھ دنوں سے یہ قلعہ پھر سے آباد ہو گیا تھا آباد ہونے والوں کی تعداد کم و بیش تین سو تھی ان میں سات آٹھ عورتیں بھی تھیں آدمی جو تھے ان میں کئی ایک زخمی تھے شدید زخمی بھی تھے ان کے گھوڑے بھی تھے اور اونٹ بھی وہ عارضی طور پر یہاں آئے تھے یہاں سے انہیں اپنی منزل کو روانہ ہونا تھا لیکن ابھی انہوں نے منزل کے راستے کا تعین نہیں کیا تھا
سلجوقی سالار قزل ساروق کی یہی منزل تھی اور یہی اس کا ہدف تھا اس کا شکار اسی قلعے میں موجود تھا وہ حسن بن صباح تھا
حسن بن صباح تبریز خالی کر آیا تھا اسے معلوم تھا کہ پانچ سو سلجوقی سواروں اور ان کے سالار کو مار کر اس کا راستہ صاف نہیں ہوگیا بلکہ راستے کی دشواریاں پیدا ہوئی ہیں سلجوقیوں کے ساتھ اس کا یہ پہلا تصادم تھا اس نے سلجوقیوں کو اپنا خونی دشمن بنا لیا تھا پہلے تو ان کے ساتھ اس کا نظریاتی اختلاف تھا حسن بن صباح باطل عقیدے کا بانی اور علمبردار تھا سلجوقی صحیح العقیدہ مسلمان تھے وہ ایک اسلامی سلطنت میں حسن بن صباح کا وجود برداشت نہیں کر سکتے تھے اب نظریاتی اختلاف مرنے مارنے والی عداوت کی شکل اختیار کر گیا تھا
تبریز کے خونریز تصادم کے بعد حسن بن صباح خلجان شاہ در اور اپنے پیرومرشد احمد بن عطاش کی تحویل میں کسی بھی قلعے میں جا سکتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ اور خصوصاً ابو مسلم رازی جوابی کارروائی کریں گے اور فوراً کریں گے اور اسے زمین کی ساتویں تہہ میں سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے
یہ سوچ کر تبریز میں اس کے جتنے پیروکار فدائین اور وہاں تھوڑے سے جو لوگ آباد تھے ان سب کو ساتھ لے کر اس قدیم قلعے میں آگیا تھا یہ بتانا مشکل ہے کہ اسے کس نے مشورہ دیا تھا یا اسے کس نے اس قلعے کی نشاندہی کر کے کہا تھا کہ وہاں جا کر روپوش ہو جائے
تاریخوں میں آیا ہے کہ اس نے احمد بن عطاش کو اطلاع دے دی تھی کہ تبریز میں کیسی خون ریزی ہوئی ہے اور اب وہ ایک ایسے قلعے کے کھنڈروں میں روپوش ہے جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت وقت رہتا تھا حسن بن صباح ایک کمرے میں فرش پر بیٹھا تھا یہ کمرہ اس کے لیے خاص طور پر صاف کیا گیا تھا اس کے ساتھ جو لوگ آئے تھے انھوں نے فرش پر کمبل رکھیے اور ان پر صاف ستھری چادریں بچھا دیں تھیں تکیئے بھی رکھ دیے تھے اور یہ ان لوگوں کا سردار یا سالار نہیں بلکہ ان کا روحانی پیشوا تھا بعض نے اسے پیغمبری کا درجہ دے دیا تھا تبریز والوں نے دیکھا تھا کہ وہ بھاگنے کا راستہ دیکھ رہے تھے تو حسن بن صباح نے اللہ کو پکارا تھا پھر اس نے اعلان کیا تھا کہ وحی آ گئی ہے اللہ کی مدد آ رہی ہے پھر تین سو سوار آگئے تھے جنہوں نے سلجوقی سواروں کو بے خبری میں آ لیا اور انہیں ان کے سالار سمیت کاٹ کر پھینک ڈالا تھا
اور تم جانتے ہو حسن بن صباح کمرے میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چند ایک آدمیوں سے کہہ رہا تھا کہ ہر پیغمبر کو بھاگنا پڑا روپوش ہونا پڑا مصائب برداشت کرنے پڑے اور انہیں کہیں پناہ لینی پڑی حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون نے قتل کرنے کی کوشش کی رسول اللہﷺ کو مکہ سےنکل کر مدینہ میں پناہ لینی پڑی اگر میں آج ان کھنڈروں میں آ بیٹھا ہوں تو یہ نہ سمجھنا کہ مجھے اللہ نے فراموش کر دیا ہے یہ اللہ کا اشارہ تھا کہ میں یہاں آگیا ہوں پیغمبروں کے ساتھیوں کو اللہ نے عام لوگوں سے زیادہ اونچا رتبہ دیا ہے تم سب اللہ کی نگاہوں میں اونچے رتبے کے افراد ہو تم پر جب بھی مشکل وقت آئے گا اللہ تمہاری مدد کو پہنچے گا
وہ یہیں تک کہہ پایا تھا کہ باہر سے ایک آدمی کی بڑی بلند آواز سنائی دی حملہ آرہا ہے ھوشیار ہوجاؤ
حسن بن صباح چپ ہو گیا اور اس کے کان کھڑے ہوگئے
سلجوقیوں کا لشکر آ رہا ہے
بہت بڑا لشکر ہے
ولی کو اطلاع دے دو
ان آوازوں کے ساتھ جب دوڑتے قدموں کی آہٹیں سنائی دینے لگی تو حسن بن صباح اٹھا اور باہر نکل گیا اس نے اپنے آدمیوں میں ہڑبونگ مچی دیکھی کچھ آدمی قلعے کی ٹوٹی ہوئی خستہ حال سیڑھیوں سے اوپر جا رہے تھے اور کچھ دوسری طرف کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے انہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں شور و غل برپا کر رکھا تھا
زخمیوں کا کیا بنے گا
ہم اتنے بڑے لشکر سے نہیں لڑ سکتے
روک جاؤ! حسن بن صباح نے اپنی مخصوص گرجدار آواز میں کہا جو جہاں ہے وہیں رہے
حسن بن صباح بڑے تحمل اور اطمینان سے سیڑھیاں چڑھ گیا اور اس طرف دیکھا جس طرف اس کے آدمی دیکھ رہے تھے کم و بیش ڈیڑھ میل دور ایک ہزار سوار سمندر کی لہر کی طرح چلے آ رہے تھے ایک ہزار سوار بہت بڑی طاقت تھی قلعہ تو محض ایک کھنڈر تھا جس کے دروازے دیمک نے کھا لئے تھے حسن بن صباح کے ساتھ تین سو سے کچھ ہی زیادہ آدمی تھے جن میں آدھے تبریز کی لڑائی کے زخمی تھے ابو علی نے قزوین سے تین سو آدمی بھیجے تھے ان میں سے زیادہ تر واپس چلے گئے تھے
زخمیوں میں چند ایک ہی تھے جو لڑنے کے قابل تھے ان سب کا یہ واویلا بجا تھا کہ وہ اتنے بڑے لشکر سے نہیں لڑ سکیں گے لیکن وہ اپنے پیرومرشد یا امام حسن بن صباح کے چہرے پر سکون اور اطمینان دیکھ رہے تھے سالار قزل ساروق کے ایک ہزار سوار قریب آتے گئے ان کی رفتار اتنی سست تھی جیسے وہ آرام آرام سے سفر پر جا رہے ہوں
کیا خیال ہے ؟
حسن بن صباح نے ایک آدمی سے پوچھا جو اس کے ساتھ کھڑا تھا
اور قریب آنے دیں ساتھ والے آدمی نے کہا ان کی رفتار بتاتی ہے کہ وار خالی نہیں گیا
یہ تو میں دیکھ رہا ہوں حسن بن صباح نے کہا یہاں سے انہیں گھوڑے دوڑا دینے چاہیئے تھے میں کچھ اثر دیکھ رہا ہوں
قلعے کی دیوار پر اور نیچے حسن بن صباح کے آدمیوں نے ایسا غل غپاڑہ بپا کر رکھا تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی
ہر آدمی اپنا ہتھیار لے کر لڑنے کے لیے تیار ہو جائے حسن بن صباح نے دیوار سے اندر کی طرف منہ کرکے اپنے آدمیوں کو حکم دیا تیر انداز اوپر آ جائیں
چونکہ یہ حسن بن صباح کا حکم تھا اور سب اسے ولی بھی مانتے تھے امام بھی اور بعض نے تو اسے پیغمبر بھی بنا دیا تھا انہوں نے حکم کی تعمیل کی لیکن بددلی اور بزدلی ان کے چہروں پر صاف نظر آرہی تھی زخمیوں نے الگ ہنگامہ مچا رکھا تھا وہ جانتے تھے کہ وہ تو معذوری اور بے بسی کی حالت میں ہیں مارے جائیں گے
دوسری طرف سے نکل بھاگو قلعے سے ایک آواز اٹھی
ہمیں ساتھ لے چلو بھائیو! یہ زخمیوں کی آہ و بکا تھی
حسن بن صباح نے دیوار پر کھڑے تیر اندازوں کو دیکھا پھر اندر کی طرف اپنے آدمیوں کو دیکھا اور ان کی باتیں سنیں باہر دیکھا تو ایک ہزار سواروں کا لشکر قلعے کے قریب آ گیا تھا اور گھوڑے قلعے کے دائیں بائیں پھیلتے جارہے تھے سالار قزل ساروق اور اس کے سواروں کے چہروں پر وہ غیظ وغضب نہیں تھا جو حملہ آوروں کے چہروں پر ہوا کرتا ہے
قزل ساروق کو تو آگ بگولا ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان باطنیوں نے اس کے ساتھی سالار امیر ارسلان کو قتل کیا تھا اور انہوں نے پانچ سو سلجوقی سوار مار ڈالے تھے لیکن قزل ساروق کے چہرے پر اطمینان سا تھا
حسن بن صباح نے اپنے آدمیوں کا جائزہ لے لیا تھا اس نے دیکھ لیا تھا کہ ان میں لڑنے کا دم نہیں اور نہ ہی ان میں جذبہ ہے اس حقیقت سے تو وہ آگاہ تھا کہ اتنے تھوڑے سے آدمی ایک ہزار سواروں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے وہ اچانک دیوار سے ہٹ کر پیچھے کو موڑا اور وہیں سے اندر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا
اللہ مجھے زمین پر اتارنے والے اللہ حسن بن صباح نے دونوں ہاتھ اور منہ آسمان کی طرف کرکے بڑی ہی بلند آواز میں کہا تیرا ایلچی جسے تو نے امامت بخشی ہے بہت بڑی مشکل میں آگیا ہے اپنی راہ میں لڑ کر زخمی ہونے والے بندوں پر رحم فرما اور اپنی خدائی کی لاج رکھ لے
حسن بن صباح پلٹ کر دیوار کی بیرونی طرف چلا گیا سالار قزل ساروق اس کے سامنے تھا اس سلجوقی سالار نے اپنے سواروں کو کوئی حکم نہیں دیا تھا وہ حسن بن صباح کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو
تم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہو؟
حسن بن صباح نے پوچھا
ہم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہیں قزل ساروق نے اپنے ایک ماتحت سے پوچھا جو اس کے پاس موجود تھا
ماتحت نے اس کے منہ کی طرف دیکھا اور پھر منہ اوپر کرکے دیوار پر کھڑے حسن بن صباح کو دیکھنے لگا
حسن بن صباح ایک بار پھر پیچھے کو مڑا اس نے بازو اوپر کئے اور بڑی ہی گرجدار آواز میں اعلان کیا فرشتے اتر آئے ہیں حوصلوں کو مضبوط رکھو دشمن بھاگ رہا ہے
وہ پھر دیوار کے باہر کی طرف موڑا دو تیر اندازوں کو بلایا انہیں کچھ کہا انہوں نے ایک ایک تیر چلایا ایک تیر ایک سوار کے سینے میں اور دوسرا تیر ایک اور سوار کی شہ رگ میں اتر گیا دونوں سوار گھوڑوں سے گر پڑے
تم نے میرے سواروں کو کیوں مروایا ہے؟
سالار قزل ساروق نے حسن بن صباح سے پوچھا
اپنے سواروں کو یہاں سے لے جاؤ حسن بن صباح نے کہا ورنہ تمہارا ہر سوار اسی طرح مارا جائے گا پھر تمہیں گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑے کو بھگا دیا جائے گا
سالار قزل ساروق نے کچھ بھی نہ کہا اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کو موڑا اور چل دیا تمام سوار اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے
امام نے دشمن کو بھگا دیا ہے قلعے کی دیوار سے بڑی ہی بلند آواز اٹھی اوپر آ کر دیکھو
اپنے پیر و مرشد کا معجزا دیکھو ایک اور آواز اٹھی
پیرومرشد نہیں کسی نے گلا پھاڑ کر کہا نبی کہو خدا کا بھیجا ہوا امام کہو
نیچے والے تمام آدمی جن میں چند ایک عورتیں بھی تھیں دوڑتے ہوئے اوپر گئے اور حیرت زدگی کے عالم میں جاتے ہوئے سواروں کو دیکھنے لگے سلجوقی سوار جاتے جاتے جنگل کی ہریالی میں تحلیل ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی سورج مغرب والی بلند و بالا پہاڑیوں کے پیچھے چلا گیا
حسن بن صباح دیوار پر ہی کھڑا رہا اور اس کی نظریں ادھر ہی لگی رہیں جدھر سالار قزل ساروق اور اس کے سوار نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے
امام کو سجدہ کرو کسی کی آواز اٹھی
سب لوگ جیسے اسی آواز کے منتظر تھے جو دیوار پر تھے وہ دوڑتے آئے اور حسن بن صباح کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے نیچے والے آدمی جہاں تھے وہیں سے انہوں نے منہ حسن بن صباح کی طرف کر لئے اور سجدے میں چلے گئے
حسن بن صباح کا سینہ تن گیا شروع سے اس کے ساتھ جو ادھیڑ عمر آدمی موجود رہا تھا جسے اس نے کہا تھا کہ میں کچھ اثر دیکھ رہا ہوں وہ بھی سجدے میں تھا حسن بن صباح نے اسے آہستہ سے پاؤں کی ٹھوکر ماری اس آدمی نے سر اٹھا کر دیکھا حسن بن صباح نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا وہ آدمی اٹھا تو حسن بن صباح نے اس کے کان میں کوئی بات کہی
کیا ہم اپنے فرشتوں کو واپس بلا لیں ؟
اس آدمی نے اپنی آواز کو بھاری کرکے جلالی لہجے میں کہا بولو میرے امام!
ہاں خداوند دو عالم! حسن بن صباح نے کہا میں اپنے بندوں کی طرف سے تیری ذات باری کا شکر ادا کرتا ہوں تیرے فرشتوں نے ہمارے دشمن کو بھگا دیا ہے
سب لوگ ابھی تک سجدے میں تھے وہ حسن بن صباح کے ساتھی کی آواز کو خدا کی آواز سمجھے تھے
اٹھو! حسن بن صباح نے کہا تم نے اللہ کی آواز سن لی ہے
سب سجدے سے اٹھے اب ان کے چہروں پر کچھ اور ہی تاثر تھا بعض کے منہ سے حیرت یا جوش عقیدت سے کھل گئے تھے اور وہ حسن بن صباح کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ بھی اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ تھا اور وہ ابھی غائب ہو جائے گا اور آسمان پر جا پہنچے گا
عورتیں جو نیچے تھیں دوڑتی اوپر آئیں ہر ایک نے باری باری آگے بڑھ کر حسن بن صباح کا دایاں ہاتھ پکڑا آنکھوں سے لگایا اور چوما
شام کا دھندلکا گہرہ ہو رہا تھا قلعے کے اندر مشعلیں جل اٹھی تھیں حسن بن صباح آہستہ آہستہ چلتا سیڑھیوں سے اترا اس کی چال میں اور اس کے چہرے پر جلالی تاثر تھا اس کے ہر آدمی کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس کے قریب ہو کر اسے ہاتھ لگائے اور دیکھے کہ یہ شخص انسان ہے یا اللہ کی پسندیدہ کوئی آسمانی مخلوق ہے تبریز میں بھی اس نے اللہ سے مدد مانگی تھی تو اللہ نے ایسی مدد بھیجی تھی کہ سلجوقیوں کے تمام کے تمام سوار مارے گئے تھے
شام کھانے کے بعد قلعے میں جشن کا سماں بندھ گیا عورتوں نے گیت گائے آدمی پاگلوں کی طرح ناچے انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر لیا تھا اور تھوڑے سے وقت میں پکا بھی لیا تھا وہاں کوئی چیز نہیں تھی تو شراب نہیں تھی شراب حسن بن صباح نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی اس کے پیروکار اور مرید شراب کو اللہ کے حضور پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے
فتح کا یہ جشن بہت دیر بعد ختم ہوا سب سے زیادہ خوش تو وہ زخمی تھے جو لڑنا تو دور کی بات ہے چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے وہ بال بال بچ گئے تھے
وقت آدھی رات کا تھا حسن بن صباح اپنے کمرے میں بیٹھا تھا فانوس جل رہا تھا شراب کی صراحی اور پیالے سامنے رکھے تھے وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پاس ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا اور ایک جواں سال عورت بھی تھی وہ ایک حسین عورت تھی جس کی آنکھیں مسکراتی تھیں اس کے ہونٹوں کے تبسم میں ایسا تاثر تھا کہ دیکھنے والا اس سے نظریں ہٹا نہیں سکتا تھا
یہ ادھیڑ عمر آدمی وہی تھا جو قزل ساروق کو صبح سویرے وادی میں ملا تھا اور اس نے اپنا تعارف کرایا تھا کہ وہ اپنی بیوی اور اپنے دو بیٹوں کے ساتھ حج کر کے آیا ہے اس کے ساتھ جو بیوی تھی وہ یہی عورت تھی جو حسن بن صباح کے پاس بیٹھی شراب پی رہی تھی یہ اس شخص کی بیوی نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے خصوصی اور خفیہ گروہ کی عورت تھی اور ان کے ساتھ وادی میں جو دو لڑکے تھے وہ ان کے کچھ نہیں لگتے تھے وہ تبریز سے آئے ہوئے ایک آدمی کے دو بیٹے تھے
یہ صرف تمہارا کمال ہے اسماعیل! حسن بن صباح نے اس آدمی سے کہا مجھے توقع نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی یہ کام کر سکو گے نہ کر سکتے تو میں تمہیں بے قصور اور مجبور سمجھتا
وہاں نہ سہی عورت نے کہا یہ سلجوقی وہاں نہ ملتے تو کہیں اور مل جاتے خوش نصیبی یہ ہوئی کے یہ ہمیں جلدی مل گئے
میں نے انہیں غلط راستے پر ڈال دیا تھا اسماعیل نے کہا وہ ٹھیک راستے پر آ رہے تھے اس راستے سے وہ جلدی یہاں تک پہنچ جاتے میں نے یہ سوچ کر انہیں غلط راستے پر ڈال دیا تھا کہ کھجوروں اور پانی کو اپنا اثر پورا کرنے کا وقت مل جائے آپ نے بتایا تھا کہ ان میں جو چیز ملائی گئی ہے اس کا اثر دیر سے شروع ہوتا ہے
میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے ایک خوشی یہ بھی ہے کہ اس دوائی کا یہ پہلا تجربہ کیا گیا ہے مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ اس حد تک کامیاب ہوگا کہ ایک ہزار کے لشکر کو ذہنی طور پر مفلوج کر دے گا اور مفلوج بھی اس طرح کرے گا کہ متاثرہ آدمی ہر کام ٹھیک ٹھاک کرے گا لیکن جذباتی لحاظ سے اتنا سرد ہوجائے گا کہ کسی کو لڑنے جھگڑنے کے لیے نہیں للکارے گا اور اگر اسے کوئی للکارے گا تو وہ بزدلوں کی طرح منہ موڑ جائے گا
تو کیا یہ لشکر صحیح وسلامت اپنی منزل پر پہنچ جائے گا؟
اسماعیل نے پوچھا
کیا وہ یہاں تک صحیح سلامت نہیں پہنچ گئے تھے حسن بن صباح نے کہا وہ جو تمہارے بتائے ہوئے اتنے دشوار راستے سے یہاں تک پہنچ گئے تھے واپس بھی چلے جائیں گے
یہ اثر کب تک رہے گا؟
اسماعیل نے پوچھا
شاید دو دن تک حسن بن صباح نے جواب دیا
ایک اور بات امام! اس جواں سال عورت نے پوچھا جو اس کام میں شامل تھی ایسا کیوں نہ کیا گیا کہ اسی دوائی کی زیادہ مقدار کھجوروں اور پانی میں ملا دی جاتی تاکہ یہ لشکر جہاں تھا وہیں سے واپس چلا جاتا
اس میں ایک راز ہے حسن بن صباح نے ہنستے ہوئے کہا اس لشکر کو وہیں سے واپس بھیجا جا سکتا تھا اور جس عقیدے سے انہوں نے تمہاری دی ہوئی کھجوریں اور ندی کے پانی کو آب زمزم سمجھ کر منہ میں ڈال لیا تھا انہیں انہی کھجوروں اور پانی میں زہر بھی دیا جاسکتا تھا جس کا نہ کوئی ذائقہ ہوتا ہے نہ بو لیکن انہیں تک زندہ آنے اور زندہ واپس جانے دیا گیا ولی اور پیغمبر ہر کوئی نہیں بن سکتا بنتا وہ ہے جس کی سوچ آسمانوں تک چلی جاتی ہے میں نے ان لوگوں کو یہ معجزہ دکھانا تھا جو ہمارے ساتھ ہیں انہوں نے یہ دیکھا کہ میرے کہنے پر آسمان سے مدد آئی جو نظر نہیں آتی تھی پھر ان آدمیوں نے دیکھا کہ اتنا طاقتور گھوڑسوار لشکر میری ہلکی سی للکار پر واپس چلا گیا اب یہ لوگ جہاں جائیں گے میرا یہ معجزہ سنائیں گے انسانی فطرت میں زیب داستان بھی موجود ہے اس لیے یہ لوگ میرا معجزہ بیان کرتے زیب داستان کے لئے مبالغہ آرائی بھی کریں گے کہ تین سو انسان تین ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ تعداد کو میرے پاس کھینچ لایئں گے
بلکہ یہ تعداد کھینچی ہوئی آئے گی اسماعیل نے کہا مسلمان کی عقیدت مندی کی بھی کوئی حد نہیں اسے کہیں کی ذرا سی مٹی پڑیا میں باندھ کر دے دو اور کہو کہ یہ مکہ اور مدینہ کی سوغات ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے یہ مٹی کھا لے گا ایسے ہی اس سلجوقی سالار اور اس کے ساتھیوں نے میری دی ہوئی کھجور حجاج کی کھجوریں سمجھ کر بڑے احترام سے کھالی اور جب میں نے ندی میں سے بھری ہوئی صراحی دکھا کر کہا کہ یہ زم زم کا پانی ہے تو سالار نے فوراً ایسا انتظام کر لیا کہ سارے لشکر کو پانی پلا دیا
تم بڑے کام کی چیز ہو خدیجہ! حسن بن صباح نے اس جواں سال اور دلنشین عورت کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ابھی تو میں نے تم سے بہت کام لینا ہے حسن بن صباح نے خدیجہ کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے لیا اور اسماعیل کی طرف دیکھا
اسماعیل اشارہ سمجھ گیا وہ کمرے سے نکل گیا
بیشتر مؤرخوں نے تبریز کی لڑائی کا ذکر کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ سالار امیر ارسلان اور اس کے سوار مارے گئے انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک باطنی سردار ابو علی نے قزوین سے تین سو باطنی سواروں کی کمک بھیجی تھی پھر انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان ملک شاہ نے غصے کے عالم میں سالار قزل ساروق کو ایک ہزار سوار دے کر بھیجا تھا اور اس کے ساتھ حکم یہ دیا تھا کہ واپس آؤ تو حسن بن صباح تمہارے ساتھ ہو زندہ یا مردہ
یہ سب باتیں تو ان مؤرخوں نے لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کوئی گمنام سا قلعہ تھا یہاں سے بھی حسن بن صباح کے پیروکار بھاگ نکلنے پر اتر آئے تھے اور حسن بن صباح نے تبریز والا مظاہرہ کیا تھا کہ وحی نازل ہو گئی ہے اور خدائی مدد آ رہی ہے یہ سن کر سب کے حوصلے قائم ہوگئے تھے اس کے بعد کیا ہوا؟
ان مؤرخوں میں سے کسی نے بھی نہیں لکھا کہ اس لڑائی کا انجام کیا ہوا یہاں آ کر ان کی لکھی ہوئی تاریخ ایسے اندھیرے میں چلی جاتی ہے جہاں کچھ نظر نہیں آتا البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح قلعہ المُوت میں پہنچ گیا
داستان گو نے قزل ساروق اور اس کے سواروں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کا جو واقعہ سنایا ہے یہ تین غیر معروف سے مؤرخوں نے کچھ ایسے حوالوں اور دلائل سے لکھا ہے کہ یہ قابل قبول اور مستند سمجھا جاتا ہے ان میں اٹلی کا ایک تاریخ نویس بانسولینی خاص طور پر قابل ذکر ہے اس کی تحریری اطالوی زبان میں ملتی ہیں جن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا گیا ہے
بظاہر یہ واقعہ افسانوی سا لگتا ہے لیکن حسن بن صباح کو خدا نے ایسا دماغ دیا تھا جسے اگر مافوق الفطرت یا بالائی سطح انسانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس کی تاریخ کا مطالعہ گہرائی میں جا کر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنے ابلیسی فرقے کی بنیاد انسان کی فطری کمزوریوں پر رکھی تھی ان میں ایک تو عورت اور دوسری تھی نشہ یہ دونوں چیزیں جب انسان کے دماغ پر غالب آجاتی ہیں تو پھر وہ انسان اگر ضرورت پڑے تو اپنے بچوں تک کو قتل کر دیتا ہے لیکن پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح کی کامیابی کا راز حشیش اور حسین عورتیں تھیں
حسن بن صباح جہاں بھی جاتا تھا اس کا جاسوسی کا نظام اس کے ساتھ ہوتا تھا وہ تبریز سے نکلا تو اس نے اپنے دو تین آدمی اس علاقے میں چھوڑ دیے تھے سالار قزل ساروق تبریز پہنچا تو اتنی دور بیٹھے ہوئے حسن بن صباح کو اطلاع مل گئی اگر نیم پاگل سا شخص قزل ساروق کے جاسوس کو نہ بتاتا کہ حسن بن صباح کا قافلہ فلاں طرف گیا ہے تو وہاں تک کوئی بھی نہ پہنچ سکتا لیکن انہیں دو تین مکانوں میں سے ایک آدمی نے حسن بن صباح تک اطلاع پہنچا دیں کہ اس کی نشاندہی ہوگئی ہے اور ایک ہزار سواروں کا لشکر آ رہا ہے
حسن بن صباح کو اطلاع ملی تو اس نے وہاں سے کہیں اور بھاگ جانے کی بجائے یہ طریقہ سوچ لیا جو بیان کیا گیا ہے اس نے اپنا خفیہ گروہ ساتھ رکھا ہوا تھا جس میں اسماعیل بھی تھا اور خدیجہ بھی فوراً یہ طریقہ سوچ لیا گیا پھر جس طرح اسماعیل اور خدیجہ میاں بیوی کے روپ میں دو لڑکوں اور ایک ٹٹوں کے ساتھ روانہ ہو گئے یہ حسن بن صباح کے دماغ کا بے مثال کمال تھا اسماعیل اور خدیجہ رات بھر ان سواروں کے انتظار میں ایک جگہ بیٹھے رہے تھے صبح انہیں یہ لشکر مل گیا
سالار قزل ساروق اپنے سواروں کے آگے آگے گھوڑے پر سوار چلتا گیا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے ذہن سے یہ اتر ہی گیا ہوں کہ وہ کس مقصد کے لیے ادھر آیا تھا اس کا انداز ایسا تھا جیسے لوگ سیر سپاٹے کے لئے آئے ہوں ان کے دماغ صحیح کام کر رہے تھے وہ راستہ بھولے نہیں تھے ان کے دماغ اس وقت بھی حاضر تھے جب وہ بڑی خطرناک حد تک پہاڑی راستوں پر جا رہے تھے البتہ انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ کہیں رات بھر کے لیے پڑاؤ بھی کرنا ہے
انہوں نے دن کے وقت پڑاؤ کیا کھانا تیار کیا کھایا بھی اور سو گئے چونکہ ان کے احساس زندہ نہیں تھا اور یہ احساس سویا ہوا تھا وہ ایسے سوئے کہ اگلی صبح جاگے اور چل پڑے تاریخوں میں یہ کھوج نہیں ملتا کہ وہ کتنے پڑاؤ کر کے مرو پہنچے یہ سراغ ملتا ہے کہ وہ مرو سے ابھی کچھ دور ہی تھے تو سالار قزل ساروق نے اپنے سر کو زور سے ہلایا اور لشکر کو روک لیا اس نے اپنے ماتحتوں کو بلایا وہی ماتحت جو خوش وخرم چلے آرہے تھے اب کسی اور ہی ذہنی کیفیت میں تھے ان کے چہروں پر حیرت اور تذبذب کے تاثرات تھے
تم کیا محسوس کر رہے ہو؟
سالار قزل ساروق نے ان سے پوچھا اور اپنی کیفیت یوں بیان کی لگتا ہے ہم خواب میں کہیں گھومتے پھرتے رہے ہیں اور شاید حسن بن صباح کو دیکھا تھا
میں بھی یہی محسوس کر رہا ہوں ایک ادھیڑ عمر ماتحت نے کہا کچھ کچھ یاد آرہا ہے کہ ہم وہاں تک پہنچے تھے
مجھے یاد ہے کہ ایک حاجی اس کی بیوی اور دو بیٹے ملے تھے ایک اور ماتحت کمانڈر نے کہا پھر مجھے ندی تک یاد ہے
سالار قزل ساروق یوں چونک کر سیدھا ہوگیا جیسے سب کچھ یاد آگیا ہو
ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے اس نے کہا ہم سلطان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے لیکن میرے رفیقو! سلطان کے آگے جھوٹ نہیں بولنا جو ہوا ہے وہ من و عن بیان کرنا ہے اگر سلطان کو رحم آگیا تو وہ ہمیں معاف کر دے گا ورنہ وہ جو بھی سزا دے گا وہ ہم دل و جان سے قبول کریں گے
پھر یوں کرو دوستو! ایک ماتحت کماندار نے کہا اگر سلطان نے ہمیں سبکدوش کر دیا تو آؤ حلفیہ یہ عہد کریں کہ ہم اپنے طور پر سب مل کر حسن بن صباح کو زندہ یا مردہ سلطان کے سامنے پیش کریں گے اور اس کے گروہ کے ایک بھی آدمی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے
اگر سلطان نے ہمیں قید میں ڈال دیا ایک اور کماندار نے کہا تو ہم اسے کہیں گے کہ ہمیں اپنی اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے آزاد کرے
یہ بھی سوچ لو دوستو! سالار قزل ساروق نے کہا حسن بن صباح کی جگہ کوئی اور دشمن ہوتا تو سلطان ہماری اس غلطی کو جو ہم سے دھوکے میں ہوئی معاف کر دیتا لیکن یہاں معاملہ حسن بن صباح اور اسلام کے تحفظ کا ہے سلطان مجھے اور تم سب کمانداروں کو سزائے موت بھی دے سکتا ہے اور مجھے توقع سزائے موت کی ہی ہے لیکن ہماری وفاداری یہ ہے کہ ہم اس کے سامنے جائیں گے اور مرنے کے لیے تیار ہو کر جائیں گے…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:23 }
سلطان ملک شاہ کو سالار قزل ساروق پر اتنا زیادہ اعتماد تھا کہ اس نے ایک بار بھی ایسے شک کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کا یہ سالار ناکام لوٹے گا اس کا دانشمند وزیر خواجہ حسن طوسی نظام الملک دو تین بار کہہ چکا تھا کہ قزل ساروق کا کوئی پیغام نہیں آیا کم از کم ایک پیغام تو آنا چاہیے تھا
لومڑی کا شکار آسان نہیں ہوتا خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا کیا آپ نہیں جانتے کہ حسن بن صباح جنگجو دشمن نہیں وہ لومڑی ہے وہ دکھاتا تلوار ہے اور مارتا برچھی ہے ہمارا سالار امیر ارسلان اس کے دھوکے میں مارا گیا ہے وہ ان باطنیوں سے دو بدُو لڑائی لڑا ہے لیکن اس پر وار پیٹھ پیچھے سے ہوا تھا قزل ساروق دھوکے میں نہیں آئے گا وہ وثوق سے کہہ گیا تھا کہ وہ واپس آئے گا تو حسن بن صباح زندہ یا مردہ اس کے ساتھ ہوگا نہ ہوا تو وہ خود بھی واپس نہیں آئے گا
نظام الملک خاموش رہا جیسے سلطان ملک شاہ کی اس بات کو وہ خوش فہمی سمجھا ہو اور اسے قزل ساروق کی کامیابی مشکوک نظر آرہی ہے تاریخ شاہد ہے کہ خواجہ حسن طوسی دانشمند اور دوراندیش تھا اس کی نگاہیں اس حد سے آگے نکل جایا کرتی تھی جس حد تک ملک شاہ کی نگاہی دیکھ سکتی تھیں ملک شاہ اس کی دور اندیشی کا قائل تھا،, یہ الفاظ سلطان ملک شاہ کے ہی ہیں کہ خواجہ حسن طوسی روح کی آنکھ سے دیکھتا اور روحانی طاقت سے مشکلات پر قابو پا لیتا ہے
پھر ایک روز جب سورج ڈھل رہا تھا سلطان ملک شاہ کے محل کے قریب ایک بڑی ہی بلند آواز اٹھی لشکر واپس آ رہا ہے
پھر دوڑتے قدموں کے ساتھ آوازوں کا طوفان آگیا
سالار قزل ساروق آ رہا ہے
لشکر پورا معلوم ہوتا ہے
فاتح آ رہے ہیں
سلطان عالی مقام! دربان نے سلطان ملک شاہ کو اطلاع دی سالار قزل ساروق کا لشکر واپس آ رہا ہے شہر سے ابھی کچھ دور ہے
ہمارا اور نظام الملک کا گھوڑا فوراً تیار کرو ملک شاہ نے کہا
نظام الملک باہر کی آوازیں سن کر ملک شاہ کے پاس پہنچ گیا ہم قزل ساروق کا استقبال شہر سے باہر کریں گے سلطان ملک شاہ نے کہا
سلطان اور نظام الملک گھوڑوں پر سوار شہر سے نکل گئے محافظ دستے کے چار سوار ان کے آگے اور بارہ پیچھے جارہے تھے سالار قزل ساروق اور اس کے ایک ہزار سوار شہر سے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے
قزل ساروق نے ہمیں دیکھ کر بھی اپنے گھوڑے کو ایڑ نہیں لگائی ملک شاہ نے نظام الملک سے کہا کیا یہ فتح کے نشے کا اظہار ہے؟
اس کا چہرہ اور اس کا اندازہ فتح والا نہیں لگتا نظام الملک نے کہا اگر یہ فتح کے نشے سے سرشار ہوتا تو ہمیں دیکھتے ہی گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہم تک پہنچ چکا ہوتا یہ تو لگتا ہے بڑی مشکل سے گھوڑے پر بیٹھا ہوا ہے
اور لشکر بھی خاموشی سے آرہا ہے سلطان ملک شاہ نے کہا اور گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی
قریب آکر قزل ساروق نے اپنا گھوڑا لشکر کے آگے سے ایک طرف کر لیا اور ملک شاہ کے سامنے رک گیا
خوش آمدید ساروق! سلطان ملک شاہ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اگر تم حسن بن صباح کو زندہ یا مردہ اپنے ساتھ نہیں لا سکے تو یہ شرم شاری کی معقول وجہ نہیں سلطان ملک شاہ نے دیکھا کہ اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور قزل ساروق نے اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا
سالار قزل ساروق! نظام الملک نے کہا سلطان مکرم نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے کر رکھا ہے میرا خیال ہے سالار کا رتبہ اتنا اونچا نہیں کہ وہ سلطان کے ہاتھ کو یوں نظر انداز کردے
ٹھیک فرمایا محترم وزیراعظم! قزل ساروق نے کہا لیکن آپ کا یہ سالار اس قابل نہیں رہا کہ سلطان عالی مقام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے
کیوں ؟
سلطان ملک شاہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے پوچھا کیا ہم غلط سمجھ رہے ہیں کہ تم فاتح لوٹے ہو سلجوق سالار شکست سے نہ آشنا ہوتا ہے
سلطان مکرم! سالار قزل ساروق نے کہا میری فتح یہی ہے کہ میں پورے دستے کو زندہ لے آیا ہوں صرف دو سوار ضائع ہوئے ہیں لیکن یہ فتح حسن بن صباح کی ہے کہ ہم لڑیں بغیر واپس آگئے ہیں اگر وہ ہم پر حملہ کر دیتا تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آتا کیا سلطان مکرم اجازت دیں گے کہ آرام سے بیٹھ کر پورا واقعہ سناؤں
ایک ہزار سواروں کا لشکر جس میں سے صرف دو آدمی کم ہوئے تھے ان کے قریب سے گزرتا جا رہا تھا سلطان ملک شاہ سواروں کے چہرے دیکھ رہا تھا ہر چہرہ سپاٹ تھا یہ ماتمی جلوس لگتا تھا
ہمارے ساتھ آؤ سلطان ملک شاہ نے کہا
سلطان کے یہاں جاکر سالار قزل ساروق نے سلطان اور نظام الملک کو تمام واقعہ سنادیا کچھ بھی نہ چھپایا
اس قدیم قلعے کی دیوار سے دو تیر آئے سالار قزل ساروق نے کہا اور میرے دو سوار مارے گئے میں بہت حیران ہوا کہ ان تیر اندازوں نے ان سواروں کو کیوں مار ڈالا ہے دیوار پر ایک اور آدمی کھڑا تھا وہ حسن بن صباح تھا لیکن اس وقت وہ کوئی اور لگ رہا تھا اس نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ہم یہاں کیوں آئے ہیں حسن بن صباح نے کہا یہاں سے چلے جاؤ
اور تم واپس چلے آئے سلطان ملک شاہ نے کہا
ہاں سلطان مکرم! قزل ساروق نے کہا میں کچھ نہیں سمجھ سکا اس کے آنسو بہہ نکلے
کیا آپ کو یاد ہے وہاں اور کیا کچھ ہوا تھا؟
نظام الملک نے پوچھا
یاد ہے قزل ساروق نے رندھی ہوئی آواز میں کہا سب کچھ یاد ہے لیکن خواب کی طرح
حوصلہ مت ہارو ساروق! سلطان ملک شاہ نے کہا ہم جانتے ہیں یہ کیا ہوا تھا ،؟یہ بتاؤ کہ واپسی سفر کے دوران تم اپنے آپ میں آئے تو تم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ واپس جا کر قلعے پر حملہ کر دو؟
سوچا تھا سلطان عالی مقام! قزل ساروق نے جواب دیا اپنے ساتھی کمانڈروں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا تو سب نے کہا کہ واپس جانا بیکار ہے جس طرح باطنی تبریز میں سالار امیر ارسلان اور اس کے پانچ سو سواروں کو قتل کر کے آگے نکل گئے تھے اسی طرح ان کھنڈروں سے نکل کر کہیں اور چلے گئے ہونگے حقیقت یہ ہے سلطان محترم مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ میں کچھ بھی فیصلہ نہ کر سکا میں نے جو لڑائیاں لڑی ہیں وہ آپ کو یاد ہونگی میں خود بھی نہیں گن سکتا کہ میرے جسم پر کتنے زخموں کے نشان ہیں سلطنت سلجوقی کی بنیادوں میں میرا اتنا زیادہ خون رچا بسا ہوا ہے کہ آج آپ بھی اس کی بو سونگھ سکتے ہیں کیا کوئی مان سکتا ہے کہ میں ڈر کر بغیر لڑے واپس آ گیا ہوں
تم پر کوئی الزام نہیں ساروق! نظام الملک نے کہا تمہارے اور تمہارے لشکر کے ہوش و حواس ان کھجوروں نے گم کیے تھے جو تم مکہ معظمہ کی سوغات سمجھ کر کھا گئے تھے اور تم سب کی سوچنے کی صلاحیت اس پانی نے سلب کی تھی جسے تم آب زمزم سمجھے تھے
خواجہ طوسی! سلطان ملک شاہ نے کہا فوج کے لئے آج حکم جاری کر دو کہ باہر جاکر کوئی فوجی وہ سالار ہے یا سپاہی کسی اجنبی کے ہاتھ سے کوئی چیز نہیں کھائے گا نہ کسی بھی قسم کا مشروب پئے گا نہ پانی قزل ساروق! تم دھوکے میں آ گئے تھے جاؤ آرام کرو اپنے تمام لشکر سے کہہ دینا کہ تم پر کوئی الزام نہیں اور تمام سواروں کو بتا دینا کہ تمہیں کھجور اور پانی میں کوئی ایسا نشہ ملایا گیا تھا جس نے تمہاری عقل اور جذبے کو سلا دیا تھا انہیں یہ بتانا اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس وہم میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جس سے وہ دشمن کی پوری فوج کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے
لشکر کے متعلق تو میں نے بتایا ہی نہیں قزل ساروق نے کہا میں نے اور میرے ماتحت کماندروں نے سواروں کو یہ بتایا تھا لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ کئی ایک سوار اس وہم کو قبول کر چکے ہیں کہ حسن بن صباح کو خدا نے ایسی روحانی طاقت دی ہے کہ وہ اپنے جس دشمن کی طرف دیکھتا ہے وہ دشمن ہلاک ہو جاتا ہے یا ہماری طرح حسن بن صباح کی طرف پیٹھ کرکے وہاں سے غائب ہو جاتا ہے یہ سب سوار میرے ساتھ آ گئے ہیں لیکن ان کے دلوں میں وہم موجود ہے
ہم اس کا انتظام بھی کر لیں گے سلطان ملک شاہ نے کہا تم جاؤ
میں آپ کا ممنون ہوں سلطان عالی مقام! قزل ساروق نے کہا آپ نے میری خطا معاف کی لیکن میں اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتا میں اس دھوکے کا انتقام لونگا ،یں گناہ کا کفارہ ادا کروں گا
میں تمہارے جذبات کو سمجھتا ہوں ساروق! سلطان ملک شاہ نے کہا لیکن تم نے وہ دشمن دیکھ لیا ہے جس سے تم انتقام لینا چاہتے ہو یہ آمنے سامنے آ کر لڑنے والا دشمن نہیں اس کے لیے ہمیں کوئی اور طریقہ سوچنا پڑے گا اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم جو تجربے کار سالار ہو اپنے منتخب سواروں کے ساتھ زندہ واپس آگئے ہو امیر ارسلان کی طرح تمام سواروں کے ساتھ مارے نہیں گئے اس دشمن کی سرکوبی میرا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی جہاد ہے حسن بن صباح اور احمد بن عطاش نے اسلام کے نام پر ایک اور فرقہ بنا لیا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اس فرقے میں شامل ہو رہے ہیں
سالار قزل ساروق وہاں سے چلا گیا لیکن اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم نظام الملک کی باتوں سے مطمئن نہ ہوا ہو اس کا سوار دستہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر گھوڑے کھول چکا تھا ہر سوار کو آٹھ دس فوجیوں نے گھیر لیا اور ان سے سن رہے تھے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں
آپ نے کیا سوچا ہے خواجہ! سلطان ملک شاہ نے نظام الملک سے پوچھا
ہمارے پاس فوج ہے نظام الملک نے کہا باطنیوں کی کوئی فوج نہیں لیکن ہم نے ان پر دوبارہ حملہ کرکے کیا حاصل کیا ہے ہمارے ایک سالار اور پانچ سو سواروں کو کس نے قتل کیا ہے؟
ان لوگوں نے جن پر حسن بن صباح نے اپنی عقیدت مندی کا جنون طاری کر رکھا ہے انہوں نے اپنی جانیں اس شخص کے لیے وقف کر رکھی ہیں دوسرے حملے کا انجام دیکھ لیں اس سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ یہ شخص جس کا نام حسن بن صباح ہے اپنے مریدوں اور اندھی عقیدت رکھنے والے پیروکاروں سے ہماری فوج کو خون میں نہلا سکتا ہے جس طرح اس نے سالار اور اس کے دستے کو بےکار کیا ہے
لیکن خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا میں آپ کا یہ مشورہ نہیں مانوں گا کہ حسن بن صباح کو ہم بھول جائیں
میں ایسا مشورہ دوں گا بھی نہیں اعلی مقام! نظام الملک نے کہا میں نے عہد کر رکھا ہے کہ حسن بن صباح کو گرفتار کرکے اسے جلاد کے حوالے کردوں گا
گرفتار کیسے کریں گے؟
ابھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکوں گا نظام الملک نے جواب دیا ابھی یہی کہوں گا کہ ضروری نہیں حسن بن صباح کی سرکوبی کے لیے فوج ہی استعمال کی جائے میں ادھر سے غافل نہیں عالی جاہ میں نے جاسوس بھیج رکھیں ہیں اب تک مجھے جو اطلاعیں ملی ہیں ان سے بڑی بھدی اور خطرناک تصویر سامنے آتی ہے یہ آپ کو پہلے ہی معلوم ہے کہ حسن بن صباح ان علاقوں کا بے تاج بادشاہ بن چکا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے اور اس کی مقبولیت بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے
خواجہ حسن طوسی! سلطان ملک شاہ نے یوں کہا جیسے اچانک بیدار ہو گیا ہو ہم نے کوئی علاقہ اور کوئی ملک فتح نہیں کرنا آپ کہتے ہیں کہ حسن بن صباح لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے ہم نے لوگوں کے دلوں کو باطل اور ابلیسیت سے آزاد کرانا ہے اور یہ مہم تبلیغ سے نہیں ہوگی یہ مبلغوں کا نہیں یہ مجاہدین کا کام ہے آپ کو ہماری سلطنت کی تاریخ تو معلوم ہی ہے خواجہ! اہل سلجوق اسلام قبول کرکے یہ سلطنت قائم نہ کرتے تو اسلام کی بنیادیں ہل چکی ہوتیں اور اللہ کا یہ دین بڑا پرانا قصہ بن چکا ہوتا پہلا دفاع اپنے دین کا پھر اپنی سلطنت کا دین قائم و دائم ہے تو ہم سب قائم ہیں جس کا دین اور ایمان ہی نہ رہے اس کی نگاہوں میں آزادی اور غلامی میں کوئی فرق نہیں رہتا اسلام کو سامنے رکھو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسلام کی بیخ کنی کے لئے ہو رہا ہے
سلطان عالی مقام! نظام الملک نے کہا رسول اللہﷺ کی پیشن گوئی پوری ہو رہی ہے آپ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری امت فرقوں میں بٹ جائے گی اسلام کی بیخ کنی تو یہ فرقہ بندی کر رہی ہے
باتوں کا وقت نہیں رہا خواجہ! سلطان ملک شاہ نے کہا اب ہمیں کچھ کرنا ہوگا
سلطان معظم! نظام الملک نے کہا صرف دو آدمیوں کو روئے زمین سے اٹھا دیا جائے تو یہ فتنہ اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا
حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کو! ملک شاہ نے کہا یہ میں سو چکا ہوں کرنا یہی پڑے گا
لیکن یہ کام آسان نہیں نظام الملک نے کہا پھر بھی میں اس کا انتظام کرو گا یہ انتظام کرنا پڑے گا
سلجوق سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی کا جذبہ قابل قدر تھا ملک شاہ تو انتقام کی آگ میں جلنے لگا تھا اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سلطانی یا بادشاہی کے نشے میں لاؤ لشکر لے کر چڑھ دوڑتا اور نقصان اٹھاتا سلطان ملکشاہ دانش مند تھا اور ہر طرح کی صورتحال میں ہوش و حواس قائم رکھتا تھا نظام الملک اس سے زیادہ دانش مند اور دوراندیش تھا
نظام الملک نے کچھ عرصے سے ان علاقوں میں جاسوس بھیج رکھے تھے جن علاقوں میں لوگ حسن بن صباح کے مرید اور پیروکار ہو گئے تھے بلکہ بعض لوگوں نے اسے امام کی بجائے پیغمبر سمجھنا شروع کر دیا تھا ان جاسوسوں میں سے کوئی نہ کوئی آتا اور اپنے مشاہدات بیان کر جاتا تھا ان کا لب لباب یہی ہوتا تھا کہ مبلغوں کا ایک گروہ سارے علاقوں میں پھیلا ہوا حسن بن صباح کے معجزے اور کرامات بیان کرتا ہے
یہ رپورٹ تو ہر جاسوس دیتا تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حوالے سے بات کرتے ہیں اپنے آپ کو صحیح العقیدہ مسلمان کہتے ہیں
“تلبیس ابلیس” اور “آئمہ تلبیس” میں بھی یہی آیا ہے کہ حسن بن صباح کے پیروکاروں کو شک تک نہ ہوتا تھا کہ جسے وہ امام اور نبی مانتے ہیں وہ باطنی ہے اس کے مبلغ بڑے ہی دردناک انداز میں لوگوں کو اس قسم کی حکایتیں سناتے تھے کہ کفار نے رسول اکرمﷺ پر کیا کیا ظلم کیا اور کیسے کیسے ستم ڈھائے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اور رسالت کے دوسرے شیدائیوں نے کس طرح ناموس رسالت پر جان قربان کی تھیں
مورخوں نے لکھا ہے کہ ان علاقوں میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی اور یہ لوگ علم اور تعلیم سے بے بہرہ تھے اور اسلام کے معاملے میں بہت ہی جذباتی انہیں رسول اکرمﷺ پر یہود و نصاریٰ کے ظلم و ستم اشتعال انگیز الفاظ اور دردناک لہجے میں سنائے جاتے تھے کہ لوگ بھڑک اٹھتے تھے ظلم و ستم کی ان حکایتوں میں زیادہ تر من گھڑت ہوتی تھیں
یوں لوگوں کو مشتعل کر کے انہیں بتایا جاتا کہ حسن بن صباح وہ اسلام لے کر آسمان سے اترا ہے جو رسول اللہﷺ لے کر آئے تھے اور کفار نے سازش کے تحت اس کی روح بدل ڈالی اور چہرہ بگاڑ دیا ہے اور اب حسن بن صباح پر کفار ہی نہیں بلکہ بگڑے ہوئے نظریات اور غلط عقیدوں کو صحیح ماننے والے مسلمان بھی حسن بن صباح اور اس کے معاون ساتھیوں پر ظلم و تشدد کر رہے ہیں
نظام الملک کے جاسوس اسی قسم کی خبریں دے کر پھر چلے جاتے تھے تین چار جاسوس تو وہیں جا کر آباد ہو گئے تھے وہ معلومات اور خبریں اکٹھی کرتے رہتے اپنے ساتھی جاسوسوں کو بتاتے اور یہ جاسوس باری باری خبریں مرو پہنچاتے رہتے تھے
میرے دوستو! ایک بار نظام الملک نے ادھر سے آئے ہوئے دو جاسوسوں سے کہا تھا آج تک تم جتنی خبریں لائے ہو ان میں کوئی نئی بات نہیں تھی میں جانتا ہوں کہ وہاں در پردہ کیا ہوتا ہے میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ کسی نشے اور بڑی ہی خوبصورت اور چنچل لڑکیوں کے ذریعے بعض اہم افراد کو وہ اپنا غلام بنا لیتے ہیں ہماری ضرورت یہ ہے کہ وہاں پردوں کے پیچھے بند کمروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ معلوم ہو جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ حسن بن صباح اور اسکے استاد احمد بن عطاش کو قتل کس طرح کیا جا سکتا ہے
ابھی تک کوئی جاسوس حسن بن صباح کے اندرونی حلقے میں داخل نہیں ہوسکا تھا اس لیے یہ بتانا ممکن نہیں تھا کہ پردوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے
اب نظام الملک نے ایسے جاسوسوں کی تلاش شروع کر دی جو حسن بن صباح کے اتنے قریب پہنچ جائیں کے اس کے خاص مصاحبوں میں شامل ہو جائیں اور اندر کی خبریں لائیں داستان گو موزوں سمجھتا ہے کہ اس داستان کو واپس قدیم قلعے کے ان کھنڈرات میں لے جائے جہاں سے حسن بن صباح نے سلجوقی سالار قزل ساروق اور اس کے سواروں کے لشکر کو کچھ پلا کر واپس بھیج دیا تھا
پھر کیا حسن بن صباح انہیں کھنڈرات میں بیٹھا رہا تھا؟
نہیں رات اس کے پیروکاروں نے فتح کا جشن منایا اور اگلی صبح وہاں سے اس سمت کوچ کر گیا تھا جس طرف مشہور تاریخی قلعہ المُوت تھا اس کی اور اس کے پیرومرشد کی نظریں اس قلعے پر لگی ہوئی تھیں حسن بن صباح کی منزل یہی قلعہ تھا اسے اس نے اپنا مستقبل اڈہ بنانا تھا اور اسی قلعے کے اندر اور اس کے ارد گرد اس نے اپنی جنت بنانی تھی وہ جنت جس نے تاریخ کو انگشت بدنداں کر دیا تھا یہ جنت ایسی حیران کن حقیقت تھی کہ آج کے دور کے کچھ لوگ اسے محض ایک افسانہ اور مبالغہ کہتے ہیں
قلعہ المُوت کے کھنڈرات آج بھی ایک وسیع و عریض ٹیکری کی بلندی پر موجود ہیں ایران کے اس علاقے کو طالقان کہتے ہیں یہ بلند ٹیکری شہر قزوین اور دریائے خزز کے درمیان ہے یہ قلعی یوں تعمیر ہوا تھا کہ کسی زمانے میں اس خوبصورت خطے میں دلیمی سلاطین کی حکمرانی تھی ایک روز ایک سلطان اپنا عقاب ساتھ لے کر شکار کو گیا اس نے اڑتے ہوئے ایک پرندے کے پیچھے عقاب چھوڑا عقاب نے پرندے کو کچھ دور جا کر پکڑ لیا لیکن پرندہ اس کے پنجوں سے نکل گیا یہ اتنا زخمی تھا کہ زیادہ دور تک اڑ نہیں سکتا تھا گرتے گرتے ٹیکری کی چوٹی پر جا گرا یہ کوئی چھوٹا سا پرندہ نہیں ایک بڑا اور کمیاب نسل کا پرندہ تھا
عقاب نے اس پر ایک بار پھر جھپٹا مارا اور اسے وہیں دبوچ لیا سلطان جو گھوڑے پر سوار تھا گھوڑا دوڑاتا ٹیکری پر چڑھ گیا اس کے ساتھ اس کے محافظ اور کچھ مصاحب تھے سلطان نے پرندہ عقاب سے لے لیا اور جب اس بلندی سے چارسو نظر دوڑائی تو اس کی تو جیسے روح بھی مخمور ہو گئی ہو یہ خطہ ہریالی کی بدولت بہت ہی خوبصورت تھا ایک طرف دریا تھا جس کا اپنا ہی حسن تھا
ٹیکری دامن سے اوپر تک گھنے درختوں اور مخمل جیسی گھاس سے ڈھکی ہوئی تھی بعض درخت پھول دار تھے جن کی بھینی بھینی خوشبو خمار سا طاری کرتی تھی ٹیکری کے چاروں طرف دور دور تک ایسا سبزہ زار تھا کہ اسے جنت نظیر ہی کہا جا سکتا تھا دو جگہوں سے چشمے پھوٹتے دونوں جگہوں پر پچیس تیس گز چوڑی جھیلیں بنی ہوئی تھی ان کا شفاف پانی چھوٹی چھوٹی ندیوں کی شکل میں بہتا پتھروں اور کنکریوں پر جلترنگ بجاتا دریا میں جا گرتا تھا بعض جگہوں پر قریب قریب کھڑے تین تین چار چار درختوں کے تنوں کو پھولوں کے بیلوں نے کچھ اس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا کہ گوفے سے بنی گئی تھی دائیں بائیں اور پیچھے ہرے پتوں اور پھولوں کی دیواریں اور اوپر چھتیں بنی ہوئی تھیں یوں لگتا تھا جیسے یہ گفیں انسانوں نے بیلوں کو تراش کر بنائی ہو لیکن یہ قدرت کی صناعی کا شاہکار تھا ایک یوروپی مؤرخ نے لکھا ہے کہ کوئی کہے کہ یہ خطہ بہشت کا حصہ تھا اور کسی وجہ سے زمین پر آن گرا تھا یا یہ کہے کہ آدم اور حوا کو خدا نے بہشت کے اس حصے میں رکھا تھا تو میں اسے سچ مان لوں گا
سلطان کو اس خطے کا حسن مسحور تو کرہی لیا تھا اس نے دیکھا کہ دفاعی لحاظ سے بھی یہ جگہ موزوں ہے یہ ٹیکری اوپر سے نوکیلی یا گول نہیں بلکہ چپٹی تھی اور اس کی طول ایک میل سے ذرا ہی کم اور عرض بھی کچھ اتنا ہی تھا
بلاشبہ میں نے اتنی دلفریب زمین آج ہی دیکھی ہے سلطان نے کہا کیا تم میں کوئی ہے جو مجھے یہ مشورہ نہ دینا چاہے کہ میں یہاں ایک ایسا قلعہ تعمیر کروں جو اس خطے جیسا دلنشین اور چٹانوں جیسا مضبوط ہو
کوئی نہیں عالی جاہ! مصاحبوں کی ملی جلی آواز اٹھی اس سے زیادہ دلفریب جگہ اور کہیں نہیں قلعہ جو یہاں بنے گا اس کی دیواروں اور اس کے دروازوں تک کوئی دشمن نہیں پہنچ سکے گا دشمن کا لشکر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ٹیکری پر چڑھتے ہمارے تیروں کی بوچھاڑوں سے لڑکتا نیچے جائے گا
سلطان نے شکار سے واپس آ کر پہلا کام یہ کیا کہ اس ٹیکری پر قلعے کی تعمیر کا حکم دیا دور دور سے ماہر معمار بلوائے گئے ان سے نقشے بنوائے گئے ان میں ردوبدل کیا گیا نقشے کو بڑی محنت سے آخری شکل دی اس دلیمی سلطان نے نقشے میں جو نئی چیزیں شامل کیں انہوں نے تعمیرات کے ماہرین کو حیران کر دیا قلعے کی تعمیر کوئی پیچیدہ کام نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اس سلطان نے (جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا) جو نقشہ معماروں کو دیا وہ قلعہ بھی تھا محل بھی اور باقی جو کچھ تھا وہ پراسرار تھا اس میں تہہ خانہ بھی تھا جس میں بے شمار کمرے تھے ان کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں گلیاں تھیں جو بھول بھلیاں تھیں ان میں چھوٹے کمرے تھے بڑے بڑے بھی اور بہت بڑے بھی اور تہہ خانے سے ایک سرنگ بھی نکالنی تھی اسے اتنا کھلا اور اونچا رکھنا تھا کہ تین آدمی پہلو بہ پہلو اس میں سے گزر سکیں سرنگ بھی بھول بھلیوں جیسی بنانی تھی
قلعے کی تعمیر شروع ہوگئی ملک کے بے شمار معماروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ملک کی آدھی آبادی مزدوری کے لیے پہنچ گئی اتنی زیادہ مخلوق چوٹیوں کی طرح کام کرنے لگی
اس قلعے کا نام آلہ مُوت رکھا گیا دیلمی زبان میں موت عقاب کو کہتے ہیں اور آلہ کے معنے تربیت گاہ ہوتے تھے سلطان عقاب کے پیچھے اس جگہ گیا تھا اگر اس کے عقاب کا شکار اس ٹیکری پر نہ گرتا تو سلطان کبھی اس حسین ٹیکری کو نہ دیکھ سکتا نہ اسے ایسا بنانے کا خیال آتا جو اس دور کا ایک اور عجوبہ تھا اور جو بعد میں حسن بن صباح کی جنت بنا اس قلعے کا نام آلہ مُوت رکھا گیا تھا جو بگڑتے بگڑتے المُوت بن گیا
حسن بن صباح کے زمانے میں یہ قلعہ اپنی اصل حالت میں تھا اس علاقے کا حکمران امیر جعفری تھا کسی بھی مورخ نے اس کا پورا نام نہیں لکھا امیر جعفری نے اپنی حیثیت کے ایک سرکردہ فرد مہدی علوی کو قلعہ المُوت کا حاکم مقرر کر رکھا تھا حسن بن صباح الموت سے تھوڑی ہی دور رک گیا اس کے ساتھ قدیم قلعے میں تین سو کے لگ بھگ آدمی تھے ان سب نے اس کے ساتھ جانا تھا لیکن ان میں سے بہت سے آدمیوں کو پہلے ہی روانہ کر دیا گیا تھا انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ المُوت کے راستے میں آنے والی آبادیوں میں جا کر لوگوں کو حسن بن صباح کے یہ معجزہ سناتے جائیں کہ تبریز میں صرف ستر آدمی تھے جن پر سلجوقیوں کے پانچ سو سے زائد سواروں نے حملہ کردیا حسن بن صباح نے خدا سے مدد مانگی تو غیب سے سیکڑوں سوار آگئے اور تمام کے تمام سلجوقی سواروں کو قتل کر دیا پھر قدیم قلعے میں تین سو آدمیوں پر ایک ہزار سے زائد سواروں نے حملہ کر دیا حسن بن صباح نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہوکر اس گھوڑسوار لشکر کے سالار کی طرف دیکھا پھر کہا واپس چلے جاؤ لشکر نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلا گیا
ان تین سو آدمیوں میں صرف تین آدمی تھے جو حقیقت سے آگاہ تھے اور ایک عورت تھی جو حسن بن صباح کی راز دار تھی ان تین آدمیوں میں ایک اسماعیل تھا اور یہ عورت خدیجہ تھی ان دونوں نے حج سے آئے ہوئے میاں بیوی بن کر سالار قزل ساروق اور اسکے لشکر کو آب زمزم پلایا اور ذہنی طور پر مفلوج کردیا تھا
صرف یہ تین آدمی اور ایک عورت تھی جنہیں حسن بن صباح کے ان معجزوں کی حقیقت معلوم تھی باقی سب نے ان معجزوں کو حقیقت تسلیم کر لیا تھا انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ ان معجزوں کی تشہیر کریں وہ تو انہوں نے کہے بغیر بھی کرنی تھی یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ کوئی عجوبہ دیکھتا ہے یا کوئی پراسرار واقعہ اس کے سامنے رونما ہوتا ہے تو وہ اس کی تہہ تک نہیں پہنچتا اس کا تجزیہ نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پر ہیجانی کیفیت طاری کرکے یہ واقعہ ہر کسی کو سنسنی خیز لہجے میں سناتا ہے اور اس وہم میں مبتلا ہو کر کہ اس کی بات کو کچھ لوگ سچ نہیں مانیں گے سنانے والا زیب داستان کا سہارا لیتا اور مبالغہ آرائی کرتا ہے
حسن بن صباح کو خدا نے ایسا دماغ دیا تھا کہ وہ انسان کی کمزوریوں کو سمجھتا اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا جانتا تھا اس نے اپنے تین سو میں سے دو سو سے زائد آدمیوں کو خود اپنی زبان سے نہیں بلکہ اپنے خاص مصاحبوں کی زبان سے کہلوایا کہ وہ آبادیوں میں امام کے معجزے سناتے جائیں
یہ حکم امام کا نہیں مصاحبوں نے ان تین سو افراد سے کہا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہر کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ امام جسے خدا نے ملت رسولﷺ کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے آسمان سے اتارا ہے اس نے کیا معجزے دکھائے ہیں لوگوں سے کہو کہ وہ امام کو خدا کا بھیجا ہوا امام مان لے حسن بن صباح جب الموت سے تھوڑی دور رکا اس وقت اس کے ساتھ تین سو کے بجائے تین ہزار سے زائد لوگ تھے تاریخ میں یہ پتا نہیں ملتا کہ پہاڑیوں کے اندر قدیم قلعے سے المُوت تک کتنا فاصلہ تھا البتہ یہ بات صاف ہے کہ حسن بن صباح کے آدمیوں نے اس علاقے کی آبادیوں میں خدا کے بھیجے ہوئے امام کے معجزے ایسے انداز سے سنائے کے لوگ حسن بن صباح کے پیچھے پیچھے چل پڑے حسن بن صباح نے ایک جگہ رک کر ڈیرے ڈال دیئے اس کے لیے بڑے سائز کا شاہانہ خیمہ لگا دیا گیا تھا تشہیر اور پروپیگنڈے کا کام صرف حسن بن صباح نے ہی نہیں کیا تھا احمد بن عطاش اس کام میں ہمہ تن مصروف رہتا تھا اس نے مبلغوں کی جماعتیں بنا دی تھیں جس کے ارکان اسلام کے حوالے سے باطنی نظریے کی تبلیغ کرتے تھے بڑے مؤرخوں خصوصاً ابن خلدون”ابوالقاسم رفیق دلاوری”ابن اثیر” نے تو یوں لکھا ہے کہ وہ باطنی نظریے کی تبلیغ کرتے تھے تفصیلات لکھنے والے وقائع نگاروں اور مبصروں نے لکھا ہے کہ یہ تبلیغ دراصل تشہیر تھی حسن بن صباح کی اور لوگ جوق در جوق حسن بن صباح کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوتے جا رہے تھے لیکن حسن بن صباح کی جھلک انہیں نظر نہیں آرہی تھی
حسن بن صباح کا خیمہ کپڑے کا ایک کمرہ تھا چوکور اور خاصہ کشادہ چاروں طرف قناتیں تھیں اور ان پر مخروطی شامیانہ تھا لوگوں کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ امام خیمے میں نہیں اور اس کے قریبی مصاحبوں کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں غائب ہو گیا ہے
امام کو خدا کبھی کبھی اپنے پاس بلا لیتا ہے ایک مصاحب نے شوشہ چھوڑا وہ کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے
جس جگہ حسن بن صباح کا خیمہ تھا وہاں تک کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی اس سے ذرا پرے ہٹ کر ان کے اپنے آدمیوں کے خیمے تھے لوگوں کو حسن بن صباح کے خیمے سے دور روک لیا جاتا تھا
حسن بن صباح یہاں پہنچا تو تیسری رات خلجان سے اس کا پیرومرشد احمد بن عطاش اس کے پاس آ گیا تھا ان کی ملاقات دو اڑھائی سال بعد ہو رہی تھی احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو مصر بھیجا تھا اس کے بعد یہ دونوں پہلی بار مل رہے تھے حسن بن صباح نے اپنے استاد کو اپنی کارگزاری سنائی اور استاد نے جب حسن بن صباح کو بتایا کہ اس نے اپنے قلعہ خلجان میں کیسے کیسے خفیہ انتظام کیے ہیں تو حسن بن صباح حیران رہ گیا
اب قلعہ المُوت پر قبضہ کرنا ہے احمد بن عطاش نے کہا جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے امیر مہدی علوی کے پاس تین سو سواروں کا صرف ایک دستہ ہے یہ اس کا محافظ دستہ ہے اس کی فوج ہے ہی نہیں
پھر تو اس قلعے پر قبضہ کر لینا کوئی مشکل نہیں حسن بن صباح نے کہا میرے پاس تین سو سے کچھ زائد تجربے کار لڑنے والے آدمی ہیں اور یہ جو میری زیارت کے لئے ہجوم آگیا ہے کئی سو اس میں لڑنے والے مل جائیں گے
نہیں حسن! احمد بن عطاش نے کہا میں حیران ہوں کہ یہ بات تم کہہ رہے ہو کیا ہم نے پہلے جو قلعے لیے ہیں وہ لڑ کر لیے ہیں؟
خون کا ایک قطرہ نہیں بہے گا اور المُوت ہمارا ہوگا سنو ہم کیا کریں گے
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی باتیں سرگوشیوں میں بدل گئی سرگوشیاں بھی ایسی جو خیمے کے کپڑے کی دیواریں بھی نہ سن سکیں احمد بن عطاش سحری کے وقت خیمے سے نکلا اور خلجان کو چلا گیا
تین چار راتیں گزر گئیں اللہ کے امام اور اس کے معجزوں کے چرچے اتنی زیادہ اور ایسے انداز سے کیے جا رہے تھے کہ تجسس اور پسماندگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ حسن بن صباح کی زیارت کے لیے چلے آرہے تھے داستان گو سنا چکا ہے کہ پہلے بھی لوگوں نے سنا تھا کہ خدا کا ایلچی آسمان سے اترنے والا ہے تو لوگ اسی طرح اکٹھے ہوگئے تھے اور انہوں نے وہیں ڈیرے ڈال دیے تھے لوگوں کی فطرت میں کوئی انقلاب تو نہیں آ گیا تھا ان میں فطری کمزوریاں جوں کی توں موجود تھیں اب وہ اس جگہ ہجوم کر کے آ گئے تھے
داستان گو کہ رہا تھا کہ لوگوں نے حسن بن صباح کی زیارت کے لئے وہیں ڈیرے ڈال دیے تھے احمد بن عطاش حسن بن صباح سے مل کر اور کوئی نیا منصوبہ تیار کر کے چلا گیا تاریخ میں ایک شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ احمد بن عطاش گیا نہیں تھا وہیں روپوش رہا تھا اس منصوبے میں اسے پس منظر میں رکھنا تھا
ایک رات آدھی گزر گئی تھی رات کے سناٹے کو تین چار دھماکہ نما آوازوں نے تہہ و بالا کر ڈالا
وہ دیکھو لوگوں ادھر دیکھو
زمین سے بادل اٹھ رہے ہیں
لوگوں جاگو بادلوں کے رنگ دیکھو
یہ ضرور امام کا ظہور ہو رہا ہے
پھر ایک ہڑبونگ تھی ایک شور تھا بھاگ دوڑ تھی نفسا نفسی جیسی حالت تھی لوگ دھکے دے رہے تھے دھکے کھا رہے تھے اور اس طرف دوڑے جا رہے تھے جدھر زمین سے بادل اٹھ رہا تھا
وہ ہری سرسبز گھاس اور جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ایک ٹیکری تھی جو زیادہ اونچی نہیں تھی پندرہ نہیں تو سترہ ہاتھ اونچی ہوگی اس کی لمبائی اڑھائی تین فرلانگ تھی اس کی ڈھلان پر اوپر بھی ایک دوسرے سے کچھ دور دور چھاتوں کی طرف پھیلے ہوئے اور لمبوترے بھی درخت تھے
اس ٹیکری کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی جو اگلی ٹیکری سے زیادہ بلند تھی ان کے دامن آپس میں ملے ہوئے تھے
لوگوں نے زمین سے اٹھتا ہوا جو بادل دیکھا تھا بلکہ دیکھ رہے تھے وہ آگے والی کم بلند ٹیکری کے عقب سے اٹھ رہا تھا یہ آگ کے دھوئیں کا بادل نہیں تھا یہ بادل بادلوں کے ان ٹکڑوں جیسا تھا جو برسات کے بعد سرسبز پہاڑیوں سے نیچے آجاتے اور وادیوں میں منڈلاتے رہتے ہیں
وہ رات تھی اور رات تاریک تھی لیکن بادل کا یہ دودھ جیسا سفید اور بہت بڑا ٹکڑا روشن تھا اور صاف نظر آرہا تھا یہی نہیں بلکہ اس میں سرخ سبز نیلی اور پیلی روشنیاں تیر رہی تھیں یوں لگتا تھا جیسے قوس و قزح کے رنگ بکھر کر اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے ہوں
بادل ٹیکری پر آ گیا اور آہستہ آہستہ فضا میں تحلیل ہونے لگا اور اس میں ایک آدمی کا ہیولہ نظر آنے لگا اس کے بازو دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے
لوگو! بڑی ہی بلند آواز میں کسی نے اعلان کیا بسم اللہ پڑھو کلمہ طیبہ پڑھو اور سجدے میں چلے جاؤ اللہ تبارک و تعالی نے امام حسن بن صباح کو زمین پر اتار دیا ہے
جسے دشمن کے لشکر دیکھتے ہی واپس چلے جاتے ہیں اس کا ظہور ہو گیا ہے کسی اور نے اعلان کیا
لوگ سجدے میں چلے گئے
حسن بن صباح کے تین سو آدمیوں کے جہاں خیمے لگے ہوئے تھے وہاں سے جلتی ہوئی دس بارہ مشعلیں نکلیں جو ٹیکری پر چڑھ گئیں ہوا ذرا تیز چل رہی تھی اس لئے بادل کا یہ ٹکڑا ایک طرف ہٹ گیا اور فضا میں تحلیل ہوتے ہوتے غائب ہو گیا اور اس جگہ ٹیکری پر حسن بن صباح رہ گیا جو بازو پھیلائے کھڑا تھا وہ سبز رنگ کے چمکدار چغے میں ملبوس تھا سر پر پگڑی اور اس پر اتنا بڑا سبز رومال پڑا ہوا تھا جس نے کندھے بھی ڈھانپ رکھے تھے
سجدے سے اٹھو لوگو! ایک اعلان ہوا اور ٹیکری کے قریب آ جاؤ لوگ اٹھ دوڑے انہیں تلواروں اور برچھیوں سے مسلح کچھ آدمیوں نے ٹیکری کے قریب روک کر بیٹھ جانے کو کہا دس بارہ مشعلوں کی روشنی میں لوگوں کو حسن بن صباح کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا
میں آگیا ہوں حسن بن صباح نے بلند آواز سے کہا اللہ سے یہ وعدہ لے کر آیا ہوں کہ ان مسلمانوں کو جو میرے دائرے میں آ جائیں گے دنیا میں ہی جنت دکھا دی جائے گی میں تم سب کے گناہ بخشوا آیا ہوں
اے اللہ کی طرف سے آنے والے لوگوں میں سے ایک نے پوچھا ہم تجھے امام کہیں نبی کہیں میں تم میں سے ہوں حسن بن صباح نے کہا مجھے جو کہنا چاہتے ہو کہہ لو یہ سوچ لو کہ میرے راستے پر چلو گے تو رنج و آلام سے مشکلات اور مصائب سے تنگدستی اور بیماری سے محفوظ رہو گے شیطان سے اور جنات سے محفوظ رہو گے
ہم نے تجھے مان لیا ہے ایک آدمی بولا امام بھی نبی بھی کوئی معجزہ دکھا
لوگوں کے ہجوم پر ایسا سناٹا طاری تھا جیسے وہاں کوئی ایک بھی انسان نہ ہو یہ تقدس اور عقیدت مندی کی انتہا تھی کہ لوگ جیسے اپنی سانسوں کو بھی روکنے کی کوشش کر رہے ہو کہ امام ناراض ہو جائے گا ان کے کانوں میں جب کسی کی آواز پڑی کے کوئی معجزہ دکھا تو سناٹا اور گہرا ہو گیا
کیا یہ معجزہ نہیں جو تم نے دیکھا ہے؟
حسن بن صباح نے کہا اللہ نے مجھے جنت کے بادلوں کے ایک ٹکڑے پر سوار کر کے زمین پر اتارا ہے کیا تم نے دیکھا نہیں کہ یہ بادل قوس و قزح کے رنگوں سے سجا ہوا تھا مجھے زمین پر اتار کر جنت کا بادل واپس چلا گیا ہے
ہم نے دیکھا ہے بہت سی آوازیں اٹھیں
بے شک ہم نے دیکھا ہے یا امام اور بھی آواز اٹھیں
حسن بن صباح کو مشعل بردار ٹیکری سے اتار کر اس خیمے میں لے گئے جو کپڑے کی دیواروں اور کپڑے کی چھت کا خوش نما کمرہ تھا اسی خیمے میں احمد بن عطاش سے اس کی ملاقات ہوئی تھی اور شاید احمد بن عطاش ابھی وہیں تھا زیارت کے لئے آئے ہوئے ہجوم میں مختلف قبیلوں کے سردار اور دیگر سرکردہ افراد بھی تھے اگلی صبح ان لوگوں نے حسن بن صباح کی بیعت کا سلسلہ شروع کر دیا…
 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:24 }
کیا حسن بن صباح واقعی بادل کے ٹکڑے پر سوار ہو کر آسمان سے زمین پر آیا تھا؟
اس سوال کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے حسن بن صباح کا پہلے بھی ایک پہاڑی پر ظہور ہوا تھا
پہاڑی کے پیچھے ایک غار میں آگ جلا کر اس کی چمک آئینوں پر ڈالی جاتی تھی ان میں آئینے بھی تھے اور چمکتی ہوئی دھات کی چادریں اور ایسی چادریں بھی تھیں جن پر ابرق چپکایا گیا تھا ،ایک آئینہ شاہ بلوط کے درخت میں رکھا گیا تھا آئینہ چمکدار دھات کی پلیٹ سے آگ کی چمک شاہ بلوط والے پر منعقد کی جاتی تو رات کو یوں لگتا تھا جیسے شاہ بلوط میں آسمان کا ستارہ چمک رہا ہو سیدھے سادے پسماندہ لوگ اسے آسمان کے ستارے کی چمک سمجھتے رہے اور ایک روز شاہ بلوط کے ستارے کی چمک میں سے حسن بن صباح کا ظہور ہوا
اب ایک ٹیکری سے بادل اٹھا اور ٹیکری پر آیا اس میں رنگ تیر رے تھے اور اس میں سے حسن بن صباح نکلا یہ بھی آگ چمکدار دھات یا ابرق کی چادروں اور آئینوں کا کرشمہ تھا ٹیکری کے پیچھے دامن میں پندرہ بیس گز لمبائی میں دہکتے انگارے پھیلائے گئے تھے اور ان پر دھوئیں پیدا کرنے والا بارود یا کوئی اور کیمیائی مادہ پھینکا گیا تھا جو سفید بادل کی شکل کا دھواں بن کر اوپر اٹھا تاریخ میں یہ سراغ نہیں ملتا کہ یہ بارود تھا یا سفوف یا سیال مادہ یہ تحریر ملتی ہے کہ اس وقت تک مسلمانوں نے بارود سازی اور کیمیاگری میں یورپ والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی کر لی تھی
چونکہ وہ علاقہ جنگلاتی تھا سبزہ زار تھا اور رات تھی اس لیے فضا میں نمی زیادہ تھی نمی کی وجہ سے دھواں فوراً اور نہ جلدی بکھرا اسمیں جو رنگ تیر رہے تھے آئینوں یا دھات کی چمکدار چادروں سے اس طرح دھوئیں میں شامل کیے گئے تھے کہ ٹیکری کے پیچھے آگ جلا کر اس کی چمک منعکس کی گئی اور آئینوں وغیرہ کے آگے باریک رنگ دار کپڑے رکھے گئے تھے تاریخ میں اس سے زیادہ تشریح اور وضاحت نہیں ملتی ٹیکری کے پیچھے کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی
قلعہ المُوت وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا اس بلندی پر جہاں قلعہ تھا ایک شہر آباد ہو گیا تھا امیر قلعہ الموت مہدی علوی کو اطلاع مل رہی تھی کہ فلاں جگہ ایک قافلہ پڑاؤ کیے ہوئے ہے جس کا امیر کارواں ایک برگزیدہ شخصیت ہے مہدی علوی کو اس بزرگ کے معجزے بھی سنائے گئے لیکن اس نے دھیان سے نہ سنے اور کوئی اہمیت نہ دی
مہدی علوی کو یہ تو پتہ ہی نہ چل سکا کہ حسن بن صباح کی تشہیر اور تبلیغ کی تیز و تند ہوا چلی ہے جس کا گزر المُوت سے بھی ہوا ہے اور اس سے اس کا محافظ دستہ بھی متاثر ہوا ہے یہ انتظام احمد بن عطاش کا تھا مہدی علوی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ حسن بن صباح نے بادل کے ٹکڑے میں سے اپنے ظہور کا جو ڈھونگ رچایا ہے یہ المُوت کے کچھ لوگوں نے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے اسے برحق مانا ہے
امیر اعلی مقام! مہدی علوی کو اس کے ایک مشیر نے پریشانی کے عالم میں کہا ہم نے تو ادھر توجہ ہی نہیں دی تھی لیکن اپنے تمام لوگوں میں اور آپ کے محافظ دستے میں یہ عجیب و غریب خبر پھیل گئی ہے کہ امام حسن بن صباح بادل کے ٹکڑے میں آسمان سے اترا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اس کی بیعت کر رہے ہیں
ہم یہی کر سکتے ہیں کہ اسے اپنے علاقے سے نکال دیں مہدی علوی نے کہا کسی مسلمان کو یقین نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی امام یا کوئی نبی یا کوئی بزرگ آسمان سے اترا ہے ہم نبوت پر یقین رکھنے والے مسلمان ہیں اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے
آپ نہ مانیں مشیر نے کہا میں بھی نہیں مانتا لیکن یہ صورتحال بڑی ہی خطرناک ہے کہ لوگوں نے بھی اسے سچ مان لیا ہے اور ہمارے سپاہیوں اور سواروں نے بھی امیر محترم! میں نے جو معلومات فراہم کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی نیا فرقہ بن رہا ہے اسے یہیں پر ختم کر دیا جائے تو اچھا ہے
ان دونوں میں کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوا کچھ بحث و مباحثہ ہوا آخر مہدی علوی نے اپنا حکم سنایا
پچاس سواروں کا ایک دستہ لے جاؤ اس نے کہا وہاں حسن بن صباح کے مرید اور معتقد بھی ہوں گے تم ساتھ جاؤں حسن بن صباح سے کہنا کہ وہ تمہارے ساتھ آ جائے نہ آئے تو اسے میرا حکم سنانا کہ تم زیر حراست ہو ہو سکتا ہے اس کے مرید اور معتقد مزاحمت کریں کوشش کرنا کے خون خرابہ نہ ہو ہونے کو وہاں بہت کچھ ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کچھ بھی نہ ہو اگر معاملہ بگڑتا نظر آئے تو ایک سوار کو دوڑا دینا میں اپنا تمام دستہ بھیج دوں گا میں حسن بن صباح کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہوں
مہدی علوی کے حکم کی تعمیل فوری طور پر ہوئی مشیر پچاس سواروں کو ساتھ لے کر چلا گیا فاصلہ زیادہ نہیں تھا یہ دستہ دن کے پچھلے پہر چلا تھا رات کو حسن بن صباح کی خیمہ گاہ میں پہنچ گیا وہاں اب لوگوں کا اتنا ہجوم نہیں تھا انہوں نے حسن بن صباح کی زیارت کر لی تھی اور وہ چلے گئے تھے پیچھے حسن بن صباح کے اپنے آدمی رہ گئے تھے
سواروں نے خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا حسن بن صباح اپنے مصاحبوں میں بیٹھا تھا اس نے گھوڑوں کے ٹاپ سنے اور چونکا اس کے مصاحبوں کے چہروں پر گھبراہٹ آگئی پیشتر اس کے کہ حسن بن صباح کوئی حرکت کرتا یا کوئی حکم دیتا مہدی علوی کا مشیر خیمے میں داخل ہوا اور جھک کر سلام کیا
یا امام! مشیر عابد حبیبی نے حسن بن صباح سے مصافحہ کرکے اور اس کے سامنے دوزانو بیٹھ کر کہا امیر قلعہ المُوت مہدی علوی نے امام کے حضور سلام بھیجا ہے اور یہ عرض بھی کی امام جنگل میں پڑے اچھے نہیں لگتے اگر امام قلعے میں آ جائیں اور کچھ دن یہاں رہ کر دیکھیں اگر یہ جگہ پسند آجائے تو قلعے میں ہی رہیں
کیا دعوت نامہ رات کے اس وقت دیا جاتا ہے حسن بن صباح نے عابد حبیبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہوئے کہا اور کیا تمہارے یہاں مہمان کو محاصرے میں لے کر اسے دعوت دی جاتی ہے؟
امیر شہر نے حکم دیا کہ ابھی روانہ ہو جاؤ عابد حبیبی نے کہا ہم ایسے وقت روانہ ہوئے کہ یہاں بے وقت پہنچے اگر آپ کے خیمے میں روشنی نہ ہوتی تو میں کل صبح آپ کے حضور حاضر ہوتا اور یہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ مہمان کے لیے ہم گھوڑسوار بھیجا کرتے ہیں آپ کے لیے پچاس گھوڑسوار لایا ہوں
امیر شہر کو میرا سلام کہنا حسن بن صباح نے کہا اور ان کا شکریہ ادا کرنا پھر کہنا کہ میں آؤں گا لیکن میں اپنے رواج کے مطابق آؤنگا رواج یہ ہے کہ پہلے امیر شہر کم از کم ایک رات کے لیے مجھے میزبانی کا شرف عطا کریں گے پھر میں ان کے ساتھ ہیں الموت چل پڑوں گا
عابد حبیبی کو مہدی علوی نے حکم دیا تھا کہ حسن بن صباح کو اپنے ساتھ لے آئے اگر وہ نہ آئے تو اسے میرا حکم سنانا کہ تم حراست میں ہو اگر اس کے آدمی مزاحمت کریں تو جنگی کارروائی کرنا اور مدد کی ضرورت ہو تو مجھے اطلاع دینا دراصل مہدی علوی کا حکم یہ تھا کہ حسن بن صباح کو گرفتار کرکے لے آنا
عابد حبیبی نے پہلے دوستانہ انداز اختیار کیا تھا اس نے حسن بن صباح کو ایسے انداز سے امام کہا تھا جیسے اس نے دل کی گہرائیوں سے اسے امام تسلیم کرلیا ہو لیکن حسن بن صباح نے اس کے ساتھ جانے کی بجائے یہ کہہ دیا کہ پہلے امیر شہر اس کے پاس آئے تو عابد حبیبی نے یوں محسوس کیا جیسے امام نے اس کی اور اس کے امیر شہر کی عزت افزائی کی ہو
عابد حبیبی کا ارادہ تو یہ تھا کہ حسن بن صباح نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کیا تو وہ اسے گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن وہ جان نہیں سکا تھا کہ حسن بن صباح نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں اور اسی میں سارا راز تھا عابد حبیبی اپنی آنکھوں کو حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہیں کرا سکا تھا حسن بن صباح نے اسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا اس کا ذہن اب حسن بن صباح کے زیر اثر تھا یوں تو ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے بولنے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والے پر سحر کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور اس کا استدلال خالصتاً فریب کاری پر مبنی ہوتا تھا لیکن اچھے خاصے دانشور بھی اس کے فریب میں آ جاتے تھے عابد حبیبی سدھائے ہوئے جانور کی طرح اٹھا اور رخصت ہوگیا
دو روز بعد الموت سے ایک گھوڑسوار آیا اس نے حسن بن صباح کو پیغام دیا کہ امیر قلعہ الموت مہدی علوی تیسرے دن آ رہا ہے سوار یہ پیغام دے کر چلا گیا تو حسن بن صباح نے اس کے استقبال کی اور اس کے لیے رہائش کی تیاریاں شروع کردیں اپنا شاہانہ خیمہ مہدی علوی کے لیے چھوڑ دیا اپنے آدمیوں سے کہا کہ مہدی علوی آئے تو شام کو خوشبودار پھولوں کے گلدستے خیمے میں سجا دیں
اس کے پاس مہمان کے ہوش گم کرنے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا ایک تو خدیجہ تھی جس نے اسماعیل کے ساتھ مل کر سالار قزل ساروق کو کامیاب دھوکہ دیا تھا خدیجہ نوجوان لڑکی نہیں جوان عورت تھی خوبصورت تو تھی ہی اس کی ٹریننگ ایسی ہوئی تھی کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتی اور فرعونوں کو بھی اپنے قدموں میں جھکا لیتی تھی
احمد بن عطاش اس کے پاس دو اور لڑکیاں لے آیا تھا انہیں قلعہ الموت پر قبضے کے لیے استعمال کرنا تھا یہ بھی تربیت یافتہ اور آزمائی ہوئی لڑکیاں تھیں انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ کس طرح صورتحال میں کیا کرنا ہے
تیسرے دن مہدی علوی آگیا حسن بن صباح نے اس کا استقبال اس طرح کیا کہ اپنے آدمیوں کو مہدی علوی کے راستے میں دو زاویہ کھڑا کیا ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں جو اوپر کرکے ان کی نوکیں آمنے سامنے کے آدمیوں نے ملا رکھی تھیں مہدی علوی ان تلواروں کے سائے میں گزر کر خیمے تک پہنچا وہاں حسن بن صباح نے اس کا استقبال کیا اور جب مہمان خیمے میں داخل ہوا تو خدیجہ اور دوسری دو لڑکیوں نے اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں مہدی علوی بڑی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا
کیا وہ آپ ہی ہیں جو آسمان سے اترے ہیں؟
کھانے کے بعد مہدی علوی نے حسن بن صباح سے پوچھا
کیا آپ کو یقین نہیں آرہا ؟
حسن بن صباح نے پوچھا
نہیں مہدی علوی نے کہا کوئی مسلمان یقین نہیں کر سکتا کہ کوئی امام یا نبی آسمان سے اترا ہو
اور کوئی مسلمان آپکی کوئی بات یقین سے نہیں سنے گا جب تک اسے یہ یقین نہ دلائیں کہ آپ آسمان سے اترے ہیں حسن بن صباح نے کہا کیا آپ نہیں جانتے کہ نبیوں اور پیغمبروں کے ساتھ لوگوں نے کیا سلوک کیا تھا ؟
آپ کیا جانتے ہیں؟
مہدی علوی نے پوچھا نبوت؟
امامت عبادت! حسن بن صباح نے جواب دیا میں اللہ کی عبادت اور اس کے رسولﷺ کا عشق چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں سکون ہو اطمینان ہو اور میں عبادت میں ڈوب جاؤں میرے پیرومرشد نے مجھے بتایا ہے کہ عبادت میں مجھے ایک اشارہ ملے گا جو ویسا ہی ہوگا جس طرح رسول اللہﷺ پر وحی کا نزول ہوا کرتا تھا اس اشارے میں میری راہ اور میری منزل کا تعین ہوگا
لیکن آپ کا یہ شاہانہ خیمہ؟
مہدی علوی نے کہا اور یہ حسین و جمیل لڑکیاں اور یہ انداز عبادت کرنے والوں کے تو نہیں ہوتے؟
اور یہ میرے لئے ہیں بھی نہیں حسن بن صباح نے کہا میرے مریدوں اور معتقدوں میں آپ سے زیادہ اونچی حیثیت کے لوگ بھی ہیں میرے لیے یہ شان و شوکت انہوں نے ہی بنائی ہے میں تو چھوٹے سے ایک خیمے میں زمین پر بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتا ہوں آپ نے پوچھا ہے میں کیا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں اور اپنا وقار بحال کریں
مہدی علوی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک انسان سے نہیں بلکہ ایک پراسرار طاقت سے محو گفتگو ہے اور اسے محسوس نہیں ہو رہا کہ مکڑی کے جالے کے تار اس کے گرد لپیٹتے جا رہے ہیں
آپ کے معجزوں کی حقیقت کیا ہے ؟
مہندی علوی نے پوچھا تبریز میں کیا ہوا تھا اور سلجوقیوں کے ایک ہزار سواروں کے لشکر کو آپ نے کس طرح پسپا کیا تھا؟
یہ آپ مجھ سے نہ سنیں حسن بن صباح نے کہا ہو سکتا ہے مجھ پر آپ مبالغہ آرائی کا شک کریں یہ ان سلجوقیوں سے پوچھیں جو میرے اتنا کہنے پر کہ واپس چلے جاؤ وہ واپس چلے گئے تھے
حسن بن صباح نے اسے اپنے یہ معجزہ سنانے شروع کر دیئے ایک ایک لفظ دروغ اور مبالغہ تھا لیکن سنانے کا انداز ایسا کہ مہدی علوی مسحور ہوتا چلا گیا انسان کی خطرناک کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے لئے انسان ہاتھ پاؤں مارتا ہے کہ اس کا آنے والا وقت کیسا ہوگا اور اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے اور اسے بڑا رتبہ اور خزانہ کیسے مل سکتا ہے؟
کچھ ایسی ہی بات مہدی علوی حسن بن صباح سے کر بیٹھا حسن بن صباح قلعہ الموت سے واقف تھا اور یہ علاقہ تو اسے بہت ہی پسند تھا اس قلعے پر اس نے قبضہ کرنا تھا مہدی علوی کی بات سن کر حسن بن صباح نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے اوپر مراقبے کی کیفیت طاری کرلی
اوہ حسن بن صباح نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور گھبرائےہوئے سے لہجے میں بولا بڑی ہی کالی گھٹا ہے جو المُوت پر پھیلتی چلی جارہی ہے اس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اس نے جھوٹ بولا میں نے آپ کا قلعہ کبھی نہیں دیکھا مجھے جو نظر آرہا ہے وہ تو بہت ہی مضبوط ہے اس میں راہداریاں تہہ خانے راستے اور چور راستے ایسے ہیں کہ کوئی اجنبی ان میں چلا جائے تو انہیں میں بھٹک بھٹک کر مر جائے لیکن اتنے قیمتی قلعے اور اتنے خوبصورت شہر کے تحفظ کے لیے مجھے کوئی فوج نظر نہیں آرہی کیا میں صحیح کہہ رہا ہوں یا مجھے غلط نظر آرہا؟
مہدی علوی نے حسن بن صباح کی زبان سے اپنے قلعے کی تفصیلات سنیں تو اس پر رقت طاری ہو گئی اس نے حسن بن صباح کو بتایا کہ اس نے اپنے قلعے میں فوج رکھی ہی نہیں صرف ایک محافظ دستہ ہے جس میں پانچ سو سوار ہیں
فوج رکھیں حسن بن صباح نے کہا دشمن بڑھ رہا ہے گھٹا گہری ہو رہی ہے اگر آپ نے فوج رکھ لی تو یہ گھٹا جس میں بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اڑ جائے گی اور آپ محفوظ رہیں گے فوج تجربے کار ہونی چاہیے بغیر فوج کے آپ قلعہ گوا بیٹھے گے
مہدی علوی حسن بن صباح کے جال میں آ گیا اس نے حسن بن صباح کے ساتھ اس مسئلہ پر بات شروع کر دی کہ وہ اتنی زیادہ فوج نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ فوج کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں حسن بن صباح اسے ڈراتا رہا کہ اس نے فوج نہ رکھی تو کوئی نہ کوئی دشمن اپنی فوج لے آئے گا اور قلعے پر قبضہ کر لے گا
حملہ آور سلجوقی بھی ہو سکتے ہیں حسن بن صباح نے کہا یہ گھٹا جو میں نے دیکھی ہے یہ بڑا ہی خطرناک اشارہ ہے میں آپ کی یہ مدد کر سکتا ہوں کہ میرے ساتھ جو آدمی ہیں میں ان کی ایک فوج بنا سکتا ہوں آپ انہیں دو وقت روٹی دے دیا کریں ان کی تنخواہ اور دیگر اخراجات میں اپنے ذمے لے لوں گا یہ میں جہاں سے بھی پورے کروں یہ میری ذمہ داری ہوگی آپ مجھے اپنے قلعے میں تھوڑی سی جگہ دے دیں جہاں میں عبادت کر سکوں اور جو لوگ میری زیارت کے لئے آئیں انہیں بٹھا کر ان کی رہنمائی کر سکوں مجھے امید ہے کہ میں اپنے پیروکاروں کو مریدوں کو جو بھی حکم دونگا وہ مانیں گے
مہدی علوی حسن بن صباح کی باتوں میں آ گیا اور اس کے ساتھ معاہدہ کر لیا تاریخ میں اس معاہدے کی تفصیلات نہیں ملتی البتہ یہ واضح ہے کہ وہ امیر قلعہ الموت مہدی علوی جس نے حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دیا تھا خود اس کے فریب میں گرفتار ہو گیا اور اس کی عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ یہ بھی نہ سوچ سکا کہ وہ کتنا خطرناک معاہدہ کر بیٹھا ہے
ادھر مرو میں سلطان ملک شاہ اور نظام الملک پیچ و تاب کھا رہے تھے سلطان ملک شاہ تو زیادہ فوج بھیج کر بہت بڑا حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن نظام الملک نے اسے روک دیا اور کہا تھا کہ ایسے عقلمند اور غیر معمولی طور پر دلیر جاسوس بھیجے جائیں جو حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کے خفیہ حلقے تک پہنچ کر اندر کی خبریں لائیں تاکہ ان کے مطابق کوئی کاروائی کی جائے
اصل بیچ و تاب تو سالار قزل ساروق کھا رہا تھا وہ اپنی بےعزتی کا انتقام لینے کو تڑپ رہا تھا اس نے سلطان ملک شاہ اور وزیر اعظم سے کئی بار کہا تھا کہ اسے جاسوسی کے لئے بھیجا جائے
یہ کام سالار کا نہیں ساروق! آخر ایک دن سلطان نے اسے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا حملے کی صورت میں ہم تمہیں ہی بھیجیں گے لیکن دو تجربوں کے بعد ہم تیسرا ناکام تجربہ نہیں کریں گے
میں حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا چاہتا ہوں قزل ساروق نے کہا تھا صرف یہ شخص قتل ہوجائے تو باطنیوں کا کھیل ختم ہو جائے گا
اس کی بجائے وہاں تم قتل ہو سکتے ہو نظام الملک نے کہا تھا اس صورت میں ہم سب کی بےعزتی ہوگی اور باطنی اور زیادہ شیر اور دلیر ہو جائیں گے
مزمل آفندی صحت یاب ہو چکا تھا سالار قزل ساروق جس طرح اپنے ایک ہزار سواروں کے ساتھ واپس آیا تھا اس سے مزمل آفندی بھی واقف تھا اسے وہ ملا بھی تھا اور اس کی قہر آلود باتیں بھی سنی تھیں قزل ساروق نے اسے بھی بتایا تھا کہ وہ اکیلا حسن بن صباح کے قتل کے لیے جائے گا مزمل نے اسے کہا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گا۔دونوں نے پلان تیار کرلیا تھا لیکن سلطان ملک شاہ نے قزل ساروق کو روک دیا
مزمل اکیلا نظام الملک سے ملا
جس مقصد کے لئے آپ جاسوس بھیج رہے ہیں وہ مقصد صرف میں پورا کر سکتا ہوں مزمل آفندی نے کہا میں آپ سے صرف ایک گھوڑا یا ایک اونٹ مانگوں گا
نہیں مزمل! نظام الملک نے کہا تھا ہم تمہیں کسی خطرناک مہم پر نہیں بھیج سکتے کیونکہ تم ہمارے ملازم نہیں
عالی جاہ! مزمل نے کہا تھا اس خطرناک مہم میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو ملازم نہیں ہوگا یہ کام وہ شخص کرے گا جس میں جذبہ ہوگا ملازم تو اپنے اہل و عیال کو روٹی کھلانے کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کرے گا میں حسن بن صباح کو اپنے دین اور اپنے عقیدے کے نام پر قتل کروں گا اگر قتل نہ کر سکا تو ان کی پردوں کے پیچھے کی خبریں اور ان کے دلوں کے بھید لے کر آؤں گا یہ ایک قومی مسئلہ ہے ہمارے دین کا مسئلہ ہے جتنا آپ کا ہے اتنا ہی میرا ہے میں آپ سے کوئی معاوضہ نہیں مانگ رہا مجھے جہاد اور شہادت کے راستے سے نہ ہٹائیں
نظام الملک کو ایسے ہی ایک آدمی کی تلاش تھی وہ مزمل آفندی کے دو کارنامے دیکھ چکا تھا شمونہ کی ماں میمونہ کو حسن بن صباح کے قبضے سے آزاد کرایا تھا یہ سنایا چکا ہے کہ حسن بن صباح نے میمونہ کے خاوند کو ایسے طریقے سے قتل کروایا تھا کہ میمونہ کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا یہ مزمل آفندی کا جذبہ ایثار تھا کہ وہ جان کی بازی لگا کر میمونہ کو حسن بن صباح کے بڑے ہی خطرناک اور ابلیسی فریب سے نکال لایا اور رے لا کر ابومسلم رازی کے گھر پہنچا دیا تھا معجزے جیسا اتفاق یہ ہوا کہ وہاں میمونہ کی بیٹی شمونہ مل گئی جو بچپن میں اغوا ہوئی تھی
مزمل آفندی کا دوسرا کارنامہ بھی کم قابل قدر نہ تھا اس نے سلطان ملک شاہ کو بتایا تھا کہ حسن بن صباح ایک قافلے کے ساتھ اصفہان جا رہا ہے سلطان ملک شاہ نے پانچ سو سوار بھیجے جن کی رہنمائی مزمل آفندی نے کی تھی پھر تبریز کی لڑائی میں مزمل اس لڑائی میں اتنا زیادہ زخمی ہوا تھا کہ اس کا زندہ رہنا مشکوک تھا لیکن وہ اتنی دور سے اس حالت میں مرو سلطان ملک شاہ کے پاس پہنچا تھا کہ طبیب اور جراح دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ یہ زندہ کیسے رہا
اب یہ مزمل آفندی ایک بار پھر اپنی جان کی بازی لگا رہا تھا نظام الملک اسے سلطان ملک شاہ کے پاس لے گیا سلطان نے اسے اجازت دے دی
مزمل آفندی اس علاقے میں جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک شمونہ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ رے سے آ گئی یہ دونوں رے میں ابومسلم رازی کے ساتھ رہتی تھیں وہاں جس روز اطلاع پہنچی تھی کہ مزمل شدید زخمی حالت میں مرو آیا ہے اس دن سے شمونہ اس کے پاس پہنچنے کو تڑپ رہی تھی لیکن کسی مصلحت کی بنا پر اسے مزمل کے پاس نہیں جانے دیا جا رہا تھا اب مزمل کی صحت یابی کی اطلاع ملی تو ابومسلم رازی نے اونٹ پر پالکی بندھوا کر ماں بیٹی کو مرو بھیج دیا محافظ دستے کے چند ایک سوار ساتھ بھیجے تھے
شمونہ پر مزمل کی محبت کا پاگل پن سوار تھا وہ مزمل کو اتنی لمبی جدائی کے بعد دیکھ رہی تھی اس کی جذباتی حالت اس ماں جیسی تھی جسے اپنا گمشدہ بچہ خلاف توقع مل گیا ہو وہ تو اس کے زخموں کے نشان چوم رہی تھی
میں پھر جا رہا ہوں شمونہ! مزمل نے کہا
کہاں؟
تمہاری اور تمہاری ماں کی عصمت کا انتقام لینے مزمل آفندی نے کہا اور اسے بتایا کہ اس کا مشن کیا ہے
میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی شمونہ نے بے تابی سے کہا
میرے لئے مشکل پیدا نہ کرو شمونہ! مزمل نے کہا تم حسن بن صباح کی دنیا سے بھاگی ہوئی ہو وہاں فوراً پہچانی جاؤں گی
تم حسن بن صباح کی دنیا سے واقف نہیں مزمل ؟
شمونہ نے کہا میں کوئی بھیس بدل لوں گی تمہاری رہنمائی کروں گی اس نے اتنی ضد کی کہ نظام الملک کو اطلاع دی گئی اس نے شمونہ سے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان اپنی بیٹیوں کو نہ میدان میں اتارا کرتے ہیں نہ انہیں جاسوسی کے لیے استعمال کیا کرتے ہیں
پھر ایک دو باتیں سن لو مزمل! شمونہ نے کہا کسی خوش فہمی میں نہ رہنا باطنیوں کی نظریں انسان کے جسم کے اندر بھی چلی جایا کرتی ہیں کسی پر اعتبار نہ کرنا وہاں تمہیں مجھ جیسی کوئی لڑکی مل جائے اور تمہارے آگے روئے اور فریاد کرے کہ میں مظلوم ہوں میری مدد کرو تو پتھر بن جانا یہ بھی یاد رکھنا کے وہاں پتھر بھی موم ہو جایا کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ قتل کرنے سے پہلے خود قتل ہو جاؤ میں نے پارساؤں کو پانی بنایا ہے وہ ابلیس کی ولایت ہے وہاں اللہ والے راہ سے بے راہ ہو جاتے ہیں
شمونہ نے اسے اور بھی بہت سی ہدایات دیں خطروں کی نشاندہی کی اور اسے بتایا کہ وہ راتوں کو سوئے تو ایک آنکھ کھول کر سوئے
مزمل آفندی نصف شب کے بعد مرو سے روانہ ہوا تھا اس نے داڑھی پہلے ہی بڑھا لی تھی اس سے پہلے اس کی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی ہوتی تھی جو اس کے سفیدی مائل گندمی چہرے میں دلکشی پیدا کرتی تھی اس نے سر کے بال بڑھائے اور کچھ دن پہلے ہی انہیں دھونا چھوڑ دیا تھا سلطان کے تجربے کار جاسوسوں نے اس کا بہروپ تیار کیا اور اسے شتربان بنا دیا جو اپنے اونٹ باربرداری اور سواری کے لیے کرائے پر دیتا تھا
وہ بڑی لمبی مسافت طے کرکے خلجان میں داخل ہوا اسے بتایا گیا تھا کہ وہ خلجان میں کہاں جائے اور کس سے ملے خلجان میں ایک آدمی تھا جو سلجوقیوں کے جاسوسوں کو اپنے پاس رکھتا تھا وہ خود جاسوس نہیں تھا جاسوسوں کی رہنمائی کرتا تھا سلجوقی جاسوس اپنے دائیں ہاتھ کی درمیانی اور چھوٹی انگلی کے درمیان والی انگلی میں ایک خاص ساخت کی انگوٹھی ڈال کر رکھتے تھے کسی جاسوس کو جب خفیہ طور پر پناہ دینے والا آدمی مل جاتا اور وہ جاسوس کو پہچان تو جاسوس انگوٹھی اتار کر چھپا لیتا تھا مزمل آفندی خلجان میں داخل ہوا حسن بن صباح مہدی علوی کے ساتھ قلعہ المُوت میں داخل ہوا
مہدی علوی کو حسن بن صباح نے رات اپنے یہاں مہمان رکھا تھا خود اپنی سادگی اور درویشی کے دکھاوے کے لیے معمولی سے ایک خیمے میں چلا گیا تھا اور مہدی علوی کو اپنے شاہانہ خیمے میں ٹھہرایا اور اس پر یہ ظاہر کیا تھا کہ یہ خیمہ اس کے لیے تیار کیا گیا تھا خیمے میں پھول ہی پھول نظر آتے تھے ان کی مہک خمار طاری کر رہی تھی
رنگا رنگ پھولوں میں ایک پھول اور بھی تھا جو چلتا پھرتا تھا مسکراتا تھا اس کی عطر بیز بو اور اس کے رنگ پھولوں سے جدا تھے یہ تھی خدیجہ جسے حسن بن صباح نے خاص ہدایات دے کر مہدی علوی کے ساتھ لگا دیا تھا بظاہر خدیجہ کا کام یہ تھا کہ مہمان کی دیکھ بھال کرے اس کا بستر ٹھیک کردے اور اس کے پاس پانی رکھ دے اور اس کے خیمے کی شمع بجھا کر باہر آ جائے پھر صبح اسے ناشتہ دے لیکن خدیجہ کو کوئی اور ہی مقصد دیا گیا تھا
رات کھانے کے بعد حسن بن صباح مہدی علوی کو خیمے میں اکیلا چھوڑ کر اپنے خیمے میں چلا گیا تو خدیجہ مہدی علوی کے پاس آ گئی اس نے لباس ایسا پہن رکھا تھا جس میں اس کا جسم پوری طرح مستور نہیں تھا لیکن اس کی باتوں اور حرکات میں بے حیائی نہیں بلکہ شرم وحجاب تھا مہدی علوی ادھیڑ عمر آدمی تھا بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا اس عمر میں آدمی بڑھاپے کو فریب دیا کرتا ہے کہ وہ ابھی جوان ہے مہدی علوی تو ایک شہر کا امیر یعنی حاکم تھا دولت میں کھیلتا تھا اس کی دو بیویاں تھیں لیکن حاکم شہر دو بیویوں سے مطمئن نہیں ہوا کرتے تھے نت نئے غنچوں کے متلاشی رہتے ہیں داشتہ ان کی زندگی کا لازمی جزو ہوتا تھا
خدیجہ کو دیکھ کر مہدی علوی نے اپنی جذباتی دنیا میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے خدیجہ کو معلوم تھا کہ مرد کو کوئی بات کئے بغیر کس طرح جال میں لایا جاتا ہے وہ خیمے میں گلدستے اور دیگر اشیاء قرینے سے رکھ رہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ مہدی علوی کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں وہ کوئی چیز اٹھا کر کہیں اور رکھنے کے لیے جھکتی تھی تو اس کے جسم کا کوئی ذرا سا حصہ عریاں ہو جاتا تھا
تم کون ہو ؟
مہدی علوی نے پوچھا
خدیجہ! خدیجہ نے جھوٹ بولا بیوہ ہوں خاوند تبریز کی لڑائی میں مارا گیا ہے میں امام کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ رہتی ہوں
بیوی بن کر ؟
مہدی علوی نے پوچھا یا شادی کے بغیر ہی
نہیں معزز مہمان! خدیجہ نے جواب دیا امام کسی عورت کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھتا نہ بیوی نا داشتہ امام تو آسمان کی مخلوق ہے خوبصورت لڑکیوں کو ساتھ رکھتا ہے لیکن بالکل اس طرح جس طرح گلدانوں میں پھول رکھے ہوئے ہیں
تم بیوہ ھو خدیجہ! مہدی علوی نے کہا جوان ہو اور اتنی حسین ہو کہ میں نے تم جیسی خوب صورت لڑکی کم ہی کبھی دیکھی ہے کیا تم مرد کے ساتھ کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تشنگی سی اور میں کیا کہوں
خدیجہ نے شرمانے کی ایسی اداکاری کی جیسے زمین میں اتر جانا چاہتی ہو مہدی علوی نے اپنا سوال دہرایا تو خدیجہ نے سر کے ہلکے سے اشارے سے بتایا کہ مرد کے ساتھ کی ضرورت محسوس کرتی ہے
کیا میرا ساتھ پسند کروں گی مہدی علوی نے کہا تمہارے امام سے اجازت لے لوں گا تمہیں بیوی نہیں ملکہ بناؤں گا میرے قریب آؤ میرے پاس بیٹھو
میں آپ کو ایک خاص شربت بلاتی ہوں خدیجہ نے کہا یہ ہم اپنے بہت ہی خاص مہمانوں کو پلایا کرتے ہیں
اس نے ایک صراحی میں سے ایک پیالا بھرا اور مہدی علوی کو پیش کیا یہ شربت خاص طور پر خیمے میں رکھا گیا تھا مہدی علوی نے شربت پی لیا اور خدیجہ کو اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لے لیا پھر جب شربت نے اپنا اثر دکھایا تو خدیجہ ایک طلسم یا ایک بڑا ھی حسین آسیب بن کر مہدی علوی پر غالب آگئی
خدیجہ جب آدھی رات سے کچھ پہلے خیمے سے نکلی تو اس کا جسم ویسا ہی پاک نہ تھا جیسا اس وقت تھا جس وقت وہ اس خیمے میں داخل ہوئی تھی
مہدی علوی کی آنکھ کھلی تو اس نے سب سے پہلے خدیجہ کو پکارا اور اسی روز وہ حسن بن صباح اور اسکے تمام آدمیوں کو اپنے ساتھ قلعہ الموت میں لے گیا خدیجہ اور دوسری لڑکیاں بھی ساتھ تھیں
ادھر مزمل آفندی خلجان میں داخل ہوا اسے بتا دیا گیا تھا کہ اس آدمی کا گھر کہاں ہے جس کے یہاں اس نے قیام کرنا ہے اس کا نام احمد اوزال تھا وہ سلجوق تھا مزمل نے تین چار آدمیوں سے اس کا گھر پوچھا آخر اس نے دو آدمیوں کو روکا اور ان سے احمد اوزال کا گھر معلوم کیا انہوں نے اسے صحیح راستے پر ڈال دیا وہ چلا گیا تو ان دونوں میں سے ایک آدمی نے اسے جاتے دیکھتا رہا
شاید میں اس شخص کو جانتا ہوں ایک نے کہا
جانتے ہوں گے دوسرے نے کہا شتربان ہے کبھی تم نے اس کا اونٹ استعمال کیا ہوگا
نہیں یہ شتربان نہیں پہلے آدمی نے کہا اور اس نے جس کا گھر پوچھا ہے وہ بھی مشکوک آدمی ہے
مزمل آفندی پہچانا گیا تھا اور وہ بے خبر تھا
رات کھانے کے بعد مزمل آفندی اور احمد اوزال الگ بیٹھ گئے اب بتاؤ مزمل! احمد اوزال نے پوچھا کیا تم کسی خاص مقصد کے لئے آئے ہو یا میری طرح جاسوسی کے لیے یہی رہوگے
میں بہت بڑا مقصد لے کر آیا ہوں احمد بھائی! مزمل نے کہا حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے یا اسے زندہ پکڑ کر سلطان ملک شاہ کے حوالے کرنا ہے
کیا تمہیں سلطان نے کہا ہے کہ یہ کام کرنا ہے؟
احمد اوزال نے پوچھا
ہاں احمد بھائی! مزمل نے جواب دیا سلطان نے کہا ہے اور وزیر نظام الملک نے بھی
نظام الملک نے بھی؟
احمد اوزال نے حیرت سے کہا وہ دونوں اسے کوئی عام سا فریب کار اور شیطان فطرت انسان سمجھ رہے ہیں جسے وہ بڑی آسانی سے قتل کرا دیں گے؟
اسی لیے انہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے مزمل نے کہا مجھے بتاؤ کہ میں اسے کہاں اور کس طرح قتل کر سکتا ہوں اگر تم اسے ناممکن سمجھتے ہو تو یہ بھی بتا دوں میں ناممکن کو ممکن کر کے دکھا دوں گا
تم جذبات کے غلبے میں بات کر رہے ہو مزمل! احمد اوزال نے کہا تم ناممکن کو ممکن نہیں بلکہ ممکن کو ناممکن بنا دو گے سلطان اور نظام الملک حسن بن صباح کے ہاتھوں قتل ہو سکتے ہیں اسے قتل نہیں کروا سکتے تم کچھ دن یہاں رہو میں تمہیں قلعہ المُوت میں لے جاؤں گا خود ہی دیکھ لینا کہ اسے تم کس طرح قتل کر سکتے ہو ہم تین چار آدمی یہاں سے چھوٹی بڑی خبر سلطان تک پہنچا رہے ہیں
ایک بات کہوں احمد! مزمل نے کہا بری لگے تو معاف کر دینا میرا خیال ہے تم سلطان کے تنخواہ دار ملازم ہو تم اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے میں جذبہ لے کر آیا ہوں اس میں بری لگنے والی کوئی بات نہیں مزمل! احمد اوزال نے کہا بے شک ہم اس علاقے میں جو چند ایک آدمی جاسوسی کے لیے آئے ہیں سب تنخواہ دار ملازم ہیں لیکن ہم رضاکارانہ طور پر آئے ہیں اور وہی جذبہ لے کر آئے ہیں جس نے تمہیں یہاں آنے پر مجبور کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں تجربہ کار استادوں نے جاسوسی کی تربیت دی تھی پھر ہمیں آزمائشوں میں ڈال کر پرکھا اور اس وقت یہاں بھیجا جب انہوں نے اطمینان کر لیا کہ ہم اس کام کے لیے تیار ہوگئے ہیں صرف ایک جذبہ کچھ نہیں کر سکتا اور میں تمہیں یہ بھی بتادوں مزمل جس میں جذبہ نہیں وہ بھی کچھ نہیں کر سکتا
تم میری رہنمائی کرو احمد
کیوں نہیں کروں گا احمد اوزال نے کہا میں تمہیں الموت لے جاؤں گا خود دیکھنا کے حسن بن صباح تک قتل کے ارادے سے پہنچنا کس قدر دشوار اور خطرناک ہے اس نے نبوت کا دعوی نہیں کیا لیکن لوگوں نے اسے نبی ماننا شروع کر دیا ہے اس نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں جنت دکھا دے گا
یہ میں جانتا ہوں مزمل آفندی نے کہا اس نے اپنی شخصیت میں ابلیسی اوصاف پیدا کرلیے ہیں
ہاں! احمد اوزال نے کہا تم یہ بھی جانتے ہوں گے کہ انسانی فطرت کی کمزوریوں اور کبھی پوری نہ ہونے والی خواہشات کو اگر تسکین ملتی ہے تو وہ ابلیسی اوصاف سے ملتی ہے یا اس انسان سے ملتی ہے جس نے اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرلیے ہوں ابلیس کا بنیادی وصف ہے بندگان خدا کو خدا اور رسول اللہﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹانا اور نفسانی لذت پرستی کا عادی بنا دینا
باتیں بہت ہو چکی ہیں احمد بھائی! مزمل آفندی نے کہا اب کچھ کرنا ہے اس ابلیس کا راستہ روکنا ہے یہ صرف سلطان ملک شاہ کا مسئلہ نہیں یہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے یہ میرا اور تمہارا مسئلہ ہے یہ دین اسلام کا مسئلہ ہے میں حسن بن صباح پر دو وار کر چکا ہوں اس کے قبضے سے ایک عورت کو آزاد کرایا تھا
مزمل نے احمد اوزال کو سنایا کہ اس نے میمونہ کو کس طرح حسن بن صباح سے آزاد کرایا تھا یہ بھی سنایا کہ اس نے کس طرح اس قافلے پر پانچ سو سواروں کا چھاپا مروایا تھا جس قافلے کے ساتھ حسن بن صباح اصفہان جا رہا تھا
میں اپنی جان کی قربانی دینے آیا ہوں احمد بھائی! مزمل نے کہا مجھے تمھارے پاس بھیجا گیا ہے تم نے میری رہنمائی کرنا ہے میں عہد کر کے آیا ہوں کہ زندہ اسی صورت میں واپس جاؤنگا کے حسن بن صباح زندہ نہیں ہوگا میں کامیاب لوٹنا چاہتا ہوں
میں تمہارے ساتھ ہوں مزمل! احمد اوزال نے کہا میں تمہارا حوصلہ توڑ نہیں رہا صرف خطروں سے آگاہ کر رہا ہوں میں تمہیں چند دن اپنے پاس رکھ کر تمہاری تربیت کروں گا جاسوسی اور تباہ کاری کے معاملے میں تم بالکل کورے ہو تمہیں کچھ تو معلوم ہونا چاہیے یہاں تمہیں اپنے دوستوں سے بھی ملوانا ہے کل صبح باہر نکل جانا اور سارے شہر میں گھوم پھر کر یہاں کی گلیاں اور بازار بھی دیکھنا اور یہاں کے لوگوں کو بھی دیکھنا یہ خیال رکھنا کہ کوئی تمہارے ساتھ علیک سلیک کرے تو اسے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملنا یہ بتاؤ کہ تم سے کوئی پوچھ لے کہاں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو تو کیا جواب دو گے؟
کہہ دوں گا بغداد سے آیا ہوں مزمل نے جواب دیا اصفہان کہہ دوں گا میں نے بہت سفر کیا ہے اور بڑے شہروں سے واقف ہوں یہاں آنے کی وجہ سیرو سیاحت بتاؤں گا
یہ ٹھیک ہے احمد اوزال نے کہا تم عقل والے ہو میں سوچتا تھا کہ تم مرو رے نیشاپور کہو گے یہاں کسی کو پتہ نہ چلے کہ تمہارا سلطنت سلجوق کے ساتھ کوئی تعلق ہے میرے متعلق دل میں کوئی غلط فہمی نہ رکھنا مزمل! میں مسلمان تو ہوں لیکن میں سلجوق ہوں ترک ہوں اس سلطنت کی بنیادوں میں میرے آباء اجداد کا خون رچا بسا ہوا ہے میں اس سلطنت کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا میں پہلے مسلمان ہوں پھر سلجوق ہوں اس طرح اس سلطنت کے ساتھ میرے دو رشتے بنتے ہیں مجھے تنخواہ دار ملازم نہ سمجھنا میں تمہارے ساتھ نہیں ہوگا تو بھی مجھے اپنے ساتھ سمجھنا اور بہت ہی ضروری بات یہ ذہن میں رکھنا کہ اس شہر میں باطنیوں کے جاسوس بھی موجود ہیں کہیں پکڑے نہ جانا
اگلی صبح مزمل آفندی احمد اوزال کے گھر سے اس خیال سے نکلا کے سارے شہر میں گھوم پھر کر شہر سے واقفیت حاصل کرے گا گلی میں اسی کی عمر کا ایک آدمی ٹہل رہا تھا مزمل نے اس کی طرف توجہ نہ دی اسے صرف دیکھا اور ایک طرف نکل گیا وہ اس شہر میں اجنبی تھا گلیوں کے موڑ مڑتا گیا ایک گلی سے مڑ کر ایک اور گلی میں داخل ہوا ایک اور گلی اس گلی کے ساتھ ملتی تھی مزمل نے اس آدمی کو جسے اس نے احمد اوزال کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا اسے دوسری گلی میں آہستہ آہستہ چلتے دیکھا اب کے مزمل نے اسے ذرا توجہ سے دیکھا اسے یاد آیا کہ کل اس نے اسی آدمی سے احمد اوزال کا گھر پوچھا تھا
مزمل بازار میں چلا گیا اور ایک دکان پر رک گیا یہ خنجروں اور چھوٹی بڑی تلواروں کی دکان تھی مزمل خنجر اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگا اس نے دائیں طرف دیکھا اگلی دکان پر وہی آدمی کھڑا مزمل کی طرف دیکھ رہا تھا مزمل نے اسے دیکھا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا
اس کے بعد مزمل جدھر بھی گیا اس نے کچھ فاصلے پر اس آدمی کو دیکھا
دوپہر کے کھانے کے وقت مزمل واپس احمد اوزال کے گھر آیا اور اسے بتایا کہ ایک آدمی اس کا پیچھا کرتا رہا ہے
میں نے اسی آدمی سے تمہارے گھر کا پتہ پوچھا تھا مزمل نے کہا یہ حسن بن صباح کا جاسوس ہے احمد اوزال نے کہا تم نے تین چار دن ابھی یہیں رہنا ہے اس آدمی سے بچ کے رہنا یہ تمہیں قتل نہیں کرے گا نہ تمہیں گرفتار کرے گا یہ کسی وقت تمہیں ملے گا اور تمہیں دوست بنائے گا اسے اچھی طرح ملنا لیکن ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اسے شک ہو جائے یہی بتانا کہ تم سفر پر ہو میرے متعلق بتانا کہ میری تمہاری ملاقات حلب میں ہوئی تھی تم گھومو پھرو شہر سے باہر جنگل بھی دیکھنا بہت خوبصورت علاقہ ہے ایک ندی گذرتی ہے
ضرور جاؤں گا مزمل نے کہا قدرت کے حسن کا تو میں دلدادہ ہوں
نہیں مزمل! احمد اوزال نے کہا تم نے قدرت کے حسن میں کھو نہیں جانا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ تمہیں اگر یہاں سے بھاگنا پڑے تو جنگل میں کہاں کہاں چھپتے ہوئے بھاگو گے یاد رکھو مزمل جاسوس اور تباہ کار کو کیڑے مکوڑوں کی طرح رہنا ہوتا ہے
احمد اوزال نے اسے اور بھی بہت سی ہدایات دیں وہ مزمل کو باقاعدہ ٹریننگ دے رہا تھا
کھانے کے بعد مزمل پھر نکل گیا اس نے ادھر ادھر دیکھا اسے توقع تھی کہ وہ آدمی پھر اسے نظر آئے گا لیکن وہ نظر نہ آیا مزمل شہر سے نکل کر جنگل کی طرف ہو لیا آگے اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں جو سبز گھاس خوبصورت جھاڑیوں اور درختوں سے ڈھکی ہوئی تھیں واقعی بہت خوبصورت علاقہ تھا
مزمل آفندی جوان آدمی تھا ایسے روح افزا علاقے اسے بہت ہی اچھے لگتے تھے وہ دو تین ٹیکریوں کے درمیان سے گزر کر آگے چلا گیا اسے ندی نظر آئی اس کے کناروں پر گھنے درخت تھے اس کے پس منظر میں پہاڑی تھی وہ بھی سبز پوش تھی اس پر بادلوں کے سفید ٹکڑے منڈلا رہے تھے
مزمل ندی کی طرف جا رہا تھا
اسے اپنے پیچھے ایسی سرسراہٹ سنائی دی جیسے کوئی خشک گھاس پر چل رہا ہو اس نے گھوم کر پیچھے دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا اسے یوں شک ہوا جیسے اس نے کسی جنگلی جانور یا کتے یا بلّی کو ٹیکری کی اوٹ میں ہوتے دیکھا ہے اسے وہم سمجھ کر وہ ندی تک پہنچ گیا اور کنارے پر ٹہلنے لگا ندی کا جلترنگ بجاتا ہوا شفاف پانی دلوں پر وجد طاری کر رہا تھا
مزمل کو یاد آیا کہ احمد اوزال نے اسے کہا تھا کہ قدرت کے حسن میں ہی نہ کھو جانا بلکہ وہاں چھپنے کی جگہیں دیکھنا اس نے ہر سو دیکھا اسے جھاڑیوں کے اور اونچے اور گھنے پودوں کے جھرمٹ نظر آئے بعض ٹیکریاں دیواروں جیسی تھیں ان کے دامن میں ہاتھی گھاس بھی تھی اور ہرے سرکنڈے بھی بعض گھنے درخت ایسے بھی تھے جن کے نیچے والے ٹہن زمین کے قریب آگئے تھے مزمل کو خیال آیا کہ وہ ایسے کسی ٹہن پر چڑھ جائے گا اور چوڑے پتوں والی گھنی شاخیں اسے چھپا لیں گیں
اسے ندی کے کنارے کے قریب تین چار درختوں کا جھنڈ دکھائی دیا ان پر چوڑے پتوں والی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں یہ درختوں کے درمیان سے اٹھ رہی تھیں ان بیلوں نے درختوں کے نیچے غار یا گف کی طرح کا کمرہ سا بنا رکھا تھا
مزمل ندی کے ساتھ ساتھ وہاں تک جانے کی بجائے چکر کاٹ کر عقب سے آگے گیا اسے سامنے سے دیکھنے کو آگے ہوا تو وہ ٹھٹک کر ایک قدم پیچھے ہو گیا وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا مزمل کو کسی آدمی سے کوئی ڈر اور خطرہ نہیں ہو سکتا تھا لیکن یہ وہی آدمی تھا جو گلیوں اور بازاروں میں اس کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا تھا کچھ دیر پہلے مزمل نے اپنے پیچھے جو آہٹ اور سرسراہٹ سنی تھی وہ اسی آدمی کی تھی
اسے وہاں دیکھ کر مزمل فوراً سمجھ گیا کہ یہ شخص جنگل میں بھی اس کے پیچھے آ گیا ہے وہ غصے سے آگ بگولا ہوگیا اس نے اپنے کپڑوں کے اندر خنجر اڑس رکھا تھا وہ آدمی اٹھ رہا تھا مزمل نے بڑی تیزی سے خنجر نکالا اس کے ذہن میں احمد اوزال کے الفاظ گونجے یہ حسن بن صباح کا جاسوس ہے مزمل کو یوں سنائی دیا جیسے اسے کسی نے کہا ہو یہ حسن بن صباح ہے
یہ آدمی اٹھا ہی تھا کہ مزمل کا بایاں ہاتھ تیر کی طرح آگے ہوا اور اس ہاتھ نے اس آدمی کی گردن دبوچ لی مزمل کے دوسرے ہاتھ میں خنجر تھا اس کے خنجر کی نوک اس شخص کے دل کے مقام پر رکھ دی بائیں ہاتھ کا پنجہ اتنی زور سے دبایا کہ اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مزمل کی بائیں کلائی پکڑ لی اور تڑپنے لگا اس میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ مزمل کے پنچے سے اپنی گردن چھڑوا سکتا اس کے ساتھ ہی مزمل کے خنجر کی نوک اس کے دل کے مقام پر چبھ رہی تھی
مزمل اسے جان سے مار سکتا تھا لیکن اسے خیال آگیا کہ اس سے یہ تو پوچھ لے کے وہ کون ہے اور چاہتا کیا ہے اور اگر وہ حسن بن صباح کے باطنی فرقہ کا جاسوس ہے تو اس سے راز کی کچھ باتیں پوچھ لے یہ خیال آتے ہی اس نے اس شخص کی ٹانگوں کے پیچھے اپنی ایک ٹانگ کر کے بائیں ہاتھ سے ایسا دھکا دیا کہ وہ آدمی پیٹھ کے بل گرا مزمل کود کر اس کے پیٹ پر بیٹھ گیا اور خنجر کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی
کیا چاہتے ہو؟
مزمل نے پوچھا میرے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہو
میں بتا نہیں سکتا اس نے کہا بتایا تو تم مجھے قتل کر دو گے قتل تو میں تمہیں کر ہی دوں گا مزمل نے کہا سچ بول دو گے تو شاید میں تمہیں چھوڑ دوں
اس وقت میری جان تمہارے ہاتھ میں ہے اس نے کہا اس لئے میں تمہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وعدہ کرو تم کسی کو بتاؤ گے نہیں سچ بولو گے تو جو وعدہ چاہو گے پورا کروں گا مزمل نے کہا میں نے تمہیں قتل کرنا تھا اس شخص نے کہا لیکن ایک بات کا یقین کرنا تھا
میرا قصور؟
تم باطنیوں کے جاسوس ہو اس آدمی نے کہا تم حسن بن صباح کے اس گروہ کے آدمی ہو جو بڑے لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور میں حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں تم نے کہا تھا سچ بولو میں نے سچ بول دیا ہے اب چاہو تو مجھے قتل کردو
تمہیں کس نے بتایا میں حسن بن صباح کے قاتل گروہ کا آدمی ہوں؟
مزمل آفندی نے پوچھا
کل تم نے مجھ سے احمد اوزال کا گھر پوچھا تھا اس نے جواب دیا میرے ساتھ ایک اور آدمی تھا اس نے تمہارے متعلق کہا تھا کہ اسے شک ہے کہ تم باطنی ہو اور شاید تم قاتل گروہ کے آدمی ہو میں یہی معلوم کرنے کے لئے تمہارے پیچھے پھر رہا تھا شک صحیح ہونے کی صورت میں میں نے تمہیں قتل کرنا تھا ہمیں بتایا گیا ہے کہ حسن بن صباح کے پیشہ ور صرف ایک قاتل کو قتل کرنے کا اتنا ہی ثواب ملتا ہے جیسے تم نے حسن بن صباح کو قتل کر دیا بےشک اس وقت میری جان تمہارے قبضہ اختیار میں ہے لیکن تم میں مردانگی ہے تو تم بھی سچ بتا دو کہ تم پر میرا جو شک ہے یہ صحیح ہے یا غلط
کم عقل انسان! مزمل نے کہا اگر تمہارا شک صحیح ہوتا تو اب تک میرا خنجر تمہاری شہ رگ کاٹ چکا ہوتا
مزمل آفندی نے اس کی شہ رگ سے خنجر ہٹا لیا پھر اس کے پیٹ سے اتر کر اس کے قریب بیٹھ گیا وہ آدمی اٹھ بیٹھا
کون سے فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟
مزمل نے اس سے پوچھا نام کیا ہے تمہارا
اہل سنت ہوں اس نے جواب دیا عبید ابن عابد میرا نام ہے سب مجھے بن عبد کہتے ہیں
حسن بن صباح قلعہ المُوت میں ہے مزمل نے کہا اور تم یہاں خلجان میں اسے کس طرح قتل کرو گے؟
دیکھو میرے دوست بن عابد نے کہا میں نے تمہیں اپنا راز دے دیا ہے اب اور زیادہ بھید لینے کی کوشش نہ کرو تمہارا خنجر میرے دل پر اور شہ رگ تمہارے پنچے میں آ گئی تھی اور میں بے بس ہو گیا تھا اب تمہارے ہاتھ میں خنجر ہے اور میں خالی ہاتھ ہوں مجھ پر حملہ کر کے دیکھو میں استادوں سے خالی ہاتھ لڑنے اور قتل کرنے کی تربیت لے کر آیا ہوں میں کوئی گیا گزرا آدمی نہیں ہوں میرے آباء اجداد ثقفی تھے مجھے تم پر شک ہے کہ تم کسی اور فرقے کے آدمی ہو؟
میں اہل سنت ہو بن عابد! مزمل نے کہا میرے دادا اصفہان میں آباد ہو گئے تھے میں تم سے ایک خاص مقصد کے لئے پوچھ رہا ہوں کہ حسن بن صباح کو کس طرح قتل کرو گے؟
یہ کام ایک آدمی کا نہیں بن عابد نے کہا مجھے ایک ساتھی کی ضرورت ہے میں اسی مقصد کے لیے خلجان میں رکا ہوا ہوں میں حیران ہوں کہ ایک سے بڑھ کر ایک دلیر آدمی موجود ہے جذبے والے بھی موجود ہیں یہ وہ پکے مسلمان ہیں جو حسن بن صباح کا نام سنتے ہی تو تھوک دیتے ہیں لیکن حسن بن صباح کے قتل کے لیئے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا
وجہ کیا ہے ؟
بزدلی بن عابد نے جواب دیا
کہتے ہیں وہاں جا کر بندہ خود قتل ہوجاتا ہے حسن بن صباح کو قتل نہیں کیا جاسکتا
تمہارا اپنا کیا خیال ہے؟
میرے بھائی! بن عابد نے جواب دیا میرا اپنا کوئی خیال نہیں مسلمان جو کچھ کرتا ہے اللہ کے حکم سے کرتا ہے اس کا اپنا کوئی خیال نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی راہ میں جان قربان کر دیا کرتا ہے اگر دو دنوں تک مجھے کوئی ساتھی نہ ملا تو میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا پھر دیکھوں گا کون قتل ہوتا ہے میں یا حسن بن صباح
عبید بن عابد بولتا چلا گیا اور اس کا لہجہ پہلے سے زیادہ جذباتی ہو گیا ایک سحر سا تھا جو مزمل آفندی پر طاری ہوتا چلا جا رہا تھا اسے ایک ایسا آدمی مل گیا تھا جو اس کا صرف ہم خیال ہی نہیں تھا بلکہ وہ بھی وہی عزم لے کر گھر سے نکلا تھا جو مزمل کو اتنی دور سے یہاں لے آیا تھا
اگر میں کہوں کہ میں بھی اسی ارادے سے آیا ہوں مزمل نے کہا تو مان لو گے
نہیں بن عابد نے کہا میں پچھتا رہا ہوں کہ تمہیں اپنا راز دے دیا ہے مجھے تم پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں بن عابد! مزمل نے کہا یوں سمجھو کہ تم جس ساتھی کی تلاش میں ہو وہ تمہیں مل گیا ہے مزمل اتنا جذباتی ہو گیا تھا کہ اس نے خنجر اپنے سامنے زمین پر رکھ دیا وہ بن عابد کے سامنے بیٹھا ہوا تھا بن عابد نے بڑے آرام سے خنجر اٹھا لیا اور اسے دیکھنے لگا جیسے بچہ کوئی چیز اپنے ہاتھوں میں لے کر اشتیاق سے دیکھا کرتا ہے عابد پہلے سے زیادہ جذباتی لہجے میں بول بھی رہا تھا
وہ بیٹھے بیٹھے اچانک اچھلا اور مزمل پر جا پڑا مزمل اس اچانک حملے سے پیٹھ کے بل گرا بن عابد اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور خنجر کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی
اب بتا تو کون ہے باطنی مردود! بن عابد نے کہا تو ان باطنیوں کا جاسوس ہے تو حسن بن صباح ابلیس کے خاص گروہ کا آدمی ہے میں نے تجھے اپنا راز دے دیا ہے تجھے میں زندہ کیسے رہنے دوں
مزمل منت سماجت کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا وہ قسمیں کھا کھا کر یقین دلا رہا تھا کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور وہ حسن بن صباح کے قتل کے ارادے سے آیا ہے بن عابد مان نہیں رہا تھا
پھر یوں کرو بن عابد بڑی مشکل سے مانا اور شرط یہ بتائی میرے ساتھ وہاں چلو جہاں میں رہتا ہوں
بن عابد اس کے سینے سے ہٹ گیا اور مزمل اٹھ کر بیٹھ گیا میں اپنے دوست احمد اوزال کے یہاں ہی کیوں نہ رہوں مزمل نے کہا الموت تمہارے ساتھ چلوں گا
نہیں بن عابد نے کہا میں تمہیں اس لیے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں کہ مجھے مکمل طور پر یقین کرنا ہے کہ تم قابل اعتماد ہو اور تمھیں اپنے ساتھ لے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ احمد اوزال ٹھیک آدمی نہیں میں جانتا ہوں وہ سلجوق ہے اور شاید سلجوقی سلطان کے لیے جاسوسی بھی کرتا ہے میرے یہاں کے دوستوں کو شک ہے کہ وہ باطنیوں کا بھی وفادار ہے دوغلا آدمی ہے تمہیں اس نے کیا کہا ہے؟
میں نے اسے بتا دیا ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں؟
مزمل نے جواب دیا اس نے کہا ہے کہ وہ قلعہ المُوت تک میرے ساتھ چلے گا اور میری رہنمائی کرے گا
بچو میرے دوست! بن عابد نے کہا یہ تمہیں الموت لے جاکر مروائے گا تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس رہنے کی تم پر پابندی نہیں میرے دوستوں سے ملو گے اور ان کی باتیں سنو گے تو خود محسوس کرو گے کہ تمہیں ہمارے پاس ہی رہنا چاہئے اس صورت میں ہم تمہارے دوست کو پتہ نہیں چلنے دیں گے
مزمل آفندی پر خاموشی طاری ہوگئی اس کا ذہن الجھ گیا وہ بن عابد کے ساتھ چل پڑا اسے چلتے چلتے خیال آیا کہ احمد اوزال کو تو وہ جانتا ہی نہیں تھا اس کے پاس آئے ابھی ایک رات ہی گزری اور اگلا دن گزر رہا تھا
عبید ابن عابد اسے ایک گھر میں لے گیا جہاں دو آدمی موجود تھے وہ اٹھ کر بڑے تپاک سے مزمل سے ملے بن عابد نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ مزمل بھی اسی مشن پر آیا ہے جو مشن عابد کا ہے ان دونوں آدمیوں نے مزمل کے ساتھ وہی باتیں کیں جو بن عابد نے کی تھی مزمل نے انہیں بھی یقین دلانے کی کوشش کی کہ باتطنیوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں
مزمل آفندی! ایک آدمی نے کہا تم قرآن ہاتھوں پر اٹھا کر قسم کھا سکتے ہو مسجد میں جا کر بھی قسم کھا سکتے ہو لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہوگا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ سچ ہے میں تمہیں ایک بات بتا دوں اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو زندہ نہیں رہوگے دنیا کے کسی بھی گوشے میں چلے جاؤ گے تمہیں قتل کرنے کے لئے ہمارا ایک آدمی وہاں پہنچ جائے گا اگر تم اسلام کے ساتھ مخلص اور دیانتدار ہو تو ہمارے پاس رہو اب چونکہ ہم نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا راز دے دیا ہے اس لیے یہ بھی بتا دو کہ تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے؟
سلطان ملک شاہ کے وزیر نظام الملک نے مزمل نے صحیح بات بتادی انہوں نے ہی کہا تھا کہ خلجان جاکر احمد اوزال کا گھر پوچھ لینا اور اسے بتانا کہ تمہیں ہم نے بھیجا ہے پھر اسے بتانا کہ تم کیوں آئے ہو وہ تمہارا ساتھ دے گا
بن عابد نے تمہیں بتایا ہوگا اس آدمی نے کہا احمد اوزال قابل اعتماد آدمی نہیں اگر یہ تمہیں پکڑوا دے گا تو ہم حیران نہیں ہوں گے ہمیں بن عابد کے لیے ایک ساتھی کی ضرورت تھی ہم تو کہتے ہیں کہ اللہ نے ہماری مدد کی ہے کہ تمہیں بھیج دیا ہے اور یہ بھی اللہ کی ہی مدد ہے کہ تم ہمیں مل گئے اور ہم نے تمہیں احمد اوزال سے بچا لیا
تم ایک بار ضرور سوچو گے دوسرے آدمی نے کہا تم پوچھ سکتے ہو کہ ہم میں سے کوئی بن عابد کے ساتھ کیوں نہیں گیا؟
یہ تو میں ضرور پوچھوں گا مزمل نے کہا جواب پر غور کرو مزمل! اس آدمی نے کہا اگر ہم بن عابد کے ساتھ چلے گئے تو پیچھے ہمارے محاذ کو چلانے والا کوئی نہیں رہے گا ہمارے محاذ میں کچھ آدمی اور بھی ہیں لیکن وہ اتنے بڑے خطرے میں جانے کے قابل نہیں اور وہ جانے سے ڈرتے بھی ہیں
میں ڈرنے والوں میں سے نہیں مزمل نے کہا لیکن میں یہ یقین کس طرح کرو کہ تم لوگ مجھے دھوکہ نہیں دے رہے ؟
یہی سوال ہم تم سے پوچھنا چاہتے ہیں اس آدمی نے کہا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں کہ تم ہمیں دھوکا نہیں دوں گے؟
اس مسئلہ پر باتیں شروع ہوئیں تو مزمل آفندی کو یقین آگیا کہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں اور اس نے انہیں یقین دلا دیا کہ وہ بھی قابل اعتماد ہے اس کا اس نے یہ ثبوت پیش کیا کہ اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ احمد اوزال کے پاس نہیں جائے گا
اس جماعت کا جو سردار بنا ہوا تھا اس نے فیصلہ کیا کہ آج ہی رات بن عابد اور مزمل قلعہ الموت کو روانہ ہو جائیں
ہمارے دو آدمی وہاں بھی موجود ہیں مزمل! سردار نے کہا بن عابد کو معلوم ہے وہ بڑی اچھی اور محفوظ پناہ ہے تمہیں کسی بہروپ کی بھی ضرورت نہیں یہ خیال رکھنا کہ کوئی تم سے پوچھے کہ تم کون ہو تو کہنا میں امام کا شیدائی ہوں کسی کے ساتھ حسن بن صباح کے خلاف کوئی بات نہ کرنا
قتل کس طرح کریں گے ؟
مزمل نے پوچھا
یہ تم نے وہاں جا کر دیکھنا ہے سردار نے کہا ویسے اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے وہ لوگوں کے سامنے آتا ہے لیکن لوگوں کے درمیان یعنی قریب نہیں آتا تم دونوں یوں کرنا کہ اس کے محافظوں تک پہنچ جانا اور رو رو کر تڑپ تڑپ کر منت سماجت کرنا کہ تم امام کے ہاتھ چومنے کے لئے اصفہان سے آئے ہو اگر تمہیں اجازت مل جائے تو خنجر تمہارے پاس ہوں گے یہ سوچ لو کہ اسے تو قتل کر دو گے لیکن خود وہاں سے زندہ نہیں نکل سکو گے دوسرا طریقہ تیر ہے حسن بن صباح کبھی کبھی باہر نکلتا ہے یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس پر کہاں سے تیر چلا سکتے ہو اس صورت میں تمہیں بھاگ نکلنے کا موقع مل سکتا ہے
میرا مقصد اسے قتل کرنا ہے مزمل نے کہا بھاگ سکے تو بھاگ آئیں گے ورنہ بھاگنا میرا مقصد نہیں
یہ ہوئی نہ بات بن عابد نے کہا ایسا ساتھی مجھے کہاں مل سکتا تھا
سورج غروب ہوگیا تو احمد اوزال مزمل کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا اور پریشان ہو گیا اس نے مزمل سے کہا بھی تھا کہ غروب آفتاب سے پہلے واپس آ جائے وہ وہاں اجنبی تھا کہیں گھر کا راستہ نہ بھول گیا ہو احمد اوزال کو یہ خطرہ بھی نظر آ رہا تھا کہ مزمل جاسوسی کی اونچ نیچ اور خطروں سے بالکل ہی واقف نہیں تھا کسی باطنی کے جال میں نہ آ گیا ہو
احمد اوزال گھر سے نکلا اور گلیوں میں گھومنے پھرنے لگا بازار بھی چھان مارا واپس گھر آیا مزمل واپس نہیں آیا تھا احمد اوزال اپنے ایک ساتھی کے گھر گیا اور اسے مزمل کے متعلق بتایا یہ شخص بھی سلجوقیوں کا جاسوس تھا
یہ تمہاری غلطی ہے اس کے ساتھی نے کہا تم نے یہ آدمی مجھے دکھایا ہی نہیں میں اسے کہا ڈھونڈ سکتا ہوں
کل شام ہی مرو سے آیا تھا احمد اوزال نے کہا میں نے آج رات اسے تمہارے پاس لانا تھا
وہ بچہ تو نہیں کہ رستہ بھول گیا ہو گا اس آدمی نے کہا تم جانتے ہو خلجان حسن بن صباح کے ان آدمیوں سے بھرا پڑا ہے جو مخالفوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہ اتنے ماہر ہیں کہ اجنبی کا چہرہ دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ یہ شخص مشکوک ہے یا بے ضرر ہے مجھے تو یہی نظر آرہا ہے کہ ہمارا یہ مہمان اسی جال میں آ گیا ہے اصل خطرہ یہ ہے کہ وہ تمہاری نشاندہی کر دے گا
میں وزیراعظم نظام الملک کو کیا جواب دوں احمد اوزال نے کہا انہوں نے اسے میرے پاس بھیجا تھا
صرف کل شام تک انتظار کرو احمد کے ساتھی نے کہا اگر وہ نہ آیا تو رات کو ہی نکل جانا مرو جا کر سلطان کو بتانا کہ آپ کا بھیجا ہوا آدمی لاپتہ ہو گیا ہے
سلطان کیا کرے گا؟
احمد اوزال نے کہا جاسوسی کا نظام وزیراعظم نظام الملک نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے اس شخص کو بھی اسی نے بھیجا ہے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ اس آدمی میں عقل کی باریکی بھی ہے یا نہیں اس کی صرف جذباتی باتیں سنیں اور بھیج دیا حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے
وزیراعظم کو یہی بتانا اس کے ساتھی نے کہا انہیں کہنا کہ اس قسم کے اناڑیوں کو نہ بھیجا کریں یہ ہمیں بھی پکڑوائیں گے تمہیں یہاں سے نکل جانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس نے جذبات میں آکر آپ غیر دانستہ طور پر تمہاری نشاندہی کر دی ہو
احمد اوزال پھر بھاگم بھاگ اپنے گھر اس توقع پر گیا کے مزمل شاید آگیا ہو لیکن مزمل نہیں آیا تھا اب اس نے اس حقیقت کو قبول کرلیا کہ مزمل لاپتہ ہو گیا ہے اسے اپنے ساتھی کا مشورہ دانشمندانہ لگا کہ اسے خلجان سے نکل جانا چاہیے
رات کے اس وقت جب احمد اوزال مزمل آفندی کے لئے پریشان ہو رہا تھا اور جب اسے یہ خطرہ اور پریشان کر رہا تھا کہ مزمل نے بھولے پن میں اس کی نشاندہی کر دی ہو گی اس وقت دو گھوڑے شہر سے نکلے ایک پر بن عابد اور دوسرے پر مزمل آفندی سوار تھا شہر سے نکل کر انہوں نے قلعہ الموت کا رخ کرلیا
ان کے ساتھ بن عابد کے وہ دو ساتھی تھے جن کے یہاں بن عابد مزمل کو لے گیا تھا اور انہوں نے مزمل کو قائل کرلیا تھا کہ وہ احمد اوزال کے پاس نہ جائے یہ دونوں شہر کے باہر تک بن عابد اور مزمل کے ساتھ گئے تھے اور انہوں نے دعاوں سے رخصت کیا تھا
اللہ تمہیں امان میں رکھے ایک نے کہا
اللہ تمہیں کامیاب واپس لائے گا دوسرے نے کہا گھوڑے رات کی تاریکی میں تحلیل ہو گئے تو یہ دونوں واپس آ گئے
ایک تو ہاتھ آ گیا ان میں سے ایک نے جو اس خفیہ جماعت کا سردار تھا اپنے ساتھی سے کہا اب بتاؤ عمر! اسے بھی پکڑ لیں
احمد اوزال کو؟
عمر نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا اس کے متعلق کوئی شک تو رہا نہیں یہ شخص مزمل سارے شک صحیح ثابت کر گیا ہے ایک بات بتاؤ شمش! کیا ہم دو آدمی اسے پکڑنے کے لیے کافی ہیں؟
کیوں نہیں شمس نے کہا وہ اکیلا رہتا ہے ذرا عقل سے کام لو وہ اپنے اس مہمان مزمل کے لئے پریشان ہو گا کہ وہ کہاں گیا ہے ہم یہ ذہن میں رکھ کر اس کے گھر میں داخل ہو سکیں گے
رات اسے اپنے گھر باندھ کر رکھیں گے عمر نے کہا
اور کل رات اسے یہاں سے لے جائیں گے شمس نے کہا اور امام کے حوالے کرکے کہیں گے لو ایک اور سلجوقی جاسوس آگیا ہے امام المُوت پہنچ گیا ہے…
📜☜ سلسلہ جاری ہے……

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah-and-his-artificial-paradise-6/feed/ 0
حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ سوئم https://urducover.com/hassan-bin-sabah/ https://urducover.com/hassan-bin-sabah/#respond Fri, 19 Jul 2024 15:02:53 +0000 https://urducover.com/?p=3572 حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت۔حصہ سوئم

Hassan bin Sabah and his artificial paradise 

 

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:9 }
ملک شاہ نے اسی وقت فوج کے سپہ سالار اور کوتوال کو بلا کر انہیں وہ جگہ بتائی جہاں قافلہ لوٹا گیا اور قافلے والوں کا قتل عام ہوا تھا اس نے حکم دیا کہ ہر طرف ہر شہر اور ہر آبادی میں جاسوس پھیلا دیئے جائیں
یہ کوئی بہت بڑا اور منظم گروہ ہے سلطان ملک شاہ نے کہا تم جاسوسوں اور مخبروں کے بغیر اس کا سراغ نہیں لگا سکتے مجھے ان چھوٹے چھوٹے قلعوں کے مالکوں اور قلعہ داروں پر بھی شک ہے ان کے ساتھ ہمیں مروت سے پیش آنا پڑتا ہے تم جانتے ہو کہ وہ کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتے ہیں میں ان پر فوج کشی نہیں کرنا چاہتا ورنہ یہ شرکس اور باغی ہو جائیں گے
سلطان عالی مقام سپہ سالار نے کہا میری نظر قلعہ شاہ در کے والی احمد بن عطاش پر بار بار اٹھتی ہے مجھے شک ہے کہ وہ کوئی زمین دوز کاروائیوں میں مصروف ہے شاہ در ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی آبادی خاصی زیادہ ہے احمد کو اس آبادی سے فوج مل سکتی ہے
اسے شاہ در کا والی میں نے ہی بنایا تھا سلطان نے کہا اور یہ شہر اس کے حوالے اسکی کچھ خوبیاں دیکھ کر کیا تھا اس کی شہرت یہ ہے کہ وہ اہل سنت ہے اور وہ جب وعظ اور خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو کفر کے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں پہلے والی ذاکر نے وصیت کی تھی کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے
گستاخی معاف سلطان محترم کوتوال نے کہا کسی کے خطابت سے متاثر ہونا اور بات ہے لیکن ایسے خطیب کی نیت اور دل میں چھپے ہوئے عزائم کو سمجھنا بالکل ہی مختلف معاملہ ہے اور یہی ایک راز ہے جو جاننا ضروری ہوتا ہے مجھے کچھ ایسی اطلاع ملتی رہی ہیں جن سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شاہ در میں اسماعیلی اکٹھے ہو رہے ہیں
یہ شک ایک اور وجہ سے بھی پختہ ہوتا ہے سپہ سالار نے کہا احمد نے قلعے کا والی بنتے ہی ان تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا تھا جنہیں سنی عقیدے کے خلاف کام کرتے پکڑا گیا تھا لیکن اب ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اب ہم صرف یہ کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کرنا بھی چاہئے کہ کسی ایسے جاسوس کو شاہ در بھیج دیتے ہیں جو بہت ہی ذہین دانش مند اور ہر بات کی گہرائی میں اتر جانے والا ہے وہ ذرا اونچی حیثیت کا آدمی ہونا چاہیے جو والی قلعہ کی محفلوں میں بیٹھنے کے قابل ہو
ایسا کوئی تمھاری نظر میں ہے؟
سلطان نے پوچھا میرے پاس دو ایسے آدمی ہیں کوتوال نے کہا ان دونوں میں جو بہتر ہے اگر آپ حکم دیں تو میں اسے شاہ در بھیج دوں گا بھیجنے سے پہلے میں اسے کچھ دن تربیت دوں گا بھیج دو ملک شاہ نے کہا اگر فوج کشی کی ضرورت پڑی تو میں حیل و حجت نہیں کرونگا میں اپنی ذات کی توہین برداشت کر سکتا ہوں اپنے عقیدے کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کروں گا
اس شخص کا نام یحییٰ ابن الہادی تھا اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی عراقی عرب تھا خوبرو اتنا کے ہجوم میں ہوتا تو بھی دیکھنے والوں کی نظریں اس پر رک جاتی تھی جسم گٹھا ہوا اور ساخت پرکشش ایسا ہی حسن اس کی زبان میں تھا عربی اس کی مادری زبان تھی فارسی بھی بولتا اور سلجوقیوں کی زبان بھی سمجھ اور بول لیتا تھا یہ ترکی زبان تھی شہسوار تھا تیغ زنی اور تیراندازی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا کوتوال نے اسے آٹھ دس دن اپنے ساتھ رکھا اور تربیت دیتا رہا
ابن الہادی کوتوال نے اسے شاہ در روانہ کرنے سے ایک روز پہلے کہا یہ تو تم جان چکے ہو کہ شاہ در جاسوسی کے لیے جا رہے ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم کامیاب لوٹو گے لیکن ایک بار پھر سن لو کہ تمہارا مقصد کیا ہے شک یہ ہے کہ احمد بن عطاش کی کچھ زمین دوز سرگرمیاں ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اسماعیلیوں اور باغیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اگر ایسا نہیں تو یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟
کیا یہ عزائم سلطنت کے حق میں ہیں یا احمد سرکشی اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے
میں آپ تک خبریں کس طرح پہنچایا کروں گا؟
یحییٰ ابن الہادی نے پوچھا
سنان تمہارے ساتھ جارہا ہے کوتوال نے اسے بتایا وہ تمہیں ملتا رہا کرے گا میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ابن الہادی
اگلی صبح یحییٰ ابن الہادی اور سنان شاہ در کو روانہ ہو گئے
احمد بن عطاش کو بتایا جاچکا تھا کہ قافلہ کامیابی سے لوٹ لیا گیا ہے آٹھ دس دنوں بعد وہ تمام زروجواہرات جو قافلے سے ملے تھے احمد کے حوالے کردیئے گئے تھے پھر باقی سامان بھی تھوڑا تھوڑا اس کو پہنچایا جاتا رہا کسی کو شک تک نہ ہوا کہ قافلہ والی شاہ در کے کہنے پر لوٹا گیا تھا
محترم استاد ایک روز حسن بن صباح نے احمد بن عطاش سے پرمسرت لہجے میں کہا کیا اتنا مال ودولت اور اتنی حسین نوخیز لڑکیاں پہلے بھی آپ کو کسی قافلے سے ملی تھیں
نہیں حسن احمد نے کہا میں نے اب تک جتنے قافلوں پر حملہ کروائے ہیں ان سب کا لوٹا ہوا مال اکٹھا کیا جائے تو اتنا نہیں بنتا جتنا اس قافلے سے حاصل ہوا ہے احمد خاموش ہو گیا اور حسن بن صباح کو غور سے دیکھ کر بولا کیوں حسن آج تم کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے ہو؟
ہاں استاد حسن نے کہا میں اس لیے خوش نہیں کہ اس قافلے نے ہمیں مالامال کر دیا ہے بلکہ میری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ میری بتائی ہوئی ترکیب کامیاب رہی ہے میں کوئ اور بات کہنے لگا تھا اس کامیابی کا جشن منانا چاہیے اور اس جشن میں شہر کے لوگوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے
کیا لوگوں کو کھانا کھلاؤ گے؟
احمد بن عطاش نے پوچھا ناچ گانا کراؤ گے ؟
جو کچھ بھی کرو گے وہ بعد کی بات ہے پہلے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ لوگوں کو کیا بتاؤ گے کہ یہ کیسا جشن ہے؟
بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے حسن نے کہا جشن تو ہم منائیں گے لوگوں کو کسی اور طریقے سے شامل کرنا ہے وہ اس طرح کہ کم از کم دو دن گھوڑ دوڑ نیزہ بازی تیغ زنی تیراندازی کُشتی وغیرہ کے مقابلے کرائیں گے اور جیتنے والوں کو انعام دیں گے ہم نے جشن تو اپنا منانا ہے لیکن اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ لوگ خوش ہو جائیں گے، لوگوں کے ساتھ آپ کا رابطہ بہت ضروری ہے، لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے نہیں آؤں گا یا انہیں اپنا چہرہ نہیں دیکھاؤ گا کیونکہ میں نے بعد میں کسی اور روپ میں سامنے آنا ہے جشن آپ کو ہر دلعزیز بنانے کے لئے ضروری ہے
احمد بن عطاش کو یہ تجویز اچھی لگی کہ اس نے اسی وقت جشن کی تفصیلات طے کرنی شروع کر دی پھر حکم دیا کہ شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں ایک ہی دن میں یہ منادی کرا دی جائے کہ فلاں دن شاہ در میں گھوڑدوڑ نیزہ بازی تیغ زنی کُشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے جن میں جو چاہے شریک ہو کر انعام حاصل کرسکتا ہے
اس منادی سے شاہ در کے ارد گرد کے علاقے میں نئی جان پڑ گئی لوگ ایک دو دن پہلے ہی شاہ در پہنچنا شروع ہو گئے شہر کے ارد گرد خیموں کی ایک وسیع و عریض بستی آباد ہوگئی گھوڑوں اور اونٹوں کا ہی کوئی شمار نہ تھا
مقابلے کے دن سے ایک دن پہلے خیموں کی بستی اتنی دور تک پھیل گئی تھی کہ اس کے درمیان شاہ در گاؤں سا لگتا تھا سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے حسن بن صباح اپنے استاد اور پیرومرشد احمد بن کے ساتھ محل نما مکان کے بالا خانے کی کھڑکی میں کھڑا باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا ان کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں تھی
میرے مرشد حسن بن صباح نے احمد سے کہا یہ ہے وہ مخلوق خدا جسے ہم نے اپنی مریدی میں لینا ہے کیا یہ ممکن ہے؟
ناممکن بھی نہیں حسن احمد نے کہا ہمارا کام آسان تو نہیں ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہے تمہارے ساتھ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں اگر حکومت ہماری ہوتی تو پھر کوئی مشکل نہیں تھی ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ حکمران سلجوقی ہیں اور وہ اہلسنت ہیں ہم تعداد میں تھوڑے ہیں ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنا ہے تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہاری یہ تجویز کتنی قیمتی ہے
تفریح استاد محترم حسن نے کہا انسان کی فطرت تفریح چاہتی ہے انسان حقیقت کا مفرور ہے لذت چاہتا ہے آپ استاد ہیں آفتاب ہیں آپ میں آپ کے سامنے چراغ سے بڑھ کر کیا حیثیت رکھتا ہوں مجھے آپ کا سبق یاد ہے ہر انسان کی ذات میں کمزوریاں ہیں اور ہر انسان اپنی کمزوریوں کا غلام ہے اس ہجوم میں بڑے امیر لوگ بھی ہیں زرپرستی اور برتری ان کی کمزوری ہے اور جو غریب ہیں وہ ایسے خدا کی تلاش میں ہیں جو انہیں بھی امیر بنانے کی قدرت رکھتا ہے
انہیں یہ خدا ہم دیں گے احمد نے کہا انہیں ہم اپنے عقیدے میں لے آئیں گے
سورج غروب ہو گیا شاہ در اور اس کے اردگرد خیموں کی دنیا کی گہماگہمی رات کی تاریکی اور سکوت میں دم توڑتی چلی گئی باہر کے لوگ نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گئے تو احمد اور حسن کی دنیا کی رونق عروج پر پہنچ گئی شراب کا دور چل رہا تھا نیک و بد کی تمیز ختم ہو چکی تھی
صبح طلوع ہوئی تو ہزارہا انسانوں کا انبوہ بے کراں اس میدان کے اردگرد جمع ہوگیا جس میدان میں مختلف مقابلے منعقد ہونے تھے یہ بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا مقابلے میں شرکت کرنے والوں کو منتظمین نے الگ جگہ دے دی تھی اس طرف کسی تماشائی کو جانے کی اجازت نہیں تھی
احمد بن عطاش کے بیٹھنے کی جگہ ایک چبوترے پر تھی جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا شاہی مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام بھی اسی چبوترے پر تھا اس پر بڑا ہی خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا برچھی برادار سنتری اور چوب دار چمکیلے اور رنگ دار لباس میں چبوترے کے نیچے اور اوپر چاک و چوبند کھڑے تھے ہر لحاظ سے یہ اہتمام شاہانہ لگتا تھا روم کے شہنشاہوں کی یاد تازہ ہو رہی تھی
اچانک دو نقارے بجنے لگے ایک طرف سے احمد بن عطاش شاہی مہمانوں اپنے خاندان کے افراد اور مصاحبوں کے جلوس میں شاہانہ چال چلتا آیا اس کے ساتھ ایک باریش آدمی تھا جو سر تا پا ہلکے سبز رنگ کی عبا میں ملبوس تھا اس کا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آتا تھا کیونکہ اس نے سر پر جو کپڑا لے رکھا تھا اس کپڑے نے اس کا آدھا چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں اور ناک ہی نظر آتی تھیں وہ حسن بن صباح تھا جس نے اپنے آپ کو لوگوں سے مستور رکھنا تھا
احمد بن عطاش حسن بن صباح کے ساتھ یوں چل رہا تھا جیسے حسن بن صباح کوئی بہت ہی معزز اور برگزیدہ بزرگ ہو یہ سب لوگ چبوترے پر آکر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرسیوں پر بیٹھ گئے احمد بن عطاش اٹھا اور چبوترے پر دو چار قدم آگے آیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا میں نے ان مقابلوں کا اہتمام اس لیے کرایا ہے کہ اسلام کی پاسبانی کے لئے قوم کے ہر فرد کا مجاہد بننا لازمی ہے جہاد کے لیے تیاریاں کرتے رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم میں کتنے لوگ جہاد میں دشمن کو تہ تیغ کرنے کے قابل ہیں
اس نے ہاتھ بلند کرکے نیچے کیا جو اشارہ تھا کہ مقابلے شروع کردیئے جائیں گھوڑ دوڑ شروع ہوگئ
لوگوں نے داد و تحسین کا شور و غل بپا کردیا
اس کے بعد گھوڑ سواری کے کرتبوں کے مقابلے ہوئے اور اس کے بعد شترسوار میدان میں اترے جب اونٹوں کی دوڑ ختم ہو گئی تو اعلان ہوا کہ اب تیر اندازی کا مقابلہ ہوگا اس اعلان کے ساتھ ہی چار آدمی ایک بہت بڑا پنجرہ اٹھائے ہوئے میدان میں آئے پنجرے میں ڈیڑھ دو سو کبوتر بند تھے ایک آدمی نے اعلان کیا کہ ایک کبوتر اڑایا جائے گا اور ایک تیر انداز اس کبوتر کو تیر سے گرائے گا یہ بھی کہا گیا کہ کوئی تیرانداز پہلے تیر سے کبوتر کو نہ گرا سکے تو وہ دوسرا اور پھر تیسرا تیر بھی چلا سکتا ہے اول انعام ان تیر اندازوں کو دیئے جائیں گے جو پہلے ہی تیر سے کبوتر کو نشانہ بنا لیں گے
کم و بیش ایک سو تیرانداز ایک طرف کھڑے تھے پہلے تیر انداز کو بلایا گیا پنجرے میں سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو پھینکا گیا تیرانداز نے کمان میں تیر ڈالا اور جب کبوتر ذرا بلندی پر گیا تو اس نے تیر چلایا لیکن کبوتر تیر کے راستے سے ہٹ گیا تیرانداز نے بڑی پھرتی سے تیرکش سے دوسرا تیر نکال کر کمان میں ڈالا اور کبوتر پر چلایا وہ بھی خطا گیا تیسرا تیر بھی کبوتر کے دور سے گزر گیا
ایک اور تیر انداز کو بلایا گیا میدان کے وسط میں کھڑے ہو کر اس نے کمان میں تیر ڈالا اور تیار ہو گیا پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو چھوڑا گیا یہ تیر انداز بھی کبوتر کو نہ گرا سکا
دس بارہ تیرانداز آئے کوئی ایک بھی کبوتر کو نہ گرا سکا اگر پرندہ سیدھی اڑان میں اڑتا آئے تو ماہر تیر انداز اسے نشانہ بنا سکتا ہے لیکن جو کبوتر پنجرے سے نکلتا تھا وہ اتنا ڈرا ہوا ہوتا تھا کہ بلندی پر بھی جاتا تھا اور بڑی تیزی سے دائیں اور بائیں بھی ہوتا تھا اس کی اڑان کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اب یہ کس طرف گھوم جائے گا ایسے پرندے کو تیر سے مارنا بہت ہی مشکل تھا
ایک اور تیرانداز آگے آیا اور ایک کبوتر اس کے لئے چھوڑا گیا اس تیر انداز نے بھی یکے بعد دیگرے تین تیر چلائے مگر تینوں خطا گئے لوگوں نے شور و غل بلند کیا تیر اوپر جاتے اور گردے صاف نظر آتے تھے یہ کبوتر تین تیروں سے بچ گیا اور تماشائیوں کے اوپر ایک چکر میں اڑتا بلند ہوتا جا رہا تھا ایک اور تیرانداز میدان میں آ رہا تھا
تماشائی ابھی اوپر اس کبوتر کو دیکھ رہے تھے جو تین تیروں سے بچ کر محو پرواز تھا احمد بن عطاش کے چبوترے کے قریب جو تماشائی کھڑے تھے ان میں سے ایک کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے پیٹ میں اتر گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آنے لگا تماشائیوں پر سناٹا طاری ہو گیا ان کی حیرت قدرتی تھی کبوتر زیادہ بلندی پر چلا گیا تھا اور ابھی تک گھبراہٹ کے عالم میں یوں اڑ رہا تھا جیسے پھڑپھڑا رہا ہو
یہ تیر انداز کون ہے؟
احمد بن عطاش نے اٹھ کر اور چبوترے پر آگے آکر کہا سامنے آؤ خدا کی قسم میں اس تیرانداز کو اپنے ساتھ رکھوں گا
ایک گھوڑسوار تماشائیوں میں سے نکلا اور چبوترے کے سامنے جا کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں کمان تھی اور کندھے کے پیچھے ترکش بندھی ہوئی تھی
کیا نام ہے تمہارا؟
احمد بن عطاش نے اس سے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
کیا تم شاہ در کے رہنے والے ہو؟
میرا نام یحییٰ ابن الہادی ہے تیر انداز نے جواب دیا بہت دور سے آیا ہوں اور بہت دور جا رہا ہوں یہاں کچھ دیر کے لیئے رکا تھا لوگوں کا ہجوم دیکھا تو ادھر آ گیا اگر اجازت ہو تو میں دوڑتے گھوڑے سے تیر اندازی کا مظاہرہ کر سکتا ہوں میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ آپ کو کچھ بہتر تماشہ دکھا سکوں
اجازت ہے احمد بن عطاش نے کہا
یحییٰ ابن الہادی نے گھوڑے کو دوڑایا اور میدان میں لے جاکر کہا کہ جب اس کا گھوڑا دوڑنے لگے تو ایک کبوتر چھوڑ دیا جائے وہ گھوڑے کو ایک طرف لے گیا اور گھوڑا دوڑا دیا پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر چھوڑ دیا گیا یحییٰ نے دوڑتے گھوڑے پر ترکش سے ایک تیر کمان میں ڈالا اور کبوتر کو نشانے میں لینے لگا آخر اس کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے ایک پر کو کاٹتا ہوا اوپر چلا گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آ پڑا
آفرین احمد بن عطاش نے اٹھ کر بے ساختہ کہا میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا شاہ در ہی تمہاری منزل ہے
ایک خالی اونٹ میدان میں دوڑا دیا جائے یحیٰی نے بلند آواز سے کہا اور اس نے گھوڑے کو روک لیا
ایک قوی ہیکل اونٹ کو میدان کے ایک سرے پر لا کر پیچھے سے مارا پیٹا گیا اونٹ ڈر کر دوڑ پڑا تین چار آدمی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے تاکہ اس کی رفتار تیز ہو جائے یحییٰ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے کو گھما پھرا کر اونٹ کے پہلو کے ساتھ کر لیا
گھوڑے کو اپنے ساتھ دوڑتا دیکھ کر اونٹ اور تیز ہوگیا اونٹ کی پیٹھ پر کجاوہ کسا ہوا تھا جو ایک آدمی کی سواری کے لئے تھا اس کی مہار زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی یحییٰ نے ریکاب میں سے پاؤں نکالے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہو گیا وہاں سے اچھلا اور اونٹ کی پیٹھ پر پہنچے گیا اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی گھوڑا اونٹ سے الگ ہو گیا یحییٰ اونٹ کو گھوڑے کے پہلو میں لے گیا اور اونٹ کی پیٹھ سے کود کر گھوڑے کی پیٹھ پر آگیا اس نے یہ کرتب دکھانے سے پہلے اپنی کمان پھینک دی تھی اس نے گھوڑے کو موڑا اور چبوترے کے سامنے جا رکا
یہ وہی یحییٰ ابن الہادی تھا جسے سلطان ملک شاہ کے کوتوال نے جاسوسی کے لئے شاہ در بھیجا تھا وہ دو روز پہلے شاہ در پہنچا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنا کام کس طرح شروع کرے انہیں دنوں مقابلوں کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا پھر مقابلے کا دن آگیا اور وہ تماشائیوں میں جا کھڑا ہوا اس نے جب اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے اور خطا ہوتے دیکھے تو اس نے سامنے آئے بغیر ایک کبوتر پر تیر چلا دیا اس طرح اس کا رابطہ براہ راست احمد بنات عطاش سے ہو گیا موقع بہتر جان کر اس نے گھوڑسواری کا کرتب بھی دکھا دیا
ایک ایک تیر انداز آگے آتا رہا اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے رہے کوئی ایک بھی تیرانداز کبوتر کو نشانہ نہ بنا سکا یحییٰ بن الھادی کی شکل و شباہت، قد، کانٹھ، جسم کی ساخت، ڈیل ڈول، اور انداز ایسا تھا کہ احمد بن عطاش نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے حسن بن صباح سے کہا کہ یہ جواں سال گھوڑسوار کوئی معمولی آدمی نہیں لگتا
اگر یہ مان جائے تو میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں احمد بن عطاش نے حسن سے کہا ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے
پوچھ لیں حسن نے کہا لگتا تو مسلمان ہے معلوم نہیں کون سے قبیلے اور کس فرقے کا آدمی ہے؟
احمد بن عطاش نے ایک چوبدار کو بھیج کر یحییٰ کو بلایا یحییٰ آیا تو احمد نے اسے چبوترے پر بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا ،یحییٰ کا گھوڑا ایک چوبدار نے پکڑ لیا میدان میں مختلف مقابلے یک بعد دیگر رہے تھے لیکن احمد کی توجہ ادھر سے ہٹ گئی تھی وہ یحییٰ کے ساتھ باتیں کررہا تھا پہلا اور قدرتی سوال یہ تھا کہ وہ کون ہے اور کہا جارہا ہے؟
اپنی منزل کا مجھے کچھ پتہ نہیں یحییٰ نے کہا شاید میں بھٹک گیا ہوں
کیا تم صاف بات نہیں کرو گے؟
احمد بن عطاش میں کہا مجھے تمہاری بات میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے کیا تم کچھ دن میرے مہمان رہنا پسند کرو گے ؟
روک جاؤ گا یحییٰ نے جواب دیا اگر میری روح کو یہاں تسکین مل گئی تو اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لوں گا لیکن آپ مجھے یہاں روک کر کریں گے کیا؟
میں چاہتا ہوں کہ لوگ تم سے تیراندازی سیکھیں احمد نے کہا اور تم یہاں ایک محافظ دستہ تیار کرو یہ دستہ گھوڑسوار ہو گا تم نے ہر ایک محافظ کو شہسوار بنانا ہے
کیا آپ اپنی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں؟
یحییٰ نے پوچھا یحییٰ نے یہ سوال جاسوس کی حیثیت سے کیا تھا اسے پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ اس کا سامنا کس قدر گھاگ اور کایاں آدمی سے ہے
اپنی فوج احمد بن عطاش نے چونک کر کہا میں اپنی فوج نہیں بناسکتا میں تو یہاں کا والی ہوں فوج تیار کرنا سلطان کا کام ہے میں یہاں لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں تم نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک بھی ایسا تیر انداز نہیں جو اڑتے کبوتر کو نشانہ بنا سکے گھوڑ سواری میں یہ لوگ اتنے ماہر نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے اگر میں ایک دستے کی صورت میں کچھ لوگوں کو تیار کر لوں گا تو وہ سلطان کے ہی کام آئیں گے تم یقینا اہلسنت والجماعت ہو
میں مسلمان ہوں یحییٰ نے کہا لیکن میں عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں سوچ سوچ کر پاگل ہوا جارہا ہوں کہ کونسا عقیدہ خدا کا اتارا ہوا ہے اور کونسا انسانوں نے خود گھڑ لیا ہے کبھی کہتا ہوں کے اسماعیلی صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور پھر خیال آتا ہے کہ اہلسنت صراط مستقیم پر ہیں میں تو مرد میدان تھا آپ نے دیکھ ہی لیا لیکن دماغ میں ان سوالوں نے سر اٹھایا اور مجھے منزل منزل کا بھٹکا ہوا مسافر بنا ڈالا میری روح تشنہ اور بے چین ہے
احمد نے حسن بن صباح کی طرف دیکھا جس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا حسن بن صباح نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ کہہ دیا
ہم تمہیں بھٹکنے نہیں دیں گے یحییٰ احمد نے کہا خدا نے ہم پر یہ کرم کیا ہے کہ یہ بزرگ ہستی ہمیں عنایت کی ہے یہ دینی علوم کے بہت بڑے عالم ہیں میں ان سے درخواست کروں گا کہ یہ تمہیں اپنی شاگردی میں بیٹھا لیں اور تمہارے شکوک و شبہات رفع کر دیں ،مجھے امید ہے کہ تمہاری روح کی تشنگی ختم ہو جائے گی
اے بھٹکے ہوئے مسافر حسن بن صباح نے کہا مرد میدان ہو تمہیں علم اور خصوصا دینی علم کی جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو ہم تمہیں اپنے پاس بٹھائیں گے کچھ روشنی دکھائیں گے اور تمہاری تسکین کر دیں گے
تیغ زنی وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے تماشائیوں نے بے ہنگم شور و غوغا باپا کر رکھا تھا میدان سے اتنی گرد اڑ رہی تھی کہ مقابلہ کرنے والے اچھی طرح نظر بھی نہیں آتے تھے دوپہر کے بعد کا وقت ہو گیا تھا احمد بن عطاش نے اعلان کروایا کہ باقی مقابلے کل صبح ہوں گے اور جو لوگ اس وقت تک مقابلوں میں کامیاب رہے ہیں انہیں مقابلے ختم ہونے کے بعد انعامات دیے جائیں گے
احمد بن عطاش اٹھ کھڑا ہوا شاہی مہمان وغیرہ بھی اٹھے اور وہ سب چلے گئے احمد نے یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھا گھر لے جا کر اس کا منہ ہاتھ دلوایا اور پھر وہ دسترخوان پر جا بیٹھے کھانے کے دوران بھی ان کے درمیان باتیں ہوتی رہیں یحییٰ نے اپنے متعلق یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار خاندان کا فرد ہے اور اس کا اثر و رسوخ اس وقت صرف اپنے قبیلے پر ہی نہیں بلکہ دوسرے قبیلے بھی اس کے خاندان کے رعب و دبدبے کو مانتے ہیں
یہ بڑا ہی اچھا اتفاق تھا کہ یحییٰ انہی لوگوں میں پہنچ گیا تھا جن کے متعلق اس نے معلوم کرنا تھا کہ ان کے اصل چہرے کیا ہیں اور کیا انہوں نے کوئی بہروپ تو نہیں چڑھا رکھا اب یہ اس کی ذہانت اور تجربے کا امتحان تھا کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح راز کی باتیں اگلوا سکتا ہے
چونکہ احمد بن عطاش حاکم تھا اس لئے اسے اپنے متعلق یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ سرداری کی سطح کا آدمی ہے اور دوچار قبیلوں پر اس کا اثر اور رسوخ کام کرتا ہے اس نے ان کے سامنے اپنی ایک مصنوعی کمزوری بھی رکھ دی تھی کہ وہ دینی علوم کے راز حاصل کرنے کے لئے بھٹکتا پھر رہا تھا
تم آج بہت تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو احمد بن عطاش نے کھانے کے کچھ دیر بعد یحییٰ سے کہا تمہارے لئے اسی مکان میں رہائش کا بندوبست کردیا گیا ہے شام کا کھانا وہیں پہنچ جائے گا آج آرام کر لو کل کام کی باتیں ہونگی
مسلسل سفر میں ہوں یحییٰ نے کہا آپ نے ٹھیک جانا ہے میں بہت ہی تھکا ہوا ہوں ایک درخواست ہے میرا ملازم بھی میرے ساتھ ہے اگر اس کی رہائش کا بھی انتظام ہو جائے
ہوجائے گا احمد نے کہا اسے یہیں لے آؤ
جسے یحییٰ نے اپنا نوکر کہا تھا وہ سنان تھا سنان کو اس کام کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا کہ کوئی ضروری اطلاع وغیرہ ہوگی تو وہ سنان لے کر مرو جائے گا
ایک ملازم کو بلا کر یحییٰ کو اس کے ساتھ اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا یحییٰ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گیا وہ تو شاہانہ کمرہ تھا یحییٰ بہت خوش تھا کہ وہ ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گیا ہے اور وہ چند دنوں میں اپنا کام مکمل کر لے گا
اب بتاؤ حسن احمد بن عطاش نے یحییٰ کے جانے کے بعد حسن بن صباح سے پوچھا اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ایک تو ہم اس سے یہ فائدہ اٹھائیں گے کہ ہمیں تیر انداز اور شہسوار تیار کر دے گا ہم نے قلعہ المُوت تک جتنے قلعہ نما شہر سامنے آتے ہیں انہیں اپنے قبضے میں لینا ہے یہ ہمیں کر ہی لینے پڑیں گے اس کے لئے ہمیں جاں باز فوج کی ضرورت ہے اس کی نفری چاہے تھوڑی ہی ہو یہ شخص خاصہ عقلمند لگتا ہے اور تین قبیلوں پر بھی اس کا اثر اور رسوخ ہے اسے اگر ہم اپنے سانچے میں ڈھالیں تو یہ بڑے کام کا آدمی ثابت ہوگا
ہاں استاد محترم حسن بن صباح نے کہا آدمی تو کام کا لگتا ہے لیکن ہمیں اس پر نظر رکھنی پڑے گی کہ یہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اسے راز کی باتیں بتانا شروع کردیں جیسا کہ یہ کہتا ہے کہ یہ منزل منزل کا مسافر ہے یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہمیں بتائے بغیر غائب ہی ہو جائے احتیاط لازمی ہے
صورت یہ پیدا ہو گئی کہ جو جاسوس بن کر آیا تھا اس کی بھی درپردہ جاسوسی ہونے لگی اگلی صبح اسے کمرے میں ہی ناشتہ دیا گیا اور ناشتے کے بعد ایک چوبدار اسے اپنے ساتھ لے گیا ایک کمرے میں حسن بن صباح اس کے انتظار میں بیٹھا تھا اس کے اشارے پر یحییٰ اس کے سامنے بیٹھ گیا
اب بات کرو یحییٰ حسن نے کہا کیا وہم ہے کیا مسئلہ ہے جو تم اپنے دماغ میں لیے پھرتے ہو؟
کیا میں خدا کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر جا رہا ہوں؟
یحییٰ نے پوچھا کیا میرا عقیدہ صحیح ہے؟
یہ بات نہیں یحییٰ حسن نے کہا اصل سوال جو تمہارے دماغ میں تڑپ رہا ہے اور تمہارے لیے بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خدا کا وجود ہے اگر ہے تو خدا کہاں ہے؟
خدا نظر ہی نہیں آتا تو یہ راستہ اور یہ عقیدہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے حسن بن صباح یحییٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح بات کر رہا تھا جیسے ندی کا شفاف پانی پتھروں پر آہستہ آہستہ جلترنگ بجاتا بہا جا رہا ہو حسن کے ہونٹوں پر روح افزا مسکراہٹ تھی یحییٰ کے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہیں تھا وہ توان لوگوں کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں تھا اسے توقع تھی کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہوا تو اس کے سوال سن کر یہ لوگ اس کے ذہن میں اسماعیلیت ٹھوسنی شروع کر دیں گے لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے دشمن نے اسے تہہ تیغ کرکے نہتا کر دیا ہو حالانکہ حسن بن صباح نے اپنی بات ابھی شروع ہی کی تھی
خدا وہ ہے جو انسان کو نظر آتا ہے حسن کہہ رہا تھا نظر آنے والا خدا ایک نہیں کئی ایک ہے اور یہ سب انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں کسی نے پتھر کو تراش کر خدا کو آدمی کی شکل دے دی کسی نے خدا کو عورت بنا دیا کسی نے شیر کسی نے سانپ اور کسی نے دھڑ جانور کا اور چہرہ انسان کا بنا دیا
بات یہ سمجھنے والی ہے یحییٰ خدا انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان خدا کی تخلیق ہے اور انسان کا ہر قول اور فعل خدا کے حکم کا پابند ہے یہ صراط مستقیم ہی ہے کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو یہاں تمہارے سارے شکوک صاف ہو جائیں گے لیکن یہ ایک دن کا معاملہ نہیں کچھ دن لگیں گے تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو انسان وہی کامل بنتا ہے جو اپنے آپ کو کسی کامل پیر و مرشد کے حوالے کردیتا ہے
قابل تعظیم بزرگ یحییٰ نے التجا کی مجھے اپنی مریدی اور شاگردی میں قبول فرما لیں
دین کی تبلیغ میرا فرض ہے حسن نے کہا میں تمہیں تمہارے متعلق ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں تم نے کہا تھا کہ تم مرد میدان ہو خدا تمہیں منزل پر لے آیا ہے تم نے لوگوں کو اپنے جیسا تیرانداز اور شہسوار بنانا ہے انہیں کفر کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنا ہے میں علم ہو تو عامل ہو خدا کی نگاہ میں تمہارا رتبہ مجھ سے زیادہ بلند ہے یہاں سے جانے کی نہ سوچنا
یحییٰ ابن الہادی تو چاہتا ہی یہی تھا وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی ذات باری نے اس کا کام بہت ہی آسان کر دیا تھا اور اس کے آگے آگے راستہ صاف ہوتا چلا جا رہا تھا
اس کے ساتھی سنان کی رہائش وغیرہ کا انتظام کہیں اور کیا گیا تھا اس نے سنان کو بلاکر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا کہ اس سے کوئی پوچھے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟
تو وہ کیا جواب دے اور وہ سیدھا سادہ بلکہ بیوقوف سا نوکر بنا رہے جو معمولی سی بات سمجھنے میں بھی بہت وقت لگاتا ہے
کچھ دیر بعد یحییٰ احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا ہوا تھا اسے احمد نے بلایا تھا وہاں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں چاروں نوجوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت وہ بہت ہی شوخ اور چنچل تھیں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھیں یحییٰ کی موجودگی کا انہی جیسے احساس ہی نہیں تھا
یحییٰ احمد بن عطاش یحییٰ سے کہہ رہا تھا تم خوش قسمت ہو کہ اتنے بڑے عالم دین نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں اپنی مریدی میں قبول کر لیا ہے اور تمہیں کہا ہے کہ یہیں رہو اور تیر اندازی اور شہسواری کا ہنر جو تم میں ہے وہ دوسروں کو بھی سکھا دو یہ تو کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے خدا کی یاد میں ڈوبے رہتے ہیں اور خدا سے ہی ہم کلام ہوتے ہیں
ہر حکم بجا لاؤں گا یحییٰ نے کہا ان آدمیوں کو میرے حوالے کر دیں جنہیں میں نے سکھلائی دینا ہے
بسم اللہ ان لڑکیوں سے کرو احمد نے کہا یہ میرے خاندان کی لڑکیاں ہیں یہ جب تیر اندازی میں تم جیسی مہارت حاصل کرلیں گی تو دوسری لڑکیوں کی سکھلائی کریں گی ہماری عورتوں کو تیر انداز ہونا چاہیے پھر انہیں گھوڑ سواری کی مشق کرنی ہے میں تمھاری باقاعدہ تنخواہ مقرر کر دوں گا
میں آج ہی یہ کام شروع کر دوں گا یحییٰ نے کہا مجھے تیراندازی کے لیے ایسی جگہ دکھا دیں جہاں سامنے تیروں کے لئے رکاوٹ ہو ورنہ تیر ہر طرف اڑتے پھریں گے اور راہ جاتے لوگ زخمی ہونگے
احمد بن عطاش کے حکم سے سارے انتظامات کر دیے گئے اور یحییٰ چاروں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گیا وہ کمانیں اور تیروں کا ایک ذخیرہ بھی ساتھ لے گیا تھا یحییٰ نے لڑکیوں کی سکھلائی شروع کردی پہلے دن وہ انہیں کمان کھینچنا اور بازوؤں کو سیدھا رکھنا سکھاتا رہا کمانیں بہت سخت تھیں لڑکیاں کمان کھینچتیں تھیں تو ان کے دونوں بازو کانپتے تھے یحییٰ انہیں بتا رہا تھا کہ بازوؤں کو اپنے قابو میں کس طرح رکھنا ہے کہ ان میں لرزا پیدا نہ ہو
ادھر میدان میں کشتیوں اور دوڑوں وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے احمد بن عطاش اور حسن بن صباح وہاں چلے گئے تھے وہ دونوں بہت خوش تھے کہ انہوں نے اتنے زیادہ لوگ اکٹھا کر لیے تھے وہ کھیل تماشوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے بلکہ وہ اپنے اس منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے کہ اس مخلوق خدا کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا ہے
ان چار لڑکیوں میں جو یحییٰ ابن الہادی سے تیراندازی سیکھنے گئی تھیں داستان گو دو کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہے ایک تھی فرح جو حسن بن صباح کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ گئی تھی دوسری زرّیں تھی جس نے شاہ در کے مرحوم والی ذاکر کو اپنے حسن و جوانی اور بھولے پن کے جال میں پھانسا اور اسے دھوکے سے شربت میں زہر پلا پلا کر ایسی بیماری میں مبتلا کردیا تھا کہ کچھ دنوں بعد ذاکر مر گیا طبیب سر پٹختے رہ گئے کہ ذاکر کی بیماری کیا تھی
ذریں غیرمعمولی طور پر حسین اور نوجوان لڑکی تھی احمد بن عطاش نے اس کی تربیت ایسی کی تھی کہ تجربے کار اور معمر استاد بھی اس کے ہاتھوں میں عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے یحییٰ خاص طور پر خوبرو اور پرکشش جوان تھا اور اس نے تیر اندازی اور گھوڑ سواری کے جو کرتب دکھائے تھے ان سے اس نے لوگوں سے بے ساختہ داد و تحسین حاصل کی تھی اور کچھ دلوں میں اس نے ہلچل برپا کردی تھی اس زمانے میں مرد ایسے ہی اوصاف اور کمالات سے باعزت اور قابل محبت سمجھے جاتے تھے
زرین اپنے استاد سے فریب کاری سیکھی تھی اور یہ مفروضہ اس کا عقیدہ بن گیا تھا کہ عورت کا حسن مردوں کو فریب دینے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے احمد نے اس کے دل سے جذبات نکال دیے تھے وہ دانشمند تھا خوب جانتا تھا کہ عورت ہو یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی جذبات میں الجھ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا
صرف یہ راز اپنے دل میں بند کرلو زرّیں احمد بن عطاش نے اسے کئی بار کہا تھا تم ایک ایسا حسین بلکہ طلسماتی پھندہ ہو جس میں انتہائی زہریلا ناگ بھی آ جائے گا اور جانداروں کو چیر پھاڑ دینے والا درندہ بھی تمہارے پھندے میں آ کر تمہارا غلام ہو جائے گا تم نے اس کے لئے ایسا حسین فریب بنے رہنا ہے کہ وہ تمہاری فریب کاری کو بھی تمہارے حسن کا حصہ سمجھے گا اسے یہ تاثر دیے رکھو کہ تم اس کی محبوبہ ہو اور تم اسے خدا کے بعد کا درجہ دیتی ہو اور پھر عملی طور پر ایسے مظاہرے کرتی رہو جیسے تم اس کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتی اس کے جذبات کے ساتھ کھیلوں اور ناز و انداز کے علاوہ اس کے قدموں میں یوں لوٹ پوٹ ہوتی رہو جیسے تم اس کی زر خرید لونڈی ہو اس طرح اس پر اپنے حسن و جوانی اور فریب کاری کا نشہ طاری کرکے اس کی کھال اتارتی رہو اور اس کا خون چوستی رہو
یہ ایک بنیادی سبق تھا جو احمد لڑکپن کے پہلے دن سے زرین کو دیتا چلا آیا تھا لیکن اس نے اسے یہ سبق وعظ کی صورت میں ہی نہیں دیا تھا بلکہ عملی طور پر بھی اسے سمجھایا تھا اس کے پاس ذرا بڑی عمر کی تین چار عورتیں تھیں جنہوں نے زریں کو اس سبق کے عملی مظاہرے کرکے دکھائے تھے ان عورتوں نے زریں کو بڑا ہی حسین اور روشنی میں رنگارنگ شعاعیں دینے والا پتھر یا ہیرا بنا دیا تھا اسے ایسا ہی ایک خوبصورت ہیرا دکھایا بھی گیا تھا
یہ ہیرا دیکھ رہی ہو زریں اسے ہیرا دکھا کر کہا گیا تھا کیا تم نہیں چاہوں گی کہ یہ ہیرا تمہارے گلے کی یا انگلی کی زینت بنے
کیوں نہیں چاہوں گی زریں نے کہا تھا
اگر تمہیں اس کی قیمت بتائی جائے تو تمہارے ہوش اڑ جائیں اسے کہا گیا تھا ایسے ایک ایک ہیرے پر بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں لیکن اس اتنے دلکش اور قیمتی ہیرے کو تم نگلو تو مر جاؤں گی یہ اس ہیرے کے زہر کا اثر ہوگا تم نے یہ ہیرا بننا ہے تمہیں کوئی جنگجو اور جابر بادشاہ بھی دیکھے تو وہ تمہیں حاصل کرنے کے لئے اپنی بادشاہی کو بھی بازی پر لگا دے لیکن جو تمہیں نگلنے یعنی تمہیں زیر کر کے تم پر قبضہ کرلے وہ زندہ نہ رہے
داستان گو آگے چل کر وہ واقعات سنائے گا جو ثابت کریں گے کہ عورت کتنی بڑی قوت کتنا زبردست جادو کا ایسا طلسم ہے حسن بن صباح کی کامیابی کا جو راز تھا اس راز کا نام عورت ہے حسین عورت جسے چاہے قتل کروا سکتی ہے اور جسے چاہے اسے زندہ لاش بنا سکتی ہے عورت قاتل کو تختہ دار سے بھی اتروا سکتی ہے
زریں کی ذات میں یہ سارا زہر بھر دیا گیا تھا اس نے اپنا پہلا شکار بڑی کامیابی سے مار لیا تھا وہ ذاکر تھا کامیابی صرف یہی نہیں تھی کہ اس قلعہ نما شہر کا والی مر گیا تھا بلکہ زریں نے شاہ در جیسا شہر اپنے استاد احمد بن عطاش کی جھولی میں ڈال دیا پھر یہ احمد کی فریب کاری کا کمال تھا کہ سلجوقی سلطان نے اسے قلعے کا والی مقرر کردیا تھا
زریں اس کامیابی پر بہت خوش تھی وہ اگلے شکار کے انتظار میں تھی لیکن اس نے یحییٰ ابن الھادی کو دیکھا تو اس نے اپنے آپ میں کچھ ایسی ہلچل محسوس کی جسے وہ سمجھ نہ سکی اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ یحییٰ کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھے کہ اسے دیکھ کر اس کے اندر بھونچال کے جو ہلکے ہلکے اور لطیف سے جو جھٹکے محسوس ہوتے ہیں یہ کیا ہیں؟
یحییٰ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ خوش طبع آدمی تھا کسی بات میں تلخی ہوتی تو اس بات میں بھی وہ شگفتگی پیدا کر لیا کرتا تھا چاروں لڑکیاں اس کی اس زندہ مزاجی کو اتنا پسند کرتی تھیں کہ اسے اکساتی تھیں کہ وہ باتیں کرے یحییٰ بھی ان لڑکیوں کو باتوں باتوں میں خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ لڑکیاں تیراندازی میں دلچسپی لیتی رہیں لیکن زریں کی جذباتی حالت کچھ اور ہی تھی کبھی تو وہ کچھ دور بیٹھ کر یحییٰ کو دیکھتی رہتی تھی زریں بھی کچھ طبعاً اور کچھ خصوصی تربیت کے زیر اثر زندہ اور شگفتہ مزاج لڑکی تھی لیکن یحییٰ کو دیکھ کر اس پر سنجیدگی سی طاری ہو جاتی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی
یحییٰ ان لڑکیوں کو تیراندازی اس طرح سیکھاتا تھا کہ کمان لڑکی کے ہاتھ میں دیتا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا سکھانے کا طریقہ بھی یہی تھا وہ اپنا بازو لڑکی کے کندھے سے ذرا اوپر کرکے اس کے ہاتھوں میں کمان کو سیدھا کرتا تھا اس طرح اکثر یوں ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیٹھ اسکے سینے کے ساتھ لگ جاتی تھی باقی لڑکیوں کی توجہ تیراندازی میں ہوتی تھی وہ شاید محسوس بھی نہیں کرتی تھی کہ اس کا جسم ایک جوان آدمی کے ساتھ لگ رہا ہے لیکن زریں کا معاملہ کچھ اور تھا وہ دانستہ اپنی پیٹھ یحییٰ کے ساتھ لگا لیتی تھی اور پھر اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ دیر یحییٰ کے ساتھ اسی حالت میں رہے
شاید یحییٰ بھی زریں کے ان جذبات کو سمجھنے لگا تھا
شام گہری ہو چکی تھی یحییٰ سونے کی تیاری کررہا تھا اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی یحییٰ نے دروازہ کھولا باہر زریں کھڑی تھی جو دروازہ کھلتے ہی فوراً اندر آ گئی یحییٰ اسے یوں اندر آتے دیکھ کر ذرا سا بھی حیران یا پریشان نہ ہوا وہ جانتا تھا کہ یہ والی شہر کے خاندان کی لڑکی ہے، اسے اور دوسری لڑکیوں کو بھی وہ آزادی سے گھومتے پھرتے دیکھا کرتا تھا
میں یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہتی ہوں زریں نے کہا تم برا تو نہ جانو گے
برا کیوں جانوں گا زریں یحییٰ نے کہا نیت بری نہ ہو تو برا جاننے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی یحییٰ نے زریں کو غور سے دیکھا اور بولا تم کچھ بجھی بجھی سی اور اکھڑی سی لگ رہی ہو تم تو ان سب لڑکیوں سے زیادہ ہنس مکھ ہو
میرے پاس بیٹھ جاؤ زرین نے سنجیدہ اور متین سے لہجے میں کہا یہاں میرے قریب بیٹھو
یحییٰ اس کے قریب بیٹھ گیا زریں نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا یحییٰ بھی آخر جوان آدمی تھا اور اسے خدا نے ایسی عقل اور نظر دی تھی کہ وہ پردوں کے پیچھے کی بات بھی سمجھ جایا کرتا تھا
تم ٹھیک کہتے ہو یحییٰ زریں نے یحییٰ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے کہا میرے دل کی جو کیفیت ہے وہ میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے میں اتنی سنجیدہ کبھی بھی نہیں ہوئی تھی میں تو سمجھتی تھی کہ میں دنیا میں ہنسنے کھیلنے کے لئے ہی آئی ہوں لیکن تم میرے سامنے آئے ہو تو میں نے اپنے اندر ایسا انقلاب محسوس کیا ہے کہ میرے لئے اپنے آپ کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے بار بار یہی جی میں آتا ہے کہ تمہارے پاس آ بیٹھو اور تمہاری باتیں سنو کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم جب میرے ہاتھ میں کمان دیتے ہو اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر کمان میں تیر سیدھا رکھنے کو کہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ لگ جاتی ہوں اور دانستہ کمان کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے کر دیتی ہوں تاکہ تم کچھ دیر اسی طرح میرے ساتھ لگے رہو اور بار بار میرے ہاتھ پکڑ کر کمان اور تیر سیدھا کرتے رہو
یحییٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی جس ہاتھ میں زریں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اس ہاتھ کو یحییٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا یکلخت یحییٰ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان چاروں لڑکیوں میں یہ لڑکی اسے زیادہ اچھی لگتی تھی اور کبھی کبھی وہ تیر اندازی کی سکھلائی دیتے ہوئے اس لڑکی کو اپنے کچھ زیادہ ہی قریب کر لیا کرتا تھا ،زریں نے جب اپنے جذبات کا اظہار کیا تو یحییٰ نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ زریں نے اپنی نہیں بلکہ اس کے جذبات کی ترجمانی کی ہے
کیا تم میرے ان جذبات کی تسکین کر سکتے ہو زریں نے کہا میں تمہیں صاف بتا دو کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو کیا تم میری محبت کو قبول کرو گے؟
سوچ لو زریں یحییٰ نے کہا تم شہزادی ہو اور میں ایک مسافر ہوں جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی منزل کیا ہے، کہاں ہے؟
ہوسکتا ہے ہماری محبت کوئی قربانی مانگ بیٹھے جو تم نہ دے سکو میں تو اپنی جان بھی دے دوں گا
وہ تم دیکھ لوگے زریں نے کہا کوئی ایسا خطرہ ہوا تو جہاں کہو گے تمہارے ساتھ چل پڑوں گی میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں زریں یحییٰ نے کہا تمہیں دیکھ کر میرے اندر بھی ایسے ہی جذبات امنڈے ہوئے تھے لیکن میں خاموش رہا میرے دل کی بات تم نے کہہ دی ہے صرف ایک بات کا خیال رکھنا کے اس محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ نہ ہو یہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔۔۔ زریں نے کہا میں نے کہا ہے کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، میں یہاں آتی رہا کرو گی اور میں تمہارا انتظار کیا کروں گا یحییٰ نے کہا…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:10 }
اس رات کے بعد یحییٰ اور زریں بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے وجود میں تحلیل ہوتے چلے گئے
تیراندازی تیغ زنی وغیرہ کے مقابلوں کا جو میلہ لگا تھا وہ ختم ہو چکا تھا جیتنے والے انعام و اکرام لے کر چلے گئے تھے خیموں کی بستی اجڑ گئی تھی
یحییٰ ان چاروں لڑکیوں کو تیر اندازی کی مشق کروا رہا تھا لڑکیوں کے تیر ٹھکانے پر لگتے تھے
یحییٰ اور زریں کے دلوں میں جو تیر اتر گئے تھے ان سے ابھی دوسرے ناواقف تھے زریں کوئی پردہ دار لڑکی تو نہ تھی کہ اس کے باہر نکلنے پر پابندی ہوتی وہ ہر رات یحییٰ کے کمرے میں پہنچ جاتی اور دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو کر بیٹھے رہتے اور دلوں کی باتیں کرتے رہتے تھے
یحییٰ کی جذباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ وہ جب لڑکیوں کو تیر اندازی کے لئے باہر لے جاتا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ زریں میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہا ہے
وہ جو کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپے نہیں رہ سکتے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں زریں کے ساتھی لڑکیاں بھانپ گئیں کہ یہ معاملہ کچھ اور ہی ہے انہوں نے احمد بن عطاش کو بتایا احمد بن عطاش کچھ پریشان سا ہو گیا احمد کو معلوم نہیں تھا کہ یحییٰ نے یہ راز چھپا کر نہیں رکھا جس وقت لڑکیاں احمد بن عطاش کو یہ بتا رہی تھی بالکل اسی وقت یہ حسن بن صباح کے پاس بیٹھا اسے اپنے دل کی یہی بات بتا رہا تھا
یحییٰ حسن بن صباح سے متاثر ہی نہیں تھا بلکہ مرعوب تھا اس مرعوبیت میں ڈر اور خوف نہیں تھا بلکہ احترام اور تقدس کا تاثر تھا جو اس پر طاری ہو جایا کرتا تھا یہ مرعوبیت ایسی تھی جیسے حسن بن صباح نے اس کو ہپناٹائز کر رکھا ہو حسن اس کے ساتھ دینی امور پر باتیں کرتا تھا ان باتوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حسن راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اس کا درجہ نبیوں سے ذرا سا ہی کم ہے
پیر و مرشد یحییٰ نے ایک روز اس کے سامنے بیٹھے ہوئے کہا وادی شاہ در کے خاندان کی ایک لڑکی زریں اسے دل و جان سے چاہتی ہے اور اس کے اپنے دل میں بھی اس لڑکی کی محبت پیدا ہو گئی ہے اور ہم دونوں تنہائی میں بیٹھ کر پیار و محبت کی باتیں کیا کرتی ہیں کیا میں بددیانتی اور دھوکہ دہی کا ارتقاب تو نہیں کر رہا؟
نہیں حسن بن صباح نے کہا اگر اس محبت کا تعلق جسموں کے بجائے روحوں کے ساتھ ہے تو یہ گناہ نہیں
یہ ہماری روحوں کا معاملہ ہے پیر و مرشد یحییٰ نے کہا
پھر یہ ٹھیک ہے حسن بن صباح نے کہا
ادھر احمد بن عطاش نے زریں کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ یحییٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور ان کی ملاقاتیں کس قسم کی ہیں
یہ شخص مجھے اچھا لگتا ہے زریں نے کہا اور میرا اس کے ساتھ جو تعلق ہے وہ مرد و عورت والا تعلق نہیں
میری بات غور سے سنو احمد بن عطاش نے کہا میں سمجھ گیا ہوں میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس محبت کو گناہ کہا کرتے ہیں جو فرائض سے ہٹادے
میں فرائض سے نہیں ہٹی زریں نے کہا جہاں آپ مجھ میں یہ خامی دیکھیں کہ میں اپنا کوئی ایک بھی فرض بھول گئی ہوں تو مجھے جو سزا چاہیں دے دیں
تم نے شاید سزا کا نام رسمی طور پر لیا ہے احمد بن عطاش نے قدرے با رعب آواز میں کہا لیکن تمہیں بھول نہیں چاہئے کہ یہ سزا کیا ہوگی
میں جانتی ہوں زریں نے کہا مجھے قتل کر دیا جائے گا
قتل نہیں کیا جائے گا احمد بن عطاش نے کہا تمہیں قید خانے میں ان قیدیوں میں پھینک دیا جائے گا جو کئی کئی سالوں سے وہاں بند ہیں اور وہ سب وحشی آدمی ہیں پھر تمہیں اس کال کوٹھری میں بند رکھا جائے گا جہاں زہریلے کیڑے مکوڑے رہتے ہیں یہ مت بھولنا کے تم نے دوسروں کو پھانسنا ہے خود پھنس کے بیکار نہیں ہو جانا
اسی رات احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا انہیں نقصان یہ نظر آ رہا تھا کہ محبت کے نشے میں ایک قیمتی اور تجربے کار لڑکی ضائع ہوجائے گی حسن بن صباح نے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں بلایا زریں جب اس کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر کچھ اور ہی تاثر تھا
دن گزرتے چلے گئے یحییٰ اور زریں ایک دوسرے میں گم ہو گئے یحییٰ نے ان لڑکیوں کو تیر اندازی میں تاک کر دیا تھا اور اب اسے کہا گیا تھا کہ انہیں شہسوار بنا دے شہر کے لوگ دیکھتے تھے کہ پانچ گھوڑے ہر صبح جنگل کو نکل جاتے ہیں ایک پر یحییٰ اور باقی چار پر لڑکیاں سوار ہوتی تھیں صبح کے گئے ہوئے یہ گھوڑے آدھا دن گزار کر واپس آتے تھے یحییٰ کبھی کبھی زریں کو اپنے ساتھ رکھ کر باقی لڑکیوں سے کہتا کہ وہ دور کا چکر لگا کر آئیں لڑکیاں یہ رپورٹ احمد بن عطاش کو دے دیا کرتی تھیں
ادھر مرو میں سلطان ملک شاہ اور اس کا کوتوال ہر روز انتظار کرتے تھے کہ یحییٰ کی طرف سے کوئی پیغام آئے گا لیکن ہر روز انہیں مایوسی ہوتی تھی یحییٰ کے ذہن سے نکل ہی گیا تھا کہ وہ شاہ در کیوں آیا تھا اور اسے ایک روز واپس بھی جانا ہے وہ اپنے ساتھی سنان سے ہر روز ملتا اور اسے کہتا تھا کہ ان لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ کیا ہیں دو چار دنوں بعد کچھ پتہ چل جائے گا
زریں کے اظہار محبت میں اچانک دیوانگی پیدا ہوگئی اس نے یحییٰ کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس میں اب انتظار کی تاب نہیں رہی اور یحییٰ اسے اپنے ساتھ لے چلے یحییٰ نے اسے ابھی تک نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا تھا
زریں نے اس سے کئی بار پوچھا اور یحییٰ نے ہر بار اسے جذبات میں الجھا کر ٹال دیا تھا
ایک رات زریں اس کے کمرے میں آئی تو اس نے اپنی چادر میں چھپائی ہوئی چھوٹی سی صراحی نکالی
میں آج تمہارے لیے ایک خاص شربت لائی ہوں زریں نے صراحی یحییٰ کے ہاتھ میں دے کر کہا یہ احمد بن عطاش خود پیا کرتا ہے اور صرف یہ بزرگ عالم ہے جسے کبھی کبھی پلاتا ہے میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ اس میں شہد ملا ہوا ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس میں ایسے پھولوں کا رس ڈالا گیا ہے جو کسی دوسرے ملک میں ہوتے ہیں احمد کی بیویاں کہتی ہیں کہ اس نے اس شربت کا مشکیزہ بہت سے سونے کے عوض منگوایا ہے سنا ہے یہ شربت پینے والا دو سو سال زندہ رہے تو بھی بوڑھا نہیں ہوتا میں چُرا کے لائی ہوں پی کے دیکھو
یحییٰ نے صراحی ہی منہ سے لگا لی اور پھر آہستہ آہستہ اس نے سارا شربت پی لیا اس دوران زریں اس کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں ایسے والہانہ انداز سے کرتی رہی جیسے وہ نشے میں ہو زریں طلسم کی مانند یحییٰ پر طاری رہتی ہی تھی لیکن اس رات یحییٰ کی جزباتی حالت کچھ اور ہی ہو گئی وہ یوں محسوس کرنے لگا جیسے اسے دنیا بھر کی حاکمیت مل گئی ہو
آخر ہمارا انجام کیا ہوگا یہی؟
زریں نے کہا کیا تم میرے ساتھ یوں ہی محبت کا کھیل کھیلتے رہو گے تم تو اتنا بھی نہیں بتاتے کہ تم ہو کہاں کے میں کہتی ہوں کہ جہاں کہیں کے بھی ہو یہاں سے نکلو اور مجھے اپنے ساتھ لے چلو آج کی رات یہاں کی آخری رات ہونی چاہیے میں تیار ہوں مردانہ لباس پہن لونگی
یحییٰ نے قہقہہ لگاکر زریں کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اس نے اس طرح کا قہقہہ پہلے کبھی نہیں لگایا تھا زریں نے مچل مچل کر اسے کہنا شروع کر دیا کہ وہ اسے اپنے متعلق کچھ بتائیے
سن زریں یحییٰ نے شگفتہ سی سنجیدگی سے کہا یہ بھی سن لے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں اب مجھے تم پر اعتبار آ گیا ہے میں یہاں ایک فرض ادا کرنے آیا تھا وہ ابھی ادا نہیں ہوا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے
پھر مجھے بتاتے کیوں نہیں زریں نے بڑی پیاری سی جھنجلاہٹ سے کہا میں کئی بار کہہ چکی ہوں کہ تمہاری محبت پر میں اپنی جان بھی قربان کر دوں گی
میں مرو سے آیا ہوں یحییٰ نے اپنے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا میں سلجوقی سلطان ملک شاہ کا جاسوس ہوں وہاں یہ شک پایا جاتا ہے کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے اور یہاں شاہ در میں اہل سنت کے خلاف اسماعیلی مرکز بن گیا ہے میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کے اس شک میں حقیقت کتنی ہے یا کچھ حقیقت ہے بھی یا نہیں
کچھ پتہ چلا؟
زریں نے پوچھا
میں ابھی شک میں ہوں یحییٰ نے جواب دیا یوں کہہ لو کہ میرا شک ابھی موجود ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہے لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص اہل سنت ہے اس کے ساتھ جو عالم ہے اس نے دینی مسائل کے مجھے بہت سبق دیے ہیں اس میں مجھے اسماعیلیوں والی کوئی بات نظر نہیں آئی لیکن میں نے ان دونوں کو کبھی نماز پڑھتے بھی نہیں دیکھا میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس شہر میں اسماعیلیوں کی اکثریت ہے
تمہارا یہ ساتھی سنان بھی جاسوس ہی ہوگا؟
زریں نے پوچھا
ہاں یحییٰ نے کہا اسے میں نے دو تین دنوں بعد یہ بتا کر واپس بھیجنا ہے کہ میں نے اب تک یہاں کیا دیکھا ہے
یحییٰ زریں نے یحییٰ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالےمیں لے کر جذباتی لہجے میں کہا میری ایک بات مان لو مرو واپس نہ جاؤ یہاں بھی نہ رہو چلو آگے ایران چلے چلتے ہیں تم جہاں جاؤ گے تمہیں وہاں کے حاکم ہاتھوں ہاتھ لے گے تم جیسا تیر انداز اور شہسوار کہاں ملتا ہے مذہب اور فرقوں کے چکر سے نکلو
میں تمہیں ایک بات صاف بتا دیتا ہوں زریں یحییٰ نے کہا میرے دل میں تمہاری جو محبت ہے اس میں کوئی دھوکا یا بناوٹ نہیں تم میری پہلی اور آخری محبت ہو لیکن میں اپنے فرض کو محبت پر قربان نہیں کروں گا
اگر میں تمہارے سامنے کسی اور آدمی کے ساتھ چل پڑوں تو زریں نے کہا
تو میں نظریں پھیر لونگا یحییٰ نے کہا اپنے فرض سے نظر نہیں ہٹاؤں گا سلجوقیوں نے ہزارہا جانے قربان کرکے اور خون کے چڑھاوے چڑھا کر یہ سلطنت بنائی ہے اسے وہ سلجوقی سلطنت نہیں اسلامی سلطنت کہتے ہیں اسلام میں کوئی فرقہ نہیں جو مسلمان یہ کہتا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی امت سے ہے وہ اگر سنت سے منحرف ہے تو وہ رسول اللہﷺ کا امتی نہیں وہ کچھ اور ہے سلجوقی سلاطین اہلسنت والجماعت ہیں اس لئے وہ اللہ کے سچے دین کے پاسبان ہیں میں رسول اللہﷺ کا غلام اور سلجوقی سلطان کا نمک حلال ملازم ہوں یہ میرا ایمان ہے اگر تم اس دعوے میں سچی ہو کہ میری محبت تمہارے روح میں اتری ہوئی ہے تو میرے فرض کی ادائیگی میں میری مدد کرو مجھے ان لوگوں کی اصلیت بتاؤ
کل زریں کھڑی ہوئی اور یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی کل اسی وقت تمہیں راز معلوم ہوجائے گا اور تم اپنے فرض سے فارغ ہو جاؤ گے
یحییٰ پر فاتحانہ کیفیت طاری تھی وہ بہت خوش تھا کہ کل اس کا کام ختم ہو جائے گا وہ یہاں سے ایک قیمتی راز اور ایک حسین لڑکی کو ساتھ لے کر رخصت ہوگا
زریں اپنے کمرے میں گئی تو پلنگ پر اوندھے منہ گر کر ایسے روئی کے اس کی ہچکی بندھ گئی
یہ لڑکی ایک حسینہ اور دھوکہ تھی لیکن یحییٰ کے ساتھ اس کی محبت دھوکا نہیں تھی اس کی محبت کا سرچشمہ اس کی روح تھی وہ روحانی محبت کے نشے سے سرشار ہو گئی تھی مگر محبت ایسے بھنور میں آ گئی تھی جس سے اس کا سلامت نکل آنا ممکن نظر نہیں آتا تھا
لڑکیوں نے احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتا دیا کہ زریں یحییٰ کے ساتھ عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی ہے احمد اور حسن نے اس اطلاع سے یہ رائے قائم کی کہ زریں کے اندر انسانی جذبات ابھی زندہ ہیں اور اس کی ذات میں ابھی وہ عورت زندہ ہے جو مرد کی محبت کی پیاسی ہوتی ہے
دوسری بات یہ کہ زریں ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی جو ابھی مشکوک تھا حسن بن صباح عالم دین کے بہروپ میں یحییٰ کو ہر روز اپنے پاس بیٹھا تھا اور اسے دینی امور سمجھاتا تھا لیکن اس سے بات کروا کے یہ جاننے کی کوشش کرتا تھا کہ یہ شخص ہے کون؟
سلجوقیوں کا ہی آدمی تو نہیں حسن کچھ جان تو نہ سکا تھا لیکن اس نے وثوق سے کہہ دیا تھا کہ یہ شخص مشکوک ہے
اب حسن بن صباح کو پتہ چلا کہ زریں یحییٰ کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے تو اس نے زریں کو اپنے پاس بلایا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ذہن پر قابض ہوگیا لڑکی کی جو تربیت آٹھ دس سال عمر سے شروع ہوئی اور جوانی میں بھی جاری تھی وہ ابھر آئی اور زریں کی عقل پر غالب آ گئی
تم اس سے اگلوالو گی وہ کون ہے یہاں کیوں آیا ہے؟
حسن بن صباح نے کہا
ہاں میں اس سے اگلواؤں گی وہ کون ہے یہاں کیوں آیا ہے زریں نے یوں کہا جیسے اس پر غنودگی طاری ہو
وہ شربت تمہارے ساتھ ہوں
وہ شربت میرے ساتھ ہوگا
اس شربت میں جو زریں صراحی میں لے کر یحییٰ کے پاس گئی تھی اس میں شہد تو ضرور ملا ہوا تھا لیکن اس میں کسی پھول کا رس نہیں تھا اس میں حشیش ڈالی گئی تھی اور اس میں ایک خوشبو ملائی گئی تھی یہ شربت پینے کے بعد یحییٰ نے جو قہقہہ لگایا تھا وہ حشیش کے زیر اثر تھا جسے وہ زریں کے حسن و شباب اور محبت کے والہانہ اظہار محبت کا خمار سمجھتا رہا اس نشے نے اس کے سینے سے راز نکال کر زریں کے آگے رکھ دیا
یحییٰ کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ اسے یہ یاد رہا کہ وہ رسول اللہﷺ کی امت سے ہے اور اہل سنت ہے اور اسے یہ بھی یاد رہا کہ اس کا فرض کیا ہے اور یہ جذبہ ایثار بھی زندہ رہا کہ وہ محبت کو فرض پر قربان کر دے گا لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکا کے اس نے زریں کو اس کا فرض یاد دلادیا ہے وہ یہ عزم لے کر یحییٰ کے کمرے سے نکلی تھی کہ یہ شخص فرض کا اتنا پکا ہے تو میں اپنے فرضوں کو کیوں قربان کرو؟
زریں رات بہت دیر تک روتی رہی اس کے اندر خونریز معرکہ بپا تھا یہ اس کی ذات کے وہ حصے تھے جو ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے محبت اور فرض اور اس کی تربیت
صبح طلوع ہوتے ہی زریں نے پہلا کام یہ کیا کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کو بتایا کہ یحییٰ ابن الہادی جاسوسی کے لئے یہاں آیا ہے اور سنان اس کا ساتھی ہے زریں نے یحییٰ کے ساری باتیں سنائی یہ بات سناتے ہوئے زریں کی زبان بار بار ہکلاتی تھی اور اس کے آنسو بھی نکل آئے یہ یحییٰ کی محبت کا اثر تھا ورنہ یہ وہ لڑکی تھی جس نے ذاکر کو اپنے ہاتھوں زہر پلایا تھا
زریں کو اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا کچھ دیر بعد ایک ملازم روزمرہ کی طرح یحییٰ کے کمرے میں ناشتہ لے کر گیا ساتھ شہد ملا دودھ تھا سنان کو بھی ایسا ہی دودھ بھیجا گیا دونوں نے دودھ پیا اور کچھ ہی دیر بعد دونوں کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا پھر ان کی آنکھوں نے دنیا کا اجالا کبھی نہ دیکھا
ادھر آؤ زریں کو آ کے دیکھو ایک ملازمہ زریں کے کمرے سے چیختی چلاتی نکلی جلدی آؤ زریں کو دیکھو
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح بھی زریں کے کمرے میں گئے ایک تلوار زریں کے پیٹ میں داخل ہوئی اور پیٹھ سے باہر نکلی ہوئی تھی وہ ابھی زندہ تھی
تمہیں کس نے مارا ہے زریں؟
احمد بن عطاش نے پوچھا
میں نے خود زریں نے کہا میں نے دو آدمی قتل کروائے ہیں یحییٰ اور سنان اور میں نے اپنی محبت کو بھی قتل کیا ہے میں نے اپنے آپ کو موت کی سزا دی ہے میں خود ہی جلاد بن گئی تھی
زریں بھی مر گئی
یحییٰ اور سنان کی لاشیں بوریوں میں بند کر کے دریا میں بہا دی گئی
ہمیں کوئی اور ڈھنگ کھیلنا پڑے گا حسن بن صباح نے کہا سلطان کو شک ہو گیا ہے مجھے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مصر جانا چاہیے
نہیں حسن احمد بن عطاش نے کہا پہلے ہم دو تین اور قلعوں پر قبضہ کرلیں پھر ہماری کوشش یہ ہوگی کہ تمہیں سلطان کی حکومت میں کوئی بڑا عہدہ اور رتبہ مل جائے پھر ہم اس سلطنت کی بنیادیں کمزور کر سکتے ہیں…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:11 }
رات کو جب ہزارہا لوگ شاہ بلوط سے دور ستارے کی چمک کے انتظار میں گھروں سے دور بیٹھے تھے اس وقت دو جواں سال آدمی یہودیوں کے مذہبی پیشوا کے گھر اس کی اور پادری کی باتیں سن رہے تھے ان دونوں نے بھی شاہ بلوط ستارے کو چمکتے دیکھا تھا اور وہ بھی قائل ہوگئے تھے کہ یہ آسمان کا ستارہ ہے جو شاہ بلوط کے اس پرانے درخت کی گھنی شاخوں میں اتر آیا ہے
آسمان کے ستارے زمین پر نہیں اترا کرتے ربی نے ان دونوں سے کہا اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا اپنا جلوہ دکھا رہا ہے تو یہ سوچو کہ وہ کسے دکھا رہا ہے کیا حضرت موسی علیہ السلام دنیا میں آگئے ہیں یا حضرت عیسی علیہ السلام پھر زمین پر اتر آئے ہیں؟
نہیں بارہا اپنا جلوہ دکھانے کی خدا کو کیا ضرورت پیش آگئی ہے کیا یہاں کے انسانوں نے خدا کو رد کر کے کسی اور کی عبادت شروع کردی ہے کوئی مسلمان ہے یا عیسائی یا کو یہودی ہے یہ سب اپنے اپنے طور طریقے سے خدا کو یاد کر رہی ہیں میری بات غور سے سنو میرے بچو جس پہاڑی پر یہ درخت اور اس کے پیچھے کی روشنی کاانتظام نہیں تو یہ کوئی شعبدہ بازی ہے تم نے چھپ چھپ کر وہاں پہنچنا ہے اور دیکھنا ہے اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نظر آئے اور پتہ چل جائے کہ یہ کیا راز ہے تو تم نے وہاں کوئی کاروائی نہیں کرنی خاموشی سے واپس آ جانا ہے
یہ ہمارا ذاتی کام نہیں پادری نے کہا یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے یہ کوئی نیا فرقہ اٹھ رہا ہے جس سے لوگ بڑی تیزی سے متاثر ہوئے جا رہے ہیں اگر لوگوں کی عقیدت مندی کا یہی حال رہا تو یہ عیسائیت اور یہودیت کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو گا اگر یہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ ہے تو ہم اسے مزید ہوا دیں گے یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ ہمیں صحیح خبر لا دو
ہم کل سورج غروب سے کچھ پہلے روانہ ہو جائیں گے یہودی جوان نے کہا
جگہ دور ہے عیسائی جوان بولا ہم سیدھے تو جا نہیں سکتے سیدھے جائیں تو ہمارے لیے یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں ہمیں پیدل جانا پڑے گا گھوڑوں پر جائیں گے تو گھوڑوں کو چھپائیں گے کیسے اور گھوڑا کہیں بھی ہنہنا کر اپنی نشاندہی کر دے گا
میں ایک بار صاف کر دوں یہودی جوان نے کہا میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ یہ کام ایک ہی رات میں ہوجائے گا ہوسکتا ہے دو یا تین راتیں ہم واپس ہی نہ آ سکیں
ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ربی نے کہا تم نے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے اور پوری کوشش کرنی ہے کہ زندہ واپس آ جاؤ تاکہ ہمیں صحیح صورت حال معلوم ہو جائے اور ہم اس کا کوئی سدباب کر سکتے ہیں
آپ کو یہ وہم نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کو دھوکا دیں گے یہودی جوان نے کہا ہم آپ کا مقصد سمجھ گئے ہیں
اب تم دونوں چلے جاؤ ربی نے کہا پانی کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کھانے کے لیے کھجوریں ساتھ لے جاؤ
باہر آکر ان دو نوجوانوں نے آپس میں طے کر لیا کہ وہ کہاں ملیں گے یہودی جوان اپنے گھر سیدھا جانے کی بجائے ایک اور طرف سے گیا ایک گھر کے سامنے بچے کھیل رہے تھے ایک بچے سے اس نے پوچھا کی اس کی بہن میرا کہاں ہے؟
بچے نے اسے بتایا کہ تھوڑی دیر ہوئی وہ بکریوں کو لے کر نکلی ہے
یہودی اپنے گھر جانے کی بجائے اس طرف چلا گیا جس طرف میرا گئی تھی گاؤں سے کچھ دور بڑی اچھی چراہگاہ تھی جہاں چھوٹی گھاس بھی تھی اور اونچی بھی یہ دونوں اسی جگہ ملا کرتے تھے وہاں سے چھوٹی سی ایک ندی گزرتی تھی ندّی کے کنارے گھنی جھاڑیاں تھیں اور خودرو بیلیں درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں یہودی ادھر جا رہا تھا کہ میرا نے اسے دیکھ لیا اور وہ اس کی طرف دوڑ پڑی یہودی جوان نے بھی اپنے قدم تیز کرلئے اور دونوں اس طرح ملے جیسے بے خیالی میں ان کی ٹکر ہو گئی ہو دونوں نے ایک دوسرے کو بازؤں میں سمیٹ لیا انہیں ایسی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی انہیں دیکھ رہا ہوگا سب جانتے تھے کہ یہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور ان کی شادی ہوجائے گی وہ اس لئے بھی بے حجاب ہیں کہ یہودی تھے کسی کو بے حیا کہنے کی بجائے یہودی کہہ دینا ہی کافی ہوتا تھا یہودی کی تمام تر تاریخ فتنہ و فساد فریب کاری اور عیاری کی تاریخ ہے اور یہودی نے ہمیشہ اسلام کو اپنا ہدف اور مسلمانوں کو دشمن نمبر ایک بنائے رکھا ہے آج بھی یہ قوم اسلام کی بیخ کنی میں مصروف ہے
اپنے ان ابلیسی عزائم کی کامیابی کے لئے یہودی اپنی لڑکیوں کو بڑے فخر سے استعمال کیا کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کا شعور بیدار ہوتے ہی انہیں بے حیائی کے سبق دینے لگتے تھے سرعام فحش حرکتیں کرنا اور مردوں کے ساتھ قابل اعتراض اور شرمناک حالت میں دیکھے جانا ان کے یہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اپنی بیٹی بہن یا بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر اعتراض کرنا قابل اعتراض فعل سمجھا جاتا تھا البتہ ایسی نوجوان لڑکی یا عورت کے پیش نظر ذاتی عیاشی نہیں بلکہ قومی مقصد ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا
اس جواں سال یہودی اور ایک نوجوان لڑکی کا یوں ملنا کہ ان کے جسموں کے درمیان سے ہوا بھی نہ گزر سکے قابل اعتراض فعل نہیں تھا وہ دونوں ایک دوسرے کی کمر میں بازو ڈالے ندی تک گئے اور وہاں بیٹھ گئے
میں تمہیں الوداع کہنے آیا ہوں میرا یہودی جوان نے کہا
کیا کہہ رہے ہو اسحاق؟
میرا نے بدک کر اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟
ایک مہم پر اسحاق میں کہا
کیسی مہم ؟
کون سی مہم ؟
میرا نے پوچھا کیا یہ کوئی خطرناک کام ہے
خطرناک ہوسکتا ہے اسحاق نے کہا اور آسان اتنا کہ ہوسکتا ہے میں کل ہی واپس آ جاؤں تم نے وہ ستارہ دیکھا ہے نا جو دور پہاڑی پر چمکتا ہے ہم دونوں نے اکٹھے دو تین بار دیکھا ہے میں دیکھنے جا رہا ہوں یہ کیا ہے؟
میرے ساتھ بنو تغلب کا ایک عیسائی آسر بن جوہل بھی جا رہا ہے
اسحاق نے میرا کو اپنے ربی اور پادری کی ساری باتیں سنائیں اور بتایا کہ یہ راز معلوم کرنا کیوں ضروری ہے
اگر یہ جنات ہوئے میرا نے کہا یا کوئی اور غیر انسانی مخلوق ہوئی تو پھر کیا کرو گے؟
ہم دور سے دیکھ کر واپس آ جائیں گے اسحاق نے کہا ہم نے ان پر حملہ تو نہیں کرنا صرف دیکھنا ہے کہ وہاں ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی خدائی اشارہ ہے
میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی میرا نے کہا میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوگی
جذباتی نہ ہو میرا اسحاق نے کہا وہاں تمہارا کوئی کام نہیں میں دو تین دنوں میں واپس آ جاؤں گا
مجھے ساتھ نہیں لے جانا تو تم بھی نہ جاؤ میرا نے روتے ہوئے کہا میں جذبات کی بات نہیں کر رہی میرا دل خوف کی گرفت میں آ گیا ہے اس نے اسحاق کے گلے میں باہیں ڈال کر روندھی ہوئی آواز میں کہا نہ جاؤ اسحاق جانا ہے تو مجھے بھی ساتھ لے چلو
اسحاق کو اس نے اتنا مجبور کردیا کہ اسحاق نے اسے کہا کہ وہ ربی کے پاس جائے اگر ربی اجازت دے دے تو وہ اسے ساتھ لے جائے گا یہ لڑکی اسحاق کو اس قدر چاہتی تھی کہ اسی وقت ربی کے گھر کی طرف دوڑی اور اسے بھی جاکر کہا کہ وہ اسحاق کے ساتھ جانا چاہتی ہے
اسحاق اپنے فرض کے لئے جا رہا ہے ربی نے کہا اور تم محبت کے لئے جا رہی ہو فرض آدمی کو آگے ہی آگے دھکیلتا ہے لیکن محبت پاؤں کی زنجیر بن جایا کرتی ہے نہیں میرا تم ان لڑکوں کے ساتھ نہ جاؤ یہ دو تین دنوں تک واپس آ جائیں گے
مجھے معلوم ہے وہ کیوں جا رہے ہیں میرا نے کہا وہاں انہیں میری ضرورت ہو گی اسحاق نے مجھے بتا دیا ہے کہ وہ مہم کیا ہے جس پر وہ جا رہے ہیں
نادان لڑکی ربی نے کہا یہ کام آدمی کرسکتے ہیں یہ کسی عورت کے کرنے کا کام نہیں
لڑکی ہنس پڑی ربی اور زیادہ سنجیدہ ہو گیا
جو کام میں کرسکتی ہوں وہ اسحاق اور آسر نہیں کرسکتے میرا نے کہا دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی ہم جیسے انسان ہیں یا یہ کوئی مافوق الفطرت مظاہرہ ہے ہمارے دو آدمی آگے گئے تو وہ مارے بھی جا سکتے ہیں اگر میں آگے چلی گئی تو وہاں اگر انسان ہوئے تو ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی کو دیکھ کر اس طرح دوڑے آئیں گے جس طرح پرندہ دانے کو دیکھ کر جال میں آتا ہے
وہ تمہیں پکڑ لیں گے ربی نے کہا کیا تم نہیں جانتی کہ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟
جانتی ہوں ربی میرا نے کہا کچھ قربانی تو دینی پڑے گی لیکن میں انھیں دھوکہ دے کر وہاں سے نکل آؤں گی میں اس مقصد کو سمجھتی ہوں جس مقصد کے لئے آپ ان دونوں آدمیوں کو بھیج رہے ہیں یہ ہمارا قومی مقصد ہے اور محترم ربی جہاں تک جذبات کا تعلق ہے میں اسحاق کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی اگر اس نے مرنا ہے تو میں بھی اس کے ساتھ مروں گی اگر آپ مجھے نہیں جانے دیں گے تو میں اسحاق کو بھی نہیں جانے دوں گی
ربی کے بوڑھے چہرے کی لکیریں سکڑنے لگی وہ گہری سوچ میں کھو گیا میرا اسے چپ چاپ دیکھتی رہی کچھ دیر بعد ربی نے میرا کی طرف دیکھا
ہاں لڑکی ربی نے کہا اگر تم محبت کی وجہ سے فرض کو ترجیح دیتی ہوں تو اسحاق کے ساتھ چلی جاؤ تم ان کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہو اور تم انہیں ناکام بھی کر سکتی ہوں اگر تم نے عقل سے کام لیا اور ذاتی جذبات کو دبائے رکھا تو تم اس قومی مقصد میں کامیاب لوٹو گی
میرا وہاں سے اٹھ دوڑی اور سیدھی اسحاق تک پہنچی
میرا کے باپ کو پتہ چلا تو وہ ربی کے ہاں دوڑا گیا ربی نے اسے مطمئن کردیا
سورج غروب ہو گیا تھا جب اسحاق آسر اور میرا گاؤں سے نکلے وہ اکٹھے نہیں نکلے تھے انھیں چوری چھپے نکلنا تھا کیوں کہ گاؤں میں مسلمان بھی رہتے تھے جنھیں اس مہم سے بے خبر رکھنا تھا وہ اکیلے اکیلے نکلے تھے اور بہت دور جا کر اکٹھے ہوئے تھے تینوں کے پاس خنجر تھے اسحاق اور آسر کے پاس تلواریں بھی تھی وہ بہت دور کا چکر کاٹ کر جا رہے تھے
وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ اس جگہ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے تھے جہاں سے شاہ بلوط کا درخت نظر آتا تھا جس کم اونچی پہاڑی پر وہ درخت تھا اس کو سیدھے تھوڑے سے وقت میں پہنچ سکتے تھے لیکن انھیں اس پہاڑی کے پیچھے جانا تھا وہ اس ہجوم سے دور ہی دور ہٹتے گئے جو اس انتظار میں وہاں جمع ہو گیا تھا کہ آج رات بھی ستارہ چمکے گا یا وہ سفید پوش آدمی روشنی میں نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے
اسحاق آسر اور میرا اس ندی تک پہنچ گئے جو ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتی تھی وہاں یہ ندی گہری ہوئی تھی اور اس کا بہاؤ تیز بھی تھا کیونکہ یہ پہاڑی ندی تھی وہاں کوئی پل نہیں تھا تینوں ندی میں اتر گئے اور بازو ایک دوسرے میں الجھا لیے پانی یخ تھا اور بہت ہی تیز ان کے پاؤں اٹھنے لگے تینوں نے اپنا ایک ایک بازو ایک دوسرے سے آزاد کرکے تیرنا شروع کردیا پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ اگلے کنارے کی بجائے پانی انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا تھا اور پانی یہ اتنا یخ کہ انکے جسم اکڑنے لگے ندی بہت چوڑی تو نہیں تھی لیکن یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ میلوں چوڑی ہو گئی ہو
وہ آگے جانے کی بجائے خاصا پیچھے کنارے پر لگے تینوں نے کپڑے اتار دئے اور انھیں نچوڑا رات کی یخ ہوا نے ان کے جسموں کو لکڑیوں کی طرح اکڑا دیا میرا کو ایسا کوئی خیال نہ آیا کہ وہ دو جواں سال آدمیوں کے سامنے برہنہ ہو گئی ہے تینوں نے نچوڑے ہوئے کپڑے پہنے اور اسحاق کے کہنے پر تینوں نے ناچنا کودنا شروع کردیا تاکہ جسم گرم ہو جائیں میرا آخر عورت تھی قدرتی طور پر اس کا جسم مردوں جیسا سخت جان نہیں تھا اس لیے اس نے محسوس کیا کہ وہ چل نہیں سکے گی اسحاق اور آسر نے اسے اپنے درمیان کھڑا کرکے ٹخنوں سے کندھوں تک اس کے جسم کو دبانہ اور ملنا شروع کر دیا اور اس طرح کچھ دیر بعد وہ چلنے کے قابل ہوگئی
وہ تینوں ندی کے ساتھ ساتھ چلتے گئے وہ پہاڑیاں قریب آگئی تھیں جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا لیکن یہ اس پہاڑی کا ایک سرا تھا شاہ بلوط کا درخت اس کے دوسرے سرے پر تھا جو سرا ان تینوں کے قریب تھا وہاں یہ پہاڑی ختم ہو جاتی تھی پھر وہاں سے ذرا پیچھے ہٹ کر ایک اور پہاڑی شروع ہوتی تھی ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سے یہ تینوں شاہ بلوط والی پہاڑی کے پیچھے جا سکتے تھے
وہ چلتے گئے چونکہ ان کی رفتار تیز تھی اس لئے انکے جسم گرم ہو گئے اور اکڑن ختم ہو گئ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ پہاڑی کے پیچھے جانا ہے لیکن اس علاقے میں وہ پہلے کبھی نہیں آئے تھے ان کا خیال تھا کہ جس طرح دور سے یہ حطہ سرسبز اور خوبصورت نظر آتا ہے اسی طرح سفر کے معاملے میں بھی یہ سہل اور خوبصورت ہو گا لیکن آگے گئے تو انہیں پتہ چلا کہ اس خطے نے اپنے حسن میں کیسے کیسے خطرے چھپا رکھے ہیں وہ جب دونوں پہاڑیوں کے درمیان پہنچے تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ وہ کسی اور ہی دنیا میں جا نکلے ہوں ان کے سامنے تین طرف پہاڑیاں دیواروں کی طرح کھڑی تھیں یہ دیواریں کسی پرانے قلعے کی پتھروں کی دیواروں جیسی تھیں اندھیرے کے باوجود نظر آ رہا تھا کہ ان کے درمیان گدلا پانی جمع ہے ایک طرف اس پانی اور دیوار کے درمیان اتنی جگہ خالی تھی کہ دو تین آدمی پہلو بہ پہلو آرام سے گزر سکتے تھے لیکن کچھ دور آگے پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ راستہ آگے جاتا ہے یا پانی میں ہی کہیں ختم ہوجاتا ہے یہ خوفناک سی جگہ تھی صرف یہی ایک راستہ تھا جو پہاڑی کے پیچھے جاتا تھا پہاڑی کے اوپر سے تو وہ جا ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اوپر جاکر وہ نظر آسکتے تھے
وہ اس راستے پر اس طرح چلے کے میرا ان کے پیچھے تھی ذرا ہی آگے گئے ہونگے کہ انہیں اپنے پیچھے پانی میں ہلچل سی محسوس ہوئی انہوں نے اس طرف دھیان نہ دیا اچانک میرا کی چیخ بلند ہوئی اسحاق اور آسر نے پیچھے دیکھا میرا گر پڑی تھی اور چیخ چلا رہی تھی انہوں نے یہ دیکھ کہ ایک مگر مچھ کا سر اور اگلی ٹانگیں پانی سے باہر ہیں اور میرا کا پاؤں ٹخنے تک مگرمچھ کے منہ میں ہے مگر مچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا
قدرت نے مگرمچھ کے دانت نوکیلے اور ایسے تیکھے نہیں بنائے کہ وہ انسان یا جانور کے گوشت میں اتر جائیں اس کے دانتوں کے نیچے والے سرے گول ہوتے ہیں جو شکار کو صرف پکڑتے ہیں اور اوپر نیچے کے دانت بڑا مضبوط شکن بن جاتے ہیں
اسحاق اور آسر نے صرف ایک بار مگرمچھ دیکھا تھا وہ دونوں اس وقت کم سن لڑکے ہوا کرتے تھے وہ آدمی ان کے گاؤں کے قریب سے گزرتے وہاں رک گئے تھے انہوں نے ایک مرا ہوا مگر مچھ گھوڑے پر ڈال رکھا تھا اسحاق اور آسر نے دیکھا تھا اور ان دونوں آدمیوں نے بتایا بھی تھا کہ مگرمچھ کے سر اور پیٹھ پر نہ برچھی اثر کرتی ہے نہ تلوار وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کا پیٹ اتنا نازک ہوتا ہے کہ ایک خنجر بھی پیٹ میں اتر جاتا ہے اسکا دوسرا نازک حصہ اس کا منہ ھے اگر اس کے کھلے ہوئے منہ کے اندر برچھی ماری جائے تو مگرمچھ مرتا تو نہیں زخمی ہو کر بھاگ جاتا ہے یا اس کی آنکھوں میں برچھی یا تلوار ماری جائے تو بھی یہ بھاگ جاتا ہے
مگرمچھ میرا کو پانی میں گھسیٹ رہا تھا اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اندھیرا تو تھا لیکن پانی کی چمک میں مگر مچھ کا ہیولا نظر آرہا تھا اسحاق نے مگرمچھ کی آنکھ کا اندازہ کر کے تلوار کا زوردار وار کیا آسر نے یہ دلیری کر دیکھائی کہ پانی میں اتر گیا جو اس کے گھٹنوں تک گہرا تھا آسر نے مگرمچھ کے قریب جا کر نیچے سے تلوار برچھی کی طرح مگرمچھ کے پیٹ میں اتار دی
یہ دونوں وار ایسے ٹھکانے پر پڑے کہ مگرمچھ کے منہ سے بڑی خوفناک آواز نکلی اور وہ میرا کا پاؤں چھوڑ کر تڑپتا پھڑپھڑاتا ہوا پانی میں ڈبکی لگا گیا میرا بڑی تیزی سے اٹھی اسحاق اور آسر نے اسے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور دوڑ پڑے آگے انھیں راستہ ملتا گیا پانی میں بڑی زور سے ہلچل ہو رہی تھی یہ یقیناً زخمی مگرمچھ تھا جو تڑپ رہا تھا اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مگرمچھ بھی ڈر کر ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے
یہ راستہ کچھ دور تک چلا گیا پانی پیچھے رہ گیا تھا پانی سے کچھ دور جا کر وہ روکے اور میرا کے پاؤں کا جائزہ لینے لگے جس جگہ مگرمچھ نے اس کا ٹخنہ پکڑا تھا وہاں ہاتھ پھیرا تو صاف پتہ چلتا تھا کہ خون بہ رہا ہے اگر مگرمچھ کے دانت درندوں کی طرح نوکیلے ہوتے تو میرا کی ہڈی بھی کٹ جاتی اور اس کا پاؤں مگرمچھ کے ساتھ ہی چلا جاتا چونکہ اس لڑکی کا پاؤں مگرمچھ کے جبڑوں کے شکنجے میں آیا تھا اور لڑکی زور لگا کر اپنا پاؤں کھینچتی رہی تھی اور مگرمچھ اسے پانی میں کھینچ رہا تھا اس لیے لڑکی کے ٹخنے سے تھوڑی سی کھال اتر گئی تھی اور ہڈی پر اچھی خاصی ضرب لگی تھی
اسحاق نے اپنے سر پر ڈالا ہوا کپڑا اتارا اور کس کر میرا کے ٹخنے پر باندھ دیا میرا کے لئے درد نا قابل برداشت ہو رہا تھا وہ چلنے میں دشواری محسوس کررہی تھی
میری ایک بات غور سے سنو میرا نے کہا یہ اچھا شگون نہیں میرا دل کہتا ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو
ربی اور فادر ہمیں بزدل کہیں گے آسر نے کہا وہ کہیں گے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں بہتر تو یہ ہے کہ تم یہیں کہیں چھپ کر بیٹھ جاؤ اور ہم اپنا کام کر کے واپس آ جائیں اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے
نہیں میرا نے خوف زدہ آواز میں کہا میں یہاں اکیلی نہیں رہوں گی میں کہہ رہی ہوں واپس چلو میں اتنا زیادہ کبھی بھی نہیں ڈری تھی
تمہیں مگر مچھ نے ڈرا دیا ہے اسحاق نے کہا یہ خوف دل سے اتار دو
میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں میرا نے کہا میرے دل پر کوئی خوف نہیں اگر ہم ویسے گھومنے پھرنے آئے ہوتے اور مگرمچھ مجھے یوں پکڑ لیتا تو میں اتنا نہ ڈرتی میں یہ کہہ رہی ہوں کے یہ شگون اچھا نہیں مگر مچھ نے کسی غیبی طاقت کے اشارے پر مجھے پکڑ لیا تھا یہ تمہارے لئے اشارہ ہے کہ یہیں سے واپس چلے چلو ورنہ آگے موت ہے
اسحاق بھائی آس نے کہا وقت ضائع نہ کرو اگر تم اس لڑکی کی باتوں میں آ گئے تو ہم اپنا کام کس طرح کریں گے ربی اور فادر کو کیا جواب دیں گے تم جانتے ہو کہ انہیں ہم دونوں پر کتنا بھروسہ ہے
میری بات سنو میرا اسحاق نے کہا تم نے ربی کے ساتھ جو باتیں کی تھیں وہ نہ بھولو تم نے کہا تھا کہ تم ہماری مدد کروں گی تم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر یہاں کوئی آدمی ہوئے تو تم انہیں اپنے حسن و جوانی کے جال میں لے آؤں گی تمہاری ان باتوں سے متاثر ہوکر ربی نے تمہیں ہمارے ساتھ آنے کی اجازت دی تھی ربی نے تمہیں کہا تھا کہ تم ہمارے پاؤں کی زنجیر بن جاؤں گی تم وہی کام کررہی ہوں جس کا ربی نے خدشہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا ہم تو اب اپنا فرض ادا کر کے ہی جائیں گے
مجھے صاف نظر آرہا ہے اسحاق میرا نے کہا تم یہاں سے زندہ واپس نہیں جاؤ گے
اسحاق اور آسر جھنجلا اٹھے اسحاق نے میرا کا بازو پکڑا اور اسے اٹھا کر کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے
میرا اس کے ساتھ چل پڑی وہ چلنے میں دشواری اور درد محسوس کر رہی تھی اس کی وجہ سے اسحاق اور آسر کی رفتار بھی سست ہو گئی تھی
وہ اب اس پہاڑی کے دامن میں جارہے تھے جس پر شاہ بلوط کا درخت تھا دامن میں وہ اوپر سے کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے اس پہاڑی کے اوپر جو کچھ بھی تھا اسے دیکھنے کے لئے پچھلی پہاڑی پر جانا ضروری تھا ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان کم و بیش ساٹھ قدم فاصلہ تھا نیچے میدان تھا جس میں اونچی گھاس تھی اور درخت بھی تھے پیچھے والی پہاڑی ایسی نہیں تھی کہ اس کی صرف ڈھلوان ہوتی یہ پہاڑی اونچی نیچی چٹانوں کا جرمٹ تھی جن پر چڑھنا ذرا دشوار تھا
تھوڑا اور آگے گئے تو انہیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان روشنی سی نظر آئی جو سامنے والی پہاڑی پر کہیں اوپر تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی نے آگ جلا رکھی ہے وہ جوں جوں آگے بڑھتے گئے روشنی زیادہ ہوتی گئی اور اس کے ساتھ ہی انھیں کسی کی باتوں کی آواز سنائی دینے لگی کچھ آدمی بہت دور باتیں کر رہے تھے
اسحاق اور آسر نے آپس میں مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہیں سے پچھلی پہاڑی پر چڑھ جائیں کیونکہ پیچھے بلندی پر جا کر ہی پتہ چل سکتا تھا کہ یہ آگ کہاں چل رہی ہے اور باتیں کرنے والے کہاں ہیں وہ کچھ اور آگے جا کر پچھلی پہاڑی پر چڑھنے لگے وہ پہاڑی کچھ عجیب سی تھی کہیں ننگی اور سیدھی کھڑی چٹان آ جاتی تھی اور کہیں دوسری پہاڑیوں کی طرح سبزہ زار اور درخت آ جاتے تھے ایسی ایک چٹان پر چڑھتے چڑھتے اسحاق کا پاؤں پھسل گیا اور وہ چٹان سے گر کر نیچے والی چٹان پر جا پڑا، اور وہاں سے لڑکتا ہوا نیچے جا رکا
میرا اس کے پیچھے اترنے لگی لیکن آسر نے اس کا بازو پکڑ لیا یہیں رہو آس نے کہا تم بھی پھسل کر گرو گی وہ تو مرد ہے برداشت کر لے گا تم پہلے ہی زخمی ہو
اسحاق اٹھا اسے چوٹ تو آئی تھی لیکن وہ چوٹ سے بے نیاز پہاڑی پر چڑھنے لگا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا میرا نے ایک بار پھر اپنے اسی وہم کا اظہار کیا کہ یہ دوسرا برا شگون ہے اور یہ کسی آسمانی مخلوق کے اشارے ہیں کہ واپس چلے جاؤ اور ان کے مظاہر میں دخل نہ دو
اسحاق نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو وہ اس طرح پہاڑی کے اوپر اوپر چل پڑا جیسے اس نے آسمانی مخلوق کا چیلنج قبول کر لیا ہے اس کے چلنے کے انداز میں قہر اور عتاب تھا
ادھر پہاڑی سے کچھ دور لوگوں کا ہجوم اس امید پر پہاڑی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ آج پھر شاہ بلوط میں ستارہ چمکے گا یا وہ سفید پوش نظر آئے گا جو ایک بار نظر آچکا ہے تین چار دن نہ ستارہ چمکا تھا نہ سفید پوش نے جلوہ دکھایا تھا یہ خبر اس کے علاقے میں دور دور تک پھیل گئی تھی اس لیے تماشائیوں کا ہجوم بہت ہی زیادہ ہو گیا تھا
اس رات لوگوں کی مراد بر آئی پہلے نقارہ بجا اس کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتے ہوتے رات کی تاریکی میں تحلیل ہو گئی پھر ایک سے زیادہ شہنائیوں کی ایسی لئے ابھری جس میں سحرانگیز سوز تھا ہجوم کا شور و غل ایسے سکوت میں دم توڑ گیا جیسے وہاں کوئی ذی روح کوئی جاندار زندہ ہی نہ ہو زمین و آسمان پر پیڑ پودوں اور پہاڑیوں پر جیسے وجد طاری ہو گیا ہو
لوگوں کو اندھیرے میں شاہ بلوط کیا نظر آتا وہ پہاڑ بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس پر وہ درخت کھڑا تھا لوگ نغمے میں محو تھے کے کی آوازیں اٹھیں وہ چمکا اور اس کے ساتھ ہی لوگوں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا ایک گونج تھی جس میں وجد آفریں تاثر محویت اور تقدس تھا اس کے ساتھ رات کی تاریکی میں ھوا کی لہروں پر شہنائیوں کی تیرتی ہوئی لئے ایسا سما باندھ رہی تھی جس کا تعلق اس دنیا سے معلوم نہیں ہوتا تھا ستارہ بجھ گیا اور پھر پہلے کی طرح ایک روشنی چھتری نما شاہ بلوط پر چلنے لگی پھر یہ ایک مقام پر رک گئی اور نیچے آنے لگی جیسا پہلے ایک رات ہوا تھا روشنی نیچے آئی تو سفید پوش کا سر کندھے اور سینہ نظر آیا اس کے بازو کچھ باہر کو اور کچھ آگے کو پھیلے ہوئے تھے جیسے دعا مانگ رہا ہو روشنی آہستہ آہستہ نیچے گئی اور سفید پوش کے پاؤں تک چلی گئی
ہجوم میں جو چند ایک سبز پوش تھے انہوں نے کہنا شروع کردیا سجدے میں چلے جاؤ ہمارا نجات دہندہ زمین پر اتر آیا ہے کچھ لوگ تو پہلے ہی سجدے میں چلے گئے تھے باقی بھی سجدہ ریز ہو گئے لوگ سجدے سے اٹھے اور انہوں نے سامنے دیکھا وہاں نہ ستارہ تھا نہ سفید پوش
خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے پہاڑ کی طرف سے ایک بڑی ہی بلند آواز ہجوم تک پہنچی وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آئے گا
خدا کا پیغام لائے گا
خدا کا شکر ادا کرو لوگو
اس وقت جب ستارہ ابھی نہیں چمکا تھا اسحاق آسر اور میرا پچھلی پہاڑی پر اتنا آگے چلے گئے تھے کہ انہیں شاہ بلوط والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر ایک خاصا کشادہ غار دکھائی دیا اس کے اندر لکڑیوں کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو آگ لگی ہوئی تھی اس کے شعلے غار کی چھت تک پہنچ رہے تھے اس آگ ہی کی روشنی چونکہ پیچھے والی ڈھلان میں تھی اس لئے اس کی روشنی پہاڑی کی اس جانب نہیں جا سکتی تھی جس جانب لوگوں کا ہجوم ستارہ دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گیا تھا
اسحاق اور اس کے ساتھیوں نے وہاں پانچ آدمی گھومتے پھرتے دیکھے ایک آدمی تھوڑے تھوڑے وقفے سے آگ میں لکڑی پھینک رہا تھا غار سے کچھ دور تقریبا ایک گز لمبی اور اسی قدر چوڑی کسی دھات کی ایک چادر سی رکھی ہوئی تھی کبھی تو شک ہوتا تھا کہ یہ آئینہ ہے اور کبھی یوں لگتا تھا جیسے یہ کسی ایسی دھات کا چادر نما ٹکڑا ہے جو آئینے کی طرح چمکتا ہے یا اس پر چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہے یا اس جیسی کوئی چیز چپکائیں گئی ہے
اسحاق وغیرہ دو درختوں کے تنوں کے پیچھے کھڑے دیکھ رہے تھے فاصلہ زیادہ نہیں تھا انھیں ہر آدمی اور ہر چیز اچھی طرح نظر آ رہی تھی
سامنے والی پہاڑی کی پچھلی ڈھلان پر شاہ بلوط کے درخت کے قریب وہ چمکتی چادر پڑی تھی دو آدمیوں نے آکر یہ چادر اٹھائی اور ادھر ادھر سے پکڑ کر ایسے زاویے پر کر لیا کہ اس کی چمک سیدھی پچھلی پہاڑی پر ان دو درختوں پر پڑی جہاں اسحاق وغیرہ چھپے دیکھ رہے تھے چمک فیلڈ لائٹ جیسی تھی اتنی تیز کے ان تینوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں وہ فوراً تنوں کے پیچھے ہو گئے
یہ چادر رکھ دی گئی ایک آدمی نہ جانے کہاں سے سامنے آیا وہ سر سے پاؤں تک سفید لبادے میں ملبوس تھا
چلو بھائی آ جاؤ سفید پوش نے کہا اوپر کون جائے گا؟
ایک آدمی آگے آیا اس نے ایک جگہ سے ایک چیز اٹھائی یہ یقیننا آئینہ تھا جس کی لمبائی تقریباً ایک فٹ اور چوڑائی اس سے کچھ کم تھی اس نے پہلے تو یہ اپنے سامنے کر کے یوں دیکھا جس طرح آئینہ دیکھا جاتا ہے پھر اس نے اسے آگے کی طرف کر کے ادھر ادھر ہلایا اس کی چمک پہاڑی کی ڈھلان پر اسی طرح دکھائی دی جس طرح آئینہ سورج کے آگے رکھو تو سامنے کی اشیاء پر اس کی چمک دکھائی دیتی ہے
یہ آدمی آئینہ اٹھائے ہوئے پہاڑی پر شاہ بلوط کی طرف چڑھ گیا اب وہ اندھیرے میں تھا غار کی آگ کی روشنی اس تک نہیں پہنچتی تھی اسحاق اور اس کے ساتھیوں کا صرف اندازہ تھا کہ یہ آدمی درخت پر چڑھ گیا ہے کچھ دیر بعد انہیں درخت کے اندر چمک دکھائی دی جو فوراً ختم ہو گئی
جانتے ہو درختوں میں کیا ہو رہا ہے؟
اسحاق نے آسر سے پوچھا
تمہارے ربی کا شک غلط نہیں نکلا آسر نے کہا میں بتا سکتا ہوں اوپر کیا ہو رہا ہے اس آگ کی چمک اس آئینے پر پڑ رہی ہے جو وہ آدمی اوپر لے گیا ہے اور آئینے کی چمک ان لوگوں کو دکھائی دے رہی ہے جو پہاڑی کے اس طرف ہجوم کی صورت میں موجود ہیں
دیکھو آگ کتنی زیادہ ہے اسحاق نے کہا اگر اتنی آگ پہاڑی کی چوٹی پر جلائی جائے تو یہ سارا علاقہ روشن ہوجائے اب تصور میں لاؤ کے شاہ بلوط کی شاخوں میں تم نے ستارہ چمکتا دیکھا ہے سمجھنا کوئی مشکل نہیں یہ سب انسان ہیں
لیکن یہ ہیں کون ؟
میرا نے پوچھا یہ کیسے معلوم کرو گے؟
ہم تین ہیں اسحاق نے کہا بلکہ ہم دو ہیں میرا کو شامل نہ کرو وہ پانچ ہیں ہم ان پر حملہ نہیں کر سکتے اگر ہمارے ساتھ دو تین آدمی اور ہوتے تو کسی اور طرف سے اس پہاڑی پر جاکر ان میں سے ایک دو کو زندہ پکڑ لیتے
ٹھہرو اسحاق آسر نے کہا وہ آدمی درخت سے اتر آیا ہے وہ دیکھو سفید پوش اوپر جا رہا ہے
میں بتاتا ہوں اب کیا ہوگا اسحاق نے کہا یہ سفید لبادے والا آدمی درخت کے نیچے کھڑا ہو گا اور اس پر چمکتی ہوئی دھات کی چادر کی روشنی ڈالی جائے گی لوگ سمجھیں گے کہ کسی پیغمبر کا ظہور ہوا ہے
ایسے ہی ہوا وہ آدمی درخت کے نیچے چلا گیا ادھر وہ چادر آگ کے سامنے ایسے زاویے پر رکھی گئی کہ اس کی چمک اس آدمی پر پڑنے لگی پہلے اس روشنی کو درخت پر گھمایا گیا پھر اسے اس آدمی پر مرکوز کر دیا گیا ادھر ہجوم نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا تو اس کی گونج ان پہاڑیوں تک سنائی دینے لگی
کچھ دیر بعد یہ پلیٹ یا چادر رکھ دی گئی اور ایک آدمی انتہائی بلند آواز سے اعلان کرنے لگا
خدا کے ایلچی کا ظہور ہو گیا ہے
وہ دو چار دنوں میں تمہارے سامنے آجائے گا
خدا کا پیغام لائے گا
خدا کا شکر ادا کرو لوگوں
پھر وہ سفید پوش واپس آ گیا
ہم نے یہ تو دیکھ لیا ہے کہ یہ ہماری طرح انسان ہیں اسحاق نے کہا اب ہم ربی اور فادر کو بتائیں گے معلوم نہیں وہ کیا کریں گے میں انہیں مشورہ دوں گا کہ جس طرح ہم تینوں یہاں تک پہنچ گئے ہیں اسی طرح کل شام بیس پچیس آدمی سامنے والی پہاڑی کے ایک طرف چھپ کر بیٹھ جائیں اور ان سب کو موقع پر پکڑ لیں پھر لوگوں کو رات کو ہی اس پہاڑی پر لے آئیں اور انھیں دکھائیں کہ یہ شیطان لوگ کس طرح انہیں گمراہ کر رہے تھے مجھے یقین ہے یہ مسلمان ہیں
اسحاق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ میرا کی دلدوز اور بڑی ہی بلند چیخ سنائی دی اسحاق اور آسر نے گھبرا کر ادھر دیکھا غار میں جلتی ہوئی آگ کی روشنی ان تک پہنچ رہی تھی اس روشنی میں انھوں نے دیکھا کہ جس درخت کی اوٹ میں میرا چھپی ہوئی تھی اس کے تنے پر ایک خاصا لمبا سانپ نیچے کو آ رہا تھا میرا کا شاید ہاتھ سانپ کو لگ گیا سانپ نے اسے بازو پر کاٹا تھا
اسحاق نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور سانپ کے دو ٹکڑے کر دیے میرا اپنے بازو پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی اس کے منہ سے عجیب سی چیخیں نکل رہی تھی اسحاق اور آسر اس کے پاس بیٹھ گئے اور دیکھنے لگے کہ سانپ نے کہاں کاٹا ہے سانپ کی دہشت نے اور میرا کی بگڑتی ہوئی حالت نے ان کے ہوش و حواس اس حد تک کم کر دیے کہ انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ سامنے والی پہاڑی پر سفید پوش اور اس کے ساتھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے ان تینوں کو دیکھ لیا ہے میرا کی چیخ اتنی بلند تھی کہ سامنے والی پہاڑی کے لوگوں نے سن لی تھی اور انھوں نے چونک کر اس طرف دیکھا تھا
سانپ کا زہر میرا کے جسم میں سرایت کر رہا تھا وہ تڑپنے لگی تکلیف کی شدت سے اٹھی اور چکرا کر گری اور ایسی گری کے اوپر سے لُڑکتی ہوئی نیچے جا پڑی اسحاق اور آسر یہ فراموش کر گئے کہ کہاں ہیں؟
اس کے پیچھے بڑی تیزی سے پہاڑی سے اترے میرا تڑپ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ گہرا نیلا بلکہ سیاہ ہوتا جا رہا تھا اور وہ بری طرح تڑپ رہی تھی اسحاق اور آسر اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے
اسے اٹھاؤ اسحاق آسر نے کہا کچھ تم اٹھاؤ کچھ میں اٹھاتا ہوں اور یہاں سے نکلتے ہیں
یہ تو راستے میں مر جائے گی اسحاق نے کہا مر گئی تو اسے مگرمچھوں والے پانی میں پھینک جائیں گے
وہ دونوں میرا کو اٹھانے ہی لگے تھے کہ انہیں قدموں کی آہٹ سنائی دی انہوں نے بدک کر پیچھے دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہوگئے وہ سات آٹھ آدمیوں کے نرغے میں آگئے تھے ان میں سفید پوش بھی تھا ان میں سے کسی کے پاس تلوار تھی اور کسی کے پاس برچھی سفید پوش نے آگے بڑھ کر ان دونوں کی نیاموں میں سے تلوار نکال لی ان میں سے ایک اور آدمی آگے بڑھا اور اس نے ان کے کمر بندوں میں سے اڑسے ہوئے خنجر بھی لے لئے میرا کا تڑپنا خاصا کم ہو گیا تھا اسے مرنا تھا وہ ہوش میں نہیں تھی ،غار کی آگ کی روشنی نیچے تک آرہی تھی
انہیں اوپر لے چلو سفید پوش نے کہا اور اسحاق اور آسر سے کہنے لگا اس لڑکی کو یہی پڑے رہنے دو یہ چند لمحوں کی مہمان ہے میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے سانپ نے ڈسا ہے اس جگہ کے سانپ جسے ڈس لیں اسے زندہ نہیں رہنے دیا کرتے، یہ جوان تھی اس لئے ابھی تک اس کا جسم ذرا ذرا حرکت کررہا ہے
کیا تم لوگ ہمیں رہا نہیں کرتے دیتے؟
اسحاق نے التجا کے لہجے میں کہا
اگر ہم اتنے احمق ہوتے تو اتنی زیادہ مخلوق خدا سے یہ نہ منوا سکتے کہ شاہ بلوط کے نیچے ایک نبی کا ظہور ہو رہا ہے سفید پوش نے کہا جن کے پاس ہمارا اتنا نازک راز ہے انہیں ہم رہا نہیں کر سکتے
ہم دونوں آپ کے ساتھ ہو جائیں گے آسر نے کہا اور آپ جو بھی کام بتائیں گے کریں گے
تم کون ہو ؟
سفید پوش نے اسحاق سے پوچھا تمہارا مذہب کیا ہے؟
سچ سچ بتا د تو شاید ہم تم پر رحم کر دیں
میرا نام اسحاق ہے اس نے جواب دیا اور میں یہودی ہوں
میرا نام آسر ہے آسر نے کہا اور میں عیسائی ہوں
یہاں کیوں آئے تھے؟
سفید پوش نے پوچھا اور کہا مجھے یہ نہ بتانا کہ تم دونوں اس لڑکی کو ساتھ لے کر یہاں سیر اور تفریح کے لیے آئے تھے یہاں تک کوئی آدمی نہیں پہنچ سکتا ایک طرف مگر مچھوں نے راستہ بند کر رکھا ہے اور دوسری طرف ایسی دلدل ہے جس میں سے کوئی گزر نہیں سکتا
اسحاق نے اسے بالکل سچ بتا دیا کہ وہ دونوں یہاں کیوں آئے تھے اور یہ لڑکی کس طرح سات چل پڑی تھی
تمہارے ربی اور پادری کو ہم ایک سبق دیں گے سفیدپوش نے کہا اب یہودیوں کا جادو نہیں چل سکتا اب حسن بن صباح کا جادو چلے گا
اسحاق اور آسر کو اوپر لے گئے وہ اب بھی منت سماجت کر رہے تھے کہ انھیں چھوڑ دیا جائے انہیں باتوں باتوں میں آگ کے قریب لے گئے جو اتنی زیادہ تھی کہ وہاں کھڑا نہیں رہا جاسکتا تھا مشکیزوں والے آدمی آگ پر پانی پھیکنے لگے تھے کیوں کہ اب آگ کی ضرورت نہیں تھی سفید پوش نے اشارہ کرکے انہیں پیچھے ہٹا دیا پھر اس نے دوسرے آدمیوں کو اشارہ دیا کہ دو تین نے اسحاق کو اور دو تین نے آسر کو پکڑ لیا اور انہیں دھکیلتے گھسیٹتے ہوئے آگ کے قریب لے گئے دونوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا
وہ سمجھ گئے تھے کہ انہیں آگ میں دھکیلا جارہا ہے سفید پوش کے آدمیوں نے دونوں کو اتنی زور سے دھکے دیے کہ وہ آگ میں جا پڑے آگ اس قدر زیادہ تھی کہ وہ اس میں گرے اور پھر انکی آواز بھی نہ نکلی جب وہ جل کر کوئلہ ہو گئے تو سفید پوش نے مشکیزوں والوں سے کہا کہ اب آگ پر پانی پھینک دو اس رات کا ناٹک ختم ہوچکا تھا اس لیے اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی
اگلے روز شاہ دیر میں احمد بن عطاش اپنے خاص کمرے میں بڑی بے تابی سے حسن بن صباح کا انتظار کر رہا تھا اس نے دو بار اپنا آدمی اسے بلانے کےلئے بھیجا تھا اور دونوں بار وہ یہ جواب لے کر آیا تھا کہ حسن رات بہت دیر سے آیا تھا اس لئے بڑی گہری نیند سویا ہوا ہے
وہ سفید پوش جو شاہ بلوط کے نیچے لوگوں کو نظر آتا تھا وہ حسن بن صباح ہی تھا رات اسحاق اور آسر کی وجہ سے حسن کو وہاں زیادہ وقت رہنا پڑا تھا اس لئے صبح دیر سے اٹھا وہ جگہ شاہ در سے خاصی دور تھی شاہ در سے وہاں تک یہ لوگ اونٹوں پر جاتے اور صبح طلوع ہونے سے پہلے واپس آ جاتے تھے اونٹوں پر آنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے قدموں کی آہٹ نہیں ہوتی رات کے سناٹے میں گھوڑے کے ٹاپ دور دور تک سنائی دیتے ہیں اس لئے پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں جگہ سے ایک یا ایک سے زیادہ گھوڑ سوار گزرے تھے
سورج سر پر آ گیا تھا جب حسن بن صباح کی آنکھ کھلی اور وہ بڑی تیزی سے غسل وغیرہ کر کے احمد بن عطاش کے یہاں جا پہنچا
آؤ حسن احمد بن عطاش نے کہا مجھے تمہارے ساتھی بتا چکے ہیں کہ رات ایک یہودی اور ایک عیسائی نے نبی کے ظہور کا راز اپنی آنکھوں دیکھ لیا تھا تم نے اچھا کیا کہ دونوں کو آگ میں پھینک دیا
ان کی ساتھی لڑکی کو تو سانپ نے پہلے ہی ختم کر دیا تھا حسن بن صباح نے کہا ان دونوں آدمیوں میں جو عیسائی تھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس لڑکی کو پہلے ایک مگرمچھ نے پاؤں سے پکڑ لیا تھا اور ان دونوں نے تلواروں سے مگرمچھ کو زخمی کر کے لڑکی کو مگرمچھ کے منہ سے نکال لیا تھا
یہ اس سحر کا اثر تھا جو میں نے تمہارے ہاتھوں کروایا تھا احمد بن عطاش نے کہا میں نے اس سحر میں یہ اثر پیدا کیا تھا کہ تمہارے راز تک پہنچنے والے خیریت سے نہ پہنچ سکیں اور اگر پہنچ جائیں تو تمہیں ان کی موجودگی کا اشارہ مل جائے ہمارا جادو کامیاب رہا
محترم استاد حسن بن صباح نے کہا میں نے اس ربی اور پادری کا ٹھکانہ معلوم کرلیا ہے جنہوں نے ان دونوں آدمیوں کو بھیجا تھا انہیں ہمیشہ کے لیے غائب کر دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ ان کا خطرہ موجود رہے گا کہ یہ کسی اور طرح ہمارے راز پا لیں گے ہمیں یہ اطمینان ہوا ہے کہ یہ جاسوس سلجوقیوں کے نہیں تھے
ہاں حسن احمد بن عطاش نے کہا ہمارا منصوبہ ایسا ہے کہ کسی سے ذرا سے بھی خطرے کا صرف شک ہی ہو اسے بالکل ہی غائب کردینا ضروری ہے تمہارے پاس آدمی ہیں انہیں استعمال کرو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں کو کس طرح غائب کرتے ہو
یہ میں کر کے بتاؤں گا کہ میں نے یہ کام کس طرح کیا ہے حسن بن صباح نے ہنستے ہوئے کہا آپ کی شاگردی میں مجھے اتنی سوجھ بوجھ مل گئی ہے کہ میں اس گاؤں کے بچوں سے بڑوں تک کو ایسا لاپتہ کر سکتا ہوں جیسے کبھی وہ دنیا میں آئے ہی نہیں تھے
اب میری ایک دو باتیں غور سے سنو احمد بن عطاش نے کہا ہمارا یہ طریقہ سو فیصد سے کچھ زیادہ کامیاب رہا ہے اب تم نے لوگوں کے سامنے آنا ہے یہ ہزاروں لوگ تمہارے مرید ہو چکے ہیں اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگلے وہ قلعے بھی ہمارے ہیں یہ تمہیں میں بتاؤں گا کہ تم لوگوں کے سامنے کس طرح آؤ گے، دوسری بات یہ ذہن میں رکھ لو کہ سحر اور جادو پر بھروسہ نہیں رکھنا بھروسہ اپنی عقل اور فہم و فراست پر کرنا ہے یہ صحیح ہے کہ طلسم سامری کو توڑنے والا اب کوئی موسی نہیں رہا اور نہ ہی کوئی موسی آئے گا لیکن یہ یاد رکھ لو کے سحر اور جادو ہر قسم کے حالات میں تمھاری مدد نہیں کر سکے گا، اپنی عقل کا جادو چلاؤ یہ ایسی باتیں ہیں جو میں تمہیں بعد میں بھی سمجھاؤں گا
تم نے دیکھ لیا ہے کہ میری اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ لوگوں کو تم بدی سے ہٹنے کے سبق دو گے تو وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم سے پہلے قوموں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیا تھا لوگوں کو اپنا مرید بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ بدی کو کچھ پراسرار طریقے استعمال کرو جو مافوق العقل نظر آئے اور جن میں ایسا تاثر ہو جو لوگ بلا سوچے سمجھے تمہاری اسرارریت سے متاثر ہو کر سجدہ ریز ہوجائیں تم نے دیکھ لیا ہے ہزاروں لوگوں نے تمہارے آگے سجدہ کیا ہے میں پیغمبر نہیں حسن لیکن میں آنے والے وقت کے متعلق پیشن گوئی کرسکتا ہوں کہ لوگ جادوگروں اور ساحروں کے پاس جایا کریں گے اور ان سے اپنی مشکلات حل کرو ائیں گے اور سحر کے ذریعے ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے اور کچھ لوگ لوگوں کو سحر کا دھوکہ دے کر لوٹیں گے آج کے لوگوں کی یہ کمزوری ان کی نسلوں اور نسلوں تک جائے گی یہ باتیں بعد میں ہوگی تم اس یہودی ربی اور عیسائی پادری کا بندوبست کرو
دو ہی دن گزرے سورج غروب ہونے کے بعد دو اجنبی اس یہودی ربی کے یہاں گئے جس نے اسحاق کو بھیجا تھا ،انہوں نے نہایت پر اثر انداز میں ربی کو بتایا کہ اسحاق اور آسر نام کے دو آدمی اور میرا نام کی ایک لڑکی وہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کیلئے انہیں بھیجا گیا تھا لیکن ایک جگہ پھنس گئے ہیں جہاں وہ پھنسے ہیں وہاں کے سرکردہ آدمی اپنی ہی ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب تک ربی اور پادری خود نہیں آئیں گے وہ ان تینوں کو نہیں چھوڑیں گے، وہ لوگ ہماری پوری مدد کریں گے لیکن ربی اور پادری کا وہاں تک جانا ضروری ہے
ان دو آدمیوں نے زبان کے ایسے جادو چلائے کے ربی اور پادری ان کے ساتھ چل پڑے ان دو آدمیوں نے انہیں اپنے گھوڑوں پر سوار کر لیا تھا اور خود پیدل چل رہے تھے
وہ ایک اور راستے سے دو پہاڑیوں کے درمیان سے اس جگہ پہنچے جہاں پانی جمع تھا اور ایک مگرمچھ نے میرا کا پاؤں پکڑ کر اسے پانی میں گھسیٹا تھا اس رات بھی ہزارہا لوگوں کا ہجوم پہاڑی سے کچھ دور اس امید پر بیٹھا تھا کہ ستارہ چمکے گا اور پیغمبر کا ظہور ہوگا لیکن اس رات حسن بن صباح نے یہ ناٹک نہیں دکھانا تھا
پانی کے قریب جاکر ان دونوں آدمیوں نے ربی اور پادری کو یہ کہہ کر گھوڑوں سے اتارا کے گھوڑے پانی پی لیں جونہی یہ دونوں مذہبی پیشوا گھوڑوں سے اترے ان دونوں آدمیوں میں سے ایک نے پادری کو اور دوسرے نے ربی کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ پانی میں جا پڑے دونوں بوڑھے تھے جو ان آدمیوں سے دھکّے کھا کر وہ پانی میں خاصا دور چلے گئے تھے
پانی میں ایک ہڑبونگ سی مچی مگرمچھ بڑی تیزی سے آئے اور ربی اور پادری کو جبڑوں میں جکڑ کر اس قدرتی تالاب کی تہہ میں لے گئے تھوڑی ہی دیر میں ان دونوں کے جسموں کے ٹکڑے مگرمچھوں کے پیٹ میں جا چکے تھے اور وہ دونوں اجنبی گھوڑوں پر سوار شاہ در کے راستے پر جا رہے تھے اس خطے کے لوگ ابلیسیت کے جال میں آ گئے تھے…

حسن بن صباح اور اُسکی مصنوعی جنت

قسط نمبر:12 }
یہودیوں کا ربی اور عیسائیوں کا پادری جس بستی کے رہنے والے تھے اس بستی میں ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھے
ربی کہاں گیا؟
فادر کہاں گیا؟
اسحاق اور آسر کہاں گئے؟
میرا کہاں گئی؟
چند گھروں کی یہ بستی تھی ربی اور پادری تو مذہبی پیشوا تھے کوئی نہایت معمولی سا فرد بستی سے تھوڑی سی دیر کے لیے غیر حاضر ہوتا تو ساری بستی اس کی غیر حاضری کو محسوس کر لیتی تھی ربی اور فادر کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی اسحاق آسر اور میرا بھی اس بستی کے اہم نوجوان تھے لوگ ان کے متعلق کچھ پریشان ہونے لگے
ایک صبح ایک مجذوب سا آدمی جس نے سبز چغہ پہن رکھا تھا اور سر پر سبز پگڑی لپٹی ہوئی تھی بستی میں داخل ہوا وہ “حق ہو حق ہو” کے دھماکہ خیز نعرے لگا رہا تھا اس کی داڑھی بڑی لمبی تھی سر کے بال بھی اتنے لمبے کے شانوں سے نیچے چلے گئے تھے اور اس کی آنکھیں گوشت کی طرح سرخ تھیں وہ بستی کے وسط میں جا کر رک گیا پہلے بچے اس کے اردگرد اکٹھے ہوگئے پھر دوسرے لوگ بھی اس کے قریب آنے لگے
کچھ نہیں رہے گا اس نے دایاں ہاتھ آسمان کی طرف کرکے کہا سب گم ہو جائیں گے کچھ نہیں رہے گا نام و نشان مٹ جائے گا مانو اسے جو روشنی دکھاتا ہے حق ہو حق ہو
وہ توہم پرستی اور ذہنی پسماندگی کا زمانہ تھا داستان گو نے پہلے سنایا ہے کہ لوگ ہر اس چیز کے پیچھے دوڑ پڑتے تھے جو اسراریت کی سیاہ پردوں میں ڈھکی ہوئی ہوتی تھی اور لوگ اسے مانتے تھے جس کی زبان میں چاشنی اور کشش ہوتی تھی مانا اسے جاتا تھا جو الفاظ اور اداکاری کا ماہر ہوتا تھا
اس کے الفاظ اور اس کا انداز ایسا تھا کہ ساری بستی اس کے اردگرد اکٹھی ہو گئی وہ اور زیادہ اونچی آواز میں نعرے لگانے لگا ایک بوڑھا آدمی آگے بڑھا
کیا بتائے گا نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
بوڑھے نے اس سے پوچھا
جو مطلب نہیں سمجھے گا وہ نہیں رہے گا مجذوب نے کہا سمجھے لوگوں سمجھو!
کیا تو ہمارے پاس بیٹھے گا نہیں ؟
بوڑھے نے پوچھا
ہم سمجھنا چاہتے ہیں ایک اور بولا
بیٹھ جا بوڑھے نے کہا ہمیں اپنی کچھ خدمت کرنے دے
مجذوب وہی زمین پر بیٹھ گیا اس نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ سب بیٹھ جائیں سب اس کے سامنے بیٹھ گئے
حق ہو حق ہو مجذوب نے آسمان کی طرف منہ کرکے ہوک لگانے کے انداز سے نعرے لگائے اور بولا جو نہیں مانے گا وہ گم ہو گئے
تو کس کی کہہ رہا ہے کہ وہ گم ہو گئے؟
بوڑھے نے پوچھا
اس بستی کے باپ گم ہو گئے ہیں مجذوب نے کہا بچے بھی گم ہو گئے ہیں
کیا تو ہمارے پادری کی بات کرتا ہے ؟
ایک عیسائی نے پوچھا مجذوب چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتا رہا
کیا تو ہمارے ربی کی بات کرتا ہے؟
ایک یہودی نے پوچھا وہ پھر بھی چپ رہا
کیا تیرا اشارہ میرے بیٹے اسحاق کی طرف ہے؟
ایک آدمی نے پوچھا مجذوب کچھ بھی نہ بولا
کیا تو میرے بیٹے آسر کی بات کررہا ہے؟
ایک اور آدمی نے پوچھا
میری بیٹی میرا بھی تو لاپتہ ہے
ان سب کی بات ایک ہے مجذوب بولا وہ نہیں مانتے تھے اور وہ جو تمہارے مذہبی باپ تھے وہ بھی نہیں مانتے تھے سب گم ہو گئے ہیں
کیا نہیں مانتے تھے؟
بوڑھے نے پوچھا
اسے نہیں مانتے تھے جو روشنی میں سے ظاہر ہوتا ہے وہ اس روشنی کو بھی نہیں مانتے تھے جو خدا اپنے بندوں کو دکھاتا ہے وہ یک لخت اٹھ کھڑا ہوا اور پھر “حق ہو حق ہو” کے دھماکا نما نعرے لگاتا ایک طرف چل پڑا
وہ آ رہا ہے وہ کہتا جارہا تھا وہ اتر رہا ہے جو نہیں مانے گا وہ گم ہو جائے گا
لوگ کچھ دور تک اس کے پیچھے گئے وہ چلتا گیا آگے ایک گھاٹی آگئی جو ندی میں اترتی تھی مجذوب گھاٹی اتر کر ندی میں چلا گیا اور پانی میں یوں چلتا گیا جیسے میدان میں جا رہا ہو درمیان میں پہنچا تو پانی اس کے سینے تک گہرا ہو گیا پھر بھی وہ اس طرح چلتا گیا جیسے میدان میں چل رہا ہو لوگ اوپر کھڑے اسے دیکھتے رہے اور وہ ندی پار کر کے چلا گیا اپنے پیچھے وہ ایک دہشت اور تذبذب کی کیفیت چھوڑ گیا
وہ جب نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگوں واپس ہونے لگے ان پر خاموشی طاری تھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے سے ڈر رہے تھے
اگر ان کے دونوں مذہبی پیشوا موجود ہوتے تو وہ ان سے پوچھتے کہ یہ سب کیا ہے لیکن مذہبی پیشوا ہی تو لاپتہ ہوگئے تھے
ربی اور فادر کہتے تھے کہ یہ جو روشنی نظر آتی ہے یہ سب ایک پراسرار ڈھونگ ہے بستی میں آ کر بوڑھے نے کہا میں تو کہتا ہوں کہ انہیں اسی کی سزا ملی ہے
میں راز کی ایک بات بتاتا ہوں ایک جواں سال آدمی بولا اسحاق میرا گہرا دوست تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ میں کسی کو نہ بتاؤ اسے اور آسر کو ربی اور فادر نے کہا تھا کہ وہ اس پہاڑی کے پیچھے جائیں جس پر یہ روشنی اور پھر روشنی میں ایک سفید پوسش نظر آتا ہے میرا بھی ان کے ساتھ گئی تھی
اس پہاڑی کے پیچھے؟
ایک اور معمر آدمی نے کہا کیا کبھی کسی سے سنا ہے کہ کوئی اس پہاڑی کے پیچھے گیا ہے؟
کبھی کوئی گیا ہے تو اسے کسی نے واپس آتا نہیں دیکھا وہ موت کی وادی ہے وہاں خونخوار اور آدم خور مگرمچھ ہیں وہاں اتنی زہریلے سانپ ہیں کہ ڈستے ہیں تو پلک جھپکتے آدمی مر جاتا ہے زمین پر سانپ درختوں پر سانپ پانی میں سانپ وہاں تو کوئی جنگلی جانور اور کوئی درندہ بھی نہیں جاتا
ایک بات سمجھ میں آتی ہے دوسرے بوڑھے نے کہا اگر روشنی انسان دکھاتے ہیں اور روشنی میں ظاہر ہونے والا سفید پوش بھی انسان ہے تو وہ اس پہاڑی پر جاتے کدھر سے ہیں نہیں وہ انسان نہیں ہو سکتے
میں مانتا ہوں ایک اور آدمی بولا وہ انسان نہیں ہوسکتے کیا تم نے سنا نہیں کہ جس سانپ کی عمر سو سال ہوجاتی ہے وہ انسان کے روپ میں آ جاتا ہے میں کہتا ہوں یہ انسان کے روپ میں سانپ ہیں اور روشنی میں وہ جو سفید پوش نظر آتا ہے وہ شیش ناگ ہوگا
کچھ لوگوں نے اس آدمی کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں تائید تھی اور خوف بھی
کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ایک اور نبی ہے معمر آدمی نے کہا اسے صرف ہم ہی نہیں دیکھ رہے یہ ہزارہا لوگ اتنی دور دور سے آکر اسے دیکھ رہے ہیں وہ ظاہر ہوتا ہے تو سب سجدے میں چلے جاتے ہیں تم نے وہاں درویش صورت انسان دیکھے ہوں گے وہ بھی سجدہ ریز ہو جاتے ہیں یہ سمجھ لو کہ یہ کوئی نیا عقیدہ یا نیا پیغام آرہا ہے اس کی کوئی مخالفت نہ کرے ورنہ پوری بستی کو نقصان ہوگا
یہ کیفیت صرف اس بستی میں ہی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ لوگ خوفزدہ بھی تھے اور آنے والے کے منتظر بھی اس علاقے میں جتنی بستیاں تھیں ان سب میں یہی کیفیت تھی یہ مجذوب جو اس بستی میں گیا تھا کئی اور بستیوں میں گیا اور اپنے مخصوص مجذوبانہ انداز میں یہ خبر سناتا گیا کہ ایک عیسائی اور ایک یہودی مذہبی پیشوا نے روشنی والے کے خلاف بات کی تھی اور دونوں کو آسمان کی غیر مرئی مخلوق اٹھاکر لے گئی ہے
اور ایک روز وہ زمین پر اتر آیا
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ جس پہاڑی پر شاہ بلوط کا درخت تھا اس کے سامنے وسیع و عریض میدان میں جو سرسبز تھا اور جہاں درختوں کی بہتات تھی خیموں کی ایک بستی آباد ہو گئی تھی یہ قبیلوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کے خیمے تھے ہزاروں لوگ کھلے آسمان کے نیچے وہاں موجود رہتے تھے
ایک صبح لوگ جاگے تو انہوں نے دیکھا کہ پہاڑی کے دامن میں جو ٹیکری تھی اس پر پلنگ کی طرح کا ایک تخت رکھا تھا اس کے پائے رنگین اور خوش نما تھے اس پر بڑا قیمتی قالین بچھا ہوا تھا ٹیکری ہری بھری تھی تخت کے دائیں بائیں اور پیچھے درخت تھے ان درختوں کے ساتھ پھولدار بیلیں باندھ کر خوشنما چھت بنا دی گئی تھی
لوگوں نے دیکھا تو وہ آہستہ آہستہ اس طرف چل پڑے وہاں ابھی کوئی آدمی نظر نہیں آرہا تھا لوگ جب قریب پہنچے تو ٹیکری پر ایک آدمی نمودار ہوا وہ عقب سے اوپر چڑھتا آرہا تھا اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے ہاتھ میں سبز جھنڈا تھا اس کا لباس شاہی چوبداروں جیسا تھا تخت کے ایک طرف سے گزرتا وہ تخت سے آگے آکر لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا اس نے جھنڈا ٹیکری پر گاڑ دیا
وہ جو مسجود برحق ہے آرہا ہے چوبدار نے بڑی ہی بلند آواز میں اعلان کیا
خوش نصیب ہو تم کہ وہ تمہارے سامنے آ رہا ہے وہ آئے تو سجدے میں چلے جاؤ لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا
قبیلوں کے سردار آگے آ جاؤ چوبدار نے اعلان کیا سرکردہ آدمی سب سے آگے آکر بیٹھ جاؤ
لوگوں میں سے کئی ایک آدمی آگے چلے گئے اور بیٹھ گئے ان کے لباس اور رنگ ڈھنگ بتا رہے تھے کہ وہ سرکردہ افراد ہیں
ہوا کچھ تیز چل رہی تھی ٹیکری پر چھ آدمی نمودار ہوئے ان کے لباس معمولی سے تھے وہ ملازم لگتے تھے ہر ایک نے ایک ایک دیگچہ نما برتن اٹھا رکھا تھا وہ ٹیکری اتر آئے اور ہجوم کے اس پہلو کو چلے گئے جدھر سے ہوا آرہی تھی انہوں نے یہ برتن تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھ دئیے یہ لوگوں سے دور رکھے گئے تھے پھر ان میں آگ لگا دی گئی لیکن شعلہ کسی میں بھی نہ نکلا ہر برتن میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھنے لگا ہوا کا رخ لوگوں کی طرف تھا اس لئے یہ دھنواں ہجوم میں سے گزرنے لگا وہ آدمی وہیں کھڑا رہے
خدا کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں ٹیکری سے چوبدار کی آواز آئی لوگوں نے ایسی خوشبو محسوس کرنی شروع کردیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی پرکیف اور روح پرور خوشبو تھی یہ اس دھوئیں کی خوشبو تھی جو برتنوں سے اٹھ رہا تھا
نقارہ بجنے لگا اور اس کے ساتھ تین چار شہنائیوں کے لے ابھرے یہ صحرائی نغمے کی لے تھی جس میں وجد طاری کر دینے والا سوز تھا تخت کے عقب سے ایک آدمی ابھرنے لگا جو ایک شہانہ کرسی پر بیٹھا تھا کرسی اس آدمی کو اٹھائے اوپر ہی اوپر اٹھتی آئی پھر چار آدمیوں کے سر ابھرے اور فوراً ہی یہ چاروں آدمی پورے اوپر آ گئے کرسی بڑی تھی اور چوڑی تھی ان چاروں آدمیوں نے کرسی کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا چاروں آدمی عربی لباس میں ملبوس تھے اور جو کرسی پر بیٹھا تھا لباس اس کا بھی عربی نما لیکن کپڑا ریشمی اور چمکدار تھا
سجدہ ایک آواز گرجی سجدہ
وہاں جتنے لوگ تھے سب سجدہ ریز ہو گئے چار آدمیوں نے بڑے آرام سے کرسی تخت پر رکھ دی جس پر قالین بچھا ہوا تھا کرسی پر جو بیٹھا ہوا تھا وہ بادشاہ لگتا تھا داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی اس کے چہرے کا رنگ سفیدی مائل گندمی تھا نقش و نگار میں مردانہ حسن آنکھوں میں چمک اور ایسا تاثر کے کوئی بڑی مضبوط شخصیت والا ہی ان آنکھوں کا سامنا کر سکتا تھا زیرے لب تبسم چہرے کی جاذبیت میں اضافہ کرتا تھا
اس نے سجدہ ریز ہجوم پر نگاہ دوڑائی اس کا زیر لب تبسم مسکراہٹ کی صورت میں کھل گیا اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ لوگ سجدے سے اٹھیں
اللہ اکبر ایک آواز گرجی
ہجوم نے سجدے سے سر اٹھائے ہجوم میں عیسائی بھی یہودی بھی اور مسلمان بھی تھے اور چند ایک بے دین بھی تھے اللہ اکبر کا مطلب یہ تھا کہ یہ جو شہانہ مسند پر بیٹھا ہے مسلمان ہے پھر بھی سب لوگ اسے دیکھنے اور اسے سننے کو بے تاب ہوئے جارہے تھے اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے لیکن اللہ اکبر کی صدا پر ان کے دلوں میں تعصب نے سر نہیں اٹھایا تھا
لوگ اپنے آپ میں ایک پرلطف سی تبدیلی محسوس کر رہے تھے ان کے دلوں سے خوف نکل گیا تھا وہ ہلکے پھلکے ہو گئے تھے ان کے دلوں میں پیار اور محبت کی لہریں اٹھنے لگی تھیں
وہ جو شاہانہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا وہ حسن بن صباح تھا وہ اٹھا اور اپنے دونوں بازو پھیلا دئیے
میں تم میں سے ہوں اس نے کہا میری روح اس نور سے پیدا ہوئی ہے جو تم شاہ بلوط کے درخت میں دیکھتے رہے ہو میں تم میں سے ہوں مجھے خدا نے اپنا ایلچی منتخب کیا ہے میں تمہارے لئے خدا کا پیغام لے کر آیا ہوں لیکن ابھی پورا پیغام سنانے کا وقت نہیں آیا ابھی اتنی سی بات بتاؤں گا کہ خدا کا منشا ہے کہ اس کی زمین پر اس کے بندوں کی حکومت ہو جس طرح خدا نے فرعونوں کا خاتمہ کردیا تھا اسی طرح خدا بادشاہوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اللہ کی رضا اب اس میں ہے کہ کھیتی کا پورا حق اسے ملے جو اس میں ہل چلاتا اور بیچ پھینکتا ہے خدا نے مجھے اپنی رضا کی تکمیل کے لئے تمہارے درمیان اتارا ہے کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی سے آزاد ہو جاؤ
ہاں ہاں ہجوم سے بے شمار آوازیں اٹھیں ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ کام آسان نہیں حسن بن صباح نے کہا تمہیں متحد ہو کر میرے پیچھے چلنا پڑے گا
ہم تمھارے پیچھے چلیں گے ہجوم سے پرجوش آوازیں اٹھیں یاد رکھو حسن بن صباح نے کہا تم یہ وعدہ میرے ساتھ نہیں اس خدا کے ساتھ کررہے ہو جس نے مجھے ایلچی بنا کر تمھارے پاس بھیجا ہے تم وعدے سے پھر گئے تو تم پر خدا کا عذاب نازل ہوگا اگر تم نے خدا سے وعدہ نبھایا تو تم دنیا میں جنت دیکھ لو گے
ہم خدا کو ناراض نہیں کریں گے ہجوم میں سے آوازیں اٹھیں
یہ حسن بن صباح کی رونمائی تھی اس روپ میں وہ پہلی بار لوگوں کے سامنے آیا تھا اس نے دیکھا کہ اتنا بڑا ہجوم اس کا ہمنوا ہو گیا ہے تو اس نے نہایت پراثر الفاظ میں واعظ شروع کردیا
مورخوں کا بیان ہے کہ حسن بن صباح کی اس تقریر میں زبان کا جادو اور خطابت کا کمال تھا علم وفضل کا نام و نشان نہ تھا وہ لوگوں کے دلوں کی بات کر رہا تھا
لوگوں نے اس کے انداز خطابت نے تو متاثر کرنا ہی تھا کیونکہ اس فن میں اس نے کمال حاصل کیا تھا لوگوں کے ذہنوں کو اس نے اس دھوئیں کے ذریعے بھی اپنے قابو میں کر لیا تھا جو دیگچہ نما برتنوں سے اٹھ رہا تھا یہ ایک یا ایک سے زیادہ جڑی بوٹیوں کی دھونی تھی جن کے اثرات ویسے ہی تھے جیسے آج کل مسکّن گولیوں کے ہوتے ہیں حسن بن صباح نے آگے چل کر قلعہ المُوت میں جو جنت بنائی تھی اس میں ان جڑی بوٹیوں کا بے دریغ استعمال ہوا تھا
بعض مورخوں نے یہی لکھا ہے کہ اس نے ہجوم پر اس دھونی کا نشہ طاری کر دیا تھا لیکن دو مورخوں نے لکھا ہے کہ وہاں پانی کے بہت سے مٹکے رکھ دیے گئے تھے جن میں تھوڑا سا سرور پیدا کرنے والی دوائی ملا دی گئی تھی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ اس پانی میں آب کوثر ملا ہوا ہے سب یہ پانی پیئں لوگوں پر اس پانی نے ایسا نشہ طاری کر دیا تھا کہ ان کے ذہن حسن بن صباح کے ایک ایک لفظ کو دل و جان سے قبول کرتے جا رہے تھے
البتہ تاریخوں میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ حسن بن صباح نے قبیلوں اور بستیوں کے سرکردہ افراد اور سرداروں کو پہلے ہی الگ کر لیا تھا اس نے لوگوں کے ہجوم کو وہاں سے چلتا کیا اور سردار وغیرہ کو اوپر ٹیکری پر بلا لیا ٹیکری کے اوپر جگہ اتنی سرسبز اور خوشنما تھی جیسے انسانوں نے اپنے بادشاہ کے بیٹھنے کے لئے یہ جگہ بڑی محنت سے تیار کی ہو
ان سرکردہ افراد کی تعداد کوئی زیادہ نہیں تھی بارہ چودہ ہی تھی انہوں نے حسن بن صباح کے سامنے جاکر اس طرح تعظیم دی کہ رکوع کی حالت میں چلے گئے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ یہ کوئی انسان ہے یا آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہے یا یہ کوئی فریب کار ہی تو نہیں یہ سب اس سے مرعوب ہو گئے
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جڑی بوٹیوں کی دھونی کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا گیا تھا لیکن حسن بن صباح کے پاس لوگوں پر چھا جانے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا یہ تھا سحر یعنی جادو اس کے استاد اور پیرومرشد نے اسے سحر کاری کی خصوصی تربیت دی تھی بعض مورخوں نے وثوق سے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے لوگوں کے ہجوم پر نظر ڈالیں تو تمام کا تمام ہجوم ہپنا ٹائز ہو گیا تھا سردار وغیرہ اوپر گئے تو وہ بھی ہپنا ٹائز کردیئے گئے تھے اسے اجتماعی ہپناٹائز کہا جاتا ہے
حسن بن صباح کی ابلیسیت کی داستان کو بعض لوگ محاذ افسانہ سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ انھیں یقین نہیں آتا کہ ایک انسان کی ایسی فریب کاری جو لاکھوں انسان کو اپنی زد میں لے لے اور لوگ اسے پیغمبر تسلیم کر لیں من گھڑت قصہ ہی ہوسکتی ہے یہ ہے بھی سہی لیکن حسن بن صباح اور اس کے گروہ کے بعض کارنامے اور کمالات ایسے ہیں جو قابل یقین نہیں لگتے لیکن حسن بن صباح نے جو ذرائع استعمال کیے تھے وہ حیران کن کمالات دکھا سکتے تھے سحر کاری اس دور میں کوئی نئی چیز نہیں تھی اتنا ضرور ہے کہ اس دور میں سحر یا کسی بھی قسم کا جادو ہر کسی کے ہاتھ میں نہیں آ سکتا تھا مثال کے طور پر فرعونوں کے پاس جادوگر موجود تھے یہودیوں نے اس فن میں کمال حاصل کیا لیکن یہ فن ایسہ عام اور سہل نہیں تھا کہ ہر کوئی سیکھ لیتا
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حسن بن صباح کے ہاتھ کوئی ایسی جڑی بوٹی لگ گئی تھی جس کی بو یا دھونی انسان کو بڑے دلکش تصورات میں لے جاتی تھی مثلا اس بوٹی کی بو کے زیر اثر کوئی آدمی کنکریاں اور مٹی کھا رہا ہوتا تو وہ پورے یقین کے ساتھ یہ سمجھتا تھا کہ وہ من و سلویٰ کھا رہا ہے پتھروں پر لیٹ کر اسے نرم و گداز بستر کا لطف آتا تھا
آگے چل کر جب داستان گو آپ کو حسن بن صباح کی جنت میں لے جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ وہ جنت کس طرح آباد کی گئی تھی وہ ایک جہنم تھا جسے لوگ جنت سمجھتے تھے
یہ بھی انسانی فطرت کی ایک حقیقت ہے کہ انسانی ذہن نیکی کو سوچ سوچ کر اور خاصا وقت لگا کر قبول کرتا ہے لیکن بدی کی دلکشی کو وہ فورا قبول کرلیتا ہے کوئی بھی انسان اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کرنے شروع کر دیے اور ذرا سی بھی اچھائی کو قبول نہ کرے تو تھوڑے سے وقت میں وہ مکمل ابلیس بن جاتا ہے اس کی زبان میں ایسی چاشنی پیدا ہو جاتی ہے جو پتھروں سے بھی دودھ نکال لیتی ہے ایسا شخص جھوٹ کا سہارا لیتا ہے اور اتنی خوبصورتی سے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگ دل و جان سے اس کے جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں مختصر بات یہ ہے کہ انسان انسانیت کے درجے سے دستبردار ہو جائے اور یہ ذہن میں بٹھا لے کے وہ اشرف المخلوقات نہیں تو وہ شخص شیطانیت کے میدان میں معجزہ کر کے دکھا سکتا ہے جو شخص اپنی ماں بہن بہو بیٹی کی عزت اور آبرو سے دستبردار ہوجائے وہ حیران کن کارنامہ کر کے دکھا سکتا ہے
اگر بات حسن بن صباح کی نفسیات کی لے بیٹھیں تو اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن بات سمجھانے کے لئے بہتر یہ ہے کہ واقعات بیان کر دیے جائیں اور یہ پڑھنے والے پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ سب کیا تھا سمجھنے والی اصل بات یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے استادوں اور اس کے گروہ کا وجود ان کی یہ طلسماتی کارستانی یہ اسلام کی سچائی پر بڑا ہی شدید حملہ تھا اور اسلام کے لیے اتنا بڑا چیلنج جو صلیبیوں کے چیلنج سے بھی بڑا اور خطرناک تھا
صلیبی تو میدان میں آکر لڑے تھے انہوں نے زمین دوز کاروائیاں اگر کی تھی تو وہ اتنی سی تھی کہ انہوں نے اپنی اور یہودیوں کی انتہائی خوبصورت لڑکیاں جاسوسی اور اخلاقی تخریب کاری کے لئے مسلمان امراء اور سالاروں کے درمیان مسلمان لڑکیوں کے روپ میں چھوڑی گئی تھیں اس کے برعکس حسن بن صباح جو اسماعیلی مسلک کا علمبردار تھا اس لیے خطرناک تھا کہ وہ میدان میں لڑنے والا نہیں تھا اس کے حربے اتنے حسین تھے جنہیں صرف عام لوگ بلکہ ذمہ دار لوگ بھی قبول کر لیتے تھے…

📜☜سلسلہ جاری ہے……

 



 

www.urducover.com

]]>
https://urducover.com/hassan-bin-sabah/feed/ 0
جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/ https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/#respond Thu, 11 Jul 2024 16:11:52 +0000 https://urducover.com/?p=2862  

جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام
=====================

حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا حضور! مجھے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے مجھے اس بات کا بڑا شوق ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا یہ شوق اچھا نہیں ، تم اس بات کو رہنے دو۔ اس نے کہا حضور آپ کا اس بات میں کیا نقصان ہے۔ میرا ایک شوق ہے اسے پورا کر ہی دیجئے۔حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اللہ سے عرض کی کہ مولا یہ بندہ مجھ سے اس بات کا اصرار کر رہا ہے میں کیا کروں؟ حکم الٰہی ہوا کہ جب یہ شخص باز نہیں آتا تو اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیں۔ اس شخص نے ایک مرغ اور ایک کتا پال رکھا تھا۔

ایک دن کھانا کھانے کے بعد اسکی خادمہ نے جب دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ایک ٹکڑا گرا تو کتا اور مرغ دونوں اس کی طرف لپکے اور وہ روٹی کا ٹکڑا اس مرغ نے اٹھا لیا۔ کتے نے اس مرغ سے کہا۔ ارے ظالم میں بھوکا تھا یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے، تیری خوراک تو دانہ دنکا ہے مگر تم نے یہ ٹکڑا بھی نہ چھوڑا۔ مرغ بولا گھبراؤ نہیں، کل ہمارے مالک کا یہ بیل مر جائے گا تم کل جتنا چاہو گے اس کا گوشت کھا لینا۔ اس شخص نے ان کی یہ گفتگو سن لی تو بیل کو فورن بیچ ڈالا۔ وہ بیل دوسرے دن اس آدمی کے پاس جا کر مر گیا۔ کتے نے مرغ سے کہا۔ بڑے جھوٹے ہو تم، خواہ مخواہ مجھے آج کی امید میں رکھا، بتاؤ کہاں ہے وہ بیل؟ جس کا گوشت میں کھا سکوں۔ مرغ نے کہا میں جھوٹا نہیں ہوں۔ ہمارے مالک نے نقصان سے بچنے کے لئے بیل بیچ ڈالا ہے اور اپنی بلا دوسرے کے سر ڈال دی ہے، مگر لو سنو! کل ہمارے مالک کا گھوڑا مرے گا۔ کل گھوڑے کا گوشت جی بھر کے کھانا۔

اس شخص نے یہ بات سنی تو گھوڑا بھی بیچ ڈالا۔ دوسرے دن کتے نے شکائیت کی تو مرغ بولا۔ بھئی کیا بتاؤں ہمارا مالک بڑا بے وقوف ہے جو اپنی آئی غیروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے گھوڑا بھی بیچ ڈالا ہے اور گھوڑا خریدار کے گھر جا کر مر گیا، اسی گھر میں مرتے تو ہمارے مالک کی جان کا فدیہ بن جاتے۔ مگر اس نے ان کو بیچ کر اپنی جان پر آفت مول لی ہے۔ لو سنو اور یقین کرو۔ کل ہمارا مالک خود ہی مر جائے گا اور اسکے مرنے پر جو کھانے دانے پکیں گے، اس میں سے بہت کچھ تمھہیں بھی ملے گا۔

اس شخص نے جب یہ بات سنی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو دوڑتا ہوا حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس آیا اور بولا حضور! میرے غلطی معاف فرمائیے اور موت سے مجھے بچا لیجئے۔ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے فرمایا۔ نادان! اب یہ بات مشکل ہے۔ آئی قضا ٹل نہ سکے گی۔ تمہیں اب جو بات سامنے نظر آئی ہے مجھے اسی دن نظر آ رہی تھی جب تم جانوروں کی بولیاں سیکھنے کی ضد کر رہے تھے اب مرنے کے لیے تیار رہو۔ چنانچہ دوسرے دن وہ شخص مر گیا۔

سبق: مال و دولت پہ اگر کسی قسم کی آفت آ جائے تو انسان کو صبر کرنا چاہئے، اور غم اور شکوہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اپنی جان کا فدیہ سمجھ کر اللہ کا شکر ہی ادا کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ جو ہوا بہتر ہوا۔ اگر مال پر یہ آفت نازل نہ ہوتی تو ممکن ہے جان ہلاکت میں پڑ جاتی۔

]]>
https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/feed/ 0