urdu stories – https://urducover.com Sun, 18 Aug 2024 15:49:13 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.6.2 https://urducover.com/wp-content/uploads/2024/07/Urdu-cover-logo--150x150.png urdu stories – https://urducover.com 32 32 مس عائشہ اور طارق https://urducover.com/%d9%85%d8%b3-%d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82/ https://urducover.com/%d9%85%d8%b3-%d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82/#respond Sun, 18 Aug 2024 15:44:20 +0000 https://urducover.com/?p=5882 مس عائشہ اور طارق   

مس عائشہ ایک چھوٹے سے شہر میں پرائمری اسکول کلاس 5 کی ٹیچر تھیں۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ “آئی لو یو آل” بولتی تھیں۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ سچ نہیں کہتی تھیں۔ وہ کلاس کے تمام بچوں سے یکساں پیار نہیں کرتیں تھیں۔

کلاس میں ایک ایسا بچہ تھا جو مس عائشہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس کا نام طارق تھا۔ طارق میلی کچیلی حالت میں اسکول آ جاتا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، جسم پر میل کا نشان ہوتا۔ لیکچر کے دوران بھی اس کا دھیان کہیں اور ہوتا۔

مس عائشہ کے سامنے وہ چونک کر انہیں دیکھنےتو لگتا  ۔ مگر اس کی خالی خالی نظروں سے انہیں صاف پتہ لگتا تھا کہ طارق جسمانی طور پر کلاس میں موجود ہونے کے باوجود دماغی طور پر غائب ہے۔ رفتہ رفتہ مس عائشہ کو طارق سے نفرت سی ہونے لگی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی طارق مس عائشہ کی سخت تنقید کا نشانہ بننے لگتا۔ ہر بُری مثال طارق کے نام سے منصوب کی جاتی۔ بچے اس پر کھلکھلا کر ہنستے اور مس عائشہ اس کی تذلیل کر کے تسکین حاصل کرتیں۔ طارق نے کبھی بھی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

مس عائشہ کو وہ ایک بے جان پتھر کی طرح لگتا جس کے اندر احساس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر ڈانٹ، طنز اور سزا کے جواب میں وہ بس اپنی جذبات سے عاری نظروں سے انہیں دیکھتا اور سر جھکا لیتا۔ مس عائشہ کو اب اس سے شدید چڑ ہو چکی تھی۔ پہلا سیمسٹر ختم ہوا اور رپورٹ بنانے کا مرحلہ آیا تو مس عائشہ نے طارق کی ترقی کی رپورٹ میں اس کی تمام برائیاں لکھ ماریں۔ پروگریس رپورٹ والدین کو دکھانے سے پہلے،ہیڈ مسٹریس کے پاس جاتی تھیں۔ جب انھوں نے طارق کی رپورٹ دیکھی، تو   فوراً مس عائشہ کو بلا لیا ۔ “مس عائشہ، ترقی کی رپورٹ میں کچھ تو ترقی بھی نظر آنی چاہیے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے طارق کے والدین اس سے بالکل ہی نا امید ہو جائیں گے۔” “میں معذرت خواہ ہوں مگر طارق ایک بالکل ہی بدتمیز اور نکما بچہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اس کی ترقی کے بارے میں کچھ لکھ سکتی ہوں۔” مس عائشہ نفرت انگیز لہجے میں بول کر وہاں سے اٹھ آئیں۔

ہیڈ مسٹریس نے ایک عجیب حرکت کی۔ انہوں نے چپڑاسی کے ہاتھ مس عائشہ کی ڈیسک پر طارق کی گذشتہ سالوں کی ترقی کی رپورٹ رکھوا دی۔ اگلے دن مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو رپورٹ پر نظر پڑی۔الٹ پلٹ کر دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ طارق کی رپورٹ ہے۔ “پچھلی کلاسوں میں بھی اس نے یقیناً یہی گل کھلائے ہوں گے۔” انہوں نے سوچا اور کلاس 3 کی رپورٹ کھول لی۔ رپورٹ میں ریمارکس پڑھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ رپورٹ اس کی تعریفوں سے بھری پڑی تھی۔ “طارق جیسا ذہین بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔” “انتہائی حساس بچہ ہے اور اپنے دوستوں اور ٹیچر سے بے حد لگاؤ رکھتا ہے۔”

آخری سیمسٹر میں بھی طارق نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ “مس عائشہ نے غیر یقین کی حالت میں کلاس 4 کی رپورٹ کھولی۔ “طارق کی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے۔ اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ گئی ہے۔” “طارق کی ماںکو آخری سٹیج  کی کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔ گھر پر اس کا اور کوئی خیال رکھنے والا نہیں ہے جس کا گہرہ اثر اس کی پڑھائی پر پڑا ہے۔”

طارق کی والدہ فوت ہوچکی ہیں اور ان کے ساتھ ہی طارق کی زندگی کا بھی کوئی اور رنگ باقی نہیں رہا۔ اسے بچانا ممکن نہیں، کیونکہ بہت دیر ہو چکی ہے۔ مس عائشہ پر لرزہ طاری تھا، ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور انہوں نے پروگریس رپورٹ بند کی۔ ان کی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک آنسو گرنے لگے۔ اگلے دن جب مس عائشہ کلاس میں آئیں، تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اپنا روایتی جملہ “آئی لو یو آل” کہا۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ آج بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔ کیونکہ اسی کلاس میں بیٹھے ایک بے ترتیب بالوں والے بچے طارق کے لیے جو   محبت  وہ آج   اپنے دل میں محسوس کر رہی تھیں،   وہ کلاس میں بیٹھے کسی اور بچے کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔  

لیکچر کے دوران، انہوں نے طارق سے ایک سوال کیا جس پر طارق نے ہمیشہ کی طرح سر جھکایا۔ جب کچھ دیر تک مس عائشہ کی طرف سے کوئی  ڈانٹ پھٹکار  اور ہم جماعت ساتھیوں کی طرف سے ہنسی کی آواز اس کے کانوں میں نہ پہنچی، تو اس نے اچنبھے میں سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ توقع کے برخلاف، ان کے ماتھے پر بل نہ تھا، بلکہ وہ مسکرا رہی تھیں۔ مس عائشہ نے طارق کو اپنے پاس بلایا اور اسے سوال کا جواب بتا کر زبردستی دہرانے کو کہا۔

طارق   تین چار دفعہ کے اسرار کے بعد آخر کار بولا۔ اس کے جواب دیتے ہی مس عائشہ نے نہ صرف خود تعریف کی بلکہ باقی سب کو بھی بولا۔ یہ روز کا معمول بن گیا کہ مس عائشہ ہر سوال کا جواب خود بتاتی اور پھر اس کی خوب پذیرائی کرتی۔ ہر اچھی مثال طارق سے منسوب کی جاتی۔ رفتہ رفتہ پرانا طارق سکوت کی قبرسے نکلنے لگا۔ اب مس عائشہ کو سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ روز بلا ناغہ جوابات دے کر سب کو متاثر کرتا اور نئے سوالات پوچھ کر سب کو  حیران بھی کرتا۔

اس کے بال اب کسی حد تک سنورے ہوئے تھے، کپڑے بھی کافی حد تک صاف ہوتے، جنہیں شاید وہ خود دھونے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال ختم ہوا اور طارق نے دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مس عائشہ کے لیے خوبصورت تحفے لے کر آئے اور مس عائشہ کو دینےلگے۔ ان خوبصورت تحفوں میں ایک پرانا اخبار میں بد سلیقہ انداز میں لپٹا ہوا تحفہ بھی تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے، لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تحفے کے نام پر یہ چیز طارق لایا ہوگا۔

مس عائشہ نے تحفے کے اس چھوٹے سے پیکٹ کو محبت سے   باہر نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک عطر کا آدھی استعمال شدہ شیشی اور ایک ہاتھ میں پہننے والا بوسیدہ ساکڑا تھا، جس کے زیادہ تر موتی جھڑ چکے تھے۔ مس عائشہ نے خاموشی سے اس عطر کو خود پر چھڑک لیا اور کڑا   ہاتھ میں پہن لیا۔ بچے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے، اور خود طارق بھی۔ آخر کار طارق   سے   رہا  نہ  گیااور مس عائشہ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اٹک اٹک  کر مس عائشہ کو بتایا، “آج آپ سے بالکل میری ماں جیسی خوشبو آ رہی ہے۔

وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔دن ہفتوں،ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدلتے بھلا کہاں دیر لگتی ہے؟مگر ہر سال کے اختتام پر مس عائشہ کو طارق کی طرف سے ایک خط باقاعدگی کے ساتھ موصول ہوتا جس میں لکھا ہوتا کہ “میں اس سال بہت سارے نئے ٹیچرز سے ملا مگر آپ جیسا کوئی نہیں تھا۔”پھر طارق کا اسکول ختم ہو گیا اور خطوط کا سلسلہ بھی۔کئی سال مزید گزرے اور مس عائشہ ریٹائر ہو گئیں۔ایک دن انہیں اپنی ڈاک میں طارق کا خط ملا جس میں لکھا تھا

  “اس مہینے کے آخر میں میری شادی ہے اور میں آپ کی موجودگی کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایک اور بات، میں زندگی میں بہت سارے لوگوں سے مل چکا ہوں، مگر آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔۔۔فقط ڈاکٹر طارق

ساتھ ہی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ بھی لفافے میں موجود تھا۔ مس عائشہ خود کو ہرگز نہیں روک سکتی تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے اجازت لی اور دوسرے شہر کے لیے روانہ ہو گئیں۔ شادی کے دن جب وہ شادی کی جگہ پہنچیں تو تھوڑی دیر ہو چکی تھی، تقریب ختم ہو چکی تھی۔ مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں، بزنس مین اور یہاں تک کہ وہاں موجود نکاح خواں بھی اکتا چکے تھے، لیکن طارق تقریب کی ادائیگی کے بجائے گیٹ کی طرف دیکھتا رہا اور ان کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں، طارق  ان کی طرف لپکااور ان کا وہ  ہاتھ پکڑ لیا جس میں  انہون نے اب تک وہ بوسیدہ سا کڑا پہنا ہوا تھا  اور انہیں سیدھا اسٹیج پر لے گیا۔

مائک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے کچھ یوں اعلان کیا: “دوستو ، آپ سب ہمیشہ مجھ سے میری ماں کے بارے میں پوچھتے رہے ہیں اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ سب کو ان سے ملواؤں گا۔۔۔ یہ میری ماں ہیں ۔”

www.urducover.com



 

]]>
https://urducover.com/%d9%85%d8%b3-%d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82/feed/ 0
A True Story عبرت https://urducover.com/a-true-story-%d8%b9%d8%a8%d8%b1%d8%aa/ https://urducover.com/a-true-story-%d8%b9%d8%a8%d8%b1%d8%aa/#respond Sun, 18 Aug 2024 14:23:41 +0000 https://urducover.com/?p=5878 A True Story

عبرت    :    ایک سچی کہانی

اردن میں گزشتہ دنوں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ نہایت ہی عجیب!!! ابوانس ایک نیک تاجر تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ جس کے جملہ اخراجات ابوانس پورے کرتا۔ کچھ عرصہ بعد ابوانس کا نوجوانی میں ہی انتقال ہو گیا۔ لواحقین میں نوجوان بیوہ اور ایک بیٹا انس رہ گیا۔
کچھ دن بعد ابوانس کا چھوٹا بھائی بھی اس کے گھر منتقل ہوا اور یہ آسرا دیا کہ مرحوم بھائی کی تجارت سنبھالنے کے ساتھ یتیم اور بیوہ کی کفالت بھی میں کروں گا۔ کچھ وقت تو معاملہ ٹھیک چلتا رہا۔ بعد میں اس کی نیت میں فتور آگیا۔ اس نے چپکے سے ساری جائیداد اپنے نام کرائی اور راتوں رات سب کچھ فروخت کرکے امریکا بھاگ گیا۔ پیچھے یتیم اور اس کی ماں سڑک پہ آگئے۔
اس بدبخت نے امریکا جا کر گاڑیوں کا کاروبار سیٹ کردیا اور ایک گوری لڑکی سے شادی بھی کرلی۔ اس کا بزنس چمک اٹھا اور یہ ارب پتی بن گیا۔ 15 برس بعد اسے خیال آیا کہ اب وطن واپس جانا چاہئے۔ یہ سوچ کر وہ اردن آگیا اور پھر یہیں بزنس کرنے کا ارادہ بنا۔ اس نے “ام اذینة” کے علاقے میں ایک بڑی جگہ خریدی اور اس پہ شاندار بلڈنگ بھی تعمیر کردی۔ پھر یہاں بھی گاڑیوں کا بزنس شروع کردیا اور کچھ عرصے میں ہی اردن بھر میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔
ادھر انس اور اس کی ماں انتہائی کسمپرسی سے رات دن گزارتے رہے۔ ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے انس نے تعلیم حاصل کی اور اب وہ شادی کرکے نوکری بھی کرنے لگ چکا تھا۔ غربت کے باوجود وہ اپنی ماں کا بہت خیال رکھتا۔ مگر بدبخت چچا کو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ لیکن انس اور اس کی ماں کو سب معلوم تھا کہ وہ حرام خور واپس آچکا ہے۔
ایک دن ماں نے بیٹے سے کہا کہ ہمت کرو، جاؤ اپنے چچا کے پاس اور اس سے اپنے باپ کے مال کا کچھ حصہ مانگو۔ ماں کے کہنے پہ انس چچا کے شو روم میں پہنچ گیا۔ مگر چچا نے کھٹور دلی کا مظاہرہ کرکے اسے بھگا دیا اور کہا کہ آئندہ ادھر کا رخ بھی کیا تو گرفتار کرادوں گا۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ ماں کے واپس آیا اور ماجرا سارا سنایا۔ بیوہ سوائے بددعا کے کیا کرسکتی تھی۔
اس حرام خور بزنس مین نے اب اردن میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک جنت نما محل تعمیر کر چکا تھا اور اب اس نے بیوی بچوں کو اپنے پاس اردن بلالیا۔ ادھر وہ لوگ امریکا سے روانہ ہوئے اور ادھر یہ بدبخت انہیں لینے کیلئے اپنی نئی ماڈل کی پرتعیش گاڑی لے کر ایئرپورٹ روانہ ہوا۔ جب وہ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو یہ سب اس نئی گاڑی میں سوار ہوکر اپنے محل کی طرف چل پڑے۔
یہ سارا منظر دیکھ کر فرشتہ اجل ہنس رہا تھا۔ جیسے ہی ان کی گاڑی مین سڑک پہ پہنچی تو ایک تیز رفتار ٹرالر نے اسے روند ڈالا اور انس کا حرام خور چچا اپنی امریکن بیوی اور دونوں بچوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
پیچھے اس کا سوائے انس کے کوئی نہیں تھا۔ یہی اکلوتا وارث۔ اب اس کا محل، شو روم اور بزنس بیٹھے بٹھائے انس کی جھولی میں گر گیا۔
کیسا عجیب معاملہ ہے رب کریم کا۔ اس نے یتیم کے مال کو کئی گنا بڑھا کر اسے لوٹا دیا۔ وہ مظلوم کی دعا ضرور سنتا ہے اگرچہ اس کے ظاہر ہونے میں 15 برس بھی لگ جائیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ظالم کو ڈھیل ضرور دیتا ہے۔ لیکن جب پکڑتا ہے تو سامان عبرت بنا کر چھوڑتا ہے۔ تیسرا یہ کہ حرام کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال حرام سے پلنے والے جسم کا زیادہ حقدار دوزخ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو حرام سے بچائے اور حلال ہی پہ اکتفا کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(عربی سے ترجمہ: ضیاء چترالی)

]]>
https://urducover.com/a-true-story-%d8%b9%d8%a8%d8%b1%d8%aa/feed/ 0
معجزاتی سبز پتہ https://urducover.com/kids-story-%d9%85%d8%b9%d8%ac%d8%b2%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d8%b3%d8%a8%d8%b2-%d9%be%d8%aa%db%81/ https://urducover.com/kids-story-%d9%85%d8%b9%d8%ac%d8%b2%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d8%b3%d8%a8%d8%b2-%d9%be%d8%aa%db%81/#respond Sun, 04 Aug 2024 15:50:42 +0000 https://urducover.com/?p=5334 معجزاتی سبز پتہ

شاندار کہانیوں میں سے ایک  

 

کہا جاتا ہے کہ ایک لڑکی اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور شدید بیماری میں مبتلا تھی۔

اس نے اپنی بڑی بہن سے، جو کھڑکی کے پاس موجود درخت کو دیکھ رہی تھی، پوچھا: “درخت پر کتنے پتے باقی ہیں؟”
بڑی بہن نے آنکھوں میں آنسو لیے جواب دیا: “کیوں پوچھ رہی ہو، میری جان؟”

بیمار بچی نے جواب دیا: “کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے دن آخری پتے کے گرنے کے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔”
بڑی بہن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: “تو جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہم اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں گے اور

خوبصورت دن گزاریں گے۔”
دن گزرتے گئے اور پتے گرتے گئے، اور آخر میں ایک پتہ رہ گیا۔
بیمار بچی اس پتے کو دیکھتی رہی، یہ سمجھتے ہوئے کہ جس دن یہ پتہ گرے گا، بیماری اس کی زندگی ختم کر دے گی۔

Kids Story معجزاتی سبز پتہ

خزاں ختم ہو گئی، اس کے بعد سردی آئی اور سال گزر گیا لیکن وہ پتہ نہیں گرا۔

لڑکی اپنی بہن کے ساتھ خوش تھی اور آہستہ آہستہ صحت یاب ہو رہی تھی یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک ہو گئی۔

سب سے پہلا کام جو اس نے کیا،

وہ یہ تھا کہ اس معجزاتی پتے کو دیکھنے گئی جو نہیں گرا تھا۔
تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلاسٹک کا پتہ تھا
جسے اس کی بہن نے درخت پر باندھ دیا تھا۔

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼 

 ➖♻➖  ➖♻➖  ➖♻➖  ➖♻➖ ➖♻➖  ➖♻➖  ➖♻➖
www.urducover.com

 

]]>
https://urducover.com/kids-story-%d9%85%d8%b9%d8%ac%d8%b2%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d8%b3%d8%a8%d8%b2-%d9%be%d8%aa%db%81/feed/ 0
جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/ https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/#respond Thu, 11 Jul 2024 16:11:52 +0000 https://urducover.com/?p=2862  

جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا انجام
=====================

حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا حضور! مجھے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے مجھے اس بات کا بڑا شوق ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا یہ شوق اچھا نہیں ، تم اس بات کو رہنے دو۔ اس نے کہا حضور آپ کا اس بات میں کیا نقصان ہے۔ میرا ایک شوق ہے اسے پورا کر ہی دیجئے۔حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اللہ سے عرض کی کہ مولا یہ بندہ مجھ سے اس بات کا اصرار کر رہا ہے میں کیا کروں؟ حکم الٰہی ہوا کہ جب یہ شخص باز نہیں آتا تو اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیں۔ اس شخص نے ایک مرغ اور ایک کتا پال رکھا تھا۔

ایک دن کھانا کھانے کے بعد اسکی خادمہ نے جب دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ایک ٹکڑا گرا تو کتا اور مرغ دونوں اس کی طرف لپکے اور وہ روٹی کا ٹکڑا اس مرغ نے اٹھا لیا۔ کتے نے اس مرغ سے کہا۔ ارے ظالم میں بھوکا تھا یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے، تیری خوراک تو دانہ دنکا ہے مگر تم نے یہ ٹکڑا بھی نہ چھوڑا۔ مرغ بولا گھبراؤ نہیں، کل ہمارے مالک کا یہ بیل مر جائے گا تم کل جتنا چاہو گے اس کا گوشت کھا لینا۔ اس شخص نے ان کی یہ گفتگو سن لی تو بیل کو فورن بیچ ڈالا۔ وہ بیل دوسرے دن اس آدمی کے پاس جا کر مر گیا۔ کتے نے مرغ سے کہا۔ بڑے جھوٹے ہو تم، خواہ مخواہ مجھے آج کی امید میں رکھا، بتاؤ کہاں ہے وہ بیل؟ جس کا گوشت میں کھا سکوں۔ مرغ نے کہا میں جھوٹا نہیں ہوں۔ ہمارے مالک نے نقصان سے بچنے کے لئے بیل بیچ ڈالا ہے اور اپنی بلا دوسرے کے سر ڈال دی ہے، مگر لو سنو! کل ہمارے مالک کا گھوڑا مرے گا۔ کل گھوڑے کا گوشت جی بھر کے کھانا۔

اس شخص نے یہ بات سنی تو گھوڑا بھی بیچ ڈالا۔ دوسرے دن کتے نے شکائیت کی تو مرغ بولا۔ بھئی کیا بتاؤں ہمارا مالک بڑا بے وقوف ہے جو اپنی آئی غیروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے گھوڑا بھی بیچ ڈالا ہے اور گھوڑا خریدار کے گھر جا کر مر گیا، اسی گھر میں مرتے تو ہمارے مالک کی جان کا فدیہ بن جاتے۔ مگر اس نے ان کو بیچ کر اپنی جان پر آفت مول لی ہے۔ لو سنو اور یقین کرو۔ کل ہمارا مالک خود ہی مر جائے گا اور اسکے مرنے پر جو کھانے دانے پکیں گے، اس میں سے بہت کچھ تمھہیں بھی ملے گا۔

اس شخص نے جب یہ بات سنی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو دوڑتا ہوا حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس آیا اور بولا حضور! میرے غلطی معاف فرمائیے اور موت سے مجھے بچا لیجئے۔ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے فرمایا۔ نادان! اب یہ بات مشکل ہے۔ آئی قضا ٹل نہ سکے گی۔ تمہیں اب جو بات سامنے نظر آئی ہے مجھے اسی دن نظر آ رہی تھی جب تم جانوروں کی بولیاں سیکھنے کی ضد کر رہے تھے اب مرنے کے لیے تیار رہو۔ چنانچہ دوسرے دن وہ شخص مر گیا۔

سبق: مال و دولت پہ اگر کسی قسم کی آفت آ جائے تو انسان کو صبر کرنا چاہئے، اور غم اور شکوہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اپنی جان کا فدیہ سمجھ کر اللہ کا شکر ہی ادا کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ جو ہوا بہتر ہوا۔ اگر مال پر یہ آفت نازل نہ ہوتی تو ممکن ہے جان ہلاکت میں پڑ جاتی۔

]]>
https://urducover.com/islamic-stories-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d9%88%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b3%db%8c%da%a9%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%ac%d8%a7%d9%85/feed/ 0
Faqeer aur Badshah فقیر اور بادشاہ  https://urducover.com/faqeer-aur-badshah-urdu-story/ https://urducover.com/faqeer-aur-badshah-urdu-story/#respond Sun, 07 Jul 2024 16:33:35 +0000 https://urducover.com/?p=2697 Faqeer aur Badshah-A Moral Urdu Story

فقیر اور بادشاہ 

تین باتیں سن لو اور ہر بات کی قیمت سو روپے دے دو

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک فقیر جہاں  کہیں بھی جاتا بس یہی صدا لگاتا۔”تین باتیں سن لو اور ہر بات کی قیمت سو روپے دے دو“لیکن کوئی بھی اُس کی  صدا پر کان نہ دھرتا تھا۔تنگ آکر فقیر دریا کی طرف نکل گیا۔وہ کنارے کنارے چلتا جاتا اور بڑبڑاتے ہوئے لوگوں کو کوسناتاجاتا تھا۔اتفاق سے وقت کا بادشاہ بھی سیر کیلئے وہاں آیا ہوا تھا۔

اُس نے فقیر کو کوستے ہوئے سنا تو اُسے بلا کر وجہ پوچھی۔

faqeer aur badshah

 فقیر نے  کہا! ”میں تھکا ہارا (چندرا) بدنصیب ہوں۔“ جس نے قیمتی سودا سستے داموں فروخت کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے بھی میری نہ سنی۔بادشاہ بولا! ”فقیر!اب اپنی بات کہو  میں تمہاری شرط منظور کرتا ہوں۔“ فقیر خوشی خوشی تیار ہو گیا۔

اس کے بعد فقیر نے تین باتیں بتائیں۔

1

 رات دا جگن بھلا“(یعنی رات کو جاگنا مفید ہے)پہلی بات بتا کر فقیر نے بادشاہ سے اُس کا معاوضہ سو روپے    حاصل کر لیا۔

2

 آون آلے دا آدھر بھلا“(یعنی آنے والے کی تکریم کرنے میں بھلائی ہے)دوسری بات سنا کر فقیر نے بادشاہ سے مزید سو روپے بٹور لئے۔

3

  ضدل بلا دے سر اچ سو کھلا۔“(یعنی ضدی کے سر میں جب تک سو جوتے نہ لگیں اُس کی اصلاح نہیں ہوتی)۔

یوں فقیر نے اپنی تیسری اور آخری بات کے بدلے میں بھی سو روپے  لے لئے اور چلتا بنا۔وزیر نے عرض کیا!بادشاہ سلامت یہ تو عام سی باتیں تھیں آپ نے خواہ مخواہ فقیر کو اتنی اہمیت دی۔بادشاہ نے کہا!بات کو نہیں دیکھتے۔ بات کے انجام کو دیکھتے ہیں۔اب تینوں باتوں کا سچ جاننے کیلئے بادشاہ بھیس بدل کر رات کو محل سے نکل پڑا۔اُسے دو عورتوں کی آواز سنائی دی۔

ایک ہنس رہی تھی اور ایک رو رہی تھی۔بادشاہ نے باہر سے آواز دی۔وہ بولیں کون؟۔
بادشاہ نے کہا!پہرے دار۔وہ کہنے لگیں!جا چلا جا۔میں ہنس رہی ہوں میرا نام تدبیر ہے اور جو رو رہی ہے اُس کا نام تقدیر ہے۔بادشاہ نے اندر جھانک کر دیکھا تودو خوبصورت عورتوں کے چہرے دکھائی دئیے۔دونوں نے کہا اس ملک کے بادشاہ کو شاہی باغ کے پیپل کا سانپ ڈس لے گا جس کے باعث بادشاہ کی موت ہو جائے گی۔

بادشاہ وہاں سے نکل کر سیدھا اپنے محل میں گیا۔اب وہ اس بات کی صداقت کو پرکھنا چاہتا تھا۔اُس نے شاہی خزانے  کا منہ  کھول دیا  اور  صدقات و خیرات کی تقسیم شروع کر دی۔بادشاہ  سانپ کے متعلق سوچ رہا تھا۔اُس نے پیپل سے لے کرمحل تک راستہ بنایا اور اُس پر کپاس بچھا دی۔اُس راستے کے دونوں طرف پھولدار پودے لگوائے اور سانپ کا انتظار کرنے لگا۔ایک خاص وقت پر سانپ پیپل کی شاخوں کے درمیان سے نکلا اور اُس نے زمین پر چھلانگ لگا دی۔

محل تک کا راستہ سانپ نے انتہائی آرام سے طے کیا۔سانپ اس بندوبست سے بہت خوش تھا۔محل میں پہنچا تو بادشاہ نفل پڑھ رہا تھا۔سانپ نے پھنکارتے ہوئے اپنی آمد کا یوں اعلان کیا۔ ”اے زمین کے ٹکڑے کے بادشاہ میں آگیا ہوں۔“ بادشاہ نے سکون سے نوافل کی ادائیگی جاری رکھی۔جب نوافل ختم ہو گئے تو آخری نفل کا سلام پھیر کر سر جھکا لیا اور بولا۔ ”لو رب کا حکم پورا کرو“ فرشتے کے دل میں رحم پیدا ہوا۔

فرشتے کی فریاد پر رب نے اجازت دے دی۔غیب سے آواز آئی۔ آدھی زندگی اس کو اور آدھی تجھ کو بخشی۔سانپ حملہ کرنے کی بجائے واپس جانے لگا۔بادشاہ نے سانپ سے کہا!میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ۔سانپ نے جواب دیا:”خدمت تو  وہ ہے جو غرض پوری ہونے سے پہلے کی جائے۔“ بادشاہ کو رات کو جاگنے اور آنے والے کی قدر کرنے کا صلہ مل گیا۔اب فقیر کی تیسری بات آزمانے کا وقت آن پہنچا۔

دوپہر کے وقت بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ   ساتویں منزل پر بیٹھا تھا ۔نیچے شہر دکھائی دے رہا تھا۔۔۔یہ وہ زمانہ تھا جب جانور بھی انسانوں کی طرح بولتے تھے۔ایک روٹھی ہوئی بھیڑ نے ”چھترے“ سے کہا۔اگر تم اس وقت گھاس لے آؤ تو میں مان جاؤں گی۔چھترے نے کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔بھیڑ گھاس کے تقاضے پر مسلسل اڑی رہی۔
چھترے نے پہلے تو بہت منتیں کیں کہ گھاس کو بھول جاؤ۔جسے میں باوجود کوشش کے   حاصل نہیں کر پا رہا  ہوں۔

تنگ آکر چھترے نے اپنی جلد کو جھاڑا (چھنڈ کیا) اور پھر بھیڑ کو ایک زور دار ٹکر دے ماری۔بس ٹکر کا لگنا تھا کہ بھیڑ نے درد سے نڈھال ہو کر سر جھکا لیا اوراپنی ضدکو  چھوڑ دیا۔بادشاہ یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑا۔ملکہ نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔بادشاہ نے صرف اتنا  جواب دیا۔”انسان بہتر کوٹھی“ ۔۔۔ ”دل بہتر کوٹھی“ بادشاہ نے کہا کوئی بات نہیں جانے دو۔

ملکہ نے جھنجھلا کر تاش کے پتے پھینک دئیے اور کہا ”اگر کوئی بات نہیں تو جاؤ پھر۔نہیں کھیلتی میں تاش۔“ ملکہ کی ہٹ دھرمی کو دیکھ کر بادشاہ کو غصہ آگیا،اُس نے غصے کی حالت میں سو مرتبہ جوتی ملکہ کے سر میں دے ماری۔ملکہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ اس واقعہ کے بعد ملکہ کسی سے اُس کا حال نہ پوچھے گی (مراد یہ ہے کہ کبھی ادھوری باتوں کا مطلب نہ پوچھے گی)۔

اس طرح فقیر کی تیسری بات کی سچائی بھی بادشاہ کو معلوم ہو گئی۔

]]>
https://urducover.com/faqeer-aur-badshah-urdu-story/feed/ 0